تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 62591
ڈاؤنلوڈ: 1483

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62591 / ڈاؤنلوڈ: 1483
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

سب سے پہلا اشکال اور شبہہ پیدا کرنے والا سلیمان بن جریر ابدی ہے جو فرقہ جریرہ کا رہبر ہے ۔ وہ امام صادقعليه‌السلام کا ہم عصر ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ شیعوں کے امام جب کسی خطا کے مرتکب ہوتے تھے تو تقیہ کو راہ فرار کے طور پر بیان کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ یہ تقیہ کے طور پر انجام دیا گیا ہے ۔(۱)

یہی اشکال، اس کے بعد مختلف کلامی اور تفسیری کتابوں میں اہل سنت کی جانب سے کرنے لگے ۔ بعد میں شیعہ بڑے عالم دین سيد شريف مرتضي معروف به علم الهدي ( ۳۵۵ ـ ۴۳۶) ق نے ان شبہات اور اشکالات کا جواب دیا ہے۔(۲)

____________________

۱ ۔ نوبختي، فرق الشيعه ، ص۸۵۔

۲ ۔ شيخ انصاري، رسائل ، ج۱،ص ۲۹۰، ۳۱۰۔

۲۰۱

فخر رازي( ۵۴۴ ـ ۶۰۶ ه ) صاحب تفسير كبيرنے « مفاتيح الغيب»میں سليمان ابن جرير کے تقیہ کے بارے میں اس شبہہ کوتكرار کیا ہے، جس کا جواب خواجه نصير الدين طوسي ( ۵۷۹ ـ ۶۵۲ ق) نےدیا ہے ۔(۱)

سب سے زیادہ شبهات گذشتہ دور میں تقي الدين احمد معروف ابن تيميه ( ۶۶۱ ـ ۷۲۸ ق) کی کتاب منهاج السنّه ، میں دیکھنے میں آتا ہے جو مجموعاً پانچ اشکالات پر مشتمل ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ المحصل ، ص ۱۸۲۔

۲ ۔ ابن تيميه ؛ منهاج السنّه النبويه، ج ۱،ص۱۵۹۔

۲۰۲

ابن تیمیہ کے اشکالات کی تفصیل

ابن تیمیہ کے وہ شبهات (جوتقیہ سے مربوط ہیں) کو تین حصوں میں تقسيم كرسکتے ہیں :

۱. اصل تشریع تقیہ سے مربوط شبہات

۲. امام معصوم سے مربوط شبہات

۳. شیعوں سے مربوط شبہات

الف:تشريع تقيه سے مربوط شبهات اور ان کا جواب

o تقيه یعنی جھوٹ۔

o تقيه یعنی منافقت۔

o تقيہ امر به معروف و نهي ازمنكرکی ضد۔

۲۰۳

o تقيه جهادکی ضد۔

o تقيه اورآيات تبليغ کے درمیان تعارض۔

o تقيه یعنی ظلم۔

۱۔تقيه یعنی جھوٹ :

ابن تیمیہ اس شبہہ کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا ایک قبیح اور بری چیز ہے اور خدا تعالی نے بری چیز کو حرام قرار دیا ہے ، پس تقیہ بھی خدا کے نزدیک قبیح اور بری چیز ہے ۔اور جائز نہیں ہے ۔اس اشکال کیلئے دو جواب دئے جاتے ہیں:

پہلا جواب: اگر تقیہ جھوٹ ہے تو الله تعالي نے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کیوں تقیہ کرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے ؟!:جیسے آلعمران کي آيه نمبر ۲۸ میں فرمایا :( الّا ان تتقوا منهم، )

اورسوره نحل کي آيه ۱۰۶ میں فرمایا :

۲۰۴

( الا من اكره و قلبه مطمئن بالايمان ) ۔

اللہ تعالی نے صرف تقیہ کرنے کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ مجبوری کے وقت تقیہ کرنے کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور تقيه کرنے کا شوق دلايا ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا جب کافروں کی طرف سے مجبور کیا جائے اور تقیہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہ ہو تو وہاں کیا جھوٹ بولنا صحیح نہیں ہے ؟ کیونکہ ہر جگہ جھوٹ بولنا برا نہیں ہے ۔ جیسے اگر کسی دو مسلمان بھائیوں کے درمیان الفت اور محبت پیدا کرنے اور خون و خرابہ سے بچنے کیلئے جھوٹ بولنا جائز ہے ، کیونکہ اگر سچ بولیں تو جھگڑا فساد بڑھ سکتاہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ اشکال دومقدمے (صغری اور کبری) سے تشکیل پاتا ہے ۔ صغری میں کہا ہےکہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے ۔ یہ صغری ہر مصداق اور مورد میں صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ تقیہ اخفائی یعنی واقعیت کے بیان کرنے سے سکوت اختیار کرنے کو کوئی جھوٹ نہیں کہتا ۔ بلکہ یہ صرف تقیہ اظہاری میں صدق آسکتا ہے ۔ وہ بھی توریہ نہ کرنے کی صورت میں ۔

۲۰۵

پس تقیہ کے کچھ خاص موارد ہیں جہاں تقیہ کا مصداق کذب اور جھوٹ ہے۔

لیکن کبری ٰ یعنی جھوٹ بولنا قبیح اور برا ہے ؛ یہاں کہیں گے کہ جھوٹ ہر جگہ برا نہیں ہے ۔کیونکہ مختلف عناوین کو حسن و قبح کی کسوٹی پر ناپا جاتا ہے تو ممکن ہے درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے :

۱. یا وہ عنوان حسن و قبح کیلئے علت تامہ ہے ۔جیسے حسن عدالت اور قبح ظلم۔انہیں حسن و قبح ذاتی کہا جاتا ہے ۔

۲. یا وہ عنوان جو خود بخود حسن و قبح کا تقاضا کرتا ہو ، بشرطیکہ کوئی اور عنوان جو اس تقاضے کو تبدیل نہ کرے ،اس پر صدق نہ آئے ۔جیسے کسی یتیم پر مارنا خود بخود قبیح ہے لیکن اگر ادب سکھانے کا عنوان اس پر صدق آجائے تو یہ قباحت کي حالت سے نکل آتا ہے ۔ایسے حسن و قبح کو عرضی کہتے ہیں۔

۳. یا وہ عنوان جو حسن و قبح کے لحاظ سے متساوي الطرفين ہو ۔اور حسن و قبح سے متصف ہونے کیلئے مختلف شرائط کی ضرورت ہو ۔ جیسے کسی پر مارنا

۲۰۶

اگر ادب سکھانے کیلئے ہو تو حسن ہے اور اگر اپنا غم و غصہ اتارنے کیلئے مارے تو قبیح ہےليکن اگر کسی بےجان چیز پر مارے تو نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے ۔

اور یہاں ہم اس وقت جھوٹ بولنے کو قبیح مانیں گے کہ پہلا عنوان اس پر صدق آتا ہو جب کہ ایسا نہیں ہے ۔اور عقلاءنے بھی اسے دوسری قسم میں شمار کیا ہے۔ کہ جب بھی کوئی زیادہ مہمتر مصلحت کے ساتھ تزاحم ہو تو اس کی قباحت دور ہوجاتی ہے ، جیسے : ایک گروہ کا خون خرابہ ہونے سے بچانے کیلئے جھوٹ بولنے کو ہر عاقل شخص جائز سمجھتا ہے۔

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں كه قرآن او ر پیغمبر اسلام (ص) نے عماربن یاسر کے تقیہ کرتے ہوئے جھوٹ بولنے اور کفار کے شر سے اپنی جان بچانے کومورد تائید قرار دیا ہے ۔

۲۰۷

شيخ طوسی  کا جواب

تقيه جھوٹ نہیں ہے کیونکہ ،الكذب ضد الصدق و هو الاخبار عن الشيء لا علي ما هو به ۔(۱) جھوٹ سچائی کی ضد ہے اور جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی خبر دے، جس کي کوئي حقيقت نہ ہو۔

پس جھوٹ کے دو رکن ہیں:

الف: کسی واقعے کے بارے میں خبر دینا ۔

ب: اس خبر کا واقعیت کے مطابق نہ ہونا۔

جبکہ تقیہ کے تین رکن ہیں :

الف:حق بات کا چھپانا۔

ب: مخالفین کے ساتھ موافقت کا اظہار کرنا ۔

____________________

۱ ۔ محمود، يزدي؛ انديشه كلامي شيخ طوسي، ص ۲۷۹۔

۲۰۸

ج: اور یہ دونوں رکن اس لئے ہوں کہ دشمن کے شر سے اپنی جان یا مال کی حفاظت کرے۔

لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ اخباری ہے اور تقیہ دشمن کو برحق ظاہر کرنا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھی ہے وہ بھی حق ہو، جبکہ تقیہ میں یہ شرط ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھی ہے وہ بھی حق ہو ۔

۲۔تقيه يعني منافقت!

ممكن ہے کوئی یہ دعوا كرے کہ جو مکر اورفریب منافق لوگ کرتے ہیں ، تقیہ بھی اسی کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ منافق دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے زبان پر ایسی چیزکا اظہار کرتے ہیں جس کے برخلاف دل میں چھپا رکھی ہو ۔

۲۰۹

شيخ طوسي اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتےہیں کہ مخادع اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دل میں موجود بات کے برخلاف زبان پر اظہار کرے تاکہ جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس سے وہ محفوظ رہے ۔اسی لئے منافق کو مخادع کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ زبان کے ذریعے اسلام کاکلمہ پڑھ کر کفر کی مہر لگنے سے فرار کرکے اپنی جان بچاتا ہے ۔ اگر چہ منافق ،مؤمن کو ظاہراً زبان کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے ۔

یہ درست ہے کہ تقیہ میں بھی باطن کے خلاف بات کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جان بچاتا ہے ؛ لیکن یہ دونوں ( تقیہ اور نفاق) اصولاًباہم مختلف اور متفاوت ہے۔اور دونوں قابل جمع بھی نہیں۔

امام صادقعليه‌السلام اس مختصر حدیث میں مؤمن ہونے کا دعوا کرنے اور ایسے موارد میں تقیہ کا دامن پکڑنے والوں کو شدید طور پر ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

و ايّم اﷲ لو دعيتم لتنصرونا لقلتم لا نفعل انّما نتقي و لكانت التقيه احبّ اليكم من آبائكم و اّهاتكم ، ولو قد قام القائم ما

۲۱۰

احتاج الي مسائلكم عن ذالك و لا قام في كثير منكم حدّ النفاق ۔(۱)

خدا کی قسم ! اگر تمہیں ہماری مدد کیلئے بلائے جائیں تو کہہ دینگے ہر گز انجام نہیں دیں گے،کيونکه ہم تقیہ کی حالت میں ہیں ۔تمہارے والدین کا تقیہ کرنا تمہارے نزدیک زیادہ محبوب ہے ، اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور ہماری حکومت تشکیل دے گی، تو خدا کی قسم بغیر سوال کئے ، منافقین کو سزا دینا شروع کریگا جنہوں نے تمہارا حق مارا ہے ۔

یہ حدیث بتا تی ہے کہ امام  اپنے بعض نادان دوستوں کے بے موقع تقیہ کرنے کی وجہ سے غم و غصه کا اظہار فرما تے ہوئے نفاق اور تقیہ کے درمیان حد فاصل کو واضح فرمارہے ہیں ۔

اپنے مقدس اہداف کی ترقی کی خاطر پرده پوشي کرنے اور چھپانے کا نام تقیہ ہے اور جائز ہے ۔اجتماعی اور الہی اہداف کی حفاظت کی خاطر اپنا ذاتی اہداف کو فدا کرنے کا نام

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه، ج ۲ ، باب ۲۵۔

۲۱۱

تقیہ ہے ۔اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی اور قومی مفاد کو قربان کرے تو وه منافق کهلائے گا۔

ایک اور حدیث میں امامعليه‌السلام سے منقول ہے :جب بھی انسان ایمان کا اظہار کرے ،لیکن بعد میں عملی میدان ميں اس کے برخلاف عمل کرے تو وہ مؤمن کی صفات سے خارج ہے ۔ اور اگراظہار خلاف ایسے موارد میں کیا جائے جہاں تقیہ جائز نہیں ہے تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے:

لانّ للتقيه مواضع من ازالها عن مواضعها لم تستقم له(۱)

کیونکہ تقیہ کی بھی کچھ حدود ہیں جو بھی اس سے باہر قدم رکھے گاتو وہ معذور نہیں ہوگا ۔اور حدیث کے آخر میں فرمایا : تقیہ وہاں جایز ہے جہاں دین اور ایمان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو ۔

«كميت» شاعر كه جو مجاہدوں کی صف میں شمار ہوتا ہے کہ اپنے ذوق شاعری

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ,ج ۶ ، باب ۲۵۔

۲۱۲

سے استفادہ کرتے ہوئے بنی عباس کے دور خلافت ميں اس طاغوتی نظام کے خلاف قیام کیا اور مكتب اهل بيتعليهم‌السلام کی حمایت کی ۔ ایک دن امام موسي ابن جعفر  کی خدمت میں پہنچا ، دیکھا کہ امام  کا چہرہ بگڑا ہواهے ۔ جب وجہ پوچھي توشدید اور اعتراض آميز لہجے میں فرمایا :کیا تونے بنی امیہ کے بارے میں یہ شعرپڑھا ہے ؟!

فـالان صرت ا لي امة و الامم لها الي مصائر

ابھي تو ميں خاندان بني اميه کي طرف متوجه هوا هوں اور ان کا کام ميري طرف متوجه هورها هے ۔

كميت کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: مولا !اس شعر کو میں نے پڑھا ہے لیکن خدا کی قسم میں اپنے ایمان پر باقی ہوں اور خاندان اہل بیتعليهم‌السلام سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کے دوستداروں سے بھی محبت رکھتا ہوں اور اسی لئےآپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں؛ لیکن اسے میں نے تقیۃً پڑھا ہے ۔

امام  نے فرمایا:اگر ایسا ہو تو تقیہ ہر خلاف کاروں کیلئے قانونی اور شرعی مجوز بنے گا ۔اور شراب خوری بھی تقیہ کے تحت جائز ہوجائے گی۔اور بنی عباس کی حکومت کا دفاع کرنا بھی جائز ہوجائے گا۔ اس قسم کے تقیہ سے تملّق ،چاپلوسي اور ظالموں کی ثنا خوانی کا

۲۱۳

بازار گرم اور پر رونق ہوجائے گا۔اور نفاق ومنافقت بھی رائج ہوجائے گی۔(۱)

۳۔تقيه، جهادکے متنافی

اشکال يه ہے :

اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے ۔ جبکہ اس جہاد کی خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں ۔(۲)

جواب:

اسلامي احكام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

۱. وہ احکامات جن کا اجراء کرنا کسی جانی ضرر یا نقصان سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر ۔

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر، ص ۷۰۔

۲۔ قفاري ؛ اصول مذهب الشيعه، ج۲، ص ۸۰۷۔

۲۱۴

۲. وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنےکاسبب بنتا ہے ۔جیسے زکوۃ اور خمس کا ادا کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ ۔

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے ۔ کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے ۔لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے ۔اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد بھی واجب ہوجاتا ہے ۔اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔

۴۔تقيه اور آيات تبليغ کے درمیان تعارض

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیغمبر

۲۱۵

اکرم ؐکو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے ۔(۱)

۱ ۔( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّه لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ) ۔(۲)

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کرتا ہے۔

اس آيه مباركه میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف اور ڈر ہی کیوں نہ ہو۔

۲ ۔( الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللهَ وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبًا ) ۔(۳)

وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس

____________________

۱۔ ابوالفضل آلوسي؛ روح المعاني،ج ۳، ص ۱۲۵۔

۲ ۔ مائدہ۶۷۔

۳ ۔ احزاب ۳۹۔

۲۱۶

کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے۔

اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالی کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:

( إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللهُ مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَونَ بِهِ ثمَنًا قَلِيلاً أُوْلَئكَ مَا يَأْكلُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّيهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ) ۔(۱)

جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

____________________

۱۔ بقرہ ۱۷۴۔

۲۱۷

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے ۔ اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے ۔ یہاں تقیہ بے مورد ہے ۔

لیکن اگر تبلیغ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے ۔ مثال کے طور پر ایک کم اہمیت والا فقہی فتويٰ دے کر کسی فقیہ یا عالم دین کی جان پچانا۔

۲۱۸

۵۔تقيه اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وهابي لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے ۔ خداتعالی نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے ۔ اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔(۱)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروئے کار لایا جائے تو ذلت کا باعث نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق کی بات کرنے سے سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ ذلت کا سبب ہے اور نہ مذمت کاباعث ۔

چنانچه عمار ابن ياسر نے ایسا کیا تو قرآن کریم نے بھي ان کی مدح سرائي کی ۔

____________________

۱ ۔موسي موسوي؛ الشيعه و التصحيح ، ص ۶۷۔

۲۱۹

۶۔تقيه ،ما نع امر به معروف

اشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے روکتی ہے ۔ کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا ۔جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہیں ۔جس کی تائید میں فرمایا :افضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر ۔ ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا بہترین جہاد ہے ۔

اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱ ـ امر به معروف و نهي از منكر مطلقًا جائز نہیں ۔ بلكه اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معيارہے كه اگر یہ شرائط اور معيار موجود ہوں تو واجب ہے ۔۔ورنه اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا ۔

من جمله شرائط امر به معروف و نهي از منكر میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے جرم ،جیسے قتل و غارت

۲۲۰