بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک0%

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد علی چنارانی
زمرہ جات: مشاہدے: 11685
ڈاؤنلوڈ: 2721

تبصرے:

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11685 / ڈاؤنلوڈ: 2721
سائز سائز سائز
بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چوتھی فصل:

بچو ں کے ساتھ کھیلنا

جس شخص کے یہاںکوئی بچہ ہو،اُسے اس بچہ کے ساتھ بچوں جیسا سلوک کرنا چاہئے۔

( پیغمبر اکرم (ص))

بچوں کی شخصیت کوسنوار نے کے لئے مئوثر طریقہ بڑوں کاان کے ساتھ کھیلنا ہے۔ کیونکہ بچے ایک طرف تو اپنے اندر جسمانی کمزوری کا احسا س کرتے ہیں اور دوسری طرف بڑوں کے اندر موجود طاقت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو فطری طور پر ان کو رشد وکمال سے جو عشق ہو تا ہے وہ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ وہ بڑوں کے طریقہ کار پر عمل کریں اور خود کو ان کا جیسا بنا کر دکھائیں۔

جب والدین بچے بن کر ان کے ساتھ کھیل کود میں شریک ہوتے ہیں ،تو یقینا بچہ مسرور اور خوش ہوتاہے اور جذ بات میں آکر محسوس کرتا ہے کہ اس کے بچگا نہ کام کافی اہمیت رکھتے ہیں ۔

اس لئے آج کل کے تربیتی پرو گراموں میں بڑوں کا بچوں کے ساتھ کھیلنا ایک قابل قدر امر سمجھا جاتا ہے اور علم نفسیات کے ماہرین اس طریقہ کار کو والدین کی ذمہ داری جانتے ہیں ۔

ٹی،ایچ،موریس( T.H.MORRIS )''اپنی کتاب والدین کے لئے چند اسباق''میں لکھتا ہے:

''اپنے بچوں کے رفیق اور دوست بن جائو،ان کے ساتھ کھیلو،ان کو کہا نیاں سناؤ۔اور ان کے ساتھ دوستانہ اور مخلصا نہ گفتگو کرو۔بالخصوص والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ساتھ بچہ بن جا ئیں اور ان سے ایسی بات کریں کہ وہ ان کی بات کو سمجھ سکیں۔(۷۷) ''

ایک اور ماہر نفسیات لکھتا ہے:

''باپ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے تفریحی پروگراموں میں شرکت کرے۔یہ حسن تفاہم ضروری ہے۔لیکن بچوں کی زندگی سے مربوط زمان ومکان اور موسم مختلف ہوتے ہیں ۔جو باپ اپنے بچوں کے کھیل کود میں شرکت کرتا ہے، بیشک وہ مختصر مدت کے لئے ایسا کرتا ہے،لیکن اس کا بچوں کے ساتھ بچہ بننا، چاہے کم مدت کے لئے ہی ہو بچوں کی نظر میں اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کو بہر حال اس کے لئے وقت نکالنا چاہئے خواہ کم ہی ہو ۔(۷۸)

بچوں کے کھیلنے کی فطرت

خدا وند متعال نے جو جبلّتیں بچوں میں قراردی ہیں ،ان میں سے ایک ان کی کھیل کود

سے دلچسپی بھی ہے۔وہ دوڑ تا ہے،اچھل کود کرتا ہے اور کبھی اپنے کھلونوں کے ساتھ مشغول رہتا ہے اور ان کو اُلٹ پُلٹ کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔اگر چہ اس کی یہ حرکتیں ابتداء میں فضول دکھائی دیتی ہیں ،لیکن حقیقت میں یہ بچے کے جسم وروح کے کمال کا سبب بنتی ہیں ،اس کے نتیجہ میں بچے کا بدن مضبوط ہو جاتا ہے اور اس کے اندرغور وفکر اور تخلیق کی قوت بڑھ جاتی ہے اور اس کے اندرموجود پوشیدہ توانائیاں آشکار ہوجاتی ہیں ۔شاید اسلامی روایات میں بچوں کے کھیل کود کو اہمیت دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

بچے کا کھیلنا،اس کے ارادہ کی آزادی اور قوت تخلیق کو زندہ کرنے کی مشق ہے،کیونکہ

جب بچہ کھلونوں سے ایک عمارت بنانے میں مشغول ہوتا ہے ،اس کی فکر ایک انجینئر کے مانند کام کرتی ہے اور وہ اپنی کامیابیوں سے لذت محسوس کرتا ہے۔جب وہ اس کام کو انجام دینے کے دوران کسی مشکل سے دو چار ہوتا ہے تو اس کا حل تلاش کر تا ہے ،نتیجہ میں یہ تمام کام اس کی فکر کی نشو ونمااور اس کی شخصیت کو بنانے میں کافی مؤثر ہو تے ہیں ۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''جس شخص کے یہاں کوئی بچہ ہواسے اس بچہ کے ساتھ بچوں جیسا سلوک کرنا چاہئے۔(۷۹) ''

نیزفرمایا:

''اس باپ پر خدا کی رحمت ہوجو نیکی اور کار خیر میں اپنے بچے کی مدد کرتاہے۔ اس کے ساتھ نیکی کرے اور ایک بچے کے مانند اس کادوست بن جائے اور اسے دانشور اور باادب

بنائے۔(۸۰) ''

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''اپنے بچے کو سات سال تک آزاد چھوڑدو تاکہ وہ کھیلتا رہے۔(۸۱) ''

امام جعفر صادق علیہ السلا م نے فرمایا:

''بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی سات سال کے دوران کھیلتا ہے۔دوسرے سات سال کے دوران علم سیکھنے میں لگتا ہے اور تیسرے سات سال کے دوران حلال وحرام(دینی احکام) سیکھتا ہے۔(۸۲) ''

حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا:

''جس شخص کے یہاں کوئی بچہ ہو اسے اس کی تربیت میں اس کے ساتھ بچے جیسا

بر تائو کرنا چاہئے۔(۸۳)

پیغمبر اسلام (ص)کا بچوں کے ساتھ کھیلنا

رسول اکرم (ص)اپنے بچوں ،امام حسن و امام حسین علیھماالسلام کے ساتھ کھیلتے تھے۔اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں ،ہم یہاں ان میں سے چند روایتیں بیان کرتے ہیں :منقول ہے کہ

''پیغمبر اکرم (ص)ہر روز صبح اپنے بچوں اور ان کی اولاد کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے اور حسین علیہ السلا م کے ساتھ کھیلتے تھے۔(۸۴) ''

یعلی ا بن مرّہ کہتا ہے:

''رسول خدا (ص)کی( ایک دن کہیں )دعوت تھی ،ہم بھی آنحضرت (ص)کے ہمراہ تھے، ہم نے دیکھا کہ امام حسن علیہ السلام کوچہ میں کھیل رہے ہیں ۔پیغمبر اکرم (ص)نے بھی انھیں دیکھا ،اور آپ (ص) لوگوں کے سامنے دوڑتے ہوئے امام حسن علیہ السلام کی طرف گئے اور ہاتھ بڑھا کر انھیں پکڑ نا چاہا۔لیکن بچہ ادھراُدھر بھاگ رہا تھا اور اس طرح رسول خدا (ص)کو ہنساتاتھا،یہاں تک کہ رسول خدا (ص)نے بچے کو پکڑ لیا اور اپنے ایک ہاتھ کو امام حسن علیہ السلام کی ٹھوڑی پر اور دوسرے ہاتھ کوان کے سر پر رکھ کر اپنے چہرے کو ان کے چہرے سے ملاکرچومتے ہوئے فرمایا:حسن مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ،جو اسے دوست رکھے گاخدا وند متعال اس کو دوست رکھے گا۔(۸۵) ''

لیکن بہت سی روایات میں نقل ہوا ہے کہ یہ واقعہ حسین علیہ السلام کے بارے میں ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

''ایک دن امام حسین علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص)کی آغوش میں تھے ،آنحضرت (ص) ان کے ساتھ کھیل رہے تھے اور ہنس رہے تھے ۔عائشہ نے کہا :اے رسول خدا! (ص)!آپ (ص)اس بچے کے ساتھ کتنا کھیلتے ہیں ؟! رسول خدا (ص)نے جواب میں فرمایا:افسوس ہے تم پر!میں کیوں اس سے پیار نہ کروں جبکہ وہ میرے دل کا میوہ

اور میرا نور چشم ہے۔(۸۶) ''

جبیرا بن عبداللہ کا کہنا ہے:

''رسول خدا (ص)اپنے اصحاب کے بچوں سے کھیلتے تھے اور انھیں اپنے پاس بٹھاتے تھے۔(۸۷) ''

انس ابن مالک کاکہنا ہے:

''پیغمبر اکرم (ص)لوگوں میں سب سے زیادہ خوش اخلاق تھے۔میرا ایک چھوٹا بھائی تھا،اس سے دودھ چھڑایا گیا تھا ،میں اس کو پال رہا تھا ،اس کی کنیت ابو عمیر تھی۔آنحضرت (ص)جب بھی اسے دیکھتے تھے تو فرماتے تھے:تمہارا دودھ چھڑا نے سے تمھیںکیسی مصیبت آ گئی ہے؟آپ (ص)خود بھی اس کے ساتھ کھیلتے تھے۔(۸۸) ''

ایک حدیث میں نقل ہوا ہے:

''پیغمبر اکرم (ص)،عباس کے بیٹوں ،عبداللہ،عبیداللہ اور کثیر یا قشم کو اپنے پاس بلاتے تھے،وہ چھوٹے تھے اور کھیلتے تھے۔ان سے آنحضرت (ص)فرماتے تھے:

جو تم میں سے پہلے اور جلدی میرے پاس پہنچے گااس کو میں انعام دوں گا ۔بچے مقابلہ کی صورت میں آپ (ص)کی طرف دوڑ تے تھے ۔رسول خدا (ص) انھیں آغوش میں لے کر ان کا بوسہ لیتے تھے(۸۹) !! اور کبھی ان کو اپنے پیچھے مرکب پر سوار کرتے

تھے،ان میں سے بعض کے سر پر دست شفقت پھیرتے تھے(۹۰) !!

بچوں کو سوار کرنا۔

پیغمبر اسلام کا بچوں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک اور نمونہ یہ تھاکہ آپ (ص) انھیں کبھی اپنی سواری پر اپنے پیچھے اور کبھی اپنے سا منے بٹھاتے تھے ۔نفسیاتی طور پر پیغمبر اسلام (ص)کا یہ طرز عمل بچوں کے لئے انتہائی دلچسپ تھا ۔کیونکہ وہ پیغمبر اکرم (ص)کے اس برتائو کو اپنے لئے ایک بڑا فخر سمجھتے تھے اور یہ ان کے لئے ایک ناقابل فراموش واقعہ ہوتا تھا ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ آنحضرت (ص)کبھی اپنے بچوں کواپنے کندھوں پر اور کبھی اپنی پشت پر سوار کرتے تھے اور دوسروں کے بچوں کو اپنے سواری پر بٹھاتے تھے ۔ان میں سے کچھ نمونے ہم اس فصل میں ذکر کریں گے۔

جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ پیغمبر اسلام(ص) اپنے بچوں کو اپنی پشت مبارک پر سوار کرتے تھے اور ان کے ساتھ کھیلتے تھے ۔اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں ۔

پیغمبر اکرم (ص)کے عظیم صحابی،جابر کہتے ہیں :

''میں پیغمبر اسلام (ص)کی خدمت میں حاضرہوا،اس وقت حسن وحسین علیھما السلام آنحضرت (ص)کی پشت مبارک پر سوار تھے ،آپ (ص)اپنے ہاتھوں اور پائوں سے چل رہے تھے اور فرمارہے تھے :تمھاری سواری کیااچھی سواری ہے اور تم کیا اچھے سوار ہو۔(۹۱) ''

ابن مسعود کا کہنا ہے کہ

''پیغمبر اسلام (ص)،حسن وحسین علیھما السلام کو اپنی پشت پر سوار کرکے لے جارہے تھے،جبکہ حسن علیہ السلام کو دائیں طرف اور حسین علیہ السلام کو بائیں طرف سوار کئے ہوئے تھے ۔آپ (ص)چلتے ہوئے فرماتے تھے:تمھاری سواری کیا اچھی سواری ہے اور تم بھی کتنے اچھے سوار ہو۔تمھارے والد تم دونوں سے بہتر ہیں ۔(۹۲) ''

پیغمبر اسلام (ص)کا لوگوں کے بچوں کو اپنی سواری پر سوار کرنا

پیغمبر اسلام (ص)جیسا برتائو اپنے بچوں سے کرتے تھے ویسا ہی برتائو اپنے اصحاب کے بچوں سے بھی کرتے تھے اور انھیں اپنی سواری پر سوار کرتے تھے ۔اس سلسلہ میں ہم چند روایتیں ذکر کرتے ہیں :

عبداللہ ابن جعفرا بن ابیطالب کہتے ہیں :

''ایک دن رسول خدا (ص)نے مجھے اپنے مرکب پر اپنے پیچھے سوار کیا اور میرے لئے ایک حدیث بیان فر مائی ،جسے میں کسی سے بیان نہیں کروں گا۔(۹۳) ''

مروی ہے کہ جب کبھی رسول خدا (ص)سفر سے لوٹتے ہوئے راستہ میں بچوں کو دیکھتے تو حکم فر ماتے تھے کہ انھیں اٹھا لو ۔ان میں سے بعض بچوں کو اپنے مرکب پراپنے سامنے اور بعض کو اپنے پیچھے سوار کرتے تھے ۔کچھ مدت گزرنے کے بعد وہ بچے ایک دوسرے سے کہتے تھے:رسول خدا (ص)نے مجھے اپنے سامنے سوار کیا لیکن تجھے پیچھے سوار کیا!!اور دوسرے کہتے تھے:رسول خدا (ص)نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ تجھے آپ(ص) کے مرکب پر آپ (ص)کے پیچھے سوار کریں۔(۹۴) ''

فضیل بن یسار کہتا ہے :میں نے امام باقر علیہ السلام کویہ فرماتے ہوئے سنا:

''پیغمبر اکرم (ص)کسی کام کے لئے اپنے گھر سے باہر نکلے ۔فضیل بن عباس کو دیکھا توفرمایا:اس بچے کو میرے مرکب پر میرے پیچھے سوار کرو ۔اس بچے کو پیغمبر اکرم (ص)کے پیچھے مرکب پر سوار کیا گیا اور آپ (ص)اس بچے کا خیال رکھے ہوئے تھے۔(۹۵) ''

عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں :

''میں عباس کے بیٹوں ،قثم اور عبیداللہ کے ہمراہ تھا اور ہم کھیل رہے تھے ۔رسول خدا (ص) ہمارے پاس سے گزرے اور فرمایا :اس بچے(عبداللہ ابن جعفر)کو اٹھا کر سوار کر دو ۔اصحاب نے اسے اٹھا کر رسول اﷲ (ص)کے آگے بٹھا دیا۔اس کے بعد آپ (ص)نے فرمایا :اس بچے(قثم)کو اٹھا لو۔اسے بھی اٹھا کرآنحضرت(ص) کے پیچھے سوار کیا گیا(۹۶) ''

پیغمبر اسلام (ص)کے اپنے بچوں کو اپنے کندھوں پر سوار کرنے کی چند صورتیں نقل کی گئی ہیں کہ ہم ان کو ذیل میں بیان کرتے ہیں :

۱۔دونوں (حسن وحسین علیھما السلام)کو اپنے کندھوں پر اس طرح سوار کرتے تھے کہ دونوں ایک دوسرے کے روبرو ہوں ۔

۲۔دونوں کو اپنے کندھوں پر ایک دوسرے کی طرف پشت کرکے سوار کرتے تھے۔

۳۔ایک کو اپنے دائیں کندھے پر آگے کی طرف رخ کرکے اور دوسرے کو اپنے بائیں کندھے پر پیچھے کی طرف رخ کر کے سوار فرماتے تھے۔(۹۷)

پانچویں فصل:

بچّوں کو کھلانا اور پلانا

پیغمبر اسلام (ص)کے بارے منقول ہے :

آنحضرت (ص)چھو ٹوں اور بڑوں کوسلام کرتے تھے۔

بچو ں کی تربیت اورپرورش کے سلسلہ میں ایک اہم اور سنگین ذمہ داری یہ ہے کہ ان کے درمیان عدل وانصاف برقرار رکھا جائے۔اس لئے جن والدین کے یہاں کئی بچے ہیں ،انھیں اپنے برتائو اور سلوک میں تمام بچوں کے ساتھ عدل وانصاف اور مساوات کے ساتھ پیش آنا چاہئے اوراپنے عمل میں تمام بچوں کو یکساں سمجھنا چاہئے تاکہ ان میں سے بعض احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے بچوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے ۔اسی سلسلہ میں اپنے بچوں کو پانی دیتے وقت عدالت کی رعایت فرمانابھی اس سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''رسول خدا (ص)ہمارے گھر تشریف لائے ،میں اورحسن و حسین علیھما السلام ایک لحاف میں سوئے ہوئے تھے۔حسن نے پانی مانگاتورسول خدا (ص)گئے اور ایک برتن میں پانی لے کر آئے۔اسی اثنا ء میں حسین علیہ السلام بھی بیدار ہوئے اور پانی مانگا ۔لیکن رسول خدا (ص)نے پہلے انھیں پانی نہیں دیا۔

فاطمہ(س)نے فرمایا :

''اے رسول خدا ! (ص)کیاآپ حسن کو حسین سے زیادہ دوست رکھتے ہیں ؟رسول خدا (ص)نے فرمایا:حسن نے حسین سے پہلے پانی مانگا تھا ۔قیامت کے دن میں ،تم،حسن وحسین اور یہ جو سوئے ہوئے ہیں (علی علیہ السلام)ایک ہی جگہ ہوں(۹۸) !!''

رسول خدا (ص)اپنے بچوں کو خود کھانا کھلاتے تھے ۔آپ (ص)کا یہ سلوک اس بات کی دلیل ہے کہ آپ (ص)اپنے بچوں کے مزاج سے خوب واقف تھے۔

سلمان فارسی کہتے ہیں :

''میں رسول خدا (ص)کے گھر میں داخل ہوا۔حسن وحسین علیھما السلام آپ (ص)کے پاس کھانا کھا رہے تھے۔آنحضرت (ص)کبھی ایک لقمہ امام حسن علیہ السلام کے منہ میں اور کبھی امام حسین علیہ السلام کے منہ میں ڈالتے تھے۔جب بچے کھاناکھاچکے توآنحضرت(ص)نے امام حسن علیہ السلام کواپنے کندھے پراور امام حسین علیہ السلام کوزانو پر بٹھا لیا۔اس کے بعد میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا:اے سلمان! کیا تم انھیں دوست رکھتے ہو؟میں نے جواب میں عرض کی :اے رسول خدا (ص) کیسے ممکن ہے کہ میں انھیں دوست نہ رکھوں جبکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں کہ آپ (ص) کے نزدیک ان کی کیا قدر ومنزلت ہے؟!(۹۹) ''

بچوں کو سلام کرنا

رسول خدا (ص) کے نیک کردار میں سے ایک بچوں کو سلام کرنا بھی ہے ۔کیونکہ بچے باوجود یکہ کہ عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوتے ہیں اور کھیل کود کو پسند کرتے ہیں اور ذمہ داریوں سے دور بھاگتے ہیں لیکن اچھی طرح سمجھتے ہیں اور محبت کو محسو س کرتے ہیں ۔

رسول خدا (ص)کا یہ سلوک بعض تنگ نظر اور جاہل افراد کے نظریہ کے برعکس ہے،جو بچوں کے احترام کے قائل نہیں ہیں اور اُنہیں حقیر سمجھتے ہیں ۔لیکن مکتب اسلام میں اس کی سخت تاکید کی گئی ہے کہ بچے بھی اسی سلوک اور احترام کے حقدار ہیں جس کے بڑے ہیں ۔بیشک،پیغمبر اسلام (ص)بچوں کا احترام کرتے تھے اور انھیں معاشرے کے ماحول میں داخل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

پیغمبر اسلام (ص)کے بچوں کو سلام کرنے کے سلسلہ میں بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں ،ان میں سے چند ایک کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں :

انس ا بن مالک کہتے ہیں :

''حضرت محمد مصطفےٰ (ص) کہیں تشریف لے جارہے تھے۔راستہ میں چند چھوٹے بچوں سے ملاقات ہوئی،آپ (ص)نے انھیں سلام کیا اور کھانا کھلایا۔(۱۰۰) ''

ایک دوسری حدیث میں کہتے ہیں :

''پیغمبر اسلام (ص) ہمارے یہاں تشریف لائے،ہم بچے تھے،آپ (ص)نے ہم کو سلام کیا(۱۰۱) ۔''

امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''پانچ چیزیں ایسی ہیں ،جنہیں میں مرتے دم تک ترک نہیں کروں گا،ان میں سے ایک بچوں کو سلام کرنا ہے ۔(۱۰۲) ''

ایک اور حدیث میں نقل ہوا ہے:

''پیغمبر اکرم (ص)چھوٹے اور بڑوں کوسلام کرتے تھے۔(۱۰۳) اور سلام کرنے میں دوسروں حتیٰ بچوں پر بھی سبقت حاصل کرتے تھے،(۱۰۴) جس کو بھی دیکھتے ،پہلے آپ (ص) سلام کرتے تھے اور ہاتھ ملاتے تھے۔(۱۰۵)

آپ (ص)نے دوسری حدیث میں فرمایا:

''میں بچوں کو سلام کرنے کے سلسلہ میں حساس ہوں تاکہ یہ طریقہ میرے بعد مسلمانوں میں سنّت کی صورت میں باقی رہے اور وہ اس پر عمل کریں(۱۰۶) ۔''

کیا پیغمبر اسلام (ص)بچوں کی سرزنش کرتے تھے؟

کیا رسول خدا (ص)بچوں کی تربیت کے لئے ان کی سرزنش اور پٹائی کرتے تھے یا نہیں ؟

آنحضرت (ص)کی سیرت کے سلسلہ میں گہری تحقیق کے بعد معلوم ہو تا ہے کہ آپ (ص)بچوں کی تر بیت کے لئے کبھی اُنہیں مارتے نہیں تھے۔اگر چہ ڈانٹنا پھٹکار نا ضروری ہے،کیونکہ بہت کم ایسے بچے پائے جاتے ہیں جن کی تربیت کے دوران ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی تنبیہ نہ کی گئی ہو ۔لیکن ہماری بحث کا موضوع یہ ہے کہ کیا بچے کو مارا پیٹا جاسکتا ہے یا نہیں ؟

اسلامی روایتوں اور دینی پیشوائوں کی سیرت کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی پٹائی نہیں کر ناچاہئے۔دور حاضر میں ،علم سکھانے اورتربیت کر نے کے لئے بھی بچوں کی پٹائی کرنا اور ادب سکھانے کے لئے ان کو جسمانی اذیت یاسزا دینامناسب نہیں سمجھا جاتا ہے اور تقریباً دنیاکے تمام ممالک میں بچوں کی پٹائی کرنااور انھیں جسمانی اذیت پہنچانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

لیکن کچھ جاہل اور بے خبرافراداسلام کے پیشوائوں کی سیرت سے غفلت کی وجہ سے بچوں کی پٹائی سے روکنے والی روایتوں پر توجہ نہیں کرتے ۔حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے ایک شخص سے اپنے بیٹے کے خلاف شکایت کرنے پرواضح طور پر فرمایا:

''اپنے بیٹے کی پٹائی نہ کرنااور اسے ادب سکھا نے کے لئے ناراضگی اور غصہ کا اظہار کرنا،لیکن خیال رکھناکہ غصہ زیادہ دیر کے لئے نہ ہو اور حتی الامکان اس کے ساتھ نر می سے پیش آنا۔(۱۰۷) ''

پیغمبر اسلام (ص)نہ صرف بچوں کوجسمانی اذیت نہیں دیتے تھے،بلکہ اگر کوئی دوسرا بھی ایسا کر تا تھا تو آپ(ص) اس کی سخت مخالفت کرتے تھے اورشدید اعتراض کرتے تھے۔ تاریخ میں اس سلسلہ میں چند نمونے درج ہیں :

ابو مسعود انصاری کہتے ہیں :

''میرا ایک غلام تھا،میں اس کی پٹائی کر رہاتھاکہ میں نے پیچھے سے ایک آواز سنی،کوئی کہہ رہا ہے:ابو سعید!خدا وند متعال نے تجھے اس پر قدرت بخشی ہے(اسے تیرا غلام بنایا ہے)میں نے مڑ کرجب دیکھا تو رسول خدا (ص)تھے۔میں نے رسول خدا (ص) کی خد مت میں عرض کی ،میں نے اسے خدا کی راہ میں آزاد کیا۔پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اگر تم یہ کام نہ کرتے تو تجھے آگ کے شعلے اپنی لپیٹ میں لیتے۔(۱۰۸) ''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

''رسول خدا (ص)کا قبیلہء بنی فہد کے ایک شخص سے سامنا ہوا،جو اپنے غلام کی پٹائی کررہاتھااور وہ غلام فریاد کرتے ہوئے خدا کی پناہ اور مدد چاہتاتھا۔لیکن وہ شخص اس کی فریاد پر کوئی توجہ نہیں کررہا تھا۔جیسے ہی اس غلام کی نظر رسول خدا (ص)پر پڑی تو کہا :ان سے مدد مانگ لونگا،مالک نے پٹائی کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔

رسول خدا (ص)نے اس کے آقاسے کہا :

''خدا سے ڈرواور اسے نہ مارو اور اسے خدا کے لئے بخش دو،لیکن اس شخص نے اسے نہیں بخشا۔پیغمبر (ص)نے فرمایا:اسے محمد (ص)کے لئے بخش دوجبکہ خدا وند متعال کے لئے بخشنا محمد (ص) کے لئے بخشنے سے بہتر ہے ۔''

اس شخص نے کہا:

میں نے اس غلام کوخداکی راہ میں آزاد کیا۔پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اس خدا کی قسم جس نے مجھے رسالت پرمبعوث کیا ،اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تجھے اپنے لپیٹ میں لے لیتی۔(۱۰۹) ''

تاریخ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص)خلاف ورزی کرنے والے بچوں کو بھی جسمانی اذیت کے ذریعہ سزا نہیں دیتے تھے اور ان کے ساتھ بھی محبت اور حسن اخلاق سے پیش آتے تھے۔

تاریخ میں ہے کہ جب جنگ احد کے لئے لشکر اسلام آمادہ ہواتوان کے درمیان چند بچے بھی دکھائی دیئے جو شوق وولولہ کے ساتھ رضاکارانہ طور پرمیدان جنگ میں جانے کے لئے آمادہ تھے۔رسول خدا (ص) کو ان پر رحم آیا اور انھیں لوٹا دیا ۔ان کے درمیان رافع ابن خدیج نام کا ایک بچہ بھی تھا ۔آنحضرت (ص)کی خدمت میں عرض کیاگیا کہ وہ ایک زبردست تیر انداز ہے ،اس لئے پیغمبر اکرم (ص)نے اسے لشکراسلام کے ساتھ جانے کی اجازت دیدی ۔

ایک اور بچے نے روتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ رافع سے بھی زیادہ قوی ہے اس لئے پیغمبر اکرم (ص)نے ان سے کہا:آپس میں کُشتی لڑو ،کُشتی میں رافع نے شکست کھائی اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص)نے انھیں میدان جنگ میں جانے کی اجازت دیدی۔(۱۱۰)

لہذا،جسمانی سزا کو تربیت کے لئے موثر عامل قرار دینے کے طور پر اختیار نہیں کرنا چاہئے۔چنانچہ اگر یہ طریقہ لمبی مدت تک جاری رکھا جائے تو بچے کی حیثیت پر کاری ضرب لگنے کا سبب بنتا ہے اور سر زنش کا اثر بھی باقی نہیں رہتا اور بچہ اسے ایک معمولی چیز خیال کر تا ہے، اس سے پرہیز نہیں کرتا اور شرم وحیا کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''عقلمند انسان ادب و تربیت سے نصیحت قبول کرتا ہے۔صرف مویشی اور حیوانات ہیں جو تازیانوں سے تر بیت پاتے ہیں ۔(۱۱۱) ''

اس لئے جسمانی سر زنش سے پر ہیز کرنا اس قدر اہم ہے ،کہ حکم ہوا ہے کہ نا بالغ اگر جرم کے مرتکب بھی ہو جائیں ان پر حد جاری کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ان کی اصلا ح کے لئے سزا دی جائے۔(۱۱۲)

اس لئے ہم پیغمبر اسلام (ص)اور دین کے دوسرے پیشوا ئوں کی تاریخ میں کہیں یہ نہیں پاتے ہیں کہ انھیں اپنے بچوں کی تر بیت کے مقدس کام میں پٹائی کرنے کی ضرورت پڑی ہو ۔وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک مہر بان اور ہمدرد دوست،ایک محبوب پیشوا،اورایک غمگساررہنما کی حیثیت سے برتائو کرتے تھے۔اور ان کے بچپن کے دوران ان کے ساتھ کھیلتے تھے اور بڑے ہو کر ان کے دوست اور ہمدم رہتے تھے۔ان کا یہ طریقہ ان کے پیرو ئوں کے لئے مختلف زمانوں اور جگہوں پر راہنما ہو سکتا ہے کیونکہ اسلام ودین کے دستو رات کسی خاص زمان ومکان یا فرقہ وگروہ سے مخصوص نہیں ہوتے ،بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ اور پوری بشریت کے لئے ہوتے ہیں ۔

دوسراحصہ:

پیغمبر اسلام (ص) کا جوانوں کے ساتھ سلوک

جوانی خدا وند متعال کی ایک گرانقدر نعمت اورانسانی زندگی کی سعادت کا بڑاسر مایہ ہے۔

پہلی فصل:

جوانی کی طاقت

میں تمہیں وصیت کرتاہوں کہ نوجوانوں اور جوانوں کے ساتھ نیکی کرو۔

( پیغمبر اکرم(ص))

پہلے حصہ میں مختصر طور پر آپ ،پیغمبر اسلام (ص) کے بچوں کے ساتھ حسن سلوک سے آگاہ ہوئے۔اب ہم دوسرے حصہ میں پیغمبر اسلام (ص) کے جوانوں کے ساتھ حسن سلوک کو پیش کرتے ہیں ،تاکہ معاشرے اور مسلمانوں کی رہنمائی ہو سکے ،کیونکہ ایک ملک کا سب سے بڑا سر مایہ اس ملک کے انسان ہوتے ہیں اور ہرملک کی سب سے اہم انسانی طاقت اس ملک کے جوان ہی ہو تے ہیں ۔کیونکہ یہ جوانی کی طاقت ہی ہے جو زندگی کی مشکلات پر قابو پاسکتی ہے اور دشوار وناہموار راستوں کو طے کرسکتی ہے ۔اگر کھیتیاں سر سبز اورلہلہاتی ہیں اور بڑی صنعتوں کی مشینیں چل رہی ہیں ،اگر زمین کے اندر موجود کانیں زمین کی گہرائیوں سے نکال کر باہر لائی جاتی ہیں ،اگر فلک بوس عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں ،اگر شہر آباد کئے جاتے ہیں اور ملک کی اقتصادی بینادوں کو مستحکم اور بارونق بنا یا جاتا ہے،اگر ملک کی سرحدوں کودشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھاجاتا ہے اور ملک میں امن و امان بر قرارکیا جاتا ہے،تو یہ سب جوان نسل کی گرانقدر کو ششوں کا نتیجہ ہے،کیونکہ جوانوں کی یہ انتھک طاقت تمام ملتوں اورقوموں کی امید کا سبب ہوتی ہے۔

اسی لئے جوانی کے دن پہنچتے ہی بچپن کا دور ختم ہو جاتا ہے اور انسان شخصی ذمہ داریوں کی دنیامیں قدم رکھتا ہے اور اجتماعی و عمومی فرائض انجام دینے کابیڑا اٹھا لیتاہے اس لئے آج کی دنیا میں جوا نوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے نو جوان،سیاسی ، اجتماعی ،اقتصادی،صنعتی واخلاقی جیسے تمام مسائل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔

دین مقدس اسلام نے بھی چودہ سو سال قبل اپنے جامع،روح افزا اور سعادت بخش منصوبوں کے پیش نظر جوان نسل پر ایک ایسی خاص توجہ کی ہے کہ آج تک کوئی معا شرہ،کوئی تہذیب،کوئی دین اور کوئی مکتب اس کی مثال پیش نہیں کرسکا ۔اسلام نے جوانوں کو مادی، معنوی، نفسیاتی،تر بیتی، اخلاقی،اجتماعی،دنیوی و اخروی،غرض کہ ہر لحاظ سے زیر نظر رکھا ہے،جبکہ دوسرے مذاہب اور تہذبیوں میں جوانوں کے صرف بعض مسا ئل پر توجہ دی جا تی ہے۔

جوانی کی قدر وقیمت

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ آج کی دنیا میں جوانوں کا موضوع اور ان کی قدر وقیمت تمام ملتوں اور اقوام کی زبان پر ہے اور ہر جگہ نسل جوان کا چرچا ہے ۔اس لئے محقیقن،مفکرین اور مصنفین نے ان کے بارے میں گونا گون علمی بحثیں کی ہیں ۔

ان میں سے بعض افراد نے تند روی سے کام لے کرجوا نوں کو اپنے شائستہ مقام ومنزلت سے بلند تر کر دیا ہے اور کچھ لو گوں نے تفریط سے دو چار ہوکرنا پختگی اور علمی وعملی نا تجربہ کاری کے سبب جوانوں کو ان کے اصلی مقام سے گرا دیا ہے ۔ایک تیسرا گروہ بھی ہے جس نے اس سلسلہ میں درمیانی راستہ اختیار کیا ہے۔

دین کے پیشوائوں نے جوانی کو خدا وند متعال کی ایک گرانقدر نعمت اور انسانی زندگی کی سعا دت کا عظیم سر مایہ جا نا ہے اور اس مو ضوع کے بارے میں مختلف عبارتوں میں مسلمانوں کویاد دہانی کرائی ہے۔

رسول خدا (ص) نے فر ما یا:

ٍٍٍٍ''میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ نوجوانوں اور جوانوں کے ساتھ نیکی کرو،کیونکہ ان کا دل نرم اور فضیلت کوقبول کرنے والا ہو تا ہے۔خدا وند متعال نے مجھے رسالت پر مبعوث کیا کہ لوگوں کو رحمت الہٰی کی بشارت دوں اور انھیں خدا کے عذاب سے ڈرا ؤں۔جوا نوں نے میری بات کو قبول کر کے میری بیعت کی لیکن بوڑھوں نے میری دعوت کو قبول نہ کرتے ہوئے میری مخالف کی ۔(۱۱۳) ''

علی علیہ السلام نے فر مایا:

''دو چیزیں ایسی ہیں جن کی قدر وقیمت کوئی نہیں جانتا،مگر وہ شخص جس نے ان کو کھودیا :ان میں سے ایک جوانی ہے اور دوسری تند رستی۔(۱۱۴) ''

جب محمد ابن عبداللہ ابن حسن نے قیام کیا اورلوگوں سے اپنے لئے بیعت لے لی توامام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آکر ان سے بیعت لینے کی درخواست کی لیکن امام نے قبول نہ کرتے ہوئے انھیں چند نصیحتیں کیں،ان میں سے ایک جوانوں کے بارے میں نصیحت بھی تھی ۔امام علیہ السلام نے یہ فرمایا:

''تمھیں جوانوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہئے اور بوڑھوں سے دوری اختیار کرنی چاہئے۔(۱۱۵) ''

امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ نصیحت بذات خود جوانوں کی قدر وقیمت اور اہمیت واضح کرتی ہے اور خدا وند متعال کی اس بڑی نعمت کی طرف متوجہ کرتی ہے۔اسی لئے رسول خدا (ص) ابو ذر سے فرماتے ہیں :

''پانچ چیزوں کو کھو دینے سے پہلے ان کی قدر کرو،اوران میں سے ایک جوانی بھی ہے کہ بڑھا پے سے پہلے اس کی قدر کرو(۱۱۶) ''

جوانوں کو اہمیت دینا

اسلام کے سچے پیشوائوں نے قدیم زمانے سے، اپنے گرانقدر بیا نات سے جوا نو ں کی پاک روح اور ان کی اخلاقی وانسانی اصولوں کی پابندی کی نصیحت اور تاکید کی ہے اور جوان نسل کو تر بیت کرنے کے سلسلہ میں مربیوں کے اس گرانقدر سرمایہ سے استفادہ کرنے کی تا کیدکی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی ''ابی جعفر احول'' نے ایک مدت تک شیعہ مذہب کی تبلیغ اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی فکر کی تعلیم وتربیت کی۔ایک دن وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوے۔امام علیہ السلام نے ان سے پوچھا:تم نے اہل بیت علیہم السلام کی روش کو قبول کرنے اور شیعہ عقائد کو قبول کرنے کے سلسلہ میں بصرہ کے لوگوں کو کیسا پا یا؟

اس نے عرض کی :ان میں سے بہت کم لوگوں نے اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو قبول کیا ۔امام نے فر مایا :تم جوان نسل میں تبلیغ کر نا اور اپنی صلاحیتوں کو ان کی ہدایت میں صرف کرنا،کیونکہ جوان جلدی حق کو قبول کرتے ہیں اورہر خیر ونیکی کی طرف فوراًما ئل ہو تے ہیں ۔(۱۱۷)

اسماعیل بن فضل ہاشمی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے(حضرت یوسف کو کنویں میں ڈالنے کے بعد یوسف کے بھائیوں نے اپنے باپ کے پاس آکر عفو وبخشش کی درخواست کی) اپنے بیٹوں کی عفو وبخشش کی درخواست کو منظور کرنے میں کیوں تاخیر کی ،جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو فورا بخش دیا اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی ؟

امام جعفرصادق علیہ السلام نے جواب میں فرمایا!''اس لئے کہ جوان کا دل بوڑھے کی نسبت حق کو جلدی قبول کرتاہے۔(۱۱۸) ''

مذکورہ دو روایتوں سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جوان نسل فضیلتوں کو پسند کرتی ہے اور خوبیوں کو جلدی قبول کرتی ہے اور فطری طور پر بہادری ،شجاعت،سچائی،اچھائی وعدہ وفائی، امانت داری ،خود اعتمادی،لوگوں کی خدمت خلق،جان نثاری اور اس طرح کی دوسری صفتوں کی طرف رجحان اور دلچسپی رکھتی ہے اور پست اور برُے اخلاق سے متنفر ہوتی ہے۔

چندنکات

دین کے پیشوائوں کی نظر میں ،جوانی ایک گراںبہااور گرانقدر شی ہے۔جو لوگ اپنے لئے سعادت اور خوشبختی کے خواہشمند ہیں اور اس گرانقدرطاقت سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ،انھیں درج ذیل چند نکات کی طرف خاص توجہ رکھنی چاہئے!

۱۔جوانی کا دور،انسانی زندگی کا ایک بہترین ،گرانقدر اور مفید دور ہے۔

۲۔جوانی کی طاقت سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں سعی وکوشش کرنا، کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔

۳۔ہر انسان کی خوشبختی اور بد بختی کی داغ بیل اس کی جوانی کے دوران پڑتی ہے،کیونکہ جو انسان ان فرصتوں سے ضروری استفادہ کرے،وہ کامیاب ہو سکتاہے اور صلاحیتوں سے استفادہ کرکے اپنی پوری زندگی کے لئے خوشبختی حاصل کر سکتا ہے۔(۱۱۹)

قیامت کے دن جوانی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

رسول خدا (ص)نے فر مایا:

''قیامت کے دن کوئی بندہ مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دئے بغیرایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا:

۱۔اس نے اپنی عمر کس کام میں صرف کی ؟

۲۔اس نے اپنی جوانی کس طرح اورکہاں گزاری ؟

پیغمبر اسلام (ص)کے اس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے جوانی کی طاقتوں کو کس قدر اہمیت دی اور توجہ دی ہے،کیونکہ اس گرانقدر سرمایہ کو ضائع کرنے کے سلسلہ میں قیامت کے دن خاص طور پر سوال کیا جائے گا۔

جی ہاں،اخلاقی اقدار اور انسانی صفات کے مالک جوانوں کی قدر ومنزلت، پھولوں کی ایک شاخ کی مانند ہے جو عطر وخوشبو سے لبریز ہے،تازگی کے علاوہ ،اس کی فطری خوبصورتی اور حسن و جمال بھی معطر ہے۔لیکن اگر جوانی الہٰی اقدارکی مالک نہ ہو،تو اس کی مثال کانٹوں کی سی ہے جن سے ہرگزکوئی محبت نہیں کرتا۔

رسول خدا (ص)نے فرمایا:

''با ایمان شخص کے لئے ضروری ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے لئے استفادہ کرے اور دنیا سے اپنی آخرت کے لئے، جوانی سے بڑھاپے سے پہلے اور زندگی سے موت سے پہلے استفادہ کرے۔(۱۲۰)

آنحضرت (ص)نے مزید فرمایا:

''فرشتہ الہٰی،ہر شب بیس سالہ جوانوں سے مخاطب ہوکر فریاد کر تا ہے کہ سعی وکوشش کرواور کمال وسعادت تک پہنچنے کے لئے کو شش کرو۔(۱۲۱) ''

اس لئے،جوانی کا دور،انفرادی مسئولیت ،بیداری،ہوش میں آنے اور عمل وکوشش کا دور ہے اور جو لوگ اس الہٰی طاقت سے استفادہ نہیں کریں گے،انھیں سر زنش کی جائے گی۔

خدا وند متعال فرماتا ہے :

( ولم نعمّرکم مایتذکّر فیه من تذکّر ) (فاطر۳۷)

''تو کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس میں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے؟''

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

''یہ آیت ان غافل جوانوں کی سرزنش و ملامت کے لئے ہے جو اٹھارہ سال کے ہو گئے ہیں اور اپنی جوانی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔(۱۲۲)