قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں

قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں22%

قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 180

قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64923 / ڈاؤنلوڈ: 5391
سائز سائز سائز
قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں

قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

تفسیر قرآن یعنی تفصیل احکام، نبی ا ور ائمۂ معصومین سے مخصوص ہے

جیسا کہ اپنی جگہ پر بیان اور ثابت ہوچکا ہے کہ وحی کے حاصل کرنے اور پہنچانے کے علاوہ پیغمبر کا ایک عہدہ، وحی کی توضیح اور الٰہی احکام کی تفصیل بیان کرنا ہے۔ قرآن کریم احکام کے کلیات اور قوانین کے ایک مجموعہ کی صورت میں پیغمبر پر نازل ہوا ہے اور خود ان کے جزئیات اور احکام کی تفصیل و توضیح نہیں بیان کی ہے اور چند موارد کے علاوہ ان کی تفصیل و توضیح پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کے ذمہ قرار دی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کلی صورت میں نماز کا حکم دیتا ہے اور مسلمانوں سے چاہتا ہے کہ نماز پڑھیں، لیکن یہ کہ نماز کیا ہے؟ کتنی رکعت ہے؟ اس کے پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ اوراس کے شرائط و جزئیات کیا ہیں؟ قرآن میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔

اس کلی حکم اور اس جیسے بہت سے احکام کی تفصیل پیغمبر کے ذمہ چھوڑ دی ہے۔اس بنا پر احکام الٰہی کی تفسیر و توضیح پیغمبر کا فرض منصبی ہے۔

۱۰۱

قرآن کریم بھی وحی کی تفسیر و توضیح کے عہدہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اسے پیغمبر کے فرائض میں سے شمار کرتا ہے:

(وَ أَنْزَلْنَا اِلَیکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیهِم) ۱ ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے ان باتوں کو واضح کریں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔

بعید نہیں ہے کہ سورۂ آل عمران کی آیت جیسی آیتوں میں، کہ جن میں تعلیم کو تلاوت کے ساتھ استعمال کیا ہے، تعلیم سے مقصود وحی و قرآن کی تفسیر و توضیح کے متعلق پیغمبر کا عہدہ و منصب بیان کرنا ہو۔

حقیقت میں پیغمبر جس وقت وحی پہنچاتے تھے، اس وقت دواہم فریضے آپ کے ذمے ہوتے تھے، ایک یہ کہ کلام وحی کو لوگوں کے سامنے تلاوت کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ آیتوں کے مقاصد و مضامین کی ان کے لئے تفسیر و توضیح فرماتے تھے اور ان کو قرآن کے احکام و معارف سے آشنا کرتے تھے۔

قرآن فرماتا ہے:

(لَقَد مَنَّ اللّٰهُ عَلٰی الْمُؤمِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولاً مِن أَنفُسِهِم یَتلُوا عَلَیهِم آیَاتِهِ وَ یُزَکِّیهِم وَ یُعَلِّمُهُمُ الکِتَابَ وَ الْحِکمَةَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبلُ لَفِی ضَلالٍ مُبِینٍ)۲

''یقینا خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر آیات الٰہیہ کی تلاوت کرتا ہے انھیں پاکیزہ بناتا ہے اور

(۱) سورۂ نحل ، آیت ۴۴ ۔

(۲)سورۂ آل عمران، آیت ۱۶۴ ۔

۱۰۲

کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے''۔

اس آیۂ مبارکہ اور اس کے مشابہ دوسری آیتوںمیں پہلا فریضہ یعنی آیات کی تلاوت و قرائت''یَتْلُوْا'' کی تعبیر سے بیان ہوا ہے اور دوسرے فریضہ یعنی احکام و مطالب کی تفسیر و توضیح کے لئے ''تعلیم'' کی تعبیر سے استفادہ کیا گیاہے۔

خلاصہ یہ کہ وحی کی توضیح،احکام الٰہی کی تفصیل اور قرآن کریم کی تفسیر مذکورہ معنی میںایسا کام ہے کہ جس کی صلاحیت پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کے علاوہ کوئی نہیں رکھتا اس لئے کہ صرف یہی ہستیاں ہیں جو خدا داد علم کے ذریعے الٰہی علوم و معارف سے آشنا ہیں۔

علوم اہلبیت کا سمجھنا قرآن سمجھنے کا مقدمہ

اب مذکورہ نکتہ پر توجہ کرنے سے مفسرین کا فریضہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے وحی کی توضیح، احکام کی تفصیل اور آیات قرآن کی تفسیر کا عہدہ او راس کی صلاحیت دراصل پیغمبر کو حاصل ہے اور آنحضرت نے اپنی مبارک زندگی کے زمانہ میں جہاں تک ممکن تھا لوگوں کو قرآن کے معارف سے آشنا کیا۔ اس زمانہ میں مفسرین کا بھی فریضہ ہے کہ ان روایات و احادیث کی طرف رجوع کریں جو صحیح اسناد کے ساتھ پیغمبر سے اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اور ان کی بنیاد پر مربوط آیتوں پر توجہ اور غور و فکر کریں اور اپنی فکر و نظر کو پیغمبر کی توضیح و تفسیر کے حدود ہی کے اندر رکھیں۔ اور جہاں آنحضرت نے اس ثقل اکبر اور قرآن مستحکم کی تفسیر و توضیح نہ کی ہو وہاں ثقل اصغر یعنی اہلبیت اور ائمۂ معصومین (ع) سے تمسک کریں۔

۱۰۳

اس سلسلہ میں بھی دینی علوم و معارف کے ماہر و عالم افراد کا فریضہ ہے کہ ایسی احادیث اور روایات کے ذریعہ قرآن کریم کو سمجھا جائے جن کی سند صحیح ہو اور وہ مشکل کو حل کرنے والی ہوں۔

اس بنا پر سب سے پہلا معیار قرآن اور معارف دین کے صحیح سمجھنے میں وہ توضیح و تفسیر ہے جو پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) سے وارد ہوئی ہے۔ نتیجہ میں ایک مفسر کا اولین اور اصلی فریضہ اس تفسیر کا سمجھنا اور بیان کرنا ہے جو پیغمبر اور ائمۂ طاہرین (ع) سے وارد ہوئی ہے اس لئے کہ صرف علوم اہلبیت (ع) ہی کی روشنی میں معارف قرآن کو سمجھا جاسکتاہے۔

قرآن کی تفسیر قرآن سے

تیسرا نکتہ جو کہ کلام وحی کے صحیح سمجھنے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے، قرآن سے قرآن کی تفسیر کا مسئلہ اور آیات کے درمیان ارتباط کی طرف توجہ دیناہے۔ اگر چہ قرآن کی آیتیں ظاہری اعتبار سے الگ الگ صورت میں اور ان میں ہر ایک یا کچھ آیتیں ایک خاص مطلب کو بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن صحیح فہم و تفسیر اس صورت میں وجود میں آتی ہے کہ ایک دوسرے سے مرتبط او رمتعلق آیتوں پر توجہ دی جائے۔ بہت سی آیات قرآن ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے مضامین و مطالب کے صدق پر گواہی دیتی ہیں۔

۱۰۴

امیر المومنین حضرت علی ـ اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

''کِتَابُ اللّٰهِ تُبصِرُونَ بِهِ وَ تَنطِقُونَ بِهِ وَ تَسمَعُونَ بِهِ وَ یَنطِقُ بَعضُهُ بِبَعضٍ وَ یَشْهَدُ بَعضُهُ عَلٰی بَعضٍ وَ لایَختَلِفُ فِی اللّٰهِ وَ لایُخَالِفُ بِصَاحِبِهِ عَنِ اللّٰهِ'' ۱

یہ کتاب خدا ہے جو تمھیں حق کا بینا، گویا او رشنوا بناتی ہے، اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصوں کی تفسیر و توضیح کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتاہے یہ قرآن خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔

قرآن سے قرآن کی تفسیر کے موارد میں سے نمونہ کے طور پر سورۂ شوریٰ کی گیارہویں آیت(لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ وَ هُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) اور سورۂ فتح کی دسویں آیت(یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِم) کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

''لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ'' قرآن کے محکمات میں سے اور اس کا معنی روشن و واضح ہے یہ آیت بتاتی ہے کہ کوئی چیز خدا کے مانند نہیںہے، خداوند متعال بے مثل حقیقت ہے۔ آیۂ(یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِمْ) بتاتی ہے کہ خدا کا ہاتھ تمام لوگوں کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ اگرچہ اس آیت نے خداوند تعالی کی طرف ہاتھ کی نسبت دی ہے لیکن آیۂ''لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ'' اس ظاہری معنی کی نفی کرتی ہے اور اس کی طرف توجہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ''ید'' سے مراد اس کا ظاہری معنی یعنی ''ہاتھ'' نہیں ہے، بلکہ کنائی معنی مثلاً قدرت وغیرہ مقصودہے۔ اس بنا پر آیۂ''یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِم'' کی تفسیر و توضیح

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۳۳ ۔

۱۰۵

آیۂ''لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ'' کی طرف توجہ کئے بغیر تفسیر کی صحیح روش سے خارج ہونا ہے اور ممکن ہے خطا سرزد ہو جائے اور غلط تفسیر کی بنا پر خدا کی جسمانی او رجھوٹی تصویر دکھا دی جائے۔

لہٰذا قرآن کریم کی تفسیر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دینا لازم ہے کہ آیات کو ایک دوسرے سے مرتبط ہونے میں مورد توجہ قرار دیں اور ان کا مطلب خود قرآن کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

قرآن فہمی میں عقلائی اصول و قواعد کی رعایت

چوتھا نکتہ کہ جس کی طرف تفسیر قرآن میں توجہ دینا لازم ہے، قرآن کریم کے صحیح سمجھنے میں عقلائی محاورہ کے اصول و قواعد کی رعایت کرنا ہے۔ خصوصاً جس وقت کہ کسی آیت کے متعلق پیغمبر یاائمۂ معصومین سے کوئی صحیح روایت اور واضح بیان دسترس میں نہ ہو تو آیات قرآن کے صحیح سمجھنے میں عقلائی محاورہ کے اصول و قواعد کی رعایت کی ضرورت دوگنی ہوجاتی ہے۔

اسی موقع پر ان بزرگان دین اور مفسرین اور علوم اہلبیت سے آشنا علماء کا کردار اور اثر، کہ جنھوں نے اپنی عمر معارف قرآن اور علوم اہلبیت کے سمجھنے میں گزاری ہے، قرآن کے صحیح سمجھنے اور معارف دین کی توضیح میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہی حضرات عقلائی محاورہ کے اصولوں کے مطابق، قرآن کے عام و خاص کی تشخیص دیتے ہیں اور ہر ایک کے معنی کے حدود معین کرتے ہیں، مطلق و مقید کی نشاندہی کرتے ہیں اور آیات کی ایک دوسرے سے تفسیر کرتے ہیں، ایک آیت کے دوسری آیت پر ناظر اور اس سے متعلق ہونے کی تعیین کرتے ہیں اور تفسیر کے وقت اس پر توجہ رکھتے ہیں۔

۱۰۶

مفسرین کی فہم کا ان کی صلاحیتوں کے مطابق ہونا

اس بحث میں ایک دوسرا نکتہ کہ جس کی طرف توجہ دینا لازم ہے قرآن اور معارف دین سمجھنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اور مختلف علمی شعبوں میں سب کے لئے قابل قبول ہے اور وہ فہم کے مراتب کا پایا جانا ہے اور صحیح سمجھنے میں اس کا ذہنی قوت اور کوشش و کاوش کے مطابق ہونا ہے اس کی توضیح یہ ہے کہ:

فقہی مباحث میں ایک مسئلہ ہے کہ جس کا تقریباً تمام فقہاء فتویٰ دیتے ہیںاور مقلِّد کا فریضہ سمجھتے ہیں، وہ اعلم کی تقلید ہے۔ اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ فقہ و استنباط احکام کے شعبے میں مہارت اور فقاہت کے بہت سے مرتبے ہیںاور ہر مکلف کا فریضہ ہے کہ فقیہ اعلم یعنی اس مرجع کی تقلید کرے جو احکام کے استنباط میں دوسروں سے زیادہ فہم، مہارت اور فقاہت کا حامل ہو۔ البتہ دوسرے مراجع جو کہ قوت استنباط کے اعتبار سے اس فقیہ اعلم کی حد میں نہیں ہیں وہ بھی فقیہ اور مجتہد ہیں لیکن وہ بعد کے مراتب میں قرار پاتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فقہاء کا یہ فتویٰ کہ اعلم کی تقلید لازم ہے، ایک عقلائی سیرت و روش سے صادر ہوا ہے۔ بالکل جیسے اس ماہر اور اسپشلسٹ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا جو برسوں سے ڈاکٹری اور طبابت کا تجربہ رکھتا ہے اور اسے اس شخص پر ترجیح دینا کہ جس نے آج ہی ڈاکٹری کی سند لی ہے، ایک عقلائی سیرت و روش ہے او راس روش کے برخلاف عمل کرنا عقلاء کے نزدیک مذموم ہے۔

۱۰۷

معارف قرآن کی باریکیاں سمجھنے اوران کی تشخیص کی صلاحیت علوم اہلبیت (ع) کے عالم اور ماہر افراد کے علاوہ کسی کو حاصل نہیںہے کہ جنھوں نے اپنی زندگی قرآن اور دینی معارف کے سمجھنے میں صرف کی ہے۔

قرآن فہمی اور اس آسمانی کتاب کی تفسیر کے مراتب کے ا عتبار سے واضح بات ہے کہ مذکورہ امور اور نکات پر جس قدر توجہ اور غور کیا جائے گا آیات الٰہی کی تفسیر میں اتنا ہی غلطیوں کا احتمال کم ہوگا اور ہم اس آسمانی کتاب کو زیادہ سے زیادہ صحیح سمجھیں گے۔

کلامی قرائن پر توجہ کی ضرورت

چھٹا نکتہ کہ جس کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کلام خدا کے قرائن اور آیات کی شان نزول پر توجہ دینا لازم ہے۔ اگرچہ قرآن کریم تمام زمانوں او رنسلوں کے لئے نازل ہوا ہے اور اس کے مخاطب ہر زمانے کے لوگ ہیں، لیکن قرائن، شان نزول اور وہ موقع و محل کہ جن میں آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں وہ اولین مخاطبین اور نزول قرآن کے زمانہ کے لوگوں کے لئے ایسی واضح و روشن ہوتی تھیں کہ اس کے معنی و تفسیر میں کسی شک وشبہہ اور اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہتی تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی آیت مبہم اور غیر واضح نظر آتی تھی تو لوگوں کا پیغمبر تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ لیکن آج زمانۂ نزول سے دور ہونے اور بعض قرائن اور شان نزول کے مخفی ہوجانے کے امکان سے قرآن کے صحیح سمجھنے میں کوشش و کاوش کی ضرورت کئی گنا زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔

۱۰۸

دوسری طرف قرآن کریم میں استعمال شدہ الفاظ کے حقیقی و لغوی معنیٰ کی اطلاع، ان مسائل میں سے ہے کہ جن کے بغیر قرآن کا صحیح سمجھنا اوراس کی درست تفسیر کرنا ممکن نہیںہے۔

ممکن ہے کسی معنی کی تبدیلی سے غفلت جو کبھی کسی زبان میں مرور زمانہ سے واقع ہوتی ہے، غلطی اور بدفہمی کا باعث بن جائے۔

مثال کے طور پر لفظ ''تقیہ'' کا معنی و مفہوم سب کے لئے واضح ہے۔ عام طور پر اس لفظ سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ کوئی شخص اپنا عقیدہ و مذہب مخفی رکھے اور ایسا ظاہر کرے کہ اس کا مخاطب اس کے حقیقی عقیدہ و مذہب سے آگاہ نہ ہو، اگرچہ تقیہ کے لغوی معنی پرہیزگاری کے ہیں اور قرآن و نہج البلاغہ میں ان ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ولو لفظ تقیہ قرآن میں نہیں ہے لیکن لفظ ''تقاة'' جو کہ تقیہ اور تقویٰ کے مترادف ہے، آیۂ(اِتَّقُواْ اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهِ) ۱ میں آیا ہے۔

قرآن کریم اور کلامی محاسن

اگر چہ قرآن کریم، جیسا کہ خود کہتا ہے، واضح اور آشکار زبان میں نازل ہوا ہے اور ہر شخص اپنی سمجھ او رصلاحیت کے مطابق اس آسمانی کتاب سے مستفید ہوسکتا ہے۔ لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور کلام و بیان کے تمام محاسن (خوبیوں) سے آراستہ ہے اور واضح ہے کہ مذکورہ نکات کی طرف توجہ دینا بھی قرآن کریم سے صحیح استفادہ کے بنیادی شرائط میں سے ہے۔

(۱)سورۂ آل عمران، آیت ۱۰۲ ۔

۱۰۹

قرآن کریم میں کہیں کہیں ایسا ہے کہ ایک آیت کسی حکم کو عام اور کلی صورت میں بیان کرتی ہے اور دوسری آیت اس حکم کے حدود کو واضح کرتی ہے۔ یا ایک آیت میں کسی حکم کو مطلق طور پر بیان کیا ہے اور دوسری آیت سے اس کی قید و شرط معلوم ہوتی ہے، مثال ، کنایہ، استعارہ، مجاز وغیرہ کے استعمال کے ذریعہ، مطالب کا بیان ان اسلوبوں میں سے ہے کہ جن کا استعمال قرآن کریم میں ہوا ہے، اور چونکہ قرآن کے مخاطب انسان ہیں اور مذکورہ طرز و اسلوب، مقصود و مطلب بیان کرنے میں انسانی اور عقلائی کلام کے محاسن میں سے سمجھے جاتے ہیں، لہٰذا قرآن بھی مذکورہ اسالیب کو اپنے احکام و معارف کے بیان میں بہترین طرز کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔

اس بنا پر قرآن میں استعمال شدہ اسالیب وہی اسالیب ہیں جو عقلاء اپنے مقاصد و مطالب بیان کرنے میں استعمال کرتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ کلامی و بیانی فنون کے استعمال کی جو نوع اور کیفیت قرآن میں پائی جاتی ہے و ہ مرتبہ، حسن اور طرز و اسلوب کے اعتبار سے ، انسانی کلام میں پائے جانے والے محاسن کے استعمال سے مقائسہ اور موازنہ کے قابل نہیںہے۔

اس بات کی دلیل بھی یہ ہے کہ قرآن کریم خداوند متعال کا کلام ہے جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ پیغمبر پر نازل ہوا ہے کہ جس نے فن فصاحت و بلاغت کے اصول انسان کو سکھائے ہیں۔ اس الٰہی کتاب نے سب سے زیادہ خوبصورت اور فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ لوگوں کو توحید، ہدایت، تکامل اور سعادت و کامیابی کی طرف دعوت دی ہے۔

اس فصل کے آخری حصہ کے مباحث کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ: اس سے پہلے ذکر شدہ نکات کے ساتھ قرآن میں کلامی محاسن اور نکات کی طرف توجہ دینا، اس کے سمجھنے کے شرائط میں سے ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ دینا یقینا غلط فہمی اور غلط تفسیر کامستلزم ہے۔

۱۱۰

تیسری فصل

قرآن اور ثقافتی حملہ

حق و باطل کا تضایف۱

گزشتہ دونوں فصلوں میں بیان کئے گئے مطالب کے تحت جس حد تک کہ کتاب کی غرض و غایت حاصل ہو، قرآن کی اہمیت و فضیلت کے متعلق، نیز کمال و سعادت کی طرف انسانوں کی ہدایت کے لئے نہج البلاغہ کی روشنی میں اس الٰہی کتاب کے نقش و اثر کے متعلق، کچھ توضیحات مختصر طور پر ذکر کی گئیں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مذکورہ مطالب کی رعایت قرآن کریم سے استفادہ اور پیغمبر عظیم الشان کی اس عظیم میراث، ثقل اکبر سے تمسک کے لئے کافی ہے؟

ممکن ہے جواب دیا جائے کہ اگر ان تمام نکتوں کی رعایت کی جائے جو کہ قرآن کے صحیح سمجھنے میں مؤثر ہیں تو لازمی طور پر قرآن کے احکام و معارف جیسا کہ ہیں سمجھے جائیں گے اور معاشرہ کا کلچر قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق وجود میں آئے گا اور دینی حکومت کے زیر سایہ لوگ قرآن کی پناہ میں انحراف و گمراہی کے خطرے سے مخفوظ رہیں گے، اس لئے کہ قرآن سے تمسک اس کے معارف کا صحیح سمجھنا اور قرآنی ہدایات کی بنیاد پر عمل کرنا ہے۔

(۱) تضایف یعنی دوایسے وجود جن کا تعقل ایک ساتھ ہواو روہ دونوں ایک موضوع میں ایک ہی جہت سے جمع نہ ہوسکتے ہوں لیکن دونوں کا ایک ساتھ مرتفع ہونا ممکن ہو جیسے باپ اور بیٹا، علت و معلول، تحت و فوق، تقدم و تأخر وغیرہ ۔

۱۱۱

مذکورہ جواب اگر چہ کچھ حدتک قرآن کی فردی ہدایت و رہنمائی کے لئے صحیح سمجھا جاسکتا ہے، لیکن اس مسئلہ کا مکمل تحقق اس صورت میںہے جبکہ قرآن کے لازمی اثر کی طرف بڑے پیمانے پر نظر کی جائے نیز اس کی اہمیت اور عظمت پر، گمراہ کن افکار اور دینی ثقافت پر حملہ آور افراد کے مقابلہ میں توجہ دی جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مخالفان قرآن کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر، آشکارا طور پر ان کا مقابلہ کئے بغیر اور ان کی فکری سازشوں کو برملا کئے بغیر، معاشرہ کی ہدایت اور قرآن کے مکتب فکر کو حاکم کرنا دینی اعتقادات و اقدار کی بنیاد پر کچھ آسان کام نہیںہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے اکثر مواقع پر غفلت برتی جاتی ہے۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں مسلسل کوشش کے ذریعہ کسی وقت بھی قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

قرآن سے تمسک کرنا اوراس آسمانی کتاب کو حَکَم قرار دینا، قرآن کے خلاف گمراہ کن افکار کی شناخت او ران سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیںہے۔

حق و باطل جس طرح کہ مقام شناخت میں متضایف ہیں اسی طرح مقام عمل میں بھی متضایف ہیں، یعنی آپ اگر حق کو پہچان لیں گے تو باطل کو بھی پہچان لیں گے، باطل کی شناخت آپ کو حق کی شناخت میں مدد دیتی ہے۔

قرآن کو عملی طور پر معاشرہ میں حاکم قرار دینا، مخالفین اور ان کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر نیز لوگوں کے دینی کلچر کو کمزور کرنے میںان کی شیطانی سازشوں سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیںہے۔

۱۱۲

ہم اس سلسلہ میں پہلے نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی ـ کے ارشاد کو پیش کر تے ہیں پھر معاشرہ کے افکار کو منحرف کرنے میں مخالفین قرآن کی کارستانیوں اور ملحدین کے شبہوں کو بیان کر کے تمام لوگوں کو خصوصاً معاشرہ کے جوان اور تعلیم یافتہ طبقہ کو دشمنوں کے شیطانی مکر و فریب سے آشنا کریں گے۔

قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اور دشمنوں کی شناخت اس قدر اہم ہے کہ امیر المومنین حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ اعْلَمُوْا إنّکُم لَن تَعرِفُوا الرُّشدَ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی تَرَکَهُ، وَ لَن تَأخُذُوا بِمِیثَاقِ الکِتَابِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَقَضَهُ، وَ لَن تَمَسَّکُوا بِهِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَبَذَهُ فَالْتَمِسُوا ذٰلِکَ مِن عِندِ اَهلِهِ فَإنّهُم عیَشُ الْعِلمِ وَ مَوتُ الجَهلِ'' ۱

تم جان لو! کہ ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے جب تک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور کتاب خدا کے عہد و پیمان کے پابند اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک کہ اس کے توڑنے والوں کی شناخت نہ کرلو اور اس سے تمسک اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسے نظر انداز کرنے والوں کی معرفت حاصل نہ کرلو، پھر فرماتے ہیں: قرآن، اس کی تفسیر اور اس کے معارف کو اہل قرآن (اہلبیت طاہرین) سے حاصل کرو اس لئے کہ یہی حضرات الٰہی علوم و معارف کی زندگی اور جہل و نادانی کی موت ہیں۔

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۷ ۔

۱۱۳

امیر المومنین حضرت علی ـ کا یہ روشن بیان جو کہ دشمن شناسی، گمراہ کن افکار سے آشنائی کے لزوم اور گمراہوں کے پہچاننے کی ضرورت پر مبنی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی علماء اور الٰہی علوم و معارف کے مبلغین کا فریضہ دوگنا ہے، اس لئے کہ گمراہ کن فکروں اور ملحدین کے شبہوں کو لوگوں کے افکار سے خصوصاً ان جوانوں کے افکار سے دور کرنا، جو کہ دینی علوم و معارف کے اعتبار سے کافی علمی سطح کے حامل نہیںہیں، تبلیغ اور قرآنی و دینی مکتب فکر کو حاکمیت بخشنے کے بنیادی کاموں میں سے ہے اور اس کے بغیر مطلوب اور لازمی نتیجہ کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

اس بات کی وضاحت تین حصوں میں بیان کرتے ہیں: ۔ مخالفین کے شبہات ۔ مخالفین کی سازشیں ۔ ان شبہات کے پیش کرنے کا مقصد۔

اگر چہ قرآن ایسی عظیم نعمت ہے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور اگرچہ خدا نے خود، شیطانوں کی دستبرد اور شیطان صفت انسانوں کی تحریف سے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، لیکن داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اولاد آدم کا یہ قسم خوردہ دشمن، شیطان بھی ہر زمانہ میں ان لوگوں پر حاکم حالات، روحیات و نفسیات کے مطابق ،جو کہ اجتماعی حیثیتوں کے اعتبار سے لوگوں کے ذہنوں پر اثر ڈالنے کی قدرت رکھتے ہیں، نفسانی خواہشات کے حصول کے لئے ان کے دلوں میں شک پیدا کر دیتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ تمام لوگوں کواپنے پیچھے کھینچ لے اور قرآن و دین سے منحرف کردے، چونکہ قرآن انسانوں کی نجات، ہدایت اور سعادت کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، اس لئے شیطان کی پوری آرزو لوگوں کو قرآن و دین سے جدا کرنا ہے۔

۱۱۴

اس راستے میں شیطان کا ایک کام ان لوگوں کو بہکانا اور ان کے اندر وسوسہ پیدا کرنا ہے جو کہ دین و قرآن کے متعلق شک و شبہہ پیدا کر کے لوگوں کے ایمان و اعتقاد میں خلل پیدا کرسکتے ہیں۔

شیطان او رشیطان صفت افراد کی فعالیت قرآن کریم سے مقابلہ کرنے میں نزول قرآن کی ابتدا ہی سے پائی جاتی ہے یہ فعالیتیں آیات الٰہی کے سننے سے ممانعت اور کان میں روئی ڈالنے کی تاکید اور پیغمبر پر تہمت و افترا پردازی سے شروع ہوئیں اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں اور اس کے بعد بھی جاری رہیں گی۔

اس سلسلے میں پوری تاریخ میں قرآن سے مقابلہ کی روش کے جزئیات ذکر کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں اوربحث کے طولانی ہونے کے خوف سے ان بعض شبہوں کو ذکر کر کے، جو کہ آج معاشرہ کے درمیان دینی مکتب فکر اور لوگوں، خصوصاً جوانوں کے مذہبی عقائد کو کمزور کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ قارئین اور جوانوں کے ذہنوں کو روشن کریں تاکہ ان شیطانی سازشوں سے آگاہ ہو کر دشمنوں کے ثقافتی حملوں کا مقابلہ کرسکیں۔

چونکہ قرآن سے مقابلہ کرنے میں شیاطین، اس کو نابود اور فنا کرنے سے مایوس ہوگئے، لہٰذا طے کرلیاکہ لوگوں کواس کے مطالب کی آشنائی سے محروم کردیں۔

۱۱۵

قرآن کے مخالفین کئی صدیوں سے مسلمانوں خصوصاً شیعوں کے درمیان ایسی تبلیغ کرتے رہے کہ ہمیں قرآن سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے، اس لئے کہ قرآن ہمارے لئے قابل فہم نہیں ہے اور ہم قرآن کے باطن سے مطلع نہیں ہیں، اس بنا پر قرآن کے ظاہر سے استناد نہیں کیا جاسکتا۔

وہ یہ فکر ایجاد کر کے کہ ہم قرآن کے سمجھنے پر قادر نہیں ہیں، کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو قرآن کے استفادہ سے محروم کردیں اور نتیجہ میں قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے نکال دیں۔

اس کے دوران اگر چہ قرآن کا ظاہری احترام ، اس کی تلاوت و قرائت، اس کو بوسہ لینے اور مقدس و محترم سمجھنے کی صورت میں مسلمانوں کے درمیان رائج تھا، لیکن جو کچھ قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کا مقصد ہے وہ لوگوں کو قرآن کے مطالب سے اور اس آسمانی کتاب کی ہدایات پر عمل کرنے سے محروم کرنا ہے۔

آج روشن فکری کے دعویدار افراد جو کہ اسلامی علوم و معارف سے بالکل بے بہرہ ہیں سب سے زیادہ گمراہ کن ان شیطانی شبہات او ر افکار کو جو کہ صدیوں پہلے سے مغرب میں دوسرے ادیان کی تحریف شدہ کتابوں کے متعلق پیش کئے گئے ہیں، نئی فکر کے نام سے ثقافتی اور علمی معاشروں میں پیش کرتے ہیں، اور علم و دانش کے پیاسے نیز تحصیل علم میں مشغول طبقہ کو تحت تاثیر قرار دیکر اپنے خیال میں ان کے اعتقادی ستون کو کمزور کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ مسلمان خصوصاً تحصیل علم میں مشغول جوان اور ذہین و زیرک تربیت یافتہ افراد، ان کے بے بنیاد، عاریتی اور عقل و منطق سے دور افکار کے بطلان کو جان لیں گے۔

مسلمان اور دیندار تربیت یافتہ افراد کے عقائد و افکار عقل و منطق پر مبنی اور پیغمبر او رائمۂ معصومین (ع) کے علوم سے اخذ شدہ ہیں ان کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے اور جب بھی کوئی مسلمان فکری اور اعتقادی شعبوں میں گمراہ کن افکار سے روبرو ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کو دینی علوم و معارف کے ماہرین اور علماء کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ ان سے صحیح اور منطقی جواب دریافت کرے۔

۱۱۶

دین کی حقیقت حاصل نہ ہونے کا شبہہ

''حقیقت دین حاصل نہ ہونے'' کا شبہہ نہایت شیطانی مقاصد کے تحت پیش کیا گیا ہے اور اس کے نتائج بہت ہی تباہ کن ہیں کہ جن کے بیان کرنے کی گنجائش فی الحا ل نہیں ہے، یہاں پر ہم اس کی وضاحت اور اس کے بعض پوشیدہ پہلوؤ ں اور لوازم کو صریح طور پر بیان کر کے فیصلہ خود آپ حضرات کے حوالے کرتے ہیں۔

چونکہ ہماری بحث خصوصاً قرآن کے بارے میں ہے لہٰذا مذکورہ شبہہ کے متعلق خصوصاً قرآن کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے۔ یہ شبہہ قرآن فہمی کے بارے میں طرح طرح کی شکلوں اور مختلف سطحوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیتوں کی مختلف تفسیریں ہیں اور مفسرین ان کی تفسیر و توضیح میں اتفاق رائے نہیں رکھتے اور ہم جس قدر بھی صحیح نظریہ حاصل کرنے کے لئے تحقیق کریں، جو کہ قرآن کے حقیقی مطلب کو بیان کرنے والی ہو، آخر کار صرف ایک مفسر کی تفسیر اور نظریہ ہی کو قبول کریں گے کہ جس کو دوسرے مفسرین قرآن کی تفسیر نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر قرآن کے حقیقی مطلب کا حصول ممکن نہیںہے۔

یقینا یہ شبہہ پیش کرنے والے چاہتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ پیش کر کے ان لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں جو کہ قوی فکر و نظر کے حامل نہیںہیںاور دینی معارف کا کافی مطالعہ، جواب دینے اور تجزیہ و تحقیق کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ لوگ غلط خیالات کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ مسلمانوںکی فکری و اعتقادی بنیادیں اندھی تقلید کی بنیاد پر استوار ہیں کہ ان خیال آرائیوں سے وہ ویران و برباد ہو جائیں گی۔ چونکہ وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جس وقت فکر، عقل اور منطق کی بات آتی ہے تو صرف قرآن اوراس الٰہی کتاب کے معارف ہی کی تصدیق عقل سلیم اور صحیح منطق کرتی ہے، اور ہر حق پرست انسان صدق دل سے اس کو قبول کرتا ہے، لہٰذا کوشش کرتے ہیں کہ مذکورہ شبہہ اور زیادہ گہری صورت میں پیش کریں تاکہ اپنے خیال میں اورزیادہ کاری ضرب، دینی فکر پر لگائیں۔ وہ اس سے غافل ہیں کہ ذہین و زیرک مسلمان مفکرین ان کے نظریہ کا تجزیہ کرکے اس طرح کے نظریہ کے باطل نتائج و لوازم کو بھانپ لیں گے کہ جس کا انجام شکاکیت کے گڑھے میں گرنے کے علاوہ کچھ نہیںہے۔

۱۱۷

بہرحال جیسا کہ مذکورہ شبہہ بیان کیا گیا اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شبہہ پیش کرنے والے معتقد ہیں کہ قرآن کریم ثابت حقیقتوں کا مالک ہے لیکن چونکہ مفسرین قرآن کی تفسیر میں اتفاق رائے نہیں رکھتے، لہٰذا ہماری رسائی قرآن کے حقیقی مطالب تک نہیں ہوتی۔ اس بنا پر قرآن سے استفادہ ممکن نہیں ہے اور اسے بالائے طاق رکھ دینا چاہئے۔

لیکن جب قرآن کریم کی صریح و روشن آیتوں سے روبرو ہوتے ہیں اوران کے ظہور اور واضح معنی میں کوئی خدشہ وارد نہیں کرسکتے نیز اپنے کو عقل و منطق اور قرآن کے محکمات کے سامنے عاجز پاتے ہیں تو قدم اور آگے بڑھا کر شبہہ دوسری طرح سے پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے یعنی قرآن اور دینی اعتقادات و اقدار کو بے اعتبار کرنے کے لئے اپنی پہلی بات سے، جو کہ قرآن اوردینی معارف سمجھنے کے عدم امکان پر مبنی ہے، پیترا بدل کر پھر مقابلہ میں آجاتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے پہلے موقف میں دینی معارف اور قرآن کے کلام کے لئے ذاتی اور حقیقی معنی قبول کرنے کے باوجود ان کو انسان کی دسترس سے مافوق سمجھتے تھے۔ لیکن اس نئے موقف میں قرآن اوردینی تعلیمات و ارشادات کو حقیقت سے خالی سمجھ کر دینی معارف و احکام کو آیات سے افراد کی ذہنی اپج بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ صرف قرآن بلکہ تمام آسمانی کتابیںاس طرح نازل ہوئی ہیں کہ جن کی تفسیر مختلف طریقوں سے ہوسکتی ہے اور وہ تمام مختلف تفسیریں اور متفاوت فکریں صحیح ہوسکتی ہیں۔

اگر سوال کیا جائے کہ اس صورت میں بھی ان تفسیروں میں آپس میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟

وہ لوگ جواب دیں گے کہ تفسیروں کا اختلاف اگرچہ تضاد و تناقض کی حد تک ہو تو بھی اس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی، اس لئے کہ اصلاً قرآن اوردین نے کوئی واقعیت و حقیقت بیان نہیں کی ہے، بلکہ صرف خالی الفاظ اور جملے، وحی الٰہی کے نام سے پیغمبر پر نازل ہوئے ہیں اور ان کی طرف رجوع کے وقت ہر شخص کے ذہن میں ایک مطلب پیدا ہوتا ہے اور جو مطلب پیدا ہوتا ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے اور چونکہ انسان مختلف ذہنیتوں کے حامل ہیں نتیجہ میں ان کے افکار بھی مختلف ہیں۔

۱۱۸

انسان قرآن کی آیات و الفاظ اوردینی تعلیمات سے جو کچھ سمجھتے ہیں اسے دین کہتے ہیں۔ اور چونکہ قرآن اور دینی تعلیمات و ارشادات کسی واقعیت کو بیان کرنے والے نہیں ہیں، ان کی متفاوت تفسیریں بھی تصدیق و تکذیب کے قابل نہیںہیں۔ لہٰذا تما م افکار صحیح ہیں، کیونکہ قرآن ایسے ثابت حقائق بیان نہیں کرتا کہ ان افہام اور تفسیروں میں سے صرف کوئی ایک ہی اس کے مطابق ہو۔

'' سیدھے راستوں'' یا ''دین کی مختلف قرائتوں'' کا نظریہ رکھنے والے دین کی بنیاد و اساسی یعنی وحی پر حملہ کرنے کے لئے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف انسان، قرآن اور وحی الٰہی سے کوئی ثابت حقیقت درک نہیں کرتا اور ہر شخص اپنی ذہنیت کو وحی کے نام سے بیان اور تفسیر کرتا ہے، بلکہ پیغمبر نے بھی (معاذ اللہ) انسانی صفات کا حامل ہونے کے سبب اپنے درک اور فہم کو وحی کے نام سے لوگوں کے لئے بیان کیا ہے۔

اس بنا پر پیغمبر کی فہم بھی آنحضرت کے زمانی و مکانی خاص حالات اور ذہنیت کے مطابق اور شخصی و ذاتی فہم تھی کہ جسے الفاظ و آیات کی صورت میں بیان کیا ہے۔ لہٰذا قرآن کو کلام خدا اور وحی الٰہی نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ کہنا چاہئے کہ قرآن پیغمبر کا کلام ہے(نعوذ باللہ)۔

یقینا آپ سوال کریں گے کہ مندرجہ ذیل آیات کے بارے میں کیا کہا جائے ؟

(وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الهَویٰ اِن هُوَ ِلاَّ وَحْی یُّوحیٰ) ۱ پیغمبر اپنی خواہش سے کبھی کلام نہیں کرتے، آپ کا کلام وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔

(۱)سورۂ نجم، آیت ۳، ۴ ۔

۱۱۹

یا(تَنزِیل مِن رَّبِّ العَالَمِینَ، وَ لَو َتقَوَّلَ عَلَینَا بَعضَ الأَقَاوِیلَ، لَأَخَذنَا مِنهُ بِالیَمِینِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنهُ الوَتِیْنَ) ۱ یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے، اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتے، تو ہم ان کے ہاتھ کو پکڑ لیتے، پھر ہم ان کی گردن کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

اس نظریہ کے طرفدار جواب میں کہتے ہیں کہ یہ مضامین بھی خود پیغمبر کی ذہنی اپج ہیں نیز آپ کے احساسات کی غمّاز ہیں۔

واضح ہے کہ ایسا نظریہ، شکاکیت اور انکار حقیقت کے دلدل میں گرنے، عقل و منطق کو نظرانداز کرنے اور الفاظ کے ساتھ بازی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، یہ نظریہ پیش کرنے والے سب سے زیادہ روشن اور واضح معانی و مفاہیم کے مقابلہ میں کہیں گے کہ یہ آپ کا احساس اور آپ کی سمجھ ہے اور خود آپ کے ذہنی خیالات کے علاوہ کسی حقیقت کی نشاندہی کرنے والا نہیں ہے، اس بنا پرقرآن خود آپ کے لئے اچھا اور محترم ہے لیکن دوسروں کے لئے کوئی قیمت اور اعتبار نہیں رکھتا۔

بہرحال ہم دیکھتے ہیں کہ دین و قرآن کے متعلق ایسے نظریہ کی ترویج سب سے زیاد ہ ان ترقی یافتہ شیطانی جالوں میں سے ایک ہے جو اب تک حضرت آدم ـ کی اولاد کو گمراہ کرنے اور فریب دینے کے لئے بچھائے گئے ہیں۔

(۱) سورۂ حاقہ، آیت ۴۳ تا ۴۶ ۔

۱۲۰

تکرار وسوسہ شیطانوں کا اہم اسلحہ

شیطانوں کا ایک اسلحہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے اندر مسلسل وسوسہ ڈالنا اوران کے ذہن وعقل میں نفوذ پیدا کرنا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن ان کو وسواس اور خناس کے لقب سے یاد کرتا ہے اورانسانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ جنّ و انس کے شیاطین کے شر سے خدا کی پناہ مانگیں، اس لئے کہ شیاطین، انسان کے دل پر مسلسل وسوسہ اندازی سے چاہتے ہیں کہ انسانوں کے ذہن و عقل کو اپنے تسلط میں لے لیں اور ان کے افکار کو ہلاکت و گمراہی کے گڑھے کی طرف موڑ دیں۔

شیطان اور شیطان صفت انسان خود جانتے ہیں کہ خدا پرست لوگوں کے اذہان میں شیطانی تخیلات کو جگہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ اتنا بولیں، لکھیں اور تکرار کریں کہ اذہان کو اپنے باطل تخیلات سے مانوس کر کے دھیرے دھیرے ان کی فکر و عقل میں نفوذ کر جائیں۔ خود وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قدر بولنا، لکھنا اور تکرار کرنا چاہئے کہ لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں۔

وہ لوگ ابلیس کی وسوسہ اندازی سے سب سے پہلے طالب علموں اور تعلیم یافتہ طبقہ کو منحرف اور گمراہ کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو فریب دیکر عام لوگوں کواور زیادہ گمراہ کرسکیں گے۔ لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خداوند متعال نے مسلمانوں اور شیعوں کی ہدایت کے لئے روشن مشعلیں قرار دی ہیں اور مسلمان لطف الٰہی اوردینی علوم و معارف سے الہام کے ذریعہ دشمنوں کی شیطانی سازشوں کو بھانپ لیں گے اور روز بروز قرآن کی پیروی میں پہلے سے زیادہ محکم و پائدار ہوتے جائیں گے۔

۱۲۱

متشابہات سے استناد، قرآن کے مقابلہ میںایک دوسری سازش

اس کے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کا ایک عہدہ وحی الٰہی کی تفسیر و توضیح ہے، چونکہ قرآن میں محکمات و متشابہات ہیں اور جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ اس میں ظاہر و باطن بھی ہیں کہ اس کے معارف کی گہرائیوں کا حصول پیغمبر اور ائمۂ معصومین اور علوم الٰہی سے واقف حضرات کے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس کی تفسیر و توضیح مکتب اہلبیت کے تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔

چونکہ حکم عقل اور سیرۂ عقلاء کے مطابق جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا لازم ہے، لہٰذا قرآن اور دین کے معارف سمجھنے کے لئے اس کتاب الٰہی کے لانے والے اور ائمۂ معصومین (ع) اور ان حضرات کے مکتب کے تعلیم یافتہ افراد کی طرف رجوع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ تمام انسان عقلائی سیرت و روش کی پیروی کریں یا اپنے کو عقل و فہم اور سمجھنے اور سمجھانے کے منطقی اصول کا پابند سمجھیں۔

ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو لوگوں کو صرف گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد معاشرہ میں شبہہ اور فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ قرآن نے بھی اس بات کی پیشین گوئی کی ہے:

۱۲۲

(وَ هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ آیَات مُحکَمَات هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِهَات فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الْفِتنَةِ وَ ابْتِغَائَ تَأوِیْلِهِ وَ مَا یَعلَمُ تَأوِیلَهُ اِلاَّ اللّٰهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ کُلّ مِن عِندِ رَبِّنَا وَ مَایَذَّکَّرُ اِلاَّ أُولُوا الأَلبَابِ)1

یعنی ''اس (خدا) نے آپ (پیغمبر) پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیںمحکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم صرف خدا کو ہے ا ور انھیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں، جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ آیات ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہیں اور یہ بات سوائے صاحبان عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے''۔

اس آیۂ کریمہ نے قرآن کریم کو دو حصوں میں یعنی محکمات و متشابہات میں تقسیم کیا ہے اور محکمات کو ''ام الکتاب'' (اصل کتاب) کے نام سے یاد کیا ہے ۔ قرآن کا ایک حصہ آیات محکمات ہیں جو دوسرے حصہ یعنی متشابہات کی نسبت جڑ اوراصل ہیں۔

محکمات قرآن سے مراد وہ آیات ہیں کہ جن کے معانی واضح و روشن ہیں اور ان کے معارف قابل شک و شبہہ نہیںہیں۔ یہ آیات، معارف قرآن کے اصول و امہات پر مشتمل ہیں۔ انھیں کے مقابل وہ آیات ہیں جو محکمات کا سہارا لئے بغیر قابل فہم نہیںہیں اور ایسا نہیں ہے کہ تمام لوگ ان کے معنی کی گہرائی تک پہنچ جائیں۔ آیات قرآن کے اس حصہ کو متشابہات کہا جاتا ہے۔

قرآن نے لوگوں کو متشابہات کی پیروی سے، محکمات نیز پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کی تفسیر و توضیح کی طرف توجہ کئے بغیر منع کیا ہے۔ قرآن کریم متشابہات کی پیروی کودل کے انحراف و کجی کی نشانی سمجھتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و فہم اوراپنے اعتقادات کا معیار قرار دیتے ہیں وہ قرآن کی من مانی تاویل و تحریف اور فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کے بقول، آیات متشابہات کی تاویل و تفسیر خدا، راسخون فی العلم اور ائمۂ معصومین (ع) کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ علم میں راسخ وہ لوگ ہیں جنھوںنے دل و جان سے خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم قرآن پر ایمان لائے ہیں، خواہ وہ قرآن کے محکمات ہوں یا متشابہات، سب پروردگار کی طرف سے ہیں۔

(1) سورۂ آل عمران، آیت 7 ۔

۱۲۳

قرآن میں متشابہات کی حکمت

یہاں پر ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ کیوں قرآن اس طرح نازل نہیںہوا ہے کہ اس کی تمام آیتیں واضح و محکم اور بغیر کسی ابہام و اجمال کے ہوں تاکہ سب کے لئے یکساں طور پر قابل فہم و استفادہ ہوں؟

اس سوال کے جواب کے لئے پہلے ایک مختصر سا مقدمہ بیان کرتے ہیں: ہم عام انسانوں کا ذہن فطری عوامل کا تابع ہے۔ عام انسان جب پیدا ہوتا ہے تو حواس کے ذریعہ پہلے محسوسات سے آشنا ہوتا ہے اور شروع میں اس کا ادراک و فہم محسوسات و مادیات کے حدود میں محدود ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے انسان کی فکری قوتیںبڑھتی ہیں اور وہ تجرید و تعقل کی قدرت پیدا کر لیتا ہے، نتیجہ میںاس کو مادیات سے مافوق مطالب کے درک کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے۔

انسان کی عقل جس قدر تجرید و تعقل کی قدرت کی حامل ہوگی اور مادہ و مادیات کے حدود سے آگے بڑھے گی اتنا ہی وہ طبیعت سے ماوراء حقائق کو بہتر طور پر درک کرے گی اور چونکہ تمام انسان عقلی نشو و نما کے اعتبار سے مساوی نہیں ہیں لہٰذا غیر محسوس امور کے ادراک کے اعتبار سے بھی برابر نہیں ہیں۔

ایسے انسانوں کی کمی نہیں ہے کہ جن کی عمر کے دسیوں سال گزر جاتے ہیں، لیکن ان کی عقل و فہم سات، آٹھ سال کے بچوں کی سی ہوتی ہے او رایک عمر گزر جانے کے بعد بھی ممکن ہے کہ وہ خدا اور مجرد چیزوں کو زمان و مکان کی حدوں میں محدود تصور کریں، جبکہ دین کی بنیاد، غیب پر ایمان رکھنا ہے، یعنی مجرد اور غیر مادی حقائق پر ایمان رکھنا، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الکِتَابُ لارَیبَ فِیهِ هُدیً لِلمُتَّقِینَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ)1

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے یہ متقین کے لئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس بنا پر ایمان کی بنیاد یہ ہے کہ انسان محسوسات سے مافوق حقائق پر ایمان لائے اور ان پر اعتقاد رکھے۔ لیکن ان حقائق کی کنہ و حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کا سمجھنا الٰہی الہامات کے علاوہ ممکن نہیںہے جو کہ انبیاء اور ائمۂ معصومین (ع) کے دل پروارد ہوتے ہیں۔

(1) سورۂ بقرہ، آیت 2 ۔

۱۲۴

ہم عام انسان طبیعت سے ماوراء تھوڑے سے امور و حقائق کو درک کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رکھتے کہ اپنی عقلی قوتوں کو تقویت دیںاوردھیرے دھیرے محسوسات سے مجردات کی طرف اور مافوق طبیعت امور کی طرف آگے بڑھیں۔

دوسری طرف جوالفاظ مجردات کے متعلق استعمال ہوتے ہیں وہ اکثر ابتدا میں محسوس معانی کے لئے وضع کئے گئے ہیں:''یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِمْ'' 1 خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ یا''وَ هُوَ العَلِیُّ العَظِیمُ'' 2 خدا بلند و بالا او رعظمت والا ہے۔ مذکورہ الفاظ، علی، عالی، علو سب بلند و بالا کے معنی میں ہیں جو کہ سافل اور نیچے کے مقابل ہیں۔

واضح ہے کہ انسان ابتدا میں ان الفاظ سے صرف حسی معنی سمجھتا ہے اور بس، مثلاً انسان اپنے سر کو اونچا اور اوپر ہونے کا معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ سر کے اوپر آسمان کی طرف پایا جاتا ہے اس کو ''اونچا'' سمجھتا ہے اور ''نیچے'' کے معنی کے لئے اپنے پاؤں کو معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ اس سے نیچے ہوتا ہے اسے نیچا سمجھتا ہے۔ اسی لئے کہتا ہے کہ آسمان اوپر اور زمین نیچے ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں داخل ہونے کی صورت میں دھیرے دھیرے ان حسی معانی سے قدم آگے بڑھا کر ا ن کے انتزاعی اور غیر حسی معنی کو درک کرتا ہے، یعنی جس وقت کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا مرتبہ بلند ہے یا اور بلند ہوگیا ہے تو پھر انسان اس لفظ سے سر سے اوپر ہونے کے اس حسی معنی کو نہیں سمجھتا اور مرتبہ نیچے آنے

سے وہ حسی معنی اس کے ذہن میں نہیں آتے۔

(1) سورۂ شوریٰ، آیت 11 ۔

(2)سورۂ شوریٰ، آیت 4 ۔

۱۲۵

سامنے کی بات ہے کہ ایسے استعمالات میں جو معنی مقصود ہوتے ہیں وہ مادی اور محسوس لوازم سے منزہ ہوتے ہیں۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ: ''جو (خدا) تمام وجود کو ایک ارادہ سے پیدا کرتا ہے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے'' جس علو اور بلندی کی نسبت پروردگار کی طرف دی جاتی ہے وہ اس علو اور بلندی سے بہت اونچی ہے کہ جس کا اطلاق ایک رئیس پر اس کے نوکروں کی بہ نسبت ہوتا ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کا فاصلہ، صفر اور لامتناہی اور حقیقت و مجاز کا ہے، اس لئے کہ ہر فرضی علواور مرتبہ، عاریتی اور فنا پذیر ہے، سوائے اس حقیقی علو اور بلندی کے جو کہ خداوند خالق کائنات کے شایان شان اور اسی سے مخصوص ہے۔ وہی ہے کہ''إنَّمَاأَمرُهُ اِذَا اَرَادَ شَیئاً اَن یَّقُولَ لَهُ کُن فَیَکُونُ'' 1 یعنی اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جا تو وہ شے فوراً ہو جاتی ہے۔

اس بنا پر جس وقت قرآن کہتا ہے:''هُوَ الْعَلُِّ العَظِیمُ'' 2 خداوند متعال کا علو نہ تو مادی اور محسوس علو ہے، نہ اس کے عظیم و بزرگ ہونے سے مادی اور محسوس معنی مراد ہے۔ لیکن یہ کہ خدا کے علو اور اس کی عظمت کی حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ انسان کی عقل جس تک نہیں پہنچ سکتی۔ البتہ بہت سے مقامات پر کوئی دوسری لفظ بھی ان الفاظ کے علاوہ جو کہ محسوس معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں، نہیں ہے اور مجبوراً یہی

(1) سورۂ یٰس ، آیت 82 ۔

(2) سورۂ بقرہ، آیت 255 ۔

۱۲۶

الفاظ مجرد معانی کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً ارشاد ہوتا ہے: ''خدا بلند اور بزرگ ہے'' بلند وہی لفظ ہے جو چھت کی بلندی کے لئے سطح زمین کی بہ نسبت استعمال کی جاتی ہے اور بزرگ بھی وہی لفظ ہے جو ہمالیہ پہاڑ کے متعلق استعمال کی جاتی ہے، لیکن جس وقت یہ الفاظ خدا کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو وہ اپنے محسوس معانی سے الگ ہو جاتے ہیں، البتہ پھر بھی ایسا نہیں ہے کہ الگ ہونے کے ساتھ بھی اس کی حقیقت تک پہنچا جاسکے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ الفاظ و معانی کہ جن کی حقیقت کو مذکورہ طریقہ سے پہچانا جاتا ہے وہ ایک قسم کے تشابہ کے حامل ہیں کہ ابہام او رمغالطہ کا باعث ہوسکتے ہیں۔ جو شخص ابھی مذکورہ معانی کو حسی شوائب و لوازم سے مجرد اور منزہ نہیں کرسکا ہے جب اس کے سامنے کہا جاتاہے خدا بلند اور اُوپر ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا آسمانوں کے اوپر ہے جبکہ خدا جسم نہیںہے کہ اس کے لئے مکان کا تصور کیا جائے:''أَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ اللّٰهِ'' 1 (تم جس جگہ بھی رخ کرو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے)، لیکن وہ اس سے زیادہ نہیں سمجھتا، البتہ جتنا سمجھتا ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داری ہے چونکہ اس سے زیادہ قدرت نہیں رکھتا۔

جو شخص اس مرحلہ سے آگے ہوتا ہے اور کچھ زیادہ قدرت فہم کا حامل ہوتا ہے نیز اعتباری معانی کو بھی درک کرتا ہے، جب اس کے سامنے کہا جاتا ہے:''إنّ اللّٰهَ عَلِیّ عَظِیم'' (بے شک اللہ بلند او رصاحب عظمت ہے) تو وہ فکر کرتا ہے کہ خدا بھی ایسا ہی

(1) سورۂ بقرہ، آیت 115 ۔

۱۲۷

بلند ہے جیسے نوکروں کی بہ نسبت ان کا مالک، لیکن یہ معنی کہاں اور خدا کی بلندی کہاں؟

جو شخص اپنی عمر علم و دانش اور حکمت کی تحصیل اور مجرد معانی کودرک کرنے میں گزارتا ہے وہ مذکورہ معانی سے بہت بلند اور بہتر علو اور بلندی کا معنی درک کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا اپنے ماسوا تمام عالمین کی نسبت وجودی علو اور بلندی رکھتا ہے۔

تمام مخلوقات وجود رکھتی ہیں او رخدا بھی وجود رکھتا ہے، لیکن خداوند تبارک و تعالی کا وجود، وجودی مرتبہ کی بلندی کے اعتبار سے دوسری موجودات کے ساتھ قابل مقائسہ نہیں ہے، لیکن پھر یہ کہ اس وجودی مرتبہ کے علو اور بلندی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ایسی بات ہے کہ ہر شخص اپنی فہم اور سمجھ کے مطابق اس سے نزدیک ہوسکتا ہے، اگر چہ اس کی کنہ و حقیقت کا درک ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اب ہم مذکورہ توضیح کے پیش نظر کہتے ہیں کہ جس وقت خدا ہم انسانوں کے لئے ان امور کے متعلق جو کہ ہماری عام اور عادی فہم سے بالاتر ہیں بیان کرنا چاہے تواسے ایسے الفاظ استعمال کرنا چاہئے کہ جن میں غور و فکر کر کے ہر انسان اپنی فہم کے مطابق ان کو درک کرے، اگر چہ ان معانی کی حقیقت کا ادراک ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ ایسے مقامات پر الفاظ ''متشابہ'' کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس بنا پر جو آیات طبیعت سے مافوق اور عام انسانوں کی سمجھ سے بالا تر امور کو بیان کرتی ہیں لامحالہ اس میں تشابہ کا ایک پہلو رہے گا۔ ان کی حقیقت تک محکمات کی مدد سے پہنچنا چاہئے۔ مثلاً جس وقت قرآن کہتا ہے :''هُوَ الْعَلُِّ العَظِیمُ'' 1 اور ہم خدا

(1) سورۂ شوریٰ، آیت 4 ۔

۱۲۸

کے وجودی مرتبہ کی بلندی اور عظمت کی کنہ و حقیقت کو نہیں سمجھتے تو اس کو محکمات قرآن جیسے''لَیسَ کَمِثلِهِ شَٔ'' 1 کے وسیلے سے تفسیر کرنا چاہئے تاکہ غلط فہمی اور غلط تفسیر سے دو چار نہ ہوں۔

پہلی آیت کہتی ہے کہ خدا بلند اور عظمت والا ہے اور دوسری آیت کہتی ہے کہ خدا کے مثل اور مانند کوئی چیز نہیں ہے، یعنی جس طرح کی بھی مرتبہ کی بلندی اور عظمت خدا کے لئے تصور کرو گے خدا کی بلندی اور عظمت کودرک نہ کر پاؤ گے، اس لئے کہ خدا اس سے بالاتر ہے۔

صفات خدا کے متعلق ایسا ہی ہے جب کہا جاتا ہے خدا عالم ہے، خدا قدرت رکھتا ہے، واضح ہے کہ علم کی حقیقت خدا کے متعلق اس معنی کے علاوہ اور اس سے بالاتر ہے جو انسان کے متعلق ذہن میں ذہنی صورتوں کے ادراک سے حاصل ہوتی ہے، لیکن خدا کے علم اور اس کی قدرت کی حقیقت کیا ہے؟ اور کلی طور سے خدا کے اوصاف کی حقیقت کیا ہے؟ ایسا مطلب ہے جو خدا کے علاوہ کہ جس کی ذات عین علم و عین حیات و قدرت ہے، کسی اور کے لئے قابل فہم نہیں ہے۔

خداوند متعال نے بھی اپنی طرف اور اپنے الٰہی اوصاف کی طرف انسان کی راہنمائی کے لئے و ہی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ انسان پہلے جن سے محسوس معانی کو درک کرتا ہے تاکہ انسان ان بلند معارف سے بالکل بے بہرہ نہ رہے۔

(1) سورۂ شوریٰ، آیت 7 ۔

۱۲۹

اس بنا پر قرآن کریم میں آیات متشابہ کا وجود الٰہی حکمتوں میں سے ہے کہ جن کے بغیر انسان کا راستہ مجرد اور غیر محسوس معانی و معارف کے ادراک کے لئے بند ہو جاتا ہے، لیکن متشابہات سے استفادہ اور ان کی تفسیر و توضیح جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا ایک ایسا مطلب ہے جو محکمات کی مدد سے واقع ہونا چاہئے، مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ تمام افراد جو قرآن اور اس کے معارف کو سمجھنا چاہتے ہیں مذکورہ طبیعی، منطقی اور عقلائی طریقہ الٰہی معارف کو سمجھنے کے لئے انتخاب کریں۔

زیر بحث آیۂ کریمہ میں خداوند تعالیٰ قرآن میں متشابہ اور محکم آیات کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے: وہ لوگ کہ''فِی قُلُوبِهِم زَیغ'' 1 جن کے دلوں میں کجی ہے، روحی اعتبار سے پستی اور تیرگی کے حامل ہیں اور کج فکری و کج اندیشی میں مبتلا ہیں اور دوسری لفظوں میں''فِی قُلُوبِهِم مَرَض'' 2 ان کا قلب اور ان کی روح بیمار ہے، ایسے لوگ آیات متشابہ کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور قرآن کی محکم آیات کی طرف توجہ کئے بغیر متشابہات کو محسوس معانی پر حمل کرتے ہیںاور اپنی اور دوسروں کی گمراہی کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں ۔

(1)سورۂ آل عمران، آیت 7 ۔

(2) سورۂ بقرہ ، آیت 10 ۔

۱۳۰

حق و باطل کو مخلوط کرنا، گمراہوں کا دوسرا اسلحہ

واضح بات ہے کہ جو لوگ اسلامی معاشرہ میں دین، قرآن اور دینی اقدار و

معارف کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے کبھی براہ راست مقابلہ نہیں کرتے، کیونکہ بخوبی جانتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور پہلے ہی قدم پر شکست کھا جائیں گے۔ وہ لوگ نفسیاتی نکات سے استفادہ کر کے مناسب طریقے اور ہتھکنڈے اپنے شیطانی مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔

ان کے ان ہی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہتھکنڈا حق و باطل کو مخلوط کرنا ہے۔ وہ لوگ حق و باطل کو آپس میں ملا دیتے ہیں اور حق و باطل کے ایک مجموعہ کی تبلیغ خوبصورت انداز میں کرتے ہیں تاکہ ان کے مخاطب افراد جو کہ اتفاقاً ضروری علم و آگاہی، باطل سے حق بات کی تشخیص کے متعلق نہیں رکھتے ان کی تمام بات کو قبول کرلیں اور نتیجہ میں وہ باطل مطلب جو کہ حق کی آرائش سے آراستہ کیا گیا ہے اور خوبصورت ادبی بیان کی نقاب کے پیچھے مخفی ہے، لاشعوری طور پر سننے والے کے ذہن و فکر میں جاگزیں ہو جائے۔

امیر المومنین حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''فَلَو إنّ البَاطِلَ خَلَصَ مِن مِزَاجِ الحَقِّ لَم یَخْفَ عَلٰی الْمُرتَادِینَ وَ لَو إنّ الْحَقَّ خَلَصَ مِن لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أََلسُنُ المُعَانِدِینَ وَ لَکِن یُؤخَذُ مِن هٰذا ضِغث وَ مِن هٰذَا ضِغث فَیُمْزَجَانِ فَهُنَالِکَ یَسْتَولِی الشَّیطَانُ عَلٰی أَولِیَائِهِ وَ یَنْجُوْ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَهُم مِنَ اللّٰهِ الْحُسْنیٰ''1

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 50 ۔

۱۳۱

یعنی ''اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نہ ہوسکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تودشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں، لیکن ایک حصہ اس میں سے لے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے، اور پھر دونوں کو ملادیا جاتا ہے پس ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہیں جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے''۔

واضح بات ہے کہ گمراہ کن افراد اور جن کے قلب و روح میں قرآن کے بقول کجی اور تاریکی ہے اور خدا کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہیں وہ لوگ متشابہ آیات اور ان روایات کو جو کہ سند کے اعتبار سے مخدوش یا دلالت کے اعتبار سے متشابہ ہیں، اسلام کے خلاف اپنی تبلیغ اور فعالیت میں سرفہرست قرار دیتے ہیں اور قرآن کے محکمات، حق بات اور ان الٰہی معارف کے سننے سے بھاگتے ہیں جو کہ اہلبیت اورائمۂ معصومین (ع) کی زبان سے معتبر اسناد کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔

یہ لوگ جو کہ اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں، شعوری یا لاشعوری طور پر دشمنان اسلام کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ وہ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ جھوٹی باتوں کی اسلام کی طرف نسبت دیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر ان حق طلب انسانوں کی رغبت کو کم کردیں جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں مخاطب، ملحدین اور غیر مسلمان دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں۔

البتہ ممکن ہے وہ لوگ حق بات کو نہ سننے، اور عقل و منطق کے سامنے سراپا تسلیم ہونے سے روکنے کے لئے توجیہیں کریں، جیسا کہ'' دین کی مختلف قرائتوں'' کی بحث میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور اپنی باتوں کے نتائج پر توجہ کئے بغیر اپنے نظریہ پر اڑے رہیں۔ ہم بھی اس حصہ میں فیصلہ مذکورہ نظریہ کی توجیہات اور اس کے انجام کے متعلق محترم قارئین کے ذمہ چھوڑتے ہیں، لیکن دلسوزی اور خیر خواہی کی بنا پرہم ان کو عقائد، افکار اور ایمان پر نظر ثانی اور ان کی اصلاح کی دعوت دیتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن بھی مومنین سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے کو تفکر، تعقل، اصلاح اور ہدایت کی دعوت دیں اور ایک دوسرے کو حق یاد دلاتے رہیں۔

۱۳۲

مختلف قرائتیں، قرآن سے مقابلہ کا ایک حربہ

کتاب کے پہلے حصوں میں کچھ باتیں مختصر طور سے بندوں پر سب سے بڑی الٰہی نعمت یعنی قرآن کریم کی عظمت اور خصوصیات کے متعلق بیان کی گئیں۔ یہ بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ خداوند متعال نے قرآن کریم کو سب سے عظیم فرشتے حضرت جبرئیل امین کے ذریعہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ عزیز بندے حضرت محمد مصطفی پر نازل فرمایا تاکہ اسے انسان کے اختیار میں قرار دے اور انسان فردی و اجتماعی زندگی میں اس آسمانی کتاب کی تعلیمات، ہدایات اور احکام سے آشنا ہو کر اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرے۔

نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی ـ کے بعض بیانات ذکر کئے گئے کہ قرآن سے تمسک، فتنوں اور گمراہیوں کو رفع کرنے کے لئے اور فردی و اجتماعی مشکلات اور بیماریوں کے علاج کے لئے لازم ہے۔ یہ بھی ذکر کیا گیا کہ قرآن کی تفسیر و توضیح کی صلاحیت دینی وظائف و مسائل کے جزئیات کی تفصیل اور احکام کی توضیح کے معنی میں، صرف پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کو حاصل ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ قرآن کی تفسیر کی صلاحیت، دینی احکام و وظائف کے دائرہ کے علاوہ نیز اس کے معارف کے بیان کی صلاحیت، صرف دینی علماء و ماہرین اور قرآن و اہلبیت کے علوم سے آشنا افراد کو حاصل ہے، ہم نے ذکر کیا کہ صرف وہ علماء جنھوں نے اپنی عمر معارف دین اور علوم اہلبیت کے سمجھنے میں گزاری ہے وہی قرآن کے متشابہات اور محکمات کو پہچان سکتے ہیں، اور محکمات اور روایات اہلبیت (ع) کی مدد سے قرآن کے متشابہات کی بھی تفسیر کرسکتے ہیں اور قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرسکتے ہیں تاکہ لوگ اسے اپنی فکری حرکت کی بنیاد اور عملی نیز فردی و اجتماعی تکامل کا نمونہ قرار دیں اور خدا کی اس دعوت:(یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم لِمَایُحیِیکُم) 1 پر لبیک کہیں اور اپنی کامیابی کا میدان ہموار کریں۔

اس کے مقابل ہم نے اشارہ کیا کہ جو لوگ زمانۂ دراز سے شیطانی وسوسوں کے ذریعہ لوگوں کو قرآن سے جدا کرنا چاہتے ہیں، وہ لوگ اپنے شیطانی مقاصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ اپنی خیال آرائی سے اس طرح ظاہر کریں کہ قرآن قابل فہم نہیں ہے اور نتیجہ میں اس بات کی امید نہ رکھنی چاہئے کہ قرآن ہماری زندگی میں ہدایت و رہنمائی کرے گا۔

(1)سورۂ انفال، آیت 24۔ ترجمۂ آیت: اے ایمان لانے والو! چونکہ خدا اور رسول نے اس چیز کی طرف دعوت دی ہے جو تمھیں زندگی بخشتی ہے، ان کی دعوت پر لبیک کہو اور اسے قبول کرو۔

۱۳۳

ہم نے ذکر کیا کہ یہ شیطانی شبہہ جو پوری تاریخ میں مختلف شکلوں کے ساتھ پایا جاتا رہا ہے، آج اپنی تکامل یافتہ شکل میں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچا ہوا ہے اور نت نئی صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ آج بھی قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اپنے نظریات و افکار کو اس تھیوری کی شکل میں کہ ''دین کی زبان ایک مخصوص زبان ہے'' بیان کرتے ہیں تاکہ جو لوگ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے ان کو فریب دیں۔

جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اس قول سے کہ ''دین کی زبان، مخصوص زبان ہے'' ان کا مقصود کیا ہے؟ تو وہ لوگ جواب میں ''دین کی زبان کے، خاص ہونے'' کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دینی تعلیمات اور قرآن ایسے الفاظ اور قالب ہیں کہ جن کے مطالب کو خود انسانوں کی فکریں اور ذہنیتیں تشکیل دیتی ہیں۔ البتہ یہ افراد عام طور سے ادبی عبارتوں کے انتخاب، اور جذبات انگیز اشعار پڑھنے کے ساتھ اپنے نظریہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ حضرات آسانی سے ان کے مقصد کو بھانپ نہیں سکتے، کیونکہ اس صورت میں ان کی بات کے بے بنیاد ہونے کو سمجھ جائیں گے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ جو کہ کبھی ''صراط ہائے مستقیم'' (بہت سے سیدھے راستے) کے نام سے اور کبھی ''دین کی مختلف قرائتوں، فکروں یا تفسیروں'' کی تعبیر کے ساتھ اور کبھی ''دین کی زبان'' یا ''اقلیتی اور اکثریتی دین'' کی تھیوریوں کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے، دینی اعتقادات اور توحیدی مکتب فکر سے مقابلہ کے علاوہ کوئی مقصد نہیں رکھتا۔

واقف کار لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہے کہ دیندار افراد خصوصاً ذہین و زیرک مسلمان صاحبان علم و دانش اس سے زیادہ ہوشیار ہیں کہ ان کی باتوں کے عقل و منطق سے دور ہونے کو بھانپ نہ لیں یا ان بے بنیاد شبہوں کے پیش کرنے والوں کے مخفی مقاصد سے غافل رہیں۔

۱۳۴

دینی ثقافت کے مخالفین کا مقصد قرآن کی روشنی میں

مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مقابلہ میں ان شیطنتوں سے مخالفین کا مقصد کیا ہے؟ اس کے جواب کے لئے پہلے ہم قرآن کے نظریہ کی تحقیق پیش کرتے ہیںپھر اس کے متعلق نہج البلاغہ میں حضرت علی ـ کے بیان کی توضیح پیش کریں گے۔

قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے آغاز ہی سے شیطان اس بات پر تل گیا اور اس نے اپنی تمام کوششیں صرف کردیں کہ دنیا پرست انسانوں اور انسان نما شیطانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے اور لوگوں کو قرآن سے جدا کردے۔

شیطان سے اس کے علاوہ کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس نے قسم کھائی تھی کہ:

(قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغوِیَنَّهُم أَجمَعِینَ اِلاَّ عِبَادَکَ مِنهُمُ المُخْلَصِینَ) 1 ''تو پھر تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا، علاوہ تیرے ان بندوں کے جنھیں تونے خالص بنا لیا ہے''۔ شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان کو معارف قرآن سے محروم کرنے کے لئے اپنے بنائے ہوئے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر، قرآن کریم کی

(1) سورۂ ص، آیت 82 ، 83 ۔

۱۳۵

آیات متشابہ کو اپنا حربہ قرار دیا ہے۔ اپنے دوستوں اور دنیا پرستوں کو محکمات کی طرف متوجہ کئے بغیر، متشابہات قرآن کی پیروی کی تشویق و ترغیب کرتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی شک و تردد اور گمراہی کی طرف کھینچ لائے۔

خداوند متعال محکمات و متشابہات سے آیات قرآن کی تقسیم کے بعد فرماتا ہے:(فَأَََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الفِتْنَةِ وَ ابْتِغَائَ تَاوِیلِهِ) 1 جن لوگوں کا وجود سر سے پاؤں تک انحراف، گمراہی، پلیدی اور خود پرستی ہے، جن کے دل بیمار ہیں اور شیطانی وسوسوں سے متاثر ہیں وہ قرآن کے محکمات اور دین کے بدیہی اور واضح و روشن عقائد کو چھوڑ دیتے ہیں اور آیات متشابہ کے ظاہر سے سہارا لیکر کوشش کرتے ہیں کہ معارف قرآن میں تحریف اور غلط تفسیر کر کے لوگوں کو گمراہ کریں۔ ایسے انسان شیطان کے پالے ہوئے چیلے ہیںکہ اس کا مقصد پورا کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔

قرآن ایسے لوگوں کو مختلف عنوانوں جیسے''فِی قُلُوبِهِم زَیغ'' یا''فِی قُلُوبِهِم مَرَض'' سے یاد کرتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی کرنے سے ڈراتا ہے۔

جس بات کی تحقیق یہاں پر کی جارہی ہے، وہ قرآن کی روشنی میں دینی ثقافت اور مکتب فکر کی مخالفت کرنے والوں کے مقصد کو واضح کرنا ہے ۔

قرآن کریم فرماتا ہے کہ بہت سے لوگ''اِبتِغَائَ الفِتنَةِ'' (فتنہ جوئی) کے مقصد کے تحت، قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور متشابہات کو

(1) سورۂ آل عمران ، آیت 7 ۔

۱۳۶

ہتھکنڈا بنا کر ظاہر قرآن کو چھوڑ کر آیات کی من مانی تاویل اور غلط تفسیر کر کے فتنے پھیلاتے ہیں۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتنہ کیا ہے؟ اور فتنہ پرور کون ہے؟ علم لغت کے ماہرین خصوصاً جو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ لغت کو اپنے اصلی اور حقیقی معنی پر واپس لے جائیں اور لغت کے اصلی معنی کے پیش نظر الفاظ کے معنی کریں، انھوں نے کہا ہے کہ: ''فتنہ'' در اصل کسی چیز کو آگ کے اوپر گرم کرنے کے معنی میں ہے۔

جس وقت کسی شی کو گرم کرنے یا جلانے یا پگھلانے کے لئے آگ کے اوپر رکھتے ہیں تو عرب اس معنی کو ''فَتَنَہُ'' سے تعبیر کرتے ہیں یعنی اس نے اس چیز کو گرم کیا۔

قرآن میں بھی مادۂ ''فتنہ'' اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے:''یَومَ هُم عَلٰی النَّارِ یُفتَنُونَ'' 1 یعنی جس دن انھیں جہنم کی آگ پر تپایا جائے گا۔

اس بنا پر ''فتنہ'' کے اصل لغوی معنی جلانے اور پگھلانے کے ہیں، لیکن جیسا کہ اہل لغت کہتے ہیں کبھی کبھی ایک لغوی معنی کے لوازم کے پیش نظر، وہ معنی اس کے لوازم یا ملزومات میں بھی سرایت کر جاتا ہے اور لازمۂ معنی کے غلبہ نیز لازمۂ معنی میں اس لغت کے استعمال کے سبب دھیرے دھیرے وہ لازم لغت کے لئے دوسرے اور تیسرے معنی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

(1) سورۂ ذاریات، آیت 13 ۔

۱۳۷

لفظ ''فتنہ'' کی بھی یہی صورت ہے، جیسا کہ کہا گیا ''فتنہ'' در اصل گرم ہونے کے معنی میں ہے، لیکن ''گرم ہونے'' کا بھی ایک لازمہ ہے وہ یہ کہ اگر یہ گرم ہونا اور آگ میں قرار پانا انسان کے متعلق واقع ہو (جیسے آیۂ''یَومَ هُم عَلی النَّارِ یُفتَنُونَ'' 1 ) تو انسان اضطراب کی حالت پیدا کرتا ہے۔ اضطراب بھی کبھی ظاہری اور بدنی ہوتا ہے جیسے یہ کہ جسم کے جلنے اور گرم ہونے سے متعلق ہو اور کبھی باطنی اور روحی امور سے پیدا ہوتا ہے۔ لہذا اضطراب حقیقت میں ''فتنہ'' اور گرم ہونے کے معنی میں ہے، پھر لفظ کے معنی میں توسیع کے پیش نظر ان چیزوں پر بھی ''فتنہ'' کا اطلاق کیا جاتا ہے جو معنوی اور باطنی اضطراب کا باعث ہوتی ہیں۔ چونکہ روحی اور باطنی اضطراب کی ایک قسم، وہ اضطراب و تشویش ہے جو کہ اعتقادات کے سلسلہ میں پیش آتی ہے، لہذا وہ چیز جو ایسے اضطرابوں کا باعث ہوتی ہے اسے بھی ''فتنہ'' کہا گیا ہے۔

جس وقت ''دین میں فتنہ'' کہا جاتا ہے، وہ اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہمی اور باطل خیالات اور وسوسوں سے دیندار افراد کو ان کے ایمان و اعتقادات میں اضطراب و تزلزل سے دوچار کردیں اور انھیں دین حق اور دینی اعتقادات سے پھیر دیں۔

امتحان کو بھی ''فتنہ'' کہا گیا ہے، اس لئے کہ وہ بھی اضطراب اور تشویش کا باعث ہوتا ہے۔ چونکہ انسان امتحان کے وقت نتیجہ کے لئے مضطرب اور پریشان ہوتا ہے، وہ

(1) سورۂ ذاریات، آیت 13 ۔

۱۳۸

روحی آرام اور قلبی سکون نہیں رکھتا۔ لفظ ''فتنہ'' قرآن میں بھی کئی آیتوں میں امتحان سے پیدا شدہ اسی اضطراب کے معنی میں آیا ہے۔

قرآن فرماتا ہے:(إنّمَا أَموَالُکُم وَ أَولادُکُم فِتنَة) 1 تمھارے اموال اور اولاد تمھارے امتحان اور آزمائش کا وسیلہ ہیں۔ یا فرماتا ہے:(وَ نَبلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الخَیرِ فِتنَةً) 2 ہم تمھیں خیر و شر اور نعمت و نقمت سے آزماتے ہیں۔ نیز کبھی خود عذاب اور تکلیف پر ''فتنہ'' کا اطلاق ہوا ہے۔

واضح ہے کہ زیر بحث آیۂ کریمہ(هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ آیَات مُحکَمَات هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِهَات فَأََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الْفِتنَةِ ...) میں فتنہ سے مراد ''دین میں فتنہ'' پیدا کرنا ہے، اس لئے کہ متشابہات کی پیروی، امتحان و آزمائش سے کوئی تناسب نہیں رکھتی اور جو لوگ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں وہ دوسروں کو شکنجہ اور عذاب دینے کی کوشش نہیں کرتے نیز گرم کرنے اور جلانے کے معنی میں بھی نہیں ہے، بلکہ ان کی فتنہ پروری اس سبب سے ہے کہ وہ اس بات کے درپے ہوتے ہیں کہ آیات متشابہ کو ہتھکنڈا بنا کر لوگوں کے دینی عقائد و افکار میں اضطراب و تزلزل پیدا کریں اور انھیں گمراہ کریں۔

(1)سورۂ انفال، آیت 28 ۔

(2)سورۂ انبیائ، آیت 35 ۔

۱۳۹

''دین میں فتنہ'' کے مقابلہ میں قرآن کا موقف

''دین میں فتنہ'' اس معنی میں کہ جس کی توضیح دی گئی، پوشیدہ مقابلہ اور فریب و حیلہ کی قسم سے سمجھا جاتا ہے۔ یہ کام ظاہری ایمان کے لباس میں اصل دین کو ختم کرنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔ ایسے فتنہ گر افراد نفاق کا چہرہ اختیار کر کے اپنی شیطانی فکروں کواس طرح پوشیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے مخالف دین مقاصد کی تشخیص عام لوگوں کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے اسے سب سے بڑا گناہ شمار کیا ہے اور لوگوں کو دنیا و آخرت کے اس سب سے بڑے خطرے کی طرف توجہ دلاکر ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوںاور اپنے مادی و معنوی وجود کا دفاع کریں۔

دشمن، اسلام او رمسلمین سے مقابلہ کے لئے عام طور سے دو اہم حربے استعمال کرتا ہے۔ یہاں پر ہم قرآن اوردینی ثقافت کے دشمنوں کے حربوں اور ہتھکنڈوں کی توضیح کے ضمن میں، دشمنوں کی سازشوں کے مقابلہ میں قرآن کے موقف سے واقف ہوں گے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180