تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 62595
ڈاؤنلوڈ: 1484

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62595 / ڈاؤنلوڈ: 1484
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

ولید کبھی شراب پی کر مستی کی حالت میں مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آتا اور نماز جماعت پڑھاتا تھا ؛ ایک دن اس نے صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی جب لوگوں نے تعجب کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ کانا پھوسی کرنے لگے تو کہا: کیا تمہارے لئے ایک رکعت کا اور اضافہ کروں ؟

ابن مسعود نے اس سے کہا :ہم آج کے دن کو ابتدا سے ہی زیادتی کے ساتھ شروع کریں گے ۔(۱)

ٍاور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن مسعود اور دوسرے تمام نمازگزاروں نے فاسق اور شراب خور حاکم کے سامنے تقیہ کرتے ہوئے نماز یں ادا کی ہیں ۔ اور یہ وہی شخص ہے جسے عثمان کے زمانے میں شرابخوری کے جرم ميں کوڑے مارےگئے تھے ۔(۲)

____________________

۱۔ قاضی دمشقی، شرح العقیدہ الطحاویہ؛ ج۲،ص ۵۳۳۔

۲۔ صحیح مسلم،ج۳،ص ۱۳۳۱، کتاب الحدود ، باب الخمر۔

۱۲۱

ابو الدرداء(ت ۳۲ ھ)اور تقیہ

بخاری اپنی کتاب میں ابودرداء سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک گروہ کے سامنے مسکرا رہے تھے جب کہ اپنے دلوں میں ان پر لعنت بھیج رہے تھے ۔(۱)

ابو موسی اشعری(ت ۴۴ ھ)اور تقیہ

ابو موسی اشعری نے بھی اسی روایت کو اسی طرح نقل کیا ہے کہ ہم ایک گروہ کے سامنے مسکرا رہے تھے جب کہ اپنے دلوں میں ان پر لعنت بھیج رہے تھے ۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس گروہ سے مراد وہ ظالم اور جابر حکمران تھے ، کہ جن کے شر سے بچنے کیلئے تقیہ کرتے ہوئے ہم ان کے سامنے مسکرا رہے تھے۔(۲)

____________________

۱۔ صحیح بخاری، ج ۸ ص ۳۷ کتاب الادب ، باب المداراۃ مع الناس۔

۲ ۔ قرافی، الفروق ؛ ج۴ ، ص ۲۳۶۔

۱۲۲

ثوبان (ت ۵۴ ھ) غلام پیغمبر اور تقیہ

یہ بات مشہور ہے کہ ثوبان جھوٹ کو ان موارد میں مفید اور سود مند جانتا تھا جہاں سچ بولنا مفید نہ ہو ۔ غزالی (ت ۵۰۵ ھ) نے ان سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جھوٹ بولنا گناہ ہے سوائے ان موارد میں کہ جہاں کسی مسلمان کو نقصان اور ضرر سے بچائے اور فائدہ پہنچے ۔(۱)

ابو ہریرہ (ت ۵۹ ھ) اور تقیہ

ان کی زندگی کے بہت سارے واقعات ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اموی حکومت والوں کے شر سے بچنے کیلئے تقیہ کو بہترین اور وسیع ترین وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ ابوہریرہ واضح طور پر تقیہ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر تقیہ نہ ہوتا تو میری گردن بھی اب تک اڑ چکی ہوتی ۔

____________________

۱۔ احیاء علوم الدین ؛ غزالی ،ج ۳،ص ۱۳۷۔

۱۲۳

صحیح بخاری لکھتا ہے کہ اسماعیل نے ہمارے لئے نقل کیا کہ میرے بھائی نے ابی ذئب سے انہوں نے سعید مقبری سے انہوں نے ابی ہریرہ سے روایت کی ہے کہ: دوچیزوں کو پیغمبر خدا سے ہم نے حفظ کیا ؛ ایک کو ہم نے پھیلا دیا اور دوسری کومخفی رکھا ۔ اگر اسے بھی آشکار کرتے تو میری گردن کٹ چکی ہوتی ۔(۱)

فقہ مالکی اورتقیہ

امام مالک بن انس ( ت ۲۷۹ ھ)کے تقیہ بارے میں پہلے بیان کرچکا ؛ جس میں ان کا کہنا تھا : کوئی بھی ایک بات جو جابر حکمران کے دو کوڑے سے بچنے کا باعث ہو ، اسے میں اپنی زبان پر جاری کروں گا۔(۲)

اسی طرح مالکی مذہب کے علماء بھی جبر اور اکراہ کے موقع پر کفر آمیز کلمات

____________________

۱۔ صحیح بخاری ، ، کتاب العلم، باب حفظ العلم ،ج۱، ص ۴۱ ۔

۲۔ مالک بن انس؛ المدونہ الکبری ، ج۳،ص۲۹، کتاب الایمان بالطلاق۔

۱۲۴

کا زبان پر لانے کو ، جب کہ اس کا دل ایمان سے پر ہو ؛جائز قرار دیتے ہیں ۔

ابن عربی مالکی (ت ۵۴۳ ھ) کہتا ہے کہ مؤمن تقیہ کرکے کافر ہوجائے لیکن ایمان سے اس کا دل مطمئن اور استوار ہو تو اس پر مرتد کا حکم جاری نہیں ہوگا ۔ وہ دنیا میں معذور اور آخرت میں بخشا جائے گا ۔

پھر صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ۔اسی کے ذیل میں مالکی مذہب کے ہاں اکراہ اور جبر کے موقع پر قسم کھانااور اس میں تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؛ اس مورد میں تقیہ کے جواز پر حکم لگاتا ہے ۔(۱)

فقہ حنفی اورتقیہ

فقہ حنفی میں تقیہ کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ان کے فقہاء بڑی دقت اور اہتمام

____________________

۱۔ ابن عربی؛ احکام القرآن ،ج۳، ص۱۱۷۷۔۱۱۸۲۔

۱۲۵

کے ساتھ تقیہ کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ ہم یہاں صرف ایک کتاب جس میں تقیہ کے کئی مورد بیان کیے گئے ہیں جو حنفی عالم دین فرغانی (ت ۲۹۵ ھ)نے قاضی خان کے فتاویٰ کو جمع کرکے لکھے ہیں ۔

پہلا مورد:

جب کسی شخص کو کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرنے پر مجبور کرے ، اور اگر نہ مانے تو اسے خود قتل کیا جائے گا یا اس کے بدن کا کوئی عضو کاٹا جائے گا ؛ تو کیا ایسے مورد میں اس پر اکراہ صادق آتا ہے ؟ اور کیا وہ ایک مسلمان کو قتل کرسکتا ہے ؟اگر جائز نہیں ہے تو کیا اس پر قصاص ہے ؟

ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اکراہ اس پر صادق آتا ہے اور قصاص مجبور کرنے والے سے لیا جائے گا نہ کہ مجبور ہونے والے سے ۔

ابو یوسف کہتا ہے کہ اکراہ صحیح ہے اور قصاص کسی پر بھی واجب نہیں ہے لیکن مقتول کی دیت مجبور کرنے والے پر واجب ہے کہ تین سال کے اند ر مقتول کے وارث کو دی جائے !!!

۱۲۶

امام مالک اور امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اکراہ کرنے والا اور مجبور کئے جانے والا ، دونوں کو قتل کرناچاہئے ۔ اس کا مطلب يه هے که ابوحنيفه ،امام مالک،امام شافعي اس بات کے قائل هيں که مجبور شخص دوسرے انسان کو قتل کرسکتاهے ۔(۱) جب که شيعوں کےنزديک مجبور شخص ، خود قتل تو هو سکتا هے ليکن کسي کو وه قتل نهيں کرسکتا ۔

دوسرا مودر:

کسی فعل کا انجام دینا اس کے ترک کرنے سے بہتر ہے تو ایسی صورت میں تقیہ جائز ہے ۔ اور جب بھی اس فعل کے ترک کرنے سے وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے تو اس پر تقیہ کرنا واجب ہے ۔جیسے اگر کسی کوخنزير کا گوشت کھانے ، یا شراب پینے پر مجبور کیا جائے تو مجبور ہونے والے کو کھانا اور شراب کا پینا جائز ہے ۔ اسی طرح کوئی پیغمبراسلام (ص) کی شان میں گستاخی کرنے اور زبان پر کفر آمیز الفاظ کے استعمال کرنے پر مجبور ہو جائے

____________________

۱۔ فرغانی؛ فتاوی قاضی خان؛ ،ج ۵،ص ۴۸۴۔

۱۲۷

تو جائز ہے ، جب کہ اس کا دل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان اور ان کی محبت سے پر ہو۔

تیسرا مورد:

اگر کسی عورت کو قید کرکے اسے زنا کرنے پر مجبور کیا جائے ،اور وہ زنا کرلے تو اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی ۔

جب که شيعوں کے نزديک مجبوري کي حالت ميں بھي زناجائز نہیں ہے ۔(۱)

چوتھا مورد :

اگر کسی مرد کو مجبور کرے کہ ماہ رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے یا کوئی چیز کھائے یا پئے ، تو اس پرکوئی کفارہ نہیں ہے لیکن اس روزے کی قضا اس پر واجب ہوگی۔(۲)

____________________

۱ ۔ فرغانی؛ فتاوی قاضی خان ، ج ۵،ص ۴۹۲۔

۲ ۔ فرغانی؛ فتاوی قاضی خان ، ج ۵ ، ص ۴۸۷۔

۱۲۸

فقہ شافعی اورتقیہ

فقہ شافعی(ت، ۲۰۴) ،میں تقیہ وہاں جائز اور مباح ہے، جهاں مجبور ہونے والے کيلئے جائز ہو ؛جيسے: کفر آمیز کلمات کا زبان پر جاری کرنا ، جبکہ اس کا دل ایمان سے پر ہے ۔شافعی کے نزدیک وہ شخص ایسا ہے جیسے اس نے زبان پر ایسا کوئی کفر آمیز کلمہ جاری ہی نہیں کیا ہے ۔اس بات کو عطاء بن ابی ریاح (ت ۱۱۴ ھ)کی طرف نسبت دی گئی ہے جو بڑے تابعین میں سے ایک ہے ۔(۱)

اسی طرح ابن حجر عسکلانی شافعی (ت ۸۲۵ ھ) نے بھی مجبور ہونے کی صورت میں تقیہ کرنے اور کفر آمیز الفاظ زبان پر جاری کرنے کی اجازت دی ہے ۔(۲)

تقیہ کا ایک اور مورد جسے سیوطی شافعی (ت ۹۱۱ ھ) نے بیان کیا ہے : وہ صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ جب بھی زبان پر کفر کا اظہار کرنے پر مجبور ہوجائے تو اپنی جان بچانے کی

____________________

۱ ۔ امام شافعی ؛ احکام القرآن ، ج۲، ص ۱۱۴۔۱۱۵۔

۲ ۔ ابن حجر عسکلا نی ؛ فتح الباری ،ج۱۲، ص ۲۶۳۔

۱۲۹

خاطر زبان پر کفر کا اظہار کرنا افضل ہے ۔آگے لکھتا ہے کہ اسی طرح جب بھی مجبورہوجائے شراب پینے پر ، پیشاب پینے پر ،خنزیر کا گوشت کھانے پر ، دوسروں کا مال تلف کرنے پر، دوسرے کی غذا کھانے پر، جھوٹی گواہی دینے پر، رمضان میں روزہ توڑنے پر، واجب نماز کے ترک کرنے پر ،۔۔۔ تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ انہیں انجام دے ۔ان کی تعبیر یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو خدا کی بارگاہ میں توبہ کے ذریعے ساقط ہو سکتی ہے ، اکراہ کے ذریعے بھی ساقط ہوسکتی ہے ۔(۱)

فقہ حنبلی اورتقیہ

ابن قدامہ حنبلی (ت ۶۲۰ ھ)نے حالت اکراہ میں تقیہ کے مباح ہونے پروضاحت کی ہے کہ مجبور شخص کا فعل، تہدید اور اکراہ کی وجہ سےجائز ہوجائے گا اورحد بھی جاری نہیں ہوگی۔(۲)

____________________

۱۔ سیوطی؛ الاشباہ و النظایر فی قواعد و فروع الفقہ الشافعی ، ص ۲۰۷ ۔۲۰۸

۲ ۔ ابن قدامہ ، المغنی ،ج ۸ ،ص ۲۶۲۔

۱۳۰

فقہ حنبلی میں تقیہ کے موارد میں ذکر ہوا ہے کہ کفرآمیز کلمہ پر اگر اکراہ کیا جائے تو اس کیلئے جائز ہے حنبلی مذہب کے مفسروں نے لکھا ہے :

ابن جوزی نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کفر پر مجبور کرنے کی صورت میں تقیہ کرنا جائز ہے ۔

احمد بن حنبل (ت ۲۴۱ ھ) کا اس بارے میں نظریہ ہے کہ اگر مجبور شخص اس فعل کو انجام نہ دے تو جابر اسے قتل کرے گا یا اس کےجسم کا کوئی حصہ کاٹ دیا جائے گا ، دونوں صورتوں میں تقیہ کرنا اس کیلئے جائز ہے ۔(۱)

ابن قدامہ کا نظریہ یہ ہے کہ اگر کسی کو کفر آمیز کلمہ زبان پر لانے پر مجبور کیا جائے تو تقیہ کرے اور اس پر مرتد کا حکم نہیں لگے گا ۔ ان کا کہنا ہے کہ مالک، شافعی اور ابوحنیفہ کی بھی یہی رائے ہے ۔

____________________

۱۔ ابن جوزی؛ زاد المسیر ، ج۶ ، ص ۶۹۶۔

۱۳۱

ابن قدامہ اپنے نظریے کی تائید کیلئے قرآن کریم اور سنت نبوی سے استدلال کرتا ہے ۔(۱)

امام شافعی اور تقیہ

دو جگہوں پر امام شافعی نے تقیہ کیا ہے اور دونوں مورد ہارون الرشید کے ساتھ پیش آئے:

۱ ۔سارے تاریخ دانوں کے ہاں مشہور ہے کہ امام شافعی نے ایک مدت تک یمن میں اپنی زندگی گزاری اور یمن کے اکثرلوگ علوی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ اور شافعی بھی علویوں کی طرف مائل ہوئے اور یہاں سے ان پر قسم قسم کی مشکلات آنا شروع ہوئیں۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے قبیلے میں وه شیعہ مشہور ہوگئے۔ یہ بات ہارون الرشید کے جاسوسوں پر مخفی نہ رہی ، حماد بربری نےیمن سے ہارون الرشید کو ایک خط لکھا اور اسے علویوں کی

____________________

۱۔ ابن قدامہ ؛ المغنی ؛ ، ج۱۰، ص ۹۷۔

۱۳۲

طرف سے خطرے کا احساس دلایا ، اور شافعی کے وجود کو ان کیلئے بہت ہی خطرناک قرار دیا اور کہا کہ شافعی کی زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ تلوار سے زیادہ تیز ہے ۔ اس لئے ہارون نے یہ دستور دیا کہ شافعی کو بعض علوی اکابرین کے ساتھ بغداد بھیجا جائے ۔جب یہ لوگ بغداد پہنچے تو ہارون نے سارے علویوں کے قتل کا حکم دیا اور بے چون و چرا سب کو قتل کیا گیا ۔ لیکن شافعی نے تقیہ کے طور پر ایک جملہ کہا جو حقیقت پر مشتمل نہیں تھا ، اس نے ہارون سے کہا : کیا میں اس شخص کو ترک کردوں جو کہتا ہے ، میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں ؟! اور اس شخص کی جانب داری کروں کہ جو کہتا ہے کہ میں اس کا خادم اور غلام ہوں ؟!!(۱)

شافعی کا یہ جملہ مؤثر ہوا اور ان کی جان بچ گئی ۔

۲ ۔ تقیہ کا دوسرا مورد پہلا مورد سے زیادہ واضح تر اور آشکار تر ہے : ایک دن شافعی کو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہارون کے دربار میں لایا گیا ۔جس میں ان کے کچھ دشمن

____________________

۱۔ بیھقی ؛ مناقب الشافعی ، ج۱،ص ۱۱۲۔

۱۳۳

بھی موجود تھے ؛ جن میں سے ایک بشر مریسی معتزلی (ت ۲۱۸ ھ)تھا ۔اس نے حکم دیا کہ شافعی کو اور سخت سزا دی جائے جسے ہارون الرشید سن رہا تھا ؛ شافعی سے کہنے لگا: تو اجماع کا مدّعی ہے کیا کوئی ایسی چیز کا علم ہے جس پر لوگوں کا اجماع قائم ہوا ہو ؟ شافعی نے جواب دیا : اسی امیرالمؤمنین پر لوگوں نے اجماع کیا ہے ۔ جو بھی ان کی مخالفت کرے گا، وہ مارا جائے گا ؛ ہارون ہنس پڑا ، پھر حکم دیا کہ زنجیروں کو کھول کر انہیں آزاد کر دیا جائے ،پھر ان کو اپنے پاس بٹھاکر ان کا احترام کرنے لگا۔(۱)

امام مالك او رتقيه

جب تک بنی عباس کا حکم ظاہر نہیں ہوا اس وقت تک بنی امیہ کے دور میں مالک نے امام صادقعليه‌السلام سے روايت نقل نہیں کی ۔یہ اپنی جان و مال کے خوف اور تقیہ کے سواکچھ نہیں تھا ۔

پس ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیسے آپ کے اماموں کیلئے تقیہ کرنا

____________________

۱۔ ابونعیم، حليۃ الاولیاء ؛ ج ۹ ، ص ۸۲۔۸۴

۱۳۴

جائز ہوا اور ہمارے لئے تقیہ جائز نہیں ؟ اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ تعصب کی بنا پر يه لوگ ایک جائز اور قرآنی حکم کا مزاح کر رهے هيں۔

ابو بكرا ور تقيه

مكه اور مدينه کے درمیان میں پیغمبراسلام (ص) کے همراه ا يك اونٹ پر سوار تھا ۔اور اس سے پہلے بھی ابوبکر کا مکہ اور مدینے میں آنا جانا رہتا تھا ۔راستے سے بخوبی واقف تھا ۔۔۔ جب ابوبکر سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ کون ہے ؟ تو اس نے کہا : یہ میرا رہنما ہے ۔

واقدي کہتا ہے :رسول خدا (ص) ابو بكر کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے اور جس سے بھی ملاقات کرتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ یہ کون ہے تیرے ساتھ؟ تووه کبھي نہیں

۱۳۵

کہتے تھے که: یہ رسول خدا (ص) ہیں بلکہ وه کهتےتھے کہ یہ میرا رہنما ہے ۔(۱)

امام احمد بن حنبل اور تقيه

مامون کے بعدمعتصم عباسي نے دوسری مرتبہ احمد حنبل کا امتحان لیا اور پوچھا: تيرا قرآن کے بارے میں کیا عقيده ہے ؟

چونکہ اس وقت عرب اور یونان کے فلاسفروں اور دانشمندوں کے درمیان قرآن کے قدیم یا حادث ہونے میں اختلاف پایا جاتا تھا ؛ احمد بن حنبل نے کہا: میں ایک دانشمند انسان ہوں لیکن اس مسئلے کو نہیں جانتا ۔ خلیفہ نے سارےعلماء کو جمع کیا تاکہ اس کے ساتھ علمی بحث شروع کریں ۔ عبد الرحمن نے احمد کے ساتھ بحث شروع کی ، لیکن قرآن کے مخلوق ہونے کا اعتراف نہیں کیا ،جب اسے کئی کوڑے لگے تو اسحق نے ان کے ساتھ مناظرہ کی خلیفہ سے اجازت مانگی تو خلیفہ نے بھی اجازت دے دی ۔

اسحاق: یہ جو علم تیرے پاس ہے اسے کیا کسی فرشتے کے ذریعے سے تم پر الہام ہوا ہے

____________________

۱ ۔ محب الاسلام، شيعه مي پرسد،ج۲،ص ۲۷۴۔

۱۳۶

یالوگوں سے حاصل کیا ہے ؟

احمد: دانشمندوں سے سیکھا ہے ۔

اسحاق: تھوڑا تھوڑا کرکے حاصل کیا ہے یا ایک ہی مرتبے میں؟

احمد:تھوڑا تھوڑا اور بتدریج حاصل کیا ہے ۔

اسحاق:کیا مزید علم باقی ہے جو تو نے نہیں سیکھا ہے؟

احمد: ہاں ضرور باقی ہے ۔

اسحاق: قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ اسی علم کی وجہ سے ہے جو ابھی تک نہیں سیکھا ہے اور امير المؤمنين تجھے سکھائے گا۔

احمد: امير المؤمنين کی اسی بات کو قبول کرتا ہوں ۔

اسحاق :کیا قرآن کے مخلوق هونے میں؟

احمد: ہاں قرآن کے مخلوق هونے میں۔

ان کے اس اعتراف پر گواہ رکھ کر اسے شاہی لباس تحفہ دیا اور آزاد کردیا۔(۱)

____________________

۱ ۔ تاريخ يعقوبي، ج ۳، ص ۱۹۷۔

۱۳۷

امام اهل سنت احمد بن حنبل کے اس مناظره پر مشهور ومعروف اديب اور دانشمند ”جاحظ“نے ایک اچھی تفسیر لکھی ہے ۔ جاحظ اپنے اس رسالے میں اہل سنت سے مخاطب ہے کہ تمہارے امام احمد بن حنبل نے رنج اور امتحان کے بعد اعتراف کرلیا ہے : سوائے کافرستان کے کہیں اور تقیہ جائز نہیں ہے ۔ ليکن ان کا قرآن کے بارے میں مخلوق ہونے کا اعتراف کرنا تقیہ کے سوا کچھ اور تھا ؟! اور کيا یہ تقیہ دار الاسلام میں انہوں نے نهيں کیا جو اپنے عقیدے کی تکذیب کررہا ہے ؟! اگر ان کا اقرار صحیح تھا تو تم ان سے اور وہ تم سے نہیں ہیں ۔

شيعه ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ حجر بن عدی اور يزيد بن صوحان عبدي جو علی کے ماننے والےتھے ان کا معاویہ کا ظالمانہ اور جابرانہ دربار میں علی کا مدح کرنا کیا تقيه تھا ؟!

بس يه ماننا پڑے گا که شيعه هر جگه تقيه کو روا نهيں سمجھتے ، بلکه جهاں جائز هو وهاں تقيه کرتے هيں۔

۱۳۸

حسن بصری (ت ۱۱۰ ھ)اور تقیہ

یہ تابعین میں سے تھا کہتا ہے کہ تقیہ قیامت تک کيلئے جائز هے۔(۱) یہ ان لوگوں میں سے تھا جو صحابہ کےحالات سے واقف تھے۔اس قول کو یا ان سے سنا ہے یا اس نے اس مطلب کو قرآن سے لیا ہے ۔(۲)

بخاری (ت ۲۵۶ ھ) اور تقیہ

بخاری نے اپنی مشروعیت تقیہ پر لکھي هوئي کتاب "الاکراہ " میں مختلف روایات کو دلیل کے طور پر نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کا نظریہ کیا ہے ؟ وہ اس آیہ شریفہ کو نقل کرتا ہے :

( ومَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مطْمَئنِ‏ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا

) ____________________

۱۔ طبری ؛ جامع البیان ، ج۶، ص ۳۱۶۔

۲۔ تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرقہ ہای اسلامی غیر شیعی،ص۱۲۶۔

(

۱۳۹

فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۔(۱)

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے ۔۔۔۔ علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ۔۔۔۔اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔

( لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَن يَفْعَلْ ذَالِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فىِ شى‏ءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَئةً ) (۲)

خبردار صاحبانِ ایمان ۔مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔(۳)

____________________

۱ ۔ نحل ۱۰۶۔

۲۔ آلعمران ۲۸۔

۳۔ صحیح بخاری، کتاب الاکراہ ۔

۱۴۰