شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95389 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مقررین اور ائمہ جماعت حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حدیث کوچھوڑ دیںجو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیان نہیں کی ہے بلکہ اس کی جگہ صحیح حدیث سے لوگوں کو آشنا کریں اور وہ حدیث جسے مسلم نے اپنی کتاب ''صحیح'' میں لفظ ''و اہل بیتی'' کے ساتھ اور ترمذی نے لفظ ''عترتی و اہل بیتی'' کے ساتھ نقل کیا ہے اسے لوگوںکے سامنے بیان کریں اسی طرح علم ودانش کے متلاشی افراد کے لئے ضروری ہے کہ علم حدیث سیکھیں تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث کو ایک دوسرے سے جدا کرسکیں.

آخر میں ہم یہ یاددلا دیں کہ حدیث ثقلین میں لفظ ''اہل بیتی'' سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد حضرت علی ـ اور وہ حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت امام حسن ـ اورحضرت امام حسین ـ ہیں ۔

کیونکہ مسلم نے( ۱ ) اپنی کتاب صحیح میں اور ترمذی نے( ۲ ) اپنی کتاب سنن میں حضرت عائشہ سے اس طرح نقل کیا ہے:

نزلت هذه الآیة علیٰ النبى .(اِنّما یریدُ اللّهُ لیذهبَ عَنْکم الرِجْسَ أهْلَ البیتِ و یُطِّهرکم تطهیراً )فى بیت أم سلمة فدعا النبى فاطمة و حسناً و حسیناً فجللهم بکسائٍ و عَلّى خلف

____________________

(۱)صحیح مسلم جلد ۴ ص ۱۸۸۳ ح ۲۴۲۴

(۲)ترمذی جلد ۵ ص ۶۶۳

۲۱

ظهره فجللّه بکساء ثم قال : أللّهم هٰؤلائِ أهل بیت فأذهبعنهم الرجس و طهرهم تطهیرا. قالت أم سلمة و أنا معهم یا نبى اللّه؟ قال أنتِ علیٰ مکانک و أنتِ اِلی الخیر .( ۱ )

یہ آیت(اِنّما یریداللهُ لیذهبَ عَنْکم الرِجْسَ اَهْلَ البیتِ و یُطَهِّرکم تطهیراً )ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ ،حسن و حسین کو اپنی عبا کے اندر لے لیا اس وقت علی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیچھے تھے آ پ نے ان کوبھی چادر کے اندر بلا لیااورفرمایا : اے میرے پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں پلیدیوں کو ان سے دور رکھ اور ان کو پاک وپاکیزہ قرار دے۔ ام سلمہ نے کہا : اے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا میں بھی ان میں سے ہوں(یعنی آیت میں جو لفظ اہل بیت آیا ہے میں بھی اس میں شامل ہوں؟) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تم اپنی جگہ پر ہی رہو (عبا کے نیچے مت آؤ) اور تم نیکی کے راستے پر ہو۔''

حدیث ثقلین کا مفہوم

چونکہ رسول اسلام نے عترت کو قرآن کاہم پلہ قرار دیا ہے اور دونوں کو امت کے

____________________

(۱)اقتباس از حسن بن علی السقاف صحیح صفة صلاة النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ص ۲۹۴. ۲۸۹

۲۲

درمیان حجت خدا قرار دیا ہے لہٰذا اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں :

۱۔ قرآن کی طرح عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام بھی حجت ہے اور تمام دینی امور خواہ وہ عقیدے سے متعلق ہوں یا فقہ سے متعلق ان سب میں ضروری ہے کہ ان کے کلام سے

تمسک کیا جائے ،اور ان کی طرف سے دلیل و رہنمائی مل جانے کے بعد ان سے روگردانی کر کے کسی اور کی طرف نہیں جانا چاہئے

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد مسلمان خلافت اور امت کے سیاسی امور کی رہبری کے مسئلہ میں دو گروہوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنی بات کو حق ثابت کرنے کے لئے دلیل پیش کرنے لگا اگرچہ مسلمانوں کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے مگر اہل بیت کی علمی مرجعیت کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں کیا جاسکتا

کیونکہ سارے مسلمان حدیث ثقلین کے صحیح ہونے پر متفق ہیں اور یہ حدیث عقائد اور احکام میں قرآن اور عترت کو مرجع قرار دیتی ہے اگر امت اسلامی اس حدیث پر عمل کرتی تو اس کے درمیان اختلاف کا دائرہ محدود اور وحدت کا دائرہ وسیع ہوجاتا.

۲۔ قرآن مجید، کلام خدا ہونے کے لحاظ سے ہر قسم کی خطا اور غلطی سے محفوظ ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس میں خطا اور غلطی کا احتمال دیا جائے جبکہ خداوند کریم نے اس کی یوں توصیف کی ہے:

۲۳

(لاٰیْاتِیهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَلاٰمِنْ خَلْفِهِ تَنزِیل مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ )( ۱ )

''باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے اور یہ حکیم و حمید خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے .''

اگر قرآن مجید ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہے تو اس کے ہم رتبہ اور ہم پلہ افراد بھی ہر قسم

کی خطا سے محفوظ ہیں کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک یا کئی خطاکار افراد قرآن مجید کے ہم پلہ اور ہم وزن قرار پائیں۔ یہ حدیث گواہ ہے کہ وہ افراد ہر قسم کی لغزش اور خطا سے محفوظ اور معصوم ہیں البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ عصمت کا لازمہ نبوت نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی معصوم ہو لیکن نبی نہ ہوجیسے حضرت مریم اس آیۂ شریفہ :

إنَّ ﷲ اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَی نِسَائِ الْعَالَمِینَ )( ۲ )

(اے مریم !) خدا نے تمہیں چن لیا اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دیا ہے ۔

کے مطابق گناہ سے تو پاک ہیں لیکن پیغمبر نہیں ہیں ۔

____________________

(۱)سورہ فصلت آیت ۴۲

(۲) سورہ آل عمران آیت ۴۲

۲۴

دوسرا سوال

شیعہ سے کیا مراد ہے؟

جواب: عربی لغت میں ''شیعہ'' کے معنی ہیں پیروی کرنے والاجیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

(وَإِنَّ مِنْ شِیعَتِهِ لَإِبْرَاهِیم( ۱ )

اور یقیناان (نوح) کے پیروکاروں میں سے ابراہیم بھی ہیں ۔

لیکن مسلمانوں کی اصطلاح میں شیعہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی وفات سے قبل کئی موقعوں پر اپنے جانشین اور خلیفہ کا اعلان فرمایا تھا ان ہی موقعوں میں سے ایک ہجرت کے دسویں سال کی اٹھارہ ذی الحجہ کی تاریخ بھی ہے

جو روز غدیر خم کے نام سے معروف ہے اس دن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کے ایک عظیم مجمع میں اپنے جانشین اور خلیفہ کو اپنے بعد مسلمانوں کے لئے ان کے سیاسی، علمی اور دینی امور میں مرجع قرار دیا تھا اس جواب کی مزید وضاحت یہ ہے : پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱) سورہ صافات آیت ۸۳

۲۵

کے بعد مہاجرین اور انصار دو گروہوں میں بٹ گئے :

۱۔ ایک گروہ کا یہ عقیدہ تھا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسئلہ خلافت کو یونہی نہیں چھوڑ دیا تھا بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے جانشین کو خود معین فرمایا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین حضرت علی بن ابی طالب ـ ہیں جو سب سے پہلے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے تھے

مہاجرین اور انصار کے اس گروہ میں بنی ہاشم کے تمام سربرآوردہ افراد اور بعض بزرگ مرتبہ صحابہ جیسے سلمان ، ابوذر، مقداداور خباب بن ارت وغیرہ سرفہرست تھے مسلمانوں کا یہ گروہ اپنے اسی عقیدے پر باقی رہا، اور یہی افراد علی ـ کے شیعہ کہلائے.

البتہ یہ لقب پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی ہی میں امیر المومنین ـ کے پیروکاروں کو عطا فرمایا تھا آنحضرت نے حضرت علی بن ابی طالب ـ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

والذى نفسي بیده اِنّ هذا و شیعته لهم الفائزون یوم القیامة. ( ۱ )

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدر ت میں میری جان ہے یہ (علی ) اور ان کے پیروکار قیامت کے دن کامیاب ہوں گے.

اس بنا پر شیعہ صدر اسلام کے مسلمانوں کے اس گروہ کو کہا جاتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ منصب ولایت و امامت خدا کی طرف سے معین کیا جاتا ہے اس وجہ سے یہ گروہ اس نام سے مشہور ہوا اور یہ گروہ آج بھی راہ امامت پر گامزن ہے اور اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتا ہے اس وضاحت سے شیعوں کا مرتبہ اور مقام بھی واضح ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بعض جاہل یا مفاد پرست افراد کا یہ کلام بھی باطل ہوجاتا ہے کہ شیعیت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کی پیداوار ہے تاریخ شیعیت کی مزید اور بہتر شناخت کے لئے ''اصل الشیعہ و اصولھا'' ''المراجعات'' اور ''اعیان الشیعہ '' جیسی کتابوں کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

۲۔دوسرے گروہ کا عقیدہ یہ تھا کہ منصب خلافت، انتخابی ہے اور اسی لئے انہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت کی اورمدتوں بعد یہی گروہ''اہل سنت'' یا تسنن کے نام سے مشہور ہوا اور نتیجہ میں ان دو اسلامی گروہوں کے درمیان بہت سے اصولوں میں مشترک نظریات ہونے کے باوجود مسئلہ خلافت اور جانشینی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا۔ واضح رہے کہ ان فرقوں کے بانی افراد مہاجرین اور انصار تھے.

____________________

(۱) تفسیر درالمنثور جلد ۶ جلال الدین سیوطی نے سورۂ بینہ کی ساتویں آیت(إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) کی تفسیر میں یہ حدیث نقل کی ہے.

۲۶

تیسرا سوال

کیوں حضرت علی ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی اور جانشین ہیں ؟

جواب:ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ شیعوں کا راسخ عقیدہ یہ ہے کہ منصب خلافت ، خدا عطا فرماتا ہے اسی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد شروع ہونے والی امامت چند اعتبار سے نبوت کی طرح ہے جس طرح یہ ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا معین فرمائے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی کو بھی خدا ہی معین کرے اس حقیقت کے سلسلے میں حیات پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاریخ بہترین گواہ ہے کیونکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند موقعوں پر اپنا خلیفہ معین فرمایا ہے ہم یہاں ان میں سے تین موقعوں کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔ آغاز بعثت میں :

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اس آیہ کریمہ(وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ )( ۱ ) کے مطابق آئین توحید کی طرف

____________________

(۱) سورہ شعراء آیت ۲۱۴

۲۷

دعوت دیں، تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سب کو خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا ''جو بھی اس راستے میں میری مدد کرے گا ، وہی میرا وصی ، وزیر، اور جانشین ہوگا'' پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے الفاظ یہ تھے:

'' فأیکم یؤازرن ف هذاالأمر علی أن یکون أخى و وزیرى و خلیفتى و وصیى فیکم''

تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہی تمہارے درمیان میرا بھائی، وزیر، وصی اور جانشین قرار پائے؟

اس ملکوتی آواز پر صرف اور صرف علی ابن ابی طالب ـ نے لبیک کہا اس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے رشتہ داروں کی طرف رخ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

''اِن هذا أخى و وصىى و خلیفتى فیکم فاسمعوا له و أطیعوه'' ( ۱ )

بہ تحقیق یہ (علی ) تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور جانشین ہے. اس کی باتوں کو سنو اور اس کی پیروی کرو.

۲۔ غزوۂ تبوک میں

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ سے فرمایا :

____________________

(۱) تاریخ طبری ؛ جلد ۲ ص ۶۳. ۶۲ اور تاریخ کامل جلد ۲ ص ۴۱ ۔۴۰اور مسند احمد جلد۱ ص ۱۱۱ ،

اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) جلد۱۳ ص ۲۱۲. ۲۱۰

۲۸

''أما ترضی أن تکون منى بمنزلة هارون من موسیٰ اِلا أنّه لانبى بعدى'' ( ۱ )

کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کو موسیٰ سے تھی بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا.

یعنی جس طرح ہارون ـ حضرت موسیٰ ـ کے بلا فصل وصی اور جانشین تھے ، اسی طرح تم بھی میرے خلیفہ اور جانشین ہو۔

۳۔ دسویں ہجری میں

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے و اپس لوٹتے وقت غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے درمیان حضرت علی ـ کو مسلمانوں اور مومنوں کا ولی معین کیا اور فرمایا:

''مَن کنت مولاه فهذا علّى مولاه''

''جس کا میں سرپرست اور صاحب اختیار تھا اب یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں .''

یہاں پر جو اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے وہ یہ کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خطبے کے آغاز

____________________

(۲)سیرۂ ابن ہشام جلد۲ ص ۵۲۰ اور الصواعق المحرقہ طبع دوم مصر باب ۹ فصل ۲ ص ۱۲۱.

۲۹

میں ارشاد فرمایا:

''ألستُ أولیٰ بکم مِن أنفسکم؟''

''کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے بڑھ کر حق نہیں رکھتا ؟''

اس وقت تمام مسلمانوں نے یک زبان ہوکر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق کی تھی لہذا یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث کی رو سے جو برتری اور اختیار تام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حاصل تھا وہی برتری و اختیار کامل علی کو حاصل ہے۔

اس اعتبار سے یہاں پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مومنین پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے اسی طرح حضرت علی ـ بھی مومنین کے نفسوں پر برتری اور فوقیت رکھتے ہیں اس دن حسان بن ثابت نامی شاعر نے غدیر خم کے اس تاریخی واقعے کو اپنے اشعار میں اس طرح نظم کیا ہے :

ینادیهم یوم الغدیر نبیُّهم

بخم واسمع بالرسول منادیا

فقال فمن مولاکم و نبیُّکم ؟

فقالوا ولم یبدوا هناک التعامیا

الهک مولانا و أنت نبیُّنا

و لم تلق منا فِ الولایة عاصیا

فقال له قم یا عل فنن

رضیتک من بعد اِماما وهادیا

فمن کنت مولاه فهذا ولیه

فکونوا له أتباع صدق موالیا

هناک دعا: اللّهم وال ولیه

وکن للذ عادیٰ علیاً معادیا( ۱ )

____________________

(۱) المناقب (خوارزمی مالکی)ص ۸۰ اور تذکرة خواص الامہ (سبط ابن جوزی حنفی) ص ۲۰ اور کفایة الطالب ص ۱۷ (مصنف گنجی شافعی) وغیرہ...

۳۰

حدیث غدیر ، اسلام کی ایسی متواتر( ۱ ) احادیث میں سے ایک ہے جس کو شیعہ علماء کے علاوہ تقریبا تین سو ساٹھ سنی علماء نے بھی نقل کیا ہے( ۲ ) یہاں تک کہ اس حدیث کا سلسلہ سند ایک سو دس اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچتا ہے اور عالم اسلام کے چھبیس بزرگ علماء نے اس حدیث کے سلسلۂ سند کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں لکھی ہیں

مشہور مسلمان مورخ ابوجعفر طبری نے اس حدیث شریف کے سلسلۂ اسناد کو دو بڑی جلدوں میں جمع کیا ہے اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے کتاب ''الغدیر'' کا مطالعہ کریں.

____________________

(۱) حدیث متواتر: وہ روایت ہے جو ایسے متعدد اور مختلف راویوں سے نقل ہوئی ہو جس میں ذرا بھی جھوٹ کا شائبہ نہ رہ جائے.(مترجم)

(۲) بطور نمونہ کتاب ''الصواعق المحرقہ'' (ابن حجر) طبع دوم مصر باب ۹ اور فصل ۲ ص ۱۲۲ کا مطالعہ کریں.

۳۱

چوتھا سوال

''ائمہ'' کون ہیں ؟

جواب: پیغمبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی ہی میں یہ بات واضح کردی تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بارہ خلیفے ہوں گے اورسب قریش میں سے ہوں گے اور اسلام کی عزت انہیں خلفاء کی مرہون منت ہوگی.

جابربن سمرہ کہتے ہیں :

''سمعت رسول الله یقول: لایزال السلام عزیزأ اِلی اثنى عشر خلیفةً ثم قال کلمة لا أسمعها فقلت لأبى: ماقال ؟ فقال:کلهم من قریش. ''( ۱ )

میں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو بارہ خلفاء کے ذریعہ عزت حاصل ہوگی اور پھر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی لفظ کہا جسے میں نے نہیں سنا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا

____________________

(۱)صحیح مسلم جلد ۶ صفحہ ۲ طبع مصر

۳۲

فرمایاہے.جواب دیا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ یہ سب قریش میں سے ہوں گے

اسلام کی تاریخ میں ایسے بارہ خلفاء جو اسلام کی عزت کے محافظ اور نگہبان رہے ہوں ان بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے جن کو شیعہ اپنے امام مانتے ہیں کیونکہ جن بارہ خلفاء کا تعارف خود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کرایا تھا وہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلا فصل خلیفہ شمار ہوتے ہیں

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بارہ افراد کون ہیں ؟

اگر ہم ان چار خلفاء سے کہ جن کو اہل سنت خلفاء راشدین کہتے ہیں ، چشم پوشی کرلیں تو دوسرے خلفاء میں سے کوئی بھی عزت اسلام کا باعث نہیں تھاجیسا کہ اموی اور عباسی خلفاء کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے. لیکن شیعوں کے سبھی بارہ ائمہ اپنے اپنے زمانے میں تقوی اور پرہیزگاری کے پیکر تھے.

وہ سب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کے محافظ تھے نیز وہ سب صحابہ کرام، تابعین اور بعد میں آنے والی نسلوں کی توجہ کا مرکز قرار پائے مورخین نے بھی انکے علم اور ان کی وثاقت کی صاف لفظوں میں گواہی دی ہے.

ان بارہ اماموں کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں :

۳۳

۱۔امام علی ابن ابی طالب ـ

۲۔امام حسن بن علی (مجتبیٰ) ـ

۳۔ امام حسین بن علی ـ

۴۔ امام علی ابن الحسین (زین العابدین) ـ

۵۔امام محمد بن علی (باقر) ـ

۶۔ امام جعفر بن محمد (صادق) ـ

۷۔ امام موسیٰ بن جعفر (کاظم) ـ

۸۔ امام علی بن موسیٰ (رضا) ـ

۹۔ امام محمد بن علی (تقی) ـ

۱۰۔ امام علی بن محمد (نقی) ـ

۱۱۔ امام حسن بن علی (عسکری) ـ

۱۲۔ امام مہدی (قائم) ـ

آپ کے سلسلے میں مسلمان محدثین نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متواتر احادیث نقل کی ہیں کہ جن میں آپ کو مہدی موعود (جن کا وعدہ کیا گیا ہے) کے نام سے یاد کیاگیا ہے.

یہ وہ ائمہ معصومین ہیں کہ جنکے اسمائے مبارک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے بیان فرمائے ہیں انکی زندگی سے متعارف ہونے کیلئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا:

۱. تذکرة الخواص (تذکرة خواص الامّہ)

۲.کفایة الاثر

۳.وفیات الاعیان

۴. اعیان الشیعہ(سید محسن امین عاملی) یہ کتاب بقیہ کتابوں کی نسبت زیادہ جامع ہے.

۳۴

پانچواں سوال

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھتے وقت کیوں آل کا اضافہ کرتے ہیں اور: اللّھم صل علی محمد و آل محمد کہتے ہیں ؟

جواب: یہ ایک مسلم اور قطعی بات ہے کہ خود پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو درود پڑھنے کا یہ طریقہ سکھایا ہے جس وقت یہ آیۂ شریفہ:

(إِنَّ ﷲ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِّىِِ یٰاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا )( ۱ ) نازل ہوئی تو مسلمانوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا : ہم کس طرح درود پڑھیں ؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''لاتُصلُّوا علَّ الصلاة البتراء '' مجھ پر ناقص صلوات مت پڑھنا'' مسلمانوں نے پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا:ہم کس طرح درود پڑھیں؟

____________________

(۱)سورہ احزاب آیت ۵۶

۳۵

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہو:اللهم صلِّ علی محمد و آل محمد .( ۱ )

اہل بیت ٪ قدرومنزلت کے ایک ایسے عظیم درجہ پر فائز ہیں جسے امام شافعی نے اپنے ان مشہورا شعار میں قلمبند کیا ہے:

یاأهل بیت رسول الله حبُّکم

فرض من الله فى القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر أنکم

مَن لم یصلِّ علیکم لاصلاة له( ۲ )

ترجمہ:اے اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی محبت کو خدا نے قرآن میں نازل کر کے واجب قرار دے دیا ہے.آپ کی قدر ومنزلت کے لئے بس یہی کافی ہے کہ جو شخص بھی آپ پر صلوات نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہوتی.

____________________

(۱) الصواعق المحرقہ (ابن حجر) طبع دوم مکتبة القاہرہ مصر باب ۱۱ فصل اول ص ۱۴۶ اورایسی روایت تفسیر

در المنثور جلد ۵ سورہ احزاب کی آیت ۵۶ کے ذیل میں بھی موجود ہے اس روایت کو صاحب تفسیر نے محدثین اور کتب صحاح اور کتب مسانید(جیسے عبدالرزاق ، ابن ابی شبیہ، احمد ، بخاری ، مسلم، ابوداؤد ، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ اور ابن مردویہ) سے نقل کیا ہے ۔ مذکورہ راویوں نے کعب ابن عجرہ سے اور انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے.

(۲) الصواعق المحرقہ (ابن حجر) باب ۱۱ ص ۱۴۸ فصل اول اور کتاب اتحاف (شبراوی) ص ۲۹ اور کتاب

مشارق الانوار (حمزاوی مالکی) ص ۸۸ اور کتاب المواہب (زرقانی) اور کتاب الاسعاف (صبان) ص ۱۹۹.

۳۶

چھٹا سوال

آپ اپنے اماموں کو معصوم کیوں کہتے ہیں ؟

جواب:شیعوں کے ائمہ ٪ جو کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہیں ان کی عصمت پر بہت سی دلیلیں موجود ہیں ہم ان میں سے صرف ایک دلیل کا یہاں پر تذکرہ کرتے ہیں :

شیعہ اور سنی دانشوروں نے یہ نقل کیا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ ارشاد فرمایا ہے :

''اِنى تارک فیکم الثقلین کتاب اللّه و أهل بیتى و انهما لن یفترقا حتی یردا علَّى الحوض ۔''( ۱ )

میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں''کتاب خدا'' (قرآن) اور ''میرے اہل بیت '' یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے

____________________

(۱) مستدرک حاکم ، جزء سوم ص ۱۴۸۔اور الصواعق المحرقہ ابن حجر باب ۱۱ فصل اول ص ۱۴۹اور اسی سے ملتی جلتی روایات کنز العمال جزء اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ۴۴، اور مسند احمد جز ء پنجم ص ۱۸۹ ، ۱۸۲اور دیگر کتب میں موجود ہیں

۳۷

یہاں پر ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ : قرآن مجید ہر قسم کے انحراف اور گمراہی سے محفوظ ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وحیِ الہی کی طرف غلطی اور خطا کی نسبت دی جائے جبکہ قرآن کو نازل کرنے والی ذات، پروردگار عالم کی ہے اور اسے لانے والا فرشتۂ وحی ہے اور اسے لینے والی شخصیت پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہے اور ان تینوں کا معصوم ہونا آفتاب کی طرح روشن ہے اسی طرح سارے مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کے لینے، اس کی حفاظت کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے سلسلے میں ہر قسم کے اشتباہ سے محفوظ تھے لھذا یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جب کتاب خدا اس پائیدار اور محکم عصمت کے حصار میں ہے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ٪ بھی ہر قسم کی لغزش اور خطا سے محفوظ ہیں کیونکہ حدیث ثقلین میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کو امت کی ہدایت اور رہبری کے اعتبار سے قرآن مجید کا ہم رتبہ اور ہم پلہ قرار دیا ہے.اور چونکہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن مجید ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں لہذا یہ دونوں عصمت کے لحاظ سے بھی ایک جیسے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ غیر معصوم فرد یا افراد کو قرآن مجید کا ہم پلہ قراردینے کی کوئی وجہ نہ تھی.

اسی طرح ائمہ معصومین ٪ کی عصمت کے سلسلے میں واضح ترین گواہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ جملہ ہے:

'' لن یفترقا حتی یردا علّى الحوض. ''

یہ دو ہرگز (ہدایت اور رہبری میں ) ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیںگے.

۳۸

اگر پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہر قسم کی لغزشوں سے محفوظ نہ ہوں اور ان کے لئے بعض کاموں میں خطا کا امکان پایا جاتا ہو تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوکر (معاذاللہ) گمراہی کے راستے پر چل پڑیں گے کیونکہ قرآن مجید میں خطا اور غلطی کا امکان نہیں ہے لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انتہائی شدت کے ساتھ اس فرضیہ کی نفی فرمائی ہے.

البتہ یہ نکتہ واضح رہے کہ اس حدیث میں لفظ اہل بیت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام نسبی اور سببی رشتہ دار نہیں ہیں کیونکہ اس بات میں شک نہیں ہے کہ وہ سب کے سب لغزشوں سے محفوظ نہیں تھے.

لہذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت میں سے صرف ایک خاص گروہ اس قسم کے افتخار سے سرفراز تھا اور یہ قدر ومنزلت صرف کچھ گنے چنے افراد کے لئے تھی اور یہ افراد وہی ائمہ اہل بیت ٪ ہیں جو ہر زمانے میں امت کو راہ دکھانے والے، سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محافظ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے پاسبان تھے۔

۳۹

ساتواں سوال

اذان میں أشھد أن علیًّا ول اللّہ کیوں کہتے ہیں اور حضرت علی ـ کی ولایت کی شہادت کیوں دیتے ہیں ؟

جواب: بہتر ہے کہ اس سوال کے جواب میں درج ذیل نکات کو مدنظر رکھا جائے:

۱۔تمام شیعہ مجتہدین نے فقہ سے متعلق اپنی استدلالی یا غیر استدلالی کتابوں میں اس بات کو صراحت کیساتھ بیان کیا ہے کہ ولایت علی ـ کی شہادت اذان اور اقامت کا جزء نہیں ہے اور کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ولایت علی کی شہادت کو اذان اور اقامت کا جزء سمجھ کر زبان پر جاری کرے.

۲۔ قرآن مجید کی نگاہ میں حضرت علی ـ ولی خدا ہیں اور خداوندعالم نے اس آیت میں مومنین پرحضرت علی ـ کی ولایت کو بیان کیا ہے:

(إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ ﷲ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیت :۵۵.

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296