تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 62636
ڈاؤنلوڈ: 1484

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62636 / ڈاؤنلوڈ: 1484
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

واقعیت کے خلاف اظهار کرنا ضروری هوتا هے ۔ جیسے اپنے چاهنے والوں کی جان بچانے کی خاطر اپنے عزیزوں کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنا ۔ اور یه صرف اور صرف واقعیت کے خلاف اظهار کرکے هی ممکن ہوتاهے ۔اور کبھی دوستوں کی جان بچانے کیلئے ،اهل سنت کے فتویٰ کے مطابق عمل کرنے پر مجبور هوجانا۔ چنانچه امام موسي كاظم نے علي ابن يقطين کو اهل سنت کے طریقے سے وضو کرنے کا حکم دیا تھا ۔(۱)

۶۔تقيه کے بجائے توریه کیوں نهیں کرتے ؟!

شبهه:

امامعليه‌السلام موارد تقيه میں توریه کرسکتے هیں، تو توریه کیوں نهیں کرتے ؟ تاکه جھوٹ بولنے میں مرتکب نه هوں۔(۲)

اس شبهه کا جواب:

____________________

۱ ۔ فخر رازي؛ محصل افكار المتقدمين من الفلاسفه والمتكلمين ص ۱۹۳۔

۲ ۔ وسائل شيعه، ج۱، ص ۲۱۳۔

۲۴۱

اولاً:تقیه کے موارد میں توریه کرنا خود ایک قسم کا تقیه هے ۔

ثانياً: همارا عقیده هے که اگر امامؑ کیلئے هر جگه توریه کرنے کا امکان هوتا تو ایسا ضرور کرتے ۔

ثالثاً:بعض جگهوں پر امامؑ کیلئے توریه کرنا ممکن نهیں هے۔

۷۔تقيه اور دین کا دفاع

شبهه:

اس میں کوئی شک نهیں که الله کے نیک بندوں کی ذمه داریوں میں سے ایک اهم ذمه داری ، الله تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرنا هے ۔اگر چه اس راه میں قسم قسم کی اذیتیں اور مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔اور اهل بيت ؑبالخصوص ان ذمه داری کو نبھانے کیلئے زیاده حقدار هیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ ابوالقاسم، آلوسي؛ روح المعاني،ج۳، ص۱۴۴۔

۲۴۲

جواب:

آئمہ طاهرین نے جب بھی دین کیلئے کوئی خطر ہ محسوس کیا اور اپنے تقیه کرنے کو اسلام پر کوئی مشکل وقت آنے کا سبب پایا تو تقیه کو ترک کرتے هوئے دین کی حفاظت کرنے میں مصروف رہے ۔اور اس راه میں اپنی جان دینے سے بھی دریغ نهیں کیا ۔جس کا بهترین نمونه سالار شهیدان اباعبدالله کا دین مبین اسلام کا دفاع کرتے هوئے اپنی جان کے علاوه اپنے عزیزوں کی جانوں کا بھی نذرانه دینے سے دریغ نهیں کیا ۔

لیکن کبھی ان کا تقیه کرنا اسلام پر ضرر پهنچنے ، مسلمانوں کا گروهوں میں بٹنے ، اسلام دشمن طاقتوں کے کامیاب هونے کا سبب بنتا تھاتو وه لوگ ضرور تقیه کرتے تھے چنانچه اگر عليعليه‌السلام رحلت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد تقیه نه کرتے اور مسلحانه جنگ کرنے پر اترآتے تو اسلام خطرے میں پڑ جاتا ۔ اور جو ابھي ابھي مسلمان هو چکے تھے ، دوباره کفر کي طرف پلٹ جاتے ۔کيونکه امامؑ کو اگرچه ظاهري فتح حاصل هوجاتي ؛ ليکن لوگ یہ بہتان باندھتے که انهوں نے پیغمبرؐکے جانے کے

۲۴۳

بعد ان کي امت پر مسلحانه حمله کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کيا ۔

پس معلوم هوا که آئمہ طاهرین کا تقیه کرنا ضرور به ضرور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر تھا۔

۸۔تقيه «سلوني قبل ان تفقدوني » کے منافی

امام عليعليه‌السلام فرماتے هیں : مجھ سے پوچھو قبل اس کے که میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں ، اور تم مجھے پانه سکو ۔

اس روایت میں سوال کرنے کا حکم فرمارهے هیں ، جس کا لازمه یه هے که جو کچھ آپ بطور جواب فرمائیں گے ، اسے قبول کرنا هم پر واجب هوگا؛ اور امام ؑ کا تقیه کرنے کا لازمه یه هے که بعض سوال کا امام ؑ جواب نهیں دیں گے۔

۲۴۴

جواب :

یه امير المؤمنين نے اس وقت فرمایا ، که جب آپ برسر حکومت تھے ؛ جس وقت تقیه کے سارے علل و اسباب مفقود تھے ۔یعنی تقیه کرنے کی ضرورت نه تھی۔اور جو بھی سوال آپ سے کیا جاتا ،اس کا جواب تقیه کے بغیر کاملاً دئے جاسکتے تھے ۔ البته اس سنهرے موقع سے لوگوں نے استفاده نهیں کیا ۔

لیکن همارے دیگر آئمہ طاهرین کو اتنی کم مدت کابھی موقع نهیں ملا۔ یهی وجه هے که بقیه اماموں سے ایسا جمله صادر نهیں هوا ۔ اگرچه شیعه اور سنی سوال کرنے والوں کو احکام بیان کرنے میں ذره برابر کوتاهی نهیں کی ۔

امام سجادعليه‌السلام سے روايت هے که هم پر لازم نهیں هے که همارے شیعوں کے هر سوال کا جواب دیدیں ۔اگر هم چاهیں تو جواب دیں گے ، اور اگر نه چاهیں تو گريز

۲۴۵

کریں گے ۔(۱)

۹۔تقيه ، شجاعت کے منافی

اس شبهه کی وضاحت کچھ یوں هے که شیعوں کا عقیده هے که ان کے سارے امام ؑ انسانیت کے اعلاترین کمال اور فضائل کے مرتبے پر فائز هیں ۔ یعنی هر کمال اور صفات بطور اتم ان میں پائے جاتے هیں ۔ اور شجاعت بھی کمالات انسانی میں سے ایک هے ۔

لیکن تقیه اور واقعیت کے خلاف اظهار کرنا بهت سارے مواقع پر جانی خوف کی وجه سے هے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشيعه، ج ۱۸، ص۴۳۔

۲۴۶

اس کے علاوه اس سخن کا مضمون یه هے که همارے لئے الله تعالیٰ نے ایسے رهنما اور امام بھیجے هیں، جو اپنی جان کےخوف کی وجه سے پوری زندگی حالت تقیه میں گزاری ۔(۱)

جواب:

اولاً شجاعت اور تهور میں فرق هے ۔ شجاعت حد اعتدال اور درمیانی راه هے لیکن تهور افراط ہے اور بزدلی تفریط ۔اور شجاعت کا یه معنی نهیں که بغیر کسی حساب کتاب کے اپنے کو خطرے میں ڈالدے ۔ بلکه جب بھی کوئی زیاده اهم مصلحت خطرے میں هو تو اسے بچانے کی کوشش کرے۔

ثانیاً: همارے لئے یه بات قابل قبول نهیں هے که تقیه کے سارے موارد میں خوف اور ترس هی علت تامه هو ، بلکه اور بھی علل و اسباب هیں جن کی وجه

____________________

۱ ۔ كمال جوادي؛ ايرادات و شبهات عليه شيعيان در هند و پاكستان۔

۲۴۷

سے تقیه کرنے پر مجبور هوجاتے هیں ۔جیسے اپنے ماننے والوں کی جان بچانے کی خاطر ، کبھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور مودت ایجاد کرنے کی خاطر تقیه کرتے هیں ۔جن کا ترس یا خوف سےکوئی رابطه نهیں هے ۔

ثالثا ً: امامؑ کا خوف اپنی جان کے خوف کی وجه سے نهیں بلکه دین مقدس اسلام کے مصالح اور مفاد کے مد نظرامامؑ خائف هیں ، که ایسا نه هو ، دین کی مصلحتوں کو کوئی ٹھیس پهنچے ۔

اب اس اشکال یا بهتان (که آئمہ طاهرین نے اپنی آخری عمر تک تقیه کیا هے ) کا جواب یہ هے:

اولا ً : یه بالکل بیهوده بات هے اور تاریخ کے حقائق سے بهت دور هے ۔کیونکه هم آئمہ طاهرین کی زندگی میں دیکھتےهیں که بهت سارے موارد میں انهوں نے ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بهادرانه طور پر جنگ و جهاد کیا هے۔ چنانچه امام موسی کاظمعليه‌السلام نے اس وقت ، که جب هارون نے چاها که باغ

۲۴۸

فدک آپ کو واپس کرے ، هارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز هونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کی حدود کومشخص کیا ۔

ثانیا ً : هدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نهیں هے ، بلکه بعض اهم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی ہے جو سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پهنچنے کا باعث بنتا ہے۔

۱۰۔تقيه اور تحليل حرام و تحريم حلال

شبهه یه هے که اگر اس بات کو قبول کرلیں که امامؑ بعض فقهی مسائل کا جواب بطورتقیه دیں گے تو مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی (حرمت و حلیت )بدل جائےگا ۔ اور یه سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام اور تحریم حلال

۲۴۹

کا، يعني حرام حلال ميں بدل جائے گا اورحلال حرام ميں ۔۔۔(۱)

اس شبهه کا جواب یه هے که شیعوں کے نزدیک تقیه سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایاتِ معصومین کی پیروی کرنا هے ۔جیسا کہ قرآن مجید کا حکم ہے:

( إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزيرِ وَ ما أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَ لا عادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّه غَفُورٌ رَحيمٌ ) ۔(۲)

اس نے تمہارے اوپر بس مردار،خون،سورکاگوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیاجائے اس کو حرام قرار دیا ہے پھر بھی اگر کوئی مضطر ہوجائے اور حرام کا طلب گار اور ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والا نہ ہوتو اس کے لئے کوئی گناہ نہیں ہے۔بے شک خدا بخشنے والا اورمہربان ہے ۔

____________________

۱ ۔ احسان الهي ظهير؛ السنّه والشيعه، ص ۱۳۶۔

۲ ۔ بقرہ،۱۷۳۔

۲۵۰

تقيه کا حكم بھی دوسرے احکام جیسے اضطرار، اكراه ، رفع ضرر اور حرج کی طرح هے ، که ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل کرکے اس کی جگه تقیه والا حکم لگايا جاتا هے ۔اور ان جیسے احکام ثانوی فقه اهلسنت میں بھی هر جگه موجود هیں۔

۱۱۔تقيه ا يك اختصاصي حكم هے يا عمومي؟

اس حصے میں درج ذیل مسائل کي بررسی کرنے کي ضرورت هے :

۱. قانون تقیه پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعه امامیه کے ساتھ مختص هے یا دوسرے مکاتب فکر والےبھی اس کے قائل هیں ؟اور اسے ایک الهی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے هیں ؟!

۲. کيا تقيه کوئی ایسا حکم هے جو هرجگه اور هرحال میں جائز هے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب هے ؟

۲۵۱

۳. کيا حكم تقيه ،متعلّق کے اعتبار سے عام هے یا خاص ؟ یعنی سارےلوگ ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے هیں ؟ یا بعض لوگ بطور استثنا هر عام و خاص شرائط کے بغیر بھی تقیه کرسکتے هیں ؟جیسے : پیغمبرعليه‌السلام و امامعليه‌السلام ؟

جواب:

دو احتمال هیں :

۱ ـ تقيه ايك حكم ثانوي عام هے که جس سے سارے لوگ استفاده کرسکتے هیں ۔

۲ ـ انبیاءؑ تقيه سے مستثنی هیں ۔ کیونکه عقلی طور پر مانع موجود هے ۔

شيخ طوسي اور اكثر مسلمانوں نے دوسرے احتمال کو قبول کیا هے ۔ كه پیغمبرعليه‌السلام کیلئے تقيه جائز نهیں هے ۔کیونکه تقیہ کی شناخت ، علم صرف اور صرف پیغمبرعليه‌السلام کے پاس هے ۔

صرف پیغمبر اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن هے ۔پس جب پیغمبرعليه‌السلام کیلئے تقیه جائز هو جائے تو همارے لئے کوئی اور راسته

۲۵۲

باقی نهیں رهتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفه کو پهچان لیں اور اس پر عمل کریں ۔(۱)

اسی لئے فرماتے هیں :فلا يجوز علي الانبياء قبائح و لا التقية في اخبارهم لانّه يؤدي الي التشكيك ۔(۲)

انبیاء کیلئے نه عمل قبیح جائز هے اور نه اپنی احادیث بیان کرنے میں تقیه جائز هے۔کیونکه تقیه آپ کے فرامین میں شکوک و شبهات پیدا هونے کا باعث بنتا هے۔ اور جب که هم پر لازم هے که پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی هربات کی تصدیق کریں ۔ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعمال شرعی وظیفے کو همارے لئے بیان نه کریں اور همیں حالت شک میں ڈال دیں ؛ تو یه ارسال رسل کی حکمت کے خلاف هے ۔ پس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱ ۔ محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي،ص ۳۲۸۔

۲ ۔ التبيان ، ج۷ ، ص ۲۵۹۔

۲۵۳

کے لئے جائز نهیں که تقیه کی وجه سے هماری تکالیف کو بیان نه کریں ۔

شيخ طوسي پر اشكال : اگر هم اس بات کے قائل هوجائیں که پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے تقیه جائز نهیں هے تو حضرت ابراهیم کا نمرود کے سامنے بتائی گئی ساری باتوں کیلئے کیا تأویل کریں گے که بتوں کو آنحضرت هی نے توڑ کر بڑے بت کی طرف نسبت دی ؟!اگر اس نسبت دینے کو تقیه نه مانیں تو کیا توجیه هوسکتی هے ؟!

شيخ طوسي نےدو توجیه کے ضمن میں اس اشکال کا جواب دیا هے:

۱ ۔ بل فعله کو«ان كانوا ينطقون »کے ساتھ مقید کیا ہے۔ يعني اگریه بت بات کرتاهے تو ان بتوں کوتوڑنے والا سب سے بڑا بت هے ۔جب که معلوم هے که بت بات نهیں کرسکتا۔

۲ ۔ حضرت ابراہیمعليه‌السلام چاهتے تھے که نمرود کے چیلوں کو یه بتا دیں که اگر تم

۲۵۴

لوگ ایسا عقیده رکھتے هو تو یه حالت هوگی ۔ پس آپ کا یه فرمانا: «( بل فعله كبيرهم ) » الزام کے سوا کچھ نهیں اور «( اني سقيم ) » سے مراد یه که تمہارے گمراه هونے کی وجه سے میں روحی طور پرسخت پریشانی میں مبتلا هوں۔

اسی طرح حضرت يوسفعليه‌السلام کا:«( انّكم لسارقون ) »کهنا بھی تقیه هی تھا ، ورنه جھوٹ شأن نبوت سے دور هے ۔(۱)

تمام انبیاءالهی کے فرامین میں توریه شامل هے اور توریه کرنا کوئی مشکل کا سبب نهیں بنتا ۔اور توریه بھی ایک قسم کا تقیه هے ۔

ثانیا ً انبیاء الهی کے یہ فرامین احکام شرعی بیان کرنے کے مقام میں نهیں هیں ۔

____________________

۱۔ التبيان ، ، ص ۲۶۰۔

۲۵۵

۱۲۔کیوں بعض آئمہ طاہرین ؑنے تقیه کیا اور بعض نے نهیں کیا ؟!

یه سوال همیشه سے لوگوں کے ذهنوں میں ابھرتا رهتا هے که کیوں بعض آئمہؑ اور ان کے چاهنے والوں نے تقیه کیا اور خاموش رهے ؟! لیکن بعض آئمہؑ نے تقیه کو سرے سے مٹادیا اور اپنی جان تک کی بازی لگائی ؟!

وه لوگ جو مجاهدین اسلام کی تاریخ ، خصوصا ً معاویه کی ذلت بار حکومت کے دور کا مطالعه کرتے تو ان کو معلوم هوتا ،که تاریخ بشریت کا سب سے بڑا شجاع انسان یعنی امیر المؤمنینعليه‌السلام کا چهره مبارک نقاب پوش هوکر ره گیا ۔ جب یه ساری باتیں سامنے آتی هیں تو یه سوال ذهنوں میں اٹھتا هے که کیوں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی کے باوفا دوستوں کے دوچهرے کاملاً ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں :

۲۵۶

ایک گروه :

جو اپنے زمانے کے ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابله کرنے پر اتر آتے هیں ؛ جیسے میثم تمارؓ ، حجر بن عدیؓ، عبداللهؓ وغیرہ۔ اسی طرح باقی آئمہؑ کے بعض چاهنے والوں نے دشمن اور حاکم وقت کے قید خانوں میں اپنی زندگیاں رنج و غم میں گزارتے هوئے اپنی جانوں کا نذرانه پیش کیا ۔اور وحشت ناک جلادوں کا خوف نهیں کھایا، اور عوام کو فریب دینے والے مکار اور جبار حاکموں کا نقاب اتار کر ان کا اصلی چهره لوگوں کے سامنے واضح کردیا۔

یہی وجہ ہے کہ علی ؑکی محبت کے جرم میں کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی اسلام دشمن عناصر لوگوں (داعش) نے شام میں صحابی رسول حجر بن عدی کی قبر کو مسمار کرکے ان کی لاش نکال کر ان کی بے حرمتی کی گئی۔

دوسرا گروه :

باقی آئمہ طاهرین کے ماننے والوں اور دوستوں میں بهت سارے ، جیسے علی ابن یقطینؓ بڑی احتیاط کے ساتھ هارون الرشید کے وزیراور مشیر

۲۵۷

بن کر رهے !

جواب :

اس اشکال کا جواب امامیه مجتہدین اور فقهاء دے چکے هیں : که کبھی تقیه کو ترک کرتے هوئے واضح طور پر ما فی الضمیر کو بیان کرنا اور اپنی جان کا نذرانه دینا واجب عینی هوجاتا هے ؛ اور کبھی تقیه کو ترک کرنا مستحب هوجاتا هے ۔ اور اس دوسری صورت میں تقیه کرنے والے نے نه کوئی خلاف کام کیا هے ، نه ان کے مد مقابل والے نے تقیه کو پس پشت ڈال کر فداکاری اور جان نثاری کا مظاهره کرتے هوئے ، جام شهادت نوش کرکے کوئی خلاف کام کیاهے اسی دلیل کی بنا پر ميثم تمارؓ ، حجر بن عدیؓ اوررشيد هجري ؓ جیسے عظیم اور شجاع لوگوں کو همارے اماموںؑ نے بهت سراها هے ، اور اسلام میں ان کا بهت بڑا مقام هے ۔

ان کی مثال ان لوگوں کی سی هے ، جنهوں نے اپنے حقوق سے هاتھ اٹھائے هیں اور معاشرے میں موجود غریب اور نادار اور محروم لوگوں کی حمایت کرتے

۲۵۸

هوئے ان پر خرچ کیا هے ، اور خود کو محروم کیا هے۔

اس میں کوئی شک نهیں که ان کی یه فداکاری اور محرومیت کو قبول کرنا ؛ سوائے بعض موارد میں ،واجب تو نهیں تھا ۔ کیونکه جو چیز واجب هے وه عدالت هے نه ایثار ۔لیکن ان کا یه کام اسلام اور اهل اسلام کی نگاه میں بهت قیمتی اور محترم کام شمار هوتا هے ۔اور یه احسان کرنا اس بات کی دلیل هے که احسان کرنے والا عواطف انسانی کی آخری منزل طے کرچکا هے ۔جو دوسروں کو آرام و راحت میں دیکھنے کیلئے خودمحرومیت کو اختیار کرے ۔

پس تقیه کو ترک کرتے هوئے اپنی جانوں کو دوسرے مسلمانوں اور مؤمنوں کےآرام اور راحت کی خاطر فدا کرنا بھی ایسا هی هے ۔اور یه اس وقت تک ممکن هے ، جب تک تقیه کرنا وجوب کی حد تک نه پهنچا هو ۔ اور یه پهلاراسته هے ۔

۲۵۹

دوسرا راسته یه هے که لوگ ماحول اور معاشرہ نیز وقعت اور حیثیت کے اعتبار سے مختلف هوتے هیں ۔ اگر پست معاشرہ اور ماحول میں زندگی گزا ررهے هوں ، جیسے معاویه کا دور هے ؛اس کی غلط پروپیگنڈا اور اس کے کاسہ لیسوں اور مزدوروں اور بعض دین فروشوں کی جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجه سے اسلام کے حقائق اور معارف معاشرے سے بالکل محو هوچکے تھے ۔اور لوگ اسلامی اصولوں سے بالکل بے خبر تھے ۔اور امیر المؤمنینعليه‌السلام کا انسان ساز مکتب بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود ، کالعدم کر دیا گیا ، اور پرده خفا میں چلا گیا ۔اور اس ظلمانی پردے کو چاک کرکے اسلامی معاشرے کو تشکیل دینے کیلئے عظیم قربانی کی ضرورت تھی ۔ایسے مواقع پر راز فاش کرنا ضروري تھا ، اگرچه جان بھی دینا کیوں نه پڑے ۔

حجر بن عديؓ اور ان کے دوستوں کے بارے میں جنهوں نے معاویه کےدور میں مهر سکوت کو توڑ کر علیعليه‌السلام کی محبت کا اظهار کرتے هوئے جام شهادت

۲۶۰