شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 78985
ڈاؤنلوڈ: 2846

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78985 / ڈاؤنلوڈ: 2846
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

کے نام کا بھی ذکر کیا ہے.( ۱ )

اس بیان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حدیث'' ضحضاح''کے سارے راوی انتہائی ضعیف تھے لہذا ان سے منقول احادیث پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا.

حدیث ضحضاح کا مضمون قرآن و سنت کے خلاف ہے اس حدیث میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کو(معاذاللہ) آگ کے شعلوں کے انبار سے نکال کر ضحضاح کی طرف منتقل کردیا تھااس اعتبار سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے عذاب میں کمی کرادی تھی یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قیامت کے دن ان کے حق میں شفاعت کرنے کی آرزو کی تھی جبکہ قرآن مجید اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعتبار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عذاب میں کمی کرانے یا شفاعت کرنے کا حق صرف مومنوں اور مسلمانوں سے ہی مخصوص ہے لہذا اگر (معاذاللہ) جناب ابوطالب کافر ہوتے تو ہرگز پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے عذاب میں کمی یا ان کی شفاعت کی آرزو نہ کرتے اس اعتبار سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ (حدیث ضحضاح) کا مضمون باطل اور بے بنیاد ہے اب

ہم قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلے کی چند واضح دلیلیں پیش کرتے ہیں :

الف: قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لاَیُقْضَی عَلَیْهِمْ فَیَمُوتُوا وَلاَیُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا کَذٰلِکَ

____________________

(۱)شیخ الابطح ص۷۵ اور میزان الاعتدال جلد۳ ص۴۲۳.

۲۴۱

نَجْزِ کُلَّ کَفُورٍ )( ۱ )

اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کیلئے جہنم کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ مرجائیں اور نہ ہی انکے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائی گی ہم اسی طرح ہر کفر کرنے والے کو سزا دیا کرتے ہیں

ب:سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی کفار کے حق میں شفاعت کی نفی کی گئی ہے: ابوذر غفاری نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے :

أعطیت الشفاعة وھ نائلة من أُمت مَن لایشرک باللّہ شیئًا.

مجھے شفاعت کرنے کا حق دیا گیا ہے اور وہ میری امت کے ایسے افراد کے لئے ہوگی جنہوں نے خداوندعالم کے سلسلے میں شرک نہ کیاہو.

لہذا حدیث ضحضاح کا مضمون باطل ، بے بنیاد اور قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف ہے.

نتیجہ

اس بیان کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث ضحضاح سند و متن کے اعتبار

سے ناقابل عمل روایت ہے. اس طرح جناب ابوطالب کی باایمان شخصیت کو داغدار کرنے والی مہمل روایت باطل ہوجاتی ہے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حامی و ناصر جناب ابوطالب کا ایمان محکم طریقہ سے ثابت ہوجاتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ فاطر آیت : ۳۶.

۲۴۲

تیسواں سوال

کیا شیعوں کی نظر میں جبرئیل ـ نے منصب رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت علی ـکے بجائے قرآن مجید کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا ہے؟

جواب: بعض جاہل اور خود غرض افراد نے شیعوں پر یہ تہمت لگائی ہے .اس مسئلے کے جواب سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سوال کے پیداہونے کا اصلی سبب بیان کردیں:

اس تہمت کا اصلی سبب

قرآنی آیات اور احادیث نبوی کے مطابق یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت جبرئیل ـ نے رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے کیونکہ خداوندعالم نے انہیں حکم دیا تھا کہ منصب نبوت کو خاندان اسرائیل میں قراردیں لیکن انہوں نے پروردگار عالم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصب نبوت کو اولاد اسماعیل میں قرار دے دیا

۲۴۳

اسی بنیاد پر یہودی جناب جبرئیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں( ۱ )

اور ان کے بارے میں ہمیشہ ''خان الامین'' ''جبرائیل نے خیانت کی'' کا جملہ استعمال کرتے ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید نے ان پر اعتراض کیا ہے اور ان کے نظرئیے کو باطل قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل آیت میں جناب جبرئیل کو فرشتہ ''امین'' کے نام سے یاد کیا ہے:

(نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْاَمِینُ ة عَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنْ الْمُنذِرِینَ )( ۲ )

اس( قرآن مجید)کو روح الامین (جبرائیل) لے کر نازل ہوئے ہیں یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں.

ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

(قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَاِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَی قَلْبِکَ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۳ )

____________________

(۱)تفسیر فخررازی جلد۱ ص ۴۳۶ اور ۴۳۷ طبع مصر ۱۳۰۸ھ.

(۲)سورہ شعراء آیت: ۱۹۴.

(۳)سورہ بقرہ آیت: ۹۳۔۱۹۴.

۲۴۴

آپ کہہ دیجئے: جو کوئی جبرئیل کا دشمن ہے وہ یہ جان لے کہ اس نے تو اس قرآن کو حکم خدا سے آپ کے قلب پر نازل کیا ہے.

اگر ان آیات کی تفسیر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ قوم یہود چند وجوہات کی بنا پر جناب جبرئیل کو اپنا دشمن شمار کرتے ہوئے انہیں فرشتۂ عذاب اور رسالت پہنچانے میں خیانت کرنے والا تصور کرتی تھی لہذا اس کلمے ''خان الامین'' کا سرچشمہ قوم یہود کا عقیدہ ہے اور بعض جاہل مصنفین نے شیعوں سے اپنی پرانی دشمنی کے نتیجے میں بے انصافی سے کام لیتے ہوئے یہودیوں کے اس جملے کو شیعہ قوم سے منسوب کردیا ہے.

شیعوں کی نگاہ میں منصب نبوت

شیعہ ،قرآن وسنت کی پیروی اور ائمہ معصومین ٪ کی روایات کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم خدا سے ساری دنیا کے لئے نبی برحق سمجھتے ہیں بلکہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آخری نبی اور سید المرسلین بھی مانتے ہیں

شیعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب ـ اپنے اس گہربار کلام میں اس حقیقت کی یوں گواہی دیتے ہیں :

۲۴۵

وأشهد أن لااله الا اللّه وحده لاشریک و أشهد أن محمّدًا عبده و رسوله خاتم النبیّین و حجة اللّه علیٰ العالمین .( ۱ )

میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اس خدائے واحد کے جس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد خدا کے بندے اس کے رسول ، خاتم الانبیاء اور سب جہانوں پر خدا کی حجت ہیں

امام جعفرصادق ـ نیز فرماتے ہیں :

''لم یبعث اللّه عزّوجلّ من العرب اِلا خمسة أنبیاء هودًا و صالحًا و اسماعیل و شعیبًا و محمدًا خاتم النبیّین صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '.'( ۲ )

خداوندعالم نے پانچ انبیاء کو قوم عرب میں سے مبعوث فرمایا ہے : حضرت ہود، حضرت صالح ، حضرت اسماعیل ،حضرت شعیب اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

یہ حدیث بخوبی شیعوں پر لگائی گئی نسبت کو باطل کردیتی ہے اور حضرت محمدبن عبداللہ کو خدا کے آخری نبی کی حیثیت سے پہچنواتی ہے( ۳ )

____________________

(۱)نہج السعادة جلد۱ ص ۱۸۸ طبع بیروت اور کافی جلد ۸صفحہ ۶۷طبع ۲ تہران.

(۲)بحار الانوار جلد۱۱ ص ۴۲ طبع ۲ بیروت ۱۴۰۳ھ

(۳)پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت کے سلسلے میں زیادہ روایات سے آگاہی کے لئے استاد جعفر سبحانی کی کتاب ''مفاہیم القرآن'' کا مطالعہ فرمائیں.

۲۴۶

اسی بنیاد پر تمام شیعہ جناب جبرئیل کو رسالت پہنچانے میں امین سمجھتے ہیں اوراسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے آخری اور برحق نبی تھے اور حضرت علی بن ابی طالب ـ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی وصی اور جانشین تھے۔

یہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی درج ذیل حدیث پیش کریں جس کے صحیح ہونے پر شیعہ اور سنی دونوں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور دونوں ہی فرقوں کے محدثین نے اس حدیث کو اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے یہ حدیث ''حدیث منزلت'' کے نام سے مشہور ہے اس حدیث میں آپ نے اپنی رسالت کی خاتمیت بیان کرنے کے بعد حضرت علی ـ کو اپنا وصی اور جانشین معین فرمایاہے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

أما ترضیٰ أن تکون منّى بمنزلة هارون من موسیٰ الا اِنّه لانبّى بعد ( ۱ )

____________________

(۱)اس حدیث کے بے شمار ماخذ موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔صحیح بخاری جلد۶ ص۳ باب غزوہ تبوک (طبع مصر)

۲۔صحیح مسلم جلد۷ ص ۱۲۰ باب فضائل علی (طبع مصر)

۳۔سنن ابن ماجہ جلد۱ ص۵۵ باب فضائل اصحاب النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (طبع اول مصر)

۴۔مستدرک حاکم جلد۳ ص ۱۰۹ (طبع بیروت)

۵۔مسند احمد جلد۱ ص ۱۷۰، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۵ اور جلد ۳ میں ص ۳۲

۶۔صحیح ترمذی جلد۵ ص۲۱ باب مناقب علی بن ابی طالب (طبع بیروت)

۷۔مناقب ابن مغازلی ص ۲۷ طبع بیروت ۱۴۰۳ھ

۸۔بحارالانوار جلد ۳۷ ص ۲۵۴ طبع ۲ بیروت ۱۴۰۳ھ

۹۔معانی الاخبار (شیخ الصدوق) ص۷۴ طبع بیروت ۱۳۹۹ھ

۱۰۔کنزالفوائد جلد۲ ص ۱۶۸ طبع بیروت ۱۴۰۵ھ

۲۴۷

(اے علی )کیاتم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کو موسیٰ سے تھی صرف یہ (فرق ہے) کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا.

یہ حدیث جو کہ سند کے اعتبار سے شیعہ و سنی محدثین کی نظر میں معتبر ہے شیعوں کے درج ذیل دو نظریوں کی واضح دلیل ہے:

۱۔حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے آخری نبی ہیں

۲۔حضرت علی بن ابی طالبـ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین اور بلافصل خلیفہ ہیں ۔

۲۴۸

اکتیسواں سوال

تقیہ کا معیارکیا ہے؟

جواب:دشمنوں کے مقابلے میں دنیاوی اور دینی نقصانات سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے باطنی عقیدے اور ایمان کو چھپانے کا نام تقیہ ہے تقیہ ہر مسلمان شخص کا ایک ایسا شرعی فریضہ ہے جس کا سرچشمہ قرآنی آیات ہیں :

قرآن کی نگاہ میں تقیہ

قرآن مجید میں تقیہ سے متعلق بہت سی آیات ہیں ان میں سے یہاں ہم بعض کا ذکر کرتے ہیں :

(لایَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ َوْلِیَائَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنَ ﷲِ فى شَْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت: ۲۸.

۲۴۹

مومنوں کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں ہے

یہ آیت بخوبی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کفار کے ساتھ دوستی رکھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر جان خطرہ میں ہو تو تقیہ کرتے ہوئے ان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کیا جاسکتا ہے.

ب:(مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْ بَعْدِ ِیمَانِهِا ِلاَّ مَنْ ُاکْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنّ بِالْاِیمَانِ وَلٰکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَب مِنْ ﷲِ وَلَهُمْ عَذَاب عَظِیم )( ۱ )

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کر لے سوائے اس کے جسے کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں ہے)لیکن وہ شخص جس کے سینہ میں کفر کے لئے کافی جگہ پائی جاتی ہو اس کے اوپر خد ا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے

مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں یہ لکھا ہے :ایک دن کفار نے جناب عمار ابن یاسر کو ان کے ماں باپ کے ہمراہ گرفتار کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ اسلام کو

____________________

(۱)سورہ نحل آیت: ۱۰۶

۲۵۰

چھوڑ کر کفر و شرک اختیار کرلو تو عماربن یاسر کے ہمراہ افراد نے ان کے جواب میں توحید و رسالت کی گواہیاں دینا شروع کردیں جس پر کفار نے ان میں سے بعض کو شہید کرڈالا اور بعض پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھانے لگے اس وقت جناب عمار نے اپنے باطنی عقیدے کے برخلاف تقیہ اختیار کرکے ظاہری طور پر کفر کے کلمات کو اپنی زبان پر جاری کیا تو کفار نے انہیں چھوڑ دیا پھر اسکے بعد جناب عمار انتہائی پریشانی کے عالم میں رسول خدا کی خدمت میں پہنچے تو آنحضرت نے انہیں تسلی دی اور پھر اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی.(۱)

اس آیت اور اس کی تفسیر سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اصحاب بھی جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنے باطنی عقیدے کو چھپا کر تقیہ کرتے تھے.

تقیہ شیعوں کی نگاہ میں

بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمران ہمیشہ شیعوں سے برسرپیکار رہے ہیں اور انہوں نے شیعوں کے قتل عام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے( ۲ )

اس بنا پر اس زمانے میں شیعوں نے قرآن مجید کے حکم کے مطابق انتہائی سخت حالات میں اپنے سچے عقائد چھپا کر اپنی اور دوسرے مسلمان بھائیوں کی جانیں محفوظ کی تھیںواضح ہے کہ اس ظلم و ستم کی فضا میں شیعوں کے لئے تقیہ کے علاوہ کوئی ایسا چارۂ کار نہیں تھا جو شیعوں کو نابودی سے بچاتالہذا اگر وہ ظالم حکام، شیعوں کے دشمن نہ ہوتے اور شیعوں کا بے گناہ قتل عام نہ کرتے تو ہر گز شیعہ تقیہ اختیار نہ کرتے یہاں پر اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تقیہ صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی جب اپنے ایسے دشمنوں کے مقابلے میں قرار پاتے ہیں جو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے دشمن ہیں (جیسے کہ خوارج اور وہ ظالم حکومتیں جو ہر حرام کام کو جائز سمجھتی ہیں )اور ان سے مقابلہ کی طاقت بھی نہیں ہوتی تو وہ اپنی جان کی حفاظت کی خاطر تقیہ کا سہارالیتے ہیں اس بنیاد پر اگر اسلامی معاشرے کے تمام افراد اپنے فقہی مذاہب میں اتفاق رائے رکھتے ہوئے وحدت واخوت کی زندگی گزارنا شروع کردیں تو پھر ہرگز انھیں تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

____________________

(۱)اس سلسلے میں جلال الدین سیوطی کی تفسیر در المنثور جلد۴ ص۱۳۱ (طبع بیروت) کا مطالعہ کیجئے.

(۲)بنی امیہ اور بنی عباس کے حکام کے حکم پر شیعوں کے بے رحمانہ قتل عام کے سلسلے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان کتابوں''مقاتل الطالبین''(مصنفہ ابوالفرج اصفہانی) ''شہداء الفضیلة(مصنفہ علامہ امینی)''، ''الشیعہ والحاکمون''(مصنفہ محمد جواد مغنیہ)کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

۲۵۱

نتیجہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:

۱۔تقیہ کی اساس قرآن مجید پر ہے اور صدر اسلام میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب بھی تقیہ کر تے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے اس عمل کی تائید فرماتے تھے یہ سب تقیہ کے جائز ہونے کی دلیلیں ہیں

۲۔شیعہ اپنے مذہب کو بچانے اور دشمنوں کے سفاکانہ قتل عام سے محفوظ رہنے کے لئے تقیہ کرتے تھے

۳۔تقیہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی تقیہ کرتے ہیں

۴۔تقیہ کرنا اور اپنے باطنی عقائد چھپانا صرف کفار کے مقابلے میں ہی انجام نہیں پاتا بلکہ تقیہ کا معیار (مسلمانوں کی جان بچانا) عمومیت رکھتا ہے اور ہر ایسے ظالم دشمن کے سامنے کہ جس کے ساتھ مقابلے کی قدرت نہ ہو یا اس سے جہاد کرنے کے شرائط پورے نہ ہورہے ہوں تقیہ ضروری ہوجاتا ہے

۵۔اگر مسلمانوں میں مکمل وحدت اور ہم فکری پیدا ہوجائے تو ہرگز ان کے درمیان تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

۲۵۲

بتیسواں سوال

ایران کے بنیادی قانون میں کیوں جعفری مذہب (شیعہ اثناعشری) کو حکومت کا مذہب قرار دیا گیا ہے؟

جواب:اس میں شک نہیں کہ جمہوری اسلامی ایران کے بنیادی قانون کی نظر میں تمام اسلامی مذاہب محترم و معزز شمار کئے جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ اسلامی و فقہی مذاہب (:جیسے جعفری، مالکی، شافعی، حنبلی ، حنفی و...) کے ماننے والے اپنے فردی اور اجتماعی احکام میں یکساں اور متحد نہیں ہیں اور ان کے درمیان بہت سے اختلافات دکھائی دیتے ہیں دوسری طرف سے ایک معاشرے کے قوانین و حقوق کا آپس میں منظم اور یک رنگ ہونا وقت کی شدید ترین ضرورت ہے اس اعتبار سے واضح ہے کہ ہر سرزمین پر ان مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی اجتماعی قوانین کو نافذ کرسکتا ہے اس لئے کہ قانون گزاروں کے مختلف ہونے سے کبھی بھی ایک جیسے اور یکساں قوانین نہیں بنائے جاسکتے اس بنیاد پر یہ ضروری ہے کہ ہر معاشرے میں اسلامی اور فقہی مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی باضابطہ طور پراجتماعی قوانین کا ماخذ قرار پائے تاکہ اس مملکت کے قوانین و ضوابط میں کسی طرح کی دو روئی اور بدنظمی پیدا نہ ہونے پائے اور فردی و اجتماعی امور میں منظم اور یکساں قوانین و ضوابط بنانے کا زمینہ ہموار ہوسکے

۲۵۳

جعفری مذہب کی تعیین کا معیار

گزشتہ وضاحت کے بعد اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کس معیار کے تحت تمام مذاہب میں سے صرف جعفری مذہب کو ملک کے قوانین و ضوابط کا ماخذ قرار دیا ہے؟

اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے چونکہ ایران میں عوام کی اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جو جعفری مذہب کو مانتے ہیں لہذا اس ملک کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا جو کہ ایک فطری امر ہے اور تمام منطقی اور حقوقی ضابطوں سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے.

ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کا درجہ

اگرچہ ایران کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس اسلامی مملکت میں دوسرے اسلامی مذاہب (جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی کو) نہ صرف محترم شمار کیا گیا ہے بلکہ ان مذاہب کے ماننے والوں کو درج ذیل امور میں اپنی فقہ پر عمل کرنے میں مکمل اختیار بھی دیا گیا ہے:

۱۔اپنے مذہبی مراسم کے انجام دینے میں

۲۔اپنی دینی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں

۳۔اپنے ذاتی اور شخصی کاموں کو انجام دینے میں

۴۔اپنے مذہب کے خصوصی قوانین و ضوابط میں (جیسے نکاح، طلاق، میراث، وصیت وغیرہ).

اس کے علاوہ اگر کسی علاقے میں مذکورہ مذاہب میں سے کسی مذہب کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی وہاں کے قونصل خانوں میں ان کے لئے ان کے مذہب کے مطابق قوانین و ضوابط وضع کئے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق بھی محفوظ رہیں گے

۲۵۴

یہاں پر اس موضوع کی مزید وضاحت کے لئے ہم ایران کے بنیادی قانون کی بارہویں اصل کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

''ایران کا رسمی دین اسلام اور مذہب جعفری اثنا عشری ہے یہ ہمیشہ رہے گا اور ناقابل تبدیل ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذہبوں. جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی مذاہب کے ماننے والے بھی مکمل طور پر محترم شمار کئے جائیں گے '' اور ان مذاہب کے پیرو اپنی فقہ کے مطابق اپنے مذہبی رسومات کے انجام دینے میں آزاد ہوں گے اور اسی طرح وہ اپنی دینی تعلیم و تربیت اور اپنے ذاتی مسائل جیسے نکاح ،طلاق ، میراث،وصیت،لڑائی جھگڑوں کے مسائل اور عدالتوں میں مقدموں کے سلسلے میں رسمی طور پر اپنے مذہب کی فقہ پر عمل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور جس جگہ بھی مذکورہ مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کے پیرو اکثریت میں ہوں گے اس جگہ کے علاقائی قوانین ان کے مذہب کے مطابق ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق بھی محفوظ ہوں گے ایران کے قانون اساسی کی اس بارہویں اصل کی روشنی میں تمام اسلامی مذاہب کا احترام روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۵۵

تینتیسواں سوال

کیا شیعہ نماز وتر کو واجب سمجھتے ہیں ؟

جواب:نوافل شب میں سے ایک نماز وتر بھی ہے جس کا پڑھنا اسلام کے ماننے والوں اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی پیروی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے لیکن شیعہ فقہاء نے کتاب و سنت کی روشنی میں چند امور کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات میں سے قرار دیا ہے ان ہی میں سے ایک حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس نماز کا واجب ہونا بھی ہے

چنانچہ علامہ حلی نے اپنی کتاب ''تذکرة الفقہائ'' میں تقریباً ستر چیزوں کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات میں شمار کیا ہے اور انہوں نے اپنے کلام کے آغاز ہی میں یہ کہا ہے:

''فأمّا الواجبات علیه دون غیره من أمّته أمور: الف : السواک ،ب: الوتر، ج: الأضحیه، رو عنه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أنه قال : ثلاث کتب علّ ولم تکتب علیکم : السواک والوتر والأضحیّة ... ''( ۱ )

____________________

(۱)تذکرة الفقہاء جلد۲ کتاب النکاح مقدمہ چہارم۔

۲۵۶

وہ چیزیں جو صرف پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہیں اور ان کی امت کے لئے واجب نہیں ہیں وہ یہ ہیں :الف :مسواک کرنا،ب:نماز وتر پڑھنا، ج: قربانی کرنا،.

رسول خدا سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایاہے : تین چیزیں میرے اوپر واجب کی گئی ہیں لیکن تم لوگوں پر واجب نہیں ہیں اور وہ ہیں مسواک کرنا ، نماز وتر پڑھنا اور قربانی کرنا ''اس بنیاد پر نماز وتر شیعوں کی نظر میں صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہے اور دوسروں کے لئے اس کا پڑھنا مستحب ہے.

۲۵۷

چونتیسواں سوال

کیا اولیائے خدا کی غیبی طاقت پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟

جواب: یہ بات واضح ہے کہ جب کبھی کوئی شخص دوسرے سے کسی کام کی درخواست کرتا ہے تو وہ اس شخص کو اس کام کے انجام دینے میں اپنے سے قوی اور طاقتور سمجھتا ہے اور یہ طاقت دو قسم کی ہوتی ہے :

۱۔کبھی یہ قدرت مادی اور فطری ہوتی ہے جیسے ہم کسی شخص سے کہیں مجھے ایک گلاس پانی لادو

۲۔بعض اوقات یہ طاقت مادی اور فطری نہیں ہوتی بلکہ غیبی صورت میں ہوتی ہے جیسے کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ خدا کے کچھ نیک بندے جناب عیسیٰ کی طرح لاعلاج مرض سے شفا عطا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور مسیحائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدید قسم کے مریض کو بھی نجات عطا کرتے ہیں یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کی غیبی طاقتوں پر انہیں خدا کے ارادے اور قدرت کا محتاج سمجھ کر عقیدہ رکھنا فطری و مادی قدرتوں پر عقیدہ رکھنے کی طرح ہے اور یہ ہرگز شرک قرار نہیں پاسکتا اس لئے کہ خداوندعالم ہی نے یہ مادی اور فطری طاقتیں انسان کو عطا کی ہیں اور اسی نے غیبی طاقتوں کو اپنے نیک بندوں کو عنایت فرمایا ہے

یہاں پر ہم اس جواب کی مزید وضاحت کرنے کے لئے یہ کہیں گے کہ اولیائے خدا کی غیبی قدرت و طاقت پر دو طرح سے عقیدہ رکھا جاسکتا ہے :

۲۵۸

۱۔کسی شخص کی غیبی قدرت پر اس طرح عقیدہ رکھا جائے کہ اسے اپنی اس طاقت میں مستقل اوراصل سمجھیں اور خدائی امور کو مستقل طور پر اس کی طرف نسبت دینے لگیں اس صورت میں شک نہیں کہ یہ عقیدہ شرک شمار ہوگا کیونکہ اس طرح ہم نے غیر خدا کو طاقت میں مستقل سمجھ کر خدائی امور کو غیر خدا کی طرف منسوب کردیا ہے جب کہ یہ طے ہے کہ پروردگار عالم کی لامتناہی طاقت و قدرت ہی سے تمام طاقتوں اور قدرتوں کاسرچشمہ بناہے

۲۔خدا کے نیک اور باایمان بندوں کی غیبی طاقت پر اس طرح اعتقاد رکھیں کہ انہوں نے اپنی یہ قدرت پروردگار عالم کی لامحدود قدرت سے حاصل کی ہے اور درحقیقت ان قدرتوں کو حاصل کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان کے ذریعے خدا کی لامحدود قدرت کا اظہار کیا جاسکے اور وہ خود اپنی ذات میں کسی طرح کا استقلال نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنی ہستی اور اپنی غیبی قدرت کے استعمال میں پوری طرح ذات پروردگار پر منحصر ہیں

واضح ہے کہ اس طرح کا عقیدہ اولیائے الہی کو خدا سمجھنے یا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دینے کی طرح نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں پروردگار عالم کے نیک بندے اس کی اجازت اور ارادے سے اس کی عطا کردہ غیبی طاقت کا اظہا ر کرتے ہیں قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

۲۵۹

(وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ اَنْ یَاْتِىَ بِآیَةٍ ِالاَّ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۱ )

اور کسی رسول کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے.

اس بیان کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ ایسا عقیدہ باعث شرک قرار نہیں پائے گا بلکہ توحید و یکتا پرستی سے مکمل طورپر مطابقت رکھنے والا عقیدہ نظر آئے گا.

قرآن مجید کی نظر میں اولیائے الہی کی غیبی طاقت

مسلمانوں کی آسمانی کتاب نے وضاحت کے ساتھ پروردگار عالم کے ان نیک بندوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے پروردگار عالم کی اجازت سے اپنی حیرت انگیز قدرت کا مظاہرہ کیا تھا اس سلسلے میں قرآن مجید کے بعض جملے ملاحظہ ہوں:

____________________

(۱)سورہ رعد آیت : ۳۸

۲۶۰