تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 64477
ڈاؤنلوڈ: 1546

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64477 / ڈاؤنلوڈ: 1546
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

لاشیں ملیں ۔اور هر ایک کے کانوں میں کوئی چیز لٹکی هوئی تھی که جس پر اس کا نام اور نسب مرقوم تھا ۔ ان ميں بچے ، نوجوان اوربوڑھے سب شامل تھے ۔الا لعنة الله علي القوم الظالمين !۔محمد نے جب یه منظر دیکھا تو وه مضطرب هو ا اور اس نے حکم دیا که ان تمام لاشوں کو گودال کھود کر اس میں دفن کیا جائے ۔(۱)

بنی عباس کے بادشاهوں نے علیعليه‌السلام کے فضائل بیان کرنےوالے شاعروں کی زبان کاٹی ، اور ان کو زنده درگور کیا اور جو پهلے مر چکے تھے ان کو قبروں سے نکال کرجسموں کو جلادیا ۔ ان سب کا صرف ايک هي جرم تھا ؛ اوروه محبت علی کے سوا کچھ اورنه تھا ۔

شيعيان آفريقا ،معاذ ابن باديس کے دور میں سنه ۴۰۷ ھ میں سب

____________________

۱۔ عباس موسوي؛ پاسخ و شبهاتي پيرامون مكتب تشيع،ص۸۷۔

۳۰۱

کو شهید کیاگیا اور حلب کے شیعوں کو بھی اسی طرح بے دردی سے شهید کیاگیا۔

اهل انصاف!خود بتائیں که ان تمام سختیوں ، قید وبند کی صعوبتوں اور قتل و غارت ،کے مقابلے میں اس مظلوم گروه نے اگر تقیه کر کے اپني جان بچانے کي کوشش کي ، تو کیا انهوں نے کوئی جرم کیا؟!!

اور یه بتائیں که کون سا گروه یا فرقه هے ؛ جس نے شیعوں کی طرح اتنی سختیوں کو برداشت کیا هو ؟!!

۳۰۲

خاتمه:جمع بندی اور نتیجہ گیری

اگرچہ مقدمہ میں اس کتاب کا نچوڑ بیان گیا ہے پھر بھی جمع بندی اور نتیجہ کے طور پر کچھ اختتامی کلمات بیان کرتے ہیں:یہ کتاب ایک مقدمہ اور چھ فصلوں پر مشتمل ہے:

پہلی فصل کلیات تقیہ ہے ،جس میں تقیہ کی تعریف،اقسام، آثار ،فوائد اور شرائط بیان کیا گیا ہے۔

دوسری فصل تاریخ تقیہ سے مربوط ہے ،جس میں اسلام سے پہلے [حضرت آدم ؑ سے لے کر اصحاب کہف تک ] اور اسلام کے بعد[حضرت ابوطالب ؑ سے لے کر آئمہ طاہرینؑ اور امام زمان ؑکے خاص نائبین تک کے ] مواردشامل ہیں۔

تیسری فصل میں مذاہب اہل سنت اور تقیہ سے مربوط واقعات بیان کئے گئے ہیں ،جن میں حضرت عمر سے لے کر امام مالک،امام شافعی،حنفی اور حنبلی تک اور پھر امام بخاری سے لے کر وہابی علمائے رجال تک بیان کیا گیا ہے۔

چوتھی فصل میں تقیہ کے جائز ہونے پر قرآن کریم اور سنت نبوی سے ،ساتھ ہی

۳۰۳

عقلی ،اور فطری دلائل بطور تفصیل بیان کیا گیا ہے۔

پانچویں فصل میں تقیہ کے حرام ہونے اور واجب ہونے کے موارد کو جدا گانہ ذکر کیا گیا ہے۔

چھٹی فصل جو اہم ترین فصل شمار ہوتی ہے جس میں ابن تیمیہ و امثال آن کی طرف سے کئے گئے اشکالات اور شبہات کو تین حصوں [الف:تشریع تقیہ ،امام معصوم اور شیعیان حیدر کرارؑ ]میں تقسیم کرکے ان کا مدلل جواب دیا گیاہے ۔ امید رب العزت ہے کہ یہ مطالب آپ اور میرے لئے مفید اور باعث ہدایت اور ثبات قدم ہو اور ساتھ ہی آپ سے یہ امید بھی رکھی جاتی ہے کہ اس میں جو بھی نقائص آپ کی نظر مبارک سے گزرے ، اس کی نشاندہی کرکے بندہ حقیر کی اصلاح فرمائیں گے۔اور مفید پیشنہادات سے نوازیں گے۔

اگر ایک جملہ میں ان بحثوں کا نچوڑ بیان کرنا چاہے تو یوں کہیں گے : کہ جو لوگ شیعوں پر تقیہ کا تہمت لگا کر مذمت کرتے ہیں وہ لوگ خود قابل مذمت ہیں جو دوسروں کو تقیہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

۳۰۴

اس کا فیصلہ اہل انصاف پر چھوڑتے ہیں کہ مذمت کے قابل ہم ہیں یا وہ لوگ۔

پهلے تحریرہواہےکه تقیه کهاں واجب هے؟ کهاں مستحب هے ؟ اور کهاں حرام هے؟اور کهاں مکروه و مباح ہے؟یهاں هم بطور خلاصه ان موارد کو بیان کریں گے تا که مکمل طور پر واضح هو سکے :

تقیه کا واجب هونا :

تقیه کرنا اس وقت واجب هوجاتا هے که جب بغیر کسی فائدے کے اپنی جان خطرے میں پڑجائے ۔

تقیه کا مباح هونا:

تقیه اس صورت میں مباح هوجاتا هے که اس کا ترک کرنا ایک قسم کا دفاع اور حق کی تقویت کا باعث هو۔ ایسے مواقع پر انسان فداکاری کرکے اپنی جان بھی دے سکتا هے ،اسی طرح اسے یه بھی حق حاصل هے که وه اپنے حق سے دست بردار هوکر اپنی جان بچائے ۔

۳۰۵

تقیه کا حرام هونا:

اس صورت میں تقیه کرنا حرام هوجاتا هے جب باطل کی ترویج، گمراهی کا سبب، اور ظلم وستم کی تقویت کا باعث بنتا هو۔ایسے موقعوں پر جان کی پروا نهیں کرنا چاهئے اور تقیه کو ترک کرنا چاهئے ۔اور هر قسم کی خطرات اور مشکلات کو تحمل کرنا چاهئے ۔

ان بیانات سے واضح هواہے که تقیه کی حقیقت کیا هے اور شیعوں کا عقلی اور منطقی نظریه سے بھی واقف هوجاتا هے ، اس ضمن میں اگر کوئی تقیه کی وجه سے ملامت اور مذامت کرنے کے لائق هے تو وه تقیه کرنے پر مجبور کرنے والے هيں ، که کیوں کہ آخر اپنی کم علمی کی وجه سے دوسرے مسلمانوں کی جان و مال کے درپے هوگئے هوں؟ او ر تقیه کرنے پر ان کو مجبور کرتے هوں؟!!پس وه لوگ خود قابل مذمت هیں ، نه یه لوگ۔کیونکه تاریخ کے اوراق یه بتاتے هیں که معاویه نے جب حكومت اسلامي کی باگ دوڑ مسلمانوں کی رضایت کے بغیر سنبھال لی تو اس کی خودخواهی اس قدر بڑھ گئی که جس طرح چاهے اور جو چاهے ، اسلامی

۳۰۶

احکام کے ساتھ کھیلتارہے ، اور کسی سے بھی خوف نهیں کھائے ، حتی کہ خدا سے بھی !! خصوصاً شیعیان علی ابن ابی طالبعليه‌السلام کا پیچھا کرتا تھا ، ان کو جهاں بھی ملتا ، قتل کیا کرتا تھا ، یهاں تک که اگر کسی پر یه شبهه پیدا هوجائے که یه شیعه هے تو اسے بھی نهیں چھوڑتا تھا ۔ بنی امیه اور بنی مروان نے بھی اسی راه کو انتخاب کیا اور ادامه رکھا ۔بنی عباس کی نوبت آئی تو انہوں نے بھی بنی امیہ کے مظالم اور جنایات کا نہ صرف تکرار کیا بلکہ ظلم وستم کا ایک اور باب کھولا ، جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ایسے میں شیعہ تقیہ کرنے کے سوا کیا کچھ کر سکتے تھے؟یہی وجہ تھی کہ کبھی اپنا عقیدہ چھپاتے اور کبھی اپنے عقیدے کو ظاہر کرتے تھے۔جس طریقے سے حق اور حقیقت کا دفاع ہوسکتا تھا اور ضلالت اور گمراہی کو دور کرسکتے تھے۔ ایسے موارد میں شيعه اپنا عقيده نهيں چھپاتے تھے ، تاکه لوگوں پر حجت تمام هوجائے ۔اورحقانيت لوگوں پر مخفي نه ره جائے ۔اسي لئے هم ديکھتے هيں که

۳۰۷

هماري بهت ساري هستياں اپنے دور ميں تقيه کو کلي طور پر پس پشت ڈالتے هوئے اپني جانوں کو راه خدا ميں قربان کرتے، اور ظالموں کی قربان گاهوں اور پھانسي کے پھندوں تک جانے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھنے لگے ۔

تاريخ کبھي بھي مجعذراء (شام کي ايک ديہات کانام هے) کے شهداء کو فراموش نهيں کرے گي۔يه لوگ چوده افرادتھے جو بزرگان شيعه تھے ، جن کا سربراه وهي صحابي رسول تھے جن کا زهد و تقوي اور عبادت کي وجه سےجسم نحيف هوچکے تھے۔اور وه کون تھے ؟ وه عظيم نامور حجر بن عدي کنديؓ تھے ، شام کو فتح کرنے والي فوج کے سپه سالاروں ميں سے تھے ۔

ليکن معاويه نے ان چوده افراد کو سخت اذيتيں دے کر شهيد کيا ۔ اور اس کے بعد کها: ميں نےجس جس کو بھي قتل کيا ، اس کي وجه جانتا هوں ؛سوائے حجر بن عديؓ کے ، که اس کا جرم کيا تھا ؟!

۳۰۸

ابن زياد بن ابيه جو بدکارعورت سميه کا بيٹا تھا ؛ شراب فروش ابي مريم کي گواهي کي بناپر معاويه نے اسے اپنا بھائي کهه کر اپنے باپ کي طرف منسوب کيا ؛ اسي زيادنے حکم ديا که رشيد حجريؓ کو عليعليه‌السلام کي محبت اور دوستي کے جرم ميں ، ان کے هاتھ پير اور زبان کاٹ دی جائے ۔اور درخت کی ٹهني کی سولي پر چڑھایا جائے۔

ابن زياد جو اسي زنازاده کا بيٹا تھا ، نے علي کے دوستدار ميثم تمارؓ کو مار پيٹ کے بعد اسے دونوں هاتھ اور دونوں پاؤں اور زبان کو کاٹ کر تين دن تک کچھور کے اس سوکھی ٹهني پر لٹکائے رکھا، جس کي جب سے مولا نے پيشن گوئي کي تھي اس وقت سے اس تنے کو پاني ديتا رها تھا ، اور تين دن بعد اسے بے دردي سے شهيدکيا گيا ۔(۱)

____________________

۱۔ شيعه مي پرسد، ص ۲۹۰۔

۳۰۹

اے اهل انصاف! اب خودبتائيں که ظلم و ستم کے ان تمام واقعات ميں کون زياده قابل مذمت هے ؟! کياوه گروه جسے تقيه کرنے اور اپناعقيده چھپانے پر مجبور کيا گيا هو يا وه گروه جو اپنے دوسرے مسلمانوں کو تقيه کرنے اور عقيده چھپانے پر مجبور کرتے هوں؟!دوسرے لفظوں ميں مظلوموں کا گروه قابل مذمت هے يا ظالوں کا گروه ؟!

هر عاقل اور باانصاف انسان کهے گا : يقيناً دوسرا گروه هي قابل مذمت هے۔

آقاي كاشف الغطاء  دوسروں کو تقيه کرنے پر مجبور کرنے والوں سے سوال کرتے هيں اور جواب ديتے هيں : کيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابي عمر بن حمق خزاعي ؓاور عبد الرحمن ابن حسانبيؓ ، زياد کے هاتھوں« قس الناطف» ميں زنده درگورکئے جانے کو فراموش کرسکتے هيں؟!!

۳۱۰

کيا ميثم تمارؓ ، رشيد هجريؓ اور عبدالله بن يقطرؓجيسي هستيوں کو ابن زياده نے جس طرح بے دردي سے سولي پر چڑا کر شهيد کيا ؛ قابل فراموش هے؟!

ان جيسے اور سينکڑوں عليعليه‌السلام کے ماننے والے تاريخ ميں مليں گے جنهوں نے اپني پياري جانوں کو الله کي راه ميں قربان کرنے سے دريغ نهيں کيا ۔کيونکه يه لوگ جانتے تھے که تقيه کهاں استعمال کرنا هے اور کهاں ترک کرنا هے ۔يه لوگ بعض مواقع ميں تقيه کو اپنے آپ پر حرام سمجھتے تھے۔کيونکه اگر يه لوگ ان موارد ميں تقيه کرتے تو حق اور حقيقت بالکل ختم هوجاتی ۔

آقاي كاشف الغطاء  فرماتے هيں:ميں معاويه سے يهي پوچھوں گا که حجر بن عدي ؓکا کيا قصور تھا اور اس کا کيا جرم تھا ؟ سوائے عليعليه‌السلام کي محبت اور مودت کے ، جس سے اس کا دل لبريز تھا ۔اس نے تقيه کو کنار رکھتے

۳۱۱

هوئے بني اميه کا اسلام سے کوئي رابطه نه هونے کو لوگوں پر آشکار کرديا تھا۔ هاں اس کا اگر کوئي گناه تھا تو وه حق بات کا اظهار کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتا تھا ۔ اور يهي اس کا مقدس اور اهم هدف تھا ، جس کي خاطر اپني جان کا نذرانه دينے سے دريغ نهيں کيا ۔(۱)

ابن اثير لکھتا هے که حجر بن عديؓ کے دو دوستوں کو پکڑ کرشام ميں معاويه کی طرف روانه کيا گيا ؛ معاويه نے ايک سے سوال کيا : عليعليه‌السلام کے بارے ميں کيا کهتے هو؟!

اس نے کها: وهي ، جو تو کهتا هے ۔

معاويه نے کها: ميں ان سے اور ان کے دين سے که جس کي وه

____________________

۱۔ اين است آئين ما، ص ۳۶۸۔

۳۱۲

پيروي کرتا هے، اور اس خدا سے که جس کي وه پرستش کرتا هے ، بيزار هوں ۔

وه شخص خاموش رها۔اس مجلس ميں موجود بعض لوگوں نے ان کي سفارش کي، اور معاويه نے بھي ان کي سفارش قبول کرلي ۔اور اسے آزاد کرديا ۔ ليکن اسے شهر بدر کرکے موصل کی طرف بھيجا گيا ۔

معاويه نے دوسرے سے سوال کيا :تم عليعليه‌السلام کے بارے ميں کيا کهتے هو؟

اس نے کها: مجھے چھوڑ دو ، نه پوچھو توبهتر هے ۔

معاويه نے کها: خدا کي قسم تمهيں جواب دئیے بغير نهيں چھوڑوں گا ۔

۳۱۳

اس مرد مجاهد نے کها: ميں گواهي ديتا هوں علي بن ابي طالبعليه‌السلام ان لوگوں ميں سے تھے جو الله تعالي کو بهت ياد کرتے تھے اور حق بات کي طرف لوگوں کو دعوت ديتے تھے ، عدل اور عدالت کے قيام کے لئے کوشان تھے،عليعليه‌السلام ان ميں سے تھے جو لوگوں کي دادو فرياد سنتے تھے ،۔۔۔ اس طرح وه فضائل عليعليه‌السلام بيان کرتے گئے اور لوگ انهيں داد ديتے گئے ۔يهاں تک که معاويه نے کها : تو نے اپنےآپ کو هلاکت ميں ڈالا ہے۔

اس محب عليعليه‌السلام نے کها:بلکه ميں نے تجھے بھي هلاک کيا، يعني لوگوں کے سامنے تجھے بھي ذليل و خوارکيا۔

معاويه نے حکم ديا که اس شخص کو زياد بن ابيه کے پاس واپس بھيج دو، تاکه وه اسے بدترين حالت ميں قتل کردے !

زياد بن ابيه ملعون نے بھي اس محب عليعليه‌السلام کو زنده درگور کيا ۔

۳۱۴

اگر يه لوگ تقيه کرتےتو لوگوں تک عليعليه‌السلام کے فضائل نه پهنچتے ، اور دين اسلام معاويه ، يزيداور ابن زياد والا دين بن کر ره جاتا۔يعني ايسا دين ؛ جو هر قسم کے رزائل ( جيسے مکرو فريب ، خيانت ومنافقت،ظلم و بربريت ،۔۔۔) کا منبع هوتا ۔اور يه دين کهاں اور وه دين جو تمام فضليتوں کامنبع هے، جسے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لايا اسےعليعليه‌السلام اور اولاد علي  نے بچايا اور ان کے دوستوں نے قيامت تک کيلئے حفاظت کي ؛ کهاں؟!!!

هاں يه لوگ راه حق اور فضيلت ميں شهيد هونے والے هيں ۔ جن ميں سے ايک گروه شهدائے طف هے ، جس کا سپه سالار حسين  هيں ، جنهوں نے کبھي بھي ظلم وستم کو برداشت نهيں کيا ، بلکه ظالموں کے مقابلے ميں بڑي شجاعت اور شهامت کے ساتھ جنگ کي ، اور تقيه کو اپنے اوپر حرام قرار ديا ۔

۳۱۵

اب ان کے مقابلے ميں بعض عليعليه‌السلام کے ماننے والے تقيه کرنے پر مجبور تھے ، کيونکه شرائط،اوضاع واحوال اور محيط فرق کرتا تھا۔بعض جگهوں پرمباح ، يا جائز سمجھتے تھے اور بعض جگهوں پر واجب يا حرام يا مکروه۔

اب هم مسلمانوں سےيهي کهيں گے که آپ لوگ دوسرے مسلمانوں کو تقيه کرنے پر مجبور کرتے هو اور پھر کهتے هو که شيعه تقيه کيوں کرتے هيں ؟آپ کوئي ايسا کام نه کريں ، که دوسرے مسلمان تقيه کرنے پر مجبور هوجائيں ۔

ان لوگوں کو کيا غم ؟!

چاليس هجري سے ليکر اب تک شيعه اور ان کے اماموں نے رنج و الم، اذيت اورآزارميں زندگي بسرکی۔کسي نے زندگي کا بيشتر حصه

۳۱۶

قيد خانوں ميں گزارا ، کسي کو تيروں اور تلواروں سے شهيد کيا گيا، تو کسي کو زهر ديکر شهيد کيا گيا ۔ان مظالم کي وجه سے تقيه کرنے پر بھي مجبور هوجاتےتھے۔

ليکن دوسرے لوگ معاويه کي برکت سے سلسله بني اميه کے طويل و عريض دسترخوان پر لطف اندوز هوتے تھے ، اس کے علاوه مسلمانوں کے بيت المال ميں سے جوائز اور انعامات سے بھي مالامال هوتے تھے ،اور بني عباس کے دور ميں بھي يه برکتوں والا دسترخوان ان کيلئے بچھا رهتا تھا ۔يهي وجه تھي که ان نام نهاد اور ظالم وجابر لوگوں کو بھي اولي الامر اور واجب الاطاعة سمجھتے تھے ۔اس طرح يزيد پليد ، وليد ملعون اور حجاج خونخوار کو بھي خلفائے راشدين ميں شامل کرتے تھے ۔

خدايا !ان کی عقل کو کیا ہوگیا ہے ؟ یہ لوگ دوست کوبھی رضی اللہ اور

۳۱۷

دشمن کو بھی رضی اللہ۔ علیعليه‌السلام کوبھی خلیفہ اور معاویہ کوبھی خلیفہ مانتے ہیں، جب کہ ان دونوں میں سے صرف ایک برحق ہوسکتا ہے ۔ اگر کہیں کہ ان کے درمیان سیاسی اختلاف تھا ؛ تو سب سے زیادہ جوطولانی جنگ مسلمانوں کے درمیان ہوئی ،وہ جنگ صفین ہے ، جس میں سینکڑون مسلمان مارے گئے۔ اور جہاں مسلمانوں کاقتل عام ہورہاہو؛ اسے معمولی یا سیاسی اختلاف سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح یزید کو بھی رضی اللہ عنہ اور حسین کو بھی رضی اللہ عنہ ، عمر بن عبدالعزیز کو بھی رضی اللہ عنہ اور متوکل عباسی اور معتصم کو بھی رضی اللہ عنہ؟ یعنی دونوں طرف کو واجب الاطاعۃ سمجھتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف اور قانون ہے ؟ اور کون سا عاقلانہ کام ہے ؟

سؤال يه هے که کيا يه لوگ بھي کوئي رنج و الم ديکھيں گے ؟!

۳۱۸

ليکن اس بارے ميں اماميه کا کيا عقيده هے؟ ذرا سن ليں : شيعه اسے اپنا امام اور خليفه رسول مانتے هيں جوالله اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کي جانب سے معين هوا هو ، نه لوگوں کے ووٹ سے۔اس سلسلے ميں بهت لمبي بحث هے ، جس کيلئے ايک نئي کتاب کي ضرورت هے ۔

خلاصه کلام يه هے که شيعه هر کس وناکس کو خليفه رسول نهيں مانتے؛ بلکه ايسے شخص کو خليفه رسول مانتے هيں ، جو خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کي طرح معصوم هو اور خود رسول پاک نے منتخب کیا ہو۔

هم کهتے هيں که ٹھيک هے هم تقيه کے قائل هيں ،ليکن هم پر اعتراض کرنے والے هميشه حاکم وقت کي چاپلوسي کرنے ميں مصروف رہے هيں۔اور آپ کوئي ايک مورد دکھائيں ، که جس ميں اپنا کوئي دینی رہنما نے ظالم و جابر حاکم کو نهي از منکر کرتے هوئے اسے ناراض کيا هو؟!

اس کے باوجود که آپ کے بهت سے علما ءجو درباري تھے ، جب بني اميه کا حاکم وليد ، بقول آپ کے،اميرالمؤمنين مستي اور نشے کي حالت

۳۱۹

ميں مسجد ميں نماز جماعت کراتا هے اور محراب عبادت کو شراب کي بدبو سے آلوده کرتا هے اور صبح کي نمازچار رکعت پڑھا تا هے ، جب لوگ کانافوسي کرنے لگتے هيں تو وه پيچھے مڑ کر کهتا هے : اگر رکعتیں کم هوئیں تو اور چار رکعت پڑھا دوں؟!کوئي بھي حالت تقيه سے نکل کر اسے روکنے يا نهي از منکر کرنے والا نهيں هوتا ! !

اگرعليعليه‌السلام کے هزاروں شيعوں کاخونخوارقاتل حجاج بن يوسف جو آپ کی نگاهوں ميں اولوالامر هے ، کے ساتھ گفتگو سننا چاهتے هو تومعلوم هوجائے گا که کن کن هستيوں نے اس ظالم و جابر کے ساتھ آنکھوں ميں آنکھيں ڈال کر باتیں کي ہیں ؟!

بڑے بڑے دانشمندوں جيسے شهيد اول محمد بن مکي عامليؓ ، کو پهلے تلوار سے شهيد کيا گيا ،پھر لاش کو سولي پر لٹکا رکھا ، پھر اسے دمشق کے قلعے ميں لے جاکرجلايا گيا! !

۳۲۰