شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95397 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

کے نام کا بھی ذکر کیا ہے.( ۱ )

اس بیان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حدیث'' ضحضاح''کے سارے راوی انتہائی ضعیف تھے لہذا ان سے منقول احادیث پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا.

حدیث ضحضاح کا مضمون قرآن و سنت کے خلاف ہے اس حدیث میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کو(معاذاللہ) آگ کے شعلوں کے انبار سے نکال کر ضحضاح کی طرف منتقل کردیا تھااس اعتبار سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے عذاب میں کمی کرادی تھی یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قیامت کے دن ان کے حق میں شفاعت کرنے کی آرزو کی تھی جبکہ قرآن مجید اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعتبار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عذاب میں کمی کرانے یا شفاعت کرنے کا حق صرف مومنوں اور مسلمانوں سے ہی مخصوص ہے لہذا اگر (معاذاللہ) جناب ابوطالب کافر ہوتے تو ہرگز پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے عذاب میں کمی یا ان کی شفاعت کی آرزو نہ کرتے اس اعتبار سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ (حدیث ضحضاح) کا مضمون باطل اور بے بنیاد ہے اب

ہم قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلے کی چند واضح دلیلیں پیش کرتے ہیں :

الف: قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لاَیُقْضَی عَلَیْهِمْ فَیَمُوتُوا وَلاَیُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا کَذٰلِکَ

____________________

(۱)شیخ الابطح ص۷۵ اور میزان الاعتدال جلد۳ ص۴۲۳.

۲۴۱

نَجْزِ کُلَّ کَفُورٍ )( ۱ )

اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کیلئے جہنم کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ مرجائیں اور نہ ہی انکے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائی گی ہم اسی طرح ہر کفر کرنے والے کو سزا دیا کرتے ہیں

ب:سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی کفار کے حق میں شفاعت کی نفی کی گئی ہے: ابوذر غفاری نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے :

أعطیت الشفاعة وھ نائلة من أُمت مَن لایشرک باللّہ شیئًا.

مجھے شفاعت کرنے کا حق دیا گیا ہے اور وہ میری امت کے ایسے افراد کے لئے ہوگی جنہوں نے خداوندعالم کے سلسلے میں شرک نہ کیاہو.

لہذا حدیث ضحضاح کا مضمون باطل ، بے بنیاد اور قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف ہے.

نتیجہ

اس بیان کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث ضحضاح سند و متن کے اعتبار

سے ناقابل عمل روایت ہے. اس طرح جناب ابوطالب کی باایمان شخصیت کو داغدار کرنے والی مہمل روایت باطل ہوجاتی ہے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حامی و ناصر جناب ابوطالب کا ایمان محکم طریقہ سے ثابت ہوجاتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ فاطر آیت : ۳۶.

۲۴۲

تیسواں سوال

کیا شیعوں کی نظر میں جبرئیل ـ نے منصب رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت علی ـکے بجائے قرآن مجید کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا ہے؟

جواب: بعض جاہل اور خود غرض افراد نے شیعوں پر یہ تہمت لگائی ہے .اس مسئلے کے جواب سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سوال کے پیداہونے کا اصلی سبب بیان کردیں:

اس تہمت کا اصلی سبب

قرآنی آیات اور احادیث نبوی کے مطابق یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت جبرئیل ـ نے رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے کیونکہ خداوندعالم نے انہیں حکم دیا تھا کہ منصب نبوت کو خاندان اسرائیل میں قراردیں لیکن انہوں نے پروردگار عالم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصب نبوت کو اولاد اسماعیل میں قرار دے دیا

۲۴۳

اسی بنیاد پر یہودی جناب جبرئیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں( ۱ )

اور ان کے بارے میں ہمیشہ ''خان الامین'' ''جبرائیل نے خیانت کی'' کا جملہ استعمال کرتے ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید نے ان پر اعتراض کیا ہے اور ان کے نظرئیے کو باطل قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل آیت میں جناب جبرئیل کو فرشتہ ''امین'' کے نام سے یاد کیا ہے:

(نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْاَمِینُ ة عَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنْ الْمُنذِرِینَ )( ۲ )

اس( قرآن مجید)کو روح الامین (جبرائیل) لے کر نازل ہوئے ہیں یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں.

ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

(قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَاِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَی قَلْبِکَ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۳ )

____________________

(۱)تفسیر فخررازی جلد۱ ص ۴۳۶ اور ۴۳۷ طبع مصر ۱۳۰۸ھ.

(۲)سورہ شعراء آیت: ۱۹۴.

(۳)سورہ بقرہ آیت: ۹۳۔۱۹۴.

۲۴۴

آپ کہہ دیجئے: جو کوئی جبرئیل کا دشمن ہے وہ یہ جان لے کہ اس نے تو اس قرآن کو حکم خدا سے آپ کے قلب پر نازل کیا ہے.

اگر ان آیات کی تفسیر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ قوم یہود چند وجوہات کی بنا پر جناب جبرئیل کو اپنا دشمن شمار کرتے ہوئے انہیں فرشتۂ عذاب اور رسالت پہنچانے میں خیانت کرنے والا تصور کرتی تھی لہذا اس کلمے ''خان الامین'' کا سرچشمہ قوم یہود کا عقیدہ ہے اور بعض جاہل مصنفین نے شیعوں سے اپنی پرانی دشمنی کے نتیجے میں بے انصافی سے کام لیتے ہوئے یہودیوں کے اس جملے کو شیعہ قوم سے منسوب کردیا ہے.

شیعوں کی نگاہ میں منصب نبوت

شیعہ ،قرآن وسنت کی پیروی اور ائمہ معصومین ٪ کی روایات کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم خدا سے ساری دنیا کے لئے نبی برحق سمجھتے ہیں بلکہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آخری نبی اور سید المرسلین بھی مانتے ہیں

شیعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب ـ اپنے اس گہربار کلام میں اس حقیقت کی یوں گواہی دیتے ہیں :

۲۴۵

وأشهد أن لااله الا اللّه وحده لاشریک و أشهد أن محمّدًا عبده و رسوله خاتم النبیّین و حجة اللّه علیٰ العالمین .( ۱ )

میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اس خدائے واحد کے جس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد خدا کے بندے اس کے رسول ، خاتم الانبیاء اور سب جہانوں پر خدا کی حجت ہیں

امام جعفرصادق ـ نیز فرماتے ہیں :

''لم یبعث اللّه عزّوجلّ من العرب اِلا خمسة أنبیاء هودًا و صالحًا و اسماعیل و شعیبًا و محمدًا خاتم النبیّین صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '.'( ۲ )

خداوندعالم نے پانچ انبیاء کو قوم عرب میں سے مبعوث فرمایا ہے : حضرت ہود، حضرت صالح ، حضرت اسماعیل ،حضرت شعیب اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

یہ حدیث بخوبی شیعوں پر لگائی گئی نسبت کو باطل کردیتی ہے اور حضرت محمدبن عبداللہ کو خدا کے آخری نبی کی حیثیت سے پہچنواتی ہے( ۳ )

____________________

(۱)نہج السعادة جلد۱ ص ۱۸۸ طبع بیروت اور کافی جلد ۸صفحہ ۶۷طبع ۲ تہران.

(۲)بحار الانوار جلد۱۱ ص ۴۲ طبع ۲ بیروت ۱۴۰۳ھ

(۳)پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت کے سلسلے میں زیادہ روایات سے آگاہی کے لئے استاد جعفر سبحانی کی کتاب ''مفاہیم القرآن'' کا مطالعہ فرمائیں.

۲۴۶

اسی بنیاد پر تمام شیعہ جناب جبرئیل کو رسالت پہنچانے میں امین سمجھتے ہیں اوراسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے آخری اور برحق نبی تھے اور حضرت علی بن ابی طالب ـ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی وصی اور جانشین تھے۔

یہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی درج ذیل حدیث پیش کریں جس کے صحیح ہونے پر شیعہ اور سنی دونوں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور دونوں ہی فرقوں کے محدثین نے اس حدیث کو اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے یہ حدیث ''حدیث منزلت'' کے نام سے مشہور ہے اس حدیث میں آپ نے اپنی رسالت کی خاتمیت بیان کرنے کے بعد حضرت علی ـ کو اپنا وصی اور جانشین معین فرمایاہے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

أما ترضیٰ أن تکون منّى بمنزلة هارون من موسیٰ الا اِنّه لانبّى بعد ( ۱ )

____________________

(۱)اس حدیث کے بے شمار ماخذ موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔صحیح بخاری جلد۶ ص۳ باب غزوہ تبوک (طبع مصر)

۲۔صحیح مسلم جلد۷ ص ۱۲۰ باب فضائل علی (طبع مصر)

۳۔سنن ابن ماجہ جلد۱ ص۵۵ باب فضائل اصحاب النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (طبع اول مصر)

۴۔مستدرک حاکم جلد۳ ص ۱۰۹ (طبع بیروت)

۵۔مسند احمد جلد۱ ص ۱۷۰، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۵ اور جلد ۳ میں ص ۳۲

۶۔صحیح ترمذی جلد۵ ص۲۱ باب مناقب علی بن ابی طالب (طبع بیروت)

۷۔مناقب ابن مغازلی ص ۲۷ طبع بیروت ۱۴۰۳ھ

۸۔بحارالانوار جلد ۳۷ ص ۲۵۴ طبع ۲ بیروت ۱۴۰۳ھ

۹۔معانی الاخبار (شیخ الصدوق) ص۷۴ طبع بیروت ۱۳۹۹ھ

۱۰۔کنزالفوائد جلد۲ ص ۱۶۸ طبع بیروت ۱۴۰۵ھ

۲۴۷

(اے علی )کیاتم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کو موسیٰ سے تھی صرف یہ (فرق ہے) کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا.

یہ حدیث جو کہ سند کے اعتبار سے شیعہ و سنی محدثین کی نظر میں معتبر ہے شیعوں کے درج ذیل دو نظریوں کی واضح دلیل ہے:

۱۔حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے آخری نبی ہیں

۲۔حضرت علی بن ابی طالبـ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین اور بلافصل خلیفہ ہیں ۔

۲۴۸

اکتیسواں سوال

تقیہ کا معیارکیا ہے؟

جواب:دشمنوں کے مقابلے میں دنیاوی اور دینی نقصانات سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے باطنی عقیدے اور ایمان کو چھپانے کا نام تقیہ ہے تقیہ ہر مسلمان شخص کا ایک ایسا شرعی فریضہ ہے جس کا سرچشمہ قرآنی آیات ہیں :

قرآن کی نگاہ میں تقیہ

قرآن مجید میں تقیہ سے متعلق بہت سی آیات ہیں ان میں سے یہاں ہم بعض کا ذکر کرتے ہیں :

(لایَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ َوْلِیَائَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنَ ﷲِ فى شَْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت: ۲۸.

۲۴۹

مومنوں کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں ہے

یہ آیت بخوبی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کفار کے ساتھ دوستی رکھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر جان خطرہ میں ہو تو تقیہ کرتے ہوئے ان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کیا جاسکتا ہے.

ب:(مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْ بَعْدِ ِیمَانِهِا ِلاَّ مَنْ ُاکْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنّ بِالْاِیمَانِ وَلٰکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَب مِنْ ﷲِ وَلَهُمْ عَذَاب عَظِیم )( ۱ )

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کر لے سوائے اس کے جسے کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں ہے)لیکن وہ شخص جس کے سینہ میں کفر کے لئے کافی جگہ پائی جاتی ہو اس کے اوپر خد ا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے

مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں یہ لکھا ہے :ایک دن کفار نے جناب عمار ابن یاسر کو ان کے ماں باپ کے ہمراہ گرفتار کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ اسلام کو

____________________

(۱)سورہ نحل آیت: ۱۰۶

۲۵۰

چھوڑ کر کفر و شرک اختیار کرلو تو عماربن یاسر کے ہمراہ افراد نے ان کے جواب میں توحید و رسالت کی گواہیاں دینا شروع کردیں جس پر کفار نے ان میں سے بعض کو شہید کرڈالا اور بعض پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھانے لگے اس وقت جناب عمار نے اپنے باطنی عقیدے کے برخلاف تقیہ اختیار کرکے ظاہری طور پر کفر کے کلمات کو اپنی زبان پر جاری کیا تو کفار نے انہیں چھوڑ دیا پھر اسکے بعد جناب عمار انتہائی پریشانی کے عالم میں رسول خدا کی خدمت میں پہنچے تو آنحضرت نے انہیں تسلی دی اور پھر اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی.(۱)

اس آیت اور اس کی تفسیر سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اصحاب بھی جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنے باطنی عقیدے کو چھپا کر تقیہ کرتے تھے.

تقیہ شیعوں کی نگاہ میں

بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمران ہمیشہ شیعوں سے برسرپیکار رہے ہیں اور انہوں نے شیعوں کے قتل عام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے( ۲ )

اس بنا پر اس زمانے میں شیعوں نے قرآن مجید کے حکم کے مطابق انتہائی سخت حالات میں اپنے سچے عقائد چھپا کر اپنی اور دوسرے مسلمان بھائیوں کی جانیں محفوظ کی تھیںواضح ہے کہ اس ظلم و ستم کی فضا میں شیعوں کے لئے تقیہ کے علاوہ کوئی ایسا چارۂ کار نہیں تھا جو شیعوں کو نابودی سے بچاتالہذا اگر وہ ظالم حکام، شیعوں کے دشمن نہ ہوتے اور شیعوں کا بے گناہ قتل عام نہ کرتے تو ہر گز شیعہ تقیہ اختیار نہ کرتے یہاں پر اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تقیہ صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی جب اپنے ایسے دشمنوں کے مقابلے میں قرار پاتے ہیں جو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے دشمن ہیں (جیسے کہ خوارج اور وہ ظالم حکومتیں جو ہر حرام کام کو جائز سمجھتی ہیں )اور ان سے مقابلہ کی طاقت بھی نہیں ہوتی تو وہ اپنی جان کی حفاظت کی خاطر تقیہ کا سہارالیتے ہیں اس بنیاد پر اگر اسلامی معاشرے کے تمام افراد اپنے فقہی مذاہب میں اتفاق رائے رکھتے ہوئے وحدت واخوت کی زندگی گزارنا شروع کردیں تو پھر ہرگز انھیں تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

____________________

(۱)اس سلسلے میں جلال الدین سیوطی کی تفسیر در المنثور جلد۴ ص۱۳۱ (طبع بیروت) کا مطالعہ کیجئے.

(۲)بنی امیہ اور بنی عباس کے حکام کے حکم پر شیعوں کے بے رحمانہ قتل عام کے سلسلے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان کتابوں''مقاتل الطالبین''(مصنفہ ابوالفرج اصفہانی) ''شہداء الفضیلة(مصنفہ علامہ امینی)''، ''الشیعہ والحاکمون''(مصنفہ محمد جواد مغنیہ)کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

۲۵۱

نتیجہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:

۱۔تقیہ کی اساس قرآن مجید پر ہے اور صدر اسلام میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب بھی تقیہ کر تے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے اس عمل کی تائید فرماتے تھے یہ سب تقیہ کے جائز ہونے کی دلیلیں ہیں

۲۔شیعہ اپنے مذہب کو بچانے اور دشمنوں کے سفاکانہ قتل عام سے محفوظ رہنے کے لئے تقیہ کرتے تھے

۳۔تقیہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی تقیہ کرتے ہیں

۴۔تقیہ کرنا اور اپنے باطنی عقائد چھپانا صرف کفار کے مقابلے میں ہی انجام نہیں پاتا بلکہ تقیہ کا معیار (مسلمانوں کی جان بچانا) عمومیت رکھتا ہے اور ہر ایسے ظالم دشمن کے سامنے کہ جس کے ساتھ مقابلے کی قدرت نہ ہو یا اس سے جہاد کرنے کے شرائط پورے نہ ہورہے ہوں تقیہ ضروری ہوجاتا ہے

۵۔اگر مسلمانوں میں مکمل وحدت اور ہم فکری پیدا ہوجائے تو ہرگز ان کے درمیان تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

۲۵۲

بتیسواں سوال

ایران کے بنیادی قانون میں کیوں جعفری مذہب (شیعہ اثناعشری) کو حکومت کا مذہب قرار دیا گیا ہے؟

جواب:اس میں شک نہیں کہ جمہوری اسلامی ایران کے بنیادی قانون کی نظر میں تمام اسلامی مذاہب محترم و معزز شمار کئے جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ اسلامی و فقہی مذاہب (:جیسے جعفری، مالکی، شافعی، حنبلی ، حنفی و...) کے ماننے والے اپنے فردی اور اجتماعی احکام میں یکساں اور متحد نہیں ہیں اور ان کے درمیان بہت سے اختلافات دکھائی دیتے ہیں دوسری طرف سے ایک معاشرے کے قوانین و حقوق کا آپس میں منظم اور یک رنگ ہونا وقت کی شدید ترین ضرورت ہے اس اعتبار سے واضح ہے کہ ہر سرزمین پر ان مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی اجتماعی قوانین کو نافذ کرسکتا ہے اس لئے کہ قانون گزاروں کے مختلف ہونے سے کبھی بھی ایک جیسے اور یکساں قوانین نہیں بنائے جاسکتے اس بنیاد پر یہ ضروری ہے کہ ہر معاشرے میں اسلامی اور فقہی مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی باضابطہ طور پراجتماعی قوانین کا ماخذ قرار پائے تاکہ اس مملکت کے قوانین و ضوابط میں کسی طرح کی دو روئی اور بدنظمی پیدا نہ ہونے پائے اور فردی و اجتماعی امور میں منظم اور یکساں قوانین و ضوابط بنانے کا زمینہ ہموار ہوسکے

۲۵۳

جعفری مذہب کی تعیین کا معیار

گزشتہ وضاحت کے بعد اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کس معیار کے تحت تمام مذاہب میں سے صرف جعفری مذہب کو ملک کے قوانین و ضوابط کا ماخذ قرار دیا ہے؟

اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے چونکہ ایران میں عوام کی اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جو جعفری مذہب کو مانتے ہیں لہذا اس ملک کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا جو کہ ایک فطری امر ہے اور تمام منطقی اور حقوقی ضابطوں سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے.

ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کا درجہ

اگرچہ ایران کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس اسلامی مملکت میں دوسرے اسلامی مذاہب (جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی کو) نہ صرف محترم شمار کیا گیا ہے بلکہ ان مذاہب کے ماننے والوں کو درج ذیل امور میں اپنی فقہ پر عمل کرنے میں مکمل اختیار بھی دیا گیا ہے:

۱۔اپنے مذہبی مراسم کے انجام دینے میں

۲۔اپنی دینی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں

۳۔اپنے ذاتی اور شخصی کاموں کو انجام دینے میں

۴۔اپنے مذہب کے خصوصی قوانین و ضوابط میں (جیسے نکاح، طلاق، میراث، وصیت وغیرہ).

اس کے علاوہ اگر کسی علاقے میں مذکورہ مذاہب میں سے کسی مذہب کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی وہاں کے قونصل خانوں میں ان کے لئے ان کے مذہب کے مطابق قوانین و ضوابط وضع کئے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق بھی محفوظ رہیں گے

۲۵۴

یہاں پر اس موضوع کی مزید وضاحت کے لئے ہم ایران کے بنیادی قانون کی بارہویں اصل کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

''ایران کا رسمی دین اسلام اور مذہب جعفری اثنا عشری ہے یہ ہمیشہ رہے گا اور ناقابل تبدیل ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذہبوں. جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی مذاہب کے ماننے والے بھی مکمل طور پر محترم شمار کئے جائیں گے '' اور ان مذاہب کے پیرو اپنی فقہ کے مطابق اپنے مذہبی رسومات کے انجام دینے میں آزاد ہوں گے اور اسی طرح وہ اپنی دینی تعلیم و تربیت اور اپنے ذاتی مسائل جیسے نکاح ،طلاق ، میراث،وصیت،لڑائی جھگڑوں کے مسائل اور عدالتوں میں مقدموں کے سلسلے میں رسمی طور پر اپنے مذہب کی فقہ پر عمل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور جس جگہ بھی مذکورہ مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کے پیرو اکثریت میں ہوں گے اس جگہ کے علاقائی قوانین ان کے مذہب کے مطابق ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق بھی محفوظ ہوں گے ایران کے قانون اساسی کی اس بارہویں اصل کی روشنی میں تمام اسلامی مذاہب کا احترام روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۵۵

تینتیسواں سوال

کیا شیعہ نماز وتر کو واجب سمجھتے ہیں ؟

جواب:نوافل شب میں سے ایک نماز وتر بھی ہے جس کا پڑھنا اسلام کے ماننے والوں اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی پیروی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے لیکن شیعہ فقہاء نے کتاب و سنت کی روشنی میں چند امور کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات میں سے قرار دیا ہے ان ہی میں سے ایک حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس نماز کا واجب ہونا بھی ہے

چنانچہ علامہ حلی نے اپنی کتاب ''تذکرة الفقہائ'' میں تقریباً ستر چیزوں کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات میں شمار کیا ہے اور انہوں نے اپنے کلام کے آغاز ہی میں یہ کہا ہے:

''فأمّا الواجبات علیه دون غیره من أمّته أمور: الف : السواک ،ب: الوتر، ج: الأضحیه، رو عنه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أنه قال : ثلاث کتب علّ ولم تکتب علیکم : السواک والوتر والأضحیّة ... ''( ۱ )

____________________

(۱)تذکرة الفقہاء جلد۲ کتاب النکاح مقدمہ چہارم۔

۲۵۶

وہ چیزیں جو صرف پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہیں اور ان کی امت کے لئے واجب نہیں ہیں وہ یہ ہیں :الف :مسواک کرنا،ب:نماز وتر پڑھنا، ج: قربانی کرنا،.

رسول خدا سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایاہے : تین چیزیں میرے اوپر واجب کی گئی ہیں لیکن تم لوگوں پر واجب نہیں ہیں اور وہ ہیں مسواک کرنا ، نماز وتر پڑھنا اور قربانی کرنا ''اس بنیاد پر نماز وتر شیعوں کی نظر میں صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہے اور دوسروں کے لئے اس کا پڑھنا مستحب ہے.

۲۵۷

چونتیسواں سوال

کیا اولیائے خدا کی غیبی طاقت پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟

جواب: یہ بات واضح ہے کہ جب کبھی کوئی شخص دوسرے سے کسی کام کی درخواست کرتا ہے تو وہ اس شخص کو اس کام کے انجام دینے میں اپنے سے قوی اور طاقتور سمجھتا ہے اور یہ طاقت دو قسم کی ہوتی ہے :

۱۔کبھی یہ قدرت مادی اور فطری ہوتی ہے جیسے ہم کسی شخص سے کہیں مجھے ایک گلاس پانی لادو

۲۔بعض اوقات یہ طاقت مادی اور فطری نہیں ہوتی بلکہ غیبی صورت میں ہوتی ہے جیسے کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ خدا کے کچھ نیک بندے جناب عیسیٰ کی طرح لاعلاج مرض سے شفا عطا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور مسیحائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدید قسم کے مریض کو بھی نجات عطا کرتے ہیں یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کی غیبی طاقتوں پر انہیں خدا کے ارادے اور قدرت کا محتاج سمجھ کر عقیدہ رکھنا فطری و مادی قدرتوں پر عقیدہ رکھنے کی طرح ہے اور یہ ہرگز شرک قرار نہیں پاسکتا اس لئے کہ خداوندعالم ہی نے یہ مادی اور فطری طاقتیں انسان کو عطا کی ہیں اور اسی نے غیبی طاقتوں کو اپنے نیک بندوں کو عنایت فرمایا ہے

یہاں پر ہم اس جواب کی مزید وضاحت کرنے کے لئے یہ کہیں گے کہ اولیائے خدا کی غیبی قدرت و طاقت پر دو طرح سے عقیدہ رکھا جاسکتا ہے :

۲۵۸

۱۔کسی شخص کی غیبی قدرت پر اس طرح عقیدہ رکھا جائے کہ اسے اپنی اس طاقت میں مستقل اوراصل سمجھیں اور خدائی امور کو مستقل طور پر اس کی طرف نسبت دینے لگیں اس صورت میں شک نہیں کہ یہ عقیدہ شرک شمار ہوگا کیونکہ اس طرح ہم نے غیر خدا کو طاقت میں مستقل سمجھ کر خدائی امور کو غیر خدا کی طرف منسوب کردیا ہے جب کہ یہ طے ہے کہ پروردگار عالم کی لامتناہی طاقت و قدرت ہی سے تمام طاقتوں اور قدرتوں کاسرچشمہ بناہے

۲۔خدا کے نیک اور باایمان بندوں کی غیبی طاقت پر اس طرح اعتقاد رکھیں کہ انہوں نے اپنی یہ قدرت پروردگار عالم کی لامحدود قدرت سے حاصل کی ہے اور درحقیقت ان قدرتوں کو حاصل کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان کے ذریعے خدا کی لامحدود قدرت کا اظہار کیا جاسکے اور وہ خود اپنی ذات میں کسی طرح کا استقلال نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنی ہستی اور اپنی غیبی قدرت کے استعمال میں پوری طرح ذات پروردگار پر منحصر ہیں

واضح ہے کہ اس طرح کا عقیدہ اولیائے الہی کو خدا سمجھنے یا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دینے کی طرح نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں پروردگار عالم کے نیک بندے اس کی اجازت اور ارادے سے اس کی عطا کردہ غیبی طاقت کا اظہا ر کرتے ہیں قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

۲۵۹

(وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ اَنْ یَاْتِىَ بِآیَةٍ ِالاَّ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۱ )

اور کسی رسول کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے.

اس بیان کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ ایسا عقیدہ باعث شرک قرار نہیں پائے گا بلکہ توحید و یکتا پرستی سے مکمل طورپر مطابقت رکھنے والا عقیدہ نظر آئے گا.

قرآن مجید کی نظر میں اولیائے الہی کی غیبی طاقت

مسلمانوں کی آسمانی کتاب نے وضاحت کے ساتھ پروردگار عالم کے ان نیک بندوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے پروردگار عالم کی اجازت سے اپنی حیرت انگیز قدرت کا مظاہرہ کیا تھا اس سلسلے میں قرآن مجید کے بعض جملے ملاحظہ ہوں:

____________________

(۱)سورہ رعد آیت : ۳۸

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

لیکن ہماری گفتگو اس سلسلے میں ہے کہ ''عبادت'' اور غیر عبادت کی شناخت کا معیار کیا ہے؟

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے استاد اور ماں باپ یا علماء اور مجتہدین کے ہاتھوں کا بوسہ لے یا اپنے ذوی الحقوق کا احترام کرے تو کیا اس کا یہ عمل ان کی عبادت شمار ہوگا؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ کسی کے مقابلے میں خضوع و خشوع کو عبادت نہیں کہتے بلکہ عبادت کے لئے ایک خاص صفت کا ہونا ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر چاہے جس بھی طرح کا خضوع ہو عبادت نہیں کہلائے گااب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی بنیادی صفت ہے جو کسی بھی طرح کے خضوع کو عبادت بناسکتی ہے؟

لفظ عبادت کے غلط معنی

کچھ مصنفین نے اپنی کتابوں میں عبادت کے معنی خضوع اور یا زیادہ خضوع بیان کئے ہیں لیکن ان مصنفین کو قرآن مجید کی بعض آیات کے ترجمہ میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ ان آیتوں میں خداوندکریم نے صراحت سے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے فرشتوں کو جناب آدم کا سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا ملاحظہ ہو:

(وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت:۳۴.

۲۸۱

اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو.

حضرت آدم کے لئے بعینہ اسی طرح سجدہ بجالایا گیا جس طرح خداوندکریم کے لئے سجدہ کیا جاتا تھا جبکہ جناب آدم کے سامنے یہ سجدہ خضوع اور تواضع کے اظہار کی خاطر انجام پایا تھا اور خدا کا سجدہ عبادت و پرستش کے طور پر بجالایا جاتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ایک ہی طرح کے سجدوں میں کیسے دومختلف حقیقتیں پیداہوگئیں؟

قرآن مجید ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ جناب یعقوب نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ جناب یوسف کے سامنے سجدہ کیا تھا:

(وَرَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاَبَتِ هَذَا تَاْوِیلُ رُؤْیَا مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّا'' ( ۱ )

اور یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب انکے سامنے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا: اے باباجان! یہی میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بے شک میرے رب نے اسے سچ کردکھایا ہے.

یہاں پر اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ جناب یوسف نے پہلے خواب کی طرف اشارہ کیا تھا جس سے مراد وہی خواب تھا جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ چاند اور

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت:۱۰۰.

۲۸۲

سورج کے ہمراہ گیارہ ستارے ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں اس بات کو قرآن مجید نے یوں نقل کیا ہے:

انِّ رَاَیْتُ احَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِى سَاجِدِینَ )( ۱ )

میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور آفتاب و مہتاب کو دیکھا ہے کہ یہ میرے سامنے سجدہ کررہے ہیں

اس آیت میں گیارہ ستاروں سے جناب یوسف کے گیارہ بھائی اور چاند اور سورج سے ان کے ماں اور باپ مراد ہیں

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ نہ صرف حضرت یعقوب کے بیٹوں نے بلکہ خود جناب یعقوب نے بھی جناب یوسف کے سامنے سجدہ کیا تھا.

اب یہاں ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں :

اس قسم کے سجدہ کو عبادت میں شمارکیوں نہیں کیا جاتا جبکہ سجدہ نہایت خضوع اور تواضع کے ساتھ بجالایا گیا تھا؟

عذر بدتراز گناہ

یہاں پر چونکہ مذکورہ مصنفین اس سوال کا جواب نہیں دے پائے لہذا یوں کہتے ہیں :

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت :۴.

۲۸۳

چونکہ اس قسم کا خضوع و خشوع پروردگارعالم کے حکم سے انجام دیا گیا تھا لہذا اسے شرک شمار نہیں کیاجاسکتا .لیکن یہ بات معلوم ہے کہ ان کی یہ تاویل کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اگر کوئی عمل باعث شرک ہو تو خداوندعالم ہرگز اس کا حکم نہیں دے سکتا.

قرآن مجید فرماتا ہے:

(قُلْ ِانَّ ﷲ لاَیَاْمُرُ بِالْفَحْشَائِ اَتَقُولُونَ عَلَی ﷲِ مَا لاتَعْلَمُون )( ۱ )

کہہ دیجئے اللہ یقینا برائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں ؟

اصولی طور پر خداوندعالم کا حکم کسی چیز کی حقیقت کو نہیں بدلتا اگر ایک انسان کے مقابلے میں خضوع کرنا اس کی عبادت ہو اور خدائے بزرگ نیز اس کا حکم دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا اپنی عبادت کا حکم دے رہا ہے.

مسئلے کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنی کی وضاحت

یہاں تک یہ واضح ہوگیا کہ ''غیر خدا کی عبادت کے ممنوع ہونے کے سلسلے میں '' دنیا کے تمام موحد متفق ہیں اور دوسری طرف سے یہ بھی روشن ہوچکا ہے کہ فرشتوں کا

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت:۲۸.

۲۸۴

حضرت آدم کے سامنے اور حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا حضرت یوسف کے سامنے سجدہ کرنا ان کی عبادت نہ تھا اب ضروری ہے کہ ہم اس نکتے کی طرف توجہ دلائیں کہ وہ کون سی خاص صفت ہے جس کے نہ ہونے سے ایک عمل عبادت نہیں بن پاتا جبکہ اگر وہ پائی جاتی ہو تو وہی عمل عبادت شمار ہوتاہے.

قرآنی آیات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ کسی موجود کو خدا سمجھ کر اس کے سامنے خضوع کرنا یا اس کی طرف خدائی امور کی نسبت دینا اس کی عبادت کہلاتا ہے اس بیان سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر کسی کو خدائی امور انجام دینے پر قادر سمجھتے ہوئے اس کے سامنے خضوع کیا جائے تو یہ عمل اسی کی عبادت شمار ہوگا .دنیا کے مشرک ایسے موجودات کے سامنے خضوع کیا کرتے تھے کہ جنہیں وہ مخلوق خدا تو سمجھتے تھے لیکن وہ اس بات کے معتقد تھے کہ کچھ خدائی امور جیسے کہ گناہوں کی بخشش ،

اور حق شفاعت انہیں موجودات کو سونپ دیئے گئے ہیں

سرزمین بابل کے کچھ مشرک آسمانی ستاروں کو اپنا رب اور دنیا اور انسانوں کی تدبیر کا مالک سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے لیکن انہیں اپنا خالق نہیں سمجھتے تھے حضرت ابراہیم نے بھی اسی اصل کی بنا پر اپنی قوم کے ساتھ مناظرہ کیا تھا کیونکہ سرزمین بابل کے مشرک ہرگزسورج چاند اور ستاروں کو اپنا خالق نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ انہیں ایسی باقدرت مخلوق سمجھتے تھ

۲۸۵

جنہیں ربوبیت اور دنیا کی تدبیر سونپ دی گئی تھی قرآنی آیات میں بھی حضرت ابراہیم اور مشرکین بابل کے درمیان مناظرے میں لفظ رب کو محور قرار دیتے ہوئے( ۱ ) بیان کیا گیا ہے اور یہ واضح ہے کہ لفظ رب کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو اپنا صاحب اور اپنی مملوک کے امور کا مدبر قرار دیا جائے .عربی زبان میں گھر کے مالک کو'' رب البیت''اور کھیتی باڑی کے مالک کو رب الضیعہ کہتے ہیں اس لئے کہ گھر اور کھیتی باڑی کی تدبیر ان کے مالکوں کے ذمے ہوتی ہے

قرآن مجید مشرکین کے مقابلے میں صرف خداوندعالم کو اس نظام ہستی کا رب اور مدبر قرار دیتا ہے اور سب کو خدائے یگانہ کی پرستش کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

ِانَّ ﷲ رَبِّى وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطى مُسْتَقِیم ( ۲ )

اللہ میرا رب اور تمہارا بھی رب ہے لہذا اس کی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے.

ایک اور جگہ فرماتا ہے:

(ذَلِکُمْ ﷲ رَبُّکُمْ لا اِلٰهَ ا ِلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَْئٍ فَاعْبُدُوهُ )( ۳ )

وہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ ہر چیز کا خالق ہے لہذا اس کی عبادت کرو.

____________________

(۱)سورہ انعام آیت ۷۶ تا ۷۸.

(۲)سورہ آل عمران آیت ۵۱.

(۳)سورہ انعام آیت: ۱۰۲.

۲۸۶

اس طرح قرآن مجید سورۂ دخان میں فرماتا ہے:

(لاَاِلَهَ اِلاَّ هُوَ یُحْى وَیُمِیتُ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمْ الْاَوَّلِینَ )( ۱ )

اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے پہلے آبائو اجداد کا بھی رب ہے.

اسی طرح قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ کے قول کو یوں نقل کیا ہے:

(وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِى اِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا ﷲ رَبِّى وَرَبَّکُمْ )( ۲ )

اور مسیح نے کہا : اے بنی اسرائیل تم اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے.

گذشتہ بیانات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ ہروہ خضوع جو کسی مخلوق کے سامنے اسے رب اور خدا سمجھے بغیر یا اس کی طرف خدائی امور کی نسبت دئیے بغیر انجام دیا جائے وہ ہرگز عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ یہ خضوع حد سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوجائے اس اعتبار سے امت کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا اپنے والدین کے سامنے انہیں خدا قرارنہ دیتے ہوئے خضوع وخشوع کرنا ہرگز ان کی عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اسی بنیاد پر بہت

سے موضوعات جیسے اولیائے الہی سے منسوب چیزوں کو متبرک سمجھنا ،حرم کے دروازوں، دیواروں اور ضریحوں کو چومنا، خدا کی بارگاہ میں اولیائے الہی سے متوسل ہونا، اولیائے الہی کو پکارنا، ان کے ایام ولادت میں جشن منانا اور محفلیں برپا کرنا اور ان کے ایام وفات و شہادت میں مجلسیں منعقد کرنا ہرگز اولیائے الہی کی عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ بعض ناآگاہ افراد ان کاموں کو غیر خدا کی عبادت اور شرک سمجھتے ہیں جبکہ ان سارے کاموںکو کسی بھی طرح سے غیر خدا کی عبادت اور شرک شمار نہیں کیا جاسکتاہے۔

____________________

(۱)سورہ دخان آیت۸

(۲)سورہ مائدہ آیت:۷۲.

۲۸۷

فہرست

حرف اول ۵

پیش گفتار ۸

پہلا سوال ۱۰

''وعترتی اہل بیتی '' صحیح ہے یا ''وسنتی''؟ ۱۰

حدیث ''واہل بیتی'' کی سند ۱۱

لفظ ''و سنتی'' والی حدیث کی سند ۱۳

ان دو کے بارے میں علمائے رجال کا نظریہ ۱۴

حدیث''وسنتی'' کی دوسری سند ۱۷

حدیث ''وسنتی''کی تیسری سند ۱۹

سند کے بغیر متن کا نقل ۲۰

حدیث ثقلین کا مفہوم ۲۲

دوسرا سوال ۲۵

شیعہ سے کیا مراد ہے؟ ۲۵

تیسرا سوال ۲۷

کیوں حضرت علی ہی پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی اور جانشین ہیں ؟ ۲۷

۱۔ آغاز بعثت میں : ۲۷

۲۔ غزوۂ تبوک میں ۲۸

۳۔ دسویں ہجری میں ۲۹

چوتھا سوال ۳۲

۲۸۸

''ائمہ'' کون ہیں ؟ ۳۲

پانچواں سوال ۳۵

حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھتے وقت کیوں آل کا اضافہ کرتے ہیں اور: اللّھم صل علی محمد و آل محمد کہتے ہیں ؟ ۳۵

چھٹا سوال ۳۷

آپ اپنے اماموں کو معصوم کیوں کہتے ہیں ؟ ۳۷

ساتواں سوال ۴۰

اذان میں أشھد أن علیًّا ول اللّہ کیوں کہتے ہیں اور حضرت علی ـ کی ولایت کی شہادت کیوں دیتے ہیں ؟ ۴۰

آٹھواں سوال ۴۴

مہدی آل محمدعلیہ السلام کون ہیں اور انکا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ ۴۴

نواں سوال ۴۷

اگر شیعہ حق پر ہیں تو وہ اقلیت میں کیوں ہیں ؟ اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نہیں ماناہے؟ ۴۷

دسواں سوال ۵۱

رجعت کیا ہے اور آپ اس پر کیوں عقیدہ رکھتے ہیں ؟ ۵۱

۱۔رجعت کا فلسفہ ۵۶

۲۔رجعت اور تناسخ( ۱ ) کے درمیان واضح فرق ۵۷

گیارہواں سوال ۵۹

جس شفاعت کا آپ عقیدہ رکھتے ہیں وہ کیا ہے؟ ۵۹

شفاعت کا دائرہ ۶۰

شفاعت کا فلسفہ ۶۲

۲۸۹

شفاعت کا نتیجہ ۶۲

بارہواں سوال ۶۳

کیا حقیقی شفاعت کرنے والوں سے بھی شفاعت کی درخواست کرنا شرک ہے؟ ۶۳

تیرہواں سوال ۶۹

کیا غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہے؟ ۶۹

چودہواں سوال ۷۳

کیا دوسروں کو پکارنا ان کی عبادت اور شرک ہے؟ ۷۳

پندرہواں سوال ۷۹

''بدائ'' کیا ہے اور آپ اس کا عقیدہ کیوںرکھتے ہیں ؟ ۷۹

بداء کا فلسفہ ۸۳

سولہواں سوال ۸۴

کیا شیعہ قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہیں ؟ ۸۴

سترہواں سوال ۹۸

صحابۂ کرام کے بارے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟ ۹۸

صحابی قرآن مجید کی نگاہ میں ۱۰۰

پہلی قسم ۱۰۱

۱۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے ۱۰۱

۲۔درخت کے نیچے بیعت کرنے والے ۱۰۲

۳۔مہاجرین ۱۰۲

۴۔اصحابِ فتح ۱۰۳

۲۹۰

دوسری قسم ۱۰۴

۱۔معروف منافقین ۱۰۴

۲۔غیر معروف منافقین ۱۰۴

۳۔دل کے کھوٹے ۱۰۵

۴۔گناہ گار ۱۰۵

اٹھارہواں سوال ۱۰۹

متعہ کیا ہے اور شیعہ اسے کیوں حلال سمجھتے ہیں ؟ ۱۰۹

انیسواں سوال ۱۱۹

شیعہ خاک پر کیوں سجدہ کرتے ہیں ؟ ۱۱۹

بیسواں سوال ۱۳۱

شیعہ حضرات زیارت کرتے وقت حرم کے دروازوں اور دیواروں کو کیوں چومتے ہیں اور انہیں باعث برکت کیوں سمجھتے ہیں ؟ ۱۳۱

اکیسواں سوال ۱۳۷

کیا اسلام کی نگاہ میں دین سیاست سے جدا نہیں ہے؟ ۱۳۷

پیغمبرخدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی حکومت کے بانی ہیں ۱۳۸

بائیسواں سوال ۱۴۶

شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسنـ ا ور امام حسینـ) کو رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کیوں کہتے ہیں ؟ ۱۴۶

تیئیسواں سوال ۱۵۲

شیعوں کے نزدیک یہ کیوں ضروری ہے کہ خلیفہ کو خدا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی معین فرمائیں؟ ۱۵۲

۲۹۱

عصر رسالت کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ خلیفہ کونص کے ذریعہ معین ہونا چاہئے ۱۵۳

اس کی وضاحت ۱۵۳

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں ۱۵۶

چوبیسواں سوال ۱۵۷

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟ ۱۵۷

پچیسواں سوال ۱۶۴

کیا اولیائے خدا سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے؟ ۱۶۴

توسل کی قسمیں ۱۶۵

۱۔نیک اعمال سے توسل؛ ۱۶۵

۲۔خدا کے نیک بندوں کی دعاؤں سے توسل ! ۱۶۶

۳۔قرب الہی کے حصول کیلئے خداوند کریم کے محترم اور مقدس بندوں سے توسل: ۱۶۷

چھبیسواں سوال ۱۷۲

کیا اولیائے خدا کی ولادت کے موقع پر جشن منانا بدعت یا شرک ہے؟ ۱۷۲

۱۔ان کی یاد منانے میں محبت کا اظہار ہوتا ہے ۱۷۲

۲۔پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد منانا آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم کا اظہار ہے ۱۷۳

۴۔وحی کا نازل ہونا دسترخوان کے نازل ہونے سے کم نہیں ہے ۱۷۵

۵۔ مسلمانوں کی سیرت ۱۷۶

ستائیسواں سوال ۱۷۸

شیعہ پانچ نمازوں کو تین اوقات میں کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۱۷۸

نتیجہ: ۱۹۵

۲۹۲

اٹھائیسواں سوال ۲۰۰

شیعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہیں ؟ ۲۰۰

کتاب خدا؛ قرآن مجید ۲۰۰

سنت ۲۰۲

حضرت رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے میں ۲۰۲

احادیث اہل بیت سے تمسک کے دلائل ۲۰۴

الف: ائمہ معصومین کی احادیث کی حقیقت ۲۰۴

عترت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی حقیقت ۲۰۴

اہل بیت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل ۲۰۷

اہل بیت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟ ۲۱۰

نتیجہ: ۲۱۴

انتیسواں سوال ۲۱۶

کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟ ۲۱۶

خاندان جناب ابوطالب ۲۱۶

عبدالمطلب کی نگاہ میں ابوطالب ۲۱۸

جناب ابوطالب کے مومن ہونے کی دلیلیں ۲۲۲

۱۔جناب ابوطالب کے علمی اور ادبی آثار ۲۲۲

۲۔جناب ابوطالب کا پیغمبراکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نیک سلوک ان کے ایمان کی علامت ہے ۲۲۵

۳۔ابوطالب کی وصیت ان کے ایمان کی گواہ ہے ۲۲۷

۴۔پیغمبر ۲۲۸

۲۹۳

۵۔حضرت علی ـ اور اصحاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی ۲۳۱

۶۔ابوطالب اہل بیت کی نگاہ میں ۲۳۳

حدیث ضحضاح کا تحقیقی جائزہ ۲۳۶

حدیث ضحضاح کے سلسلہ سند کا باطل ہونا ۲۳۷

الف: ''سفیان بن سعید ثوری'' ۲۳۷

ب:عبدالملک بن عمیر ۲۳۸

ج:عبدالعزیز بن محمد دراوردی ۲۳۹

د:لیث بن سعد ۲۴۰

نتیجہ ۲۴۲

تیسواں سوال ۲۴۳

کیا شیعوں کی نظر میں جبرئیل ـ نے منصب رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت علی ـکے بجائے قرآن مجید کو رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا ہے؟ ۲۴۳

اس تہمت کا اصلی سبب ۲۴۳

شیعوں کی نگاہ میں منصب نبوت ۲۴۵

اکتیسواں سوال ۲۴۹

تقیہ کا معیارکیا ہے؟ ۲۴۹

قرآن کی نگاہ میں تقیہ ۲۴۹

تقیہ شیعوں کی نگاہ میں ۲۵۱

نتیجہ ۲۵۲

بتیسواں سوال ۲۵۳

۲۹۴

ایران کے بنیادی قانون میں کیوں جعفری مذہب (شیعہ اثناعشری) کو حکومت کا مذہب قرار دیا گیا ہے؟ ۲۵۳

جعفری مذہب کی تعیین کا معیار ۲۵۴

ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کا درجہ ۲۵۴

تینتیسواں سوال ۲۵۶

کیا شیعہ نماز وتر کو واجب سمجھتے ہیں ؟ ۲۵۶

چونتیسواں سوال ۲۵۸

کیا اولیائے خدا کی غیبی طاقت پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟ ۲۵۸

قرآن مجید کی نظر میں اولیائے الہی کی غیبی طاقت ۲۶۰

۱۔حضرت موسیٰ کی غیبی طاقت ۲۶۱

حضرت عیسیٰ کی غیبی طاقت ۲۶۱

حضرت سلیمان کی غیبی طاقت ۲۶۲

پینتیسواں سوال ۲۶۳

کیوں منصب امامت منصب رسالت سے افضل ہے؟ ۲۶۳

۱۔منصب نبوت ۲۶۳

۲۔منصب رسالت ۲۶۴

۳۔منصب امامت ۲۶۵

منصب امامت کی برتری ۲۶۹

چھتیسواں سوال ۲۷۳

توحید اور شرک کی شناخت کا معیار کیاہے؟ ۲۷۳

۱۔توحید ذاتی ۲۷۴

۲۹۵

۲۔ خالقیت میں توحید ۲۷۵

۳۔تدبیرمیں توحید ۲۷۶

۴۔حاکمیت میں توحید ۲۷۷

۵۔اطاعت میں توحید ۲۷۹

۶۔شریعت قرار دینے اور قانون گزاری میں توحید ۲۷۹

۷۔عبادت میں توحید ۲۸۰

لفظ عبادت کے غلط معنی ۲۸۱

عذر بدتراز گناہ ۲۸۳

مسئلے کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنی کی وضاحت ۲۸۴

۲۹۶