بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک0%

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد علی چنارانی
زمرہ جات: مشاہدے: 11684
ڈاؤنلوڈ: 2721

تبصرے:

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11684 / ڈاؤنلوڈ: 2721
سائز سائز سائز
بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسری فصل:

نوجوانوں میں مذہب کی طرف رجحان کا زمانہ

''اگر نوجوان عقیدہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرے،تو قرآن مجید اس کے گوشت وخون میں مل جائے گااور اس کے بدن کے تمام اعضاء پر اثراندازہو گا۔''

امام جعفر صادق علیہ السلام

مذہب اور دین سے لگاؤانسان کے فطری رجحانات میں سے ایک ہے،جو بالغ ہونے کے ساتھ جوانوں میں دوسرے فطری میلا نات کے مانند پیدا ہوتا ہے اور نتیجہ میں انھیں اس سلسلہ میں سعی وکوشش کرنے پر ابھارتا ہے۔

فطری طور پر جوان مذہبی مسائل کو سمجھنے اور انھیں درک کرنے کی کافی دلچسپی رکھتے ہیں ۔اسی لئے وہ دین سے مربوط بیانات کو انتہائی دلچسپی اور رغبت سے سنتے ہیں ،یہ بہت سی عظیم شخصیتوں اور تربیت کے ماہرین کا نظریہ ہے۔جان بی کایزل کہتا ہے:

''اب تک کئے جا نے والے تجربات کے مطابق ،کلی طور پر مذہبی عقیدہ بارہ سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔(۱۲۳) ''

اکثرماہر دانشور اس بات کے قائل ہیں کہ تقریباً بارہ سال کی عمر میں ،یعنی فطری طور پر نوجوانی کے آغاز میں ،انسان کے اندر ایک اور رجحان پیداہوتا ہے اور یہ وہی مذہب سے اس کا عشق ومحبت ہے ۔یہ میلان انسان کے دوسرے فطری میلانات اور دلچسپیوں کے ساتھ ترقی کرتا ہے اورمسلسل بڑھتا جا رہا ہے یہاں تک کہ سولہ سال کی عمر میں اپنے کمال تک ۱پہنچتا ہے ،اس کے نتیجہ میں نوجوان دوسروں کی برائیوں اور بد اخلاقیوں سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی گندی باتوں اور انحرا فات پر افسوس کرتے ہیں اور پوری دنیا میں اخلاقی فضائل کے پھیلنے کی مسلسل آرزو کرتے ہیں اور سعی وکوشش کرتے ہیں ،کہ دنیا کے تمام لوگ صحیح اور حقیقی اقدار کی راہ میں قدم بڑھا ئیں۔

نوجوانوں میں دینی تعلیمات کے اثرات

دینی تعلیم اور ایمانی واخلاقی صفات کی تربیت نوجوانوں میں دو بڑے اثرات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں :

۱۔جوانوں کے دینی اور مذہبی جذبات،جو ان کے فطری خواہشات میں سے ایک ہے،وہ اسی کے ذریعہ پو رے ہوتے ہیں ۔

۲۔مذہب و عقیدہ کی طاقت ،نوجوانوں کے دوسرے فطری اور جبلّتی رجحانات قابو رکھتی ہے اور ان کو انتہا پسندی اور سر کشی سے روکتی ہے ۔جس کے نتیجہ میں وہ ناکامی ،پستی اور بد بختی سے محفوظ رہے ہیں ۔

قابل ذکربات یہ ہے کہ اسلام نے نسل جوان کی تربیت کے ایک بنیادی اصول،یعنی تربیتی ،ایمانی اور منصوبوں کو جوانوں کی فطری خواہشات اورتقاضوں کے مطابق پیش کیا ہے ۔

اس لئے،جب نوجوانوں کے وجودمیں مذہبی رجحانات پیداہوتے ہیں تو ان میں احکام اور دینی مسائل سیکھنے کا شوق پیدا ہو تا ہے ۔یہاں پر مذہبی قائدین فرصت سے پورا پورافائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے سامنے دین کا تعمیری منصوبہ پیش کرتے ہیں اور نوجوانوں کو قرآن مجید،مذہبی احکام ،بندگی کے طریقے، برائیوں سے روکنے اور نیک کام انجام دینے کی تعلیم وتر بیت دے کر انھیں ذمہ دار بناتے ہیں ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

'' اگر قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ایک با ایمان جوان ہو، تو قرآ ن مجید اس کے گوشت و خون میں مل کر اس کے بدن کے تمام اعضاء پر اثر ڈالتا ہے(۱۲۴) ''

اما م علیہ السلام نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

''لڑکا سات سال تک کھیلتا ہے ،سات سال تک لکھنا سیکھتا ہے اور سات سال میں دین و مذہب سے مر بوط حلال و حرام سیکھتا ہے ۔(۱۲۵)

امام باقر علیہ السلام نے فر مایا:

'' اگر ہم کسی ایسے شیعہ جوان کو دیکھیں گے جو مذہبی مسائل اور احکام کو نہیں سیکھتا ہے اور اس فریضہ کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو ہم اسے سزادیں گے(۱۲۶) ''

اس لئے جو نوجوان گرانقدراخلاقی و انسانی صفات کی تربیت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور نمایاں معنوی شخصیت کے مالک بننا چاہتے ہیں ، عام اور بحرانی حالات میں اپنے نفسانی خواہشات پر مسلط ہونا چاہتے ہیں اور اپنی عمر پاکدامنی اور سچائی میں گزار نا چاہتے ہیں ، انھیں جوانی کی ابتداء سے ہی دین و مذہب اور دینی عقائد کو دل و جان سے سیکھنا چاہئے تاکہ عملی منصوبوں کو منظم کرکے دین کے احکام کی پیروی سے اپنے روحی عہد و پیمان کو خدا وند متعال سے مضبوط کریں اور ہر حال میں خدا کی یاد میں رہیں ۔

نوجوانوں کے مذہبی جذبات کو اہمیت نہ دینے کا نتیجہ

نوجوانوں کے جذبات کو اہمیت نہ دینا اور بے اعتنایی برتناقوانین فطرت اور خلقت کی سنت کے خلاف ہے۔ خلقت کے قوانین اور دستورات کی نا فرمانی کرنے والے سزا سے نہیں بچ سکتے ۔ کیونکہ یہ نافرمانیاں اور سرکشیاں تمام دنیا میں نوجوانوں کے لئے روزافزوں خود خواہی اور بے راہ روی کا سبب بنتی ہیں ۔اس لئے حاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق مغربی ممالک اور مذہب و عقائد سے عاری ممالک میں نوجوانوں میں جرائم ہر روز بڑھتے جارہے ہیں ۔یہ جرائم ،چوری ،قانون شکنی ،علم ودانش کی طرف بے اعتنائی ،منشیات کی لت ،بے حیائی اور مختلف قسم کی برائیاں ،ایمان سے عاری تربیت اور خلقت کے قانون کی نافرمانی کا نتیجہ ہیں ، کیونکہ گناہ اورگندی باتیں بے دینی کا نتیجہ ہیں ، جس نے جوانوں اور ان کے سر پرستوں کی زندگی کو مکدّر اورناگوار بنا دیا ہے اور معاشرے کو شدید طور پر معطل کرکے رکھدیاہے۔

اس لئے ،آج کی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کا موضوع معاشرہ کی بڑی مشکلات کی فہرست میں قرار پایا ہے اور دانشوروں کی فکروں کو مشغول کر رکھاہے ۔اس سلسلہ کے چندراہ حل کے نمونے ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں :

جرائم کو روکنے اور مجرموں کو کنٹرول کرنے کے سلسلہ میں اقوام متحدہ کی تیسری کانفرنس''استکہلم''میں منعقد ہوئی۔اس میں ایک ہزار ججوں ،ماہرین سماجیات اور پلیس کے اہل کاروں نے شرکت کی ۔ایک ہفتہ کے بعد یہ کانفرنس اختتام کو پہنچی۔اس کانفرنس میں دنیا کے تمام ممالک سے درخواست کی گئی ہے کہ جوانوں کے جرائم کے خلاف قدم اٹھائیں اور ان جرائم کو روکنے کے لئے ضروری اقدا مات کریں کیونکہ دنیا جوانوں کے ان جرائم سے تنگ آچکی ہے۔

کنیڈا کے جرائم کو روکنے کی نیشنل کونسل بچوں کے جرائم کا سد باب کرنے والی کمیٹی نے ۱۹۹۱ء کی اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ لکھا ہے:

''۱۹۹۱ء میں کنیڈا میں بارہ لاکھ بچے غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کر رہے تھے کہ ان میں سے پانچ لاکھ بچوں کی عمر سات سال سے کم تھی اور زیادہ جرائم ان ہی بچوں میں پائے جاتے تھے ۔ان بچوں کے جرائم کا سبب والدین کی ان سے لاپروائی اور ٹیلی ویزن اور فلیموں کے تشدّد آمیز پرو گرام تھے۔''

نا چاقی پائی جا نے والے گھرانوں میں پرورش پانے والے بچوں میں خود کشی کا احتمال دوسرے گھرانوں کی نسبت سات گناہ زیادہ ہو تاہے۔یہ بچے اپنی عمر کے بچوں سے چوبیس گناہ زیادہ جنسی خواہشات میں مبتلا ہوتے ہیں اور مشاہدہ کیا گیا ہے کہ امریکہ میں ۷۶ فیصدی جرائم پیشہ بچے ایسے ہی خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں ۔

گیارہ سے بیس سال کی عمر کے بچوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے باپ میں سے ۶۳ فیصدوہ قاتل تھے کہ جنہوں نے اپنے باپ کو ماں کی پٹائی کرتے ہوئے دیکھا تھا!!

کنیڈا کی خواتین کی منزلت سے مربوط قومی مشاورتی کونسل نے ۱۹۹۳ء کی اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ لکھا ہے :

کنیڈا میں ہر ۱۷ منٹ میں ایک عورت زنابالجبر کا شکار ہوتی ہے اور ۲۵ فیصدی کنیڈائی عورتیں اپنی زندگی میں زنائے بالجبرکی شکار ہوتی ہیں اورکنیڈا کے معاشرہ میں عورتوں کی عصمت دری کرنے والے ۵۰ فیصدی مرد شادی شدہ ہو تے ہیں اور محترم شمار ہوتے ہیں ۔عصمت دری کے۴۹ فیصدی یہ واقعات دن دہاڑے ہو تے ہیں ، عصمت دری کا شکار ہونے والی۸۰ فیصد عورتوں کی عمر ۱۴ سال سے ۲۴ سال تک ہے۔

۱۹۹۳ء میں کنیڈا کی یونیور سٹیوں اور کالجوں میں ۸ئ۲۶ فیصدی لڑ کیوں کے ساتھ طالب علموں نے زنا بالجبر کیا ہے ،اور ان میں سے ۶ئ۱۳ فیصدی لڑ کیوں کے ساتھ نشہ کی حالت میں زنا بالجبر انجام پایا ہے ۔

ہر تین عورتوں میں سے ایک عورت کی اورہر چھ لڑ کوں میں سے ایک لڑ کے کی ۱۸ سال کی عمر تک عصمت دری کی جاتی ہے اور اس جرم کے مرتکب۹۸ فیصدی جوان ہیں !!

دس سال سے کم عمر لڑکیوں اور لڑ کوں میں سے ۸۰ فیصد بچے اپنے باپ کے توسط سے عصمت دری کے شکار ہوتے ہیں اور اسی صورت میں باپ اور بیٹی کے درمیان جنسی روابط روز بروز بڑھتے جارہے ہیں ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ زندانوں میں موجود ۸۰ فیصدی مجرم ،نوجوان ہیں کہ انہوں نے اپنے اعترافات میں کہا ہے کہ ''بچپن میں اپنے باپ یا دوسرے مردوں کے ذریعہ جنسی ہوس رانی کا شکار ہوئے ہیں ۔''(روزنامہ اطلاعات شمار:۱۱۷۶۵)

جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ ان ہزار ہا جرائم میں سے ایک نمونہ تھا جواس سلسلہ میں روز ناموں ،کتا بوں اور رسالوں میں لکھے جاتے ہیں ۔اس کی وجہ سے انسان بے شماربیماریوں میں مبتلا ہورہاہے اور آج یہ انسانی معاشرے کی ایک بنیادی مشکل ہے ۔ یہاں پر یہ کہنا چاہئے ،کہ تمام روحانی بیماریوں کا علاج صرف دین و مذہب اور دستورات اسلام ہے ،لیکن اکثر لوگ اس علاج سے محروم ہیں ۔

پیغمبر اسلام (ص)اور نوجوان نسل

نوجوان،اپنے ضمیر اور اخلاق کے الہام سے اپنی فطرت وطینت کی بنیاد پر، حقیقت،تقدس،پاکیزگی اور سچائی کا عاشق و دلدادہ ہے۔اس لحاظ سے ایمان داری اور نیکی کی نسبت مخصوص حساسیت رکھتا ہے ،اس سے لذت محسوس کرتا ہے اور خوش ہو تا ہے اور ہمیشہ پاکیزگی اور الہٰی اقدار کی فکر میں رہتا ہے اور سعی وکوشش کرتا ہے کہ اس کا قول و فعل اچھائی اور حقیقی قدروں پر استوار ہو ۔

نوجوان ،نہ صرف دوسروں کی برائی پر اظہار افسوس کرتا ہے اور لوگوں کے برے اور نا پاک برتائو سے رنجیدہ ہو تا ہے ،بلکہ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتا ہے کہ ایک ایسی توا نائی اور اقتدار کو حاصل کرے،جس سے پلیدیوں کو دور اور آلود گیوں کاازالہ کر سکے۔

جب رسول خدا (ص) نے شہر مکہ میں اپنی دعوت کا کھلم کھلا اعلان کیا اور آپ(ص) کو حکم ملا کہ لوگوں کو آشکارا طور پر اسلام قبول کرنے کی دعوت دیںتوسب سے پہلے آپ (ص)کے گر ویدہ ہونے والے نوجوان تھے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ نوجوانوں کا یہ گروہ مکہ کے معروف قبیلہ قریش کے اعلیٰ طبقہ اور دولت مند خاندانوں کے لڑکے لڑ کیاں تھیں۔

بیشک،با نشاط جوانوں نے ،جو پسماندہ عرب قوم کی افسوس ناک حالت سے تنگ آچکے تھے اور پتھروں اور لکڑیوں کے بتوں کی پرستش اور زمانہ جاہلیت کے فرسودہ توہمات پر مبنی رسم ورواج سے احساس کمتری کے شکار تھے،جب پیغمبر اسلام (ص) کی روح افزا،ولولہ انگیز اور انسا نوں کو نجات دینے والی فریاد سنی ،تو دل وجان سے آپ (ص)کی دعوت کو قبول کیا۔

پیغمبر اسلام (ص)کے گرانقدر بیانات تمام طبقات کے لئے موثر تھے،لیکن جوانوں کا طبقہ دوسرے طبقات کی نسبت زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتا تھا،کیونکہ آنحضرت (ص) کے بیانات ان کے اندرونی افکار کے جواب اور ان کی روحانی غذا شمار ہوتے تھے۔

جب آنحضرت(ص) کے خصوصی نمائندہ مصعب بن عمیر،قرآن مجیدکی تعلیم دینے اوراسلامی ودینی معارف کی نشر واشاعت کے لئے مدینہ آئے توجوانوں نے بڑوں کی نسبت ان کی دعوت کو زیادہ قبول کیا اور دینی احکام کو سیکھنے کے لئے زیادہ دلچسپی کا اظہار کیا۔ مصعب مدینہ میں اسعد بن زراہ کے گھر میں سکونت پذیر تھے اور دن میں قبائل خزرج کے اجتماع میں جاتے تھے اور انھیں دین اسلام کی دعوت دیتے تھے اوراکثر جوان ان کی دعوت کو قبول کرتے تھے۔(۱۲۷)

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ،پیغمبر اسلام (ص)کے گرانقدر بیانات نے جوانوں میں جاہلانہ افکار کے ساتھ جوانوں کا مقابلہ ایک بڑی تبدیلی پیدا کی کہ جوان ہر وقت اور ہر جگہ اپنے مذہبی عقائد وافکار کا دفاع کرتے تھے اور جاہلانہ افکار کا مقابلہ کرتے تھے۔

سعد ابن مالک ،صدر اسلام کے ایک جوشیلے نوجوان تھے ۔جو سترہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے تھے ۔وہ ہجرت سے پہلے مشکل حالات میں ،دوسرے نوجوانوں کے ساتھ ہر جگہ دین مقدس اسلام سے اپنی وفاداری اور جاہلانہ افکار کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ان کا یہ کام اس امر کا سبب بنا کہ مشرکین نے انھیں اذیت وآزار دینا شروع کیا ۔دوسرے جوان کفار کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے دن کو پہاڑوں کے درّوں کے درمیان نماز پڑھتے تھے تاکہ قریش کے کفاّرانھیں نہ دیکھ سکیں۔

ایک دن مشرکین کے ایک گروہ نے ،چند جوا نوں کو نماز کی حالت میں مشاہدہ کیا۔انہوں نے جوانوں کی سر زنش کرنا شروع کی اور ان کے عقائدکی توہیں کی۔

سعدابن مالک نے مشرکین کی باتوں سے مشتعل ہو کر اونٹ کی ایک ہڈی سے مشرکین میں سے ایک کا سر پھوڑدیا اور اس شخص کے سرسے خون جاری ہوا۔ یہ پہلا خون تھا جو اسلام کے دفاع میں زمین پر گرا۔

سعد کہتا ہیں کہ: مجھے اپنی والدہ سے انتہائی محبت تھی اور میں ان کے تئیں مہربان تھا۔ جب میں نے اسلام قبول کیا ، میری ماں اس امر سے آگاہ ہوئی۔ انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا : بیٹا! یہ کو ن سادین ہے جسے تونے قبول کیا ہے؟ اسے چھوڑ کر تجھے بت پرستی کو جاری رکھنا پڑے گا، ورنہ میں بھوک ہڑتال کروں گی یہاں تک کہ مرجاؤں۔ اور مجھے سر زنش کر نے لگیں۔

سعد اپنی ماں سے انتہائی محبت کرتا تھا اس لئے اس نے نہایت ادب و احترام سے کہا: میں اپنے دین سے دست بردار نہیں ہو سکتا ہوں اور آپ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ کھاناپینانہ چھوڑئیے! لیکن اس کی ماں نے اس کی بات پر توجہ نہ کی بلکہ ایک دن رات کھا نا نہیں کھایا ۔ اس کی ماں خیال کرتی تھی کہ اس کا بیٹا دین سے دست بردار ہوجائے گا۔لیکن سعد نے اپنی ماں سے انتہائی محبت رکھنے کے با وجود اس سے کہا: خدا کی قسم!اگر تیرے بدن میں ایک ہزار جانیں بھی ہو تیں اور و ہ سب ایک ایک کرکے تیرے بدن سے نکل جاتیں، پھر بھی میں اپنے دین سے دست بردار نہ ہو تا ! جب اس کی ماں نے دیکھا کہ اس کا بیٹا اپنے دین کو دل و جان سے قبول کر چکاہے، تو اس نے بھوک ہڑتال ختم کر کے کھانا کھا لیا(۱۲۸) ۔

بیشک ، سعد نے جاہلیت کے افکار سے مقابلہ کیا اور دوسرے جوانوں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور بتوں کو توڑدیا ، بت خاتوں کو کھنڈرات میں تبدیل کیا اور ظلم و ستم کو جڑسے اکھا ڑ پھینکااور ایمان، علم ، تقوی اور اخلاقی قدروں کے اصولوں پر ایک نئے معاشرہ کی بنیاد ڈالی اور پسماندہ ترین ملتوں کو کمال اورمعنوی اقدار کے بلندترین درجات تک پہنچایا۔