شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 79025
ڈاؤنلوڈ: 2849

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79025 / ڈاؤنلوڈ: 2849
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

خاتون کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ہے میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے اس کے ماں اور باپ دونوں کا انتقال ہوچکا ہے اس کی سرپرستی میں نے اور اس کے چچا ابوطالب نے اپنی ذمہ لی ہے

جناب عبدالمطلب کے اس کلام سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اس یتیم بچے

کے روشن مستقبل سے اچھی طرح باخبر تھے اس لئے انہوں نے اس بچے کو اپنے سب سے عزیز بیٹے جناب ابوطالب کی سرپرستی میں دیا تھا اور اس عظیم سعادت کو کسی اور کے نصیب میں نہیں آنے دیا تھا اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب ابوطالب اپنے مومن اور موحد والد کی نگاہ میں ایمان کے اس درجہ پر فائز تھے کہ صرف وہی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سرپرستی کی لیاقت رکھتے تھے.( ۱ )

اب ہم مزید وضاحت کے لئے جناب ابوطالب کے ایمان پر چند واضح دلیلیں پیش کرتے ہیں :

____________________

(۱)زیادہ وضاحت کے لئے ان کتابوں ''سیرہ حلبی'' جلد۱ ص ۱۳۴ طبع مصر اور ''سیرہ ابن ہشام''جلد۱ ص۱۸۹ ،طبع بیروت اور ''ابوطالب مومن قریش'' ص ۱۰۹ طبع بیروت اور'' طبقات کبریٰ''جلد ۱ ص۱۱۷ طبع بیروت کا مطالعہ مفید ہوگا.

۲۲۱

جناب ابوطالب کے مومن ہونے کی دلیلیں

۱۔جناب ابوطالب کے علمی اور ادبی آثار

مسلمان مورخین اور علماء نے جناب ابوطالب کے بہت سے بلیغ قصیدے اور متعدد قسم کے علمی و ادبی آثار نقل کئے ہیں جو ان کے محکم ایمان کی دلیل ہیں یہاں ہم ان کثیر آثار میں سے بعض کا تذکرہ کرتے ہیں :

لیعلم خیار الناس أن محمدًا

نبى کموسیٰ والمسیح ابن مریم

اتانا بهدٍ مثل ما أتیا به

فکل بأمر اللّه یهد و یعصم( ۱ )

شریف لوگ یہ جان لیں کہ موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم کی طرح محمد بھی نبی خدا ہیں وہ ہمارے لئے اسی طرح کا پیغام ہدایت لائے ہیں جیسا کہ یہ دو نبی لائے تھے پس سارے نبی ، خدا کے حکم سے ہدایت کرتے ہیں اور گناہوں سے روکتے ہیں

ألم تعلموا أنّا وجدنا محمداً

رسولاً کموسیٰ خط فى أول الکتب

و أن علیه فى العباد محبة

ولا حیف فیمن خصه اللّه بالحب( ۲ )

____________________

(۱)''کتاب الحجة''ص ۵۷ اور اسی کے مثل مستدرک جلد ۲ ص ۶۲۳طبع بیروت میں بھی موجود ہے.

(۲)تاریخ ابن کثیر جلد ۱ ص ۴۲ ،اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص۷۲ (طبع دوم)

۲۲۲

کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے موسیٰ کی طرح محمد(ص) کو بھی رسول پایا ہے جن کا ذکر پہلی (آسمانی) کتابوں میں بھی آیا ہے ؟ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور جس شخص کے دل کو خداوندعالم نے انکی محبت کیلئے چن لیا ہے اس پر افسوس نہ کیا جائے

لقد أکرم اللّه النبّى محمّداً

فأکرم خلق اللّه فى الناس أحمد

و شقّ له من اسمه لیجله

فذوالعرش محمود وهذا محمد( ۱ )

خداوندعالم نے اپنے نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مکرم قرار دیا ہے اس اعتبار سے وہ مخلوقات خدا میں سب سے زیادہ مکرم ہیں پروردگار نے ان کے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے پس صاحب عرش محمود ہے اور یہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں

واللّه لن یصلوا اِلیک بجمعهم

حتی أوسد ف التراب دفینا

فاصدع بأمرک ما علیک غضاضة

وابشر بذلک و قر منک عیونا

و دعوتن و علمت أنک ناصح

ولقد دعوت وکنت ثم أمینا

ولقد علمت بأنّ دین محمد

من خیر أدیان البریّة دینا( ۲ )

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۱۴ ص ۷۸ طبع دوم، تاریخ ابن عساکر جلد ۱ ص ۲۷۵،تاریخ ابن کثیر جلد ۱ صفحہ ۲۶۶، تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۲۵۴.

(۲)خزانہ الادب بغدادی جلد۱ ص ۲۶۱ اور تاریخ ابن کثیر جلد ۳ ص ۴۲ ، اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد ۱۴ ص ۵۵ (طبع دوم) اور فتح الباری جلد۷ ص ۱۵۳ .۱۵۵. اور الاصابہ جلد۴ ص ۱۱۶ (طبع مصر) ۱۳۵۸ھ. اور دیوان ابی طالب ص ۱۲.

۲۲۳

( اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )خدا کی قسم ہرگز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک نہ پہنچ پائیں گے یہاں تک کہ میں خاک تلے دفن ہوجاؤں پس آپ کو جس چیز کا حکم ملا ہے بے خوف و خطر اس کا اظہار کریں اور بشارت دے کر آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے اپنے دین کی طرف دعوت دی ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے خیر خواہ ہیں بے شک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی دعوت میں امانت دار ہیں میں نے یہ جان لیا ہے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کے سارے دینوں سے بہتر ہے.

یا شاهد اللّه علىّ فاشهد

اِنّ علیٰ دین النبّ أحمد

من ضل فى الدین فنّ مهتد( ۱ )

اے خدا کے مجھ پر گواہ آپ گواہی دیجئے کہ میں احمد، رسول خدا کے دین پر ہوں کوئی اپنے دین میں گمراہ ہو تو ہو ،میں تو ہدایت یافتہ ہوں

و:جناب ابوطالب نے اپنی بابرکت زندگی کے آخری ایام میں قریش کے سرداروں کو جمع کر کے ان اشعار کے ذریعہ انہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مکمل طور پر حمایت کرنے کی دعوت دی تھی:

أوص بنصر الخیر أربعة

ابن علیًا و شیخ القوم عباسا

و حمزة الأسد الحام حقیقه

وجعفر أن تذودوا دونه الناسا

کونوا فدائً لکم أم وماولدت

فى نصر أحمد دون الناس اتراسا

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد ۱۴ ص۷۸ اور دیوان ابوطالب ص ۷۵.

۲۲۴

میں چار لوگوں کوسب سے افضل نبی کی مدد کرنے کی تاکید کرتا ہوں اپنے بیٹے علی ، اپنے قبیلے کے بزرگ عباس ، شیر خدا اور مدافع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حمزہ اور( اپنے بیٹے )جعفر کو نصیحت کرتا ہوں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمیشہ ناصر و مددگار رہیں اور تم لوگ (میری ماں اور ان کی تمام اولادیں تم سب پر قربان ہوں) احمد کی مدد کے لئے لوگوں کے سامنے سپر بن جانا.( ۱ )

ہر روشن ضمیر اور انصاف پسند شخص ان بلیغ ادبی آثار( جو صراحت کے ساتھ جناب ابوطالب کے خدا اور رسول پر ایمان کامل کی گواہی دے رہے ہیں ) کو دیکھ کر شیعوں کے جناب ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں نظرئیے کو صحیح مان لے گا اور چند سیاسی اہداف کی خاطر بعض مصنفین کی طرف سے مومن قریش ، عم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کے سخت حالات میں شریعت کے محافظ جناب ابوطالب پر لگائی جانے والی تہمتوں پر افسوس کرے گا.

۲۔جناب ابوطالب کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نیک سلوک ان کے ایمان کی علامت ہے.

تمام مشہورمسلمان مورخین نے جناب ابوطالب کی پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں

____________________

(۱)متشابہات القرآن ، (ابن شہر آشوب) سورہ حج کی اس آیت (ولینصرن اللہ من ینصرہ)کی تفسیر سے ماخوذ.

۲۲۵

فداکاریوں کو نقل کیا ہے اور یہ چیز جناب ابوطالب کے محکم ایمان کی واضح دلیل ہے کہ جناب ابوطالب نے اسلام کی حمایت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی حفاظت کے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تین سال تک اپنا گھر چھوڑ کر ''شعب ابی طالب'' میں زندگی گزاری تھی اور انہوں نے اپنی اس زندگی کو قبیلہ قریش کی سرداری پر ترجیح دی تھی اور مسلمانوں کی اقتصادی پابندی کے خاتمے تک انتہائی سخت حالات ہونے کے باوجود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ رہ کر تمام مشکلات کو برداشت کیاتھا.( ۱ )

اس سے بڑھ کر یہ کہ جناب ابوطالب نے اپنے عزیز ترین فرزند حضرت علی ـ کو بھی حضوراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کرنے اور صدر اسلام کی مشکلات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھ نہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا

ابن ابی الحدید معتزلی نے نہج البلاغہ کی شرح میں جناب ابوطالب کے ان جملوں کو نقل کیا ہے جو انہوں نے حضرت علی ـ سے کہے تھے ملاحظہ ہو:

''پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہیں صرف نیکی کی طرف دعوت دیتے ہیں لہذا کبھی ان کا ساتھ نہ چھوڑنا''( ۲ )

____________________

(۱)اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں: ۱۔ سیرہ حلبی جلد ۱ ص ۱۳۴ (طبع دوم مصر) ۲۔تاریخ الخمیس جلد ۱ ص ۲۵۳ اور ۲۵۴ (طبع ۳ بیروت) ۳۔سیرہ ابن ہشام جلد۱ ص ۱۸۹ طبع بیروت.۴۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۵۲ طبع دوم) ۵۔ (تاریخ یعقوبی اول جلد۲ طبع نجف) ۶۔(الاصابہ جلد۴ ص ۱۱۵ طبع مصر) ۷۔طبقات کبریٰ جلد۱ ص۱۱۹طبع بیروت ۱۳۸۰ھ.

(۲)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص ۵۳طبع دوم.

۲۲۶

اس اعتبار سے جناب ابوطالب کی وہ خدمات جو آپ نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں انجام دی ہیں اور آپ کی اسلام کے دفاع میں بے لوث فداکاریاں آپ کے ایمان کی واضح گواہ ہیں

اسی بنیاد پر عالم اسلام کے بزرگ دانشور (ابن ابی الحدید) نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور دین اسلام کی خدمت کے سلسلے میں جناب ابوطالب کے زندہ کردار سے متعلق یہ اشعار کہے ہیں :

ولولا أبوطالب و ابنه

لما مثّل الدین شخصًا فقاما

فذاک بمکة آویٰ و حام

وهذا بیثرب جسّ الحماما

وما ضرّمجد أب طالب

جهول لغ أو بصیر تعامیٰ( ۱ )

اگر ابوطالب اور ان کے بیٹے( حضرت علی )نہ ہوتے تو ہرگز دین اسلام کو استحکام حاصل نہ ہوتا اابوطالب نے مکہ میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پناہ دی تھی اور ان کی حمایت کی تھی اور ان کے بیٹے نے یثرب میں (پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کے لئے)اپنی جان کی بازیاں لگائی تھیں.

۳۔ابوطالب کی وصیت ان کے ایمان کی گواہ ہے

عالم اسلام کے مشہور مورخین جیسے ''حلبی شافعی''نے اپنی کتاب سیرۂ حلبی میں اور

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید)جلد۱۴ ص ۸۴ طبع ۳.

۲۲۷

''محمد دیار بکری''نے اپنی کتاب تاریخ الخمیس میں لکھا ہے کہ جناب ابوطالب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے قبیلے سے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کے سلسلے میں یہ وصیت کی تھی:

یا معشر قریش کونوا له ولاة، ولحزبه حماة ، واللّه

لایسلک أحد منکم سبیله اِلاّ رشد،ولا یأخذ أحد

بهدیه اِلاّ سعد، ولوکان لنفس مدة ولأجل تأخر لکففت

عنه الهزائز، ولدفعت عنه الدواه، ثم هلک( ۱ )

اے قبیلہ قریش!تم سب مصطفی کے محب اور ان کے ماننے والوں کے حامی و ناصر بن جاؤ خدا کی قسم تم میں سے جو شخص بھی ان کے نقش قدم پر چلے گا وہ ضرور ہدایت پائے گا اور جو کوئی ان سے ہدایت حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوجائے گا اگر میری زندگی باقی رہتی اور موت نے مجھے مہلت دی ہوتی تو میں یقینا فتنوں اور سختیوں سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محافظت کرتا اور پھر یہ آخری کلمات کہتے کہتے جناب ابوطالب نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا.

۴۔پیغمبر

خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ابوطالب سے محبت ان کے ایمان کی دلیل ہے

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف موقعوں پر اپنے چچا ابوطالب کا احترام و اکرام کیا ہے اور ان

____________________

(۱)تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۳۰۰ اور ۳۰۱، طبع بیروت اور سیرہ حلبی جلد۱ص ۳۹۱(طبع مصر)

۲۲۸

سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ہے یہاں ہم ان میں سے صرف دو کا تذکرہ کرتے ہیں :

الف:بعض مورخین نے اپنی کتابوں میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی درج ذیل روایت نقل کی ہے جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب عقیل بن ابی طالب سے مخاطب ہوکر یوں فرمایا ہے:

ان احبک حبّین حبًّا لقرابتک منّ و حبًّا لما کنت أعلم من حبّ عم اِیّاک ( ۱ )

میں تم سے دوہری محبت کرتا ہوںایک تمہاری مجھ سے قریبی رشتے داری کی وجہ سے ہے اور دوسری محبت اس وجہ سے ہے کہ میں جانتا ہوں ابوطالب تم سے بہت محبت کرتے تھے

ب:حلبی نے اپنی کتاب سیرت میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ روایت نقل کی ہے جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کی تعریف فرمائی ہے :

مانالت قریش منّ شیئًا أکرهه (أ أشد الکراهة)حتی مات أبوطالب .( ۲ )

جب تک ابوطالب زندہ رہے مجھے قریش کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچا سکے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب سے محبت کرنا اور ان کی خدمات کو سراہنا جناب ابوطالب

____________________

(۱)تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۱۶۳(طبع بیروت) الاستیعاب جلد۲ ص۵۰۹

(۲)سیرہ حلبی جلد۱ ص ۳۹۱(طبع مصر).

۲۲۹

کے محکم ایمان کی واضح دلیل ہے کیونکہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف مومنین ہی سے محبت رکھتے تھے اور مشرکین و کفار سے سخت گیری کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:

(مُحَمَّد رَسُولُ ﷲِ وَالَّذِینَ مَعَهُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَهُمْ ...)( ۱ )

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ہیں اور آپس میں انتہائی مہربان ہیں

ایک اورجگہ فرماتا ہے :

(لاَتَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ ﷲ وَرَسُولَهُ وَلَوْ کَانُوا آبَائَهُمْ َوْا َبْنَائَهُمْ َوْ ا ِخْوَانَهُمْ َوْ عَشِیرَتَهُمْ اُوْلٰئِک کَتَبَ فىِ قُلُوبِهِمْ الْاِیمَانَ ... )( ۲ )

آپ کو کبھی ایسے افراد نہیں ملیں گے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے (بھی) ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوںسے محبت رکھتے ہوں چاہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے.

ان آیات کا جب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ابوطالب سے محبت اور مختلف موقعوں پران کی ستائش سے موازنہ کیا جائے تو اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ جناب ابوطالب ایمان کے اعلی ترین درجہ پر فائز تھے

____________________

(۱)سورہ فتح آیت:۲۹.

(۲)سورہ مجادلہ آیت: ۲۲.

۲۳۰

۵۔حضرت علی ـ اور اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی

حضرت امیرالمومنین ـ اوراصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے محکم ایمان کی گواہی دی ہے ملاحظہ ہو:

الف:جس وقت حضرت امیرالمومنین علی ـ کی خدمت میں ایک شخص نے جناب ابوطالب پر ایک ناروا تہمت لگائی تو حضرت علی ـ کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں ہوگئے اور آپ نے فرمایا:

مَه ، فضّ اللّه فاک والذ بعث محمّدًا بالحقّ نبیًّا لو شفع أب ف کل مذنب علیٰ وجه الأرض لشفعه اللّه .( ۱ )

چپ رہ! اللہ تیرے منہ کو توڑ دے مجھے قسم ہے اس خدا کی جس نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برحق نبی قرار دیا ہے اگر میرے والد (ابوطالب)روئے زمین کے سارے گناہ گاروں کی شفاعت کرنا چاہیں تو بھی پروردگار ان کی شفاعت کو قبول کرے گا

ایک اورجگہ فرماتے ہیں :

____________________

(۱)الحجة ص ۲۴.

۲۳۱

کان والله ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب مؤمنًا مسلمًا یکتم اِیمانه مخافة علیٰ بن هاشم أن تنابذها قریش .( ۱ )

خدا کی قسم ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب مومن اور مسلمان تھے اور اپنے ایمان کوقریش کے کفار سے مخفی رکھتے تھے تاکہ وہ بنی ہاشم کو ستا نہ سکیں.

حضرت علی ـکے یہ ارشادات نہ صرف جناب ابوطالب کے ایمان کی تائید کرتے ہیں بلکہ ان کو ایسے اولیائے خدا کی صف میں کھڑا کردیتے ہیں جو پروردگار عالم کے اذن سے شفاعت کا حق رکھتے ہیں

ب: جناب ابوذر غفاری نے جناب ابوطالب کے بارے میں کہا ہے:

واللّه الذى لااِله اِلا هو ما مات ابوطالبٍ حتیٰ أسلم .( ۲ )

قسم ہے اس خد اکی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ابوطالب اسلام لانے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں

____________________

(۱)الحجة ص ۲۴.

(۲)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص۷۱(طبع دوم).

۲۳۲

ج:عباس بن عبدالمطلب اور ابوبکر بن ابی قحافہ سے بھی بہت سی سندوں کے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے :

اِنّ أباطالب مامات حتیٰ قال: لااله الا اللّه محمد رسول اللّه .( ۱ )

بے شک ابوطالب ''لاالہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ''کہنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے ہیں

۶۔ابوطالب اہل بیت کی نگاہ میں

ائمہ معصومین ٪ نے جناب ابوطالب کے ایمان کو صاف لفظوں میں بیان فرمایا ہے اور مختلف موقعوںپر پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فداکار کا دفاع کیا ہے یہاں پر ہم ان میں سے صرف دو نمونوں کا تذکرہ کرتے ہیں :

الف:امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں :

لووضع اِیمان أب طالبٍ ف کفة میزان و اِیمان هذا الخلق ف الکفة الأخری لرجح اِیمانه .( ۲ )

اگر ابوطالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور تمام مخلوقات کے ایمان کو اس کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے

تو ایمان ابوطالب ان کے ایمان سے بھاری ہوگا.

____________________

(۱)الغدیر ، جلد ۷ ص۳۹۸ تفسیر وکیع سے نقل کرتے ہوئے (طبع۳ بیروت ۱۳۷۸ھ).

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۶۸ (طبع دوم ) الحجة ص۱۸.

۲۳۳

ب:امام جعفرصادق ـ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل فرماتے ہیں :

اِنّ أصحاب الکهف أسرّوا الایمان و أظهروا الکفر فآتاهم اللّه أجرهم مرّتین و اِنّ أباطالب أسرّ الایمان و أظهر الشرک فآتاه اللّه أجره مرتین .( ۱ )

اصحاب کہف (چند مصلحتوں کی وجہ سے) اپنے ایمان کو چھپا کر کفر کا اظہار کرتے تھے تو پروردگار عالم نے انہیں دہرا اجر عطا فرمایا تھا. ابوطالب نے بھی اپنے ایمان کو چھپا کر (کسی مصلحت کی وجہ سے) شرک کا اظہار کیا تو انہیں بھی پروردگارعالم نے دوہرا اجر دیا ہے

گزشتہ دلیلوں کی روشنی میں آفتاب کی طرح واضح و روشن ہوجاتا ہے کہ

جناب ابوطالب درج ذیل بلند مقامات پر فائز تھے:

۱۔خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر محکم ایمان.

۲۔پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بے لوث حامی و ناصر اور راہ اسلام کے فداکار.

۳۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بے نظیر محبوب.

۴۔خداوند عالم کے نزدیک عہدۂ شفاعت کے مالک.

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۷۰ (طبع دوم )الحجة ص۱۱۵.

۲۳۴

اس اعتبار سے ثابت ہوجاتا ہے کہ جناب ابوطالب پر لگائی گئی نسبتیںباطل اور بے بنیاد ہیں .جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

۱۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، جناب امیرالمومنین ، ائمہ معصومین٪ اور اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہ میں جناب ابوطالب ایک باایمان شخص تھے.

۲۔جناب ابوطالب پر کفر کا الزام باطل اور بے بنیاد ہے اور ان پر یہ تہمت بنی امیہ اور بنی عباس (جو ہمیشہ سے اہل بیت٪ اور جناب ابوطالب کی اولاد سے جنگ کرتے آئے ہیں ) کے اشاروں پر بعض سیاسی مفادات کے تحت لگائی گئی تھی

اب ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کا جائزہ لیں جو ''حدیث ضحضاح''کے نام سے مشہور ہے اور جسے بعض لوگوں نے سند قرار دیتے ہوئے جناب ابوطالب کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے ہم یہاں قرآنی آیات ، سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عقل کی روشنی میں اس حدیث کے باطل اور بے بنیاد ہونے کے دلائل پیش کریں گے:

۲۳۵

حدیث ضحضاح کا تحقیقی جائزہ

بعض مصنفین جیسے بخاری اور مسلم نے ''سفیان بن سعید ثوری'' ''عبدالملک بن عمیر'' ''عبداللہ العزیز بن محمددراوردی'' ''لیث بن سعد'' جیسے راویوں سے نقل کرتے ہوئے ان دو اقوال کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منسوب کیا ہے:

الف:''وجدته ف غمراتٍ من النار فأخرجته الی ضحضاح'' .

میں نے انہیں آگ کے انبار میں پایا تو انہیں ضحضاح( ۱ ) کی طرف منتقل کردیا۔

ب:''لعلہ تنفعہ شفاعت یوم القیامة فیجعل ف ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغل منہ دماغہ ''

قیامت کے دن شاید میری شفاعت ابوطالب کے کام آجائے تاکہ انہیں ضحضاح میں ڈال دیا جائے جس کی گہرائی پاؤں کے ٹخنوں تک ہوگی اور جس میں ان کا (معاذاللہ) دماغ کھولے گا( ۲ )

اگرچہ جناب ابوطالب کے ایمان سے متعلق گزشتہ روایات اور دلائل کی روشنی میں اس حدیث ضحضحاح کا باطل اور بے بنیاد ہونا اچھی طرح ثابت ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی اس مسئلے کی وضاحت کیلئے حدیث ضحضاح سے متعلق دو چیزوں کی تحقیق ضروری ہے :

۱۔اس حدیث کے سلسلہ سند کا باطل ہونا

۲۔اس حدیث کے متن کا کتاب خدا اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بر خلاف ہونا

____________________

(۱)''ضحضاح ''ایسے گڑھے کو کہتے ہیں جس کی گہرائی آدمی کے قد سے کچھ کم ہو.

(۲)صحیح بخاری جلد۵ ابواب مناقب باب قصہ ابوطالب ص۵۲ اور جلد ۸ کتاب الادب باب کنیة المشرک ص ۴۶طبع مصر.

۲۳۶

حدیث ضحضاح کے سلسلہ سند کا باطل ہونا

ہم نے بیان کیا تھا کہ اس حدیث کے راوی ''سفیان بن سعید ثوری''''عبدالملک بن عمیر'' ''عبدالعزیز بن محمددراوردی'' اور ''لیث بن سعد ''ہیں اب ہم ان راویوں کے سلسلے میں اہل سنت کے علمائے رجال کے نظریات کی تحقیق کریں گے:

الف: ''سفیان بن سعید ثوری''

ابوعبداللہ بن احمد بن عثمان ذھبی کا شمار اہل سنت کے بزرگ مرتبہ علمائے رجا ل میں ہوتا ہے انہوں نے سفیان بن سعید ثوری کے بارے میں یوں کہا ہے:''کان یدلس عن الضعفائ .''( ۱ )

سفیان بن سعید ثوری ضعیف راویوںکی گھڑی ہوئی حدیثیں نقل کرتا تھا.

ذہبی کا یہ کلام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سفیان ثوری ضعیف اور مجہول الحال قسم کے افراد سے حدیثیں نقل کیا کرتا تھا اس اعتبار سے اس کی نقل کی ہوئی حدیثوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے

____________________

(۱)میزان الاعتدال (ذہبی) جلد۲ ص۱۶۹طبع ۱ بیروت ۱۳۸۲ھ.

۲۳۷

ب:عبدالملک بن عمیر

اس کے بارے میں ذہبی نے بھی کہا ہے :

طال عمره وساء حفظه ، قال أبوحاتم لیس بحافظ تغیّر حفظه و قال أحمد: ضعیف یخلط و قال ابن معین : مخلط و قال ابن خراش کان شعبة لایرضاه و ذکر الکوسج عن أحمد أنه ضعفه جدًا .( ۱ )

اس کی عمر زیادہ ہوگئی تھی اور اس کا حافظہ کام نہیں کرتا تھا اور اسی طرح ابوحاتم نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ : اس کے اندر حدیثیں حفظ کرنے کی قدرت ختم ہوگئی تھی اور اس کی یاداشت جاتی رہی تھی اسی طرح احمد بن حنبل نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ضعیف تھا صحیح حدیث کو جعلی حدیث سے ملا کر بیان کرتا تھا اور ابن معین نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ صحیح اور غلط حدیثوں کو آپس میں ملا دیا کرتا تھا اورابن خراش نے بھی اس کے بارے میں کہا ہے کہ شعبہ بھی اس سے راضی نہ تھے اور کوسج نے احمد ابن حنبل سے یوں نقل کیا ہے کہ وہ عبدالملک بن عمیر کو نہایت ہی ضعیف قسم کا شخص شمار کرتے تھے.

گذشتہ اقوال کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے ''عبدالملک بن عمیر'' درج ذیل صفات کا مالک تھا:

____________________

(۱)میزان الاعتدال جلد۲ ص۶۶۰(طبع ۱، بیروت)

۲۳۸

۱۔اس کا حافظہ ختم ہوگیا تھا اور وہ بھول جاتا تھا

۲۔علم رجال کی اصطلاح میں وہ ایک ضعیف شخص تھا اور اسکی روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا.

۳۔بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا شخص تھا.

۴۔صحیح اور غلط کو آپس میں ملا کر بیان کرنے والا شخص تھا۔واضح ہے کہ مذکورہ صفات میں سے صرف ایک صفت بھی عبدالملک بن عمیر کو ضعیف اور ناقابل اعتماد شخص قرار دینے کیلئے کافی تھی جبکہ اسکے اندر تو یہ سارے نقائص جمع تھے.

ج:عبدالعزیز بن محمد دراوردی

اہل سنت کے علمائے رجال نے اسے حافظہ سے بے بہرہ اور بھول جانے والا ایسا شخص قرار دیا ہے کہ جس کی روایات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا. احمد بن حنبل نے عبدالعزیز بن محمد دراوردی کے بارے میں یہ کہا ہے : اِذا حدّث من حفظہ جاء ببواطیل.( ۱ )

جب بھی وہ اپنے حافظے سے کوئی روایت نقل کرتا ہے تو وہ باطل اور بے ہودہ اقوال سے پر ہوتی ہے

اسی طرح ابوحاتم نے اس کے بارے میں یہ کہا ہے:''لایحتج به'' ( ۲ ) اس کی

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص۶۳۴.

(۲)گذشتہ حوالہ.

۲۳۹

حدیث کے ذیعہ استدلال نہیں کیا جاسکتا .اور ابوزارعہ نے اسکے بارے میں ''سّء الحفظ''یعنی اس کا حافظہ صحیح نہیں تھا جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں( ۱ )

د:لیث بن سعد

اہل سنت کے علمائے رجال کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ راوی جن کے نام ''لیث'' ہیں وہ سب ایسے مجہول الحال یا ضعیف افراد ہیں جن کی نقل کی ہوئی احادیث پر عمل اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا( ۲ ) لیث بن سعد بھی انہی ضعیف اور لاپرواہ افراد میں سے تھا جو احادیث کے سننے اور ان کے راویوں سے لینے میں انتہائی لاپرواہی سے کام لیتے تھے.

یحیی بن معین نے ا سکے بارے میں کہا ہے :اِنّه کان یتساهل فى الشیوخ والسماع ( ۳ )

لیث بن سعد، افراد سے حدیث لینے اور سننے میں لاپرواہی کیا کرتا تھا.

''نباتی ''نے بھی اسے ضعیف افراد میں قرار دیا ہے اور اپنی کتاب ''التذلیل علی الکامل'' (جسے انہوں نے ضعیف افراد کی پہچان کے لئے لکھا ہے) میں ''لیث بن سعد''

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ ص ۶۳۴.

(۲)میزان الاعتدال جلد۳ ص ۴۲۰تا ۴۲۳ طبع ۱ ،بیروت.

(۳) گذشتہ حوالہ ص ۴۲۳.

۲۴۰