شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95391 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اس کا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں

اہل سنت کی صحیح اور مسندکتابوںنے بھی اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ یہ آیۂ شریفہ حضرت علی ـ کی شان میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب آپ نے اپنی انگشتر مبارک حالت رکوع میں فقیر کو عطا کی تھی( ۱ ) جب یہ آیت حضرت امیرالمومنین ـ کی شان میں نازل ہوئی تو شاعر اہل بیت ٪ حسان بن ثابت نے اس واقعے کو اس طرح اپنے اشعار میں ڈھالا تھا:

آپ وہ ہیں کہ جنہوں نے حالت رکوع میں بخشش کی اے بہترین رکوع کرنے والے آپ پر تمام قوم کی جانیں نثار ہوجائیں.

خداوندکریم کی ذات نے آپ کے حق میں بہترین ولایت نازل کی ہے اور اسے شریعتوں کے خلل ناپذیر احکام میں بیان کیا ہے.

____________________

(۱)اس سلسلے میں کہ یہ آیة حضرت علی ـ کی شان میں نازل ہوئی ہے بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن ان تمام کتابوں کا یہاں تذکرہ ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔ تفسیر طبری جلد ۶ ص ۱۸۶.

۲۔احکام القرآن(تفسیر جصاص) جلد۲ ص ۵۴۲.

۳۔ تفسیرالبیضاوی جلد ۱ ص ۳۴۵.

۴۔ تفسیر الدرالمنثور جلد ۲ ص ۲۹۳.

۴۱

۳۔ پیغمبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا

''اِنّما الأعمال بالنیّات''

''بے شک اعمال کا دارمدار نیتوں پر ہے '.'

اس بنا پرجب ''ولایت علی '' ان اصولوں میں سے ایک ہے کہ جنہیں قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، اور دوسری طرف سے اس جملہ (اشهد ان علیاً ول اللّه ) کو اذان کا جزء سمجھ کر نہ کہا جائے تو پھر ہمارے لئے رسالت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی کے ہمراہ ولایت علی کا بھی اعلان کرنے میں کیا حرج ہے ؟ یہاں پرایک نکتہ کا ذکر ضروری ہے اور وہ یہ کہ اگر اذان میں کسی جملے کا اضافہ کرنا مناسب نہیں ہے اور اس کے ذریعہ شیعوں پراعتراض کیا جاتا ہے تو ذیل میں بیان ہونے والی ان دو باتوں کی کس طرح توجیہ کی جائے گی :

۱۔معتبر تاریخ گواہ ہے کہ یہ جملہ''حّى علیٰ خیر العمل'' اذان کا جزء تھا( ۱ ) لیکن خلیفہ دوم نے اپنی خلافت کے زمانے میں یہ تصور کیا کہ کہیں لوگ اس جملے کو اذان میں سن کر یہ گمان نہ کر بیٹھیں کہ تمام اعمال کے درمیان صرف نماز ہی بہترین عمل ہے اور پھر جہاد پر جانا چھوڑ دیں گے لہذا اس جملے کو اذان سے حذف کردیا اور پھر

____________________

(۱) کتاب کنزالعمال، کتاب الصلوة جلد ۴ ص ۲۶۶ طبرانی سے منقول ہے:''کان بلال یؤذن بالصبح فیقول : حی علی خیر العمل .''بلال جب اذان صبح دیتے تھے تو کہتے تھےحّي علیٰ خیر العمل .اور سنن بیہقی جلد ۱ ص ۴۲۴ اور ص ۴۲۵ اور مؤطا جلد ۱ ص ۹۳ میں بھی یہ بات درج ہے.

۴۲

اذان اسی حالت پر باقی رہی.( ۱ )

۲۔''الصلاة خیر من النوم''یه جملہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اذان کا جزء نہیں تھا بعد میں یہ جملہ اذان میں بڑھا یا گیاہے( ۲ )

اسی وجہ سے امام شافعی نے اپنی کتاب ''الامّ'' میں کہا ہے :

''أکره فى الأذان الصلاة خیر من النوم لأن أبا مخدوره لم یذکره'' ( ۳ )

اذان میں الصلوة خیر من النوم کہنا مجھے پسند نہیں ہے کیونکہ ابو مخدورہ (جو کہ ایک راوی اور محدث ہیں ) نے اس جملے کا (اپنی حدیث میں ) ذکر نہیں کیا ہے۔

____________________

(۱) کنزالعرفان جلد ۲ ص ۱۵۸ اور کتاب ''الصراط المستقیم'' وجواہر الاخبار والآثار اور شرح تجرید (قوشچی)

ص ۴۸۴ میں ہے کہ :صعد المنبر و قال: أیهاالناس ثلاث کنّ علی عهد رسول اللّه أنا أنهیٰ عنهنّ و أحرمهن و أُعاقب علیهن و ه متعة النساء و متعة الحج و حّ علیٰ خیر العمل.''

(۲) کنزالعمال ، کتاب الصلوة جلد ۴ ص ۲۷۰

(۳)دلائل الصدق جلد ۳ القسم الثانی ص ۹۷ سے ماخوذ.

۴۳

آٹھواں سوال

مہدی آل محمدعلیہ السلام کون ہیں اور انکا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟

جواب: کچھ امور ایسے ہیں جن کے سلسلے میں تمام آسمانی شریعتیں اتفاق نظر رکھتی ہیں ان میں سے ایک امر عالمی مصلح کا وجود بھی ہے جو کہ آخری زمانہ میں ظہور کرے گا اس سلسلے میں صرف مسلمان نہیں بلکہ یہودی اور عیسائی بھی اس کی آمد کے منتظر ہیں جو پوری دنیا میں عدل و انصاف قائم کریگااسکے لئے اگر کتاب عہد عتیق اور عہد جدید کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت واضح ہوجائے گی.( ۱ )

اس سلسلہ میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث بھی موجود ہے کہ جسے مسلمان محدثین نے نقل کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں :

''لولم یبق من الدهر اِلا یوم لبعث اللّه رجلاًمن

____________________

(۱) عہد عتیق : مز امیر داؤد ، مز مور ۹۷ ۔ ۹۶ اور کتاب دانیال نبی باب ۱۲ عہد جدید : انجیل متی باب ۲۴ انجیل

مرقوس باب ۱۳ انجیل لوقا باب ۲۱ (جہاں اس موعود کے بارے میں بیان ہوا ہے جس کے انتظار میں دنیا ہے .)

۴۴

أهل بیتى یملأ ها عدلا کما ملئت جوراً'' ( ۱ )

اگر زمانے کا صرف ایک ہی دن باقی بچے گا تب بھی خداوندعالم میرے خاندان میں سے ایک فرد کو مبعوث کرے گا جوکہ اس جہان کو اسی طرح سے عدالت سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھرا ہوا ہوگا.

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں ایک مصلح کے آنے کا عقیدہ تمام آسمانی شریعتوں میں موجود ہے اسی طرح اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں میں بھی امام مھدی عج کے بارے میں بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں اور ان دونوں(شیعہ اور سنی) اسلامی فرقوں کے محدثین اور محققین نے امام زمانہ عج کے بارے میں بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں( ۲ )

روایات کے اس مجموعے میں انکی وہ خصوصیات اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں جو صرف شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری ـ کے بلافصل فرزند ہی میں پائی جاتی ہیں( ۳ ) ان روایات کے مطابق امام مہدی ـ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم نام ہیں( ۴ ) ۔

____________________

(۱) صحیح ابی داؤد جلد ۲ ص ۲۰۷ طبع مصر مطبعہ تازیہ ، ینابیع المودة ص ۴۳۲اور کتاب نور الابصار باب ۲ ص ۱۵۴.

(۲) جیسے کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف محمد بن یوسف بن الکنجی الشافعی ہے اور اسی طرح کتاب البرھان فی علامات مھدی آخر الزمان تالیف علی بن حسام الدین جو کہ متقی ھندی کے نام سے مشہور ہیں اور اسی طرح کتاب المہدی والمہدویت تالیف احمد امین مصری ہے البتہ شیعہ علماء نے اس بارے میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں جنہیں شمار کرنا آسان کام نہیں ہے جیسے کتاب الملاحم والفتن وغیرہ

(۳) ینابیع المودة باب ۷۶، مناقب میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے.

(۴) صحیح ترمذی ،مطبوعہ دہلی ۱۳۴۲ ،جلد ۲ ص ۴۶ اور مسند احمدمطبوعہ مصر ۱۳۱۳

۴۵

یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ اس قسم کی طولانی عمر نہ تو علم اور دانش کے خلاف ہے اور نہ ہی منطق وحی سے تضاد رکھتی ہے آج کی علمی دنیا انسانوں کی طبیعی عمر کو بڑھانا چاہ رہی ہے صاحبان علم اور سائنسدانوں کا یہ یقین ہے کہ ہر انسان کے اندر لمبی عمر گذارنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور اگراسے بعض آفتوں اور بیماریوں سے بچالیا جائے تو قوی امکان ہے کہ اس کی عمر بڑھ جائیگی.

تاریخ نے بھی اپنے دامن میں ایسے افراد کے نام محفوظ کئے ہیں جنہوں نے اس دنیا میں طولانی عمر پائی ہے

قرآن مجیدحضرت نوح ـ کے بارے میں فرماتا ہے:

(فَلَبِثَ فِیهِمْ َلْفَ سَنَةٍ ِلاَّ خَمْسِینَ عَامًا )( ۱ )

اور (نوح)اپنی قوم کے درمیان نوسوپچاس سال رہے

اور اسی طرح قرآن مجید حضرت یونس ـ کے بارے میں فرماتا ہے :

(فَلَوْلا أنّهُ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِى بَطْنِه إ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ )( ۲ )

پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی) کے شکم میں رہتے.

اسی طرح قرآن مجیداور تمام مسلمانوں کے نظریہ کے مطابق حضرت خضر ـ اور حضرت عیسیٰ ـ ابھی تک باحیات ہیں اور زندگی گذار رہے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ عنکبوت آیت ۱۴

(۲) سورہ صافات آیت ۱۴۴

۴۶

نواں سوال

اگر شیعہ حق پر ہیں تو وہ اقلیت میں کیوں ہیں ؟ اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نہیں ماناہے؟

جواب: کبھی بھی حق اور باطل کی شناخت ماننے والوں کی تعداد میں کمی یا زیادتی کے ذریعہ نہیں ہوتی.آج اس دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اسلام قبول نہ کرنے والوں کی بہ نسبت ایک پنجم یا ایک ششم ہے جبکہ مشرق بعید میں رہنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بت اور گائے کی پوجا کرتے ہیں یا ماورائے طبیعت کا انکار کرتے ہیں

چین جس کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ہے کیمونیزم کا مرکز ہے اور ہندوستان جس کی آبادی تقریباًایک ارب ہے اسکی اکثریت ایسے افراد کی ہے جو گائے اور بتوں کی پوجا کرتی ہے اسی طرح یہ ضروری نہیں ہے کہ اکثریت میں ہونا حقانیت کی علامت ہو قرآن مجید نے اکثر و بیشتر اکثریت کی مذمت کی ہے اور بعض اوقات اقلیت کی تعریف کی ہے اس سلسلے میں ہم چند آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :

۴۷

۱۔ (وَلا تَجِدُا َکْثَرَهُمْ شَاکِرِین )( ۱ )

اور تم اکثریت کو شکر گزار نہ پاؤگے.

۲۔(اِنْ اَوْلِیَاؤُهُا ِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَکِنَّ َاکْثَرَهُمْ لایَعْلَمُونَ )( ۲ )

اس کے ولی صرف متقی اور پرہیزگار افراد ہیں لیکن ان کی اکثریت اس سے بھی بے خبر ہے.

۳۔ (وَقَلِیل مِنْ عِبَادِى الشَّکُورُ )( ۳ )

اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں

لہذا کبھی بھی حقیقت کے متلاشی انسان کو اپنے آئین کی پیروی کرنے والوں کو اقلیت میں دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیئے اور اسی طرح اگر وہ اکثریت میں ہوجائیں تو فخر ومباہات نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بہتر یہ ہے کہ ہر انسان اپناچراغ عقل روشن کرے اور اس کی روشنی سے بہرہ مند ہو.

ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی ـ کی خدمت میں عرض کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ جنگ جمل میں آپ کے مخالفین اکثریت پر ہونے کے باوجود باطل پر ہوں؟

امام ـ نے فرمایا :

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت ۱۷

(۲)سورہ انفال آیت ۳۴

(۳)سورہ سبا آیت ۱۳

۴۸

''اِنّ الحق والباطل لایعرفان بأقدارالرجال اعرف الحق تعرف أهله اعرف الباطل تعرف أهله ۔ ''

حق اور باطل کی پہچان افراد کی تعداد سے نہیں کی جاتی بلکہ تم حق کو پہچان لو خود بخود اہل حق کو بھی پہچان لو گے اور باطل کو پہچان لوتو خودبخود اہل باطل کو بھی پہچان لوگے

ایک مسلمان شخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو علمی اور منطقی طریقے سے حل کرے اور اس آیۂ شریفہ (وَلاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْم )( ۱ ) کو چراغ کی مانند اپنے لئے مشعل راہ قرار دے اس سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو اگرچہ اہل تشیع تعداد میں اہل سنت سے کم ہیں لیکن اگر صحیح طور پر مردم شماری کی جائے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک چوتھائی افراد شیعہ ہیں جوکہ دنیا کے مختلف مسلمان نشین علاقوں میں زندگی بسر کرر ہے ہیں( ۲ )

واضح رہے کہ ہر دور میں شیعوں کے بڑے بڑے علماء اور مشہور مولفین اور مصنفین رہے ہیں اور یہاں پریہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ اکثر اسلامی علوم کے موجد اور بانی شیعہ ہی تھے جن میں سے چند یہ ہیں :

علم نحو کے موجد ابوالاسود دئلی

____________________

(۱) سورہ اسراء آیت ۳۶

(۲)زیادہ وضاحت کیلئے ''اعیان الشیعہ''جلد ۱بحث۱۲اور صفحہ ۱۹۴کی طرف مراجعہ کیا جائے.

۴۹

علم عروض کے بانی خلیل بن احمد

علم صرف کے موجد معاذ بن مسلم بن ابی سارہ کوفی

علم بلاغت کو فروغ دینے والوں میں سے ایک ابوعبداللہ بن عمران کاتب خراسانی

(مرزبانی)( ۱ )

شیعہ علماء اور دانشوروں کی کثیر تالیفات (جن کو شمار کرنا بہت دشوار کا م ہے) کی شناخت کے لئے کتاب (الذریعہ الی تصانیف الشیعہ) کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

____________________

(۱)اس بارے میں سید حسن صدر کی کتاب ''تاسیس الشیعہ '' کا مطالعہ کریں.

۵۰

دسواں سوال

رجعت کیا ہے اور آپ اس پر کیوں عقیدہ رکھتے ہیں ؟

جواب: عربی لغت میں رجعت کے معنی ہیں ''لوٹنا'' اسی طرح اصطلاح میں ''موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کچھ انسانوں کے اس دنیا میں لوٹنے '' کو رجعت کہا جاتا ہے یہ رجعت حضرت مہدی ـ کے ظہور کے دور میں واقع ہوگی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ تو عقل کے مخالف ہے اور نہ ہی منطق وحی کے برخلاف ہے.

اسلام اور دوسرے ادیان الہی کی نظر میں انسان کے وجود میں جو چیز اصل ہے وہ اس کی روح ہے جسے ''نفس'' کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہی وہ چیز ہے جو بدن کے فنا ہوجانے کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور اپنی جاودانہ زندگی بسر کرتی رہتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید کی نگاہ میں پروردگار عالم کی ذات قادر مطلق ہے اور کوئی بھی چیز اس کی لامحدود قدرت کو محدود نہیں کرسکتی

ان دو مختصر مقدموں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رجعت کا مسئلہ عقل کی نگاہ سے ایک ممکن امر ہے کیونکہ تھوڑی سی فکر سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ انسانوں کے ایک گروہ کو اس دنیا میں دوبارہ واپس بھیجنا ان کی پہلی خلقت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ آسان ہے.

۵۱

لہذا وہ پروردگار جس نے انہیں پہلے مرحلے میں خلق فرمایا ہے یقینا ان کو دوبارہ اس دنیا میں لوٹانے پر قادر ہے اگر وحی الھی کی بنیاد پر رجعت کو گزشتہ امتوں میں تلاش کیا جائے تواس کے مختلف نمونے مل سکتے ہیں

قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:

(وَاِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی ﷲ جَهْرَةً فَاَخَذَتْکُمْ الصَّاعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنظُرُونَ ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ )( ۱ )

اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو آشکارا طور پر نہ دیکھ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد زندہ کردیا کہ شاید شکر گزار بن جاؤ.

اسی طرح قرآن مجید ایک اور مقام پر حضرت عیسی ـ کی زبان سے نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَاُحْی الْمَوْتَی بِاِذْنِ ﷲِ )( ۲ )

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیت :۵۵۔۵۶

(۲)سورہ آل عمران آیت: ۴۹

۵۲

اور میں خدا کی اجازت سے مردوں کو زندہ کروںگا.

قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ رجعت کو ایک ممکن امر قرار دیا ہے بلکہ انسانوں کے ایک ایسے گروہ کی تائید بھی کی جو اس دنیا سے جاچکا تھا اور پھر اس دنیا میں دوبارہ واپس آگیا قرآن مجید نے مندرجہ ذیل دو آیتوں میں ان دو گروہوں کا تذکرہ کیا ہے جو مرنے کے بعد قیامت سے قبل دنیا میں واپس آئے ہیں

(وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنْ الْاَرْضِ تُکَلِّمُهُمْ اَنَّ النَّاسَ کَانُوا بِآیَاتِنَا لایُوقِنُونَ وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَهُمْ یُوزَعُونَ )( ۱ )

اور جب ان پر وعدہ پورا ہوگا تو ہم زمین سے ایک چلنے والی مخلوق کو نکال کر کھڑا کردیں گے جو ان سے یہ بات کرے کہ کون لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے اور اس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکھٹا کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے اور پھر ان کو روک لیا جائے گا.

ان دو آیتوں کے ذریعہ قیامت سے پہلے واقع ہونے والی رجعت کے سلسلے میں استدلال کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

____________________

(۱)سورہ نمل آیت ۸۲اور ۸۳.

۵۳

۱۔تمام مسلمان مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ یہ دو آیتیں قیامت سے متعلق ہیں اور پہلی آیت قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کو بیان کررہی ہے، اس سلسلے میں جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر ''الدرالمنثور'' میں ابن ابی شیبہ اورانہوں نے حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ ''خروج دابة'' (چلنے والی مخلوق کا نکلنا) قیامت سے پہلے رونماہونے

والے واقعات میں سے ایک ہے.( ۱ )

۲۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو محشور کیا جائے گا ، اور ایسا نہیں ہے کہ اس دن ہر امت میں سے ایک خاص گروہ کو محشور کیا جائے گا. قرآن مجید نے قیامت میں تمام انسانوں کے محشور ہونے کے بارے میں یوں فرمایا ہے:

(ذٰلِکَ یَوْم مَجْمُوع لَهُ النَّاسُ )( ۲ )

وہ ایک دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے.( ۳ )

اور ایک جگہ فرماتا ہے:

(وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَةً وَ حَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا )( ۴ )

____________________

(۱)تفسیر درمنثور جلد ۵ ص ۱۷۷۔ سورہ نمل کی آیت نمبر ۸۲کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)سورہ ہود آیت : ۱۰۳

(۳)تفسیر درمنثور جلد ۳ ص ۳۴۹ ۔اس دن کی تفسیر قیامت سے کی گئی ہے۔

(۴)سورہ کہف آیت: ۴۷

۵۴

اورجس دن ہم پہاڑوں کو حرکت میں لائیں گے اور تم زمین کو بالکل کھلا ہوا دیکھو گے اور ہم سب کو اس طرح جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے

اس اعتبار سے قیامت کے دن تمام انسان محشور ہوں گے اور یہ بات انسانوں کے کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے.

۳۔ان دو گذشتہ آیتوں میں دوسری آیت اس بات کا صریح اعلان کررہی ہے کہ امتوں میں سے کچھ خاص افراد کو محشور کیا جائے گا اور تمام انسانوں کو محشور نہیں کیا جائے گاکیونکہ آیہ کریمہ میں ہے :

(ویوم نحشرمن کل أمة فوجاً ممن یُّکذِّب بآیاتنا )

اور اس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکھٹا کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے.

آیت کا یہ حصہ واضح طور پر اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ تمام انسانوں کو محشور نہیں کیا جائے گا.

نتیجہ:ان تین مختصر مقدموں کی روشنی میں یہ مطلب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ آیات الہی کی تکذیب کرنے والے انسانوں میں سے ایک خاص گروہ کا محشور ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جو قیامت سے پہلے واقع ہوگا اور یہی بات دوسری آیت سے بھی سمجھ میں آتی ہے.

۵۵

کیونکہ قیامت کے دن کوئی خاص گروہ محشور نہیں ہوگا بلکہ اس دن تمام انسان محشور کئے جائیں گے اس بیان کے ساتھ ہمارا یہ دعوی صحیح ثابت ہوجاتا ہے کہ انسانوں کے ایک خاص گروہ کو ان کی موت کے بعد قیامت سے پہلے اس دنیا میں لوٹایا جائے گااور اسی کا نام ''رجعت'' ہے.

اسی طرح اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی جو ہمیشہ قرآن کے ہمراہ ہیں اور کلام الہی کے حقیقی مفسر ہیں اس سلسلے میں اپنی احادیث کے ذریعہ وضاحت فرمائی ہے یہاں پر ہم اختصار کی وجہ سے ان کے صرف دو ارشادات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

امام صادق ـ فرماتے ہیں :

''أیام اللّه ثلاثة یوم القائم ـ ویوم الکَرّة، و یوم القیامة ''

خدا کے تین دن ہیں حضرت امام مہدی ـ کا دن ،رجعت کا دن ، اور قیامت کا دن .اور ایک مقام پر فرماتے ہیں :

''لیس منا مَن لم یؤمن بکرّتنا ۔''

جو شخص ہماری رجعت کو قبول نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے.آخر میں مناسب ہے کہ دو اہم نکتوں کو واضح کردیا جائے:

۱۔رجعت کا فلسفہ

رجعت کے اسباب وعلل کے بارے میں غور کرنے سے دو اہم مقاصد سمجھ میں آتے ہیں پہلا مقصد یہ ہے کہ رجعت کے ذریعہ اسلام کی حقیقی عزت و عظمت اور کفر کی ذلت کو آشکار کیا جائے اور دوسرامقصد یہ ہے کہ باایمان اور نیک انسانوں کو ان کے اعمال کی جزا مل سکے اور کافروں اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے.

۵۶

۲۔رجعت اور تناسخ( ۱ ) کے درمیان واضح فرق

یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ شیعہ جس رجعت پر عقیدہ رکھتے ہیں :اس کا لازمہ تناسخ کا معتقد ہونا نہیں ہے کیونکہ نظریہ تناسخ کی بنیاد قیامت کے انکار پر ہے اور تناسخ والے اپنے اس نظرئیے کے مطابق دنیا کو دائمی طور پر گردش میں جانتے ہیں اوراس کا ہر دور اپنے پہلے والے دور کی تکرار ہے. اس نظرئیے کے مطابق انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح دوبارہ اس دنیا میں پلٹتی ہے اور کسی دوسرے بدن میں منتقل ہوجاتی ہے اور اگر وہ روح گزشتہ زمانے میں کسی نیک آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اب اس زمانے میں کسی ایسے آدمی کے بد ن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی خوشی و مسرت کے ساتھ بسر ہونے والی ہو لیکن اگر

____________________

(۱)تناسخ : یعنی روح کا ایک بدن سے نکل کر دوسرے میں داخل ہوجاناجسے آواگون کہتے ہیں .(مترجم)

۵۷

یہ روح گزشتہ زمانے میں کسی بدکار آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اس زمانے میں ایسے آدمی کے بدن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی سختیوں میں گزرنے والی ہو اس نظریئے کے اعتبار سے روح کا اس طرح سے واپس لوٹنا ہی اسکی قیامت ہے.

جبکہ رجعت کا عقیدہ رکھنے والے اسلامی شریعت کی پیروی کرتے ہوئے قیامت اور معاد پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ کسی روح کاایک بدن سے کسی دوسرے بدن میں منتقل ہونا محال ہے( ۱ )

اہل تشیع صرف یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں میں سے ایک گروہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں واپس آئے گا اور چند حکمتوں اور مصلحتوں کے پورا ہوجانے کے بعد پھر اس دنیا سے چلا جائے گا. یہاں تک کہ یہ گروہ بھی باقی انسانوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا. اس اعتبار سے روح ایک بدن سے جدا ہونے کے بعد ہرگز دوسرے بدن میں منتقل نہیں ہوگی۔

____________________

(۱)صدرالمتألہین نے اپنی کتاب اسفار (جلد ۹ باب ۸ فصل اول ص۳) میں نظریہ تناسخ کو باطل کرتے ہوئے یوں تحریر فرمایا ہے: اگر ایک بدن سے نکلی ہوئی روح کسی دوسرے بدن میں اس حالت میں داخل ہوجائے جبکہ وہ بدن ابھی جنین کی شکل میں رحم مادر میں ہے یا اس کے علاوہ کسی دوسرے مرحلہ میں ہو تو اس صورت میں یہ لازم آئے گا کہ ایک ہی چیز بالقوہ بھی ہو اوربالفعل بھی،اور جو چیز بالفعل ہے اس کا بالقوة ہونا محال ہے اس لئے کہ ان دونوں میں مادی و اتحادی ترکیب ہے اور ایسی ترکیب طبیعی محال ہے جس میں دو ایسے امر جمع ہورہے ہوں جن میں سے ایک بالفعل ہے اور دوسرا بالقوہ.

۵۸

گیارہواں سوال

جس شفاعت کا آپ عقیدہ رکھتے ہیں وہ کیا ہے؟

جواب: شفاعت، اسلام کی ایک ایسی مسلم الثبوت اصل ہے جسے تمام اسلامی فرقوں نے قرآن کی آیات اور روایات کی پیروی کرتے ہوئے قبول کیا ہے بس صرف ان کے درمیان شفاعت کے نتیجے کے بارے میں اختلاف نظر ہے

شفاعت کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا محترم انسان جو پروردگار کے نزدیک صاحب مقام ومنزلت ہو وہ خداوند متعال سے کسی شخص کے گناہوں کی بخشش یا اس کے درجات کی بلندی کی دعا کرے.

رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

''أعطیت خمسًا...و أعطیت الشفاعة فادخرتها لأمتى ''( ۱ )

____________________

(۱) مسند احمدجلد ۱ ص ۳۰۱ ، صحیح بخاری جلد ۱ ص۹۱ ط مصر.

۵۹

پانچ چیزیں مجھے عطا کی گئی ہیں اور شفاعت مجھے عطا ہوئی ہے جسے میں نے اپنی امت کے لئے ذخیرہ کردیا ہے.

شفاعت کا دائرہ

قرآن مجید کی نگاہ میں وہ شفاعت صحیح نہیں ہے جو کسی قید اور شرط کے بغیرہو بلکہ شفاعت صرف مندرجہ ذیل صورتوں میں مؤثر ہوگی:

۱۔شفاعت کرنے والا اس وقت شفاعت کرسکتا ہے جب کہ اسے شفاعت کرنے کے لئے خداوندعالم کی جانب سے اجازت حاصل ہو لہذا صرف وہ لوگ شفاعت کرسکتے ہیں جنہیں خدا سے معنوی قربت بھی حاصل ہو اوروہ اذن شفاعت بھی رکھتے ہوں قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:

(لایَمْلِکُونَ الشَّفَاعَةَ اِلاَّ مَنْ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَانِ عَهْدًا )( ۱ )

اس وقت کوئی شفاعت کے سلسلے میں صاحب اختیار نہ ہوگا مگر وہ جس نے رحمان کی بارگاہ میں شفاعت کا عہد لے لیا ہے

اور ایک اور جگہ پر فرماتا ہے:

____________________

(۱)سورہ مریم آیت: ۸۷

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

(۴۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة خارجا من الكوفة إلى صفين

الْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا وَقَبَ لَيْلٌ وغَسَقَ والْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وخَفَقَ والْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَفْقُودِ الإِنْعَامِ ولَا مُكَافَإِ الإِفْضَالِ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِي وأَمَرْتُهُمْ بِلُزُومِ هَذَا الْمِلْطَاطِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرِي - وقَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَقْطَعَ هَذِه النُّطْفَةَ إِلَى شِرْذِمَةٍ مِنْكُمْ - مُوَطِّنِينَ أَكْنَافَ دِجْلَةَ - فَأُنْهِضَهُمْ مَعَكُمْ إِلَى عَدُوِّكُمْ - وأَجْعَلَهُمْ مِنْ أَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.

قال السيد الشريف أقول يعنيعليه‌السلام بالملطاط هاهنا السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من الأرض ويعني بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات وعجيبها.

(۴۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا)

پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری(۱) ایک مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر سکوں۔

سید رضی : ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں ہے۔

(۱)اس جماعت سے مراد اہل مدائن ہیں جنہیں حضرت اس جہاد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کے ذریعہ لشکر کی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔خطبہ کے آغاز میں رات اور ستاروں کاذکر اسامر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لشکراسلام کو رات کی تاریکی اورستارہ کے غروب و زوال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔نور مطلق اور ضیاء مکمل ساتھ ہے تو تاریکی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور ستاروں کا کیا بھروسہ ہے۔ستارے تو ڈوب بھی جاتے ہیں لیکن جو پروردگار قابل حمدو ثناء ہے اس کے لئے زوال و غروب نہیں ہے اور وہ ہمیشہ بندۂ مومن کے ساتھ رہتا ہے۔!

۸۱

(۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي بَطَنَ خَفِيَّاتِ الأَمُوُرِ - ودَلَّتْ عَلَيْه أَعْلَامُ الظُّهُورِ - وامْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ - فَلَا عَيْنُ مَنْ لَمْ يَرَه تُنْكِرُه - ولَا قَلْبُ مَنْ أَثْبَتَه يُبْصِرُه - سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْءَ أَعْلَى مِنْه - وقَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْءَ أَقْرَبُ مِنْه - فَلَا اسْتِعْلَاؤُه بَاعَدَه عَنْ شَيْءٍ مِنْ خَلْقِه - ولَا قُرْبُه سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِه - لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِه - ولَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه - فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَه أَعْلَامُ الْوُجُودِ - عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ - تَعَالَى اللَّه عَمَّا يَقُولُه الْمُشَبِّهُونَ بِه - والْجَاحِدُونَ لَه عُلُوّاً كَبِيراً!

(۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں آنے والا نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت برابر کی جگہ پر لا سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں سے بلند وبالاتر ہے۔

۸۲

(۵۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه الفتن

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ - يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّه - ويَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّه - فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ - لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ ولَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ - انْقَطَعَتْ عَنْه أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ - ولَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ ومِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ - فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِه - ويَنْجُو( الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ ) مِنَ اللَّه( الْحُسْنى ).

(۵۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے)

فتنوں) ۱) کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے ' اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اورایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔

(۱)اس ارشاد گرامی کا آغاز لفظ انما سے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کا ہرفتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامیہ نے روز اول کتاب خدا کے خلاف میراث کے احکام وضع نہ کئے ہوتے اور اگرمنصب و اقتدار کی خواہش میں ''من کنت مولاہ '' کا انکار نہ کیا ہوتااور کچھ لوگ کچھ لوگوں کے ہمدرد نہ ہوگئے ہوتے اور نص پیغمبر (ص) کے ساتھ سن و سال اورصحابیت و قرابت کے جھگڑے نہ شامل کردئیے ہوتے تو آج اسلام بالکل خالص اورصریح ہوتا اور امت میں کسی طرح کا فتنہ وفساد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور امت ایک دائمی فتنہ میں مبتلا ہوگئی جس کا سلسلہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔

۸۳

(۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما غلب أصحاب معاوية أصحابهعليه‌السلام على شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء

قَدِ اسْتَطْعَمُوكُمُ الْقِتَالَ فَأَقِرُّوا عَلَى مَذَلَّةٍ وتَأْخِيرِ مَحَلَّةٍ - أَوْ رَوُّوا السُّيُوفَ مِنَ الدِّمَاءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ فَالْمَوْتُ فِي حَيَاتِكُمْ مَقْهُورِينَ،والْحَيَاةُ فِي مَوْتِكُمْ قَاهِرِينَ - أَلَا وإِنَّ مُعَاوِيَةَ قَادَ لُمَةً مِنَ الْغُوَاةِ - وعَمَّسَ عَلَيْهِمُ الْخَبَرَ - حَتَّى جَعَلُوا نُحُورَهُمْ أَغْرَاضَ الْمَنِيَّةِ.

(۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في التزهيد في الدنيا وثواب الله للزاهد ونعم الله على الخالق

التزهيد في الدنيا

أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ - وتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وأَدْبَرَتْ حَذَّاءَ فَهِيَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا - وتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا

(۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا)

دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔

(۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے )

آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

۸۴

وقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْواً وكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْواً - فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّه - الرَّحِيلَ عَنْ هَذِه الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ - ولَا يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الأَمَلُ - ولَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الأَمَدُ.

ثواب الزهاد

فَوَاللَّه لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِينَ الْوُلَّه الْعِجَالِودَعَوْتُمْ بِهَدِيلِ الْحَمَامِ وجَأَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِي الرُّهْبَانِ - وخَرَجْتُمْ إِلَى اللَّه مِنَ الأَمْوَالِ والأَوْلَادِ - الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ إِلَيْه فِي ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَه - أَوْ غُفْرَانِ سَيِّئَةٍ أَحْصَتْهَا كُتُبُه - وحَفِظَتْهَا رُسُلُه لَكَانَ قَلِيلًا فِيمَا أَرْجُو لَكُمْ مِنْ ثَوَابِه - وأَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ عِقَابِه.

اس کی شیرینی تلخ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی مکدر ہو چکی ہے۔اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو تہہ میں بچا ہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیا سا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے۔لہٰذا بندگان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبر دار! تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا۔

خدا کی قسم اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح بھی فریاد کرو جن کا بچہ گم ہوگیا ہو اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوگئے ہوں اور ان راہبوں کی طرح بھی گریہ و فریاد کرو جو اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں اور مال و اولاد کو چھوڑ کر قربت خدا کی تلاش میں نکل پڑو تاکہ اس کی بارگاہ میں درجات بلند ہو جائیں یا وہ گناہ معاف ہو جائیں جو اس کے دفتر میں ثبت ہوگئے ہیں اور فرشتوں نے انہیں محفوظ کرلیا ہے تو بھی یہ سب اس ثواب سے کم ہوگا(۱) جس کی میں تمہارے بارے میں امید رکھتا ہوں یا جس عذاب کا تمہارے بارے میں خوف رکھتا ہوں۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ '' فکر ہر کس بقدر ہمت اوست'' دنیا کا انسان کتنا ہی بلند نظر اور عالی ہمت کیوں نہ ہو جائے مولائے کائنات کی بلندی فکر کو نہیں پا سکتا ہے اور اس درجہ علم پرفائز نہیں ہو سکتا ہے جس پر مالک کائنات نے باب مدینتہ العلم کوفائز کیا ہے۔آپ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ میری اطاعت کرو اور میرے احکام پر عمل کرو۔اس کا اجروثواب تمہارے افکار کی رسائی کی حدوں سے بالاتر ہے۔میں تمہارے لئے بہترین ثواب کی امید رکھتا ہوں اور تمہیں بد ترین عذاب سے بچانا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں میرے احکام کی اطاعت کرنا ہوگی اور میرے راستہ پر چلنا ہوگا جو در حقیقت شہادت اورقربانی کا راستہ ہے اور انسان اسی راستہ پر قدم آگے بڑھانے سے گھبراتا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دنیا دار انسان جس کی ساری فکر مال دنیا اورثروت دنیا ہے وہ بھی کسی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے سارا مال و متاع قربان کردیتا ہے تو پھرآخر دیندار انسان میں یہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا ہے؟ وہ جنت النعیم کو حاصل کرنے اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنی دنیا کو قربان کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کا تو عقیدہ یہی ہے کہ دنیا چند روزہ اور فانی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے تو پھر فانی کوباقی کی راہ میں کیوں قربان نہیں کردیتا ؟''اف هذا الشی عجاب''

۸۵

نعم الله

وتَاللَّه لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوبُكُمُ انْمِيَاثاً وسَالَتْ عُيُونُكُمْ مِنْ رَغْبَةٍ إِلَيْه أَوْ رَهْبَةٍ مِنْه دَماً - ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِي الدُّنْيَا مَا الدُّنْيَا بَاقِيَةٌ مَا جَزَتْ أَعْمَالُكُمْ عَنْكُمْ - ولَوْ لَمْ تُبْقُوا شَيْئاً مِنْ جُهْدِكُمْ - أَنْعُمَه عَلَيْكُمُ الْعِظَامَ وهُدَاه إِيَّاكُمْ لِلإِيمَانِ.

(۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكرى يوم النحر وصفة الأضحية

ومِنْ تَمَامِ الأُضْحِيَّةِ اسْتِشْرَافُ أُذُنِهَا وسَلَامَةُ عَيْنِهَا - فَإِذَا سَلِمَتِ الأُذُنُ والْعَيْنُ سَلِمَتِ الأُضْحِيَّةُ وتَمَّتْ - ولَوْ كَانَتْ عَضْبَاءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا إِلَى الْمَنْسَكِ

قال السيد الشريف والمنسك هاهنا المذبح.

(۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف أصحابه بصفين حين طال منعهم له من قتال أهل الشام

خدا کی قسم اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے رغبت ثواب یا خوف عذاب میں خون جاری ہوجائے اور تمہیں دنیا میں آخر تک باقی رہنے کا موقع دے دیا جائے تو بھی تمہارے اعمال اس کی عظیم ترین نعمتوں اور ہدایت ایمان کا بدلہ نہیں ہو سکتے ہیں چاہے ان کی راہ میں تم کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھو۔

(۵۳)

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے)

قربانی کے جانور کا کمال یہ ہے کہ اس کے کان بلند ہوں اور آنکھیں سلامت ہوں کہ اگر کان اور آنکھ سلامت ہیں توگویا قربانی سالم اورمکمل ہے چاہے اس کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ پیروں کو گھسیٹ کر اپنے کوقربان گاہ تک لے جائے۔

سید رضی : اس مقام پر منسلک سے مراد مذبح اورقربان گاہ ہے۔

(۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے)

۸۶

فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وقَدْ أَرْسَلَهَا

رَاعِيهَا وخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ - وقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الأَمْرَ بَطْنَه وظَهْرَه حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ - فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ - أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ - ومَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الآخِرَةِ.

(۵۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استبطأ أصحابه إذنه لهم في القتال بصفين

لوگ مجھ) ۱ ( پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے وہ پیاسے اونٹ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے نگرانوں نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہو اور ان کے پیروں کی رسیاں کھول دی ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے مار ہی ڈالیں گے یا ایک دوسرے کوقتل کردیں گے۔میں نے اس امرخلافت کو یوں الٹ پلٹ کردیکھاہے کہ میری نیند تک اڑ گئی ہے اور اب یہ محسوس کیا ہے کہ یا ان سے جہاد کرنا ہوگا یا پیغمبر (ص) کے احکام کا انکار کر دینا ہوگا۔ظاہر ہے کہ میرے لئے جنگ کی سختیوں کا برداشت کرنا عذاب کی سختی برداشت کرنے سے آسان تر ہے اور دنیا کی موت آخرت کی موت اورتباہی سے سبک تر ہے۔

(۵۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں)

(۱)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام میں روز اول سے بزور شمشیر بیعت لی جا رہی تھی اور انکار بیعت کرنے پر گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی یا لوگوں کو خنجر و شمشیر اورتازیانہ و درہ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس میں یکبارگی یہ انقلاب کیسے آگیا کہ لوگ ایک انسان کی بیعت کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اوریہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔کیا اس کا راز یہ تھا کہ لوگ اس ایک شخص کے علم و فضل ' زہد و تقویٰ اور شجاعت و کرم سے متاثر ہوگئے تھے۔ایسا ہوت تو یہ صورت حال بہت پہلے پیدا ہو جاتی اور لوگ اس شخص پر قربان ہو جاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے شخصیت سے زیادہ حالات کو سمجھ لیا تھا۔اوریہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شخص جو امت کے درمیان واقعی انصاف کر سکتا ہے اور جس کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی کی طرح سادگی رکھتی ہے اور اس میں کسی طرح کی حرص و طمع کا گزر نہیں ہے وہ اس مرد مومن اور کل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بیعت میں سبقت کرنا ایک انسانی اور ایمان فریضہ ہے اور در حقیقت مولائے کائنات نے اس پوری صورت حال کو ایک لفظ میں واضح کردیا ہے کہ یہ دن در حقیقت پیاسوں کے سیراب ہونے کادن تھا اور لوگ مدتوں سے تشنہ اورتشنہ کام تھے لہٰذا ان کاٹوٹ پڑنا حق بجانب تھا اس ایک تشبیہ سے ماضی اورحال دونوں کا مکمل اندازہ کیا جا سکتا ہے۔!

۸۷

أَمَّا قَوْلُكُمْ أَكُلَّ ذَلِكَ كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ - فَوَاللَّه مَا أُبَالِي - دَخَلْتُ إِلَى الْمَوْتِ أَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ إِلَيَّ - وأَمَّا قَوْلُكُمْ شَكَّاً فِي أَهْلِ الشَّامِ - فَوَاللَّه مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ يَوْماً - إِلَّا وأَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي - وتَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي - وذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا - وإِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا.

(۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يصف أصحاب رسول الله وذلك يوم صفين حين أمر الناس بالصلح

ولَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَقْتُلُ آبَاءَنَا وأَبْنَاءَنَا وإِخْوَانَنَا وأَعْمَامَنَا - مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وتَسْلِيماً -

تمہارا یہ سوال کہ کیا یہ تاخیر موت کی ناگواری سے ہے تو خدا کی قسم مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس کے پاس وارد ہو جائوں یا وہ میری طرف نکل کر آجائے۔اور تمہارا یہ خیال کہ مجھے اہل شام کے باطل کے بارے میں کوئی شک ہے۔تو خدا گواہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی جنگ کو نہیں ٹالا ہے مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی گروہ مجھ سے ملحق ہو جائے اور ہدایت پاجائے اورمیری روشنی میں اپنی کمزور آنکھوں کا علاج کرلے کہ یہ بات میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کی گمراہی کی بنا پر اسے قتل کردوں اگرچہ اس قتل کا گناہ اسی کے ذمہ ہوگا۔

(۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا)

ہم(۱) رسول اکرم (ص) کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگ' بچے 'بھائی اور چچائوں کو بھی قتل کردیا کرتے تھے اوراس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا

(۱)حضرت محمد بن ابی بکر شہادت کے بعد معاویہ نے عبداللہ بن عامر حضرمی کو بصرہ میں دوبارہ فساد پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔وہاں حضرت کے والی ابن عباس تھے اور وہ محمد کی تعریف کے لئے کوفہ آگئے تھے۔زیاد بن عبید ان کے نائب تھے۔انہوں نے حضرت کو اطلاع دی۔آپ نے بصرہ کے بنی تمیم کا عثمانی رجحان دیکھ کر کوفہ کے بنی تمیم کو مقابلہ پر بھیجنا چاہا لیکن ان لوگوں نے برادری سے جنگ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت نے اپنے دور قدیم کا حوالہ دیا کہ اگر رسول اکرم (ص) کے ساتھ ہم لوگ بھی قبائلی تعصب کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔اسلام حق و صداقت کا مذہب ہے اس میں قومی اورقبائلی رجحانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۸۸

ومُضِيّاً عَلَى

اللَّقَمِ وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الأَلَمِ وجِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - ولَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا والآخَرُ مِنْ عَدُوِّنَا - يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ يَتَخَالَسَانِ أَنْفُسَهُمَا أَيُّهُمَا يَسْقِي صَاحِبَه كَأْسَ الْمَنُونِ - فَمَرَّةً لَنَا مِنْ عَدُوِّنَا ومَرَّةً لِعَدُوِّنَا مِنَّا - فَلَمَّا رَأَى اللَّه صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وأَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ - حَتَّى اسْتَقَرَّ الإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَه ومُتَبَوِّئاً أَوْطَانَه - ولَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ - مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ ولَا اخْضَرَّ لِلإِيمَانِ عُودٌ - وايْمُ اللَّه لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَماً ولَتُتْبِعُنَّهَا نَدَماً!

(۵۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة رجل مذموم ثم في فضله هوعليه‌السلام

أَمَّا إِنَّه سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ رَحْبُ الْبُلْعُومِ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ

تھا اور ہم برابر سیدھے راستہ پر بڑھتے ہی جا رہے تھے اور مصیبتوں کی سختیوں پر صبر ہی کرتے جا رہے تھے اور دشمن سے جہاد میں کوششیں ہی کرتے جا رہے تھے۔ہمارا سپاہی دشمن کے سپاہی سے اس طرح مقابلہ کرتا تھا جس طرح مردوں کا مقابلہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔اور ہر ایک کو یہی فکر ہو کہ دوسرے کو موت کا جام پلادیں۔پھر کبھی ہم دشمن کو مار لیتے تھے اور کبھی دشمن کو ہم پر غلبہ ہوجاتا تھا۔اس کے بعد جب خدا نے ہماری صداقت(۱) کوآزما لیا تو ہمارے دشمن پر ذلت نازل کردی اورہماری اوپر نصرت کا نزول فرمادیا یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ جم گیا اور اپنی منزل پر قائم ہوگیا۔ میری جان کی قسم اگر ہمارا کرداربھی تمہیں جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔خدا کی قسم تم اپنے کرتوت سے دودھ کے بدلے خون دوھوگے اور آخرمیں پچھتائو گے۔

(۵۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں)

آگاہ ہو جائو کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا۔جو پاجائے گا کھا جائے گا

(۱)ایک عظیم حقیقت کا اعلان ہےکہ پروردگار اپنے بندوں کی بہر حال مدد کرتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ'' کان حقا علینا نصر المومنین '' (مومنین کی مدد ہماری ذمہ دری ہے )'' ان الله مع الصابرین '' ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) لیکن اس سلسلہ میں اس حقیقت کو بہرحال سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نصرت ایمان کے اظہار کے بعد اوریہ معیت صبر کیے بعد سامنے آتی ہے جب تک انسان اپنے ایمان و صبر کا ثبوت نہیں دیدیتا ہے خدائی امداد کا نزول نہیں ہوتا ہے۔'' ان تصنرو الله ینصر کم '' (اگرتم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔نصرت الٰہی تحفہ نہیں ہے مجاہدات کا انعام ہے۔پہلے مجاہدہ نفس اس کے بعد انعام۔!

۸۹

ويَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ - فَاقْتُلُوه ولَنْ تَقْتُلُوه - أَلَا وإِنَّه سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي والْبَرَاءَةِ مِنِّي - فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّه لِي زَكَاةٌ ولَكُمْ نَجَاةٌ - وأَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي - فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وسَبَقْتُ إِلَى الإِيمَانِ والْهِجْرَةِ.

(۵۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به الخوارج حين اعتزلوا الحكومة وتنادوا أن لا حكم إلا لله أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ ولَا بَقِيَ مِنْكُمْ آثِرٌ أَبَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه،

وجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ - لَالْكُفْرِ( قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) - فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلاًّ شَامِلًا وسَيْفاً قَاطِعاً - وأَثَرَةً

اور جونہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گا۔تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کردو مگر تم ہر گز قتل نہ کرو گے۔ خیروہ عنقریب تمہیں' مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا بھی حکم دے گا۔تو اگر گالیوں کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اورتمہارے لئے دشمن سے نجات کا۔لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

(۵۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے)

خدا کرے۔تم پرسخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے حال کا اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کردوں۔ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہ جائوں گا۔جائو پلٹ جائو اپنی بدترین منزل کی طرف اور واپس چلے جائو اپنے نشانات قدم پر۔مگرآگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقۂ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا

۹۰

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔

۹۱

قال الشريف يعني بالنطفة ماء النهر - وهي أفصح كناية عن الماء وإن كان كثيرا جما - وقد أشرنا إلى ذلك فيما تقدم عند مضي ما أشبهه.

(۶۰)

وقالعليه‌السلام

لما قتل الخوارج فقيل له يا أمير المؤمنين هلك القوم بأجمعهم

كَلَّا واللَّه إِنَّهُمْ نُطَفٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وقَرَارَاتِ النِّسَاءِ،كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ - حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِينَ.

(۶۱)

وقالعليه‌السلام

لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي - فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَه - كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه.

قال الشريف - يعني معاوية وأصحابه.

(۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما خوف من الغيلة

وإِنَّ عَلَيَّ مِنَ اللَّه جُنَّةً حَصِينَةً -.

سید رضی : نطفہ سے مراد نہر کا شفاف پانی ہے۔جو بہترین کنایہ ہے پانی کے بارے میں چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

(۶۰)

آپ نے فرمایا

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے)

ہرگز نہیں۔خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔یہاں تک کہ آخرمیں صرف لٹیرے اورچور ہو کر رہ جائیں گے۔

(۶۱)

آپ نے فرمایا

خبر دار میرے بعد خروج کرنے والوں سے جنگ نہ کرنا کہ حق کی طلب میں نکل کر بہک جانے والا اس کا جیسا نہیں ہوتا ہے جو باطل کی تلاش میں نکلے اورحاصل بھی کرلے۔

سید شریف رضی نے فرمایا : یعنی معاویہ اور اس کے پیروکار

(۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا )

یاد رکھو میرے لئے خداکی طرف سے ایک مضبوط و مستحکم سپر ہے

۹۲

فَإِذَا جَاءَ يَوْمِي انْفَرَجَتْ عَنِّي وأَسْلَمَتْنِي - فَحِينَئِذٍ لَا يَطِيشُ السَّهْمُ ولَا يَبْرَأُ الْكَلْمُ

(۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من فتنة الدنيا

أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَا يُسْلَمُ مِنْهَا إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنْجَى بِشَيْءٍ كَانَ لَهَا - ابْتُلِيَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً - فَمَا أَخَذُوه مِنْهَا لَهَا أُخْرِجُوا مِنْه وحُوسِبُوا عَلَيْه - ومَا أَخَذُوه مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوا عَلَيْه وأَقَامُوا فِيه - فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِي الْعُقُولِ كَفَيْءِ الظِّلِّ - بَيْنَا تَرَاه سَابِغاً حَتَّى قَلَصَ وزَائِداً حَتَّى نَقَصَ.

(۶۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المبادرة إلى صالح الأعمال

فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وابْتَاعُوا

اس کے بعد جب میرا دن آجائے گا تو یہ سپر مجھ سے الگ ہوجائےگااور مجھے موت کے حوالے کردے گا۔اس وقت نہ تیر خطاکرےگا اورنہ زخم مندمل ہو سکے گا

(۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے)

آگاہ ہوجائو کہ یہ دنیا ایساگھر ہےجس سےسلامتی کاسامان اسی کےاندرسےکیاجاسکتا ہےاورکوئی ایسی شےوسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہےجو دنیا ہی کےلئے ہولوگ اس دنیاکے ذریعہ آزمائےجاتے ہیں جولوگ دنیاکاسامان دنیا ہی کےلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسےچھوڑکرچلےجاتےہیں اورپھرحساب بھی دینا ہوتا ہےاورجولوگ یہاں سےوہاں کےلئےحاصل کرتےہیں وہ وہاں جاکرپالیتےہیں اوراسی میں مقیم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا درحقیقت صاحبان عقل کی نظرمیں ایک سایہ جیسی ہے جودیکھتے دیکھتےسمٹ جاتا ہے اورپھیلتے پھیلتے کم ہو جاتا ہے۔

(۶۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں )

بندگان خدا! اللہ سے ڈرو اور اعمال کے ساتھ اجل(۱) کی طرف سبقت کرو۔اس دنیا کے فانی مال کے

(۱)انسان کے قدم موت کی طرف بلا اختیاربڑھتے جا رہے ہیں اور اسے اس امر کا احساس ا بھی نہیں ہوتا ہے نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ایک دن موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور دائمی خسارہ اورعذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ اعمال کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گاتا کہ جب موت کا سامانا ہوتواعمال کا سہارا رہے اورعذاب الیم سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ ہاتھ میں رہے۔

۹۳

مَا يَبْقَى لَكُمْ بِمَا يَزُولُ عَنْكُمْ وتَرَحَّلُوا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ واسْتَعِدُّوا لِلْمَوْتِ فَقَدْ أَظَلَّكُمْ وكُونُوا قَوْماً صِيحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوا - وعَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا لَيْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوا - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى ومَا بَيْنَ أَحَدِكُمْ وبَيْنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ - إِلَّا الْمَوْتُ أَنْ يَنْزِلَ بِه - وإِنَّ غَايَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ وتَهْدِمُهَا السَّاعَةُ - لَجَدِيرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ - وإِنَّ غَائِباً يَحْدُوه الْجَدِيدَانِ - اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَحَرِيٌّ بِسُرْعَةِ الأَوْبَةِ وإِنَّ قَادِماً يَقْدُمُ بِالْفَوْزِ أَوِ الشِّقْوَةِ - لَمُسْتَحِقٌّ لأَفْضَلِ الْعُدَّةِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً فَاتَّقَى عَبْدٌ رَبَّه نَصَحَ نَفْسَه وقَدَّمَ تَوْبَتَه وغَلَبَ شَهْوَتَه - فَإِنَّ أَجَلَه مَسْتُورٌ عَنْه وأَمَلَه خَادِعٌ لَه - والشَّيْطَانُ مُوَكَّلٌ بِه يُزَيِّنُ لَه الْمَعْصِيَةَ لِيَرْكَبَهَا - ويُمَنِّيه التَّوْبَةَ لِيُسَوِّفَهَا

ذریعہ باقی رہنے والی آخرت کو خرید لو اور یہاں سے کوچ کر جائو کہ تمہیں تیزی سے لیجا یا جا رہا ہے اور موت کے لئے آمادہ ہوجائو کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس قوم جیسے ہو جائو جیسے پکارا گیا تو فورا ہوشیار ہوگئی۔اوراس نے جان لیا کہ دنیا اس کی منزل نہیں ہے تو اسے آخرت سے بدل لیا۔اس لئے کہ پروردگار نے تمہیں بیکارنہیں پیداکیا اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور یاد رکھو کہ تمہارے اور جنت و جہنم کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہے کہ موت نازل ہو جائے اور انجام سامنے آجائے اور وہ مدت حیات جیسے ہر لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو منہدم کر رہی ہو وہ قصیر المدة ہی سمجھنے کا لائق ہے اور وہ موت جسے دن و رات ڈھکیل کر آگے لا رہے ہوں اسے بہت جلد آنے والا ہی خیال کرنا چاہیے اور وہ شخص جس کے سامنے کامیابی یا ناکامی اوربد بختی آنے والی ہے اسے بہترین سامان مہیا ہی کرنا چاہیے۔لہٰذا تم دنیا میں رہ کر دنیا سے زاد راہ حاصل کر لو جس سے کل اپنے نفس کاتحفظ کرس کو۔اس کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے۔اپنے نفس سے اخلاص رکھتے ' توبہ کو مقدم کرے۔خواہشات پر غلبہ حاصل کرے اس لئے کہ اس کی اجل اس سے پوشیدہ ہے اور اس کی خواہش اسے مسلسل دھوکہ دینے والی ہے اور شیطان اس کے سر پر سوار ہے جو معصیتوں کو آراستہ کر رہا ہے تاکہ انسان مرتکب ہو جائے اور توبہ کی امیدیں دلاتا ہے تاکہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ غفلت اور بے خبری کے عالم میں موت اس پر

۹۴

إِذَا هَجَمَتْ مَنِيَّتُه عَلَيْه أَغْفَلَ مَا يَكُونُ عَنْهَا - فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُه عَلَيْه حُجَّةً - وأَنْ تُؤَدِّيَه أَيَّامُه إِلَى الشِّقْوَةِ - نَسْأَلُ اللَّه سُبْحَانَه - أَنْ يَجْعَلَنَا وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه نِعْمَةٌ ولَا تُقَصِّرُ بِه عَنْ طَاعَةِ رَبِّه غَايَةٌ - ولَا تَحُلُّ بِه بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ ولَا كَآبَةٌ.

(۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مباحث لطيفة من العلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ تَسْبِقْ لَه حَالٌ حَالًا - فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً - ويَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً - كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَه قَلِيلٌ - وكُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَه ذَلِيلٌ وكُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَه ضَعِيفٌ - وكُلُّ مَالِكٍ غَيْرَه مَمْلُوكٌ وكُلُّ عَالِمٍ غَيْرَه مُتَعَلِّمٌ - وكُلُّ قَادِرٍ غَيْرَه يَقْدِرُ ويَعْجَزُ - وكُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَه يَصَمُّ

حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ہائے کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ انسان کی عمر ہی اس کے خلاف حجت بن جائے اور اس کا روز گار ہی اسے بدبختی تک پہنچادے۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں قرار دے جنہیں نعمتیں مغرور نہیں بناتی ہیں اور کوئی مقصد اطاعت خدا میں کوتاہی پرآمادہ نہیں کرتا ہے اور موت کے بعد ان پر ندامت اور رنج و غم کا نزول نہیں ہوتا ہے۔

(۶۵)

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس کے صفات میں تقدم(۱) و تاخرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو اور باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو۔اس کے علاوہ جسے بھی واحد کہا جاتا ہے اس کی وحدت قلت ہے اور جسے بھی عزیز سمجھا جاتا ہے ہے اس کی عزت ذلت ہے۔اس کے سامنے ہر قوی ضعیف ہے اور ہر مالک مملوک ہے' ہر عالم متعلم ہے اور ہر قادر عاجز ہے' ہر سننے والا لطیف آوازوں کے لئے بہرہ ہے اور اونچی آوازیں بھی اسے بہرہ بنا دیتی ہیں

(۱)یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کے صفات کمال عین ذات ہیں اور ذات سے الگ کوئی شے نہیں ہیں۔وہ علم کی وجہ سے عالم نہیں ہے۔بلکہ عین حقیقت علم ہے اور قدرت کے ذریعہ قادر نہیں ہے بلکہ عین قدرت کاملہ ہے اور جب یہ سارے صفات عین ذات ہیں تو ان میں تقدم و تاخر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ جس لحظہ اول ہے اسی لحظہ آخر بھی ہے اور جس اندازسے ظاہر ہے اسی اندازسے باطن بھی ہے۔اس کی ذات اقدس میں کسی طرح کا تغیر قابل تصور نہیں ہے حدیہ ہے کہ اس کی سماعت و بصارت بھی مخلوقات کی سماعت و بصارت سے بالکل الگ ہے۔دنیا کا ہر سمیع و بصیر کسی شے کو دیکھتا اور سنتا ہے اور کسی شے کے دیکھنے اورسننے سے قاصر رہتا ہے لیکن پروردگار کی ذات اقدس ایسی نہیں ہے وہ مخفی ترین مناظر ک دیکھ رہا ہے اور لطیف ترین آوازوں کو سن رہا ہے ۔وہ ایسا ظاہر ہے جو باطن نہیں ہے اور ایسا باطن ہے جو کسی عقل و فہم پرظاہر نہیں ہو سکتا ہے۔!

۹۵

عَنْ لَطِيفِ الأَصْوَاتِ - ويُصِمُّه كَبِيرُهَا ويَذْهَبُ عَنْه مَا بَعُدَ مِنْهَا - وكُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَه يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الأَلْوَانِ ولَطِيفِ الأَجْسَامِ - وكُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَه بَاطِنٌ وكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَه غَيْرُ ظَاهِرٍ - لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَه لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ - ولَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ ولَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ ولَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ ولَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وعِبَادٌ دَاخِرُونَلَمْ يَحْلُلْ فِي الأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ كَائِنٌ - ولَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْه خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ - ولَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ ولَا وَقَفَ بِه عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ - ولَا وَلَجَتْ عَلَيْه شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وقَدَّرَ - بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وعِلْمٌ مُحْكَمٌ - وأَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ - الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ!

اور دور کی آوازیں بھی اس کی حد سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس طرح اس کے علاوہ ہر دیکھنے والا مخفی رنگ اور لطیف جسم کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر ظاہر غیر باطن ہے اور ہر باطن غیر ظاہر ۔اس نے مخلوقات کو اپنی حکومت کے استحکام یا زمانہ کے نتائج کے خوف سے نہیں پیدا کیا ہے۔نہ اسے کسی برابر والے حملہ آور یا صاحب کثرت شریک یا ٹکرانیوالے مد مقابل کے مقابلہ میں مدد لینا تھی۔ یہ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی اورپالی ہوئی ہے اور یہ سارے بندے اسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔اس نے اشیاء میں حلول نہیں کیا ہے کہ اسے کسی کے اندر سمایا ہوا کہا جائے اور نہ اتنا دور ہوگیا ہے کہ الگ تھلگ خیال کیا جائے۔مخلوقات کی خلقت اورمصنوعات کی تدبیر اسے تھکا نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی تخلیق اسے عاجز بنا سکتی ہے اور نہ کسی قضاو قدر میں اسے کوئی شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس کا ہر فیصلہ محکم اوراس کا ہر علم متقن اور اس کا ہر حکم مستحکم ہے۔ناراضگی میں بھی اس سے امید وابستہ کی جاتی ہے اورنعمتوں میں بھی اس کا خوف لاحق رہتا ہے۔

۹۶

(۶۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في تعليم الحرب والمقاتلة

والمشهور أنه قاله لأصحابه ليلة الهرير أو أول اللقاء بصفين

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَشْعِرُوا الْخَشْيَةَ وتَجَلْبَبُوا السَّكِينَةَ وعَضُّوا عَلَى النَّوَاجِذِ فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ وأَكْمِلُوا اللأْمَةَ وقَلْقِلُوا السُّيُوفَ فِي أَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا - والْحَظُوا الْخَزْرَ واطْعُنُوا الشَّزْرَ ونَافِحُوا بِالظُّبَى وصِلُوا السُّيُوفَ بِالْخُطَا واعْلَمُوا أَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللَّه ومَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّه - فَعَاوِدُوا الْكَرَّ واسْتَحْيُوا مِنَ الْفَرِّ فَإِنَّه عَارٌ فِي الأَعْقَابِ ونَارٌ يَوْمَ الْحِسَابِ - وطِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ نَفْساً - وامْشُوا إِلَى الْمَوْتِ مَشْياً سُجُحاً وعَلَيْكُمْ بِهَذَا السَّوَادِ الأَعْظَمِ والرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ فَاضْرِبُوا ثَبَجَه فَإِنَّ الشَّيْطَانَ كَامِنٌ فِي كِسْرِه

(۶۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(تعلیم جنگ کے بارے میں )

مسلمانو!خوف(۱) خداکو اپنا شعار بنائو۔سکون و وقار کی چادر اوڑھ لو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اچٹ جاتی ہیں۔زرہ پوشی کو مکمل کرلو۔تلواروں کو نیام سے نکالنے سے پہلے نیام کے اندرحرکت دے لو۔دشمن کو ترچھی نظر سے دیکھتے رہو اور نیزوں سے دونوں طرف وار کرتے رہو۔اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھو اور تلواروں کے حملے قدم آگے بڑھا کرکرو اوریہ یاد رکھو کہ تم پروردگار کی نگا ہ میں اور رسول اکرم (ص) کے ابن عم کے ساتھ ہو ۔دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہو اور فرار سے شرم کرو کہ اس کا عار نسلوں میں رہ جاتا ہے اوراس کا انجام جہنم ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہنسی خوشی خدا کے حوالے کردو اور موت کی طرف نہایت درجہ سکون و اطمینان سے قدم آگے بڑھائو۔تمہارا نشانہ ایک دشمن کا عظیم لشکراورطناب دار خیمہ ہونا چاہیے کہ اسی کے وسط پرحملہ کرو کہ شیطان اسی کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا

(۱)ان تعلیمات پرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ایک مرد مسلم کے جہاد کا انداز کیا ہونا چاہیے اوراسے دشمن کے مقابلہ میں کس طرح جنگ آزما ہونا چاہیے۔ان تعلیمات کا مختصرخلاصہ یہ ہے:۔ ۱۔دل کے اندر خوف خدا ہو'۲۔باہر سکون و اطمینان کا مظاہر ہو' ۳۔دانتوں کو بھینچ لیا جائے'۴۔آلات جنگ کو مکمل طورپر ساتھ رکھا جائے' ۵۔تلوار کو نیام کے اندرحرکت دے لی جائے کہ بر وقت نکالنے میں زحمت نہ ہو'۶۔دشمن پر غیط آلود نگاہ کی جائے ' ۷۔نیزوں کے حملے ہر طرف ہوں'۸۔تلوار دشمن کے سامنے رہے '۹۔تلوار دشمن تک نہ پہنچے توقدم بڑھاکرحملہ کرے' ۱۰۔فرار کا ارادہ نہ کرے ' ۱۱۔موت کی طرف سکون کے ساتھ قدم بڑھائے'۱۲۔جان جان آفریں کے حوالے کردے' ۱۳۔ہدف اورنشانہ پرنگاہ رکھے '۱۴۔یہ اطمینان رکھے کہ خدا ہمارے اعمال کودیکھ رہا ہے اور پیغمبر (ص) کا بھائی ہماری نگاہ کے سامنے ہے۔

ظاہر ہے کہ ان آداب میں بعض آداب ' تقویٰ ' ایمان وغیرہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض کا تعلق نیزہ و شمشیر کے دور سے ہے لیکن اسے بھی ہردور کے آلات حرب و ضرب پرمنطبق کیاجاسکتا ہے اور اس سے فادئہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

۹۷

وقَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ يَداً وأَخَّرَ لِلنُّكُوصِ رِجْلًا - فَصَمْداً صَمْداً حَتَّى يَنْجَلِيَ لَكُمْ عَمُودُ الْحَقِّ –( وأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ والله مَعَكُمْ ولَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ )

(۶۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قالوا لما انتهت إلى أمير المؤمنينعليه‌السلام أنباء السقيفة بعد وفاة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالعليه‌السلام :ما قالت الأنصار قالوا قالت منا أمير ومنكم أمير قالعليه‌السلام :

فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ - بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَصَّى بِأَنْ يُحْسَنَ إِلَى مُحْسِنِهِمْ - ويُتَجَاوَزَ عَنْ مُسِيئِهِمْ؟

قَالُوا ومَا فِي هَذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ؟

ہے۔اس کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک قدم حملہ کے لئے آگے بڑھا رکھا ہے۔اور ایک بھاگنے کے لئے پیچھے کر رکھا ہے لہٰذا تم مضبوطی سے اپنے ارادہ پرجمے رہو یہاں تک کہ حق صبح کے اجالے کی طرح واضح ہو جائے اور مطمئن ہو کر بلندی تمہارا حصہ ہے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کر سکتا ہے۔

(۶۷)

آپ کا ارشاد گرامی

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔

تم لوگوں نے ان کے خلاف یہ استدلال کیوں نہیں کیا کہ رسول اکرم (ص) نے تمہارے نیک کرداروں کے ساتھ حسن سلوک اور خطا کاروں سے در گزر کرنے کی وصیت فرمائی ہے ؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں کیا استد لال ہے؟

(۱)استاد احمد حسن یعقوب نے کتاب نظریہ عدالت صحابہ میں ایک مفصل بحث کی ہے کہ سقیفہ میں کوئی قانونی اجتماع انتخاب خلیفہ کے لئے نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی اس کا ایجنڈہ تھا اورنہ سوا لاکھ صحابہ کی بستی میں سے دس بیس ہزار افراد جمع ہوئے تھے بلکہ سعد بن عبادہ کی بیماری کی بناپر انصارعیادت کے لئے جمع ہوئے تھے اوربعض مہاجرین نے اس اجتماع کودیکھ کر یہ محسوس کیا کہ کہیں خلافت کا فیصلہ نہ ہوجائے' تو بر وقت پہنچ کر اس قدر ہنگامہ کیا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور فی الفور حضرت ابو بکر کی خلافت کا اعلان کردیا اور ساری کاروائی لمحوں میں یوں مکمل ہوگئی کہ سعد بن عبادہ کو پامال کردیا گیا اور حضرت ابو بکر ''تاج خلافت ''سر پر رکھے ہوئے سقیفہ سے برآمد ہوگئے۔اس شان سے کہ اس عظیم مہم کی بنا پرجنازۂ رسول میں شرکت سے بھی محروم ہوگئے اورخلافت کا پہلا اثر سامنے آگیا۔

۹۸

فَقَالَعليه‌السلام :

لَوْ كَانَ الإِمَامَةُ فِيهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِيَّةُ بِهِمْ.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

فَمَا ذَا قَالَتْ قُرَيْشٌ - قَالُوا احْتَجَّتْ بِأَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالَعليه‌السلام احْتَجُّوا بِالشَّجَرَةِ وأَضَاعُوا الثَّمَرَةَ.

(۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل

وقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ - ولَوْ وَلَّيْتُه إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَولَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وكَانَ لِي رَبِيباً.

فرمایاکہ اگر امارت ان کا حصہ ہوتی تو ان سے وصیت کی جاتی نہ کہ ان کے بارے میں وصیت کی جاتی ۔اس کے بعد آپ نے سوال کیا کہ قریش کی دلیل کیا تھی؟ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کو رسول اکرم (ص) کے شجرہ میں ثابت کر رہے تھے۔فرمایا کہ افسوس شجرہ سے استدلال کیا اورثمرہ کو ضائع کردیا

(۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا)

میرا ارادہ تھا کہ مصر کاحاکم ہاشم بن(۱) عتبہ کو بنائوں اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیتے ( لیکن حالات نے ایسا نہ کرنے دیا)

اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ(۲) تھا۔

(۱)ہاشم بن عتبہ صفین میں عملدارلشکر امیر المومنین تھے۔مرقال ان کا لقب تھا کہ نہایت تیز رفتاری اورچابکدستی سے حملہ کرتے تھے۔

(۲)محمد بن ابی بکر اسما بنت عمیس کے بطن سے تھے۔جو پہلے جناب جعفر طیارکی زوجہ تھیں اور ان سے عبداللہ بن جعفر پیدا ہوئے تھے اس کے بعد ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آگئیں جن سے محمد پیدا ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولائے کائنات کی زوجیت میں آئیں اور محمد نے آپ کے زیر اثر تربیت پائی یہ اوربات ہے کہ جب عمرو عاص نے چار ہزار کے لشکرکے ساتھ مصر پرحملہ کیا تو اپنے آبائی اصول جنگ کی بنا پرمیدان سے فرار اختیار کیا اور بالآخر قتل ہوگئے اورلاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کرجلا دیا گیا یا بروایتے زندہ ہی جلادئیے گئے اور معاویہ نے اس خبرکوسن کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ (مروج الذہب)

امیر المومنین نے اس موقع پر ہاشم کو اسی لئے یاد کیاتھا کہ وہ میدان سے فرار نہ کر سکتے تھے اور کسی گھر کے اندر پناہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

۹۹

(۶۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في توبيخ بعض أصحابه

كَمْ أُدَارِيكُمْ كَمَا تُدَارَى الْبِكَارُ الْعَمِدَةُ والثِّيَابُ الْمُتَدَاعِيَةُ !كُلَّمَا حِيصَتْ مِنْ جَانِبٍ تَهَتَّكَتْ مِنْ آخَرَ - كُلَّمَا أَطَلَّ عَلَيْكُمْ مَنْسِرٌ مِنْ مَنَاسِرِ أَهْلِ الشَّامِ - أَغْلَقَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بَابَه - وانْجَحَرَ انْجِحَارَ الضَّبَّةِ فِي جُحْرِهَا والضَّبُعِ فِي وِجَارِهَا الذَّلِيلُ واللَّه مَنْ نَصَرْتُمُوه - ومَنْ رُمِيَ بِكُمْ فَقَدْ رُمِيَ بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ إِنَّكُمْ واللَّه لَكَثِيرٌ فِي الْبَاحَاتِ قَلِيلٌ تَحْتَ الرَّايَاتِ - وإِنِّي لَعَالِمٌ بِمَا يُصْلِحُكُمْ ويُقِيمُ أَوَدَكُمْ ولَكِنِّي لَا أَرَى إِصْلَاحَكُمْ بِإِفْسَادِ نَفْسِي - أَضْرَعَ اللَّه خُدُودَكُمْ وأَتْعَسَ جُدُودَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ الْحَقَّ كَمَعْرِفَتِكُمُ الْبَاطِلَ - ولَا تُبْطِلُونَ الْبَاطِلَ كَإِبْطَالِكُمُ الْحَقَّ!

(۶۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے)

کب تک میں تمہارے ساتھ وہ نرمی کا برتائو کروں جو بیمار اونٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا کوہان اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو یا اس بوسیدہ کپڑے کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتا ہے۔ جب بھی شام کا کوئی دستہ تمہارے کسی دستہ کے سامنے آتا ہے تو تم میں س ے ہر شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیتاہے اور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے سوراخ میں گوہ یا بھٹ میں بجو۔ خدا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مدد گار ہوں گے اور جو تمہارے ذریعہ تیر اندازی کرے گا گویا وہ سو فار شکستہ اورپیکان نداشتہ تیرے نشانہ لگائے گا۔خدا کی قسم تم صحن خانہ میں بہت دکھائی دیتے ہواور پرچم لشکرکے زیر سایہ بہت کم نظرآتے ہو۔میں تمہاری اصلاح کا طریقہ جانتا ہوں اور تمہیں سیدھا کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں اپنے دین کو برباد کرکے تمہاری اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہوں۔خدا تمہارے چہروں کو ذلیل کرے اور تمہارے نصیب کو بد نصیب کرے۔تم حق کو اس طرح نہیں پہچانتے ہو جس طرح باطل کی معرفت رکھتے ہو اور باطل کو اس طرح باطل نہیں قراردیتے ہو جس طرح حق کو غلط ٹھہراتے ہو۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296