بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک0%

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد علی چنارانی
زمرہ جات: مشاہدے: 11737
ڈاؤنلوڈ: 2770

تبصرے:

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11737 / ڈاؤنلوڈ: 2770
سائز سائز سائز
بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تیسری فصل:

مملکت کے امور میں جوانوں سے استفادہ

'' عقلمندجوان اپنی ناپائدار جوانی سے استفادہ کرتا ہے اور اپنے اعمال کو نیکی میں تبدیل کرتا ہے اور علم ودانش حاصل کرنے میں سعی و کوشش کرتا ہے۔''

( حضرت علی علیہ السلام)

ترقی یافتہ ممالک میں ، نسل جوان کے احترام و شائستگی اور ان کی عظیم توانائیوں سے استفادہ کرنے کے موضوع پر مکمل طور پر توجہ کی جاتی ہے اور مختلف امور سے متعلق اہم اور حساس ملکی عہدے انھیں سونپے جاتے ہیں اور لائق جوانوں سے قوم و ملت کے فائدہ کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔

پیغمبر اسلام (ص) نے بھی آج سے چودہ سو سال پہلے اس اجتماعی مسئلہ کی طرف خاص توجہ کی تھی اور اپنے چھوٹے اورنئے ملک میں حساس اور اہم ملکی امور میں جوانوں سے استفادہ کرتے تھے۔ مختلف مواقع پر ملک کے اہم عہدے شائستہ اور قابل جوانوں کو سو پنتے تھے اور اپنے قول و فعل کے ذریعہ کھلم کھلا ان کی حمایت فرماتے تھے۔

جہل و نادانی اور تعصب سے بھرے ایک ماحول میں یہ کام آسانی کے ساتھ قابل قبول نہیں تھا۔ کیونکہ سن رسیدہ لوگ، جوانوں کی بات ماننے اور ان کی پیروی کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔ جب پیغمبر اسلام (ص)کسی جوان کو منتخب کرکے اسے ایک اہم اور بڑے

عہدہ پر فائز کرتے تھے، تو بوڑھے اور سن رسیدہ افراد ناراض ہوتے تھے اور آنحضرت (ص) سے کھل کر شکوہ کرتے تھے۔ اس حقیقت کو پہلی دعوت ذو العشیرہ میں بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔(۱۲۹)

رسول خدا (ص) اپنی اس تحریک کو استحکام بخشنے کے لئے مسلسل تاکید کرتے تھے اورنامناسب، تعصب بھرے اور جاہلانہ افکار کاڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے اور آخر کار اپنے حکیمانہ بیانات اور بے شمارنصیحتوں سے لوگوں کو مطمئن کرتے تھے یا انھیں خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے سامنے منبر سے اپنے بیانات کے ذریعہ جوانوں کی تعریف کرتے تھے اور ان کی حمایت کا اعلان کرتے تھے اور اس طرح انھیں ملک کے اونچے اور اہم عہدوں پر فائز کرتے تھے۔

یہ بیان کر دیناضروری ہے کہ جوانوں کو کسی عہدہ کے لئے منتخب کرنے کی بنیادی شرط ان کی صلاحیت اور شائستگی ہے۔ آنحضرت (ص) کے بیانات کی تحقیق سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔کہ جن جوانوں کو پیغمبر اسلام (ص) نے منتحب کرکے مملکت کے اہم عہدوں پرفائز کیا تھا، وہ عقل ، فکر ، ہوشیاری، ایمان ، اخلاق اور حکمت عملی کے لحاظ سے شائستہ اور لائق تھے۔

اب ہم ایسے جوانوں کے چند نمونے پیش کرتے ہیں ، جنھیں پیغمبر اسلام (ص)نے ملک کے اجرائی عہدوں پر فائز کیا تھا، تا کہ جوانوں کے حق کی تعیین میں کوئی غلطی سرزد نہ ہواور ہم اپنے بے جافیصلوں سے افراط و تفریط کے شکار نہ ہوں اور خود جوان او رعوام بھی اس سلسلہ میں غلطی کا شکار نہ ہو ں، کیونکہ جوانوں کو انتخاب کرنے کا قابل قدر معیار ، ایمان اور معنوی اقدار ہے۔

علی ابن ابیطالب علیہ اسلام

نوجوانوں میں سے ایک شخصیت جو ابتداء سے آخر تک رسول خد ا (ص) کی خدمت میں فرائض انجام دیتی رہی وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔ آپ تمام میدانوں میں فعّال طریقہ سے حاضر تھے اوررسول خدا (ص) کے محبوب تھے اور اسلام کے آغاز سے ایک جان نثار سپاہی شمار ہوتے تھے۔

علی علیہ السلام، حضرت ابوطالب کے بیٹے اور سب سے بڑے اور مشہور قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسدابن عبد مناف تھیں۔ وہ خاندان بنی ہاشم کی ایک محترم اور عظیم خاتون تھیں۔ اس لحاظ سے علی علیہ السلام پہلے بچہ تھے جو ماںباپ دونوں کی جانب سے ہاشمی تھے ۔(۱۳۰)

علی علیہ السلام معجزانہ طور پرخانہ کعبہ میں پیدا ہو ئے۔اور یہ فضیلت کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی ۔ آپ ولادت کے بعد تین دن تک کعبہ کے اندر رہے ۔ اس کے بعد آپ کی والدہ آپ کو گود میں لئے ہو ئے کعبہ سے باہر آئیں۔(۱۳۱)

حضرت علی علیہ السلام کے والد حضرت ابوطالب نے اسلام کے بحرانی حالات میں پیغمبر اسلام (ص) کا دفاع کیا ، جب کہ تمام لوگ آنحضرت (ص) کے خلاف متحد ہو چکے تھے۔

یہاں تک کہ بعثت کے دسویں سال حضرت ابوطالب اور آنحضرت کی شریک حیات حضرت خدیجہ اس دنیا سے رحلت کر گئیں۔ اس سال کانام ''عام الحزن'' رکھا گیا ۔ حضرت ابوطالب نے پیغمبر اسلام کی ۸ سال کی عمر سے آپ (ص) کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لی تھی۔ حضرت ابوطالب کی وفات کے وقت حضرت علی علیہ السلام کی عمر ۶ سال تھی اور آپ(ص)اسی وقت علی علیہ السلام کو اپنے گھر لے آئے۔ چنانچہ حضرت علی نے آنحضرت (ص) کے گھر میں آپ(ص) کی سرپرستی میں پرورش پائی ۔(۱۳۲)

جبرئیل امین کے غار حرا میں نازل ہونے اور پیغمبر اسلام (ص) کے رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد جب آنحضرت (ص) (ص) گھر تشریف لائے اور وحی کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کو اطلاع دی تو علی علیہ السلام ، جو کہ اس وقت نو سال کے تھے، نے پیغمبر اکر م (ص) کی دعوت کو قبول کیا لہذاآپ(ص)مردوں میں پہلے مسلمان ہیں ۔(۱۳۳)

پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد تین سال تک اپنی دعوت کو آشکار نہیں کی۔ تیسرے سال خدا کے حکم سے آنحضرت (ص) مامور ہوئے تا کہ اپنی دعوت کو آشکار فرمائیں اور اس دعوت کا آغاز میں اپنے رشتہ داروں سے کریں۔ اس لئے آنحضرت (ص) نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور کھانا کھلانے کے بعد فرمایا: اے عبد المطلب کے بیٹو! خدواند متعال نے مجھے عام لوگوں اور بالخصوص تم لوگوں کی رہبری کے

لئے بھیجا ہے اور فرماتاہے:

( و انذر عشیرتک القربین )

''اور پیغمبر! آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے''(۱۳۴)

پیغمبر اسلام (ص) نے تین بار اس مطلب کو دہرایا، لیکن علی علیہ السلام کے علاوہ کسی نے پیغمبر اکرم (ص) کی آواز پر لبیک نہ کہا، جبکہ اس وقت علی علیہ السلام صرف ۱۳ سال کے تھے۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے علی! تم ہی میرے بھائی ، جانشین، وارث اور وزیر ہو۔(۱۳۵)

بستر رسول (ص) پر علی علیہ السلام کی جان نثاری

بعثت کے تیرھویں سال قریش کے سرداروں نے ایک سازش کے تحت پیغمبر اسلام (ص) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس کام کے لئے ہر قبیلہ سے ایک شخص کاانتخاب کیا، تاکہ رات کے وقت آنحضرت(ص) پر حملہ کرکے آپ(ص) کو شہید کرڈالیں ۔ رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام سے اپنے بستر ا پر سونے کو کہا تاکہ دشمن یہ نہ سمجھ سکیں کہ پیغمبر اسلام (ص) ہجرت کر گئے ۔

حضرت علی علیہ السلام کی عمر اس وقت ۲۳ سال تھی، آپ نے رسول خدا (ص) کی خواہش کو دل سے قبول کیا اور آنحضرت (ص) کے بستر پر سو گئے۔ رسول خدا (ص) شہر سے باہر نکل کر مکہ کے نزدیک واقع غارثور میں تشریف گئے۔اس رات کے آخری حصہ میں چالیس افراد نے رسول خدا (ص)کے گھر پر حملہ کیا اور رسول خدا(ص) کے بسترپر علی علیہ السلام کو پایا ۔(۱۳۶)

جنگ بدر

تاریخ اسلام میں حق وباطل کا پہلا معر کہ جنگ بدر تھا ۔یہ جنگ ۲ہجری میں کفارمکہ کے سرداروں اور اسلام کے سپاہیوں کے درمیان بدر نامی جگہ پر واقع ہوئی۔بدر کا مقام مدینہ سے ۲۸ فرسخ دور اور بحر الاحمر سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔کفّارکا لشکر ایک ہزار سے زائد افراد پر مشتمل تھا اور سب کے سب جنگی ساز وسامان سے مسلح تھے ۔لیکن رسول خدا (ص)کی فوج صرف ۳۱۳ سپاہی تھے ۔اس جنگ میں لشکر کفّارکے تین نامور پہلوان عتبہ،اس کا بھائی شیبہ اوراس کا بیٹا ولید ،علی علیہ السلام، جناب حمزہ اورجناب عبیدہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔اس جنگ میں علی علیہ السلام کی عمر ۲۵ سال تھی۔(۱۳۷)

جنگ احد

جنگ بدر کے ایک سال بعد،مشرکین نے اپنی فوج کو نئے سرے سے منظم اور مسلح کر کے مختلف قبیلوں سے تین ہزار جنگجو ابو سفیان کی سرکردگی میں روانہ کئے اور تمام جنگی سازوسامان سے لیس ہو کر اس فوج نے مدینہ سے ایک فرسخ کی دوری پر کوہ احد کے دامن میں پڑائو ڈالا۔رسول خدا (ص)نے سات سو سپا ہیوں پرمشتمل ایک فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔آنحضرت (ص) نے عبد اللہ ابن جبیر کی سر کرد گی میں پچاس تیراندازوں کو لشکر اسلام کے پیچھے ایک پہاڑ کے درہ پر مامور کیا اور حکم دیاکہ اس جگہ کو کسی بھی حالت میں نہ چھوڑیں۔

لشکر کفّارسے ، طلحہ ا بن ابی طلحہ، ابو سعید ا بن طلحہ، حرث ا بن ابی طلحہ، ابوعزیز ا بن طلحہ، عبد اللہ ابن ابی جمیلہ او رارطات ابن سر جیل نامی کئی پہلوان با لترتیب میدان کارزار میں

آئے اور یہ سب، ۲۶ سالہ نوجوان حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل کئے گئے۔ اسلام کے سپاہی جنگ کی ابتدا ء میں فتحیاب ہو ئے۔ لیکن تیراندازوں کے درہ کو چھوڑنے کی وجہ سے خالدا بن ولید کی سرکردگی میں دشمن کے سواروں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور انھیں شکست دیدی۔ اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے، جن میں حضرت حمزہ بھی تھے۔ بعض سپاہیوں ، من جملہ علی نے رسول خدا کا مشکل سے دفاع کیا۔ علی علیہ السلام کے بدن پر اس جنگ میں ۹۰ زخم آئے، اسی جنگ میں یہ آسمانی آواز سنی گئی'' لافتی الا علی لا سیف الا ذولفقار'':''علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی جوان نہیں اور ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نہیں(۱۳۸) ''۔

جنگ خندق(احزاب)

شوال ۵ ہجری میں مشرکین مکہ نے مدینہ میں بچے کچھے یہودیوں اور دوسرے قبائل کی مدد سے ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج تشکیل دی اور مسلمانوں کو نابود کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس جنگ میں لشکر کفّارکا اسی(۸۰) سالہ نامور پہلوان عمروا بن عبدود بھی شریک تھا۔ وہ جنگ بدر میں زخمی ہواتھا لہذا اس کے دل میں مسلمانوں کے متعلق کینہ تھا اور اس نے قسم کھائی تھی کہ جب تک رسول خدا (ص) اور مسلمانوں سے انتقام نہیں لوں گا اس وقت تک اپنے بدن پر تیل کی مالش نہیں کروں گا!!

مدینہ میں داخل ہونے کے بعد یہودیوں کے قبیلہء بنی قریضہ نے ،رسول خدا (ص)سے کئے ہوئے اپنے عہد وپیمان کو توڑ کر کفار کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا!مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورے پر مدینہ کے اطراف میں خندق کھودی تاکہ دشمن شہر میں داخل نہ ہوسکیں۔مسلمان ۲۸ دن تک محاصرہ میں رہے ،یہاں تک کہ کفار کا پہلوان عمروا بن عبدود نے خندق کو عبور کر کے مسلمانوں کو مقابلہ کی دعوت دی ۔علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی شخص اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوا کیونکہ عمرو بن عبدود ایک زبر دست پہلوان تھا ۔علی علیہ السلام میدان میں تشریف لائے۔جب علی علیہ السلام کاعمرو ابن عبدود سے مقا بلہ ہوا تو رسول خدا (ص)نے فرمایا:آج کل ایمان کل کفر کے مقا بلہ میں ہے۔''

اس مقابلہ میں حضرت علی نے دشمن کو ہلاک کر دیا اور اس کے سر کو تن سے جدا کر کے رسول خدا(ص) کے سامنے ڈال دیا ۔رسول خدا(ص) نے فر مایا:''بیشک خندق میں علی کی ضربت جن وانس کی عبادت سے افضل ہے۔''

علی علیہ السلام نے جس وقت یہ گرانقدرخدمت اسلام اور مسلمانوں کے حق میں انجام دی،اس وقت آپ ۲۷سالہ جوان تھے۔اس جنگ کے بعدرسول خدا (ص)،حضرت علی علیہ السلام کی سرکر دگی میں ایک لشکر کو لے کر بنی قریضہ کے یہو دیوں کی طرف روانہ ہو ئے۔یہودیوں کے سر دارحی ابن اخطب کے مارے جانے کے بعدشہر مدینہ کے باشندے یہو دیوں کے خطرہ سے مکمل طور پر محفوظ ہوئے اوریہودیوں کا مال ومنال اور ان کی عورتیںمسلمانوں کے قبضہ میں آگئیں۔(۱۳۹)

علی علیہ السلام کے ہاتھوں خیبر کی فتح

۷ ہجری میں خیبر کے یہودیوں نے ایک منصوبہ بنایا۔انہوں نے مدینہ کے

شمال مغرب میں دو سو کلو میٹر کے فاصلہ پرواقع خیبر کے سات قلعوں میں سے بعض کو جنگی اسلحوں سے بھر دیا ۔ان قلعوں میں چودہ ہزار یہودی رہائش پذیر تھے۔رسول خدا (ص)چودہ سو پیدل سپاہیوں اور دوسوشہسوا روں کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے اور لشکر کا پرچم علی علیہ السلام کو دیا جواس وقت تیس سال کے جوان تھے۔

اس جنگ میں عمر اور ابو بکر نے شکست کھائی ۔یہاں تک کہ رسول خدا (ص)کے حکم سے علی علیہ السلام میدان جنگ میں آئے اور یہودیوں کے نامور پہلوان مرحب پربجلی کی طرح ٹوٹ پڑے اور ایک کاری ضرب سے اس کا کام تمام کیا۔اس کے بعد مسلمانوں نے حملہ کیا اور علی علیہ السلام نے خیبر کے آہنی دروازہ کواکھاڑ کر سپر کے مانند ہاتھ میں اٹھا لیا۔اس جنگ میں یہودیوں کے تین پہلوان مرحب،حارث اور یاسر علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے اور خیبر فتح ہوا۔جنگ کے خاتمہ پر چالیس آدمیوں کی مدد سے در خیبرکو دوبارہ اپنی جگہ پر نصب کیا گیا۔(۱۴۰)

فتح مکہ

۸ھ کو مکہ،پیغمبر اسلام (ص)کے ہاتھوں جنگ و خونریزی کے بغیر فتح ہوا۔پیغمبر اسلام (ص)بارہ ہزار افراد کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے اور خانہ کعبہ میں موجود تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔اس کے بعد علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ(ص)کے دوش مبارک پرقدم رکھ کرکعبہ کی دیوار پرچڑھیں اور بتوں کو توڑ یں۔علی علیہ السلام نے اطاعت کی ،بتوں کو توڑ نے کے بعددیوار سے نیچے آئے۔ پیغمبر اکرم (ص)نے پوچھا:آپ(ص)نے اتر تے وقت

کیوں میرے شانوں پر قدم نہ رکھے؟ علی علیہ السلام نے عرض کی:اوپر چڑھتے وقت آپ(ص) نے حکم فر مایا اور میں اوپر چڑھا،لیکن اتر تے وقت نہیں فرمایاکہ کیا کروں ،اسی لئے چھلانگ لگاکراترا اور اس سے بے ادبی مقصود نہیں تھی، خدا کا شکر ہے کچھ نہیں ہو(۱۴۱) ۔

جی ہاں ، اسلام کا یہ عظیم پہلوان ،ہر اس کارزار میں حاضر ہوتا تھا جہاں پر دشمن اورکفار اسلام اور مسلمانوں کو نابود کرنے کے لئے آتے تھے، اور وہ ان کے مقابلہ میں دل و جان سے اسلام و مسلمین کا دفاع کرتا تھا۔ اس طرح اس دلاور پہلوان کو ایسے فخر و مباہات نصیب ہوئے کہ دوسرے ان سے محروم رہے۔

جعفرا بن ابیطالب

جعفرا بن ابیطالب ، پیغمبر اسلام (ص) کے صحابی اور حضرت علی علیہ السلام کے بھائی ہیں ، جو آپ سے دس سال بڑے تھے۔ وہ ایک دلاور پہلوان اور اولین مسلمانوں میں سے تھے۔ وہ جعفر طیار کے نام سے مشہور ہیں ، کیونکہ انہوں نے ایک جنگ میں اپنے دونوں بازو قربان کئے اور رسول خدا (ص) نے ان کے بارے میں فرمایاکہ خدواند متعال نے ان کے دوبازؤں کے عوض انھیں بہشت میں دو پر عطا کئے ہیں ۔ اسی لئے جعفر طیار کے نام سے مشہور(۱۴۲) ہوئے۔

پیغمبر اسلام (ص) جعفر طیار سے کافی محبت کرتے تھے۔ انہوں نے ۵ ہجری میں دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر مہاجرین کے گروہ کے ترجمان کی حیثیت سے منتخب ہوئے، جبکہ اس وقت صرف ۲۴ سالہ جوان تھے۔ ہجرت کر کے جانے والے مسلمان ۷ ہجری تک حبشہ ہیں رہے اور اس کے بعد واپس مدینہ لوٹے۔ حبشہ سے مسلمانوں کی واپسی عین اس وقت ہوئی جب پیغمبر اسلام (ص) خیبر فتح کر کے مدینہ واپس لو ٹے ۔

پیغمبر اکر م(ص) نے جوں ہی انھیں دیکھا، اپنے چچا زاد بھائی کے احترام میں اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے، اپنی باہوں کو ان کی گردن میں ڈالا اور ان کے ما تھے کو چوما اور رونے لگے۔ اس کے بعد فرمایا :میں نہیں جانتا کہ میں کس چیز کی خوشی مناؤ ں،جعفر کے آنے کی یا فتح خیبر کی(۱۴۳) ۔

۸ ہجری میں ، یعنی حبشہ سے لوٹنے کے ایک سال بعد، جعفر طیار، رسول خدا (ص) کے حکم سے ، رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تین ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ایک لشکر کے سپہ سالار کی حیثیت سے اردن کی طرف روانہ ہوئے۔ اسلام کے سپاہی مدینہ سے روانہ ہو کر اردن کی سرزمین میں ''موتہ'' کی جگہ پر رومیوں سے نبرد آزماہوئے۔

اس جنگ میں بہادری کے ساتھ لڑنے کے بعد جعفر کے دونوں بازو کٹ گئے، اس کے بعد انہوں نے پرچم اسلام کو اپنے سینے سے لگا لیا ، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، ان کو اس حالت میں دفن کیا گیا کہ ، بدن پر ستر(۷۰) زخم لگے ہوئے تھے(۱۴۴) ۔

جب رسول خدا (ص) کو جعفر کی شہادت کی خبر ملی توآپ(ص) نے روتے ہوئے فرمایا: جعفر جیسے شخص کے لئے ضرور رونا چاہئے۔

مصعب ابن عمیر

مصعب ا بن عمیر تاریخ اسلام کے ایک دلاور جوان اور نمایاں فرد شمار ہوتے ہیں ۔ وہ ایک انتہائی خوبصورت ، با حیا، باہمت اور دلاور جوان تھے۔ ان کے ماں باپ ان سے انتہائی محبت کرتے تھے۔ وہ مکہ میں ایک محترم شخصیت شمار ہوتے تھے اور عمدہ لباس پہنتے تھے اور اچھی زندگی گزارتے تھے(۱۴۵) ۔

مصعب ا بن عمیر، رسول خدا(ص) کے بیانات کے دلدادہ ہوچکے تھے انہوں نے رسول خدا (ص) کے پاس نشت برخاست اور قرآن مجید کی تلاوت سننے کے نتیجہ میں مخلصانہ طور پر اسلام کو قبول کرلیا۔ اس وقت مکہ میں اسلام قبول کرنا سب سے بڑا جرم شمار

ہوتا تھا۔ اس لئے اس کا اظہار بہت مشکل تھااور بہت سے لوگ اپنے اسلام کو مخفی رکھتے تھے،ان میں سے ایک مصعب ابن عمیر تھے، یہاں تک کہ ان کے ماں باپ کو معلوم ہوا اور انہوں نے انھیں گھر میں قید کر لیا۔لیکن وہ بھاگ نکلے اور دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ چلے گئے اور ایک مدت کے بعد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس مکہ لوٹے۔

عقبہء اولیٰ میں ایک چاندنی رات میں مدینہ کی اہم شخصیتوں میں سے بارہ افراد نے مکہ آکر رسول خدا (ص)سے ملاقات کی اور مسلمان ہوگئے ۔جب یہ گروہ واپس مدینہ لوٹنا چاہتا تھا توان میں سے دو افراد ،اسعد ابن زرارہ وزکوان ابن عبد قیس نے رسول خدا (ص)سے درخواست کی ،کہ کسی کو اپنے نمائندے کے طور پر ہمارے ساتھ مدینہ بھیجدیں

تاکہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائے اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دے۔(۱۴۶)

چونکہ پیغمبر اسلام (ص)کو ایک سنہرا موقع ملا تھا،اس لئے آپ(ص) کو چاہئے تھا کہ ایک ایسے نما یندہ کو روانہ کریں جو عالمانہ طرز سے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے،تاکہ وہ اسلام کو قبول کرلیں لہذااس نمایندکوہر لحاظ سے شائستہ اور تجربہ کار ہو نا چاہئے تھا۔

اس زمانہ میں ،مدینہ،جزیرةالعرب کے اہم شہروں میں شمار ہوتا تھا اس میں اوس وخزرج نامی دو مشہور اوربڑے قبیلے رہتے تھے اور ایک دوسرے سے دشمنی اورکینہ رکھتے تھے اور سالہا سال سے آپس میں لڑ رہے تھے۔

پیغمبر اسلام (ص)نے تمام مسلمانوں اور اصحاب میں سے مصعب ابن عمیر کو اس کام کے لئے مدینہ روانہ کیا اور فر مایا :''اسعد ابن زرارہ کے ہمراہ مدینہ چلے جاؤ۔''

مصعب، جواچھی طرح قرآن مجیدسیکھ چکے تھے،جوانی کے جوش وجذبہ کے ساتھ مدینہ پہنچے اور خلوص نیت کے ساتھ تبلیغ کے لئے سعی وکوشش کرنے لگے۔وہ مدینہ میں قبیلہء خزرج کے ایک سردار اسعد کے گھر میں ساکن ہوئے اور اپنے میز بان کے ہمراہ قبیلہء اوس کے سر براہ سعد ابن معاذ کے گھر گئے اور انھیں اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اسی طرح اسید بن حُضیربھی مصعب کے ذریعہ مسلمان ہوئے۔دلا ور جوان مصعب نے مدینہ کے اپنے سفر میں اپنی ذمہ داری اچھی طرح انجام دی ۔وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مدینہ میں نماز جمعہ وجماعت قائم کی اور نمایاںافتخار حاصل کیا۔(۱۴۷)

مصعب کی مئوثر فعالیت اورکا میاب تبلیغ کے نتیجہ میں پیغمبر اسلام (ص) کے لئے شہر مدینہ میں آنے کے مواقع فراہم ہوئے اور وہاں کے لوگ دل کھول کر پیغمبر اسلام (ص)اور آپ(ص)کے پیرئوں کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔یہ کام مصعب کی دور اندیشی ،تقویٰ،فضلیت اور علم و بصیرت سے انجام پایا،کیونکہ اسی کی وجہ سے مدینہ کے زن ومرد ،پیر وجوان ،قبائل کے سردار اورعام لوگوں نے ان کی باتوں کو مان کر ان سے قرآن مجید سیکھا اوردین اسلام کو قبول کیا اوراپنے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف موجود دیرینہ دشمنیوں کو دور کرکے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور پورے خلوص دل سے نماز جمعہ و جماعت میں شرکت کرتے تھے۔

پیغمبر خدا (ص)کے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد ،مصعب نے بدر اور احد کی جنگوں میں شرکت کی۔جنگ احد میں انہوں نے پیغمبر (ص)کے علمدار کی حیثیت سے ذمہ داری نبھائی اور آخر کاراس جنگ میں شہید ہوئے اور پیغمبر اسلام (ص) کے چچا حضرت حمزہ کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔(۱۴۸)

مکہ کے گور نر،عتاب ابن اسید

مکہ ۸ ہجری میں کسی خونریزی کے بغیراسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں فتح ہوا۔ فتح مکہ کے فوراً بعد جنگ حنین کا واقعہ پیش آیا ۔رسول خدا (ص)اور آپ(ص) کے ساتھی مکہ کو ترک کر کے محاذ جنگ کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔

دوسری طرف رسول اللہ (ص)کے لئے ضروری تھا کہ کفار کے قبضہ سے آزاد ہونے والے

شہر مکہ کا انتظام و انصرام سنھبالنے کے لئے کسی لائق اور باصلا حیت شخص کو گورنر کے عہدہ پرمنتخب کریںتاکہ وہ لوگوں کے مسائل کو حل کریں اور دشمنوں کی طرف سے ہو نے والی کسی نا مناسب حرکت کا جواب دے ۔

پیغمبر اسلام (ص)نے تمام مسلمانوں میں سے ایک اکیس سالہ نوجوان ،عتاب ابن اسیدکو اس اہم عہدہ کے لئے منتخب فر مایا اور انھیں لوگوں کو نماز جماعت پڑھانے کاحکم دیا۔وہ پہلے امیر تھے،جنہوں نے مکہ کے فتح ہونے کے بعدوہاں پر نماز جماعت قائم کی۔(۱۴۹)

رسول خدا (ص)نے اپنے منتخب گور نر سے مخاطب ہوکر فرمایا:

''کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کس عہدہ پر منتخب کیا ہے اور کس قوم کی فرمانروائی تمہیں سونپی ہے ؟میں نے تمہیں حرم خدا اور مکہ معظمہ کے باشندوں کا امیر مقرر کیا ہے ۔میں اگر مسلمانوں میں کسی کو تم سے ز یادہ لائق اور شائستہ پاتا، تو'' یقینا یہ عہدہ اسی کے سپرد کر تا ۔'' جس دن رسول خدا (ص)کی طرف سے عتاب مکہ کے گورنر مقرر ہوئے ،ان کی عمر اکیس(۲۱) سال تھی۔(۱۵۰)

پیغمبراسلام (ص) کااس نوجوان کو اس عظیم اور اہم عہدہ پر مقرر کرنا،عرب کے بزرگوں اور مکہ کے سر داروں کے لئے ناراضگی کا سبب بنا۔نتیجہ میں انہوں نے شکوہ اور اعتراض کرنے کے لئے زبان کھولی اور کہا :رسول خدا (ص)ہمیں ہمیشہ حقیر اور پست رکھنا چاہتے ہیں ،لہذا ہم سن رسیدہ عربوں اور مکہ کے سرداروں پر ایک نوجوان کوامیر اورفرمانروا مقرر کیاہے۔

یہ باتیں رسول خدا (ص)تک پہنچ گئیں۔اس لئے آپ(ص)نے مکہ کے باشندوں کے نام ایک مفصل خط مرقوم فرمایا اور اس خط میں عتاب کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ذکر کیا اور تاکید فرمائی کہ لوگوں پر فرض ہے کہ اس کے حکم کی پیروی کریں اور اس کے دستورات پر عمل کریں۔

اس خط کے آخر پر آنحضرت (ص)نے لوگوں کے بے محل اعتراضات کا مختصرلفظون میں اس طرح جواب دیا:

''تم میں سے کسی کو حق نہیں ہے کہ عتاب کے نوجوان ہونے کی بنیاد پر اعتراض کرے،کیونکہ انسان کی برتری اور قدر ومنزلت کا معیار اس کی عمر نہیں ہے،بلکہ اس کے بر عکس انسان کی قدر ومنزلت کا معیار،اس کی فضیلت اور معنوی کمال ہے(۱۵۱)

پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعد ،عتاب،خلیفہ اول ابو بکر کی طرف سے بھی مکہ کے گور نر بر قرار رہے، یہاں تک کہ ۲۳ ہجری میں اس دنیا سے چل بسے۔(۱۵۲)

چنانچہ رسول خدا (ص)کا عتاب ابن اسید کے عہدہ کو استحکام بخشنے کے لئے اصراراور بزرگوں اور عمر رسیدہ لوگوں کے اس سلسلہ میں ناراض ہونے پر آپ کا توجہ دینا اور ان کے اعتراضات کا جواب دینا ،اسلام کے گرانقدر مکتب کے منصوبوں یعنی لائق و شائستہ نوجوانوں کی حمایت کرنے کی دلیل ہے ۔رسول خدا (ص)نے عتاب کی کھلم کھلا اور زبر دست حمایت کرکے نہ صرف اپنے پیرؤںکو اس

حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ بیوقوفیوں اور جاہلانہ تعصبات کو چھوڑنا چاہئے،بلکہ انھیں اس قسم کے غیر اسلامی طرز تفکر سے مقا بلہ کرنا چاہئے ۔اور اگر شائستہ اور لائق نوجوان موجود ہوں تو مملکت کے بعض اہم کاموں کے سلسلہ میں ان سے استفادہ کرنا چاہئے اور نسل جوان کی فائدہ بخش صلاحیتوں سے ملک وملت کے حق میں فائدہ اٹھانا چاہئے۔

معاذ ابن جبل

معاذ ابن جبل ابن عمر وانصاری ،قبیلہء خزرج سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی کنیت ابو عبد الرحمان تھی ۔وہ رسول خدا (ص)کے ایک مشہور صحابی تھے۔وہ عقل سلیم،خوبصورتی، جو دو اور حسن اخلاق کے مالک تھے ۔وہ اٹھارہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے تھے اور پیغمبر اکرم (ص)کے زمانے میں تمام جنگوں میں شریک تھے۔(۱۵۳)

معاذ نے پیغمبر اسلام (ص)کی تر بیت میں مکتب الہٰی سے علم ودانش اور علوم اسلامی سیکھنا شروع کیا اور اپنی فطری استعداد اور سعی وکوشش کے نتیجہ میں چند برسوں کے اندر اسلامی معارف میں کافی مہارت حاصل کی۔ اور پیغمبر اکرم (ص)کے نمایاں اور نامور صحابیوں میں شمار ہوئے ۔

معاذا بن جبل ،فتح مکہ کے دن ۲۶ سال کے تھے ۔اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ اس شہر میں ایک لائق اور شائستہ شخص کو ذمہ داری سونپی جائے تاکہ وہ عبادات اور معاملات سے متعلق اسلام کے احکام اور دستو رات لوگوں کو سکھائے۔(۱۵۴)

اس لئے معاذ کو مکہ کے علمی امور اور دینی احکام سکھانے کے لئے منتخب کیا گیا ،حقیقت میں انھیں اس شہر کے ثقا فتی امور کا رئیس مقرر کیا گیا ۔

جنگ تبوک کے بعد رسول خدا (ص)نے معاذ کو یمن بھیجدیا تا کہ وہاں پر قضاوت اورحکومت کی ذمہ داریوں کو نبھائیں ۔پیغمبر اسلام (ص)نے یمن کے لوگوں کے نام ایک خط میں یہ مرقوم فر مایا:

ٍٍ''میں نے بہترین افراد میں سے ایک کو تم لوگوں کی طرف بھیجا ہے''

پیغمبر اکرم (ص)نے معاذ کو حکم دیا کہ فوجیوں کو ٹرنینگ دیں،لوگوں کو قرآن مجید اور شرعی احکام سکھائیں اور زکوٰة جمع کر کے مدینہ بھیجیں تاکہ مسلمانوں پر خرچ کی جائے۔(۱۵۵)

جب رسول خدا (ص)اس جوان کو یمن بھیجنا چاہتے تھے اس وقت آپِ(ص)(ص)نے اس سے سوال کیا :معاذ!اگر(دو گروہوں یا فریقوں میں )لڑائی چھڑ جائے تو تم کیسے فیصلہ کروگے ؟معاذ نے عرض کی :خدا کی کتاب میں جو کچھ ہے ،اسی کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔

آنحضرت (ص)نے فرمایا:اگر اس کا حکم قرآن مجید میں نہ ہو تو کیا کرو گے؟معاذ نے کہا :اس صورت میں پیغمبر (ص)کی سیرت کے مطابق عمل کروں گا !پیغمبر اکرم (ص)نے پوچھا :اگر میری روش اور سیرت میں بھی اس کا حکم نہ ملا تو اس صورت میں کیا کرو گے ؟معاذ نے کہا :اس صورت میں اپنی صلاح دیدکے مطا بق حکم کروں گا۔یہاں پر رسول خدا (ص)نے ان کے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فر مایا :خدا کا شکر ہے کہ تم نے پیغمبر (ص)کو اس بات سے خوش کر دیا ہے کہ جس سے انبیاء خوش ہوتے ہیں(۱۵۶) !

جب ۱۱ ہجری میں پیغمبر اسلام (ص)نے رحلت فرمائی ،تو اس وقت معاذ یمن میں تھے پہلے خلیفہ ابو بکر نے بھی معاذ کو اپنے عہدے پر برقرار رکھا ۔اس کے بعد وہ عمر کی خلافت کے زمانہ میں شام چلے گئے اور سر زمین اُردن میں عمواس(۱۵۷) کے مقام پر ۱۸ہجری میں انہوں نے ۲۸،۳۲،یا۳۴ سال کی عمر میں طاعون کی بیماری میں وفات پائی۔(۱۵۸)

معاذ کی لیاقت وشائستگی کے نکات میں سے ایک نکتہ یہ تھا کہ وہ اس جوانی کی عمر میں اور پیغمبر اسلام (ص)کی حیات کے دوران مستقبل میں ہونے والے مجتہدوں کے طرز عمل پر فتویٰ دیتے تھے اور دینی احکام کو قرآن مجید ،سنت اور عقل سے استنباط کرتے تھے ۔صدر اسلام میں اس دلا ور نوجوان کی فطانت اور لیاقت کو ثابت کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔(۱۵۹)

اسامہ ابن زید

اسامہ ا بن زید عرب نسل کے شامی عیسائی تھے ۔ان کی کنیت ابو محمد تھی وہ رسول خدا (ص)کے ایک جلیل القدر صحابی تھے۔وہ مکہ میں ہجرت سے سات سال پہلے پیدا ہوئے تھے ۔پیغمبر اسلام ان سے انتہائی محبت کرتے تھے ۔وہ ایک ہوشیار ،شائستہ اور با استعداد نوجوان تھے۔(۱۶۰)

اسامہ کے والد ،زید،رومیوں کے ساتھ جنگ میں سر زمین ''موتہ''میں جعفر ابن بیطالب کی شہادت کے بعد دوسرے کمانڈر کی حیثیت سے شہید ہوئے تھے ۔اس لئے ۱۵۷۔عمو اس فلسطین میں بیت المقدس کے نزدیک ایک علاقہ ہے کہ اس علاقہ میں ۱۸ہجری کو پہلی بار وبا پھیلی جس کے نتیجہ میں بہت سے مسلمان اور پیغمبر اکرم (ص)کے صحابی لقمہ اجل ہوگئے ۔یہ بیماری خون میں ایک جراثیم داخل ہونے کی وجہ سے پھیلتی ہے اور چند گھنٹوں کے اندر انسان کو ہلاک کر دیتی ہے معجم البلدان ج۴ ،ص۱۵۷

ا پیغمبر اسلام (ص)نے فیصلہ کیا کہ اسامہ ،جن کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں تھی ،کو رومیوں سے جنگ کے سلسلہ میں لشکر اسلام کا سپہ سالار مقرر فرماکر اس سر زمین کی طرف روانہ کریں۔جبکہ اسلامی لشکر کے تمام بڑے بڑے افسر اور اسلامی فوج کے سپہ سالاراور مھاجر وانصار کے تمام سردار اور عربوں کی نامور شخصیتں اس عظیم فوج میں شریک تھیں۔رسول اکرم (ص)اس لشکرکا معائنہ کرنے کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لائے۔آپ(ص) نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی شخصیتں جنگ کے لئے تیار ہیں ۔(۱۶۱)

پیغمبر اسلام کی طرف سے ایک اٹھا رہ سالہ نوجوان کو کمانڈر کی حیثیت سے منتخب کرنا

بہت سے افراد کے لئے تعجب اور حیرت کا سبب بنا اور پیغمبر اسلام (ص)کے اس طرز عمل کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے ۔نتیجہ میں پیغمبر اسلام (ص) کے بعض صحابیوں نے فوری طور پر رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اندرونی کیفیت کو آشکار کیا اور جو کچھ دل میں تھا اسے زبان پر جاری کیا اور اعتراض کرتے ہوئے کہا:یہ نوجوان،تجربہ کار اور پہلے اسلام قبول کرنے والے مہاجرین پر کیسے سپہ سالارمقرر کیا گیا ؟

رسول خدا (ص)،بعض افسروں کی طرف سے طعنے سن کربہت رنجیدہ ہوئے ۔لہذا منبر پر تشریف لے گئے اور خدا وند متعال کی حمد و ثناء کے بعد فر مایا :لوگو!اسامہ کی سپہ سالاری کے بارے میں بعض لوگوں سے یہ کیسی باتیں سن رہاہوں ؟

تم لوگ جو آج طعنے دے رہے ہو،یہ طعنے نئے نہیں ہیں ۔جب میں نے چند سال پہلے اسامہ کے باپ زید کو جنگ موتہ میں سپہ سالار مقرر کیا تو تم لوگوں نے اس وقت بھی طعنہ زنی کی تھی۔

خدا کی قسم کل زید ابن حارثہ سپہ سالاری کے لئے لائق تھے،اور آج ان کے بیٹے اسامہ اس کام کے لئے شائستہ ہیں ،تم سب کو ان کی اطا عت کرنی چاہئے ۔(۱۶۲) لائق اور شائستہ نوجوانوں کی حمایت میں پیغمبر اسلام (ص)کی اس تاکید اور اصرار نے مسلمانوں کے افکار پر گہرا اثر ڈالا ،اور جو لوگ جوان نسل کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا تھے انہوں نے رفتہ رفتہ اپنی غلط فہمیوں کا اعتراف کیا ۔ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کو سپہ سالار کے عہدے پر منتخب کرنا دنیا کی فوجی تاریخ میں کم نظیر ہے۔

اسامہ کی بر طرفی

بیشک،اسامہ کی سپہ سالاری کا موضوع اور پیغمبر اسلام (ص)کی یہ تاکید اور اصرار کہ سب لوگ اسامہ کے پرچم تلے جمع ہو جائیں ،تاریخ اسلام کے دلچسپ اور مشہور واقعات میں سے ہے۔اُس وقت پیغمبر اسلام (ص)بیمار تھے اور اپنی زندگی کے آخری لمحات سے گزر رہے تھے۔اسی حالت میں جب ابو بکر اور عمر پیغمبر اکرم (ص)کے سراہنے پہنچے اور پیغمبر (ص) نے انھیں دیکھتے ہی ناراضگی میں فر مایا:اسامہ کے لشکر میں چلے جاؤ!چلے جاؤ!چلے جاؤ!خدا !لعنت کرے ان لوگوں پرجو جنگی آماد گی رکھنے کے باوجود اسا مہ کے لشکر میں شامل نہ ہو ۔(۱۶۳)

پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعد،اسا مہ مدینہ سے باہر اپنے لشکر کی چھاونی میں منتظر رہے تاکہ ان کا فریضہ معین ہوجائے؟جب ابو بکر بر سر اقتدار آگئے ،تو انہوں نے اسامہ کو اسی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا جس طرف انھیں پیغمبر (ص)نے روانہ ہونے کا حکم دیاتھا۔اسامہ شام کی طرف بڑھے،لیکن جب شام پہنچے ،تو ابوبکر نے انھیں بر طرف کر کے یزید ابن ابی سفیان کو ان کی جگہ پر مقرر کیا۔

جب یہ جوان سپہ سالاربر طرف ہوئے ،تو مدینہ آکر مسجد النبی (ص) کے دروازے پر کھڑے ہوکر فریاد کی:اے مسلمانو!تعجب کی بات ہے ،جس شخص کا فرمانروا کل رسول خدا (ص)نے مجھے بنایا تھا وہ آج مجھ پر حکم چلا رہا ہے اور مجھے سپہ سالاری کے عہدے سے بر طرف کر رہا ہے ۔(۱۶۴)

اس کے بعد اسامہ ۵۴ھ تک مدینہ میں زندہ رہے اورمعاویہ کی حکومت کے دوران ''جُرف''نامی ایک جگہ پر وفات پائی(۱۶۵)

ان تاریخی نمونوں سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے الہٰی مکتب میں جوانوں کی کتنی قدر ومنزلت تھی۔