شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95393 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

معاہدہ کی پابندی کا دوسرا نمونہ '' حلف الفضول'' کا معاہدہ ہے ، یہ وہ معاہدہ ہے جو جاہلیت کے زمانے میں قریش کے کچھ جوانوں نے مظلومین کے حقوق سے دفاع کے لئے کیا تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس میں شامل تھے آپ نے صرف بعثت سے پہلے اس معاہدہ پر قاءم رہے بلکہ بعثت کے بعد بھی جب کبھی اسکو یاد کرلیتے تو فرماتے کہ میں اس عہد کو توڑنے پر تیار نہیں ہوں چاہے اس کے بدلے میرے سامنے بہت قیمتی چیز ہی کیوں نہ پیش کی جائے_(۱)

عمار یاسر فرماتے ہیں کہ میں اپنے گوسفند چرا رہا تھا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گوسفند چرا رہے تھے ایک دن میں نے آپ سے کہا کہ میں نے مقام ''فج'' میں ایک عمدہ چراگاہ دیکھی ہے کیا آپ کل وہاں چلیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، جب میں صبح وہاں پہنچا تو دیکھا کہ آپ پہلے سے موجود ہیں لیکن گوسفند کو چرنے کے لئے چراگاہ میں داخل نہیں ہونے دیا ہے میں نے پوچھا آپ ایسے ہی کیوں کھڑے ہیں ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں نے تم سے عہد کیا تھا کہ ہم دونوں ملکر گوسفند چرائیں گے _ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ خلاف وعدہ عمل کروں اور اپنے گوسفند کو تم سے پہلے ہی چرالوں _(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص سے وعدہ کیا کہ جب تک تم آؤگے اسی پتھر کے کنارے تمہارا منتظر رہوں گا_ گرمی بہت زیادہ تھی اصحاب نے

___________________

۱) (سیرہ حلبی ج۲ص ۱۳۱)_

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۲۴)_

۸۱

فرمایا: اے اللہ کے رسول آپ سایہ میں چلے جائیں اور وہاں اسکا انتظار کریں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس سے وعدہ کیا ہے میں یہیں رہو نگا اگر وہ نہیں آئیگا تو وعدہ کے خلاف عمل کرے گا _(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قسم کے سلوک سے اسلام میں وعدہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے_

اجتماعی معاہدوں کی پابندی

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہونچنے کے بعد اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئے معاشرہ کی تشکیل کی وجہ سے سماجی معاہدوں کی ضرورت محسوس ہوئی اس لئے کہ قریش جو آپ کے بڑے دشمن تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چین سے رہنے نہیں دیتے تھے دوسری طرف مدینہ کے یہودی کہ جو صاحب کتاب تھے لیکن حق کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے وہ اپنی مخصوص ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی ایسے دین کو ماننے پر تیار نہ تھے جس کو غیر بنی اسرائیل کا کوئی شخص لایا ہو سب سے اہم بات یہ ہے کہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے لائے ہوئے دین کو عالمی دین سمجھتے تھے اسی لئے صرف مدینہ میں رہنے والے محدود افراد پر اکتفاء نہیں کرسکتے تھے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ دوسروں سے کوئی سروکار نہ رکھیں ان پہلوؤں کے پیش نظر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عرب کے بعض

___________________

۱) (بحارالانوار ج۹۵/۷۵)_

۸۲

قباءل سے دفاعی معاہدہ کیا اس معاہدہ کی بنیاد پر اگر کوئی کسی پر زیادتی کرتا تو دوسرے کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس سے اپنا دفاع کرے اور بعض لوگوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ تم سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا یعنی طرفین میں کوئی بھی کسی پر نہ زیادتی کرے اور نہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے ان میں سے سب سے اہم معاہدے وہ تھے جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش اور مدینہ کے یہودیوں سے کئے تھے_

مشرکین سے معاہدوں کی پابندی

سنہ ۶ ھ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب میں دیکھا کہ مسلمانوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں مناسک حج ادا کررہے ہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس خواب کو اپنے اصحاب کے سامنے بیان کیا اصحاب نے اسکو نیک فال سمجھا لیکن بعض افراد کو اسکی صحت پر ابھی مکمل اطمینان حاصل نہیں ہوا تھا کہ خدا نے اپنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کی تعبیر میں آیت نازل کی:

( لقد صدق الله رسوله الروایا بالحق لتدخلن مسجد الحرام ان شاء الله آمنین محلقین رؤسکم مقصرین لا تخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذلک فتحاً قریباً ) (۱)

___________________

۱) (فتح آیت ۲۷)_

۸۳

(بیشک خدا نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کو آشکار کردیا تم لوگ انشاء اللہ بلاخوف و خطر اپنے سروں کے بال منڈواکر اور تقصیر کیے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے خداوہ جانتاہے جو تم نہیں جانتے اور خدا نے اس ( مکہ میں داخل ہونے ) سے پہلے بہت نزدیک کامیابی (صلح حدیبیہ) قرار دی)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمان مطمئن ہوگئے کہ وہ بہت جلد نہایت محافظ طریقہ سے خانہ خدا کی زیارت کے لئے جائیں گے _

ماہ ذیقعدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرہ کے قصد سے مکہ جانے کا ارادہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ہمراہ مکہ چلنے کی دعوت دی چنانچہ ایک جماعت کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبردی گئے کہ قریش آپ کی آمد سے واقف ہوگئے ہیں اورانہوں نے اپنے آپ کوجنگ کے لئے تیار کرلیاہے وہ لوگ مقام '' ذی طوی'' میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں اور انہوں نے قسمیں کھائی ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کو مکہ نہیںجانے دیں گے _

چونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ آپ عمرہ کے ارادہ سے تشریف لائے تھے اسلئے آپ نے ان سے مذاکرہ کیا آپ کے اور ان کے درمیان معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند امور کو انجام دینے کی پابندی اپنے اوپر عاءد کی ان میں سے مجھ درج ذیل ہے_

۸۴

۱_ قریش میں سے اگر کوئی بھی شخص اپنے بزرگ کی اجازت کے بغیر مکہ سے فرار کرکے اسلام قبول کرلے اور مسلمانوں سے آکر مل جائے تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے قریش کو واپس کردیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھاگ کر قریش سے جاملے تو قریش اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ اسکو واپس کردیں '' جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش کے نمآئندہ کے ساتھ یہ معاہدہ کررہے تھے اسی وقت سہیل کا بیٹا '' ابوجندل'' جو مسلمان ہوگیا تھا لیکن اپنے مشرک باپ کی زنجیر میں جکڑا ہوا تھا مکہ سے فرار کرکے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل گیا سہیل نے جب اسکو دیکھا تو کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ معاہدہ کی پابندی کا پہلا موقع ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ صلح قاءم رہے تو اسکو واپس کردیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول کیا سہیل نے اپنے بیٹے کا گریبان پکڑا اور کھینچتے ہوئے مکہ لے گیا_

ابوجندل نے (نہایت ہی دردناک لہجہ میں ) فریاد کی کہ اے مسلمانو کیا تم اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ مجھ کو مشرکین کے حوالہ کیا کردیا جائے اور میں دوبارہ ان کے چنگل میں پھنس جاؤں؟ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوجندل صبر کرو خدا تمہارے اور تم جیسوں کے لئے کشادگی پیدا کریگا ہم نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور اب ہم اپنا عہد و پیمان نہیں توڑسکتے(۱)

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۳ص۳۳۲ _ ۳۳۳)_

۸۵

یہ ایک ہی موقع نہیں تھا کہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلح نامہ کی اس شرط کی مطابق عمل کیا تھا کہ جو مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت تھی ، بلکہ جب کوئی مسلمان مشرکین کے چنگل سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آملتا تھا اسی وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے ان کے حوالہ کردیتے تھے جیسا کہ ابوبصیر کا واقعہ گواہ ہے_

ابوابصیر ان مسلمانوں میں شامل ہے جو مکہ میں گھرے ہوئے تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد وہاں سے فرار کرکے مدینہ آگئے تھے قریش کے نمایان افراد نے ایک خط پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام لکھا اور اس کو ایک شخص کے حوالہ کیا کہ وہ اپنے غلام کے ساتھ مدینہ جاکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وہ خط پہنچا دے تا کہ قرار داد کے مطابق ابوبصیر کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے واپس لیکر مکہ لوٹ آئے جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس وہ خط پہونچا تو آپ نے ابوبصیر کو بلایا اور کہا اے ابوبصیر تم کو معلوم ہے کہ ہم نے قریش سے عہد و پیمان کیا ہے اور اس معاہدہ کی مخالفت ہمارے لئے صحیح نہیں ہے خدا تمہارے لئے اور تم جیسوں کیلئے کشادگی پیدا کریگا ابوبصیر نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا آپ ہم کو دشمن کے سپرد کردینگے تا کہ وہ ہم کو دین سے برگشتہ کردیں ؟آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوبصیر پلٹ جاؤ خدا تمہارے لئے وسعت پیدا کریگا_

ابوبصیر ان دونوں کے ساتھ مکہ کی طرف چل دیئے جب مقام ''ذوالحلیفہ'' پر پہونچے تو ایک دیوار کے سایہ میں آرام کرنے لگے ابوبصیر نے اس آدمی کی طرف رخ کرکے کہا یہ

تمہاری تلوار بہت تیز ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں ابوبصیر نے کہا کیا میں اسکو دیکھ

۸۶

سکتاہوں اس آدمی نے جواب دیا اگر دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھو ابوبصیر نے تلوار اپنے ہاتھ میں لیکر اچانک اس آدمی پر حملہ کرکے اسکو مار ڈالا مقتول کے غلام نے جب یہ ماجرا دیکھا تو ڈر کے مارے مدینہ کی طرف بھاگا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ غلام داخل ہوا جب آپ کی نظر اس غلام پر پڑی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اس نے بڑا ہولناک منظر دیکھا ہے اس کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا خبر ہے غلام نے کہا کہ ابوبصیر نے اس آدمی کو قتل کردیا

ذرا دیر بعد ابوبصیر بھی خدمت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں پہونچے اور کہنے لگے یا رسول اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا عہد و پیمان پورا کیا اور مجھ کو ان کے حوالہ کردیا لیکن میں اپنے دین کے بارے میں ڈرگیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر اس شخص کے ساتھی موجود ہوتے تو آپ جنگ برپا کردیتے_

ابوبصیر نے دیکھا کہ اگر مدینہ میں رہ گئے تو لوگ پھر پہنچ جائیں گے اور واپسی کا مطالبہ کریں گے اسلئے وہ مدینہ سے نکل کر سواحل دریائے احمر پر پہنچ گئے وہ جگہ ایسی تھی جہاں سے شام جانے والے قریش کے کاروان تجارت گذرتے تھے_

دوسری طرف جب ابوبصیر کی داستان اور ان کی بارے میںرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کا علم ان سارے مسلمانوں کو ہوا جو مکہ میں پھنسے ہوئے تھے تو وہ کسی طرح سے اپنے کو مشرکین کے چنگل سے چھڑا کر مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر تک پہنچے یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں میں ابوبصیر سے جاملنے والے مسلمانوں کی تعداد ستر (۷۰) ہوگئی اب وہ لوگ قریش کے قافلہ کیلئے

واقعی خطرہ بن گئے اگر قریش میں سے کوئی مل جاتا تھاتو یہ لوگ اس کو قتل کردیتے تھے اور اگر کوئی قافلہ ادھر سے گذرتا تھا تو اس کے راستہ میں رکاوٹ بنتے یہاں تک کہ قریش نے تھک کررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خط لکھا اور یہ گذارش کی کہ ان کو مدینہ بلالیں اور قریش کو ان کے ہاتھوں اطمینان حاصل ہوجائے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو بلایا اور سب لوگ مدینہ چلے آئے _

ابوجندل اور ابوبصیر کو واپس کردینے کے عمل سے پتہ چلتاہے کہ رسول خدا انسانی بلند قدروں کی اہمیت سمجھتے تھے_

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۳۷ ، ۳۳۸)_

۸۷

خلاصہ درس

۱) قرآن کریم اسلام کی زندہ سند ہے وہ معاہدہ کی پابندی کو ضروری سمجھتاہے اور مؤمنین کو اسکی پابندی کی تلقین کرتاہے_

۲)پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا کی طرف سے بہترین نمونہ کے عنوان سے تعارف کروایا گیاآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی زندگی کی اس بنیادی بات سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسکی پابندی کی تلقین کی ہے_

۳) عہد و پیمان سے وفاداری اور معاہدہ کی پابندی کی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اہل بیت کے نزدیک اتنی اہمیت ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:لا دین لمن لاعهد له '' وہ شخص دین دار نہیں ہے جو معاہدہ کا پابند نہیں ہے _

۴) کلی طور پرا گرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدوں کا جاءزہ لیا جائے تو دو طرح کے معاہدے نظر آتے ہیں_

الف: ذاتی معاہدہ

ب: سماجی معاہدے اور سیاسی قرار دادیں

۵ ) تاریخ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تحقیق سے یہ پتہ چلتاہے کہ آپ کے نزدیک دونوں ہی طرح کے معاہدے محترم تھے اور آپ نے اپنی طرف سے کبھی کوئی معاہدہ نہیں توڑا_

۸۸

سوالات :

۱_ عہدو پیمان کی پابندی کے سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کے ذریعہ اسلام کا نظریہ بیان کیجئے؟

۲_ عہد و پیمان کی پابندی کی اہمیت کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۳_پیغمبر اکرم کے کسی ذاتی معاہدہ کا ذکر کیجئے_

۴_ سیاسی معاہدوں میں سے ایک معاہدہ بیان کرتے ہوئے ان معاہدوں کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے طریقہ کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۵ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش کے ساتھ جو معاہدے کئے تھے وہ کس نوعیت کے حامل تھے؟

۸۹

چھٹا سبق:

(یہودیوں کیساتھآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدے)

مدینہ وہ شہر تھا کہ جہاں بمدت عرصہ قبلی یہود کے کچھ قباءل نے ہجرت کی اور وہ اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے منتظر تھے کہ جسکی توریت نے بشارت دی تھی چونکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قوم بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں اسلئے ان کی رسالت کو قبول کرنا ان کےلئے مشکل ہوگیا تھا_ لیکن چوں کہ مدینہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے باہمی قدیمی اخلاف کو ختم کرکے ایک امت بنادیا تھا اسلئے وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے تھے لیکن مسلمانوں کے ممکن الوقوع خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے ان میں سے چند سربرآوردہ اشخاص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:

اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ کے پاس معاہدہ کرنے کیلئے آئے ہیں اور وہ معاہدہ یہ ہے کہ ہم آپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے، آپ کے اصحاب پر حملہ نہیں کریں گے اور آپ کے خلاف کسی بھی گروہ کی مدد نہیں کریں گے _ اسی طرح آپ بھی ہم سے کوئے سروکار نہ

۹۰

رکھیں گے بعد میں دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتاہے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور جو معاہدہ نامہ لکھا گیا اسمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اضافہ فرمایا کہ اگر یہودیوں نے اس قرار داد کے خلاف عمل کیا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کا خون بہانے، ان کے مال کو ضبط کرلینے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرنے میں آزاد ہوں گے _

اس معاہدہ پر تین بزرگ قبیلوں، بنی نضیر، بنی قریظہ اور بنی قینقاع نے دستخط کئے _(۱)

البتہ یہ صرف ایک معاہدہ نہیں تھا جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوا بلکہ دوسرے مواقع پر بھی اس طرح سیاسی اور سماجی معاہدے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوئے ہیں ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان تمام معاہدوں پر ثابت قدم رہے اور یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ آپ نے ایک بار بھی کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو_

معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برتاو

جس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاہدوں کے پابند تھے اور اس کو اہمیت دیتے تھے اسی طرح پیمان شکنی سے بیزار بھی تھے اور اس کو ایک ناشاءستہ عمل جانتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں پیمان شکنی کرنیوالا گنہگار اور سزا کا مستحق تھا_

انفرادی معاہدہ میں اگر کسی نے معاہدہ کرکے توڑ دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بزرگی اور عظمت کے

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۹ ص ۱۱۰ ، ۱۱۱)_

۹۱

خلاف یہ بات تھی کہ آپ اس سے سوال کرتے_ لیکن اجتماعی اور سیاسی معاہدوں میں جس کا تعلق نظام اسلام سے ہوتا تھا ، ان سے کسی طرح کی چشم پوشی کو آپ روا نہیں رکھتے تھے اور اس سے نہایت سختی کا برتاو کرتے تھے اسکا ایک نمونہ وہ رد عمل ہے جس کا اظہار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے معاہدہ توڑدینے پر فرمایا تھا_

مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے جو قباءل آباد تھے ان کیلئے تقریبا ہر ایک نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعرض نہ کرے اور مشترک دفاع کا معاہدہ کیا تھا لیکن ان میں سے ہر گروہ نے بڑے نازک موقع پر اپنا معاہدہ توڑا اور اسلام سے اپنے بغض اور عناد کا مظاہرہ کیا تھا _ ذیل میں ایسی چند مثالوں اور ان عہدشکنی کرنیوالوں کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جو برتاؤ تھا اس کی طرف اشارہ کیا جائیگا_

بنی قینقاع کے یہودیوں کی پیمان شکنی

''بنی قینقاع '' یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ و جدال سے پرہیز کا معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی کچھ دن نہ گذرے تھے کہ اسلام کو سرعت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے اپنا معاہدہ توڑڈالا ، اس گروہ نے افواہیں پھیلانا اور اسلام کے خلاف غلط قسم کے نعرے لگانا شروع کردیئے _

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع کے بازار میں تقریر کی اور انہیں بہت سختی سے خبردار کیا_

۹۲

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلمات سے نصیحت حاصل کرنے کے بجائے بنی قنیقاع کے یہودی جواب دینے پر اتر آئے اور کہنے لگے آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کمزور و ناتواں ہیں اور قریش کی طرح جنگ کے رموز سے نا واقف ہیں ؟ آپ اس گروہ سے الجھ پڑے تھے جو جنگ کے اصولوں اور ٹیکنیک سے واقف نہیں تھا لیکن بنی قنیقاع والوں کی طاقت کا آپ کو اس وقت اندازہ ہو گا جب آپ میدان جنگ میں ان سے مقابلہ کیلئے اتریں گے _

ان تیزو تند باتوں نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا بلکہ مسلمان تیار ہوگئے کہ کسی مناسب موقعہ پر ان کی رجز خوانی کا جواب دیں ،ایک دن ایک عرب عورت بنی قنیقاع کے بازار میں ایک یہودی سنا رکی دکان پر کچھ سامان بیچ رہی تھی اور اس حوالے سے محتاط تھی کہ کوئی اسکا چہرہ نہ دیکھے مگر بنی قینقاع کے کچھ یہودیوں کو اس کا چہرہ دیکھنے پر اصرار تھا لیکن چونکہ عورت اپنا چہرہ دکھانے پر تیار نہیں تھی اس لئے یہودی سنار نے اس عورت کے دامن کو اس کی پشت پر سی دیا _

تھوڑی دیر کے بعد وہ عورت اٹھی تو اس کے جسم کا کچھ حصہ نمایاں ہوگیا یہ دیکھ کر بنی قنیقاع کے کچھ جوانوں نے اس عورت کا مذاق اڑایا _

بنی قینقاع کا یہ عمل اعلانیہ طور پر پیغمبر سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ رہا تھا اس عورت کی حالت دیکھ کر ایک مسلمان کو طیش آگیا اس نے فورا اہتھیار نکالا اور اس یہودی سنا ر کو قتل کر ڈالا ، وہاں جو یہودی موجود تھے انہوں نے مل کر اس مسلمان کو بہت بری طرح قتل کیا _

۹۳

ایک مسلمان کے سننے خیز قتل کی خبر دوسرے مسلمانوں کے کان تک پہونچی ، بنی قنیقاع نے جب بگڑی ہوئی حالت دیکھی تو اپنے ان گھروں میں جاچھپے جو مضبوط قلعوں کے در میان بنے ہوئے تھے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ دشمن کا محاصرہ کیا جائے مسلمانوں نے پندرہ روز تک قلعوں کا محاصرہ کیا اور کسی طرح کی امداد وہاں تک نہ پہونچنے دی _ قلعہ کے یہودی محاصرہ کی بناپر تنگ آگئے اور انہوں نے اپنے کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ کردیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو سخت تنبیہہ کی جائے لکن '' عبداللہ ابی '' کے اصرار پر جو مدینہ کا ایک منافق تھا مگر ظاہرمیں اسلام کا اظہار کیا کرتا تھا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سختی نہیں کی اور یہ طئے پایا کہ یہ لوگ اپنا اسلحہ اوراپنی دولت دیکر جتنی جلدی ہوسکے مدینہ کو ترک کردیں(۱)

۲_ بنی نضیر کے یہودیوں کی پیمان شکنی

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑنے والے '' بنی نضیر'' کے یہودی بھی تھے_

ایک دن ایک مسلمان نے قبیلہ بنی عامر کے ایسے دو آدمیوں کو جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ کئے ہوئے تھے قتل کرڈالا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوں کا خون بہاء ادا کرنے

___________________

۱) ( مغازی واقدی ج۱ ص ۱۷۶ و ۱۷۸)_

۹۴

کے سلسلہ میں بنی نضیر کے یہودیوں سے مدد لینے اپنے چند اصحاب کے ساتھ ان کے یہاں گئے _ انہوں نے ظاہر بظاہر بڑی گرم جوشی سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استقبال کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک گھر کی دیوار کے سہارے کھڑے تھے اسی اثنا میں کھانا تناول فرمانے کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلالیا اسی حال میں '' حی ابن خطب'' جو قبیلہ بنی نضیر کا سردار تھا جس نے بنی نضیر کے یہودیوں کی طرف سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہونے والے معاہدہ پر دستخط کئے تھے، خفیہ طور پر اس نے یہودیوں سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے آج ان سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیئے _ آج جتنے کم افراد ان کے ساتھ ہیںاتنے کم افراد تو ان کے ساتھ کبھی بھی نہیں رہے ، ایک آدمی کوٹھے پر چڑھ گیا تا کہ سرپر ایک پتھر گرا کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کام تمام کردے خدا نے یہودیوں کی سازش سے پردہ اٹھادیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے برے ارادہ سے مطلع کردیا_

اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کام سے ایک طرف چلے گئے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واپس آنے کے منتظر رہے وہ لوگ بیٹھے رہے مگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واپس نہیں آئے، وہ لوگ اٹھے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھونڈھا جائے،اتنے میں ایک شخص وارد ہوا لوگوں نے اس سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں پوچھا اس نے کہا کہ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مدینہ میں دیکھا ہے اصحاب مدینہ پہونچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چلے آنے کا سبب پوچھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھ کو اس سازش سے آگاہ کردیا تھا جو یہودیوں نے میرے خلاف کی تھی اسلئے میں وہاں سے چلا آیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کےلئے نکلنے کا حکم دیا لشکر اسلام نے چھ روز تک بنی نضیر کے گھروں کا محاصرہ کیا چھ روز کے بعد خوف کی وجہ سے ان لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور کہا ہم یہاں

۹۵

سے چلے جانے کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم ہتھیار کے علاوہ اپنے تمام منقولہ سامان اپنے ساتھ لے جائینگے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی شرط مان لی وہ اپنا تمام سامان حتی کہ دروازہ بھی اکھاڑ کر اونٹوںپر لاد کرلے گئے_(۱)

۳_بنی قریظہ کے یہودیوں کی عہد شکنی

پیمان شکن یہودیوں کے ساتھ رد عمل کے طور پر پیغمبر کا جو برتاؤ ہو تا اس میں شدید ترین برتاو بنی قریظہ کے عہد شکن یہودیوں کے ساتھ روا رکھا _ انہوں نے اس نازک زمانہ میں اپنا معاہدہ توڑا جس زمانہ میں مشرکین قریش نے تمام اسلام مخالف گروہوں سے مل کر بنے ہوئے ایک بڑے لشکر کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کاکام تمام کردینے کے ارادہ سے مدینہ پر حملہ کیا تھا بنی قریظہ کے لوگوں نے مشرکین مکہ کو پیغام بھیج کر دو ہزار کا لشکرمانگا تا کہ مدینہ کو نیست و نابود کردیں اور اندر سے مسلمانوں کو کھوکھلا کردیں_ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان خندق کی حفاظت کررہے تھے ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو افسر اور پانچ سو سپاہیوں کو معین کیا تا کہ شہر کے اندر گشت لگاکر پہرہ دیتے رہیں اور نعرہ تکبیر کی آواز بلند کرکے بنی قریظہ کے حملوں کو روکیں اس طرح صدائے تکبیر کو سن کر عورتوں اور بچوں کی ڈھارس بندھی رہے گی(۲)

___________________

۱) ( سیرہ ابن ہشام ج۳ ص ۱۹۹ _۲۰۰)_

۲) (مغازی واقدی ج۲ ص ۴۶۰)_

۹۶

جب مشرکین احزاب مسلمانوں سے ہارگئے اور بڑی بے عزتی سے میدان چھوڑ کر بھاگے تو پھر بنی قریظہ کے یہودیوں کی بار ی آئی_

ابھی جنگ احزاب کی تھکن اترنے بھی نہ پائی تھی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے لڑنے کی آواز بلند کی اور لشکر اسلام نے فورا ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا_

بنی قریظہ کے یہودیوں نے جب اپنے کو خطرہ میں گھرا ہوا محسوس کیا تو انہوں نے پہلے تو یہ درخواست کی کہ تمام یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہی ان کے ساتھ بھی ہو تا کہ وہ لوگ بھی اپنے قابل انتقال سامان کو لیکر مدینہ سے چلے جائیں لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہیں فرمایا اس کے بعد وہ اس بات پر تیار ہوئے کہ ان کے ہم پیمان '' سعد ابن معاذ'' جو فیصلہ کریں گے وہ بلاچون و چرا اس کو قبول کرلینگے پیغمبر نے بھی اس بات کو قبول کرلیا_

سعد ابن معاذ کہ جو تیر لگنے کی وجہ سے زخمی تھے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب لایا گیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد سے کہا : کہ بنی قریظہ کے یہویوں کے بارے میں فیصلہ کرو_

۹۷

سعد ، جنہوں نے بنی قریظہ کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ عہد و پیمان دیکھا تھا اورجن کے پیش نظر جنگ احزاب میں یہودیوں کی عہد شکنی اور خیانت بھی تھی ، انہوں نے حکم دیا :

۱_ ان کے جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کردیا جائے_

۲_ ان کے مال و اسباب کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے_

۳_ ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیا جائے _(۱)

معاہدہ توڑنا وہ بھی ایسے موقع پر جب فریق مقابل کیلئے وہ معاہدہ زندگی کا مسئلہ ہو اس کی سزا یہی ہوسکتی ہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس عمل سے بتایا کہ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ کسی عہد و پیمان کو نظر انداز کردے تو پھر اس کاکوئی احترام نہیں رہ جاتا اور نہ اس کی کوئی قدر و قیمت باقی رہتی ہے _

___________________

۱) (مغازی واقدی ج ۲ ص ۵۰۲)_

۹۸

خلاصہ درس

۱) مدینہ میں بسنے والے یہودیوں نے ممکنہ خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی نہ کرنے کا معاہدہ کیا _

۲) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جتنے معاہدے کئے ان سب میں ثابت قدم رہے _ کسی بھی معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھا گیا _

۳) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سماجی اور سیاسی معاہدہ توڑے جانے کی صورت میں کسی طرح کی چشم پوشی سے کام نہیں لیا اور معاہدہ توڑنے والوں کے ساتھ نہایت سخت برتاو کیا _

۴) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع اور بنی نضیر کے ان یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا جنہوں نے امن کے مانہ میں معاہدہ توڑا تھا لیکن بنی قریظہ کے یہودیوں کیساتھ جنہوں نے اسلام کے دشمنوں کی مددکی تھی سخت رویہ اختیار کیا اور سعد بن معاذ کے فیصلہ کے مطابق جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کرڈالا ان کے مال کو ضبط کرلیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالایا_

۹۹

سوالات :

۱_ یہودیوں کے قبیلوں نے کس وجہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی _

۲_ یہودیوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کس طرح کا معاہدہ کیا ؟

۳_ یہودیوں کے سربرآوردہ افراد نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو معاہدہ کیا تھا اسکی شرطیں کیا تھیں ؟

۴_ بنی قینقاع کے یہودیوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا ؟ اجمالی طور پر بیان کیجئے؟

۵_ بنی قریظہ کے یہودیوں نے دشمنان اسلام میں سے کس سے تعاون کیا ؟ ان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

خاتون کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ہے میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے اس کے ماں اور باپ دونوں کا انتقال ہوچکا ہے اس کی سرپرستی میں نے اور اس کے چچا ابوطالب نے اپنی ذمہ لی ہے

جناب عبدالمطلب کے اس کلام سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اس یتیم بچے

کے روشن مستقبل سے اچھی طرح باخبر تھے اس لئے انہوں نے اس بچے کو اپنے سب سے عزیز بیٹے جناب ابوطالب کی سرپرستی میں دیا تھا اور اس عظیم سعادت کو کسی اور کے نصیب میں نہیں آنے دیا تھا اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب ابوطالب اپنے مومن اور موحد والد کی نگاہ میں ایمان کے اس درجہ پر فائز تھے کہ صرف وہی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سرپرستی کی لیاقت رکھتے تھے.( ۱ )

اب ہم مزید وضاحت کے لئے جناب ابوطالب کے ایمان پر چند واضح دلیلیں پیش کرتے ہیں :

____________________

(۱)زیادہ وضاحت کے لئے ان کتابوں ''سیرہ حلبی'' جلد۱ ص ۱۳۴ طبع مصر اور ''سیرہ ابن ہشام''جلد۱ ص۱۸۹ ،طبع بیروت اور ''ابوطالب مومن قریش'' ص ۱۰۹ طبع بیروت اور'' طبقات کبریٰ''جلد ۱ ص۱۱۷ طبع بیروت کا مطالعہ مفید ہوگا.

۲۲۱

جناب ابوطالب کے مومن ہونے کی دلیلیں

۱۔جناب ابوطالب کے علمی اور ادبی آثار

مسلمان مورخین اور علماء نے جناب ابوطالب کے بہت سے بلیغ قصیدے اور متعدد قسم کے علمی و ادبی آثار نقل کئے ہیں جو ان کے محکم ایمان کی دلیل ہیں یہاں ہم ان کثیر آثار میں سے بعض کا تذکرہ کرتے ہیں :

لیعلم خیار الناس أن محمدًا

نبى کموسیٰ والمسیح ابن مریم

اتانا بهدٍ مثل ما أتیا به

فکل بأمر اللّه یهد و یعصم( ۱ )

شریف لوگ یہ جان لیں کہ موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم کی طرح محمد بھی نبی خدا ہیں وہ ہمارے لئے اسی طرح کا پیغام ہدایت لائے ہیں جیسا کہ یہ دو نبی لائے تھے پس سارے نبی ، خدا کے حکم سے ہدایت کرتے ہیں اور گناہوں سے روکتے ہیں

ألم تعلموا أنّا وجدنا محمداً

رسولاً کموسیٰ خط فى أول الکتب

و أن علیه فى العباد محبة

ولا حیف فیمن خصه اللّه بالحب( ۲ )

____________________

(۱)''کتاب الحجة''ص ۵۷ اور اسی کے مثل مستدرک جلد ۲ ص ۶۲۳طبع بیروت میں بھی موجود ہے.

(۲)تاریخ ابن کثیر جلد ۱ ص ۴۲ ،اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص۷۲ (طبع دوم)

۲۲۲

کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے موسیٰ کی طرح محمد(ص) کو بھی رسول پایا ہے جن کا ذکر پہلی (آسمانی) کتابوں میں بھی آیا ہے ؟ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور جس شخص کے دل کو خداوندعالم نے انکی محبت کیلئے چن لیا ہے اس پر افسوس نہ کیا جائے

لقد أکرم اللّه النبّى محمّداً

فأکرم خلق اللّه فى الناس أحمد

و شقّ له من اسمه لیجله

فذوالعرش محمود وهذا محمد( ۱ )

خداوندعالم نے اپنے نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مکرم قرار دیا ہے اس اعتبار سے وہ مخلوقات خدا میں سب سے زیادہ مکرم ہیں پروردگار نے ان کے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے پس صاحب عرش محمود ہے اور یہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں

واللّه لن یصلوا اِلیک بجمعهم

حتی أوسد ف التراب دفینا

فاصدع بأمرک ما علیک غضاضة

وابشر بذلک و قر منک عیونا

و دعوتن و علمت أنک ناصح

ولقد دعوت وکنت ثم أمینا

ولقد علمت بأنّ دین محمد

من خیر أدیان البریّة دینا( ۲ )

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۱۴ ص ۷۸ طبع دوم، تاریخ ابن عساکر جلد ۱ ص ۲۷۵،تاریخ ابن کثیر جلد ۱ صفحہ ۲۶۶، تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۲۵۴.

(۲)خزانہ الادب بغدادی جلد۱ ص ۲۶۱ اور تاریخ ابن کثیر جلد ۳ ص ۴۲ ، اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد ۱۴ ص ۵۵ (طبع دوم) اور فتح الباری جلد۷ ص ۱۵۳ .۱۵۵. اور الاصابہ جلد۴ ص ۱۱۶ (طبع مصر) ۱۳۵۸ھ. اور دیوان ابی طالب ص ۱۲.

۲۲۳

( اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )خدا کی قسم ہرگز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک نہ پہنچ پائیں گے یہاں تک کہ میں خاک تلے دفن ہوجاؤں پس آپ کو جس چیز کا حکم ملا ہے بے خوف و خطر اس کا اظہار کریں اور بشارت دے کر آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے اپنے دین کی طرف دعوت دی ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے خیر خواہ ہیں بے شک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی دعوت میں امانت دار ہیں میں نے یہ جان لیا ہے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کے سارے دینوں سے بہتر ہے.

یا شاهد اللّه علىّ فاشهد

اِنّ علیٰ دین النبّ أحمد

من ضل فى الدین فنّ مهتد( ۱ )

اے خدا کے مجھ پر گواہ آپ گواہی دیجئے کہ میں احمد، رسول خدا کے دین پر ہوں کوئی اپنے دین میں گمراہ ہو تو ہو ،میں تو ہدایت یافتہ ہوں

و:جناب ابوطالب نے اپنی بابرکت زندگی کے آخری ایام میں قریش کے سرداروں کو جمع کر کے ان اشعار کے ذریعہ انہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مکمل طور پر حمایت کرنے کی دعوت دی تھی:

أوص بنصر الخیر أربعة

ابن علیًا و شیخ القوم عباسا

و حمزة الأسد الحام حقیقه

وجعفر أن تذودوا دونه الناسا

کونوا فدائً لکم أم وماولدت

فى نصر أحمد دون الناس اتراسا

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد ۱۴ ص۷۸ اور دیوان ابوطالب ص ۷۵.

۲۲۴

میں چار لوگوں کوسب سے افضل نبی کی مدد کرنے کی تاکید کرتا ہوں اپنے بیٹے علی ، اپنے قبیلے کے بزرگ عباس ، شیر خدا اور مدافع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حمزہ اور( اپنے بیٹے )جعفر کو نصیحت کرتا ہوں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمیشہ ناصر و مددگار رہیں اور تم لوگ (میری ماں اور ان کی تمام اولادیں تم سب پر قربان ہوں) احمد کی مدد کے لئے لوگوں کے سامنے سپر بن جانا.( ۱ )

ہر روشن ضمیر اور انصاف پسند شخص ان بلیغ ادبی آثار( جو صراحت کے ساتھ جناب ابوطالب کے خدا اور رسول پر ایمان کامل کی گواہی دے رہے ہیں ) کو دیکھ کر شیعوں کے جناب ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں نظرئیے کو صحیح مان لے گا اور چند سیاسی اہداف کی خاطر بعض مصنفین کی طرف سے مومن قریش ، عم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کے سخت حالات میں شریعت کے محافظ جناب ابوطالب پر لگائی جانے والی تہمتوں پر افسوس کرے گا.

۲۔جناب ابوطالب کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نیک سلوک ان کے ایمان کی علامت ہے.

تمام مشہورمسلمان مورخین نے جناب ابوطالب کی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں

____________________

(۱)متشابہات القرآن ، (ابن شہر آشوب) سورہ حج کی اس آیت (ولینصرن اللہ من ینصرہ)کی تفسیر سے ماخوذ.

۲۲۵

فداکاریوں کو نقل کیا ہے اور یہ چیز جناب ابوطالب کے محکم ایمان کی واضح دلیل ہے کہ جناب ابوطالب نے اسلام کی حمایت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی حفاظت کے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تین سال تک اپنا گھر چھوڑ کر ''شعب ابی طالب'' میں زندگی گزاری تھی اور انہوں نے اپنی اس زندگی کو قبیلہ قریش کی سرداری پر ترجیح دی تھی اور مسلمانوں کی اقتصادی پابندی کے خاتمے تک انتہائی سخت حالات ہونے کے باوجود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ رہ کر تمام مشکلات کو برداشت کیاتھا.( ۱ )

اس سے بڑھ کر یہ کہ جناب ابوطالب نے اپنے عزیز ترین فرزند حضرت علی ـ کو بھی حضوراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کرنے اور صدر اسلام کی مشکلات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھ نہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا

ابن ابی الحدید معتزلی نے نہج البلاغہ کی شرح میں جناب ابوطالب کے ان جملوں کو نقل کیا ہے جو انہوں نے حضرت علی ـ سے کہے تھے ملاحظہ ہو:

''پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہیں صرف نیکی کی طرف دعوت دیتے ہیں لہذا کبھی ان کا ساتھ نہ چھوڑنا''( ۲ )

____________________

(۱)اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں: ۱۔ سیرہ حلبی جلد ۱ ص ۱۳۴ (طبع دوم مصر) ۲۔تاریخ الخمیس جلد ۱ ص ۲۵۳ اور ۲۵۴ (طبع ۳ بیروت) ۳۔سیرہ ابن ہشام جلد۱ ص ۱۸۹ طبع بیروت.۴۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۵۲ طبع دوم) ۵۔ (تاریخ یعقوبی اول جلد۲ طبع نجف) ۶۔(الاصابہ جلد۴ ص ۱۱۵ طبع مصر) ۷۔طبقات کبریٰ جلد۱ ص۱۱۹طبع بیروت ۱۳۸۰ھ.

(۲)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص ۵۳طبع دوم.

۲۲۶

اس اعتبار سے جناب ابوطالب کی وہ خدمات جو آپ نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں انجام دی ہیں اور آپ کی اسلام کے دفاع میں بے لوث فداکاریاں آپ کے ایمان کی واضح گواہ ہیں

اسی بنیاد پر عالم اسلام کے بزرگ دانشور (ابن ابی الحدید) نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور دین اسلام کی خدمت کے سلسلے میں جناب ابوطالب کے زندہ کردار سے متعلق یہ اشعار کہے ہیں :

ولولا أبوطالب و ابنه

لما مثّل الدین شخصًا فقاما

فذاک بمکة آویٰ و حام

وهذا بیثرب جسّ الحماما

وما ضرّمجد أب طالب

جهول لغ أو بصیر تعامیٰ( ۱ )

اگر ابوطالب اور ان کے بیٹے( حضرت علی )نہ ہوتے تو ہرگز دین اسلام کو استحکام حاصل نہ ہوتا اابوطالب نے مکہ میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پناہ دی تھی اور ان کی حمایت کی تھی اور ان کے بیٹے نے یثرب میں (پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کے لئے)اپنی جان کی بازیاں لگائی تھیں.

۳۔ابوطالب کی وصیت ان کے ایمان کی گواہ ہے

عالم اسلام کے مشہور مورخین جیسے ''حلبی شافعی''نے اپنی کتاب سیرۂ حلبی میں اور

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید)جلد۱۴ ص ۸۴ طبع ۳.

۲۲۷

''محمد دیار بکری''نے اپنی کتاب تاریخ الخمیس میں لکھا ہے کہ جناب ابوطالب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے قبیلے سے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کے سلسلے میں یہ وصیت کی تھی:

یا معشر قریش کونوا له ولاة، ولحزبه حماة ، واللّه

لایسلک أحد منکم سبیله اِلاّ رشد،ولا یأخذ أحد

بهدیه اِلاّ سعد، ولوکان لنفس مدة ولأجل تأخر لکففت

عنه الهزائز، ولدفعت عنه الدواه، ثم هلک( ۱ )

اے قبیلہ قریش!تم سب مصطفی کے محب اور ان کے ماننے والوں کے حامی و ناصر بن جاؤ خدا کی قسم تم میں سے جو شخص بھی ان کے نقش قدم پر چلے گا وہ ضرور ہدایت پائے گا اور جو کوئی ان سے ہدایت حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوجائے گا اگر میری زندگی باقی رہتی اور موت نے مجھے مہلت دی ہوتی تو میں یقینا فتنوں اور سختیوں سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محافظت کرتا اور پھر یہ آخری کلمات کہتے کہتے جناب ابوطالب نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا.

۴۔پیغمبر

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ابوطالب سے محبت ان کے ایمان کی دلیل ہے

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف موقعوں پر اپنے چچا ابوطالب کا احترام و اکرام کیا ہے اور ان

____________________

(۱)تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۳۰۰ اور ۳۰۱، طبع بیروت اور سیرہ حلبی جلد۱ص ۳۹۱(طبع مصر)

۲۲۸

سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ہے یہاں ہم ان میں سے صرف دو کا تذکرہ کرتے ہیں :

الف:بعض مورخین نے اپنی کتابوں میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی درج ذیل روایت نقل کی ہے جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب عقیل بن ابی طالب سے مخاطب ہوکر یوں فرمایا ہے:

ان احبک حبّین حبًّا لقرابتک منّ و حبًّا لما کنت أعلم من حبّ عم اِیّاک ( ۱ )

میں تم سے دوہری محبت کرتا ہوںایک تمہاری مجھ سے قریبی رشتے داری کی وجہ سے ہے اور دوسری محبت اس وجہ سے ہے کہ میں جانتا ہوں ابوطالب تم سے بہت محبت کرتے تھے

ب:حلبی نے اپنی کتاب سیرت میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ روایت نقل کی ہے جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کی تعریف فرمائی ہے :

مانالت قریش منّ شیئًا أکرهه (أ أشد الکراهة)حتی مات أبوطالب .( ۲ )

جب تک ابوطالب زندہ رہے مجھے قریش کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچا سکے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب سے محبت کرنا اور ان کی خدمات کو سراہنا جناب ابوطالب

____________________

(۱)تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۱۶۳(طبع بیروت) الاستیعاب جلد۲ ص۵۰۹

(۲)سیرہ حلبی جلد۱ ص ۳۹۱(طبع مصر).

۲۲۹

کے محکم ایمان کی واضح دلیل ہے کیونکہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف مومنین ہی سے محبت رکھتے تھے اور مشرکین و کفار سے سخت گیری کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:

(مُحَمَّد رَسُولُ ﷲِ وَالَّذِینَ مَعَهُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَهُمْ ...)( ۱ )

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ہیں اور آپس میں انتہائی مہربان ہیں

ایک اورجگہ فرماتا ہے :

(لاَتَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ ﷲ وَرَسُولَهُ وَلَوْ کَانُوا آبَائَهُمْ َوْا َبْنَائَهُمْ َوْ ا ِخْوَانَهُمْ َوْ عَشِیرَتَهُمْ اُوْلٰئِک کَتَبَ فىِ قُلُوبِهِمْ الْاِیمَانَ ... )( ۲ )

آپ کو کبھی ایسے افراد نہیں ملیں گے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے (بھی) ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوںسے محبت رکھتے ہوں چاہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے.

ان آیات کا جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ابوطالب سے محبت اور مختلف موقعوں پران کی ستائش سے موازنہ کیا جائے تو اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ جناب ابوطالب ایمان کے اعلی ترین درجہ پر فائز تھے

____________________

(۱)سورہ فتح آیت:۲۹.

(۲)سورہ مجادلہ آیت: ۲۲.

۲۳۰

۵۔حضرت علی ـ اور اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی

حضرت امیرالمومنین ـ اوراصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے محکم ایمان کی گواہی دی ہے ملاحظہ ہو:

الف:جس وقت حضرت امیرالمومنین علی ـ کی خدمت میں ایک شخص نے جناب ابوطالب پر ایک ناروا تہمت لگائی تو حضرت علی ـ کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں ہوگئے اور آپ نے فرمایا:

مَه ، فضّ اللّه فاک والذ بعث محمّدًا بالحقّ نبیًّا لو شفع أب ف کل مذنب علیٰ وجه الأرض لشفعه اللّه .( ۱ )

چپ رہ! اللہ تیرے منہ کو توڑ دے مجھے قسم ہے اس خدا کی جس نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برحق نبی قرار دیا ہے اگر میرے والد (ابوطالب)روئے زمین کے سارے گناہ گاروں کی شفاعت کرنا چاہیں تو بھی پروردگار ان کی شفاعت کو قبول کرے گا

ایک اورجگہ فرماتے ہیں :

____________________

(۱)الحجة ص ۲۴.

۲۳۱

کان والله ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب مؤمنًا مسلمًا یکتم اِیمانه مخافة علیٰ بن هاشم أن تنابذها قریش .( ۱ )

خدا کی قسم ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب مومن اور مسلمان تھے اور اپنے ایمان کوقریش کے کفار سے مخفی رکھتے تھے تاکہ وہ بنی ہاشم کو ستا نہ سکیں.

حضرت علی ـکے یہ ارشادات نہ صرف جناب ابوطالب کے ایمان کی تائید کرتے ہیں بلکہ ان کو ایسے اولیائے خدا کی صف میں کھڑا کردیتے ہیں جو پروردگار عالم کے اذن سے شفاعت کا حق رکھتے ہیں

ب: جناب ابوذر غفاری نے جناب ابوطالب کے بارے میں کہا ہے:

واللّه الذى لااِله اِلا هو ما مات ابوطالبٍ حتیٰ أسلم .( ۲ )

قسم ہے اس خد اکی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ابوطالب اسلام لانے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں

____________________

(۱)الحجة ص ۲۴.

(۲)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص۷۱(طبع دوم).

۲۳۲

ج:عباس بن عبدالمطلب اور ابوبکر بن ابی قحافہ سے بھی بہت سی سندوں کے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے :

اِنّ أباطالب مامات حتیٰ قال: لااله الا اللّه محمد رسول اللّه .( ۱ )

بے شک ابوطالب ''لاالہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ''کہنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے ہیں

۶۔ابوطالب اہل بیت کی نگاہ میں

ائمہ معصومین ٪ نے جناب ابوطالب کے ایمان کو صاف لفظوں میں بیان فرمایا ہے اور مختلف موقعوںپر پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فداکار کا دفاع کیا ہے یہاں پر ہم ان میں سے صرف دو نمونوں کا تذکرہ کرتے ہیں :

الف:امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں :

لووضع اِیمان أب طالبٍ ف کفة میزان و اِیمان هذا الخلق ف الکفة الأخری لرجح اِیمانه .( ۲ )

اگر ابوطالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور تمام مخلوقات کے ایمان کو اس کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے

تو ایمان ابوطالب ان کے ایمان سے بھاری ہوگا.

____________________

(۱)الغدیر ، جلد ۷ ص۳۹۸ تفسیر وکیع سے نقل کرتے ہوئے (طبع۳ بیروت ۱۳۷۸ھ).

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۶۸ (طبع دوم ) الحجة ص۱۸.

۲۳۳

ب:امام جعفرصادق ـ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل فرماتے ہیں :

اِنّ أصحاب الکهف أسرّوا الایمان و أظهروا الکفر فآتاهم اللّه أجرهم مرّتین و اِنّ أباطالب أسرّ الایمان و أظهر الشرک فآتاه اللّه أجره مرتین .( ۱ )

اصحاب کہف (چند مصلحتوں کی وجہ سے) اپنے ایمان کو چھپا کر کفر کا اظہار کرتے تھے تو پروردگار عالم نے انہیں دہرا اجر عطا فرمایا تھا. ابوطالب نے بھی اپنے ایمان کو چھپا کر (کسی مصلحت کی وجہ سے) شرک کا اظہار کیا تو انہیں بھی پروردگارعالم نے دوہرا اجر دیا ہے

گزشتہ دلیلوں کی روشنی میں آفتاب کی طرح واضح و روشن ہوجاتا ہے کہ

جناب ابوطالب درج ذیل بلند مقامات پر فائز تھے:

۱۔خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر محکم ایمان.

۲۔پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بے لوث حامی و ناصر اور راہ اسلام کے فداکار.

۳۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بے نظیر محبوب.

۴۔خداوند عالم کے نزدیک عہدۂ شفاعت کے مالک.

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۷۰ (طبع دوم )الحجة ص۱۱۵.

۲۳۴

اس اعتبار سے ثابت ہوجاتا ہے کہ جناب ابوطالب پر لگائی گئی نسبتیںباطل اور بے بنیاد ہیں .جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

۱۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، جناب امیرالمومنین ، ائمہ معصومین٪ اور اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہ میں جناب ابوطالب ایک باایمان شخص تھے.

۲۔جناب ابوطالب پر کفر کا الزام باطل اور بے بنیاد ہے اور ان پر یہ تہمت بنی امیہ اور بنی عباس (جو ہمیشہ سے اہل بیت٪ اور جناب ابوطالب کی اولاد سے جنگ کرتے آئے ہیں ) کے اشاروں پر بعض سیاسی مفادات کے تحت لگائی گئی تھی

اب ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کا جائزہ لیں جو ''حدیث ضحضاح''کے نام سے مشہور ہے اور جسے بعض لوگوں نے سند قرار دیتے ہوئے جناب ابوطالب کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے ہم یہاں قرآنی آیات ، سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عقل کی روشنی میں اس حدیث کے باطل اور بے بنیاد ہونے کے دلائل پیش کریں گے:

۲۳۵

حدیث ضحضاح کا تحقیقی جائزہ

بعض مصنفین جیسے بخاری اور مسلم نے ''سفیان بن سعید ثوری'' ''عبدالملک بن عمیر'' ''عبداللہ العزیز بن محمددراوردی'' ''لیث بن سعد'' جیسے راویوں سے نقل کرتے ہوئے ان دو اقوال کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منسوب کیا ہے:

الف:''وجدته ف غمراتٍ من النار فأخرجته الی ضحضاح'' .

میں نے انہیں آگ کے انبار میں پایا تو انہیں ضحضاح( ۱ ) کی طرف منتقل کردیا۔

ب:''لعلہ تنفعہ شفاعت یوم القیامة فیجعل ف ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغل منہ دماغہ ''

قیامت کے دن شاید میری شفاعت ابوطالب کے کام آجائے تاکہ انہیں ضحضاح میں ڈال دیا جائے جس کی گہرائی پاؤں کے ٹخنوں تک ہوگی اور جس میں ان کا (معاذاللہ) دماغ کھولے گا( ۲ )

اگرچہ جناب ابوطالب کے ایمان سے متعلق گزشتہ روایات اور دلائل کی روشنی میں اس حدیث ضحضحاح کا باطل اور بے بنیاد ہونا اچھی طرح ثابت ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی اس مسئلے کی وضاحت کیلئے حدیث ضحضاح سے متعلق دو چیزوں کی تحقیق ضروری ہے :

۱۔اس حدیث کے سلسلہ سند کا باطل ہونا

۲۔اس حدیث کے متن کا کتاب خدا اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بر خلاف ہونا

____________________

(۱)''ضحضاح ''ایسے گڑھے کو کہتے ہیں جس کی گہرائی آدمی کے قد سے کچھ کم ہو.

(۲)صحیح بخاری جلد۵ ابواب مناقب باب قصہ ابوطالب ص۵۲ اور جلد ۸ کتاب الادب باب کنیة المشرک ص ۴۶طبع مصر.

۲۳۶

حدیث ضحضاح کے سلسلہ سند کا باطل ہونا

ہم نے بیان کیا تھا کہ اس حدیث کے راوی ''سفیان بن سعید ثوری''''عبدالملک بن عمیر'' ''عبدالعزیز بن محمددراوردی'' اور ''لیث بن سعد ''ہیں اب ہم ان راویوں کے سلسلے میں اہل سنت کے علمائے رجال کے نظریات کی تحقیق کریں گے:

الف: ''سفیان بن سعید ثوری''

ابوعبداللہ بن احمد بن عثمان ذھبی کا شمار اہل سنت کے بزرگ مرتبہ علمائے رجا ل میں ہوتا ہے انہوں نے سفیان بن سعید ثوری کے بارے میں یوں کہا ہے:''کان یدلس عن الضعفائ .''( ۱ )

سفیان بن سعید ثوری ضعیف راویوںکی گھڑی ہوئی حدیثیں نقل کرتا تھا.

ذہبی کا یہ کلام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سفیان ثوری ضعیف اور مجہول الحال قسم کے افراد سے حدیثیں نقل کیا کرتا تھا اس اعتبار سے اس کی نقل کی ہوئی حدیثوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے

____________________

(۱)میزان الاعتدال (ذہبی) جلد۲ ص۱۶۹طبع ۱ بیروت ۱۳۸۲ھ.

۲۳۷

ب:عبدالملک بن عمیر

اس کے بارے میں ذہبی نے بھی کہا ہے :

طال عمره وساء حفظه ، قال أبوحاتم لیس بحافظ تغیّر حفظه و قال أحمد: ضعیف یخلط و قال ابن معین : مخلط و قال ابن خراش کان شعبة لایرضاه و ذکر الکوسج عن أحمد أنه ضعفه جدًا .( ۱ )

اس کی عمر زیادہ ہوگئی تھی اور اس کا حافظہ کام نہیں کرتا تھا اور اسی طرح ابوحاتم نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ : اس کے اندر حدیثیں حفظ کرنے کی قدرت ختم ہوگئی تھی اور اس کی یاداشت جاتی رہی تھی اسی طرح احمد بن حنبل نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ضعیف تھا صحیح حدیث کو جعلی حدیث سے ملا کر بیان کرتا تھا اور ابن معین نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ صحیح اور غلط حدیثوں کو آپس میں ملا دیا کرتا تھا اورابن خراش نے بھی اس کے بارے میں کہا ہے کہ شعبہ بھی اس سے راضی نہ تھے اور کوسج نے احمد ابن حنبل سے یوں نقل کیا ہے کہ وہ عبدالملک بن عمیر کو نہایت ہی ضعیف قسم کا شخص شمار کرتے تھے.

گذشتہ اقوال کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے ''عبدالملک بن عمیر'' درج ذیل صفات کا مالک تھا:

____________________

(۱)میزان الاعتدال جلد۲ ص۶۶۰(طبع ۱، بیروت)

۲۳۸

۱۔اس کا حافظہ ختم ہوگیا تھا اور وہ بھول جاتا تھا

۲۔علم رجال کی اصطلاح میں وہ ایک ضعیف شخص تھا اور اسکی روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا.

۳۔بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا شخص تھا.

۴۔صحیح اور غلط کو آپس میں ملا کر بیان کرنے والا شخص تھا۔واضح ہے کہ مذکورہ صفات میں سے صرف ایک صفت بھی عبدالملک بن عمیر کو ضعیف اور ناقابل اعتماد شخص قرار دینے کیلئے کافی تھی جبکہ اسکے اندر تو یہ سارے نقائص جمع تھے.

ج:عبدالعزیز بن محمد دراوردی

اہل سنت کے علمائے رجال نے اسے حافظہ سے بے بہرہ اور بھول جانے والا ایسا شخص قرار دیا ہے کہ جس کی روایات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا. احمد بن حنبل نے عبدالعزیز بن محمد دراوردی کے بارے میں یہ کہا ہے : اِذا حدّث من حفظہ جاء ببواطیل.( ۱ )

جب بھی وہ اپنے حافظے سے کوئی روایت نقل کرتا ہے تو وہ باطل اور بے ہودہ اقوال سے پر ہوتی ہے

اسی طرح ابوحاتم نے اس کے بارے میں یہ کہا ہے:''لایحتج به'' ( ۲ ) اس کی

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص۶۳۴.

(۲)گذشتہ حوالہ.

۲۳۹

حدیث کے ذیعہ استدلال نہیں کیا جاسکتا .اور ابوزارعہ نے اسکے بارے میں ''سّء الحفظ''یعنی اس کا حافظہ صحیح نہیں تھا جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں( ۱ )

د:لیث بن سعد

اہل سنت کے علمائے رجال کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ راوی جن کے نام ''لیث'' ہیں وہ سب ایسے مجہول الحال یا ضعیف افراد ہیں جن کی نقل کی ہوئی احادیث پر عمل اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا( ۲ ) لیث بن سعد بھی انہی ضعیف اور لاپرواہ افراد میں سے تھا جو احادیث کے سننے اور ان کے راویوں سے لینے میں انتہائی لاپرواہی سے کام لیتے تھے.

یحیی بن معین نے ا سکے بارے میں کہا ہے :اِنّه کان یتساهل فى الشیوخ والسماع ( ۳ )

لیث بن سعد، افراد سے حدیث لینے اور سننے میں لاپرواہی کیا کرتا تھا.

''نباتی ''نے بھی اسے ضعیف افراد میں قرار دیا ہے اور اپنی کتاب ''التذلیل علی الکامل'' (جسے انہوں نے ضعیف افراد کی پہچان کے لئے لکھا ہے) میں ''لیث بن سعد''

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ ص ۶۳۴.

(۲)میزان الاعتدال جلد۳ ص ۴۲۰تا ۴۲۳ طبع ۱ ،بیروت.

(۳) گذشتہ حوالہ ص ۴۲۳.

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296