شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں13%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95458 / ڈاؤنلوڈ: 4187
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

کے نام کا بھی ذکر کیا ہے.( ۱ )

اس بیان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حدیث'' ضحضاح''کے سارے راوی انتہائی ضعیف تھے لہذا ان سے منقول احادیث پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا.

حدیث ضحضاح کا مضمون قرآن و سنت کے خلاف ہے اس حدیث میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کو(معاذاللہ) آگ کے شعلوں کے انبار سے نکال کر ضحضاح کی طرف منتقل کردیا تھااس اعتبار سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے عذاب میں کمی کرادی تھی یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قیامت کے دن ان کے حق میں شفاعت کرنے کی آرزو کی تھی جبکہ قرآن مجید اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعتبار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عذاب میں کمی کرانے یا شفاعت کرنے کا حق صرف مومنوں اور مسلمانوں سے ہی مخصوص ہے لہذا اگر (معاذاللہ) جناب ابوطالب کافر ہوتے تو ہرگز پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے عذاب میں کمی یا ان کی شفاعت کی آرزو نہ کرتے اس اعتبار سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ (حدیث ضحضاح) کا مضمون باطل اور بے بنیاد ہے اب

ہم قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلے کی چند واضح دلیلیں پیش کرتے ہیں :

الف: قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لاَیُقْضَی عَلَیْهِمْ فَیَمُوتُوا وَلاَیُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا کَذٰلِکَ

____________________

(۱)شیخ الابطح ص۷۵ اور میزان الاعتدال جلد۳ ص۴۲۳.

۲۴۱

نَجْزِ کُلَّ کَفُورٍ )( ۱ )

اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کیلئے جہنم کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ مرجائیں اور نہ ہی انکے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائی گی ہم اسی طرح ہر کفر کرنے والے کو سزا دیا کرتے ہیں

ب:سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی کفار کے حق میں شفاعت کی نفی کی گئی ہے: ابوذر غفاری نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے :

أعطیت الشفاعة وھ نائلة من أُمت مَن لایشرک باللّہ شیئًا.

مجھے شفاعت کرنے کا حق دیا گیا ہے اور وہ میری امت کے ایسے افراد کے لئے ہوگی جنہوں نے خداوندعالم کے سلسلے میں شرک نہ کیاہو.

لہذا حدیث ضحضاح کا مضمون باطل ، بے بنیاد اور قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف ہے.

نتیجہ

اس بیان کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث ضحضاح سند و متن کے اعتبار

سے ناقابل عمل روایت ہے. اس طرح جناب ابوطالب کی باایمان شخصیت کو داغدار کرنے والی مہمل روایت باطل ہوجاتی ہے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حامی و ناصر جناب ابوطالب کا ایمان محکم طریقہ سے ثابت ہوجاتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ فاطر آیت : ۳۶.

۲۴۲

تیسواں سوال

کیا شیعوں کی نظر میں جبرئیل ـ نے منصب رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت علی ـکے بجائے قرآن مجید کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا ہے؟

جواب: بعض جاہل اور خود غرض افراد نے شیعوں پر یہ تہمت لگائی ہے .اس مسئلے کے جواب سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سوال کے پیداہونے کا اصلی سبب بیان کردیں:

اس تہمت کا اصلی سبب

قرآنی آیات اور احادیث نبوی کے مطابق یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت جبرئیل ـ نے رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے کیونکہ خداوندعالم نے انہیں حکم دیا تھا کہ منصب نبوت کو خاندان اسرائیل میں قراردیں لیکن انہوں نے پروردگار عالم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصب نبوت کو اولاد اسماعیل میں قرار دے دیا

۲۴۳

اسی بنیاد پر یہودی جناب جبرئیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں( ۱ )

اور ان کے بارے میں ہمیشہ ''خان الامین'' ''جبرائیل نے خیانت کی'' کا جملہ استعمال کرتے ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید نے ان پر اعتراض کیا ہے اور ان کے نظرئیے کو باطل قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل آیت میں جناب جبرئیل کو فرشتہ ''امین'' کے نام سے یاد کیا ہے:

(نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْاَمِینُ ة عَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنْ الْمُنذِرِینَ )( ۲ )

اس( قرآن مجید)کو روح الامین (جبرائیل) لے کر نازل ہوئے ہیں یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں.

ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

(قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَاِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَی قَلْبِکَ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۳ )

____________________

(۱)تفسیر فخررازی جلد۱ ص ۴۳۶ اور ۴۳۷ طبع مصر ۱۳۰۸ھ.

(۲)سورہ شعراء آیت: ۱۹۴.

(۳)سورہ بقرہ آیت: ۹۳۔۱۹۴.

۲۴۴

آپ کہہ دیجئے: جو کوئی جبرئیل کا دشمن ہے وہ یہ جان لے کہ اس نے تو اس قرآن کو حکم خدا سے آپ کے قلب پر نازل کیا ہے.

اگر ان آیات کی تفسیر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ قوم یہود چند وجوہات کی بنا پر جناب جبرئیل کو اپنا دشمن شمار کرتے ہوئے انہیں فرشتۂ عذاب اور رسالت پہنچانے میں خیانت کرنے والا تصور کرتی تھی لہذا اس کلمے ''خان الامین'' کا سرچشمہ قوم یہود کا عقیدہ ہے اور بعض جاہل مصنفین نے شیعوں سے اپنی پرانی دشمنی کے نتیجے میں بے انصافی سے کام لیتے ہوئے یہودیوں کے اس جملے کو شیعہ قوم سے منسوب کردیا ہے.

شیعوں کی نگاہ میں منصب نبوت

شیعہ ،قرآن وسنت کی پیروی اور ائمہ معصومین ٪ کی روایات کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم خدا سے ساری دنیا کے لئے نبی برحق سمجھتے ہیں بلکہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آخری نبی اور سید المرسلین بھی مانتے ہیں

شیعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب ـ اپنے اس گہربار کلام میں اس حقیقت کی یوں گواہی دیتے ہیں :

۲۴۵

وأشهد أن لااله الا اللّه وحده لاشریک و أشهد أن محمّدًا عبده و رسوله خاتم النبیّین و حجة اللّه علیٰ العالمین .( ۱ )

میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اس خدائے واحد کے جس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد خدا کے بندے اس کے رسول ، خاتم الانبیاء اور سب جہانوں پر خدا کی حجت ہیں

امام جعفرصادق ـ نیز فرماتے ہیں :

''لم یبعث اللّه عزّوجلّ من العرب اِلا خمسة أنبیاء هودًا و صالحًا و اسماعیل و شعیبًا و محمدًا خاتم النبیّین صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '.'( ۲ )

خداوندعالم نے پانچ انبیاء کو قوم عرب میں سے مبعوث فرمایا ہے : حضرت ہود، حضرت صالح ، حضرت اسماعیل ،حضرت شعیب اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

یہ حدیث بخوبی شیعوں پر لگائی گئی نسبت کو باطل کردیتی ہے اور حضرت محمدبن عبداللہ کو خدا کے آخری نبی کی حیثیت سے پہچنواتی ہے( ۳ )

____________________

(۱)نہج السعادة جلد۱ ص ۱۸۸ طبع بیروت اور کافی جلد ۸صفحہ ۶۷طبع ۲ تہران.

(۲)بحار الانوار جلد۱۱ ص ۴۲ طبع ۲ بیروت ۱۴۰۳ھ

(۳)پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت کے سلسلے میں زیادہ روایات سے آگاہی کے لئے استاد جعفر سبحانی کی کتاب ''مفاہیم القرآن'' کا مطالعہ فرمائیں.

۲۴۶

اسی بنیاد پر تمام شیعہ جناب جبرئیل کو رسالت پہنچانے میں امین سمجھتے ہیں اوراسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے آخری اور برحق نبی تھے اور حضرت علی بن ابی طالب ـ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی وصی اور جانشین تھے۔

یہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی درج ذیل حدیث پیش کریں جس کے صحیح ہونے پر شیعہ اور سنی دونوں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور دونوں ہی فرقوں کے محدثین نے اس حدیث کو اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے یہ حدیث ''حدیث منزلت'' کے نام سے مشہور ہے اس حدیث میں آپ نے اپنی رسالت کی خاتمیت بیان کرنے کے بعد حضرت علی ـ کو اپنا وصی اور جانشین معین فرمایاہے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

أما ترضیٰ أن تکون منّى بمنزلة هارون من موسیٰ الا اِنّه لانبّى بعد ( ۱ )

____________________

(۱)اس حدیث کے بے شمار ماخذ موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔صحیح بخاری جلد۶ ص۳ باب غزوہ تبوک (طبع مصر)

۲۔صحیح مسلم جلد۷ ص ۱۲۰ باب فضائل علی (طبع مصر)

۳۔سنن ابن ماجہ جلد۱ ص۵۵ باب فضائل اصحاب النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (طبع اول مصر)

۴۔مستدرک حاکم جلد۳ ص ۱۰۹ (طبع بیروت)

۵۔مسند احمد جلد۱ ص ۱۷۰، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۵ اور جلد ۳ میں ص ۳۲

۶۔صحیح ترمذی جلد۵ ص۲۱ باب مناقب علی بن ابی طالب (طبع بیروت)

۷۔مناقب ابن مغازلی ص ۲۷ طبع بیروت ۱۴۰۳ھ

۸۔بحارالانوار جلد ۳۷ ص ۲۵۴ طبع ۲ بیروت ۱۴۰۳ھ

۹۔معانی الاخبار (شیخ الصدوق) ص۷۴ طبع بیروت ۱۳۹۹ھ

۱۰۔کنزالفوائد جلد۲ ص ۱۶۸ طبع بیروت ۱۴۰۵ھ

۲۴۷

(اے علی )کیاتم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کو موسیٰ سے تھی صرف یہ (فرق ہے) کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا.

یہ حدیث جو کہ سند کے اعتبار سے شیعہ و سنی محدثین کی نظر میں معتبر ہے شیعوں کے درج ذیل دو نظریوں کی واضح دلیل ہے:

۱۔حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے آخری نبی ہیں

۲۔حضرت علی بن ابی طالبـ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین اور بلافصل خلیفہ ہیں ۔

۲۴۸

اکتیسواں سوال

تقیہ کا معیارکیا ہے؟

جواب:دشمنوں کے مقابلے میں دنیاوی اور دینی نقصانات سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے باطنی عقیدے اور ایمان کو چھپانے کا نام تقیہ ہے تقیہ ہر مسلمان شخص کا ایک ایسا شرعی فریضہ ہے جس کا سرچشمہ قرآنی آیات ہیں :

قرآن کی نگاہ میں تقیہ

قرآن مجید میں تقیہ سے متعلق بہت سی آیات ہیں ان میں سے یہاں ہم بعض کا ذکر کرتے ہیں :

(لایَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ َوْلِیَائَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنَ ﷲِ فى شَْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت: ۲۸.

۲۴۹

مومنوں کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں ہے

یہ آیت بخوبی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کفار کے ساتھ دوستی رکھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر جان خطرہ میں ہو تو تقیہ کرتے ہوئے ان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کیا جاسکتا ہے.

ب:(مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْ بَعْدِ ِیمَانِهِا ِلاَّ مَنْ ُاکْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنّ بِالْاِیمَانِ وَلٰکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَب مِنْ ﷲِ وَلَهُمْ عَذَاب عَظِیم )( ۱ )

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کر لے سوائے اس کے جسے کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں ہے)لیکن وہ شخص جس کے سینہ میں کفر کے لئے کافی جگہ پائی جاتی ہو اس کے اوپر خد ا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے

مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں یہ لکھا ہے :ایک دن کفار نے جناب عمار ابن یاسر کو ان کے ماں باپ کے ہمراہ گرفتار کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ اسلام کو

____________________

(۱)سورہ نحل آیت: ۱۰۶

۲۵۰

چھوڑ کر کفر و شرک اختیار کرلو تو عماربن یاسر کے ہمراہ افراد نے ان کے جواب میں توحید و رسالت کی گواہیاں دینا شروع کردیں جس پر کفار نے ان میں سے بعض کو شہید کرڈالا اور بعض پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھانے لگے اس وقت جناب عمار نے اپنے باطنی عقیدے کے برخلاف تقیہ اختیار کرکے ظاہری طور پر کفر کے کلمات کو اپنی زبان پر جاری کیا تو کفار نے انہیں چھوڑ دیا پھر اسکے بعد جناب عمار انتہائی پریشانی کے عالم میں رسول خدا کی خدمت میں پہنچے تو آنحضرت نے انہیں تسلی دی اور پھر اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی.(۱)

اس آیت اور اس کی تفسیر سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اصحاب بھی جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنے باطنی عقیدے کو چھپا کر تقیہ کرتے تھے.

تقیہ شیعوں کی نگاہ میں

بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمران ہمیشہ شیعوں سے برسرپیکار رہے ہیں اور انہوں نے شیعوں کے قتل عام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے( ۲ )

اس بنا پر اس زمانے میں شیعوں نے قرآن مجید کے حکم کے مطابق انتہائی سخت حالات میں اپنے سچے عقائد چھپا کر اپنی اور دوسرے مسلمان بھائیوں کی جانیں محفوظ کی تھیںواضح ہے کہ اس ظلم و ستم کی فضا میں شیعوں کے لئے تقیہ کے علاوہ کوئی ایسا چارۂ کار نہیں تھا جو شیعوں کو نابودی سے بچاتالہذا اگر وہ ظالم حکام، شیعوں کے دشمن نہ ہوتے اور شیعوں کا بے گناہ قتل عام نہ کرتے تو ہر گز شیعہ تقیہ اختیار نہ کرتے یہاں پر اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تقیہ صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی جب اپنے ایسے دشمنوں کے مقابلے میں قرار پاتے ہیں جو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے دشمن ہیں (جیسے کہ خوارج اور وہ ظالم حکومتیں جو ہر حرام کام کو جائز سمجھتی ہیں )اور ان سے مقابلہ کی طاقت بھی نہیں ہوتی تو وہ اپنی جان کی حفاظت کی خاطر تقیہ کا سہارالیتے ہیں اس بنیاد پر اگر اسلامی معاشرے کے تمام افراد اپنے فقہی مذاہب میں اتفاق رائے رکھتے ہوئے وحدت واخوت کی زندگی گزارنا شروع کردیں تو پھر ہرگز انھیں تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

____________________

(۱)اس سلسلے میں جلال الدین سیوطی کی تفسیر در المنثور جلد۴ ص۱۳۱ (طبع بیروت) کا مطالعہ کیجئے.

(۲)بنی امیہ اور بنی عباس کے حکام کے حکم پر شیعوں کے بے رحمانہ قتل عام کے سلسلے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان کتابوں''مقاتل الطالبین''(مصنفہ ابوالفرج اصفہانی) ''شہداء الفضیلة(مصنفہ علامہ امینی)''، ''الشیعہ والحاکمون''(مصنفہ محمد جواد مغنیہ)کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

۲۵۱

نتیجہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:

۱۔تقیہ کی اساس قرآن مجید پر ہے اور صدر اسلام میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب بھی تقیہ کر تے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے اس عمل کی تائید فرماتے تھے یہ سب تقیہ کے جائز ہونے کی دلیلیں ہیں

۲۔شیعہ اپنے مذہب کو بچانے اور دشمنوں کے سفاکانہ قتل عام سے محفوظ رہنے کے لئے تقیہ کرتے تھے

۳۔تقیہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی تقیہ کرتے ہیں

۴۔تقیہ کرنا اور اپنے باطنی عقائد چھپانا صرف کفار کے مقابلے میں ہی انجام نہیں پاتا بلکہ تقیہ کا معیار (مسلمانوں کی جان بچانا) عمومیت رکھتا ہے اور ہر ایسے ظالم دشمن کے سامنے کہ جس کے ساتھ مقابلے کی قدرت نہ ہو یا اس سے جہاد کرنے کے شرائط پورے نہ ہورہے ہوں تقیہ ضروری ہوجاتا ہے

۵۔اگر مسلمانوں میں مکمل وحدت اور ہم فکری پیدا ہوجائے تو ہرگز ان کے درمیان تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

۲۵۲

بتیسواں سوال

ایران کے بنیادی قانون میں کیوں جعفری مذہب (شیعہ اثناعشری) کو حکومت کا مذہب قرار دیا گیا ہے؟

جواب:اس میں شک نہیں کہ جمہوری اسلامی ایران کے بنیادی قانون کی نظر میں تمام اسلامی مذاہب محترم و معزز شمار کئے جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ اسلامی و فقہی مذاہب (:جیسے جعفری، مالکی، شافعی، حنبلی ، حنفی و...) کے ماننے والے اپنے فردی اور اجتماعی احکام میں یکساں اور متحد نہیں ہیں اور ان کے درمیان بہت سے اختلافات دکھائی دیتے ہیں دوسری طرف سے ایک معاشرے کے قوانین و حقوق کا آپس میں منظم اور یک رنگ ہونا وقت کی شدید ترین ضرورت ہے اس اعتبار سے واضح ہے کہ ہر سرزمین پر ان مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی اجتماعی قوانین کو نافذ کرسکتا ہے اس لئے کہ قانون گزاروں کے مختلف ہونے سے کبھی بھی ایک جیسے اور یکساں قوانین نہیں بنائے جاسکتے اس بنیاد پر یہ ضروری ہے کہ ہر معاشرے میں اسلامی اور فقہی مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی باضابطہ طور پراجتماعی قوانین کا ماخذ قرار پائے تاکہ اس مملکت کے قوانین و ضوابط میں کسی طرح کی دو روئی اور بدنظمی پیدا نہ ہونے پائے اور فردی و اجتماعی امور میں منظم اور یکساں قوانین و ضوابط بنانے کا زمینہ ہموار ہوسکے

۲۵۳

جعفری مذہب کی تعیین کا معیار

گزشتہ وضاحت کے بعد اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کس معیار کے تحت تمام مذاہب میں سے صرف جعفری مذہب کو ملک کے قوانین و ضوابط کا ماخذ قرار دیا ہے؟

اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے چونکہ ایران میں عوام کی اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جو جعفری مذہب کو مانتے ہیں لہذا اس ملک کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا جو کہ ایک فطری امر ہے اور تمام منطقی اور حقوقی ضابطوں سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے.

ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کا درجہ

اگرچہ ایران کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس اسلامی مملکت میں دوسرے اسلامی مذاہب (جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی کو) نہ صرف محترم شمار کیا گیا ہے بلکہ ان مذاہب کے ماننے والوں کو درج ذیل امور میں اپنی فقہ پر عمل کرنے میں مکمل اختیار بھی دیا گیا ہے:

۱۔اپنے مذہبی مراسم کے انجام دینے میں

۲۔اپنی دینی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں

۳۔اپنے ذاتی اور شخصی کاموں کو انجام دینے میں

۴۔اپنے مذہب کے خصوصی قوانین و ضوابط میں (جیسے نکاح، طلاق، میراث، وصیت وغیرہ).

اس کے علاوہ اگر کسی علاقے میں مذکورہ مذاہب میں سے کسی مذہب کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی وہاں کے قونصل خانوں میں ان کے لئے ان کے مذہب کے مطابق قوانین و ضوابط وضع کئے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق بھی محفوظ رہیں گے

۲۵۴

یہاں پر اس موضوع کی مزید وضاحت کے لئے ہم ایران کے بنیادی قانون کی بارہویں اصل کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

''ایران کا رسمی دین اسلام اور مذہب جعفری اثنا عشری ہے یہ ہمیشہ رہے گا اور ناقابل تبدیل ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذہبوں. جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی مذاہب کے ماننے والے بھی مکمل طور پر محترم شمار کئے جائیں گے '' اور ان مذاہب کے پیرو اپنی فقہ کے مطابق اپنے مذہبی رسومات کے انجام دینے میں آزاد ہوں گے اور اسی طرح وہ اپنی دینی تعلیم و تربیت اور اپنے ذاتی مسائل جیسے نکاح ،طلاق ، میراث،وصیت،لڑائی جھگڑوں کے مسائل اور عدالتوں میں مقدموں کے سلسلے میں رسمی طور پر اپنے مذہب کی فقہ پر عمل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور جس جگہ بھی مذکورہ مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کے پیرو اکثریت میں ہوں گے اس جگہ کے علاقائی قوانین ان کے مذہب کے مطابق ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق بھی محفوظ ہوں گے ایران کے قانون اساسی کی اس بارہویں اصل کی روشنی میں تمام اسلامی مذاہب کا احترام روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۵۵

تینتیسواں سوال

کیا شیعہ نماز وتر کو واجب سمجھتے ہیں ؟

جواب:نوافل شب میں سے ایک نماز وتر بھی ہے جس کا پڑھنا اسلام کے ماننے والوں اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی پیروی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے لیکن شیعہ فقہاء نے کتاب و سنت کی روشنی میں چند امور کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات میں سے قرار دیا ہے ان ہی میں سے ایک حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس نماز کا واجب ہونا بھی ہے

چنانچہ علامہ حلی نے اپنی کتاب ''تذکرة الفقہائ'' میں تقریباً ستر چیزوں کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات میں شمار کیا ہے اور انہوں نے اپنے کلام کے آغاز ہی میں یہ کہا ہے:

''فأمّا الواجبات علیه دون غیره من أمّته أمور: الف : السواک ،ب: الوتر، ج: الأضحیه، رو عنه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أنه قال : ثلاث کتب علّ ولم تکتب علیکم : السواک والوتر والأضحیّة ... ''( ۱ )

____________________

(۱)تذکرة الفقہاء جلد۲ کتاب النکاح مقدمہ چہارم۔

۲۵۶

وہ چیزیں جو صرف پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہیں اور ان کی امت کے لئے واجب نہیں ہیں وہ یہ ہیں :الف :مسواک کرنا،ب:نماز وتر پڑھنا، ج: قربانی کرنا،.

رسول خدا سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایاہے : تین چیزیں میرے اوپر واجب کی گئی ہیں لیکن تم لوگوں پر واجب نہیں ہیں اور وہ ہیں مسواک کرنا ، نماز وتر پڑھنا اور قربانی کرنا ''اس بنیاد پر نماز وتر شیعوں کی نظر میں صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہے اور دوسروں کے لئے اس کا پڑھنا مستحب ہے.

۲۵۷

چونتیسواں سوال

کیا اولیائے خدا کی غیبی طاقت پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟

جواب: یہ بات واضح ہے کہ جب کبھی کوئی شخص دوسرے سے کسی کام کی درخواست کرتا ہے تو وہ اس شخص کو اس کام کے انجام دینے میں اپنے سے قوی اور طاقتور سمجھتا ہے اور یہ طاقت دو قسم کی ہوتی ہے :

۱۔کبھی یہ قدرت مادی اور فطری ہوتی ہے جیسے ہم کسی شخص سے کہیں مجھے ایک گلاس پانی لادو

۲۔بعض اوقات یہ طاقت مادی اور فطری نہیں ہوتی بلکہ غیبی صورت میں ہوتی ہے جیسے کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ خدا کے کچھ نیک بندے جناب عیسیٰ کی طرح لاعلاج مرض سے شفا عطا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور مسیحائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدید قسم کے مریض کو بھی نجات عطا کرتے ہیں یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کی غیبی طاقتوں پر انہیں خدا کے ارادے اور قدرت کا محتاج سمجھ کر عقیدہ رکھنا فطری و مادی قدرتوں پر عقیدہ رکھنے کی طرح ہے اور یہ ہرگز شرک قرار نہیں پاسکتا اس لئے کہ خداوندعالم ہی نے یہ مادی اور فطری طاقتیں انسان کو عطا کی ہیں اور اسی نے غیبی طاقتوں کو اپنے نیک بندوں کو عنایت فرمایا ہے

یہاں پر ہم اس جواب کی مزید وضاحت کرنے کے لئے یہ کہیں گے کہ اولیائے خدا کی غیبی قدرت و طاقت پر دو طرح سے عقیدہ رکھا جاسکتا ہے :

۲۵۸

۱۔کسی شخص کی غیبی قدرت پر اس طرح عقیدہ رکھا جائے کہ اسے اپنی اس طاقت میں مستقل اوراصل سمجھیں اور خدائی امور کو مستقل طور پر اس کی طرف نسبت دینے لگیں اس صورت میں شک نہیں کہ یہ عقیدہ شرک شمار ہوگا کیونکہ اس طرح ہم نے غیر خدا کو طاقت میں مستقل سمجھ کر خدائی امور کو غیر خدا کی طرف منسوب کردیا ہے جب کہ یہ طے ہے کہ پروردگار عالم کی لامتناہی طاقت و قدرت ہی سے تمام طاقتوں اور قدرتوں کاسرچشمہ بناہے

۲۔خدا کے نیک اور باایمان بندوں کی غیبی طاقت پر اس طرح اعتقاد رکھیں کہ انہوں نے اپنی یہ قدرت پروردگار عالم کی لامحدود قدرت سے حاصل کی ہے اور درحقیقت ان قدرتوں کو حاصل کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان کے ذریعے خدا کی لامحدود قدرت کا اظہار کیا جاسکے اور وہ خود اپنی ذات میں کسی طرح کا استقلال نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنی ہستی اور اپنی غیبی قدرت کے استعمال میں پوری طرح ذات پروردگار پر منحصر ہیں

واضح ہے کہ اس طرح کا عقیدہ اولیائے الہی کو خدا سمجھنے یا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دینے کی طرح نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں پروردگار عالم کے نیک بندے اس کی اجازت اور ارادے سے اس کی عطا کردہ غیبی طاقت کا اظہا ر کرتے ہیں قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

۲۵۹

(وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ اَنْ یَاْتِىَ بِآیَةٍ ِالاَّ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۱ )

اور کسی رسول کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے.

اس بیان کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ ایسا عقیدہ باعث شرک قرار نہیں پائے گا بلکہ توحید و یکتا پرستی سے مکمل طورپر مطابقت رکھنے والا عقیدہ نظر آئے گا.

قرآن مجید کی نظر میں اولیائے الہی کی غیبی طاقت

مسلمانوں کی آسمانی کتاب نے وضاحت کے ساتھ پروردگار عالم کے ان نیک بندوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے پروردگار عالم کی اجازت سے اپنی حیرت انگیز قدرت کا مظاہرہ کیا تھا اس سلسلے میں قرآن مجید کے بعض جملے ملاحظہ ہوں:

____________________

(۱)سورہ رعد آیت : ۳۸

۲۶۰

۱۔حضرت موسیٰ کی غیبی طاقت

خداوندعالم نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اپنے عصا کو پتھر پر ماریں تاکہ اس

سے پانی کے چشمے جاری ہوجائیں:

(وَاِذْ اسْتَسْقَی مُوسَی لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا )( ۱ )

اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے کہا : اپنا عصا پتھر پر مارو جس کے نتیجے میں اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے.

حضرت عیسیٰ کی غیبی طاقت

قرآن مجید میں مختلف اور متعدد مقامات پر حضرت عیسیٰ کی غیبی قدرت کا تذکرہ ہوا ہے ہم ان میں سے بعض کو یہاں پیش کرتے ہیں :

(اَنِّى اخْلُقُ لَکُمْ مِنْ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِاِذْنِ ﷲِ وَاُبْرِئُ الْاَکْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتَیٰ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۲ )

(حضرت عیسیٰ نے فرمایا)میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناؤں گا اور اس میں پھونک ماروںگا تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کا علاج کروں گا اور خدا کے حکم سے مردوں کو زندہ کروں گا.

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت: ۶۰

(۲)سورہ آل عمران آیت : ۴۹

۲۶۱

حضرت سلیمان کی غیبی طاقت

حضرت سلیمان کی غیبی طاقتوں کے سلسلے میں قرآن مجیدیہ فرماتا ہے:

(وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ یَاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَاُوتِینَا مِنْ کُلِّ شَْئٍ اِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ )( ۱ )

اور سلیمان، داؤد کے وارث بنے اور انہوں نے کہااے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان کا علم دیا گیا ہے اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں عنایت کی گئی ہیں بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے.

اس میں شک نہیں ہے کہ اس قسم کے کام جیسے حضرت موسیٰ کا سخت پتھر پر عصا مار کر پانی کے چشمے جاری کردینا حضرت عیسیٰ کا گیلی مٹی سے پرندوں کا خلق کردینا اور لاعلاج مریضوں کو شفا عطا کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا حضرت سلیمان کا پرندوں کی زبان سمجھنا یہ سب نظام فطرت کے خلاف شمار ہوتے ہیں اور درحقیقت انبیائے الہی نے اپنے ان کاموں کو اپنی غیبی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے انجام دیا ہے

جب قرآن مجید نے اپنی آیات میں بیان کیا ہے کہ خداوندعالم کے نیک بندےغیبی طاقت رکھتے ہیں تو اب کیا ان آیات کے مضامین پر عقیدہ رکھنا شرک یا بدعت شمار کیا جاسکتا ہے؟ان بیانات کی روشنی میں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کے نیک بندوں کی غیبی قدرتوں پر عقیدہ رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انہیں خدا مانا جائے یا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دی جائے اس لئے کہ ان کے بارے میں اس قسم کے عقیدہ سے ان کی خدائی لازم آتی ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ اور حضرت سلیمان وغیرہ قرآن کی نظر میں خدا شمار ہونگے جب کہ سب مسلمان یہ جانتے ہیں کہ کتاب الہٰی کی نگاہ میں اولیائے الہی صرف خد اکے نیک بندوں کی حیثیت رکھتے ہیں یہاں تک کی گفتگو سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اولیائے الہی کی غیبی طاقت کے سلسلے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ انہیں یہ قدرت پروردگار کی لامحدود قدرت ہی سے حاصل ہوئی ہے اور درحقیقت ان کی اس قدرت کے ذریعے پروردگار عالم کی لامحدود قدرت کا اظہار ہوتا ہے تو اس صورت میں ہمارے یہ عقائد باعث شرک قرار نہیں پائیں گے بلکہ عقیدہ توحید کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آئیں گے کیونکہ توحید اور یکتا پرستی کا معیار یہ ہے کہ ہم دنیا کی تمام قدرتوں کو خدا کی طرف پلٹائیں اور اسی کی ذات کو تمام قدرتوں اور جنبشوں کا سرچشمہ قرار دیں ۔

____________________

(۱)سورہ نمل آیت :۱۶

۲۶۲

پینتیسواں سوال

کیوں منصب امامت منصب رسالت سے افضل ہے؟

جواب:اس سوال کے جواب کے لئے سب سے پہلے ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں ان تین لفظوں نبوت، رسالت اور امامت کی وضاحت پیش کریں گے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ منصب امامت ان دو منصبوں سے افضل ہے.

۱۔منصب نبوت

لفظ نبی کو''نبأ'' سے اخذ کیا گیا ہے جس سے مراد ''اہم خبر''ہے اس اعتبار سے نبی کے لغوی معنی ہیں وہ شخص جس کے پاس کوئی اہم خبر ہو یا وہ اس خبر کو پہنچانے والا ہو.( ۱ )

قرآن کی اصطلاح میں بھی ''نبی'' ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو خداوندعالم سے مختلف طریقوں سے وحی حاصل کرتا ہو اور کسی بشر کے واسطے کے بغیر خد اکی طرف سے خبر دیتا ہو علماء نے نبی کی یہ تعریف کی ہے:

____________________

(۱)اگر نبی صیغۂ لازم ہو گا تو پہلے معنی میں ہوگا اور اگر متعدی ہوگا تو دوسرے معنی میں ہوگا.

۲۶۳

اِنّه مؤدٍ من اللّه بلاواسطة من البشر ( ۱ )

نبی ایسا شخص ہے جو کسی بشر کے واسطے کے بغیر خدا کی طرف سے پیغام پہنچاتا ہے

اس بنیاد پر ''نبی '' کاکا م صرف یہ ہے کہ پروردگار عالم سے وحی حاصل کرے اوراس پر جوالہام ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادے اوربس. قرآن مجید اس سلسلے میں یہ فرماتا ہے:

(فبعث اللّه النبیّین مبشرین و منذرین )( ۲ )

پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے

۲۔منصب رسالت

وحی الٰہی کی اصطلاح میں رسول ان پیغمبروں کو کہا جاتا ہے جو خدا سے وحی لینے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ خدا کی طرف سے اس کی شریعت کو بیان کرنے اور اپنی رسالت کے اعلان کرنے کی اجازت بھی رکھتے ہوں قرآن مجید اس سلسلے میں یہ فرماتا ہے:

(فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا اَنَّمَا عَلیٰ رَسُولِنَا الْبَلاغُ الْمُبِینُ )( ۳ )

____________________

(۱)رسائل العشر (مصنفہ شیخ طوسی )ص ۱۱۱.

(۲)سورہ بقرہ آیت: ۲۱۳.

(۳)سورہ مائدہ آیت ۹۲.

۲۶۴

پھر اگر تم نے منہ پھیر لیا تو جان لو ہمارے رسول کی ذمہ داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچادینا ہے.

لہذا منصب رسالت ایک ایسا منصب ہے جو نبی کو عطا کیا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں نبوت اور رسالت دونوں ہی الفاظ اس خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پیغمبروں میں پائی جاتی ہے اگر پیغمبر صرف وحی الہی کو لے کر پہنچادے تو اسے نبی کہتے ہیں لیکن اگر وہ رسالت و شریعت بھی لوگوں تک پہنچائے تو اسے رسول کہا جاتا ہے

۳۔منصب امامت

قرآن مجید کی نظر میں منصب امامت، نبوت او رسالت کے علاوہ ایک تیسرا عہد ہ ہے جس میں صاحب منصب کو لوگوں کی رہبری کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ تصرفات کا اختیار حاصل ہوتا ہے.

اب ہم قرآنی آیات کی روشنی میں اس موضوع کے بارے میں چند واضح دلائل پیش کرتے ہیں

۱۔قرآن کریم حضرت ابراہیم خلیل کو منصب امامت عطا کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَاِذْ ابْتَلَی ِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّهُنَّ قَالَ اِنِّ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ ِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِى )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت : ۱۲۴.

۲۶۵

اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات کے ذریعہ آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کردکھایا تو ارشاد ہوا میں تمہیں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں انہوں نے کہا اور میری ذریت ؟

قرآن مجید کی اس آیت سے دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

الف: مذکورہ آیت بخوبی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ منصب امامت ، نبوت و رسالت کے علاوہ ایک تیسرا منصب ہے کیونکہ حضرت ابراھیم ان آزمائشوں (منجملہ قربانی اسماعیل سے پہلے ہی ) مقام نبوت پر فائز تھے یہ بات درج ذیل دلیل سے ثابت ہوتی ہے:

ہم سب یہ جانتے ہیں کہ خداوندعالم نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں حضرت اسماعیل و اسحاق عطا فرمائے تھے قرآن مجید حضرت ابراہیم کی زبان سے یوں حکایت کرتا ہے :

(الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَهَبَ لِى عَلیٰ الْکِبَرِ اِسْمَاعِیلَ وَاِسْحَاقَ )( ۱ )

شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحق عطاکئے.

اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی مذکورہ آزمائشوں میں سے ایک

____________________

(۱)سورہ ابراہیم آیت :۳۹.

۲۶۶

حضرت اسماعیل کی قربانی بھی تھی اور اس مشکل آزمائش کے مقابلے میں انہیں منصب امامت عطا کیا گیا تھا نیز انہیں یہ منصب ان کی عمر کے آخری حصے میں عطا کیا گیاتھا.جبکہ وہ کئی سال پہلے ہی سے منصب نبوت پر فائز تھے کیونکہ حضرت ابراہیم پر ان کی ذریت سے پہلے بھی وحی الہی (جو کہ نبوت کی نشانی ہے) نازل ہوا کرتی تھی( ۱ )

ب:اسی طرح اس آیت ( وَِذْ ابْتَلَیٰ ِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ...)سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امامت اور رہبری کا منصب نبوت و رسالت سے بالاتر ہے کیونکہ قرآن مجید کی گواہی کے مطابق خداوندکریم نے جناب ابراہیم کو نبوت و رسالت کے عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود جب انہیں امامت عطا کرنی چاہی تو انتہائی سخت قسم کے امتحان سے آزمایا تھا اور جب وہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے تب اس کے بعد یہ منصب انہیں دیا تھا اس بات کی دلیل واضح ہے اس لئے کہ امامت کے فرائض میں وحی الہی کے حاصل کرنے اور رسالت و شریعت کے پہنچانے والے کے علاوہ امت کی رہبری اور ان کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں کمال وسعادت کی راہ پر گامزن کرنا بھی شامل ہے اب یہ بات فطری ہے کہ وہ منصب ایک خاص قسم کی عزت و عظمت کا حامل ہوگا جس کا حصول انتہائی سخت آزمائشوں کے بغیر ممکن ہی نہ ہو.

۲۔گذشتہ آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم نے سخت آزمائشوں

____________________

(۱)اس سلسلے میں سورہ صافات کی آیت نمبر۹۹ سے لے کر ۱۰۲ تک اور سورہ حجر کی آیت نمبر۵۳اور ۵۴ اور سورہ ہود کی آیت ۷۰ اور ۷۱ کا مطالعہ فرمائیں.

۲۶۷

کے بعد جناب ابراہیم کو امامت اورمعاشرہ کی قیادت عطا فرمائی تھی اور اس وقت جناب ابراہیم نے خدا سے درخواست کی تھی خدایا! اس منصب کو میری ذریت میں بھی قرار دینا اب قرآن مجید کی چند دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگارعالم نے جناب ابراہیم کی یہ درخواست قبول کرلی تھی اور نبوت و امامت کے بعد امت کی رہبری اور حکومت کو جناب ابراہیم کی نیک اور صالح ذریت میں بھی قرار دے دیا تھا. قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(فَقَدْ آتَیْنَا آلَ اِبْرَاهِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاهُمْ مُلْکًا عَظِیمًا )( ۱ )

تو پھر ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انکو عظیم سلطنت عنایت کی.

اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ''امامت'' نبوت ، سے الگ ایک منصب ہے جسے خداوندعالم نے اپنے عظیم القدر نبی جناب ابراہیم کو سخت آزمائشوں کے بعد عطا فرمایا تھا اور انہوں نے اس وقت خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ امامت کو میری ذریت میں بھی قرار دے تو خدائے حکیم نے ان کی یہ درخواست قبول فرمائی تھی اور انہیں آسمانی کتاب اور حکمت (جو کہ نبوت و رسالت سے مخصوص ہے) کے علاوہ ''ملک عظیم'' (یعنی لوگوں پر حکومت)بھی عطا کی تھی

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خداوندکریم نے جناب ابراہیم کی ذریت کے بعض افراد (جیسے حضرت یوسف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان ) کو منصب نبوت کے علاوہ حکومت کرنے اور لوگوں کی رہبری کے لئے بھی منتخب فرمایا تھا ان بیانات کی روشنی میں معلوم ہوجاتا ہے کہ امامت کا عہدہ نبوت و رسالت کے علاوہ ایک تیسرا منصب ہے جو کہ مزید قدرت اور ذمہ داریوں کی وجہ سے دوسرے عہدوں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے

____________________

(۱)سورہ نساء آیت ۵۴.

۲۶۸

منصب امامت کی برتری

گذشتہ بیانات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اور رسول کا کام صرف لوگوں تک پیغام پہنچانا اور انہیں راہ دکھانا ہے اور اگر کوئی نبی منصب امامت پر فائز ہوجاتا ہے تو اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور نتیجے میں معاشرے کو سنوارنے اور سعادت مند بنانے کے لئے شریعت کے احکامات کو نافذ کرنے کی ذمہ داری بھی اس کے دوش پر آجاتی ہے اس طرح وہ امت کو ایسے راستے پر گامزن کردیتا ہے جس سے وہ دونوں جہان میں خوشبخت بن جاتی ہے

واضح ہے کہ اس قسم کی اہم ذمہ داری ایک عظیم معنوی قدرت او ر خاص لیاقت کی نیاز مند ہے اور اس سنگین عہدے کے لئے راہ خدا میں صبراور ثبات قدم کی ضرورت ہے کیونکہ اس راہ میں ہمیشہ سخت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خواہشات نفسانی سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ عشق خدا اور رضائے پروردگار کے بغیر اس عظیم منصب کا حصول ممکن نہیں ہے ان ہی سب وجہوں سے خداوندعظیم نے جناب ابراہیم کو ان کی عمر کے آخری حصے میں انتہائی سخت آزمائشوں کے بعد یہ منصب عطا کیا تھا اور پھر اپنے بہترین بندوں جیسے حضرت پیغمبر ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ منصب امامت و رہبری عنایت فرمایا تھا.

۲۶۹

کیا نبوت اور امامت ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں ؟

اس سوال سے ایک اور سوال بھی سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : کیا ہر نبی کے لئے امام ہونا اور ہر امام کے لئے نبی ہونا ضروری ہے؟

ان دو سوالوں کا جواب منفی ہے ہم اس جواب کو واضح کرنے کیلئے وحی الہی کا سہارا لیں گے وہ آیتیں جو طالوت اور ظالم جالوت کی جنگ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ خداوند عالم نے حضرت موسیٰ کے بعد منصب نبوت کو بظاہر ''اشموئیل'' نامی شخص کو عطا فرمایا تھا اور ساتھ ہی ساتھ منصب امامت و حکومت کو جناب طالوت کے سپرد کیا تھا اس قصے کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے :

حضرت موسیٰ کی وفات کے بعدبنی اسرائیل کے ایک گروہ نے اپنے زمانے کے پیغمبرسے کہا کہ ہمارے لئے ایک حکمران معین کیجئے تاکہ اس کی سربراہی میں ہم راہ خدا میں جنگ کریںتو اس وقت ان کے پیغمبر نے ان سے یوں کہا:

(وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ ﷲ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا قَالُوا اَنَّیٰ یَکُونُ لَهُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ َاحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْهُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِنْ الْمَالِ قَالَ اِنَّ ﷲ اصْطَفَاهُ عَلَیْکُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِى الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَﷲ یُؤْتِى مُلْکَهُ مَنْ یَشَائُ وَﷲ وَاسِع عَلِیم )( ۱ )

اور ان کے پیغمبرنے ان سے کہا : اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے ان لوگوں نے کہا: اسے ہم پربادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا ہے؟ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حق دار ہیں وہ تو کوئی دولت مند آدمی نہیں ہے نبی نے جواب دیاکہ اللہ نے اسے تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے اور اللہ بڑا وسعت والا، دانا ہے.اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں :

۱۔یہ ممکن ہے کہ کچھ مصلحتیں اس بات کا تقاضا کریں کہ منصب نبوت کو منصب امامت سے جدا کردیا جائے اور ایک ہی زمانے میں دو الگ الگ افراد نبی و امام ہوں اور ان میں سے ہر ایک اپنے خاص منصب ہی کی لیاقت وصلاحیت رکھتا ہو

اسی لئے بنی اسرائیل نے اپنے زمانے میں ان دو منصبوں کے جدا ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا کہ اے پیغمبر آپ طالوت سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں .بلکہ

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت ۲۴۷.

۲۷۰

انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ ہم اس سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں

۲۔جناب طالوت کو حکومت خداوندکریم ہی نے عطا کی تھی قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

ِانَّ ﷲ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا )اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے اور یہ بھی ارشاد ہوتا ہے(ِنَّ ﷲ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ) بے شک اللہ نے اسے تمہارے لئے منتخب کیا ہے.

۳۔جناب طالوت کایہ الہی منصب صرف فوج کی سربراہی تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ بنی اسرائیل کے حاکم و فرمانروا بھی تھے کیونکہ قرآن نے انہیں ''مَلِکاً'' کہہ کر یاد کیا ہے اگرچہ اس دن اس رہبری کامقصد یہ تھا کہ جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائیل کی سربراہی کریں لیکن ان کا یہ الہی منصب انہیں دوسری حکومتی ذمہ داریوں کو بھی انجام دینے کی اجازت دیتا تھا

اس لئے قرآن مجید اس آیت کے اختتام میں فرماتا ہے :

(وَﷲ یُؤْتِ مُلْکَهُ مَنْ یَشَائ ) اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک دیدے

۴۔امت کی رہبری اور امامت کے لئے اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس میں علمی، جسمانی،اور معنوی توانائی پائی جاتی ہو اس قسم کی صلاحیت اس زمانے میں زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ ان ایام میں حاکم خود میدان میں حاضر ہو کر جنگ کرتا تھا( ۱ )

____________________

(۱)منشور جاوید (مصنفہ استاد جعفرسبحانی) سے ماخوذ.

۲۷۱

گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبوت اور امامت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے کہ ایک شخص نبی تو ہو لیکن منصب امامت پر فائز نہ ہو یا یہ کہ کوئی شخص خدا کی جانب سے امام تو ہو لیکن اسے عہدۂ نبوت حاصل نہ ہوا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ پروردگارعالم یہ دونوں منصب ایک ہی شخص کو عطا کردے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:

(فَهَزَمُوهُمْ بِاِذْنِ ﷲِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ ﷲ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا یَشَائُ )( ۱ )

چنانچہ اللہ کے اذن سے انہوں نے جالوت کے لشکر کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطافرمائی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھادیا.

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت ۲۵۱.

۲۷۲

چھتیسواں سوال

توحید اور شرک کی شناخت کا معیار کیاہے؟

''توحید'' اور شرک کی بحثوں میں سب سے اہم مسئلہ ان دونوں کی شناخت کے معیار کا ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بعض دوسرے اہم مسائل بھی حل نہیں ہوپائیں گے اس لئے ہم مسئلہ توحید و شرک پر مختلف زاویوں سے مختصراً بحث پیش کررہے ہیں :

۲۷۳

۱۔توحید ذاتی

توحید ذاتی دو صورتوں میں پیش کی جاتی ہے :

الف:خدا ایک ہے اور کوئی اس جیسا نہیں (اس مفہوم کو علم کلام کے علماء واجب الوجود کے نام سے یاد کرتے ہیں ) اور یہ وہی توحید ہے کہ جسے خداوند عالم نے مختلف صورتوں میں قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے ملاحظہ ہو:

(لیس کمثله شئ )

اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے.( ۱ )

ایک اور جگہ پر فرماتا ہے:

(ولم یکن له کفواً أحد )( ۲ )

اور کوئی بھی اس کا کفو اور ہمسر نہیں ہے.

البتہ بعض اوقات توحید کی اس قسم کی تفسیر عامیانہ طور پر کردی جاتی ہے کہ جس میں توحید عددی کا رنگ دکھائی دینے لگتا ہے وہ اس طرح کہ : کہا جاتا ہے کہ خدا ایک ہے اور دو نہیں اس قسم کا جملہ سن کر کچھ کہے بغیر واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کی طرف اس قسم کی توحید (عددی) کی نسبت دینا صحیح نہیں ہے.

ب: خدا کی ذات بسیط ہے نہ کہ مرکب کیونکہ ہرمرکب موجود (چاہے اس کا وجودذہنی اجزاء سے مرکب ہو یا خارجی اجزاء سے مرکب ہو ) اپنے وجود میں اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور محتاج ہونا ممکن ہونے کی علامت ہے اور ہر ممکن علت کا محتاج ہوتا ہے. اور یہ سب کچھ واجب الوجود کے ساتھ کسی بھی صورت میں مطابقت نہیں رکھتا

____________________

(۱)سورہ شوریٰ آیت: ۱۱.

(۲)سورہ اخلاص آیت:۴.

۲۷۴

۲۔ خالقیت میں توحید

توحیدکے وہ مراتب جنہیں عقل و نقل دونوں نے قبول کیا ہے ان میں سے ایک توحید خالقیت بھی ہے عقل کی روسے خداوندعالم کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سب عالم

امکان کے زمرے میں آتا ہے اور ہر قسم کے جمال وکمال سے عاری ہوتا ہے اور جو کچھ عالم امکان میں پایا جاتا ہے وہ غنی بالذات (خدا)کی بے کراں رحمتسے فیض یاب ہوتا ہے اس اعتبار سے اس دنیا میں دکھائی دینے والے جمال وکمال کے جلوے اسی کے مرہون منت ہوتے ہیں قرآن مجید نے بھی توحید خالقیت کے سلسلے میں بہت سی آیات پیش کی ہیں ہم ان میں سے صرف ایک آیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

(قُلْ ﷲ خَالِقُ کُلِّ شَْئٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ )( ۱ )

کہہ دیجئے : ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ، بڑا غالب ہے.

لہذاخدا پرستوں میں مجموعی طور پر توحید خالقیت کے سلسلے میں اختلاف نہیں پایا جاتا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ توحید خالقیت کے بارے میں دو قسم کی تفسیریں پائی جاتی ہیں ان دونوں کو ہم یہاں بیان کرتے ہیں :

الف:موجودات عالم میں پائے جانے والے ہر قسم کی علت اور معلول والے نظام اور نیز ان کے درمیان پائے جانے والے سبب او ر مسبب کے رابطے سب ہی علة العلل (جس کی کوئی علت نہ ہو)اور مسبب الاسباب(جس کا کوئی سبب نہ ہو) تک پہنچتے ہیں اور درحقیقت اصلی اور مستقل خالق خداوندعالم ہی کی ذات ہے اور خدا کے علاوہ باقی سب علل واسباب ، خداوندعالم کی اجازت و مشیت کے تابع ہیں

اس نظریہ میں دنیا میں علت و معلول کے نظام کا اعتراف کیا گیا ہے .اور علم بشر

____________________

(۱)سورہ رعد آیت: ۱۶.

۲۷۵

نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے باوجود کل نظام کا تعلق ایک لحاظ سے خدا ہی سے ہے اور اسی نے اسباب کو سببیت ، علت کو علیت اور موثر کو تاثیر عطا کی ہے

ب:اس دنیا میں صرف ایک ہی خالق کا وجود ہے اور وہ خداوندعالم کی ذات ہے اور نظام ہستی میں اشیاء کے درمیان ایک دوسرے کیلئے کسی قسم کی اثر گزاری اور اثرپذیری نہیں پائی جاتی بلکہ تمام مادی موجودات کا خالق بلا واسطہ خدا ہی ہے .اسی طرح انسان کی طاقت بھی اس کے اعمال پر اثر انداز نہیں ہوتی ہے لہذا نظام ہستی میں صرف ایک ہی علت پائی جاتی ہے اور وہی ان فطری علتوں کی رئیس و اصل ہے

البتہ توحید خالقیت کی یہ تفسیر اشاعرہ نے پیش کی ہے لیکن ان میں سے بعض افراد جیسے امام الحرمین( ۱ ) اور شیخ محمدعبدہ نے رسالہ توحید میں اس تفسیر کو چھوڑ کر پہلی تفسیر کو مانا ہے

۳۔تدبیرمیں توحید

چونکہ عالم کو خلق کرنا خدا ہی سے مخصوص ہے لہذا نظام ہستی کی تدبیر بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اس دنیا میں صرف ایک ہی مدبر کا وجود ہے اور وہ عقلی دلیل کہ جو توحید خالقیت کو ثابت کرتی ہے وہی دلیل تدبیر میں بھی توحید کو ثابت کرتی ہے

قرآن مجید کی متعدد آیات نے خداوندعالم کے مدبر ہونے کو بیان کیا ہے اس سلسلے میں یہ آیت ملاحظہ ہو:

____________________

(۱)ملل و نحل(شہرستانی)جلد۱.

۲۷۶

(اغَیْرَ ﷲِ اَبْغِى رَبًّا وَهُوَ رَبُّ کُلِّ شَْئ )( ۱ )

کہہ دیجئے : کہ کیا میں خد اکے علاوہ کوئی اور رب تلاش کروں جب کہ وہ ہر چیز کا رب ہے.

البتہ وہ دونوں تفسیریں جو توحید خالقیت میں پائی جاتی ہیں وہی توحید تدبیری میں بھی پائی جاتی ہیں اور ہمارے عقیدے کے مطابق توحید تدبیری سے مراد یہ ہے کہ مستقل طور پر تدبیر کرنا صرف خدا سے مخصوص ہے

اس بنیاد پر نظام ہستی کے موجودات کے درمیان بعض تدبیریں خدا کے ارادے اور مشیت سے وجود میں آتی ہیں قرآن مجید نے بھی حق سے متمسک مدبروں کے بارے میں یوں فرمایا ہے :

(فالمدبرات امرًا )( ۲ )

پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں

۴۔حاکمیت میں توحید

حاکمیت میں توحید سے مراد یہ ہے کہ حکومت کا حق فقط خداوندعالم کو ہے اور صرف وہی انسانوں پر حاکم ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

____________________

(۱)سورہ انعام آیت:۱۶۴.

(۲)سورہ نازعات آیت :۵

۲۷۷

(اِنِ الْحُکْمُ اِلا لِلّٰه )( ۱ )

حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ہے.

اس اعتبارسے خدا کے علاوہ کسی اور کی حکومت صرف خدا کے ارادے اور مشیت سے ہونی چاہیے تاکہ نیک اور صالح افراد ہی معاشرے کے امور کی باگ ڈور سنبھالیں اور لوگوں کو کمال و سعادت کی راہ پر گامزن کرسکیں جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

(یَادَاوُودُ اِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِى الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ )( ۲ )

اے داؤدہم نے آپ کو زمین پر اپنا جانشین بنایا ہے لہذا آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں.

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت :۴۰.

(۲)سورہ ص آیت۲۶.

۲۷۸

۵۔اطاعت میں توحید

اطاعت میں توحید سے مراد یہ ہے کہ حقیقی اور ذاتی طور پرخدائے بزرگ کی پیروی ضروری ہے لہذا بعض دوسرے افراد (جیسے پیغمبر، امام، فقیہ ، باپ اور ماں)کی اطاعت کا لازم ہونا پروردگارعالم کے حکم اور ارادے سے ہے.

۶۔شریعت قرار دینے اور قانون گزاری میں توحید

قانون گزاری میں توحید سے مراد یہ ہے کہ شریعت قرار دینے اور قانون گزاری

کا حق فقط خداوندعالم کو ہے اسی بنیاد پر قرآن مجید ہر اس حکم کوجو حکم الہی کے دائرے سے خارج ہو اسے کفر، فسق اور ظلم کا سبب قرار دیتا ہے ملاحظہ ہو:

(وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنزَلَ ﷲ فَاُوْلٰئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ )( ۱ )

اور جو لوگ بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ ظالم ہیں

(وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنزَلَ ﷲ فَاُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ )( ۲ )

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ فاسق ہیں

(وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنزَلَ ﷲ فَاُوْلٰئِکَ هُمْ الظَّالِمُونَ )( ۳ )

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریںوہ ظالم ہیں

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیت:۴۴.

(۲)سورہ مائدہ آیت:۴۷.

(۳)سورہ مائدہ آیت ۴۵.

۲۷۹

۷۔عبادت میں توحید

عبادت میں توحید کے سلسلے میں اہم ترین بحث ''عبادت'' کے معنی کی شناخت ہے کیونکہ سب مسلمان اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ عبادت صرف خدا سے مخصوص ہے اوراس کے علاوہ کسی اور کی پرستش نہ کی جائے جیسا کہ قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

(اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِینُ )( ۱ )

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں

قرآن مجید کی مختلف آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کی دعوتوں کا بنیادی عنصر یہی عقیدہ تھا قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنْ اُعْبُدُوا ﷲ وَاجْتَنِبُواالطَّاغُوت )( ۲ )

اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا تاکہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو.

لہذا اس مسلم الثبوت اصل میں کوئی شک نہیں کہ عبادت کا حق صرف خدا کا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کی جاسکتی نیز یہ کہ اس اصل پر ایمان نہ رکھنے والا موحد نہیں ہوسکتا.

____________________

(۱)سورہ حمد آیت: ۴.

(۲)سورہ نحل آیت:۳۶.

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296