شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 79028
ڈاؤنلوڈ: 2849

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79028 / ڈاؤنلوڈ: 2849
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

(یَوْمَئِذٍ لاتَنفَعُ الشَّفَاعَةُ ِالاَّ مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمَانُ وَرَضِىَ لَهُ قَوْلاً )( ۱ )

اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدا نے اجازت دے دی ہو اور وہ ان کی بات سے راضی ہو.

۲۔ضروری ہے کہ جو شخص شفاعت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ شفاعت کرنے والے کے ذریعے فیض الہی کو لینے کی صلاحیت رکھتا ہو.

یعنی اس شخص کا خدا سے ایمانی رابطہ اور شفاعت کرنے والے سے روحانی رشتہ ٹوٹنے نہ پائے ، لہذا کفار چونکہ خداوندکریم سے ایمانی رابطہ نہیں رکھتے اور اسی طرح بعض گنہگار مسلمان جیسے بے نمازی اور قاتل افرادچونکہ شفاعت کرنے والے سے روحانی رشتہ توڑ بیٹھے ہیں لہذا یہ سب شفاعت کے مستحق قرار نہیں پائیں گے.قرآن مجید بے نمازی اور منکر قیامت کے بارے میں فرماتا ہے:

(فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِینَ )( ۲ )

تو انہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی.اور قرآن مجید ظالم افراد کے بارے میں فرماتا ہے :

(مَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ حَمِیمٍ وَلاَشَفِیعٍ یُطَاعُ )( ۳ )

اور ظالموں کیلئے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ ہی سفارش کرنے والا جس کی بات سن لی جائے

____________________

(۱)سورہ طہ آیت: ۱۰۹

(۲)سورہ مدثر آیت : ۴۸

(۳)سورہ غافر آیت :۱۸

۶۱

شفاعت کا فلسفہ

شفاعت ، توبہ کی طرح امید کا ایک دروازہ ہے جسے ایسے لوگوں کیلئے قرار دیا گیا ہے جو گناہ اور ضلالت کے راستے کو چھوڑ کر اپنی باقی ماندہ عمر کو خدا کی اطاعت میں گزارنا چاہتے ہیں کیونکہ جب بھی گنہگار انسان یہ احساس کرلے کہ صرف چند محدود شرطوں کیساتھ (نہ یہ کہ ہر حالت میں ) شفاعت کرنیوالے کی شفاعت کا مستحق ہوسکتا ہے تو پھر وہ کوشش کریگا کہ ان شرطوں کا خیال رکھے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے.

شفاعت کا نتیجہ

مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ شفاعت کا نتیجہ گناہوں کی بخشش ہے یااس کا نتیجہ بلندی درجات ہے لیکن اگر پیغمبرگرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس ارشاد کو ملاحظہ کیا جائے جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں کہ :

''اِنّ شفاعت یوم القیامة لأهل الکبائر مِن أمتى'' ( ۱ )

''میری شفاعت قیامت کے دن میری امت کے ان افراد کے لئے ہوگی جو گناہان کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں .''

تو پہلا نظریہ زیادہ صحیح نظر آتا ہے۔

____________________

(۱)سنن ابن ماجہ جلد ۲ ص ۵۸۳،مسند احمد جلد ۳ ص ۲۱۳، سنن ابی داؤد جلد ۲ ص ۵۳۷، سنن ترمذی جلد ۴ ص ۴۵

۶۲

بارہواں سوال

کیا حقیقی شفاعت کرنے والوں سے بھی شفاعت کی درخواست کرنا شرک ہے؟

اس سوال کی وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ شفاعت کرنا خدا کا مخصوص حق ہے جیسا کہ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:

(قُلْ لِلّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیعًا )( ۱ )

کہہ دیجئے کہ شفاعت کا تمام تر اختیار اللہ کے ہاتھوں میں ہے

لہذا غیر خدا سے شفاعت کی درخواست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے مطلق حق کو اس کے بندے سے مانگاجائے در حقیقت اس قسم کی درخواست غیر خدا کی عبادت کرنا ہے اوریہ ''توحید عبادی'' کے خلاف ہے.

جواب:یہاں اس کی ذات یا اس کی خالقیت اور اسکے مدبر ہونے میں شرک نہیں ہے یہاں شرک سے مراد اسکی عبادت میں شرک کرنا ہے

____________________

(۱)سورہ زمر آیت۴۴

۶۳

واضح ہے کہ اس مسئلے کی وضاحت ، عبادت کی صحیح تفسیر پر منحصر ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ عبادت کی تفسیر کرنے کا ہمیں اختیار نہیں دیا گیا تاکہ کہیں ہم مخلوق کے مقابلے میں ہر قسم کے خضوع اور کسی بندے سے کسی قسم کی درخواست کرنے کو عبادت قرار نہ دے بیٹھیں بلکہ قرآن مجید کی اس صراحت کے مطابق فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کیا ہے:

(فَاِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُوحِى فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ فَسَجَدَ الْمَلاَئِکَةُ کُلُّهُمْ اَجْمَعُونَ )( ۱ )

جب میں اسے درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب سجدے میں گرپڑنا تو تمام ملائکہ نے سجدہ کرلیا.

یہ سجدہ اگرچہ خداوندعالم کے فرمان سے انجام پایا تھاپھر بھی یہ حضرت آدم کی عبادت کے لئے نہ تھا ورنہ خداوند اس کے بجالانے کا حکم نہ دیتا

اور اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت یعقوب کے بیٹوں اور خود حضرت یعقوب نے جناب یوسف کو سجدہ کیا تھا:

(وَرَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا )( ۲ )

اور انہوں نے والدین کو تخت کے اوپر پر جگہ دی اور سب لوگ یوسف کے سامنے سجدے میں گرپڑے

اگر اس قسم کا خضوع حضرت یوسف کی عبادت ہوتا تو اسے نہ تو حضرت یعقوب

____________________

(۱)سورہ ص آیت: ۷۲اور ۷۳

(۲)سورہ یوسف آیت:۱۰۰

۶۴

جیسے معصوم نبی بجالاتے اور نہ ہی اپنے بیٹوں کے اس کام سے راضی ہوتے جب کہ کوئی خضوع بھی سجدے سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا اسی بنیاد پر ضروری ہے کہ ہم خضوع اور کسی غیر سے درخواست کرنے کو عبادت سے جدا سمجھیں.

عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی موجود کو خدا تصور کرے اور پھر اس کی عبادت کرے یا کسی شے کو مخلوق خدا تو جانے لیکن یہ تصور کرے کہ خدائی امور جیسے کائنات کی تدبیر اور گناہوں کی بخشش اس شے کے سپرد کردئیے گئے ہیں ۔ لیکن اگر کسی شخص کے لئے ہمارا خضوع ایسا ہو کہ نہ تو ہم اسے خدا سمجھیں اور نہ ہی یہ تصور کریں کہ خدائی امور اس کے سپرد کردئیے گئے ہیں تو ہمارا یہ خضوع اس کے احترام کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگابالکل ایسے ہی جیسے فرشتوں نے جناب آدم ـاور جناب یعقوب کے بیٹوں نے جناب یوسف کا احترام کیا تھا یہی بات شفاعت کے سلسلے میں بھی کہی جائے گی کہ اگر یہ تصور کیا جائے کہ شفاعت کرنے کا حق پوری طرح سے ان شفاعت کرنے والوں کے سپرد کردیا گیا ہے اور وہ بغیر کسی قید وشرط کے شفاعت کرسکتے ہیں اور گناہوں کی مغفرت کا سبب بن سکتے ہیں تو اس طرح کا عقیدہ شرک کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہم نے خدا کے کام کو غیر خدا سے طلب کیا ہے لیکن جب بھی ہم تصور کریں کہ خدا کے کچھ پاک بندے ایسے ہیں جو شفاعت کے مالک تو نہیں ہیں لیکن کچھ مخصوص شرائط کے ساتھ گناہ گار بندوں کی شفاعت کرنے کی اجازت رکھتے ہیں کیونکہ شفاعت کی اہم ترین شرط یہی اذن اور رضایت پروردگار ہے تو واضح ہے کہ ایک صالح بندے سے اس طرح کی شفاعت طلب کرنے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ ہم اسے خدا مان بیٹھے ہیں اسی طرح اس کا لازمہ یہ بھی نہیں ہے کہ خدا کے امور اس کو سونپ دئیے گئے ہیں بلکہ ہم نے اس سے ایسے کام کی درخواست کی ہے جس کی وہ لیاقت رکھتا ہے ہم پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ گناہ گار افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر مغفرت کی درخواست کرتے تھے.لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی بھی ان کی طرف شرک کی نسبت نہیں دیتے تھے. جیسا کہ سنن ابن ماجہ میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت موجود ہے کہ جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

۶۵

''أتدرون ما خیّرنى ربى اللیلة؟ قلنا: اللّه ورسوله أعلم قال: فانه خیّرنى بین أن یدخل نصف أمتى الجنة و بین الشفاعة فاخترت الشفاعة قلنا یارسول اللّه: ادع اللّه أن یجعلنا من أهلها قاله لکل مسلم'' ( ۱ )

کیا تم جانتے ہو کہ آج کی رات میرے رب نے مجھے کن چیزوں کے درمیان اختیار دیا تھا؟ ہم نے کہا خدا اور اس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتے ہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اس نے مجھے اختیار دیا ہے کہ یا تو میری آدھی امت جنت میں چلی جائے یا پھر میں شفاعت کا حق لے لوں میں نے حق شفاعت کو اختیار کرلیا. ہم نے کہا اے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱)سنن ابن ماجہ جلد ۲ ، باب ذکرالشفاعة ص ۵۸۶

۶۶

اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ ہمیں بھی شفاعت حاصل کرنے کے لائق بنادے. پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : شفاعت ہرمسلمان کے لئے ہوگی.

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آنحضرت سے شفاعت

کی درخواست کیا کرتے تھے اسی لئے انہوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا تھا''ادع اللّه'' .

قرآن مجید بھی فرماتا ہے:

(وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَلَمُوا اَنفُسَهُمْ جَائُ وکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا )( ۱ )

اور اے کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.

اسی طرح قرآن مجید ایک اور مقام پر جناب یعقوب کے بیٹوں کی درخواست کو نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(قَالُوا یَاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ )( ۲ )

____________________

(۱)سورہ نساء آیت:۶۴

(۲)سورہ یوسف آیت: ۹۷

۶۷

ان لوگوں نے کہا باباجان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے.

اور حضرت یعقوب نے بھی ان کے لئے استغفار کرنے کا وعدہ کیا اور ہرگز اپنے بیٹوں پر شرک کا الزام نہیں لگایا.

(قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّى اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ )( ۱ )

انہوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے.

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت: ۹۸

۶۸

تیرہواں سوال

کیا غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہے؟

جواب:عقل اور منطق وحی کے اعتبار سے تمام انسان بلکہ کائنات کے تمام موجودات جس طرح وجود میں آنے کے لئے خدا کے محتاج ہیں اسی طرح دوسروں پر اثر انداز ہونے کے لئے بھی اس کے محتاج ہیں

قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:

(یَاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمْ الْفُقَرَائُ اِلَی ﷲِ وَﷲ هُوَ الْغَنِّىُ الْحَمِیدُ )( ۱ )

اے لوگو تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اللہ صاحب دولت اور قابل حمدوثنا ہے.

اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے کہ ہر قسم کی فتح اور نصرت پروردگار جہان کے قبضۂ قدرت میں ہے.

____________________

(۱)سورہ فاطر آیت ۱۵

۶۹

(وَمَا النَّصْرُ اِلاَّ مِنْ عِنْدِ ﷲِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ )( ۱ )

مدد تو ہمیشہ صرف خدائے عزیز و حکیم ہی کی طرف سے ہوتی ہے.

اسلام کی اس مسلم الثبوت اصل کی بنیاد پر ہم سب مسلمان اپنی ہر نماز میں اس آیہ شریفہ کی تلاوت کرتے ہیں :

(اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِین )

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھی سے مدد چاہتے ہیں

اس مقدمہ کی روشنی میں اب ہم مذکورہ سوال کے جواب میں یہ کہنا چاہیں گے کہ:غیر خدا سے مدد مانگنا دو صورتوں میں قابل تصور ہے:

۱۔ پہلی صورت یہ ہے کہ ہم کسی انسان یا موجودات میں سے کسی سے اس طرح مدد مانگیں کہ اسے اس کے وجود یا اس کے اپنے کاموں میں مستقل سمجھیں اور اسے مدد پہنچانے میں خدا سے بے نیاز تصور کریں. ایسی صورت میں شک نہیں ہے کہ غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہوگا جیسے قرآن مجیددرج ذیل آیت میں اس کو باطل قرار دیتا ہے.

(قُلْ مَنْ ذَا الَّذِ یَعْصِمُکُمْ مِنَ ﷲِ ِانْ اَرَادَ بِکُمْ سُوئً ا َوْ اَرَادَ بِکُمْ رَحْمَةً وَلایَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ ﷲِ وَلِیًّا وَلانَصِیرًا )( ۲ )

____________________

(۲)سورہ آل عمران آیت ۱۲۶

(۲)سورہ احزاب آیت: ۱۷

۷۰

کہہ دیجئے کہ اگر خدا برائی کا ارادہ کر لے یا بھلائی ہی کرنا چاہے تو تمہیں اس سے کون بچا سکتا ہے اور یہ لوگ اس کے علاوہ نہ کوئی سرپرست پاسکتے ہیں اور نہ مددگار.

۲۔دوسری صورت یہ ہے کہ کسی انسان سے مدد مانگتے وقت اسے خدا کی مخلوق اوراس کا ضرورتمندبندہ سمجھا جائے اوریہ عقیدہ ہو کہ وہ اپنی طرف سے کسی قسم کا استقلال نہیں رکھتا اور اسے بندوں کی مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت خد اہی نے عطا فرمائی ہے.

اس فکر کی رو سے اگر کسی چیز میں ہم اس انسان سے مددمانگ رہے ہیں تو وہ اس سلسلے میں واسطے کا کام کرتا ہے کیونکہ پروردگار نے اسے بندوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے ''وسیلہ'' قرار دیا ہے اس قسم کی مدد مانگنا حقیقت میں خداوندکریم سے مدد مانگنا ہے کیونکہ اسی نے ان وسائل اور اسباب کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس شخص کو انسانوں کی حاجات کو پورا کرنے کی صلاحیت اور قدرت عطا کی ہے اصولی طور پر بشر کی زندگی کی اساس ان اسباب اور مسببات سے مدد مانگنے پر استوار ہے اس طرح کہ ان سے مدد نہ لینے کی صورت میں انسان کی زندگی اضطراب کا شکار ہوجائیگی یہاں پر ہم اگر انہیں اس نگاہ سے دیکھیں کہ وہ خدا کی مدد پہنچانے کا وسیلہ ہیں اور ان کا وجوداور ان کی تاثیر خدا کی طرف سے ہے تو ان سے مدد مانگنا کسی بھی اعتبار سے توحید اور یکتا پرستی کے خلاف نہیں ہے.

۷۱

ایک موحد اور خدا شناس کسان جو کہ زمین پانی ہوا اور سورج سے مدد لے کر ایک بیج کو ایک پھل دار درخت میں تبدیل کردیتا ہے تو حقیقت میں وہ کسان خدا سے مدد مانگتا ہے کیونکہ وہی ہے کہ جس نے ان اسباب کو قدرت اور استعداد بخشی ہے.

واضح ہے کہ یہ مدد مانگنا توحید اور یکتا پرستی سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے بلکہ قرآن مجید تو ہمیں بعض چیزوں (جیسے صبر اور نماز) سے مدد لینے کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے:

(وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاة )( ۱ )

صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو.

واضح ہے کہ صبر اور پائیداری انسان کا کام ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ان سے مدد حاصل کریں جب کہ اس قسم کی استعانت خدا سے مانگی جانے والی اس مدد کی مخالف نہیں ہے جسے اِیّاک نَستعینَ کے ذریعہ طلب کیا جاتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت ۴۵

۷۲

چودہواں سوال

کیا دوسروں کو پکارنا ان کی عبادت اور شرک ہے؟

جواب:اس قسم کے سوال کا سبب قرآن مجید کی وہ آیتیں ہیں جو اپنے ظاہری معنی کے اعتبار سے غیر خدا کو پکارنے سے روکتی ہیں :

(وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ ﷲِ اَحَدًا )( ۱ )

اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.

(وَلاتَدْعُ مِنْ دُونِ ﷲِ مَا لایَنْفَعُکَ وَلایَضُرُّکَ )( ۲ )

اور خدا کے علاوہ کسی ایسے کو آواز نہ دو جو نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان.

بعض لوگ اس قسم کی آیتوں کو سند بنا کر یہ کہتے ہیں کہ اولیائے خدا اور صالحین کو ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد پکارنا شرک اور ان کی عبادت ہے.

____________________

(۱)سورہ جن آیت :۱۸

(۲)سورہ یونس آیت : ۱۰۶

۷۳

جواب: اس سوال کے جواب میں مناسب یہ ہے کہ سب سے پہلے ان دو کلمات ''دعا'' اور ''عبادت'' کے معنی واضح کردئے جائیںاس میں شک نہیں کہ عربی زبان

میں لفظ دعا کے معنی ندا اور پکارنے کے ہیں اور لفظ عبادت کے معنی پرستش کے ہیں اس اعتبار سے یہ دونوں الفاظ ہرگز ہم معنی نہیں ہیں یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہر ندا اورطلب عبادت اور پرستش ہے اس کی مندرجہ ذیل دلیلیں ہیں :

۱۔قرآن مجید میں لفظ دعوت بعض ایسی جگہوں پر استعمال ہوا ہے جہاں ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے مراد عبادت ہے جیسے:

(قَالَ رَبِّى اِنِّا دَعَوْتُ قَوْمِ لَیْلاً وَنَهَارًا )( ۱ )

انہوں نے کہا پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن میں بھی بلایا اور رات میں بھی.

کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت نوح ـ کی مراد یہ تھی کہ میں نے دن رات ان کی عبادت کی ہے.

لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دعوت (پکارنا ) اور عبادت ہم معنی کلمات ہیں لہذا اگر کوئی شخص پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا کسی اور صالح بندے سے مدد طلب کرے اور انہیں پکارے تو اس کا یہ عمل ان کی عبادت شمار نہیں کیا جائے گاکیونکہ دعوت کے معنی میں پرستش کی بہ نسبت زیادہ عمومیت ہے.

____________________

(۱) سورہ نوح آیت: ۵

۷۴

۲۔آیات کے اس مجموعے میں دعا سے مراد ہر قسم کا پکارنا نہیں ہے بلکہ ایک خاص قسم کا پکارنا مقصود ہے جو کہ لفظ پرستش کا لازمہ ہوسکتا ہے کیونکہ یہ آیات ان بت پرستوں کے بارے میں آئی ہیں جو اپنے بتوں کو چھوٹے خدا تصور کرتے تھے اس میں شک نہیں ہے کہ بت پرستوں کا خضوع ان کی دعا اور ان کی فریاد یہ سب ایسے بتوں

کے مقابلے میں تھا جنہیں وہ حق شفاعت اور مغفرت کا مالک سمجھتے تھے ان کی نگاہ میں یہ بت دنیا اور آخرت کے امور میں مستقل طور پر حق تصرف رکھتے تھے اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شرائط کے ساتھ ان موجودات کو پکارنا اور ان سے کسی قسم کی التجا کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا کیونکہ وہ ان کو خدا کی حیثیت سے پکارتے تھے اور اس کا بہترین گواہ درج ذیل آیت ہے:

(فَمَا اَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمْ الَّتِى یَدْعُونَ مِنْ دُونِ ﷲِ مِنْ شَْئٍ )( ۱ )

عذاب کے آجانے کے بعد انکے وہ خدا بھی کام نہ آئے جنہیں وہ خدا کو چھوڑ کر پکار رہے تھے

لہذا یہ آیتیں ہماری بحث سے کوئی ربط نہیں رکھتیں کیونکہ ہماری بحث کا موضوع ایک بندے کا دوسرے بندے سے کوئی التجا کرنا ہے جبکہ یہ بندہ اسے نہ تواپنا خدا سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے دنیا و آخرت کے امور میں اپنا مالک ، تام الاختیار یا تصرف کرنے

____________________

(۱)سورہ ہود آیت :۱۰۱.

۷۵

والا مانتا ہے بلکہ اسے خدا کا ایسا معزز اور محترم بندہ سمجھتا ہے جسے پروردگار عالم نے منصب رسالت یا امامت سے نوازا ہے اوروعدہ کیا ہے کہ اس کی دعا کو اپنے بندوں کے حق میں قبول کرے گا اس سلسلے میں خدا فرماتا ہے :

(وَلَوْا َنَّهُمْ اِذْ ظَلَمُوا اَنفُسَهُمْ جَائُ وکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا ﷲ تَوَّابًا رَحِیمًا )( ۲ )

اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.

۳۔مذکورہ آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ دعوت سے مراد ہر قسم کی درخواست اور حاجت نہیں ہے بلکہ اس دعوت سے مراد پرستش ہے اسی لئے ایک آیت میں لفظ دعوت کے بعد بلا فاصلہ اسی معنی کیلئے لفظ ''عبادت'' استعمال کیا گیا ہے

(وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِى اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَیَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِینَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ نساء آیت:۶۴.

(۲)سورہ غافر آیت ۶۰

۷۶

اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے.

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا اس آیت کے آغاز میں لفظ ''ادعونی'' ہے اور اس کے ذیل میں لفظ ''عبادتی'' آیا ہے یہ اس بات پر شاہد ہے کہ ان آیتوں میں لفظ دعوت سے مراد وہ التجا و استغاثہ ہے جو ایسے موجودات سے کیاجاتا ہے جنہیں وہ خدا کی صفات سے متصف سمجھتے تھے۔.

نتیجہ:ان گزشتہ تین مقدموں کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان آیات میں قرآن مجید کا بنیادی مقصد بت پرستوں کو بتوں کو پکارنے سے روکنا ہے وہ بت کہ جنہیں وہ خدا کا شریک یا مدبر یا صاحب شفاعت جانتے تھے.کفار کا ان بتوں کے سامنے ہر قسم کا خضوع اور احترام یا گریہ اور استغاثہ کرنا اور ان سے شفاعت کاطلب کرنا یا پھر ان سے اپنی حاجت طلب کرنا یہ سب اس وجہ سے تھا کہ وہ ان بتوں کو چھوٹے خدا سمجھتے تھے اور انہیں خدا کے کاموں کو انجام دینے والا تصور کرتے تھے بت پرستوں کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا نے دنیا اور آخرت کے متعلق بعض کام ان بتوں کو سونپ دئے ہیں اس اعتبار سے ان آیتوں کا ایک ایسے روح رکھنے والے انسان سے استغاثہ کرنے سے کیا تعلق ہے جو پکارنے والے کی نظرمیں ذرہ برابر بھی بندگی کی حد سے باہر قدم نہیں رکھتا بلکہ اس کی نگاہ میں خداوندعالم کا محبوب و محترم بندہ ہے

۷۷

اگر قرآن مجید فرماتا ہے:

(وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلاَ تَدْعُوا مَعَ ﷲِ اَحَدًا )( ۱ )

''اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو.''

تو اس سے مراد پرستش کے قصد سے پکارنا ہے کیونکہ زمانۂ جاہلیت کے عرب بتوں ، ستاروں، فرشتوں، اور جنوں کی پوجاکیا کرتے تھے یہ آیت اور اس قسم کی دوسری آیتیں کسی شخص یاکسی شے کو معبود سمجھ کر پکارنے سے متعلق ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ان موجودات سے اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوئے کسی چیز کی درخواست کرنا ان کی عبادت شمار ہوگا لیکن ان آیتوں کا کسی ایسے شخص سے دعا کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کے سلسلے میں دعا کرنے والا شخص اس کی ربوبیت یا الوہیت کا قائل نہیں ہے بلکہ اس شخص کو خدا کا بہترین اور محبوب بندہ سمجھتا ہے؟ممکن ہے کوئی یہ تصور کرے کہ اولیائے خدا کو صرف ان کی زندگی میں پکارنا جائز ہے اور ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد انہیں پکارنا شرک ہے.

اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے:

۱۔ہم خاک میں سونے والے جسموں سے مدد نہیں مانگتے ہیں بلکہ ایسے نیک بندوں کی پاک ارواح (جیسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اماموں) سے مدد مانگتے ہیں جو قرآنی آیات کی

صراحت کے مطابق زندہ ہیں اور شہداء سے بھی بلند وبالا مقام و منزلت کے ساتھ برزخ کی زندگی گزار رہے ہیں اور اگر ہم ان کی قبروں پر جاکر ان سے اس طرح کی درخواستیں کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ یہاں آکر ہم ان کی مقدس ارواح کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان سے رابطہ قائم کرتے ہیں اس سے بڑھ کر یہ کہ روایات کے مطابق یہ مقدس مقامات وہ ہیں جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں

۲۔ان اولیائے الہی کابقید حیات ہونا یا حیات سے متصف نہ ہونا شرک یا توحید کی شناخت کا معیار نہیں ہے اور ہماری گفتگو شرک اور توحید کے معیار کے بارے میں ہے لیکن ان کو پکارنافائدہ مند ہے یا نہیں ؟تو یہ ہماری گفتگو سے خارج ہے.

البتہ اس مسئلے (کہ کیا اس قسم کے استغاثے فائدہ مند ہیں ؟) کے بارے میں گفتگو اس کی مناسب جگہ پر موجود ہے۔

____________________

(۱) سورہ جن آیت ۱۸

۷۸

پندرہواں سوال

''بدائ'' کیا ہے اور آپ اس کا عقیدہ کیوںرکھتے ہیں ؟

جواب:عربی زبان میں لفظ ''بدائ'' کے معنی آشکار اور ظاہر ہونے کے ہیں اسی طرح شیعہ علماء کی اصطلاح میں ایک انسان کے نیک اور پسندیدہ اعمال کی وجہ سے اس کی تقدیر و سرنوشت میں تبدیلی کو ''بدائ'' کہا جاتا ہے.

عقیدۂ بداء شیعیت کی آفاقی تعلیمات کے عظیم عقائد میں سے ایک ہے جسکی اساس وحی الہی اور عقلی استدلال پر استوار ہے. قرآن کریم کی نگاہ میں ایسا نہیں ہے کہ انسان کے ہاتھ اس کے مقدرات کے سامنے ہمیشہ کے لئے باندھ دئیے گئے ہوں بلکہ سعادت کی راہ اس کے لئے کھلی ہوئی ہے اور وہ راہ حق کی طرف پلٹ کر اپنے اچھے اعمال کے ذریعہ اپنی زندگی کے انجام کوبدل سکتا ہے اس حقیقت کو اس کتاب الہی نے ایک عمومی اور مستحکم اصل کے عنوان سے یوں بیان کیا ہے:

۷۹

(اِنَّ ﷲ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنفُسِهِمْ )( ۱ )

اور خداوند کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے.

اور ایک جگہ فرماتا ہے:

(وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ )( ۲ )

اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے راستے کھول دیتے.

اسی طرح حضرت یونس کی سرنوشت کی تبدیلی کے بارے میں فرماتا ہے:

(فَلَوْلاَانَّهُ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِى بَطْنِهِا ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ )( ۳ )

پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی) کے شکم میں رہ جاتے.

اس آخری آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ظاہری اعتبار سے حضرت یونس نبی کا قیامت تک اس خاص زندان میں باقی رہنا قطعی تھا لیکن ان کے نیک اعمال

____________________

(۱)سورہ رعد آیت:۱۱

(۲)سورہ اعراف آیت:۹۶

(۳)سورہ صافات آیت ۱۴۳اور ۱۴۴

۸۰