شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95454 / ڈاؤنلوڈ: 4185
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

شیعہ جواب دیتے ہیں

سید رضا حسینی نسب

مترجم:عمران مہدی

مجمع جہانی اہل بیت (ع)

۳

قال رسول ﷲ : ''انّى تارک فیکم الثقلین، کتاب ﷲ، وعترتى أهل بیتى ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا أبداً وانّهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علّى الحوض'' ۔

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

( صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵ ،اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچے و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۵

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۶

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام آقای سیدرضا حسینی نسب کی گرانقدر کتاب (شیعہ پاسخ می دھد)کو مولاناعمران مہدی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۷

پیش گفتار

عالم اسلام کے موجودہ حالات سے باخبر حضرات یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ آج امت اسلامیہ کئی ''امتوں ''میں بٹی ہوئی ہے ۔اور ہر امت خاص نظریات اور رسومات کی پابند ہے جسکے نتیجہ میں ان کی زندگی کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہے کہ جن کی بقا کا راز ہی مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں ہے اور وہ اپنے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مختلف طریقوں سے سرمایہ گزاری کرتے ہیں اور اس کیلئے ہر ممکن وسیلے کو بروئے کار لاتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلامی فرقوں کے درمیان چند اختلافی مسائل ضرور پائے جاتے ہیں اگرچہ ان اختلافی مسائل کا تعلق علم کلام کے ایسے مسائل سے ہے جن کے موجد خود اسلامی متکلمین ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت ان سے آگاہ تک نہیں ہے۔اور یہ بالکل طے شدہ بات ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ان اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ اہم ، مشترک نکات بھی پائے جاتے ہیں کہ جنہوں نے انہیں ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے لیکن اختلاف ڈالنے والے افراد ، اصول اور فروع میں موجود ان مشترک نکات کو چھوڑ کر صرف اختلافی مسائل کو ہی بیان کرتے ہیں ۔

''اتحاد بین المسلمین''کی ایک کانفرنس میں انفرادی مسائل (جیسے نکاح ، طلاق اور میراث وغیرہ ہیں ) سے متعلق اسلامی مذاہب کے فقہی نظریات کا بیان میرے سپرد کیا گیا تھا چنانچہ میں نے اس کانفرنس میں ان موضوعات کے متعلق ایک تحقیقی رسالہ پیش کیا کہ جس نے تمام شرکاء کو تعجب میں ڈال دیا اس رسالہ کے مطالعہ سے پہلے کسی کے لئے ہر گز یہ بات قابل قبول نہ تھی کہ فقہ شیعہ ان تینوں موضوعات کے اکثر مسائل میں اہل سنت کے موجودہ چاروں مذاہب سے موافقت رکھتی ہے ۔

۸

یہ اختلاف ڈالنے والے افراد ، شیعوں کو دوسرے اسلامی فرقوں سے جدا سمجھتے ہیں اور شب و روز اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس مظلوم فرقے کے خلاف سرگرم عمل ہیں ۔ یہ لوگ اپنے ان کاموں کے ذریعہ اپنے مشترکہ دشمن کی خدمت کررہے ہیں ان ناآگاہ افراد کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ شیعوں سے بھائی چارے ، اور ان کے علماء اور دانشوروں سے رابطے کے ذریعہ اپنی آنکھوں سے ناآگاہی کے پردے ہٹا دیں اور شیعوں کو اپنا دینی بھائی سمجھیں اور اس طرح وہ قرآن مجید کی درج ذیل آیت کے مصداق قرار پائیں:

إنَّ هٰذِهِأ ُمَّتُکُمْ ُمَّةً وَاحِدَةً وَأنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُون

استعمار کے پرانے حربوں میں سے ایک حربہ مسلمانوں کے درمیان طرح طرح کے شبہات اور اعتراضات پیدا کرنا رہا ہے تاکہ وہ اس طرح ایران کے اسلامی انقلاب کو نقصان پہنچا سکیں اور یہ وہ پرانا حربہ ہے جو آخری چند صدیوں میں مشرق وسطیٰ اور دوسرے علاقوں میں مختلف صورتوں میں رائج رہا ہے

حج کے موقع پر بہت سے حجاج کرام اسلامی انقلاب سے آشنائی حاصل کرتے ہیں مگر دوسری طرف سے دشمنوں کی غلط تبلیغات ان کے اذہان کو تشویش میں مبتلا کردیتی ہیں اور وہ حجاج جب ایرانی حجاج سے ملتے ہیں تو ان سے ان سوالات کے جوابات کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ آپ کے ہاتھوں میں موجود یہ کتاب دینی اور ثقافتی مسائل سے متعلق انہی سوالوں کا جواب دینے کی خاطر تحریر کی گئی ہے۔اس کتاب کو میری نگرانی میں محترم جناب سید رضا حسینی نسب نے ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے منظم انداز سے تحریر کیا ہے ۔البتہ اختصار کی خاطر ضرورت کے مطابق مختصر جوابات ہی پیش کئے گئے ہیں مزید تفصیلات کسی اور مقام پر پیش کی جائیں گی ۔

امید ہے کہ یہ ناچیز خدمت امام زمانہ (ارواحنالہ الفدائ)کی بارگاہ میں مورد قبول قرار پائے گی ۔

جعفر سبحانی

حوزئہ علمیہ قم

۲۲نومبر ۱۹۹۴ئ

۹

پہلا سوال

''وعترتی اہل بیتی '' صحیح ہے یا ''وسنتی''؟

حدیث ثقلین ایک بے حد مشہور حدیث ہے جسے محدثین نے اپنی کتابوں میں ان دو طریقوں سے نقل کیا ہے :

الف:''کتاب اللّہ و عترت أہل بیت''

ب:''کتاب اللّہ وسنت''

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دو میں سے کونسی حدیث صحیح ہے ؟

جواب: پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو حدیث صحیح اور معتبر طریقے سے نقل ہوئی ہے اس میں لفظ ''اہل بیتی '' آیا ہے اور وہ روایت جس میں ''اہل بیتی''کی جگہ ''سنتی'' آیا ہے وہ سند کے اعتبار سے باطل اور ناقابل قبول ہے ہاں جس حدیث میں ''واہل بیتی'' ہے اس کی سند مکمل طور پر صحیح ہے

۱۰

حدیث ''واہل بیتی'' کی سند

اس مضمون کی حدیث کو دو بزرگ محدثوں نے نقل کیا ہے :

۱۔ مسلم ،اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیں : ایک دن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ایسے تالاب کے کنارے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا نام ''خم'' تھا یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع تھا اس خطبے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خداوندکریم کی حمدو ثنا کے بعد لوگوں کو نصیحت فرمائی اور یوں فرمایا:

''ألاٰ أیّهاالناس ، فاِنما أنا بشر یوشک أن یأت رسول رب فأجیب وأنا تارک فیکم الثقلین. أولهما کتاب اللّه فیه الهدی والنور ، فخذوا کتاب الله واستمسکوا به ، فحث علی کتاب اللّه ورغب فیه ثم قال: وأهل بیت اُذکرکم اللّه ف أهل بیت اُذکرکم اللّه ف أهل بیت اُذکرکم اللّه ف أهل بیت .''( ۱ )

اے لوگو! بے شک میں ایک بشر ہوںاور قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا نمائندہ آئے اور میں اس کی دعوت قبول کروں میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے کتاب خدا کو لے لو اور اسے تھامے رکھو اور پھر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس کی جانب رغبت دلائی اس کے بعد یوں

____________________

(۱)صحیح مسلم جلد۴ ص۱۸۰۳حدیث نمبر ۲۴۰۸طبع عبدالباقی

۱۱

فرمایا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اپنے اہل بیت کے سلسلے میں ،میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں اور اس جملے کی تین مرتبہ تکرار فرمائی.

اس حدیث کے متن کو دارمی نے بھی اپنی کتاب سنن( ۱ ) میں نقل کیا ہے پس کہنا چاہئے کہ حدیث ثقلین کے مذکورہ فقرے کیلئے یہ دونوں ہی سندیں روز روشن کی طرح واضح ہیں اور ان میں کوئی خدشہ نہیں ہے

۲۔ ترمذی نے اس حدیث کے متن کو لفظ''عترتی اهل بیتی'' کے ساتھ نقل کیا ہے : متنِ حدیث اس طرح ہے:

''اِنّى تارک فیکم ما اِن تمسکتم به لن تضلوا بعدى ، أحدهما أعظم من الاخر : کتاب اللّه حبل ممدود من السماء اِلی الأرض و عترتى أهل بیتى ، لن یفترقا حتی یردا علَّ الحوض فانظروا کیف تخلفون فیهما''(۱)

میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے ، ان دو چیزوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ، کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان

____________________

(۱)سنن دارمی جلد۲ ص ۴۳۲،۴۳۱

(۲)سنن ترمذی جلد۵ص۶۶۳نمبر۳۷۷۸۸

۱۲

سے زمین تک آویزاں ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں .لہذا یہ دیکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو.

صحیح کے مؤلف مسلم اور سنن کے مؤلف ترمذی نے لفظ ''اہل بیتی '' پرزور دیا ہے اور یہی مطلب ہمارے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے یہی نہیں بلکہ ان کی نقل کردہ سندیں پوری طرح سے قابل اعتماد اور خصوصی طور پر معتبر مانی گئی ہیں

لفظ ''و سنتی'' والی حدیث کی سند

وہ روایت کہ جس میں لفظ'' اہل بیتی '' کی جگہ ''سنتی'' آیا ہے جعلی ہے. اس کی سند ضعیف ہے اور اسے اموی حکومت کے درباریوں نے گھڑا ہے

۱۔ حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب مستدرک میں مذکورہ مضمون کو ذیل کی سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے.

''عباس بن أبى أویس'' عن ''أبى أویس'' عن ''ثور بن زیدالدیلم''عن ''عکرمه'' عن ''ابن عباس'' قال رسول اللّه :''یا أیّها الناس اِنّى قد ترکت فیکم ، اِن اعتصمتم به فلن تضلوا أبداً کتاب اللّه و سنة نبیه. ''

۱۳

اے لوگو! میں نے تمہارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑاہے اگر تم نے ان دونوں کو تھامے رکھاتو ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب خدا اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں( ۱ )

اس حدیث کے اس مضمون کے راویوں کے درمیان ایک ایسے باپ بیٹے ہیں جو سند کی دنیا میں آفت شمار ہوتے ہیں وہ باپ بیٹے اسماعیل بن ابی اویس اور ابو اویس ہیں کسی نے بھی ان کے موثق ہونے کی شہادت نہیں دی ہے بلکہ ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ دونوں جھوٹے اور حدیثیں گھڑنے والے تھے.

ان دو کے بارے میں علمائے رجال کا نظریہ

حافظ مزی نے اپنی کتاب تہذیب الکمال میں اسماعیل اور اس کے باپ کے بارے میں علم رجا ل کے محققین کا نظریہ اس طرح نقل کیا ہے: یحییٰ بن معین ( جن کا شمار علم رجال کے بزرگ علماء میں ہوتا ہے) کہتے ہیں کہ ابو اویس اور ان کا بیٹا دونوں ہی ضعیف ہیں

اسی طرح یحییٰ بن معین سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ کہتے تھے کہ یہ دونوں حدیث کے چورتھے۔ ابن معین سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ابو اویس کے بیٹے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا.

ابو اویس کے بیٹے کے بارے میں نسائی کہتے تھے کہ وہ ضعیف اور ناقابل اعتماد ہے

____________________

(۱)حاکم مستدرک جلدنمبر۱ ص۹۳

۱۴

ابوالقاسم لالکائی نے لکھا ہے کہ ''نسائی'' نے اس کے خلاف بہت سی باتیں کہی ہیں اور یہاں تک کہا ہے کہ اس کی حدیثوں کو چھوڑ دیا جائے.

ابن عدی (جو کہ علماء رجال میں سے ہیں ) کہتے ہیں کہ ابن ابی اویس نے اپنے ماموں مالک سے ایسی عجیب و غریب روایتیں نقل کی ہیں جن کو ماننے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے( ۱ )

ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ، ابن ابی اویس کی حدیث سے ہر گز حجت قائم نہیں کی جاسکتی ، چونکہ نسائی نے اس کی مذمت کی ہے.( ۲ )

حافظ سید احمد بن صدیق اپنی کتاب فتح الملک العلی میں سلمہ بن شیب سے اسماعیل بن ابی اویس کے بارے میں نقل کرتے ہیں ، سلمہ بن شیب کہتے ہیں کہ میں نے خوداسماعیل بن ابی اویس سے سنا ہے کہ وہ کہہ رہا تھا : جب میں یہ دیکھتا کہ مدینہ والے کسی مسئلے میں اختلاف کر کے دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں تو اس وقت میں حدیث گھڑ لیتاتھا( ۳ )

اس اعتبار سے اسماعیل بن ابی اویس کا جرم یہ ہے کہ وہ حدیثیں گھڑتا تھا ابن معین نے کہا ہے کہ وہ جھوٹا تھا اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کی حدیث کو نہ تو صحیح مسلم نے نقل کیا ہے

____________________

(۱) حافظ مزی ، کتاب تھذیب الکمال ج ۳ ص ۱۲۷

(۲) مقدمہ فتح الباری ابن حجر عسقلانی ص ۳۹۱ طبع دار المعرفة

(۳) کتاب فتح الملک العلی ، حافظ سید احمد ص ۱۵

۱۵

اور نہ ہی ترمذی نے ، اور نہ ہی دوسری کتب صحاح میں اس کی حدیث کو نقل کیا گیا ہے.

اور اسی طرح ابو اویس کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ ابو حاتم رازی نے اپنی کتاب ''جرح و تعدیل'' میں اس کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ ابو اویس کی حدیثیں کتابوں میں لکھی تو جاتی ہیں مگر ان سے حجت قائم نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کی حدیثیں قوی اور محکم نہیں ہیں( ۱ )

اسی طرح ابو حاتم نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ ابو اویس قابل اعتماد نہیں ہے.

جب وہ روایت صحیح نہیں ہوسکتی جس کی سند میں یہ دو افراد ہوں تو پھر اس روایت کا کیا حال ہوگا جو ایک صحیح اور قابل عمل روایت کی مخالف ہو.

یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس حدیث کے ناقل حاکم نیشاپوری نے خود اس حدیث کے ضعیف ہونے کا اعتراف کیا ہے اسی وجہ سے انہوں نے اس حدیث کی سند کی تصحیح نہیں کی ہے لیکن اس حدیث کے صحیح ہونے کے لئے ایک گواہ لائے ہیں جو خود سندکے اعتبارسے کمزور اور ناقابل اعتبار ہے اسی وجہ سے یہ شاہد حدیث کو تقویت دینے کے بجائے اس کو اور ضعیف بنا رہا ہے اب ہم یہاں ان کے لائے ہوئے فضول گواہ کو درج ذیل عنوان کی صورت میں ذکر کرتے ہیں :

____________________

(۱)الجرح والتعدیل جلد ۵ ص ۹۲ ابو حاتم رازی

۱۶

حدیث''وسنتی'' کی دوسری سند

حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو ابو ہریرہ سے مرفوع( ۱ ) طریقہ سے ایک ایسی سند کے ساتھ جسے ہم بعد میں پیش کریں گے یوں نقل کیا ہے:

اِن قد ترکت فیکم شیئین لن تضلوا بعدھما : کتاب اللّہ و سنت و لن یفترقا حتی یردا علَّالحوض.( ۲ )

اس متن کوحاکم نیشاپوری نے درج ذیل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

''الضب'' عن ''صالح بن موسیٰ الطلح'' عن ''عبدالعزیز بن رفیع'' عن ''أب صالح'' عن ''أب ہریرہ''

یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح جعلی ہے اس حدیث کے سلسلہ سند میں صالح بن موسی الطلحی نامی شخص ہے جس کے بارے میں ہم علم رجال کے بزرگ علماء کے نظریات کو یہاں بیان کرتے ہیں :

یحییٰ بن معین کہتے ہیں : کہ صالح بن موسیٰ قابل اعتماد نہیں ہے ابو حاتم رازی کہتے ہیں ، اس کی حدیث ضعیف اور ناقابل قبول ہے اس نے بہت سے موثق و معتبر

____________________

(۱)حدیث مرفوع: ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند سے ایک یا کئی افراد حذف ہوں اور ان کی جگہ کلمہ ''رفعہ'' استعمال کردیا گیا ہوتو ایسی حدیث ضعیف ہوگی.(مترجم)

(۲) حاکم مستدرک جلد ۱ ص ۹۳

۱۷

افراد کی طرف نسبت دے کر بہت سی ناقابل قبول احادیث کو نقل کیا ہے

نسائی کہتے ہیں کہ صالح بن موسیٰ کی نقل کردہ احادیث لکھنے کے قابل نہیں ہیں ، ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ اس کی نقل کردہ احادیث متروک ہیں( ۱ )

ابن حجر اپنی کتاب '' تھذیب التھذیب'' میں لکھتے ہیں : ابن حِبانّ کہتے ہیں : کہ صالح بن موسیٰ موثق افراد کی طرف ایسی باتوں کی نسبت دیتا ہے جو ذرا بھی ان کی باتوں سے مشابہت نہیں رکھتیں سر انجام اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں : اس کی حدیث نہ تو دلیل بن سکتی ہے اور نہ ہی اس کی حدیث حجت ہے ابونعیم اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں : اس کی حدیث متروک ہے۔وہ ہمیشہ ناقابل قبول حدیثیں نقل کرتا تھا( ۲ )

اسی طرح ابن حجر اپنی کتاب تقریب( ۳ ) میں کہتے ہیں کہ اس کی حدیث متروک ہے اسی طرح ذہبی نے اپنی کتاب کاشف( ۴ ) میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ صالح بن موسیٰ کی حدیث ضعیف ہے.

یہاں تک کہ ذہبی نے صالح بن موسیٰ کی اسی حدیث کو اپنی کتاب ''میزان الاعتدال''

میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صالح بن موسیٰ کی نقل کردہ یہ حدیث اس کی ناقابل قبول احادیث میں سے ہے.( ۵ )

____________________

(۱)تہذیب الکمال جلد ۱۳ ص ۹۶ حافظ مزی.

(۲)تہذیب التہذیب جلد ۴ ص ۳۵۵، ابن حجر

(۳)ترجمہ تقریب ، نمبر ۲۸۹۱، ابن حجر

(۴)ترجمہ الکاشف، نمبر ۲۴۱۲ ذہبی

(۵)میزان الاعتدال جلد۲ ص ۳۰۲ ذہبی

۱۸

حدیث ''وسنتی''کی تیسری سند

ابن عبدالبرنے اپنی کتاب ''تمہید''( ۱ ) میں اس حدیث کے متن کو درج ذیل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے.

''عبدالرحمن بن یحییٰ '' عن ''احمد بن سعید '' عن ''محمد بن ابراھیم الدبیل'' عن ''عل بن زید الفرائض'' عن ''الحنین'' عن ''کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف'' عن ''أبیہ'' عن ''جدہ''

امام شافعی نے کثیر بن عبداللہ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جھوٹ کے ارکان میں سے ایک رکن تھا۔( ۲ )

ابوداؤد کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے افراد میں سے تھا.( ۳ )

ابن حبان اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ عبداللہ بن کثیر نے حدیث کی جو کتاب اپنے باپ اور دادا سے نقل کی ہے اس کی بنیاد جعل حدیث پر ہے اس کی کتاب سے کچھ نقل کرنا اور عبداللہ بن کثیر سے روایت لینا قطعا حرام ہے صرف اس صورت میں صحیح ہے کہ اس کی بات کو تعجب کے طور پر یا تنقید کرنے کے لئے نقل کیا جائے.( ۴ )

____________________

(۱) التمہید، جلد ۲۴ ص ۳۳۱

(۲) تھذیب التھذیب جلد ۸ ص ۳۷۷ ( دارالفکر) اور تھذیب الکمال جلد ۲۴ ص ۱۳۸

(۳) گزشتہ کتابوں سے مأخوذ

(۴) المجروحین، جلد ۲ ص ۲۲۱ ابن حبان

۱۹

نسائی اور دارقطنی کہتے ہیں : اس کی حدیث متروک ہے امام احمد کہتے ہیں : کہ وہ معتبر راوی نہیں ہے اور اعتماد کے لائق نہیں ہے.

اسی طرح اس کے بارے میں ابن معین کا بھی یہی نظریہ ہے تعجب انگیز بات تویہ ہے کہ ابن حجر نے ''التقریب'' کے ترجمہ میں صالح بن موسیٰ کو فقط ضعیف کہنے پر اکتفاء کیا ہے اور صالح بن موسیٰ کو جھوٹا کہنے والوںکو شدت پسند قرار دیا ہے ،حالانکہ علمائے رجال نے اس کے بارے میں جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں یہاں تک کہ ذھبی اس کے بارے میں کہتے ہیں : اس کی باتیں باطل اور ضعیف ہیں

سند کے بغیر متن کا نقل

امام مالک نے اسی متن کو کتاب ''الموطا''( ۱ ) میں سند کے بغیراور بصورت مرسل( ۲ ) نقل کیا ہے جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس قسم کی حدیث کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس تحقیق سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث جس میں ''وسنتی'' ہے وہ جعلی اور من گھڑت ہے اور اسے جھوٹے راویوں اور اموی حکومت کے درباریوں نے ''وعترتی'' کے کلمہ والی صحیح حدیث کے مقابلے میں گھڑا ہے لہذا مساجد کے خطباء ،

____________________

(۱) الموطا ، مالک ص ۸۸۹ حدیث ۳

(۲)روایت مرسل : ایسی روایت کو کہا جاتا ہے جس کے سلسلہ سند سے کوئی راوی حذف ہو جیسے کہا جائے ''عن رجل'' یا عن بعض اصحابنا تو ایسی روایت مرسلہ ہوگی(مترجم)

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

۱۔حضرت موسیٰ کی غیبی طاقت

خداوندعالم نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اپنے عصا کو پتھر پر ماریں تاکہ اس

سے پانی کے چشمے جاری ہوجائیں:

(وَاِذْ اسْتَسْقَی مُوسَی لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا )( ۱ )

اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے کہا : اپنا عصا پتھر پر مارو جس کے نتیجے میں اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے.

حضرت عیسیٰ کی غیبی طاقت

قرآن مجید میں مختلف اور متعدد مقامات پر حضرت عیسیٰ کی غیبی قدرت کا تذکرہ ہوا ہے ہم ان میں سے بعض کو یہاں پیش کرتے ہیں :

(اَنِّى اخْلُقُ لَکُمْ مِنْ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِاِذْنِ ﷲِ وَاُبْرِئُ الْاَکْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتَیٰ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۲ )

(حضرت عیسیٰ نے فرمایا)میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناؤں گا اور اس میں پھونک ماروںگا تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کا علاج کروں گا اور خدا کے حکم سے مردوں کو زندہ کروں گا.

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت: ۶۰

(۲)سورہ آل عمران آیت : ۴۹

۲۶۱

حضرت سلیمان کی غیبی طاقت

حضرت سلیمان کی غیبی طاقتوں کے سلسلے میں قرآن مجیدیہ فرماتا ہے:

(وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ یَاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَاُوتِینَا مِنْ کُلِّ شَْئٍ اِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ )( ۱ )

اور سلیمان، داؤد کے وارث بنے اور انہوں نے کہااے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان کا علم دیا گیا ہے اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں عنایت کی گئی ہیں بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے.

اس میں شک نہیں ہے کہ اس قسم کے کام جیسے حضرت موسیٰ کا سخت پتھر پر عصا مار کر پانی کے چشمے جاری کردینا حضرت عیسیٰ کا گیلی مٹی سے پرندوں کا خلق کردینا اور لاعلاج مریضوں کو شفا عطا کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا حضرت سلیمان کا پرندوں کی زبان سمجھنا یہ سب نظام فطرت کے خلاف شمار ہوتے ہیں اور درحقیقت انبیائے الہی نے اپنے ان کاموں کو اپنی غیبی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے انجام دیا ہے

جب قرآن مجید نے اپنی آیات میں بیان کیا ہے کہ خداوندعالم کے نیک بندےغیبی طاقت رکھتے ہیں تو اب کیا ان آیات کے مضامین پر عقیدہ رکھنا شرک یا بدعت شمار کیا جاسکتا ہے؟ان بیانات کی روشنی میں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کے نیک بندوں کی غیبی قدرتوں پر عقیدہ رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انہیں خدا مانا جائے یا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دی جائے اس لئے کہ ان کے بارے میں اس قسم کے عقیدہ سے ان کی خدائی لازم آتی ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ اور حضرت سلیمان وغیرہ قرآن کی نظر میں خدا شمار ہونگے جب کہ سب مسلمان یہ جانتے ہیں کہ کتاب الہٰی کی نگاہ میں اولیائے الہی صرف خد اکے نیک بندوں کی حیثیت رکھتے ہیں یہاں تک کی گفتگو سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اولیائے الہی کی غیبی طاقت کے سلسلے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ انہیں یہ قدرت پروردگار کی لامحدود قدرت ہی سے حاصل ہوئی ہے اور درحقیقت ان کی اس قدرت کے ذریعے پروردگار عالم کی لامحدود قدرت کا اظہار ہوتا ہے تو اس صورت میں ہمارے یہ عقائد باعث شرک قرار نہیں پائیں گے بلکہ عقیدہ توحید کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آئیں گے کیونکہ توحید اور یکتا پرستی کا معیار یہ ہے کہ ہم دنیا کی تمام قدرتوں کو خدا کی طرف پلٹائیں اور اسی کی ذات کو تمام قدرتوں اور جنبشوں کا سرچشمہ قرار دیں ۔

____________________

(۱)سورہ نمل آیت :۱۶

۲۶۲

پینتیسواں سوال

کیوں منصب امامت منصب رسالت سے افضل ہے؟

جواب:اس سوال کے جواب کے لئے سب سے پہلے ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں ان تین لفظوں نبوت، رسالت اور امامت کی وضاحت پیش کریں گے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ منصب امامت ان دو منصبوں سے افضل ہے.

۱۔منصب نبوت

لفظ نبی کو''نبأ'' سے اخذ کیا گیا ہے جس سے مراد ''اہم خبر''ہے اس اعتبار سے نبی کے لغوی معنی ہیں وہ شخص جس کے پاس کوئی اہم خبر ہو یا وہ اس خبر کو پہنچانے والا ہو.( ۱ )

قرآن کی اصطلاح میں بھی ''نبی'' ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو خداوندعالم سے مختلف طریقوں سے وحی حاصل کرتا ہو اور کسی بشر کے واسطے کے بغیر خد اکی طرف سے خبر دیتا ہو علماء نے نبی کی یہ تعریف کی ہے:

____________________

(۱)اگر نبی صیغۂ لازم ہو گا تو پہلے معنی میں ہوگا اور اگر متعدی ہوگا تو دوسرے معنی میں ہوگا.

۲۶۳

اِنّه مؤدٍ من اللّه بلاواسطة من البشر ( ۱ )

نبی ایسا شخص ہے جو کسی بشر کے واسطے کے بغیر خدا کی طرف سے پیغام پہنچاتا ہے

اس بنیاد پر ''نبی '' کاکا م صرف یہ ہے کہ پروردگار عالم سے وحی حاصل کرے اوراس پر جوالہام ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادے اوربس. قرآن مجید اس سلسلے میں یہ فرماتا ہے:

(فبعث اللّه النبیّین مبشرین و منذرین )( ۲ )

پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے

۲۔منصب رسالت

وحی الٰہی کی اصطلاح میں رسول ان پیغمبروں کو کہا جاتا ہے جو خدا سے وحی لینے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ خدا کی طرف سے اس کی شریعت کو بیان کرنے اور اپنی رسالت کے اعلان کرنے کی اجازت بھی رکھتے ہوں قرآن مجید اس سلسلے میں یہ فرماتا ہے:

(فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا اَنَّمَا عَلیٰ رَسُولِنَا الْبَلاغُ الْمُبِینُ )( ۳ )

____________________

(۱)رسائل العشر (مصنفہ شیخ طوسی )ص ۱۱۱.

(۲)سورہ بقرہ آیت: ۲۱۳.

(۳)سورہ مائدہ آیت ۹۲.

۲۶۴

پھر اگر تم نے منہ پھیر لیا تو جان لو ہمارے رسول کی ذمہ داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچادینا ہے.

لہذا منصب رسالت ایک ایسا منصب ہے جو نبی کو عطا کیا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں نبوت اور رسالت دونوں ہی الفاظ اس خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پیغمبروں میں پائی جاتی ہے اگر پیغمبر صرف وحی الہی کو لے کر پہنچادے تو اسے نبی کہتے ہیں لیکن اگر وہ رسالت و شریعت بھی لوگوں تک پہنچائے تو اسے رسول کہا جاتا ہے

۳۔منصب امامت

قرآن مجید کی نظر میں منصب امامت، نبوت او رسالت کے علاوہ ایک تیسرا عہد ہ ہے جس میں صاحب منصب کو لوگوں کی رہبری کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ تصرفات کا اختیار حاصل ہوتا ہے.

اب ہم قرآنی آیات کی روشنی میں اس موضوع کے بارے میں چند واضح دلائل پیش کرتے ہیں

۱۔قرآن کریم حضرت ابراہیم خلیل کو منصب امامت عطا کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَاِذْ ابْتَلَی ِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّهُنَّ قَالَ اِنِّ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ ِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِى )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت : ۱۲۴.

۲۶۵

اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات کے ذریعہ آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کردکھایا تو ارشاد ہوا میں تمہیں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں انہوں نے کہا اور میری ذریت ؟

قرآن مجید کی اس آیت سے دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

الف: مذکورہ آیت بخوبی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ منصب امامت ، نبوت و رسالت کے علاوہ ایک تیسرا منصب ہے کیونکہ حضرت ابراھیم ان آزمائشوں (منجملہ قربانی اسماعیل سے پہلے ہی ) مقام نبوت پر فائز تھے یہ بات درج ذیل دلیل سے ثابت ہوتی ہے:

ہم سب یہ جانتے ہیں کہ خداوندعالم نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں حضرت اسماعیل و اسحاق عطا فرمائے تھے قرآن مجید حضرت ابراہیم کی زبان سے یوں حکایت کرتا ہے :

(الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَهَبَ لِى عَلیٰ الْکِبَرِ اِسْمَاعِیلَ وَاِسْحَاقَ )( ۱ )

شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحق عطاکئے.

اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی مذکورہ آزمائشوں میں سے ایک

____________________

(۱)سورہ ابراہیم آیت :۳۹.

۲۶۶

حضرت اسماعیل کی قربانی بھی تھی اور اس مشکل آزمائش کے مقابلے میں انہیں منصب امامت عطا کیا گیا تھا نیز انہیں یہ منصب ان کی عمر کے آخری حصے میں عطا کیا گیاتھا.جبکہ وہ کئی سال پہلے ہی سے منصب نبوت پر فائز تھے کیونکہ حضرت ابراہیم پر ان کی ذریت سے پہلے بھی وحی الہی (جو کہ نبوت کی نشانی ہے) نازل ہوا کرتی تھی( ۱ )

ب:اسی طرح اس آیت ( وَِذْ ابْتَلَیٰ ِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ...)سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امامت اور رہبری کا منصب نبوت و رسالت سے بالاتر ہے کیونکہ قرآن مجید کی گواہی کے مطابق خداوندکریم نے جناب ابراہیم کو نبوت و رسالت کے عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود جب انہیں امامت عطا کرنی چاہی تو انتہائی سخت قسم کے امتحان سے آزمایا تھا اور جب وہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے تب اس کے بعد یہ منصب انہیں دیا تھا اس بات کی دلیل واضح ہے اس لئے کہ امامت کے فرائض میں وحی الہی کے حاصل کرنے اور رسالت و شریعت کے پہنچانے والے کے علاوہ امت کی رہبری اور ان کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں کمال وسعادت کی راہ پر گامزن کرنا بھی شامل ہے اب یہ بات فطری ہے کہ وہ منصب ایک خاص قسم کی عزت و عظمت کا حامل ہوگا جس کا حصول انتہائی سخت آزمائشوں کے بغیر ممکن ہی نہ ہو.

۲۔گذشتہ آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم نے سخت آزمائشوں

____________________

(۱)اس سلسلے میں سورہ صافات کی آیت نمبر۹۹ سے لے کر ۱۰۲ تک اور سورہ حجر کی آیت نمبر۵۳اور ۵۴ اور سورہ ہود کی آیت ۷۰ اور ۷۱ کا مطالعہ فرمائیں.

۲۶۷

کے بعد جناب ابراہیم کو امامت اورمعاشرہ کی قیادت عطا فرمائی تھی اور اس وقت جناب ابراہیم نے خدا سے درخواست کی تھی خدایا! اس منصب کو میری ذریت میں بھی قرار دینا اب قرآن مجید کی چند دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگارعالم نے جناب ابراہیم کی یہ درخواست قبول کرلی تھی اور نبوت و امامت کے بعد امت کی رہبری اور حکومت کو جناب ابراہیم کی نیک اور صالح ذریت میں بھی قرار دے دیا تھا. قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(فَقَدْ آتَیْنَا آلَ اِبْرَاهِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاهُمْ مُلْکًا عَظِیمًا )( ۱ )

تو پھر ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انکو عظیم سلطنت عنایت کی.

اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ''امامت'' نبوت ، سے الگ ایک منصب ہے جسے خداوندعالم نے اپنے عظیم القدر نبی جناب ابراہیم کو سخت آزمائشوں کے بعد عطا فرمایا تھا اور انہوں نے اس وقت خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ امامت کو میری ذریت میں بھی قرار دے تو خدائے حکیم نے ان کی یہ درخواست قبول فرمائی تھی اور انہیں آسمانی کتاب اور حکمت (جو کہ نبوت و رسالت سے مخصوص ہے) کے علاوہ ''ملک عظیم'' (یعنی لوگوں پر حکومت)بھی عطا کی تھی

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خداوندکریم نے جناب ابراہیم کی ذریت کے بعض افراد (جیسے حضرت یوسف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان ) کو منصب نبوت کے علاوہ حکومت کرنے اور لوگوں کی رہبری کے لئے بھی منتخب فرمایا تھا ان بیانات کی روشنی میں معلوم ہوجاتا ہے کہ امامت کا عہدہ نبوت و رسالت کے علاوہ ایک تیسرا منصب ہے جو کہ مزید قدرت اور ذمہ داریوں کی وجہ سے دوسرے عہدوں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے

____________________

(۱)سورہ نساء آیت ۵۴.

۲۶۸

منصب امامت کی برتری

گذشتہ بیانات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اور رسول کا کام صرف لوگوں تک پیغام پہنچانا اور انہیں راہ دکھانا ہے اور اگر کوئی نبی منصب امامت پر فائز ہوجاتا ہے تو اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور نتیجے میں معاشرے کو سنوارنے اور سعادت مند بنانے کے لئے شریعت کے احکامات کو نافذ کرنے کی ذمہ داری بھی اس کے دوش پر آجاتی ہے اس طرح وہ امت کو ایسے راستے پر گامزن کردیتا ہے جس سے وہ دونوں جہان میں خوشبخت بن جاتی ہے

واضح ہے کہ اس قسم کی اہم ذمہ داری ایک عظیم معنوی قدرت او ر خاص لیاقت کی نیاز مند ہے اور اس سنگین عہدے کے لئے راہ خدا میں صبراور ثبات قدم کی ضرورت ہے کیونکہ اس راہ میں ہمیشہ سخت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خواہشات نفسانی سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ عشق خدا اور رضائے پروردگار کے بغیر اس عظیم منصب کا حصول ممکن نہیں ہے ان ہی سب وجہوں سے خداوندعظیم نے جناب ابراہیم کو ان کی عمر کے آخری حصے میں انتہائی سخت آزمائشوں کے بعد یہ منصب عطا کیا تھا اور پھر اپنے بہترین بندوں جیسے حضرت پیغمبر ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ منصب امامت و رہبری عنایت فرمایا تھا.

۲۶۹

کیا نبوت اور امامت ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں ؟

اس سوال سے ایک اور سوال بھی سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : کیا ہر نبی کے لئے امام ہونا اور ہر امام کے لئے نبی ہونا ضروری ہے؟

ان دو سوالوں کا جواب منفی ہے ہم اس جواب کو واضح کرنے کیلئے وحی الہی کا سہارا لیں گے وہ آیتیں جو طالوت اور ظالم جالوت کی جنگ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ خداوند عالم نے حضرت موسیٰ کے بعد منصب نبوت کو بظاہر ''اشموئیل'' نامی شخص کو عطا فرمایا تھا اور ساتھ ہی ساتھ منصب امامت و حکومت کو جناب طالوت کے سپرد کیا تھا اس قصے کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے :

حضرت موسیٰ کی وفات کے بعدبنی اسرائیل کے ایک گروہ نے اپنے زمانے کے پیغمبرسے کہا کہ ہمارے لئے ایک حکمران معین کیجئے تاکہ اس کی سربراہی میں ہم راہ خدا میں جنگ کریںتو اس وقت ان کے پیغمبر نے ان سے یوں کہا:

(وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ ﷲ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا قَالُوا اَنَّیٰ یَکُونُ لَهُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ َاحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْهُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِنْ الْمَالِ قَالَ اِنَّ ﷲ اصْطَفَاهُ عَلَیْکُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِى الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَﷲ یُؤْتِى مُلْکَهُ مَنْ یَشَائُ وَﷲ وَاسِع عَلِیم )( ۱ )

اور ان کے پیغمبرنے ان سے کہا : اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے ان لوگوں نے کہا: اسے ہم پربادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا ہے؟ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حق دار ہیں وہ تو کوئی دولت مند آدمی نہیں ہے نبی نے جواب دیاکہ اللہ نے اسے تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے اور اللہ بڑا وسعت والا، دانا ہے.اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں :

۱۔یہ ممکن ہے کہ کچھ مصلحتیں اس بات کا تقاضا کریں کہ منصب نبوت کو منصب امامت سے جدا کردیا جائے اور ایک ہی زمانے میں دو الگ الگ افراد نبی و امام ہوں اور ان میں سے ہر ایک اپنے خاص منصب ہی کی لیاقت وصلاحیت رکھتا ہو

اسی لئے بنی اسرائیل نے اپنے زمانے میں ان دو منصبوں کے جدا ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا کہ اے پیغمبر آپ طالوت سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں .بلکہ

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت ۲۴۷.

۲۷۰

انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ ہم اس سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں

۲۔جناب طالوت کو حکومت خداوندکریم ہی نے عطا کی تھی قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

ِانَّ ﷲ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا )اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے اور یہ بھی ارشاد ہوتا ہے(ِنَّ ﷲ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ) بے شک اللہ نے اسے تمہارے لئے منتخب کیا ہے.

۳۔جناب طالوت کایہ الہی منصب صرف فوج کی سربراہی تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ بنی اسرائیل کے حاکم و فرمانروا بھی تھے کیونکہ قرآن نے انہیں ''مَلِکاً'' کہہ کر یاد کیا ہے اگرچہ اس دن اس رہبری کامقصد یہ تھا کہ جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائیل کی سربراہی کریں لیکن ان کا یہ الہی منصب انہیں دوسری حکومتی ذمہ داریوں کو بھی انجام دینے کی اجازت دیتا تھا

اس لئے قرآن مجید اس آیت کے اختتام میں فرماتا ہے :

(وَﷲ یُؤْتِ مُلْکَهُ مَنْ یَشَائ ) اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک دیدے

۴۔امت کی رہبری اور امامت کے لئے اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس میں علمی، جسمانی،اور معنوی توانائی پائی جاتی ہو اس قسم کی صلاحیت اس زمانے میں زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ ان ایام میں حاکم خود میدان میں حاضر ہو کر جنگ کرتا تھا( ۱ )

____________________

(۱)منشور جاوید (مصنفہ استاد جعفرسبحانی) سے ماخوذ.

۲۷۱

گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبوت اور امامت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے کہ ایک شخص نبی تو ہو لیکن منصب امامت پر فائز نہ ہو یا یہ کہ کوئی شخص خدا کی جانب سے امام تو ہو لیکن اسے عہدۂ نبوت حاصل نہ ہوا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ پروردگارعالم یہ دونوں منصب ایک ہی شخص کو عطا کردے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:

(فَهَزَمُوهُمْ بِاِذْنِ ﷲِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ ﷲ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا یَشَائُ )( ۱ )

چنانچہ اللہ کے اذن سے انہوں نے جالوت کے لشکر کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطافرمائی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھادیا.

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت ۲۵۱.

۲۷۲

چھتیسواں سوال

توحید اور شرک کی شناخت کا معیار کیاہے؟

''توحید'' اور شرک کی بحثوں میں سب سے اہم مسئلہ ان دونوں کی شناخت کے معیار کا ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بعض دوسرے اہم مسائل بھی حل نہیں ہوپائیں گے اس لئے ہم مسئلہ توحید و شرک پر مختلف زاویوں سے مختصراً بحث پیش کررہے ہیں :

۲۷۳

۱۔توحید ذاتی

توحید ذاتی دو صورتوں میں پیش کی جاتی ہے :

الف:خدا ایک ہے اور کوئی اس جیسا نہیں (اس مفہوم کو علم کلام کے علماء واجب الوجود کے نام سے یاد کرتے ہیں ) اور یہ وہی توحید ہے کہ جسے خداوند عالم نے مختلف صورتوں میں قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے ملاحظہ ہو:

(لیس کمثله شئ )

اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے.( ۱ )

ایک اور جگہ پر فرماتا ہے:

(ولم یکن له کفواً أحد )( ۲ )

اور کوئی بھی اس کا کفو اور ہمسر نہیں ہے.

البتہ بعض اوقات توحید کی اس قسم کی تفسیر عامیانہ طور پر کردی جاتی ہے کہ جس میں توحید عددی کا رنگ دکھائی دینے لگتا ہے وہ اس طرح کہ : کہا جاتا ہے کہ خدا ایک ہے اور دو نہیں اس قسم کا جملہ سن کر کچھ کہے بغیر واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کی طرف اس قسم کی توحید (عددی) کی نسبت دینا صحیح نہیں ہے.

ب: خدا کی ذات بسیط ہے نہ کہ مرکب کیونکہ ہرمرکب موجود (چاہے اس کا وجودذہنی اجزاء سے مرکب ہو یا خارجی اجزاء سے مرکب ہو ) اپنے وجود میں اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور محتاج ہونا ممکن ہونے کی علامت ہے اور ہر ممکن علت کا محتاج ہوتا ہے. اور یہ سب کچھ واجب الوجود کے ساتھ کسی بھی صورت میں مطابقت نہیں رکھتا

____________________

(۱)سورہ شوریٰ آیت: ۱۱.

(۲)سورہ اخلاص آیت:۴.

۲۷۴

۲۔ خالقیت میں توحید

توحیدکے وہ مراتب جنہیں عقل و نقل دونوں نے قبول کیا ہے ان میں سے ایک توحید خالقیت بھی ہے عقل کی روسے خداوندعالم کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سب عالم

امکان کے زمرے میں آتا ہے اور ہر قسم کے جمال وکمال سے عاری ہوتا ہے اور جو کچھ عالم امکان میں پایا جاتا ہے وہ غنی بالذات (خدا)کی بے کراں رحمتسے فیض یاب ہوتا ہے اس اعتبار سے اس دنیا میں دکھائی دینے والے جمال وکمال کے جلوے اسی کے مرہون منت ہوتے ہیں قرآن مجید نے بھی توحید خالقیت کے سلسلے میں بہت سی آیات پیش کی ہیں ہم ان میں سے صرف ایک آیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

(قُلْ ﷲ خَالِقُ کُلِّ شَْئٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ )( ۱ )

کہہ دیجئے : ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ، بڑا غالب ہے.

لہذاخدا پرستوں میں مجموعی طور پر توحید خالقیت کے سلسلے میں اختلاف نہیں پایا جاتا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ توحید خالقیت کے بارے میں دو قسم کی تفسیریں پائی جاتی ہیں ان دونوں کو ہم یہاں بیان کرتے ہیں :

الف:موجودات عالم میں پائے جانے والے ہر قسم کی علت اور معلول والے نظام اور نیز ان کے درمیان پائے جانے والے سبب او ر مسبب کے رابطے سب ہی علة العلل (جس کی کوئی علت نہ ہو)اور مسبب الاسباب(جس کا کوئی سبب نہ ہو) تک پہنچتے ہیں اور درحقیقت اصلی اور مستقل خالق خداوندعالم ہی کی ذات ہے اور خدا کے علاوہ باقی سب علل واسباب ، خداوندعالم کی اجازت و مشیت کے تابع ہیں

اس نظریہ میں دنیا میں علت و معلول کے نظام کا اعتراف کیا گیا ہے .اور علم بشر

____________________

(۱)سورہ رعد آیت: ۱۶.

۲۷۵

نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے باوجود کل نظام کا تعلق ایک لحاظ سے خدا ہی سے ہے اور اسی نے اسباب کو سببیت ، علت کو علیت اور موثر کو تاثیر عطا کی ہے

ب:اس دنیا میں صرف ایک ہی خالق کا وجود ہے اور وہ خداوندعالم کی ذات ہے اور نظام ہستی میں اشیاء کے درمیان ایک دوسرے کیلئے کسی قسم کی اثر گزاری اور اثرپذیری نہیں پائی جاتی بلکہ تمام مادی موجودات کا خالق بلا واسطہ خدا ہی ہے .اسی طرح انسان کی طاقت بھی اس کے اعمال پر اثر انداز نہیں ہوتی ہے لہذا نظام ہستی میں صرف ایک ہی علت پائی جاتی ہے اور وہی ان فطری علتوں کی رئیس و اصل ہے

البتہ توحید خالقیت کی یہ تفسیر اشاعرہ نے پیش کی ہے لیکن ان میں سے بعض افراد جیسے امام الحرمین( ۱ ) اور شیخ محمدعبدہ نے رسالہ توحید میں اس تفسیر کو چھوڑ کر پہلی تفسیر کو مانا ہے

۳۔تدبیرمیں توحید

چونکہ عالم کو خلق کرنا خدا ہی سے مخصوص ہے لہذا نظام ہستی کی تدبیر بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اس دنیا میں صرف ایک ہی مدبر کا وجود ہے اور وہ عقلی دلیل کہ جو توحید خالقیت کو ثابت کرتی ہے وہی دلیل تدبیر میں بھی توحید کو ثابت کرتی ہے

قرآن مجید کی متعدد آیات نے خداوندعالم کے مدبر ہونے کو بیان کیا ہے اس سلسلے میں یہ آیت ملاحظہ ہو:

____________________

(۱)ملل و نحل(شہرستانی)جلد۱.

۲۷۶

(اغَیْرَ ﷲِ اَبْغِى رَبًّا وَهُوَ رَبُّ کُلِّ شَْئ )( ۱ )

کہہ دیجئے : کہ کیا میں خد اکے علاوہ کوئی اور رب تلاش کروں جب کہ وہ ہر چیز کا رب ہے.

البتہ وہ دونوں تفسیریں جو توحید خالقیت میں پائی جاتی ہیں وہی توحید تدبیری میں بھی پائی جاتی ہیں اور ہمارے عقیدے کے مطابق توحید تدبیری سے مراد یہ ہے کہ مستقل طور پر تدبیر کرنا صرف خدا سے مخصوص ہے

اس بنیاد پر نظام ہستی کے موجودات کے درمیان بعض تدبیریں خدا کے ارادے اور مشیت سے وجود میں آتی ہیں قرآن مجید نے بھی حق سے متمسک مدبروں کے بارے میں یوں فرمایا ہے :

(فالمدبرات امرًا )( ۲ )

پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں

۴۔حاکمیت میں توحید

حاکمیت میں توحید سے مراد یہ ہے کہ حکومت کا حق فقط خداوندعالم کو ہے اور صرف وہی انسانوں پر حاکم ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

____________________

(۱)سورہ انعام آیت:۱۶۴.

(۲)سورہ نازعات آیت :۵

۲۷۷

(اِنِ الْحُکْمُ اِلا لِلّٰه )( ۱ )

حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ہے.

اس اعتبارسے خدا کے علاوہ کسی اور کی حکومت صرف خدا کے ارادے اور مشیت سے ہونی چاہیے تاکہ نیک اور صالح افراد ہی معاشرے کے امور کی باگ ڈور سنبھالیں اور لوگوں کو کمال و سعادت کی راہ پر گامزن کرسکیں جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

(یَادَاوُودُ اِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِى الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ )( ۲ )

اے داؤدہم نے آپ کو زمین پر اپنا جانشین بنایا ہے لہذا آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں.

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت :۴۰.

(۲)سورہ ص آیت۲۶.

۲۷۸

۵۔اطاعت میں توحید

اطاعت میں توحید سے مراد یہ ہے کہ حقیقی اور ذاتی طور پرخدائے بزرگ کی پیروی ضروری ہے لہذا بعض دوسرے افراد (جیسے پیغمبر، امام، فقیہ ، باپ اور ماں)کی اطاعت کا لازم ہونا پروردگارعالم کے حکم اور ارادے سے ہے.

۶۔شریعت قرار دینے اور قانون گزاری میں توحید

قانون گزاری میں توحید سے مراد یہ ہے کہ شریعت قرار دینے اور قانون گزاری

کا حق فقط خداوندعالم کو ہے اسی بنیاد پر قرآن مجید ہر اس حکم کوجو حکم الہی کے دائرے سے خارج ہو اسے کفر، فسق اور ظلم کا سبب قرار دیتا ہے ملاحظہ ہو:

(وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنزَلَ ﷲ فَاُوْلٰئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ )( ۱ )

اور جو لوگ بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ ظالم ہیں

(وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنزَلَ ﷲ فَاُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ )( ۲ )

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ فاسق ہیں

(وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنزَلَ ﷲ فَاُوْلٰئِکَ هُمْ الظَّالِمُونَ )( ۳ )

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریںوہ ظالم ہیں

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیت:۴۴.

(۲)سورہ مائدہ آیت:۴۷.

(۳)سورہ مائدہ آیت ۴۵.

۲۷۹

۷۔عبادت میں توحید

عبادت میں توحید کے سلسلے میں اہم ترین بحث ''عبادت'' کے معنی کی شناخت ہے کیونکہ سب مسلمان اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ عبادت صرف خدا سے مخصوص ہے اوراس کے علاوہ کسی اور کی پرستش نہ کی جائے جیسا کہ قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

(اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِینُ )( ۱ )

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں

قرآن مجید کی مختلف آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کی دعوتوں کا بنیادی عنصر یہی عقیدہ تھا قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنْ اُعْبُدُوا ﷲ وَاجْتَنِبُواالطَّاغُوت )( ۲ )

اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا تاکہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو.

لہذا اس مسلم الثبوت اصل میں کوئی شک نہیں کہ عبادت کا حق صرف خدا کا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کی جاسکتی نیز یہ کہ اس اصل پر ایمان نہ رکھنے والا موحد نہیں ہوسکتا.

____________________

(۱)سورہ حمد آیت: ۴.

(۲)سورہ نحل آیت:۳۶.

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296