شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں13%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95395 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

۱۔حضرت موسیٰ کی غیبی طاقت

خداوندعالم نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اپنے عصا کو پتھر پر ماریں تاکہ اس

سے پانی کے چشمے جاری ہوجائیں:

(وَاِذْ اسْتَسْقَی مُوسَی لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا )( ۱ )

اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے کہا : اپنا عصا پتھر پر مارو جس کے نتیجے میں اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے.

حضرت عیسیٰ کی غیبی طاقت

قرآن مجید میں مختلف اور متعدد مقامات پر حضرت عیسیٰ کی غیبی قدرت کا تذکرہ ہوا ہے ہم ان میں سے بعض کو یہاں پیش کرتے ہیں :

(اَنِّى اخْلُقُ لَکُمْ مِنْ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِاِذْنِ ﷲِ وَاُبْرِئُ الْاَکْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتَیٰ بِاِذْنِ ﷲِ )( ۲ )

(حضرت عیسیٰ نے فرمایا)میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناؤں گا اور اس میں پھونک ماروںگا تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کا علاج کروں گا اور خدا کے حکم سے مردوں کو زندہ کروں گا.

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت: ۶۰

(۲)سورہ آل عمران آیت : ۴۹

۲۶۱

حضرت سلیمان کی غیبی طاقت

حضرت سلیمان کی غیبی طاقتوں کے سلسلے میں قرآن مجیدیہ فرماتا ہے:

(وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ یَاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَاُوتِینَا مِنْ کُلِّ شَْئٍ اِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ )( ۱ )

اور سلیمان، داؤد کے وارث بنے اور انہوں نے کہااے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان کا علم دیا گیا ہے اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں عنایت کی گئی ہیں بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے.

اس میں شک نہیں ہے کہ اس قسم کے کام جیسے حضرت موسیٰ کا سخت پتھر پر عصا مار کر پانی کے چشمے جاری کردینا حضرت عیسیٰ کا گیلی مٹی سے پرندوں کا خلق کردینا اور لاعلاج مریضوں کو شفا عطا کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا حضرت سلیمان کا پرندوں کی زبان سمجھنا یہ سب نظام فطرت کے خلاف شمار ہوتے ہیں اور درحقیقت انبیائے الہی نے اپنے ان کاموں کو اپنی غیبی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے انجام دیا ہے

جب قرآن مجید نے اپنی آیات میں بیان کیا ہے کہ خداوندعالم کے نیک بندےغیبی طاقت رکھتے ہیں تو اب کیا ان آیات کے مضامین پر عقیدہ رکھنا شرک یا بدعت شمار کیا جاسکتا ہے؟ان بیانات کی روشنی میں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کے نیک بندوں کی غیبی قدرتوں پر عقیدہ رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انہیں خدا مانا جائے یا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دی جائے اس لئے کہ ان کے بارے میں اس قسم کے عقیدہ سے ان کی خدائی لازم آتی ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ اور حضرت سلیمان وغیرہ قرآن کی نظر میں خدا شمار ہونگے جب کہ سب مسلمان یہ جانتے ہیں کہ کتاب الہٰی کی نگاہ میں اولیائے الہی صرف خد اکے نیک بندوں کی حیثیت رکھتے ہیں یہاں تک کی گفتگو سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اولیائے الہی کی غیبی طاقت کے سلسلے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ انہیں یہ قدرت پروردگار کی لامحدود قدرت ہی سے حاصل ہوئی ہے اور درحقیقت ان کی اس قدرت کے ذریعے پروردگار عالم کی لامحدود قدرت کا اظہار ہوتا ہے تو اس صورت میں ہمارے یہ عقائد باعث شرک قرار نہیں پائیں گے بلکہ عقیدہ توحید کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آئیں گے کیونکہ توحید اور یکتا پرستی کا معیار یہ ہے کہ ہم دنیا کی تمام قدرتوں کو خدا کی طرف پلٹائیں اور اسی کی ذات کو تمام قدرتوں اور جنبشوں کا سرچشمہ قرار دیں ۔

____________________

(۱)سورہ نمل آیت :۱۶

۲۶۲

پینتیسواں سوال

کیوں منصب امامت منصب رسالت سے افضل ہے؟

جواب:اس سوال کے جواب کے لئے سب سے پہلے ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں ان تین لفظوں نبوت، رسالت اور امامت کی وضاحت پیش کریں گے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ منصب امامت ان دو منصبوں سے افضل ہے.

۱۔منصب نبوت

لفظ نبی کو''نبأ'' سے اخذ کیا گیا ہے جس سے مراد ''اہم خبر''ہے اس اعتبار سے نبی کے لغوی معنی ہیں وہ شخص جس کے پاس کوئی اہم خبر ہو یا وہ اس خبر کو پہنچانے والا ہو.( ۱ )

قرآن کی اصطلاح میں بھی ''نبی'' ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو خداوندعالم سے مختلف طریقوں سے وحی حاصل کرتا ہو اور کسی بشر کے واسطے کے بغیر خد اکی طرف سے خبر دیتا ہو علماء نے نبی کی یہ تعریف کی ہے:

____________________

(۱)اگر نبی صیغۂ لازم ہو گا تو پہلے معنی میں ہوگا اور اگر متعدی ہوگا تو دوسرے معنی میں ہوگا.

۲۶۳

اِنّه مؤدٍ من اللّه بلاواسطة من البشر ( ۱ )

نبی ایسا شخص ہے جو کسی بشر کے واسطے کے بغیر خدا کی طرف سے پیغام پہنچاتا ہے

اس بنیاد پر ''نبی '' کاکا م صرف یہ ہے کہ پروردگار عالم سے وحی حاصل کرے اوراس پر جوالہام ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادے اوربس. قرآن مجید اس سلسلے میں یہ فرماتا ہے:

(فبعث اللّه النبیّین مبشرین و منذرین )( ۲ )

پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے

۲۔منصب رسالت

وحی الٰہی کی اصطلاح میں رسول ان پیغمبروں کو کہا جاتا ہے جو خدا سے وحی لینے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ خدا کی طرف سے اس کی شریعت کو بیان کرنے اور اپنی رسالت کے اعلان کرنے کی اجازت بھی رکھتے ہوں قرآن مجید اس سلسلے میں یہ فرماتا ہے:

(فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا اَنَّمَا عَلیٰ رَسُولِنَا الْبَلاغُ الْمُبِینُ )( ۳ )

____________________

(۱)رسائل العشر (مصنفہ شیخ طوسی )ص ۱۱۱.

(۲)سورہ بقرہ آیت: ۲۱۳.

(۳)سورہ مائدہ آیت ۹۲.

۲۶۴

پھر اگر تم نے منہ پھیر لیا تو جان لو ہمارے رسول کی ذمہ داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچادینا ہے.

لہذا منصب رسالت ایک ایسا منصب ہے جو نبی کو عطا کیا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں نبوت اور رسالت دونوں ہی الفاظ اس خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پیغمبروں میں پائی جاتی ہے اگر پیغمبر صرف وحی الہی کو لے کر پہنچادے تو اسے نبی کہتے ہیں لیکن اگر وہ رسالت و شریعت بھی لوگوں تک پہنچائے تو اسے رسول کہا جاتا ہے

۳۔منصب امامت

قرآن مجید کی نظر میں منصب امامت، نبوت او رسالت کے علاوہ ایک تیسرا عہد ہ ہے جس میں صاحب منصب کو لوگوں کی رہبری کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ تصرفات کا اختیار حاصل ہوتا ہے.

اب ہم قرآنی آیات کی روشنی میں اس موضوع کے بارے میں چند واضح دلائل پیش کرتے ہیں

۱۔قرآن کریم حضرت ابراہیم خلیل کو منصب امامت عطا کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَاِذْ ابْتَلَی ِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّهُنَّ قَالَ اِنِّ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ ِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِى )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت : ۱۲۴.

۲۶۵

اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات کے ذریعہ آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کردکھایا تو ارشاد ہوا میں تمہیں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں انہوں نے کہا اور میری ذریت ؟

قرآن مجید کی اس آیت سے دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

الف: مذکورہ آیت بخوبی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ منصب امامت ، نبوت و رسالت کے علاوہ ایک تیسرا منصب ہے کیونکہ حضرت ابراھیم ان آزمائشوں (منجملہ قربانی اسماعیل سے پہلے ہی ) مقام نبوت پر فائز تھے یہ بات درج ذیل دلیل سے ثابت ہوتی ہے:

ہم سب یہ جانتے ہیں کہ خداوندعالم نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں حضرت اسماعیل و اسحاق عطا فرمائے تھے قرآن مجید حضرت ابراہیم کی زبان سے یوں حکایت کرتا ہے :

(الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَهَبَ لِى عَلیٰ الْکِبَرِ اِسْمَاعِیلَ وَاِسْحَاقَ )( ۱ )

شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحق عطاکئے.

اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی مذکورہ آزمائشوں میں سے ایک

____________________

(۱)سورہ ابراہیم آیت :۳۹.

۲۶۶

حضرت اسماعیل کی قربانی بھی تھی اور اس مشکل آزمائش کے مقابلے میں انہیں منصب امامت عطا کیا گیا تھا نیز انہیں یہ منصب ان کی عمر کے آخری حصے میں عطا کیا گیاتھا.جبکہ وہ کئی سال پہلے ہی سے منصب نبوت پر فائز تھے کیونکہ حضرت ابراہیم پر ان کی ذریت سے پہلے بھی وحی الہی (جو کہ نبوت کی نشانی ہے) نازل ہوا کرتی تھی( ۱ )

ب:اسی طرح اس آیت ( وَِذْ ابْتَلَیٰ ِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ...)سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امامت اور رہبری کا منصب نبوت و رسالت سے بالاتر ہے کیونکہ قرآن مجید کی گواہی کے مطابق خداوندکریم نے جناب ابراہیم کو نبوت و رسالت کے عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود جب انہیں امامت عطا کرنی چاہی تو انتہائی سخت قسم کے امتحان سے آزمایا تھا اور جب وہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے تب اس کے بعد یہ منصب انہیں دیا تھا اس بات کی دلیل واضح ہے اس لئے کہ امامت کے فرائض میں وحی الہی کے حاصل کرنے اور رسالت و شریعت کے پہنچانے والے کے علاوہ امت کی رہبری اور ان کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں کمال وسعادت کی راہ پر گامزن کرنا بھی شامل ہے اب یہ بات فطری ہے کہ وہ منصب ایک خاص قسم کی عزت و عظمت کا حامل ہوگا جس کا حصول انتہائی سخت آزمائشوں کے بغیر ممکن ہی نہ ہو.

۲۔گذشتہ آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم نے سخت آزمائشوں

____________________

(۱)اس سلسلے میں سورہ صافات کی آیت نمبر۹۹ سے لے کر ۱۰۲ تک اور سورہ حجر کی آیت نمبر۵۳اور ۵۴ اور سورہ ہود کی آیت ۷۰ اور ۷۱ کا مطالعہ فرمائیں.

۲۶۷

کے بعد جناب ابراہیم کو امامت اورمعاشرہ کی قیادت عطا فرمائی تھی اور اس وقت جناب ابراہیم نے خدا سے درخواست کی تھی خدایا! اس منصب کو میری ذریت میں بھی قرار دینا اب قرآن مجید کی چند دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگارعالم نے جناب ابراہیم کی یہ درخواست قبول کرلی تھی اور نبوت و امامت کے بعد امت کی رہبری اور حکومت کو جناب ابراہیم کی نیک اور صالح ذریت میں بھی قرار دے دیا تھا. قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:

(فَقَدْ آتَیْنَا آلَ اِبْرَاهِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاهُمْ مُلْکًا عَظِیمًا )( ۱ )

تو پھر ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انکو عظیم سلطنت عنایت کی.

اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ''امامت'' نبوت ، سے الگ ایک منصب ہے جسے خداوندعالم نے اپنے عظیم القدر نبی جناب ابراہیم کو سخت آزمائشوں کے بعد عطا فرمایا تھا اور انہوں نے اس وقت خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ امامت کو میری ذریت میں بھی قرار دے تو خدائے حکیم نے ان کی یہ درخواست قبول فرمائی تھی اور انہیں آسمانی کتاب اور حکمت (جو کہ نبوت و رسالت سے مخصوص ہے) کے علاوہ ''ملک عظیم'' (یعنی لوگوں پر حکومت)بھی عطا کی تھی

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خداوندکریم نے جناب ابراہیم کی ذریت کے بعض افراد (جیسے حضرت یوسف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان ) کو منصب نبوت کے علاوہ حکومت کرنے اور لوگوں کی رہبری کے لئے بھی منتخب فرمایا تھا ان بیانات کی روشنی میں معلوم ہوجاتا ہے کہ امامت کا عہدہ نبوت و رسالت کے علاوہ ایک تیسرا منصب ہے جو کہ مزید قدرت اور ذمہ داریوں کی وجہ سے دوسرے عہدوں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے

____________________

(۱)سورہ نساء آیت ۵۴.

۲۶۸

منصب امامت کی برتری

گذشتہ بیانات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اور رسول کا کام صرف لوگوں تک پیغام پہنچانا اور انہیں راہ دکھانا ہے اور اگر کوئی نبی منصب امامت پر فائز ہوجاتا ہے تو اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور نتیجے میں معاشرے کو سنوارنے اور سعادت مند بنانے کے لئے شریعت کے احکامات کو نافذ کرنے کی ذمہ داری بھی اس کے دوش پر آجاتی ہے اس طرح وہ امت کو ایسے راستے پر گامزن کردیتا ہے جس سے وہ دونوں جہان میں خوشبخت بن جاتی ہے

واضح ہے کہ اس قسم کی اہم ذمہ داری ایک عظیم معنوی قدرت او ر خاص لیاقت کی نیاز مند ہے اور اس سنگین عہدے کے لئے راہ خدا میں صبراور ثبات قدم کی ضرورت ہے کیونکہ اس راہ میں ہمیشہ سخت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خواہشات نفسانی سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ عشق خدا اور رضائے پروردگار کے بغیر اس عظیم منصب کا حصول ممکن نہیں ہے ان ہی سب وجہوں سے خداوندعظیم نے جناب ابراہیم کو ان کی عمر کے آخری حصے میں انتہائی سخت آزمائشوں کے بعد یہ منصب عطا کیا تھا اور پھر اپنے بہترین بندوں جیسے حضرت پیغمبر ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ منصب امامت و رہبری عنایت فرمایا تھا.

۲۶۹

کیا نبوت اور امامت ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں ؟

اس سوال سے ایک اور سوال بھی سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : کیا ہر نبی کے لئے امام ہونا اور ہر امام کے لئے نبی ہونا ضروری ہے؟

ان دو سوالوں کا جواب منفی ہے ہم اس جواب کو واضح کرنے کیلئے وحی الہی کا سہارا لیں گے وہ آیتیں جو طالوت اور ظالم جالوت کی جنگ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ خداوند عالم نے حضرت موسیٰ کے بعد منصب نبوت کو بظاہر ''اشموئیل'' نامی شخص کو عطا فرمایا تھا اور ساتھ ہی ساتھ منصب امامت و حکومت کو جناب طالوت کے سپرد کیا تھا اس قصے کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے :

حضرت موسیٰ کی وفات کے بعدبنی اسرائیل کے ایک گروہ نے اپنے زمانے کے پیغمبرسے کہا کہ ہمارے لئے ایک حکمران معین کیجئے تاکہ اس کی سربراہی میں ہم راہ خدا میں جنگ کریںتو اس وقت ان کے پیغمبر نے ان سے یوں کہا:

(وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ ﷲ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا قَالُوا اَنَّیٰ یَکُونُ لَهُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ َاحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْهُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِنْ الْمَالِ قَالَ اِنَّ ﷲ اصْطَفَاهُ عَلَیْکُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِى الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَﷲ یُؤْتِى مُلْکَهُ مَنْ یَشَائُ وَﷲ وَاسِع عَلِیم )( ۱ )

اور ان کے پیغمبرنے ان سے کہا : اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے ان لوگوں نے کہا: اسے ہم پربادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا ہے؟ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حق دار ہیں وہ تو کوئی دولت مند آدمی نہیں ہے نبی نے جواب دیاکہ اللہ نے اسے تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے اور اللہ بڑا وسعت والا، دانا ہے.اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں :

۱۔یہ ممکن ہے کہ کچھ مصلحتیں اس بات کا تقاضا کریں کہ منصب نبوت کو منصب امامت سے جدا کردیا جائے اور ایک ہی زمانے میں دو الگ الگ افراد نبی و امام ہوں اور ان میں سے ہر ایک اپنے خاص منصب ہی کی لیاقت وصلاحیت رکھتا ہو

اسی لئے بنی اسرائیل نے اپنے زمانے میں ان دو منصبوں کے جدا ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا کہ اے پیغمبر آپ طالوت سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں .بلکہ

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت ۲۴۷.

۲۷۰

انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ ہم اس سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں

۲۔جناب طالوت کو حکومت خداوندکریم ہی نے عطا کی تھی قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

ِانَّ ﷲ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا )اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے اور یہ بھی ارشاد ہوتا ہے(ِنَّ ﷲ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ) بے شک اللہ نے اسے تمہارے لئے منتخب کیا ہے.

۳۔جناب طالوت کایہ الہی منصب صرف فوج کی سربراہی تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ بنی اسرائیل کے حاکم و فرمانروا بھی تھے کیونکہ قرآن نے انہیں ''مَلِکاً'' کہہ کر یاد کیا ہے اگرچہ اس دن اس رہبری کامقصد یہ تھا کہ جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائیل کی سربراہی کریں لیکن ان کا یہ الہی منصب انہیں دوسری حکومتی ذمہ داریوں کو بھی انجام دینے کی اجازت دیتا تھا

اس لئے قرآن مجید اس آیت کے اختتام میں فرماتا ہے :

(وَﷲ یُؤْتِ مُلْکَهُ مَنْ یَشَائ ) اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک دیدے

۴۔امت کی رہبری اور امامت کے لئے اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس میں علمی، جسمانی،اور معنوی توانائی پائی جاتی ہو اس قسم کی صلاحیت اس زمانے میں زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ ان ایام میں حاکم خود میدان میں حاضر ہو کر جنگ کرتا تھا( ۱ )

____________________

(۱)منشور جاوید (مصنفہ استاد جعفرسبحانی) سے ماخوذ.

۲۷۱

گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبوت اور امامت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے کہ ایک شخص نبی تو ہو لیکن منصب امامت پر فائز نہ ہو یا یہ کہ کوئی شخص خدا کی جانب سے امام تو ہو لیکن اسے عہدۂ نبوت حاصل نہ ہوا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ پروردگارعالم یہ دونوں منصب ایک ہی شخص کو عطا کردے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:

(فَهَزَمُوهُمْ بِاِذْنِ ﷲِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ ﷲ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا یَشَائُ )( ۱ )

چنانچہ اللہ کے اذن سے انہوں نے جالوت کے لشکر کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطافرمائی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھادیا.

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت ۲۵۱.

۲۷۲

چھتیسواں سوال

توحید اور شرک کی شناخت کا معیار کیاہے؟

''توحید'' اور شرک کی بحثوں میں سب سے اہم مسئلہ ان دونوں کی شناخت کے معیار کا ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بعض دوسرے اہم مسائل بھی حل نہیں ہوپائیں گے اس لئے ہم مسئلہ توحید و شرک پر مختلف زاویوں سے مختصراً بحث پیش کررہے ہیں :

۲۷۳

۱۔توحید ذاتی

توحید ذاتی دو صورتوں میں پیش کی جاتی ہے :

الف:خدا ایک ہے اور کوئی اس جیسا نہیں (اس مفہوم کو علم کلام کے علماء واجب الوجود کے نام سے یاد کرتے ہیں ) اور یہ وہی توحید ہے کہ جسے خداوند عالم نے مختلف صورتوں میں قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے ملاحظہ ہو:

(لیس کمثله شئ )

اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے.( ۱ )

ایک اور جگہ پر فرماتا ہے:

(ولم یکن له کفواً أحد )( ۲ )

اور کوئی بھی اس کا کفو اور ہمسر نہیں ہے.

البتہ بعض اوقات توحید کی اس قسم کی تفسیر عامیانہ طور پر کردی جاتی ہے کہ جس میں توحید عددی کا رنگ دکھائی دینے لگتا ہے وہ اس طرح کہ : کہا جاتا ہے کہ خدا ایک ہے اور دو نہیں اس قسم کا جملہ سن کر کچھ کہے بغیر واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کی طرف اس قسم کی توحید (عددی) کی نسبت دینا صحیح نہیں ہے.

ب: خدا کی ذات بسیط ہے نہ کہ مرکب کیونکہ ہرمرکب موجود (چاہے اس کا وجودذہنی اجزاء سے مرکب ہو یا خارجی اجزاء سے مرکب ہو ) اپنے وجود میں اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور محتاج ہونا ممکن ہونے کی علامت ہے اور ہر ممکن علت کا محتاج ہوتا ہے. اور یہ سب کچھ واجب الوجود کے ساتھ کسی بھی صورت میں مطابقت نہیں رکھتا

____________________

(۱)سورہ شوریٰ آیت: ۱۱.

(۲)سورہ اخلاص آیت:۴.

۲۷۴

۲۔ خالقیت میں توحید

توحیدکے وہ مراتب جنہیں عقل و نقل دونوں نے قبول کیا ہے ان میں سے ایک توحید خالقیت بھی ہے عقل کی روسے خداوندعالم کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سب عالم

امکان کے زمرے میں آتا ہے اور ہر قسم کے جمال وکمال سے عاری ہوتا ہے اور جو کچھ عالم امکان میں پایا جاتا ہے وہ غنی بالذات (خدا)کی بے کراں رحمتسے فیض یاب ہوتا ہے اس اعتبار سے اس دنیا میں دکھائی دینے والے جمال وکمال کے جلوے اسی کے مرہون منت ہوتے ہیں قرآن مجید نے بھی توحید خالقیت کے سلسلے میں بہت سی آیات پیش کی ہیں ہم ان میں سے صرف ایک آیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

(قُلْ ﷲ خَالِقُ کُلِّ شَْئٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ )( ۱ )

کہہ دیجئے : ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ، بڑا غالب ہے.

لہذاخدا پرستوں میں مجموعی طور پر توحید خالقیت کے سلسلے میں اختلاف نہیں پایا جاتا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ توحید خالقیت کے بارے میں دو قسم کی تفسیریں پائی جاتی ہیں ان دونوں کو ہم یہاں بیان کرتے ہیں :

الف:موجودات عالم میں پائے جانے والے ہر قسم کی علت اور معلول والے نظام اور نیز ان کے درمیان پائے جانے والے سبب او ر مسبب کے رابطے سب ہی علة العلل (جس کی کوئی علت نہ ہو)اور مسبب الاسباب(جس کا کوئی سبب نہ ہو) تک پہنچتے ہیں اور درحقیقت اصلی اور مستقل خالق خداوندعالم ہی کی ذات ہے اور خدا کے علاوہ باقی سب علل واسباب ، خداوندعالم کی اجازت و مشیت کے تابع ہیں

اس نظریہ میں دنیا میں علت و معلول کے نظام کا اعتراف کیا گیا ہے .اور علم بشر

____________________

(۱)سورہ رعد آیت: ۱۶.

۲۷۵

نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے باوجود کل نظام کا تعلق ایک لحاظ سے خدا ہی سے ہے اور اسی نے اسباب کو سببیت ، علت کو علیت اور موثر کو تاثیر عطا کی ہے

ب:اس دنیا میں صرف ایک ہی خالق کا وجود ہے اور وہ خداوندعالم کی ذات ہے اور نظام ہستی میں اشیاء کے درمیان ایک دوسرے کیلئے کسی قسم کی اثر گزاری اور اثرپذیری نہیں پائی جاتی بلکہ تمام مادی موجودات کا خالق بلا واسطہ خدا ہی ہے .اسی طرح انسان کی طاقت بھی اس کے اعمال پر اثر انداز نہیں ہوتی ہے لہذا نظام ہستی میں صرف ایک ہی علت پائی جاتی ہے اور وہی ان فطری علتوں کی رئیس و اصل ہے

البتہ توحید خالقیت کی یہ تفسیر اشاعرہ نے پیش کی ہے لیکن ان میں سے بعض افراد جیسے امام الحرمین( ۱ ) اور شیخ محمدعبدہ نے رسالہ توحید میں اس تفسیر کو چھوڑ کر پہلی تفسیر کو مانا ہے

۳۔تدبیرمیں توحید

چونکہ عالم کو خلق کرنا خدا ہی سے مخصوص ہے لہذا نظام ہستی کی تدبیر بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اس دنیا میں صرف ایک ہی مدبر کا وجود ہے اور وہ عقلی دلیل کہ جو توحید خالقیت کو ثابت کرتی ہے وہی دلیل تدبیر میں بھی توحید کو ثابت کرتی ہے

قرآن مجید کی متعدد آیات نے خداوندعالم کے مدبر ہونے کو بیان کیا ہے اس سلسلے میں یہ آیت ملاحظہ ہو:

____________________

(۱)ملل و نحل(شہرستانی)جلد۱.

۲۷۶

(اغَیْرَ ﷲِ اَبْغِى رَبًّا وَهُوَ رَبُّ کُلِّ شَْئ )( ۱ )

کہہ دیجئے : کہ کیا میں خد اکے علاوہ کوئی اور رب تلاش کروں جب کہ وہ ہر چیز کا رب ہے.

البتہ وہ دونوں تفسیریں جو توحید خالقیت میں پائی جاتی ہیں وہی توحید تدبیری میں بھی پائی جاتی ہیں اور ہمارے عقیدے کے مطابق توحید تدبیری سے مراد یہ ہے کہ مستقل طور پر تدبیر کرنا صرف خدا سے مخصوص ہے

اس بنیاد پر نظام ہستی کے موجودات کے درمیان بعض تدبیریں خدا کے ارادے اور مشیت سے وجود میں آتی ہیں قرآن مجید نے بھی حق سے متمسک مدبروں کے بارے میں یوں فرمایا ہے :

(فالمدبرات امرًا )( ۲ )

پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں

۴۔حاکمیت میں توحید

حاکمیت میں توحید سے مراد یہ ہے کہ حکومت کا حق فقط خداوندعالم کو ہے اور صرف وہی انسانوں پر حاکم ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

____________________

(۱)سورہ انعام آیت:۱۶۴.

(۲)سورہ نازعات آیت :۵

۲۷۷

(اِنِ الْحُکْمُ اِلا لِلّٰه )( ۱ )

حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ہے.

اس اعتبارسے خدا کے علاوہ کسی اور کی حکومت صرف خدا کے ارادے اور مشیت سے ہونی چاہیے تاکہ نیک اور صالح افراد ہی معاشرے کے امور کی باگ ڈور سنبھالیں اور لوگوں کو کمال و سعادت کی راہ پر گامزن کرسکیں جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

(یَادَاوُودُ اِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِى الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ )( ۲ )

اے داؤدہم نے آپ کو زمین پر اپنا جانشین بنایا ہے لہذا آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں.

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت :۴۰.

(۲)سورہ ص آیت۲۶.

۲۷۸

۵۔اطاعت میں توحید

اطاعت میں توحید سے مراد یہ ہے کہ حقیقی اور ذاتی طور پرخدائے بزرگ کی پیروی ضروری ہے لہذا بعض دوسرے افراد (جیسے پیغمبر، امام، فقیہ ، باپ اور ماں)کی اطاعت کا لازم ہونا پروردگارعالم کے حکم اور ارادے سے ہے.

۶۔شریعت قرار دینے اور قانون گزاری میں توحید

قانون گزاری میں توحید سے مراد یہ ہے کہ شریعت قرار دینے اور قانون گزاری

کا حق فقط خداوندعالم کو ہے اسی بنیاد پر قرآن مجید ہر اس حکم کوجو حکم الہی کے دائرے سے خارج ہو اسے کفر، فسق اور ظلم کا سبب قرار دیتا ہے ملاحظہ ہو:

(وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنزَلَ ﷲ فَاُوْلٰئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ )( ۱ )

اور جو لوگ بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ ظالم ہیں

(وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنزَلَ ﷲ فَاُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ )( ۲ )

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ فاسق ہیں

(وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنزَلَ ﷲ فَاُوْلٰئِکَ هُمْ الظَّالِمُونَ )( ۳ )

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریںوہ ظالم ہیں

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیت:۴۴.

(۲)سورہ مائدہ آیت:۴۷.

(۳)سورہ مائدہ آیت ۴۵.

۲۷۹

۷۔عبادت میں توحید

عبادت میں توحید کے سلسلے میں اہم ترین بحث ''عبادت'' کے معنی کی شناخت ہے کیونکہ سب مسلمان اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ عبادت صرف خدا سے مخصوص ہے اوراس کے علاوہ کسی اور کی پرستش نہ کی جائے جیسا کہ قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

(اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِینُ )( ۱ )

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں

قرآن مجید کی مختلف آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کی دعوتوں کا بنیادی عنصر یہی عقیدہ تھا قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :

(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنْ اُعْبُدُوا ﷲ وَاجْتَنِبُواالطَّاغُوت )( ۲ )

اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا تاکہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو.

لہذا اس مسلم الثبوت اصل میں کوئی شک نہیں کہ عبادت کا حق صرف خدا کا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کی جاسکتی نیز یہ کہ اس اصل پر ایمان نہ رکھنے والا موحد نہیں ہوسکتا.

____________________

(۱)سورہ حمد آیت: ۴.

(۲)سورہ نحل آیت:۳۶.

۲۸۰

لیکن ہماری گفتگو اس سلسلے میں ہے کہ ''عبادت'' اور غیر عبادت کی شناخت کا معیار کیا ہے؟

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے استاد اور ماں باپ یا علماء اور مجتہدین کے ہاتھوں کا بوسہ لے یا اپنے ذوی الحقوق کا احترام کرے تو کیا اس کا یہ عمل ان کی عبادت شمار ہوگا؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ کسی کے مقابلے میں خضوع و خشوع کو عبادت نہیں کہتے بلکہ عبادت کے لئے ایک خاص صفت کا ہونا ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر چاہے جس بھی طرح کا خضوع ہو عبادت نہیں کہلائے گااب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی بنیادی صفت ہے جو کسی بھی طرح کے خضوع کو عبادت بناسکتی ہے؟

لفظ عبادت کے غلط معنی

کچھ مصنفین نے اپنی کتابوں میں عبادت کے معنی خضوع اور یا زیادہ خضوع بیان کئے ہیں لیکن ان مصنفین کو قرآن مجید کی بعض آیات کے ترجمہ میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ ان آیتوں میں خداوندکریم نے صراحت سے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے فرشتوں کو جناب آدم کا سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا ملاحظہ ہو:

(وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت:۳۴.

۲۸۱

اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو.

حضرت آدم کے لئے بعینہ اسی طرح سجدہ بجالایا گیا جس طرح خداوندکریم کے لئے سجدہ کیا جاتا تھا جبکہ جناب آدم کے سامنے یہ سجدہ خضوع اور تواضع کے اظہار کی خاطر انجام پایا تھا اور خدا کا سجدہ عبادت و پرستش کے طور پر بجالایا جاتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ایک ہی طرح کے سجدوں میں کیسے دومختلف حقیقتیں پیداہوگئیں؟

قرآن مجید ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ جناب یعقوب نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ جناب یوسف کے سامنے سجدہ کیا تھا:

(وَرَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاَبَتِ هَذَا تَاْوِیلُ رُؤْیَا مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّا'' ( ۱ )

اور یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب انکے سامنے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا: اے باباجان! یہی میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بے شک میرے رب نے اسے سچ کردکھایا ہے.

یہاں پر اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ جناب یوسف نے پہلے خواب کی طرف اشارہ کیا تھا جس سے مراد وہی خواب تھا جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ چاند اور

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت:۱۰۰.

۲۸۲

سورج کے ہمراہ گیارہ ستارے ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں اس بات کو قرآن مجید نے یوں نقل کیا ہے:

انِّ رَاَیْتُ احَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِى سَاجِدِینَ )( ۱ )

میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور آفتاب و مہتاب کو دیکھا ہے کہ یہ میرے سامنے سجدہ کررہے ہیں

اس آیت میں گیارہ ستاروں سے جناب یوسف کے گیارہ بھائی اور چاند اور سورج سے ان کے ماں اور باپ مراد ہیں

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ نہ صرف حضرت یعقوب کے بیٹوں نے بلکہ خود جناب یعقوب نے بھی جناب یوسف کے سامنے سجدہ کیا تھا.

اب یہاں ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں :

اس قسم کے سجدہ کو عبادت میں شمارکیوں نہیں کیا جاتا جبکہ سجدہ نہایت خضوع اور تواضع کے ساتھ بجالایا گیا تھا؟

عذر بدتراز گناہ

یہاں پر چونکہ مذکورہ مصنفین اس سوال کا جواب نہیں دے پائے لہذا یوں کہتے ہیں :

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت :۴.

۲۸۳

چونکہ اس قسم کا خضوع و خشوع پروردگارعالم کے حکم سے انجام دیا گیا تھا لہذا اسے شرک شمار نہیں کیاجاسکتا .لیکن یہ بات معلوم ہے کہ ان کی یہ تاویل کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اگر کوئی عمل باعث شرک ہو تو خداوندعالم ہرگز اس کا حکم نہیں دے سکتا.

قرآن مجید فرماتا ہے:

(قُلْ ِانَّ ﷲ لاَیَاْمُرُ بِالْفَحْشَائِ اَتَقُولُونَ عَلَی ﷲِ مَا لاتَعْلَمُون )( ۱ )

کہہ دیجئے اللہ یقینا برائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں ؟

اصولی طور پر خداوندعالم کا حکم کسی چیز کی حقیقت کو نہیں بدلتا اگر ایک انسان کے مقابلے میں خضوع کرنا اس کی عبادت ہو اور خدائے بزرگ نیز اس کا حکم دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا اپنی عبادت کا حکم دے رہا ہے.

مسئلے کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنی کی وضاحت

یہاں تک یہ واضح ہوگیا کہ ''غیر خدا کی عبادت کے ممنوع ہونے کے سلسلے میں '' دنیا کے تمام موحد متفق ہیں اور دوسری طرف سے یہ بھی روشن ہوچکا ہے کہ فرشتوں کا

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت:۲۸.

۲۸۴

حضرت آدم کے سامنے اور حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا حضرت یوسف کے سامنے سجدہ کرنا ان کی عبادت نہ تھا اب ضروری ہے کہ ہم اس نکتے کی طرف توجہ دلائیں کہ وہ کون سی خاص صفت ہے جس کے نہ ہونے سے ایک عمل عبادت نہیں بن پاتا جبکہ اگر وہ پائی جاتی ہو تو وہی عمل عبادت شمار ہوتاہے.

قرآنی آیات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ کسی موجود کو خدا سمجھ کر اس کے سامنے خضوع کرنا یا اس کی طرف خدائی امور کی نسبت دینا اس کی عبادت کہلاتا ہے اس بیان سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر کسی کو خدائی امور انجام دینے پر قادر سمجھتے ہوئے اس کے سامنے خضوع کیا جائے تو یہ عمل اسی کی عبادت شمار ہوگا .دنیا کے مشرک ایسے موجودات کے سامنے خضوع کیا کرتے تھے کہ جنہیں وہ مخلوق خدا تو سمجھتے تھے لیکن وہ اس بات کے معتقد تھے کہ کچھ خدائی امور جیسے کہ گناہوں کی بخشش ،

اور حق شفاعت انہیں موجودات کو سونپ دیئے گئے ہیں

سرزمین بابل کے کچھ مشرک آسمانی ستاروں کو اپنا رب اور دنیا اور انسانوں کی تدبیر کا مالک سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے لیکن انہیں اپنا خالق نہیں سمجھتے تھے حضرت ابراہیم نے بھی اسی اصل کی بنا پر اپنی قوم کے ساتھ مناظرہ کیا تھا کیونکہ سرزمین بابل کے مشرک ہرگزسورج چاند اور ستاروں کو اپنا خالق نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ انہیں ایسی باقدرت مخلوق سمجھتے تھ

۲۸۵

جنہیں ربوبیت اور دنیا کی تدبیر سونپ دی گئی تھی قرآنی آیات میں بھی حضرت ابراہیم اور مشرکین بابل کے درمیان مناظرے میں لفظ رب کو محور قرار دیتے ہوئے( ۱ ) بیان کیا گیا ہے اور یہ واضح ہے کہ لفظ رب کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو اپنا صاحب اور اپنی مملوک کے امور کا مدبر قرار دیا جائے .عربی زبان میں گھر کے مالک کو'' رب البیت''اور کھیتی باڑی کے مالک کو رب الضیعہ کہتے ہیں اس لئے کہ گھر اور کھیتی باڑی کی تدبیر ان کے مالکوں کے ذمے ہوتی ہے

قرآن مجید مشرکین کے مقابلے میں صرف خداوندعالم کو اس نظام ہستی کا رب اور مدبر قرار دیتا ہے اور سب کو خدائے یگانہ کی پرستش کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

ِانَّ ﷲ رَبِّى وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطى مُسْتَقِیم ( ۲ )

اللہ میرا رب اور تمہارا بھی رب ہے لہذا اس کی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے.

ایک اور جگہ فرماتا ہے:

(ذَلِکُمْ ﷲ رَبُّکُمْ لا اِلٰهَ ا ِلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَْئٍ فَاعْبُدُوهُ )( ۳ )

وہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ ہر چیز کا خالق ہے لہذا اس کی عبادت کرو.

____________________

(۱)سورہ انعام آیت ۷۶ تا ۷۸.

(۲)سورہ آل عمران آیت ۵۱.

(۳)سورہ انعام آیت: ۱۰۲.

۲۸۶

اس طرح قرآن مجید سورۂ دخان میں فرماتا ہے:

(لاَاِلَهَ اِلاَّ هُوَ یُحْى وَیُمِیتُ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمْ الْاَوَّلِینَ )( ۱ )

اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے پہلے آبائو اجداد کا بھی رب ہے.

اسی طرح قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ کے قول کو یوں نقل کیا ہے:

(وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِى اِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا ﷲ رَبِّى وَرَبَّکُمْ )( ۲ )

اور مسیح نے کہا : اے بنی اسرائیل تم اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے.

گذشتہ بیانات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ ہروہ خضوع جو کسی مخلوق کے سامنے اسے رب اور خدا سمجھے بغیر یا اس کی طرف خدائی امور کی نسبت دئیے بغیر انجام دیا جائے وہ ہرگز عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ یہ خضوع حد سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوجائے اس اعتبار سے امت کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا اپنے والدین کے سامنے انہیں خدا قرارنہ دیتے ہوئے خضوع وخشوع کرنا ہرگز ان کی عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اسی بنیاد پر بہت

سے موضوعات جیسے اولیائے الہی سے منسوب چیزوں کو متبرک سمجھنا ،حرم کے دروازوں، دیواروں اور ضریحوں کو چومنا، خدا کی بارگاہ میں اولیائے الہی سے متوسل ہونا، اولیائے الہی کو پکارنا، ان کے ایام ولادت میں جشن منانا اور محفلیں برپا کرنا اور ان کے ایام وفات و شہادت میں مجلسیں منعقد کرنا ہرگز اولیائے الہی کی عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ بعض ناآگاہ افراد ان کاموں کو غیر خدا کی عبادت اور شرک سمجھتے ہیں جبکہ ان سارے کاموںکو کسی بھی طرح سے غیر خدا کی عبادت اور شرک شمار نہیں کیا جاسکتاہے۔

____________________

(۱)سورہ دخان آیت۸

(۲)سورہ مائدہ آیت:۷۲.

۲۸۷

فہرست

حرف اول ۵

پیش گفتار ۸

پہلا سوال ۱۰

''وعترتی اہل بیتی '' صحیح ہے یا ''وسنتی''؟ ۱۰

حدیث ''واہل بیتی'' کی سند ۱۱

لفظ ''و سنتی'' والی حدیث کی سند ۱۳

ان دو کے بارے میں علمائے رجال کا نظریہ ۱۴

حدیث''وسنتی'' کی دوسری سند ۱۷

حدیث ''وسنتی''کی تیسری سند ۱۹

سند کے بغیر متن کا نقل ۲۰

حدیث ثقلین کا مفہوم ۲۲

دوسرا سوال ۲۵

شیعہ سے کیا مراد ہے؟ ۲۵

تیسرا سوال ۲۷

کیوں حضرت علی ہی پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی اور جانشین ہیں ؟ ۲۷

۱۔ آغاز بعثت میں : ۲۷

۲۔ غزوۂ تبوک میں ۲۸

۳۔ دسویں ہجری میں ۲۹

چوتھا سوال ۳۲

۲۸۸

''ائمہ'' کون ہیں ؟ ۳۲

پانچواں سوال ۳۵

حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھتے وقت کیوں آل کا اضافہ کرتے ہیں اور: اللّھم صل علی محمد و آل محمد کہتے ہیں ؟ ۳۵

چھٹا سوال ۳۷

آپ اپنے اماموں کو معصوم کیوں کہتے ہیں ؟ ۳۷

ساتواں سوال ۴۰

اذان میں أشھد أن علیًّا ول اللّہ کیوں کہتے ہیں اور حضرت علی ـ کی ولایت کی شہادت کیوں دیتے ہیں ؟ ۴۰

آٹھواں سوال ۴۴

مہدی آل محمدعلیہ السلام کون ہیں اور انکا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ ۴۴

نواں سوال ۴۷

اگر شیعہ حق پر ہیں تو وہ اقلیت میں کیوں ہیں ؟ اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نہیں ماناہے؟ ۴۷

دسواں سوال ۵۱

رجعت کیا ہے اور آپ اس پر کیوں عقیدہ رکھتے ہیں ؟ ۵۱

۱۔رجعت کا فلسفہ ۵۶

۲۔رجعت اور تناسخ( ۱ ) کے درمیان واضح فرق ۵۷

گیارہواں سوال ۵۹

جس شفاعت کا آپ عقیدہ رکھتے ہیں وہ کیا ہے؟ ۵۹

شفاعت کا دائرہ ۶۰

شفاعت کا فلسفہ ۶۲

۲۸۹

شفاعت کا نتیجہ ۶۲

بارہواں سوال ۶۳

کیا حقیقی شفاعت کرنے والوں سے بھی شفاعت کی درخواست کرنا شرک ہے؟ ۶۳

تیرہواں سوال ۶۹

کیا غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہے؟ ۶۹

چودہواں سوال ۷۳

کیا دوسروں کو پکارنا ان کی عبادت اور شرک ہے؟ ۷۳

پندرہواں سوال ۷۹

''بدائ'' کیا ہے اور آپ اس کا عقیدہ کیوںرکھتے ہیں ؟ ۷۹

بداء کا فلسفہ ۸۳

سولہواں سوال ۸۴

کیا شیعہ قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہیں ؟ ۸۴

سترہواں سوال ۹۸

صحابۂ کرام کے بارے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟ ۹۸

صحابی قرآن مجید کی نگاہ میں ۱۰۰

پہلی قسم ۱۰۱

۱۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے ۱۰۱

۲۔درخت کے نیچے بیعت کرنے والے ۱۰۲

۳۔مہاجرین ۱۰۲

۴۔اصحابِ فتح ۱۰۳

۲۹۰

دوسری قسم ۱۰۴

۱۔معروف منافقین ۱۰۴

۲۔غیر معروف منافقین ۱۰۴

۳۔دل کے کھوٹے ۱۰۵

۴۔گناہ گار ۱۰۵

اٹھارہواں سوال ۱۰۹

متعہ کیا ہے اور شیعہ اسے کیوں حلال سمجھتے ہیں ؟ ۱۰۹

انیسواں سوال ۱۱۹

شیعہ خاک پر کیوں سجدہ کرتے ہیں ؟ ۱۱۹

بیسواں سوال ۱۳۱

شیعہ حضرات زیارت کرتے وقت حرم کے دروازوں اور دیواروں کو کیوں چومتے ہیں اور انہیں باعث برکت کیوں سمجھتے ہیں ؟ ۱۳۱

اکیسواں سوال ۱۳۷

کیا اسلام کی نگاہ میں دین سیاست سے جدا نہیں ہے؟ ۱۳۷

پیغمبرخدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی حکومت کے بانی ہیں ۱۳۸

بائیسواں سوال ۱۴۶

شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسنـ ا ور امام حسینـ) کو رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کیوں کہتے ہیں ؟ ۱۴۶

تیئیسواں سوال ۱۵۲

شیعوں کے نزدیک یہ کیوں ضروری ہے کہ خلیفہ کو خدا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی معین فرمائیں؟ ۱۵۲

۲۹۱

عصر رسالت کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ خلیفہ کونص کے ذریعہ معین ہونا چاہئے ۱۵۳

اس کی وضاحت ۱۵۳

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں ۱۵۶

چوبیسواں سوال ۱۵۷

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟ ۱۵۷

پچیسواں سوال ۱۶۴

کیا اولیائے خدا سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے؟ ۱۶۴

توسل کی قسمیں ۱۶۵

۱۔نیک اعمال سے توسل؛ ۱۶۵

۲۔خدا کے نیک بندوں کی دعاؤں سے توسل ! ۱۶۶

۳۔قرب الہی کے حصول کیلئے خداوند کریم کے محترم اور مقدس بندوں سے توسل: ۱۶۷

چھبیسواں سوال ۱۷۲

کیا اولیائے خدا کی ولادت کے موقع پر جشن منانا بدعت یا شرک ہے؟ ۱۷۲

۱۔ان کی یاد منانے میں محبت کا اظہار ہوتا ہے ۱۷۲

۲۔پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد منانا آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم کا اظہار ہے ۱۷۳

۴۔وحی کا نازل ہونا دسترخوان کے نازل ہونے سے کم نہیں ہے ۱۷۵

۵۔ مسلمانوں کی سیرت ۱۷۶

ستائیسواں سوال ۱۷۸

شیعہ پانچ نمازوں کو تین اوقات میں کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۱۷۸

نتیجہ: ۱۹۵

۲۹۲

اٹھائیسواں سوال ۲۰۰

شیعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہیں ؟ ۲۰۰

کتاب خدا؛ قرآن مجید ۲۰۰

سنت ۲۰۲

حضرت رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے میں ۲۰۲

احادیث اہل بیت سے تمسک کے دلائل ۲۰۴

الف: ائمہ معصومین کی احادیث کی حقیقت ۲۰۴

عترت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی حقیقت ۲۰۴

اہل بیت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل ۲۰۷

اہل بیت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟ ۲۱۰

نتیجہ: ۲۱۴

انتیسواں سوال ۲۱۶

کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟ ۲۱۶

خاندان جناب ابوطالب ۲۱۶

عبدالمطلب کی نگاہ میں ابوطالب ۲۱۸

جناب ابوطالب کے مومن ہونے کی دلیلیں ۲۲۲

۱۔جناب ابوطالب کے علمی اور ادبی آثار ۲۲۲

۲۔جناب ابوطالب کا پیغمبراکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نیک سلوک ان کے ایمان کی علامت ہے ۲۲۵

۳۔ابوطالب کی وصیت ان کے ایمان کی گواہ ہے ۲۲۷

۴۔پیغمبر ۲۲۸

۲۹۳

۵۔حضرت علی ـ اور اصحاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی ۲۳۱

۶۔ابوطالب اہل بیت کی نگاہ میں ۲۳۳

حدیث ضحضاح کا تحقیقی جائزہ ۲۳۶

حدیث ضحضاح کے سلسلہ سند کا باطل ہونا ۲۳۷

الف: ''سفیان بن سعید ثوری'' ۲۳۷

ب:عبدالملک بن عمیر ۲۳۸

ج:عبدالعزیز بن محمد دراوردی ۲۳۹

د:لیث بن سعد ۲۴۰

نتیجہ ۲۴۲

تیسواں سوال ۲۴۳

کیا شیعوں کی نظر میں جبرئیل ـ نے منصب رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت علی ـکے بجائے قرآن مجید کو رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا ہے؟ ۲۴۳

اس تہمت کا اصلی سبب ۲۴۳

شیعوں کی نگاہ میں منصب نبوت ۲۴۵

اکتیسواں سوال ۲۴۹

تقیہ کا معیارکیا ہے؟ ۲۴۹

قرآن کی نگاہ میں تقیہ ۲۴۹

تقیہ شیعوں کی نگاہ میں ۲۵۱

نتیجہ ۲۵۲

بتیسواں سوال ۲۵۳

۲۹۴

ایران کے بنیادی قانون میں کیوں جعفری مذہب (شیعہ اثناعشری) کو حکومت کا مذہب قرار دیا گیا ہے؟ ۲۵۳

جعفری مذہب کی تعیین کا معیار ۲۵۴

ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کا درجہ ۲۵۴

تینتیسواں سوال ۲۵۶

کیا شیعہ نماز وتر کو واجب سمجھتے ہیں ؟ ۲۵۶

چونتیسواں سوال ۲۵۸

کیا اولیائے خدا کی غیبی طاقت پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟ ۲۵۸

قرآن مجید کی نظر میں اولیائے الہی کی غیبی طاقت ۲۶۰

۱۔حضرت موسیٰ کی غیبی طاقت ۲۶۱

حضرت عیسیٰ کی غیبی طاقت ۲۶۱

حضرت سلیمان کی غیبی طاقت ۲۶۲

پینتیسواں سوال ۲۶۳

کیوں منصب امامت منصب رسالت سے افضل ہے؟ ۲۶۳

۱۔منصب نبوت ۲۶۳

۲۔منصب رسالت ۲۶۴

۳۔منصب امامت ۲۶۵

منصب امامت کی برتری ۲۶۹

چھتیسواں سوال ۲۷۳

توحید اور شرک کی شناخت کا معیار کیاہے؟ ۲۷۳

۱۔توحید ذاتی ۲۷۴

۲۹۵

۲۔ خالقیت میں توحید ۲۷۵

۳۔تدبیرمیں توحید ۲۷۶

۴۔حاکمیت میں توحید ۲۷۷

۵۔اطاعت میں توحید ۲۷۹

۶۔شریعت قرار دینے اور قانون گزاری میں توحید ۲۷۹

۷۔عبادت میں توحید ۲۸۰

لفظ عبادت کے غلط معنی ۲۸۱

عذر بدتراز گناہ ۲۸۳

مسئلے کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنی کی وضاحت ۲۸۴

۲۹۶