تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 62829
ڈاؤنلوڈ: 1487

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62829 / ڈاؤنلوڈ: 1487
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

المؤمن،حرز المؤمن » کہا گیا ہے جس کے ذریعےاپنی جان اور دوسروں کی جان بچائی جاتی ہے۔

۳ ـ دوسروں کی حفاظت کرنا

کبھی اپنے عقیدے کا اظہار کرنا اپنے اثر رسوخ کی وجہ سے اپنی ذات کیلئے تو کوئی ضرر یا ٹھیس پہنچنے کا باعث نہیں بنتا، لیکن ممکن ہے یہی دوسروں کیلئے درد سر بنے ۔ ایسی صورت میں بھی عقیدہ کا اظہار کرنا صحیح نہیں ہے ۔

اهل بيت اطہار کے بعض اصحاب اور انصار کی حالات زندگی میں ایسے موارد دیکھنے میں آتےہیں کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم و جابر حکمرانوں کی طرفسے لوگ ان کا پیچھا کررہے تھے ، ان کا اپنے اماموں سے ملنا جابر حکمرانوں کا ان کی جانی دشمنی کا باعث بنتا تھا۔ان میں سے کچھ موارد یہ ہیں :

۱۸۱

ایک دن زرارہؓ نے جو امام باقراور امام صادقعليه‌السلام کے خاص صحابیوں میں سے تھے ؛ امام جمعہ کو امام کی طرف سے ایک خط پہنچایا ، جس میں امام نے جو لکھا تھا اس کا مفہوم یہ تھا : میری مثال حضرت خضرعليه‌السلام کی سی ہے اور تیری مثال اس کشتی کی سی ہے جسے حضرت خضرعليه‌السلام نے سوراخ کیا تاکہ دشمن کے شرسے محفوظ رہے ۔اور تیرے سر پر ایک ظالم اور جابر بادشاہ کھڑا ہے ، جو کشتیوں کو غصب کرنے پر تلا ہوا ہے ، جس طرح حضرت خضرعليه‌السلام نے اس کشتی کو سوراخ کیا تاکہ غاصب اس کو نہ لے جائے، اسی طرح میں بھی تمہیں محفلوں میں کبھی کبھی ڈراتااور مذمت کرتا رہوں گا ، تاکہ تو فرعون زمان کے شر سے محفوظ رہے ۔

تقيه کے حدود کو سرکرنے والوں کےسردار امام حسينعليه‌السلام فرماتے ہیں :

انّ التقية يصلح اﷲ بها امّة لصاحبها مثل ثواب اعمالهم فان تركها اهلك امّة تاركها شريك من اهلكهم ۔(۱)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه، ج۴ ،باب ۲۷ ۔

۱۸۲

ایسا تقيه کرنے والاجوامت کی اصلاح کا سبب بنے تواسے پوری قوم کے اچھے اعمال کا ثواب دیا جائے گا ۔ کیونکہ اس قوم کی طاقت اور قوت کو زیادہ خدمت کرنے کیلئے اس نے محفوظ کیا ۔ لیکن اگرایسے موارد میں تقیہ کو ترک کرے اور ایک امت کو خطرے میں ڈالے تو ظالموں کے جرم میں یہ بھی برابر کا شریک ہوگا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موارد میں تقیہ کا تر ک کرنے والا قاتلوں کے جرم میں برابر کا شریک بنتا ہے۔(۱)

وہ روایات جو وجوب تقيه پردلالت کرتی ہیں

۱ ـ راوی امام صادقعليه‌السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے اس آیہ شریفہ« اوليك يؤتون اجرهم مرّتين بما صبروا »" وہ لوگ جنہیں ان کے صبر کے بدلے دو مرتبہ ثواب دیا جائے گا " کے ذیل میں فرمایا:

____________________

۱ ۔ تقيه سپري عميقتر، ص ۸۲۔

۱۸۳

بما صبروا علي التقية و يدرؤن بالحسنة السيّئة، قال : الحسنة التقية و السيّئة الاذاعة ۔(۱)

تقیہ پر صبر کرنے پر دوگنا ثواب دیا جائے گا اور یہ لوگ حسنات کے ذریعے اور سیئات کو دور کرتے ہیں اور حسنہ سے مراد تقیہ ہے اور سیئات سے مراد آشکار کرنا ہے ۔

۲ ۔ حسن كوفي نے ابن ابي يعفورسے اور اس نے امام صادقعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ امام ؑ نے فرمایا:

قال اتقوا علي دينكم احجبوه بالتقيه فانّه لا ايمان لمن لا تقية له انّما انتم في الناس كالنحل في الطير ولو انّ الطير يعلم ما في اجواف النحل ما بقي منها شيء الّا اكلته ولو ان الناس علموا ما في اجوافكم انّكم تحبونا اهل البيت عليهم‌السلام لاكلو كم بالسنتهم و لنحلوكم في السرّ والعلانية رحم الله عبدا منكم كان علي ولايتنا ۔(۲)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف، ص۴۶۰ ۔

۲ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف ، ص ۴۶۱۔

۱۸۴

امامعليه‌السلام نے فرمایا: اپنے دین اور مذہب کے بارے میں هوشيار رہو اور تقیہ کے ذریعے اپنے دین اور عقیدے کو چھپاؤ ، کیونکہ جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئي ایمان نہیں ۔ اور تم لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہو کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں میٹھا شہد ہے تو کبھی شہد کی مکھی کو زندہ نہیں چھوڑتے ۔اسی طرح اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیت کی محبت موجود ہے ، تو زخم زبان کے ذریعے تمہیں کھا جائیں گے ۔اور تم پر مخفی اور علانیہ طور پر لعن طعن کریں گے ۔خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کے پیروکار ہیں ۔

۳ ۔عن ابي جعفر عليه‌السلام : يقول لاخير فيمن لا تقية له، ولقد قال يوسف عليه‌السلام : ايّتها العير انّكم لسارقون و ما اسرقوا لقد قال ابراهيم عليه‌السلام : انّي سقيم و اﷲ ما كان سقيما ۔(۱)

امام باقرعليه‌السلام نے فرمایا : جس میں تقیہ نہیں اس میں کوئی خیر نہیں ۔ بہ تحقیق حضرت یوسفعليه‌السلام

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف ، ص ۴۶۴۔

۱۸۵

نے فرمایا: ايّتها العير! بیشک تم لوگ چور ہو ۔ جبکه انہوں نے کوئی چیز چوری نہیں کی تھی ۔ اور حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے فرمایا میں بیمار ہوں۔خدا کی قسم !حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے ۔

کیابطورتقیہ انجام دئے گئے اعمال کی قضا ہے؟

ہمارے مجتہدین سے جب سوال هوا : هل يجب الاعاده و القضاء في مقام التقيه أم تقول بالاجزاء؟ کيا تقيه کے طور پر انجام دئے گئے اعمال کا اعاده يا قضا کرناواجب هے يا نهيں ؟مجتہدین اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ علم فقہ کی دو قسم ہے :

الف: عبادات

ب: معاملات

عبادات سے مراد یہ ہے کہ ان کا انجام دینا تعبدی ہے کہ جن میں قصد قربت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اورحج وغیرہ۔ جب عبادت ایک زمانے سے مختص ہو جیسے نماز ظہر و عصر جو مقید ہے زوال شمس اور غروب شمس کے درمیان ادا کی جائے ، ورنه قضا ہوجائے گی۔

۱۸۶

پس خود عبادت کی دو قسمیں ہیں: ( ادائيه و قضائيه)

اگر عبادات ناقص شرائط يا اجزاء کے سا تھ ہوں تو وقت کے اندر ان کا اعادہ اور وقت کے بعدقضاء واجب ہے ۔

اب جو فعل تقیہ کے طور پر انجام پایا ہو وہ اگر عبادت ہے تواعادہ لازم نہیں ہے کیونکہ تقیہ میں ادا اور قضاء کی بحث ہی نہیں ہے ۔

شيخ مرتضیٰ انصاري اس سؤال کے جواب میں کہ کیا اعاده يا قضاء واجب ہے ؟ فرماتے ہیں اگر شارع اقدس نے واجب موسع کےتقیہ کے طور پر انجام دینے کی اجازت دی ہے ، تویہ اجازت یا کسی خاص مورد میں ہے یا عام موارد میں ۔ بعنوان مثال شارع اقدس نے اجازت دی ہے کہ نماز یا مطلق عبادات تقیہ کے طور پر انجام دی جائیں ، وقت ختم ہونے سے پہلے تقیہ کی علل و اسباب دور ہوجائیں تو یہ سزاوار ہیں کہ وہ اجزاء جو تقیہ کی وجہ سے ساقط ہوئے تھے انجام دیے جائیں لیکن اگر شارع نے واجب موسع کو تقیہ کی حالت

۱۸۷

میں انجام دینے کی اجازت دی ہے خواہ خصوصی ہو یا عمومی ، تو بحث اسی میں ہے کہ کیا یہ تقیہ والا حکم کو بھی شامل کرے گا یا نہیں ؟

بلكه آخر کلام یہ ہے کہ حالت تقیہ میں دیا گیا حکم مکلف سے ساقط ہو جاتا ہے ، اگرچہ وقت وسیع ہی کیوں نہ ہو۔(۱)

اس کے بعد شيخ انصاري تفصيل کے قائل ہوگئے ہیں :اگر یہ شرائط اور اجزاءکا شمول عبادات میں کسي بھي صورت ميں ضروري ہے خواہ اختیاری ہو یا اضطراری ، تو یہاں مولا کا حکم مکلف سےساقط ہو جاتا ہے کیونکہ اجزاء میں کمی بیشی تقیہ کی وجہ سے ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ معذور تھا ۔اگر چہ یہ عذر تمام وقت میں باقی رہے ۔ جیسے نماز کا اپنے وقت میں ادا کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ سرکہ کے ساتھ وضو کرے ۔باوجودیکہ سرکہ میں کوئی تقیہ نہیں ۔درنتیجہ نماز کا اصل حکم منتفی ہوجاتا ہے ، کیونکہ نماز کیلئے شرط

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۷۔

۱۸۸

ہے کہ پانی کے ساتھ وضو کرے ۔

لیکن اگر یہ اجزاءاورشرائط دخالت رکھتا ہو اور مکلف کیلئے ممکن بھی ہو تو واجب ہے ورنہ نہیں ۔

اگر یہ اجزاء تمام وقت میں ادا ہوں تو ان کا حکم پہلے ہی سے ساقط نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے جتنا ممکن ہو انجام دیں ۔

اور اگراجزاء میں عذروقت کے اندر ہو ،خواہ اس عذر کا رفع ہونے کی امید ہو یا نہ ہو ، فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ آخر وقت تک انتظار کرے یا انجام دیدے ۔

لہذا جو بھی عبادات تقیہ کے طور پر ادا کی گئی ہیں وہ عبادات صحیح ہیں کیونکہ شارع نے انہیں تقیہ کی حالت میں انجام دینے کی اجازت دی ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۸۔

۱۸۹

کیا خلاف تقيه کا عمل باطل ہے ؟

اگرکوئی مولا کے حکم کی مخالفت کرے اور اس کا عمل حکم شرعی کے مطابق نہ ہو تو وہ باطل ہوجاتا ہے ۔اور اگر کسی پر تقیہ کرنا واجب ہوگیا تھا لیکن اس نے تقیہ نہیں کیا تو کیا اس کا عمل بھي باطل ہوجائے گا یا نہیں ؟

شيخ انصاري فرماتے هيں : اگر تقیہ کی مخالفت کرے جہاں تقیہ کرنا واجب ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ بعض ترک شدہ عمل اس میں انجام پائے ۔ تو حق یہ ہے کہ خود تقیہ کا ترک کرنا عقاب کا موجب ہو گا ۔ کیونکہ مولا کے حکم کی تعمیل نہ کرنا گناہ ہے ۔

پس قاعدہ کا تقاضا یہ ہے کہ یہ فعل بھی باطل ہوگا ۔ بالفاظ دیگر ہم ادلہ کے تابع ہیں اور موارد تقیہ میں ہیں ۔ اس کے بعد شیخ ایک توہّم ایجاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شارع اقدس نے تقیہ کی صورت میں اسی فعل کا انجام دینے کا حکم دیا ہے ۔

۱۹۰

لیکن یہ توہّم صحیح نہیں ہے کیونکہ تقیہ کے ساتھ قید ایک بيروني قید ہے جس کا کوئی اعتبارنہیں ہے ۔اور نہ هي شرعی قید بطلان کا موجب ہے ۔(۱)

امام خميني اس عنوان «ان ترك التقية هل يفسد العمل ام لا؟» کے تحت فرماتے ہیں کہ اگر تقيه کے برخلاف عمل کریں تو صحيح ہے ، کیونکہ تقیہ کا حکم ہونا موجب نہیں بنتا کہ عمل سے بھی روکےجیسا کہ علم اصول کا مسلم قاعدہ ہے:

انّ الامر بالشيئ لا يقتضي النهي عن ضدّه ۔

امام خميني کے مطابق یہ ہے کہ چونکہ ایک عنوان سے روکا گيا هے اور دوسرے عناوین میں بطور مطلق تقیہ کے خلاف عمل کرنا صحیح ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۴۔

۲۔ التقيه في رحاب العلمين،ص۲۵۔

۱۹۱

وہ موارد جہاں تقيه کرنا حرام ہے

تقیہ عموما ً دو گروہ کے درمیان مورد بحث قرار پاتا ہے اور یہ دونوں کسی نہ کسی طرح صحیح راستے سے ہٹ چکے هوتے ہیں ۔اور اپنے لئے اور دوسروں کے لئے درد سر بنے هوتے ہیں:

پہلا گروه :

وہ مؤمنین جو ترسو اور ڈرپوک ہیں اور وه لوگ کوئی معلومات نہیں رکھتے، دوسرے لفظوں میں انہیں مصلحت اندیشی والے کہتے ہیں کہ جہاں بھی اظہار حق کو ذاتی مفاد اور منافع کے خلاف دیکھتے ہیں یا حق بات کا اظہار کرنے کی جرٲت نہیں ہوتي، تو فوراً تقیہ کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

التقية ديني و دين آبائي لا دين لمن لاتقية له ۔

تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے ، جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے ۔اس طرح دین اور مذہب کا حقیقی چہرہ مسخ کرتے ہیں ۔

دوسرا گروہ:

نادان یا دانا دشمن ہے جو اپنے مفاد کی خاطر اس قرآنی دستور یعنی تقیہ

۱۹۲

کےمفہوم کو مسخ کرکے بطور کلی آئین اسلام یا مذہب حقہ کو بدنام کرنے کی کوشش ميں لگا رهتا ہے ۔يه لوگ تقيه کے مفہوم میں تحریف کرکے جھوٹ ،ترس،خوف ، ضعیف ، مسئولیت سے دوری اختیار کرنا، ۔۔۔کا معنی کرتے ہیں ۔ سرانجام اس کا یہ ہے کہ و ہ اپني ذمه داري کو نبھانے سے دوري اختیار کرتے ہیں ،

ان دونوں گروہ کي غلطي دور کرنے کیلئے کافی ہے کہ دو موضوع کی طرف توجہ کریں ۔

۱۔ تقيه کامفهوم

مفهوم تقيه کے بارے میں پہلے بحث کرچکے ہیں ، کہ تقیہ کامعنی خاص مذہبی عقیدہ کا چھپانا اور کتمان کرنا ہے ۔ اور وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ ہر قسم کے عقیدے ، فکر ، نقشہ، یا پروگرام کااظهار نه کرنا ،تقیہ کہلاتا ہے ۔

۲۔ تقيه کاحكم

ہمارے فقهاء اور مجتہدین نے اسلامی مدارک اور منابع سے استفاده کرتے ہوئے تقیہ کو تین دستوں میں تقسیم کیا ہے : ۱ ـ حرام تقيه ۲ ـ واجب تقيه ۳ جائز تقيه۔

۱۹۳

اور کبھی اسے پانچ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں : مکروہ اور مباح کو بھی شامل کرتے ہیں ۔لہذا یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تقیہ نہ ہر جگہ واجب ہے اور نہ ہرجگہ حرام یا مکروہ ، بلکہ بعض جگہوں پر واجب ،و مستحب اور بعض جگہوں پر حرام یا مکروہ هے۔اسي لئے اگر کسی نے حرام مورد میں تقیہ کیا تو گویا اس نے گناہ کیا ۔

كلي طورپر جب بھی تقیہ کر کے محفوظ کئے جانے والا ہدف کے علاوہ کوئی اور ہدف جو زیادہ مہمتر ہو ، خطرے میں پڑ جائے تو اس وقت تقیہ کا دائرہ توڑنا واجب ہے ، چوں کہ تقیہ کا صحیح مفہوم ؛ قانون اہم اور مہم کے شاخوں میں سے ایک شاخ ہے جب یہ دونوں ہدف آپس میں ٹکرا جائیں تو اہم کو لیتے ہیں اور مہم کو اس پر فدا کيا جاتا ہے۔

یہی اهم اور مهم کا قانون کبھی تقيه کو واجب قرار دیتا ہے اور کبھی حرام۔ روایات کي روشني میں بعض موارد ميں تقیہ کرنا حرام ہے ،اور وہ درج ذیل ہیں:

۱۹۴

۱۔ جہاں حق خطر ے میں پڑ جائے

جہاں اپنے عقیدے کو چھپانا مفاسد کا پرچار اور کفر اور بے ایمانی یا ظلم وجور میں اضافہ اور اسلامی ستونوں میں تزلزل اور لوگوں کا گمراہی اور شعائریا احکام اسلامی کا پامال ہونے کا سبب بنے تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے ۔ لہذا ایسے مواقع پر اگر ہم کہیں کہ تقیہ مباح ہے تو یہ بھی بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ اور اس قسم کا تقيه « ويران گر تقيه » کہلائے گا ۔پس وہ تقیہ مجاز یا واجب ہے جو مثبت اورمفيد ہو اور اہداف کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہ بنتا ہو۔

۲۔جہاں خون خرابہ کا باعث ہو

جہاں خون ریزی ہو اور بے گناہ لوگوں کی جان مال کو خطرہ ہو تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے ۔ جیسا کہ اگر کوئی مجھ سے کہہ دے کہ اگر فلاں کو تم قتل نہ کرو تو میں تجھے قتل کردوں گا۔ تو اس صورت میں مجھے حق نہیں پہنچتا کہ میں اس شخص کو قتل کروں ۔ اگرچہ مجھے یقین ہوجائے کہ میری جان خطرے میں ہے ۔

۱۹۵

ایسی صورت میں اگر کوئی کہہ دے کہ ہمارے پاس روایت ہےکہ (المأمور معذور )۔ لہذا اگر میں فلاں کو قتل کروں تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معروف جملہ «المامور معذور » سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کی اصلی سند « شمر» تک پہنچتی ہے ۔(۱) اسے کوئی عاقل اور شعور رکھنے والا قبول نہیں کرسکتا۔کیونکہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی جان بچانے کی خاطر کسی دوسرے بے گناہ کی جان لے لے ۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ قاتل ہوگا ۔ چنانچه امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتے ہیں :

انّما جعل التقية ليحقن بها الدم فاذا بلغ الدم فليس التقية ۔(۲)

تقيه شریعت میں اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ قومی اور انفرادی قدرت ضائع نہ ہو ، اپنے اور دوسروں کے خون محفوظ رہیں ۔ اور اگر خون ریزی شروع ہوجائے تو تقیه جائز نہیں ہے ۔

____________________

۱۔ مكارم شيرازي؛ تقيه مبارزه عميقتر،ص ۷۱۔

۲ ۔ شيخ اعظم انصاري؛ مكاسب، ج ۲، ص ۹۸۔

۱۹۶

۳۔ جہاں واضح دليل موجود ہو

وہ موارد جہاں واضح طور پرعقلی اور منطقی دلائل موجود ہوں،جیسے اسلام میں شراب نوشی کی ممانعت هے يهاں تقيه کرکے شراب پينے کي اجازت نهيں هے ۔اور تقیہ حرام ہے یہاں عقیدہ چھپانے کی بجائے عقلی اور منطقی دلائل سے استدلال کریں ۔اور ایسا حال پیدا کریں کہ مد مقابل کو یقین ہوجائے کہ یہ حکم قطعی ہےاور اس کا اجراء کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔لیکن کبھی بعض ڈرپوک اور بزدل لوگ جب شرابیوں کے محفلوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ بجائے اعتراض کرنے کے ، ان کے ساتھ ہم پیالہ ہو جاتے ہیں ۔ یا اگر نہیں پیتے تو کہتے ہیں کہ شراب میرے مزاج کیلئے مناسب نہیں ہے ۔لیکن یہ دونوں صورتوں میں مجرم اور خطاکارہے۔یا صراحت کے ساتھ کهه ديں کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے شراب نہیں پیتے ۔

اسی طرح اجتماعی ، معاشرتی اور سیاسی وظيفے کی انجام دہی کے موقع پر بھی دو ٹوک جواب دینا چاہئیں ۔

۱۹۷

۴۔ جہاں احکام شریعت بہت زیادہ اہم ہو

بعض واجبات اور محرمات جو شارع اور متشرعین کے نزدیک زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، وہاں تقیہ جائز نہیں ہے ۔جیسے اگر کوئی خانہ کعبہ کی بے حرمتی یا انہدام کرنے کی کوشش کرے یا اسی طرح اور دینی مراکز جیسے مسجد ، آئمہ کی قبور کی بے حرمتی کرے تو وہاں خاموش رہنا جرم ہے ، اسی طرح گناہان کبیرہ کے ارتکاب پر مجبور کرے تو بھی انکار کرنا چاہئے ۔ایسے موارد میں تقیہ ہرگز جائز نہیں ہے۔

۱۹۸

چھٹی فصل

تقیہ کے بارے میں شبہات اور ان کا مدلّل جواب

۱۹۹

چھٹی فصل:

تقيه کے بارے میں شبہات اور ان کا مدلّل جواب

آئمہ طاہرین کے زمانے میں دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف سے شیعوں پر مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے؛ ان میں سے ایک تقیہ ہے ۔

۲۰۰