بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک28%

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13385 / ڈاؤنلوڈ: 4743
سائز سائز سائز
بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب : بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف : محمد علی چنارانی

مترجم :سید قلبی حسین رضوی

مصحح : کلب صادق اسدی

پیشکش :ادارۂ ترجمہ،معاونت فرہنگی ، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کی تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی ہے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کے بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اورچودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں ، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت (ص) و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواراں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کیعالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققیں ومصنفیں کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفیں و مترجمیں کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل مولف محمد علی چنارانی کی گرانقدر کتاب ''بچوں اورنوجوانوں کے ساتھ نبی اکرم (ص) کا حسن سلوک '' کو فاضل جلیل مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

پیش لفظ

آج کل کی دنیا میں بچوں کی تربیت،سماج کاایک بنیادی ترین مسئلہ اور بشریت کی سعادت کا اہم ترین عامل شمار ہوتی ہے۔اس لئے دانشوروں نے بچوں کے نفسیات اور تربیت کے بارے میں کافی مطالعہ اورتحقیق کی ہے اوراس موضوع پر بہت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں ۔

اسی طرح بڑے ممالک میں ،بچوں کے جسم وروح کی صحیح تربیت کی غرض سے وسیع پیمانے پرانجمنیں بنائی گئی ہیں اور بچوں کی علمی اور عملی لحاظ سے نگرانی کی جارہی ہے۔

لیکن چودہ سو سال قبل،جب بشریت جہل و نادانی کے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی،اس وقت پیغمبر اسلام (ص)نے بچوں کی قدر ومنزلت اور تربیت کوخاص اہمیت دی، اور اس سلسلہ میں اپنے پیرئوں کوضروری ہدایات دیں۔

اگرچہ آج دانشور اور ماہرین بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تربیت کو اہمیت دیتے ہیں ،لیکن اسلام نے ازدواجی زندگی کے بنیادی اصول،شریک حیات کے خصوصیات،نسل کی پاکیزگی،دودھ پلانے اور بچوں کے جسم وروح کی تربیت کے سلسلہ میں لوگوں کی ذمہ داریوں کو قدم بہ قدم بیان کیا ہے۔

اگر آج دنیا کے دانشوروں نے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں بہت سے نفسیاتی اور تربیتی مسائل کو دقیق انداز میں اپنی علمی کتابوں میں درج کیا ہے،تواسلام کے پیشوائوں نے بہت پہلے ہی میں ان نکات کو مذہبی روایات کی صورت میں بیان کر دیا تھا اور خود بھی اپنی زندگی میں اس کوعملی جامہ پہنا یا ہے۔

اس کتاب میں ہمارا مقصددو بنیادی اصولوں پر استوار ہے:

اول یہ کہ تمام مسلمان،بالخصوص نوجوان اور طلبہ،کہ جو معاشرہ کی بڑی تعداد کو تشکیل دیتے ہیں ،دین مقدس اسلام کے منصوبوں اور دستورات کی ہمہ گیری اور اس آسمانی دین کے عملی اقدار سے آگاہ ہو جائیںاور قوی و مضبوط ایمان واعتقاد سے اس کی پیروی کریں اور دشمنوں کے فریب میں نہ آئیں۔

دوسرے یہ کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں اپنی مذہبی اور قومی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو جائیںتاکہ اس اہم اورسنگین ذمہ داری کو بہتر صورت میں انجام دے سکیں۔کیونکہ بہت سے اجتماعی مشکلات اور اخلاقی برائیاںاپنی ذمہ داریوں سے ناواقفیت کی بنا پر ہی وجود میں آتی ہیں ۔

اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیاکہ ان لو گوں کے لئے ایک عملی نمونہ پیش کریںکہ جو اپنے بچوں کی جسمانی و روحانی لحاظ سے صحیح تر بیت کرنا چاہتے ہیں ۔مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفے (ص)اور آپ (ص)کے حقیقی جانشین ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے تمام مراحل میں انھیں اطمینان بخش نمونہ قرار دیں اوران کی پیروی کر یںچنانچہ ان کامل انسانوں کی پیروی واطاعت میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہے، کیونکہ ان شخصیتوں کوخداوند متعال نے ہر برائی سے پاک قرار دیا ہے اوران کی اطاعت کہیں بھی اور کبھی بھی

مشکل پیدا نہیں کرسکتی ہے۔دعا ہے کہ بشریت آگاہ ہو جائے اورحقیقی پیشوائوں کی پیروی کرے ،جھوٹے اور شیطانی نمونوں کی اطاعت نہ کریں تاکہ اس طرح وہ دنیاوآخرت کی سعادت سے ہمکنار ہو جائے۔

یہ کتاب دوحصوں پر مشتمل ہے:

۱۔پیغمبر اسلام (ص)کا بچوں کے ساتھ سلوک، اس میں پانچ فصلیں ہیں اور ہر فصل چند موضوعات پر مشتمل ہے۔

۲۔پیغمبر اسلام (ص) کانوجوانوں کے ساتھ سلوک،اس میں چار فصلیں ہیں اور ہرفصل چند عناوین پرمشتمل ہے

آخر پر میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں میری مدد فر مائی۔

مؤلف

پہلا حصہ:

بچوں کے ساتھ

پیغمبر اسلام (ص)کا سلوک

بچوں کے ساتھ پیار ومحبت سے پیش آنا پیغمبر اکرم (ص)کے نمایاں خصوصیات میں سے تھا۔

پہلی فصل:

تر بیت

اپنے بچوں کااحترام کرواوران کے ساتھ ادب سے پیش آؤ۔

( پیغمبر اکرم (ص))

تربیت کی اہمیت

بچہ پیدائش کے بعداپنے خاندان سے جدا ہونے اور دوسروں کے ساتھ مشترک زندگی گزارنے تک تربیت کے دودور سے گزرتا ہے:

۱۔بچپنے کا دور،یہ دورایک سال کی عمرسے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میں بچہ کے اندر براہ راست تر بیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ،کیونکہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔

۲۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور۔اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیتوں کے لئے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھ سکتا ہے اور تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔

پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہئے اور ہر گز اس کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کے حکم دینے میں سختی نہیں کر نا چاہئے بلکہ بچہ اپنے ماحول سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا ہے اس طرح اس کے وجود میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرز عمل کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے۔

دوسرے دور میں بھی بچے کو آزادنہیں چھوڑنا چاہئے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہئے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہئے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہئے۔(۱)

افسوس کہ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ اپنے بچوں کی تربیت کب سے شروع کریں۔بعض والدین یہ تصور کرتے ہیں کہ بچو ں کی تربیت چھ سال تمام ہونے کے بعدکی جانی چاہئے اور بعض تربیت کا آغازتین سال کی عمر ہی سے کر دیتے ہیں ۔

لیکن یہ خیال غلط ہے،کیونکہ جب بچے کی عمرتین سال مکمل ہوتی ہے تو اس میں ۷۵فیصد صفات اچھے اور برے صفات پیدا ہو جاتے ہیں ۔

بعض ماہرین نفسیات کا یہ خیال ہے کہ بچے کی تربیت پیدائش سے ہی شروع کی جانی چاہئے،لیکن بعض دوسرے ماہرین کسی حد تک احتیاط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے کی تر بیت پیدائش کے بعد دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ سے ہی ہوناچاہئے ۔لیکن ''شکا گو''یونیور سٹی میں اس موضوع پردقیق تحقیق کرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

''ایک صحیح وسالم بچے کی فکری سطح چار سال کی عمرمیں ۵۰فیصد،آٹھ سال کی عمر میں ۳۰ فیصد اور سترہ سال کی عمر میں ۲۰ فیصد مکمل ہوتی ہے۔لہذا ہر چار سالہ بچہ۵۰فیصد سوجھ بوجھ کی صلاحیت رکھتاہے،اسی طرح۲اور۳ سال کے درمیان

بچے میں رونماہونے والی تبدیلیاں ۸اور۹ سال کے درمیان رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کئی گنا زیادہ اوراہم ہوتی ہیں ۔(۲) ''

بچے کی تربیت کہاں سے شروع کریں؟

تعلیم وتربیت کو مفیدبنانے کے لئے ضروری ہے کہ آج کل کے تصور کے برخلاف مذکورہ مدت سے پہلے ہی بچے کی تربیت اس کی پیدائش کے ابتدائی ہفتوں سے ہی شروع کرنا چاہئے ،پہلے صرف جسمانی مسائل اور پھر ایک سال کی عمر سے نفسیاتی مسائل کی طرف توجہ کی جانی چاہئے۔

یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ بچے کے لئے وقت کی اہمیت یکساں نہیں ہوتی،کیونکہ ایک سال کی عمر میں ایک دن کی مدت،تیس سال کی عمر میں ایک دن کی مدت سے کئی گنا طولانی ہوتی ہے۔شاید یہ مدت جسمانی اور نفسیاتی حوادث کے لحاظ سے چھ گنا زیادہ ہو۔لہذا بچپن کے اس گرانقدر دور سے پھر پورا فائدہ اٹھانے میں غفلت نہیں کرنی چاہئے۔اس بات کا قوی احتمال ہے کہ بچے کی ابتدائی چھ سال کی عمر کے دوران زندگی کے قواعد وضوابط کے نفاذ کانتیجہ یقینی ہے۔(۳)

اسی لئے حضرت علی فرماتے ہیں :

''من لم یتعلّم فی الصّغر لم یتقدّم فی الکبر'' ۔(۴)

''جوبچپن میں کچھ نہ سیکھے وہ بڑا ہو کرآگے نہیں بڑھ سکتا ۔''

لہذا بچپن کا دور زندگی کے صحیح طور طریقے سیکھنے کا بہترین وقت ہو تا ہے۔کیونکہ اس زمانے میں بچے میں تقلید اور حفظ کی توا نائی بہت قوی ہوتی ہے۔اس دور میں بچہ اپنے معاشرہ کے افراد کے حرکات وسکنات اور ان کے چال چلن کو پوری توجہ کے ساتھ دیکھتا ہے اور ان کا عکس،کیمرے کے مانند،اپنے ذہن میں کھینچ لیتاہے۔

اس لئے،بچے کے جسم کی نشو ونما اور تکامل کے ساتھ اس کی روح کی بھی صحیح راستے کی طرف ہدایت ہونی چاہئے تاکہ اس میں نیک اور شائستہ صفات پیدا ہو جائیں۔ کیونکہ جن بچوں کی بچپن میں صحیح طریقے سے تربیت نہیں ہوتی ہے،ان میں بڑے ہو نے کے بعد اخلاقی تبدیلی کا آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

خوش قسمت اورکامیاب وہ لوگ ہیں ،جو ابتدائے زندگی سے ہی صحیح وسالم تربیت کے ساتھ نشو ونما پاتے ہیں اور نمایاں اورگرانقدر صفات ان کی زندگی کا جزولا ینفک بن جاتے ہیں ۔

بعض ماہرین نفسیات نے بچے کوایک ننھے پودے سے تشبیہ دی ہے،جس کی حالت کو ایک باغبان صحیح طریقہ کار کے تحت بدل سکتاہے۔لیکن جو لوگ ایک پرانے درخت کے مانند گندے اور نا پسندماحول میں پلے بڑھتے ہیں ،ان کی اصلاح کرنا بہت دشوار ہوتا ہے،اور جو شخص ایسے افراد کے کردارو طرز عمل کو بدلنا چاہے گا،اسے بہت سی مشکلات کا سامناکر ناپڑے گا۔(۵)

پیغمبر اکرم (ص) لو گوں کے لئے نمونہ عمل ہیں

خدا وند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوة حسنة ) (احزاب۲۱)

''بیشک رسول خدا (ص) تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں ،لہذا تم لوگ ان کے وجودمبارک سے مستفید ہو سکتے ہو۔''

پیغمبر اسلام (ص) پوری تاریخ میں بشریت کے لئے سب سے بڑے نمونہ عمل تھے،کیونکہ آپ (ص) اپنے بیان کے ذریعہ لوگوں کے مربیّ وراہنما ہونے سے پہلے اپنی سیرت اور طرز عمل سے بہترین مربیّ اور رہبر تھے،

پیغمبر اسلام (ص) کی شخصیت صرف کسی خاص زمانہ،کسی خاص نسل ،کسی خاص قوم،کسی خاص مذہب اورکسی خاص علاقہ کے لئے نمو نہ نہیں تھی،بلکہ آپ (ص) عالمی اورابدی لحاظ سے تمام لوگوں اورتمام ادوار کے لئے نمونہ تھے۔

ہم یہاں پرمعتبر اسناد وشواہد کی روشنی میں بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اسلام (ص) کے حسن سلوک اور طرز عمل کو بیان کر رہے ہیں ۔

بچے کو اہمیت دینا

دور حاضر میں بچوں کوبہت اہمیت دی جارہی ہے۔خاندانوں اور معا شروں کے بچوں کی شخصیت کے احترام پرحکومت اور قوم کافی توجہ دے رہی ہے۔اس کے باوجود پیغمبر اسلام (ص) بچوں کی تربیت پرجتنی توجہ دیتے تھے،اتنی توجہ آج کی دنیا بھی نہیں دے پا رہی ہے ۔

اگرچہ،کبھی کبھی تہذیب و ترقی یافتہ ممالک کے زمامدار اور حکمران یتیم خانوں اور نرسریوں میں جاکرایک دو گھنٹے بچوں کے ساتھ گزار تے ہیں اور ان میں سے بعض تو بچوں کو گود میں لیکرتصویریں کھنچاتے ہیں اور ویڈیوفلم بناتے ہیں ،ان کے بارے میں مقا لات بھی لکھتے ہیں اور اس طرح بچوں کے تئیں اپنے احترام کولو گوں پر ظاہر کر تے ہیں ،لیکن آج تک کوچہ و بازار میں کسی شخص نے بھی پیغمبر اسلام (ص) کے مانندنہایت سادگی کے ساتھ بچوں کو گود میں لے کرپیار نہیں کیا ۔اس طرح پیغمبر اکرم (ص)اپنے اور غیروں کے تمام بچوں ،سے خاص محبت فرماتے تھے۔اس سلسلہ میں آنحضرت (ص) کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ:

''والتّلطف بالصبیان من عادةالرّسول'' (۶)

''بچوں سے پیار ومحبت کرنا پیغمبر اسلام (ص)کی عادت تھی ''

شیعوں کے ائمہ اطہار علیہم السلام دوسرے دینی پیشوائوں نے بھی اسی پر عمل کیا ہے اور وہ بھی بچوں کی اہمیت کے قائل تھے۔ذیل میں ہم چند نمونے پیش کر رہے ہیں :

۱۔بچے سے سوال کرنا

حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ لوگوں کے سامنے اپنے بچوں سے علمی سوالات کر تے تھے اور بعض اوقات لوگوں کے سوالات کا جواب بھی انھیں سے دلوا تے تھے۔

ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزندامام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے چند موضوعات کے بارے میں کچھ سوالات کئے چنانچہ ان میں سے ہر ایک

نے مختصر لفظوں میں حکیمانہ جواب دئے۔اس کے بعدحضرت علی علیہ السلام نے مجلس میں موجودحارث اعور نامی ایک شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا:

ایسی حکیمانہ باتیں اپنے بچوں کو سیکھاؤ ،کیونکہ اس سے ان کی عقل وفکر میں استحکام وبالیدگی پیدا ہوتی ہے ۔(۷)

اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے ان کا بہترین انداز میں احترام کیا اور ان کے وجود میں ان کی شخصیت کو اجاگر کیا اور خود اعتمادی پیدا کی ۔

۲۔حسن معاشرت

بچے میں شخصیت پیدا کرنے کاایک بنیادی سبب اس کے ساتھ اچھا برتاؤبھی ہے۔رسول خدا (ص) نے مختصرلفظوں میں فرمایا اور اپنے پیروئوں کوآشکار طور پر اسے نافذ کرنے کاحکم دیا ہے:

''اپنے فرزندوں کا احترا م کرواور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ(۸) ''

لہذاجو لوگ اپنے بچوں کی با عزت وبا حیثیت شخص بنانا چاہتے ہیں ،انھیں چاہئے کہ اپنے بچوں کواچھی تعلیم وتر بیت کے ساتھ رہنمائی کریں۔ اور برے، ناپسند اور توہین آمیز سلوک سے پر ہیز کر یںکیو نکہ نا پسنداور برے طرز عمل سے اپنے بچوں کی ہر گز صحیح تربیت نہیں کی جا سکتی ۔

۳۔وعدہ پورا کرنا

وعدہ پورا کرنا ان عوامل سے ایک ہے کہ جن کے ذریعہ بچے میں اعتماد پیدا کیا جاسکتا ہے اور یہ ان کی شخصیت کے نشو ونما میں کافی موثرہے۔ائمہ اطہار علیہم السلام نے بچوں سے وعدہ وفائی کرنے کے سلسلہ میں بہت تاکید کی ہے اس سلسلہ میں ہم ائمہ معصومین کے چند اقول پیش کرتے ہیں :

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''جائزنہیں ہے کہ انسان سنجیدگی سے یا مذاق میں جھوٹ بولے۔

جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے بچے سے وعدہ کرلے اور اسے پورا نہ کرے(۹) ''

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرما یا:

''اگر تم میں سے کسی نے اپنے بچے سے کوئی وعدہ کیا ہے۔تو اسے پورا کرنا چاہئے اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے۔(۱۰) ''

شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں ائمہ اطہار علیہم السلام سے والدین کے وعدہ وفائی کے بارے میں بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں ،لیکن ہم اختصار کے پیش نظر یہاں پر انھیں ذکر کر نے سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

۴۔بچے کو مشکلات سے آگاہ کرنا۔

اپنے بچوں ، خاص کر بیٹوں کو شخصیت اور حیثیت والابنانے کا مالک سبب یہ بھی ہے

کہ انھیں مشکلات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ مستقبل میں مشکلات سے مقا بلہ کرسکیں،کیونکہ بچوں کو عملی طور پر یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر چیز کو حاصل کرنے کے لئے کوشش و زحمت کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کوئی بچہ مشکلات اور سختیوں سے آگاہ نہ ہو تووہ مستقبل میں زندگی کے گوناگوں مشکلات کے مقابلہ میں گھبرا جائے گا۔یہ حقیقت ہمارے ائمہ اطہار علیھم السلام کی روایات میں بھی بیان ہوئی ہے۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

''بہتر ہے کہ بچہ بچپنے میں زندگی میں پیش آنے والی سختیوں اور مشکلات سے دو چارہو،جوکہ حقیقت میں زندگی کا کفارہ ہے،تاکہ جوانی اور بوڑھاپے میں صبروبرد باری سے کام لے ۔(۱۱) ''

یہ یاد دہانی کرا دینا ضروری ہے کہ،بچوں کو مشکلات سے آشناکرنا بچے کی ناراضگی کا سبب نہیں بنناچاہئے۔یعنی بچے کے ذمہ کئے جانے والے کام اس کی توانائی اور طاقت سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں،اس لئے بچے کی طاقت و توانائی کومد نظر رکھنا ضروری ہے۔

رسول خدا (ص) نے اس سلسلہ میں درج ذیل چار نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے:

۱۔بچہ نے اپنی طاقت بھر جو کام انجام دیا ہے اسے قبول کرنا۔

۲۔جو کام بچے کی طاقت سے باہر ہو بلکہ اس کے لئے نا قا بل برداشت ہو اس کام کا اس سے مطالبہ نہ کرنا۔

۳۔بچے کوگناہ اور سر کشی پر مجبور نہ کرنا۔

۴۔اس سے جھوٹ نہ بولنااور اس کے سامنے فضول اور احمقانہ کام انجام نہ دینا۔(۱۲)

دوسری ر وایتوں میں یوں نقل ہوا ہے:

''جب رسول خدا (ص) سات سال کے تھے،ایک دن اپنی دایہ(حلیمہء سعدیہ)سے پو چھا:میرے بھائی کہاں ہیں ؟(چونکہ آپ (ص)حلیمہ سعدیہ کے گھر میں تھے،اس لئے ان کے بیٹوں کو بھائی کہتے تھے)انہوں نے جواب میں کہا:پیارے بیٹے!وہ بھیڑبکریاں چرانے گئے ہیں ،جو خداوند متعال نے ہمیں آپ (ص) کی بر کت سے عطا کی ہیں ۔آپ(ص)نے کہا:اما جان آپ نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ! ماں نے پو چھا:کیوں ؟

جواب میں کہا:کیایہ مناسب ہے کہ میں خیمہ میں بیٹھ کر دودھ پیوں اور میرے بھائی بیا بان میں تپتی دھوپ میں ہوں ۔(۱۳) ''

۵۔بچے کے کام کی قدر کر نا

رسول خدا (ص) نے بچوں کی تربیت و پرورش اور انھیں اہمیت دینے کے بارے میں اپنے پیروئوں کو جوحکم د یا ہے، پہلے اس پر خود عمل کیا ہے۔پیغمبر اکرم (ص) کی ایک سیرت یہ بھی تھی کہ آپ (ص)بچوں کے کام کی قدر کرتے تھے۔

عمرو بن حریث نے یوں روایت کی ہے:

''ایک دن رسول خدا (ص) عبداللہ ابن جعفرا بن ابیطالب کے نزدیک سے گزرے۔جبکہ وہ بچے تھے ،آنحضرت (ص) نے ان کے حق میں یہ دعا کی:خدا وندا! اس کی تجارت میں برکت عنایت فرما۔(۱۴) ''

۶۔بچوں کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا

رسول اکرم (ص)کی یہ بھی سیرت تھی کہ کبھی آپ(ص) اپنے بچوں کی تعظیم کے لئے نماز کے سجدہ کو طول دیتے تھے یا لوگوں کے بچوں کی تعظیم کے لئے نماز کو جلدی تمام کرتے تھے اور ہر حال میں بچوں کا احترام کرتے تھے اور اس طرح عملی طور پرلوگوں کو بچوں کی تعظیم کرنے کا درس دیتے تھے۔

ایک دن پیغمبر اکرم (ص)بیٹھے تھے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام داخل ہوئے۔آنحضرت (ص) ان کے احترام میں اپنی جگہ سے اٹھ کرانتظار میں کھڑے رہے۔چونکہ دونوں بچے اس وقت صحیح طریقے سے چل نہیں پاتے تھے،اس لئے آنے میں کچھ دیر ہوئی۔لہذا پیغمبر اسلام (ص) نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا ۔دونوں بچوں کو گود میں لے لیا اور دوش مبارک پر سوار کر کے چلے اور فر مایا کہ میرے پیارے بیٹو!تمہاری کتنی اچھی سواری ہے اور تم کتنے اچھے سوار ہو۔(۱۵) ؟!''

آنحضرت (ص)حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی تعظیم کے لئے بھی کھڑے ہوتے تھے۔(۱۶)

۷۔بچوں کے مستقبل کا خیال رکھنا

ایک دن حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے اپنے بچوں اور بھتیجوں کو اپنے پاس بلاکر فرمایا:تم آج معاشرہ کے بچے ہو لیکن مستقبل میں معاشرہ کی بڑی شخصیت ہوگے،لہذاعلم حاصل کرنے کی کوشش کرو،تم میں سے جو بھی علمی مطالب کو حفظ نہ کر سکے،وہ انھیں لکھ ڈالے اوراپنی تحریروں کو اپنے گھرمیں محفوظ رکھے تاکہ ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرے۔(۱۷)

اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام بچوں کے مستقبل کو ملحوظ رکھتے تھے اور بچوں کے والدین کواس حقیقت سے آگاہ فرماتے تھے۔اس لئے دین کے پیشوا بچوں کے مستقبل کے بارے میں خاص توجہ رکھتے تھے۔چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے:

''انصار میں سے ایک شخص چند بچوں کوچھوڑ کر دنیا سے اٹھا۔اس کے پاس تھوڑا سا سرمایہ تھاکہ جسے اس نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں عبادت اور خدا کی خوشنودی کے لئے خرچ کر دیا۔جبکہ اسی زمانے میں اس کے بچے تنگ دستی کی وجہ سے دوسروں سے مدد طلب کرتے تھے۔یہ ماجرا پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں نقل کیا گیا۔آنحضرت(ص)نے سوال کیا:تم نے اس شخص کے جنازہ کو کیا کیا؟کہا گیاکہ اسے ہم نے دفن کردیا۔آنحضرت (ص) نے فرمایا:اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تواسے مسلما نوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دیتا!!کیونکہ اس نے اپنی دولت کوضائع کردیا اور اپنے بچوں کودوسروں کا محتاج بنا کرچھوڑ دیا ۔(۱۸)

۸۔دینی احکام کی تعلیم دینا

بارگاہ خدا میں بچے کی عبادت،دعااور حمدوثنا کی تمرین سے اس کا باطن روشن ہوتا ہے،اگر چہ ممکن ہے بچہ نماز کے الفاظ کے معنی نہ سمجھتاہو ،لیکن خدا وند متعال کی طرف توجہ،راز ونیاز،پروردگار عالم سے مدد کی درخواست،دعا اور بارگاہ الہٰی سے التجا کو وہ بچپنے سی ہی سمجھتا ہے اور اپنے دل کوخدا وند متعال اور اس کی لا محدودرحمت سے مطمٔن بنا تا ہے اور اپنے اندرایک پناہ گاہ کا احساس کرتا ہے اور مشکلات وحوادث کے وقت اپنے دل کو تسکین دیتا ہے،چنانچہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

( الذین آمنوا وتطمٔن قلو بهم بذکرا ﷲلا بذکراﷲتطمٔن القلوب ) (رعد۲۸)

ٍٍ''یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کویاد خدا سے اطمینان حاصل

ہو تا ہے اور آگاہ ہو جائوکہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہو تا ہے۔''

بچوں کوابتداء سے ہی مئومن اور خدا پرست بنانے کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے جسم وروح ایمان کے لحاظ سے یکساں ہوں ۔اسی لئے اسلام نے والدین پرذمہ داری ڈالی ہے کہ اپنے بچوں کوخدا کی طرف متوجہ کریں اور انھیں خدا پرستی اور دین کی تعلیم دیں اور دوسری طرف حکم دیا ہے کہ بچوں کو نماز اور عبادت کی مشق کرائیں۔

معاویہ ابن وہب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیاکہ ہم بچہ کو کس عمر میں نماز پڑھنے کے لئے کہیں ؟ آپ نے فر مایا:چھ سے سات سال کی عمر میں انھیں نماز

پڑھنے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔(۱۹)

رسول خدا (ص) نے ایک حدیث میں فرما یا:''اپنے بچوں کوسات سال کی عمر میں نمازپڑھنے کا حکم دو۔(۲۰) ''

امام محمدباقرعلیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں بچوں کی عمر کے مختلف دور میں اعتقادی تر بیت کے سلسلہ میں والدین کی ذمہ داریوں کو اس طرح بیان فر ما یا ہے:

''تین سال کی عمر میں بچہ کو کلمہ لا الہ الا اللہ سکھا ئیں،چار سال کی عمر میں محمدرسول اللہ سکھائیں،پانچ سال کی عمر میں اسے قبلہ کی طرف رخ کرنا سکھا ئیں اور اسے حکم دیں کہ سجدہ میں جائے،چھ سال کی عمر میں اسے مکمل طور پر رکوع و سجود سکھا ئیں اور سات سال کی عمر میں منہ ہاتھ دھونا(وضو)اور نماز پڑھنا سکھا ئیں۔(۲۱) ''

والدین اور مربیّ کومعلوم ہوناچاہئے کہ مذہب ان کا سب سے بڑا معاون ومدد گار ہے،کیونکہ ایمان ایک روشن چراغ کے مانند ہے جو تاریک راہوں کو روشن کرتا ہے اور ضمیروں کو بیدار کرتا ہے اورجہاں کہیں انحراف ہوگا اسے آسانی کے ساتھ اس انحراف وکجروی سے بچاکر حقیقت وسعادت کی طرف رہنمائی کرے گا ۔

بچے میں صحیح تربیت کے آثار

بچوں کی صحیح تربیت ان میں استقلال اور خود اعتمادی کا سبب بنتی ہے اوران کا احترام

انھیں با حیثیت انسان بنا تا ہے،کیونکہ جو بچہ ابتداء سے اپنی قدر ومنزلت کو پہچانتا ہے وہ بڑا ہوکراپنے اندر احساس کمتری کاشکار نہیں ہو تا ۔چنانچہ اسلامی روایتوں میں آیا ہے کہ بچہ اوراس کا دل ایک صاف وخالی زمین کے مانند ہے کہ جوبھی بیج اس میں بویا جائے گا اسے قبول کر کے اس کی پرورش کرتی ہے۔(۲۲)

مثال کے طور پرحضرت علی علیہ السلام کی شخصیت رسول خدا (ص) کی آغوش میں تربیت پانے کے نتیجہ میں رشد و کمال تک پہنچی۔اگرچہ علی علیہ السلام جسم وروح کے اعتبار سے عام بچہ نہیں تھے،بلکہ ان کے وجود مبارک میں مخصوص قابلیتیں موجود تھیں، لیکن ان کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) کی خصو صی نگرا نیوں اور توجہ سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔

بچے کی صحیح تربیت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وہ شجاع اوربہادر بنتا ہے۔اس چیز کوحضرت امام حسین علیہ السلام کی تر بیت میں بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

ابن شہاب کہتا ہے:

''ایک مرتبہ جمعہ کے دن خلیفہ دوم منبرپر تھے۔حضرت امام حسین علیہ السلام بچہ تھے مسجد میں داخل ہوئے اور کہا:اے عمر!میرے باپ کے منبر سے نیچے اترو!عمر نے روتے ہو ئے کہا:سچ کہا،یہ منبر آپ کے جدامجد کا ہے، بھتیجے !ذرا ٹھہرو !! امام حسین علیہ السلام عمر کا دامن پکڑے ہوئے کہتے رہے کہ میرے جد کے منبر سے اتر و،عمر مجبور ہو کر اپنی گفتگو روک کر منبر سے اتر آئے اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔نماز کے بعد کسی کوبھیجا تاکہ امام حسین علیہ السلام کو بلاکر لا ئے۔جوں ہی امام حسین علیہ السلام تشریف لائے،عمر نے پوچھا:بھتیجے! میرے ساتھ اس طرح

گفتگو کرنے کاآپ سے کس نے کہا تھا؟

امام حسین علیہ السلام نے فر ما یا:مجھے کسی نے یہ حکم نہیں دیا ہے۔اورآپ نے یہی جملہ تین بار دہرایا،جبکہ امام حسین علیہ السلام اس وقت بالغ بھی نہیں ہوئے تھے۔(۲۳)

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی کے حالات کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی رحلت کے بعد،خلیفہ وقت ،مامون بغداد آیا۔ایک دن شکار کے لئے نکلا راستہ میں ایک ایسی جگہ پر پہنچا جہاں چند بچے کھیل رہے تھے۔امام رضا علیہ السلام کے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام ، کہ جن کی عمراس وقت تقریباً گیارہ سال تھی ، ان بچوں کے درمیان کھڑے تھے۔جوں ہی مامون اور اس کے ساتھی وہاں پہنچے تو سب بچے بھاگ گئے۔ لیکن امام محمد تقی علیہ السلام وہیں کھڑے رہے۔جب خلیفہ نزدیک پہنچا حضرت پر ایکنظر ڈالی اورآپ کا نورانی چہرہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ اورآپ سے سوال کیا کہ آپ دوسرے بچوں کے ساتھ کیوں نہیں بھاگے؟

امام محمدتقی علیہ السلام نے فوراًجواب دیا:اے خلیفہ! راستہ اتنا تنگ نہیں تھا کہ میں خلیفہ کے لئے راستہ چھوڑ کر بھاگتا ۔میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے کہ میں سزا کے ڈر سے بھاگتا۔میں خلیفہ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں اور تصور کرتا ہوں کہ وہ بے گناہوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا۔اسی لئے میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا اور نہیں بھاگا۱ ! مامون آپ کے منطقی اور محکم جواب اور آپ کے پر کشش چہرہ سے حیرت زدہ رہ گیا اور کہنے لگا آپ کانام کیا ہے؟امام نے جواب دیا:محمد۔پوچھا:کس کے بیٹے ہو؟ آپ نے فر مایا:علی بن موسی رضا علیہ السلام کا۔(۲۴)

دوسری فصل:

محبت

بچوں سے پیار کرو اور ان کے ساتھ مہر بانی اور ہمدردی سے پیش آجائو۔

( پیغمبر اکرم (ص))

بچوں سے پیار

جس طرح بچہ غذا اور آب وہوا کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح وہ پیارمحبت کا بھی محتاج ہوتا ہے۔بچے کی روح وجان کے لئے پیار محبت بہترین روحانی غذا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بچہ چومنے اور گود میں لینے سے خوش ہو تا ہے۔

اس لئے جو بچہ ابتداء سے ہی کافی حد تک اپنے والدین کے پیار ومحبت سے سرشار اور ان کے چشمہء محبت سے سیراب رہتا ہے،اس کی روح شادرہتی ہے۔

ائمہ دین کی روایتوں میں بچے سے محبت کرنے کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے۔ہم ان میں سے بعض کاذکر کرتے ہیں :

رسول خدا (ص) نے خطبہء شعبانیہ میں لوگوں کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے

فر مایا:''اپنے بڑوں کا احترام کرو اور اپنے بچوں سے ہمدردی اور محبت ومہربانی سے پیش آئو(۲۵) ''

آنحضرت (ص) نے ایک دوسری حدیث میں فر مایا:

''جو شخص مسلمانوں کے بچوں سے رحمدلی اور محبت سے پیش نہ آئے اور بڑوں کا احترام نہ کرے،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(۲۶) ''

ایک اور روایت میں فر مایا:

''بچوں سے پیار کرو اور ان کے ساتھ ہمدردی اور نرمی سے پیش آئو۔(۲۷) ''

حضرت علی علیہ السلام نے شہادت کے موقع یہ وصیت کی:

ٍٍ''اپنے خاندان میں بچوں سے محبت اور بڑوں کا احترام کرو۔(۲۸) ''

آپ نے ایک دوسری روایت میں اپنے پیرو ئوں سے یہ فرما یا:

''بچے کو بڑوں کا کردار اختیار کرنا چاہئے اور بڑوں کو بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آناچاہئے ،ایسا نہ ہو کہ بچوں کے ساتھ زمانہ جا ہلیت کے ظالموں کا جیسا سلوک کریں۔(۲۹) ''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا:

''جو شخص اپنے بچے سے زیادہ محبت کرتا ہے اس پر خدا وند متعال کی خاص رحمت اور عنایت ہوگی۔(۳۰) ''

پیغمبر اکرم (ص) کا بچوں سے پیار

حضرت علی علیہ السلام فر ماتے ہیں :

''میں بچہ ہی تھا،پیغمبر اکرم (ص) مجھے اپنی آغوش میں بٹھاتے تھے اور اپنے سینہء مبارک پر لٹا تے تھے اورکبھی مجھے اپنے بسترمیں سلاتے تھے اور شفقت کے ساتھ اپنے چہرے کو میرے چہرے سے ملاتے تھے اور مجھے اپنی خوشبوسے معطر فرماتے تھے۔(۳۱)

جی ہاں،بچہ شفقت کا محتاج ہوتاہے،اس کے سر پر دست شفقت رکھنا چاہئے۔

اور اس کومحبت بھری نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور اسے پیارکی نظروں سے ہمیشہ خوش رکھنا چاہئے ۔(۳۲) ''

پیغمبر اسلام (ص) بچوں پر اتنا مہربان تھے ،کہ نقل کیا گیا ہے کہ جب آپ(ص) ہجرت فرماکر طائف پہنچے تو وہاں کے بچوں نے آپ (ص) کو پتھر مارنا شروع کیا لیکن آپ نے انھیں نہیں روکا،بلکہ حضرت علی علیہ السلام نے بچوں کو آنحضرت (ص) سے دور کیا۔(۳۳)

رسول خدا (ص)جب انصار کے بچوں کو دیکھتے تھے تو ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے اور انھیں سلام کرکے دعا دیتے تھے۔(۳۴)

انس بن مالک کہتے ہیں :

'' پیغمبر اکرم (ص) سے زیادہ میں نے کسی کو اپنے خاندان والوں سے محبت کرتے نہیں دیکھا۔(۳۵) ''

آپ (ص)ہر روزصبح اپنے بیٹوں اور نواسوں کے سر پر دست شفقت پھیرتے تھے(۳۶)

بچوں سے پیار ومحبت اور شفقت کرنا پیغمبر اکرم (ص) کی خصوصیات میں سے تھا۔(۳۷)

ایک دن پیغمبر (ص) اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جگہ سے گزر ے جہاںچند بچے کھیل رہے تھے۔پیغمبر اکرم (ص) ان بچوں میں سے ایک کے پاس بیٹھے اور اس کے ماتھے کو چوما اور اس سے شفقت کے ساتھ پیش آئے۔آپ(ص) سے جب اس کا سبب پوچھاگیا،تو آپ(ص) نے فرمایا:میں نے ایک دن دیکھا کہ یہ بچہ میرے فرزند حسین علیہ السلام کے ساتھ کھیل رہا تھا اور حسین علیہ السلام کے پائوں کے نیچے سے خاک اٹھاکراپنے چہرہ پر مل رہاتھا۔چونکہ یہ بچہ حسین علیہ السلام کودوست رکھتا ہے اس لئے میں بھی اسے دوست رکھتا ہوں ۔جبرئیل نے مجھے خبردی ہے کہ یہ بچہ کربلا میں حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہوگا۔(۳۸)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا:

''موسی ابن عمران نے اپنی مناجات میں خدا وند متعال سے سوال کیا:پرور دگارِ!تیرے نزدیک کو ن سا عمل بہتر ہے؟وحی ہوئی:بچوں سے پیار کرنامیرے نزدیک تمام اعمال سے برتر ہے،کیونکہ بچے ذاتی طور پرخدا پرست ہوتے ہیں اور مجھے محبت کرتے ہیں ۔اگر کوئی بچہ مر جاتا ہے تو میں اسے اپنی رحمت سے بہشت میں داخل کرتا ہوں ۔(۳۹) ''

مگر بچوں سے بہت زیادہ محبت بھی نہیں کرنی چاہئے،کیونکہ اس کے نقصا نات ہیں ۔اسی لئے اسلامی روایات میں بچوں کے ساتھ بہت زیادہ محبت کرنے کا منع کیاگیا ہے۔

رسول اکرم (ص) کا امام حسن اور امام حسین علیھما السلام سے پیار

رسول خدا (ص) اپنے نواسوں امام حسن اور امام حسین علیھماالسلام سے بہت محبت کرتے تھے۔یہ حقیقت بہت سی کتابوں میں بیان ہوئی ہے،اس سلسلہ میں چند نمونے ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں :

اہل سنّت کی کتابوں مین نقل ہوا ہے کہ عبداللہ ا بن عمر سے روایت کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''امام حسن اورامام حسین علیھما السلام،دنیا میں میرے خوشبودار پھول ہیں ۔(۴۰) ''

انس بن مالک سے نقل کیا گیا ہے کہ

''رسول خدا (ص) سے پوچھا گیاکہ آپ(ص) اپنے اہل بیت میں سے کس کو زیادہ چاہتے ہیں ؟رسول خدا (ص) نے جواب میں فر مایاکہ میں حسن اور امام حسین علیھما(علیہ السلام) کو دوسروں سے زیادہ دوست رکھتا ہوں ۔(۴۱) ''

ایک اور روایت میں سعیدا بن راشد کہتا ہے:

'' امام حسن اور امام حسین علیھما( علیہ السلام) رسول خدا (ص) کے پاس دوڑتے ہوئے آئے۔آپ(ص) نے انھیں گود میں اٹھایا اورفرمایا:یہ دنیا میں میرے دو خوشبو دار پھول ہیں ۔(۴۲) ''

امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فر مایا:

ٍٍ''رسول خدا (ص) نے مجھ سے فر مایا:اے میرے فرزند! تم حقیقت میں میرے لخت جگر ہو،خوش نصیب ہے وہ شخص جو تم سے اور تمہاری اولاد سے محبت کرے اور وائے ہو اس شخص پر جو تم کو قتل کرے۔(۴۳) ''

رسول خدا (ص) امام حسین علیہ السلام سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپ(ص) ان کا رونا برداشت نہیں کرپاتے تھے۔

یزیدا بن ابی زیاد کہتا ہے:

''رسول خدا (ص) عائشہ کے گھر سے باہر تشریف لائے۔اور فاطمہ زہراسلام اللہ

علیہاکے گھر سے گزرے امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز سنی،توآپ(ص) نے فاطمہ سلام اللہ علیہاسے فر مایا: کیا تم نہیں جانتی ہو کہ مجھے حسین( علیہ السلام) کے رونے سے تکلیف ہوتی ہے؟!(۴۴) ''

بچوں کے حق میں پیغمبر اسلام (ص) کی دعا

بچوں سے متعلق پیغمبر اسلام (ص) یہ معمول تھاکہ مسلمان اپنے بچوں کو آپ(ص) کی خدمت میں لاتے تھے اور آپ(ص) سے ان کے حق میں دعا کرنے کی درخواست کرتے تھے۔

جمرہ بنت عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک بیٹی نے کہا:

''میرا باپ مجھے پیغمبر خدا (ص) کی خدمت میں لے گیا اور آپ(ص) سے درخواست کی کہ میرے حق میں دعا کریں۔پیغمبر خدا (ص) نے مجھے اپنی آغوش میں بٹھا کرمیرے سر پر دست شفقت رکھا اور میرے لئے دعا فر مائی۔(۴۵) ''

بچوں سے شفقت کرنا

عباس بن عبدالمطلب کی بیوی،ام الفضل،جو امام حسین علیہ السلام کی دایہ تھی،کہتی ہے:

''ایک دن رسول خدا (ص) نے امام حسین علیہ السلام،جو اس وقت شیر خوار بچہ

تھے،کو مجھ سے لے کر اپنی آغوش میں بٹھایا، بچے نے پیغمبر اکرم (ص) کے لباس کو تر کر دیا۔میں نے جلدی سے بچے کو آنحضرت (ص)سے لے لیا نتیجہ میں بچہ رونے لگا ۔آنحضرت (ص)نے مجھ سے فر مایا:ام الفضل!آہستہ!میرے لباس کو پانی پاک کر سکتا ہے،لیکن میرے فرزند حسین علیہ السلام کے دل سے اس رنج و تکلیف کے غبار کو کونسی چیز دور کرسکتی ہے(۴۶) ؟''

منقول ہے کہ جب کسی بچے کودعا یا نام رکھنے کے لئے رسول خدا (ص) کی خدمت میں لاتے تھے۔توآپ (ص)اس بچہ کے رشتہ داروں کے احترام میں ہاتھ پھیلا کربچے کو آغوش میں لیتے تھے۔کبھی ایسا اتفاق بھی ہوتا تھا کہ بچہ آپ (ص)کے دامن کو ترکر دیتا تھا،موجود افراد بچے کو ڈانٹتے تھے تاکہ اسے پیشاب کرنے سے روک دیں۔رسول خدا (ص)انھیں منع کرتے ہوئے فر ماتے تھے:''سختی کے ساتھ بچے کو پیشاب کرنے سے نہ روکنا''،اس کے بعد بچے کو آزاد چھوڑ تے تھے تاکہ پیشاب کرکے فارغ ہو جائے۔

جب دعا ونام گزاری کی رسم ختم ہو جاتی،توبچے کے رشتہ دار نہایت ہی خوشی سے اپنے فرزند کو آنحضرت (ص)سے لیتے اور بچے کے پیشاب کرنے کی وجہ سے آپ(ص) ذرا بھی ناراض نہیں ہوتے تھے۔ بچے کے رشتہ داروں کے جانے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) اپنا لباس دھو لیتے تھے۔(۴۷)

پیغمبر اکرم (ص) کا بچوں کو تحفہ دینا

پیغمبر اسلام (ص) کا بچوں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک اور نمو نہ یہ تھاکہ آپ (ص) ان کو تحفے دیتے تھے۔

عائشہ کہتی ہیں :

''حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے رسول خدا (ص) کے لئے حبشہ میں بنی ہوئی سونے کی ایک انگوٹھی تحفہ کے طورپر بھیجی ۔رسول خدا (ص) نے امامہ بنت ابی العاص(جو پیغمبر اکرم (ص) کی ربیبہ تھی)کو بلا کر فرمایا:بیٹی!اس تحفہ سے اپنے آپ کو زینت دو۔(۴۸) ''

ایک دوسری حدیث میں عائشہ کہتی ہیں :

''پیغمبر خدا (ص) کے لئے ایک سونے کا گلو بند تحفہ کے طور پر لایا گیا رسول خدا (ص) کی تمام بیویاں ایک جگہ جمع ہوگئی تھیں۔امامہ بنت ابی العاص،جو ایک چھوٹی بچی تھی،گھر کے ایک کونے میں کھیل رہی تھی۔رسول خدا (ص) نے اس گلو بند کودکھا کر ہم سے پوچھا:تمہیں یہ کیسالگ رہا ہے ؟ہم سب نے اس پر نظر ڈال کر کہا:ہم نے آج تک اس سے بہتر گلوبند نہیں دیکھا ہے۔

رسول خدا (ص) نے فر مایا:اسے مجھے دیدو ۔عائشہ کہتی ہیں :میری آنکھوں میں تاریکی چھاگئی ۔میں ڈر گئی کہیں آپ (ص) اسے کسی دوسری بیوی کی گردن میں نہ ڈال دیں۔ اوردوسری بیویوں نے بھی ایسا ہی تصور کیا۔ہم سب خاموش تھے،اسی اثنا میں امامہ رسول خدا (ص) کے پاس آگئی اور آپ (ص)نے گلو بند کو اس کی گردن میں ڈال دیا پھر وہاں سے تشریف لے گئے۔(۴۹) ''

بعض روایتوں میں اس طرح نقل ہوا کہ ایک عرب نے پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں آکر کہا:

''اے رسول خدا (ص)!میں ہرن کے ایک بچہ کوشکار کر کے لایا ہوں تاکہ تحفہ کے طور پر آپ(ص) کی خدمت میں پیش کروں اور آپ (ص)اسے اپنے فرزند امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام کو دیدیں۔

آنحضرت (ص) نے تحفہ کو قبول کر کے شکاری کے لئے دعا کی ۔اس کے بعد اس ہرن کے بچے کوامام حسن علیہ السلام کو دیا امام حسن علیہ السلام اس ہرن کے بچہ کو لے کر اپنی والدہ حضرت ماطمہ زہرائ٭ کی خدمت میں آئے۔لہذا امام حسن علیہ السلام بہت خوش تھے اور اس ہرن کے بچہ سے کھیل رہے تھے۔(۵۰) ''

شہیدوں کے بچوں کے ساتھ پیغمبر اسلام (ص) کاسلوک

بشیرا بن عقریہ ا بن جہنی کہتا ہے:

''میں نے جنگ احدکے دن رسول خدا (ص) سے پو چھا کہ میرے والد کس طرح شہید ہوئے؟ آپ(ص)نے فرمایا :''وہ خدا کی راہ میں شہید ہوئے،ان پر خدا کی رحمت ہو ۔میں رونے لگا۔پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے اپنے نزدیک بلاکر میرے سر پر دست شفقت پھیر ا اور مجھے اپنے مرکب پر سوار کرکے فرمایا :کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ میں تمہارے باپ کی جگہ پر ہوں ؟(۵۱) ''

جمادی الاو ل ۸ ہجری کو جنگ موتہ واقع ہوئی۔اس جنگ میں لشکر اسلام کے تین کمانڈر ،زیدا بن حارثہ،جعفرا بن ابیطالب اور عبداللہ ا بن رواحہ شہید ہوئے ۔

یہ لشکر واپس مدینہ پلٹا(۵۲) رسول خدا (ص) اور مسلمان ترانہ پڑھتے ہوئے اس لشکر کے استقبال کے لئے نکلے۔پیغمبر اسلام (ص)مرکب پر سوار تھے اور فرمارہے تھے:

''بچوں کو مرکبوں پر سوار کرو اور جعفر کے بیٹے کومجھے دو !عبیداللہ ا بن جعفرابن ابی طالب کو لایا گیا ۔پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے سامنے مرکب پر بٹھایا۔(۵۳) ''

ابن ہشام لکھتا ہے : جعفر کی بیوی ،اسماء بنت عمیس کہتی ہے:

''جس دن جعفر جنگ موتہ میں شہید ہوئے اس دن،پیغمبر اکرم (ص) ہمارے گھر تشریف لائے ۔اور میں اسی وقت گھر کے کام کاج صفائی اور بچوں کونہلا دھلا کر فارغ ہو ئی تھی آپ(ص)نے مجھ سے فرمایا: جعفر کے بچوں کو میرے پاس لائو !میں ان کو آنحضرت (ص)کی خدمت میں لے گئی، آپ(ص)نے بچوں کو اپنی آغوش میں بٹھاکرپیار کیا جبکہ آپ (ص)کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

میں نے سوال کیا :اے رسول خدا (ص)!میرے ماںباپ آپ(ص) پر فدا! آپ(ص) کیوں رو رہے ہیں ؟کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آپ (ص)کو کوئی خبر ملی ہے ؟ آپ (ص)نے فرمایا :جی ہاں ،وہ آج شہید ہو گئے(۵۴) ''

بیشک،لوگوں کے بچے بھی رسول خدا (ص) کی اس پدرانہ شفقت سے محروم نہیں

تھے۔ منقول ہے کہ:

''رسول خدا (ص) بعض بچوں کو اپنی گود میں لیتے تھے اور بعض کو اپنی پشت اور کندھوں پر بٹھاتے تھے (اور اپنے اصحاب سے فرماتے تھے:کہ بچوں کو گود میں لے لو ،انھیں اپنے کندھوں پر سوار کرو) بچے اس سے خوش ہوتے تھے اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور ان دلچسپ یادوں کو کبھی نہیں بھولتے تھے،بلکہ کچھ مدت کے بعد اکٹھا ہوکران باتوں کو ایک دوسرے کے سامنے بیان کرتے تھے اور فخر ومباہات کے ساتھ کوئی یہ کہتا تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے گود میں لیا اور تجھے اپنی پشت پر سوارکیا۔دوسرا کہتا تھاکہ پیغمبر اکرم (ص) اپنے اصحاب کو حکم دیتے تھے کہ تمہیں اپنی پشت پر سوار کریں۔(۵۵) ''

پیغمبر اسلام (ص)کا نماز کی حالت میں اپنے بچوں سے حسن سلوک

شداد بن ہاد کہتا ہے:

''رسول خدا (ص)ایک دن نماز ظہر یا عصرپڑھ رہے تھے اور آپ کے بیٹوں حسن علیہ السلام وحسین علیہ السلام میں سے کوئی ایک آپ کے ساتھ تھا ۔آپ(ص) نمازیوں کی صفوں کے آگے کھڑے ہوگئے اور اس بچے کو اپنے دائیں طرف بٹھادیا۔ اس کے بعدآپ (ص)سجدہ میں گئے اور سجدہ کو طول دیا۔

راوی اپنے باپ سے نقل کرتا ہے:

میں نے لو گوں کے درمیان سجدہ سے سر اٹھایا،دیکھا کہ رسول خدا (ص)ابھی سجدہ

میں ہیں اور وہ بچہ پیغمبر اکرم (ص) کی پشت پر سوار ہے ،میں دوبارہ سجدہ میں چلاگیا ۔جب نماز ختم ہوئی ،لوگوں نے عرض کی کہ اے رسول خدا (ص)!آج جو نماز آپ (ص)نے پڑھی اس میں ایک سجدہ بہت طولانی کیا کہ دوسری نمازوں میں آپ نے اتنا طولانی سجدہ نہیں کیا ، کیا اس سلسلہ میں آپ(ص) کے پاس کوئی حکم آیا ہے یا کوئی وحی نازل ہوئی ہے ؟آپ (ص)نے جواب میں فر مایا :ایسا کچھ نہیں تھا ،بلکہ میرا فرزند میری پشت پر سوار ہوگیا تھا ،میں اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا،اس لئے میں نے اسے آزاد چھوڑدیا کہ جو چاہے کرے۔(۵۶) ''

ایک دوسری حدیث میں ابوبکر سے منقول ہے:

''میں نے حسن اور حسین علیھما السلام کو دیکھا کہ رسول خدا (ص)حالت نماز میں ہیں اور یہ اُچھل کرآپ کی پشت پر سوار ہورہے ہیں ،رسول خدا (ص)دونوں بچوں کو ہاتھ سے پکڑ لے رہے تھے تاکہ آپ (ص)کھڑے ہوجائیںاور اپنی کمر سیدھی کرلیںاور بچے آسانی کے ساتھ زمین پر اترجائیں۔نماز کو ختم کرنے کے بعد آنحضرت(ص) دونوں بچوں کو آغوش میں لے کر ان کے سروں پردست شفقت پھیرتے ہوئے فرماتے تھے:یہ میرے دونوں بیٹے خوشبودارپھول حسن و حسین ہیں ۔(۵۷) ''

دوسری حدیث میں آیا ہے کہ بچہ خوشبودار پھول ہے اور میرے خوشبودار پھول حسن وحسین علیھما السلام ہیں ایک روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے:

''ایک دن پیغمبر اکرم (ص)مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ ایک جگہ نماز

پڑھ رہے تھے،جب آنحضرت (ص)سجدہ میں جاتے تھے توحسین علیہ السلام ،جو کہ بچہ تھے،آپ(ص)کی پشت پر سوار ہوکر اپنے پائوں کو ہلاتے ہوئے ''ہے ہے ''کرتے تھے۔جب پیغمبر اکرم (ص)سجدہ سے سر اٹھانا چاہتے تھے،تو امام حسین علیہ السلام کو ہاتھ سے پکڑ کرزمین پر بٹھاتے تھے ،یہ کام نماز کے ختم ہونے تک جاری رہتاتھا۔ایک یہودی اس ماجرے کو دیکھ رہاتھا ۔اس نے نماز کے بعد رسول خدا (ص)کی خدمت میں عرض کی :آپ (ص)اپنے بچوں سے ایسا برتائو کر رہے ہیں کہ ہم ہر گز ایسا نہیں کرتے۔رسول خدا (ص)نے فرمایا:اگر تم لوگ خدا اور اس کے رسول (ص)پر ایمان رکھتے تو اپنے بچوں سے شفقت کرتے ۔پیغمبر اسلام (ص) کی بچوں کے ساتھ مہر ومحبت نے یہودی کو اس قدر متاثر کیا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔(۵۸)

رسول خدا (ص)دوسروں کے بچوں کا بھی احترام کرتے تھے اور آپ(ص) ان کے نفسیاتی جذبات کابھی پورا پورا خیال رکھتے تھے۔

تیسری فصل:

بچّوں کا بوسہ لینا

''بچے خوشبودار پھول ہیں ۔''

پیغمبر اکرم (ص)

بچوں کے ساتھ رسول خدا (ص)کے حسن سلو ک میں سے ان کا بوسہ لینا بھی ہے۔اس سلوک کا اثر یہ ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان گہری محبت پیدا ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ بچے کی محبت کی پیاس کوبجھانے کا یہ بہترین طریقہ ہے اوربوسہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ماں باپ بچے سے محبت رکھتے ہیں نیز یہی بوسہ بچے کے اندر بھی پیار محبت کے جذبے کو زندہ رکھنے کا سبب بنتا ہے اور بچہ اپنے والدین کے دل میں اپنے تئین رکھنے والی محبت سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اس کے اندرایک نیا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)اکثر اوقات لوگوں کے سامنے اپنے بچوں سے محبت کاا ظہار کرتے تھے۔اس کے دو فائدے تھے:

اول یہ کہ لوگوں کے سامنے بچوں کا احترام کرنے سے ان کی شخصیت بنتی ہے۔

دوسرے یہ کہ رسول خدا (ص)اس سلوک سے لوگوں کوبچوں کی تربیت کا طریقہ سکھاتے تھے۔

اسلام میں اپنے بچے کا بوسہ لینے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''جو شخص اپنے بچے کا بوسہ لیتاہے،خدا وند متعال اس کے حق میں ایک نیکی لکھتا ہے اور جو شخص اپنے بچے کو خوش کرتا ہے ،خدا وند متعال قیامت کے دن اس کو خوش کرے گا۔(۵۹) ''

عائشہ کہتی ہیں :

''ایک شخص رسول خدا (ص)کی خدمت میں آگیا اور کہا :کیا آپ (ص)بچوں کا بوسہ لیتے ہیں ؟میں نے کبھی کسی بچے کا بوسہ نہیں لیا ہے۔رسول خدا (ص) نے فرمایا :میں کیا کروں کہ خدا وند متعال نے تیرے دل سے اپنی رحمت کو نکا ل لیا ہے؟(۶۰) ''

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ

''ایک شخص رسول خدا (ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:میں نے آج تک کسی بھی بچے کا بوسہ نہیں لیاہے!جیسے ہی یہ شخص گیا پیغمبر (ص) نے فرمایا :میری نظر میں یہ شخص جہنّمی ہے۔(۶۱) ''

ایک اور روایت میں آیا ہے:

''رسول خدا (ص) نے حسن وحسین علیھما السلام کا بوسہ لیا۔اقرع ا بن حابس نے کہا:میرے دس فرزند ہیں اور میں نے کبھی ان میں سے کسی ایک کا بھی بوسہ نہیں

لیا ہے!رسول خدا (ص) نے فر مایا :میں کیا کروں کہ خدا وند متعال نے تجھ سے رحمت چھین لی ہے(۶۲) ؟!

علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اپنے بچوں کا بوسہ لیاکرو ،کیونکہ تمھیں ہر بوسہ کے عوض(جنت کا) ایک درجہ ملے گا۔(۶۳) ''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

''اپنے بچوں کا زیادہ بوسہ لیاکرو ،کیونکہ ہر بوسہ کے مقا عوض میں خدا وند متعال تمھیں (جنت میں ) ایک درجہ عنایت فرمائے گا۔(۶۴) ''

ابن عباس کہتے ہیں :

''میں پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں تھاآپ (ص)کے بائیں زانو پر آپ (ص) کے بیٹے ابراھیم علیہ السلام اور دائیں زانو پر امام حسین علیہ السلام بیٹھے تھے۔آنحضرت (ص)کبھی ابراھیم علیہ السلام کا اور کبھی امام حسین علیہ السلام کا بوسہ لیتے تھے ۔(۶۵) ''

بچوں کے ساتھ انصاف کرنا

ایک اہم نکتہ جسے والدین کو اپنے بچوں کے بارے میں ملحوظ رکھنا چاہئے یہ ہے کہ وہ بچوں کے درمیان عدل وانصاف سے کام لیں ۔کیونکہ بچوں کو ابتداء سے ہی عدل

وانصاف کا مزہ چکھنا چاہئے تاکہ اس کی خوبی کو محسوس کریںاور اس سے آشنا ہوجائیں اور اسے اپنی زندگی اور معاشرہ کے لئے ضروری سمجھیں اور بے انصافی ،ظلم اورہر طرح کے امتیازسے پرہیز کریں۔کیونکہ بچوں کی زندگی میں کوئی چیز چھوٹی نہیں ہوتی،لہذاعدل وانصاف کے نفاذ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''پیغمبر اسلام (ص)نے ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ جس کے دو بچے تھے ،اس نے ایک کا بوسہ لیا اور دوسرے کا بوسہ نہیں لیا ۔آنحضرت (ص) نے فرمایا:تم نے کیوں ان کے درمیان عدل وانصاف سے کام نہیں لیا ۔''

ابی سعید خدری کہتے ہیں :

''ایک دن رسول خدا (ص) اپنی بیٹی فاطمہ(س) کے گھر تشریف لے گئے۔علی علیہ السلام بسترپر محو آرام تھے،حسن اور حسین علیھما السلام بھی ان کے پاس تھے ۔انہوں نے پانی مانگا ،رسول خدا (ص) ان کے لئے پانی لائے۔حسین علیہ السلام آگے بڑھے،پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :تمہارے بھائی حسن( علیہ السلام) نے تم سے پہلے پانی مانگا ہے۔فاطمہ ٭ نے فر ما یا :کیا آپ (ص)حسن علیہ السلام سے زیادہ محبت رکھتے ہیں ؟آنحضرت (ص)نے فرمایا :میرے نزدیک دونوں برابر ہیں کوئی بھی ایک دوسرے سے برتر نہیں ہے ''لیکن عدل وانصاف سے کام لینا ضروری ہے ۔ہر ایک کو اپنی نوبت پر پانی پینا چاہئے(۶۶) ''

انس کہتے ہیں :

''ایک شخص پیغمبر اکرم (ص) کے پاس بیٹھا تھا ۔اس کا بیٹا آگیا ۔باپ نے اسے چوم کر اپنے زانو پر بیٹھالیا ۔اس کے بعد اس کی بیٹی آگئی ۔(بوسہ لئے بغیر)اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔پیغمبر اکرم (ص)نے فر مایا :تم نے کیوں ان کے درمیان عدل وانصاف سے کام نہیں لیا ؟(۶۷)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اپنے بچوں کے درمیان اسی طرح عدل وانصاف سے کام لو ،جس طرح تم خود چاہتے ہو کہ تمھارے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے۔(۶۸) ''

پیغمبر اسلام (ص) کا حضرت فاطمہ زہراکو بوسہ دینا

پیغمبر اسلام (ص)اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہراعلیہا اسلام سے بہت محبت کر تے تھے، باوجودیکہ حضرت فاطمہ کی شادی ہو چکی تھی اور بچے بھی ہو چکے تھے ،آنحضرت (ص) ان کا بوسہ لیتے تھے۔

ابان ا بن تغلب کہتے ہیں :

''پیغمبر اسلا م (ص)اپنی بیٹی فاطمہ ٭کو بہت بوسہ دیتے تھے۔(۶۹) ''

امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام نے فر مایا:

''پیغمبر اکرم (ص)رات کو سونے سے پہلے فاطمہ(س)کو بوسہ دیتے تھے اور اپنے چہرے کو ان کے سینہ پر رکھ کر ان کے لئے دعا کرتے تھے۔(۷۰) ''

عائشہ کہتی ہیں :

''ایک دن رسول خدا (ص)نے فاطمہ(س)کے گلے کا بوسہ لیا۔میں نے آنحضرت(ص) سے کہا :اے رسول خدا(ص) فاطمہ ٭کے ساتھ آپ جیسابرتائو کررہے ہیں ایسا دوسروں کے ساتھ نہں کرتے؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:اے عائشہ !جب مجھے بہشت کا شوق ہوتا ہے تومیں فاطمہ(س)کے گلے کا بوسہ لیتاہوں ۔(۷۱) ''

کس عمر کے بعد بچے کابوسہ نہیں لینا چاہئے؟

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کو کس عمر کے بعد نہیں چومنا چاہئے؟اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں ائمہ دین کی احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

اسلام نے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں چھ سے دس سال تک کی عمر پر خاص توجہ دی ہے اور اپنے پیرئوں کو ضروری ہدایتیں دی ہیں اور لوگوں کی جسمی اور روحی حالت کے مطابق قوانین الٰہی بنائے گئے ہیں ۔اس طرح عملی طریقے سے بچوں کے جنسی رجحانات کوکنٹرول کیا ہے تاکہ ان میں اخلاقی برائیاں پیدا نہ ہوں ۔

اس لئے ،اسلام چھ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو جنسی میلانات کو ابھار نے والی ہر چیز سے دور رکھتا ہے اوروالدین کو ہدایت دیتا ہے کہ اپنے بچوں کے جنسی رجحات کو قابو میں رکھنے کے لئے مناسب ماحول فراہم کریں۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''چھ سال کی لڑکی کا کوئی مرد بوسہ نہ لے اوراسی طرح عورتیں بھی چھ سات سال کی

عمر کے بعد کسی لڑکے کو چومنے سے پرہیز کریں۔(۷۲) ''

پیغمبر اسلام (ص)کا امام حسن اورامام حسین علیھما السلام کو چومنا

پیغمبر اکرم (ص) اپنی بیٹی فاطمہ زہرائ کا بوسہ لینے کے علاوہ ان کے بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیھما السلام سے بھی محبت کرتے تھے اور ان کا بوسہ لیتے تھے۔

ابو ہریرہ کہتے ہیں :

''پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ حسن و حسین علیھما السلام کابوسہ لیتے تھے۔انصار میں سے عینہ نے کہا:میرے دس بچے ہیں ،اور میں نے کبھی ان میں سے کسی ایک کا بوسہ نہیں لیاہے۔آنحضرت (ص)نے فر مایا :''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔(۷۳) ''

سلمان فارسی کہتے ہیں :

''میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا،دیکھا کہ آپ (ص) حسین علیہ السلام کو اپنے زانو پر بٹھا کر کبھی ان کی پیشانی اور کبھی ان کے ہونٹوں کا بوسہ لے رہے ہیں(۷۴)

ابن ابی الدنیا کہتے ہیں :

''زیدا بن ارقم نے جب عبیداللہ ابن زیاد کی مجلس میں دیکھا کہ وہ فاسق ایک چھڑی سے امام حسین علیہ السلام کے لبوں سے بے ادبی کر رہا ہے تو انہوں نے

عبیداللہ ابن زیاد سے مخاطب ہو کر کہا:

چھڑی کو ہٹا لو!خدا کی قسم میں نے بارہا پیغمبر اکرم (ص)کوان دونوں لبوں کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ جملہ کہنے کے بعدزیدرونے لگے، ابن زیاد نے کہا :خدا تیری آنکھوں کو ہمیشہ رلائے،اگرتم بوڑھے نہ ہوتے اورتمہاری عقل زائل نہ ہو گئی ہوتی تو میں ابھی تمہاری گردن مار دینے کا حکم دے دیتا۔(۷۵) ''

زمخشری کہتاہے:

''رسول خدا (ص)نے حسن علیہ السلام کو آغوش میں لے کر ان کا بوسہ لیا ۔اس کے بعد انھیں اپنے زانو پر بٹھالیا اور فرمایا :میں نے اپنے حلم ،صبر اورہیبت کو انھیں بخشا اس کے بعد حسین علیہ السلام کو آغوش میں لے کر ان کا بوسہ لیا اور انھیں بائیں زانو پر بٹھا کر فرمایا :میں نے اپنی شجاعت اورجودو کرم کو انھیں بخشا(۷۶)


3

4

5

6

7