بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک0%

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد علی چنارانی
زمرہ جات: مشاہدے: 11724
ڈاؤنلوڈ: 2762

تبصرے:

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11724 / ڈاؤنلوڈ: 2762
سائز سائز سائز
بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسری فصل:

محبت

بچوں سے پیار کرو اور ان کے ساتھ مہر بانی اور ہمدردی سے پیش آجائو۔

( پیغمبر اکرم (ص))

بچوں سے پیار

جس طرح بچہ غذا اور آب وہوا کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح وہ پیارمحبت کا بھی محتاج ہوتا ہے۔بچے کی روح وجان کے لئے پیار محبت بہترین روحانی غذا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بچہ چومنے اور گود میں لینے سے خوش ہو تا ہے۔

اس لئے جو بچہ ابتداء سے ہی کافی حد تک اپنے والدین کے پیار ومحبت سے سرشار اور ان کے چشمہء محبت سے سیراب رہتا ہے،اس کی روح شادرہتی ہے۔

ائمہ دین کی روایتوں میں بچے سے محبت کرنے کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے۔ہم ان میں سے بعض کاذکر کرتے ہیں :

رسول خدا (ص) نے خطبہء شعبانیہ میں لوگوں کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے

فر مایا:''اپنے بڑوں کا احترام کرو اور اپنے بچوں سے ہمدردی اور محبت ومہربانی سے پیش آئو(۲۵) ''

آنحضرت (ص) نے ایک دوسری حدیث میں فر مایا:

''جو شخص مسلمانوں کے بچوں سے رحمدلی اور محبت سے پیش نہ آئے اور بڑوں کا احترام نہ کرے،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(۲۶) ''

ایک اور روایت میں فر مایا:

''بچوں سے پیار کرو اور ان کے ساتھ ہمدردی اور نرمی سے پیش آئو۔(۲۷) ''

حضرت علی علیہ السلام نے شہادت کے موقع یہ وصیت کی:

ٍٍ''اپنے خاندان میں بچوں سے محبت اور بڑوں کا احترام کرو۔(۲۸) ''

آپ نے ایک دوسری روایت میں اپنے پیرو ئوں سے یہ فرما یا:

''بچے کو بڑوں کا کردار اختیار کرنا چاہئے اور بڑوں کو بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آناچاہئے ،ایسا نہ ہو کہ بچوں کے ساتھ زمانہ جا ہلیت کے ظالموں کا جیسا سلوک کریں۔(۲۹) ''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا:

''جو شخص اپنے بچے سے زیادہ محبت کرتا ہے اس پر خدا وند متعال کی خاص رحمت اور عنایت ہوگی۔(۳۰) ''

پیغمبر اکرم (ص) کا بچوں سے پیار

حضرت علی علیہ السلام فر ماتے ہیں :

''میں بچہ ہی تھا،پیغمبر اکرم (ص) مجھے اپنی آغوش میں بٹھاتے تھے اور اپنے سینہء مبارک پر لٹا تے تھے اورکبھی مجھے اپنے بسترمیں سلاتے تھے اور شفقت کے ساتھ اپنے چہرے کو میرے چہرے سے ملاتے تھے اور مجھے اپنی خوشبوسے معطر فرماتے تھے۔(۳۱)

جی ہاں،بچہ شفقت کا محتاج ہوتاہے،اس کے سر پر دست شفقت رکھنا چاہئے۔

اور اس کومحبت بھری نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور اسے پیارکی نظروں سے ہمیشہ خوش رکھنا چاہئے ۔(۳۲) ''

پیغمبر اسلام (ص) بچوں پر اتنا مہربان تھے ،کہ نقل کیا گیا ہے کہ جب آپ(ص) ہجرت فرماکر طائف پہنچے تو وہاں کے بچوں نے آپ (ص) کو پتھر مارنا شروع کیا لیکن آپ نے انھیں نہیں روکا،بلکہ حضرت علی علیہ السلام نے بچوں کو آنحضرت (ص) سے دور کیا۔(۳۳)

رسول خدا (ص)جب انصار کے بچوں کو دیکھتے تھے تو ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے اور انھیں سلام کرکے دعا دیتے تھے۔(۳۴)

انس بن مالک کہتے ہیں :

'' پیغمبر اکرم (ص) سے زیادہ میں نے کسی کو اپنے خاندان والوں سے محبت کرتے نہیں دیکھا۔(۳۵) ''

آپ (ص)ہر روزصبح اپنے بیٹوں اور نواسوں کے سر پر دست شفقت پھیرتے تھے(۳۶)

بچوں سے پیار ومحبت اور شفقت کرنا پیغمبر اکرم (ص) کی خصوصیات میں سے تھا۔(۳۷)

ایک دن پیغمبر (ص) اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جگہ سے گزر ے جہاںچند بچے کھیل رہے تھے۔پیغمبر اکرم (ص) ان بچوں میں سے ایک کے پاس بیٹھے اور اس کے ماتھے کو چوما اور اس سے شفقت کے ساتھ پیش آئے۔آپ(ص) سے جب اس کا سبب پوچھاگیا،تو آپ(ص) نے فرمایا:میں نے ایک دن دیکھا کہ یہ بچہ میرے فرزند حسین علیہ السلام کے ساتھ کھیل رہا تھا اور حسین علیہ السلام کے پائوں کے نیچے سے خاک اٹھاکراپنے چہرہ پر مل رہاتھا۔چونکہ یہ بچہ حسین علیہ السلام کودوست رکھتا ہے اس لئے میں بھی اسے دوست رکھتا ہوں ۔جبرئیل نے مجھے خبردی ہے کہ یہ بچہ کربلا میں حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہوگا۔(۳۸)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا:

''موسی ابن عمران نے اپنی مناجات میں خدا وند متعال سے سوال کیا:پرور دگارِ!تیرے نزدیک کو ن سا عمل بہتر ہے؟وحی ہوئی:بچوں سے پیار کرنامیرے نزدیک تمام اعمال سے برتر ہے،کیونکہ بچے ذاتی طور پرخدا پرست ہوتے ہیں اور مجھے محبت کرتے ہیں ۔اگر کوئی بچہ مر جاتا ہے تو میں اسے اپنی رحمت سے بہشت میں داخل کرتا ہوں ۔(۳۹) ''

مگر بچوں سے بہت زیادہ محبت بھی نہیں کرنی چاہئے،کیونکہ اس کے نقصا نات ہیں ۔اسی لئے اسلامی روایات میں بچوں کے ساتھ بہت زیادہ محبت کرنے کا منع کیاگیا ہے۔

رسول اکرم (ص) کا امام حسن اور امام حسین علیھما السلام سے پیار

رسول خدا (ص) اپنے نواسوں امام حسن اور امام حسین علیھماالسلام سے بہت محبت کرتے تھے۔یہ حقیقت بہت سی کتابوں میں بیان ہوئی ہے،اس سلسلہ میں چند نمونے ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں :

اہل سنّت کی کتابوں مین نقل ہوا ہے کہ عبداللہ ا بن عمر سے روایت کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''امام حسن اورامام حسین علیھما السلام،دنیا میں میرے خوشبودار پھول ہیں ۔(۴۰) ''

انس بن مالک سے نقل کیا گیا ہے کہ

''رسول خدا (ص) سے پوچھا گیاکہ آپ(ص) اپنے اہل بیت میں سے کس کو زیادہ چاہتے ہیں ؟رسول خدا (ص) نے جواب میں فر مایاکہ میں حسن اور امام حسین علیھما(علیہ السلام) کو دوسروں سے زیادہ دوست رکھتا ہوں ۔(۴۱) ''

ایک اور روایت میں سعیدا بن راشد کہتا ہے:

'' امام حسن اور امام حسین علیھما( علیہ السلام) رسول خدا (ص) کے پاس دوڑتے ہوئے آئے۔آپ(ص) نے انھیں گود میں اٹھایا اورفرمایا:یہ دنیا میں میرے دو خوشبو دار پھول ہیں ۔(۴۲) ''

امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فر مایا:

ٍٍ''رسول خدا (ص) نے مجھ سے فر مایا:اے میرے فرزند! تم حقیقت میں میرے لخت جگر ہو،خوش نصیب ہے وہ شخص جو تم سے اور تمہاری اولاد سے محبت کرے اور وائے ہو اس شخص پر جو تم کو قتل کرے۔(۴۳) ''

رسول خدا (ص) امام حسین علیہ السلام سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپ(ص) ان کا رونا برداشت نہیں کرپاتے تھے۔

یزیدا بن ابی زیاد کہتا ہے:

''رسول خدا (ص) عائشہ کے گھر سے باہر تشریف لائے۔اور فاطمہ زہراسلام اللہ

علیہاکے گھر سے گزرے امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز سنی،توآپ(ص) نے فاطمہ سلام اللہ علیہاسے فر مایا: کیا تم نہیں جانتی ہو کہ مجھے حسین( علیہ السلام) کے رونے سے تکلیف ہوتی ہے؟!(۴۴) ''

بچوں کے حق میں پیغمبر اسلام (ص) کی دعا

بچوں سے متعلق پیغمبر اسلام (ص) یہ معمول تھاکہ مسلمان اپنے بچوں کو آپ(ص) کی خدمت میں لاتے تھے اور آپ(ص) سے ان کے حق میں دعا کرنے کی درخواست کرتے تھے۔

جمرہ بنت عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک بیٹی نے کہا:

''میرا باپ مجھے پیغمبر خدا (ص) کی خدمت میں لے گیا اور آپ(ص) سے درخواست کی کہ میرے حق میں دعا کریں۔پیغمبر خدا (ص) نے مجھے اپنی آغوش میں بٹھا کرمیرے سر پر دست شفقت رکھا اور میرے لئے دعا فر مائی۔(۴۵) ''

بچوں سے شفقت کرنا

عباس بن عبدالمطلب کی بیوی،ام الفضل،جو امام حسین علیہ السلام کی دایہ تھی،کہتی ہے:

''ایک دن رسول خدا (ص) نے امام حسین علیہ السلام،جو اس وقت شیر خوار بچہ

تھے،کو مجھ سے لے کر اپنی آغوش میں بٹھایا، بچے نے پیغمبر اکرم (ص) کے لباس کو تر کر دیا۔میں نے جلدی سے بچے کو آنحضرت (ص)سے لے لیا نتیجہ میں بچہ رونے لگا ۔آنحضرت (ص)نے مجھ سے فر مایا:ام الفضل!آہستہ!میرے لباس کو پانی پاک کر سکتا ہے،لیکن میرے فرزند حسین علیہ السلام کے دل سے اس رنج و تکلیف کے غبار کو کونسی چیز دور کرسکتی ہے(۴۶) ؟''

منقول ہے کہ جب کسی بچے کودعا یا نام رکھنے کے لئے رسول خدا (ص) کی خدمت میں لاتے تھے۔توآپ (ص)اس بچہ کے رشتہ داروں کے احترام میں ہاتھ پھیلا کربچے کو آغوش میں لیتے تھے۔کبھی ایسا اتفاق بھی ہوتا تھا کہ بچہ آپ (ص)کے دامن کو ترکر دیتا تھا،موجود افراد بچے کو ڈانٹتے تھے تاکہ اسے پیشاب کرنے سے روک دیں۔رسول خدا (ص)انھیں منع کرتے ہوئے فر ماتے تھے:''سختی کے ساتھ بچے کو پیشاب کرنے سے نہ روکنا''،اس کے بعد بچے کو آزاد چھوڑ تے تھے تاکہ پیشاب کرکے فارغ ہو جائے۔

جب دعا ونام گزاری کی رسم ختم ہو جاتی،توبچے کے رشتہ دار نہایت ہی خوشی سے اپنے فرزند کو آنحضرت (ص)سے لیتے اور بچے کے پیشاب کرنے کی وجہ سے آپ(ص) ذرا بھی ناراض نہیں ہوتے تھے۔ بچے کے رشتہ داروں کے جانے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) اپنا لباس دھو لیتے تھے۔(۴۷)

پیغمبر اکرم (ص) کا بچوں کو تحفہ دینا

پیغمبر اسلام (ص) کا بچوں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک اور نمو نہ یہ تھاکہ آپ (ص) ان کو تحفے دیتے تھے۔

عائشہ کہتی ہیں :

''حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے رسول خدا (ص) کے لئے حبشہ میں بنی ہوئی سونے کی ایک انگوٹھی تحفہ کے طورپر بھیجی ۔رسول خدا (ص) نے امامہ بنت ابی العاص(جو پیغمبر اکرم (ص) کی ربیبہ تھی)کو بلا کر فرمایا:بیٹی!اس تحفہ سے اپنے آپ کو زینت دو۔(۴۸) ''

ایک دوسری حدیث میں عائشہ کہتی ہیں :

''پیغمبر خدا (ص) کے لئے ایک سونے کا گلو بند تحفہ کے طور پر لایا گیا رسول خدا (ص) کی تمام بیویاں ایک جگہ جمع ہوگئی تھیں۔امامہ بنت ابی العاص،جو ایک چھوٹی بچی تھی،گھر کے ایک کونے میں کھیل رہی تھی۔رسول خدا (ص) نے اس گلو بند کودکھا کر ہم سے پوچھا:تمہیں یہ کیسالگ رہا ہے ؟ہم سب نے اس پر نظر ڈال کر کہا:ہم نے آج تک اس سے بہتر گلوبند نہیں دیکھا ہے۔

رسول خدا (ص) نے فر مایا:اسے مجھے دیدو ۔عائشہ کہتی ہیں :میری آنکھوں میں تاریکی چھاگئی ۔میں ڈر گئی کہیں آپ (ص) اسے کسی دوسری بیوی کی گردن میں نہ ڈال دیں۔ اوردوسری بیویوں نے بھی ایسا ہی تصور کیا۔ہم سب خاموش تھے،اسی اثنا میں امامہ رسول خدا (ص) کے پاس آگئی اور آپ (ص)نے گلو بند کو اس کی گردن میں ڈال دیا پھر وہاں سے تشریف لے گئے۔(۴۹) ''

بعض روایتوں میں اس طرح نقل ہوا کہ ایک عرب نے پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں آکر کہا:

''اے رسول خدا (ص)!میں ہرن کے ایک بچہ کوشکار کر کے لایا ہوں تاکہ تحفہ کے طور پر آپ(ص) کی خدمت میں پیش کروں اور آپ (ص)اسے اپنے فرزند امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام کو دیدیں۔

آنحضرت (ص) نے تحفہ کو قبول کر کے شکاری کے لئے دعا کی ۔اس کے بعد اس ہرن کے بچے کوامام حسن علیہ السلام کو دیا امام حسن علیہ السلام اس ہرن کے بچہ کو لے کر اپنی والدہ حضرت ماطمہ زہرائ٭ کی خدمت میں آئے۔لہذا امام حسن علیہ السلام بہت خوش تھے اور اس ہرن کے بچہ سے کھیل رہے تھے۔(۵۰) ''

شہیدوں کے بچوں کے ساتھ پیغمبر اسلام (ص) کاسلوک

بشیرا بن عقریہ ا بن جہنی کہتا ہے:

''میں نے جنگ احدکے دن رسول خدا (ص) سے پو چھا کہ میرے والد کس طرح شہید ہوئے؟ آپ(ص)نے فرمایا :''وہ خدا کی راہ میں شہید ہوئے،ان پر خدا کی رحمت ہو ۔میں رونے لگا۔پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے اپنے نزدیک بلاکر میرے سر پر دست شفقت پھیر ا اور مجھے اپنے مرکب پر سوار کرکے فرمایا :کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ میں تمہارے باپ کی جگہ پر ہوں ؟(۵۱) ''

جمادی الاو ل ۸ ہجری کو جنگ موتہ واقع ہوئی۔اس جنگ میں لشکر اسلام کے تین کمانڈر ،زیدا بن حارثہ،جعفرا بن ابیطالب اور عبداللہ ا بن رواحہ شہید ہوئے ۔

یہ لشکر واپس مدینہ پلٹا(۵۲) رسول خدا (ص) اور مسلمان ترانہ پڑھتے ہوئے اس لشکر کے استقبال کے لئے نکلے۔پیغمبر اسلام (ص)مرکب پر سوار تھے اور فرمارہے تھے:

''بچوں کو مرکبوں پر سوار کرو اور جعفر کے بیٹے کومجھے دو !عبیداللہ ا بن جعفرابن ابی طالب کو لایا گیا ۔پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے سامنے مرکب پر بٹھایا۔(۵۳) ''

ابن ہشام لکھتا ہے : جعفر کی بیوی ،اسماء بنت عمیس کہتی ہے:

''جس دن جعفر جنگ موتہ میں شہید ہوئے اس دن،پیغمبر اکرم (ص) ہمارے گھر تشریف لائے ۔اور میں اسی وقت گھر کے کام کاج صفائی اور بچوں کونہلا دھلا کر فارغ ہو ئی تھی آپ(ص)نے مجھ سے فرمایا: جعفر کے بچوں کو میرے پاس لائو !میں ان کو آنحضرت (ص)کی خدمت میں لے گئی، آپ(ص)نے بچوں کو اپنی آغوش میں بٹھاکرپیار کیا جبکہ آپ (ص)کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

میں نے سوال کیا :اے رسول خدا (ص)!میرے ماںباپ آپ(ص) پر فدا! آپ(ص) کیوں رو رہے ہیں ؟کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آپ (ص)کو کوئی خبر ملی ہے ؟ آپ (ص)نے فرمایا :جی ہاں ،وہ آج شہید ہو گئے(۵۴) ''

بیشک،لوگوں کے بچے بھی رسول خدا (ص) کی اس پدرانہ شفقت سے محروم نہیں

تھے۔ منقول ہے کہ:

''رسول خدا (ص) بعض بچوں کو اپنی گود میں لیتے تھے اور بعض کو اپنی پشت اور کندھوں پر بٹھاتے تھے (اور اپنے اصحاب سے فرماتے تھے:کہ بچوں کو گود میں لے لو ،انھیں اپنے کندھوں پر سوار کرو) بچے اس سے خوش ہوتے تھے اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور ان دلچسپ یادوں کو کبھی نہیں بھولتے تھے،بلکہ کچھ مدت کے بعد اکٹھا ہوکران باتوں کو ایک دوسرے کے سامنے بیان کرتے تھے اور فخر ومباہات کے ساتھ کوئی یہ کہتا تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے گود میں لیا اور تجھے اپنی پشت پر سوارکیا۔دوسرا کہتا تھاکہ پیغمبر اکرم (ص) اپنے اصحاب کو حکم دیتے تھے کہ تمہیں اپنی پشت پر سوار کریں۔(۵۵) ''

پیغمبر اسلام (ص)کا نماز کی حالت میں اپنے بچوں سے حسن سلوک

شداد بن ہاد کہتا ہے:

''رسول خدا (ص)ایک دن نماز ظہر یا عصرپڑھ رہے تھے اور آپ کے بیٹوں حسن علیہ السلام وحسین علیہ السلام میں سے کوئی ایک آپ کے ساتھ تھا ۔آپ(ص) نمازیوں کی صفوں کے آگے کھڑے ہوگئے اور اس بچے کو اپنے دائیں طرف بٹھادیا۔ اس کے بعدآپ (ص)سجدہ میں گئے اور سجدہ کو طول دیا۔

راوی اپنے باپ سے نقل کرتا ہے:

میں نے لو گوں کے درمیان سجدہ سے سر اٹھایا،دیکھا کہ رسول خدا (ص)ابھی سجدہ

میں ہیں اور وہ بچہ پیغمبر اکرم (ص) کی پشت پر سوار ہے ،میں دوبارہ سجدہ میں چلاگیا ۔جب نماز ختم ہوئی ،لوگوں نے عرض کی کہ اے رسول خدا (ص)!آج جو نماز آپ (ص)نے پڑھی اس میں ایک سجدہ بہت طولانی کیا کہ دوسری نمازوں میں آپ نے اتنا طولانی سجدہ نہیں کیا ، کیا اس سلسلہ میں آپ(ص) کے پاس کوئی حکم آیا ہے یا کوئی وحی نازل ہوئی ہے ؟آپ (ص)نے جواب میں فر مایا :ایسا کچھ نہیں تھا ،بلکہ میرا فرزند میری پشت پر سوار ہوگیا تھا ،میں اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا،اس لئے میں نے اسے آزاد چھوڑدیا کہ جو چاہے کرے۔(۵۶) ''

ایک دوسری حدیث میں ابوبکر سے منقول ہے:

''میں نے حسن اور حسین علیھما السلام کو دیکھا کہ رسول خدا (ص)حالت نماز میں ہیں اور یہ اُچھل کرآپ کی پشت پر سوار ہورہے ہیں ،رسول خدا (ص)دونوں بچوں کو ہاتھ سے پکڑ لے رہے تھے تاکہ آپ (ص)کھڑے ہوجائیںاور اپنی کمر سیدھی کرلیںاور بچے آسانی کے ساتھ زمین پر اترجائیں۔نماز کو ختم کرنے کے بعد آنحضرت(ص) دونوں بچوں کو آغوش میں لے کر ان کے سروں پردست شفقت پھیرتے ہوئے فرماتے تھے:یہ میرے دونوں بیٹے خوشبودارپھول حسن و حسین ہیں ۔(۵۷) ''

دوسری حدیث میں آیا ہے کہ بچہ خوشبودار پھول ہے اور میرے خوشبودار پھول حسن وحسین علیھما السلام ہیں ایک روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے:

''ایک دن پیغمبر اکرم (ص)مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ ایک جگہ نماز

پڑھ رہے تھے،جب آنحضرت (ص)سجدہ میں جاتے تھے توحسین علیہ السلام ،جو کہ بچہ تھے،آپ(ص)کی پشت پر سوار ہوکر اپنے پائوں کو ہلاتے ہوئے ''ہے ہے ''کرتے تھے۔جب پیغمبر اکرم (ص)سجدہ سے سر اٹھانا چاہتے تھے،تو امام حسین علیہ السلام کو ہاتھ سے پکڑ کرزمین پر بٹھاتے تھے ،یہ کام نماز کے ختم ہونے تک جاری رہتاتھا۔ایک یہودی اس ماجرے کو دیکھ رہاتھا ۔اس نے نماز کے بعد رسول خدا (ص)کی خدمت میں عرض کی :آپ (ص)اپنے بچوں سے ایسا برتائو کر رہے ہیں کہ ہم ہر گز ایسا نہیں کرتے۔رسول خدا (ص)نے فرمایا:اگر تم لوگ خدا اور اس کے رسول (ص)پر ایمان رکھتے تو اپنے بچوں سے شفقت کرتے ۔پیغمبر اسلام (ص) کی بچوں کے ساتھ مہر ومحبت نے یہودی کو اس قدر متاثر کیا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔(۵۸)

رسول خدا (ص)دوسروں کے بچوں کا بھی احترام کرتے تھے اور آپ(ص) ان کے نفسیاتی جذبات کابھی پورا پورا خیال رکھتے تھے۔

تیسری فصل:

بچّوں کا بوسہ لینا

''بچے خوشبودار پھول ہیں ۔''

پیغمبر اکرم (ص)

بچوں کے ساتھ رسول خدا (ص)کے حسن سلو ک میں سے ان کا بوسہ لینا بھی ہے۔اس سلوک کا اثر یہ ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان گہری محبت پیدا ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ بچے کی محبت کی پیاس کوبجھانے کا یہ بہترین طریقہ ہے اوربوسہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ماں باپ بچے سے محبت رکھتے ہیں نیز یہی بوسہ بچے کے اندر بھی پیار محبت کے جذبے کو زندہ رکھنے کا سبب بنتا ہے اور بچہ اپنے والدین کے دل میں اپنے تئین رکھنے والی محبت سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اس کے اندرایک نیا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)اکثر اوقات لوگوں کے سامنے اپنے بچوں سے محبت کاا ظہار کرتے تھے۔اس کے دو فائدے تھے:

اول یہ کہ لوگوں کے سامنے بچوں کا احترام کرنے سے ان کی شخصیت بنتی ہے۔

دوسرے یہ کہ رسول خدا (ص)اس سلوک سے لوگوں کوبچوں کی تربیت کا طریقہ سکھاتے تھے۔

اسلام میں اپنے بچے کا بوسہ لینے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''جو شخص اپنے بچے کا بوسہ لیتاہے،خدا وند متعال اس کے حق میں ایک نیکی لکھتا ہے اور جو شخص اپنے بچے کو خوش کرتا ہے ،خدا وند متعال قیامت کے دن اس کو خوش کرے گا۔(۵۹) ''

عائشہ کہتی ہیں :

''ایک شخص رسول خدا (ص)کی خدمت میں آگیا اور کہا :کیا آپ (ص)بچوں کا بوسہ لیتے ہیں ؟میں نے کبھی کسی بچے کا بوسہ نہیں لیا ہے۔رسول خدا (ص) نے فرمایا :میں کیا کروں کہ خدا وند متعال نے تیرے دل سے اپنی رحمت کو نکا ل لیا ہے؟(۶۰) ''

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ

''ایک شخص رسول خدا (ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:میں نے آج تک کسی بھی بچے کا بوسہ نہیں لیاہے!جیسے ہی یہ شخص گیا پیغمبر (ص) نے فرمایا :میری نظر میں یہ شخص جہنّمی ہے۔(۶۱) ''

ایک اور روایت میں آیا ہے:

''رسول خدا (ص) نے حسن وحسین علیھما السلام کا بوسہ لیا۔اقرع ا بن حابس نے کہا:میرے دس فرزند ہیں اور میں نے کبھی ان میں سے کسی ایک کا بھی بوسہ نہیں

لیا ہے!رسول خدا (ص) نے فر مایا :میں کیا کروں کہ خدا وند متعال نے تجھ سے رحمت چھین لی ہے(۶۲) ؟!

علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اپنے بچوں کا بوسہ لیاکرو ،کیونکہ تمھیں ہر بوسہ کے عوض(جنت کا) ایک درجہ ملے گا۔(۶۳) ''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

''اپنے بچوں کا زیادہ بوسہ لیاکرو ،کیونکہ ہر بوسہ کے مقا عوض میں خدا وند متعال تمھیں (جنت میں ) ایک درجہ عنایت فرمائے گا۔(۶۴) ''

ابن عباس کہتے ہیں :

''میں پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں تھاآپ (ص)کے بائیں زانو پر آپ (ص) کے بیٹے ابراھیم علیہ السلام اور دائیں زانو پر امام حسین علیہ السلام بیٹھے تھے۔آنحضرت (ص)کبھی ابراھیم علیہ السلام کا اور کبھی امام حسین علیہ السلام کا بوسہ لیتے تھے ۔(۶۵) ''

بچوں کے ساتھ انصاف کرنا

ایک اہم نکتہ جسے والدین کو اپنے بچوں کے بارے میں ملحوظ رکھنا چاہئے یہ ہے کہ وہ بچوں کے درمیان عدل وانصاف سے کام لیں ۔کیونکہ بچوں کو ابتداء سے ہی عدل

وانصاف کا مزہ چکھنا چاہئے تاکہ اس کی خوبی کو محسوس کریںاور اس سے آشنا ہوجائیں اور اسے اپنی زندگی اور معاشرہ کے لئے ضروری سمجھیں اور بے انصافی ،ظلم اورہر طرح کے امتیازسے پرہیز کریں۔کیونکہ بچوں کی زندگی میں کوئی چیز چھوٹی نہیں ہوتی،لہذاعدل وانصاف کے نفاذ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''پیغمبر اسلام (ص)نے ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ جس کے دو بچے تھے ،اس نے ایک کا بوسہ لیا اور دوسرے کا بوسہ نہیں لیا ۔آنحضرت (ص) نے فرمایا:تم نے کیوں ان کے درمیان عدل وانصاف سے کام نہیں لیا ۔''

ابی سعید خدری کہتے ہیں :

''ایک دن رسول خدا (ص) اپنی بیٹی فاطمہ(س) کے گھر تشریف لے گئے۔علی علیہ السلام بسترپر محو آرام تھے،حسن اور حسین علیھما السلام بھی ان کے پاس تھے ۔انہوں نے پانی مانگا ،رسول خدا (ص) ان کے لئے پانی لائے۔حسین علیہ السلام آگے بڑھے،پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :تمہارے بھائی حسن( علیہ السلام) نے تم سے پہلے پانی مانگا ہے۔فاطمہ ٭ نے فر ما یا :کیا آپ (ص)حسن علیہ السلام سے زیادہ محبت رکھتے ہیں ؟آنحضرت (ص)نے فرمایا :میرے نزدیک دونوں برابر ہیں کوئی بھی ایک دوسرے سے برتر نہیں ہے ''لیکن عدل وانصاف سے کام لینا ضروری ہے ۔ہر ایک کو اپنی نوبت پر پانی پینا چاہئے(۶۶) ''

انس کہتے ہیں :

''ایک شخص پیغمبر اکرم (ص) کے پاس بیٹھا تھا ۔اس کا بیٹا آگیا ۔باپ نے اسے چوم کر اپنے زانو پر بیٹھالیا ۔اس کے بعد اس کی بیٹی آگئی ۔(بوسہ لئے بغیر)اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔پیغمبر اکرم (ص)نے فر مایا :تم نے کیوں ان کے درمیان عدل وانصاف سے کام نہیں لیا ؟(۶۷)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اپنے بچوں کے درمیان اسی طرح عدل وانصاف سے کام لو ،جس طرح تم خود چاہتے ہو کہ تمھارے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے۔(۶۸) ''

پیغمبر اسلام (ص) کا حضرت فاطمہ زہراکو بوسہ دینا

پیغمبر اسلام (ص)اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہراعلیہا اسلام سے بہت محبت کر تے تھے، باوجودیکہ حضرت فاطمہ کی شادی ہو چکی تھی اور بچے بھی ہو چکے تھے ،آنحضرت (ص) ان کا بوسہ لیتے تھے۔

ابان ا بن تغلب کہتے ہیں :

''پیغمبر اسلا م (ص)اپنی بیٹی فاطمہ ٭کو بہت بوسہ دیتے تھے۔(۶۹) ''

امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام نے فر مایا:

''پیغمبر اکرم (ص)رات کو سونے سے پہلے فاطمہ(س)کو بوسہ دیتے تھے اور اپنے چہرے کو ان کے سینہ پر رکھ کر ان کے لئے دعا کرتے تھے۔(۷۰) ''

عائشہ کہتی ہیں :

''ایک دن رسول خدا (ص)نے فاطمہ(س)کے گلے کا بوسہ لیا۔میں نے آنحضرت(ص) سے کہا :اے رسول خدا(ص) فاطمہ ٭کے ساتھ آپ جیسابرتائو کررہے ہیں ایسا دوسروں کے ساتھ نہں کرتے؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:اے عائشہ !جب مجھے بہشت کا شوق ہوتا ہے تومیں فاطمہ(س)کے گلے کا بوسہ لیتاہوں ۔(۷۱) ''

کس عمر کے بعد بچے کابوسہ نہیں لینا چاہئے؟

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کو کس عمر کے بعد نہیں چومنا چاہئے؟اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں ائمہ دین کی احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

اسلام نے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں چھ سے دس سال تک کی عمر پر خاص توجہ دی ہے اور اپنے پیرئوں کو ضروری ہدایتیں دی ہیں اور لوگوں کی جسمی اور روحی حالت کے مطابق قوانین الٰہی بنائے گئے ہیں ۔اس طرح عملی طریقے سے بچوں کے جنسی رجحانات کوکنٹرول کیا ہے تاکہ ان میں اخلاقی برائیاں پیدا نہ ہوں ۔

اس لئے ،اسلام چھ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو جنسی میلانات کو ابھار نے والی ہر چیز سے دور رکھتا ہے اوروالدین کو ہدایت دیتا ہے کہ اپنے بچوں کے جنسی رجحات کو قابو میں رکھنے کے لئے مناسب ماحول فراہم کریں۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''چھ سال کی لڑکی کا کوئی مرد بوسہ نہ لے اوراسی طرح عورتیں بھی چھ سات سال کی

عمر کے بعد کسی لڑکے کو چومنے سے پرہیز کریں۔(۷۲) ''

پیغمبر اسلام (ص)کا امام حسن اورامام حسین علیھما السلام کو چومنا

پیغمبر اکرم (ص) اپنی بیٹی فاطمہ زہرائ کا بوسہ لینے کے علاوہ ان کے بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیھما السلام سے بھی محبت کرتے تھے اور ان کا بوسہ لیتے تھے۔

ابو ہریرہ کہتے ہیں :

''پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ حسن و حسین علیھما السلام کابوسہ لیتے تھے۔انصار میں سے عینہ نے کہا:میرے دس بچے ہیں ،اور میں نے کبھی ان میں سے کسی ایک کا بوسہ نہیں لیاہے۔آنحضرت (ص)نے فر مایا :''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔(۷۳) ''

سلمان فارسی کہتے ہیں :

''میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا،دیکھا کہ آپ (ص) حسین علیہ السلام کو اپنے زانو پر بٹھا کر کبھی ان کی پیشانی اور کبھی ان کے ہونٹوں کا بوسہ لے رہے ہیں(۷۴)

ابن ابی الدنیا کہتے ہیں :

''زیدا بن ارقم نے جب عبیداللہ ابن زیاد کی مجلس میں دیکھا کہ وہ فاسق ایک چھڑی سے امام حسین علیہ السلام کے لبوں سے بے ادبی کر رہا ہے تو انہوں نے

عبیداللہ ابن زیاد سے مخاطب ہو کر کہا:

چھڑی کو ہٹا لو!خدا کی قسم میں نے بارہا پیغمبر اکرم (ص)کوان دونوں لبوں کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ جملہ کہنے کے بعدزیدرونے لگے، ابن زیاد نے کہا :خدا تیری آنکھوں کو ہمیشہ رلائے،اگرتم بوڑھے نہ ہوتے اورتمہاری عقل زائل نہ ہو گئی ہوتی تو میں ابھی تمہاری گردن مار دینے کا حکم دے دیتا۔(۷۵) ''

زمخشری کہتاہے:

''رسول خدا (ص)نے حسن علیہ السلام کو آغوش میں لے کر ان کا بوسہ لیا ۔اس کے بعد انھیں اپنے زانو پر بٹھالیا اور فرمایا :میں نے اپنے حلم ،صبر اورہیبت کو انھیں بخشا اس کے بعد حسین علیہ السلام کو آغوش میں لے کر ان کا بوسہ لیا اور انھیں بائیں زانو پر بٹھا کر فرمایا :میں نے اپنی شجاعت اورجودو کرم کو انھیں بخشا(۷۶)