شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 79029
ڈاؤنلوڈ: 2849

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79029 / ڈاؤنلوڈ: 2849
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

مقررین اور ائمہ جماعت حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حدیث کوچھوڑ دیںجو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیان نہیں کی ہے بلکہ اس کی جگہ صحیح حدیث سے لوگوں کو آشنا کریں اور وہ حدیث جسے مسلم نے اپنی کتاب ''صحیح'' میں لفظ ''و اہل بیتی'' کے ساتھ اور ترمذی نے لفظ ''عترتی و اہل بیتی'' کے ساتھ نقل کیا ہے اسے لوگوںکے سامنے بیان کریں اسی طرح علم ودانش کے متلاشی افراد کے لئے ضروری ہے کہ علم حدیث سیکھیں تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث کو ایک دوسرے سے جدا کرسکیں.

آخر میں ہم یہ یاددلا دیں کہ حدیث ثقلین میں لفظ ''اہل بیتی'' سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد حضرت علی ـ اور وہ حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت امام حسن ـ اورحضرت امام حسین ـ ہیں ۔

کیونکہ مسلم نے( ۱ ) اپنی کتاب صحیح میں اور ترمذی نے( ۲ ) اپنی کتاب سنن میں حضرت عائشہ سے اس طرح نقل کیا ہے:

نزلت هذه الآیة علیٰ النبى .(اِنّما یریدُ اللّهُ لیذهبَ عَنْکم الرِجْسَ أهْلَ البیتِ و یُطِّهرکم تطهیراً )فى بیت أم سلمة فدعا النبى فاطمة و حسناً و حسیناً فجللهم بکسائٍ و عَلّى خلف

____________________

(۱)صحیح مسلم جلد ۴ ص ۱۸۸۳ ح ۲۴۲۴

(۲)ترمذی جلد ۵ ص ۶۶۳

۲۱

ظهره فجللّه بکساء ثم قال : أللّهم هٰؤلائِ أهل بیت فأذهبعنهم الرجس و طهرهم تطهیرا. قالت أم سلمة و أنا معهم یا نبى اللّه؟ قال أنتِ علیٰ مکانک و أنتِ اِلی الخیر .( ۱ )

یہ آیت(اِنّما یریداللهُ لیذهبَ عَنْکم الرِجْسَ اَهْلَ البیتِ و یُطَهِّرکم تطهیراً )ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فاطمہ ،حسن و حسین کو اپنی عبا کے اندر لے لیا اس وقت علی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیچھے تھے آ پ نے ان کوبھی چادر کے اندر بلا لیااورفرمایا : اے میرے پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں پلیدیوں کو ان سے دور رکھ اور ان کو پاک وپاکیزہ قرار دے۔ ام سلمہ نے کہا : اے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا میں بھی ان میں سے ہوں(یعنی آیت میں جو لفظ اہل بیت آیا ہے میں بھی اس میں شامل ہوں؟) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تم اپنی جگہ پر ہی رہو (عبا کے نیچے مت آؤ) اور تم نیکی کے راستے پر ہو۔''

حدیث ثقلین کا مفہوم

چونکہ رسول اسلام نے عترت کو قرآن کاہم پلہ قرار دیا ہے اور دونوں کو امت کے

____________________

(۱)اقتباس از حسن بن علی السقاف صحیح صفة صلاة النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ص ۲۹۴. ۲۸۹

۲۲

درمیان حجت خدا قرار دیا ہے لہٰذا اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں :

۱۔ قرآن کی طرح عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام بھی حجت ہے اور تمام دینی امور خواہ وہ عقیدے سے متعلق ہوں یا فقہ سے متعلق ان سب میں ضروری ہے کہ ان کے کلام سے

تمسک کیا جائے ،اور ان کی طرف سے دلیل و رہنمائی مل جانے کے بعد ان سے روگردانی کر کے کسی اور کی طرف نہیں جانا چاہئے

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد مسلمان خلافت اور امت کے سیاسی امور کی رہبری کے مسئلہ میں دو گروہوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنی بات کو حق ثابت کرنے کے لئے دلیل پیش کرنے لگا اگرچہ مسلمانوں کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے مگر اہل بیت کی علمی مرجعیت کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں کیا جاسکتا

کیونکہ سارے مسلمان حدیث ثقلین کے صحیح ہونے پر متفق ہیں اور یہ حدیث عقائد اور احکام میں قرآن اور عترت کو مرجع قرار دیتی ہے اگر امت اسلامی اس حدیث پر عمل کرتی تو اس کے درمیان اختلاف کا دائرہ محدود اور وحدت کا دائرہ وسیع ہوجاتا.

۲۔ قرآن مجید، کلام خدا ہونے کے لحاظ سے ہر قسم کی خطا اور غلطی سے محفوظ ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس میں خطا اور غلطی کا احتمال دیا جائے جبکہ خداوند کریم نے اس کی یوں توصیف کی ہے:

۲۳

(لاٰیْاتِیهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَلاٰمِنْ خَلْفِهِ تَنزِیل مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ )( ۱ )

''باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے اور یہ حکیم و حمید خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے .''

اگر قرآن مجید ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہے تو اس کے ہم رتبہ اور ہم پلہ افراد بھی ہر قسم

کی خطا سے محفوظ ہیں کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک یا کئی خطاکار افراد قرآن مجید کے ہم پلہ اور ہم وزن قرار پائیں۔ یہ حدیث گواہ ہے کہ وہ افراد ہر قسم کی لغزش اور خطا سے محفوظ اور معصوم ہیں البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ عصمت کا لازمہ نبوت نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی معصوم ہو لیکن نبی نہ ہوجیسے حضرت مریم اس آیۂ شریفہ :

إنَّ ﷲ اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَی نِسَائِ الْعَالَمِینَ )( ۲ )

(اے مریم !) خدا نے تمہیں چن لیا اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دیا ہے ۔

کے مطابق گناہ سے تو پاک ہیں لیکن پیغمبر نہیں ہیں ۔

____________________

(۱)سورہ فصلت آیت ۴۲

(۲) سورہ آل عمران آیت ۴۲

۲۴

دوسرا سوال

شیعہ سے کیا مراد ہے؟

جواب: عربی لغت میں ''شیعہ'' کے معنی ہیں پیروی کرنے والاجیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

(وَإِنَّ مِنْ شِیعَتِهِ لَإِبْرَاهِیم( ۱ )

اور یقیناان (نوح) کے پیروکاروں میں سے ابراہیم بھی ہیں ۔

لیکن مسلمانوں کی اصطلاح میں شیعہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی وفات سے قبل کئی موقعوں پر اپنے جانشین اور خلیفہ کا اعلان فرمایا تھا ان ہی موقعوں میں سے ایک ہجرت کے دسویں سال کی اٹھارہ ذی الحجہ کی تاریخ بھی ہے

جو روز غدیر خم کے نام سے معروف ہے اس دن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کے ایک عظیم مجمع میں اپنے جانشین اور خلیفہ کو اپنے بعد مسلمانوں کے لئے ان کے سیاسی، علمی اور دینی امور میں مرجع قرار دیا تھا اس جواب کی مزید وضاحت یہ ہے : پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱) سورہ صافات آیت ۸۳

۲۵

کے بعد مہاجرین اور انصار دو گروہوں میں بٹ گئے :

۱۔ ایک گروہ کا یہ عقیدہ تھا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسئلہ خلافت کو یونہی نہیں چھوڑ دیا تھا بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے جانشین کو خود معین فرمایا تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین حضرت علی بن ابی طالب ـ ہیں جو سب سے پہلے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے تھے

مہاجرین اور انصار کے اس گروہ میں بنی ہاشم کے تمام سربرآوردہ افراد اور بعض بزرگ مرتبہ صحابہ جیسے سلمان ، ابوذر، مقداداور خباب بن ارت وغیرہ سرفہرست تھے مسلمانوں کا یہ گروہ اپنے اسی عقیدے پر باقی رہا، اور یہی افراد علی ـ کے شیعہ کہلائے.

البتہ یہ لقب پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی ہی میں امیر المومنین ـ کے پیروکاروں کو عطا فرمایا تھا آنحضرت نے حضرت علی بن ابی طالب ـ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

والذى نفسي بیده اِنّ هذا و شیعته لهم الفائزون یوم القیامة. ( ۱ )

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدر ت میں میری جان ہے یہ (علی ) اور ان کے پیروکار قیامت کے دن کامیاب ہوں گے.

اس بنا پر شیعہ صدر اسلام کے مسلمانوں کے اس گروہ کو کہا جاتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ منصب ولایت و امامت خدا کی طرف سے معین کیا جاتا ہے اس وجہ سے یہ گروہ اس نام سے مشہور ہوا اور یہ گروہ آج بھی راہ امامت پر گامزن ہے اور اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتا ہے اس وضاحت سے شیعوں کا مرتبہ اور مقام بھی واضح ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بعض جاہل یا مفاد پرست افراد کا یہ کلام بھی باطل ہوجاتا ہے کہ شیعیت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کی پیداوار ہے تاریخ شیعیت کی مزید اور بہتر شناخت کے لئے ''اصل الشیعہ و اصولھا'' ''المراجعات'' اور ''اعیان الشیعہ '' جیسی کتابوں کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

۲۔دوسرے گروہ کا عقیدہ یہ تھا کہ منصب خلافت، انتخابی ہے اور اسی لئے انہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت کی اورمدتوں بعد یہی گروہ''اہل سنت'' یا تسنن کے نام سے مشہور ہوا اور نتیجہ میں ان دو اسلامی گروہوں کے درمیان بہت سے اصولوں میں مشترک نظریات ہونے کے باوجود مسئلہ خلافت اور جانشینی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا۔ واضح رہے کہ ان فرقوں کے بانی افراد مہاجرین اور انصار تھے.

____________________

(۱) تفسیر درالمنثور جلد ۶ جلال الدین سیوطی نے سورۂ بینہ کی ساتویں آیت(إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) کی تفسیر میں یہ حدیث نقل کی ہے.

۲۶

تیسرا سوال

کیوں حضرت علی ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی اور جانشین ہیں ؟

جواب:ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ شیعوں کا راسخ عقیدہ یہ ہے کہ منصب خلافت ، خدا عطا فرماتا ہے اسی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد شروع ہونے والی امامت چند اعتبار سے نبوت کی طرح ہے جس طرح یہ ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا معین فرمائے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی کو بھی خدا ہی معین کرے اس حقیقت کے سلسلے میں حیات پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاریخ بہترین گواہ ہے کیونکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند موقعوں پر اپنا خلیفہ معین فرمایا ہے ہم یہاں ان میں سے تین موقعوں کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔ آغاز بعثت میں :

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اس آیہ کریمہ(وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ )( ۱ ) کے مطابق آئین توحید کی طرف

____________________

(۱) سورہ شعراء آیت ۲۱۴

۲۷

دعوت دیں، تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سب کو خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا ''جو بھی اس راستے میں میری مدد کرے گا ، وہی میرا وصی ، وزیر، اور جانشین ہوگا'' پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے الفاظ یہ تھے:

'' فأیکم یؤازرن ف هذاالأمر علی أن یکون أخى و وزیرى و خلیفتى و وصیى فیکم''

تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہی تمہارے درمیان میرا بھائی، وزیر، وصی اور جانشین قرار پائے؟

اس ملکوتی آواز پر صرف اور صرف علی ابن ابی طالب ـ نے لبیک کہا اس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے رشتہ داروں کی طرف رخ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

''اِن هذا أخى و وصىى و خلیفتى فیکم فاسمعوا له و أطیعوه'' ( ۱ )

بہ تحقیق یہ (علی ) تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور جانشین ہے. اس کی باتوں کو سنو اور اس کی پیروی کرو.

۲۔ غزوۂ تبوک میں

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ سے فرمایا :

____________________

(۱) تاریخ طبری ؛ جلد ۲ ص ۶۳. ۶۲ اور تاریخ کامل جلد ۲ ص ۴۱ ۔۴۰اور مسند احمد جلد۱ ص ۱۱۱ ،

اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) جلد۱۳ ص ۲۱۲. ۲۱۰

۲۸

''أما ترضی أن تکون منى بمنزلة هارون من موسیٰ اِلا أنّه لانبى بعدى'' ( ۱ )

کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کو موسیٰ سے تھی بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا.

یعنی جس طرح ہارون ـ حضرت موسیٰ ـ کے بلا فصل وصی اور جانشین تھے ، اسی طرح تم بھی میرے خلیفہ اور جانشین ہو۔

۳۔ دسویں ہجری میں

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے و اپس لوٹتے وقت غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے درمیان حضرت علی ـ کو مسلمانوں اور مومنوں کا ولی معین کیا اور فرمایا:

''مَن کنت مولاه فهذا علّى مولاه''

''جس کا میں سرپرست اور صاحب اختیار تھا اب یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں .''

یہاں پر جو اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے وہ یہ کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خطبے کے آغاز

____________________

(۲)سیرۂ ابن ہشام جلد۲ ص ۵۲۰ اور الصواعق المحرقہ طبع دوم مصر باب ۹ فصل ۲ ص ۱۲۱.

۲۹

میں ارشاد فرمایا:

''ألستُ أولیٰ بکم مِن أنفسکم؟''

''کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے بڑھ کر حق نہیں رکھتا ؟''

اس وقت تمام مسلمانوں نے یک زبان ہوکر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق کی تھی لہذا یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث کی رو سے جو برتری اور اختیار تام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حاصل تھا وہی برتری و اختیار کامل علی کو حاصل ہے۔

اس اعتبار سے یہاں پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مومنین پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے اسی طرح حضرت علی ـ بھی مومنین کے نفسوں پر برتری اور فوقیت رکھتے ہیں اس دن حسان بن ثابت نامی شاعر نے غدیر خم کے اس تاریخی واقعے کو اپنے اشعار میں اس طرح نظم کیا ہے :

ینادیهم یوم الغدیر نبیُّهم

بخم واسمع بالرسول منادیا

فقال فمن مولاکم و نبیُّکم ؟

فقالوا ولم یبدوا هناک التعامیا

الهک مولانا و أنت نبیُّنا

و لم تلق منا فِ الولایة عاصیا

فقال له قم یا عل فنن

رضیتک من بعد اِماما وهادیا

فمن کنت مولاه فهذا ولیه

فکونوا له أتباع صدق موالیا

هناک دعا: اللّهم وال ولیه

وکن للذ عادیٰ علیاً معادیا( ۱ )

____________________

(۱) المناقب (خوارزمی مالکی)ص ۸۰ اور تذکرة خواص الامہ (سبط ابن جوزی حنفی) ص ۲۰ اور کفایة الطالب ص ۱۷ (مصنف گنجی شافعی) وغیرہ...

۳۰

حدیث غدیر ، اسلام کی ایسی متواتر( ۱ ) احادیث میں سے ایک ہے جس کو شیعہ علماء کے علاوہ تقریبا تین سو ساٹھ سنی علماء نے بھی نقل کیا ہے( ۲ ) یہاں تک کہ اس حدیث کا سلسلہ سند ایک سو دس اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچتا ہے اور عالم اسلام کے چھبیس بزرگ علماء نے اس حدیث کے سلسلۂ سند کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں لکھی ہیں

مشہور مسلمان مورخ ابوجعفر طبری نے اس حدیث شریف کے سلسلۂ اسناد کو دو بڑی جلدوں میں جمع کیا ہے اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے کتاب ''الغدیر'' کا مطالعہ کریں.

____________________

(۱) حدیث متواتر: وہ روایت ہے جو ایسے متعدد اور مختلف راویوں سے نقل ہوئی ہو جس میں ذرا بھی جھوٹ کا شائبہ نہ رہ جائے.(مترجم)

(۲) بطور نمونہ کتاب ''الصواعق المحرقہ'' (ابن حجر) طبع دوم مصر باب ۹ اور فصل ۲ ص ۱۲۲ کا مطالعہ کریں.

۳۱

چوتھا سوال

''ائمہ'' کون ہیں ؟

جواب: پیغمبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی ہی میں یہ بات واضح کردی تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بارہ خلیفے ہوں گے اورسب قریش میں سے ہوں گے اور اسلام کی عزت انہیں خلفاء کی مرہون منت ہوگی.

جابربن سمرہ کہتے ہیں :

''سمعت رسول الله یقول: لایزال السلام عزیزأ اِلی اثنى عشر خلیفةً ثم قال کلمة لا أسمعها فقلت لأبى: ماقال ؟ فقال:کلهم من قریش. ''( ۱ )

میں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو بارہ خلفاء کے ذریعہ عزت حاصل ہوگی اور پھر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی لفظ کہا جسے میں نے نہیں سنا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا

____________________

(۱)صحیح مسلم جلد ۶ صفحہ ۲ طبع مصر

۳۲

فرمایاہے.جواب دیا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ یہ سب قریش میں سے ہوں گے

اسلام کی تاریخ میں ایسے بارہ خلفاء جو اسلام کی عزت کے محافظ اور نگہبان رہے ہوں ان بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے جن کو شیعہ اپنے امام مانتے ہیں کیونکہ جن بارہ خلفاء کا تعارف خود پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کرایا تھا وہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بلا فصل خلیفہ شمار ہوتے ہیں

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بارہ افراد کون ہیں ؟

اگر ہم ان چار خلفاء سے کہ جن کو اہل سنت خلفاء راشدین کہتے ہیں ، چشم پوشی کرلیں تو دوسرے خلفاء میں سے کوئی بھی عزت اسلام کا باعث نہیں تھاجیسا کہ اموی اور عباسی خلفاء کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے. لیکن شیعوں کے سبھی بارہ ائمہ اپنے اپنے زمانے میں تقوی اور پرہیزگاری کے پیکر تھے.

وہ سب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کے محافظ تھے نیز وہ سب صحابہ کرام، تابعین اور بعد میں آنے والی نسلوں کی توجہ کا مرکز قرار پائے مورخین نے بھی انکے علم اور ان کی وثاقت کی صاف لفظوں میں گواہی دی ہے.

ان بارہ اماموں کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں :

۳۳

۱۔امام علی ابن ابی طالب ـ

۲۔امام حسن بن علی (مجتبیٰ) ـ

۳۔ امام حسین بن علی ـ

۴۔ امام علی ابن الحسین (زین العابدین) ـ

۵۔امام محمد بن علی (باقر) ـ

۶۔ امام جعفر بن محمد (صادق) ـ

۷۔ امام موسیٰ بن جعفر (کاظم) ـ

۸۔ امام علی بن موسیٰ (رضا) ـ

۹۔ امام محمد بن علی (تقی) ـ

۱۰۔ امام علی بن محمد (نقی) ـ

۱۱۔ امام حسن بن علی (عسکری) ـ

۱۲۔ امام مہدی (قائم) ـ

آپ کے سلسلے میں مسلمان محدثین نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متواتر احادیث نقل کی ہیں کہ جن میں آپ کو مہدی موعود (جن کا وعدہ کیا گیا ہے) کے نام سے یاد کیاگیا ہے.

یہ وہ ائمہ معصومین ہیں کہ جنکے اسمائے مبارک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے بیان فرمائے ہیں انکی زندگی سے متعارف ہونے کیلئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا:

۱. تذکرة الخواص (تذکرة خواص الامّہ)

۲.کفایة الاثر

۳.وفیات الاعیان

۴. اعیان الشیعہ(سید محسن امین عاملی) یہ کتاب بقیہ کتابوں کی نسبت زیادہ جامع ہے.

۳۴

پانچواں سوال

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھتے وقت کیوں آل کا اضافہ کرتے ہیں اور: اللّھم صل علی محمد و آل محمد کہتے ہیں ؟

جواب: یہ ایک مسلم اور قطعی بات ہے کہ خود پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو درود پڑھنے کا یہ طریقہ سکھایا ہے جس وقت یہ آیۂ شریفہ:

(إِنَّ ﷲ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِّىِِ یٰاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا )( ۱ ) نازل ہوئی تو مسلمانوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا : ہم کس طرح درود پڑھیں ؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''لاتُصلُّوا علَّ الصلاة البتراء '' مجھ پر ناقص صلوات مت پڑھنا'' مسلمانوں نے پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا:ہم کس طرح درود پڑھیں؟

____________________

(۱)سورہ احزاب آیت ۵۶

۳۵

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہو:اللهم صلِّ علی محمد و آل محمد .( ۱ )

اہل بیت ٪ قدرومنزلت کے ایک ایسے عظیم درجہ پر فائز ہیں جسے امام شافعی نے اپنے ان مشہورا شعار میں قلمبند کیا ہے:

یاأهل بیت رسول الله حبُّکم

فرض من الله فى القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر أنکم

مَن لم یصلِّ علیکم لاصلاة له( ۲ )

ترجمہ:اے اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی محبت کو خدا نے قرآن میں نازل کر کے واجب قرار دے دیا ہے.آپ کی قدر ومنزلت کے لئے بس یہی کافی ہے کہ جو شخص بھی آپ پر صلوات نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہوتی.

____________________

(۱) الصواعق المحرقہ (ابن حجر) طبع دوم مکتبة القاہرہ مصر باب ۱۱ فصل اول ص ۱۴۶ اورایسی روایت تفسیر

در المنثور جلد ۵ سورہ احزاب کی آیت ۵۶ کے ذیل میں بھی موجود ہے اس روایت کو صاحب تفسیر نے محدثین اور کتب صحاح اور کتب مسانید(جیسے عبدالرزاق ، ابن ابی شبیہ، احمد ، بخاری ، مسلم، ابوداؤد ، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ اور ابن مردویہ) سے نقل کیا ہے ۔ مذکورہ راویوں نے کعب ابن عجرہ سے اور انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے.

(۲) الصواعق المحرقہ (ابن حجر) باب ۱۱ ص ۱۴۸ فصل اول اور کتاب اتحاف (شبراوی) ص ۲۹ اور کتاب

مشارق الانوار (حمزاوی مالکی) ص ۸۸ اور کتاب المواہب (زرقانی) اور کتاب الاسعاف (صبان) ص ۱۹۹.

۳۶

چھٹا سوال

آپ اپنے اماموں کو معصوم کیوں کہتے ہیں ؟

جواب:شیعوں کے ائمہ ٪ جو کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہیں ان کی عصمت پر بہت سی دلیلیں موجود ہیں ہم ان میں سے صرف ایک دلیل کا یہاں پر تذکرہ کرتے ہیں :

شیعہ اور سنی دانشوروں نے یہ نقل کیا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ ارشاد فرمایا ہے :

''اِنى تارک فیکم الثقلین کتاب اللّه و أهل بیتى و انهما لن یفترقا حتی یردا علَّى الحوض ۔''( ۱ )

میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں''کتاب خدا'' (قرآن) اور ''میرے اہل بیت '' یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے

____________________

(۱) مستدرک حاکم ، جزء سوم ص ۱۴۸۔اور الصواعق المحرقہ ابن حجر باب ۱۱ فصل اول ص ۱۴۹اور اسی سے ملتی جلتی روایات کنز العمال جزء اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ۴۴، اور مسند احمد جز ء پنجم ص ۱۸۹ ، ۱۸۲اور دیگر کتب میں موجود ہیں

۳۷

یہاں پر ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ : قرآن مجید ہر قسم کے انحراف اور گمراہی سے محفوظ ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وحیِ الہی کی طرف غلطی اور خطا کی نسبت دی جائے جبکہ قرآن کو نازل کرنے والی ذات، پروردگار عالم کی ہے اور اسے لانے والا فرشتۂ وحی ہے اور اسے لینے والی شخصیت پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہے اور ان تینوں کا معصوم ہونا آفتاب کی طرح روشن ہے اسی طرح سارے مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کے لینے، اس کی حفاظت کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے سلسلے میں ہر قسم کے اشتباہ سے محفوظ تھے لھذا یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جب کتاب خدا اس پائیدار اور محکم عصمت کے حصار میں ہے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ٪ بھی ہر قسم کی لغزش اور خطا سے محفوظ ہیں کیونکہ حدیث ثقلین میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کو امت کی ہدایت اور رہبری کے اعتبار سے قرآن مجید کا ہم رتبہ اور ہم پلہ قرار دیا ہے.اور چونکہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن مجید ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں لہذا یہ دونوں عصمت کے لحاظ سے بھی ایک جیسے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ غیر معصوم فرد یا افراد کو قرآن مجید کا ہم پلہ قراردینے کی کوئی وجہ نہ تھی.

اسی طرح ائمہ معصومین ٪ کی عصمت کے سلسلے میں واضح ترین گواہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ جملہ ہے:

'' لن یفترقا حتی یردا علّى الحوض. ''

یہ دو ہرگز (ہدایت اور رہبری میں ) ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیںگے.

۳۸

اگر پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہر قسم کی لغزشوں سے محفوظ نہ ہوں اور ان کے لئے بعض کاموں میں خطا کا امکان پایا جاتا ہو تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوکر (معاذاللہ) گمراہی کے راستے پر چل پڑیں گے کیونکہ قرآن مجید میں خطا اور غلطی کا امکان نہیں ہے لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انتہائی شدت کے ساتھ اس فرضیہ کی نفی فرمائی ہے.

البتہ یہ نکتہ واضح رہے کہ اس حدیث میں لفظ اہل بیت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام نسبی اور سببی رشتہ دار نہیں ہیں کیونکہ اس بات میں شک نہیں ہے کہ وہ سب کے سب لغزشوں سے محفوظ نہیں تھے.

لہذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت میں سے صرف ایک خاص گروہ اس قسم کے افتخار سے سرفراز تھا اور یہ قدر ومنزلت صرف کچھ گنے چنے افراد کے لئے تھی اور یہ افراد وہی ائمہ اہل بیت ٪ ہیں جو ہر زمانے میں امت کو راہ دکھانے والے، سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محافظ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے پاسبان تھے۔

۳۹

ساتواں سوال

اذان میں أشھد أن علیًّا ول اللّہ کیوں کہتے ہیں اور حضرت علی ـ کی ولایت کی شہادت کیوں دیتے ہیں ؟

جواب: بہتر ہے کہ اس سوال کے جواب میں درج ذیل نکات کو مدنظر رکھا جائے:

۱۔تمام شیعہ مجتہدین نے فقہ سے متعلق اپنی استدلالی یا غیر استدلالی کتابوں میں اس بات کو صراحت کیساتھ بیان کیا ہے کہ ولایت علی ـ کی شہادت اذان اور اقامت کا جزء نہیں ہے اور کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ولایت علی کی شہادت کو اذان اور اقامت کا جزء سمجھ کر زبان پر جاری کرے.

۲۔ قرآن مجید کی نگاہ میں حضرت علی ـ ولی خدا ہیں اور خداوندعالم نے اس آیت میں مومنین پرحضرت علی ـ کی ولایت کو بیان کیا ہے:

(إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ ﷲ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیت :۵۵.

۴۰