شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95388 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اس سلسلے میں امام صادق ـفرماتے ہیں :

وکل حدیث لایوافق کتاب اللّه فهو زخرف .( ۱ )

ہر وہ کلام جو کتاب خدا سے مطابقت نہ رکھتا ہو وہ باطل ہے.

اسی طرح امام صادق ـنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں نقل کیا ہے:

أیّها الناس ماجائکم عن یوافق کتاب اللّه فأنا قلته وماجاء کم یخالف کتاب اللّه فلم أقله ( ۲ )

اے لوگو! ہر وہ کلام جو میری طرف سے تم تک پہنچے اگر وہ کتاب خدا کے مطابق ہو تو وہ میرا قول ہے لیکن اگر تم تک پہنچنے والا کلام کتاب خدا کا مخالف ہو تو وہ میرا قول نہیں ہے.

ان دو حدیثوں سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ شیعوں کے ائمہ ٪ کی نگاہ میں احکام شرعی کو حاصل کرنے کے لئے کتاب خدا محکم ترین ماخذ شمار ہوتی ہے.

____________________

(۱)اصول کافی، جلد۱ ، کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب ، حدیث ۳.

(۲) گذشتہ حوالہ حدیث ۵.

۲۰۱

سنت

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے میں

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تائید کو سنت کہتے ہیں اسے شیعوں کی فقہ کا دوسرا ماخذ شمار کیا جاتا ہے سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نقل کرنے والے ائمہ معصومین٪ ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم کے خزینہ دار ہیں

البتہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند دوسرے طریقوں سے نقل ہونے والے ارشادات کو بھی شیعہ قبول کرتے ہیں .یہاں پرضروری ہے کہ ہم دو چیزوں کے متعلق بحث کریں :

سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کی دلیلیں: شیعوں کے ائمہ ٪ نے اپنی پیروی کرنے والوں کوجس طرح قرآن مجید پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح انہوں نے سنت نبوی کی پیروی کرنے کی بھی تاکید کی ہے اور ہمیشہ اپنے ارشادات میں ان دونوں سے تمسک اختیار کرنے کا حکم دیا ہے امام صادق ـ فرماتے ہیں :

اِذا ورد علیکم حدیث فوجدتم له شاهدًا من کتاب اللّه أو من قول رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واِلا فالذى جائکم به أولیٰ به .( ۱ )

جب کوئی کلام تم تک پہنچے تو اگر تمہیں کتاب خدا یا سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کی تائید حاصل ہوجائے تو اسے قبول کرلینا ور نہ وہ کلام

بیان کرنے والے ہی کو مبارک ہو

____________________

(۱)اصول کافی جلد۱ کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنہ و شواھد الکتاب حدیث ۲.

۲۰۲

اسی طرح امام محمدباقر ـ نے ایک جامع الشرائط فقیہ کے لئے سنت نبی اکرم سے تمسک کو اہم ترین شرط قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا ہے:

اِنّ الفقیه حق الفقیه الزاهد ف الدنیا والراغب فى الآخرة المتمسک بسنّة النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۱ )

بے شک حقیقی فقیہ وہ ہے جو دنیا سے رغبت نہ رکھتا ہو اور آخرت کا اشتیاق رکھتا ہو ، نیز سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک رکھنے والا ہو.

ائمہ معصومین ٪ نے اس حد تک سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ کتاب خدا اور سنت نبوی کی مخالفت کو کفر کی اساس قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں امام صادق ـ یوں فرماتے ہیں :

مَن خالف کتاب اللّه وسنّة محمّد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقد کفر .( ۲ )

جس شخص نے کتاب خدا اور سنت محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کی وہ کافر ہوگیا

اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے بقیہ فرقوں کی بہ نسبت نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسی طرح بعض لوگوں کایہ نظریہ بھی باطل ہوجاتا ہے کہ شیعہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت سے بیگانہ اور دور ہیں

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ حدیث ۸

(۲) گذشتہ حوالہ حدیث ۶

۲۰۳

احادیث اہل بیت سے تمسک کے دلائل

عترت پیغمبرکی احادیث کے سلسلے میں شیعوں کے نظریہ کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذیل کے دو موضوعات پر گفتگو کریں :

الف: ائمہ معصومین کی احادیث کی حقیقت.

ب:اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل اب ہم یہاں ان دو موضوعات کے سلسلے میں مختصر طور پر تحقیقی گفتگو کریں گے :

عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی حقیقت

شیعوںکے نکتہ نظر سے فقط خداوندحکیم ہی انسانوں کے لئے شریعت قرار دینے اور قانون وضع کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس کی طرف سے یہ شریعت اور قوانین پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ لوگوں تک پہنچتے ہیں واضح ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور انسانوں کے درمیان وحی کے ذریعہ حاصل ہونے والی شریعت کے پہنچانے کے لئے واسطے کی ذمہ داری کو نبھاتے ہیں اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے اگر شیعہ اہل بیت ٪ کی احادیث کو اپنی فقہ کے ماخذ میں شمار کرتے ہیں تو ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل بیت ٪ کی احادیث سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابلے میں کوئی مستقل حیثیت رکھتی ہیں بلکہ احادیث اہل بیت ٪ اس وجہ سے معتبر ہیں کہ وہ سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بیان کرتی ہیں

۲۰۴

اس اعتبارسے ائمہ معصومین ٪ کبھی بھی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں فرماتے بلکہ جو کچھ وہ فرماتے ہیں وہ در حقیقت سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کی وضاحت ہوتی ہے یہاں پر ہم اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ائمہ معصومین ٪ کی چند روایات پیش کریں گے :

۱۔امام صادق ـ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں یوں فرمایاہے:

مهما أجبتک فیه بشء فهو عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لسنا نقول برأینا من شئ .( ۱ )

اس سلسلے میں جو جواب میں نے تمہیں دیا ہے وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ہے ہم کبھی بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے :اور ایک مقام پر یوں فرماتے ہیں :

حدیث حدیث أب ، و حدیث أب حدیث جد و حدیث جد حدیث الحسین وحدیث الحسین حدیث الحسن و حدیث الحسن حدیث أمیرالمؤمنین ، و حدیث أمیر المؤمنین حدیث رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حدیث رسول اللّه قول اللّه عزّ وجلّ .( ۲ )

میری حدیث میرے والد (امام باقر ـ)کی حدیث ہے ،

____________________

(۱)جامع الاحادیث الشیعہ جلد۱ ص ۱۲۹

(۲) گذشتہ حوالہ ص ۱۲۷

۲۰۵

اور میرے والد کی حدیث میرے دادا (امام زین العابدین ـ) کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین ـ کی حدیث ہے اور امام حسین ـ کی حدیث امام حسن ـ کی حدیث ہے اور امام حسن ـ کی حدیث امیر المومنین ـ کی حدیث ہے اور امیر المومنین ـکی حدیث رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث خداوندمتعال کا قول ہے

۲۔امام محمد باقر ـنے جابر سے یوں فرمایا تھا :

حدثنى أبى عن جد رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عن جبرائیل ـ عن اللّه عزّوجلّ و کلما أحدّثک بهذا الأسناد .( ۱ )

میرے پدربزرگوار نے میرے دادا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اور انہوں نے جبرئیل سے اور انہوں نے خداوندعالم سے روایت کی ہے اور جو کچھ میں تمہارے لئے بیان کرتا ہوں ان سب کا سلسلہ سند یہی ہوتا ہے.

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص۱۲۸

۲۰۶

اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل

شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے محدثین اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

نے بھی میراث کے طور پر اپنی امت کے لئے دو قیمتی چیزیں چھوڑی ہیں اور تمام مسلمانوں کو ان کی پیروی کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہیں یہاں ہم نمونے کے طور پر ان روایات میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔ ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے اور انہوں نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے :

یاأیّها النّاس اِنّ قد ترکت فیکم ما اِن أخذتم به لن تضلّوا : کتاب اللّه و عترتى أهل بیتى .( ۱ )

اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان سے متمسک رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہیں

۲۔اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں یہ حدیث نقل کی ہے :

قال رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِنىّ تارک فیکم ما اِن تمسکتم به لن تضلّوا بعد أحدهما أعظم من الآخر : کتاب اللّه حبل ممدود من السماء اِلیٰ الأرض و عترتى أهل بیتى ولن یفترقا حتیٰ یردا

____________________

(۱)صحیح ترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب اہل بیت النبی جلد۵ ص ۶۶۲ حدیث ۳۷۸۶ طبع بیروت.

۲۰۷

علّى الحوض فانظروا کیف تخلفون فیهما .( ۱ )

میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان دو چیزوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ، کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آویزاں ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں لہذا یہ دیکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو.

۳۔مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے:

ألا أیّها النّاس فاِنّما أنا بشر یوشک أن یأت رسول ربّ فأجیب و أنا تارک فیکم ثقلین أولهما کتاب اللّه فیه الهدیٰ والنور فخدوا بکتاب اللّه واستمسکوا به فحثّ علیٰ کتاب اللّه و رغّب فیه ثم قال : أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت. ( ۲ )

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص ۶۶۳ حدیث ۳۷۸۸.

(۲)صحیح مسلم جز ۷ فضائل علی ابن ابی طالب ص ۱۲۲ اور ۱۲۳.

۲۰۸

اے لوگو!بے شک میں ایک بشر ہوںاور قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا نمائندہ آئے اور میں اسکی دعوت قبول کروں اور میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے کتاب خدا کو لے لو اور اسے تھامے رکھو اور پھر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس کی جانب رغبت دلائی اور اس کے بعد یوں فرمایا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور میں تمہیں اپنے اہل بیت کے سلسلے میں وصیت و تاکید کرتا ہوں اور اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا

۴۔بعض محدثین نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے:

اِنّى تارک فیکم الثقلین کتاب اللّه و أهل بیتى و اِنّهما لن یفترقا حتیٰ یردا علىّ الحوض ( ۱ )

بے شک! میں تمہارے درمیان دووزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں

____________________

(۱)مستدرک حاکم جز ۳ ص ۱۴۸ ، الصواعق المحرقہ باب ۱۱ فصل اول ص ۱۴۹ اس مضمون کے قریب بعض

درج ذیل کتابوں میں بھی روایات موجود ہیں .مسنداحمد جز ۵ ص۱۸۲اور ۱۸۳۔کنز العمال ،جز اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ۴۴.

۲۰۹

یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس سلسلے میں اتنی زیادہ حدیثیں موجود ہیں کہ ان سب کا اس مختصر کتاب میں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے.علامہ میرحامد حسین نے اس روایت کے سلسلۂ سند کو اپنی چھ جلدوں والی کتاب (عبقات الانوار) میں جمع کر کے پیش کیا ہے.

گذشتہ احادیث کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کتاب خدا اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک اور ان کی پیروی بھی اسلام کے ضروریات میں سے ہے.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد کون افراد ہیں کہ جن کی پیروی کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے ؟

اس مسئلے کی وضاحت کے لئے ہم احادیث کی روشنی میں عترت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں تحقیق پیش کرنا چاہیں گے:

اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟

گذشتہ روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب مسلمانوں کو اپنی عترت کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور کتاب خدا کی طرح انہیں بھی لوگوں کا مرجع قرار دیا ہے اور صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ ''قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے'' اس بنیاد پر اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ ہیں کہ جنہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور جو معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ معارف اسلامی سے مکمل طور پر آگاہی رکھتے ہیں .کیونکہ اگر وہ ان صفات کے مالک نہ ہوں تو قرآن مجید سے جدا ہو جائیں گے جبکہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ : قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اہل بیت ٪ اور ان کی اعلی صفات کی صحیح طور پر شناخت ایک ضروری امر ہے اب ہم اس سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان بزرگ سمجھنے جانے والے محدثین سے منقول روایات کی روشنی میں چند واضح دلیلیں پیش کریں گے :

۲۱۰

۱۔ مسلم بن حجاج نے حدیث ثقلین کا ذکر کرنے کے بعد یوں کہا ہے کہ:

''یزید بن حیان نے زید بن ارقم سے پوچھا اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟ کیا وہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں ہیں ؟'' زید بن ارقم نے جواب دیا :

لا و أیم اللّه اِنّ المرأه تکون مع الرجل العصر من الدهر ثم یطلّقها فترجع اِلیٰ أبیها و قومها أهل بیته أصله و عصبته الذین حرموا الصدقة بعده. ( ۱ )

نہیں خدا کی قسم عورت جب ایک مدت تک کسی مرد کے ساتھ رہتی ہے اور پھر وہ مرد اسے طلاق دے دیتاہے تو وہ عورت اپنے باپ اور رشتے داروں کے پاس واپس چلی جاتی ہے اہل بیت

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۷ باب فضائل علی بن ابی طالب ـ ،ص ۱۳۲طبع مصر.

۲۱۱

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد وہ افراد ہیں جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصلی اور قریبی رشتہ دار ہیں کہ جن پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے.

یہ قول بخوبی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جن سے تمسک قرآن کی پیروی کی طرح واجب ہے ان سے ہرگز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں مراد نہیں ہیں بلکہ اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہ افراد مراد ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جسمانی اور معنوی رشتہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر چندخاص صلاحتیں بھی پائی جاتی ہوں.تبھی تو وہ قرآن مجید کی طرح مسلمانوں کا مرجع قرار پاسکتے ہیں

۲۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف اہل بیت ٪ کے اوصاف بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کی تھی بلکہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی تعداد (جو کہ بارہ ہے)کو بھی صاف لفظوں میں بیان کردیا تھا :

مسلم نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے:

سمعت رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول: لایزال الاِسلام عزیزًا اِلیٰ اثن عشر خلیفة ثم قال کلمة لم أفهمها فقلت لأب ماقال ؟ فقال: کلهم من قریش .( ۱ )

میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو بارہ خلفاء کے ذریعہ عزت حاصل ہوگی اور پھر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی لفظ

____________________

(۱)صحیح مسلم جلد ۶ ص۳ طبع مصر.

۲۱۲

کہا جسے میں نہیں سمجھ سکا لہذا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا فرمایا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے

مسلم بن حجاج نے اسی طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت بھی نقل کی ہے :

لایزال أمر الناس ماضیًا ماولیهم اثنا عشر رجلاً .( ۱ )

لوگوں کے امور اس وقت تک بہترین انداز میں گزریں گے جب تک ان کے بارہ والی رہیں گے.

یہ دو روایتیں شیعوں کے اس عقیدے کی واضح گواہ ہیں '' کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد عالم اسلام کے بارہ امام ہی لوگوں کے حقیقی پیشوا ہیں '' کیونکہ اسلام میں ایسے بارہ خلفاء جو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بلافاصلہ مسلمانوں کے مرجع اور عزت اسلام کا سبب بنے ہوں ، اہل بیت کے بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے کیونکہ اگر اہل سنت کے درمیان خلفاء راشدین کہے جانے والے چار خلفاء سے صرف نظر کرلیا جائے پھر بھی بنی امیہ اور بنی عباس کے حکمرانوں کی تاریخ اس بات کی بخوبی گواہی دیتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے برے کردار کی وجہ سے اسلام اور مسلمین کی رسوائی کا سبب بنتے رہے ہیں اس اعتبار سے وہ (اہل بیت)کہ جنہیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن مجید کا ہم پلہ اور مسلمانوں کا مرجع

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ.

۲۱۳

قرار دیا ہے وہ عترت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وہی بارہ امام ہیں جو سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محافظ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم کے خزینہ داررہے ہیں

۳۔حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالبـ کی نگاہ میں بھی مسلمانوں کے ائمہ کو بنی ہاشم سے ہونا چاہیے یہ بات شیعوں کے اس نظرئیے (کہ اہل بیت کی شناخت حاصل کرنا ضروری ہے) پر ایک اور واضح دلیل ہے حضرت امام علی ـ فرماتے ہیں :

اِنّ الأئمة من قریش غرسوا ف ھذا البطن من بن ہاشم لاتصلح علیٰ مَن سواھم ولا تصلح الولاة من غیرھم۔( ۱ )

یاد رکھو قریش کے سارے امام جناب ہاشم کی اسی کشت زار میں قرار دئیے گئے ہیں اور یہ امامت نہ ان کے علاوہ کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ان سے باہر کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے.

نتیجہ:

گزشتہ روایات کی روشنی میں دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

۱۔قرآن مجید کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اہل بیت ٪ سے تمسک اور ان کی پیروی بھی واجب ہے

۲۔پیغمبر اسلام کے اہل بیت جو قرآن مجید کے ہم پلہ اور مسلمانوں کے مرجع ہیں مندرجہ ذیل خصوصیات کے مالک ہیں :

____________________

(۱)نہج البلاغہ (صبحی صالح)خطبہ ۱۴۴.

۲۱۴

الف:وہ سب قبیلۂ قریش اور بنی ہاشم کے خاندان میں سے ہیں

ب:وہ سب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایسے رشتہ دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے

ج:وہ سب عصمت کے درجے پر فائز ہیں ورنہ وہ عملی طور پر کتاب خدا سے جدا ہوجائیں گے جبکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ دونوں(قرآن و عترت) ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں گے

د:ان کی تعداد بارہ ہے جو یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے امام ہوں گے.

ھ:پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہ بارہ خلفاء اسلام کی عزت و شوکت کا سبب بنیںگے.

گذشتہ روایات میں موجود اوصاف کو مدنظر رکھنے سے یہ بات آفتاب کی مانند روشن ہوجاتی ہے کہ وہ اہل بیت جن کی پیروی کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا ہے ان سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد وہی بارہ ائمہ٪ ہیں جن کی پیروی کرنے اور احکام فقہ میں ان سے تمسک اختیار کرنے کو شیعہ اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔

۲۱۵

انتیسواں سوال

کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟

جواب:حضرت علی ـ کے والد ماجد، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا جناب ابوطالب بن عبدالمطلب شیعوں کے عقیدے کے مطابق نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر مکمل ایمان رکھتے تھے اور وہ صدر اسلام کی تمام سختیوں اور مشکلات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے بڑے حامی و ناصر تھے.

خاندان جناب ابوطالب

جناب ابوطالب نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جس کی سرپرستی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جد امجد دین ابراہیمی کے پیرو جناب عبدالمطلب کے ہاتھوں میں تھی جزیرۂ عرب کی تاریخ میں معمولی غور و فکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جناب عبدالمطلب اپنی زندگی کے سخت ترین حالات اور پر خطر مراحل کے دوران بھی خدا پرستی اور آئین توحید کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے تھے.

جس وقت ابرہہ کا لشکر ہاتھیوں پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کو ویران کرنے کے قصد سے مکہ کی طرف آرہا تھا تو اس نے راستے میں جناب عبدالمطلب کے اونٹوں کو پکڑلیا

۲۱۶

تھا اور جس وقت جناب عبدالمطلب اپنے اونٹوں کے مطالبے کے لئے ابرھہ کے پاس پہنچے تو اس نے بڑے ہی تعجب کے ساتھ ان سے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا مطالبہ تو کیا لیکن مجھ سے یہاں سے واپس جانے اور خانہ کعبہ کو ویران نہ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ؟ اس وقت جناب عبدالمطلب نے اپنے ایمان و اعتقاد پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے یہ جواب دیا تھا :

أنا ربّ الاِبل وللبیت ربّ یمنعه (یحمیه) .( ۱ )

میں اونٹوں کا مالک ہوںاور اس گھر (خانہ کعبہ) کا بھی مالک موجود ہے جو خود اس کی حفاظت و حمایت کرے گا

اس کے بعدجناب عبدالمطلب مکہ کی طرف روانہ ہوگئے پھر مکہ میں خانہ کعبہ کے دروازے کی کنڈی پکڑ کر یوں کہا :

یا ربّ لاأرجو لهم سواکا

یاربّ فامنع منهم حماکا

اِن عدوالبیت مَن عاداکا

امنعهم أن یُخرّبوا فناکا( ۲ )

____________________

(۱)کامل ابن اثیر جلد ۱ ص ۲۶۱ طبع مصر ، ۱۳۴۸ھ.

(۲) گذشتہ حوالہ.

۲۱۷

اے پروردگارمیں تیرے سوا کسی سے امید نہیں رکھتا پروردگارا!تو خود ان دشمنوں کے مقابلے میں اپنے حرم کی حفاظت فرما.

اس گھرکے دشمن تجھ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں انہیں روک دے تاکہ تیرے گھر کو ویران نہ کرسکیں

اس قسم کے بلند پایہ اشعار جناب عبدالمطلب کے مومن اور خدا پرست ہونے کے واضح گواہ ہیں اسی وجہ سے یعقوبی نے اپنی تاریخ کی کتاب میں جناب عبدالمطلب کے متعلق یوں تحریر کیا ہے:

رفض عبادة الأصنام و وحّد اللّه عزّ وجلّ .( ۱ )

عبدالمطلب نے بتوں کی پوجا سے انکار کیا تھا اور آپ خدا کے موحد بندے تھے

آئیے اب یہ دیکھا جائے کہ اس مومن اور خدا پرست شخصیت کی نگاہ میں ان کے بیٹے ابوطالب کی کیا منزلت تھی؟

عبدالمطلب کی نگاہ میں ابوطالب

تاریخ شاہد ہے کہ بعض روشن ضمیر نجومیوں نے جناب عبدالمطلب کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روشن مستقبل اور ان کی نبوت سے باخبر کردیا تھا جس وقت ''سیف بن ذی یزان''

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی جلد۲ ص ۷ طبع مصر.

۲۱۸

نے حکومت حبشہ کی باگ ڈور سنبھالی تو جناب عبدالمطلب ایک وفد کے ہمراہ حبشہ تشریف لے گئے اس وقت ''سیف بن ذی یزان'' نے ایک اہم خطاب کے بعد جناب عبدالمطلب کو یہ خوشخبری دی ''آپ کے خاندان میں ایک عظیم القدر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لاچکے ہیں '' اس کے بعد اس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خصوصیات یوں بیان کئے:

اسمه محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یموت أبوه و أمه و یکفله جدّه و عمّه .( ۱ )

انکا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے انکے ماں باپ کا (جلد ہی) انتقال ہوجائے گااور ان کی سرپرستی ان کے دادا اور چچا کریں گے

اس وقت اس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صفات بیان کرتے ہوئے یہ جملے بھی کہے تھے :

یعبد الرّحمٰن و یدحض الشیطان و یخمدالنیران و یُکسّر الأوثان قوله فصل و حکمه عدل و یأمر بالمعروف و یفعله و ینهیٰ عن المنکر و یبطله .( ۲ )

وہ خدائے رحمن کی عبادت کریں گے، شیطان کے دام میں نہیں آئیں گے، جہنم کی آگ کو بجھائیں گے اور بتوں کو توڑیں

____________________

(۱)سیرہ حلبی جلد۱طبع مصر ص ۱۳۶، ۱۳۷ ،اور طبع بیروت ص ۱۱۴۔۱۱۵.

(۲) گذشتہ حوالہ.

۲۱۹

گے .ان کا قول حق و باطل میں جدائی کا میزان ہوگا وہ دوسروں کو نیکی کا حکم دیں گے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں گے وہ دوسروں کو برائی سے روکیں گے اور اسے باطل قرار دیں گے

اور پھر اس نے جناب عبدالمطلب سے کہا :

اِنک لجده یا عبدالمطلب غیر کذب ( ۱ )

اے عبدالمطلب اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ آپ ان کے دادا ہیں

جناب عبدالمطلب نے جب یہ خوشخبری سنی تو سجدہ شکر بجالائے اور پھر اس بابرکت مولود کے احوال کو یوں بیان کیا:

اِنّه کان لى ابن و کنت به معجبًا وعلیه رقیقاً وا ِنّ زوجته کریمة من کرائم قوم آمنة بنت وهب بن عبدمناف ابن زهره فجاء ت بغلام فسمّیته محمدًا مات أبوه و أمه و کفلته أنا و عمّه (یعنی أباطالب) .( ۲ )

میرا ایک بیٹا تھا جس سے مجھے بہت زیادہ محبت تھی میں نے اس کی شادی اپنے شرافتمند رشتہ داروں میں سے ایک نیک سیرت خاتون ''آمنہ'' بنت وہب بن عبدمناف سے کی تھی اس

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ.

(۲)سیرہ حلبی جلد۱ ص ۱۳۷ طبع مصر.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296