شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں26%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95750 / ڈاؤنلوڈ: 4204
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

حقیقت ماجرا:

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔

حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔

بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :

''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔

ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :

عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

۱۶۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!

جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوں کو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :

جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔

جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوں کی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔

افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!

۱۶۲

اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔

یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔

سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

صیحان بن صوحان کے بارے میں :

١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :

١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں :

''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں :

١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

۱۶۳

سیحان بن صو حان کے بارے میں :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :

١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :

١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)

٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)

کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔

٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔

٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

۱۶۴

صوحان کے بیٹوں کے نام :

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''

٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)

٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)

٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :

١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:

خیم (٢/٥١٠)

ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)

جیروت (٢/١٧٥)

صبرات (٣/٣٦٦)

ظہور (٣/٥٨٢)

اللبّان (٤/٣٤٥)

المر (٤/٤٩٥)

ینعب (٤/١٠٤١)

۱۶۵

چھٹا حصّہ:

ابو بکر کی مصاحبت کے سبب بننے والے اصحاب

یہ لوگ اس لئے اصحاب ہیں کہ :

٨٢۔شریک فزاری :نمائندہ کے طور پر ابوبکر کی خدمت پہنچا ہے ۔

٨٣۔ مسور بن عمرو: ابوبکر کے خط میں گواہ رہا ہے ۔

٨٤۔ معاویئہ عذری :. ابو بکر نے اس کے نام خط لکھا ہے

٨٥۔ ذویناق،و شہرذویناق: ابوبکر نے اس کو خط لکھا ہے ۔

٨٦۔معاویۂ ثقفی : ابو بکر کی سپاہ کا ایک افسر رہا ہے ۔

۱۶۶

٨٢واں جعلی صحابی شریک فزاری

ابن حجرکی ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

شریک فزاری :

سیف بن عمر نے اس کانام لیا ہے اور کہا ہے ، جب خالدین ولید طلیحہ کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو اسی زمانہ میں شریک فزاری نما ٰئندہ کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ ہم نے اس کی اس ملاقات کی داستان ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں بیان کی ہے ۔(ز)( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کے لئے سیف کا خلق کیا ہوا نسب :

سیف نے شریف کو ''فزاری ''سے نسبت دی ہے اور یہ ''فزارةبن ذبیا ن بن بغیض بن ۔۔۔نزاربن معدبن عدنان'' سے نسبت ہے

فزاریوں کا شجرہ ٔ نسب ابن حزم کی کتاب ''جمہرۂ انساب''میں بطور کا مل آیاہے لیکن اس میں شریک '' نام کا کوئی شخص کہیں پر دکھائی نہیں دیتا ۔

شریک کی داستان :

ابن حجر نے شریک کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے ، اس کے اشارہ کے پیش نظر نہ اس کی کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے اور نہ کسی اور کتاب میں یہ روایت ملتی ہے اور یہ عالم ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب خالدبن ولید '' بنی اسد '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو''خارجہ'' ایک دوسرے گروہ کے ہمراہ نمایندگی کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ۔ اس خبر میں شریک کا کہیں نام و نشان نہیں آیا ہے !

اسی طرح طبری نے بھی ''شریک '' کے بارے میں سیف کی روایت کو درج نہیں کیا ہے ۔ یہ صرف ابن حجر ہے جس نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے''شریک فزاری ''کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عالم نے اپنی کتاب کی جلد اول میں کسی اور ''شریک ''کا '' شریک غیر منسوب '' کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کے حالت پر روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ''شریک '' کے نام سے دو ہم نام صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، کہ ان میں سے ایک سیف کا خیالی اور جعلی صحابی ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہے ۔!!

۱۶۷

مصادر و مآخذ

شریک فزاری کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/١٦٢) تیسرا حصہ نمبر :٣٩٧٧

شریک غیر منسوب کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٤٩)

٢۔تاریخ بخاری (٢/٢٣٨) دوسرا حصہ

خارجہ بن حصن کے حالات:

١۔ ''اصابہ ''بن حجر (ا/٣٩٩)

فزارہ کا نسب:

''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٥٥۔٢٥٩)

٨٣واں جعلی صحابی مسور بن عمرو

ابن حجر نے اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

مسوربن عمرو:

سیف بن عمر نے طلحہ بن اعلم سے اور اس نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو عہد نامہ ابو بکر صدیقنے ''نجران '' کے باشندوں کے ساتھ طے کیا ، اس پر یہ صحابی بطور گواہ تھا ۔

۱۶۸

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیصاب'' سے دریافت کیا ہے۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مذکورہ روایت کو طبری نے سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ''اخابثِ عک'' کی داستان میں تفصیل کے ساتھ یوں درج کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر ''نجران '' کے باشندوں کو ملی ،توانہوں نے ایک وفد منتخب کر کے نمائندہ کے طور پر ابوبکرکے پاس بھیجا تاکہ خلیفہ کے ساتھ تجدید عہد کریں ۔ ''نجران'' کے باشندوں میں ''بنی افعی '' کے چالیس ہزار جنگجوتھے وہ ''بنی حارث''سے پہلے وہاں ساکن ہوئے تھے ۔

اس گروہ کے افراد ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ، اوراپنے مطالبات بیان کئے ۔ابوبکر نے ان کے مطالبات منظور کئے اور یوں لکھا :

بسم اﷲالر حمن الر ّحیم

یہ پیمان بندہ ٔ خدا ابو بکر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی طرف سے نجران کے باشندوں کے لئے ہے۔ وہ نجران کے باشندوں کواپنی اور اپنے لشکر کی پناہ میں قرار دیتا ہے اور جس چیز کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں اپنے ذمہ لیا تھا ، سب کی تائید کر تاہے ، مگر وہ چیز جس کے بارے میں خود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائے عزوجل کے حکم سے ان کی سرزمینوں میں اور دوسری عرب سرزمینوں میں اس سے عدول کیاہوکیونکہ ایک علاقہ میں دو قوانین راہلج نہ ہو سکتے ۔

اس بنا پر نجران کے باشندے اپنی جان ، قومیت ،تمام اموال و متعلقات ، جنگجوؤں ، حاضر و غائب ، پادریوں ، وراہبوں ،خرید و فروش جس صورت میں انجام پائے ، اورجو کچھ کم و زیادجو اختیار میں رکھتے ہیں سب کو اپنی پناہ میں لیتا ہے اور امان میں ہونے اعلان کرتاہے ۔ انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا ہے اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، کہ اگر اسے اداکیا ، تو ان سے ،مواخذہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ان سے ان کے مال کا دسواں حصہ ضبط کیا جائے گا اور نہ پادری تبدیل ہوگا اور نہ کوئی راہب۔ ابوبکر ان تمام چیزوں کو نجران کے باشندوں کے لئے قبول کرتا ہے جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے رسما ً قبول فرمایا ہے ، اور جو اس پیمان نامہ میں ذکرہوا ہے اور محمدرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوردوسرے مسلمانوں نے قبول کیاہے ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔ ضروری راہنما ئیوں اورنظم وانتظام چلا نے میں ان کے حق کو اور ان دیگر حقوق کو قبول کرتاہے ۔

۱۶۹

مندجہ بالا مطالب موادتایئد ہیں ۔ دستخط مسوربن عمر و و عمرو غلام ابو بکر نئی سطر سے جیسا کہ ہم نے کہا ، طبری نے اس پیمان نامہ کو درج کیا ہے لیکن اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کے بر عکس ابن حجر نے ابوبکر کے پیمان نامہ کی سند کا ذکر کیا ہے لیکن اصل خط کو ثبت نہیں کیا ہے۔

ابن فتحون نے بھی سیف کی اس روایت پر اعتماد کر کے ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''کے ضمیمہ میں ''مسور'' کے وجود پر باور کر کے اس کے حالات لکھے ہیں

جیسا کہ گزرا ، ابن حجر نے بھی سیف کی اسی روایت پر اعتماد کر کے ''مسور'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قراردیا ہے اور اس کی دلیل یہ تھی کہ سیف کے کہنے کے مطابق ''مسور''نے ابوبکر کے نجران کے باشندوں کے ساتھ کئے گئے عہدنامہ پر گواہی اور تایئد کی ہے ۔

ابن حجر نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے ، چونکہ سیف نے اپنے جعل کئے گئے اس صحابی کا نسب مشخص نہیں کیا ہے ، اسلئے ابن حجر نے بھی اس حد سے نہ گزر کر اس کے لئے کوئی نسب درج نہیں کیا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ ١٢٦ ھ میں سیف کا ہم عصر ، ''مسوربن عمربن عباد'' نامی ایک شخص بصرہ میں زندگی بسرکر تا تھا اور اس قدر مشہور ومعروف شخص تھا کہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسے درج کیاہے ۔ اس شخص کا دادا یعنی ''عباد بن حصین حبطی''اپنے زمانہ کا ایک ناموار شہسوار تھا ۔ وہ بصرہ میں ''عبداﷲ زبیر '' کی حکومت کے دوران پلیس کا افسرتھا ۔ ایران کا '' آبادان''اسی کے نام پر رکھاگیا ہے ۔

اب یہ معلوم نہیں ہے کہ سیف نے اسی ''مسوربن عمروبن عباد ''کا نام اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے عاریت لیا ہے تاکہ ابوبکر کے عہدنامہ میں اسے شاہد قرار دے یا یوں ہی ایک نام اس کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے اپنی خیالی مخلوق پر وہ نام رکھ لیا ہے!!

۱۷۰

مصادر و مآخذ

مسور بن عمرو کے حالات :

١۔ ''اصابہ ''ابن حجر (٣/٣٩٩) حصہ اول نمبر: ٧٩٩٤

٢۔تاریخ طبری (١/١٩٨٨)کہ سیف کی روایت اور ابوبکر کا خط درج کیا ہے ۔

مسور بن عمروبن عباد کے حالات :

١۔''تاریخ ابن اثیر'' (٥/٢٤٣)

عباد بن حصین کے حالات:

١۔''معارف '' ابن قتیبہ (١٨٢)

٢۔''محبر'' (٢٢٢،٤٤٤)

٣۔''عیوان الاخبار'' ابن قتیبہ (١٢٨)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''عبادان''

٥۔''فتوح البلدان'' بلا ذری (٤٥٣)

مسور بن عمروعباد کا نسب:

''جمہرہ ٔ انساب'' ابن حزم (٢٠٧)

۱۷۱

٨٤ واں جعلی صحابی معاویہ عذری

ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

معاویہ عذری :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :

تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔

لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔

۱۷۲

معاویہ عذری کی داستان :

جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''(۱) کے حالات میں بیان کیا ہے۔

سیف کی اس روایت میں آیا تھا:

قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔

اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!

یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں

____________________

١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)

۱۷۳

استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)

جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

مصادر و مآخذ

معاویہ عذری کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧

سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)

٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)

بنی عذرہ کا نسب

١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)

٨٥واں جعلی صحابی ایک جعلی صحابی کے دو چہرے

شہر ذویناف (ذویناق)

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :

اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)

اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :

''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :

ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)

۱۷۴

ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔

طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔

ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔

اس خط کا متن یوں ہے :

ابوبکر ،جانشین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔

امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میں لے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے

ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔

جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں

۱۷۵

ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.

قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔

حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں :

دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔

داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو

فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :

بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!

۱۷۶

فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔

اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا

لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں '' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔

قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی

قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی

اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔

قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں

تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔

۱۷۷

فیروز کی قیس سے جنگ:

جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''

''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔

ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔

عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میں دوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔

اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔

عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :

تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاں برداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔

۱۷۸

قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :

میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔

میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔

میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔

داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔

اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج

اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!

طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان

سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس

پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :

قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟

اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا

لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

۱۷۹

اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:

سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :

١۔ مستینر بن یزید

٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

اصل حقیقت:

قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :

قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔

قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''

قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

خاتون کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ہے میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے اس کے ماں اور باپ دونوں کا انتقال ہوچکا ہے اس کی سرپرستی میں نے اور اس کے چچا ابوطالب نے اپنی ذمہ لی ہے

جناب عبدالمطلب کے اس کلام سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اس یتیم بچے

کے روشن مستقبل سے اچھی طرح باخبر تھے اس لئے انہوں نے اس بچے کو اپنے سب سے عزیز بیٹے جناب ابوطالب کی سرپرستی میں دیا تھا اور اس عظیم سعادت کو کسی اور کے نصیب میں نہیں آنے دیا تھا اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب ابوطالب اپنے مومن اور موحد والد کی نگاہ میں ایمان کے اس درجہ پر فائز تھے کہ صرف وہی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سرپرستی کی لیاقت رکھتے تھے.( ۱ )

اب ہم مزید وضاحت کے لئے جناب ابوطالب کے ایمان پر چند واضح دلیلیں پیش کرتے ہیں :

____________________

(۱)زیادہ وضاحت کے لئے ان کتابوں ''سیرہ حلبی'' جلد۱ ص ۱۳۴ طبع مصر اور ''سیرہ ابن ہشام''جلد۱ ص۱۸۹ ،طبع بیروت اور ''ابوطالب مومن قریش'' ص ۱۰۹ طبع بیروت اور'' طبقات کبریٰ''جلد ۱ ص۱۱۷ طبع بیروت کا مطالعہ مفید ہوگا.

۲۲۱

جناب ابوطالب کے مومن ہونے کی دلیلیں

۱۔جناب ابوطالب کے علمی اور ادبی آثار

مسلمان مورخین اور علماء نے جناب ابوطالب کے بہت سے بلیغ قصیدے اور متعدد قسم کے علمی و ادبی آثار نقل کئے ہیں جو ان کے محکم ایمان کی دلیل ہیں یہاں ہم ان کثیر آثار میں سے بعض کا تذکرہ کرتے ہیں :

لیعلم خیار الناس أن محمدًا

نبى کموسیٰ والمسیح ابن مریم

اتانا بهدٍ مثل ما أتیا به

فکل بأمر اللّه یهد و یعصم( ۱ )

شریف لوگ یہ جان لیں کہ موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم کی طرح محمد بھی نبی خدا ہیں وہ ہمارے لئے اسی طرح کا پیغام ہدایت لائے ہیں جیسا کہ یہ دو نبی لائے تھے پس سارے نبی ، خدا کے حکم سے ہدایت کرتے ہیں اور گناہوں سے روکتے ہیں

ألم تعلموا أنّا وجدنا محمداً

رسولاً کموسیٰ خط فى أول الکتب

و أن علیه فى العباد محبة

ولا حیف فیمن خصه اللّه بالحب( ۲ )

____________________

(۱)''کتاب الحجة''ص ۵۷ اور اسی کے مثل مستدرک جلد ۲ ص ۶۲۳طبع بیروت میں بھی موجود ہے.

(۲)تاریخ ابن کثیر جلد ۱ ص ۴۲ ،اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص۷۲ (طبع دوم)

۲۲۲

کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے موسیٰ کی طرح محمد(ص) کو بھی رسول پایا ہے جن کا ذکر پہلی (آسمانی) کتابوں میں بھی آیا ہے ؟ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور جس شخص کے دل کو خداوندعالم نے انکی محبت کیلئے چن لیا ہے اس پر افسوس نہ کیا جائے

لقد أکرم اللّه النبّى محمّداً

فأکرم خلق اللّه فى الناس أحمد

و شقّ له من اسمه لیجله

فذوالعرش محمود وهذا محمد( ۱ )

خداوندعالم نے اپنے نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مکرم قرار دیا ہے اس اعتبار سے وہ مخلوقات خدا میں سب سے زیادہ مکرم ہیں پروردگار نے ان کے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے پس صاحب عرش محمود ہے اور یہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں

واللّه لن یصلوا اِلیک بجمعهم

حتی أوسد ف التراب دفینا

فاصدع بأمرک ما علیک غضاضة

وابشر بذلک و قر منک عیونا

و دعوتن و علمت أنک ناصح

ولقد دعوت وکنت ثم أمینا

ولقد علمت بأنّ دین محمد

من خیر أدیان البریّة دینا( ۲ )

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۱۴ ص ۷۸ طبع دوم، تاریخ ابن عساکر جلد ۱ ص ۲۷۵،تاریخ ابن کثیر جلد ۱ صفحہ ۲۶۶، تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۲۵۴.

(۲)خزانہ الادب بغدادی جلد۱ ص ۲۶۱ اور تاریخ ابن کثیر جلد ۳ ص ۴۲ ، اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد ۱۴ ص ۵۵ (طبع دوم) اور فتح الباری جلد۷ ص ۱۵۳ .۱۵۵. اور الاصابہ جلد۴ ص ۱۱۶ (طبع مصر) ۱۳۵۸ھ. اور دیوان ابی طالب ص ۱۲.

۲۲۳

( اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )خدا کی قسم ہرگز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک نہ پہنچ پائیں گے یہاں تک کہ میں خاک تلے دفن ہوجاؤں پس آپ کو جس چیز کا حکم ملا ہے بے خوف و خطر اس کا اظہار کریں اور بشارت دے کر آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے اپنے دین کی طرف دعوت دی ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے خیر خواہ ہیں بے شک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی دعوت میں امانت دار ہیں میں نے یہ جان لیا ہے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کے سارے دینوں سے بہتر ہے.

یا شاهد اللّه علىّ فاشهد

اِنّ علیٰ دین النبّ أحمد

من ضل فى الدین فنّ مهتد( ۱ )

اے خدا کے مجھ پر گواہ آپ گواہی دیجئے کہ میں احمد، رسول خدا کے دین پر ہوں کوئی اپنے دین میں گمراہ ہو تو ہو ،میں تو ہدایت یافتہ ہوں

و:جناب ابوطالب نے اپنی بابرکت زندگی کے آخری ایام میں قریش کے سرداروں کو جمع کر کے ان اشعار کے ذریعہ انہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مکمل طور پر حمایت کرنے کی دعوت دی تھی:

أوص بنصر الخیر أربعة

ابن علیًا و شیخ القوم عباسا

و حمزة الأسد الحام حقیقه

وجعفر أن تذودوا دونه الناسا

کونوا فدائً لکم أم وماولدت

فى نصر أحمد دون الناس اتراسا

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد ۱۴ ص۷۸ اور دیوان ابوطالب ص ۷۵.

۲۲۴

میں چار لوگوں کوسب سے افضل نبی کی مدد کرنے کی تاکید کرتا ہوں اپنے بیٹے علی ، اپنے قبیلے کے بزرگ عباس ، شیر خدا اور مدافع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حمزہ اور( اپنے بیٹے )جعفر کو نصیحت کرتا ہوں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمیشہ ناصر و مددگار رہیں اور تم لوگ (میری ماں اور ان کی تمام اولادیں تم سب پر قربان ہوں) احمد کی مدد کے لئے لوگوں کے سامنے سپر بن جانا.( ۱ )

ہر روشن ضمیر اور انصاف پسند شخص ان بلیغ ادبی آثار( جو صراحت کے ساتھ جناب ابوطالب کے خدا اور رسول پر ایمان کامل کی گواہی دے رہے ہیں ) کو دیکھ کر شیعوں کے جناب ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں نظرئیے کو صحیح مان لے گا اور چند سیاسی اہداف کی خاطر بعض مصنفین کی طرف سے مومن قریش ، عم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کے سخت حالات میں شریعت کے محافظ جناب ابوطالب پر لگائی جانے والی تہمتوں پر افسوس کرے گا.

۲۔جناب ابوطالب کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نیک سلوک ان کے ایمان کی علامت ہے.

تمام مشہورمسلمان مورخین نے جناب ابوطالب کی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں

____________________

(۱)متشابہات القرآن ، (ابن شہر آشوب) سورہ حج کی اس آیت (ولینصرن اللہ من ینصرہ)کی تفسیر سے ماخوذ.

۲۲۵

فداکاریوں کو نقل کیا ہے اور یہ چیز جناب ابوطالب کے محکم ایمان کی واضح دلیل ہے کہ جناب ابوطالب نے اسلام کی حمایت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی حفاظت کے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تین سال تک اپنا گھر چھوڑ کر ''شعب ابی طالب'' میں زندگی گزاری تھی اور انہوں نے اپنی اس زندگی کو قبیلہ قریش کی سرداری پر ترجیح دی تھی اور مسلمانوں کی اقتصادی پابندی کے خاتمے تک انتہائی سخت حالات ہونے کے باوجود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ رہ کر تمام مشکلات کو برداشت کیاتھا.( ۱ )

اس سے بڑھ کر یہ کہ جناب ابوطالب نے اپنے عزیز ترین فرزند حضرت علی ـ کو بھی حضوراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کرنے اور صدر اسلام کی مشکلات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھ نہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا

ابن ابی الحدید معتزلی نے نہج البلاغہ کی شرح میں جناب ابوطالب کے ان جملوں کو نقل کیا ہے جو انہوں نے حضرت علی ـ سے کہے تھے ملاحظہ ہو:

''پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہیں صرف نیکی کی طرف دعوت دیتے ہیں لہذا کبھی ان کا ساتھ نہ چھوڑنا''( ۲ )

____________________

(۱)اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں: ۱۔ سیرہ حلبی جلد ۱ ص ۱۳۴ (طبع دوم مصر) ۲۔تاریخ الخمیس جلد ۱ ص ۲۵۳ اور ۲۵۴ (طبع ۳ بیروت) ۳۔سیرہ ابن ہشام جلد۱ ص ۱۸۹ طبع بیروت.۴۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۵۲ طبع دوم) ۵۔ (تاریخ یعقوبی اول جلد۲ طبع نجف) ۶۔(الاصابہ جلد۴ ص ۱۱۵ طبع مصر) ۷۔طبقات کبریٰ جلد۱ ص۱۱۹طبع بیروت ۱۳۸۰ھ.

(۲)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص ۵۳طبع دوم.

۲۲۶

اس اعتبار سے جناب ابوطالب کی وہ خدمات جو آپ نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں انجام دی ہیں اور آپ کی اسلام کے دفاع میں بے لوث فداکاریاں آپ کے ایمان کی واضح گواہ ہیں

اسی بنیاد پر عالم اسلام کے بزرگ دانشور (ابن ابی الحدید) نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور دین اسلام کی خدمت کے سلسلے میں جناب ابوطالب کے زندہ کردار سے متعلق یہ اشعار کہے ہیں :

ولولا أبوطالب و ابنه

لما مثّل الدین شخصًا فقاما

فذاک بمکة آویٰ و حام

وهذا بیثرب جسّ الحماما

وما ضرّمجد أب طالب

جهول لغ أو بصیر تعامیٰ( ۱ )

اگر ابوطالب اور ان کے بیٹے( حضرت علی )نہ ہوتے تو ہرگز دین اسلام کو استحکام حاصل نہ ہوتا اابوطالب نے مکہ میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پناہ دی تھی اور ان کی حمایت کی تھی اور ان کے بیٹے نے یثرب میں (پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کے لئے)اپنی جان کی بازیاں لگائی تھیں.

۳۔ابوطالب کی وصیت ان کے ایمان کی گواہ ہے

عالم اسلام کے مشہور مورخین جیسے ''حلبی شافعی''نے اپنی کتاب سیرۂ حلبی میں اور

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید)جلد۱۴ ص ۸۴ طبع ۳.

۲۲۷

''محمد دیار بکری''نے اپنی کتاب تاریخ الخمیس میں لکھا ہے کہ جناب ابوطالب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے قبیلے سے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کے سلسلے میں یہ وصیت کی تھی:

یا معشر قریش کونوا له ولاة، ولحزبه حماة ، واللّه

لایسلک أحد منکم سبیله اِلاّ رشد،ولا یأخذ أحد

بهدیه اِلاّ سعد، ولوکان لنفس مدة ولأجل تأخر لکففت

عنه الهزائز، ولدفعت عنه الدواه، ثم هلک( ۱ )

اے قبیلہ قریش!تم سب مصطفی کے محب اور ان کے ماننے والوں کے حامی و ناصر بن جاؤ خدا کی قسم تم میں سے جو شخص بھی ان کے نقش قدم پر چلے گا وہ ضرور ہدایت پائے گا اور جو کوئی ان سے ہدایت حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوجائے گا اگر میری زندگی باقی رہتی اور موت نے مجھے مہلت دی ہوتی تو میں یقینا فتنوں اور سختیوں سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محافظت کرتا اور پھر یہ آخری کلمات کہتے کہتے جناب ابوطالب نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا.

۴۔پیغمبر

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ابوطالب سے محبت ان کے ایمان کی دلیل ہے

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف موقعوں پر اپنے چچا ابوطالب کا احترام و اکرام کیا ہے اور ان

____________________

(۱)تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۳۰۰ اور ۳۰۱، طبع بیروت اور سیرہ حلبی جلد۱ص ۳۹۱(طبع مصر)

۲۲۸

سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ہے یہاں ہم ان میں سے صرف دو کا تذکرہ کرتے ہیں :

الف:بعض مورخین نے اپنی کتابوں میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی درج ذیل روایت نقل کی ہے جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب عقیل بن ابی طالب سے مخاطب ہوکر یوں فرمایا ہے:

ان احبک حبّین حبًّا لقرابتک منّ و حبًّا لما کنت أعلم من حبّ عم اِیّاک ( ۱ )

میں تم سے دوہری محبت کرتا ہوںایک تمہاری مجھ سے قریبی رشتے داری کی وجہ سے ہے اور دوسری محبت اس وجہ سے ہے کہ میں جانتا ہوں ابوطالب تم سے بہت محبت کرتے تھے

ب:حلبی نے اپنی کتاب سیرت میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ روایت نقل کی ہے جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کی تعریف فرمائی ہے :

مانالت قریش منّ شیئًا أکرهه (أ أشد الکراهة)حتی مات أبوطالب .( ۲ )

جب تک ابوطالب زندہ رہے مجھے قریش کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچا سکے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب سے محبت کرنا اور ان کی خدمات کو سراہنا جناب ابوطالب

____________________

(۱)تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۱۶۳(طبع بیروت) الاستیعاب جلد۲ ص۵۰۹

(۲)سیرہ حلبی جلد۱ ص ۳۹۱(طبع مصر).

۲۲۹

کے محکم ایمان کی واضح دلیل ہے کیونکہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف مومنین ہی سے محبت رکھتے تھے اور مشرکین و کفار سے سخت گیری کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:

(مُحَمَّد رَسُولُ ﷲِ وَالَّذِینَ مَعَهُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَهُمْ ...)( ۱ )

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ہیں اور آپس میں انتہائی مہربان ہیں

ایک اورجگہ فرماتا ہے :

(لاَتَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ ﷲ وَرَسُولَهُ وَلَوْ کَانُوا آبَائَهُمْ َوْا َبْنَائَهُمْ َوْ ا ِخْوَانَهُمْ َوْ عَشِیرَتَهُمْ اُوْلٰئِک کَتَبَ فىِ قُلُوبِهِمْ الْاِیمَانَ ... )( ۲ )

آپ کو کبھی ایسے افراد نہیں ملیں گے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے (بھی) ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوںسے محبت رکھتے ہوں چاہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے.

ان آیات کا جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ابوطالب سے محبت اور مختلف موقعوں پران کی ستائش سے موازنہ کیا جائے تو اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ جناب ابوطالب ایمان کے اعلی ترین درجہ پر فائز تھے

____________________

(۱)سورہ فتح آیت:۲۹.

(۲)سورہ مجادلہ آیت: ۲۲.

۲۳۰

۵۔حضرت علی ـ اور اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی

حضرت امیرالمومنین ـ اوراصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے محکم ایمان کی گواہی دی ہے ملاحظہ ہو:

الف:جس وقت حضرت امیرالمومنین علی ـ کی خدمت میں ایک شخص نے جناب ابوطالب پر ایک ناروا تہمت لگائی تو حضرت علی ـ کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں ہوگئے اور آپ نے فرمایا:

مَه ، فضّ اللّه فاک والذ بعث محمّدًا بالحقّ نبیًّا لو شفع أب ف کل مذنب علیٰ وجه الأرض لشفعه اللّه .( ۱ )

چپ رہ! اللہ تیرے منہ کو توڑ دے مجھے قسم ہے اس خدا کی جس نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برحق نبی قرار دیا ہے اگر میرے والد (ابوطالب)روئے زمین کے سارے گناہ گاروں کی شفاعت کرنا چاہیں تو بھی پروردگار ان کی شفاعت کو قبول کرے گا

ایک اورجگہ فرماتے ہیں :

____________________

(۱)الحجة ص ۲۴.

۲۳۱

کان والله ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب مؤمنًا مسلمًا یکتم اِیمانه مخافة علیٰ بن هاشم أن تنابذها قریش .( ۱ )

خدا کی قسم ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب مومن اور مسلمان تھے اور اپنے ایمان کوقریش کے کفار سے مخفی رکھتے تھے تاکہ وہ بنی ہاشم کو ستا نہ سکیں.

حضرت علی ـکے یہ ارشادات نہ صرف جناب ابوطالب کے ایمان کی تائید کرتے ہیں بلکہ ان کو ایسے اولیائے خدا کی صف میں کھڑا کردیتے ہیں جو پروردگار عالم کے اذن سے شفاعت کا حق رکھتے ہیں

ب: جناب ابوذر غفاری نے جناب ابوطالب کے بارے میں کہا ہے:

واللّه الذى لااِله اِلا هو ما مات ابوطالبٍ حتیٰ أسلم .( ۲ )

قسم ہے اس خد اکی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ابوطالب اسلام لانے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں

____________________

(۱)الحجة ص ۲۴.

(۲)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص۷۱(طبع دوم).

۲۳۲

ج:عباس بن عبدالمطلب اور ابوبکر بن ابی قحافہ سے بھی بہت سی سندوں کے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے :

اِنّ أباطالب مامات حتیٰ قال: لااله الا اللّه محمد رسول اللّه .( ۱ )

بے شک ابوطالب ''لاالہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ''کہنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے ہیں

۶۔ابوطالب اہل بیت کی نگاہ میں

ائمہ معصومین ٪ نے جناب ابوطالب کے ایمان کو صاف لفظوں میں بیان فرمایا ہے اور مختلف موقعوںپر پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فداکار کا دفاع کیا ہے یہاں پر ہم ان میں سے صرف دو نمونوں کا تذکرہ کرتے ہیں :

الف:امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں :

لووضع اِیمان أب طالبٍ ف کفة میزان و اِیمان هذا الخلق ف الکفة الأخری لرجح اِیمانه .( ۲ )

اگر ابوطالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور تمام مخلوقات کے ایمان کو اس کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے

تو ایمان ابوطالب ان کے ایمان سے بھاری ہوگا.

____________________

(۱)الغدیر ، جلد ۷ ص۳۹۸ تفسیر وکیع سے نقل کرتے ہوئے (طبع۳ بیروت ۱۳۷۸ھ).

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۶۸ (طبع دوم ) الحجة ص۱۸.

۲۳۳

ب:امام جعفرصادق ـ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل فرماتے ہیں :

اِنّ أصحاب الکهف أسرّوا الایمان و أظهروا الکفر فآتاهم اللّه أجرهم مرّتین و اِنّ أباطالب أسرّ الایمان و أظهر الشرک فآتاه اللّه أجره مرتین .( ۱ )

اصحاب کہف (چند مصلحتوں کی وجہ سے) اپنے ایمان کو چھپا کر کفر کا اظہار کرتے تھے تو پروردگار عالم نے انہیں دہرا اجر عطا فرمایا تھا. ابوطالب نے بھی اپنے ایمان کو چھپا کر (کسی مصلحت کی وجہ سے) شرک کا اظہار کیا تو انہیں بھی پروردگارعالم نے دوہرا اجر دیا ہے

گزشتہ دلیلوں کی روشنی میں آفتاب کی طرح واضح و روشن ہوجاتا ہے کہ

جناب ابوطالب درج ذیل بلند مقامات پر فائز تھے:

۱۔خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر محکم ایمان.

۲۔پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بے لوث حامی و ناصر اور راہ اسلام کے فداکار.

۳۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بے نظیر محبوب.

۴۔خداوند عالم کے نزدیک عہدۂ شفاعت کے مالک.

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۷۰ (طبع دوم )الحجة ص۱۱۵.

۲۳۴

اس اعتبار سے ثابت ہوجاتا ہے کہ جناب ابوطالب پر لگائی گئی نسبتیںباطل اور بے بنیاد ہیں .جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

۱۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، جناب امیرالمومنین ، ائمہ معصومین٪ اور اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہ میں جناب ابوطالب ایک باایمان شخص تھے.

۲۔جناب ابوطالب پر کفر کا الزام باطل اور بے بنیاد ہے اور ان پر یہ تہمت بنی امیہ اور بنی عباس (جو ہمیشہ سے اہل بیت٪ اور جناب ابوطالب کی اولاد سے جنگ کرتے آئے ہیں ) کے اشاروں پر بعض سیاسی مفادات کے تحت لگائی گئی تھی

اب ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کا جائزہ لیں جو ''حدیث ضحضاح''کے نام سے مشہور ہے اور جسے بعض لوگوں نے سند قرار دیتے ہوئے جناب ابوطالب کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے ہم یہاں قرآنی آیات ، سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عقل کی روشنی میں اس حدیث کے باطل اور بے بنیاد ہونے کے دلائل پیش کریں گے:

۲۳۵

حدیث ضحضاح کا تحقیقی جائزہ

بعض مصنفین جیسے بخاری اور مسلم نے ''سفیان بن سعید ثوری'' ''عبدالملک بن عمیر'' ''عبداللہ العزیز بن محمددراوردی'' ''لیث بن سعد'' جیسے راویوں سے نقل کرتے ہوئے ان دو اقوال کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منسوب کیا ہے:

الف:''وجدته ف غمراتٍ من النار فأخرجته الی ضحضاح'' .

میں نے انہیں آگ کے انبار میں پایا تو انہیں ضحضاح( ۱ ) کی طرف منتقل کردیا۔

ب:''لعلہ تنفعہ شفاعت یوم القیامة فیجعل ف ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغل منہ دماغہ ''

قیامت کے دن شاید میری شفاعت ابوطالب کے کام آجائے تاکہ انہیں ضحضاح میں ڈال دیا جائے جس کی گہرائی پاؤں کے ٹخنوں تک ہوگی اور جس میں ان کا (معاذاللہ) دماغ کھولے گا( ۲ )

اگرچہ جناب ابوطالب کے ایمان سے متعلق گزشتہ روایات اور دلائل کی روشنی میں اس حدیث ضحضحاح کا باطل اور بے بنیاد ہونا اچھی طرح ثابت ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی اس مسئلے کی وضاحت کیلئے حدیث ضحضاح سے متعلق دو چیزوں کی تحقیق ضروری ہے :

۱۔اس حدیث کے سلسلہ سند کا باطل ہونا

۲۔اس حدیث کے متن کا کتاب خدا اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بر خلاف ہونا

____________________

(۱)''ضحضاح ''ایسے گڑھے کو کہتے ہیں جس کی گہرائی آدمی کے قد سے کچھ کم ہو.

(۲)صحیح بخاری جلد۵ ابواب مناقب باب قصہ ابوطالب ص۵۲ اور جلد ۸ کتاب الادب باب کنیة المشرک ص ۴۶طبع مصر.

۲۳۶

حدیث ضحضاح کے سلسلہ سند کا باطل ہونا

ہم نے بیان کیا تھا کہ اس حدیث کے راوی ''سفیان بن سعید ثوری''''عبدالملک بن عمیر'' ''عبدالعزیز بن محمددراوردی'' اور ''لیث بن سعد ''ہیں اب ہم ان راویوں کے سلسلے میں اہل سنت کے علمائے رجال کے نظریات کی تحقیق کریں گے:

الف: ''سفیان بن سعید ثوری''

ابوعبداللہ بن احمد بن عثمان ذھبی کا شمار اہل سنت کے بزرگ مرتبہ علمائے رجا ل میں ہوتا ہے انہوں نے سفیان بن سعید ثوری کے بارے میں یوں کہا ہے:''کان یدلس عن الضعفائ .''( ۱ )

سفیان بن سعید ثوری ضعیف راویوںکی گھڑی ہوئی حدیثیں نقل کرتا تھا.

ذہبی کا یہ کلام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سفیان ثوری ضعیف اور مجہول الحال قسم کے افراد سے حدیثیں نقل کیا کرتا تھا اس اعتبار سے اس کی نقل کی ہوئی حدیثوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے

____________________

(۱)میزان الاعتدال (ذہبی) جلد۲ ص۱۶۹طبع ۱ بیروت ۱۳۸۲ھ.

۲۳۷

ب:عبدالملک بن عمیر

اس کے بارے میں ذہبی نے بھی کہا ہے :

طال عمره وساء حفظه ، قال أبوحاتم لیس بحافظ تغیّر حفظه و قال أحمد: ضعیف یخلط و قال ابن معین : مخلط و قال ابن خراش کان شعبة لایرضاه و ذکر الکوسج عن أحمد أنه ضعفه جدًا .( ۱ )

اس کی عمر زیادہ ہوگئی تھی اور اس کا حافظہ کام نہیں کرتا تھا اور اسی طرح ابوحاتم نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ : اس کے اندر حدیثیں حفظ کرنے کی قدرت ختم ہوگئی تھی اور اس کی یاداشت جاتی رہی تھی اسی طرح احمد بن حنبل نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ضعیف تھا صحیح حدیث کو جعلی حدیث سے ملا کر بیان کرتا تھا اور ابن معین نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ صحیح اور غلط حدیثوں کو آپس میں ملا دیا کرتا تھا اورابن خراش نے بھی اس کے بارے میں کہا ہے کہ شعبہ بھی اس سے راضی نہ تھے اور کوسج نے احمد ابن حنبل سے یوں نقل کیا ہے کہ وہ عبدالملک بن عمیر کو نہایت ہی ضعیف قسم کا شخص شمار کرتے تھے.

گذشتہ اقوال کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے ''عبدالملک بن عمیر'' درج ذیل صفات کا مالک تھا:

____________________

(۱)میزان الاعتدال جلد۲ ص۶۶۰(طبع ۱، بیروت)

۲۳۸

۱۔اس کا حافظہ ختم ہوگیا تھا اور وہ بھول جاتا تھا

۲۔علم رجال کی اصطلاح میں وہ ایک ضعیف شخص تھا اور اسکی روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا.

۳۔بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا شخص تھا.

۴۔صحیح اور غلط کو آپس میں ملا کر بیان کرنے والا شخص تھا۔واضح ہے کہ مذکورہ صفات میں سے صرف ایک صفت بھی عبدالملک بن عمیر کو ضعیف اور ناقابل اعتماد شخص قرار دینے کیلئے کافی تھی جبکہ اسکے اندر تو یہ سارے نقائص جمع تھے.

ج:عبدالعزیز بن محمد دراوردی

اہل سنت کے علمائے رجال نے اسے حافظہ سے بے بہرہ اور بھول جانے والا ایسا شخص قرار دیا ہے کہ جس کی روایات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا. احمد بن حنبل نے عبدالعزیز بن محمد دراوردی کے بارے میں یہ کہا ہے : اِذا حدّث من حفظہ جاء ببواطیل.( ۱ )

جب بھی وہ اپنے حافظے سے کوئی روایت نقل کرتا ہے تو وہ باطل اور بے ہودہ اقوال سے پر ہوتی ہے

اسی طرح ابوحاتم نے اس کے بارے میں یہ کہا ہے:''لایحتج به'' ( ۲ ) اس کی

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص۶۳۴.

(۲)گذشتہ حوالہ.

۲۳۹

حدیث کے ذیعہ استدلال نہیں کیا جاسکتا .اور ابوزارعہ نے اسکے بارے میں ''سّء الحفظ''یعنی اس کا حافظہ صحیح نہیں تھا جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں( ۱ )

د:لیث بن سعد

اہل سنت کے علمائے رجال کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ راوی جن کے نام ''لیث'' ہیں وہ سب ایسے مجہول الحال یا ضعیف افراد ہیں جن کی نقل کی ہوئی احادیث پر عمل اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا( ۲ ) لیث بن سعد بھی انہی ضعیف اور لاپرواہ افراد میں سے تھا جو احادیث کے سننے اور ان کے راویوں سے لینے میں انتہائی لاپرواہی سے کام لیتے تھے.

یحیی بن معین نے ا سکے بارے میں کہا ہے :اِنّه کان یتساهل فى الشیوخ والسماع ( ۳ )

لیث بن سعد، افراد سے حدیث لینے اور سننے میں لاپرواہی کیا کرتا تھا.

''نباتی ''نے بھی اسے ضعیف افراد میں قرار دیا ہے اور اپنی کتاب ''التذلیل علی الکامل'' (جسے انہوں نے ضعیف افراد کی پہچان کے لئے لکھا ہے) میں ''لیث بن سعد''

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ ص ۶۳۴.

(۲)میزان الاعتدال جلد۳ ص ۴۲۰تا ۴۲۳ طبع ۱ ،بیروت.

(۳) گذشتہ حوالہ ص ۴۲۳.

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296