شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 79065
ڈاؤنلوڈ: 2851

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79065 / ڈاؤنلوڈ: 2851
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اس کا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں

اہل سنت کی صحیح اور مسندکتابوںنے بھی اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ یہ آیۂ شریفہ حضرت علی ـ کی شان میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب آپ نے اپنی انگشتر مبارک حالت رکوع میں فقیر کو عطا کی تھی( ۱ ) جب یہ آیت حضرت امیرالمومنین ـ کی شان میں نازل ہوئی تو شاعر اہل بیت ٪ حسان بن ثابت نے اس واقعے کو اس طرح اپنے اشعار میں ڈھالا تھا:

آپ وہ ہیں کہ جنہوں نے حالت رکوع میں بخشش کی اے بہترین رکوع کرنے والے آپ پر تمام قوم کی جانیں نثار ہوجائیں.

خداوندکریم کی ذات نے آپ کے حق میں بہترین ولایت نازل کی ہے اور اسے شریعتوں کے خلل ناپذیر احکام میں بیان کیا ہے.

____________________

(۱)اس سلسلے میں کہ یہ آیة حضرت علی ـ کی شان میں نازل ہوئی ہے بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن ان تمام کتابوں کا یہاں تذکرہ ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔ تفسیر طبری جلد ۶ ص ۱۸۶.

۲۔احکام القرآن(تفسیر جصاص) جلد۲ ص ۵۴۲.

۳۔ تفسیرالبیضاوی جلد ۱ ص ۳۴۵.

۴۔ تفسیر الدرالمنثور جلد ۲ ص ۲۹۳.

۴۱

۳۔ پیغمبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا

''اِنّما الأعمال بالنیّات''

''بے شک اعمال کا دارمدار نیتوں پر ہے '.'

اس بنا پرجب ''ولایت علی '' ان اصولوں میں سے ایک ہے کہ جنہیں قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، اور دوسری طرف سے اس جملہ (اشهد ان علیاً ول اللّه ) کو اذان کا جزء سمجھ کر نہ کہا جائے تو پھر ہمارے لئے رسالت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی کے ہمراہ ولایت علی کا بھی اعلان کرنے میں کیا حرج ہے ؟ یہاں پرایک نکتہ کا ذکر ضروری ہے اور وہ یہ کہ اگر اذان میں کسی جملے کا اضافہ کرنا مناسب نہیں ہے اور اس کے ذریعہ شیعوں پراعتراض کیا جاتا ہے تو ذیل میں بیان ہونے والی ان دو باتوں کی کس طرح توجیہ کی جائے گی :

۱۔معتبر تاریخ گواہ ہے کہ یہ جملہ''حّى علیٰ خیر العمل'' اذان کا جزء تھا( ۱ ) لیکن خلیفہ دوم نے اپنی خلافت کے زمانے میں یہ تصور کیا کہ کہیں لوگ اس جملے کو اذان میں سن کر یہ گمان نہ کر بیٹھیں کہ تمام اعمال کے درمیان صرف نماز ہی بہترین عمل ہے اور پھر جہاد پر جانا چھوڑ دیں گے لہذا اس جملے کو اذان سے حذف کردیا اور پھر

____________________

(۱) کتاب کنزالعمال، کتاب الصلوة جلد ۴ ص ۲۶۶ طبرانی سے منقول ہے:''کان بلال یؤذن بالصبح فیقول : حی علی خیر العمل .''بلال جب اذان صبح دیتے تھے تو کہتے تھےحّي علیٰ خیر العمل .اور سنن بیہقی جلد ۱ ص ۴۲۴ اور ص ۴۲۵ اور مؤطا جلد ۱ ص ۹۳ میں بھی یہ بات درج ہے.

۴۲

اذان اسی حالت پر باقی رہی.( ۱ )

۲۔''الصلاة خیر من النوم''یه جملہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اذان کا جزء نہیں تھا بعد میں یہ جملہ اذان میں بڑھا یا گیاہے( ۲ )

اسی وجہ سے امام شافعی نے اپنی کتاب ''الامّ'' میں کہا ہے :

''أکره فى الأذان الصلاة خیر من النوم لأن أبا مخدوره لم یذکره'' ( ۳ )

اذان میں الصلوة خیر من النوم کہنا مجھے پسند نہیں ہے کیونکہ ابو مخدورہ (جو کہ ایک راوی اور محدث ہیں ) نے اس جملے کا (اپنی حدیث میں ) ذکر نہیں کیا ہے۔

____________________

(۱) کنزالعرفان جلد ۲ ص ۱۵۸ اور کتاب ''الصراط المستقیم'' وجواہر الاخبار والآثار اور شرح تجرید (قوشچی)

ص ۴۸۴ میں ہے کہ :صعد المنبر و قال: أیهاالناس ثلاث کنّ علی عهد رسول اللّه أنا أنهیٰ عنهنّ و أحرمهن و أُعاقب علیهن و ه متعة النساء و متعة الحج و حّ علیٰ خیر العمل.''

(۲) کنزالعمال ، کتاب الصلوة جلد ۴ ص ۲۷۰

(۳)دلائل الصدق جلد ۳ القسم الثانی ص ۹۷ سے ماخوذ.

۴۳

آٹھواں سوال

مہدی آل محمدعلیہ السلام کون ہیں اور انکا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟

جواب: کچھ امور ایسے ہیں جن کے سلسلے میں تمام آسمانی شریعتیں اتفاق نظر رکھتی ہیں ان میں سے ایک امر عالمی مصلح کا وجود بھی ہے جو کہ آخری زمانہ میں ظہور کرے گا اس سلسلے میں صرف مسلمان نہیں بلکہ یہودی اور عیسائی بھی اس کی آمد کے منتظر ہیں جو پوری دنیا میں عدل و انصاف قائم کریگااسکے لئے اگر کتاب عہد عتیق اور عہد جدید کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت واضح ہوجائے گی.( ۱ )

اس سلسلہ میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث بھی موجود ہے کہ جسے مسلمان محدثین نے نقل کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں :

''لولم یبق من الدهر اِلا یوم لبعث اللّه رجلاًمن

____________________

(۱) عہد عتیق : مز امیر داؤد ، مز مور ۹۷ ۔ ۹۶ اور کتاب دانیال نبی باب ۱۲ عہد جدید : انجیل متی باب ۲۴ انجیل

مرقوس باب ۱۳ انجیل لوقا باب ۲۱ (جہاں اس موعود کے بارے میں بیان ہوا ہے جس کے انتظار میں دنیا ہے .)

۴۴

أهل بیتى یملأ ها عدلا کما ملئت جوراً'' ( ۱ )

اگر زمانے کا صرف ایک ہی دن باقی بچے گا تب بھی خداوندعالم میرے خاندان میں سے ایک فرد کو مبعوث کرے گا جوکہ اس جہان کو اسی طرح سے عدالت سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھرا ہوا ہوگا.

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں ایک مصلح کے آنے کا عقیدہ تمام آسمانی شریعتوں میں موجود ہے اسی طرح اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں میں بھی امام مھدی عج کے بارے میں بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں اور ان دونوں(شیعہ اور سنی) اسلامی فرقوں کے محدثین اور محققین نے امام زمانہ عج کے بارے میں بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں( ۲ )

روایات کے اس مجموعے میں انکی وہ خصوصیات اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں جو صرف شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری ـ کے بلافصل فرزند ہی میں پائی جاتی ہیں( ۳ ) ان روایات کے مطابق امام مہدی ـ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم نام ہیں( ۴ ) ۔

____________________

(۱) صحیح ابی داؤد جلد ۲ ص ۲۰۷ طبع مصر مطبعہ تازیہ ، ینابیع المودة ص ۴۳۲اور کتاب نور الابصار باب ۲ ص ۱۵۴.

(۲) جیسے کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف محمد بن یوسف بن الکنجی الشافعی ہے اور اسی طرح کتاب البرھان فی علامات مھدی آخر الزمان تالیف علی بن حسام الدین جو کہ متقی ھندی کے نام سے مشہور ہیں اور اسی طرح کتاب المہدی والمہدویت تالیف احمد امین مصری ہے البتہ شیعہ علماء نے اس بارے میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں جنہیں شمار کرنا آسان کام نہیں ہے جیسے کتاب الملاحم والفتن وغیرہ

(۳) ینابیع المودة باب ۷۶، مناقب میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے.

(۴) صحیح ترمذی ،مطبوعہ دہلی ۱۳۴۲ ،جلد ۲ ص ۴۶ اور مسند احمدمطبوعہ مصر ۱۳۱۳

۴۵

یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ اس قسم کی طولانی عمر نہ تو علم اور دانش کے خلاف ہے اور نہ ہی منطق وحی سے تضاد رکھتی ہے آج کی علمی دنیا انسانوں کی طبیعی عمر کو بڑھانا چاہ رہی ہے صاحبان علم اور سائنسدانوں کا یہ یقین ہے کہ ہر انسان کے اندر لمبی عمر گذارنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور اگراسے بعض آفتوں اور بیماریوں سے بچالیا جائے تو قوی امکان ہے کہ اس کی عمر بڑھ جائیگی.

تاریخ نے بھی اپنے دامن میں ایسے افراد کے نام محفوظ کئے ہیں جنہوں نے اس دنیا میں طولانی عمر پائی ہے

قرآن مجیدحضرت نوح ـ کے بارے میں فرماتا ہے:

(فَلَبِثَ فِیهِمْ َلْفَ سَنَةٍ ِلاَّ خَمْسِینَ عَامًا )( ۱ )

اور (نوح)اپنی قوم کے درمیان نوسوپچاس سال رہے

اور اسی طرح قرآن مجید حضرت یونس ـ کے بارے میں فرماتا ہے :

(فَلَوْلا أنّهُ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِى بَطْنِه إ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ )( ۲ )

پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی) کے شکم میں رہتے.

اسی طرح قرآن مجیداور تمام مسلمانوں کے نظریہ کے مطابق حضرت خضر ـ اور حضرت عیسیٰ ـ ابھی تک باحیات ہیں اور زندگی گذار رہے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ عنکبوت آیت ۱۴

(۲) سورہ صافات آیت ۱۴۴

۴۶

نواں سوال

اگر شیعہ حق پر ہیں تو وہ اقلیت میں کیوں ہیں ؟ اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نہیں ماناہے؟

جواب: کبھی بھی حق اور باطل کی شناخت ماننے والوں کی تعداد میں کمی یا زیادتی کے ذریعہ نہیں ہوتی.آج اس دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اسلام قبول نہ کرنے والوں کی بہ نسبت ایک پنجم یا ایک ششم ہے جبکہ مشرق بعید میں رہنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بت اور گائے کی پوجا کرتے ہیں یا ماورائے طبیعت کا انکار کرتے ہیں

چین جس کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ہے کیمونیزم کا مرکز ہے اور ہندوستان جس کی آبادی تقریباًایک ارب ہے اسکی اکثریت ایسے افراد کی ہے جو گائے اور بتوں کی پوجا کرتی ہے اسی طرح یہ ضروری نہیں ہے کہ اکثریت میں ہونا حقانیت کی علامت ہو قرآن مجید نے اکثر و بیشتر اکثریت کی مذمت کی ہے اور بعض اوقات اقلیت کی تعریف کی ہے اس سلسلے میں ہم چند آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :

۴۷

۱۔ (وَلا تَجِدُا َکْثَرَهُمْ شَاکِرِین )( ۱ )

اور تم اکثریت کو شکر گزار نہ پاؤگے.

۲۔(اِنْ اَوْلِیَاؤُهُا ِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَکِنَّ َاکْثَرَهُمْ لایَعْلَمُونَ )( ۲ )

اس کے ولی صرف متقی اور پرہیزگار افراد ہیں لیکن ان کی اکثریت اس سے بھی بے خبر ہے.

۳۔ (وَقَلِیل مِنْ عِبَادِى الشَّکُورُ )( ۳ )

اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں

لہذا کبھی بھی حقیقت کے متلاشی انسان کو اپنے آئین کی پیروی کرنے والوں کو اقلیت میں دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیئے اور اسی طرح اگر وہ اکثریت میں ہوجائیں تو فخر ومباہات نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بہتر یہ ہے کہ ہر انسان اپناچراغ عقل روشن کرے اور اس کی روشنی سے بہرہ مند ہو.

ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی ـ کی خدمت میں عرض کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ جنگ جمل میں آپ کے مخالفین اکثریت پر ہونے کے باوجود باطل پر ہوں؟

امام ـ نے فرمایا :

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت ۱۷

(۲)سورہ انفال آیت ۳۴

(۳)سورہ سبا آیت ۱۳

۴۸

''اِنّ الحق والباطل لایعرفان بأقدارالرجال اعرف الحق تعرف أهله اعرف الباطل تعرف أهله ۔ ''

حق اور باطل کی پہچان افراد کی تعداد سے نہیں کی جاتی بلکہ تم حق کو پہچان لو خود بخود اہل حق کو بھی پہچان لو گے اور باطل کو پہچان لوتو خودبخود اہل باطل کو بھی پہچان لوگے

ایک مسلمان شخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو علمی اور منطقی طریقے سے حل کرے اور اس آیۂ شریفہ (وَلاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْم )( ۱ ) کو چراغ کی مانند اپنے لئے مشعل راہ قرار دے اس سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو اگرچہ اہل تشیع تعداد میں اہل سنت سے کم ہیں لیکن اگر صحیح طور پر مردم شماری کی جائے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک چوتھائی افراد شیعہ ہیں جوکہ دنیا کے مختلف مسلمان نشین علاقوں میں زندگی بسر کرر ہے ہیں( ۲ )

واضح رہے کہ ہر دور میں شیعوں کے بڑے بڑے علماء اور مشہور مولفین اور مصنفین رہے ہیں اور یہاں پریہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ اکثر اسلامی علوم کے موجد اور بانی شیعہ ہی تھے جن میں سے چند یہ ہیں :

علم نحو کے موجد ابوالاسود دئلی

____________________

(۱) سورہ اسراء آیت ۳۶

(۲)زیادہ وضاحت کیلئے ''اعیان الشیعہ''جلد ۱بحث۱۲اور صفحہ ۱۹۴کی طرف مراجعہ کیا جائے.

۴۹

علم عروض کے بانی خلیل بن احمد

علم صرف کے موجد معاذ بن مسلم بن ابی سارہ کوفی

علم بلاغت کو فروغ دینے والوں میں سے ایک ابوعبداللہ بن عمران کاتب خراسانی

(مرزبانی)( ۱ )

شیعہ علماء اور دانشوروں کی کثیر تالیفات (جن کو شمار کرنا بہت دشوار کا م ہے) کی شناخت کے لئے کتاب (الذریعہ الی تصانیف الشیعہ) کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

____________________

(۱)اس بارے میں سید حسن صدر کی کتاب ''تاسیس الشیعہ '' کا مطالعہ کریں.

۵۰

دسواں سوال

رجعت کیا ہے اور آپ اس پر کیوں عقیدہ رکھتے ہیں ؟

جواب: عربی لغت میں رجعت کے معنی ہیں ''لوٹنا'' اسی طرح اصطلاح میں ''موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کچھ انسانوں کے اس دنیا میں لوٹنے '' کو رجعت کہا جاتا ہے یہ رجعت حضرت مہدی ـ کے ظہور کے دور میں واقع ہوگی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ تو عقل کے مخالف ہے اور نہ ہی منطق وحی کے برخلاف ہے.

اسلام اور دوسرے ادیان الہی کی نظر میں انسان کے وجود میں جو چیز اصل ہے وہ اس کی روح ہے جسے ''نفس'' کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہی وہ چیز ہے جو بدن کے فنا ہوجانے کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور اپنی جاودانہ زندگی بسر کرتی رہتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید کی نگاہ میں پروردگار عالم کی ذات قادر مطلق ہے اور کوئی بھی چیز اس کی لامحدود قدرت کو محدود نہیں کرسکتی

ان دو مختصر مقدموں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رجعت کا مسئلہ عقل کی نگاہ سے ایک ممکن امر ہے کیونکہ تھوڑی سی فکر سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ انسانوں کے ایک گروہ کو اس دنیا میں دوبارہ واپس بھیجنا ان کی پہلی خلقت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ آسان ہے.

۵۱

لہذا وہ پروردگار جس نے انہیں پہلے مرحلے میں خلق فرمایا ہے یقینا ان کو دوبارہ اس دنیا میں لوٹانے پر قادر ہے اگر وحی الھی کی بنیاد پر رجعت کو گزشتہ امتوں میں تلاش کیا جائے تواس کے مختلف نمونے مل سکتے ہیں

قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:

(وَاِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی ﷲ جَهْرَةً فَاَخَذَتْکُمْ الصَّاعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنظُرُونَ ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ )( ۱ )

اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو آشکارا طور پر نہ دیکھ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد زندہ کردیا کہ شاید شکر گزار بن جاؤ.

اسی طرح قرآن مجید ایک اور مقام پر حضرت عیسی ـ کی زبان سے نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَاُحْی الْمَوْتَی بِاِذْنِ ﷲِ )( ۲ )

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیت :۵۵۔۵۶

(۲)سورہ آل عمران آیت: ۴۹

۵۲

اور میں خدا کی اجازت سے مردوں کو زندہ کروںگا.

قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ رجعت کو ایک ممکن امر قرار دیا ہے بلکہ انسانوں کے ایک ایسے گروہ کی تائید بھی کی جو اس دنیا سے جاچکا تھا اور پھر اس دنیا میں دوبارہ واپس آگیا قرآن مجید نے مندرجہ ذیل دو آیتوں میں ان دو گروہوں کا تذکرہ کیا ہے جو مرنے کے بعد قیامت سے قبل دنیا میں واپس آئے ہیں

(وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنْ الْاَرْضِ تُکَلِّمُهُمْ اَنَّ النَّاسَ کَانُوا بِآیَاتِنَا لایُوقِنُونَ وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَهُمْ یُوزَعُونَ )( ۱ )

اور جب ان پر وعدہ پورا ہوگا تو ہم زمین سے ایک چلنے والی مخلوق کو نکال کر کھڑا کردیں گے جو ان سے یہ بات کرے کہ کون لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے اور اس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکھٹا کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے اور پھر ان کو روک لیا جائے گا.

ان دو آیتوں کے ذریعہ قیامت سے پہلے واقع ہونے والی رجعت کے سلسلے میں استدلال کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

____________________

(۱)سورہ نمل آیت ۸۲اور ۸۳.

۵۳

۱۔تمام مسلمان مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ یہ دو آیتیں قیامت سے متعلق ہیں اور پہلی آیت قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کو بیان کررہی ہے، اس سلسلے میں جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر ''الدرالمنثور'' میں ابن ابی شیبہ اورانہوں نے حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ ''خروج دابة'' (چلنے والی مخلوق کا نکلنا) قیامت سے پہلے رونماہونے

والے واقعات میں سے ایک ہے.( ۱ )

۲۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو محشور کیا جائے گا ، اور ایسا نہیں ہے کہ اس دن ہر امت میں سے ایک خاص گروہ کو محشور کیا جائے گا. قرآن مجید نے قیامت میں تمام انسانوں کے محشور ہونے کے بارے میں یوں فرمایا ہے:

(ذٰلِکَ یَوْم مَجْمُوع لَهُ النَّاسُ )( ۲ )

وہ ایک دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے.( ۳ )

اور ایک جگہ فرماتا ہے:

(وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَةً وَ حَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا )( ۴ )

____________________

(۱)تفسیر درمنثور جلد ۵ ص ۱۷۷۔ سورہ نمل کی آیت نمبر ۸۲کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)سورہ ہود آیت : ۱۰۳

(۳)تفسیر درمنثور جلد ۳ ص ۳۴۹ ۔اس دن کی تفسیر قیامت سے کی گئی ہے۔

(۴)سورہ کہف آیت: ۴۷

۵۴

اورجس دن ہم پہاڑوں کو حرکت میں لائیں گے اور تم زمین کو بالکل کھلا ہوا دیکھو گے اور ہم سب کو اس طرح جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے

اس اعتبار سے قیامت کے دن تمام انسان محشور ہوں گے اور یہ بات انسانوں کے کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے.

۳۔ان دو گذشتہ آیتوں میں دوسری آیت اس بات کا صریح اعلان کررہی ہے کہ امتوں میں سے کچھ خاص افراد کو محشور کیا جائے گا اور تمام انسانوں کو محشور نہیں کیا جائے گاکیونکہ آیہ کریمہ میں ہے :

(ویوم نحشرمن کل أمة فوجاً ممن یُّکذِّب بآیاتنا )

اور اس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکھٹا کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے.

آیت کا یہ حصہ واضح طور پر اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ تمام انسانوں کو محشور نہیں کیا جائے گا.

نتیجہ:ان تین مختصر مقدموں کی روشنی میں یہ مطلب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ آیات الہی کی تکذیب کرنے والے انسانوں میں سے ایک خاص گروہ کا محشور ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جو قیامت سے پہلے واقع ہوگا اور یہی بات دوسری آیت سے بھی سمجھ میں آتی ہے.

۵۵

کیونکہ قیامت کے دن کوئی خاص گروہ محشور نہیں ہوگا بلکہ اس دن تمام انسان محشور کئے جائیں گے اس بیان کے ساتھ ہمارا یہ دعوی صحیح ثابت ہوجاتا ہے کہ انسانوں کے ایک خاص گروہ کو ان کی موت کے بعد قیامت سے پہلے اس دنیا میں لوٹایا جائے گااور اسی کا نام ''رجعت'' ہے.

اسی طرح اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی جو ہمیشہ قرآن کے ہمراہ ہیں اور کلام الہی کے حقیقی مفسر ہیں اس سلسلے میں اپنی احادیث کے ذریعہ وضاحت فرمائی ہے یہاں پر ہم اختصار کی وجہ سے ان کے صرف دو ارشادات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

امام صادق ـ فرماتے ہیں :

''أیام اللّه ثلاثة یوم القائم ـ ویوم الکَرّة، و یوم القیامة ''

خدا کے تین دن ہیں حضرت امام مہدی ـ کا دن ،رجعت کا دن ، اور قیامت کا دن .اور ایک مقام پر فرماتے ہیں :

''لیس منا مَن لم یؤمن بکرّتنا ۔''

جو شخص ہماری رجعت کو قبول نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے.آخر میں مناسب ہے کہ دو اہم نکتوں کو واضح کردیا جائے:

۱۔رجعت کا فلسفہ

رجعت کے اسباب وعلل کے بارے میں غور کرنے سے دو اہم مقاصد سمجھ میں آتے ہیں پہلا مقصد یہ ہے کہ رجعت کے ذریعہ اسلام کی حقیقی عزت و عظمت اور کفر کی ذلت کو آشکار کیا جائے اور دوسرامقصد یہ ہے کہ باایمان اور نیک انسانوں کو ان کے اعمال کی جزا مل سکے اور کافروں اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے.

۵۶

۲۔رجعت اور تناسخ( ۱ ) کے درمیان واضح فرق

یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ شیعہ جس رجعت پر عقیدہ رکھتے ہیں :اس کا لازمہ تناسخ کا معتقد ہونا نہیں ہے کیونکہ نظریہ تناسخ کی بنیاد قیامت کے انکار پر ہے اور تناسخ والے اپنے اس نظرئیے کے مطابق دنیا کو دائمی طور پر گردش میں جانتے ہیں اوراس کا ہر دور اپنے پہلے والے دور کی تکرار ہے. اس نظرئیے کے مطابق انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح دوبارہ اس دنیا میں پلٹتی ہے اور کسی دوسرے بدن میں منتقل ہوجاتی ہے اور اگر وہ روح گزشتہ زمانے میں کسی نیک آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اب اس زمانے میں کسی ایسے آدمی کے بد ن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی خوشی و مسرت کے ساتھ بسر ہونے والی ہو لیکن اگر

____________________

(۱)تناسخ : یعنی روح کا ایک بدن سے نکل کر دوسرے میں داخل ہوجاناجسے آواگون کہتے ہیں .(مترجم)

۵۷

یہ روح گزشتہ زمانے میں کسی بدکار آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اس زمانے میں ایسے آدمی کے بدن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی سختیوں میں گزرنے والی ہو اس نظریئے کے اعتبار سے روح کا اس طرح سے واپس لوٹنا ہی اسکی قیامت ہے.

جبکہ رجعت کا عقیدہ رکھنے والے اسلامی شریعت کی پیروی کرتے ہوئے قیامت اور معاد پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ کسی روح کاایک بدن سے کسی دوسرے بدن میں منتقل ہونا محال ہے( ۱ )

اہل تشیع صرف یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں میں سے ایک گروہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں واپس آئے گا اور چند حکمتوں اور مصلحتوں کے پورا ہوجانے کے بعد پھر اس دنیا سے چلا جائے گا. یہاں تک کہ یہ گروہ بھی باقی انسانوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا. اس اعتبار سے روح ایک بدن سے جدا ہونے کے بعد ہرگز دوسرے بدن میں منتقل نہیں ہوگی۔

____________________

(۱)صدرالمتألہین نے اپنی کتاب اسفار (جلد ۹ باب ۸ فصل اول ص۳) میں نظریہ تناسخ کو باطل کرتے ہوئے یوں تحریر فرمایا ہے: اگر ایک بدن سے نکلی ہوئی روح کسی دوسرے بدن میں اس حالت میں داخل ہوجائے جبکہ وہ بدن ابھی جنین کی شکل میں رحم مادر میں ہے یا اس کے علاوہ کسی دوسرے مرحلہ میں ہو تو اس صورت میں یہ لازم آئے گا کہ ایک ہی چیز بالقوہ بھی ہو اوربالفعل بھی،اور جو چیز بالفعل ہے اس کا بالقوة ہونا محال ہے اس لئے کہ ان دونوں میں مادی و اتحادی ترکیب ہے اور ایسی ترکیب طبیعی محال ہے جس میں دو ایسے امر جمع ہورہے ہوں جن میں سے ایک بالفعل ہے اور دوسرا بالقوہ.

۵۸

گیارہواں سوال

جس شفاعت کا آپ عقیدہ رکھتے ہیں وہ کیا ہے؟

جواب: شفاعت، اسلام کی ایک ایسی مسلم الثبوت اصل ہے جسے تمام اسلامی فرقوں نے قرآن کی آیات اور روایات کی پیروی کرتے ہوئے قبول کیا ہے بس صرف ان کے درمیان شفاعت کے نتیجے کے بارے میں اختلاف نظر ہے

شفاعت کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا محترم انسان جو پروردگار کے نزدیک صاحب مقام ومنزلت ہو وہ خداوند متعال سے کسی شخص کے گناہوں کی بخشش یا اس کے درجات کی بلندی کی دعا کرے.

رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

''أعطیت خمسًا...و أعطیت الشفاعة فادخرتها لأمتى ''( ۱ )

____________________

(۱) مسند احمدجلد ۱ ص ۳۰۱ ، صحیح بخاری جلد ۱ ص۹۱ ط مصر.

۵۹

پانچ چیزیں مجھے عطا کی گئی ہیں اور شفاعت مجھے عطا ہوئی ہے جسے میں نے اپنی امت کے لئے ذخیرہ کردیا ہے.

شفاعت کا دائرہ

قرآن مجید کی نگاہ میں وہ شفاعت صحیح نہیں ہے جو کسی قید اور شرط کے بغیرہو بلکہ شفاعت صرف مندرجہ ذیل صورتوں میں مؤثر ہوگی:

۱۔شفاعت کرنے والا اس وقت شفاعت کرسکتا ہے جب کہ اسے شفاعت کرنے کے لئے خداوندعالم کی جانب سے اجازت حاصل ہو لہذا صرف وہ لوگ شفاعت کرسکتے ہیں جنہیں خدا سے معنوی قربت بھی حاصل ہو اوروہ اذن شفاعت بھی رکھتے ہوں قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:

(لایَمْلِکُونَ الشَّفَاعَةَ اِلاَّ مَنْ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَانِ عَهْدًا )( ۱ )

اس وقت کوئی شفاعت کے سلسلے میں صاحب اختیار نہ ہوگا مگر وہ جس نے رحمان کی بارگاہ میں شفاعت کا عہد لے لیا ہے

اور ایک اور جگہ پر فرماتا ہے:

____________________

(۱)سورہ مریم آیت: ۸۷

۶۰