تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 62639
ڈاؤنلوڈ: 1484

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62639 / ڈاؤنلوڈ: 1484
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

میں مبتلا ہو جائے ۔ ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرنا جائز نہیں ہے ۔

۲ ـ وہ روایات جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اظہار کرنے کو ممدوح قرار دیتی ہیں ، وہ خبر واحد ہیں جو ادلہ عقلی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ یعنی تعارض کے موقع پر دلیل عقلی مقدم ہو گی ،اس سے دفع ضرر اور حفظ جان مراد ہے ۔(۱)

ب:امام معصومعليهم‌السلام کاتقيه سے مربوط شبهات

o تقيه بيان شريعت امامؑ کي ضد ہے۔

o تقيه روايات «سلوني قبل ان تفقدوني » سے تضاد رکھتا ہے ۔

____________________

۱ ۔ دكتر محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ص ۲۸۹۔

۲۲۱

o تقيه كلام امام ؑ پر عدم اعتمادکاموجب ـ

o تقيه یعنی تحليل حرام و تحريم حلال۔

o تقيه شجاعت کی ضد۔

o جہاں سکوت کرنا ممکن ہو وہاں تقیہ کی کیا ضرورت؟

o تقيه کے علاوه اور بھي راستے هيں ۔

o کیا تقيه ايك اختصاصي حكم ہے يا عمومي؟

o تقيه کیا خلاف عصمت نہیں؟

o تقیہ کیا علم امامؑ سے منافات نہیں رکھتا ؟۔

o تقيه کرنے کي صورت میں کیا دین کا دفاع ممکن ہے ؟

o کیوں ایک گروه نے تقيه كیا اور دوسرےگروه نے نہیں کیا ؟

اشکال کرنے والا اس مرحلے میں تقیہ کے شرعی جواز کو فی الجملہ قبول کرتا ہے ، کہ بعض موارد میں مؤمنین کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے ۔ لیکن دینی رہنماؤں جیسے امام

۲۲۲

معصومعليهم‌السلام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر دین کے رہنما تقیہ کریں تو درج ذیل اشکالات وارد ہوسکتے ہیں :

۱۔تقيه اور امامعليه‌السلام کا بیان شريعت

شیعہ عقیدے کے مطابق امام معصومعليهم‌السلام کے وجود مبارک کوشریعت اسلام کے بیان کیلئے خلق کیا گیا ہے ۔ لیکن اگر یہ حضرات تقیہ کرنے لگیں تو بہت سارے احکام رہ جائيں گےاور مسلمانوں تک نہیں پہنچ پائيں گے۔ اور ان کي بعثت کا فلسفہ بھي ناقص ہو گا۔

اسی سلسلے میں اہل سنت کے ایک عالم نے اشکال کیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے عليعليه‌السلام کو اظهار حق کی خاطر منصوب کیا ہے تو تقیہ کيا معني رکھتا ہے ؟!

اس شبہہ کا جواب یہ ہے كه معصومینعليهم‌السلام نے بہترین انداز میں اپنے وظیفے پر

۲۲۳

عمل کیا ہے لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں نے ان کے فرامين کو قبول نہیں کیا ۔

چنانچه حضرت عليعليه‌السلام کے بارے میں منقول ہے آپ ۲۵ سال خانہ نشین ہوئے تو قرآن مجید کی جمع آوری ، آیات کی شأن نزول ، معارف اسلامی کی توضیح اور تشریح کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ اور ان مطالب کو اونٹوں پر لاد کر مسجد میں مسلمانوں کے درمیان لے گئے تاکہ ان معارف سے لوگ استفادہ کریں ؛ لیکن خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے سے انکارکردیا ۔(۱)

جب امام نے يه حالت ديکھي تو خاص شاگردوں کي تربيت اور ان کو اسلامي احکامات اور دوسرے معارف کوتعليم ديتے هوئے اپنا شرعي وظيفه انجام دينے لگے ؛ ليکن يه هماري کوتاهي تھي که هم نے ان کے فرامين کو پس پشت ڈالا اور اس پر عمل نهيں کيا ۔

____________________

۱ ۔ محمد باقر حجتي؛ تاريخ قرآن كريم، ص ۳۸۷۔

۲۲۴

الف:امامعليه‌السلام کاتقيه اور اقوال

شيخ طوسي امام کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں:

۱. معتزلہ والے کہتے ہیں کہ امام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ امام ؑ کا قول ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کی طرح حجت ہے ۔

۲. اماميه والے کہتے ہیں کہ اگر تقیہ کے واجب ہونے کے اسباب نہ ہوں،کوئی اور مانع بھي موجود نہ ہو تو امام تقیہ کرسکتے ہیں ۔

شيخ طوسي کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ شرائط موجود ہوں۔

ب:امامعليه‌السلام کیلئے تقیہ جائز ہونے کے شرائط

 شرعی وظیفوں پر عمل پيرا هونا اور احکام کی معرفت حاصل کرنا اگر فقط امام ؑ پر منحصر نہ ہو جیسے امام ؑ کا منصوص ہونا فقط امام ؑ کے قول پر منحصر نہیں ہے بلکہ قول پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عقل سلیم کے ذریعے سے بھی مکلف

۲۲۵

جان سکتا ہے تو ايسي صورت ميں امام ؑ تقیہ کرسکتے ہیں ۔

 اس صورت میں امام ؑ تقیہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا تقیہ کرنا حق تک پہنچنے میں رکاوٹ نه بنے ۔ اورساتھ ہی شرائط بھی پوری ہوں۔

 جن موارد میں امام ؑ تقیہ کررہے ہیں وہاں ہمارے پاس واضح دلیل موجود ہوکہ معلوم ہوجائے کہ امام ؑ حالت تقیہ میں حکم دے رہے ہیں ۔

اس بنا پر اگر احکام کی معرفت امام ؑ میں منحصر نہ ہو ، یا امام ؑ کا تقیہ کرنا حق تک جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی ایسی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو جو امام ؑ کے تقیہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ہو ں اور ساتھ ہی اگر معلوم ہو کہ امام ؑ حالت تقیہ میں ہیں تو کوئی حرج نہیں امام ؑ تقیہ کرسکتے ہیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ص۳۳۳۔

۲۲۶

۲۔ تقيه، فرمان امامعليه‌السلام پر عدم اعتماد کاباعث

شیعہ مخالف لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے ائمہ معصومینعليهم‌السلام وسیع پیمانے پر تقیہ کرنے لگیں تو یہ احتمال ساری روایات جو ان حضرات سے ہم تک پہنچی ہیں ،میں پائی جاتی ہے کہ ہر روایت تقیہ کرکے بیان کی ہوں ۔اس صورت میں کسی ایک روایت پر بھی ہم عمل نہیں کرسکتے ۔کيونکه کوئي بھی روایت قابل اعتماد نہیں هوسکتي۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے آئمہ معصومینعليهم‌السلام کا تقیہ کرنا کسی قواعد و ضوابط کےبغیر ہو تو یہ اشکال وارد ہے ۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرنے کیلئے خواہ وہ تقیہ کرنے والا امام ہو یا عوام یا خواص ہو ، خاص شرائط ہیں اگر وہ شرائط نہ ہوں تو تقیہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔اور جب اماموں کے تقیہ کے علل و اسباب ان کو معلوم ہوجائیں تو یہ اشکال بھی باقی نہیں رہے گا ۔

۲۲۷

۳۔تقيه اور علم امام

علم امامعليه‌السلام کے بارے میں شيعه متكلمين کےدرمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں :اور یہ اختلاف بھی روایات میں اختلاف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے ۔

پہلا نظریہ :

قدیم شيعه متكلمين جیسے ، سيد مرتضي وغیرہ معتقد ہیں کہ امام ؑتمام احکامات اور معارف اسلامی کا علم رکھتےہیں ۔ لیکن مختلف حادثات اور بعض واقعات جیسے اپنی رحلت کب ہوگی؟ یا دوسروں کی موت کب واقع ہوگی ؟و۔۔۔بصورت موجبہ جزئیہ ہے نه موجبہ کلیہ ۔

دوسرا نظریہ :

علم امامعليه‌السلام دونوں صورتوں میں یعنی تمام احکامات دین اور اتفاقی حادثات کے بارے میں بصورت موجبہ کلیہ علم رکھتے ہیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ كليني ؛ اصول كافي، ج۱ ، ص ۳۷۶۔

۲۲۸

بهر حال دونوں نظریہ کا اس بات پر اتفاق هے كه علم امامعليه‌السلام احكام اور معارف اسلامي کے بارے میں بصورت موجبه ہے ۔ وہ شبہات جو تقیہ اور علم امام سے مربوط ہے وہ بعض کے نزدیک دونوں مبنی میں ممکن ہے ۔ اور بعض کے نزدیک صرف دوسرے مبنی میں ممکن ہے ۔

پهلا اشکال:

تقيه اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آئمہعليهم‌السلام تمام فقهي احكام اور اسلامي معارف کا علم نہیں رکھتے ہیں اور اس کی توجیہ کرنےاور روایات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں۔

اس اشکال کو سليمان ابن جرير زيدي نے مطرح کیا ہے ،جوعصر آئمہعليهم‌السلام میں زندگی گزارتا تھا ۔وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدےبیان کئے ہیں۔ جن کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا۔

۲۲۹

پہلا عقیدہ بداء ہے ۔

دوسرا عقیدہ تقيه ہے۔

شيعہ اپنے اماموں سے مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے یا سال گزرجاتے اور ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے ۔ کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے ۔اورشیعه جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں ۔اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا حق ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے ۔اور تمہارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے ۔

۲۳۰

سليمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا ۔ اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا۔ اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقرعليه‌السلام کی امامت کا انکار کرنے لگے ۔(۱)

پس معلوم ہوا کہ دونوں مبنی کے مطابق شیعوں کے اماموں کے علم پر یہ اشکال وارد ہے ۔

جواب :

اماميه کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے امامان معصوم تمام احكام اور معارف الهي کے بارے میں کلی علم رکھتےہیں اس بات پر واضح دلائل بھی بیان کی گئی ہیں لیکن ممکن ہے وہ دلائل برادران اہل سنت کیلئے قابل قبول نہ ہوں۔

____________________

۱۔ نوبختي؛ فرق الشيعه

۲۳۱

چنانچه شيخ طوسي نے اپنی روایت کی كتاب تهذيب الاحكام کو انہی اختلافات کی وضاحت اور جواب کے طور پر لکھی ہے ۔

علامه شعراني اور علامه قزويني یہ دو شيعه دانشمندکا بھی یہی عقیدہ ہے کہ شیعوں کے امام تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ تقیہ کرنے کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے تھے ۔

علامه شعراني کہتے ہیں : آئمہ تقيه نہیں کرتے تھے بلکہ صرف امر به معروف کیا کرتے تھے کیونکہ امامان تمام واقعیات سے باخبر تھے :اذا شائوا ان يعلموا علموا ۔کے مالک تھے ہمارے لئے تو تقیہ کرنا صدق آتا ہے لیکن آئمہعليهم‌السلام کیلئے صدق نہیں آتا کیونکہ وہ لوگ تمام عالم اسرار سے واقف ہیں ۔

علامه قزويني فرماتے ہیں :آئمہ تقيه نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ عالم تھے اور تمام اوقات اور وفات کی کیفیت اور نوعیت سے باخبرتھے ۔ اس

۲۳۲

لئے ٖٖٖصرف ہمیں تقیہ کا حکم دیتے تھے ۔(۱)

اس شبهه کا جواب

اولاً: علم امام ؑ کے دوسرے مبنی پر یه اشکال هے نه پهلے مبنی پر ، کیونکه ممکن هے جو پهلےمبنی کا قائل هے وه کهے امام ؑ اپنی موت اور مرنے کے وقت اور کیفیت سے آگاه نهیں تھے ، اس لئے جان کے خوف سے تقیه کرتے تھے ۔

ثانیاً : امام ؑ کا تقیه کرنا اپنی جان کے خوف سے نهیں بلکه ممکن هے اپنے اصحاب اور چاهنے والوں کی جان کے خوف سے هو؛ یا اهل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کی خاطر تقیه کئے هوں۔ دوسرے لفظوں میں تقیه کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نهیں هے ۔

____________________

۱۔ مجله نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵۔

۲۳۳

ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنی کے قائل هیں ممکن هے کهه دیں که امام ؑ اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ هی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیه کے ذریعے اپنی جان بچانا چاهتے تھے ۔

ان دو شیعه عالم دین پر جو اشکال وارد هے یه هے ، که اگر آپ آئمہ طاہرین کے تقیه کا انکار کرتے هیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب ديں گے که جن میں خود آئمہ طاهرین تقیه کے بهت سے فضائل بیان فرماتے هیں اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام ؑ کے تقیه کرنے کو ثابت کرتی هیں؟!

علم امامؑ کے بارے میں مزید وضاحت

( فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا ءَاتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَ عَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ) ۔(۱)

"وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے

____________________

۱ ۔ الکہف ۶۵۔

۲۳۴

پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا"۔

علامہ طبرسیؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیۃ ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ جب اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبیلہ بنی مصطلق کے پاس زکوۃ جمع کرنے بھیجا تو قبیلہ والے بھی اسی خوشی میں ان کے استقبال کے لئے نکلے۔ دور جاہلیت میں ولید اور ان قبیلہ والوں کے درمیاں دشمنی تھی ۔ اس نے سوچا وہ لوگ ان کو قتل کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا اور کہنے لگا: انہوں نے زکات دینے سے انکار کیا۔ جبکہ یہ بالکل جھوٹ تھا ۔ اس وقت نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت غضبناک ہوئے اور ان کے ساتھ جنگ کرنے لے لئے آمادہ ہوگئے۔ اس وقت یہ آیۃ نازل ہوئی ۔(۱)

اس آیۃ شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی عام حالت میں علم غیبت نہیں رکھتے ہیں ورنہ جب وہ جھوٹ بولے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے تھا۔ ہاں

____________________

۱ ۔ مجمع البیان:۱۳۲/۵۔

۲۳۵

اگر خود جاننا چاہیں تو ضرور آگاہ ہوسکتے ہیں۔

اس سے وہ اشکال دور ہوجاتا ہے کہ امامؑ علم غیب رکھتے ہوئے بھی زہر پی کر شہید ہوئے ۔

امامؑ اور نبی کا سلسله خدا سے ملا هوا هے لذا وه علم رکھتاهےمگر بندوں کے ساتھ بندوں والا برتاو کرتا هے اسی طرح امامؑ اور نبی بھی علم و قدرت رکھتے هیں لیکن بندوں کے ساتھ معمولی عام برتاؤ کرتے هیں اپنی قدرت استعمال نهیں کرتے ، جیسے الله تعالیٰ بھی کبھی کبھی اپنی قدرت کی جھلکیاں دکھاتا هے ،جیسے نیل میں حضرت موسیٰ کیلئے راسته پیدا کرنا اور پھر اسی نیل میں فرعون کو ڈبونا ۔ ایسے هی ائمه اور انبیاء بھی کبھی کبھی طاقت کا اظهار کرتے هوئے بددعا سے لوگوں کو متوجه کردیتے هیں که اگر چاهے تو یه بھی کرسکتا هے اسی سلسلے کی ایک کڑی کربلا هے ، جس میں امامؑ نے انسانیت کو معراج کا سیر کرایا ، معمول کے مطابق زندگی گزار کرامتحان کی منزلوں سے گزرے هیں۔

لیکن کبھی کبھی جیسے خدا بھی اپنی قدرت دکھاتا هے ویسے هی امامؑ بھی معجزے دکھاکر

۲۳۶

اپنی طاقت دکھاتے هیں۔ جیسے خدا نے خدا هوکے حلم کا مظاهرہ کرتا هے ویسے هی امامؑ اور نبی ، امامؑ هوکر صبر کرتے هیں لیکن صبر سے یه نه سمجھ لینا که مجبور تھے۔ کیونکه مجبور صبر نهیں کرتا۔

اس سلسلے میں دو باتیں یاد دلاؤں: مولا نے شب عاشور کو انتظام کیا تھا که خیمے کے اطراف میں خندق کہودا جائے اور آگ جلائے جائیں تاکه دشمن خیمے کے پشت سے حمله آور نه هوسکے ۔ اس وقت ایک ظالم اور ملعون آیا اور اپنی سنگدلی کا اظهار کیا جسے کس زبان سے بیان کروں؟ گستاخی کی : حسینؑ کیا تم نے دنیا میں هی آگ تیار کرلی ؟ یهاں امامؑ نے اپنی الٰہی طاقت کا مظاهره کرتے هوئے هاتھوں کو بلند کرکے بد دعا کی که پالنے والے اسے جهنم کی آگ سے پهلے دنیا کی آگ کا مزه چکھا دے ۔ اسی وقت کہوڑا خندق میں گرا اور وه اسی میں جل گیا۔

ایک اور ملعون نکلا ش طبرسی یشه کے جام میں پانی بھرا پھر حسینؑ کے خیموں کے قریب آیا اور جام کو هلاتے هوئے کها : حسینؑ !یه دیکہو پانی موجود هے لیکن تم پیاسے هو ، تمہارے بچے پیاسے هیں ۔ اس وقت مولانے بد دعا کی پالنے والے اسے

۲۳۷

ایسی پیاس دے دے جوبجھ نه سکے ۔ گہوڑے کے رکاب سے گرا اورپیر رکاب میں پھنسا کھسیٹتا هوا زخمی کردیا پھر آخر تک پیاس پیاس کهتے هوئے جهنم واصل هوا ۔ عزیزو اس ملعون کا گلاس میں پانی چھلکنا اکبر نےبھی دیکھا هوگا قاسم نےبھی دیکھا هوگا اور سقای حرم نے بھی دیکھا هوگا ۔

۴۔تقيه اور عصمت امامؑ

احکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دیندارشخص سے بھی ممکن نهیں هے که وه کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے ۔ تو یه کیسے ممکن هے که امامؑ تقیه کرتے هوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یه حقیقت میں امامؑ کے دین اور عصمت سے انکار کرنے کا مترادف هے ! ۔(۱)

____________________

۱ ۔ محسن امين، عاملي؛ نقض الوشيعه ، ص ۱۷۹۔

۲۳۸

جواب یه هے که اگر هم تقیه کی مشروعیت کو آیات کے ذریعےجائز مانتے هیں چنانچه اهل سنت بھی اس کے قائل هیں که الله تعالی نے تقیه کو حکم کلی قرار دیا هے۔ اورهم بھی یہ نهیں کهتے که امامعليه‌السلام نے حکم اولی کےعنوان سے اس بات کو خدا کی طرف نسبت دی هے ؛ ليکن بعنوان حکم ثانوی کسی بات کو خدا کی طرف نسبت دینے میں کوئی اشکال نهیں هے ۔جیسے خود الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں مجبور شخص کیلئے مردار کھانے کوبحکم ثانوی ، جائز قرار دیا هے ۔

ثانياً: شيعه اپنے اماموں کوصرف راوی کی حیثیت سے قبول نهیں کرتے بلکه انهیں خودشارعین میں سے مانتے هیں ۔جو اپنے صلاح دید کے مطابق حکم جاری کرتےهیں ۔

۵۔ بجائےتقيه؛ خاموشی کیوں اختیار نهیں کرتے؟

اشکال: تقیه کے موقع پر امامؑ بطور تقیه جواب دینے کے بجائے خاموشی کیوں

۲۳۹

اختیار نهیں کرتے تھے؟!

جواب :

اولاً: امام معصومعليهم‌السلام نےبعض موارد میں خاموشی بھی اختیار کی هے اور کبھی طفره بھی کیا هے اورکبھی سوال اور جواب کو جابجا بھی فرمایا ہے۔

ثانياً:سكوت خود تعريف تقيه کے مطابق ایک قسم کاتقیه هے که جسے تقیه کتمانیه کها گیاهے ۔

ثالثًا: کبھی ممکن هے که خاموش رهنا ، زیاده مسئله کو خراب کرنے کاباعث بنے۔ جیسے اگر سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس هو تو اس کو گمراه کرنے کیلئے تقیةً جواب دینا هي زياده فائده مند هے ۔(۱)

رابعاً: کبھی امامؑ کے تقیه کرنے کے علل اور اسباب کو مد نظر رکھتے هوئے

____________________

۱ ۔ فخر رازي؛ محصل افكار المتقدمين من الفلاسفه والمتكلمين،ص ۱۸۲۔

۲۴۰