بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک42%

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13101 / ڈاؤنلوڈ: 4460
سائز سائز سائز
بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب : بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف : محمد علی چنارانی

مترجم :سید قلبی حسین رضوی

مصحح : کلب صادق اسدی

پیشکش :ادارۂ ترجمہ،معاونت فرہنگی ، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کی تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی ہے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کے بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اورچودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں ، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت (ص) و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواراں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کیعالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققیں ومصنفیں کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفیں و مترجمیں کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل مولف محمد علی چنارانی کی گرانقدر کتاب ''بچوں اورنوجوانوں کے ساتھ نبی اکرم (ص) کا حسن سلوک '' کو فاضل جلیل مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

پیش لفظ

آج کل کی دنیا میں بچوں کی تربیت،سماج کاایک بنیادی ترین مسئلہ اور بشریت کی سعادت کا اہم ترین عامل شمار ہوتی ہے۔اس لئے دانشوروں نے بچوں کے نفسیات اور تربیت کے بارے میں کافی مطالعہ اورتحقیق کی ہے اوراس موضوع پر بہت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں ۔

اسی طرح بڑے ممالک میں ،بچوں کے جسم وروح کی صحیح تربیت کی غرض سے وسیع پیمانے پرانجمنیں بنائی گئی ہیں اور بچوں کی علمی اور عملی لحاظ سے نگرانی کی جارہی ہے۔

لیکن چودہ سو سال قبل،جب بشریت جہل و نادانی کے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی،اس وقت پیغمبر اسلام (ص)نے بچوں کی قدر ومنزلت اور تربیت کوخاص اہمیت دی، اور اس سلسلہ میں اپنے پیرئوں کوضروری ہدایات دیں۔

اگرچہ آج دانشور اور ماہرین بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تربیت کو اہمیت دیتے ہیں ،لیکن اسلام نے ازدواجی زندگی کے بنیادی اصول،شریک حیات کے خصوصیات،نسل کی پاکیزگی،دودھ پلانے اور بچوں کے جسم وروح کی تربیت کے سلسلہ میں لوگوں کی ذمہ داریوں کو قدم بہ قدم بیان کیا ہے۔

اگر آج دنیا کے دانشوروں نے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں بہت سے نفسیاتی اور تربیتی مسائل کو دقیق انداز میں اپنی علمی کتابوں میں درج کیا ہے،تواسلام کے پیشوائوں نے بہت پہلے ہی میں ان نکات کو مذہبی روایات کی صورت میں بیان کر دیا تھا اور خود بھی اپنی زندگی میں اس کوعملی جامہ پہنا یا ہے۔

اس کتاب میں ہمارا مقصددو بنیادی اصولوں پر استوار ہے:

اول یہ کہ تمام مسلمان،بالخصوص نوجوان اور طلبہ،کہ جو معاشرہ کی بڑی تعداد کو تشکیل دیتے ہیں ،دین مقدس اسلام کے منصوبوں اور دستورات کی ہمہ گیری اور اس آسمانی دین کے عملی اقدار سے آگاہ ہو جائیںاور قوی و مضبوط ایمان واعتقاد سے اس کی پیروی کریں اور دشمنوں کے فریب میں نہ آئیں۔

دوسرے یہ کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں اپنی مذہبی اور قومی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو جائیںتاکہ اس اہم اورسنگین ذمہ داری کو بہتر صورت میں انجام دے سکیں۔کیونکہ بہت سے اجتماعی مشکلات اور اخلاقی برائیاںاپنی ذمہ داریوں سے ناواقفیت کی بنا پر ہی وجود میں آتی ہیں ۔

اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیاکہ ان لو گوں کے لئے ایک عملی نمونہ پیش کریںکہ جو اپنے بچوں کی جسمانی و روحانی لحاظ سے صحیح تر بیت کرنا چاہتے ہیں ۔مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفے (ص)اور آپ (ص)کے حقیقی جانشین ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے تمام مراحل میں انھیں اطمینان بخش نمونہ قرار دیں اوران کی پیروی کر یںچنانچہ ان کامل انسانوں کی پیروی واطاعت میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہے، کیونکہ ان شخصیتوں کوخداوند متعال نے ہر برائی سے پاک قرار دیا ہے اوران کی اطاعت کہیں بھی اور کبھی بھی

مشکل پیدا نہیں کرسکتی ہے۔دعا ہے کہ بشریت آگاہ ہو جائے اورحقیقی پیشوائوں کی پیروی کرے ،جھوٹے اور شیطانی نمونوں کی اطاعت نہ کریں تاکہ اس طرح وہ دنیاوآخرت کی سعادت سے ہمکنار ہو جائے۔

یہ کتاب دوحصوں پر مشتمل ہے:

۱۔پیغمبر اسلام (ص)کا بچوں کے ساتھ سلوک، اس میں پانچ فصلیں ہیں اور ہر فصل چند موضوعات پر مشتمل ہے۔

۲۔پیغمبر اسلام (ص) کانوجوانوں کے ساتھ سلوک،اس میں چار فصلیں ہیں اور ہرفصل چند عناوین پرمشتمل ہے

آخر پر میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں میری مدد فر مائی۔

مؤلف

پہلا حصہ:

بچوں کے ساتھ

پیغمبر اسلام (ص)کا سلوک

بچوں کے ساتھ پیار ومحبت سے پیش آنا پیغمبر اکرم (ص)کے نمایاں خصوصیات میں سے تھا۔

پہلی فصل:

تر بیت

اپنے بچوں کااحترام کرواوران کے ساتھ ادب سے پیش آؤ۔

( پیغمبر اکرم (ص))

تربیت کی اہمیت

بچہ پیدائش کے بعداپنے خاندان سے جدا ہونے اور دوسروں کے ساتھ مشترک زندگی گزارنے تک تربیت کے دودور سے گزرتا ہے:

۱۔بچپنے کا دور،یہ دورایک سال کی عمرسے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میں بچہ کے اندر براہ راست تر بیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ،کیونکہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔

۲۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور۔اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیتوں کے لئے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھ سکتا ہے اور تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔

پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہئے اور ہر گز اس کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کے حکم دینے میں سختی نہیں کر نا چاہئے بلکہ بچہ اپنے ماحول سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا ہے اس طرح اس کے وجود میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرز عمل کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے۔

دوسرے دور میں بھی بچے کو آزادنہیں چھوڑنا چاہئے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہئے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہئے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہئے۔(۱)

افسوس کہ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ اپنے بچوں کی تربیت کب سے شروع کریں۔بعض والدین یہ تصور کرتے ہیں کہ بچو ں کی تربیت چھ سال تمام ہونے کے بعدکی جانی چاہئے اور بعض تربیت کا آغازتین سال کی عمر ہی سے کر دیتے ہیں ۔

لیکن یہ خیال غلط ہے،کیونکہ جب بچے کی عمرتین سال مکمل ہوتی ہے تو اس میں ۷۵فیصد صفات اچھے اور برے صفات پیدا ہو جاتے ہیں ۔

بعض ماہرین نفسیات کا یہ خیال ہے کہ بچے کی تربیت پیدائش سے ہی شروع کی جانی چاہئے،لیکن بعض دوسرے ماہرین کسی حد تک احتیاط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے کی تر بیت پیدائش کے بعد دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ سے ہی ہوناچاہئے ۔لیکن ''شکا گو''یونیور سٹی میں اس موضوع پردقیق تحقیق کرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

''ایک صحیح وسالم بچے کی فکری سطح چار سال کی عمرمیں ۵۰فیصد،آٹھ سال کی عمر میں ۳۰ فیصد اور سترہ سال کی عمر میں ۲۰ فیصد مکمل ہوتی ہے۔لہذا ہر چار سالہ بچہ۵۰فیصد سوجھ بوجھ کی صلاحیت رکھتاہے،اسی طرح۲اور۳ سال کے درمیان

بچے میں رونماہونے والی تبدیلیاں ۸اور۹ سال کے درمیان رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کئی گنا زیادہ اوراہم ہوتی ہیں ۔(۲) ''

بچے کی تربیت کہاں سے شروع کریں؟

تعلیم وتربیت کو مفیدبنانے کے لئے ضروری ہے کہ آج کل کے تصور کے برخلاف مذکورہ مدت سے پہلے ہی بچے کی تربیت اس کی پیدائش کے ابتدائی ہفتوں سے ہی شروع کرنا چاہئے ،پہلے صرف جسمانی مسائل اور پھر ایک سال کی عمر سے نفسیاتی مسائل کی طرف توجہ کی جانی چاہئے۔

یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ بچے کے لئے وقت کی اہمیت یکساں نہیں ہوتی،کیونکہ ایک سال کی عمر میں ایک دن کی مدت،تیس سال کی عمر میں ایک دن کی مدت سے کئی گنا طولانی ہوتی ہے۔شاید یہ مدت جسمانی اور نفسیاتی حوادث کے لحاظ سے چھ گنا زیادہ ہو۔لہذا بچپن کے اس گرانقدر دور سے پھر پورا فائدہ اٹھانے میں غفلت نہیں کرنی چاہئے۔اس بات کا قوی احتمال ہے کہ بچے کی ابتدائی چھ سال کی عمر کے دوران زندگی کے قواعد وضوابط کے نفاذ کانتیجہ یقینی ہے۔(۳)

اسی لئے حضرت علی فرماتے ہیں :

''من لم یتعلّم فی الصّغر لم یتقدّم فی الکبر'' ۔(۴)

''جوبچپن میں کچھ نہ سیکھے وہ بڑا ہو کرآگے نہیں بڑھ سکتا ۔''

لہذا بچپن کا دور زندگی کے صحیح طور طریقے سیکھنے کا بہترین وقت ہو تا ہے۔کیونکہ اس زمانے میں بچے میں تقلید اور حفظ کی توا نائی بہت قوی ہوتی ہے۔اس دور میں بچہ اپنے معاشرہ کے افراد کے حرکات وسکنات اور ان کے چال چلن کو پوری توجہ کے ساتھ دیکھتا ہے اور ان کا عکس،کیمرے کے مانند،اپنے ذہن میں کھینچ لیتاہے۔

اس لئے،بچے کے جسم کی نشو ونما اور تکامل کے ساتھ اس کی روح کی بھی صحیح راستے کی طرف ہدایت ہونی چاہئے تاکہ اس میں نیک اور شائستہ صفات پیدا ہو جائیں۔ کیونکہ جن بچوں کی بچپن میں صحیح طریقے سے تربیت نہیں ہوتی ہے،ان میں بڑے ہو نے کے بعد اخلاقی تبدیلی کا آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

خوش قسمت اورکامیاب وہ لوگ ہیں ،جو ابتدائے زندگی سے ہی صحیح وسالم تربیت کے ساتھ نشو ونما پاتے ہیں اور نمایاں اورگرانقدر صفات ان کی زندگی کا جزولا ینفک بن جاتے ہیں ۔

بعض ماہرین نفسیات نے بچے کوایک ننھے پودے سے تشبیہ دی ہے،جس کی حالت کو ایک باغبان صحیح طریقہ کار کے تحت بدل سکتاہے۔لیکن جو لوگ ایک پرانے درخت کے مانند گندے اور نا پسندماحول میں پلے بڑھتے ہیں ،ان کی اصلاح کرنا بہت دشوار ہوتا ہے،اور جو شخص ایسے افراد کے کردارو طرز عمل کو بدلنا چاہے گا،اسے بہت سی مشکلات کا سامناکر ناپڑے گا۔(۵)

پیغمبر اکرم (ص) لو گوں کے لئے نمونہ عمل ہیں

خدا وند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوة حسنة ) (احزاب۲۱)

''بیشک رسول خدا (ص) تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں ،لہذا تم لوگ ان کے وجودمبارک سے مستفید ہو سکتے ہو۔''

پیغمبر اسلام (ص) پوری تاریخ میں بشریت کے لئے سب سے بڑے نمونہ عمل تھے،کیونکہ آپ (ص) اپنے بیان کے ذریعہ لوگوں کے مربیّ وراہنما ہونے سے پہلے اپنی سیرت اور طرز عمل سے بہترین مربیّ اور رہبر تھے،

پیغمبر اسلام (ص) کی شخصیت صرف کسی خاص زمانہ،کسی خاص نسل ،کسی خاص قوم،کسی خاص مذہب اورکسی خاص علاقہ کے لئے نمو نہ نہیں تھی،بلکہ آپ (ص) عالمی اورابدی لحاظ سے تمام لوگوں اورتمام ادوار کے لئے نمونہ تھے۔

ہم یہاں پرمعتبر اسناد وشواہد کی روشنی میں بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اسلام (ص) کے حسن سلوک اور طرز عمل کو بیان کر رہے ہیں ۔

بچے کو اہمیت دینا

دور حاضر میں بچوں کوبہت اہمیت دی جارہی ہے۔خاندانوں اور معا شروں کے بچوں کی شخصیت کے احترام پرحکومت اور قوم کافی توجہ دے رہی ہے۔اس کے باوجود پیغمبر اسلام (ص) بچوں کی تربیت پرجتنی توجہ دیتے تھے،اتنی توجہ آج کی دنیا بھی نہیں دے پا رہی ہے ۔

اگرچہ،کبھی کبھی تہذیب و ترقی یافتہ ممالک کے زمامدار اور حکمران یتیم خانوں اور نرسریوں میں جاکرایک دو گھنٹے بچوں کے ساتھ گزار تے ہیں اور ان میں سے بعض تو بچوں کو گود میں لیکرتصویریں کھنچاتے ہیں اور ویڈیوفلم بناتے ہیں ،ان کے بارے میں مقا لات بھی لکھتے ہیں اور اس طرح بچوں کے تئیں اپنے احترام کولو گوں پر ظاہر کر تے ہیں ،لیکن آج تک کوچہ و بازار میں کسی شخص نے بھی پیغمبر اسلام (ص) کے مانندنہایت سادگی کے ساتھ بچوں کو گود میں لے کرپیار نہیں کیا ۔اس طرح پیغمبر اکرم (ص)اپنے اور غیروں کے تمام بچوں ،سے خاص محبت فرماتے تھے۔اس سلسلہ میں آنحضرت (ص) کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ:

''والتّلطف بالصبیان من عادةالرّسول'' (۶)

''بچوں سے پیار ومحبت کرنا پیغمبر اسلام (ص)کی عادت تھی ''

شیعوں کے ائمہ اطہار علیہم السلام دوسرے دینی پیشوائوں نے بھی اسی پر عمل کیا ہے اور وہ بھی بچوں کی اہمیت کے قائل تھے۔ذیل میں ہم چند نمونے پیش کر رہے ہیں :

۱۔بچے سے سوال کرنا

حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ لوگوں کے سامنے اپنے بچوں سے علمی سوالات کر تے تھے اور بعض اوقات لوگوں کے سوالات کا جواب بھی انھیں سے دلوا تے تھے۔

ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزندامام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے چند موضوعات کے بارے میں کچھ سوالات کئے چنانچہ ان میں سے ہر ایک

نے مختصر لفظوں میں حکیمانہ جواب دئے۔اس کے بعدحضرت علی علیہ السلام نے مجلس میں موجودحارث اعور نامی ایک شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا:

ایسی حکیمانہ باتیں اپنے بچوں کو سیکھاؤ ،کیونکہ اس سے ان کی عقل وفکر میں استحکام وبالیدگی پیدا ہوتی ہے ۔(۷)

اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے ان کا بہترین انداز میں احترام کیا اور ان کے وجود میں ان کی شخصیت کو اجاگر کیا اور خود اعتمادی پیدا کی ۔

۲۔حسن معاشرت

بچے میں شخصیت پیدا کرنے کاایک بنیادی سبب اس کے ساتھ اچھا برتاؤبھی ہے۔رسول خدا (ص) نے مختصرلفظوں میں فرمایا اور اپنے پیروئوں کوآشکار طور پر اسے نافذ کرنے کاحکم دیا ہے:

''اپنے فرزندوں کا احترا م کرواور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ(۸) ''

لہذاجو لوگ اپنے بچوں کی با عزت وبا حیثیت شخص بنانا چاہتے ہیں ،انھیں چاہئے کہ اپنے بچوں کواچھی تعلیم وتر بیت کے ساتھ رہنمائی کریں۔ اور برے، ناپسند اور توہین آمیز سلوک سے پر ہیز کر یںکیو نکہ نا پسنداور برے طرز عمل سے اپنے بچوں کی ہر گز صحیح تربیت نہیں کی جا سکتی ۔

۳۔وعدہ پورا کرنا

وعدہ پورا کرنا ان عوامل سے ایک ہے کہ جن کے ذریعہ بچے میں اعتماد پیدا کیا جاسکتا ہے اور یہ ان کی شخصیت کے نشو ونما میں کافی موثرہے۔ائمہ اطہار علیہم السلام نے بچوں سے وعدہ وفائی کرنے کے سلسلہ میں بہت تاکید کی ہے اس سلسلہ میں ہم ائمہ معصومین کے چند اقول پیش کرتے ہیں :

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''جائزنہیں ہے کہ انسان سنجیدگی سے یا مذاق میں جھوٹ بولے۔

جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے بچے سے وعدہ کرلے اور اسے پورا نہ کرے(۹) ''

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرما یا:

''اگر تم میں سے کسی نے اپنے بچے سے کوئی وعدہ کیا ہے۔تو اسے پورا کرنا چاہئے اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے۔(۱۰) ''

شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں ائمہ اطہار علیہم السلام سے والدین کے وعدہ وفائی کے بارے میں بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں ،لیکن ہم اختصار کے پیش نظر یہاں پر انھیں ذکر کر نے سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

۴۔بچے کو مشکلات سے آگاہ کرنا۔

اپنے بچوں ، خاص کر بیٹوں کو شخصیت اور حیثیت والابنانے کا مالک سبب یہ بھی ہے

کہ انھیں مشکلات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ مستقبل میں مشکلات سے مقا بلہ کرسکیں،کیونکہ بچوں کو عملی طور پر یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر چیز کو حاصل کرنے کے لئے کوشش و زحمت کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کوئی بچہ مشکلات اور سختیوں سے آگاہ نہ ہو تووہ مستقبل میں زندگی کے گوناگوں مشکلات کے مقابلہ میں گھبرا جائے گا۔یہ حقیقت ہمارے ائمہ اطہار علیھم السلام کی روایات میں بھی بیان ہوئی ہے۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

''بہتر ہے کہ بچہ بچپنے میں زندگی میں پیش آنے والی سختیوں اور مشکلات سے دو چارہو،جوکہ حقیقت میں زندگی کا کفارہ ہے،تاکہ جوانی اور بوڑھاپے میں صبروبرد باری سے کام لے ۔(۱۱) ''

یہ یاد دہانی کرا دینا ضروری ہے کہ،بچوں کو مشکلات سے آشناکرنا بچے کی ناراضگی کا سبب نہیں بنناچاہئے۔یعنی بچے کے ذمہ کئے جانے والے کام اس کی توانائی اور طاقت سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں،اس لئے بچے کی طاقت و توانائی کومد نظر رکھنا ضروری ہے۔

رسول خدا (ص) نے اس سلسلہ میں درج ذیل چار نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے:

۱۔بچہ نے اپنی طاقت بھر جو کام انجام دیا ہے اسے قبول کرنا۔

۲۔جو کام بچے کی طاقت سے باہر ہو بلکہ اس کے لئے نا قا بل برداشت ہو اس کام کا اس سے مطالبہ نہ کرنا۔

۳۔بچے کوگناہ اور سر کشی پر مجبور نہ کرنا۔

۴۔اس سے جھوٹ نہ بولنااور اس کے سامنے فضول اور احمقانہ کام انجام نہ دینا۔(۱۲)

دوسری ر وایتوں میں یوں نقل ہوا ہے:

''جب رسول خدا (ص) سات سال کے تھے،ایک دن اپنی دایہ(حلیمہء سعدیہ)سے پو چھا:میرے بھائی کہاں ہیں ؟(چونکہ آپ (ص)حلیمہ سعدیہ کے گھر میں تھے،اس لئے ان کے بیٹوں کو بھائی کہتے تھے)انہوں نے جواب میں کہا:پیارے بیٹے!وہ بھیڑبکریاں چرانے گئے ہیں ،جو خداوند متعال نے ہمیں آپ (ص) کی بر کت سے عطا کی ہیں ۔آپ(ص)نے کہا:اما جان آپ نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ! ماں نے پو چھا:کیوں ؟

جواب میں کہا:کیایہ مناسب ہے کہ میں خیمہ میں بیٹھ کر دودھ پیوں اور میرے بھائی بیا بان میں تپتی دھوپ میں ہوں ۔(۱۳) ''

۵۔بچے کے کام کی قدر کر نا

رسول خدا (ص) نے بچوں کی تربیت و پرورش اور انھیں اہمیت دینے کے بارے میں اپنے پیروئوں کو جوحکم د یا ہے، پہلے اس پر خود عمل کیا ہے۔پیغمبر اکرم (ص) کی ایک سیرت یہ بھی تھی کہ آپ (ص)بچوں کے کام کی قدر کرتے تھے۔

عمرو بن حریث نے یوں روایت کی ہے:

''ایک دن رسول خدا (ص) عبداللہ ابن جعفرا بن ابیطالب کے نزدیک سے گزرے۔جبکہ وہ بچے تھے ،آنحضرت (ص) نے ان کے حق میں یہ دعا کی:خدا وندا! اس کی تجارت میں برکت عنایت فرما۔(۱۴) ''

۶۔بچوں کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا

رسول اکرم (ص)کی یہ بھی سیرت تھی کہ کبھی آپ(ص) اپنے بچوں کی تعظیم کے لئے نماز کے سجدہ کو طول دیتے تھے یا لوگوں کے بچوں کی تعظیم کے لئے نماز کو جلدی تمام کرتے تھے اور ہر حال میں بچوں کا احترام کرتے تھے اور اس طرح عملی طور پرلوگوں کو بچوں کی تعظیم کرنے کا درس دیتے تھے۔

ایک دن پیغمبر اکرم (ص)بیٹھے تھے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام داخل ہوئے۔آنحضرت (ص) ان کے احترام میں اپنی جگہ سے اٹھ کرانتظار میں کھڑے رہے۔چونکہ دونوں بچے اس وقت صحیح طریقے سے چل نہیں پاتے تھے،اس لئے آنے میں کچھ دیر ہوئی۔لہذا پیغمبر اسلام (ص) نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا ۔دونوں بچوں کو گود میں لے لیا اور دوش مبارک پر سوار کر کے چلے اور فر مایا کہ میرے پیارے بیٹو!تمہاری کتنی اچھی سواری ہے اور تم کتنے اچھے سوار ہو۔(۱۵) ؟!''

آنحضرت (ص)حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی تعظیم کے لئے بھی کھڑے ہوتے تھے۔(۱۶)

۷۔بچوں کے مستقبل کا خیال رکھنا

ایک دن حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے اپنے بچوں اور بھتیجوں کو اپنے پاس بلاکر فرمایا:تم آج معاشرہ کے بچے ہو لیکن مستقبل میں معاشرہ کی بڑی شخصیت ہوگے،لہذاعلم حاصل کرنے کی کوشش کرو،تم میں سے جو بھی علمی مطالب کو حفظ نہ کر سکے،وہ انھیں لکھ ڈالے اوراپنی تحریروں کو اپنے گھرمیں محفوظ رکھے تاکہ ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرے۔(۱۷)

اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام بچوں کے مستقبل کو ملحوظ رکھتے تھے اور بچوں کے والدین کواس حقیقت سے آگاہ فرماتے تھے۔اس لئے دین کے پیشوا بچوں کے مستقبل کے بارے میں خاص توجہ رکھتے تھے۔چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے:

''انصار میں سے ایک شخص چند بچوں کوچھوڑ کر دنیا سے اٹھا۔اس کے پاس تھوڑا سا سرمایہ تھاکہ جسے اس نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں عبادت اور خدا کی خوشنودی کے لئے خرچ کر دیا۔جبکہ اسی زمانے میں اس کے بچے تنگ دستی کی وجہ سے دوسروں سے مدد طلب کرتے تھے۔یہ ماجرا پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں نقل کیا گیا۔آنحضرت(ص)نے سوال کیا:تم نے اس شخص کے جنازہ کو کیا کیا؟کہا گیاکہ اسے ہم نے دفن کردیا۔آنحضرت (ص) نے فرمایا:اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تواسے مسلما نوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دیتا!!کیونکہ اس نے اپنی دولت کوضائع کردیا اور اپنے بچوں کودوسروں کا محتاج بنا کرچھوڑ دیا ۔(۱۸)

۸۔دینی احکام کی تعلیم دینا

بارگاہ خدا میں بچے کی عبادت،دعااور حمدوثنا کی تمرین سے اس کا باطن روشن ہوتا ہے،اگر چہ ممکن ہے بچہ نماز کے الفاظ کے معنی نہ سمجھتاہو ،لیکن خدا وند متعال کی طرف توجہ،راز ونیاز،پروردگار عالم سے مدد کی درخواست،دعا اور بارگاہ الہٰی سے التجا کو وہ بچپنے سی ہی سمجھتا ہے اور اپنے دل کوخدا وند متعال اور اس کی لا محدودرحمت سے مطمٔن بنا تا ہے اور اپنے اندرایک پناہ گاہ کا احساس کرتا ہے اور مشکلات وحوادث کے وقت اپنے دل کو تسکین دیتا ہے،چنانچہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

( الذین آمنوا وتطمٔن قلو بهم بذکرا ﷲلا بذکراﷲتطمٔن القلوب ) (رعد۲۸)

ٍٍ''یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کویاد خدا سے اطمینان حاصل

ہو تا ہے اور آگاہ ہو جائوکہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہو تا ہے۔''

بچوں کوابتداء سے ہی مئومن اور خدا پرست بنانے کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے جسم وروح ایمان کے لحاظ سے یکساں ہوں ۔اسی لئے اسلام نے والدین پرذمہ داری ڈالی ہے کہ اپنے بچوں کوخدا کی طرف متوجہ کریں اور انھیں خدا پرستی اور دین کی تعلیم دیں اور دوسری طرف حکم دیا ہے کہ بچوں کو نماز اور عبادت کی مشق کرائیں۔

معاویہ ابن وہب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیاکہ ہم بچہ کو کس عمر میں نماز پڑھنے کے لئے کہیں ؟ آپ نے فر مایا:چھ سے سات سال کی عمر میں انھیں نماز

پڑھنے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔(۱۹)

رسول خدا (ص) نے ایک حدیث میں فرما یا:''اپنے بچوں کوسات سال کی عمر میں نمازپڑھنے کا حکم دو۔(۲۰) ''

امام محمدباقرعلیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں بچوں کی عمر کے مختلف دور میں اعتقادی تر بیت کے سلسلہ میں والدین کی ذمہ داریوں کو اس طرح بیان فر ما یا ہے:

''تین سال کی عمر میں بچہ کو کلمہ لا الہ الا اللہ سکھا ئیں،چار سال کی عمر میں محمدرسول اللہ سکھائیں،پانچ سال کی عمر میں اسے قبلہ کی طرف رخ کرنا سکھا ئیں اور اسے حکم دیں کہ سجدہ میں جائے،چھ سال کی عمر میں اسے مکمل طور پر رکوع و سجود سکھا ئیں اور سات سال کی عمر میں منہ ہاتھ دھونا(وضو)اور نماز پڑھنا سکھا ئیں۔(۲۱) ''

والدین اور مربیّ کومعلوم ہوناچاہئے کہ مذہب ان کا سب سے بڑا معاون ومدد گار ہے،کیونکہ ایمان ایک روشن چراغ کے مانند ہے جو تاریک راہوں کو روشن کرتا ہے اور ضمیروں کو بیدار کرتا ہے اورجہاں کہیں انحراف ہوگا اسے آسانی کے ساتھ اس انحراف وکجروی سے بچاکر حقیقت وسعادت کی طرف رہنمائی کرے گا ۔

بچے میں صحیح تربیت کے آثار

بچوں کی صحیح تربیت ان میں استقلال اور خود اعتمادی کا سبب بنتی ہے اوران کا احترام

انھیں با حیثیت انسان بنا تا ہے،کیونکہ جو بچہ ابتداء سے اپنی قدر ومنزلت کو پہچانتا ہے وہ بڑا ہوکراپنے اندر احساس کمتری کاشکار نہیں ہو تا ۔چنانچہ اسلامی روایتوں میں آیا ہے کہ بچہ اوراس کا دل ایک صاف وخالی زمین کے مانند ہے کہ جوبھی بیج اس میں بویا جائے گا اسے قبول کر کے اس کی پرورش کرتی ہے۔(۲۲)

مثال کے طور پرحضرت علی علیہ السلام کی شخصیت رسول خدا (ص) کی آغوش میں تربیت پانے کے نتیجہ میں رشد و کمال تک پہنچی۔اگرچہ علی علیہ السلام جسم وروح کے اعتبار سے عام بچہ نہیں تھے،بلکہ ان کے وجود مبارک میں مخصوص قابلیتیں موجود تھیں، لیکن ان کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) کی خصو صی نگرا نیوں اور توجہ سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔

بچے کی صحیح تربیت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وہ شجاع اوربہادر بنتا ہے۔اس چیز کوحضرت امام حسین علیہ السلام کی تر بیت میں بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

ابن شہاب کہتا ہے:

''ایک مرتبہ جمعہ کے دن خلیفہ دوم منبرپر تھے۔حضرت امام حسین علیہ السلام بچہ تھے مسجد میں داخل ہوئے اور کہا:اے عمر!میرے باپ کے منبر سے نیچے اترو!عمر نے روتے ہو ئے کہا:سچ کہا،یہ منبر آپ کے جدامجد کا ہے، بھتیجے !ذرا ٹھہرو !! امام حسین علیہ السلام عمر کا دامن پکڑے ہوئے کہتے رہے کہ میرے جد کے منبر سے اتر و،عمر مجبور ہو کر اپنی گفتگو روک کر منبر سے اتر آئے اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔نماز کے بعد کسی کوبھیجا تاکہ امام حسین علیہ السلام کو بلاکر لا ئے۔جوں ہی امام حسین علیہ السلام تشریف لائے،عمر نے پوچھا:بھتیجے! میرے ساتھ اس طرح

گفتگو کرنے کاآپ سے کس نے کہا تھا؟

امام حسین علیہ السلام نے فر ما یا:مجھے کسی نے یہ حکم نہیں دیا ہے۔اورآپ نے یہی جملہ تین بار دہرایا،جبکہ امام حسین علیہ السلام اس وقت بالغ بھی نہیں ہوئے تھے۔(۲۳)

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی کے حالات کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی رحلت کے بعد،خلیفہ وقت ،مامون بغداد آیا۔ایک دن شکار کے لئے نکلا راستہ میں ایک ایسی جگہ پر پہنچا جہاں چند بچے کھیل رہے تھے۔امام رضا علیہ السلام کے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام ، کہ جن کی عمراس وقت تقریباً گیارہ سال تھی ، ان بچوں کے درمیان کھڑے تھے۔جوں ہی مامون اور اس کے ساتھی وہاں پہنچے تو سب بچے بھاگ گئے۔ لیکن امام محمد تقی علیہ السلام وہیں کھڑے رہے۔جب خلیفہ نزدیک پہنچا حضرت پر ایکنظر ڈالی اورآپ کا نورانی چہرہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ اورآپ سے سوال کیا کہ آپ دوسرے بچوں کے ساتھ کیوں نہیں بھاگے؟

امام محمدتقی علیہ السلام نے فوراًجواب دیا:اے خلیفہ! راستہ اتنا تنگ نہیں تھا کہ میں خلیفہ کے لئے راستہ چھوڑ کر بھاگتا ۔میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے کہ میں سزا کے ڈر سے بھاگتا۔میں خلیفہ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں اور تصور کرتا ہوں کہ وہ بے گناہوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا۔اسی لئے میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا اور نہیں بھاگا۱ ! مامون آپ کے منطقی اور محکم جواب اور آپ کے پر کشش چہرہ سے حیرت زدہ رہ گیا اور کہنے لگا آپ کانام کیا ہے؟امام نے جواب دیا:محمد۔پوچھا:کس کے بیٹے ہو؟ آپ نے فر مایا:علی بن موسی رضا علیہ السلام کا۔(۲۴)

وجود خدا پر قرآنی آیات

قارئین کرام ! آئےے قرآن مجید کی ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں خداوندعالم کے وجود کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ درج ذیل آیات میں حیوانات کی خلقت اور دوسرے دقیق نظام کو بیان کیا گیا ہے جن کے مطالعہ کے بعد انسان کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ حساب شدہ نظام یونھی اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوا۔

ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

( وَاللّٰهُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّاءٍ فَمِنْهُمْ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی اٴَرْبَعٍ یَخْلُقُ اللّٰهَ مَایَشَآءُ ) ( ۱۴ )

”اور خدا ہی نے تمام زمین پر چلنے والے (جانوروں) کو پانی سے پیدا کیا اوران میں سے بعض تو ایسے ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو دو پاؤں سے چلتے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں ، خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔“

( وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالاٴنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ ) ( ۱۵ )

”اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چار پایوں کی بھی رنگتیں طرح طرح کی ہیں“

( وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الاٴرْضِ وَلَا طٰٓٓائِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلاّٰ اُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ ) ( ۱۶ )

”زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان) یا اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا پرندہ ہے ان کی بھی تمھاری طرح جماعتیں ہیں“

( اَوَلَمْ یَرَوا اِلٰی الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰفٰتٍ وَیَقْبِضْنَ مَا یُمْسِکُهُنَّ اِلاَّ الرَّحْمٰنُ ) ( ۱۷ )

”کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اڑتے نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور سمیٹ لیتے ہیں کہ خدا کے سوا انھیں کوئی روکے نہیں رہ سکتا“

( وَالْاَنْعَامِ خَلَقَهَا لَکُمْ فِیْهَا دَفْ ء ٌوَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْکُلُوْنَ o وَلَکُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تَرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرِحُوْنَ o وَتَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَمْ تَکُوْنُوْا بَالِغَیْهِ اِلَّا بِشَقِّ الْاَنْفُسْ اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَو فٌ رَحِیْمْ o وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْهَا وَزِیْنَةً وَیَخْلُقُ مَا لٰا تَعْلَمُوْنَ ) ( ۱۸ )

”اسی نے چار پایوں کو بھی پیداکیا کہ تمھارے لئے ان (کی کھال اور اُون ) سے جاڑوں (کاسامان) ہے اس کے علاوہ اور بھی فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو اور جب تم انھیں سرِشام چرائی پر سے لاتے ہو جب سویرے ہی چرائی پر لے جاتے ہو تو ان کی وجہ سے تمھاری رونق بھی ہے اور جن شھروں تک بغیر بڑی جان کپھی کے پہنچ نہ سکتے تھے وھاں تک یہ چوپائے تمھارے بوجھ اٹھائے لئے پھرتے ہیں، اس میں شک نہیں کہ تمھاراپروردگار بڑا شفیق مھربان ہے اور (اسی نے) گھوڑوں ،خچروں اور گدھوں کو( پیدا کیا)تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (اس میں) زینت (بھی) ہے (اس کے علاوہ) اور چیزیں بھی پیدا کرے گا جن کو تم نہیں جانتے“

اقسام حیوانات

ماھرین علم نے حیوانوں کی بہت سی قسمیں بیان کی ہیں، اور ان حیوانوں کے رہنے کی جگہ بھی مختلف ہے مثلاً: خشکی، دریا جن میں مختلف حیوانات رہتے ہیں اور ان حیوانات کے مختلف طریقوں کے ساتھ ایک بہت بڑا اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ ہر حیوان اپنی زندگی کے لئے ایک مخصوص گھر بناتا ہے او ران کی غذا بھی مختلف ہوتی ہے۔

یہ منھ ھاضمہ کے لئے سب سے پہلا مرحلہ ہے اور اس کے لئے ایک عظیم فکر کی گئی ہے جو فکر وتصمیم گیری کرنے والے اور ان چیزوں کے خلق کرنے والے کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔

ان حیوانات میں کچھ ایسے ہیں جو صحرائی اور جنگلی ہوتے ہیں جیسے شیر اور بھیڑئے ، ان کے لئے وھاں کوئی غذا نہیں ہوتی مگر جس کا وہ شکار کرلیں چنانچہ ان کے لئے تیز اور سخت دانت اور بہت طاقتور ھاتھ اورپیروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ شکار کرسکیں ،اسی طرح ان کے لئے پنجوںمیں طاقتور ناخن اور قوی ھاضمہ کا ہونا ضروری ہے تاکہ گوشت اور اپنے سخت کھانے کو ہضم کرسکےں۔

اور کچھ حیوانات ایسے ہیں جو چراگاہ میں زندگی گذارتے ہیں جن سے انسان خدمت لیتا ہے انسان ان کے قوام کے لئے نباتات اور چھوٹے چھوٹے درختوں اور گھاس وغیرہ کے ذریعہ غذا فراہم کرتا ہے، چنانچہ ان کے ھاضمہ کاسسٹم ان کے جسم کے لحاظ سے بنایا گیا ہے ،اسی وجہ سے ان کے منھ نسبتاً بڑے ہوتے ہیں، لیکن ان کا منھ کچھ مخصوص دانتوں سے خالی ہوتا ہے، جن کے بدلے ان کو اللہ نے ایسے دانت دئے ہیں جن کے ذریعہ مختلف درختوں اور گھاس وغیرہ کو بہت جلد کھا جاتے ہیں، اور اس کو ایک دفعہ میں نگل جاتے ہیں لیکن اس کے ہضم کے لئے عجیب مشین موجود ہے ،وہ جو کچھ بھی کھاتے ہیں وہ معدہ میں جاتا ہے جو کھانے کا مخزن ہے اور جب حیوان کھانا کھالیتا ہے اور آرام کے لئے بیٹھتا ہے تو پھر یہ کھانا معدہ سے ایک دوسرے” تجویف“نامی جگہ کی طرف چلا جاتا ہے اور پھراس معدہ کے منھ تک آتا ہے تاکہ ا سکو اچھی طرح کوٹ لے اس کے بعد پھر ایک دوسری تجویف میں چلا جاتا ہے اور پھر چوتھی بار بھی اسی طرح ہوتا ہے کیونکہ یہ تمام فعالیت حیوان کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے۔

چنانچہ آج کے سائنس کا کہنا ہے کہ حیوان کے جسم کے لئے جگالی کرنا نھایت ضروری اور حیاتی ہے کیونکہ گھاس کا ہضم ہونا ایک مشکل کام ہے کیونکہ اس میں ایسے اجزاء اور سلیلوز ہوتے ہیں جن پر سبزی کے خلیے کے غلاف ہوتے ہیںجن کو ہضم کرنے کے لئے حیوان کو کافی وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور اب اگر یہ حیوان جگالی نہ کرے اور اس کے لئے حیوان کے پاس مخزن نہ ہو تو اس صورت میں حیوان کا چارہ چرنے میں کافی وقت ضایع ہوگا یھاں تک وہ صبح سے شام تک بھی چرتا رھے گا تب بھی پیٹ نہ بھرے گالہٰذا حیوان کی غذا ہضم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایک ایسا مخزن ہو جس میں وہ اپنی غذا کو جگالی کے ذریعہ تحلیل کرے تاکہ بدہضمی کا شکار نہ ہو اور یہ غذا اس کے لئے سود مند ثابت رھے۔

لیکن پرندوں کے ھاضمہ کا سسٹم مذکورہ حیوانوں سے بالکل الگ ہوتاھے کیونکہ ہر پرندہ کی صرف ایک چونچ ہوتی ہے جس میں ہڈی نما دانت بھی ہوتے اوران کے نہ منھ ہوتا ہے اورنہ ہونٹ ہوتے ہیں چنانچہ پرندہ غذا کو بغیر چبائے کھاتا ہے۔

ان پرندوں کی غذا کی طرح ان کی چونچ بھی الگ الگ طرح کی ہوتی ہیں ان میں جو شکاری پرندے ہوتے ہیں ان کی چونچ قوی اور لمبی ہوتی ہے تاکہ گوشت کو خوب کوٹ لیں اور ”بطخ“ اور” ہنس“ کی چوڑی چونچ ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنی غذا مٹی اور پانی دونوں سے تلاش کرسکیں اور چونچ کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی کچھ اضافی چیز بھی ہوتی ہے (جس طرح چھوٹے چھوٹے دانت) جو ان کی غذا کے کاٹنے میں مدد کرتی ہیں لیکن چڑیا ،کبوتر اور دوسرے پرندوں کی چونچ چھوٹی ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے ہدف تک پهونچ سکیں۔

ان کے علاوہ بھی ہم اس مخلوقات کی عظیم او رمنظم چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں مثلاً حیوانات کے پیر، جن کی وجہ سے حیوان چلتا پھرتا، دوڑتااور بوجھ اٹھاتا ہے، کیونکہ یھی پیر حیوان کو تیز دوڑنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں اورحیوان کے ہر پیر میںکُھر ہوتے ہیں جو دوڑتے وقت احتمالی ضرر سے محفوظ رکھتے ہیں۔

لیکن گائے اور بھینس کے پیر چھوٹے اور مضبوط ہوتے ہیںجن میں کھُر ہوتے ہیں جو زراعتی اور نرم زمین پر چلنے میں مدد کرتے ہیں، اسی طرح اونٹ کے پیر اس قسم کے ہوتے ہیں جو اس کو ریت پر چلنے میں مدد کرتے ہیں اسی طرح اس کے پیروں پر موٹی اورسخت کھال ہوتی ہے جو اس کو کنکریوں اور ریت پر بیٹھنے میں مدد کرتی ہے۔

اسی طرح پرندوں کے پیر بھی ان کی طبیعت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں چنانچہ ان میں سے بعض گوشت خوار ہوتے ہیں اور ان کے پنچے سخت او رمضبوط ہوتے ہیں تاکہ وہ شکار کرنے میں ان کی مدد کریں جیسے باز اور گدھ،لیکن وہ پرندے جو اناج اور دیگر دانے وغیرہ کھاتے ہیں جیسے مرغ اور کبوتر ان کے پنچوں میں ا یسے ناخن ہوتے ہیں جن سے صرف زمین کھود سکتے ہیں (تاکہ اس میں چھپے دانوں کو نکال سکےں)، لیکن وہ حیوانات جو اپنی غذا پانی میں تلاش کرنے پر مجبور ہیں ان کی انگلیوں کے درمیان ایک پردہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ پانی میں تیر کر اپنی غذا تلاش کرتے ہیں۔

اسی طرح انھی عجیب وغریب خلقت میں سے مینڈھک کی خلقت بھی ہے ، کیونکہ اس کی زبان دوسرے زندہ موجودات سے لمبی ہوتی ہے اور اس کی لمبائی اس کے قدکے نصف ہوتی ہے اور اس میں چپک ہوتی ہے جس سے وہ مکھیوں کا آسانی سے شکار کرتا ہے، کیونکہ مینڈھک بالکل کوئی حرکت نہیں کرتا مگر یہ کہ مکھی اس کے قریب ہوجائے اور جب زبان باھر نکالتا ہے تو اپنے سامنے موجود مکھیوں کا شکار کرلیتا ہے۔

اور واقعاً مینڈھک میں یہ بات کتنی عجیب ہے کہ اگر اس میں وہ گردن نہ ہوتی جس سے وہ اپنے سر کو حرکت دے کر اپنے اطراف میں دیکھتا ہے تو پھر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں جو چاروں جانب (گردن کے حرکت کرنے کی بنا پر) حرکت کرتی ہیں۔

قارئین کرام ! آج کے سائنس نے یہ بات کشف کی ہے کہ اکثر پستاندار " Mammals "حیوانات میں” قوہ شامہ“ (سونگھنے کی قوت)قوی ہوتی ہے برخلاف قوت باصرہ کے، جبکہ پرندوں میں دیکھنے کی قوت زیادہ تیز اور قوی ہوتی ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ حیوانات کی غذا معمولاً زمین پر ہوتی ہے اور وہ اس کو سونگھ کر حاصل کرسکتے ہیں لیکن پرندے معمولاً آسمان میں پرواز کرتے ہیں لہٰذا ان کو اپنی غذا کی تلاش میں تیز آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ دور سے اپنی غذا کو دیکھ سکیں۔

لیکن ”مُحّار“(ایک دریائی حیوان) جس کی آنکھیں ہماری طرح ہوتی ہیں البتہ ہماری صرف دو آنکھیں ہوتی ہیں لیکن اس کی کئی عدد ہوتی ہیں اور ان میں لاتعداد چھوٹی چھوتی پتلیاں ہوتی ہیں جن کا احصاء ممکن نہیں ، اور کھا یہ جاتا ہے کہ ان کی مدد سے داہنے سے اوپر کی طر ف دیکھ سکتی ہیں، اور چھوٹی چھوٹی پتلیاں انسانی آنکھوں میں نہیں پائی جاتیں، تو کیا یہ پتلیاں اس محار میں اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ اس میں انسان کی طرح سوچنے کی صلاحیت نہیں ہوتی؟ اسی طرح کھا یہ جاتا ہے کہ بعض حیوانوں میں دو آنکھیں اور بعض میں ہزار آنکھیں ہوتی ہیں جو سب کی سب الگ ہوتی ہیں تو کیا طبیعت علم مرئیات میں اتنے عظیم مرتبہ پر فائز ہے۔؟! یعنی کیا یہ تمام کی تمام دقیق اور حساب شدہ چیزیں بغیر کسی خالق کے وجود میں آسکتی ہیں؟!!

اسی طرح مچھلی میں عجیب وغریب حس پائی جاتی ہے جس کی بنا پر دریاؤں کے پتھروں اور دوسری چیزوں سے نہیں ٹکراتی ، چنانچہ بعض ماھرین نے اس سلسلہ میں غور وخوض کرکے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ مچھلی کے دونوں طرف ایک طولانی خط (لکیر) ہوتا ہے ، جبکہ یہ خط اتنا باریک ہوتا ہے کہ صرف دوربین ہی کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے اور اس میں قوت حس کے بہت سے اعضاء ہوتے ہیں چنانچہ مچھلی انھیں کے ذریعہ پتھر یا کسی دوسری چیز کا احساس کرلیتی ہے جب پانی پتھروں اور دوسری چیزوں سے ٹکراتا ہے اور یہ پتھر وغیرہ کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل دیتی ہے۔

اسی طرح چمگادڑکی خلقت بھی کتنی عجیب وغریب ہے جیسا کہ ماھرین نے اس پر توجہ دلائی ہے، یہ چمگادڑ رات میں اڑتا ہے لیکن اپنے راستہ میں کسی مکان ، درخت یا کسی دوسری چیز سے نہیں ٹکراتا،چنانچہ اٹلی کے ایک ماھراور سائنسداں نے اس کی قدرت کے سلسلہ میں تحقیق کی، اس نے ایک کمرے میں کچھ رسیاں باندھیں، ہر رسی میں ایک چھوٹی گھنٹی باندھی کہ اگر رسی سے کوئی بھی چیز ٹکرائے تو وہ گھنٹی بجنے لگے ، اس کے بعد اس نے کمرے کو بالکل بند کردیا اور اس میں چمگادڑ کو چھوڑ دیا چنانچہ چمگادڑ اس کمرے میں اڑنے لگا لیکن کسی بھی گھنٹی کی کوئی آواز سنائی نہ دی، یعنی وہ کسی بھی رسی سے نہیں ٹکرایا ، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ چمگادڑ میں ایسی طاقت ہوتی ہے کہ جب وہ اڑتاھے تو اس کے اندر سے ایک ایسی آواز نکلتی ہے جو کسی بھی چیز سے ٹکراکر واپس آتی ہے اور اسی واپس آئی آواز کے ذریعہ وہ اس چیز کا احساس کرلیتا ہے ، پس ثابت یہ ہوا کہ اس کے احساس کا طریقہ بالکل ”راڈار“ کی طرح ہے۔

اسی طرح اونٹ کی خلقت بھی بڑی عجیب ہے،چنانچہ اس کو خدا کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

( اٴفَلاٰ یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ ) ( ۱۹ )

”تو کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف غور نہیں کرتے کہ کیسا (عجیب) پیدا کیا گیا ہے“

چونکہ اونٹ کی زندگی زیادہ تر جنگل اور ریگستان میں بسر ہوتی ہے چنانچہ خداوندعالم نے اس کو ایسا خلق کیا ہے جس سے وہ ایک طولانی مدت تک بغیر کچھ کھائے پئے رہ سکے، اور اپنی بھوک وپیاس پر کافی کنٹرول رکھ سکے۔

اسی طرح اونٹ کی لمبی اور گھنی پلکیں ہوتی ہیں جن کی بنا پر شدید طوفان او رآندھی میں بھی اپنی آنکھیں کھولے رکھتا ہے اور اس کی آنکھیں محفوظ رہتی ہیں ، اور جس طرح ہم آندھی کے وقت اپنی آنکھوں کے بند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں وہ اپنی آنکھوں کو بند کرنے پر مجبور نہیں ہوتا۔

اسی طرح اس کے پاؤں اس طرح نرم ہوتے ہیں جن سے وہ ریت پر آسانی سے چل سکتا ہے اور اس کے پیر ریت اور ریگستان میں نہیں دھنستے، اور اس کی ناک بھی آندھی کے وقت کھلی رہتی ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی گرد وغبار نہیں جاتا، اور اس کا اوپر والا ہونٹ نکلا ہوا ہوتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ کانٹوں والی گھاس وغیرہ کا آسانی سے پتہ لگاسکے۔

اسی طرح چیونٹی کی خلقت بھی کتنی عجیب ہے چنانچہ چیونٹی میں بہت سی خدا کی نشانیاں بتائی جاتی ہیں، کیونکہ اس میں فہم وادراک، صبراور احساس اس قدر ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کے چھوٹے سے جسم اور حجم کو دیکھنے کے بعد نہیں سمجھ سکتا، اور شاید آج کی بہت سی جدید چیزیں اسی میں غور وفکر کرنے سے وجود میں آئی ہیں کیونکہ اس کی خلقت میں بہت ہی دقت اور نظم وترتیب کا لحاظ رکھاگیا ہے۔

چنانچہ بعض چیونٹی سردی کے زمانہ میں دوسری ان چیونٹیوں کے لئے کھانے دانے کا انتظام کرتی ہیں جو باھر نہیں نکل سکتیں، اسی طرح ان میں سے بعض وہ ہوتی ہیں جو دانوں کاآٹا بناتی ہیںاور وہ ہمہ وقت اسی کام میں مشغول رہتی ہیں۔

اور بعض چیونٹیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی فطرت میں کھانا کھانے کا مخصوص گھر بنانے کا میلان ہوتا ہے ، جن کو کھانے کا باغیچہ کھا جاسکتا ہے اور وھاں پر مختلف کیڑے مکوڑوں کا شکار کرکے لاتی ہیںاور وھاں پر آرام سے بیٹھ کر کھاتی ہیںان میں سے بعض ان شکار شدہ کیڑے مکوڑوں کے اندر سے ایک طریقہ کا رس نکالتی ہیں جو شہد کے مشابہ ہوتا ہے تاکہ اس کا کھاتے وقت مزہ لیں۔

اسی طرح ان میں سے بعض وہ بھی ہوتی ہیں جو اپنے گروہ کوایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں اور ان میں محافظ کا کام کرتی ہیں ، نیز بعض چیونٹیاں اپنے لئے گھر بنانے کی ذمہ داری نبھاتی ہیں جبکہ دوسری چیونٹیاں اس طرح کے پتّے کاٹتی ہیں جو ان کے اندازہ کے مطابق ہوتے ہیں،اور ان میں سے بعض اپنے گھر کے اردگرد پھرہ داری کرتی ہیں۔

قارئین کرام ! ان تمام تفصیلات کے پیش نظر کیا مادہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اتنی دقیق چیزوں کو پیدا کرے جن میں ایک چیونٹی بھی ہے جو اتنے دقیق حساب وکتاب سے رہتی ہے؟

پس ان تمام چیزوں کے پیش نظر حیوانات قابل توجہ ہیں چنانچہ قرآن مجید نے اس بارے میں پہلے ہی بیان کردیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:

( حَتَّی إِذَا اٴَتَوْا عَلَی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ یَااٴَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لاَیَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ) ( ۲۰ )

”یھاں تک کہ جب (ایک دن) چیونٹیوںکے میدان میں آنکلے توایک چیونٹی بولی اے چیونٹیو ! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمھیں روند ڈالے اور انھیں خبر بھی نہ ہو۔“

اس کے صدیوں بعد کھیں علم نے ان حقائق اور معلومات کو ثابت کیا ہے۔

قارئین کرام ! مذکورہ حیوانات کے علاوہ اور بھی بہت سی مختلف قسم کے حیوانات اور جانور ہوتے ہیں،مثلاً یھی مرغ جس سے ہم زیادہ سروکار رکھتے ہیں ان کی آواز بھی مختلف ہوتی ہے چنانچہ جب مرغی چھوٹے بچوں کو دانے ملنے کی بعد آواز لگاتی ہے تو اس کی آواز اور ہوتی ہے اسی طرح جب ان کو اپنے گھر کی طرف بلاتی ہے تو اس کی آواز کچھ اور ہوتی ہے۔

اسی طرح شہد کی مکھی جب کھیں پھولوں والی زمین میں جاتی ہے تو اپنے ایک خاص انداز میں گھومتی ہے جیسے انگریزی میں "۸"کا ہوتا ہے اور پھول میں شہد ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرلیتی ہے۔

چنانچہ ایک ماھر دانشور جس نے چیونٹی کے متعلق تحقیق کی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے ایک چیونٹی کو اپنے بل سے دور دیکھا جس نے اپنے ڈنک سے ایک مکھی کاشکار کیا اور اس کو تھوڑی دیر کے لئے وھیں پر ڈال دیا تقریباً بیس منٹ بعد جب اس کومکھی کے مرنے کا یقین ہوگیا تو اس کو اٹھاکر اپنے بل کی طرف چلنا شروع کیا ، لیکن جب اس میں لے جانے کی طاقت نہ رھی تو اس نے تنھا جاکراپنے ساتھیوں کو باخبر کیا تو ان چیونٹیوں کا ایک گروہ اس کے ساتھ نکلا یھاں تک کہ سب نے مل کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے اور پھر سبھوں نے اس کے مختلف اجزاء کو اٹھایا،اور اپنے بل میں لے گئیں، اب یھاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پہلی چیونٹی ،تنھا بغیر کچھ لئے اپنے بل میں گئی تو اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کو دیکھ کر دوسری چیونٹیوں کو اس شکار کے بارے میںمعلوم ہوتا تو پھر اس چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو کس زبان میں باخبر کیا کہ میںنے ایک بہترین شکار کیا ہے آؤ مدد کرو تاکہ اس کو اپنے بل میں لے آئیں۔(پس معلوم ہوا کہ ان کی بھی ایک خاص زبان ہے جس سے وہ سمجھتی اور سمجھاتی ہیں)۔

اسی طرح آپ ھاتھی کی خلقت پر غور کریں تو اس میں بھی عجیب وغریب قدرت کے آثار ملاحظہ کریں گے مثلاًھاتھیوں کا جھنڈ جب ایک ساتھ چلتا ہے تو ان کے درمیان سے مسلسل ہمہمہ کی آواز آتی رہتی ہے لیکن جب یھی ھاتھی اپنے گروہ سے جدا ہوکر الگ الگ چلتے ہیں توان کی وہ آواز ختم ہوجاتی ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟!۔

اسی طرح جناب کوے کی آواز کس قدر مختلف اور بامفهوم ہوتی ہے چنانچہ وہ خطرہ کے وقت رونے جیسی آواز نکالتا ہے تاکہ اس کے دوسرے ساتھی خطر ہ سے مطلع ہوجائیں ، اور یھی کوا جب کوئی خوشی کامقام دیکھتا ہے تو ایسی آواز نکالتا ہے جو قہقہہ اور ہنسی سے مشابہت رکھتی ہے۔

قارئین کرام ! حیوانات میں کوئی ایسی زبان نہیں ہے جس کو سب سمجھتے ہوں ، بلکہ ان میں سے ہر صنف کی الگ الگ زبان ہوتی ہے، مثلاً آپ مکڑی کو دیکھیں ، یہ جب جالا بناتی ہے تو اس جالے کے تار ان کے درمیان گفتگو کاوسیلہ بنتے ہیں، چنانچہ کھا جاتا ہے کہ جب جالے کے ایک طرف مذکر اور دوسری طرف مونث ہو تو اسی جالے کے تارکے ذریعہ ان کے درمیان تبادلہ خیالات ہوتا ہے،اور اس کی مادہ اپنے شوھر کے استقبال کے لئے اسی جالے کے تار کے ذریعہ رابطہ قائم کرتی ہے، جس طرح آج کل فون کے ذریعہ گفتگو کی جاتی ہے۔

اور جب ہم مرغی کو دیکھتے ہیں تو اس کے اندر الٰھی شاہکار کی بہت سی عحیب وغریب نشانیاں پاتے ہیں، چنانچہ ہمارے لئے درج ذیل حقائق پر نظرکرکے خالق خائنات کی معرفت حاصل کرنا ہی کافی ہے:

ایک امریکی ماھر نے مرغی کے انڈے سے بغیر مرغی کے بچہ نکالنا چاھا ،چنانچہ اس نے انڈے کو ایک مناسب حرارت (گرمی) میں رکھا ، جس مقدار میں مرغی انڈے کو حرارت پهونچاتی ہے ، لہٰذا اس نے چند عدد انڈوں کو جمع کرکے ایک مشین میں رکھا ،وھاں موجود ایک کاشتکار نے اس کو بتایا کہ انڈوں کو الٹتا پلٹتا رھے، کیونکہ اس نے مرغی کو دیکھا ہے کہ وہ انڈوں کو الٹتی پلٹتی رہتی ہے، لیکن اس ماھر نے اس کاشتکار کا مذاق اڑاتے ہوئے کھا کہ مرغی اس لئے انڈے کو بدلتی ہے تاکہ اپنے جسم کی گرمی انڈے تک پهونچاتی رھے،الغرض اس نے انڈوں کو چاروں طرف سے حرارت پهونچانے والی مشین میں رکھا لیکن جب انڈوں سے بچے نکلنے کا وقت آیا تو کوئی بھی انڈا نہ پھٹا تاکہ اس سے بچہ نکلتا، (وہ حیران ہوگیا) اور دوبارہ اس نے کاشتکار کے کہنے کے مطابق انڈوں کو مشین میں رکھ کر بچے نکلنے کی مدت تک ان کو الٹتا پلٹتا رھا، چنانچہ جب ان کا وقت آیا تو انڈے پھٹ گئے اور ان سے بچے نکل آئے۔

مرغی کے انڈوں سے بچے نکلنے میں الٹ پلٹ کرنے کی ایک دوسری علمی وجہ یہ ہے کہ جب انڈے کے اندربچہ بن جاتا ہے تو اس کی غذائی موادنیچے کے حصہ میں چلی جاتی ہے اب اگر اس کو مرغی نہ گہمائے تو وہ انڈا پھٹ جائے ، یھی وجہ ہے کہ مرغی پہلے اور آخری دن انڈوں کو نہیں پلٹتی کیونکہ اس وقت پلٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، پس کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان اسرار کو وہ بغیر کسی الٰھی الھام کے سمجھتی ہے، جس کے سمجھنے سے انسان بھی قاصر ہے؟

چنانچہ یھی الٰھی الھام ہے جس کی بنا پر پانی میں رہنے والے جانور بالخصوص سانپ اپنی جگہ سے ہجرت کرکے دور درازگھرے سمندروں میں جیسے ”جنوبی برمودا “ چلے جاتے ہیں ، پس یہ کتنی عجیب مخلوق ہے کہ جب ان کا رشد ونمو مکمل ہوجاتا ہے تو دریاؤں سے ہجرت کرکے مذکورہ سمندروں میں چلے جاتے ہیں ،وھیں انڈے دیتے ہیں اور کچھ مدت کے بعد مرجاتے ہیں لیکن ان کے بچے جو اس جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ کو نہیں پہنچانتے یہ لوگ اس راستہ کی تلاش میں رہتے ہیںکہ جدھر سے ان کے والدین آئے تھے، اس کے بعد سمندری طوفان اور تھپیڑوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آبائی وطن پهونچ جاتے ہیں اور جب ان کا رشد ونمومکمل ہوجاتا ہے تو ان کو ایک مخفی الھام ہوتا ہے کہ وہ جھاں پیدا ہوئے تھے وھی جائیں ، لہٰذا ان چیزوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کون سی طاقت ہے جو ان کو اس طرح کا الھام عطا کرتی ہے؟!، چنانچہ یہ کھیں نہیں سنا گیا ہے کہ امریکی سمندروں کے سانپ یورپی سمندر میں شکار کئے گئے ہوں، یا اس کے برعکس، اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ یورپی سانپوں کا رشد دیگر سانپوںکی بنسبت ایک سال یا اس سے زیادہ کم ہوتا ہے، کیونکہ یہ لوگ طولانی مسافت طے کرتے ہیں۔

بھرحال ان تمام چیزوں پر غور کرنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سانپوں کے اندر یہ طاقت اور فکرکھاںسے آئی جس کی بناپر یہ سب اپنی سمت، سمندر کی گھرائی وغیرہ کو معین کرتے ہیں،لہٰذا کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب ”بے جان مادہ“کی مخلوق ہیں؟!!

اسی طرح الٰھی الھام کی وجہ سے مختلف پرندے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو اپنے والدین کی طرح اپنے لئے الگ آشیانہ بناتے ہیں اور وہ بھی بالکل اسی طرح جس میں وہ رہتے چلے آئے ہیں، یعنی ان کے گھونسلوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔

یھی الٰھی الھام ہے کہ جس کی بنا پر بعض حیوانات کے اجزاء کٹنے یا جلنے کے بعد دوبارہ اسی طرح سے بن جاتے ہیں، مثلاًجب سمندری سرطان (کیکڑا) اپنے جسم کے پنجوں کو ضائع کربیٹھتا ہے تو جلد ہی ان خلیوں کی تلاش میں لگ جاتا ہے جو اس کے پنجوں کی جگہ کام کریں اور جب خلیے بھی ناکارہ ہوجاتے ہیں تووہ سمجھ جاتا ہے کہ اب ہمارے آرام کرنے کا وقت آپہنچاھے، اور یھی حال پانی میں رہنے والے دیگر جانوروں کا بھی ہے۔

اسی طرح ایک دریائی حیوان جس کو ”کثیر الارجل“(بہت سے پیر والا)کہتے ہیں اگر اس کے دوحصہ بھی کردئے جائیں تو اس میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ اپنے باقی آدھے حصے سے دوسرا حصہ بھی مکمل کرلے۔

اسی طرح ”دودة الطعم“نامی کیڑے کی اگر گردن کاٹ دی جائے تووہ اس سر کے بدلے میں ایک دوسرا سر بنا لیتا ہے، جس طرح جب ہمارے جسم پر کوئی زخم ہوجاتا ہے یا گوشت کا ٹکڑا الگ ہوجاتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ صحیح ہوجاتا ہے اور جب یہ زخم بھرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ خلیے کس طریقہ سے حرکت کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں نیا گوشت، نئی ہڈی اور نئے ناخن یا کوئی دوسرا جز بن جاتا ہے۔

قارئین کرام ! حشرات کی دنیا بھی کیا چیز ہے چنانچہ اس میں غور وفکر کرنے کے بعد انسان کو تعجب ہوتاھے، اور شاید ان کی ”شناخت غرائز“ کے بعد ان کی تفصیل ہمارے سامنے مجسم ہوجائے۔

کیونکہ ”ابو دقیق “ حشرہ جو کرم کلے (بندگوبھی) میں پایا جاتا ہے اور اس میں انڈے دیتا ہے جبکہ وہ بند گوبھی کو نہیں کھاتا لیکن اس کے اندر ایک ایسا غریزہ ہوتا ہے جس کی بناپر اس کا انتخاب کرتا ہے ، چنانچہ جب اس کے انڈوں سے بچے نکلتے ہیں وہ بند گوبھی کو کھاجاتے ہیں ، پس معلوم یہ ہوا کہ یہ کیڑاانڈے دینے کے لئے بند گوبھی کا اس لئے انتخاب کرتا ہے تاکہ اس کے بچوں کو مخصوص غذا مل سکے۔

تو کیا یہ ابو دقیق نامی کیڑا اس مسئلہ کو عقلی طور پر سمجھتا ہے؟!

اسی طرح ”زنبور الطین“ (انجن ھاری،جس کو کمھاری بھی کہتے ہیں) جو کیڑے مکوڑوں کا شکار کرتی ہے اور اپنے مٹی کے چھتے میں لے جاتی ہے تاکہ کھانے کے لئے گوشت جمع رھے، اوراس کے بعداس پر ایک انڈا دیتی ہے، اس کو اپنے گھر میں رکھ دیتی ہے ، پھر گارے مٹی کی تلاش میں نکلتی ہے جب اس کو مل جاتی ہے تو اس سے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیتی ہے تاکہ جب انڈے پھٹنے کا وقت آئے اور بچے باھر نکلےں تو ان کا کھانے پہلے سے موجود رھے۔

اسی طرح وہ مچھر جو پانی پر اپنے انڈے دیتے ہیںلیکن کبھی بھی اس کے انڈے بچے پانی میں ضایع نہیں ہوتے تو کیا یہ مچھر قوانین ”ارشمیڈس“کو جانتا ہے۔

اسی طرح وہ حشرہ جس کو علم حشرات میں ”قاذفة القنابل“ کہتے ہیں جو پھاڑ کھانے والے حیوانات کے آگے آگے بغیر کسی خوف وھراس کے چلتا ہے اور اگرکسی جانور نے اس کو کھانے کے لئے منھ کھولا تو اپنے پیٹ پر موجود ایک تھیلی کو فشار دیتا ہے تاکہ اس سے تین قسم کے غدے نکلےں جس میں ”ھیڈروکینون“ ، ”فوق اکسیڈھیڈ روجین“ اور ”ازیم خاص“ اور جب یہ تینوں چیزیں مخلوط ہوتی ہیں تو ان میں سے ایک قسم کا گیس نکلتا ہے جس کی وجہ سے وہ درندہ حیوان بھی ڈر کی وجہ سے بھاگنے لگتا ہے ، تو کیا اس حشرہ اور کیڑے نے علم کیمسٹری میں کامبرج یونیورسٹی سے ڈیپلم" Diploma " کیا ہے؟!!

اسی طرح ابریشم کے کیڑے ، جو نھایت ہی باریک جال بناتے ہیں۔اور اسی طرح وہ جگنو جو رات میں روشنی پھیلاتا پھرتا ہے تاکہ روشنی پر آنے والے چھوٹے چھوٹے کیڑوں کا شکار کرسکے۔

نیز اسی طرح پانی کے کچھ خاص کیڑے جو چند میٹر پانی میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر آسمان میں بھی کافی اوپر اڑلیتے ہیں۔

اسی طرح وہ تتلی جس کے پر بہت ہی نازک اور شفاف ہوتے ہیں جب ان پر روشنی پڑتی ہے تو وہ نیلے رنگ کے دکھائی پڑتے ہیں، اور اگر اس میں دسیوں ہزار میں سے ایک جز بھی متغیر ہوجائے تو پھر اس کی روشنی میں بھی فرق آجائے گا یا بالکل ختم ہوجائے گی۔

قارئین کرام ! یھاں تک ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ حیوانات کی دنیا واقعاً عجیب وغریب ہے جن کی خلقت اور نوآوری وغیرہ کو دیکھنے کے بعد(اگرچہ حیوانات کے صفات اس مختصر کتاب میں کماحقہ بیان نہیں کئے جاسکتے) انسان اس نتیجہ پر پهونچتا ہے :

) ِ صُنْعَ اللهِ الَّذِی اٴَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ إِنَّهُ خَبِیرٌ بِمَا تَفْعَلُون ) ( ۲۱ )

”(یہ بھی ) خدا کی کاریگری ہے کہ جس نے ہر چیز کو خوب مضبوط بنایا ہے بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اس سے وہ خوب واقف ہے۔“

تعالیٰ الله یقول المنکرون الجاحدون علوا کبیرا

قارئین کرام ! ہم یھاں پر ان آیات کریمہ کو بیان کرتے ہیں جو خداوند عالم کے وجود پربہترین دلیل ہیں ،جن میں انسان کونباتات،آسمان سے بارش ہونے اور زمین وآسمان کے درمیان موجودعجائبات میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے، کیونکہ ان تمام چیزوں کا اس قدر دقیق اور خصوصیات کے ساتھ پایا جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ صفات ان میں خود بخود نہیں پائے جاتے بلکہ ان سب کو مذکورہ صفات عطا کرنے والا خدوندعالم ہے۔

ارشاد خداوندعالم ہوتا ہے:

( اٴَفَرَاٴَیْتُمْ مَا تَحْرُثُون اٴَاٴَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ اٴَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا ) ( ۲۲ )

”بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم لوگ بوتے ہو کیا تم لوگ اسے اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں، اگر ہم چاہتے تو اسے چور چور کردیتے ۔۔۔۔“

( اٴَفَرَاٴَیْتُمْ النَّارَ الَّتِی تُورُونَ اٴَ اٴَنْتُمْ اٴَنشَاٴْتُمْ شَجَرَتَهَا اٴَمْ نَحْنُ الْمُنشِئُونَ ) ( ۲۳ )

”توکیا تم نے آگ پر بھی غور کیا جسے تم لوگ لکڑی سے نکالتے ہو کیا اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں۔“

( وَهو الَّذِی اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ فَاٴَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاکِبًا وَمِنْ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ اُنْظُرُوا إِلَی ثَمَرِهِ إِذَا اٴَثْمَرَ وَیَنْعِهِ إِنَّ فِی ذَلِکُمْ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُون ) ( ۲۴ )

”اور وہ وھی (قادر وتوانا) ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر چیز کے کوئے نکالے پھر ہم ہی نے اس سے ھری بھری ٹہنیاں نکالیں کہ اس سے ہم باہم گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور چوھارے کے درخت سے لٹکے ہوئے گچھے (پیدا کئے) اور انگور اور زیتون اور انار کے باغات جو باہم صورت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (مزے میں) جداجدا ،جب یہ پہلے او رپکے تو اس کے پھل کی طرف غور تو کرو بے شک اس میں ایماندارلوگوں کے لئے بہت سی (خداکی ) نشانیاں پائی جاتی ہیں۔“

( الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ مَهْدًا وَسَلَکَ لَکُمْ فِیهَا سُبُلاً وَاٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ اٴَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّی ) ( ۲۵ )

”وہ وھی ہے جس نے تمھارے( فائدہ کے واسطے)زمین کو بچھونا بنایا اور تمھارے لئے اس میں راھیںنکالیں اور اس نے آسمان سے پانی برسایا پھر (خدا فرماتا ہے کہ )ہم ہی نے اس پانی کے ذریعہ مختلف قسموں کی گھاسیں نکالیں۔“

( اٴَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَاٴَنزَلَ لَکُمْ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا کَانَ لَکُمْ اٴَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا اٴَ ء ِلَهٌ مَعَ اللهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَعْدِلُونَ ) ( ۲۶ )

”بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے واسطے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم ہی نے پانی سے دلچسپ اور خوشنما باغ اگائے، تمھارے تو یہ بس کی بات نہ تھی کہ تم ان سے درختوں کو اگاسکتے تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ؟ (ھر گز نھیں) بلکہ یہ لوگ خود( اپنے جی سے گڑھ کے بتوں کو)اس کے برابربناتے ہیں۔“

قارئین کرام ! نباتات کی دنیا بھی کس قدر عجیب ہے چنانچہ زمین شناسی (جیولوجی) " Geological "کے ماھرین اس بارے میں ہمیشہ بررسی وتحقیق میںمشغول ہیں کیونکہ وہ ہر روز ایک نہ ایک نئی چیز کشف کرتے ہیں۔

اورجیسا کہ ماھرین نے بیان کیا ہے کہ نباتات کی تقریباً پانچ لاکھ قسمیں ہیں اور وہ ترکیب اورتزویج اور عمر کے لحاظ سے مختلف ہیں کیونکہ انھیں نباتات میں سے وہ بھی ہیں جن کی عمر کچھ دن کی ہوتی ہے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن کی عمر کچھ سال ہوتی ہے اور ان میں سے بعض کی عمر انسان کے کئی برابر ہوتی ہے۔

معمولاً نباتات وھاں پیدا ہوتی ہیں جھاں پر ان کے لئے مناسب اسباب موجود ہوں ، ان کے بیج طولانی مدت تک باقی رہتے ہیں کیونکہ جب تک ان کے لئے مناسب پانی اور مناسب گرمی موجود نہ ہوں تب تک پیدا نہیں ہوتیں، (جیسا کہ معلوم ہے کہ نباتات میں سے ہر ایک معین گرمی میں پیدا ہوتی ہیں) اسی طریقہ سے ان کے لئے ہوا کا بھی ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ اسی کی بدولت زندہ رہتی ہے اور اسی سے سانس لیتی ہے۔

اور جب دانہ اگنا شروع ہوتا ہے، تو پہلے چھوٹی چھوٹی جڑیں پیدا ہوتی ہیں اس وقت وہ اپنی غذا کو خود دانہ سے حاصل کرتا ہے یھاں تک کہ اس کی جڑیں زمین میں پھیلنا شروع ہوتی ہیں اس وقت وہ اپنی غذا زمین سے حاصل کرتا ہے گویا وہ انسان اور حیوان کے بچوں کی طرح ہے کہ جب تک وہ شکم مادر میں رہتا ہے تو اس کی غذا اس کی مادر کے ذریعہ پهونچتی ہے ، اس کے بعد اس کے دودھ سے غذا پهونچتی ہے اور جب بچہ بڑا ہوجاتا ہے تو پھر وہ اپنی غذا میں خود مختار ہوجاتا ہے۔

قارئین کرام ! کیا ان تمام چیزوں کے ملاحظہ کرنے کے بعد کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ان تمام چیزوں کو خدا کے علاوہ کسی اور نے پیدا کیا ہے؟

اور نباتات کا غذائی سسٹم،جڑوںپر منحصر ہوتا ہے کیونکہ یہ جڑیں ہی غذائی سسٹم کا پہلا جز ہیں، اور جڑیں نباتات کی احتیاجات کی بنا پر مختلف ہوتی ہیں، پس ان میں سے کچھ گاجر جیسی اور بعض آلو جیسی اور بعض جالی نما ہوتی ہیں، جبکہ ان تمام ا ختلاف کے باوجود ایک ہی مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔اور یہ مقصد نباتات کا اپنے لئے غذا حاصل کرنا ہے۔

اورجب یہ جڑیں رشد کرتی ہیں تو اس پر موجود چھلکا زمین سے رطوبت حاصل کرکے اس کو جڑوں کے اوپرپهونچاتا ہے، اور یھاں سے نباتات تک غذا پهونچتی ہے جس کے ذریعہ وہ رشد کرتی ہیں اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ نباتات کے لئے روشنی، پانی اور دیگر ضروری عنصر کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے جیسے کاربن، " Carbon " آکسیجن، " Oxygen " فسفور " Phosphore "، ”کاربرائڈ“" Carbide " وغیرہ۔

یہ بات بھی ذہن نشین رھے کہ نباتات اپنے پتوں کے ذریعہ سانس لیتی ہیں جو ان کے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں چنانچہ نباتات حیوانوں اور انسانوں کی طرح انھیں پتوں کے ذریعہ آکسیجن،" Oxygen " کو حاصل کرتی ہیں اور کاربن اکسیڈ دوم " Carbon oxide "کو نکالتی ہے،اور نباتات کے سانس لینے سے گرمی میں کمی پیدا ہوتی ہے اور نباتات کا عملِ تنفس شب وروز جاری وساری رہتا ہے، مگر اس کا نتیجہ دن میں عمل کاربن کے مقابلہ میں ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ عمل کاربن کو نباتات عمل تنفس سے زیادہ جلدی انجام دیتی ہیں پس آکسیجن نکلتا رہتا ہے اور کاربن ڈائی اکسیڈ دوم" Carbon Dioxide " کو حاصل کرتا ہے۔

چنانچہ آج کے سائنس کا کہنا ہے کہ کاربن " Carbon " کا پیدا ہونا ہی ،ڈائی اکسیڈ کاربن " Carbon Dioxide " کی نابودی کے لئے کافی ہے ، اگر صرف اسی چیز پر اکتفا کی گئی ہوتی تو کافی تھا، لیکن خداوندعالم نے جو خالق عظیم ہے ایسی دوسری زندہ موجوات کوبھی خلق کیا جو اپنے سانس لینے میں کاربن اکسیڈ " Carbon oxide " نکالتی ہیں ، جیسا کہ مردہ جسم بھی کاربن اکسیڈ نکالتے ہیں نیز دیگر امور کی وجہ سے بھی یہ مادہ نکلتا ہے۔

چنانچہ اس کاربن اکسیڈ " Carbon oxide " کی نابودی میں کبھی کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوتی، بلکہ قدرت اور حکمت خدا کا تقاضا یہ ہے کہ فضا میں کاربن آکسائیڈ کی نسبت دس ہزار اجزا میں سے تین یا چار ہوتی ہے، اور اس نسبت کا اس مقدار میں موجود ہونا کائنات کی حیات کا سبب ہے ، اور (کاربن " Carbon " اور کاربن اکسیڈ" Carbon oxide " کی عملیات) میں ابھی تک کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب اس نسبت میں کوئی اختلاف ہوا ہو۔

چنانچہ بعض ماھرین کا کہنا ہے کہ اگرهوا میں آکسیجن،" Oxygen" % ۲۱ کے بجائے % ۵۰ ہوجائے تو اس کائنات میںجو چیزیں جلنے کے قابل ہیں ان سب میں آگ لگ جائے اور بجلی کی کوئی چنگاری اگر درخت تک پهونچ جائے تو وہ تمام آگ کی نذر ہوجائےں، اسی طرح اگر ہوا میں آکسیجن،" Oxygen" % ۱۰ یا اس بھی کم ہوجائے تو پھر تمام چیزوں کی زندگی خطرہ میں پڑجائے۔

تو کیا ان تمام تحقیقات کے بعد بھی کوئی انسان بے جان مادہ کوان تمام عجیب وغریب موجوات کا خالق کہہ سکتا ہے؟!!!

پانی کی خلقت

پانی ایک حیاتی اور ضروری مادہ ہے جو تمام ہی زندہ چیزوں کے لئے نھایت ضروری ہے:

( وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شیءٍ حَيٍّ ) ( ۲۷ )

”اور ہم ہی نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا “

لہٰذا پانی ضروریات زندگی میں سب سے اہم کردار رکھتاھے، اسی وجہ سے قرآن مجید نے اس عظیم نعمت پر غور وفکر کرنے کی دعوت ہے بلکہ کرہ زمین پر موجود پانی کو دیکھ کر تمام لوگوں کواس خالق کے وجود پر دلیل کو درک کرنے کی دعوت دی گئی ہے:

( اٴَفَرَاٴَیْتُمْ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَبُون اٴَاٴَنْتُمْ اٴَنزَلْتُمُوهُ مِنْ الْمُزْنِ اٴَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ اٴُجَاجًا فَلَوْلاَتَشْکُرُونَ ) ( ۲۸ )

”کیا تم نے پانی پر بھی نظر ڈالی جو (دن رات) پیتے ہو،کیا اس کو بادل سے تم نے برسایا یا ہم برساتے ہیں؟اگر ہم چاھیں تو اسے کھاری بنادیں تو تم لوگ شکر کیوں نہیں کرتے؟!

( وَمِنْ آیَاتِهِ یُرِیکُمْ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَیُنَزِّلُ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَیُحْیِ بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ) ( ۲۹ )

”اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے واسطے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کوآباد کرتا ہے “

چنانچہ پانی کے ماھرین کا کہنا ہے کہ سمندر ہی آب شیرین(پینے کامیٹھا پانی) کی بنیاد اور اساس ہے اگرچہ سمندر کا پانی بہت زیادہ نمکین ہوتا ہے جس کو زمین پر زندہ موجودات استعمال نہیں کرسکتی، لیکن خدا وندعالم نے اپنی موجودات کے لئے پانی کو بارش کے ذریعہ صاف وخوشگوار بنایا ہے کیونکہ بارش کے ذریعہ ہی یہ نمکین پانی صاف اورگورا بنتا ہے۔

خدا وندعالم آسمان سے بارش برساتا ہے:

( وَمَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَاٴَحْیَا بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ) ( ۳۰ )

”اور وہ پانی جو خدا نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو مردہ (بیکار) ہونے کے بعد جلا دیا(شاداب کردیا)

اور اگرخدا چاہتا تو یہ کھارا اور نمکین پانی اپنی پہلی والی حالت پر باقی رہتاجیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ۔

جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سمندر کے پانی کا نمکین ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ سمندر بہت وسیع اور گھرے ہوتے ہیں لیکن محدود اور بند ہوتے ہیں اور ان میں پانی بھرا رہتا ہے اور اگر یہ پانی نمکین نہ ہوتا تو ایک مدت کے بعد یہ پانی خراب اور بدبودار ہوجاتا۔

قارئین کرام ! ان کے علاوہ بھی پانی کی اہم خصوصیات ہوتی ہیں، مثلاً جب انسان سمندر کے پانی کو دیکھتا ہے تو اسے خدا کی قدرت اور اس کی تدبیر کا احساس ہوتا ہے، کیونکہ زمین کے تین حصے پانی ہیں تو اس سے ہوا او رگرمی پر بہت اثر پڑتا ہے، اور اگر پانی کے بعض خواص ظاہر نہ ہوں تو پھر زمین پر بہت سے حادثات رونما ہوجائیں، اور چونکہ پانی پانی ہے اور سالوں باقی رہ سکتا ہے اور پانی کی گرمی بھی زیادہ ہوتی ہے جو اوپر رہتی ہے جس کی بنا پر درجہ حرارت سطح زمین سے اوپر ہی رہتا ہے اور زمین میں سخت گرمی ہونے سے روکتاھے، اور یہ چیز زمین کو طولانی حیات کرنے میں مدد کرتی ہے جس کی وجہ سے سطح زمین پر موجود انسانوں (اور حیوانوں) کو فرحت ونشاط ملتی ہے۔

اسی طرح مذکورہ خواص کے علاوہ بھی پانی کی کچھ منفرد خاصیتیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کے خالق نے اس کو اس طرح اس لئے خلق کیا ہے تاکہ اس کی مخلوقات مکمل طریقہ سے فائدہ اٹھاسکے۔ پس پانی ہی وہ مشهورومعروف اورواحدمادہ ہے جسکی کثافت " Density " پانی کے جماد کے وقت سب سے کم ہوتی ہے اور اس کی یہ خاصیت زندگی کے لئے بہت اہم ہے، کیونکہ اسی کی وجہ سے جب سخت سردی کے موسم میں پالا پڑتا ہے تو وہ اس کو ختم کردیتا ہے بجائے اس کے کہ وہ پانی کے اندر جائے اور غرق ہوجائے اور وہ آہستہ آہستہ جم جاتا ہے لیکن یہ پالا پڑنا اس پانی کو برف بننے سے روک دیتا ہے اگرچہ ٹھنڈک کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ، اسی وجہ سے پانی میں موجود مچھلی او ردیگر حیوانات زندہ رہتے ہیں اور جب گرمی آتی ہے تو یہ پالا بہت جلد ختم ہوجاتا ہے۔

ان کے علاوہ بھی ہم پانی کے دوسرے عجیب فوائد کا ذکر کرسکتے ہیں، مثلاً نباتات کے لئے زمین کی سطح کو نرم کردیتا ہے، جس کی بنا پر نبات میں زمین کے اندر سے غذائی موادحاصل کرنے کے بعد رشد کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، چنانچہ یھی پانی ہے جو دیگر چیزوں کے اجسام کو نرم کرتا ہے ، اسی طرح پانی ہی وہ شے ہے جو انسان کے بدن میں داخل ہوکراس کے حیاتی مختلف عملیات میں مددگار ثابت ہوتا ہے، مثلاً خون یا خون کے مرکبات، اسی طرح پانی کا ایک بخار ہوتا ہے جس کی وجہ سے درجہ حرارت کم ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے پانی ایک طولانی مدت تک پانی کی شکل میں بہنے والا باقی رہتا ہے ورنہ تو گرمی کی وجہ سے خشک ہوکر ختم ہوجائے۔

قارئین کرام ! سمندر اور دریا خدا کی عظیم نشانیاں ہیں، چنانچہ ان میں خشکی سے زیادہ متعدد قسم کے حیوانات پائے جاتے ہیںاور اس کائنات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، مثلاً ایک مربع میٹر میں لاکھوں چھوٹے چھوٹے حیوانات پائے جاتے ہیں، جبکہ انھیں سمندروں میں بڑی بڑی مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں ، واقعاً خداوندعالم کا قول صادق اور سچا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَهو الَّذِی سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاٴْکُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون ) ( ۳۱ )

”اور وھی وہ خدا ہے جس نے دریا کو (بھی تمھارے) قبضہ میں کردیا تاکہ تم اس میں سے (مچھلیوں کا) تازہ تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے زیور (کی چیزیں موتی وغیرہ)نکالو جن کو تم پہنا کرتے ہو اور تو کشتیوں کو دیکھتا رھے کہ (آمد ورفت میں) دریا میں (پانی کو) چیرتی پھاڑتی آتی جاتی ہے اور (دریا کو تمھارے تابع) اس لئے کردیا کہ تم لوگ اس کے فضل (نفع وتجارت) کی تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔“

قارئین کرام ! یہ تو تھیں سمندر کی گھرائیوں کی باتیں اور اگر ہم اپنے اوپر وسیع وعریض نیلے آسمان پر دقت کے ساتھ غور وفکر کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ آسمان میں کس قدر چاند، سورج اور ستارے موجود ہیں ، اور اگر کوئی واقعاً ان میں غوروفکر کرے تو وہ بالکل دنگ رہ جائے گا اسی وجہ سے قرآن مجید نے اس طرف توجہ دلائی ہے تاکہ ہم ایک عظیم اور ہمیشگی نتیجہ پر پهونچ جائیں، اور وہ یہ کہ یہ تمام عجیب وغریب چیزیں اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان کا پیدا کرنا والا ”مادہ“ ہے:

( اٴَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ ) ( ۳۲ )

”کیا ان لوگوں نے آسمان وزمین کی حکومت اور خدا کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں غور نہیں کیا ؟!!“

( قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض ) ( ۳۳ )

”(اے رسول ) تم کہہ دو کہ ذرا دیکھو تو سھی کہ آسمانوں اور زمین میں (خدا کی نشانیاں) کیا کچھ ہیں۔۔۔“

( اٴَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَی السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاهَا وَزَیَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوج ) ( ۳۴ )

”تو کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نظر نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیونکر بنایا ہے اور اس کو (کیسی) زینت دی اور اس میں کھیں شگاف تک نھیں“

( اللهُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ) ( ۳۵ )

”خدا وھی تو ہے جس نے آسمانوں کو جنھیں تم دیکھتے ہو بغیر ستون کے اٹھاکھڑا کردیا۔۔۔“

( وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاهَا بِاٴَیدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ) ( ۳۶ )

”اور ہم نے آسمانوں کو اپنے بل بوتے سے بنایا اور بے شک ہم میں سب قدرت ہے“

( ِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی لِاٴَجَلٍ مُسَمًّی ) ( ۳۷ )

”اسی نے چاند اور سورج کو اپنی مطیع بنارکھا ہے کہ ہر ایک اپنے (اپنے) معین وقت پر چلاکرتا ہے“

ستاروں کی یہ کائنات کروڑوں ستاروں پر مشتمل ہے جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن بعض کو دوربین وغیرہ ہی کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کے وجود کا محققین وماھرین احساس کرتے ہیں لیکن ان کو دیکھا نہیں جا سکتا، لہٰذا ان تمام چیزوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد انسان دنگ رہ جاتا ہے، کیونکہ کوئی ایسا مقناطیسی سسٹم نہیں ہے جس کی بناپر ان کو ایک دوسرے سے قریب یا ایک دوسرے سے دور کردے،جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ کسی سمندر میں دو اسٹمیر " Steamer " ایک راستہ پر ایک ہی سرعت کے ساتھ چلتے ہیں اوران کا آپس میں ٹکرانے کا احتمال ہوتا ہے۔

چنانچہ آج کا سائنس کہتا ہے کہ روشنی کی رفتارفی سیکنڈ ۱۸۶۰۰۰ میل ہے، ان میں سے بعض ستاروںکی روشنی فوراً ہی ہم تک پہنچ جاتی ہے اور بعض کی روشنی مھینوں اور بعض کی سالوں میں پهونچتی ہے تو آپ اندازہ لگائیں یہ آسمان کتنا وسیع وعریض اور عجیب وغریب ہے۔؟!

تو کیا یہ تمام چیزیں یونھی اتفاقی طورپر اور بغیر کسی قصد وارادہ کے پیدا ہوگئیں؟! اور کیا یہ تمام چیزیں بغیر کسی بنانے والے کے بن گئیں؟! اور کیا ”مادہ“ ان تمام چیزوں کو اتنا منظم خلق کرسکتا ہے؟!!

( هَذَا خَلْقُ اللهِ فَاٴَرُونِی مَاذَا خَلَقَ الَّذِینَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ) ( ۳۸ )

”(اے رسول ان سے کہہ دو کہ ) یہ تو خدا کی خلقت ہے پھر (بھلا) تم لوگ مجھے دکھاؤ تو کہ جو (معبود) خدا کے سوا تم نے بنارکھے ہیں انھوں نے کیا پیدا کیا بلکہ سرکش لوگ (کفار) صریحی گمراھی میں (پڑے) ہیں۔“

قارئین کرام ! اس زمین کو خداوندعالم نے اس طرح خلق کیا ہے تاکہ اس پر مختلف چیزیں زندگی کرسکیںاور یہ زمین گھومتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ شب وروز وجود میں آئیں۔

اور یہ زمین سورج کے گرد بھی گھومتی ہے جس کی وجہ سے سال اور فصل بنتی ہیں ، جس کی بنا پر کرہ زمین پر موجودہ مختلف مقامات پر ساکنین کے لئے مساحت زیادہ ہوجائے، اور زمین پر نباتات کی فراوانی ہوسکے۔

زمین کا یہ گھومنا بہت ہی حساب شدہ ہے، چنانچہ نہ اس میں کمی ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اگر اس زمین کی موجودہ حالت میں کمی یا اضافہ ہوجائے توزندگی کا خاتمہ ہوجائے۔

اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس زمین پر گیس کا غلاف ہوتا ہے جو گیس زندگی کے لئے ضروری ہے، چنانچہ یہ گیس زمین سے / ۵۰۰ میل کے فاصلہ پر رہتی ہے اوریہ غلاف اتنا ضخیم ہوتا ہے ،جو آج کے دور میں ایک سیکنڈ میں تیس میل کی دوری کو تیزی کے ساتھ طے کرتا ہے۔

جس کی بناپر ان ستاروں کی گرمی کو کم کردیتا ہے کہ اگر یہ غلاف نہ ہو تو پھر زمین پر کوئی زندہ باقی نہ بچے، اور اسی غلاف کی وجہ سے مناسب گرمی ہم تک پهونچتی ہے اسی طرح اس زمین سے پانی کا بخار بھی بہت دور رہتا ہے تاکہ خوب بارش ہوسکے، اور مردہ زمین سبزہ زار بن جائے کیونکہ بارش ہی کی وجہ سے پانی اتنا صاف ہوتا ہے اور اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو پھر زمین چٹیل میدان نظر آئے اور اس میں زندگی بسرکرناغیر ممکن ہوجائے۔

اسی طرح پانی کا ایک اہم خاص امتیاز یہ ہے کہ وہ سمندر اور خشکی میں موجود تمام چیزوں کی حیات کی حفاظت کرتا ہے خصوصاً وہ برفیلے علاقے جھاں پر کڑاکے کی سردی ہوتی ہے کیونکہ پانی آکسیجن کی کافی مقدار کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے جب کہ آکسیجن کا درجہ حرارت کم ہو اور جو سمندر اور نھروں میں پانی کی سطح پر پالا ہوجاتا ہے اس کو یہ پانی ختم کردیتا ہے، کیونکہ نسبی طور پر خفیف ہوتا ہے پس اس بنا پر ٹھنڈے علاقے میں تمام پانی میں رہنے والے موجودات کازندگی گذار نا آسان ہوجاتا ہے، اور جب پانی جم جاتا ہے تو اس کے اندر سے کچھ حرارت نکلتی ہے جو سمندری حیوانات کی زندگی کی محافظت کرتی ہے۔

اب رھی خشک زمین تو یہ بھی بہت سی چیزوں کی حیات کے لئے بنائی گئی ہے ، چنانچہ اس میں ایسے بہت سے عناصر ہیں جو نباتات اور دوسری چیزوں کی حیات کی اہم ضرورت ہیں، جن سے انسان اور حیوانات کی غذا فراہم ہوتی ہے، چنانچہ بہت سے معادن زمین پر یا اس کے اندر پائے جاتے ہیں، اور اس سلسلہ میں بڑی بڑی کتابیںبھی لکھی گئی ہیں۔

اور اگراس زمین کا قُطر موجودہ قطر کے بجائے ایک چھارم ہوتا تو پھر اس کے اطراف میں موجود پانی اور فضائی دونوں غلاف کو یہ زمین اپنے اوپرروک نہ پاتی اور اس زمین پر اتنی گرمی ہوتی کہ کوئی بھی چیز زندہ نہیں رہ پاتی۔

اور اگر اس زمین کا اندازہ موجودہ صورت کے بجائے دوبرابر ہوتا اور اس زمین کی مساحت دوبرابر ہوتی ، اور اس وقت موجودہ زمینی جاذبہ دوبرابر ہوجاتا، جس کی بنا پر ہوائی غلاف کا نظام خفیف ہوجاتا، اور فضائی تنگی ایک کیلو گرام سے دو کیلوگرام فی مربع سینٹی میٹر ہوجاتی، اور یہ تمام چیزیں سطح زمین پر موجودہ تمام اشیاء کے لئے مو ثر ثابت ہوتیں، تو ٹھنڈے علاقے کی مساحت اور وسیع ہوجاتی، اور وہ زمین جو قابل سکونت ہے اس کی مساحت کافی مقدار میں کم ہوجاتی، چنانچہ ان وجوھات کی بناپر انسانی زندگی درہم وبرہم ہوجاتی۔

اسی طرح ا گرسطح زمین موجودہ مقدار سے زیادہ بلند ہو تو اس صورت میں یہ آکسیجن اور ڈائی اکسیڈ کاربن دوم " Carbon Dioxide "زیادہ جذب کرتی جس کی بنا پر نباتات کی زندگی تنگ ہوجاتی۔

اسی طریقہ سے اگر زمین کی سورج سے موجودہ دوری کو دوبرابر بڑھا دیا جائے تو اس کی سورج سے لی جانے والی موجودہ حرارت سے ایک چوتھائی کم ہوجائے گی اور اس صورت میں زمین کا سورج کے اردگرد چکر لگانا طولانی مدت طے پائے گا جس کی بنا پر سردی کا موسم بڑھ جائے گا اور سطح زمین پر رہنے والے موجودات کی زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔

اسی طرح سے اگرزمین اور سورج کے درمیان موجودہ مسافت کو کم کرکے نصف کردیا جائے تو موجودہ حرارت میںچار گنا اضافہ ہوجائے گا، اور گردش زمین سورج کے اطراف میں تیز ہوجائے گی، جس کی بنا پر زمین پر کسی بھی موجود کا زندہ رہنا ناممکن ہوجائے گا۔

یھاں تک کہ کرہ ارض کا میلان کہ جس کی مقدار ۲۳ زاویہ فرض کی گئی ہے یہ بھی بغیر مصلحت نہیں ہے کیونکہ اگر اس میں یہ میلان نہ ہوتا تو زمین کے دونوں قطب مسلسل اندھیرے میں ڈوبے رہتے اور پانی کے بخارات شمال وجنوب میں منڈلاتے رہتے، اور ایک دوسرے پر پالا یا برف بن کر منجمد ہوجاتے۔

المختصر زمین کا موجودہ دقیق نظام مختل ہوجائے تو تمام جاندار اشیاء کی زندگی نیست ونابود ہوکر رہ جائے گی، کیونکہ زمین کے اندر پائے جانے والے نظام جاندار اشیاء کے لئے اسباب حیات فراہم کرتے ہیں، تو کیا یہ سارا نظام اتفاقی اور تصادفی ہے؟!!

قارئین کرام ! زمین کی مٹی بھی عجیب کائنات ہے اور اسی سے بہت سی چیزیں مربوط ہوتی ہیں، جو تمام اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس زمین اور مٹی کا بنانے والا کوئی نہ کوئی ہے ، کیونکہ جب ہم مٹی کو دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح کی فعالیت انجام دیتی ہے اور کس طرح بہت سے نتائج پیش کرتی ہے چنانچہ ماھرین نے اس کے نتائج کی درج ذیل قسمیں بیان کی ہیں: کہ اس کا نچلا حصہ گول ہوتا ہے اس پر مٹی کا ایک طبقہ ہوتا ہے، جب وہ ہٹ جاتا ہے تو دوسرا طبقہ اس کی چگہ پر آجاتا ہے۔

اور یہ بھی مسلم ہے کہ ہمارے لئے مٹی بہت ہی مفید ہے کیونکہ اکثرکھانے کی چیزیں اسی سے دستیاب ہوتی ہیں، کیونکہ تمام نباتات مٹی کی وجہ سے ہی رشد ونمو کرتی ہیں اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ بغیر زمین کے نباتات کا کوئی وجودهو ہی نہیں ہوسکتا،اور جب ان نباتات کی جڑیں کسی بھی موٹے پتھر سے ٹکراتی ہیں تو وہ آہستہ آہستہ ان سے ہٹتے جاتے ہیں البتہ پتھروں کا ہٹ جانا ان قواعد کے تحت ہوتا ہے جن سے پتھر پانی میںپگھل جاتے ہیں مثلاً ان میں کیلسم " Calcium "، میگنیسم" Magnesium " ، اورپوٹاشم" Potassium " ہوتے ہیں اسی طرح ان میں سلکون اسیڈس " Silicon Acids "باقی رہتے ہیں اور المینیم اور لوھے کا مٹی میں زیادہ غلبہ ہے ۔

جبکہ سلکون کے عناصر کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ بڑے سے بڑے پتھر کو پانی بناسکتے ہیںلہٰذا پتھر کو پانی بنانے والے اجزاء بھی اسی نبات میں ہوتے ہیں اور اسی طرح ان نبات میں وہ اجزاء بھی ہوتے ہیں جو ان کو رشد ونمودیتے ہیں تو یہ دونوں ایسی چیزیںھیں جو ایک دوسرے کے سوفی صد مخالف ہیںتوکیا ایک ساتھ رہ کر کام کرسکتی ہیں او ردرختوں اور نباتات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔

لیکن یھی نیٹروجن" Nytrogen "جس کے ذریعہ بجلی بنتی ہے اور اس بجلی کو بہت سے لوگ موت کا فرشتہ بھی کہتے ہیں، چنانچہ اسی نیٹروجن" Nytrogen "کے " OXidS "سے بجلی کی طاقت پیدا ہوتی ہے ،لیکن جب یھی نیٹروجن کے اکسیڈس بارش یا برف کے ذریعہ مٹی میں جذب ہوتے ہیں تو اس کو یا اس پر موجود درختوں کو جلانے کے بجائے ان کو رشد ونمو عطا کرتے ہیں، چنانچہ مٹی میں موجود نیٹروجن کی مقدار کو سالانہ سوڈیم کی تیس بالٹی حاصل کرتی ہے اور یہ مقدار درختوں او ردیگر نباتات کے رشد ونمو کے لئے کافی ہوتی ہے۔!!

اور یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ یہ نیٹروجن جس سے بجلی بنتی ہے تو یہ مستوی علاقوں میں بنسبت مرطوب اور معتدل علاقوں کے زیادہ ہوتا ہے پس خشک اور جنگلی علاقوں میں اس کی مقدار میں اضافہ ہوتا رہتاھے، خلاصہ یہ کہ یہ نیٹروجن علاقے کی ضرورت کے تحت مختلف چیزوں میں کارگر ہوتا رہتاھے کیونکہ ہر علاقہ میں اس کی ایک خاص ضرورت ہوتی ہے تو کیا اس کی تدبیر کے لئے کوئی نہیں ہونا چاہئے؟!!

الغرض اس دنیا کے عجائبات میں سے کس کس چیز کا ذکر کیا جائے مثلاً پانی کا دورہ، اکسیڈ کاربن دوم کا دورہ، عجیب انداز میں زاد ولد ہونا اسی طرح روشنی اور نور کی عملیات ان سب کی قوت شمس کے خزانہ میں بہت زیادہ اہمیت ہے ، اسی طرح اس موجودہ کائنات کی زندگی میں اہم کردار رکھتے ہیں ، چنانچہ اس کائنات کی ظاہری چیزیں اور سبب واقع ہونے والی چیزیں اسی طرح تکامل وتوافق او رتوازن جن کے ذریعہ سے بہت سی چیزیں منظم ہوتی ہیں، توکیا یہ اتنی عجیب وغریب چیزیں اتفاقی اور اچانک پیدا ہوگئیں،(انسان کی عقل کو کیا ہوگیا اور ان تمام مخلوقات میں غور نہیں کرتا)

چنانچہ یہ بسیط جزئیات جن کی کوئی صورت معین نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے درمیان خالی جگہ ہوتی ہے ، لیکن ان سے کروڑوں کواکب اور ستارے نیز مختلف عالم وجود میں آئے جن کی معین صورت بھی ہوتی ہے اورطولانی عمر بھی اور اپنے خاص قوانین کے تحت کام کرتے ہیں، تو کیا یہ بھی سب کچھ اتفاقی طور پر اچانک پیدا ہوگیا؟!!

اور یہ کیمیاوی مشهور عناصر جن کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہے تو کیا انسان ان میں تشابہ اور اختلاف کی صورتوں کو ملاحظہ نہیں کرتا؟کیونکہ ان میں بعض رنگین ہیں اور بعض رنگین نہیں ہیں، ان میں سے بعض ایسے گیس ہیں جن کو سائل (بہنے والی)یا جامد بنانا مشکل ہے اور بعض سائل ہیں، اور بعض ایسے سخت ہیں جن کو سائل یا گیس بنانا مشکل ہے ، ان میں سے بعض کمزور ہیں اور بعض سخت، ان میں سے بعض ھلکے اور بعض بھاری، بعض مقناطیسی ہیں اور بعض مقناطیسی نہیں ہیں، ان میں سے بعض نشاط آورھیں اور بعض بے قدرے، بعض احماض (کڑوے) ہیں اور بعض کڑوے نہیں ہیں ان میں بعض کافی عمر کرتے ہیں اور بعض کچھ دن ہی عمر کرتے ہیں ، لیکن یہ تمام ایک ہی قانون کے تحت ہوتے ہیں اور وہ قانون ”قانون دوری“ " Periodic Law "ھے۔

کیونکہ ان معین عنصر اور غیر معین عنصر کے ذرات کے درمیان فرق صرف پروٹونات اور نیوٹرونات کی تعداد میں ہوتا ہے جو گٹھلی کی طرح ہوتے ہیںاور دوسرا فرق یہ ہے کہ عدد اور الکٹرونات جو گٹھلی سے باھر ہوتے ہیں اور ان کا طریقہ تنظیم بھی جدا ہوتا ہے، لہٰذا اس بنا پر مواد مختلفہ کی کروڑوں قسمیں چاھے وہ عناصر ہوں یا مرکب چیزیں” کھربائی“" Electricity " جزئیات سے مل کر بنتی ہیں اور ان میں یا تو فقط صورت ہوتی ہے یا طاقت ، او رچونکہ مادہ بھی جزئیات او رذرات سے تشکیل پاتا ہے ، اور جزئیات وذرات ”الکٹرونات“ و”نیوٹرونات“سے ذرات تشکیل پاتے ہیں اسی طرح طاقت او رکھرباء" Electricity " یہ تمام کے تمام معین قوانین کے تحت ہوتے ہیں اس حیثیت سے کہ ان ذرات کی ایک مقدار بھی ان کی معرفت اور خصوصیات کو کشف کرنے کے لئے کافی ہے۔

کیا یہ تمام چیزیں اتفاقی ہوسکتی ہیں؟ اسی طرح کیا یہ تمام قوانین اور نظام کائنات صدفةً اور اچانک ہوسکتے ہیں؟!!

آج کا سائنس مادہ کے ازلی ہونے کو ردّ کرتا ہے

ہمیں اس بات کا یقین ہے اور اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ تمام جھان اور جو کچھ بھی اس میں موجود ہے جسے ہم ملاحظہ کررھے ہیں یہ سب قدیم زمانہ سے موجود ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ ” عدم“ کے ذریعہ کوئی چیز وجود نہیں پاتی؟! بلکہ ہر چیز کے لئے ایک بنانے والے کا ہونا ضروری ہے ، یعنی یہ تمام چیزیں پہلے نہیں تھیں اور بعد میں وجود میں آئیں، تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟

وجود خدا پر قرآنی آیات

قارئین کرام ! آئےے قرآن مجید کی ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں خداوندعالم کے وجود کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ درج ذیل آیات میں حیوانات کی خلقت اور دوسرے دقیق نظام کو بیان کیا گیا ہے جن کے مطالعہ کے بعد انسان کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ حساب شدہ نظام یونھی اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوا۔

ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

( وَاللّٰهُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّاءٍ فَمِنْهُمْ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی اٴَرْبَعٍ یَخْلُقُ اللّٰهَ مَایَشَآءُ ) ( ۱۴ )

”اور خدا ہی نے تمام زمین پر چلنے والے (جانوروں) کو پانی سے پیدا کیا اوران میں سے بعض تو ایسے ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو دو پاؤں سے چلتے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں ، خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔“

( وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالاٴنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ ) ( ۱۵ )

”اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چار پایوں کی بھی رنگتیں طرح طرح کی ہیں“

( وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الاٴرْضِ وَلَا طٰٓٓائِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلاّٰ اُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ ) ( ۱۶ )

”زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان) یا اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا پرندہ ہے ان کی بھی تمھاری طرح جماعتیں ہیں“

( اَوَلَمْ یَرَوا اِلٰی الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰفٰتٍ وَیَقْبِضْنَ مَا یُمْسِکُهُنَّ اِلاَّ الرَّحْمٰنُ ) ( ۱۷ )

”کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اڑتے نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور سمیٹ لیتے ہیں کہ خدا کے سوا انھیں کوئی روکے نہیں رہ سکتا“

( وَالْاَنْعَامِ خَلَقَهَا لَکُمْ فِیْهَا دَفْ ء ٌوَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْکُلُوْنَ o وَلَکُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تَرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرِحُوْنَ o وَتَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَمْ تَکُوْنُوْا بَالِغَیْهِ اِلَّا بِشَقِّ الْاَنْفُسْ اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَو فٌ رَحِیْمْ o وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْهَا وَزِیْنَةً وَیَخْلُقُ مَا لٰا تَعْلَمُوْنَ ) ( ۱۸ )

”اسی نے چار پایوں کو بھی پیداکیا کہ تمھارے لئے ان (کی کھال اور اُون ) سے جاڑوں (کاسامان) ہے اس کے علاوہ اور بھی فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو اور جب تم انھیں سرِشام چرائی پر سے لاتے ہو جب سویرے ہی چرائی پر لے جاتے ہو تو ان کی وجہ سے تمھاری رونق بھی ہے اور جن شھروں تک بغیر بڑی جان کپھی کے پہنچ نہ سکتے تھے وھاں تک یہ چوپائے تمھارے بوجھ اٹھائے لئے پھرتے ہیں، اس میں شک نہیں کہ تمھاراپروردگار بڑا شفیق مھربان ہے اور (اسی نے) گھوڑوں ،خچروں اور گدھوں کو( پیدا کیا)تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (اس میں) زینت (بھی) ہے (اس کے علاوہ) اور چیزیں بھی پیدا کرے گا جن کو تم نہیں جانتے“

اقسام حیوانات

ماھرین علم نے حیوانوں کی بہت سی قسمیں بیان کی ہیں، اور ان حیوانوں کے رہنے کی جگہ بھی مختلف ہے مثلاً: خشکی، دریا جن میں مختلف حیوانات رہتے ہیں اور ان حیوانات کے مختلف طریقوں کے ساتھ ایک بہت بڑا اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ ہر حیوان اپنی زندگی کے لئے ایک مخصوص گھر بناتا ہے او ران کی غذا بھی مختلف ہوتی ہے۔

یہ منھ ھاضمہ کے لئے سب سے پہلا مرحلہ ہے اور اس کے لئے ایک عظیم فکر کی گئی ہے جو فکر وتصمیم گیری کرنے والے اور ان چیزوں کے خلق کرنے والے کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔

ان حیوانات میں کچھ ایسے ہیں جو صحرائی اور جنگلی ہوتے ہیں جیسے شیر اور بھیڑئے ، ان کے لئے وھاں کوئی غذا نہیں ہوتی مگر جس کا وہ شکار کرلیں چنانچہ ان کے لئے تیز اور سخت دانت اور بہت طاقتور ھاتھ اورپیروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ شکار کرسکیں ،اسی طرح ان کے لئے پنجوںمیں طاقتور ناخن اور قوی ھاضمہ کا ہونا ضروری ہے تاکہ گوشت اور اپنے سخت کھانے کو ہضم کرسکےں۔

اور کچھ حیوانات ایسے ہیں جو چراگاہ میں زندگی گذارتے ہیں جن سے انسان خدمت لیتا ہے انسان ان کے قوام کے لئے نباتات اور چھوٹے چھوٹے درختوں اور گھاس وغیرہ کے ذریعہ غذا فراہم کرتا ہے، چنانچہ ان کے ھاضمہ کاسسٹم ان کے جسم کے لحاظ سے بنایا گیا ہے ،اسی وجہ سے ان کے منھ نسبتاً بڑے ہوتے ہیں، لیکن ان کا منھ کچھ مخصوص دانتوں سے خالی ہوتا ہے، جن کے بدلے ان کو اللہ نے ایسے دانت دئے ہیں جن کے ذریعہ مختلف درختوں اور گھاس وغیرہ کو بہت جلد کھا جاتے ہیں، اور اس کو ایک دفعہ میں نگل جاتے ہیں لیکن اس کے ہضم کے لئے عجیب مشین موجود ہے ،وہ جو کچھ بھی کھاتے ہیں وہ معدہ میں جاتا ہے جو کھانے کا مخزن ہے اور جب حیوان کھانا کھالیتا ہے اور آرام کے لئے بیٹھتا ہے تو پھر یہ کھانا معدہ سے ایک دوسرے” تجویف“نامی جگہ کی طرف چلا جاتا ہے اور پھراس معدہ کے منھ تک آتا ہے تاکہ ا سکو اچھی طرح کوٹ لے اس کے بعد پھر ایک دوسری تجویف میں چلا جاتا ہے اور پھر چوتھی بار بھی اسی طرح ہوتا ہے کیونکہ یہ تمام فعالیت حیوان کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے۔

چنانچہ آج کے سائنس کا کہنا ہے کہ حیوان کے جسم کے لئے جگالی کرنا نھایت ضروری اور حیاتی ہے کیونکہ گھاس کا ہضم ہونا ایک مشکل کام ہے کیونکہ اس میں ایسے اجزاء اور سلیلوز ہوتے ہیں جن پر سبزی کے خلیے کے غلاف ہوتے ہیںجن کو ہضم کرنے کے لئے حیوان کو کافی وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور اب اگر یہ حیوان جگالی نہ کرے اور اس کے لئے حیوان کے پاس مخزن نہ ہو تو اس صورت میں حیوان کا چارہ چرنے میں کافی وقت ضایع ہوگا یھاں تک وہ صبح سے شام تک بھی چرتا رھے گا تب بھی پیٹ نہ بھرے گالہٰذا حیوان کی غذا ہضم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایک ایسا مخزن ہو جس میں وہ اپنی غذا کو جگالی کے ذریعہ تحلیل کرے تاکہ بدہضمی کا شکار نہ ہو اور یہ غذا اس کے لئے سود مند ثابت رھے۔

لیکن پرندوں کے ھاضمہ کا سسٹم مذکورہ حیوانوں سے بالکل الگ ہوتاھے کیونکہ ہر پرندہ کی صرف ایک چونچ ہوتی ہے جس میں ہڈی نما دانت بھی ہوتے اوران کے نہ منھ ہوتا ہے اورنہ ہونٹ ہوتے ہیں چنانچہ پرندہ غذا کو بغیر چبائے کھاتا ہے۔

ان پرندوں کی غذا کی طرح ان کی چونچ بھی الگ الگ طرح کی ہوتی ہیں ان میں جو شکاری پرندے ہوتے ہیں ان کی چونچ قوی اور لمبی ہوتی ہے تاکہ گوشت کو خوب کوٹ لیں اور ”بطخ“ اور” ہنس“ کی چوڑی چونچ ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنی غذا مٹی اور پانی دونوں سے تلاش کرسکیں اور چونچ کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی کچھ اضافی چیز بھی ہوتی ہے (جس طرح چھوٹے چھوٹے دانت) جو ان کی غذا کے کاٹنے میں مدد کرتی ہیں لیکن چڑیا ،کبوتر اور دوسرے پرندوں کی چونچ چھوٹی ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے ہدف تک پهونچ سکیں۔

ان کے علاوہ بھی ہم اس مخلوقات کی عظیم او رمنظم چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں مثلاً حیوانات کے پیر، جن کی وجہ سے حیوان چلتا پھرتا، دوڑتااور بوجھ اٹھاتا ہے، کیونکہ یھی پیر حیوان کو تیز دوڑنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں اورحیوان کے ہر پیر میںکُھر ہوتے ہیں جو دوڑتے وقت احتمالی ضرر سے محفوظ رکھتے ہیں۔

لیکن گائے اور بھینس کے پیر چھوٹے اور مضبوط ہوتے ہیںجن میں کھُر ہوتے ہیں جو زراعتی اور نرم زمین پر چلنے میں مدد کرتے ہیں، اسی طرح اونٹ کے پیر اس قسم کے ہوتے ہیں جو اس کو ریت پر چلنے میں مدد کرتے ہیں اسی طرح اس کے پیروں پر موٹی اورسخت کھال ہوتی ہے جو اس کو کنکریوں اور ریت پر بیٹھنے میں مدد کرتی ہے۔

اسی طرح پرندوں کے پیر بھی ان کی طبیعت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں چنانچہ ان میں سے بعض گوشت خوار ہوتے ہیں اور ان کے پنچے سخت او رمضبوط ہوتے ہیں تاکہ وہ شکار کرنے میں ان کی مدد کریں جیسے باز اور گدھ،لیکن وہ پرندے جو اناج اور دیگر دانے وغیرہ کھاتے ہیں جیسے مرغ اور کبوتر ان کے پنچوں میں ا یسے ناخن ہوتے ہیں جن سے صرف زمین کھود سکتے ہیں (تاکہ اس میں چھپے دانوں کو نکال سکےں)، لیکن وہ حیوانات جو اپنی غذا پانی میں تلاش کرنے پر مجبور ہیں ان کی انگلیوں کے درمیان ایک پردہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ پانی میں تیر کر اپنی غذا تلاش کرتے ہیں۔

اسی طرح انھی عجیب وغریب خلقت میں سے مینڈھک کی خلقت بھی ہے ، کیونکہ اس کی زبان دوسرے زندہ موجودات سے لمبی ہوتی ہے اور اس کی لمبائی اس کے قدکے نصف ہوتی ہے اور اس میں چپک ہوتی ہے جس سے وہ مکھیوں کا آسانی سے شکار کرتا ہے، کیونکہ مینڈھک بالکل کوئی حرکت نہیں کرتا مگر یہ کہ مکھی اس کے قریب ہوجائے اور جب زبان باھر نکالتا ہے تو اپنے سامنے موجود مکھیوں کا شکار کرلیتا ہے۔

اور واقعاً مینڈھک میں یہ بات کتنی عجیب ہے کہ اگر اس میں وہ گردن نہ ہوتی جس سے وہ اپنے سر کو حرکت دے کر اپنے اطراف میں دیکھتا ہے تو پھر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں جو چاروں جانب (گردن کے حرکت کرنے کی بنا پر) حرکت کرتی ہیں۔

قارئین کرام ! آج کے سائنس نے یہ بات کشف کی ہے کہ اکثر پستاندار " Mammals "حیوانات میں” قوہ شامہ“ (سونگھنے کی قوت)قوی ہوتی ہے برخلاف قوت باصرہ کے، جبکہ پرندوں میں دیکھنے کی قوت زیادہ تیز اور قوی ہوتی ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ حیوانات کی غذا معمولاً زمین پر ہوتی ہے اور وہ اس کو سونگھ کر حاصل کرسکتے ہیں لیکن پرندے معمولاً آسمان میں پرواز کرتے ہیں لہٰذا ان کو اپنی غذا کی تلاش میں تیز آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ دور سے اپنی غذا کو دیکھ سکیں۔

لیکن ”مُحّار“(ایک دریائی حیوان) جس کی آنکھیں ہماری طرح ہوتی ہیں البتہ ہماری صرف دو آنکھیں ہوتی ہیں لیکن اس کی کئی عدد ہوتی ہیں اور ان میں لاتعداد چھوٹی چھوتی پتلیاں ہوتی ہیں جن کا احصاء ممکن نہیں ، اور کھا یہ جاتا ہے کہ ان کی مدد سے داہنے سے اوپر کی طر ف دیکھ سکتی ہیں، اور چھوٹی چھوٹی پتلیاں انسانی آنکھوں میں نہیں پائی جاتیں، تو کیا یہ پتلیاں اس محار میں اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ اس میں انسان کی طرح سوچنے کی صلاحیت نہیں ہوتی؟ اسی طرح کھا یہ جاتا ہے کہ بعض حیوانوں میں دو آنکھیں اور بعض میں ہزار آنکھیں ہوتی ہیں جو سب کی سب الگ ہوتی ہیں تو کیا طبیعت علم مرئیات میں اتنے عظیم مرتبہ پر فائز ہے۔؟! یعنی کیا یہ تمام کی تمام دقیق اور حساب شدہ چیزیں بغیر کسی خالق کے وجود میں آسکتی ہیں؟!!

اسی طرح مچھلی میں عجیب وغریب حس پائی جاتی ہے جس کی بنا پر دریاؤں کے پتھروں اور دوسری چیزوں سے نہیں ٹکراتی ، چنانچہ بعض ماھرین نے اس سلسلہ میں غور وخوض کرکے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ مچھلی کے دونوں طرف ایک طولانی خط (لکیر) ہوتا ہے ، جبکہ یہ خط اتنا باریک ہوتا ہے کہ صرف دوربین ہی کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے اور اس میں قوت حس کے بہت سے اعضاء ہوتے ہیں چنانچہ مچھلی انھیں کے ذریعہ پتھر یا کسی دوسری چیز کا احساس کرلیتی ہے جب پانی پتھروں اور دوسری چیزوں سے ٹکراتا ہے اور یہ پتھر وغیرہ کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل دیتی ہے۔

اسی طرح چمگادڑکی خلقت بھی کتنی عجیب وغریب ہے جیسا کہ ماھرین نے اس پر توجہ دلائی ہے، یہ چمگادڑ رات میں اڑتا ہے لیکن اپنے راستہ میں کسی مکان ، درخت یا کسی دوسری چیز سے نہیں ٹکراتا،چنانچہ اٹلی کے ایک ماھراور سائنسداں نے اس کی قدرت کے سلسلہ میں تحقیق کی، اس نے ایک کمرے میں کچھ رسیاں باندھیں، ہر رسی میں ایک چھوٹی گھنٹی باندھی کہ اگر رسی سے کوئی بھی چیز ٹکرائے تو وہ گھنٹی بجنے لگے ، اس کے بعد اس نے کمرے کو بالکل بند کردیا اور اس میں چمگادڑ کو چھوڑ دیا چنانچہ چمگادڑ اس کمرے میں اڑنے لگا لیکن کسی بھی گھنٹی کی کوئی آواز سنائی نہ دی، یعنی وہ کسی بھی رسی سے نہیں ٹکرایا ، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ چمگادڑ میں ایسی طاقت ہوتی ہے کہ جب وہ اڑتاھے تو اس کے اندر سے ایک ایسی آواز نکلتی ہے جو کسی بھی چیز سے ٹکراکر واپس آتی ہے اور اسی واپس آئی آواز کے ذریعہ وہ اس چیز کا احساس کرلیتا ہے ، پس ثابت یہ ہوا کہ اس کے احساس کا طریقہ بالکل ”راڈار“ کی طرح ہے۔

اسی طرح اونٹ کی خلقت بھی بڑی عجیب ہے،چنانچہ اس کو خدا کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

( اٴفَلاٰ یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ ) ( ۱۹ )

”تو کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف غور نہیں کرتے کہ کیسا (عجیب) پیدا کیا گیا ہے“

چونکہ اونٹ کی زندگی زیادہ تر جنگل اور ریگستان میں بسر ہوتی ہے چنانچہ خداوندعالم نے اس کو ایسا خلق کیا ہے جس سے وہ ایک طولانی مدت تک بغیر کچھ کھائے پئے رہ سکے، اور اپنی بھوک وپیاس پر کافی کنٹرول رکھ سکے۔

اسی طرح اونٹ کی لمبی اور گھنی پلکیں ہوتی ہیں جن کی بنا پر شدید طوفان او رآندھی میں بھی اپنی آنکھیں کھولے رکھتا ہے اور اس کی آنکھیں محفوظ رہتی ہیں ، اور جس طرح ہم آندھی کے وقت اپنی آنکھوں کے بند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں وہ اپنی آنکھوں کو بند کرنے پر مجبور نہیں ہوتا۔

اسی طرح اس کے پاؤں اس طرح نرم ہوتے ہیں جن سے وہ ریت پر آسانی سے چل سکتا ہے اور اس کے پیر ریت اور ریگستان میں نہیں دھنستے، اور اس کی ناک بھی آندھی کے وقت کھلی رہتی ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی گرد وغبار نہیں جاتا، اور اس کا اوپر والا ہونٹ نکلا ہوا ہوتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ کانٹوں والی گھاس وغیرہ کا آسانی سے پتہ لگاسکے۔

اسی طرح چیونٹی کی خلقت بھی کتنی عجیب ہے چنانچہ چیونٹی میں بہت سی خدا کی نشانیاں بتائی جاتی ہیں، کیونکہ اس میں فہم وادراک، صبراور احساس اس قدر ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کے چھوٹے سے جسم اور حجم کو دیکھنے کے بعد نہیں سمجھ سکتا، اور شاید آج کی بہت سی جدید چیزیں اسی میں غور وفکر کرنے سے وجود میں آئی ہیں کیونکہ اس کی خلقت میں بہت ہی دقت اور نظم وترتیب کا لحاظ رکھاگیا ہے۔

چنانچہ بعض چیونٹی سردی کے زمانہ میں دوسری ان چیونٹیوں کے لئے کھانے دانے کا انتظام کرتی ہیں جو باھر نہیں نکل سکتیں، اسی طرح ان میں سے بعض وہ ہوتی ہیں جو دانوں کاآٹا بناتی ہیںاور وہ ہمہ وقت اسی کام میں مشغول رہتی ہیں۔

اور بعض چیونٹیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی فطرت میں کھانا کھانے کا مخصوص گھر بنانے کا میلان ہوتا ہے ، جن کو کھانے کا باغیچہ کھا جاسکتا ہے اور وھاں پر مختلف کیڑے مکوڑوں کا شکار کرکے لاتی ہیںاور وھاں پر آرام سے بیٹھ کر کھاتی ہیںان میں سے بعض ان شکار شدہ کیڑے مکوڑوں کے اندر سے ایک طریقہ کا رس نکالتی ہیں جو شہد کے مشابہ ہوتا ہے تاکہ اس کا کھاتے وقت مزہ لیں۔

اسی طرح ان میں سے بعض وہ بھی ہوتی ہیں جو اپنے گروہ کوایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں اور ان میں محافظ کا کام کرتی ہیں ، نیز بعض چیونٹیاں اپنے لئے گھر بنانے کی ذمہ داری نبھاتی ہیں جبکہ دوسری چیونٹیاں اس طرح کے پتّے کاٹتی ہیں جو ان کے اندازہ کے مطابق ہوتے ہیں،اور ان میں سے بعض اپنے گھر کے اردگرد پھرہ داری کرتی ہیں۔

قارئین کرام ! ان تمام تفصیلات کے پیش نظر کیا مادہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اتنی دقیق چیزوں کو پیدا کرے جن میں ایک چیونٹی بھی ہے جو اتنے دقیق حساب وکتاب سے رہتی ہے؟

پس ان تمام چیزوں کے پیش نظر حیوانات قابل توجہ ہیں چنانچہ قرآن مجید نے اس بارے میں پہلے ہی بیان کردیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:

( حَتَّی إِذَا اٴَتَوْا عَلَی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ یَااٴَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لاَیَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ) ( ۲۰ )

”یھاں تک کہ جب (ایک دن) چیونٹیوںکے میدان میں آنکلے توایک چیونٹی بولی اے چیونٹیو ! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمھیں روند ڈالے اور انھیں خبر بھی نہ ہو۔“

اس کے صدیوں بعد کھیں علم نے ان حقائق اور معلومات کو ثابت کیا ہے۔

قارئین کرام ! مذکورہ حیوانات کے علاوہ اور بھی بہت سی مختلف قسم کے حیوانات اور جانور ہوتے ہیں،مثلاً یھی مرغ جس سے ہم زیادہ سروکار رکھتے ہیں ان کی آواز بھی مختلف ہوتی ہے چنانچہ جب مرغی چھوٹے بچوں کو دانے ملنے کی بعد آواز لگاتی ہے تو اس کی آواز اور ہوتی ہے اسی طرح جب ان کو اپنے گھر کی طرف بلاتی ہے تو اس کی آواز کچھ اور ہوتی ہے۔

اسی طرح شہد کی مکھی جب کھیں پھولوں والی زمین میں جاتی ہے تو اپنے ایک خاص انداز میں گھومتی ہے جیسے انگریزی میں "۸"کا ہوتا ہے اور پھول میں شہد ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرلیتی ہے۔

چنانچہ ایک ماھر دانشور جس نے چیونٹی کے متعلق تحقیق کی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے ایک چیونٹی کو اپنے بل سے دور دیکھا جس نے اپنے ڈنک سے ایک مکھی کاشکار کیا اور اس کو تھوڑی دیر کے لئے وھیں پر ڈال دیا تقریباً بیس منٹ بعد جب اس کومکھی کے مرنے کا یقین ہوگیا تو اس کو اٹھاکر اپنے بل کی طرف چلنا شروع کیا ، لیکن جب اس میں لے جانے کی طاقت نہ رھی تو اس نے تنھا جاکراپنے ساتھیوں کو باخبر کیا تو ان چیونٹیوں کا ایک گروہ اس کے ساتھ نکلا یھاں تک کہ سب نے مل کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے اور پھر سبھوں نے اس کے مختلف اجزاء کو اٹھایا،اور اپنے بل میں لے گئیں، اب یھاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پہلی چیونٹی ،تنھا بغیر کچھ لئے اپنے بل میں گئی تو اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کو دیکھ کر دوسری چیونٹیوں کو اس شکار کے بارے میںمعلوم ہوتا تو پھر اس چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو کس زبان میں باخبر کیا کہ میںنے ایک بہترین شکار کیا ہے آؤ مدد کرو تاکہ اس کو اپنے بل میں لے آئیں۔(پس معلوم ہوا کہ ان کی بھی ایک خاص زبان ہے جس سے وہ سمجھتی اور سمجھاتی ہیں)۔

اسی طرح آپ ھاتھی کی خلقت پر غور کریں تو اس میں بھی عجیب وغریب قدرت کے آثار ملاحظہ کریں گے مثلاًھاتھیوں کا جھنڈ جب ایک ساتھ چلتا ہے تو ان کے درمیان سے مسلسل ہمہمہ کی آواز آتی رہتی ہے لیکن جب یھی ھاتھی اپنے گروہ سے جدا ہوکر الگ الگ چلتے ہیں توان کی وہ آواز ختم ہوجاتی ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟!۔

اسی طرح جناب کوے کی آواز کس قدر مختلف اور بامفهوم ہوتی ہے چنانچہ وہ خطرہ کے وقت رونے جیسی آواز نکالتا ہے تاکہ اس کے دوسرے ساتھی خطر ہ سے مطلع ہوجائیں ، اور یھی کوا جب کوئی خوشی کامقام دیکھتا ہے تو ایسی آواز نکالتا ہے جو قہقہہ اور ہنسی سے مشابہت رکھتی ہے۔

قارئین کرام ! حیوانات میں کوئی ایسی زبان نہیں ہے جس کو سب سمجھتے ہوں ، بلکہ ان میں سے ہر صنف کی الگ الگ زبان ہوتی ہے، مثلاً آپ مکڑی کو دیکھیں ، یہ جب جالا بناتی ہے تو اس جالے کے تار ان کے درمیان گفتگو کاوسیلہ بنتے ہیں، چنانچہ کھا جاتا ہے کہ جب جالے کے ایک طرف مذکر اور دوسری طرف مونث ہو تو اسی جالے کے تارکے ذریعہ ان کے درمیان تبادلہ خیالات ہوتا ہے،اور اس کی مادہ اپنے شوھر کے استقبال کے لئے اسی جالے کے تار کے ذریعہ رابطہ قائم کرتی ہے، جس طرح آج کل فون کے ذریعہ گفتگو کی جاتی ہے۔

اور جب ہم مرغی کو دیکھتے ہیں تو اس کے اندر الٰھی شاہکار کی بہت سی عحیب وغریب نشانیاں پاتے ہیں، چنانچہ ہمارے لئے درج ذیل حقائق پر نظرکرکے خالق خائنات کی معرفت حاصل کرنا ہی کافی ہے:

ایک امریکی ماھر نے مرغی کے انڈے سے بغیر مرغی کے بچہ نکالنا چاھا ،چنانچہ اس نے انڈے کو ایک مناسب حرارت (گرمی) میں رکھا ، جس مقدار میں مرغی انڈے کو حرارت پهونچاتی ہے ، لہٰذا اس نے چند عدد انڈوں کو جمع کرکے ایک مشین میں رکھا ،وھاں موجود ایک کاشتکار نے اس کو بتایا کہ انڈوں کو الٹتا پلٹتا رھے، کیونکہ اس نے مرغی کو دیکھا ہے کہ وہ انڈوں کو الٹتی پلٹتی رہتی ہے، لیکن اس ماھر نے اس کاشتکار کا مذاق اڑاتے ہوئے کھا کہ مرغی اس لئے انڈے کو بدلتی ہے تاکہ اپنے جسم کی گرمی انڈے تک پهونچاتی رھے،الغرض اس نے انڈوں کو چاروں طرف سے حرارت پهونچانے والی مشین میں رکھا لیکن جب انڈوں سے بچے نکلنے کا وقت آیا تو کوئی بھی انڈا نہ پھٹا تاکہ اس سے بچہ نکلتا، (وہ حیران ہوگیا) اور دوبارہ اس نے کاشتکار کے کہنے کے مطابق انڈوں کو مشین میں رکھ کر بچے نکلنے کی مدت تک ان کو الٹتا پلٹتا رھا، چنانچہ جب ان کا وقت آیا تو انڈے پھٹ گئے اور ان سے بچے نکل آئے۔

مرغی کے انڈوں سے بچے نکلنے میں الٹ پلٹ کرنے کی ایک دوسری علمی وجہ یہ ہے کہ جب انڈے کے اندربچہ بن جاتا ہے تو اس کی غذائی موادنیچے کے حصہ میں چلی جاتی ہے اب اگر اس کو مرغی نہ گہمائے تو وہ انڈا پھٹ جائے ، یھی وجہ ہے کہ مرغی پہلے اور آخری دن انڈوں کو نہیں پلٹتی کیونکہ اس وقت پلٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، پس کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان اسرار کو وہ بغیر کسی الٰھی الھام کے سمجھتی ہے، جس کے سمجھنے سے انسان بھی قاصر ہے؟

چنانچہ یھی الٰھی الھام ہے جس کی بنا پر پانی میں رہنے والے جانور بالخصوص سانپ اپنی جگہ سے ہجرت کرکے دور درازگھرے سمندروں میں جیسے ”جنوبی برمودا “ چلے جاتے ہیں ، پس یہ کتنی عجیب مخلوق ہے کہ جب ان کا رشد ونمو مکمل ہوجاتا ہے تو دریاؤں سے ہجرت کرکے مذکورہ سمندروں میں چلے جاتے ہیں ،وھیں انڈے دیتے ہیں اور کچھ مدت کے بعد مرجاتے ہیں لیکن ان کے بچے جو اس جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ کو نہیں پہنچانتے یہ لوگ اس راستہ کی تلاش میں رہتے ہیںکہ جدھر سے ان کے والدین آئے تھے، اس کے بعد سمندری طوفان اور تھپیڑوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آبائی وطن پهونچ جاتے ہیں اور جب ان کا رشد ونمومکمل ہوجاتا ہے تو ان کو ایک مخفی الھام ہوتا ہے کہ وہ جھاں پیدا ہوئے تھے وھی جائیں ، لہٰذا ان چیزوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کون سی طاقت ہے جو ان کو اس طرح کا الھام عطا کرتی ہے؟!، چنانچہ یہ کھیں نہیں سنا گیا ہے کہ امریکی سمندروں کے سانپ یورپی سمندر میں شکار کئے گئے ہوں، یا اس کے برعکس، اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ یورپی سانپوں کا رشد دیگر سانپوںکی بنسبت ایک سال یا اس سے زیادہ کم ہوتا ہے، کیونکہ یہ لوگ طولانی مسافت طے کرتے ہیں۔

بھرحال ان تمام چیزوں پر غور کرنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سانپوں کے اندر یہ طاقت اور فکرکھاںسے آئی جس کی بناپر یہ سب اپنی سمت، سمندر کی گھرائی وغیرہ کو معین کرتے ہیں،لہٰذا کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب ”بے جان مادہ“کی مخلوق ہیں؟!!

اسی طرح الٰھی الھام کی وجہ سے مختلف پرندے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو اپنے والدین کی طرح اپنے لئے الگ آشیانہ بناتے ہیں اور وہ بھی بالکل اسی طرح جس میں وہ رہتے چلے آئے ہیں، یعنی ان کے گھونسلوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔

یھی الٰھی الھام ہے کہ جس کی بنا پر بعض حیوانات کے اجزاء کٹنے یا جلنے کے بعد دوبارہ اسی طرح سے بن جاتے ہیں، مثلاًجب سمندری سرطان (کیکڑا) اپنے جسم کے پنجوں کو ضائع کربیٹھتا ہے تو جلد ہی ان خلیوں کی تلاش میں لگ جاتا ہے جو اس کے پنجوں کی جگہ کام کریں اور جب خلیے بھی ناکارہ ہوجاتے ہیں تووہ سمجھ جاتا ہے کہ اب ہمارے آرام کرنے کا وقت آپہنچاھے، اور یھی حال پانی میں رہنے والے دیگر جانوروں کا بھی ہے۔

اسی طرح ایک دریائی حیوان جس کو ”کثیر الارجل“(بہت سے پیر والا)کہتے ہیں اگر اس کے دوحصہ بھی کردئے جائیں تو اس میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ اپنے باقی آدھے حصے سے دوسرا حصہ بھی مکمل کرلے۔

اسی طرح ”دودة الطعم“نامی کیڑے کی اگر گردن کاٹ دی جائے تووہ اس سر کے بدلے میں ایک دوسرا سر بنا لیتا ہے، جس طرح جب ہمارے جسم پر کوئی زخم ہوجاتا ہے یا گوشت کا ٹکڑا الگ ہوجاتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ صحیح ہوجاتا ہے اور جب یہ زخم بھرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ خلیے کس طریقہ سے حرکت کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں نیا گوشت، نئی ہڈی اور نئے ناخن یا کوئی دوسرا جز بن جاتا ہے۔

قارئین کرام ! حشرات کی دنیا بھی کیا چیز ہے چنانچہ اس میں غور وفکر کرنے کے بعد انسان کو تعجب ہوتاھے، اور شاید ان کی ”شناخت غرائز“ کے بعد ان کی تفصیل ہمارے سامنے مجسم ہوجائے۔

کیونکہ ”ابو دقیق “ حشرہ جو کرم کلے (بندگوبھی) میں پایا جاتا ہے اور اس میں انڈے دیتا ہے جبکہ وہ بند گوبھی کو نہیں کھاتا لیکن اس کے اندر ایک ایسا غریزہ ہوتا ہے جس کی بناپر اس کا انتخاب کرتا ہے ، چنانچہ جب اس کے انڈوں سے بچے نکلتے ہیں وہ بند گوبھی کو کھاجاتے ہیں ، پس معلوم یہ ہوا کہ یہ کیڑاانڈے دینے کے لئے بند گوبھی کا اس لئے انتخاب کرتا ہے تاکہ اس کے بچوں کو مخصوص غذا مل سکے۔

تو کیا یہ ابو دقیق نامی کیڑا اس مسئلہ کو عقلی طور پر سمجھتا ہے؟!

اسی طرح ”زنبور الطین“ (انجن ھاری،جس کو کمھاری بھی کہتے ہیں) جو کیڑے مکوڑوں کا شکار کرتی ہے اور اپنے مٹی کے چھتے میں لے جاتی ہے تاکہ کھانے کے لئے گوشت جمع رھے، اوراس کے بعداس پر ایک انڈا دیتی ہے، اس کو اپنے گھر میں رکھ دیتی ہے ، پھر گارے مٹی کی تلاش میں نکلتی ہے جب اس کو مل جاتی ہے تو اس سے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیتی ہے تاکہ جب انڈے پھٹنے کا وقت آئے اور بچے باھر نکلےں تو ان کا کھانے پہلے سے موجود رھے۔

اسی طرح وہ مچھر جو پانی پر اپنے انڈے دیتے ہیںلیکن کبھی بھی اس کے انڈے بچے پانی میں ضایع نہیں ہوتے تو کیا یہ مچھر قوانین ”ارشمیڈس“کو جانتا ہے۔

اسی طرح وہ حشرہ جس کو علم حشرات میں ”قاذفة القنابل“ کہتے ہیں جو پھاڑ کھانے والے حیوانات کے آگے آگے بغیر کسی خوف وھراس کے چلتا ہے اور اگرکسی جانور نے اس کو کھانے کے لئے منھ کھولا تو اپنے پیٹ پر موجود ایک تھیلی کو فشار دیتا ہے تاکہ اس سے تین قسم کے غدے نکلےں جس میں ”ھیڈروکینون“ ، ”فوق اکسیڈھیڈ روجین“ اور ”ازیم خاص“ اور جب یہ تینوں چیزیں مخلوط ہوتی ہیں تو ان میں سے ایک قسم کا گیس نکلتا ہے جس کی وجہ سے وہ درندہ حیوان بھی ڈر کی وجہ سے بھاگنے لگتا ہے ، تو کیا اس حشرہ اور کیڑے نے علم کیمسٹری میں کامبرج یونیورسٹی سے ڈیپلم" Diploma " کیا ہے؟!!

اسی طرح ابریشم کے کیڑے ، جو نھایت ہی باریک جال بناتے ہیں۔اور اسی طرح وہ جگنو جو رات میں روشنی پھیلاتا پھرتا ہے تاکہ روشنی پر آنے والے چھوٹے چھوٹے کیڑوں کا شکار کرسکے۔

نیز اسی طرح پانی کے کچھ خاص کیڑے جو چند میٹر پانی میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر آسمان میں بھی کافی اوپر اڑلیتے ہیں۔

اسی طرح وہ تتلی جس کے پر بہت ہی نازک اور شفاف ہوتے ہیں جب ان پر روشنی پڑتی ہے تو وہ نیلے رنگ کے دکھائی پڑتے ہیں، اور اگر اس میں دسیوں ہزار میں سے ایک جز بھی متغیر ہوجائے تو پھر اس کی روشنی میں بھی فرق آجائے گا یا بالکل ختم ہوجائے گی۔

قارئین کرام ! یھاں تک ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ حیوانات کی دنیا واقعاً عجیب وغریب ہے جن کی خلقت اور نوآوری وغیرہ کو دیکھنے کے بعد(اگرچہ حیوانات کے صفات اس مختصر کتاب میں کماحقہ بیان نہیں کئے جاسکتے) انسان اس نتیجہ پر پهونچتا ہے :

) ِ صُنْعَ اللهِ الَّذِی اٴَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ إِنَّهُ خَبِیرٌ بِمَا تَفْعَلُون ) ( ۲۱ )

”(یہ بھی ) خدا کی کاریگری ہے کہ جس نے ہر چیز کو خوب مضبوط بنایا ہے بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اس سے وہ خوب واقف ہے۔“

تعالیٰ الله یقول المنکرون الجاحدون علوا کبیرا

قارئین کرام ! ہم یھاں پر ان آیات کریمہ کو بیان کرتے ہیں جو خداوند عالم کے وجود پربہترین دلیل ہیں ،جن میں انسان کونباتات،آسمان سے بارش ہونے اور زمین وآسمان کے درمیان موجودعجائبات میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے، کیونکہ ان تمام چیزوں کا اس قدر دقیق اور خصوصیات کے ساتھ پایا جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ صفات ان میں خود بخود نہیں پائے جاتے بلکہ ان سب کو مذکورہ صفات عطا کرنے والا خدوندعالم ہے۔

ارشاد خداوندعالم ہوتا ہے:

( اٴَفَرَاٴَیْتُمْ مَا تَحْرُثُون اٴَاٴَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ اٴَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا ) ( ۲۲ )

”بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم لوگ بوتے ہو کیا تم لوگ اسے اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں، اگر ہم چاہتے تو اسے چور چور کردیتے ۔۔۔۔“

( اٴَفَرَاٴَیْتُمْ النَّارَ الَّتِی تُورُونَ اٴَ اٴَنْتُمْ اٴَنشَاٴْتُمْ شَجَرَتَهَا اٴَمْ نَحْنُ الْمُنشِئُونَ ) ( ۲۳ )

”توکیا تم نے آگ پر بھی غور کیا جسے تم لوگ لکڑی سے نکالتے ہو کیا اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں۔“

( وَهو الَّذِی اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ فَاٴَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاکِبًا وَمِنْ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ اُنْظُرُوا إِلَی ثَمَرِهِ إِذَا اٴَثْمَرَ وَیَنْعِهِ إِنَّ فِی ذَلِکُمْ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُون ) ( ۲۴ )

”اور وہ وھی (قادر وتوانا) ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر چیز کے کوئے نکالے پھر ہم ہی نے اس سے ھری بھری ٹہنیاں نکالیں کہ اس سے ہم باہم گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور چوھارے کے درخت سے لٹکے ہوئے گچھے (پیدا کئے) اور انگور اور زیتون اور انار کے باغات جو باہم صورت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (مزے میں) جداجدا ،جب یہ پہلے او رپکے تو اس کے پھل کی طرف غور تو کرو بے شک اس میں ایماندارلوگوں کے لئے بہت سی (خداکی ) نشانیاں پائی جاتی ہیں۔“

( الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ مَهْدًا وَسَلَکَ لَکُمْ فِیهَا سُبُلاً وَاٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ اٴَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّی ) ( ۲۵ )

”وہ وھی ہے جس نے تمھارے( فائدہ کے واسطے)زمین کو بچھونا بنایا اور تمھارے لئے اس میں راھیںنکالیں اور اس نے آسمان سے پانی برسایا پھر (خدا فرماتا ہے کہ )ہم ہی نے اس پانی کے ذریعہ مختلف قسموں کی گھاسیں نکالیں۔“

( اٴَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَاٴَنزَلَ لَکُمْ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا کَانَ لَکُمْ اٴَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا اٴَ ء ِلَهٌ مَعَ اللهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَعْدِلُونَ ) ( ۲۶ )

”بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے واسطے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم ہی نے پانی سے دلچسپ اور خوشنما باغ اگائے، تمھارے تو یہ بس کی بات نہ تھی کہ تم ان سے درختوں کو اگاسکتے تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ؟ (ھر گز نھیں) بلکہ یہ لوگ خود( اپنے جی سے گڑھ کے بتوں کو)اس کے برابربناتے ہیں۔“

قارئین کرام ! نباتات کی دنیا بھی کس قدر عجیب ہے چنانچہ زمین شناسی (جیولوجی) " Geological "کے ماھرین اس بارے میں ہمیشہ بررسی وتحقیق میںمشغول ہیں کیونکہ وہ ہر روز ایک نہ ایک نئی چیز کشف کرتے ہیں۔

اورجیسا کہ ماھرین نے بیان کیا ہے کہ نباتات کی تقریباً پانچ لاکھ قسمیں ہیں اور وہ ترکیب اورتزویج اور عمر کے لحاظ سے مختلف ہیں کیونکہ انھیں نباتات میں سے وہ بھی ہیں جن کی عمر کچھ دن کی ہوتی ہے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن کی عمر کچھ سال ہوتی ہے اور ان میں سے بعض کی عمر انسان کے کئی برابر ہوتی ہے۔

معمولاً نباتات وھاں پیدا ہوتی ہیں جھاں پر ان کے لئے مناسب اسباب موجود ہوں ، ان کے بیج طولانی مدت تک باقی رہتے ہیں کیونکہ جب تک ان کے لئے مناسب پانی اور مناسب گرمی موجود نہ ہوں تب تک پیدا نہیں ہوتیں، (جیسا کہ معلوم ہے کہ نباتات میں سے ہر ایک معین گرمی میں پیدا ہوتی ہیں) اسی طریقہ سے ان کے لئے ہوا کا بھی ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ اسی کی بدولت زندہ رہتی ہے اور اسی سے سانس لیتی ہے۔

اور جب دانہ اگنا شروع ہوتا ہے، تو پہلے چھوٹی چھوٹی جڑیں پیدا ہوتی ہیں اس وقت وہ اپنی غذا کو خود دانہ سے حاصل کرتا ہے یھاں تک کہ اس کی جڑیں زمین میں پھیلنا شروع ہوتی ہیں اس وقت وہ اپنی غذا زمین سے حاصل کرتا ہے گویا وہ انسان اور حیوان کے بچوں کی طرح ہے کہ جب تک وہ شکم مادر میں رہتا ہے تو اس کی غذا اس کی مادر کے ذریعہ پهونچتی ہے ، اس کے بعد اس کے دودھ سے غذا پهونچتی ہے اور جب بچہ بڑا ہوجاتا ہے تو پھر وہ اپنی غذا میں خود مختار ہوجاتا ہے۔

قارئین کرام ! کیا ان تمام چیزوں کے ملاحظہ کرنے کے بعد کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ان تمام چیزوں کو خدا کے علاوہ کسی اور نے پیدا کیا ہے؟

اور نباتات کا غذائی سسٹم،جڑوںپر منحصر ہوتا ہے کیونکہ یہ جڑیں ہی غذائی سسٹم کا پہلا جز ہیں، اور جڑیں نباتات کی احتیاجات کی بنا پر مختلف ہوتی ہیں، پس ان میں سے کچھ گاجر جیسی اور بعض آلو جیسی اور بعض جالی نما ہوتی ہیں، جبکہ ان تمام ا ختلاف کے باوجود ایک ہی مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔اور یہ مقصد نباتات کا اپنے لئے غذا حاصل کرنا ہے۔

اورجب یہ جڑیں رشد کرتی ہیں تو اس پر موجود چھلکا زمین سے رطوبت حاصل کرکے اس کو جڑوں کے اوپرپهونچاتا ہے، اور یھاں سے نباتات تک غذا پهونچتی ہے جس کے ذریعہ وہ رشد کرتی ہیں اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ نباتات کے لئے روشنی، پانی اور دیگر ضروری عنصر کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے جیسے کاربن، " Carbon " آکسیجن، " Oxygen " فسفور " Phosphore "، ”کاربرائڈ“" Carbide " وغیرہ۔

یہ بات بھی ذہن نشین رھے کہ نباتات اپنے پتوں کے ذریعہ سانس لیتی ہیں جو ان کے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں چنانچہ نباتات حیوانوں اور انسانوں کی طرح انھیں پتوں کے ذریعہ آکسیجن،" Oxygen " کو حاصل کرتی ہیں اور کاربن اکسیڈ دوم " Carbon oxide "کو نکالتی ہے،اور نباتات کے سانس لینے سے گرمی میں کمی پیدا ہوتی ہے اور نباتات کا عملِ تنفس شب وروز جاری وساری رہتا ہے، مگر اس کا نتیجہ دن میں عمل کاربن کے مقابلہ میں ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ عمل کاربن کو نباتات عمل تنفس سے زیادہ جلدی انجام دیتی ہیں پس آکسیجن نکلتا رہتا ہے اور کاربن ڈائی اکسیڈ دوم" Carbon Dioxide " کو حاصل کرتا ہے۔

چنانچہ آج کے سائنس کا کہنا ہے کہ کاربن " Carbon " کا پیدا ہونا ہی ،ڈائی اکسیڈ کاربن " Carbon Dioxide " کی نابودی کے لئے کافی ہے ، اگر صرف اسی چیز پر اکتفا کی گئی ہوتی تو کافی تھا، لیکن خداوندعالم نے جو خالق عظیم ہے ایسی دوسری زندہ موجوات کوبھی خلق کیا جو اپنے سانس لینے میں کاربن اکسیڈ " Carbon oxide " نکالتی ہیں ، جیسا کہ مردہ جسم بھی کاربن اکسیڈ نکالتے ہیں نیز دیگر امور کی وجہ سے بھی یہ مادہ نکلتا ہے۔

چنانچہ اس کاربن اکسیڈ " Carbon oxide " کی نابودی میں کبھی کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوتی، بلکہ قدرت اور حکمت خدا کا تقاضا یہ ہے کہ فضا میں کاربن آکسائیڈ کی نسبت دس ہزار اجزا میں سے تین یا چار ہوتی ہے، اور اس نسبت کا اس مقدار میں موجود ہونا کائنات کی حیات کا سبب ہے ، اور (کاربن " Carbon " اور کاربن اکسیڈ" Carbon oxide " کی عملیات) میں ابھی تک کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب اس نسبت میں کوئی اختلاف ہوا ہو۔

چنانچہ بعض ماھرین کا کہنا ہے کہ اگرهوا میں آکسیجن،" Oxygen" % ۲۱ کے بجائے % ۵۰ ہوجائے تو اس کائنات میںجو چیزیں جلنے کے قابل ہیں ان سب میں آگ لگ جائے اور بجلی کی کوئی چنگاری اگر درخت تک پهونچ جائے تو وہ تمام آگ کی نذر ہوجائےں، اسی طرح اگر ہوا میں آکسیجن،" Oxygen" % ۱۰ یا اس بھی کم ہوجائے تو پھر تمام چیزوں کی زندگی خطرہ میں پڑجائے۔

تو کیا ان تمام تحقیقات کے بعد بھی کوئی انسان بے جان مادہ کوان تمام عجیب وغریب موجوات کا خالق کہہ سکتا ہے؟!!!

پانی کی خلقت

پانی ایک حیاتی اور ضروری مادہ ہے جو تمام ہی زندہ چیزوں کے لئے نھایت ضروری ہے:

( وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شیءٍ حَيٍّ ) ( ۲۷ )

”اور ہم ہی نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا “

لہٰذا پانی ضروریات زندگی میں سب سے اہم کردار رکھتاھے، اسی وجہ سے قرآن مجید نے اس عظیم نعمت پر غور وفکر کرنے کی دعوت ہے بلکہ کرہ زمین پر موجود پانی کو دیکھ کر تمام لوگوں کواس خالق کے وجود پر دلیل کو درک کرنے کی دعوت دی گئی ہے:

( اٴَفَرَاٴَیْتُمْ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَبُون اٴَاٴَنْتُمْ اٴَنزَلْتُمُوهُ مِنْ الْمُزْنِ اٴَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ اٴُجَاجًا فَلَوْلاَتَشْکُرُونَ ) ( ۲۸ )

”کیا تم نے پانی پر بھی نظر ڈالی جو (دن رات) پیتے ہو،کیا اس کو بادل سے تم نے برسایا یا ہم برساتے ہیں؟اگر ہم چاھیں تو اسے کھاری بنادیں تو تم لوگ شکر کیوں نہیں کرتے؟!

( وَمِنْ آیَاتِهِ یُرِیکُمْ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَیُنَزِّلُ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَیُحْیِ بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ) ( ۲۹ )

”اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے واسطے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کوآباد کرتا ہے “

چنانچہ پانی کے ماھرین کا کہنا ہے کہ سمندر ہی آب شیرین(پینے کامیٹھا پانی) کی بنیاد اور اساس ہے اگرچہ سمندر کا پانی بہت زیادہ نمکین ہوتا ہے جس کو زمین پر زندہ موجودات استعمال نہیں کرسکتی، لیکن خدا وندعالم نے اپنی موجودات کے لئے پانی کو بارش کے ذریعہ صاف وخوشگوار بنایا ہے کیونکہ بارش کے ذریعہ ہی یہ نمکین پانی صاف اورگورا بنتا ہے۔

خدا وندعالم آسمان سے بارش برساتا ہے:

( وَمَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَاٴَحْیَا بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ) ( ۳۰ )

”اور وہ پانی جو خدا نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو مردہ (بیکار) ہونے کے بعد جلا دیا(شاداب کردیا)

اور اگرخدا چاہتا تو یہ کھارا اور نمکین پانی اپنی پہلی والی حالت پر باقی رہتاجیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ۔

جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سمندر کے پانی کا نمکین ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ سمندر بہت وسیع اور گھرے ہوتے ہیں لیکن محدود اور بند ہوتے ہیں اور ان میں پانی بھرا رہتا ہے اور اگر یہ پانی نمکین نہ ہوتا تو ایک مدت کے بعد یہ پانی خراب اور بدبودار ہوجاتا۔

قارئین کرام ! ان کے علاوہ بھی پانی کی اہم خصوصیات ہوتی ہیں، مثلاً جب انسان سمندر کے پانی کو دیکھتا ہے تو اسے خدا کی قدرت اور اس کی تدبیر کا احساس ہوتا ہے، کیونکہ زمین کے تین حصے پانی ہیں تو اس سے ہوا او رگرمی پر بہت اثر پڑتا ہے، اور اگر پانی کے بعض خواص ظاہر نہ ہوں تو پھر زمین پر بہت سے حادثات رونما ہوجائیں، اور چونکہ پانی پانی ہے اور سالوں باقی رہ سکتا ہے اور پانی کی گرمی بھی زیادہ ہوتی ہے جو اوپر رہتی ہے جس کی بنا پر درجہ حرارت سطح زمین سے اوپر ہی رہتا ہے اور زمین میں سخت گرمی ہونے سے روکتاھے، اور یہ چیز زمین کو طولانی حیات کرنے میں مدد کرتی ہے جس کی وجہ سے سطح زمین پر موجود انسانوں (اور حیوانوں) کو فرحت ونشاط ملتی ہے۔

اسی طرح مذکورہ خواص کے علاوہ بھی پانی کی کچھ منفرد خاصیتیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کے خالق نے اس کو اس طرح اس لئے خلق کیا ہے تاکہ اس کی مخلوقات مکمل طریقہ سے فائدہ اٹھاسکے۔ پس پانی ہی وہ مشهورومعروف اورواحدمادہ ہے جسکی کثافت " Density " پانی کے جماد کے وقت سب سے کم ہوتی ہے اور اس کی یہ خاصیت زندگی کے لئے بہت اہم ہے، کیونکہ اسی کی وجہ سے جب سخت سردی کے موسم میں پالا پڑتا ہے تو وہ اس کو ختم کردیتا ہے بجائے اس کے کہ وہ پانی کے اندر جائے اور غرق ہوجائے اور وہ آہستہ آہستہ جم جاتا ہے لیکن یہ پالا پڑنا اس پانی کو برف بننے سے روک دیتا ہے اگرچہ ٹھنڈک کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ، اسی وجہ سے پانی میں موجود مچھلی او ردیگر حیوانات زندہ رہتے ہیں اور جب گرمی آتی ہے تو یہ پالا بہت جلد ختم ہوجاتا ہے۔

ان کے علاوہ بھی ہم پانی کے دوسرے عجیب فوائد کا ذکر کرسکتے ہیں، مثلاً نباتات کے لئے زمین کی سطح کو نرم کردیتا ہے، جس کی بنا پر نبات میں زمین کے اندر سے غذائی موادحاصل کرنے کے بعد رشد کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، چنانچہ یھی پانی ہے جو دیگر چیزوں کے اجسام کو نرم کرتا ہے ، اسی طرح پانی ہی وہ شے ہے جو انسان کے بدن میں داخل ہوکراس کے حیاتی مختلف عملیات میں مددگار ثابت ہوتا ہے، مثلاً خون یا خون کے مرکبات، اسی طرح پانی کا ایک بخار ہوتا ہے جس کی وجہ سے درجہ حرارت کم ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے پانی ایک طولانی مدت تک پانی کی شکل میں بہنے والا باقی رہتا ہے ورنہ تو گرمی کی وجہ سے خشک ہوکر ختم ہوجائے۔

قارئین کرام ! سمندر اور دریا خدا کی عظیم نشانیاں ہیں، چنانچہ ان میں خشکی سے زیادہ متعدد قسم کے حیوانات پائے جاتے ہیںاور اس کائنات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، مثلاً ایک مربع میٹر میں لاکھوں چھوٹے چھوٹے حیوانات پائے جاتے ہیں، جبکہ انھیں سمندروں میں بڑی بڑی مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں ، واقعاً خداوندعالم کا قول صادق اور سچا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَهو الَّذِی سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاٴْکُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون ) ( ۳۱ )

”اور وھی وہ خدا ہے جس نے دریا کو (بھی تمھارے) قبضہ میں کردیا تاکہ تم اس میں سے (مچھلیوں کا) تازہ تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے زیور (کی چیزیں موتی وغیرہ)نکالو جن کو تم پہنا کرتے ہو اور تو کشتیوں کو دیکھتا رھے کہ (آمد ورفت میں) دریا میں (پانی کو) چیرتی پھاڑتی آتی جاتی ہے اور (دریا کو تمھارے تابع) اس لئے کردیا کہ تم لوگ اس کے فضل (نفع وتجارت) کی تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔“

قارئین کرام ! یہ تو تھیں سمندر کی گھرائیوں کی باتیں اور اگر ہم اپنے اوپر وسیع وعریض نیلے آسمان پر دقت کے ساتھ غور وفکر کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ آسمان میں کس قدر چاند، سورج اور ستارے موجود ہیں ، اور اگر کوئی واقعاً ان میں غوروفکر کرے تو وہ بالکل دنگ رہ جائے گا اسی وجہ سے قرآن مجید نے اس طرف توجہ دلائی ہے تاکہ ہم ایک عظیم اور ہمیشگی نتیجہ پر پهونچ جائیں، اور وہ یہ کہ یہ تمام عجیب وغریب چیزیں اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان کا پیدا کرنا والا ”مادہ“ ہے:

( اٴَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ ) ( ۳۲ )

”کیا ان لوگوں نے آسمان وزمین کی حکومت اور خدا کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں غور نہیں کیا ؟!!“

( قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض ) ( ۳۳ )

”(اے رسول ) تم کہہ دو کہ ذرا دیکھو تو سھی کہ آسمانوں اور زمین میں (خدا کی نشانیاں) کیا کچھ ہیں۔۔۔“

( اٴَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَی السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاهَا وَزَیَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوج ) ( ۳۴ )

”تو کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نظر نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیونکر بنایا ہے اور اس کو (کیسی) زینت دی اور اس میں کھیں شگاف تک نھیں“

( اللهُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ) ( ۳۵ )

”خدا وھی تو ہے جس نے آسمانوں کو جنھیں تم دیکھتے ہو بغیر ستون کے اٹھاکھڑا کردیا۔۔۔“

( وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاهَا بِاٴَیدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ) ( ۳۶ )

”اور ہم نے آسمانوں کو اپنے بل بوتے سے بنایا اور بے شک ہم میں سب قدرت ہے“

( ِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی لِاٴَجَلٍ مُسَمًّی ) ( ۳۷ )

”اسی نے چاند اور سورج کو اپنی مطیع بنارکھا ہے کہ ہر ایک اپنے (اپنے) معین وقت پر چلاکرتا ہے“

ستاروں کی یہ کائنات کروڑوں ستاروں پر مشتمل ہے جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن بعض کو دوربین وغیرہ ہی کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کے وجود کا محققین وماھرین احساس کرتے ہیں لیکن ان کو دیکھا نہیں جا سکتا، لہٰذا ان تمام چیزوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد انسان دنگ رہ جاتا ہے، کیونکہ کوئی ایسا مقناطیسی سسٹم نہیں ہے جس کی بناپر ان کو ایک دوسرے سے قریب یا ایک دوسرے سے دور کردے،جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ کسی سمندر میں دو اسٹمیر " Steamer " ایک راستہ پر ایک ہی سرعت کے ساتھ چلتے ہیں اوران کا آپس میں ٹکرانے کا احتمال ہوتا ہے۔

چنانچہ آج کا سائنس کہتا ہے کہ روشنی کی رفتارفی سیکنڈ ۱۸۶۰۰۰ میل ہے، ان میں سے بعض ستاروںکی روشنی فوراً ہی ہم تک پہنچ جاتی ہے اور بعض کی روشنی مھینوں اور بعض کی سالوں میں پهونچتی ہے تو آپ اندازہ لگائیں یہ آسمان کتنا وسیع وعریض اور عجیب وغریب ہے۔؟!

تو کیا یہ تمام چیزیں یونھی اتفاقی طورپر اور بغیر کسی قصد وارادہ کے پیدا ہوگئیں؟! اور کیا یہ تمام چیزیں بغیر کسی بنانے والے کے بن گئیں؟! اور کیا ”مادہ“ ان تمام چیزوں کو اتنا منظم خلق کرسکتا ہے؟!!

( هَذَا خَلْقُ اللهِ فَاٴَرُونِی مَاذَا خَلَقَ الَّذِینَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ) ( ۳۸ )

”(اے رسول ان سے کہہ دو کہ ) یہ تو خدا کی خلقت ہے پھر (بھلا) تم لوگ مجھے دکھاؤ تو کہ جو (معبود) خدا کے سوا تم نے بنارکھے ہیں انھوں نے کیا پیدا کیا بلکہ سرکش لوگ (کفار) صریحی گمراھی میں (پڑے) ہیں۔“

قارئین کرام ! اس زمین کو خداوندعالم نے اس طرح خلق کیا ہے تاکہ اس پر مختلف چیزیں زندگی کرسکیںاور یہ زمین گھومتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ شب وروز وجود میں آئیں۔

اور یہ زمین سورج کے گرد بھی گھومتی ہے جس کی وجہ سے سال اور فصل بنتی ہیں ، جس کی بنا پر کرہ زمین پر موجودہ مختلف مقامات پر ساکنین کے لئے مساحت زیادہ ہوجائے، اور زمین پر نباتات کی فراوانی ہوسکے۔

زمین کا یہ گھومنا بہت ہی حساب شدہ ہے، چنانچہ نہ اس میں کمی ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اگر اس زمین کی موجودہ حالت میں کمی یا اضافہ ہوجائے توزندگی کا خاتمہ ہوجائے۔

اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس زمین پر گیس کا غلاف ہوتا ہے جو گیس زندگی کے لئے ضروری ہے، چنانچہ یہ گیس زمین سے / ۵۰۰ میل کے فاصلہ پر رہتی ہے اوریہ غلاف اتنا ضخیم ہوتا ہے ،جو آج کے دور میں ایک سیکنڈ میں تیس میل کی دوری کو تیزی کے ساتھ طے کرتا ہے۔

جس کی بناپر ان ستاروں کی گرمی کو کم کردیتا ہے کہ اگر یہ غلاف نہ ہو تو پھر زمین پر کوئی زندہ باقی نہ بچے، اور اسی غلاف کی وجہ سے مناسب گرمی ہم تک پهونچتی ہے اسی طرح اس زمین سے پانی کا بخار بھی بہت دور رہتا ہے تاکہ خوب بارش ہوسکے، اور مردہ زمین سبزہ زار بن جائے کیونکہ بارش ہی کی وجہ سے پانی اتنا صاف ہوتا ہے اور اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو پھر زمین چٹیل میدان نظر آئے اور اس میں زندگی بسرکرناغیر ممکن ہوجائے۔

اسی طرح پانی کا ایک اہم خاص امتیاز یہ ہے کہ وہ سمندر اور خشکی میں موجود تمام چیزوں کی حیات کی حفاظت کرتا ہے خصوصاً وہ برفیلے علاقے جھاں پر کڑاکے کی سردی ہوتی ہے کیونکہ پانی آکسیجن کی کافی مقدار کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے جب کہ آکسیجن کا درجہ حرارت کم ہو اور جو سمندر اور نھروں میں پانی کی سطح پر پالا ہوجاتا ہے اس کو یہ پانی ختم کردیتا ہے، کیونکہ نسبی طور پر خفیف ہوتا ہے پس اس بنا پر ٹھنڈے علاقے میں تمام پانی میں رہنے والے موجودات کازندگی گذار نا آسان ہوجاتا ہے، اور جب پانی جم جاتا ہے تو اس کے اندر سے کچھ حرارت نکلتی ہے جو سمندری حیوانات کی زندگی کی محافظت کرتی ہے۔

اب رھی خشک زمین تو یہ بھی بہت سی چیزوں کی حیات کے لئے بنائی گئی ہے ، چنانچہ اس میں ایسے بہت سے عناصر ہیں جو نباتات اور دوسری چیزوں کی حیات کی اہم ضرورت ہیں، جن سے انسان اور حیوانات کی غذا فراہم ہوتی ہے، چنانچہ بہت سے معادن زمین پر یا اس کے اندر پائے جاتے ہیں، اور اس سلسلہ میں بڑی بڑی کتابیںبھی لکھی گئی ہیں۔

اور اگراس زمین کا قُطر موجودہ قطر کے بجائے ایک چھارم ہوتا تو پھر اس کے اطراف میں موجود پانی اور فضائی دونوں غلاف کو یہ زمین اپنے اوپرروک نہ پاتی اور اس زمین پر اتنی گرمی ہوتی کہ کوئی بھی چیز زندہ نہیں رہ پاتی۔

اور اگر اس زمین کا اندازہ موجودہ صورت کے بجائے دوبرابر ہوتا اور اس زمین کی مساحت دوبرابر ہوتی ، اور اس وقت موجودہ زمینی جاذبہ دوبرابر ہوجاتا، جس کی بنا پر ہوائی غلاف کا نظام خفیف ہوجاتا، اور فضائی تنگی ایک کیلو گرام سے دو کیلوگرام فی مربع سینٹی میٹر ہوجاتی، اور یہ تمام چیزیں سطح زمین پر موجودہ تمام اشیاء کے لئے مو ثر ثابت ہوتیں، تو ٹھنڈے علاقے کی مساحت اور وسیع ہوجاتی، اور وہ زمین جو قابل سکونت ہے اس کی مساحت کافی مقدار میں کم ہوجاتی، چنانچہ ان وجوھات کی بناپر انسانی زندگی درہم وبرہم ہوجاتی۔

اسی طرح ا گرسطح زمین موجودہ مقدار سے زیادہ بلند ہو تو اس صورت میں یہ آکسیجن اور ڈائی اکسیڈ کاربن دوم " Carbon Dioxide "زیادہ جذب کرتی جس کی بنا پر نباتات کی زندگی تنگ ہوجاتی۔

اسی طریقہ سے اگر زمین کی سورج سے موجودہ دوری کو دوبرابر بڑھا دیا جائے تو اس کی سورج سے لی جانے والی موجودہ حرارت سے ایک چوتھائی کم ہوجائے گی اور اس صورت میں زمین کا سورج کے اردگرد چکر لگانا طولانی مدت طے پائے گا جس کی بنا پر سردی کا موسم بڑھ جائے گا اور سطح زمین پر رہنے والے موجودات کی زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔

اسی طرح سے اگرزمین اور سورج کے درمیان موجودہ مسافت کو کم کرکے نصف کردیا جائے تو موجودہ حرارت میںچار گنا اضافہ ہوجائے گا، اور گردش زمین سورج کے اطراف میں تیز ہوجائے گی، جس کی بنا پر زمین پر کسی بھی موجود کا زندہ رہنا ناممکن ہوجائے گا۔

یھاں تک کہ کرہ ارض کا میلان کہ جس کی مقدار ۲۳ زاویہ فرض کی گئی ہے یہ بھی بغیر مصلحت نہیں ہے کیونکہ اگر اس میں یہ میلان نہ ہوتا تو زمین کے دونوں قطب مسلسل اندھیرے میں ڈوبے رہتے اور پانی کے بخارات شمال وجنوب میں منڈلاتے رہتے، اور ایک دوسرے پر پالا یا برف بن کر منجمد ہوجاتے۔

المختصر زمین کا موجودہ دقیق نظام مختل ہوجائے تو تمام جاندار اشیاء کی زندگی نیست ونابود ہوکر رہ جائے گی، کیونکہ زمین کے اندر پائے جانے والے نظام جاندار اشیاء کے لئے اسباب حیات فراہم کرتے ہیں، تو کیا یہ سارا نظام اتفاقی اور تصادفی ہے؟!!

قارئین کرام ! زمین کی مٹی بھی عجیب کائنات ہے اور اسی سے بہت سی چیزیں مربوط ہوتی ہیں، جو تمام اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس زمین اور مٹی کا بنانے والا کوئی نہ کوئی ہے ، کیونکہ جب ہم مٹی کو دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح کی فعالیت انجام دیتی ہے اور کس طرح بہت سے نتائج پیش کرتی ہے چنانچہ ماھرین نے اس کے نتائج کی درج ذیل قسمیں بیان کی ہیں: کہ اس کا نچلا حصہ گول ہوتا ہے اس پر مٹی کا ایک طبقہ ہوتا ہے، جب وہ ہٹ جاتا ہے تو دوسرا طبقہ اس کی چگہ پر آجاتا ہے۔

اور یہ بھی مسلم ہے کہ ہمارے لئے مٹی بہت ہی مفید ہے کیونکہ اکثرکھانے کی چیزیں اسی سے دستیاب ہوتی ہیں، کیونکہ تمام نباتات مٹی کی وجہ سے ہی رشد ونمو کرتی ہیں اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ بغیر زمین کے نباتات کا کوئی وجودهو ہی نہیں ہوسکتا،اور جب ان نباتات کی جڑیں کسی بھی موٹے پتھر سے ٹکراتی ہیں تو وہ آہستہ آہستہ ان سے ہٹتے جاتے ہیں البتہ پتھروں کا ہٹ جانا ان قواعد کے تحت ہوتا ہے جن سے پتھر پانی میںپگھل جاتے ہیں مثلاً ان میں کیلسم " Calcium "، میگنیسم" Magnesium " ، اورپوٹاشم" Potassium " ہوتے ہیں اسی طرح ان میں سلکون اسیڈس " Silicon Acids "باقی رہتے ہیں اور المینیم اور لوھے کا مٹی میں زیادہ غلبہ ہے ۔

جبکہ سلکون کے عناصر کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ بڑے سے بڑے پتھر کو پانی بناسکتے ہیںلہٰذا پتھر کو پانی بنانے والے اجزاء بھی اسی نبات میں ہوتے ہیں اور اسی طرح ان نبات میں وہ اجزاء بھی ہوتے ہیں جو ان کو رشد ونمودیتے ہیں تو یہ دونوں ایسی چیزیںھیں جو ایک دوسرے کے سوفی صد مخالف ہیںتوکیا ایک ساتھ رہ کر کام کرسکتی ہیں او ردرختوں اور نباتات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔

لیکن یھی نیٹروجن" Nytrogen "جس کے ذریعہ بجلی بنتی ہے اور اس بجلی کو بہت سے لوگ موت کا فرشتہ بھی کہتے ہیں، چنانچہ اسی نیٹروجن" Nytrogen "کے " OXidS "سے بجلی کی طاقت پیدا ہوتی ہے ،لیکن جب یھی نیٹروجن کے اکسیڈس بارش یا برف کے ذریعہ مٹی میں جذب ہوتے ہیں تو اس کو یا اس پر موجود درختوں کو جلانے کے بجائے ان کو رشد ونمو عطا کرتے ہیں، چنانچہ مٹی میں موجود نیٹروجن کی مقدار کو سالانہ سوڈیم کی تیس بالٹی حاصل کرتی ہے اور یہ مقدار درختوں او ردیگر نباتات کے رشد ونمو کے لئے کافی ہوتی ہے۔!!

اور یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ یہ نیٹروجن جس سے بجلی بنتی ہے تو یہ مستوی علاقوں میں بنسبت مرطوب اور معتدل علاقوں کے زیادہ ہوتا ہے پس خشک اور جنگلی علاقوں میں اس کی مقدار میں اضافہ ہوتا رہتاھے، خلاصہ یہ کہ یہ نیٹروجن علاقے کی ضرورت کے تحت مختلف چیزوں میں کارگر ہوتا رہتاھے کیونکہ ہر علاقہ میں اس کی ایک خاص ضرورت ہوتی ہے تو کیا اس کی تدبیر کے لئے کوئی نہیں ہونا چاہئے؟!!

الغرض اس دنیا کے عجائبات میں سے کس کس چیز کا ذکر کیا جائے مثلاً پانی کا دورہ، اکسیڈ کاربن دوم کا دورہ، عجیب انداز میں زاد ولد ہونا اسی طرح روشنی اور نور کی عملیات ان سب کی قوت شمس کے خزانہ میں بہت زیادہ اہمیت ہے ، اسی طرح اس موجودہ کائنات کی زندگی میں اہم کردار رکھتے ہیں ، چنانچہ اس کائنات کی ظاہری چیزیں اور سبب واقع ہونے والی چیزیں اسی طرح تکامل وتوافق او رتوازن جن کے ذریعہ سے بہت سی چیزیں منظم ہوتی ہیں، توکیا یہ اتنی عجیب وغریب چیزیں اتفاقی اور اچانک پیدا ہوگئیں،(انسان کی عقل کو کیا ہوگیا اور ان تمام مخلوقات میں غور نہیں کرتا)

چنانچہ یہ بسیط جزئیات جن کی کوئی صورت معین نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے درمیان خالی جگہ ہوتی ہے ، لیکن ان سے کروڑوں کواکب اور ستارے نیز مختلف عالم وجود میں آئے جن کی معین صورت بھی ہوتی ہے اورطولانی عمر بھی اور اپنے خاص قوانین کے تحت کام کرتے ہیں، تو کیا یہ بھی سب کچھ اتفاقی طور پر اچانک پیدا ہوگیا؟!!

اور یہ کیمیاوی مشهور عناصر جن کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہے تو کیا انسان ان میں تشابہ اور اختلاف کی صورتوں کو ملاحظہ نہیں کرتا؟کیونکہ ان میں بعض رنگین ہیں اور بعض رنگین نہیں ہیں، ان میں سے بعض ایسے گیس ہیں جن کو سائل (بہنے والی)یا جامد بنانا مشکل ہے اور بعض سائل ہیں، اور بعض ایسے سخت ہیں جن کو سائل یا گیس بنانا مشکل ہے ، ان میں سے بعض کمزور ہیں اور بعض سخت، ان میں سے بعض ھلکے اور بعض بھاری، بعض مقناطیسی ہیں اور بعض مقناطیسی نہیں ہیں، ان میں سے بعض نشاط آورھیں اور بعض بے قدرے، بعض احماض (کڑوے) ہیں اور بعض کڑوے نہیں ہیں ان میں بعض کافی عمر کرتے ہیں اور بعض کچھ دن ہی عمر کرتے ہیں ، لیکن یہ تمام ایک ہی قانون کے تحت ہوتے ہیں اور وہ قانون ”قانون دوری“ " Periodic Law "ھے۔

کیونکہ ان معین عنصر اور غیر معین عنصر کے ذرات کے درمیان فرق صرف پروٹونات اور نیوٹرونات کی تعداد میں ہوتا ہے جو گٹھلی کی طرح ہوتے ہیںاور دوسرا فرق یہ ہے کہ عدد اور الکٹرونات جو گٹھلی سے باھر ہوتے ہیں اور ان کا طریقہ تنظیم بھی جدا ہوتا ہے، لہٰذا اس بنا پر مواد مختلفہ کی کروڑوں قسمیں چاھے وہ عناصر ہوں یا مرکب چیزیں” کھربائی“" Electricity " جزئیات سے مل کر بنتی ہیں اور ان میں یا تو فقط صورت ہوتی ہے یا طاقت ، او رچونکہ مادہ بھی جزئیات او رذرات سے تشکیل پاتا ہے ، اور جزئیات وذرات ”الکٹرونات“ و”نیوٹرونات“سے ذرات تشکیل پاتے ہیں اسی طرح طاقت او رکھرباء" Electricity " یہ تمام کے تمام معین قوانین کے تحت ہوتے ہیں اس حیثیت سے کہ ان ذرات کی ایک مقدار بھی ان کی معرفت اور خصوصیات کو کشف کرنے کے لئے کافی ہے۔

کیا یہ تمام چیزیں اتفاقی ہوسکتی ہیں؟ اسی طرح کیا یہ تمام قوانین اور نظام کائنات صدفةً اور اچانک ہوسکتے ہیں؟!!

آج کا سائنس مادہ کے ازلی ہونے کو ردّ کرتا ہے

ہمیں اس بات کا یقین ہے اور اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ تمام جھان اور جو کچھ بھی اس میں موجود ہے جسے ہم ملاحظہ کررھے ہیں یہ سب قدیم زمانہ سے موجود ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ ” عدم“ کے ذریعہ کوئی چیز وجود نہیں پاتی؟! بلکہ ہر چیز کے لئے ایک بنانے والے کا ہونا ضروری ہے ، یعنی یہ تمام چیزیں پہلے نہیں تھیں اور بعد میں وجود میں آئیں، تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟


4

5

6

7