شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95461 / ڈاؤنلوڈ: 4187
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

نمازشب انجام دینے سے اچھے اخلاق اورنیک سیرت کامالک بن جاتاہے چنانچہ اس مطلب کویوں ذکرفرمایاہے :وتحسن الخلق کہ خوش اخلاق اورنیک سیرتی کی اہمیت اورضرورت کے تمام انسان قائل ہیں اگرچہ کسی قانون اورمذہب سے منسلک نہ بھی ہو لہٰذااگرکوئی شخص خوش رفتار اوراچھے اخلاق کامالک بنناچاتاہے تونمازشب کوہرگزفراموش نہیں کرناچاہئے کیونکہ نمازشب کانتیجہ خوش اخلاقی اورنیک سیرتی ہے ۔

١٤۔نمازشب بصیرت میں اضافہ کاسبب

دنیوی فوائد میں سے ایک جسکا امامؑ نے مذکورہ روایت میں تذکرہ فرمایا ہے بصیرت اور بینائی میں اضافہ ہے کہ اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:وتجلّواالبصر یعنی نماز شب کی وجہ سے آنکھوں کی بصیرت میں اضافہ ہوتاہے ۔

توضیح : دنیا میں انسان کو دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت بصیرت ہے کہ جس کی حفاظت کے لئے خود خدا نے ہی ایک ایسا نظام اور سسٹم مہیا فرمایا ہے کہ جس کی تحقیق کرنے والے حضرات اس سے واقف ہیں لہٰذا انسان کی کوشش بھی اسی کی حفاظت اور بقا رکھنے میں مرکوزہے پس اگر ہم بصیرت میں اضافہ اور نوراینیت میں ترقی کے خواہاں ہیں تو نماز شب پڑھنا ہوگا

١٥۔ قرضہ کی ادائیگی کا سبب نماز شب

نیز دنیوی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب قرضہ کی ادائیگی کا سبب ہے چنانچہ امام نے فرمایا و تقضی الدین یعنی نماز شب قرضہ کو ادا کرتی ہے کہ دنیا میں انسان کے لئے مشکل ترین کاموںمیں سے ایک قرضہ کی ادائیگی ہے کہ اس سے نجات ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لہٰذا مقروض حضرات کو ہمیشہ سرزنش اور اہانت کا سامنا کرنا پڑتاہے اگر ہم اس سے نجات او معاشرے میں باوقار رہنا چاہتے ہیں تو نماز شب کا پابند رہنا ہوگا چنانچہ امام نے فرمایا: تدر الرزق نیز پریشانی کی برطرفی کا سبب بھی نماز شب ہے

۱۰۱

١٦۔نماز شب دشمن پر غلبہ پانے کا ذریعہ

اگرہم نمازشب انجام دیناشروع کردیں توانشاء اﷲہم اپنے دشمنوں پرہمیشہ غالب اورہروقت ہماری قسمت میں فتح ونصرت ہوگی خواہ ہمارادشمن ظاہری ہویاباطنی اگرکوئی شخص نمازشب جیسے اسلحے کے ساتھ مسلّح ہوکرمیدان جنگ میں واردہوجائے تویقیناکامیابی اورفتح سے ہمکنارہوجائے گالہٰذامسلمانوں کابہترین اسلحہ یہی نمازشب ہے چنانچہ مولاعلی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کومطالعہ کرنے سے اس مطلب کی وضاہت ہوجاتی ہے کہ آپ نے بہتّرجنگوںمیں دشمنوںسے مقابلہ کیااورہمیشہ مشکلات میں کامیاب ہوئے کہ اس کامیابی کے پیچھے نمازشب جیسے عظیم معنوی اسلحہ کی طاقت تھی کہ جس سے آپ مددلیاکرتے تھے اس طرح امام حسین علیہ السلام نے کربلامیں اس انسان ساز عظیم قربانی کے موقع پردشمنوں سے جنگ کرنے سے پہلے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ نمازشب انجام دیں اوراپنی بہن بی بی زینب سے نماز شب کی سفارش بھی کی لہٰذانمازشب کے فوائد میں سے ایک دشمنوں پرغلبہ ہے کہ اس مطلب کو امام )ع(نے یوںارشادفرمایا:صلاة ا لیل سلاح علیٰ الاعدائ (١)

یعنی نمازشب دشمنوںپرفتح پانے کے لئے بہترین اسلحہ ہے اسی مضمون کے مانندکچھ اورروایات کاتذکرہ پہلے ہوچکاہے ان تمام روایات کانتیجہ یہ ہے کہ نمازشب مشکلات کی برطرفی اوردشمنوںپرکامیابی کابہترین ذریعہ ہے اگرکسی کادشمن طاقت اوراسلحہ وغیرہ کے حوالے سے کسی پرغالب نظرآئے تواسے چاہئے کہ وہ نمازشب انجام دے کیونکہ نماز شب ہی انسان سے ہرلمحات پرحملہ آورہونے والے دشمن کودورکردیتی ہے کہ جس دشمن کوقرآن میں عدوء مبین کی تعبیرسے یادفرمایاہے۔

چنانچہ اس مطلب کوامام علی علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے ''صلاة الیل کراهته الشیطان'' نمازشب پڑھنے والوں کوشیطان نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے لہٰذاعدومبین ہے یعنی انسان کاآشکار دشمن شیطان ہے کہ اس کے بارے میں سب کااجماع ہے اگرچہ خودشیطان کی حقیقت کے بارے میںعلماء اورمحققین کے درمیان اختلاف نظرپائی جاتی ہے کہ جن کاخلاصہ یہ ہے شیطان کی حقیقت کے بارے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں ۔

١۔شیطان انسان کی مانندایک مستقل موجود ہے جوانسان کونظرنہیں

____________________

(١)بحارج٨٧.

۱۰۲

آتاہے لیکن ہمیشہ انسان پرمسلط رہتاہے لہٰذاانسان کی اعضاء وجوارح پرغیرشرعی تصرف کرتاہے جس اس کی حرکتیں شیطانی نظرآتاہے ۔

٢۔یہی دنیا عین شیطان ہے شیطان کوئی مستقل چیزنہیں ہے ۔

٣۔خودانسان ہی عین شیطان ہے ہمارے محترم استاد حضرت آیت اﷲمصباح یزدی نے اپنے فلسفہ اخلاق کے لیکچرمیں ان نظریات میں سے پہلے نظریے کوقبول کیاہے اورکہتے ہیںکہ شیطان ایک مستقل موجودہے لہٰذا مزید تفصیلات کے لئے ان کے فلسفہئ اخلاق کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کی طرف مراجعہ فرمائےے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کاوجوداوراس کاانسان کے لئے عدو مبین اورسب سے خطرناک دشمن ہوناایک واضح اورمسلم حقیقت ہے جس کاقرآن مجیدمیں بھی متعددبارذکرہواہے جیساکہ ارشادہے( انّ الشیطان لکم عدو مبین ) اورخالق رحیم نے اس خطرناک اورعیاردشمن سے بچاؤکے متعددذریعے فراہم فرمایاہے جن میں سے ایک اہم ذریعہ نمازشب ہے ۔

۱۰۳

١٧۔نمازشب باعث خیروسعادت

نماز شب کے مادّی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے مؤمن کو خیر و سعادت نصیب ہوتی ہے کہ علم اخلاق کے دانشمندوں نے خیر و سعادت کے اصول و ضوابط کے بارے میں مختلف نظریات کو ذکر کیا ہے کہ جن کی آراء کا تذکرہ کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا اختصار کے پیش نظر راقم الحروف اس کی طرف صرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ نماز شب ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کی برکت سے دنیا میں ہی انسان سعادت مند بن جاتا ہے اور ہر باشعور انسان کی یہی کوشش رہی ہے کہ سعادت مند بن جائے اسی لئے انسان ہزاروں زحمتیں اور مشکلات اٹھاتا ہے تاکہ سعادت جیسی عظیم نعمت حاصل کرنے سے محروم نہ رہے پیغمبر اکرم)ص( نے جنگ تبوک میں اپنے صحابی معاذ ابن جمیل سے فرمایا کیا میں تجھے خیر و سعادت کے اسباب سے مطلع نہ کروں تو معاذ ابن جمیل نے کہا: یارسول اﷲ کیوں نہیں! اس وقت پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ سے نجات مل جاتی ہے اور صدقہ دینے کے نتیجے میں اشتباہات کا خسارہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرنے سے سعادت مند ہوجاتا ہے پھر اس آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( تَتَجَافَی جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ ) (١)

یعنی نماز شب پڑھنے والے اپنے پہلو کو بستروں سے دور کیا کرتے ہیں۔(٢) لہٰذا جو انسان باعزت اور سعادت مند ہونےکا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے ۔

____________________

(١) سورہئ سجدہ آیت ١٦.

(٢)بحار ج٨٧.

۱۰۴

١٨۔انسان کے اطمئنان کا ذریعہ

اسی طرح نماز شب کے فوائد مادّی میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب پڑھنے سے انسان کو سکون اور آرام حاصل ہوجاتا ہے کہ آج انسان اکیسویں صدی میں داخل ہے اور آبادی چھہ ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن ان میں بہت سارے انسان سکون او ر آرام جیسی نعمت کے حصول کی خاطر منشیات اور مضر اشیاء کے عادی بن چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے وسائل انسان کو حقیقی آرام و سکون مہیا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کچھ عرصہ شراب اور دیگر مضر چیزوں کے استعمال سے سکون اور آرام پیدا ہونے کے بعد نتیجتاً خودکشی کرلیتا ہے یا پھر انسانیت کے دائرے سے ہی نکل جاتا ہے اسی لئے شریعت اسلام میں اس قسم کے مضر چیزوں کے استعمال کوحرام قراردیاگیاہے لہٰذااگرہم ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی تعلیمات کاپوری طرح سے پابندہوجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اس میں کس قدرلذت اورسکون ہے کہ جس کاہم اندازہ نہیں لگاسکتے اوراسی کے طفیل ہمارے نفسیاتی تمام امراض دور ہوجاتے ہیں کہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے:

صلاة اللیل راحة الابدان (١)

یعنی نماز شب کی وجہ سے بدنوں میں آرام و سکون پید اہوجاتا ہے ۔

____________________

(١)بحار ج٨٧

۱۰۵

١٩۔نماز شب طولانی عمر کا ذریعہ

اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے نزدیک عمر اور زندگی سے زیادہ محبوب کوئی اور چیز نظر نہیں آتی بہت سار ے محققین نے عمر میں ترقی اور اضافہ کی خاطر مختلف راستوں کو بیان کیا ہے لیکن جس حقیقی راستے کی نشاندہی اسلامی تعلیمات اور آئمہ معصومینؑ کے اقوال میں کی گئی ہے اس کا اور کسی محقق کی بات یا نظریہ میں ملنا مشکل ہے لہٰذا اگر قرآنی تعلیمات یا انبیاء اور آئمہ کے اقوال کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے ان کے فرمودات میں انسان کی روز مرہ زندگی کی تمام ضروریات کی طرف رہنمائی پائی جاتی ہے اگر چہ انسان یہ خیال کرے کہ نماز شب اور طولانی عمر کا آپس میں کیا رابطہ ہوسکتا ہے؟ لیکن انبیاء اور آئمہ کے اقوال اور ان کے عمل و کردار میں فائدہ ہی فائدہ ہے جس کی حقیقت کو درک کرنے سے اکثر لوگ قاصرہیں پس اگر انسان اپنی عمر میں ترقی دولت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو ایک مہم ترین سبب نماز شب ہے اس کو فراموش نہ کیجئے کہ اس مطلب کو امام رضا علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا: تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص آٹھ رکعت نماز شب پڑھے دو رکعت نماز شفع اور ایک رکعت نماز وتر (کہ جس کے قنوت میں ستر دفعہ استغفراﷲ کا ذکر تکرار کیا جاتا ہے) انجام دیگا تو خداوند اسکو عذاب قبر اور جہنم کی آگ سے نجات اور اس کی عمر میں اضافہ فرماتا ہے۔(١)

____________________

(١) بحار الانوار ج٨٧.

۱۰۶

لہٰذا اس روایت کی بنا پر عمر میں ترقی ہونا حتمی ہے لیکن اس کے باوجود توفیق کا نہ ہونا ہماری بدقسمتی ہے

ب۔ عالم برزخ میں نماز شب کے فوائد

مقدمہ :

جب ہم دور حاضر کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم کو محققین اور فلاسفرنے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔

١۔عالم طبیعت :۔ کہ اس عالم کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ تمام حرکات و سکنات مادہ یا مادیات سے وابستہ ہے اور نماز شب کے کچھ فوائداس عالم سے مربوط ہیں کہ جن کا بیان ہوچکا ہے ۔

٢۔عالم برزخ :۔ کہ جس کا آغاز موت سے ہوتاہے اور اس کا انتہاء قیامت ہے یعنی عالم دنیا کے بعد اور عالم آخرت سے پہلے درمیانی اوقات کا نام عالم برزخ ہے کہ جس کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دنیوی اور مادی لوازمات سے استفاہ نہیں کرسکتاہے ۔

٣۔عالم آخرت:۔کہ جس کی وضاحت عنقریب کی جائے گی (تاکہ خوش نصیب افراد نماز شب کے عادی ہوں اور اس کے نتائج سے مستفیض ہوں) لہٰذا اب ان فوائد کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتاہوں جو عالم برزخ سے مربوط ہیں۔

١۔نماز شب قبر میں روشنی کا ذریعہ

اگر انسان ایک لمحہ کے لئے عالم برزخ کا تصور کرے تو اس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ عالم انسان کے لئے کتنا مشکل اور سخت عالم ہے کہ اس کی حقیقت کو ہم درک نہیں کرسکتے اور ہم میں سے کسی کو خبر نہیں ہے صرف آئمہ معصومینؑ کے اقوال اور سیرت طیبہ کے مطالعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ عالم برزخ میں دوست و احباب اورتمام لوازمات زندگی اور مادی وسائل سے منقطع اور محروم ہوجاتاہے اسی لئے اس کو قیامت صغریٰ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ انسان اس میں ہر قسم کی سختیوں اور دشواریوں سے دوچار ہوگا ہم عالم برزخ کے عذاب اور اس کی سختیوں سے نجات کے خواہاں ہیں تو نماز شب جیسی عبادات کوانجام دینے میں کوتاہی نہیں کرنا ہوگی کیونکہ عالم برزخ میں ہونے والی سختیوں میں سے ایک قبر کی بھیانک تاریکی ہے کہ جس سے انسان کا موت کے آتے ہی سامنا ہوجاتاہے

۱۰۷

کہ تاریکی اور اندھیرا ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس سے انسان دنیا میں خوف زدہ ہوجاتاہے کہ ایک لمحہ بھی تاریکی میں گذارنا اس کے لئے کتنا مشکل ہوجاتاہے اسی طرح جب انسان عالم برزخ میں پہنچے گاتو وہ لمحات بہت ہی سخت ہوںگے کیونکہ دنیا میں ہر قسم کی سہولیات جیسے بجلی سورج چاند ستارے اور دوسرے وسائل کا سلسلہ موجود ہے لہٰذا دنیوی اندھیرے اور تاریکی سے نجات مل سکتی ہے لیکن عالم برزخ میںان تمام ذرایع سے محروم ہوگا لہٰذا عالم برزخ کی تاریکی سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ اس غربت کے زاد راہ کا فکر کریں اور اس تاریک گھر (قبر) کی روشنی کا اس دنیا سے جانے سے پہلے بندوبست کریں اور قبر میں کام آنے والے اور قبر کی تاریکی کو نور میں بدلنے والے اعمال میں سے ایک مہم عمل نماز شب ہے نماز شب عالم برزخ میں بجلی کے مانند ہے اور اس کی وجہ سے قبر منور ہوگی چنانچہ اس مطلب کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا اگر کوئی شخص پوری رات عبادت الٰہی میں بسر کرے یعنی رات کو تلاوت قرآن کریم اور نماز شب انجام دے کہ جس کے رکوع و سجود ذکر الٰہی پر مشتمل ہو تو خدا وند اس کی قبر کو نور سے منور کرتا ہے اور دل حسد کی بیماری اور دوسرے گناہوں کی آلودگیوں سے شفاء پاتا ہے اور اس کو قبر کے عقاب و عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات ملتی ہے، چنانچہ معصوم علیہ السلام نے فرمایا:

''یثبت النور فی قبر ه و ینزع الاثم والحسد من قلبه ویجار من عذاب القبر و یعطی برأة من النار ۔''(١)

اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح انسان کے لئے دنیا میں نور اور روشنی کے وسائل خدا نے مہیا فرمائے ہیں اسی طرح عالم برزخ میں بھی روشنی اور نور کے اسباب کو فراہم کیا لیکن دنیوی نور کے ذرایع مادّی ہیں جبکہ عالم برزخ کی روشنی اور نور کاذریعہ معنوی چیزیں ہیں جیسے نماز شب. لیکن نماز شب سے قبر میں نور حاصل

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٢.

۱۰۸

ہونے میں شرط یہ ہے کہ اس کو اخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے ۔

نیز حضرت پیغمبر ؐ کا یہ قول ہے:

''صلاة اللیل سراج لصاحبها فی ظلمة القبر'' (١)

نماز شب قبر کی تاریکی میں نمازی کےلئے ایک چراغ کے مانند روشنی دیتی ہے ۔

٢۔ وحشت قبر سے نجات ملنے کا ذریعہ

نماز شب کے برزخی فوائد میں سے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے خداوند انسانوں کو وحشت قبر سے نجات دیتا ہے اور یہاں وحشت قبر کی تفصیل و حالات بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا مذہب حق جو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اہل بیت اطہار کے نام سے موسوم ہے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ موت کیوجہ سے فنا نہیں ہوتاہے بلکہ موت کے بعد مزید دو زندگی کا آغاز ہوتا ہے

١۔ مثالی زندگی ۔

٢۔ابدی زندگی ۔

مثالی زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جو عالم برزخ میں گذارا جاتا ہے کہ اس عالم میں ہر انسان کو مختلف قسم کے عذاب اور طرح طرح کی سختیوں سے دوچار

____________________

(١) بحار ج٨٧

۱۰۹

ہونا یقینی ہے جیسے وحشت قبر لیکن خدا اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے اسی لئے وہ انھیں اس عالم کی سختیوں سے نجات دینے کی خاطر کچھ مستحب اعمال کو انجام دینے کی ترغیب دلائی ہے جیسے نماز شب یعنی اگر ہم نماز شب کو انجام دیں توعالم برزخ میںوحشت قبر جیسی سختیوں سے نجات پاسکیں گے.چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یوں ارشاد فرمایا ہے:

''صلّی فی سواد اللیل لوحشة القبر'' (١)

یعنی رات کی تاریکی میں نماز انجام دو تاکہ قبر کی وحشت اور خوف سے نجات پاسکو اسی طرح دوسری روایت میںخداوند نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دستور دیتے ہوئے فرمایا:

''قم فی ظلمة اللیل اجعل قبرک روضة من ریاض الجنان ''(٢)

یعنی اے موسیٰ! تو رات کی تاریکی میں (نماز شب انجام دینے کی خاطر ) اٹھا کرو( تاکہ میں اس کے عوض میں) تیری قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دوں۔

لہٰذا ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وحشت قبر یقینی ہے لیکن اگر توفیق

____________________

(١)بحار ج٨٧.

(٢) بحارج١٠٠.

۱۱۰

شامل حال ہو تو اس کا علاج نماز شب ہے کیوں کہ اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتاہے کہ دنیا ہی عالم برزخ اور آخرت کے لئے خلق کیا گیا ہے ۔

٣۔قبر کا ساتھی نماز شب

جب انسان اس دار فانی سے چل بسے تو اس کے عزیز و اقارب ہی تجہیز و تکفین ادا کرنے کے بعد سپرد خاک کرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور بس پھر آپ کا اس قبرستان کے اس ہولناک ماحول میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا حتیٰ ماں باپ اور بھائی،فرزند ہونے کے باوجود اکیلے چھوڑجائیں گے اور پھر آپ ہی کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی کوٹھی یا بنگلہ میں ہی آئے گا اور آپ کے خون پسینہ کرکے کمائی ہوئی جائداد اور مال دولت تقسیم کرینگے جب کہ آپ قبر میں تنہائی کے عالم میں ہر قسم کے عذاب میں مبتلا ہونگے اور ادھر یہی افراد جو آپ کے مال و دولت اور جائیداد پر ناز کرتے ہوئے نظر آئیں گے ان ہی میں سے کوئی ایک بھی ایک لمحہ کے لئے آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تاکہ آپ کو قبر کی وحشت اور مشکلات میں آپ کی مدد کریں لہٰذا احباب کی اس لاتعلقی کا اندازہ مرنے سے پہلے لگائیے جب کہ ہمارا حقیقی خالق ہمیشہ ہما رے فلاح و بہبود کا خواہاں ہیں اسی لئے آپ کو قبرمیں تنہائی سے نجات دینے کی خاطر آپ کے قبر کے ساتھی کا بھی تعارف کرایاہے کہ وہ باوفا ساتھی جو کبھی بھی آپ سے بے وفائی نہیں کریگا اور ہمیشہ آپ کا محافظ اور مددگار کی حیثیت سے آپ کے ہمراہ رہے گا وہ نماز شب ہے یعنی اگر آپ نماز شب انجام دینگے تو قبر میں تنہائی محسوس نہیں کرینگے کیونکہ نماز شب تنہائی کی سختی سے نجات دیتی ہے

۱۱۱

چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے نماز شب ملک الموت اور نماز گذار کے درمیان ایک واسطہ اور قبر میں ایک چراغ اور جس مصلّے پر نماز شب پڑھی جاتی ہے وہ لباس نکیر و منکر کے لئے جواب دہ اور روز قیامت تک قبر کی تنہائی میں آپ کی ساتھی ہوگی۔(١)

اور دنیا میں یہ عام رواج ہے کہ مخصوص ایام اور پروگراموں میں شرکت کرنے کی خاطر مخصوص لباس پہنا جاتاہے اور اسی طرح علماء عاملین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ جب وہ اپنے ملائے حقیقی کی عبادت کے لئے آمادہ ہوا کرتے ہیں تو خاص لباس پہن کر عبادت کرتے تھے تاکہ روز قیامت وہ لباس ان کے حق میں شہادت دے اسی لئے علماء اور مؤمنین موت کے وقت اپنی وصیتوں میں ایسے لباس کے بارے میں تاکید کرتے تھے جس لباس میںمیںنے خدا کی عبادت کی ہے وہ لباس میرے ہمراہ قبر میں دفن کیا جائے تاکہ وحشت قبر اور اس کی تنہائی اور تاریکی میں اس کی شفاعت کرسکیں لہٰذا مرحوم آیۃ اﷲ مرعشی نجفیؒ کے وصیت نامہ میں ایسے ہی الفاظ ملتے ہیں کہ آپ نے وصیت نامہ میں فرمایا:

میرا وہ لباس میرے ساتھ دفن کیا جائے کہ جس میں میں نے نماز شب پڑھی ہے اور اس رومال کو بھی میرے ساتھ دفن کرے کہ جس سے امام حسین علیہ

____________________

(١)بحار ج٨٧.

۱۱۲

السلام کی مصیبت کو یاد کرکے بہائے گئے آنسو پونچھا کوجمع کیا لہٰذا نماز شب کے اتنے فوائد ہونے کے بعد اس سے محروم ہونا شاید ہماری بدقسمتی ہے پالنے والا ہم سب کو نماز شب پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔

٤۔نماز شب مانع فشار قبر

جیسا کہ معلوم ہیںکہ عذاب الٰہی کی تین قسمیں ہیں :

١۔ دنیوی عذاب ۔

٢۔برزخی عذاب ۔

٣۔اخروی عذاب ۔

لیکن ہمارے درمیان معروف ہے کہ عذاب کا سلسلہ اس عالم دنیا اور عالم برزخ کے سفر طے کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے جبکہ یہ خام خیالی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو تو کچھ کی سزا دنیا ہی میں مل جاتی ہے اور اسی کو عذاب دنیوی کہا جاتا ہے اگر چہ انسان غفلت اور سستی کے نتیجے میں دنیوی عذاب کو درک کرنے سے عاجز رہتا ہے لہٰذا یہی وجہ ہے کہ جب خدا کی طرف سے کسی جرم کی سزا دینا میں دی جائے تو غافل انسان اس کی مختلف توجیہات سے کام لیتا ہے۔ جب کہ اس کی اصلی علت یہی نافرمانی ہوتی ہے ۔

۱۱۳

اسی طرح کچھ دوسرے جرم ہیں کہ جس کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی بلکہ اس کی سزا عالم برزخ میں روبرو ہوتی ہے اور اسی طرح کچھ ایسے گناہ اور جرائم ہیں کہ جن کی سزا خداوند عالم آخرت میں دیتا ہے لہٰذا نماز شب واحد ذریعہ ہے جو انسان کو قبر کے تمام عذاب سے نجات دینے والی ہے لہٰذا نماز شب کے برزخی فوائد میں سے چوتھا فائدہ یہ ہے کہ نمازی کو قبر کے عذاب اور فشار قبر سے نجات دیتی ہے کہ فشار قبر اتنا سخت سزا ہے جو انسان کے بدن کے گوشت کو ہڈیوں سے الگ کردیتی ہے اس مطلب کو صحابی رسول اکرم)ص( جناب ابوذر نے یوںارشاد فرمایا ہے کہ ایک دن کعبہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے لوگوں کو نصیحت کررہے تھے اور انھیں ابدی زندگی کی طرف ترغیب و تشویق دلارہے تھے اتنے میں لوگوں نے آپ سے پوچھا اے ابوذر وہ کونسی چیز ہے جو آخرت کے لئے زادراہ بن سکتی ہے تو آپنے فرمایا گرمی کے موسم میں روزہ رکھنے سے حساب و کتاب آسان ہوجاتاہے اور رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنے سے وحشت قبر سے نجات ملتی ہے اور صدقہ دینے سے انسان کی تنگ دستی دور اور مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔(١)

اسی طرح دوسری روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص رات کے آخری وقت میں گیارہ رکعت نماز انجام دے تو خداوند اس کو قبر کے عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتاہے۔(٢)

____________________

(١)داستان ج٢ص٢٦.

(٢)بحار ج٨٧ص١٦١.

۱۱۴

٥۔نماز شب قبر میں آپ کی شفیع

جس طرح عالم دنیامیں کسی کی سفارش اور تعاون کے بغیر کوئی بھی مشکل برطرف نہیں ہوتی اسی طرح عالم برزخ میں بھی مشکلات اور سختیوں کو برطرف کرنے کے لئے مدد کی ضرورت یقینی ہے اگر چہ ان دو سفارشوں کے مابین فرق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا عالم دنیا کی سفارش مادی اسباب کا نتیجہ ہے جیسے کسی بڑی شخصیت کی سفارش جب وہ میسر نہ آئے تو پھر رشوت وغیرہ کے ذریعہ سے مشکلات کی برطرفی اور مقاصد کے حصول کے لئے ہر انسان کوشش کرتا ہے جب کہ عالم برزخ اور مثالی عالم کی سفارش معنوی اور صوری ذرایع کی ہوتی ہے۔

لہٰذا عالم برزخ میں دنیا کے اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کام نہیں آئیں گی بلکہ خدا کی نظر میںجو مقرب اور نیک حضرات ہیں وہی اس مشکل کو حل اور ہماری سفارش کرسکتے ہیں لہٰذا ایسے وسائل کے بارے میں بھی انسان کو شناخت و معرفت اور ان میںسے ایک معنوی تعلق جوڑنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے تبھی تو خدا وند عالم نے برزخ میں بھی مؤمن انسان کی شفاعت اور اس کی فلاح کے لئے کچھ دستورات دئے ہیں ان کو انسان پابندی کے ساتھ انجام دینے کی صورت میں اور محرمات سے اجتناب کرنے میں اور اخلاق حسنہ اپنانے میں اور اخلاق رذیلہ سے اپنے آپ دور رکھنے کی صورت میں اس کی تمام مشکلات برطرف ہوسکتی ہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا:

۱۱۵

صلاة اللیل شفیع صاحبها (١)

یعنی نماز شب قبر کی وحشت ناک تنہائی میں نمازی کی شفیع ہوگی پس نماز شب قبر کے وحشت ناک تنہائی اور عالم غربت کی سختی کے وقت اور ملک الموت و نکیر و منکر کے سوال و جواب کے موقع پرآپ کی شفیع ہے لہٰذا آیات و روایات کی روشنی میں بخوبی یہ نتیجہ نکلتاہے کہ نماز شب کے فوائد عالم برزخ میں بہت زیادہ ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں چند فوائد پر اکتفاء کرینگے پس جب ہم دنیوی فوائد ااوربرزخی فوائد سے فارغ ہوگئے تونمازشب کے ایسے فوائد کی طرف بھی اشارہ کریں گے جوابدی زندگی سے مربوط ہیں کیونکہ ابدی زندگی کے فوائدمادی زندگی اورمثالی زندگی کے فوائدسے زیادہ اہم ہیں تاکہ مومنین کے لئے اطمئنان قلب کا باعث بنے ۔

ج۔عالم آخرت میں نماز شب کے فوائد

١۔جنت کادروازہ نمازشب

اخروی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ جوشخص علم جیسی نعمت سے بہرہ مندہواوراس کی نظروں سے کچھ کتابیں نما شب کے اخروی فوائد سے متعلق گذری ہوگی کہ دنیوی زندگی اورمثالی زندگی گزرنے کے بعد انسان کی ابدی زندگی

____________________

(١)جامع آیات و احادیث ج٢

۱۱۶

کاآغازہوجاتاہے کہ اس زندگی گزرنے کی جگہ مومن کے لئے جنت ہے لیکن اگرکافرہے توجہنم ہے.

لہٰذا جنت اور جہنم میں زندگی گذار نا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے یعنی انسان کے اعمال و کردارعلت ہے،جنت میں داخل ہونایا جہنم میں رہنا معلول ہے تب ہی توانسان کے اعمال و کردار دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے نیک اعمال اور بد اعمال. اگر انسان اس دنیا میں اچھے اعمال کا عادی ہو اور اسلام کی تعلیمات کا پابند ہو تو جنت میں ابدی زندگی سے ہمکنار ہوتے ہوئے ہمیشہ جنت میں رہے گا لیکن اگر اس دنیا میں برے اعمال کا عادی رہا ہو اور اسلامی تعلیمات سے دور ہو یعنی اپنی خواہشات کا تابع ہو تو اس کی ابدی زندگی کی جگہ جہنم جیسی بری جگہ ہوگی پس جنت و جہنم دو ایسے مقام کا نام ہے کہ جس کی زندگی مثالی زندگی اور مادّی زندگی سے مختلف ہے لہٰذا جنت و جہنم کی زندگی کو ابدی کہا جاتاہے جب کہ باقی زندگی کو موقتی اور تغییر پذیر زندگی کہا جاتاہے چنانچہ اس مطلب پر قرآن کی کئی آیات میں اشارہ ملتاہے مثلاً:

۱۱۷

'' فیہا خالدون...'' یعنی جنت اور جہنم میں ہمیشہ رکھا جاتا ہے جب کہ ایسے الفاظ قرآن وسنت میں دنیوی زندگی کے بارے میں نظر نہیں آتے پس انسان غور سے کام لے تو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ انسان کتنا غافل ہے کہ دنیا میں دنیوی زندگی سے اس قدر محبت رکھتاہے جبکہ یہ زندگی کچھ مدت کی زندگی ہے لیکن اگر یہی انسان خدا کا مطیع ہو تو فرشتوں سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے کہ اس تعبیر کی حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیوی زندگی کو ہی حقیقی زندگی مان لے توحیوانات سے بھی بدتر ہے لیکن اگر دنیوی زندگی کو ابدی زندگی کے لئے مقدمہ سمجھے تو فرشتوں سے بھی افضل ہے تبھی تو قرآن وسنت میں کئی مقام پر تدبر و تفکر سے کام لینے کی ترغیب ہوئی ہے تاکہ غافل انسان یہ نہ سمجھے کہ زندگی کا دار ومدار یہی زندگی ہے پس اگر کوئی ابدی زندگی کو آباد کرنے کا خواہاں ہے تو آج ہی نماز شب انجام دینے کا عزم کیجئے کیونکہ نماز شب جن فوائدپر مشتمل ہے شاید کوئی اور عمل نہ ہو لہٰذا نماز شب انجام دینے سے جنت کے دروازے ہمیشہ کےلئے کھل جاتے ہیں اور نمازی آسانی سے جنت میں داخل ہوسکتے ہیں چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( کا یہ ارشاد ہے: اے خاندان عبدالمطلب تم لوگ رات کے وقت جب تمام انسان خواب غفلت میں غرق ہوجاتے ہیں تو شب بیداری کیا کرو اور خدا سے راز و نیاز کرو تاکہ جنت میں آسانی سے جاسکوں۔(١)

دوسری روایت میں پیغمبر )ص( نے فرمایا:

''من ختم له بقیام اللیل ثم مات فله الجنة '' (٢)

اگر کوئی شخص شب بیداری کا عادی ہو اور مرجائے تو خداوند اس کے عوض میں اس کو جنت عطا فرمائے گا۔

____________________

(١)محاسن برقی ص٨٧.

(٢)وسائل ج٥.

۱۱۸

نیز تیسری روایت جس میں حضرت پیغمبر اکرم)ص( نے جناب ابوذر سے فرمایا :

'' یا اباذر ایما رجل تطوع فی یوم ولیلة اثنتا عشرة رکعة سوی المکتوبة کان له حقاً واجباً بیت فی الجنة''

اے ابوذر اگر کوئی شخص چوبیس گھنٹے کے اوقات میں واجبات کے علاوہ بارہ رکعات مستحبی (نماز شب) بھی انجام دے تو خداوند اس کے بدلے میں اس کو جنت عطا کریگا(١)

تفسیر وتحلیل:

ان مذکورہ روایات کا خلاصہ یہ ہوا کہ جنت میں جانے کے خواہاں افراد کو چاہیے کہ وہ نماز شب کو ترک نہ کریں کیونکہ نماز شب کی خاطر جنت میں خداوندخوش نصیب افراد کو ایک خاص قسم کا قصر عطا کریگا ۔

٢۔جنت میں سکون کا ذریعہ

نماز شب کے فوائد اخروی میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کے نتیجے میں خداوند نمازی کو ابدی زندگی میں سکون جیسی نعمت عطا فرماتاہے کہ سکون جیسی نعمت کی نیاز تمام زندگی کے مراحل میں یقینی ہے چنانچہ دنیا میں ہر انسان کی طبیعت یہ ہے کہ زندگی سکون سے گذارے لہٰذا سکون کی خاطر طرح طرح

____________________

(١)مکارم الاخلاق ص٤٦١.

۱۱۹

کی مشقتیں برداشت کرکے عدم سکون جیسی بلا سے جان بخشی کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص جنت میں زیادہ سے زیادہ آرام و سکون کا خواہاں ہو کہ انسانی فطرت اور عقل بھی یہی چاہتی ہے تو اس آرزو کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک عمل درکار ہے اور وہ عمل نماز شب ہے کہ جو اس مشکل کو حل کرسکتاہے یعنی سکون اور آرام جیسی نعمت سے زیادہ سے زیادہ مالامال ہوسکتاہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا:اطولکم قنوتاً فی الوتر اطولکم یوم القیامة فی الموقف ، تم لوگ نماز وتر کے قنوت کو جتنا زیادہ وقت تک انجام دوگے تو اتنا ہی خدا قیامت کے دن آرام و سکون میں اضافہ فرمائے گا(١) پس اسی روایت کی روشنی میں یہ کہہ سکتاہے کہ سکون جیسی نعمت کا ذریعہ بھی نماز شب ہے.

٣۔دائیں ہاتھ میں نامہئ اعمال دیا جانے کا سبب

نماز شب کے عالم آخرت سے مربوط نتائج میں سے اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کی وجہ سے خداوند قیامت کے حساب وکتاب کے دن نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دے گا کہ یہی قبولیت اعمال اور رضایت خدا کی علامت ہے لہٰذا اس مطلب کو روایت کی روشنی میں بیان کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ وہ مقدمہ یہ ہے کہ قیامت کی بحث علم کلام میں مستقل ایک بحث

____________________

(١)بحارالانوار ج٨٧.

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

کے نام کا بھی ذکر کیا ہے.( ۱ )

اس بیان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حدیث'' ضحضاح''کے سارے راوی انتہائی ضعیف تھے لہذا ان سے منقول احادیث پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا.

حدیث ضحضاح کا مضمون قرآن و سنت کے خلاف ہے اس حدیث میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کو(معاذاللہ) آگ کے شعلوں کے انبار سے نکال کر ضحضاح کی طرف منتقل کردیا تھااس اعتبار سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے عذاب میں کمی کرادی تھی یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قیامت کے دن ان کے حق میں شفاعت کرنے کی آرزو کی تھی جبکہ قرآن مجید اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعتبار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عذاب میں کمی کرانے یا شفاعت کرنے کا حق صرف مومنوں اور مسلمانوں سے ہی مخصوص ہے لہذا اگر (معاذاللہ) جناب ابوطالب کافر ہوتے تو ہرگز پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے عذاب میں کمی یا ان کی شفاعت کی آرزو نہ کرتے اس اعتبار سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ (حدیث ضحضاح) کا مضمون باطل اور بے بنیاد ہے اب

ہم قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلے کی چند واضح دلیلیں پیش کرتے ہیں :

الف: قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لاَیُقْضَی عَلَیْهِمْ فَیَمُوتُوا وَلاَیُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا کَذٰلِکَ

____________________

(۱)شیخ الابطح ص۷۵ اور میزان الاعتدال جلد۳ ص۴۲۳.

۲۴۱

نَجْزِ کُلَّ کَفُورٍ )( ۱ )

اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کیلئے جہنم کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ مرجائیں اور نہ ہی انکے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائی گی ہم اسی طرح ہر کفر کرنے والے کو سزا دیا کرتے ہیں

ب:سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی کفار کے حق میں شفاعت کی نفی کی گئی ہے: ابوذر غفاری نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے :

أعطیت الشفاعة وھ نائلة من أُمت مَن لایشرک باللّہ شیئًا.

مجھے شفاعت کرنے کا حق دیا گیا ہے اور وہ میری امت کے ایسے افراد کے لئے ہوگی جنہوں نے خداوندعالم کے سلسلے میں شرک نہ کیاہو.

لہذا حدیث ضحضاح کا مضمون باطل ، بے بنیاد اور قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف ہے.

نتیجہ

اس بیان کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث ضحضاح سند و متن کے اعتبار

سے ناقابل عمل روایت ہے. اس طرح جناب ابوطالب کی باایمان شخصیت کو داغدار کرنے والی مہمل روایت باطل ہوجاتی ہے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حامی و ناصر جناب ابوطالب کا ایمان محکم طریقہ سے ثابت ہوجاتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ فاطر آیت : ۳۶.

۲۴۲

تیسواں سوال

کیا شیعوں کی نظر میں جبرئیل ـ نے منصب رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت علی ـکے بجائے قرآن مجید کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا ہے؟

جواب: بعض جاہل اور خود غرض افراد نے شیعوں پر یہ تہمت لگائی ہے .اس مسئلے کے جواب سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سوال کے پیداہونے کا اصلی سبب بیان کردیں:

اس تہمت کا اصلی سبب

قرآنی آیات اور احادیث نبوی کے مطابق یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت جبرئیل ـ نے رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے کیونکہ خداوندعالم نے انہیں حکم دیا تھا کہ منصب نبوت کو خاندان اسرائیل میں قراردیں لیکن انہوں نے پروردگار عالم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصب نبوت کو اولاد اسماعیل میں قرار دے دیا

۲۴۳

اسی بنیاد پر یہودی جناب جبرئیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں( ۱ )

اور ان کے بارے میں ہمیشہ ''خان الامین'' ''جبرائیل نے خیانت کی'' کا جملہ استعمال کرتے ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید نے ان پر اعتراض کیا ہے اور ان کے نظرئیے کو باطل قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل آیت میں جناب جبرئیل کو فرشتہ ''امین'' کے نام سے یاد کیا ہے:

(نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْاَمِینُ ة عَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنْ الْمُنذِرِینَ )( ۲ )

اس( قرآن مجید)کو روح الامین (جبرائیل) لے کر نازل ہوئے ہیں یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں.

ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

(قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَاِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَی قَلْبِکَ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۳ )

____________________

(۱)تفسیر فخررازی جلد۱ ص ۴۳۶ اور ۴۳۷ طبع مصر ۱۳۰۸ھ.

(۲)سورہ شعراء آیت: ۱۹۴.

(۳)سورہ بقرہ آیت: ۹۳۔۱۹۴.

۲۴۴

آپ کہہ دیجئے: جو کوئی جبرئیل کا دشمن ہے وہ یہ جان لے کہ اس نے تو اس قرآن کو حکم خدا سے آپ کے قلب پر نازل کیا ہے.

اگر ان آیات کی تفسیر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ قوم یہود چند وجوہات کی بنا پر جناب جبرئیل کو اپنا دشمن شمار کرتے ہوئے انہیں فرشتۂ عذاب اور رسالت پہنچانے میں خیانت کرنے والا تصور کرتی تھی لہذا اس کلمے ''خان الامین'' کا سرچشمہ قوم یہود کا عقیدہ ہے اور بعض جاہل مصنفین نے شیعوں سے اپنی پرانی دشمنی کے نتیجے میں بے انصافی سے کام لیتے ہوئے یہودیوں کے اس جملے کو شیعہ قوم سے منسوب کردیا ہے.

شیعوں کی نگاہ میں منصب نبوت

شیعہ ،قرآن وسنت کی پیروی اور ائمہ معصومین ٪ کی روایات کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم خدا سے ساری دنیا کے لئے نبی برحق سمجھتے ہیں بلکہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آخری نبی اور سید المرسلین بھی مانتے ہیں

شیعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب ـ اپنے اس گہربار کلام میں اس حقیقت کی یوں گواہی دیتے ہیں :

۲۴۵

وأشهد أن لااله الا اللّه وحده لاشریک و أشهد أن محمّدًا عبده و رسوله خاتم النبیّین و حجة اللّه علیٰ العالمین .( ۱ )

میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اس خدائے واحد کے جس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد خدا کے بندے اس کے رسول ، خاتم الانبیاء اور سب جہانوں پر خدا کی حجت ہیں

امام جعفرصادق ـ نیز فرماتے ہیں :

''لم یبعث اللّه عزّوجلّ من العرب اِلا خمسة أنبیاء هودًا و صالحًا و اسماعیل و شعیبًا و محمدًا خاتم النبیّین صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '.'( ۲ )

خداوندعالم نے پانچ انبیاء کو قوم عرب میں سے مبعوث فرمایا ہے : حضرت ہود، حضرت صالح ، حضرت اسماعیل ،حضرت شعیب اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

یہ حدیث بخوبی شیعوں پر لگائی گئی نسبت کو باطل کردیتی ہے اور حضرت محمدبن عبداللہ کو خدا کے آخری نبی کی حیثیت سے پہچنواتی ہے( ۳ )

____________________

(۱)نہج السعادة جلد۱ ص ۱۸۸ طبع بیروت اور کافی جلد ۸صفحہ ۶۷طبع ۲ تہران.

(۲)بحار الانوار جلد۱۱ ص ۴۲ طبع ۲ بیروت ۱۴۰۳ھ

(۳)پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت کے سلسلے میں زیادہ روایات سے آگاہی کے لئے استاد جعفر سبحانی کی کتاب ''مفاہیم القرآن'' کا مطالعہ فرمائیں.

۲۴۶

اسی بنیاد پر تمام شیعہ جناب جبرئیل کو رسالت پہنچانے میں امین سمجھتے ہیں اوراسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے آخری اور برحق نبی تھے اور حضرت علی بن ابی طالب ـ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی وصی اور جانشین تھے۔

یہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی درج ذیل حدیث پیش کریں جس کے صحیح ہونے پر شیعہ اور سنی دونوں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور دونوں ہی فرقوں کے محدثین نے اس حدیث کو اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے یہ حدیث ''حدیث منزلت'' کے نام سے مشہور ہے اس حدیث میں آپ نے اپنی رسالت کی خاتمیت بیان کرنے کے بعد حضرت علی ـ کو اپنا وصی اور جانشین معین فرمایاہے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

أما ترضیٰ أن تکون منّى بمنزلة هارون من موسیٰ الا اِنّه لانبّى بعد ( ۱ )

____________________

(۱)اس حدیث کے بے شمار ماخذ موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔صحیح بخاری جلد۶ ص۳ باب غزوہ تبوک (طبع مصر)

۲۔صحیح مسلم جلد۷ ص ۱۲۰ باب فضائل علی (طبع مصر)

۳۔سنن ابن ماجہ جلد۱ ص۵۵ باب فضائل اصحاب النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (طبع اول مصر)

۴۔مستدرک حاکم جلد۳ ص ۱۰۹ (طبع بیروت)

۵۔مسند احمد جلد۱ ص ۱۷۰، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۵ اور جلد ۳ میں ص ۳۲

۶۔صحیح ترمذی جلد۵ ص۲۱ باب مناقب علی بن ابی طالب (طبع بیروت)

۷۔مناقب ابن مغازلی ص ۲۷ طبع بیروت ۱۴۰۳ھ

۸۔بحارالانوار جلد ۳۷ ص ۲۵۴ طبع ۲ بیروت ۱۴۰۳ھ

۹۔معانی الاخبار (شیخ الصدوق) ص۷۴ طبع بیروت ۱۳۹۹ھ

۱۰۔کنزالفوائد جلد۲ ص ۱۶۸ طبع بیروت ۱۴۰۵ھ

۲۴۷

(اے علی )کیاتم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کو موسیٰ سے تھی صرف یہ (فرق ہے) کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا.

یہ حدیث جو کہ سند کے اعتبار سے شیعہ و سنی محدثین کی نظر میں معتبر ہے شیعوں کے درج ذیل دو نظریوں کی واضح دلیل ہے:

۱۔حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے آخری نبی ہیں

۲۔حضرت علی بن ابی طالبـ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین اور بلافصل خلیفہ ہیں ۔

۲۴۸

اکتیسواں سوال

تقیہ کا معیارکیا ہے؟

جواب:دشمنوں کے مقابلے میں دنیاوی اور دینی نقصانات سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے باطنی عقیدے اور ایمان کو چھپانے کا نام تقیہ ہے تقیہ ہر مسلمان شخص کا ایک ایسا شرعی فریضہ ہے جس کا سرچشمہ قرآنی آیات ہیں :

قرآن کی نگاہ میں تقیہ

قرآن مجید میں تقیہ سے متعلق بہت سی آیات ہیں ان میں سے یہاں ہم بعض کا ذکر کرتے ہیں :

(لایَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ َوْلِیَائَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنَ ﷲِ فى شَْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت: ۲۸.

۲۴۹

مومنوں کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں ہے

یہ آیت بخوبی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کفار کے ساتھ دوستی رکھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر جان خطرہ میں ہو تو تقیہ کرتے ہوئے ان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کیا جاسکتا ہے.

ب:(مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْ بَعْدِ ِیمَانِهِا ِلاَّ مَنْ ُاکْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنّ بِالْاِیمَانِ وَلٰکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَب مِنْ ﷲِ وَلَهُمْ عَذَاب عَظِیم )( ۱ )

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کر لے سوائے اس کے جسے کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں ہے)لیکن وہ شخص جس کے سینہ میں کفر کے لئے کافی جگہ پائی جاتی ہو اس کے اوپر خد ا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے

مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں یہ لکھا ہے :ایک دن کفار نے جناب عمار ابن یاسر کو ان کے ماں باپ کے ہمراہ گرفتار کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ اسلام کو

____________________

(۱)سورہ نحل آیت: ۱۰۶

۲۵۰

چھوڑ کر کفر و شرک اختیار کرلو تو عماربن یاسر کے ہمراہ افراد نے ان کے جواب میں توحید و رسالت کی گواہیاں دینا شروع کردیں جس پر کفار نے ان میں سے بعض کو شہید کرڈالا اور بعض پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھانے لگے اس وقت جناب عمار نے اپنے باطنی عقیدے کے برخلاف تقیہ اختیار کرکے ظاہری طور پر کفر کے کلمات کو اپنی زبان پر جاری کیا تو کفار نے انہیں چھوڑ دیا پھر اسکے بعد جناب عمار انتہائی پریشانی کے عالم میں رسول خدا کی خدمت میں پہنچے تو آنحضرت نے انہیں تسلی دی اور پھر اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی.(۱)

اس آیت اور اس کی تفسیر سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اصحاب بھی جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنے باطنی عقیدے کو چھپا کر تقیہ کرتے تھے.

تقیہ شیعوں کی نگاہ میں

بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمران ہمیشہ شیعوں سے برسرپیکار رہے ہیں اور انہوں نے شیعوں کے قتل عام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے( ۲ )

اس بنا پر اس زمانے میں شیعوں نے قرآن مجید کے حکم کے مطابق انتہائی سخت حالات میں اپنے سچے عقائد چھپا کر اپنی اور دوسرے مسلمان بھائیوں کی جانیں محفوظ کی تھیںواضح ہے کہ اس ظلم و ستم کی فضا میں شیعوں کے لئے تقیہ کے علاوہ کوئی ایسا چارۂ کار نہیں تھا جو شیعوں کو نابودی سے بچاتالہذا اگر وہ ظالم حکام، شیعوں کے دشمن نہ ہوتے اور شیعوں کا بے گناہ قتل عام نہ کرتے تو ہر گز شیعہ تقیہ اختیار نہ کرتے یہاں پر اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تقیہ صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی جب اپنے ایسے دشمنوں کے مقابلے میں قرار پاتے ہیں جو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے دشمن ہیں (جیسے کہ خوارج اور وہ ظالم حکومتیں جو ہر حرام کام کو جائز سمجھتی ہیں )اور ان سے مقابلہ کی طاقت بھی نہیں ہوتی تو وہ اپنی جان کی حفاظت کی خاطر تقیہ کا سہارالیتے ہیں اس بنیاد پر اگر اسلامی معاشرے کے تمام افراد اپنے فقہی مذاہب میں اتفاق رائے رکھتے ہوئے وحدت واخوت کی زندگی گزارنا شروع کردیں تو پھر ہرگز انھیں تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

____________________

(۱)اس سلسلے میں جلال الدین سیوطی کی تفسیر در المنثور جلد۴ ص۱۳۱ (طبع بیروت) کا مطالعہ کیجئے.

(۲)بنی امیہ اور بنی عباس کے حکام کے حکم پر شیعوں کے بے رحمانہ قتل عام کے سلسلے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان کتابوں''مقاتل الطالبین''(مصنفہ ابوالفرج اصفہانی) ''شہداء الفضیلة(مصنفہ علامہ امینی)''، ''الشیعہ والحاکمون''(مصنفہ محمد جواد مغنیہ)کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

۲۵۱

نتیجہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:

۱۔تقیہ کی اساس قرآن مجید پر ہے اور صدر اسلام میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب بھی تقیہ کر تے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے اس عمل کی تائید فرماتے تھے یہ سب تقیہ کے جائز ہونے کی دلیلیں ہیں

۲۔شیعہ اپنے مذہب کو بچانے اور دشمنوں کے سفاکانہ قتل عام سے محفوظ رہنے کے لئے تقیہ کرتے تھے

۳۔تقیہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی تقیہ کرتے ہیں

۴۔تقیہ کرنا اور اپنے باطنی عقائد چھپانا صرف کفار کے مقابلے میں ہی انجام نہیں پاتا بلکہ تقیہ کا معیار (مسلمانوں کی جان بچانا) عمومیت رکھتا ہے اور ہر ایسے ظالم دشمن کے سامنے کہ جس کے ساتھ مقابلے کی قدرت نہ ہو یا اس سے جہاد کرنے کے شرائط پورے نہ ہورہے ہوں تقیہ ضروری ہوجاتا ہے

۵۔اگر مسلمانوں میں مکمل وحدت اور ہم فکری پیدا ہوجائے تو ہرگز ان کے درمیان تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

۲۵۲

بتیسواں سوال

ایران کے بنیادی قانون میں کیوں جعفری مذہب (شیعہ اثناعشری) کو حکومت کا مذہب قرار دیا گیا ہے؟

جواب:اس میں شک نہیں کہ جمہوری اسلامی ایران کے بنیادی قانون کی نظر میں تمام اسلامی مذاہب محترم و معزز شمار کئے جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ اسلامی و فقہی مذاہب (:جیسے جعفری، مالکی، شافعی، حنبلی ، حنفی و...) کے ماننے والے اپنے فردی اور اجتماعی احکام میں یکساں اور متحد نہیں ہیں اور ان کے درمیان بہت سے اختلافات دکھائی دیتے ہیں دوسری طرف سے ایک معاشرے کے قوانین و حقوق کا آپس میں منظم اور یک رنگ ہونا وقت کی شدید ترین ضرورت ہے اس اعتبار سے واضح ہے کہ ہر سرزمین پر ان مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی اجتماعی قوانین کو نافذ کرسکتا ہے اس لئے کہ قانون گزاروں کے مختلف ہونے سے کبھی بھی ایک جیسے اور یکساں قوانین نہیں بنائے جاسکتے اس بنیاد پر یہ ضروری ہے کہ ہر معاشرے میں اسلامی اور فقہی مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی باضابطہ طور پراجتماعی قوانین کا ماخذ قرار پائے تاکہ اس مملکت کے قوانین و ضوابط میں کسی طرح کی دو روئی اور بدنظمی پیدا نہ ہونے پائے اور فردی و اجتماعی امور میں منظم اور یکساں قوانین و ضوابط بنانے کا زمینہ ہموار ہوسکے

۲۵۳

جعفری مذہب کی تعیین کا معیار

گزشتہ وضاحت کے بعد اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کس معیار کے تحت تمام مذاہب میں سے صرف جعفری مذہب کو ملک کے قوانین و ضوابط کا ماخذ قرار دیا ہے؟

اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے چونکہ ایران میں عوام کی اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جو جعفری مذہب کو مانتے ہیں لہذا اس ملک کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا جو کہ ایک فطری امر ہے اور تمام منطقی اور حقوقی ضابطوں سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے.

ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کا درجہ

اگرچہ ایران کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس اسلامی مملکت میں دوسرے اسلامی مذاہب (جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی کو) نہ صرف محترم شمار کیا گیا ہے بلکہ ان مذاہب کے ماننے والوں کو درج ذیل امور میں اپنی فقہ پر عمل کرنے میں مکمل اختیار بھی دیا گیا ہے:

۱۔اپنے مذہبی مراسم کے انجام دینے میں

۲۔اپنی دینی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں

۳۔اپنے ذاتی اور شخصی کاموں کو انجام دینے میں

۴۔اپنے مذہب کے خصوصی قوانین و ضوابط میں (جیسے نکاح، طلاق، میراث، وصیت وغیرہ).

اس کے علاوہ اگر کسی علاقے میں مذکورہ مذاہب میں سے کسی مذہب کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی وہاں کے قونصل خانوں میں ان کے لئے ان کے مذہب کے مطابق قوانین و ضوابط وضع کئے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق بھی محفوظ رہیں گے

۲۵۴

یہاں پر اس موضوع کی مزید وضاحت کے لئے ہم ایران کے بنیادی قانون کی بارہویں اصل کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

''ایران کا رسمی دین اسلام اور مذہب جعفری اثنا عشری ہے یہ ہمیشہ رہے گا اور ناقابل تبدیل ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذہبوں. جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی مذاہب کے ماننے والے بھی مکمل طور پر محترم شمار کئے جائیں گے '' اور ان مذاہب کے پیرو اپنی فقہ کے مطابق اپنے مذہبی رسومات کے انجام دینے میں آزاد ہوں گے اور اسی طرح وہ اپنی دینی تعلیم و تربیت اور اپنے ذاتی مسائل جیسے نکاح ،طلاق ، میراث،وصیت،لڑائی جھگڑوں کے مسائل اور عدالتوں میں مقدموں کے سلسلے میں رسمی طور پر اپنے مذہب کی فقہ پر عمل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور جس جگہ بھی مذکورہ مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کے پیرو اکثریت میں ہوں گے اس جگہ کے علاقائی قوانین ان کے مذہب کے مطابق ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق بھی محفوظ ہوں گے ایران کے قانون اساسی کی اس بارہویں اصل کی روشنی میں تمام اسلامی مذاہب کا احترام روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۵۵

تینتیسواں سوال

کیا شیعہ نماز وتر کو واجب سمجھتے ہیں ؟

جواب:نوافل شب میں سے ایک نماز وتر بھی ہے جس کا پڑھنا اسلام کے ماننے والوں اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی پیروی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے لیکن شیعہ فقہاء نے کتاب و سنت کی روشنی میں چند امور کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات میں سے قرار دیا ہے ان ہی میں سے ایک حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس نماز کا واجب ہونا بھی ہے

چنانچہ علامہ حلی نے اپنی کتاب ''تذکرة الفقہائ'' میں تقریباً ستر چیزوں کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات میں شمار کیا ہے اور انہوں نے اپنے کلام کے آغاز ہی میں یہ کہا ہے:

''فأمّا الواجبات علیه دون غیره من أمّته أمور: الف : السواک ،ب: الوتر، ج: الأضحیه، رو عنه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أنه قال : ثلاث کتب علّ ولم تکتب علیکم : السواک والوتر والأضحیّة ... ''( ۱ )

____________________

(۱)تذکرة الفقہاء جلد۲ کتاب النکاح مقدمہ چہارم۔

۲۵۶

وہ چیزیں جو صرف پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہیں اور ان کی امت کے لئے واجب نہیں ہیں وہ یہ ہیں :الف :مسواک کرنا،ب:نماز وتر پڑھنا، ج: قربانی کرنا،.

رسول خدا سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایاہے : تین چیزیں میرے اوپر واجب کی گئی ہیں لیکن تم لوگوں پر واجب نہیں ہیں اور وہ ہیں مسواک کرنا ، نماز وتر پڑھنا اور قربانی کرنا ''اس بنیاد پر نماز وتر شیعوں کی نظر میں صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہے اور دوسروں کے لئے اس کا پڑھنا مستحب ہے.

۲۵۷

چونتیسواں سوال

کیا اولیائے خدا کی غیبی طاقت پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟

جواب: یہ بات واضح ہے کہ جب کبھی کوئی شخص دوسرے سے کسی کام کی درخواست کرتا ہے تو وہ اس شخص کو اس کام کے انجام دینے میں اپنے سے قوی اور طاقتور سمجھتا ہے اور یہ طاقت دو قسم کی ہوتی ہے :

۱۔کبھی یہ قدرت مادی اور فطری ہوتی ہے جیسے ہم کسی شخص سے کہیں مجھے ایک گلاس پانی لادو

۲۔بعض اوقات یہ طاقت مادی اور فطری نہیں ہوتی بلکہ غیبی صورت میں ہوتی ہے جیسے کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ خدا کے کچھ نیک بندے جناب عیسیٰ کی طرح لاعلاج مرض سے شفا عطا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور مسیحائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدید قسم کے مریض کو بھی نجات عطا کرتے ہیں یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کی غیبی طاقتوں پر انہیں خدا کے ارادے اور قدرت کا محتاج سمجھ کر عقیدہ رکھنا فطری و مادی قدرتوں پر عقیدہ رکھنے کی طرح ہے اور یہ ہرگز شرک قرار نہیں پاسکتا اس لئے کہ خداوندعالم ہی نے یہ مادی اور فطری طاقتیں انسان کو عطا کی ہیں اور اسی نے غیبی طاقتوں کو اپنے نیک بندوں کو عنایت فرمایا ہے

یہاں پر ہم اس جواب کی مزید وضاحت کرنے کے لئے یہ کہیں گے کہ اولیائے خدا کی غیبی قدرت و طاقت پر دو طرح سے عقیدہ رکھا جاسکتا ہے :

۲۵۸

۱۔کسی شخص کی غیبی قدرت پر اس طرح عقیدہ رکھا جائے کہ اسے اپنی اس طاقت میں مستقل اوراصل سمجھیں اور خدائی امور کو مستقل طور پر اس کی طرف نسبت دینے لگیں اس صورت میں شک نہیں کہ یہ عقیدہ شرک شمار ہوگا کیونکہ اس طرح ہم نے غیر خدا کو طاقت میں مستقل سمجھ کر خدائی امور کو غیر خدا کی طرف منسوب کردیا ہے جب کہ یہ طے ہے کہ پروردگار عالم کی لامتناہی طاقت و قدرت ہی سے تمام طاقتوں اور قدرتوں کاسرچشمہ بناہے

۲۔خدا کے نیک اور باایمان بندوں کی غیبی طاقت پر اس طرح اعتقاد رکھیں کہ انہوں نے اپنی یہ قدرت پروردگار عالم کی لامحدود قدرت سے حاصل کی ہے اور درحقیقت ان قدرتوں کو حاصل کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان کے ذریعے خدا کی لامحدود قدرت کا اظہار کیا جاسکے اور وہ خود اپنی ذات میں کسی طرح کا استقلال نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنی ہستی اور اپنی غیبی قدرت کے استعمال میں پوری طرح ذات پروردگار پر منحصر ہیں

واضح ہے کہ اس طرح کا عقیدہ اولیائے الہی کو خدا سمجھنے یا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دینے کی طرح نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں پروردگار عالم کے نیک بندے اس کی اجازت اور ارادے سے اس کی عطا کردہ غیبی طاقت کا اظہا ر کرتے ہیں قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

۲۵۹

(وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ اَنْ یَاْتِىَ بِآیَةٍ ِالاَّ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۱ )

اور کسی رسول کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے.

اس بیان کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ ایسا عقیدہ باعث شرک قرار نہیں پائے گا بلکہ توحید و یکتا پرستی سے مکمل طورپر مطابقت رکھنے والا عقیدہ نظر آئے گا.

قرآن مجید کی نظر میں اولیائے الہی کی غیبی طاقت

مسلمانوں کی آسمانی کتاب نے وضاحت کے ساتھ پروردگار عالم کے ان نیک بندوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے پروردگار عالم کی اجازت سے اپنی حیرت انگیز قدرت کا مظاہرہ کیا تھا اس سلسلے میں قرآن مجید کے بعض جملے ملاحظہ ہوں:

____________________

(۱)سورہ رعد آیت : ۳۸

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296