شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں13%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95405 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اس کا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں

اہل سنت کی صحیح اور مسندکتابوںنے بھی اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ یہ آیۂ شریفہ حضرت علی ـ کی شان میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب آپ نے اپنی انگشتر مبارک حالت رکوع میں فقیر کو عطا کی تھی( ۱ ) جب یہ آیت حضرت امیرالمومنین ـ کی شان میں نازل ہوئی تو شاعر اہل بیت ٪ حسان بن ثابت نے اس واقعے کو اس طرح اپنے اشعار میں ڈھالا تھا:

آپ وہ ہیں کہ جنہوں نے حالت رکوع میں بخشش کی اے بہترین رکوع کرنے والے آپ پر تمام قوم کی جانیں نثار ہوجائیں.

خداوندکریم کی ذات نے آپ کے حق میں بہترین ولایت نازل کی ہے اور اسے شریعتوں کے خلل ناپذیر احکام میں بیان کیا ہے.

____________________

(۱)اس سلسلے میں کہ یہ آیة حضرت علی ـ کی شان میں نازل ہوئی ہے بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن ان تمام کتابوں کا یہاں تذکرہ ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔ تفسیر طبری جلد ۶ ص ۱۸۶.

۲۔احکام القرآن(تفسیر جصاص) جلد۲ ص ۵۴۲.

۳۔ تفسیرالبیضاوی جلد ۱ ص ۳۴۵.

۴۔ تفسیر الدرالمنثور جلد ۲ ص ۲۹۳.

۴۱

۳۔ پیغمبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا

''اِنّما الأعمال بالنیّات''

''بے شک اعمال کا دارمدار نیتوں پر ہے '.'

اس بنا پرجب ''ولایت علی '' ان اصولوں میں سے ایک ہے کہ جنہیں قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، اور دوسری طرف سے اس جملہ (اشهد ان علیاً ول اللّه ) کو اذان کا جزء سمجھ کر نہ کہا جائے تو پھر ہمارے لئے رسالت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی کے ہمراہ ولایت علی کا بھی اعلان کرنے میں کیا حرج ہے ؟ یہاں پرایک نکتہ کا ذکر ضروری ہے اور وہ یہ کہ اگر اذان میں کسی جملے کا اضافہ کرنا مناسب نہیں ہے اور اس کے ذریعہ شیعوں پراعتراض کیا جاتا ہے تو ذیل میں بیان ہونے والی ان دو باتوں کی کس طرح توجیہ کی جائے گی :

۱۔معتبر تاریخ گواہ ہے کہ یہ جملہ''حّى علیٰ خیر العمل'' اذان کا جزء تھا( ۱ ) لیکن خلیفہ دوم نے اپنی خلافت کے زمانے میں یہ تصور کیا کہ کہیں لوگ اس جملے کو اذان میں سن کر یہ گمان نہ کر بیٹھیں کہ تمام اعمال کے درمیان صرف نماز ہی بہترین عمل ہے اور پھر جہاد پر جانا چھوڑ دیں گے لہذا اس جملے کو اذان سے حذف کردیا اور پھر

____________________

(۱) کتاب کنزالعمال، کتاب الصلوة جلد ۴ ص ۲۶۶ طبرانی سے منقول ہے:''کان بلال یؤذن بالصبح فیقول : حی علی خیر العمل .''بلال جب اذان صبح دیتے تھے تو کہتے تھےحّي علیٰ خیر العمل .اور سنن بیہقی جلد ۱ ص ۴۲۴ اور ص ۴۲۵ اور مؤطا جلد ۱ ص ۹۳ میں بھی یہ بات درج ہے.

۴۲

اذان اسی حالت پر باقی رہی.( ۱ )

۲۔''الصلاة خیر من النوم''یه جملہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اذان کا جزء نہیں تھا بعد میں یہ جملہ اذان میں بڑھا یا گیاہے( ۲ )

اسی وجہ سے امام شافعی نے اپنی کتاب ''الامّ'' میں کہا ہے :

''أکره فى الأذان الصلاة خیر من النوم لأن أبا مخدوره لم یذکره'' ( ۳ )

اذان میں الصلوة خیر من النوم کہنا مجھے پسند نہیں ہے کیونکہ ابو مخدورہ (جو کہ ایک راوی اور محدث ہیں ) نے اس جملے کا (اپنی حدیث میں ) ذکر نہیں کیا ہے۔

____________________

(۱) کنزالعرفان جلد ۲ ص ۱۵۸ اور کتاب ''الصراط المستقیم'' وجواہر الاخبار والآثار اور شرح تجرید (قوشچی)

ص ۴۸۴ میں ہے کہ :صعد المنبر و قال: أیهاالناس ثلاث کنّ علی عهد رسول اللّه أنا أنهیٰ عنهنّ و أحرمهن و أُعاقب علیهن و ه متعة النساء و متعة الحج و حّ علیٰ خیر العمل.''

(۲) کنزالعمال ، کتاب الصلوة جلد ۴ ص ۲۷۰

(۳)دلائل الصدق جلد ۳ القسم الثانی ص ۹۷ سے ماخوذ.

۴۳

آٹھواں سوال

مہدی آل محمدعلیہ السلام کون ہیں اور انکا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟

جواب: کچھ امور ایسے ہیں جن کے سلسلے میں تمام آسمانی شریعتیں اتفاق نظر رکھتی ہیں ان میں سے ایک امر عالمی مصلح کا وجود بھی ہے جو کہ آخری زمانہ میں ظہور کرے گا اس سلسلے میں صرف مسلمان نہیں بلکہ یہودی اور عیسائی بھی اس کی آمد کے منتظر ہیں جو پوری دنیا میں عدل و انصاف قائم کریگااسکے لئے اگر کتاب عہد عتیق اور عہد جدید کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت واضح ہوجائے گی.( ۱ )

اس سلسلہ میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث بھی موجود ہے کہ جسے مسلمان محدثین نے نقل کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں :

''لولم یبق من الدهر اِلا یوم لبعث اللّه رجلاًمن

____________________

(۱) عہد عتیق : مز امیر داؤد ، مز مور ۹۷ ۔ ۹۶ اور کتاب دانیال نبی باب ۱۲ عہد جدید : انجیل متی باب ۲۴ انجیل

مرقوس باب ۱۳ انجیل لوقا باب ۲۱ (جہاں اس موعود کے بارے میں بیان ہوا ہے جس کے انتظار میں دنیا ہے .)

۴۴

أهل بیتى یملأ ها عدلا کما ملئت جوراً'' ( ۱ )

اگر زمانے کا صرف ایک ہی دن باقی بچے گا تب بھی خداوندعالم میرے خاندان میں سے ایک فرد کو مبعوث کرے گا جوکہ اس جہان کو اسی طرح سے عدالت سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھرا ہوا ہوگا.

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں ایک مصلح کے آنے کا عقیدہ تمام آسمانی شریعتوں میں موجود ہے اسی طرح اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں میں بھی امام مھدی عج کے بارے میں بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں اور ان دونوں(شیعہ اور سنی) اسلامی فرقوں کے محدثین اور محققین نے امام زمانہ عج کے بارے میں بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں( ۲ )

روایات کے اس مجموعے میں انکی وہ خصوصیات اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں جو صرف شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری ـ کے بلافصل فرزند ہی میں پائی جاتی ہیں( ۳ ) ان روایات کے مطابق امام مہدی ـ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم نام ہیں( ۴ ) ۔

____________________

(۱) صحیح ابی داؤد جلد ۲ ص ۲۰۷ طبع مصر مطبعہ تازیہ ، ینابیع المودة ص ۴۳۲اور کتاب نور الابصار باب ۲ ص ۱۵۴.

(۲) جیسے کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف محمد بن یوسف بن الکنجی الشافعی ہے اور اسی طرح کتاب البرھان فی علامات مھدی آخر الزمان تالیف علی بن حسام الدین جو کہ متقی ھندی کے نام سے مشہور ہیں اور اسی طرح کتاب المہدی والمہدویت تالیف احمد امین مصری ہے البتہ شیعہ علماء نے اس بارے میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں جنہیں شمار کرنا آسان کام نہیں ہے جیسے کتاب الملاحم والفتن وغیرہ

(۳) ینابیع المودة باب ۷۶، مناقب میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے.

(۴) صحیح ترمذی ،مطبوعہ دہلی ۱۳۴۲ ،جلد ۲ ص ۴۶ اور مسند احمدمطبوعہ مصر ۱۳۱۳

۴۵

یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ اس قسم کی طولانی عمر نہ تو علم اور دانش کے خلاف ہے اور نہ ہی منطق وحی سے تضاد رکھتی ہے آج کی علمی دنیا انسانوں کی طبیعی عمر کو بڑھانا چاہ رہی ہے صاحبان علم اور سائنسدانوں کا یہ یقین ہے کہ ہر انسان کے اندر لمبی عمر گذارنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور اگراسے بعض آفتوں اور بیماریوں سے بچالیا جائے تو قوی امکان ہے کہ اس کی عمر بڑھ جائیگی.

تاریخ نے بھی اپنے دامن میں ایسے افراد کے نام محفوظ کئے ہیں جنہوں نے اس دنیا میں طولانی عمر پائی ہے

قرآن مجیدحضرت نوح ـ کے بارے میں فرماتا ہے:

(فَلَبِثَ فِیهِمْ َلْفَ سَنَةٍ ِلاَّ خَمْسِینَ عَامًا )( ۱ )

اور (نوح)اپنی قوم کے درمیان نوسوپچاس سال رہے

اور اسی طرح قرآن مجید حضرت یونس ـ کے بارے میں فرماتا ہے :

(فَلَوْلا أنّهُ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِى بَطْنِه إ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ )( ۲ )

پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی) کے شکم میں رہتے.

اسی طرح قرآن مجیداور تمام مسلمانوں کے نظریہ کے مطابق حضرت خضر ـ اور حضرت عیسیٰ ـ ابھی تک باحیات ہیں اور زندگی گذار رہے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ عنکبوت آیت ۱۴

(۲) سورہ صافات آیت ۱۴۴

۴۶

نواں سوال

اگر شیعہ حق پر ہیں تو وہ اقلیت میں کیوں ہیں ؟ اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نہیں ماناہے؟

جواب: کبھی بھی حق اور باطل کی شناخت ماننے والوں کی تعداد میں کمی یا زیادتی کے ذریعہ نہیں ہوتی.آج اس دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اسلام قبول نہ کرنے والوں کی بہ نسبت ایک پنجم یا ایک ششم ہے جبکہ مشرق بعید میں رہنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بت اور گائے کی پوجا کرتے ہیں یا ماورائے طبیعت کا انکار کرتے ہیں

چین جس کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ہے کیمونیزم کا مرکز ہے اور ہندوستان جس کی آبادی تقریباًایک ارب ہے اسکی اکثریت ایسے افراد کی ہے جو گائے اور بتوں کی پوجا کرتی ہے اسی طرح یہ ضروری نہیں ہے کہ اکثریت میں ہونا حقانیت کی علامت ہو قرآن مجید نے اکثر و بیشتر اکثریت کی مذمت کی ہے اور بعض اوقات اقلیت کی تعریف کی ہے اس سلسلے میں ہم چند آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :

۴۷

۱۔ (وَلا تَجِدُا َکْثَرَهُمْ شَاکِرِین )( ۱ )

اور تم اکثریت کو شکر گزار نہ پاؤگے.

۲۔(اِنْ اَوْلِیَاؤُهُا ِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَکِنَّ َاکْثَرَهُمْ لایَعْلَمُونَ )( ۲ )

اس کے ولی صرف متقی اور پرہیزگار افراد ہیں لیکن ان کی اکثریت اس سے بھی بے خبر ہے.

۳۔ (وَقَلِیل مِنْ عِبَادِى الشَّکُورُ )( ۳ )

اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں

لہذا کبھی بھی حقیقت کے متلاشی انسان کو اپنے آئین کی پیروی کرنے والوں کو اقلیت میں دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیئے اور اسی طرح اگر وہ اکثریت میں ہوجائیں تو فخر ومباہات نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بہتر یہ ہے کہ ہر انسان اپناچراغ عقل روشن کرے اور اس کی روشنی سے بہرہ مند ہو.

ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی ـ کی خدمت میں عرض کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ جنگ جمل میں آپ کے مخالفین اکثریت پر ہونے کے باوجود باطل پر ہوں؟

امام ـ نے فرمایا :

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت ۱۷

(۲)سورہ انفال آیت ۳۴

(۳)سورہ سبا آیت ۱۳

۴۸

''اِنّ الحق والباطل لایعرفان بأقدارالرجال اعرف الحق تعرف أهله اعرف الباطل تعرف أهله ۔ ''

حق اور باطل کی پہچان افراد کی تعداد سے نہیں کی جاتی بلکہ تم حق کو پہچان لو خود بخود اہل حق کو بھی پہچان لو گے اور باطل کو پہچان لوتو خودبخود اہل باطل کو بھی پہچان لوگے

ایک مسلمان شخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو علمی اور منطقی طریقے سے حل کرے اور اس آیۂ شریفہ (وَلاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْم )( ۱ ) کو چراغ کی مانند اپنے لئے مشعل راہ قرار دے اس سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو اگرچہ اہل تشیع تعداد میں اہل سنت سے کم ہیں لیکن اگر صحیح طور پر مردم شماری کی جائے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک چوتھائی افراد شیعہ ہیں جوکہ دنیا کے مختلف مسلمان نشین علاقوں میں زندگی بسر کرر ہے ہیں( ۲ )

واضح رہے کہ ہر دور میں شیعوں کے بڑے بڑے علماء اور مشہور مولفین اور مصنفین رہے ہیں اور یہاں پریہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ اکثر اسلامی علوم کے موجد اور بانی شیعہ ہی تھے جن میں سے چند یہ ہیں :

علم نحو کے موجد ابوالاسود دئلی

____________________

(۱) سورہ اسراء آیت ۳۶

(۲)زیادہ وضاحت کیلئے ''اعیان الشیعہ''جلد ۱بحث۱۲اور صفحہ ۱۹۴کی طرف مراجعہ کیا جائے.

۴۹

علم عروض کے بانی خلیل بن احمد

علم صرف کے موجد معاذ بن مسلم بن ابی سارہ کوفی

علم بلاغت کو فروغ دینے والوں میں سے ایک ابوعبداللہ بن عمران کاتب خراسانی

(مرزبانی)( ۱ )

شیعہ علماء اور دانشوروں کی کثیر تالیفات (جن کو شمار کرنا بہت دشوار کا م ہے) کی شناخت کے لئے کتاب (الذریعہ الی تصانیف الشیعہ) کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

____________________

(۱)اس بارے میں سید حسن صدر کی کتاب ''تاسیس الشیعہ '' کا مطالعہ کریں.

۵۰

دسواں سوال

رجعت کیا ہے اور آپ اس پر کیوں عقیدہ رکھتے ہیں ؟

جواب: عربی لغت میں رجعت کے معنی ہیں ''لوٹنا'' اسی طرح اصطلاح میں ''موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کچھ انسانوں کے اس دنیا میں لوٹنے '' کو رجعت کہا جاتا ہے یہ رجعت حضرت مہدی ـ کے ظہور کے دور میں واقع ہوگی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ تو عقل کے مخالف ہے اور نہ ہی منطق وحی کے برخلاف ہے.

اسلام اور دوسرے ادیان الہی کی نظر میں انسان کے وجود میں جو چیز اصل ہے وہ اس کی روح ہے جسے ''نفس'' کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہی وہ چیز ہے جو بدن کے فنا ہوجانے کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور اپنی جاودانہ زندگی بسر کرتی رہتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید کی نگاہ میں پروردگار عالم کی ذات قادر مطلق ہے اور کوئی بھی چیز اس کی لامحدود قدرت کو محدود نہیں کرسکتی

ان دو مختصر مقدموں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رجعت کا مسئلہ عقل کی نگاہ سے ایک ممکن امر ہے کیونکہ تھوڑی سی فکر سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ انسانوں کے ایک گروہ کو اس دنیا میں دوبارہ واپس بھیجنا ان کی پہلی خلقت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ آسان ہے.

۵۱

لہذا وہ پروردگار جس نے انہیں پہلے مرحلے میں خلق فرمایا ہے یقینا ان کو دوبارہ اس دنیا میں لوٹانے پر قادر ہے اگر وحی الھی کی بنیاد پر رجعت کو گزشتہ امتوں میں تلاش کیا جائے تواس کے مختلف نمونے مل سکتے ہیں

قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:

(وَاِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی ﷲ جَهْرَةً فَاَخَذَتْکُمْ الصَّاعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنظُرُونَ ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ )( ۱ )

اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو آشکارا طور پر نہ دیکھ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد زندہ کردیا کہ شاید شکر گزار بن جاؤ.

اسی طرح قرآن مجید ایک اور مقام پر حضرت عیسی ـ کی زبان سے نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَاُحْی الْمَوْتَی بِاِذْنِ ﷲِ )( ۲ )

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیت :۵۵۔۵۶

(۲)سورہ آل عمران آیت: ۴۹

۵۲

اور میں خدا کی اجازت سے مردوں کو زندہ کروںگا.

قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ رجعت کو ایک ممکن امر قرار دیا ہے بلکہ انسانوں کے ایک ایسے گروہ کی تائید بھی کی جو اس دنیا سے جاچکا تھا اور پھر اس دنیا میں دوبارہ واپس آگیا قرآن مجید نے مندرجہ ذیل دو آیتوں میں ان دو گروہوں کا تذکرہ کیا ہے جو مرنے کے بعد قیامت سے قبل دنیا میں واپس آئے ہیں

(وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنْ الْاَرْضِ تُکَلِّمُهُمْ اَنَّ النَّاسَ کَانُوا بِآیَاتِنَا لایُوقِنُونَ وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَهُمْ یُوزَعُونَ )( ۱ )

اور جب ان پر وعدہ پورا ہوگا تو ہم زمین سے ایک چلنے والی مخلوق کو نکال کر کھڑا کردیں گے جو ان سے یہ بات کرے کہ کون لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے اور اس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکھٹا کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے اور پھر ان کو روک لیا جائے گا.

ان دو آیتوں کے ذریعہ قیامت سے پہلے واقع ہونے والی رجعت کے سلسلے میں استدلال کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

____________________

(۱)سورہ نمل آیت ۸۲اور ۸۳.

۵۳

۱۔تمام مسلمان مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ یہ دو آیتیں قیامت سے متعلق ہیں اور پہلی آیت قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کو بیان کررہی ہے، اس سلسلے میں جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر ''الدرالمنثور'' میں ابن ابی شیبہ اورانہوں نے حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ ''خروج دابة'' (چلنے والی مخلوق کا نکلنا) قیامت سے پہلے رونماہونے

والے واقعات میں سے ایک ہے.( ۱ )

۲۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو محشور کیا جائے گا ، اور ایسا نہیں ہے کہ اس دن ہر امت میں سے ایک خاص گروہ کو محشور کیا جائے گا. قرآن مجید نے قیامت میں تمام انسانوں کے محشور ہونے کے بارے میں یوں فرمایا ہے:

(ذٰلِکَ یَوْم مَجْمُوع لَهُ النَّاسُ )( ۲ )

وہ ایک دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے.( ۳ )

اور ایک جگہ فرماتا ہے:

(وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَةً وَ حَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا )( ۴ )

____________________

(۱)تفسیر درمنثور جلد ۵ ص ۱۷۷۔ سورہ نمل کی آیت نمبر ۸۲کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)سورہ ہود آیت : ۱۰۳

(۳)تفسیر درمنثور جلد ۳ ص ۳۴۹ ۔اس دن کی تفسیر قیامت سے کی گئی ہے۔

(۴)سورہ کہف آیت: ۴۷

۵۴

اورجس دن ہم پہاڑوں کو حرکت میں لائیں گے اور تم زمین کو بالکل کھلا ہوا دیکھو گے اور ہم سب کو اس طرح جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے

اس اعتبار سے قیامت کے دن تمام انسان محشور ہوں گے اور یہ بات انسانوں کے کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے.

۳۔ان دو گذشتہ آیتوں میں دوسری آیت اس بات کا صریح اعلان کررہی ہے کہ امتوں میں سے کچھ خاص افراد کو محشور کیا جائے گا اور تمام انسانوں کو محشور نہیں کیا جائے گاکیونکہ آیہ کریمہ میں ہے :

(ویوم نحشرمن کل أمة فوجاً ممن یُّکذِّب بآیاتنا )

اور اس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکھٹا کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے.

آیت کا یہ حصہ واضح طور پر اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ تمام انسانوں کو محشور نہیں کیا جائے گا.

نتیجہ:ان تین مختصر مقدموں کی روشنی میں یہ مطلب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ آیات الہی کی تکذیب کرنے والے انسانوں میں سے ایک خاص گروہ کا محشور ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جو قیامت سے پہلے واقع ہوگا اور یہی بات دوسری آیت سے بھی سمجھ میں آتی ہے.

۵۵

کیونکہ قیامت کے دن کوئی خاص گروہ محشور نہیں ہوگا بلکہ اس دن تمام انسان محشور کئے جائیں گے اس بیان کے ساتھ ہمارا یہ دعوی صحیح ثابت ہوجاتا ہے کہ انسانوں کے ایک خاص گروہ کو ان کی موت کے بعد قیامت سے پہلے اس دنیا میں لوٹایا جائے گااور اسی کا نام ''رجعت'' ہے.

اسی طرح اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی جو ہمیشہ قرآن کے ہمراہ ہیں اور کلام الہی کے حقیقی مفسر ہیں اس سلسلے میں اپنی احادیث کے ذریعہ وضاحت فرمائی ہے یہاں پر ہم اختصار کی وجہ سے ان کے صرف دو ارشادات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

امام صادق ـ فرماتے ہیں :

''أیام اللّه ثلاثة یوم القائم ـ ویوم الکَرّة، و یوم القیامة ''

خدا کے تین دن ہیں حضرت امام مہدی ـ کا دن ،رجعت کا دن ، اور قیامت کا دن .اور ایک مقام پر فرماتے ہیں :

''لیس منا مَن لم یؤمن بکرّتنا ۔''

جو شخص ہماری رجعت کو قبول نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے.آخر میں مناسب ہے کہ دو اہم نکتوں کو واضح کردیا جائے:

۱۔رجعت کا فلسفہ

رجعت کے اسباب وعلل کے بارے میں غور کرنے سے دو اہم مقاصد سمجھ میں آتے ہیں پہلا مقصد یہ ہے کہ رجعت کے ذریعہ اسلام کی حقیقی عزت و عظمت اور کفر کی ذلت کو آشکار کیا جائے اور دوسرامقصد یہ ہے کہ باایمان اور نیک انسانوں کو ان کے اعمال کی جزا مل سکے اور کافروں اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے.

۵۶

۲۔رجعت اور تناسخ( ۱ ) کے درمیان واضح فرق

یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ شیعہ جس رجعت پر عقیدہ رکھتے ہیں :اس کا لازمہ تناسخ کا معتقد ہونا نہیں ہے کیونکہ نظریہ تناسخ کی بنیاد قیامت کے انکار پر ہے اور تناسخ والے اپنے اس نظرئیے کے مطابق دنیا کو دائمی طور پر گردش میں جانتے ہیں اوراس کا ہر دور اپنے پہلے والے دور کی تکرار ہے. اس نظرئیے کے مطابق انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح دوبارہ اس دنیا میں پلٹتی ہے اور کسی دوسرے بدن میں منتقل ہوجاتی ہے اور اگر وہ روح گزشتہ زمانے میں کسی نیک آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اب اس زمانے میں کسی ایسے آدمی کے بد ن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی خوشی و مسرت کے ساتھ بسر ہونے والی ہو لیکن اگر

____________________

(۱)تناسخ : یعنی روح کا ایک بدن سے نکل کر دوسرے میں داخل ہوجاناجسے آواگون کہتے ہیں .(مترجم)

۵۷

یہ روح گزشتہ زمانے میں کسی بدکار آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اس زمانے میں ایسے آدمی کے بدن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی سختیوں میں گزرنے والی ہو اس نظریئے کے اعتبار سے روح کا اس طرح سے واپس لوٹنا ہی اسکی قیامت ہے.

جبکہ رجعت کا عقیدہ رکھنے والے اسلامی شریعت کی پیروی کرتے ہوئے قیامت اور معاد پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ کسی روح کاایک بدن سے کسی دوسرے بدن میں منتقل ہونا محال ہے( ۱ )

اہل تشیع صرف یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں میں سے ایک گروہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں واپس آئے گا اور چند حکمتوں اور مصلحتوں کے پورا ہوجانے کے بعد پھر اس دنیا سے چلا جائے گا. یہاں تک کہ یہ گروہ بھی باقی انسانوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا. اس اعتبار سے روح ایک بدن سے جدا ہونے کے بعد ہرگز دوسرے بدن میں منتقل نہیں ہوگی۔

____________________

(۱)صدرالمتألہین نے اپنی کتاب اسفار (جلد ۹ باب ۸ فصل اول ص۳) میں نظریہ تناسخ کو باطل کرتے ہوئے یوں تحریر فرمایا ہے: اگر ایک بدن سے نکلی ہوئی روح کسی دوسرے بدن میں اس حالت میں داخل ہوجائے جبکہ وہ بدن ابھی جنین کی شکل میں رحم مادر میں ہے یا اس کے علاوہ کسی دوسرے مرحلہ میں ہو تو اس صورت میں یہ لازم آئے گا کہ ایک ہی چیز بالقوہ بھی ہو اوربالفعل بھی،اور جو چیز بالفعل ہے اس کا بالقوة ہونا محال ہے اس لئے کہ ان دونوں میں مادی و اتحادی ترکیب ہے اور ایسی ترکیب طبیعی محال ہے جس میں دو ایسے امر جمع ہورہے ہوں جن میں سے ایک بالفعل ہے اور دوسرا بالقوہ.

۵۸

گیارہواں سوال

جس شفاعت کا آپ عقیدہ رکھتے ہیں وہ کیا ہے؟

جواب: شفاعت، اسلام کی ایک ایسی مسلم الثبوت اصل ہے جسے تمام اسلامی فرقوں نے قرآن کی آیات اور روایات کی پیروی کرتے ہوئے قبول کیا ہے بس صرف ان کے درمیان شفاعت کے نتیجے کے بارے میں اختلاف نظر ہے

شفاعت کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا محترم انسان جو پروردگار کے نزدیک صاحب مقام ومنزلت ہو وہ خداوند متعال سے کسی شخص کے گناہوں کی بخشش یا اس کے درجات کی بلندی کی دعا کرے.

رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

''أعطیت خمسًا...و أعطیت الشفاعة فادخرتها لأمتى ''( ۱ )

____________________

(۱) مسند احمدجلد ۱ ص ۳۰۱ ، صحیح بخاری جلد ۱ ص۹۱ ط مصر.

۵۹

پانچ چیزیں مجھے عطا کی گئی ہیں اور شفاعت مجھے عطا ہوئی ہے جسے میں نے اپنی امت کے لئے ذخیرہ کردیا ہے.

شفاعت کا دائرہ

قرآن مجید کی نگاہ میں وہ شفاعت صحیح نہیں ہے جو کسی قید اور شرط کے بغیرہو بلکہ شفاعت صرف مندرجہ ذیل صورتوں میں مؤثر ہوگی:

۱۔شفاعت کرنے والا اس وقت شفاعت کرسکتا ہے جب کہ اسے شفاعت کرنے کے لئے خداوندعالم کی جانب سے اجازت حاصل ہو لہذا صرف وہ لوگ شفاعت کرسکتے ہیں جنہیں خدا سے معنوی قربت بھی حاصل ہو اوروہ اذن شفاعت بھی رکھتے ہوں قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:

(لایَمْلِکُونَ الشَّفَاعَةَ اِلاَّ مَنْ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَانِ عَهْدًا )( ۱ )

اس وقت کوئی شفاعت کے سلسلے میں صاحب اختیار نہ ہوگا مگر وہ جس نے رحمان کی بارگاہ میں شفاعت کا عہد لے لیا ہے

اور ایک اور جگہ پر فرماتا ہے:

____________________

(۱)سورہ مریم آیت: ۸۷

۶۰

(یَوْمَئِذٍ لاتَنفَعُ الشَّفَاعَةُ ِالاَّ مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمَانُ وَرَضِىَ لَهُ قَوْلاً )( ۱ )

اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدا نے اجازت دے دی ہو اور وہ ان کی بات سے راضی ہو.

۲۔ضروری ہے کہ جو شخص شفاعت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ شفاعت کرنے والے کے ذریعے فیض الہی کو لینے کی صلاحیت رکھتا ہو.

یعنی اس شخص کا خدا سے ایمانی رابطہ اور شفاعت کرنے والے سے روحانی رشتہ ٹوٹنے نہ پائے ، لہذا کفار چونکہ خداوندکریم سے ایمانی رابطہ نہیں رکھتے اور اسی طرح بعض گنہگار مسلمان جیسے بے نمازی اور قاتل افرادچونکہ شفاعت کرنے والے سے روحانی رشتہ توڑ بیٹھے ہیں لہذا یہ سب شفاعت کے مستحق قرار نہیں پائیں گے.قرآن مجید بے نمازی اور منکر قیامت کے بارے میں فرماتا ہے:

(فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِینَ )( ۲ )

تو انہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی.اور قرآن مجید ظالم افراد کے بارے میں فرماتا ہے :

(مَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ حَمِیمٍ وَلاَشَفِیعٍ یُطَاعُ )( ۳ )

اور ظالموں کیلئے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ ہی سفارش کرنے والا جس کی بات سن لی جائے

____________________

(۱)سورہ طہ آیت: ۱۰۹

(۲)سورہ مدثر آیت : ۴۸

(۳)سورہ غافر آیت :۱۸

۶۱

شفاعت کا فلسفہ

شفاعت ، توبہ کی طرح امید کا ایک دروازہ ہے جسے ایسے لوگوں کیلئے قرار دیا گیا ہے جو گناہ اور ضلالت کے راستے کو چھوڑ کر اپنی باقی ماندہ عمر کو خدا کی اطاعت میں گزارنا چاہتے ہیں کیونکہ جب بھی گنہگار انسان یہ احساس کرلے کہ صرف چند محدود شرطوں کیساتھ (نہ یہ کہ ہر حالت میں ) شفاعت کرنیوالے کی شفاعت کا مستحق ہوسکتا ہے تو پھر وہ کوشش کریگا کہ ان شرطوں کا خیال رکھے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے.

شفاعت کا نتیجہ

مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ شفاعت کا نتیجہ گناہوں کی بخشش ہے یااس کا نتیجہ بلندی درجات ہے لیکن اگر پیغمبرگرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس ارشاد کو ملاحظہ کیا جائے جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں کہ :

''اِنّ شفاعت یوم القیامة لأهل الکبائر مِن أمتى'' ( ۱ )

''میری شفاعت قیامت کے دن میری امت کے ان افراد کے لئے ہوگی جو گناہان کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں .''

تو پہلا نظریہ زیادہ صحیح نظر آتا ہے۔

____________________

(۱)سنن ابن ماجہ جلد ۲ ص ۵۸۳،مسند احمد جلد ۳ ص ۲۱۳، سنن ابی داؤد جلد ۲ ص ۵۳۷، سنن ترمذی جلد ۴ ص ۴۵

۶۲

بارہواں سوال

کیا حقیقی شفاعت کرنے والوں سے بھی شفاعت کی درخواست کرنا شرک ہے؟

اس سوال کی وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ شفاعت کرنا خدا کا مخصوص حق ہے جیسا کہ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:

(قُلْ لِلّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیعًا )( ۱ )

کہہ دیجئے کہ شفاعت کا تمام تر اختیار اللہ کے ہاتھوں میں ہے

لہذا غیر خدا سے شفاعت کی درخواست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے مطلق حق کو اس کے بندے سے مانگاجائے در حقیقت اس قسم کی درخواست غیر خدا کی عبادت کرنا ہے اوریہ ''توحید عبادی'' کے خلاف ہے.

جواب:یہاں اس کی ذات یا اس کی خالقیت اور اسکے مدبر ہونے میں شرک نہیں ہے یہاں شرک سے مراد اسکی عبادت میں شرک کرنا ہے

____________________

(۱)سورہ زمر آیت۴۴

۶۳

واضح ہے کہ اس مسئلے کی وضاحت ، عبادت کی صحیح تفسیر پر منحصر ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ عبادت کی تفسیر کرنے کا ہمیں اختیار نہیں دیا گیا تاکہ کہیں ہم مخلوق کے مقابلے میں ہر قسم کے خضوع اور کسی بندے سے کسی قسم کی درخواست کرنے کو عبادت قرار نہ دے بیٹھیں بلکہ قرآن مجید کی اس صراحت کے مطابق فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کیا ہے:

(فَاِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُوحِى فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ فَسَجَدَ الْمَلاَئِکَةُ کُلُّهُمْ اَجْمَعُونَ )( ۱ )

جب میں اسے درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب سجدے میں گرپڑنا تو تمام ملائکہ نے سجدہ کرلیا.

یہ سجدہ اگرچہ خداوندعالم کے فرمان سے انجام پایا تھاپھر بھی یہ حضرت آدم کی عبادت کے لئے نہ تھا ورنہ خداوند اس کے بجالانے کا حکم نہ دیتا

اور اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت یعقوب کے بیٹوں اور خود حضرت یعقوب نے جناب یوسف کو سجدہ کیا تھا:

(وَرَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا )( ۲ )

اور انہوں نے والدین کو تخت کے اوپر پر جگہ دی اور سب لوگ یوسف کے سامنے سجدے میں گرپڑے

اگر اس قسم کا خضوع حضرت یوسف کی عبادت ہوتا تو اسے نہ تو حضرت یعقوب

____________________

(۱)سورہ ص آیت: ۷۲اور ۷۳

(۲)سورہ یوسف آیت:۱۰۰

۶۴

جیسے معصوم نبی بجالاتے اور نہ ہی اپنے بیٹوں کے اس کام سے راضی ہوتے جب کہ کوئی خضوع بھی سجدے سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا اسی بنیاد پر ضروری ہے کہ ہم خضوع اور کسی غیر سے درخواست کرنے کو عبادت سے جدا سمجھیں.

عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی موجود کو خدا تصور کرے اور پھر اس کی عبادت کرے یا کسی شے کو مخلوق خدا تو جانے لیکن یہ تصور کرے کہ خدائی امور جیسے کائنات کی تدبیر اور گناہوں کی بخشش اس شے کے سپرد کردئیے گئے ہیں ۔ لیکن اگر کسی شخص کے لئے ہمارا خضوع ایسا ہو کہ نہ تو ہم اسے خدا سمجھیں اور نہ ہی یہ تصور کریں کہ خدائی امور اس کے سپرد کردئیے گئے ہیں تو ہمارا یہ خضوع اس کے احترام کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگابالکل ایسے ہی جیسے فرشتوں نے جناب آدم ـاور جناب یعقوب کے بیٹوں نے جناب یوسف کا احترام کیا تھا یہی بات شفاعت کے سلسلے میں بھی کہی جائے گی کہ اگر یہ تصور کیا جائے کہ شفاعت کرنے کا حق پوری طرح سے ان شفاعت کرنے والوں کے سپرد کردیا گیا ہے اور وہ بغیر کسی قید وشرط کے شفاعت کرسکتے ہیں اور گناہوں کی مغفرت کا سبب بن سکتے ہیں تو اس طرح کا عقیدہ شرک کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہم نے خدا کے کام کو غیر خدا سے طلب کیا ہے لیکن جب بھی ہم تصور کریں کہ خدا کے کچھ پاک بندے ایسے ہیں جو شفاعت کے مالک تو نہیں ہیں لیکن کچھ مخصوص شرائط کے ساتھ گناہ گار بندوں کی شفاعت کرنے کی اجازت رکھتے ہیں کیونکہ شفاعت کی اہم ترین شرط یہی اذن اور رضایت پروردگار ہے تو واضح ہے کہ ایک صالح بندے سے اس طرح کی شفاعت طلب کرنے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ ہم اسے خدا مان بیٹھے ہیں اسی طرح اس کا لازمہ یہ بھی نہیں ہے کہ خدا کے امور اس کو سونپ دئیے گئے ہیں بلکہ ہم نے اس سے ایسے کام کی درخواست کی ہے جس کی وہ لیاقت رکھتا ہے ہم پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ گناہ گار افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر مغفرت کی درخواست کرتے تھے.لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی بھی ان کی طرف شرک کی نسبت نہیں دیتے تھے. جیسا کہ سنن ابن ماجہ میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت موجود ہے کہ جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

۶۵

''أتدرون ما خیّرنى ربى اللیلة؟ قلنا: اللّه ورسوله أعلم قال: فانه خیّرنى بین أن یدخل نصف أمتى الجنة و بین الشفاعة فاخترت الشفاعة قلنا یارسول اللّه: ادع اللّه أن یجعلنا من أهلها قاله لکل مسلم'' ( ۱ )

کیا تم جانتے ہو کہ آج کی رات میرے رب نے مجھے کن چیزوں کے درمیان اختیار دیا تھا؟ ہم نے کہا خدا اور اس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتے ہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اس نے مجھے اختیار دیا ہے کہ یا تو میری آدھی امت جنت میں چلی جائے یا پھر میں شفاعت کا حق لے لوں میں نے حق شفاعت کو اختیار کرلیا. ہم نے کہا اے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱)سنن ابن ماجہ جلد ۲ ، باب ذکرالشفاعة ص ۵۸۶

۶۶

اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ ہمیں بھی شفاعت حاصل کرنے کے لائق بنادے. پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : شفاعت ہرمسلمان کے لئے ہوگی.

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آنحضرت سے شفاعت

کی درخواست کیا کرتے تھے اسی لئے انہوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا تھا''ادع اللّه'' .

قرآن مجید بھی فرماتا ہے:

(وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَلَمُوا اَنفُسَهُمْ جَائُ وکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا )( ۱ )

اور اے کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.

اسی طرح قرآن مجید ایک اور مقام پر جناب یعقوب کے بیٹوں کی درخواست کو نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(قَالُوا یَاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ )( ۲ )

____________________

(۱)سورہ نساء آیت:۶۴

(۲)سورہ یوسف آیت: ۹۷

۶۷

ان لوگوں نے کہا باباجان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے.

اور حضرت یعقوب نے بھی ان کے لئے استغفار کرنے کا وعدہ کیا اور ہرگز اپنے بیٹوں پر شرک کا الزام نہیں لگایا.

(قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّى اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ )( ۱ )

انہوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے.

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت: ۹۸

۶۸

تیرہواں سوال

کیا غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہے؟

جواب:عقل اور منطق وحی کے اعتبار سے تمام انسان بلکہ کائنات کے تمام موجودات جس طرح وجود میں آنے کے لئے خدا کے محتاج ہیں اسی طرح دوسروں پر اثر انداز ہونے کے لئے بھی اس کے محتاج ہیں

قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:

(یَاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمْ الْفُقَرَائُ اِلَی ﷲِ وَﷲ هُوَ الْغَنِّىُ الْحَمِیدُ )( ۱ )

اے لوگو تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اللہ صاحب دولت اور قابل حمدوثنا ہے.

اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے کہ ہر قسم کی فتح اور نصرت پروردگار جہان کے قبضۂ قدرت میں ہے.

____________________

(۱)سورہ فاطر آیت ۱۵

۶۹

(وَمَا النَّصْرُ اِلاَّ مِنْ عِنْدِ ﷲِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ )( ۱ )

مدد تو ہمیشہ صرف خدائے عزیز و حکیم ہی کی طرف سے ہوتی ہے.

اسلام کی اس مسلم الثبوت اصل کی بنیاد پر ہم سب مسلمان اپنی ہر نماز میں اس آیہ شریفہ کی تلاوت کرتے ہیں :

(اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِین )

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھی سے مدد چاہتے ہیں

اس مقدمہ کی روشنی میں اب ہم مذکورہ سوال کے جواب میں یہ کہنا چاہیں گے کہ:غیر خدا سے مدد مانگنا دو صورتوں میں قابل تصور ہے:

۱۔ پہلی صورت یہ ہے کہ ہم کسی انسان یا موجودات میں سے کسی سے اس طرح مدد مانگیں کہ اسے اس کے وجود یا اس کے اپنے کاموں میں مستقل سمجھیں اور اسے مدد پہنچانے میں خدا سے بے نیاز تصور کریں. ایسی صورت میں شک نہیں ہے کہ غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہوگا جیسے قرآن مجیددرج ذیل آیت میں اس کو باطل قرار دیتا ہے.

(قُلْ مَنْ ذَا الَّذِ یَعْصِمُکُمْ مِنَ ﷲِ ِانْ اَرَادَ بِکُمْ سُوئً ا َوْ اَرَادَ بِکُمْ رَحْمَةً وَلایَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ ﷲِ وَلِیًّا وَلانَصِیرًا )( ۲ )

____________________

(۲)سورہ آل عمران آیت ۱۲۶

(۲)سورہ احزاب آیت: ۱۷

۷۰

کہہ دیجئے کہ اگر خدا برائی کا ارادہ کر لے یا بھلائی ہی کرنا چاہے تو تمہیں اس سے کون بچا سکتا ہے اور یہ لوگ اس کے علاوہ نہ کوئی سرپرست پاسکتے ہیں اور نہ مددگار.

۲۔دوسری صورت یہ ہے کہ کسی انسان سے مدد مانگتے وقت اسے خدا کی مخلوق اوراس کا ضرورتمندبندہ سمجھا جائے اوریہ عقیدہ ہو کہ وہ اپنی طرف سے کسی قسم کا استقلال نہیں رکھتا اور اسے بندوں کی مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت خد اہی نے عطا فرمائی ہے.

اس فکر کی رو سے اگر کسی چیز میں ہم اس انسان سے مددمانگ رہے ہیں تو وہ اس سلسلے میں واسطے کا کام کرتا ہے کیونکہ پروردگار نے اسے بندوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے ''وسیلہ'' قرار دیا ہے اس قسم کی مدد مانگنا حقیقت میں خداوندکریم سے مدد مانگنا ہے کیونکہ اسی نے ان وسائل اور اسباب کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس شخص کو انسانوں کی حاجات کو پورا کرنے کی صلاحیت اور قدرت عطا کی ہے اصولی طور پر بشر کی زندگی کی اساس ان اسباب اور مسببات سے مدد مانگنے پر استوار ہے اس طرح کہ ان سے مدد نہ لینے کی صورت میں انسان کی زندگی اضطراب کا شکار ہوجائیگی یہاں پر ہم اگر انہیں اس نگاہ سے دیکھیں کہ وہ خدا کی مدد پہنچانے کا وسیلہ ہیں اور ان کا وجوداور ان کی تاثیر خدا کی طرف سے ہے تو ان سے مدد مانگنا کسی بھی اعتبار سے توحید اور یکتا پرستی کے خلاف نہیں ہے.

۷۱

ایک موحد اور خدا شناس کسان جو کہ زمین پانی ہوا اور سورج سے مدد لے کر ایک بیج کو ایک پھل دار درخت میں تبدیل کردیتا ہے تو حقیقت میں وہ کسان خدا سے مدد مانگتا ہے کیونکہ وہی ہے کہ جس نے ان اسباب کو قدرت اور استعداد بخشی ہے.

واضح ہے کہ یہ مدد مانگنا توحید اور یکتا پرستی سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے بلکہ قرآن مجید تو ہمیں بعض چیزوں (جیسے صبر اور نماز) سے مدد لینے کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے:

(وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاة )( ۱ )

صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو.

واضح ہے کہ صبر اور پائیداری انسان کا کام ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ان سے مدد حاصل کریں جب کہ اس قسم کی استعانت خدا سے مانگی جانے والی اس مدد کی مخالف نہیں ہے جسے اِیّاک نَستعینَ کے ذریعہ طلب کیا جاتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت ۴۵

۷۲

چودہواں سوال

کیا دوسروں کو پکارنا ان کی عبادت اور شرک ہے؟

جواب:اس قسم کے سوال کا سبب قرآن مجید کی وہ آیتیں ہیں جو اپنے ظاہری معنی کے اعتبار سے غیر خدا کو پکارنے سے روکتی ہیں :

(وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ ﷲِ اَحَدًا )( ۱ )

اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.

(وَلاتَدْعُ مِنْ دُونِ ﷲِ مَا لایَنْفَعُکَ وَلایَضُرُّکَ )( ۲ )

اور خدا کے علاوہ کسی ایسے کو آواز نہ دو جو نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان.

بعض لوگ اس قسم کی آیتوں کو سند بنا کر یہ کہتے ہیں کہ اولیائے خدا اور صالحین کو ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد پکارنا شرک اور ان کی عبادت ہے.

____________________

(۱)سورہ جن آیت :۱۸

(۲)سورہ یونس آیت : ۱۰۶

۷۳

جواب: اس سوال کے جواب میں مناسب یہ ہے کہ سب سے پہلے ان دو کلمات ''دعا'' اور ''عبادت'' کے معنی واضح کردئے جائیںاس میں شک نہیں کہ عربی زبان

میں لفظ دعا کے معنی ندا اور پکارنے کے ہیں اور لفظ عبادت کے معنی پرستش کے ہیں اس اعتبار سے یہ دونوں الفاظ ہرگز ہم معنی نہیں ہیں یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہر ندا اورطلب عبادت اور پرستش ہے اس کی مندرجہ ذیل دلیلیں ہیں :

۱۔قرآن مجید میں لفظ دعوت بعض ایسی جگہوں پر استعمال ہوا ہے جہاں ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے مراد عبادت ہے جیسے:

(قَالَ رَبِّى اِنِّا دَعَوْتُ قَوْمِ لَیْلاً وَنَهَارًا )( ۱ )

انہوں نے کہا پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن میں بھی بلایا اور رات میں بھی.

کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت نوح ـ کی مراد یہ تھی کہ میں نے دن رات ان کی عبادت کی ہے.

لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دعوت (پکارنا ) اور عبادت ہم معنی کلمات ہیں لہذا اگر کوئی شخص پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا کسی اور صالح بندے سے مدد طلب کرے اور انہیں پکارے تو اس کا یہ عمل ان کی عبادت شمار نہیں کیا جائے گاکیونکہ دعوت کے معنی میں پرستش کی بہ نسبت زیادہ عمومیت ہے.

____________________

(۱) سورہ نوح آیت: ۵

۷۴

۲۔آیات کے اس مجموعے میں دعا سے مراد ہر قسم کا پکارنا نہیں ہے بلکہ ایک خاص قسم کا پکارنا مقصود ہے جو کہ لفظ پرستش کا لازمہ ہوسکتا ہے کیونکہ یہ آیات ان بت پرستوں کے بارے میں آئی ہیں جو اپنے بتوں کو چھوٹے خدا تصور کرتے تھے اس میں شک نہیں ہے کہ بت پرستوں کا خضوع ان کی دعا اور ان کی فریاد یہ سب ایسے بتوں

کے مقابلے میں تھا جنہیں وہ حق شفاعت اور مغفرت کا مالک سمجھتے تھے ان کی نگاہ میں یہ بت دنیا اور آخرت کے امور میں مستقل طور پر حق تصرف رکھتے تھے اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شرائط کے ساتھ ان موجودات کو پکارنا اور ان سے کسی قسم کی التجا کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا کیونکہ وہ ان کو خدا کی حیثیت سے پکارتے تھے اور اس کا بہترین گواہ درج ذیل آیت ہے:

(فَمَا اَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمْ الَّتِى یَدْعُونَ مِنْ دُونِ ﷲِ مِنْ شَْئٍ )( ۱ )

عذاب کے آجانے کے بعد انکے وہ خدا بھی کام نہ آئے جنہیں وہ خدا کو چھوڑ کر پکار رہے تھے

لہذا یہ آیتیں ہماری بحث سے کوئی ربط نہیں رکھتیں کیونکہ ہماری بحث کا موضوع ایک بندے کا دوسرے بندے سے کوئی التجا کرنا ہے جبکہ یہ بندہ اسے نہ تواپنا خدا سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے دنیا و آخرت کے امور میں اپنا مالک ، تام الاختیار یا تصرف کرنے

____________________

(۱)سورہ ہود آیت :۱۰۱.

۷۵

والا مانتا ہے بلکہ اسے خدا کا ایسا معزز اور محترم بندہ سمجھتا ہے جسے پروردگار عالم نے منصب رسالت یا امامت سے نوازا ہے اوروعدہ کیا ہے کہ اس کی دعا کو اپنے بندوں کے حق میں قبول کرے گا اس سلسلے میں خدا فرماتا ہے :

(وَلَوْا َنَّهُمْ اِذْ ظَلَمُوا اَنفُسَهُمْ جَائُ وکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا )( ۲ )

اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.

۳۔مذکورہ آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ دعوت سے مراد ہر قسم کی درخواست اور حاجت نہیں ہے بلکہ اس دعوت سے مراد پرستش ہے اسی لئے ایک آیت میں لفظ دعوت کے بعد بلا فاصلہ اسی معنی کیلئے لفظ ''عبادت'' استعمال کیا گیا ہے

(وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِى اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَیَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ نساء آیت:۶۴.

(۲)سورہ غافر آیت ۶۰

۷۶

اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے.

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا اس آیت کے آغاز میں لفظ ''ادعونی'' ہے اور اس کے ذیل میں لفظ ''عبادتی'' آیا ہے یہ اس بات پر شاہد ہے کہ ان آیتوں میں لفظ دعوت سے مراد وہ التجا و استغاثہ ہے جو ایسے موجودات سے کیاجاتا ہے جنہیں وہ خدا کی صفات سے متصف سمجھتے تھے۔.

نتیجہ:ان گزشتہ تین مقدموں کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان آیات میں قرآن مجید کا بنیادی مقصد بت پرستوں کو بتوں کو پکارنے سے روکنا ہے وہ بت کہ جنہیں وہ خدا کا شریک یا مدبر یا صاحب شفاعت جانتے تھے.کفار کا ان بتوں کے سامنے ہر قسم کا خضوع اور احترام یا گریہ اور استغاثہ کرنا اور ان سے شفاعت کاطلب کرنا یا پھر ان سے اپنی حاجت طلب کرنا یہ سب اس وجہ سے تھا کہ وہ ان بتوں کو چھوٹے خدا سمجھتے تھے اور انہیں خدا کے کاموں کو انجام دینے والا تصور کرتے تھے بت پرستوں کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا نے دنیا اور آخرت کے متعلق بعض کام ان بتوں کو سونپ دئے ہیں اس اعتبار سے ان آیتوں کا ایک ایسے روح رکھنے والے انسان سے استغاثہ کرنے سے کیا تعلق ہے جو پکارنے والے کی نظرمیں ذرہ برابر بھی بندگی کی حد سے باہر قدم نہیں رکھتا بلکہ اس کی نگاہ میں خداوندعالم کا محبوب و محترم بندہ ہے

۷۷

اگر قرآن مجید فرماتا ہے:

(وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلاَ تَدْعُوا مَعَ ﷲِ اَحَدًا )( ۱ )

''اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.''

تو اس سے مراد پرستش کے قصد سے پکارنا ہے کیونکہ زمانۂ جاہلیت کے عرب بتوں ، ستاروں، فرشتوں، اور جنوں کی پوجاکیا کرتے تھے یہ آیت اور اس قسم کی دوسری آیتیں کسی شخص یاکسی شے کو معبود سمجھ کر پکارنے سے متعلق ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ان موجودات سے اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوئے کسی چیز کی درخواست کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا لیکن ان آیتوں کا کسی ایسے شخص سے دعا کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کے سلسلے میں دعا کرنے والا شخص اس کی ربوبیت یا الوہیت کا قائل نہیں ہے بلکہ اس شخص کو خدا کا بہترین اور محبوب بندہ سمجھتا ہے؟ممکن ہے کوئی یہ تصور کرے کہ اولیائے خدا کو صرف ان کی زندگی میں پکارنا جائز ہے اور ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد انہیں پکارنا شرک ہے.

اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے:

۱۔ہم خاک میں سونے والے جسموں سے مدد نہیں مانگتے ہیں بلکہ ایسے نیک بندوں کی پاک ارواح (جیسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اماموں) سے مدد مانگتے ہیں جو قرآنی آیات کی

صراحت کے مطابق زندہ ہیں اور شہداء سے بھی بلند وبالا مقام و منزلت کے ساتھ برزخ کی زندگی گزار رہے ہیں اور اگر ہم ان کی قبروں پر جاکر ان سے اس طرح کی درخواستیں کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ یہاں آکر ہم ان کی مقدس ارواح کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان سے رابطہ قائم کرتے ہیں اس سے بڑھ کر یہ کہ روایات کے مطابق یہ مقدس مقامات وہ ہیں جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں

۲۔ان اولیائے الہی کابقید حیات ہونا یا حیات سے متصف نہ ہونا شرک یا توحید کی شناخت کا معیار نہیں ہے اور ہماری گفتگو شرک اور توحید کے معیار کے بارے میں ہے لیکن ان کو پکارنافائدہ مند ہے یا نہیں ؟تو یہ ہماری گفتگو سے خارج ہے.

البتہ اس مسئلے (کہ کیا اس قسم کے استغاثے فائدہ مند ہیں ؟) کے بارے میں گفتگو اس کی مناسب جگہ پر موجود ہے۔

____________________

(۱) سورہ جن آیت ۱۸

۷۸

پندرہواں سوال

''بدائ'' کیا ہے اور آپ اس کا عقیدہ کیوںرکھتے ہیں ؟

جواب:عربی زبان میں لفظ ''بدائ'' کے معنی آشکار اور ظاہر ہونے کے ہیں اسی طرح شیعہ علماء کی اصطلاح میں ایک انسان کے نیک اور پسندیدہ اعمال کی وجہ سے اس کی تقدیر و سرنوشت میں تبدیلی کو ''بدائ'' کہا جاتا ہے.

عقیدۂ بداء شیعیت کی آفاقی تعلیمات کے عظیم عقائد میں سے ایک ہے جسکی اساس وحی الہی اور عقلی استدلال پر استوار ہے. قرآن کریم کی نگاہ میں ایسا نہیں ہے کہ انسان کے ہاتھ اس کے مقدرات کے سامنے ہمیشہ کے لئے باندھ دئیے گئے ہوں بلکہ سعادت کی راہ اس کے لئے کھلی ہوئی ہے اور وہ راہ حق کی طرف پلٹ کر اپنے اچھے اعمال کے ذریعہ اپنی زندگی کے انجام کوبدل سکتا ہے اس حقیقت کو اس کتاب الہی نے ایک عمومی اور مستحکم اصل کے عنوان سے یوں بیان کیا ہے:

۷۹

(اِنَّ ﷲ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنفُسِهِمْ )( ۱ )

اور خداوند کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے.

اور ایک جگہ فرماتا ہے:

(وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ )( ۲ )

اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے راستے کھول دیتے.

اسی طرح حضرت یونس کی سرنوشت کی تبدیلی کے بارے میں فرماتا ہے:

(فَلَوْلاَانَّهُ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِى بَطْنِهِا ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ )( ۳ )

پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی) کے شکم میں رہ جاتے.

اس آخری آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ظاہری اعتبار سے حضرت یونس نبی کا قیامت تک اس خاص زندان میں باقی رہنا قطعی تھا لیکن ان کے نیک اعمال

____________________

(۱)سورہ رعد آیت:۱۱

(۲)سورہ اعراف آیت:۹۶

(۳)سورہ صافات آیت ۱۴۳اور ۱۴۴

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296