قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں

قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں22%

قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 180

قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64926 / ڈاؤنلوڈ: 5392
سائز سائز سائز
قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں

قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تکرار وسوسہ شیطانوں کا اہم اسلحہ

شیطانوں کا ایک اسلحہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے اندر مسلسل وسوسہ ڈالنا اوران کے ذہن وعقل میں نفوذ پیدا کرنا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن ان کو وسواس اور خناس کے لقب سے یاد کرتا ہے اورانسانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ جنّ و انس کے شیاطین کے شر سے خدا کی پناہ مانگیں، اس لئے کہ شیاطین، انسان کے دل پر مسلسل وسوسہ اندازی سے چاہتے ہیں کہ انسانوں کے ذہن و عقل کو اپنے تسلط میں لے لیں اور ان کے افکار کو ہلاکت و گمراہی کے گڑھے کی طرف موڑ دیں۔

شیطان اور شیطان صفت انسان خود جانتے ہیں کہ خدا پرست لوگوں کے اذہان میں شیطانی تخیلات کو جگہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ اتنا بولیں، لکھیں اور تکرار کریں کہ اذہان کو اپنے باطل تخیلات سے مانوس کر کے دھیرے دھیرے ان کی فکر و عقل میں نفوذ کر جائیں۔ خود وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قدر بولنا، لکھنا اور تکرار کرنا چاہئے کہ لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں۔

وہ لوگ ابلیس کی وسوسہ اندازی سے سب سے پہلے طالب علموں اور تعلیم یافتہ طبقہ کو منحرف اور گمراہ کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو فریب دیکر عام لوگوں کواور زیادہ گمراہ کرسکیں گے۔ لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خداوند متعال نے مسلمانوں اور شیعوں کی ہدایت کے لئے روشن مشعلیں قرار دی ہیں اور مسلمان لطف الٰہی اوردینی علوم و معارف سے الہام کے ذریعہ دشمنوں کی شیطانی سازشوں کو بھانپ لیں گے اور روز بروز قرآن کی پیروی میں پہلے سے زیادہ محکم و پائدار ہوتے جائیں گے۔

۱۲۱

متشابہات سے استناد، قرآن کے مقابلہ میںایک دوسری سازش

اس کے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کا ایک عہدہ وحی الٰہی کی تفسیر و توضیح ہے، چونکہ قرآن میں محکمات و متشابہات ہیں اور جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ اس میں ظاہر و باطن بھی ہیں کہ اس کے معارف کی گہرائیوں کا حصول پیغمبر اور ائمۂ معصومین اور علوم الٰہی سے واقف حضرات کے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس کی تفسیر و توضیح مکتب اہلبیت کے تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔

چونکہ حکم عقل اور سیرۂ عقلاء کے مطابق جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا لازم ہے، لہٰذا قرآن اور دین کے معارف سمجھنے کے لئے اس کتاب الٰہی کے لانے والے اور ائمۂ معصومین (ع) اور ان حضرات کے مکتب کے تعلیم یافتہ افراد کی طرف رجوع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ تمام انسان عقلائی سیرت و روش کی پیروی کریں یا اپنے کو عقل و فہم اور سمجھنے اور سمجھانے کے منطقی اصول کا پابند سمجھیں۔

ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو لوگوں کو صرف گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد معاشرہ میں شبہہ اور فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ قرآن نے بھی اس بات کی پیشین گوئی کی ہے:

۱۲۲

(وَ هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ آیَات مُحکَمَات هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِهَات فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الْفِتنَةِ وَ ابْتِغَائَ تَأوِیْلِهِ وَ مَا یَعلَمُ تَأوِیلَهُ اِلاَّ اللّٰهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ کُلّ مِن عِندِ رَبِّنَا وَ مَایَذَّکَّرُ اِلاَّ أُولُوا الأَلبَابِ)۱

یعنی ''اس (خدا) نے آپ (پیغمبر) پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیںمحکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم صرف خدا کو ہے ا ور انھیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں، جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ آیات ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہیں اور یہ بات سوائے صاحبان عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے''۔

اس آیۂ کریمہ نے قرآن کریم کو دو حصوں میں یعنی محکمات و متشابہات میں تقسیم کیا ہے اور محکمات کو ''ام الکتاب'' (اصل کتاب) کے نام سے یاد کیا ہے ۔ قرآن کا ایک حصہ آیات محکمات ہیں جو دوسرے حصہ یعنی متشابہات کی نسبت جڑ اوراصل ہیں۔

محکمات قرآن سے مراد وہ آیات ہیں کہ جن کے معانی واضح و روشن ہیں اور ان کے معارف قابل شک و شبہہ نہیںہیں۔ یہ آیات، معارف قرآن کے اصول و امہات پر مشتمل ہیں۔ انھیں کے مقابل وہ آیات ہیں جو محکمات کا سہارا لئے بغیر قابل فہم نہیںہیں اور ایسا نہیں ہے کہ تمام لوگ ان کے معنی کی گہرائی تک پہنچ جائیں۔ آیات قرآن کے اس حصہ کو متشابہات کہا جاتا ہے۔

قرآن نے لوگوں کو متشابہات کی پیروی سے، محکمات نیز پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کی تفسیر و توضیح کی طرف توجہ کئے بغیر منع کیا ہے۔ قرآن کریم متشابہات کی پیروی کودل کے انحراف و کجی کی نشانی سمجھتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و فہم اوراپنے اعتقادات کا معیار قرار دیتے ہیں وہ قرآن کی من مانی تاویل و تحریف اور فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کے بقول، آیات متشابہات کی تاویل و تفسیر خدا، راسخون فی العلم اور ائمۂ معصومین (ع) کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ علم میں راسخ وہ لوگ ہیں جنھوںنے دل و جان سے خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم قرآن پر ایمان لائے ہیں، خواہ وہ قرآن کے محکمات ہوں یا متشابہات، سب پروردگار کی طرف سے ہیں۔

(۱) سورۂ آل عمران، آیت ۷ ۔

۱۲۳

قرآن میں متشابہات کی حکمت

یہاں پر ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ کیوں قرآن اس طرح نازل نہیںہوا ہے کہ اس کی تمام آیتیں واضح و محکم اور بغیر کسی ابہام و اجمال کے ہوں تاکہ سب کے لئے یکساں طور پر قابل فہم و استفادہ ہوں؟

اس سوال کے جواب کے لئے پہلے ایک مختصر سا مقدمہ بیان کرتے ہیں: ہم عام انسانوں کا ذہن فطری عوامل کا تابع ہے۔ عام انسان جب پیدا ہوتا ہے تو حواس کے ذریعہ پہلے محسوسات سے آشنا ہوتا ہے اور شروع میں اس کا ادراک و فہم محسوسات و مادیات کے حدود میں محدود ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے انسان کی فکری قوتیںبڑھتی ہیں اور وہ تجرید و تعقل کی قدرت پیدا کر لیتا ہے، نتیجہ میںاس کو مادیات سے مافوق مطالب کے درک کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے۔

انسان کی عقل جس قدر تجرید و تعقل کی قدرت کی حامل ہوگی اور مادہ و مادیات کے حدود سے آگے بڑھے گی اتنا ہی وہ طبیعت سے ماوراء حقائق کو بہتر طور پر درک کرے گی اور چونکہ تمام انسان عقلی نشو و نما کے اعتبار سے مساوی نہیں ہیں لہٰذا غیر محسوس امور کے ادراک کے اعتبار سے بھی برابر نہیں ہیں۔

ایسے انسانوں کی کمی نہیں ہے کہ جن کی عمر کے دسیوں سال گزر جاتے ہیں، لیکن ان کی عقل و فہم سات، آٹھ سال کے بچوں کی سی ہوتی ہے او رایک عمر گزر جانے کے بعد بھی ممکن ہے کہ وہ خدا اور مجرد چیزوں کو زمان و مکان کی حدوں میں محدود تصور کریں، جبکہ دین کی بنیاد، غیب پر ایمان رکھنا ہے، یعنی مجرد اور غیر مادی حقائق پر ایمان رکھنا، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الکِتَابُ لارَیبَ فِیهِ هُدیً لِلمُتَّقِینَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ)۱

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے یہ متقین کے لئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس بنا پر ایمان کی بنیاد یہ ہے کہ انسان محسوسات سے مافوق حقائق پر ایمان لائے اور ان پر اعتقاد رکھے۔ لیکن ان حقائق کی کنہ و حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کا سمجھنا الٰہی الہامات کے علاوہ ممکن نہیںہے جو کہ انبیاء اور ائمۂ معصومین (ع) کے دل پروارد ہوتے ہیں۔

(۱) سورۂ بقرہ، آیت ۲ ۔

۱۲۴

ہم عام انسان طبیعت سے ماوراء تھوڑے سے امور و حقائق کو درک کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رکھتے کہ اپنی عقلی قوتوں کو تقویت دیںاوردھیرے دھیرے محسوسات سے مجردات کی طرف اور مافوق طبیعت امور کی طرف آگے بڑھیں۔

دوسری طرف جوالفاظ مجردات کے متعلق استعمال ہوتے ہیں وہ اکثر ابتدا میں محسوس معانی کے لئے وضع کئے گئے ہیں:''یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِمْ'' ۱ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ یا''وَ هُوَ العَلِیُّ العَظِیمُ'' ۲ خدا بلند و بالا او رعظمت والا ہے۔ مذکورہ الفاظ، علی، عالی، علو سب بلند و بالا کے معنی میں ہیں جو کہ سافل اور نیچے کے مقابل ہیں۔

واضح ہے کہ انسان ابتدا میں ان الفاظ سے صرف حسی معنی سمجھتا ہے اور بس، مثلاً انسان اپنے سر کو اونچا اور اوپر ہونے کا معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ سر کے اوپر آسمان کی طرف پایا جاتا ہے اس کو ''اونچا'' سمجھتا ہے اور ''نیچے'' کے معنی کے لئے اپنے پاؤں کو معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ اس سے نیچے ہوتا ہے اسے نیچا سمجھتا ہے۔ اسی لئے کہتا ہے کہ آسمان اوپر اور زمین نیچے ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں داخل ہونے کی صورت میں دھیرے دھیرے ان حسی معانی سے قدم آگے بڑھا کر ا ن کے انتزاعی اور غیر حسی معنی کو درک کرتا ہے، یعنی جس وقت کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا مرتبہ بلند ہے یا اور بلند ہوگیا ہے تو پھر انسان اس لفظ سے سر سے اوپر ہونے کے اس حسی معنی کو نہیں سمجھتا اور مرتبہ نیچے آنے

سے وہ حسی معنی اس کے ذہن میں نہیں آتے۔

(۱) سورۂ شوریٰ، آیت ۱۱ ۔

(۲)سورۂ شوریٰ، آیت ۴ ۔

۱۲۵

سامنے کی بات ہے کہ ایسے استعمالات میں جو معنی مقصود ہوتے ہیں وہ مادی اور محسوس لوازم سے منزہ ہوتے ہیں۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ: ''جو (خدا) تمام وجود کو ایک ارادہ سے پیدا کرتا ہے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے'' جس علو اور بلندی کی نسبت پروردگار کی طرف دی جاتی ہے وہ اس علو اور بلندی سے بہت اونچی ہے کہ جس کا اطلاق ایک رئیس پر اس کے نوکروں کی بہ نسبت ہوتا ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کا فاصلہ، صفر اور لامتناہی اور حقیقت و مجاز کا ہے، اس لئے کہ ہر فرضی علواور مرتبہ، عاریتی اور فنا پذیر ہے، سوائے اس حقیقی علو اور بلندی کے جو کہ خداوند خالق کائنات کے شایان شان اور اسی سے مخصوص ہے۔ وہی ہے کہ''إنَّمَاأَمرُهُ اِذَا اَرَادَ شَیئاً اَن یَّقُولَ لَهُ کُن فَیَکُونُ'' ۱ یعنی اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جا تو وہ شے فوراً ہو جاتی ہے۔

اس بنا پر جس وقت قرآن کہتا ہے:''هُوَ الْعَلُِّ العَظِیمُ'' ۲ خداوند متعال کا علو نہ تو مادی اور محسوس علو ہے، نہ اس کے عظیم و بزرگ ہونے سے مادی اور محسوس معنی مراد ہے۔ لیکن یہ کہ خدا کے علو اور اس کی عظمت کی حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ انسان کی عقل جس تک نہیں پہنچ سکتی۔ البتہ بہت سے مقامات پر کوئی دوسری لفظ بھی ان الفاظ کے علاوہ جو کہ محسوس معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں، نہیں ہے اور مجبوراً یہی

(۱) سورۂ یٰس ، آیت ۸۲ ۔

(۲) سورۂ بقرہ، آیت ۲۵۵ ۔

۱۲۶

الفاظ مجرد معانی کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً ارشاد ہوتا ہے: ''خدا بلند اور بزرگ ہے'' بلند وہی لفظ ہے جو چھت کی بلندی کے لئے سطح زمین کی بہ نسبت استعمال کی جاتی ہے اور بزرگ بھی وہی لفظ ہے جو ہمالیہ پہاڑ کے متعلق استعمال کی جاتی ہے، لیکن جس وقت یہ الفاظ خدا کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو وہ اپنے محسوس معانی سے الگ ہو جاتے ہیں، البتہ پھر بھی ایسا نہیں ہے کہ الگ ہونے کے ساتھ بھی اس کی حقیقت تک پہنچا جاسکے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ الفاظ و معانی کہ جن کی حقیقت کو مذکورہ طریقہ سے پہچانا جاتا ہے وہ ایک قسم کے تشابہ کے حامل ہیں کہ ابہام او رمغالطہ کا باعث ہوسکتے ہیں۔ جو شخص ابھی مذکورہ معانی کو حسی شوائب و لوازم سے مجرد اور منزہ نہیں کرسکا ہے جب اس کے سامنے کہا جاتاہے خدا بلند اور اُوپر ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا آسمانوں کے اوپر ہے جبکہ خدا جسم نہیںہے کہ اس کے لئے مکان کا تصور کیا جائے:''أَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ اللّٰهِ'' ۱ (تم جس جگہ بھی رخ کرو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے)، لیکن وہ اس سے زیادہ نہیں سمجھتا، البتہ جتنا سمجھتا ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داری ہے چونکہ اس سے زیادہ قدرت نہیں رکھتا۔

جو شخص اس مرحلہ سے آگے ہوتا ہے اور کچھ زیادہ قدرت فہم کا حامل ہوتا ہے نیز اعتباری معانی کو بھی درک کرتا ہے، جب اس کے سامنے کہا جاتا ہے:''إنّ اللّٰهَ عَلِیّ عَظِیم'' (بے شک اللہ بلند او رصاحب عظمت ہے) تو وہ فکر کرتا ہے کہ خدا بھی ایسا ہی

(۱) سورۂ بقرہ، آیت ۱۱۵ ۔

۱۲۷

بلند ہے جیسے نوکروں کی بہ نسبت ان کا مالک، لیکن یہ معنی کہاں اور خدا کی بلندی کہاں؟

جو شخص اپنی عمر علم و دانش اور حکمت کی تحصیل اور مجرد معانی کودرک کرنے میں گزارتا ہے وہ مذکورہ معانی سے بہت بلند اور بہتر علو اور بلندی کا معنی درک کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا اپنے ماسوا تمام عالمین کی نسبت وجودی علو اور بلندی رکھتا ہے۔

تمام مخلوقات وجود رکھتی ہیں او رخدا بھی وجود رکھتا ہے، لیکن خداوند تبارک و تعالی کا وجود، وجودی مرتبہ کی بلندی کے اعتبار سے دوسری موجودات کے ساتھ قابل مقائسہ نہیں ہے، لیکن پھر یہ کہ اس وجودی مرتبہ کے علو اور بلندی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ایسی بات ہے کہ ہر شخص اپنی فہم اور سمجھ کے مطابق اس سے نزدیک ہوسکتا ہے، اگر چہ اس کی کنہ و حقیقت کا درک ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اب ہم مذکورہ توضیح کے پیش نظر کہتے ہیں کہ جس وقت خدا ہم انسانوں کے لئے ان امور کے متعلق جو کہ ہماری عام اور عادی فہم سے بالاتر ہیں بیان کرنا چاہے تواسے ایسے الفاظ استعمال کرنا چاہئے کہ جن میں غور و فکر کر کے ہر انسان اپنی فہم کے مطابق ان کو درک کرے، اگر چہ ان معانی کی حقیقت کا ادراک ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ ایسے مقامات پر الفاظ ''متشابہ'' کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس بنا پر جو آیات طبیعت سے مافوق اور عام انسانوں کی سمجھ سے بالا تر امور کو بیان کرتی ہیں لامحالہ اس میں تشابہ کا ایک پہلو رہے گا۔ ان کی حقیقت تک محکمات کی مدد سے پہنچنا چاہئے۔ مثلاً جس وقت قرآن کہتا ہے :''هُوَ الْعَلُِّ العَظِیمُ'' ۱ اور ہم خدا

(۱) سورۂ شوریٰ، آیت ۴ ۔

۱۲۸

کے وجودی مرتبہ کی بلندی اور عظمت کی کنہ و حقیقت کو نہیں سمجھتے تو اس کو محکمات قرآن جیسے''لَیسَ کَمِثلِهِ شَٔ'' ۱ کے وسیلے سے تفسیر کرنا چاہئے تاکہ غلط فہمی اور غلط تفسیر سے دو چار نہ ہوں۔

پہلی آیت کہتی ہے کہ خدا بلند اور عظمت والا ہے اور دوسری آیت کہتی ہے کہ خدا کے مثل اور مانند کوئی چیز نہیں ہے، یعنی جس طرح کی بھی مرتبہ کی بلندی اور عظمت خدا کے لئے تصور کرو گے خدا کی بلندی اور عظمت کودرک نہ کر پاؤ گے، اس لئے کہ خدا اس سے بالاتر ہے۔

صفات خدا کے متعلق ایسا ہی ہے جب کہا جاتا ہے خدا عالم ہے، خدا قدرت رکھتا ہے، واضح ہے کہ علم کی حقیقت خدا کے متعلق اس معنی کے علاوہ اور اس سے بالاتر ہے جو انسان کے متعلق ذہن میں ذہنی صورتوں کے ادراک سے حاصل ہوتی ہے، لیکن خدا کے علم اور اس کی قدرت کی حقیقت کیا ہے؟ اور کلی طور سے خدا کے اوصاف کی حقیقت کیا ہے؟ ایسا مطلب ہے جو خدا کے علاوہ کہ جس کی ذات عین علم و عین حیات و قدرت ہے، کسی اور کے لئے قابل فہم نہیں ہے۔

خداوند متعال نے بھی اپنی طرف اور اپنے الٰہی اوصاف کی طرف انسان کی راہنمائی کے لئے و ہی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ انسان پہلے جن سے محسوس معانی کو درک کرتا ہے تاکہ انسان ان بلند معارف سے بالکل بے بہرہ نہ رہے۔

(۱) سورۂ شوریٰ، آیت ۷ ۔

۱۲۹

اس بنا پر قرآن کریم میں آیات متشابہ کا وجود الٰہی حکمتوں میں سے ہے کہ جن کے بغیر انسان کا راستہ مجرد اور غیر محسوس معانی و معارف کے ادراک کے لئے بند ہو جاتا ہے، لیکن متشابہات سے استفادہ اور ان کی تفسیر و توضیح جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا ایک ایسا مطلب ہے جو محکمات کی مدد سے واقع ہونا چاہئے، مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ تمام افراد جو قرآن اور اس کے معارف کو سمجھنا چاہتے ہیں مذکورہ طبیعی، منطقی اور عقلائی طریقہ الٰہی معارف کو سمجھنے کے لئے انتخاب کریں۔

زیر بحث آیۂ کریمہ میں خداوند تعالیٰ قرآن میں متشابہ اور محکم آیات کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے: وہ لوگ کہ''فِی قُلُوبِهِم زَیغ'' ۱ جن کے دلوں میں کجی ہے، روحی اعتبار سے پستی اور تیرگی کے حامل ہیں اور کج فکری و کج اندیشی میں مبتلا ہیں اور دوسری لفظوں میں''فِی قُلُوبِهِم مَرَض'' ۲ ان کا قلب اور ان کی روح بیمار ہے، ایسے لوگ آیات متشابہ کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور قرآن کی محکم آیات کی طرف توجہ کئے بغیر متشابہات کو محسوس معانی پر حمل کرتے ہیںاور اپنی اور دوسروں کی گمراہی کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں ۔

(۱)سورۂ آل عمران، آیت ۷ ۔

(۲) سورۂ بقرہ ، آیت ۱۰ ۔

۱۳۰

حق و باطل کو مخلوط کرنا، گمراہوں کا دوسرا اسلحہ

واضح بات ہے کہ جو لوگ اسلامی معاشرہ میں دین، قرآن اور دینی اقدار و

معارف کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے کبھی براہ راست مقابلہ نہیں کرتے، کیونکہ بخوبی جانتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور پہلے ہی قدم پر شکست کھا جائیں گے۔ وہ لوگ نفسیاتی نکات سے استفادہ کر کے مناسب طریقے اور ہتھکنڈے اپنے شیطانی مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔

ان کے ان ہی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہتھکنڈا حق و باطل کو مخلوط کرنا ہے۔ وہ لوگ حق و باطل کو آپس میں ملا دیتے ہیں اور حق و باطل کے ایک مجموعہ کی تبلیغ خوبصورت انداز میں کرتے ہیں تاکہ ان کے مخاطب افراد جو کہ اتفاقاً ضروری علم و آگاہی، باطل سے حق بات کی تشخیص کے متعلق نہیں رکھتے ان کی تمام بات کو قبول کرلیں اور نتیجہ میں وہ باطل مطلب جو کہ حق کی آرائش سے آراستہ کیا گیا ہے اور خوبصورت ادبی بیان کی نقاب کے پیچھے مخفی ہے، لاشعوری طور پر سننے والے کے ذہن و فکر میں جاگزیں ہو جائے۔

امیر المومنین حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''فَلَو إنّ البَاطِلَ خَلَصَ مِن مِزَاجِ الحَقِّ لَم یَخْفَ عَلٰی الْمُرتَادِینَ وَ لَو إنّ الْحَقَّ خَلَصَ مِن لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أََلسُنُ المُعَانِدِینَ وَ لَکِن یُؤخَذُ مِن هٰذا ضِغث وَ مِن هٰذَا ضِغث فَیُمْزَجَانِ فَهُنَالِکَ یَسْتَولِی الشَّیطَانُ عَلٰی أَولِیَائِهِ وَ یَنْجُوْ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَهُم مِنَ اللّٰهِ الْحُسْنیٰ''۱

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۵۰ ۔

۱۳۱

یعنی ''اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نہ ہوسکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تودشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں، لیکن ایک حصہ اس میں سے لے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے، اور پھر دونوں کو ملادیا جاتا ہے پس ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہیں جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے''۔

واضح بات ہے کہ گمراہ کن افراد اور جن کے قلب و روح میں قرآن کے بقول کجی اور تاریکی ہے اور خدا کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہیں وہ لوگ متشابہ آیات اور ان روایات کو جو کہ سند کے اعتبار سے مخدوش یا دلالت کے اعتبار سے متشابہ ہیں، اسلام کے خلاف اپنی تبلیغ اور فعالیت میں سرفہرست قرار دیتے ہیں اور قرآن کے محکمات، حق بات اور ان الٰہی معارف کے سننے سے بھاگتے ہیں جو کہ اہلبیت اورائمۂ معصومین (ع) کی زبان سے معتبر اسناد کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔

یہ لوگ جو کہ اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں، شعوری یا لاشعوری طور پر دشمنان اسلام کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ وہ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ جھوٹی باتوں کی اسلام کی طرف نسبت دیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر ان حق طلب انسانوں کی رغبت کو کم کردیں جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں مخاطب، ملحدین اور غیر مسلمان دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں۔

البتہ ممکن ہے وہ لوگ حق بات کو نہ سننے، اور عقل و منطق کے سامنے سراپا تسلیم ہونے سے روکنے کے لئے توجیہیں کریں، جیسا کہ'' دین کی مختلف قرائتوں'' کی بحث میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور اپنی باتوں کے نتائج پر توجہ کئے بغیر اپنے نظریہ پر اڑے رہیں۔ ہم بھی اس حصہ میں فیصلہ مذکورہ نظریہ کی توجیہات اور اس کے انجام کے متعلق محترم قارئین کے ذمہ چھوڑتے ہیں، لیکن دلسوزی اور خیر خواہی کی بنا پرہم ان کو عقائد، افکار اور ایمان پر نظر ثانی اور ان کی اصلاح کی دعوت دیتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن بھی مومنین سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے کو تفکر، تعقل، اصلاح اور ہدایت کی دعوت دیں اور ایک دوسرے کو حق یاد دلاتے رہیں۔

۱۳۲

مختلف قرائتیں، قرآن سے مقابلہ کا ایک حربہ

کتاب کے پہلے حصوں میں کچھ باتیں مختصر طور سے بندوں پر سب سے بڑی الٰہی نعمت یعنی قرآن کریم کی عظمت اور خصوصیات کے متعلق بیان کی گئیں۔ یہ بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ خداوند متعال نے قرآن کریم کو سب سے عظیم فرشتے حضرت جبرئیل امین کے ذریعہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ عزیز بندے حضرت محمد مصطفی پر نازل فرمایا تاکہ اسے انسان کے اختیار میں قرار دے اور انسان فردی و اجتماعی زندگی میں اس آسمانی کتاب کی تعلیمات، ہدایات اور احکام سے آشنا ہو کر اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرے۔

نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی ـ کے بعض بیانات ذکر کئے گئے کہ قرآن سے تمسک، فتنوں اور گمراہیوں کو رفع کرنے کے لئے اور فردی و اجتماعی مشکلات اور بیماریوں کے علاج کے لئے لازم ہے۔ یہ بھی ذکر کیا گیا کہ قرآن کی تفسیر و توضیح کی صلاحیت دینی وظائف و مسائل کے جزئیات کی تفصیل اور احکام کی توضیح کے معنی میں، صرف پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کو حاصل ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ قرآن کی تفسیر کی صلاحیت، دینی احکام و وظائف کے دائرہ کے علاوہ نیز اس کے معارف کے بیان کی صلاحیت، صرف دینی علماء و ماہرین اور قرآن و اہلبیت کے علوم سے آشنا افراد کو حاصل ہے، ہم نے ذکر کیا کہ صرف وہ علماء جنھوں نے اپنی عمر معارف دین اور علوم اہلبیت کے سمجھنے میں گزاری ہے وہی قرآن کے متشابہات اور محکمات کو پہچان سکتے ہیں، اور محکمات اور روایات اہلبیت (ع) کی مدد سے قرآن کے متشابہات کی بھی تفسیر کرسکتے ہیں اور قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرسکتے ہیں تاکہ لوگ اسے اپنی فکری حرکت کی بنیاد اور عملی نیز فردی و اجتماعی تکامل کا نمونہ قرار دیں اور خدا کی اس دعوت:(یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم لِمَایُحیِیکُم) ۱ پر لبیک کہیں اور اپنی کامیابی کا میدان ہموار کریں۔

اس کے مقابل ہم نے اشارہ کیا کہ جو لوگ زمانۂ دراز سے شیطانی وسوسوں کے ذریعہ لوگوں کو قرآن سے جدا کرنا چاہتے ہیں، وہ لوگ اپنے شیطانی مقاصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ اپنی خیال آرائی سے اس طرح ظاہر کریں کہ قرآن قابل فہم نہیں ہے اور نتیجہ میں اس بات کی امید نہ رکھنی چاہئے کہ قرآن ہماری زندگی میں ہدایت و رہنمائی کرے گا۔

(۱)سورۂ انفال، آیت ۲۴۔ ترجمۂ آیت: اے ایمان لانے والو! چونکہ خدا اور رسول نے اس چیز کی طرف دعوت دی ہے جو تمھیں زندگی بخشتی ہے، ان کی دعوت پر لبیک کہو اور اسے قبول کرو۔

۱۳۳

ہم نے ذکر کیا کہ یہ شیطانی شبہہ جو پوری تاریخ میں مختلف شکلوں کے ساتھ پایا جاتا رہا ہے، آج اپنی تکامل یافتہ شکل میں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچا ہوا ہے اور نت نئی صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ آج بھی قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اپنے نظریات و افکار کو اس تھیوری کی شکل میں کہ ''دین کی زبان ایک مخصوص زبان ہے'' بیان کرتے ہیں تاکہ جو لوگ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے ان کو فریب دیں۔

جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اس قول سے کہ ''دین کی زبان، مخصوص زبان ہے'' ان کا مقصود کیا ہے؟ تو وہ لوگ جواب میں ''دین کی زبان کے، خاص ہونے'' کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دینی تعلیمات اور قرآن ایسے الفاظ اور قالب ہیں کہ جن کے مطالب کو خود انسانوں کی فکریں اور ذہنیتیں تشکیل دیتی ہیں۔ البتہ یہ افراد عام طور سے ادبی عبارتوں کے انتخاب، اور جذبات انگیز اشعار پڑھنے کے ساتھ اپنے نظریہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ حضرات آسانی سے ان کے مقصد کو بھانپ نہیں سکتے، کیونکہ اس صورت میں ان کی بات کے بے بنیاد ہونے کو سمجھ جائیں گے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ جو کہ کبھی ''صراط ہائے مستقیم'' (بہت سے سیدھے راستے) کے نام سے اور کبھی ''دین کی مختلف قرائتوں، فکروں یا تفسیروں'' کی تعبیر کے ساتھ اور کبھی ''دین کی زبان'' یا ''اقلیتی اور اکثریتی دین'' کی تھیوریوں کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے، دینی اعتقادات اور توحیدی مکتب فکر سے مقابلہ کے علاوہ کوئی مقصد نہیں رکھتا۔

واقف کار لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہے کہ دیندار افراد خصوصاً ذہین و زیرک مسلمان صاحبان علم و دانش اس سے زیادہ ہوشیار ہیں کہ ان کی باتوں کے عقل و منطق سے دور ہونے کو بھانپ نہ لیں یا ان بے بنیاد شبہوں کے پیش کرنے والوں کے مخفی مقاصد سے غافل رہیں۔

۱۳۴

دینی ثقافت کے مخالفین کا مقصد قرآن کی روشنی میں

مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مقابلہ میں ان شیطنتوں سے مخالفین کا مقصد کیا ہے؟ اس کے جواب کے لئے پہلے ہم قرآن کے نظریہ کی تحقیق پیش کرتے ہیںپھر اس کے متعلق نہج البلاغہ میں حضرت علی ـ کے بیان کی توضیح پیش کریں گے۔

قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے آغاز ہی سے شیطان اس بات پر تل گیا اور اس نے اپنی تمام کوششیں صرف کردیں کہ دنیا پرست انسانوں اور انسان نما شیطانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے اور لوگوں کو قرآن سے جدا کردے۔

شیطان سے اس کے علاوہ کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس نے قسم کھائی تھی کہ:

(قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغوِیَنَّهُم أَجمَعِینَ اِلاَّ عِبَادَکَ مِنهُمُ المُخْلَصِینَ) ۱ ''تو پھر تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا، علاوہ تیرے ان بندوں کے جنھیں تونے خالص بنا لیا ہے''۔ شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان کو معارف قرآن سے محروم کرنے کے لئے اپنے بنائے ہوئے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر، قرآن کریم کی

(۱) سورۂ ص، آیت ۸۲ ، ۸۳ ۔

۱۳۵

آیات متشابہ کو اپنا حربہ قرار دیا ہے۔ اپنے دوستوں اور دنیا پرستوں کو محکمات کی طرف متوجہ کئے بغیر، متشابہات قرآن کی پیروی کی تشویق و ترغیب کرتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی شک و تردد اور گمراہی کی طرف کھینچ لائے۔

خداوند متعال محکمات و متشابہات سے آیات قرآن کی تقسیم کے بعد فرماتا ہے:(فَأَََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الفِتْنَةِ وَ ابْتِغَائَ تَاوِیلِهِ) ۱ جن لوگوں کا وجود سر سے پاؤں تک انحراف، گمراہی، پلیدی اور خود پرستی ہے، جن کے دل بیمار ہیں اور شیطانی وسوسوں سے متاثر ہیں وہ قرآن کے محکمات اور دین کے بدیہی اور واضح و روشن عقائد کو چھوڑ دیتے ہیں اور آیات متشابہ کے ظاہر سے سہارا لیکر کوشش کرتے ہیں کہ معارف قرآن میں تحریف اور غلط تفسیر کر کے لوگوں کو گمراہ کریں۔ ایسے انسان شیطان کے پالے ہوئے چیلے ہیںکہ اس کا مقصد پورا کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔

قرآن ایسے لوگوں کو مختلف عنوانوں جیسے''فِی قُلُوبِهِم زَیغ'' یا''فِی قُلُوبِهِم مَرَض'' سے یاد کرتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی کرنے سے ڈراتا ہے۔

جس بات کی تحقیق یہاں پر کی جارہی ہے، وہ قرآن کی روشنی میں دینی ثقافت اور مکتب فکر کی مخالفت کرنے والوں کے مقصد کو واضح کرنا ہے ۔

قرآن کریم فرماتا ہے کہ بہت سے لوگ''اِبتِغَائَ الفِتنَةِ'' (فتنہ جوئی) کے مقصد کے تحت، قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور متشابہات کو

(۱) سورۂ آل عمران ، آیت ۷ ۔

۱۳۶

ہتھکنڈا بنا کر ظاہر قرآن کو چھوڑ کر آیات کی من مانی تاویل اور غلط تفسیر کر کے فتنے پھیلاتے ہیں۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتنہ کیا ہے؟ اور فتنہ پرور کون ہے؟ علم لغت کے ماہرین خصوصاً جو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ لغت کو اپنے اصلی اور حقیقی معنی پر واپس لے جائیں اور لغت کے اصلی معنی کے پیش نظر الفاظ کے معنی کریں، انھوں نے کہا ہے کہ: ''فتنہ'' در اصل کسی چیز کو آگ کے اوپر گرم کرنے کے معنی میں ہے۔

جس وقت کسی شی کو گرم کرنے یا جلانے یا پگھلانے کے لئے آگ کے اوپر رکھتے ہیں تو عرب اس معنی کو ''فَتَنَہُ'' سے تعبیر کرتے ہیں یعنی اس نے اس چیز کو گرم کیا۔

قرآن میں بھی مادۂ ''فتنہ'' اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے:''یَومَ هُم عَلٰی النَّارِ یُفتَنُونَ'' ۱ یعنی جس دن انھیں جہنم کی آگ پر تپایا جائے گا۔

اس بنا پر ''فتنہ'' کے اصل لغوی معنی جلانے اور پگھلانے کے ہیں، لیکن جیسا کہ اہل لغت کہتے ہیں کبھی کبھی ایک لغوی معنی کے لوازم کے پیش نظر، وہ معنی اس کے لوازم یا ملزومات میں بھی سرایت کر جاتا ہے اور لازمۂ معنی کے غلبہ نیز لازمۂ معنی میں اس لغت کے استعمال کے سبب دھیرے دھیرے وہ لازم لغت کے لئے دوسرے اور تیسرے معنی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

(۱) سورۂ ذاریات، آیت ۱۳ ۔

۱۳۷

لفظ ''فتنہ'' کی بھی یہی صورت ہے، جیسا کہ کہا گیا ''فتنہ'' در اصل گرم ہونے کے معنی میں ہے، لیکن ''گرم ہونے'' کا بھی ایک لازمہ ہے وہ یہ کہ اگر یہ گرم ہونا اور آگ میں قرار پانا انسان کے متعلق واقع ہو (جیسے آیۂ''یَومَ هُم عَلی النَّارِ یُفتَنُونَ'' ۱ ) تو انسان اضطراب کی حالت پیدا کرتا ہے۔ اضطراب بھی کبھی ظاہری اور بدنی ہوتا ہے جیسے یہ کہ جسم کے جلنے اور گرم ہونے سے متعلق ہو اور کبھی باطنی اور روحی امور سے پیدا ہوتا ہے۔ لہذا اضطراب حقیقت میں ''فتنہ'' اور گرم ہونے کے معنی میں ہے، پھر لفظ کے معنی میں توسیع کے پیش نظر ان چیزوں پر بھی ''فتنہ'' کا اطلاق کیا جاتا ہے جو معنوی اور باطنی اضطراب کا باعث ہوتی ہیں۔ چونکہ روحی اور باطنی اضطراب کی ایک قسم، وہ اضطراب و تشویش ہے جو کہ اعتقادات کے سلسلہ میں پیش آتی ہے، لہذا وہ چیز جو ایسے اضطرابوں کا باعث ہوتی ہے اسے بھی ''فتنہ'' کہا گیا ہے۔

جس وقت ''دین میں فتنہ'' کہا جاتا ہے، وہ اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہمی اور باطل خیالات اور وسوسوں سے دیندار افراد کو ان کے ایمان و اعتقادات میں اضطراب و تزلزل سے دوچار کردیں اور انھیں دین حق اور دینی اعتقادات سے پھیر دیں۔

امتحان کو بھی ''فتنہ'' کہا گیا ہے، اس لئے کہ وہ بھی اضطراب اور تشویش کا باعث ہوتا ہے۔ چونکہ انسان امتحان کے وقت نتیجہ کے لئے مضطرب اور پریشان ہوتا ہے، وہ

(۱) سورۂ ذاریات، آیت ۱۳ ۔

۱۳۸

روحی آرام اور قلبی سکون نہیں رکھتا۔ لفظ ''فتنہ'' قرآن میں بھی کئی آیتوں میں امتحان سے پیدا شدہ اسی اضطراب کے معنی میں آیا ہے۔

قرآن فرماتا ہے:(إنّمَا أَموَالُکُم وَ أَولادُکُم فِتنَة) ۱ تمھارے اموال اور اولاد تمھارے امتحان اور آزمائش کا وسیلہ ہیں۔ یا فرماتا ہے:(وَ نَبلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الخَیرِ فِتنَةً) ۲ ہم تمھیں خیر و شر اور نعمت و نقمت سے آزماتے ہیں۔ نیز کبھی خود عذاب اور تکلیف پر ''فتنہ'' کا اطلاق ہوا ہے۔

واضح ہے کہ زیر بحث آیۂ کریمہ(هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ آیَات مُحکَمَات هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِهَات فَأََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الْفِتنَةِ ...) میں فتنہ سے مراد ''دین میں فتنہ'' پیدا کرنا ہے، اس لئے کہ متشابہات کی پیروی، امتحان و آزمائش سے کوئی تناسب نہیں رکھتی اور جو لوگ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں وہ دوسروں کو شکنجہ اور عذاب دینے کی کوشش نہیں کرتے نیز گرم کرنے اور جلانے کے معنی میں بھی نہیں ہے، بلکہ ان کی فتنہ پروری اس سبب سے ہے کہ وہ اس بات کے درپے ہوتے ہیں کہ آیات متشابہ کو ہتھکنڈا بنا کر لوگوں کے دینی عقائد و افکار میں اضطراب و تزلزل پیدا کریں اور انھیں گمراہ کریں۔

(۱)سورۂ انفال، آیت ۲۸ ۔

(۲)سورۂ انبیائ، آیت ۳۵ ۔

۱۳۹

''دین میں فتنہ'' کے مقابلہ میں قرآن کا موقف

''دین میں فتنہ'' اس معنی میں کہ جس کی توضیح دی گئی، پوشیدہ مقابلہ اور فریب و حیلہ کی قسم سے سمجھا جاتا ہے۔ یہ کام ظاہری ایمان کے لباس میں اصل دین کو ختم کرنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔ ایسے فتنہ گر افراد نفاق کا چہرہ اختیار کر کے اپنی شیطانی فکروں کواس طرح پوشیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے مخالف دین مقاصد کی تشخیص عام لوگوں کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے اسے سب سے بڑا گناہ شمار کیا ہے اور لوگوں کو دنیا و آخرت کے اس سب سے بڑے خطرے کی طرف توجہ دلاکر ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوںاور اپنے مادی و معنوی وجود کا دفاع کریں۔

دشمن، اسلام او رمسلمین سے مقابلہ کے لئے عام طور سے دو اہم حربے استعمال کرتا ہے۔ یہاں پر ہم قرآن اوردینی ثقافت کے دشمنوں کے حربوں اور ہتھکنڈوں کی توضیح کے ضمن میں، دشمنوں کی سازشوں کے مقابلہ میں قرآن کے موقف سے واقف ہوں گے۔

۱۴۰

1۔ فوجی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کا ایک عام ہتھکنڈا علنی اور ظاہری جنگ و مبارزہ ہے یعنی وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان ممالک او ران کے افراد پر فوجی حملہ اور ان کو قتل و غارت کر کے اپنے مقاصد تک پہنچیں۔

اس صورت میں اگر چہ ممکن ہے کہ وہ کچھ مسلمانوں کو شہید کردیں اور اسلامی ملک کے لئے نقصانات کا سبب بنیں، لیکن وہ اس طرح اپنے مقاصد تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے اور نہ صرف مسلمان راہ دین میں قتل ہونے سے نقصان نہیں اٹھاتے بلکہ اپنے دین و اعتقاد میں اور زیادہ محکم و راسخ ہو جاتے ہیں۔ دینی مکتب فکر میں اس دنیا کی زندگی کا مقصد، برحق دینی اعتقادات او رعبادت و بندگی کے سائے میں انسان کا تکامل اور قرب الٰہی کی منزل تک پہنچنا ہے کہ جس کی معراج کا جلوہ، راہ خدا میں شہادت کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔

دشمنوں کی اس اسٹراٹجی ( strategy ) اور لشکر کشی کے مقابلہ میں قرآن کا موقف بھی یہ ہے کہ:(وَ قَاتِلُوهُم حَتَّیٰ لاتَکُونَ فِتنَة وَ یَکُونَ الدِّینُ کُلُّهُ لِلّٰهِ) 1 تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔

اس جنگ میں مسلمانوں کا نعرہ بھی یہ ہے کہ:(هَل تَرَبَّصُونَ بِنَا ِلاَّ ِحْدَیٰ الحُسنَیَینِ وَ نَحنُ نَتَرَبَّصُ بِکُم أَن یُّصِیبَکُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِن عِندِهِ أَو بِأَیدِینَا فَتَرَبَّصُوا إنّا مَعَکُم مُتَرِبِّصُونَ) 2 (اے رسول !) آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم ہمارے لئے دو نیکیوں (کامیابی اور شہادت) میں سے ایک کے علاوہ انتظار کر رہے ہو اور ہم تمھارے بارے میں اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ خدا اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سے تمھیں عذاب میں مبتلا کردے لہذا اب عذاب کا انتظار کرو ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔

(1) سورۂ انفال، آیت 39 ۔

(2)سورۂ توبہ، آیت 52 ۔

۱۴۱

2۔ ثقافتی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے دشمنوں کا دوسرا اہم ہتھکنڈا، ثقافتی اور فکری کام ہیں کہ ان میں سے اہم یہ ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے انھیں شبہات میں مبتلا کرنا ہے۔

واضح ہے کہ جو ہتھکنڈے اور آلات و وسائل اس قسم کے حملہ میں استعمال کئے جاتے ہیں، وہ نیز اس کے طریقے اور نتائج فوجی حملہ سے بالکل مختلف ہیں۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن ترقی یافتہ اسلحوں کے ساتھ مسلمانوں کے جسم کوپاش پاش کرنے اور قتل و غارت کے لئے میدان میں آتا ہے تو دوسری قسم میں قلم اور بیان کے اسلحوں کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ ان کے افکار و عقائد کو گمراہ اور فاسد کردے۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن پوری سنگدلی کے ساتھ مسلمان سپاہیوں سے روبرو ہوتا ہے تو ثقافتی حملہ میں خوشروئی، دلسوزی اور خیر خواہی کی صورت میں وارد ہوتا ہے۔ اگر فوجی حملہ میں مسلمان واضح طور پر دشمن کو پہچانتے ہیں تو ثقافتی حملہ میں دشمن شناسی کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اگر فوجی حملہ میں دشمن زمین کے اندر بارودی سرنگیں بچھا کر او رنت نئے ترقی یافتہ جنگی اسلحوں کو استعمال کر کے کوشش کرتا ہے کہ خاکی جسموں کو نابود کردے تو ثقافتی حملہ میں اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ شیطانی جال بچھا کر اور بے بنیاد شبہے پیش کرکے روحوں اور فکروں کو چھین لے اور انسانوں کو اندر سے کھوکھلا کر کے انھیں اپنے منافع کی طرف کھینچ لائے۔

۱۴۲

اگر فوجی حملہ میں دشمن طاقت رکھتا ہے کہ صرف چند مسلمان مجاہدین کو پست مادی دنیا سے خارج کردے تو ثقافتی حملہ میں شیاطین گھات میں بیٹھے ہیں تاکہ مسلمان قوم کے عظیم سرمائے ان معصوم جوانوں کو، جو کہ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے، گمراہی اور بے دینی کے گڑھے میں ڈھکیل دیں۔ اگرچہ دشمن اس دین ستیز ہتھکنڈے سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکیں گے اور مسلمان قوم خصوصاً مسلمان تعلیم یافتہ جوانوں کا طبقہ، کہ جس نے فوجی حملوں میں بھی کامیابی اور سرفرازی حاصل کی ہے، اس بات سے زیادہ ہوشیار ہے کہ دشمن کے فوجی میدان کو ثقافتی حملہ کے میدان میں بدلنے سے غافل رہے، لیکن قرآن کریم نے ثقافتی حملہ کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کے عظیم خطرے اور اس سے پیدا ہونے والے آثار و نتائج کے ناقابل تلافی ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس بارے میں مسلمانوں کو تنبیہ کر کے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام قوتوں کے ساتھ دین اور خدا کے دشمنوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں۔

ثقافتی حملہ کے متعلق قرآن کی تنبیہ

چونکہ فوجی حملہ کے برخلاف ثقافتی حملہ کے برے نتائج و خطرات لوگوں کے دینی افکار و اعتقادات کو متأثر کرتے ہیں اور غفلت کی صورت میں مسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نیز انسانیت خطرے میں پڑجاتی ہے، لہذا قرآن بھی حد سے زیادہ حساسیت کے ساتھ اسے قابل توجہ قرار دیکر اس سے ہوشیار کرتا ہے۔

مسلمان اہل فہم و بصیرت پر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ظاہری جنگ اور فوجی فتنہ کے محاذ پر شکست کے آثار و نتائج، بہ نسبت ثقافتی حملہ سے غفلت کے آثار و نتائج کے بہت کم ہیں، اس لئے کہ فوجی حملہ میں مسلمانوں کی چند دنوں کی زندگی معرض خطر میں پڑتی ہے لیکن ثقافتی فتنہ اور حملہ میں دین و عقائد او رمسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نہایت خطرے سے دو چار ہوجاتی ہے۔

۱۴۳

اسی وجہ سے قرآن نے بھی ''دین میں فتنہ اور ثقافتی حملہ'' کو فوجی چڑھائی سے زیادہ بڑا سمجھ کر مسلمانوں کو اس سے غفلت کرنے سے ڈرایا ہے اور فوجی جنگ اور فتنہ کی اہمیت اور اس کے خطرے کو ثقافتی حملہ کے مقابلہ میں کم سمجھا ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ اقْتُلُوهُم حَیثُ ثَقِفتُمُوهُم وَ أَخرِجُوهُم مِن حَیثُ أَخرَجُوکُم وَ الفِتنَةُ أَشَدُّ مِنَ القَتلِ) 1 اور ان مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جس طرح انھوں نے تم کو آوارہ وطن کردیا ہے تم بھی انھیں نکال باہر کردو اور فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ہے۔

البتہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مخالفین، صدر اسلام اور آیات قرآن کے نزول کے زمانہ میں زیادہ تر جنگ کے میدانوں میں ظاہری مقابلوں اور فوجی حملوں کے ساتھ اس بات کے درپے تھے کہ اسلام اور مسلمین کو نابود کردیں، لیکن ان سب کے باوجود قرآن کی حساسیت اور تشویش دینی اور ثقافتی فتنہ کے خطرے کے متعلق فوجی حملے کے خطرے سے زیادہ ہے۔

قرآن فرماتا ہے:(وَالفِتنَةُ أکبَرُ مِنَ القَتلِ) 2 فتنہ (فکر شرک) اور اس کا

گناہ فوجی حملہ اور قتل و غارت سے زیادہ خطرناک ہے کہ ثقافتی فتنہ کے زیادہ خطرناک ہونے کی دلیل اس سے پہلے واضح طور سے بیان کی گئی۔

(1)سورۂ بقرہ، آیت 191 ۔

(2)سورۂ بقرہ، آیت 217 ۔

۱۴۴

شرک نئے بھیس میں

عقیدۂ شرک نے عقیدۂ توحید کے مقابلہ میں ہمیشہ پوری تاریخ میں بعض بشر کے افکار کو اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ جن لوگوں نے خدا کی بندگی قبول کرنے اور خالق کائنات کے سامنے تسلیم سے روگردانی کی ہے اور جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے دین حق قبول کرنے سے ناخوش ہوکر مختلف طریقوں سے اس سے روکتے رہے ہیں۔

واضح بات ہے کہ عقیدۂ شرک کے طرفدار ہر زمانے میں اس زمانے کے افکار کے مطابق کوئی طریقہ اختیار کر تے ہیں اور مناسب ہتھکنڈے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ لہذا صدر اسلام میں اس لحاظ سے کہ عقیدۂ شرک بت پرستی کی شکل میں ظاہر تھا، شرک کے سرغنے اور جو لوگ بندگی ِخدا اوردین حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے وہ پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کی تبلیغ کرتے تھے اور انسانوں کو وحدانیت قبول کرنے سے روکتے تھے۔ ان کارستانیوں کی اصل وجہ بھی یہ تھی کہ دین اور توحیدی ثقافت و مکتب فکر کی حاکمیت کی صورت میں ان کے نفسانی خواہشات پورا کرنے کی گنجائش باقی نہ رہ جاتی۔

آج بھی عقیدۂ شرک کی تبلیغ ماڈرن طریقے سے اور علمی نظریہ کی صورت میں مختلف مجامع میں کی جا رہی ہے۔ اگر صدر اسلام میں صرف بتوں اور معبودوں کی پوجا کی جاتی تھی اور دنیا پرست انسان لوگوں کے افکار کو بے حس کرنے کے لئے ان کی تبلیغ کرتے تھے، تو آج عقیدۂ شرک کے طرفدار اس کوشش میں ہیں کہ انسانوں کی تعداد کے برابر خیالی بت تراش کر انسانوں کی فکر و عقل کو خداوند متعال سے پھیر کر شیطانی اوہام، خیالات او روسوسوں کی طرف موڑ دیں۔

۱۴۵

ہم دیکھتے ہیں کہ ''سیدھے راستوں اور دین کی مختلف قرائتوں'' کے نظریہ کا بھی یہی حال ہے، جیسا کہ اس کے عنوان ہی سے معلوم ہوتا ہے، اس نظریہ سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص جوبات بھی خدا اور دین کے متعلق دینی کتابوں سے سمجھے اسی کو اسے چاہئے کہ اپنے اعتقاد و عمل کی بنیاد قرار دے، کیونکہ وہی حق اور عین واقعیت ہے۔

اس بنا پر انسانوں کی تعداد اور خدا و دین کے متعلق ان کی مختلف فکروں کے اعتبار سے بہت سے فردی اور خصوصی خدا اور ادیان بن جاتے ہیں۔

واضح ہے کہ یہ بات روح توحید سے جو کہ ''لا الہ الا اللہ'' کے نعرہ میں جلوہ گر ہے، تضاد رکھتی ہے اور بالکل اس کے مقابلہ میں قرار پاتی ہے۔

بہرحال چونکہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ حساس موضوع یعنی توحید و شرک کا مسئلہ، کہ اس کی دنیا و آخرت کی سعادت اسی سے تعلق رکھتی ہے، درمیان میں ہے، ضروری ہے کہ انسان اپنے عقائد و افکار پر نظر ثانی اور غور و فکر کرے، اپنے عقائد و افکار کو قرآن اور اہلبیت کے علوم کی کسوٹی پر پرکھے اور ہوا و ہوس سے دور رہ کر منطق و عقل سلیم کے ساتھ اپنے عقائد و افکار کی اصلاح کرے او رخود کو گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے نجات دے۔

البتہ خود شکنی اور ہوائے نفس پر غلبہ حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت نبی اکرم نے اسے جہاد اکبر سمجھا ہے، خصوصاً اگر انسان ایسی حالت میں ہو کہ شیاطین اور دشمنان توحید و اسلام اس کی تشویق کریں اور اپنے سیاسی اور سامراجی مقاصد تک پہنچنے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے اسے ایک عالمی شخصیت بنانے کا لالچ دیں۔

اگر چہ ایسی حالت میں انسان کا سنبھل جانا او رجہاد اکبر کے میدان میں قدم رکھنا نیز شیاطین اور د شمنان اسلام کے وعدوں اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا ایک انوکھا اور معجزنما کام ہے لیکن ناممکن نہیںہے۔ تاریخ میں ایسے افراد کم نہیں ہیں جو کہ ایک لحظہ میں سنبھل گئے اور اپنے کو نفسانی خواہشات اور جنی اور انسی شیطانوں کے جال سے چھڑا کر ہلاکت سے نجات حاصل کرلی اور توحید کی آغوش میں واپس آگئے۔

۱۴۶

''دین میں فتنہ'' واقع ہونے کے متعلق قرآن کی پیشین گوئی

قرآن کریم نے مسلمانوں کو سعادت و تکامل تک پہنچنے کے راستوں کی نشاندہی کی ہے اور ایک ایسے روشن چراغ کے مانند جو کبھی خاموش نہیں ہوسکتا، ہدایت کا صراط مستقیم حقیقت کے طلبگار انسانوں کو دکھایا ہے۔

حضرت محمد مصطفی نے بھی شرک و کفر کے گردو غبار کو انسانیت کے چہرے سے صاف کیا اور امید و کامیابی کا بیج حقیقت کے پیاسے انسانوں کے دل و جان میں بوکر اسے بارور اور پرثمر بنایا نیز حکومت کو توحید کی بنیاد پر قائم کیا۔

اس درمیان ایسے انسان کم نہ تھے جو کہ مصلحت اندیشی کے لحاظ سے مسلمان ہوتے تھے اور ان کا ایمان زبان کے مرحلہ سے آگے نہیں بڑھتا تھا نیز توحید ان کے دلوں میں جگہ نہ پاتی تھی۔

ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لوگ جو کہ اپنے نفسانی خواہشات کو خدا کی رضا اور پیغمبر کے احکام پر مقدم رکھیں، جو کہ باطن میں اسلام اور پیغمبر کے دشمن تھے، وہ پیغمبر کے زمانۂ حیات میں مصلحت نہیں دیکھتے تھے کہ آشکار اور علانیہ مخالفت کے لئے اٹھیں، نیز حکومت الٰہی کو گرانے، امام معصوم کی مخالفت اور لوگوں کو ائمۂ معصومین (ع) کی رہبری سے محروم کرنے کا نقشہ برملا کریں۔ لہذا یہ شیطان اور دنیا پرست انسان اس بات کے منتظر تھے کہ پیغمبر دنیا سے گزر جائیں تو پھر اپنے منحوس منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں۔

قرآن کریم اس سازش کو پیش نظر رکھ کر ہوشیار کرتا ہے:(أحَسِبَ النَّاسُ أَن یُّترَکُوا أَن یَّقُولُوا آمَنَّا وَ هُم لایُفتَنُونَ) 1 کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور وہ فتنہ میں مبتلا نہیں ہوں گے؟ ایک دن امیر ا لمومنین حضرت علی ـ قرآن کریم کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھے اور لوگوں کواس الٰہی حبل المتین کے محور پر جمع رہنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے رہے تھے اور اہل سعادت و شقاوت کو جنت و جہنم کی خبر دے رہے تھے کہ ایک شخص نے اٹھ کر فتنہ کے متعلق سوال کیا اور حضرت سے خواہش کی کہ اس بارے میں حضرت پیغمبر کا ارشاد بیان فرمائیے۔

(1) سورۂ عنکبوت، آیت 2 ۔

۱۴۷

حضرت نے جواب میں فرمایا: جب خداوند متعال نے اس آیۂ کریمہ(أَحَسِبَ النَّاسُ...) کو نازل فرمایا اور لوگوں کودین میں فتنہ واقع ہونے اور نہایت بڑے امتحان سے خبردار کیا، تو میں نے سمجھا کہ یہ فتنہ پیغمبر کی وفات کے بعد ہوگا۔

میں نے پیغمبر سے سوال کیا کہ یہ فتنہ جو کہ دین میں واقع ہوگا اور خداوند متعال نے جس کی خبر دی ہے کون سا فتنہ ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

تو پیغمبر نے فرمایا کہ: میری امت میرے بعد فتنہ سے دوچار ہوگی۔

یہاں پر اس بات سے قبل کہ پیغمبر اپنی وفات کے بعد کے فتنوں کی قسموں کو بیان کریں، حضرت علی ـ اس خوف سے کہ کہیں راہ خدا میں شہادت کی کامیابی سے محروم ہو جائیں حضرت پیغمبر اسلام کو جنگ احد کی یاد دلاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: یقینا آپ کو یاد ہے کہ جنگ احد میں عالم اسلام کی کیسی بڑی بڑی شخصیتوں (مثلاً حضرت حمزہ سید الشہداء وغیرہ) نے سبقت حاصل کر لی تھی اور شہادت کی عظیم کامیابی پر فائز ہوئے اور میرے اور راہ خدا میں شہادت (اولیائے الٰہی کے اس معشوق) کے درمیان جدائی ہوگئی اور یہ جدائی مجھے بہت گراں لگی۔

آپ کو یاد ہے کہ آپ نے مجھے میری تمنا حاصل ہونے کی بشارت دی اور فرمایا: راہ خدا میں شہادت تمھیں ملنے والی ہے اور میں اسی طرح شہادت کے انتظار میں ہوں۔

یا رسول اللہ! آیا وہ فتنہ جو کہ آپ کے بعد واقع ہوگا میری شہادت تک پہنچے گا؟

پیغمبر نے جواب میں فرمایا کہ ہاں تم اپنی تمنا کو پہنچو گے۔

۱۴۸

پھر پیغمبر امیر المومنین سے پوچھتے ہیں کہ جس وقت تم ایسے فتنے سے دوچار ہوگے تو تم کہاں تک صبر کرو گے؟

حضرت نے فرمایا: یا رسول اللہ! یہاں صبر کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان امور میں سے ہے کہ اس پر شکر کرتا ہوں اور اسے اپنے لئے بشارت و خوشخبری سمجھتا ہوں۔

اس وقت حضرت پیغمبر اکرم ان فتنوں کے گوشوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے اور لوگوں کو ان سے ہوشیار کرتے ہیں۔

پیغمبر کے بعد فتنوں کی پیشین گوئی

حضرت پیغمبر اسلام حضرت علی ـ کو حضرت کی تمناپوری ہونے اور شہادت کی بشارت سے متعلق اطمینان دلانے کے بعد حضرت سے خطاب فرماتے ہیں اور ان فتنوں کی قسموں کو بیان فرماتے ہیں جو کہ دنیا پرست افراد کے ہاتھوں دین میں واقع ہوں گے۔

آنحضرت اپنے ارشاد میں فتنہ کی تین اہم قسموں کو بیان فرماتے ہیں:

''یَاعَلِیُّ! إنّ الْقَومَ سَیُفتَنُونَ بِاَموَالِهِم وَ یَمُنُّونَ بِدِینِهِم عَلٰی رَبِّهِم وَ یَتَمَنَّونَ رَحمَتَهُ وَ یَأمَنُونَ سَطوَتَهُ یَستَحِلُّونَ حَرَامَهُ بِالشُّبهَاتِ الْکَاذِبَةِ وَ الأَهوَائِ السَّاهِیَةِ، فَیَستَحِلُّونَ الْخَمرَ بِالنَّبِیذِ وَ السُّحتَ بِالهَدِیَّةِ وَ الرِّبَا بِالبَیعِ''1

اے علی! عنقریب لوگوں کو ان کے اموال کے ذریعہ آزمایا جائے گا اور وہ اپنے

دین کے ذریعہ اپنے رب پر احسان رکھیں گے اور اس کی رحمت کی تمنا کریں گے اور خود کو اس کے غلبہ سے محفوظ سمجھیں گے جھوٹے شبہات اور بیہودہ خواہشوں کے سبب حرام کو حلال قرار دیں گے اور شراب کو آبِ جو، رشوت کو تحفہ اور سود کو تجارت قرار دیکر حلال سمجھ لیں گے۔

(1) بحار الانوار، ج32، ص 241 ۔

۱۴۹

1۔ مالی فتنہ

سب سے پہلا مسئلہ کہ حضرت پیغمبر اکرم جس کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، اموال میں فتنہ ہے۔ جو لوگ اسلامی فقہ سے آگاہ ہیں ان پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام کے عملی احکام کا ایک عظیم حصہ اموال، کسب و اکتساب، تجارت اور اقتصادی امور سے متعلق ہے۔

اسلام میں لوگوں کے حقوق کی طرف سب سے زیادہ اور اچھی طرح شارع مقدس نے توجہ دی ہے۔

خرید و فروش اور کسب و تجارت کے وہ اصول و ضوابط اور قواعد و احکام کہ شرع مقدس نے مسلمانوں کے لئے جن کی پابندی کو لازم قرار دیا ہے وہ ایسے اصول و قواعد ہیں جو کہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کے حقیقی مصالح کی بنیاد پر تشریع اور نافذ کئے گئے ہیں تاکہ لوگ ان پر عمل کر کے سالم زندگی اور دنیوی و اخروی سعادت سے بہرہ مند ہوں۔ چونکہ معاشرہ میں سب سے زیادہ اقتصادی روابط بیع و شراء اور خرید و فروخت کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں، اجتماعی زندگی کا وجود و قوام اور انسانوں کے درمیان تعلق و تعاون ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے میں لین دین اور معاملات پر ا ستوار ہے او ردوسری طرف انسان کے اندر حرص اور لالچ کے جذبہ کی وجہ سے سودی معاملات جو کہ اسلام کی نظر میں سب سے زیادہ منفور اور بدترین قسم کے معاملات ہیں جو کہ لوگوں کے درمیان رائج رہے ہیں، لہذا قرآن نے سودی معاملات اور سودی لین دین سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔

۱۵۰

قرآن کا لہجہ اس کام سے منع کرنے کے متعلق نہایت سخت ہے یہاں تک کہ اسے خداوند متعال سے جنگ کے مانند سمجھتا ہے:(فَاِن لَّم تَفعَلُوا فَأذَنُوا بِحَربٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ) 1 اگر تم نے سودی معاملات سے ہاتھ نہیں کھینچا تو سمجھ لو کہ خدا اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کیا ہے۔

حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں کہ: میرے بعد لوگ اپنے اقتصادی روابط اور اموال میں فتنہ سے دوچار ہوں گے اور ربا (سود) کی حرمت کے متعلق قرآن کے صریحی حکم کو نظر انداز کردیں گے اور خرید و فروخت کے بہانے سے، بیہودہ حیلوں کے ذریعہ سود کھائیں گے۔

2۔ اعتقادی فتنہ

جس بات کی ہر ایک عقلمند انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ تصدیق کرتا ہے اور تصدیق کے بعد اسے اس کے لوازم کا پابند ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم تمام انسان خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔ خداوند متعال ہی نے عالم کو خلق کیا ہے او رہم کو وجود کی

(1) سورۂ بقرہ، آیت 279 ۔

۱۵۱

نعمت سے بہرہ مند کیا ہے اور اس لئے کہ ہم انسان تکامل و سعادت تک پہنچیں اپنے بہترین بندوں کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیج کر اپنی نعمت کو ہم پر تمام کردیا ہے۔

دین و ہدایت کا شکر و سپاس، جو کہ نعمت وجود کے بعد سب سے بڑی الٰہی نعمت ہے، خدا کی بندگی اور عبودیت قبول کرنے کے علاوہ تحقق نہیں پیدا کرسکتا کہ یہ بھی انسان کے حق میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ سمجھا جاتا ہے۔

دوسری طرف خداوند متعال ہی انسانوں پر احسان کرتا ہے کہ اس نے اپنی نعمت ان کے حق میں تمام کی ہے اور ان کے پاس ہدایت ودین حق کو بھیجا ہے۔ سچ ہے کہ کتنے کم ہیں ایسے لوگ جو کہ اپنی ناقدری اور بے وقعتی کو پہچانتے ہیں اور خدا کی عظمت اور ان نعمتوں کی بزرگی کو سمجھتے ہیں جو انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں او ر اپنے حق میں خدا کے لطف و کرم کو درک کرتے ہیں۔

سچ ہے کہ کتنی بری اور ناپسند بات ہے اور کتنی بڑی ناشکری ہے کہ نادان انسان خدا پر احسان جتائے کہ اس نے اس کی ہدایت و رہنمائی کو قبول کیا ہے، وہ اس بات سے غافل ہے کہ خدا نے خود ہم پر احسان کیا ہے اس لئے کہ اس نے ہم کو دین حق کی ہدایت کی ہے۔

قرآن کریم حضرت پیغمبر اکرم کو خطاب کر کے فرماتا ہے:(یَمُنُّونَ عَلَیکَ أَن أَسلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِسلامَکُم بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلیَکُم أن هَدَاکُم لِلاِیمَانِ) 1 یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو

(1) سورۂ حجرات، آیت 17 ۔

۱۵۲

آپ کہہ دیجئے کہ ہمارے اوپر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو یہ خدا کا احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دیدی ہے۔

یہ تم پر واجب و لازم ہے کہ بندگی ، اطاعت اور عبادت کے ساتھ اس حق کو شائستہ طور سے ادا کرو، نہ یہ کہ ایمان لانے کے بہانے سے اپنے کو صاحب حق سمجھو او رخداوند متعال سے تقاضا کرو۔

اس بنا پر دینی مکتب فکر میں اصل، خدا کے سامنے تسلیم، بندگی اور عبودیت ہے، نہ کہ خدا کے سامنے انانیت اورتکبر ۔

حضرت پیغمبر اکرم خدا کے سامنے تسلیم و بندگی کے جذبہ کے بجائے انانیت، تکبر اور استکباری جذبہ رکھنے کو دین میں فتنہ کا ایک مظہر بتاتے ہیں۔

آنحضرت فرماتے ہیں: میرے بعد دین میں فتنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر یہ ہوگا کہ لوگ بجائے اس کے کہ دین و ہدایت کی نعمت پر خدا کے شکر گزار ہوں اور دین حق کی خاطر اس کے ممنون ہوں، خود خدا پر احسان جتائیں گے کہ دین کو قبول کیا ہے، اپنے کو صاحب حق اور خدا کا قرضخواہ سمجھیں گے اور خدا سے (قرض کا تقاضا کرنے کے مانند) جزا اور رحمت کی امید رکھیں گے اسی طرح ایمان لانے کے عوض (متکبرانہ طریقے سے) اپنے کو کسی بھی طرح کی سزا کا مستحق نہ سمجھیں گے، اگرچہ خداوند متعال کوئی بھی جزا و سزا، بغیر دلیل کے کسی بندے کو نہیں دیتا، لیکن پیغمبر اکرم ایسا جذبہ رکھنے کو ''دین میں فتنہ'' سمجھتے ہیں، اس لئے کہ ایسا جذبہ رکھنے والے جس وقت دینی احکام کی پابندی ان کے نفسانی خواہشات کے موافق نہیں ہوتی تو آسانی کے ساتھ غلط توجیہیں کر کے خود کو اور دوسروں کو فریب دینے لگتے ہیں۔

اس بنا پر خدا کے سامنے ایسا استکباری اور متکبرانہ جذبہ رکھنا، دین کی حقیقت اوراسلام کی روح (کہ صرف دین خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے) کے موافق نہیں ہے۔

۱۵۳

3۔ جھوٹی توجیہیں خطرناک ترین فتنہ

دین میں سب سے زیادہ خطرناک فتنہ، کہ جس نے پیغمبر کو بھی تشویش میں رکھا اور پیغمبر نے اسے حضرت علی ـ سے بیان کرتے ہوئے اس سے ہوشیار کیا تھا، وہ دین میں تحریف کی سازش اور اس کا فتنہ نیز منزل اعتقاد میں الٰہی محرمات کو حلال کرنا ہے۔ اگر چہ منزل عمل میں احکام شریعت کی رعایت نہ کرنا اور پروردگار کی خدائی کے سامنے استکباری جذبہ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ انسان اپنے دین مخالف اعمال اور گناہوں کے لئے غلط اور جھوٹی توجیہیں گڑھنے لگے اور اپنے نفسانی خواہشات پر دین و شریعت کا رنگ چڑھانے لگے۔

اس صورت میں شیطان تمام قوتوں کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہے تاکہ احکام دین کی تحریف اور شبہات پیدا کرنے میں ان کی مدد کرے۔

حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں فتنہ پرور افراد اپنے نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے غلط افکار و تخیلات، جھوٹی توجیہات اور شبہات کے ذریعہ اس بات کے درپے ہیں کہ الٰہی محرمات کو حلال کردیں اور دین خدا کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

جس بات کی یاد دہانی ضروری ہے اور حضرت پیغمبر اکرم بھی فتنوں اور فتنہ پروروں کے سامنے حضرت علی ـ کے فریضہ کے بیان میں جس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں، وہ ایسی فتنہ انگیزیوں کے باقی رہنے کا مسئلہ ہے جو کہ امام زمانہ حضرت صاحب الامر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور تک جاری رہے گا۔ جو کچھ پیغمبر اکرم نے شراب کو اس بہانے حلال کرنے کے عنوان سے کہ شراب وہی حلال کشمش ہے، یا رشوت کو تحفہ اور ہدیہ کے بہانے سے حلال سمجھنے، اور سود خواری کو خرید و فروخت کے بہانے حلال سمجھنے کو بیان کیا ہے، وہ صرف ان فتنوں کے چند نمونے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے، نہ یہ کہ یہ مسئلہ فقط انھیں چیزوں میں منحصر ہے۔

۱۵۴

آج بھی ایسے افراد مسلمانوں کے درمیان پائے جاتے ہیں جو ظاہری طور سے مسلمان ہیں اور ہرگز اپنے کو اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں سمجھتے، لیکن باطنی اور روحی لحاظ سے وہ ایسے نہیں ہیں کہ احکام الٰہی کو تہ دل اور رغبت کے ساتھ قبول کریں۔

یہ لوگ جن میں سے بعض اجتماعی حیثیتوں کے بھی حامل ہیں ایک طرف مغربی ثقافت اور مکتب فکر سے متأثر ہو کر خود باختگی کا شکار ہوگئے ہیں اور اپنی دینی شخصیت سے فاصلہ اختیار کرلئے ہیں، اور دوسری طرف ان کی معلومات دین کے معارف کے متعلق ناکافی ہیں۔حالانکہ ان لوگوں میں دین کے خصوصی مسائل کے متعلق اظہار نظر کی تھوڑی سی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ بس مسند قضاوت پر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی دشمنان دین کی تشویق اور شیطان کے وسوسوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور شعوری یا لاشعوری طور پر ایسی باتیں کہتے ہیں جو اسلام کے دائرہ سے خارج ہو جانے اور انکار دین کا باعث ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ اسلام کے قوانین صدر اسلام اور اس زمانہ کے لوگوں سے مخصوص ہیں اور اس کے احکام صدر اسلام کے معاشروں کے مناسب اور موافق تھے، لیکن زمانۂ حال اور اکیسویں صدی میں قرآن اور احکام اسلام معاشرہ کی رہبری کے لئے کافی نہیں ہیں لہذا اس کے احکام کو انسانوں کی صوابدید اور پسند کے مطابق تبدیل کرنا چاہئے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ اکیسویں صدی کے لوگ اپنے زمانہ کے مطابق ایک نبی و پیغمبر کے محتاج ہیں، ایسی باتیں اگر چہ انکار دین کے معنی میں سمجھی جاتی ہیں، لیکن خود یہ باتیں پہلے درجہ میں دین و احکام دین کی صحیح شناخت نہ رکھنے کی نشانی ہیں۔

ضروری ہے کہ ایسے افکار و نظریات کے حامل افراد اظہار نظر اور زبان کھولنے سے پہلے صحیح طور سے اپنی بات کے معنی اور ان کے لوازم و نتائج پر توجہ دیں۔ اس صورت میں شاید ایسی باتیں کہنے سے پرہیز کریں کہ جن سے ''دین میں فتنہ'' کی بو آتی ہے، اور خود کو دشمنان اسلام و قرآن اور شیطان کے جال سے چھڑا لیں۔

۱۵۵

عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ماحول کو تاریک کرنا

جو کچھ اب تک بیان کیا گیا اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ دین و قرآن کے دشمنوں کے ہتھکنڈے اور وسائل فوجی حملہ اور فتنہ میں، ثقافتی یلغار اور فکری حملہ اور فتنہ کے ہتھکنڈوں سے بالکل مختلف ہیں۔ کہا گیا کہ وہ لوگ فوجی حملہ کے برخلاف فکری فتنہ جاری رکھنے میں آشکارا طور پر انکار دین اور لوگوں کے دینی مکتب فکر کی مخالفت کا موقف ظاہر نہیں کرتے اور علانیہ طور سے اپنے قلبی اعتقادات کو ظاہر نہیں کرتے۔ کیونکہ اس صورت میں جو لوگ ان کی باتیں سنتے ہیں وہ ان کی باتوں میں غور و فکر کر کے یا ان کو قبول کر لیتے ہیں یا ان کے بطلان کو سمجھ جاتے ہیں اور ہر حال میں ان کے باطل عقائد کو قبول کرنے کی صورت میں جو گمراہی آجاتی ہے وہ علم و آگاہی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہ جو کچھ ہوا ہے اسے فتنہ کا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ فریب اور افکار میں تحریف کے ذریعہ گمراہ نہیں کیا گیا ہے۔

جو کچھ آج ہمارے معاشرہ میں ثقافتی فتنہ کے عنوان سے پایا جاتا ہے اور قرآن اور دینی مکتب فکر کے دشمن پوری کوشش کے ساتھ فکری حملہ کے ذریعہ اس کو انجام دے رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ معاشرہ کے ثقافتی اور فکری ماحول کو اس طرح آشفتہ اور تیرہ و تار بنادیں کہ لوگ خصوصاً طالب علم جوان طبقہ، حق و باطل کی تشخیص کی قدرت کھو بیٹھے اور لاشعوری طور پر ان کے باطل اور گمراہ کن افکار و اعتقادات کے جال میں پھنس جائے۔

واضح سی بات ہے کہ اگر ایک ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ فکری انحراف سے دوچار ہو جائے تو اس معاشرہ کے عام لوگوں کے انحراف اور گمراہی کا میدان بھی ہموار ہو جاتا ہے کہ''اِذَا فَسَدَ الْعَالِمُ فَسَدَ الْعَالَمُ'' جب عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے تو سارا عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے۔

۱۵۶

اس بنا پر مذکورہ ثقافتی فتنہ کہ جس سے پیغمبر اکرم نے خبردار کیا ہے، وہ ان خطرناک ترین امور میں سے ہے جو کہ لوگوں کی دنیا و آخرت کی سعادت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ایسے خطروں سے مقابلے کے لئے اسلامی حکومت کو چاہئے کہ حقائق دین بیان کرنے اور قرآن کے مکتب فکر اور معارف کو نشر کرنے کی قدرت کے اعتبار سے اتنی قوی ہو، اور پرائمری (مکتب) سے لیکر کالج اور یونیورسٹی تک کے تعلیمی نظام نیز ملک کے تمام ثقافتی مراکز کو اپنی دقیق نظارت کے تحت رکھے اتنا کہ اسلام کے دشمن اور بدخواہ افراد ثقافتی اور فکری ماحول کو پرآشوب کر کے دوسروں کو گمراہ کرنے پر قادر نہ ہوں۔

دوسری طرف علمائے دین کا اہم ترین فریضہ بھی لوگوں کی ہدایت و اصلاح کرنا (خصوصاً معاشرہ کے جوان طبقہ کی اصلاح اور ہدایت جو کہ دینی معارف اور قرآنی علوم سے کافی آشنائی نہیں رکھتے) اور ثقافتی فتنہ کا مقابلہ کرنا ہے۔

یہ دینی علماء کا فریضہ ہے کہ توضیح و تفصیل کے ساتھ عوام او رجوان نسل کو ثقافتی اوراعتقادی خطروں سے اور دشمنان دین کی سازش سے آگاہ کریں اور انھیں شیطانی جالوں سے بچائیں۔ اور یہ دیندار لوگ ہی ہیں جو کہ باعمل دینی علماء کی حمایت و نصرت کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت کے لئے اہم اور بڑے فرائض کے انجام دینے میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

جیسا کہ کتاب کے شروع میں بیان کیا تھا اب ہم اس حصہ میں حضرت علی ـ کی نظر سے نہج البلاغہ میں مذکورہ دینی ثقافت اور مکتب فکر کے مخالفین کے علل و مقاصد کو ذکر کر تے ہیں۔ پہلے ہم حضرت علی ـ کی نظر سے مذکورہ افراد کا تعارف کرائیں گے پھر بحث کو دینی مکتب فکر اور قرآنی تعلیمات و احکام کی مخالفت میں ان افراد کے علل و مقاصد کو بیان کر کے ختم کردیں گے۔

۱۵۷

دینی معارف میں تحریف کرنے والے حضرت علی ـ کی نظر میں

امیر المومنین حضرت علی ـ ان لوگوں کو جو حقائق دین میں تحریف کرنا اور لوگوں کی دینی تہذیب و ثقافت کو برباد کرنا چاہتے ہیں، عالم نما جاہل کہتے ہیں۔

حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں:''وَ آخَرُ قَد تُسَمَّی عَالِمًا لَیسَ بِهِ'' 1 قرآن کے سچے پیرووں کے مقابل ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو کبھی کبھی معاشرہ کے درمیان عالم و دانشور تصور کیا جاتا ہے، اس نے اپنا نام عالم رکھ لیا ہے حالانکہ اسے علم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

ایسے لوگ حقیقت سے خالی اورعاریتی عناوین سے سوء استفادہ کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ سوال قارئین کے سامنے آئے کہ تو پھر جو کچھ یہ لوگ علمی اور دینی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ وہ لوگ جو اپنی باتوں کو دین و قرآن سے ماخوذ قرار دیتے ہیں ان کو حضرت علی ـ جواب دیتے ہیں:''فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِن جُهَّالٍ'' 2 یہ لوگ جو کچھ دین سے اپنے اخذ شدہ مفاہیم اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور دین کی مختلف قرائتوں کے بہانے سے دین پر اپنے باطل عقائد لادنا چاہتے ہیں، وہ ایسی جہالتیں ہیں جو کہ دوسرے جاہل و نادان انسانوں سے لی گئی ہیں اور وہ انھیں دینی معارف اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں۔

شاید آپ کو تعجب ہو کہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ جہل و نادانی کو دوسروں سے حاصل کرتے ہیں؟ دوسروں سے جہل و نادانی کے حاصل کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس بات کے لئے کہ ہم حضرت علی ـ کے کلام کے ا عجاز سے واقف ہوں اور حق سے منحرف افراد

(1) نہج البلاغہ ، خطبہ 86 ۔

(2)نہج البلاغہ ، خطبہ 86 ۔

۱۵۸

کے مقابل اصلاح و ہدایت سے متعلق اپنی ذمہ داری سے زیادہ سے زیادہ آشنا ہوں، دوسروں کی ان جہالتوں او رنادانیوں سے جو آج علمی سوغاتوں کے نام سے بیان کی جارہی ہیں، عالم نما جاہلوں کے اقتباس کے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

آج کل مغرب میں یہ فلسفی فکر رائج ہے کہ حصول علم انسان کے لئے نا ممکن ہے اور انسان کو چاہئے کہ ہر چیز میں شک کرتاہو اور ہرگز کسی چیز کے بارے میں یقین پیدا نہ کرے۔

اس نظریہ کے طرفدار معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں کسی مطلب اور بات کا یقین رکھتا ہوں تو یہ اس کی نافہمی اور حماقت کی نشانی ہے، اس لئے کہ کسی چیز کا علم ممکن ہی نہیں ہے۔

وہ لوگ اس شک و جہل پر بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ علم و دانش اور عقل مندی کی علامت یہ ہے کہ انسان کسی مطلب کا ، خواہ دینی ہو یا غیر دینی، یقین نہ کرے۔ ایسی اٹکل پچو باتیں تقریباً ایک سو سال سے اہل یورپ کے درمیان چھڑی ہوئی ہیں اور اس سے پہلے شکّاکین کی فکری بنیاد رہی ہیں۔

آج کل ہمارے معاشرہ میں بھی کچھ لوگ ان کی جاہلانہ باتوں کومبنیٰ قرار دیکر اسی بات کے درپے ہیں کہ لوگوں کے دینی معتقدات میں شک و شبہہ پیدا کر کے، اس بہانے سے کہ ہم کسی چیز کے متعلق یقینی معرفت نہیں حاصل کرسکتے، ان کو اپنے دینی اعتقادات میں

(1) شکّاکین: قدیم یونان میں حکماء کا ایک گروہ تھا، جو اس بات کا قائل تھا کہ تجربہ سے ماوراء کسی بھی چیز کا علم محال ہے اور کسی امر میں قطعی رائے اور حکم کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور تمام امور کو شک و شبہہ کے ساتھ دیکھنا چاہئے (مترجم)۔

۱۵۹

سست اور کمزور کردیں اور اپنے نفسانی خواہشات اور مقاصد کو عملی جامہ پہنائیں۔

نرالی بات یہ ہے کہ وہ لوگ ان باتوں کو علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بافہم اور نکتہ سنج لوگ ان کو قبول کرلیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ پوری تاریخ میں ایسے شیطان صفت انسانوں کے وجود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِن جُهَّالٍ وَ أََضَالِیلَ مِن ضُلَّالٍ'' 1 وہ لوگ ایک گمراہ او رجاہل گروہ سے جاہلانہ اور گمراہ کن باتیں لے لیتے ہیں اور ان کو علمی مطالب کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی علمی بات یہ ہے کہ ہر چیز میں شک کرنا چاہئے اور بشر کو کسی چیز میں علم و یقین نہیں پیدا کرنا چاہئے، دینی امور میں ہر شخص جو بھی سمجھتا ہے وہی حق ہے، اس لئے کہ اصلاً کوئی حق و باطل وجود نہیں رکھتا، حق و باطل کے لئے ہر شخص کی ذاتی سمجھ کے علاوہ کوئی معیار نہیں پایا جاتا۔

''وَ نَصَبَ لِلنَّاسِ اَشْرَاکاً مِن حَبَائِلَ غُرُورٍ وَ قَولِ زُورٍ'' 2 اس گمراہ و نادان گروہ اور عالم نما جاہلوںنے مکر و فریب اور جھوٹی باتوں کے جال بچھا دیئے ہیں اور لوگوں کو اپنے گمراہ کن اقوال و اعمال سے فریب دیتے ہیں۔

''قَد حَمَلَ الْکِتَابَ عَلٰی آرَائِهِ'' 3 یہ لوگ قرآن کریم کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں اور اس کی آیات کو اپنے افکار و خیالات پر حمل کرتے ہیں اور حق کو اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کے مطابق قرار دیتے ہیں۔

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 86 ۔

(2)گزشتہ حوالہ ، خطبہ 86 ۔

(3)گزشتہ حوالہ ، خطبہ 86 ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180