تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 64480
ڈاؤنلوڈ: 1546

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64480 / ڈاؤنلوڈ: 1546
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

نوش فرمائي ؛اور ان کی طوفانی شهادت اور شهامت اس قدر مؤثر تھی که پورے مکه اور مدینه کے علاوه عراق میں بھی لوگوں میں انقلاب برپا کیا ؛ جسے معاویه نے کبھی سوچا بھي نه تھا ۔ اور چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہابی ٹولے نے ۱۴۳۴ ه میں محبت امیر المومنین ؑ کے جرم میں اس مردمؤمن کے جسم کو قبر سے نکال کر بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔

امام حسينعليه‌السلام نے ایک پروگرام میں ، معاویه کے غیراسلامی کردار کو لوگوں پر واضح کرتے هوئے یوں بیان فرمایا :

الست قاتل حجر بن عدي اخا كنده ؛ والمصلين العابدين الذين كانوا ينكرون الظلم و يستعظمون البدع و لا يخافون في الله لومة لائم!

اے معاویه ! کیا تو وهي شخص نهیں ، جس نے قبیله کنده کےعظيم انسان (حجر بن عدی) کو نماز گزاروں کے ایک گروه کے ساتھ بے دردی سے شهید کیا ؟ ان کا جرم صرف یه تھا که وه ظلم اور ستم کے خلاف آوازاٹھاتے اور بدعتوں اور خلاف شرع کاموں سے بیزاری کا اظهار کرتے تھے، اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی کوئی پروا نهیں کرتے

۲۶۱

تھے ؟!۔(۱)

ج:شیعوں کے تقیه سے مربوط شبهات

o تقيه شیعوں کے اصول دين میں سے ہے ۔

o تقيه شیعوں کی بدعتوں میں سے ہے ۔

o تقيه پيروي از آئمہ اطهار سے تناقض رکھتا ہے ۔

o تقيه زوال دين کاموجب ہے ۔

o فتواي امامعليه‌السلام تقيه کی صورت میں قابل تشخیص نہیں ۔

o تقيه شیعوں کا خوف اور اضطرار ی حالت ہے ۔

o تقيه کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے نہ مسلمانوں کے ساتھ ۔

____________________

۱ ۔مكارم شيرازي؛ تقيه مبارزه عميقتر، ص ۱۰۷۔

۲۶۲

۱۔تقيه شیعوں کی بدعت

شبهه پیدا کرنے والے کا کهنا هے که :تقیه شیعوں کی بدعت هے جو اپنے فاسد عقیدے کو چھپانے کی خاطر کرتے هیں۔(۱)

اس شبهه کا جواب یه هے که اس نے بدعت کے معنی میں غلطی کی هے ۔ جب که مفردات راغب نے بدعت کی تعریف کرتے هوئے کها هے :البدعة هي ادخال ما ليس من الدين في الدين ۔(۲) بدعت سے مراد یه هے که جوچیز دین میں نهیں، اسے دین میں داخل کرنا ۔اور گذشته مباحث سے معلوم هوا که تقیه دین کی ضروریات میں سے هے ۔ کیونکه قرآن اور احاديث آئمہعليهم‌السلام میں واضح طور پر بیان هوا هے که تقیه

____________________

۱۔ فهرست ايرادات و شبهات عليه شيعيان در هند و پاكستان، ص ۳۶۔

۲۔ راغب اصفهاني ؛ مفردات، بدع۔

۲۶۳

کو اهل تشیع اور اهل سنت دونوں مانتے هیں اور اس کے شرعی هونے کو بھی مانتے هیں ۔

لہذا ، تقیه نه بدعت هے اور نه شیعوں کا اختراع ،که جس کے ذریعے اپنا عقیده چھپایا جائے، بلکه یه الله اور رسول کا حکم هے ۔

گذشته مباحث سے معلوم هوا كه تقيه دين کاحصه هے کيونکه وه آيات جن کو شيعه حضرات اسلام کا اہم جزء جانتے هيں،ان کي مشروعيت کو ثابت کرچکے هيں اور اهل سنت نے بھي ان کي مشروع هونے کا في الجمله اعتراف کيا هے۔ اس بنا پر ، نه تقيه بدعت هے اور نه شيعوں کا اپنا عقيده چھپانے کيلئے اختراع هے۔

۲۶۴

۲۔تقيه، مكتب تشيع کا اصول دين ؟!

بعض لوگوں کا اپنے مخالفین کے خلاف مهم چلانے اور ان کو شکست دینے کیلئے جو خطرناک اور وحشنتاک راسته اختیار کرتے هیں ، ان میں سے ایک یه هے که ان کو متهم کرنا هے اور ایسی تهمتیں لگاتے هیں ، جن سے وه لوگ مبریٰ هیں ۔ اگرچه عیوب کا ذکر کرنا معیوب نهیں هے ۔

ان لوگوں میں سے ایک ابن تیمیه هے ؛ جو کهتا هے که شیعه تقیه کو اصول دین میں سے شمار کرتے هیں ۔ جبکه کسی ایک شیعه بچے سے بھی پوچھ لے تو وه بتائے گا : اصول دین پانچ هیں :

اول : توحید۔ دوم :عدل سوم: نبوت ۔چهارم:امامت ۔پنجم : معاد۔

ليکن وه اپنی كتاب منهاج السنه میں لکھتا هے : رافضي لوگ اسے اپنا اصول دین میں شمار کرتے هیں ۔ایسی باتیں یا تهمتیں لگانے کی دو هی وجه هوسکتی هیں:

۲۶۵

۱ ۔ یا وه شیعه عقائد سے بالکل بے خبر هے ؛ که هو هی نهیں سکتا ۔ کیونکه مذهب تشیع کا اتنا آسان مسئله ؛ جسے سات ساله بچه بھی جانتا هو ، ابن تیمیه اس سے بے خبر هو ۔کیونکه همارے هاں کوئی چھٹا اصل بنام تقیه موجود نهیں هے ۔

۲ ۔ یا ابن تیمیه اپنی هوا وهوس کا اسیر هوکر شیعوں کو متهم کرنے پر تلا هوا هے ۔ وه چاهتا هے که اس طریقے سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرےاوراسلام اور مسلمین کی قوت اور شان و شکوکت کو متزلزل کرے ۔

اس قسم کی بیهوده باتیں ایسے لوگوں کی خوشی کا سبب بن سکتی هیں، جو کسی بھی راستے سے شیعیان علی ابن ابی طالب کی شان شوکت کو دنیا والوں کے سامنے

۲۶۶

گھٹاتے اور لوگوں کو مکتب حقه سے دور رکھتے ۔(۱)

جب که خود اهل سنت بھی تقیه کے قائل هیں اور ان کے علماء کا اتفاق اور اجماع بھی هے ، که تقیه ضرورت کے وقت جائز هے ۔چنانچه ابن منذر لکھتا هے:

اجمعوا علي من اكره علي الكفر حتي خشي علي نفسه القتل فكفر و قلبه مطمئن بالايمان انه لا يحكم عليه بالكفر ۔(۲)

اس بات پر اجماع هے که اگر کوئی کفر کا اظهار کرنے پر مجبور هو جائے ، اور جان کا خطره هو تو ایسی صورت میں ضرور اظهار کفرکرے ۔جبکه اس کا دل ایمان سے پر هو ، تو اس پر کفر کا فتوا نهیں لگ سکتا ۔یا وه کفر کے زمرے میں داخل نهیں هوسکتا ۔

____________________

۱۔ عباس موسوي؛ پاسخ و شبهاتي پيرامون مكتب تشيع، ص۱۰۲۔

۲۔ دكترناصر بن عبدالله؛ اصول مذهب شيعه،ج ۲، ص ۸۰۷۔

۲۶۷

ابن بطال کهتا هے :واجمعوا علي من اكره علي الكفر واختار القتل انه اعظم اجرا عنداﷲ !یعنی علماء کا اجماع هے که اگر کوئی مسلمان کفر پر مجبور هوجائے ، لیکن جان دینے کو ترجیح نہ دے تو اس کے لئے الله تعالیٰ کے نزدیک بهت بڑا اجر اور ثواب هے ۔

خوداهل سنت تقيه کے جائز هونے کو قبول کرتے هیں ۔ لیکن جس معنی ٰ میں شیعه قائل هیں ، اسے نهیں مانتے ۔ ان کے نزدیک تقیه ، رخصت یا اجازت هے ، لیکن شیعوں کے نزدیک ، ارکان دین میں سے ایک رکن هے ۔ جیسے نماز۔ اور بعد میں امام صادقعليه‌السلام کی روایت کو نقل کرتے هیں، جو پیغمبر اسلام (ص) سے منسوب هے ۔قال الصادق عليه‌السلام : لو قلت له تارك التقيه كتارك الصلوة ۔ اس کے بعد کهتےهیں که شیعه صرف اس بات پر اکتفاء نهیں کرتے بلکه کهتے هیں :لا دين لمن لا تقية له ۔(۱)

____________________

۱۔ دكترناصر بن عبدالله؛ اصول مذهب شيعه،ج ۲، ص ۸۰۷۔

۲۶۸

۳۔تقيه، زوال دين کا موجب ؟!

کها جاتا هے که تقیه زوال دین اور احکام کی نابودی کا موجب بنتا هے ۔ لهذا تقیه پر عمل نهیں کرنا چاهئے ۔اور اس کو جائز نهیں سمجھنا چاهئے ۔

جواب:

تقيه ، احكام پنجگانه میں تقسيم كيا گیا هے :واجب ، حرام ، مستحب ، مكروه ، مباح۔

حرام تقيه، دین میں فساد اور ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے ۔ به الفاظ دیگر جوبھی اسلام کی نگاه میں جان، مال ، عزت، ناموس وغیره کی

۲۶۹

حفاظت سے زیاده مهم هو تو وهاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ، بلکه حرام هے ۔اور شارع اقدس کا بھی یهی حکم هے ۔کیونکه عقل حکم لگاتی هے که جب بھی کوئی اهم اور مهم کے درمیان تعارض هوجائے تو اهم کو مقدم رکھاجائے ، اور اگر تقیه بھی موجب فساد یا ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے تو وهاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ۔

آئمہ طاهرین سے کئی روايات هم تک پهنچی هیں که جو اس بات کی تائید کرتی هیں اور بتاتی هیں که بعض اوقات تقیه کرنا حرام هے ۔

امام صادقعليه‌السلام نےفرمایا:

فكل شيئ يعمل المؤمن بينهم لمكان التقية مما لا يؤدي الي الفساد في الدين فانّه جائز ۔(۱)

هر وه کام جو مؤمن تقیه کے طور پر انجام دیتے هیں ؛اگر دین کیلئے کوئی

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ، ج۶، باب۲۵، ص۴۶۹۔

۲۷۰

ضرر یا نقصان بھی نه هو ،اور کوئی فساد کا باعث بھی نه هو ؛ تو جائز هے ۔

امام صادقعليه‌السلام کی اس حدیث سے معلوم هوتا هے که تقیه بطور مطلق حرام نهیں هے بلکه وه تقیه حرام هے جو زوال دین کا سبب بنتا هو ۔

لیکن وه تقیه واجب یا مباح يا مستحب هے جو زوال دین کا سبب نهیں بنتا ۔ اور یہ مکتب تشیع کا نظریہ هے ۔

۴۔امام ؑکی پيروي اور تقیه کے درميان تناقض

شبهه یہ هے که شیعه آئمہعليهم‌السلام کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرتے هیں جبکه آئمہ طاهرین نے تقیه نہیں کیا هے ؛ جیساکہ علیعليه‌السلام نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی ، اور امام حسینعليه‌السلام نے یزید کے خلاف جهاد کیا ۔(۱)

____________________

۱۔ موسي موسوي؛ الشيعه والتصحيح، ص۶۹۔

۲۷۱

اس شبهه کا جواب :

اولاً :شیعه نظریے کے مطابق تقیه ایسے احکام میں سے نهیں که هر حالت میں جائز هو ، بلکه اسے انجام دینے کیلئے تقیه اور اظهار حق کرنے کے درمیان مصلحت سنجی کرناضروري هے که تقیه کرنے میں زیاده مصلحت هے یا تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت هے ؟

آئمہ طاهرین بھی مصلحت سنجی کرتے اور عمل کرتے تھے۔ جیسا که اوپر کی دونوں مثالوں میں تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت پائی جاتی تھیں لهذا دونوں اماموں ؑنے تقیه کو ترک کیا ۔ اگر امیرالمؤمنینعليه‌السلام ابوبکر کی بیعت کرتے تو ان کی خلافت کو قبول کرنا اور اپنی امامت اور خلیفہ بلافصل کا انکار کرنا ثابت ہوتاہے اسی طرح اگر امام حسینعليه‌السلام تقیه کرتےاور یزید کی بیعت کرتے تو اپنے جد امجدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین کا نام ونشان باقی نہ رہتا ، کیونکہ یزید نے منبر سے برملا کہہ دیا تھا :

لعبت بنوهاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل ۔

۲۷۲

نہ کوئی قرآن نازل ہوا ہے اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے بلکہ بنی ہاشم والوں نے حکومت کرنے کے لئے ایک کھیل کھیلا ہے ۔

ثانيا: شيعه سارے اماموںؑ کی پيروي کرنےکو واجب سمجھتے هیں ۔ اور همارے سارے آئمہؑ نے بعض جگهوں پر تقیه کیا هے اور بعض جگهوں پر تقیه کو ترک کیا هے ۔ بلکه اس سے بھی بالا تر که بعض مقامات پر تقیه کرنے کا حکم دیا هے۔ یه اس بات کی دلیل هے که ان کی زندگی میں کتنی سخت دشواریاں پیش آتی تھیں۔

ثالثاً: تقيه کے بهت سے موارد ، جهاں خود آئمہعليهم‌السلام نے تقیه کرنے کو مشروع قرار دیا هے ، جن کا تذکره گزرچکا ہے۔

رابعاً: شبهه پیدا کرنے والا خود اعتراف کررها هے که حضرت عليعليه‌السلام نے فقط چھ ماه بيعت كرنے سے انکار کیا پھر بعد میں بيعت کرلی ۔یه خود

۲۷۳

دلیل هے کہ حضرت عليعليه‌السلام کی سیرت میں بھی تقيه موجود هے ۔

۵۔تقيه اورفتواي امامعليه‌السلام کي تشخيص

اس کے بعد که قائل هوگئے كه آئمہعليهم‌السلام بھی تقیه کرتے تھے ؛ درج ذیل سوالات ، اس مطلب کی ضمن میں که اگر امامؑ حالت تقیه میں کوئی فتوا ی دیدیں، تو کیسے پهچانیں گے که تقیه کي حالت میں فتوا دے رهے هیں یا عام حالت میں ؟!

جواب:

اس کی پهچان تین طریقوں سے ممکن هے :

۱. امامؑ کا فتوی ایسے دلیل کے ساتھ بیان هوجو حالت تقیه پر دلالت کرتی هو ۔

۲. فتوای دینے سے پهلے کوئی قرینه موجود هو ، جو اس بات پر دلالت کرے

۲۷۴

که حالت تقیه میں امام ؑنےفتوی دیا هے ۔

۳. امامعليه‌السلام قرينه اور دليل کو فتوای صادر کرنے کے بعد ،بیان کریں که حالت تقیه میں مجھ سے یه فتوای صادر هوا هے ۔

۶۔ تقيه اورشیعوں کا اضطراب!

تقيه،جبن و اضطراب کادوسرا نام هے ،اور شجاعت اور بهادری کے خلاف هے۔ جس کی وجه سے اپنےقول و فعل میں، اورظاهر و باطن میں اختلاف کی صورت میں ظاهر هوتی هے ۔اور یه صفت ، رزائل اخلاقی کے آثار میں سے هے اور اس کی سخت مذمت هوئی هے؛ لهذا خود امام حسينعليه‌السلام نے كلمه حق کی راه میں تقيه کے حدود کو توڑ کر شهادت کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا ۔(۱)

____________________

۱۔ دكتر علي سالوس؛ جامعه قطربين الشيعه و السنه،ص۹۲۔

۲۷۵

جواب:

اگرشیعوں میں نفسياتي طور پر جبن، اضطراب اور خوف پایا جاتا توظالم بادشاهوں کے ساتھ ساز باز کرتے ، اور کوئی جنگ يا جهاد کرنے کی ضرورت هی پیش نهیں آتی ۔ یه لوگ بھی درباری ملاؤں کی طرح اپنے اپنے دور کے خلیفوں کے هاں عزیز هوتے ۔اور تقیه کی ضرورت هی پیش نه آتی۔

اس سے بڑھ کر کیا کوئی شجاعت اور بهادری هے که جس دن اسلام کی رهبری اور امامت کا انتخاب هونے والاتھا ؛ اس دن لوگوں نے انحرافی راسته اپناتے هوئے نااهل افراد کو مسندخلافت پر بٹھادیا ۔ اس دن سے لیکر اب تک شیعوں کا اور شیعوں کے رهنماؤں کا یهی نعره اور شعار رها هے که هر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ ٹکرانا هے اور مظلوموں کی حمایت کرنا هے اور اسلام سے بےگانه افراد کی سازشوں کو فاش کرنا هے ۔

اگرچه شیعه تقيه کی بنیاد پر حركت کرتے هیں ؛ لیکن جهاں بھی اس بات

۲۷۶

کی ضرورت پیش آئی که ظالم اور جابر کے خلاف آواز اٹھانا هے ؛ وهاں شیعوں نے ثابت کردیا هے که اسلام اور مسلمین اور مظلوموں کی حمایت میں اپنا خون اور اپنے عزیزوں کی جان دينے سے بھي دريغ نهيں کيا۔

شیعوں کا آئیڈیل یه هے که اسلام همیشه عظمت اور جلالت کے مسند پرقائم رهے اور امت اسلامی کے دل اور جان میں اسلام کی عظمت اور عزت باقی رهے ۔

مسلمان یه بھی یاد رکھیں! که تاریخ بشریت کا بهترین انقلاب ؛ شیعه انقلاب رها هے ۔ اور دنیا کے پاک اور شفاف ترین انقلابات ، جو منافقت ، دھوکه بازی ، مکر و فریب اور طمع و لالچ سے پاک رهیں ؛ وه شیعه انقلابات هیں جن میں مسلمان عوام اور حکومت کی عظمت اور عزت مجسم هوچکی تھی ۔اور طاغوتی طاقتوں کےمقابلے میں اس مکتب کے ماننے والوں کو عزت ملی اور شیعه، طاغوتی طاقتوں اور حکومتوں کو برکات اور خیرات کا مظهر ماننا تو درکنار ، بلکه ان کے ساتھ ساز باز کرنے سے پر هیز

۲۷۷

کرتے تھے ۔هم کچھ انقلابات کا ذکر کریں گے ، جن کو آئمہ طاهرین نے سراهتے هوئے ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کی هیں ۔کیونکه کسی بھی قوم کی زندگی اور بقا کا راز انهی انقلابات میں هے ۔ جن میں سے بعض یه هیں:

o زيد ابن علي کا انقلاب۔

o محمد بن عبدالله کا حجازميں انقلاب۔

o ابراهيم بن عبدالله کا بصره ميں انقلاب۔

o محمد بن ابراهيم و ابو السرايا کا انقلاب۔

o محمد ديباج فرزند امام جعفر صادقعليه‌السلام کا انقلاب۔

o علي ابن محمد فرزند امام جعفر صادقعليه‌السلام کا انقلاب۔

اسی طرح دسیوں اور انقلابات هیں ، که جن کی وجه سے عوام میں انقلاب اورشعور پید ا

۲۷۸

هوگیا هے ۔ اور پوری قوم کی ضمیر اور وجدان کو جگایا هے ۔(۱)

امامان معصوم ان انقلابات کو مبارک اور خیر وبرکت کا باعث سمجھتے تھے ۔اور ان سپه سالاروں کي تشویق کرتے تھے ۔راوي کهتا هے :

فَدَخَلْنَا عَلَى الصَّادِقِ وَ دَفَعْنَا إِلَيْهِ الْكِتَابَ فَقَرَأَ وَ بَكَى ثُمَّ قَالَ إِنَّا للهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ عِنْدَ اللهِ أَحْتَسِبُ عَمِّي إِنَّهُ كَانَ نِعْمَ الْعَمُّ إِنَّ عَمِّي كَانَ رَجُلًا لِدُنْيَانَا وَ آخِرَتِنَا مَضَى وَ اللهِ عَمِّي شَهِيداً كَشُهَدَاءَ اسْتُشْهِدُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ ۔(۲)

جب امام صادقعليه‌السلام کو زیدابن علی کی شهادت کی خبر ملی تو کلمہ استرجاع کے بعد فرمایا :میرے چچا واقعاً بهترین اور عزیز ترین چچا هیں ۔ اور همارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں چاهنے والے هیں ۔ خدا کی قسم ! میرے چچا ایسے شهید هوئے

____________________

۱ ۔ علي عباس موسوي؛ پاسخ شبهاتي پيرامون مكتب تشيع ، ص۹۷۔

۲ ۔ بحارالأنوار ، ج ۴۶،ص ۱۷۵ باب ۱۱- أحوال أولاده و أزواجه ۔

۲۷۹

هیں ، جیسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی اور حسین کےرکاب ميں شہید هوچکے هوں ۔خدا کی قسم ! انہوں نے شهادت نوش فرمائی هے ۔

ایسے کلمات آئمہ معصومین سے صادر هوئے هیں ، اور یه بهت دقیق تعبیر یں هیں که جو شیعه تفکر کی عکاسی کرتی هیں که هر ظالم و جابر حکمران کو غاصب مانتے تھے ۔اور هر حاکم ، شیعه کو اپنے لئے سب سے بڑا خطر ه جانتے تھے ۔

هم زیاده دور نهیں جاتے ، بلکه اسی بیسویں صدی کا انقلاب اسلامی ایران پر نظر ڈالتے ہیں ؛ کیسا عظیم انقلاب تھا ؟! که ساری دنیا کے ظالم وجابر ؛ کافر هو یا مسلمان ؛طاغوتی قوتیں سب مل کر اسلامی جمهوریہ ایران پر حمله آور هوئیں ؛ اگرچه ظاهراً ایران اور عراق کے درمیان جنگ تھی ، لیکن حقیقت میں اسلام اور کفر کے درمیان جنگ تھی ۔ کیونکه عالم کفر نے دیکھا که اگر کوئی آئین یا مکتب ، ان

۲۸۰