تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 64962
ڈاؤنلوڈ: 1567

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64962 / ڈاؤنلوڈ: 1567
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

کیلئے خطرناک هے ، تو وه اسلام ناب محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کے پیروی کرنے والے هیں ۔ اسی لئے باطل طاقتیں اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ ، اسلام ناب محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علمبردار یعنی خمینی بت شکن  اور ان کے انقلاب کو سرکوب کرنے پر اتر آئے ، لیکن الله تعالیٰ نے ان کو ذلیل و خوار کیا اور اسلامی جمهوریہ ایران کی ایک فٹ زمین بھی چھین نه سکے، جبکه صدام نے مغرورانه انداز ميں کها تھا که ايک هفتے کے اندر اندر تهران ميں وارد هونگے اور ظهرانه تهران ميں جشن مناتے هوئے کھائيں گے ۔

آج پوری دنیا میں اگر اسلام کا کوئی وقار اور عزت نظر آتی هے تو انقلاب اسلامی کی وجه سے هے ۔

آئیں؛ اس انقلاب سے بھی نزدیکتر دیکھتے هیں که مکتب اهل بیتعليهم‌السلام کے پیروکاروں نے کس طرح حقیقی اسلام کے دشمنوں کے ساتھ بهادرانه طور پر مقابله

۲۸۱

کیا اور دشمن کے سارے غرور کو خاک میں ملاتے هوئے ، شکست دی ؟! میرا مقصد ؛ شیعیان لبنان (حزب الله اور ان کے عظیم لیڈر ، سید حسن نصرالله ) هیں ۔ جو کردار ،خمینی بت شکن  نے امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں دنیا کے مستضعفوں کی حاکمیت قائم کرنے میں ادا کیا ، وهی کردار سید حسن نصرالله نے جنایت کار اور خون خوار اسرائیل کے ساتھ ادا کیا ۔

مناسب هے که اس بارے میں کچھ تفصیل بیان کروں ،تاکه دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو یه معلوم هو سکے که تقیه کے دائرے کو توڑ کر دشمن کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابله کرنے والا کون تھا ؟!

رهبر انقلاب اسلامي حضرت امام خميني  نے ایک تحقير آميز انداز میں اسرائیل کی حیثیت کو دنیا کے سامنے واضح کرتے هوئے فرمایا تھا : که اگر دنیا کے سارے مسلمان متحد هوکر ایک ایک گلاس پانی پھینکیں تو اسرائیل اس صفحہ هستی

۲۸۲

سے مٹ جائے گا ۔ دنیا کے بهت سارے دانشمندوں اور روشن فکروں نے اس بات کا مزاق اڑایا تھا ، لیکن حزب الله لبنان کی تجربات اور مهارت نے یه بات دنیا کے اوپر واضح کردی که اسرائیل کی حکومت هزاروں ایٹمی میزائیلوں اور بموں اور جدید ترین هتھیاروں کے رکھنے کے باوجود بھی ایک باایمان اور مختصر گروه کے سامنے بے بس هوکر اپنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور هوگیا ۔اور شیشے کے درودیوار والے محل اور بنگلوں میں رهنے والے چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں کے غلیل کی زد میں آکر پریشان اور بیچین نظر آنےلگے۔

آج پوری دنیا میں خمینی بت شکن کے افکار اور نظریات پھیل چکے هیں ؛ جس کا مصداق اور نمونه اتم ، سید حسن نصر الله اور حزب الله لبنان کی شکل میں نظرآتا هے ۔اور آپ کے اس فرمان کی ترجمانی کرتے هوئے سید حسن نصرالله نے کها:والله انّ هي( اسرائيل) اوهن من بيت العنكبوت ؛ خدا کی قسم یه اسرائیل مکڑی کی جال سے بھی زیاده نازک اور کمزور هے ۔ یه کهه کر امام خمینی کے اس

۲۸۳

جملے( اسرائیل کو اس صفحه هستی سے مٹ جانا چاهئے ) کی صحیح ترجمانی کی ۔

هاں ! سید حسن نصر الله کیلئے یهی باعث فخر تھا که رهبر معظم و مرجع عالی قدر حضرت آیة الله العظمی سید علی خامنه ای حفظہ اللہ کے بازؤں کا بوسه لیتے هوئے ، دنیا پر واضح کررهے تھے که میں امام زمان (عج) کے نائب برحق کےشاگردوں میں سے ایک ادنیٰ شاگرد هوں۔ اس مرد مجاهد نے لبنان کے سارے بسنے والوں کو ؛ خواه وه مسلمان هویا غیر مسلمان ، شهادت طلبی کا ایسا درس دیا که سارے مرد ،عورت ، چھوٹے بڑوں نے ان کی باتوں پر لبیک کهه کرکلمه لاالٰه الا الله کی سربلندی کے لئے شهادت کی موت کو خوشی سے گلے لگایا ۔ یهی حزب الله کی جیت کی اصل وجه تھی ۔اور یه ثابت کردیا که مکتب اهل بیت کے ماننے والے هی رهبری کے لائق هیں ۔

آج پوری دنیا نے یه محسوس کرلیا هے ، خصوصاً جوانوں نے ، که حزب

۲۸۴

الله ، شیعه هے ، اور ان کی مکتب حقه کا زیاده سے زیاده مطالعه کرنے لگے هیں ، جس کا نتیجه یه نکلا هے که حقیقی اسلام کی شناخت کیلئے دروازه کھل گیا هے ۔

نيو يورك ٹائمز لکھتا هے که : سيد حسن نصر الله نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کرکے اپنی اور اپنی ٹیم کی شخصيت اور وقار کو حد سے زیاده بلند و بالا کیا هے ۔ اور جو چیز صفحه تاریخ سے مٹادینے کے قابل هے، وه مصر کا صدر جمال عبد الناصر کا یهودیوں کو سمندر میں پھینک دینے کا خالی اور کھوکھلا دعویٰ اور صدام کا آدھا اسرائیل کو جلانے کا جھوٹا دعویٰ تھا ؛ ان دنوں صدام کے بڑے بڑے پوسٹرز پاکستان کے مختلف شهروں کی سڑکوں پر بکنے لگے ۔ اور صدام کو صلاح الدین ایوبی کا لقب دینے لگے ۔لیکن اس نے اسرائیل کے اوپر حمله کرنے کی بجائے کویت پر حمله کر کے مسلمانوں کا مال اور خزانه لوٹ کر سب سے بڑا ڈاکو بن گیا ۔

لیکن ان کے مقابلے میں دیکھ لو که سيد حسن نصر الله، ایک عالم دین

۲۸۵

کے لباس میں محاذ جنگ پر ایک فوجی جرنیل کا کردار ادا کرتے هوئے اپنی ٹیم کا کمانڈ کرتے هوئے نظر آتےهیں ۔

نيو يورك ٹائمز مزید لکھتا هے که : وه مشرق وسطي کاسب سے بڑا قدرت مند انسان هے ۔یه بات عرب ممالک کے کسی ایک وزیر اعظم کے مشیر نے اس وقت کهی که جب سيد حسن نصرالله ٹی وی پر خطاب کررهے تھے ۔پھر وه مشیرایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہتا هے کہ وہ جو وعدہ کرتے ہیں وہ اسے ضرور پورا کرتے هیں ۔

خود اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کردیا تھا که ۳۳ روزه جنگ میں ۱۲۰ اسرائیلی فوج کو قتل اور ۴۰۰ کوشدید زخمی کردئیے ہیں، جن میں سے بھی اکثر مرنے کے قریب ہیں۔اسی طرح ۵۰ یهودی دیہاتی بھی حزب الله کے میزائلوں کی زد میں آکر مرے ہیں، اور ۲۵۰۰ افراد زخمی ہوگئے ہیں ۔حز ب الله نے یه کر

۲۸۶

دکھایا که اس مختصر مدت میں ۱۲۰ میر کاوا ٹینک ، ۳۰ زرهی ، ۲ آپاچی هیلی کوپٹرز کو منهدم کردیا ۔

غربی سیاستمداروں ، وایٹ هاوس کے حکمران لوگ ، شروع میں حزب الله کی اس مقاومت اور مقابلے کو بهت هی ناچیز اور کم سمجھ رهے تھے ،اور ان کا یه تصور تھا که ایک هفتے کے اندر اندر حزب الله پسپا هوجائے گا ، اور اسرائیل کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور هوجائے گا ۔یهی وجه تھی که پهلے دو هفتے تک تو نه اقوام متحده کی جانب سے اعتراض هوا اور نه وائٹ هاؤس کی جانب سے ،اور نه کوئی سازمان كانفرنس اسلامي عرب لیگ کی جانب سے ، نه اس جنگ کو روکنے کی بات هوئی ؛ صرف یه لوگ تماشا دیکھتے رهے ، اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یه تھي که ایک دفعه بھی اسرائیل کی ان جنایات اور غانا میں بچوں اور عورتوں کے قتل عام کرنے پر ، ایک احتجاجی جلسه بھی عرب لیگ میں منعقد نهیں هوا !!

۲۸۷

جب امریکه کی وزیر خارجه مس کونڈولارائس سے جنگ بندی کیلئے تلاش کرنے کی اپیل کی؛ تاکه لبنان خون خرابه میں تبدیل نه هو ؛ تو اس نے بڑی نزاکت کے ساتھ کها تھا :کوئی بات نهیں ، بچه جننے کیلئے اس کی ماں کو درد زه برداشت کرنا پڑتا هے ، اسی طرح هم اس کره زمین پر ایک جدید مشرق وسطی کے وجود میں لانے کیلئے کوشاں هیں ، جس کا وجود میں آنے کیلئے کوئی ایک ملک جیسے(لبنان) خون خرابه میں تبدیل هوجائے تو ہونے دو کیونکہ یه ایک طبیعی چيز هے !!

اس بیان کے جواب میں سید حسن نصراللہ نے مناسب اور منه توڑ جواب دیتے هوئے کها : هم بھی اس ناجائز طریقے سے وجود میں آنے والے بچے کو دنیا میں قدم رکھتے هی گلا دبا کر ماردیں گے ۔

تیسرے هفتے میں دهیمے دهیمے الفاظ میں بعض ممالک کے رهنماؤں اور سیاسی لیڈروں کے منه کھلنے لگے ۔اقوام متحده کے اٹارنی جرنیل ، جیسے طولانی خواب سے بیدار هوا هو، سمجھنے لگا که لبنان میں کوئی معمولی حادثه رونما هوا هے ۔

۲۸۸

تیسرے هفتے کے آخر میں جب حزب الله ، اسرائیل کے چار بحری کشتیوں کو منهدم کرنے میں کامیاب هوئے ، اور اسرائیل اپنے کسی بھی ایک هدف کو پهنچ نهیں پایا ؛ تو امریکه ؛ جو کسی بھی صورت میں شورائے امنیت کا جلسه تشکیل دینے کیلئے حاضر نه تھا ، ایک دم وه جنگ بندی کرنے کی خاطر اتفاق رأئے کے ساتھ شق نمبر ۱۷۰۱ کے مطابق ، میدان میں اتر آیا ؛ کیونکه اسرائیل نے امریکه اور دوسرے ممالک کی طرف سے دئے هوئے تمام تر جدید میزائل ، بمب اور دوسرے سنگین اسلحے سے لیس هونے کے باوجود ؛ حزب الله کے سامنے اپنے گٹھنے ٹیک دیے تھے، اور مزید سیاسی امداد کیلئے هاتھ پھیلا رها تھا ۔ اس ضرورت کو امریکه ، قطعنامه کے ذریعے جبران کرنا چاهتا تھا ۔

مکتب اهل بیت کے ماننے والوں کے یه سارے انقلابات ، شیعوں کی شجاعت ، دلیری اور بهادری کو ثابت کرتےهیں ۔اور یه سارے انقلابات ، اپنی ذاتی مفاد

۲۸۹

کی خاطر نهیں تھے ، بلکه الله تعالی کے ارادے کو حاکم بنانا اور ظلم و ستم کو ختم کرنا مقصود تھا ۔

لیکن افسوس کے ساتھ کهنا پڑتا هےکه بعض مسلم ممالک کے مفتی حضرات ؛ جیسے سعودی عرب کے مفتی بن جبرین ، اور مصر کے درباری ملا ، طنطاوی ، نے فتویٰ دیا تھا که حزب الله کی مدد کرنا، بلکہ ان کے لئےدعا کرنا بھی جائز نهیں هے اور حرام هے ؛ کیونکه وه لوگ شیعه هیں ۔ اسي طرح سعودی حکومت بھي اسرائیل کے جنگی طياروں کولبنان پر حمله کرنے کیلئے پیٹرول (فیول) دیتی رهی۔

اور جب مسلمانوں کی طرف سے یه لوگ دباؤ میں آئے تو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے هوئے اپنی قوم اور ملت کے سامنے معافی مانگنے پر مجبور هو گئے ۔ اور مفتی بن جبرین نے اپنے ویب سایٹ پر غلطی کا اعتراف کرتے هوئے معافی مانگ لی ، اور کها: جو کچھ مجھ سے پهلے نقل هوا هے وه میرا قدیم اور پرانا نظریه تھا ؛ ابھی میرا جدید نظریه یه هے که یه حزب الله ، وهی حزب الله هیں جس کا ذکر

۲۹۰

قرآن مجید میں آیا هے ۔اور هم انهیں دوست رکھتے هیں اور ان کیلئے دعا بھی کرتے هیں ۔اور طنطاوي نے بھی جب جامعة الازهر کے اساتذه نے ان کے اوپر اعتراض کئے تو ان کے سامنےکها: جو کچھ میں نے پهلے بتايا تھا وه میرا اپنا ذاتی نظریه نهیں تھا بلکه حکومت کی طرف سے کهلوایا تھا ۔ اور میرا ذاتی نظریه ان کے بارے میں یه هے که حزب الله کے مجاهدین، اس وقت اسلام ، مسلمین اور عرب امت کی عزت اور کرامت کے لئے اسرائیل کے ساتھ لڑ رهے هیں ،لهذا ان کی حمایت کرنا ضروری هے ۔

آج کے دور میں سارے عرب ممالک میں محبوب ترین اسلامی شخصیت ، سید حسن نصرالله کو ٹھہرایا جاتا هے ۔ اور هر بچه ، جو پیداهوتا هے ؛ اس کا نام حسن نصرالله رکھ رهے هیں ۔ یه بهت دلچسپ بات تھی که اس سال جب ماه رمضان المبارک کا مهینه آیا اور لوگ روزه رکھنے لگے ؛ مصر میں بهترین اور اعلیٰ درجے کے خرما یا کھجور کا نام حسن نصرالله رکھا گیا ؛تا که روزه دار، افطاری کے وقت حسن

۲۹۱

نصرالله کو دعائیں دیں اور خراب کھجور کا نام بش اور بلر رکھا گیا۔

یه وه تاریخی حقائق هیں ، جن سے کوئی بھی اهل انصاف انکار نهیں کرسکتا ۔ اور ان حقیقتوں سے لوگ جب آشنا هوجاتے هیں تو خود بخود مذهب حقه کی طرف مائل هوجاتے هیں ، بشرطیکه درباری ملاؤں کی طرف سے مسلمانوں کوکوئی رکاوٹ درپيش نه هو۔

اب هم ان سے سوال کرتے هیں که آپ کوئی ایک نمونه پیش کریں جو آپ کے کسی سیاسی یا مذهبی رهنما نے ایسا کوئی انقلاب برپا کیا هو ، اور اپنی شجاعت کا ثبوت دیا هو، تاکه هم بھی ان کی پیروی کریں !اور همیں یقین هے که وه لوگ نه اسلام سے پهلے اور نه اسلام کے بعد ، کوئی ایسی جوان مردی نهیں دکھا سکتے ۔ کیونکه انهیں اپنی جوان مردی دکھانے کی ضرورت هی نهیں پڑی ؛ جو همیشه ظالم و جابر حکمرانوں کے کوڑوں اور تلواروں سے محفوظ رهے هیں ۔کیونکه وه لوگ همیشه

۲۹۲

حاکموں کے هم پیاله بنتے رهے هیں اوران کی هرقسم کے ظلم وستم کی تائید کرتے رهے هیں ۔ جس کی وجه سے تقیه کا موضوع هی منتفی هوجاتا هے ۔

اگر شیعه علما بھی ان کی طرح حکومت وقت کی حمایت کرتے اور ان کے هاں میں هاں ملاتے رهتے تو ان کو بھی کبھی تقيه کی ضرورت پیش نه آتی ۔بلکه ان کیلئے تقیه جائز بھی نه هوتا ، کیونکه تقیه جان اور مکتب کی حفاظت کی خاطر کیا جاتا هے ، اور جب ان کی طرف سے جان اور مال کی حفاظت کی گارنٹی مل جاتی تو تقیه کرنے کی ضرورت هی نهیں رهتی ۔

۷۔تقيه كافروں سے کیا جاتا هے نه کہ مسلمانوں سے

اشكال کرتے هیں که تقیه کافروں سے کیا جاتا هے نه کہ مسلمانوں سے ۔ کیونکه قرآن مجید میں تقیه کا حکم کافروں سے کرنے کا هے نه کہ مسلمانوں سے ۔ چنانچه

۲۹۳

فرمایا:

( لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِي شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّهِ الْمَصِيرُ ) ۔(۱)

خبردار صاحبانِ ایمان !مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اور یه تقیه ابتدائے اسلام میں تھا ، لیکن شیعه حضرات ، اهل حدیث سے تقیه کرتے هیں ۔

پهلاجواب:

یه شيعيان حيدر كرار کی مظلوميت تھی که جو مسلمانوں سے بھی تقیه کرنے اور اپنا عقیده چھپانے پر مجبور هوگئے ۔ اور یه نام نهاد

____________________

۱۔ سوره مباركه آلعمران/۲۸۔

۲۹۴

مسلمانوں کیلئے لمحه فکریه هے که وه اپنے اعمال اور کردار اور عقیدے پر نظر ثانی کریں ۔ جو کافروں والا کام اوربرتاؤ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتا هو ، کیونکه اگر تقیه کرنے کی وجه اور علت کو دیکھا جائے تو معلوم هوجاتا هے که نتیجه یہی نکلتا هے ، اور وه دشمن کی شر سے دین، جان اور مال کی حفاظت کرنا هے

دوسرا جواب:

ظاهر آيه اس بات پر لالت کرتی هے که تقیه ان کافروں سے کرنا جائز هے جو تعداد یا طاقت کے لحاظ سے مسلمانوں سے زیاده قوی هوں ۔

لیکن شافعی مذهب کے مطابق اسلامی مختلف مکاتب فکر سے تقیه کرنا جائز هے ۔ کیونکه شافعی کے نزدیک مجوز تقیه ، خطر هے ، خواه یه خطر کافروں سے هو یا مسلمانوں سے هو ؛ فخر رازی آیۃ شریفہ

( لا ان تتقوا منهم تقاة )

کی تفسیرمیں لکھتا ہے کہ تقیہ کافروں کے مقابلے میں مباح ہے

۲۹۵

(الا ان مذهب الشافعی ان الحالة بین المسلمین اذا شاکلت الحالة بین المشرکین حلت التقیه محاماة علی النفس(۱)

اسی طرح تفسیر نیشاپوری کہ جو تفسیر طبری کا حاشیہ ہے لکھتا ہے :

(قال الامام الشافعی:تجوز التقیة بین المسلمین کما تجوز بین الکافرین محاماة عن النفس(۲)

شیعه مسلمانوں کے هاتھوں بهت سی سختیوں اور مشکلات کو تحمل کرنے پر مجبور هوئے هیں ۔ اور یه مظلومیت ،شهادت علي ابن ابي طالبعليه‌السلام کے بعد سے شروع هوئی ۔ان دوران میں بنی امیه کے کارندوں نے شیعه مردوں عورتوں ، چھوٹے بڑوں ، حتی کہ شیعوں کے کھیتوں اور حیوانات پر بھی رحم نهیں کيا ۔آخر کار انهیں بھی آگ لگادی گئي۔

جب معاویه اريكه قدرت پر بیٹھا تو شيعيان عليعليه‌السلام کو سخت سے

____________________

۱۔ فخر رازی؛ تفسیر کبیر،ج۸،ص۱۳۔

۲۔ تفسیر نیشاپوری(حاشیہ تفسیر الطبری)،ج۳،ص۱۱۸۔

۲۹۶

سخت قسم کی اذیتیں پهنچانا شروع کیں۔ اور ان کی زندگی تنگ کردی ۔اور اس نے اپنےایک کارندے کو خط لکھا : کہ میں علی اور اولاد علی کے فضائل بیان کرنے والوں سے اپنی ذمه بری کرتا هوں ، یعنی انهیں نابود کرتا ہوں۔

یهی خط تھا که جس کی وجه سے ان کی نماز جماعت اور جمعہ کے خطیبوں نے علی پر ممبروں سے لعن طعن کرتے هوئے ان سے اظهار برائت کرنے لگے ، یه دور،کوفه والوں پر بهت سخت گزرا، کیونکه اکثر کوفه والے علی کے ماننے والے تھے ۔ معاویه نے زیاد بن سمیه کو کوفه اور بصره کی حکومت سپرد کی ، یه ملعون شیعوں کو خوب جانتا تھا ، ایک ایک کرکے انهیں شهیدکرنا ، هاتھ پیر ، کان اور زبان کاٹنا ، آنکھیں نکالنا اور شهر بدر کرنا شروع کیا ۔

اس کے بعد ایک اور خط مختلف علاقوں میں بانٹنا شروع کیا ؛ جس میں اپنے کارندوں اور حکومت والوں کو حکم دیا گياکه شیعوں کی کوئی گواهی قبول نه کریں ۔

۲۹۷

سب سے زیاده دشواری اور سختی عراق ، خصوصاً کوفه والوں پر کی جاتی تھی ؛ کیونکه وه لوگ اکثر شیعیان علی ابن ابی طالبعليه‌السلام تھے ۔اگر یه لوگ کسی معتبر شخص کے گھر چلےجاتے تو ان کے غلاموں اور کنیزوں سے بھی احتیاط سے کام لینا پڑتا تھا ؛ کیونکه ان کے اوپر اعتماد نهیں کرسکتے تھے ۔اور انهیں قسم دلاتے تھے که ان اسرار کو فاش نهیں کریں گے ۔ اور یه حالت امام حسن مجتبیٰ کے دور تک باقی رهی ، امام مجتبیٰ کی شهادت کے بعد امام حسینعليه‌السلام پر زندگی اور تنگ کردی۔

عبدالملك مروان کی حکومت شروع هوتے اور حجاج بن يوسف کے بر سر اقتدار آتے هی ، دشمنان امير المؤمنينعليه‌السلام هر جگه پھیل گئے اور علی کے دشمنوں کی شأن میں جعلی احادیث تحریرکرنے ، اور علیعليه‌السلام کی شأن میں گستاخی کرنے لگے۔اور یه جسارت اس قدر عروج پر تھی که عبدالملك بن قريب جو اصمعي کا دادا تھا ؛ عبدالملك سے مخاطب هوکر کهنے لگا : اے امیر ! میرے والدین نے مجھے عاق کردیا هے اور سزا کے طور پر میرا نام علی رکھا هے ۔ میرا کوئی مددگار نهیں ،

۲۹۸

سواے امیر وقت کے ۔ اس وقت حجاج بن یوسف هنسنے لگا اور کها: جس سے تو متوسل هوا هے ؛ اس کی وجه سے تمھیں فلاں جگه کی حکومت دونگا ۔(۱)

امام باقرعليه‌السلام شیعوں کی مظلومیت اور بنی امیه کے مظالم کے بارے میں فرماتے هیں : یه سختی اور شدت معاويه کے زمانے اور امام مجتبيعليه‌السلام کی شهادت کے بعد اس قدر تھی که همارے شیعوں کو کسی بھی بهانے شهید کیا جاتا تھا اور هاتھ پاؤں کاٹے جاتے اور جو بھی هماری محبت کا اظهار کرتا تھا ان سب کو قید کرلیا جاتا تھا اور ان کے اموال کو غارت کرتے تھے ۔ اور گھروں کو آگ لگاتے تھے ،یه دشواری اور سختی اس وقت تک باقی رهی که عبید الله جو امام حسینعليه‌السلام کا قاتل هے کے زمانے میں حجاج بن یوسف اقتدار پر آیا تو سب کو گرفتار کرکے مختلف تهمتیں لگا کر شهید کر دیا گیا ۔اور اگر کسی پر یه گمان پیدا هوجائے ، که شیعه هے ، تو اسے قتل کیا جاتا تھا ۔(۲)

____________________

۱ ۔ عباس موسوي؛ پاسخ و شبهاتي پيرامون مكتب تشيع،ص۸۶۔

۲ ۔ ابن ابي الحديد؛ شرح او، ج ۱۱ ص۴۴۔

۲۹۹

یه تو بنی امیه کا دور تھا اور بنی عباس کا دور تو اس سے بھی زیاده سخت دور اهل بیت ؑ کے ماننے والوں پر آیا ۔ چنانچه شاعر نے علیکے ماننے والوں کی زبانی یه آرزو کی هے ، که اے کاش ، بنی امیه کا دور واپس پلٹ آتا !:

فياليت جور بني مروان دام لنا و كان عدل بني العباس في النار

اےكاش ! بنی امیه کا ظلم و ستم ابھی تک باقی رهتا اور بنی عباس کا عدل و انصاف جهنم کی آگ میں جلتا۔

جب منصور سن ۱۵۸ ھ میں عازم حج هوا كه وه اس کی زندگی کا آخری سال تھا ؛ ریطه جو اپنے بھائی سفاح کی بیٹی اور اپنے بیٹے کی بیوی (بهو) تھی ، اسے اپنے پاس بلا کر سارے خزانے کی چابیاں اس کےحوالےکردیں اور اسے قسم دلائی که اس کے خزانے کو کسی کیلئے بھی نهیں کھولے گي۔اور کوئی ایک بھی اس کے راز سے باخبر نه هو،حتی کہ اس کا بیٹا محمد بھی ، لیکن جب اس کی موت کی خبر ملی تو محمد اور اس کی بیوی جا کر خزانے کا دروازه کھولا ، بهت هی وسیع اور عریض کمروں میں پهنچے ، جن میں علی کے ماننے والوں کی کھوپڑیاں اور جسم کے ٹکڑے اور

۳۰۰