تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 62590
ڈاؤنلوڈ: 1483

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62590 / ڈاؤنلوڈ: 1483
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

ہے ۔اور اس دوران امام حسن و امام حسينعليه‌السلام کا مروان بن حكم ، حاكم مدينه کے پیچھے نماز پڑھنا بھی سياسي و اجتماعي تقيه کے مصاديق میں سے ہے ۔(۱)

اگر تاریخ کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام سجادعليه‌السلام تقیہ کرنے کا ایک خاص طریقہ اپناتے ہیں اور وہ دعا کی شکل میں اسلامی معارف اور تعلیمات کا عام کرنا ہے ۔ جس کا مجموعہ صحیفہ سجادیہ کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے ۔

امام باقرعليه‌السلام او رتقيه

امام باقرعليه‌السلام کا دور بنی امیہ کے کئی خلفاءوليد بن عبد الملك ، سليمان بن عبد الملك،عمر بن عبد العزيز، هشام بن عبد الملك)کا دور تھا اس دوران میں سخت گيري نسبتاً كم ہوئی ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے شيعه مکتب کے مختلف کلامي، فقهي اور فرهنگي امور کو تدوين کرکے اسلامي مکاتب کے سامنے رکھ ديا ، اور بهت

____________________

۱: بحار الانوار، ،ج۸۸۔

۸۱

سے شاگردوں کي تربيت کي ۔

ہم امام ؑ کے سیاسی تقیہ کے موارد میں سے درج ذیل توریہ والی روایت کو شمار کر سکتے ہیں کہ امام ؑ نے ہشام کی مجلس میں اس سے یوں خطاب کیا :يا امير المؤمنين الواجب علي الناس الطاعة لامامهم و الصدق له بالنصيحه ۔(۱) اے امير المؤمنین! لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے امام ؑ کی اطاعت کریں اور نصیحت اور خیر خواہی کے وقت اسے قبول کریں ۔

اس روایت میں لفظ امام ،غاصب حاكموں ا ور آئمہ اهل بيتعليهم‌السلام دونوں پر قابل تطبيق ہے ۔بنی امیہ کے بادشاہوں سے تقیہ کرتے ہوئے شاہین اور عقاب کے ذریعے شکار کرنے کو حلال قرار دیا ؛ ان دو پرندوں کے ذریعے خلفائے بنی امیہ بہت زیادہ شکار کیا کرتے تھے ۔امام باقرعليه‌السلام کےتقیہ کرنے پر یہ روایت صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے ۔(۲)

____________________

۱: بحار الانوار ، ج ۴۶، ص ۳۱۶۔

۲:وسائل الشيعه ، ج ۱۶ ،ص ۲۶۴۔

۸۲

امام صادقعليه‌السلام اور تقيه

امام صادقعليه‌السلام کي ۳۴ ساله مدت امامت ۱۱۴ ھ سے لیکر ۱۴۸ ھ تک) آئمہ طاهرينعليهم‌السلام کي طولاني ترين مدت امامت شمار ہوتی ہے كه جسے تین حصوں میں تقسيم کرسکتے ہیں:

پہلاحصہ:

یہ هشام بن عبد الملک( ۱۰۵ ـــ ۱۲۵) کادور تھا ، جو سياسي لحاظ سے قدرت مند خليفه شمار ہوتا تھا اور مملكت اسلامي کے او ضاع پرمسلط تھا ۔ امام ؑ اور ان کی فعالیتوں کو سخت کنٹرول میں رکھتا تھا ۔

دوسرا حصہ :

یہ دوره سن ﴿ ۱۲۵ _ ۱۴۵ ﴾ھ کو شامل کرتا ہے كه بني اميه کي حكومت روبه زوال تھي اور بنی عباس کے ساتھ جنگ وجدال میں مشغول ہوگئے تھے آخرکار ان کے ہاتھوں شکست کھا کران کي حکومت سرنگوں ہوئي ۔

تیسرا حصہ:

سن( ۱۴۵ ـ ۱۴۸) ھ کوشامل کرتا ہے كه اس وقت منصور نے شدت

۸۳

کے ساتھ امام ؑ اور ان کی فعاليتوں کو مختلف اطراف سے كنٹرول کررکھا تھا۔

بحارالانوار میں آنحضرت کے تقيه سے مربوط ۵۳ روايت جمع کي گئي ہیں ۔(۱) كه جن میں سے زیادہ تر اس کتاب کے مختلف ٖصفحات پر ذکر ہوئی ہیں ۔

جب منصور نے امام ؑ کو ان کی حکومت کے خلاف قیام کرنے سے ڈرايا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا: میں نے بنی امیہ کے زمانے میں کوئي ایسا قيام نہیں کیا ہے جب کہ وہ سب سے زیادہ ہمارے ساتھ دشمنی کرنے والے تھے ، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے چچا زاد بھائی کے خلاف قیام کروں جب کہ رشتے کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہے ، اورسب سے زیادہ میرے اوپر مہربان اور نیکی کرنے والا ہے۔(۲)

امام صادقعليه‌السلام کی وصيت بعنوان تقیہ ہم بیان کر سکتے ہیں کہ جب امام صادقعليه‌السلام رحلت فرماگئے تو منصور نے مدينه کے گورنر کو خط لکھا : جس کو بھی امام ؑ نے اپنا جانشین

____________________

۱: ۔ بحار الانوار،ج ۷۵، ص ۳۹۳ ۔

۲: بحار الانوار،ج۷۵ ، ص،۱۹۶۔

۸۴

اوروصی بنایا، اسے اپنے پاس لا کر اس کا سر قلم کردو۔

جب مدینے کا گورنر اس ماجرا کی تحقیق کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ امامعليه‌السلام کئی افراد کو اپنے جانشین کے طور پر معین کرچکے هيں، جیسے موسی ابن جعفرعليه‌السلام ، اپنی زوجہ حميدہ اور اپنے دوسرےفرزند عبدالله اور خود امامعليه‌السلام ۔جن میں سے خود منصور اور مدینہ کا گورنر بھی شامل ہیں۔

دوسرے دن جب منصور کو یہ خبر دی گئی تو وہ چیخ اٹھا اور کہنے لگا : اے گورنر اس صورت میں میں کسی کو بھی قتل نہیں کرسکتا ۔(۱)

الْإِمَامُ الْعَسْكَرِيعليه‌السلام فِي تَفْسِيرِهِ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً قَالَ الصَّادِقُ ع قُولُوا لِلنَّاسِ كُلِّهِمْ حُسْناً مُؤْمِنِهِمْ وَ مُخَالِفِهِمْ أَمَّا الْمُؤْمِنُونَ فَيَبْسُطُ لَهُمْ وَجْهَهُ وَ أَمَّا الْمُخَالِفُونَ فَيُكَلِّمُهُمْ بِالْمُدَارَاةِ لِاجْتِذَابِهِمْ إِلَى الْإِيمَانِ فَإِنِ اسْتَتَرَ مِنْ ذَلِكَ يَكُفَّ شُرُورَهُمْ عَنْ نَفْسِهِ وَ عَنْ إِخْوَانِهِ الْمُؤْمِنِينَ

__________________

۱: مهدي پيشوائي ؛ سيره پيشوايان ، ص۴۱۴۔

۸۵

قَالَ الْإِمَامُ ع إِنَّ مُدَارَاةَ أَعْدَاءِ اللهِ مِنْ أَفْضَلِ صَدَقَةِ الْمَرْءِ عَلَى نَفْسِهِ وَ إِخْوَانِهِ كَانَ رَسُولُ اللهِ فِي مَنْزِلِهِ إِذِ اسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي سَلُولٍ فَقَالَ رَسُولُ اللهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ ائْذَنُوا لَهُ فَأَذِنُوا لَهُ فَلَمَّا دَخَلَ أَجْلَسَهُ وَ بَشَرَ فِي وَجْهِهِ فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللهِ قُلْتَ افِيهِ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ بِهِ مِنَ الْبِشْرِ مَا فَعَلْتَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ص يَا عُوَيْشُ يَا حُمَيْرَاءُ إِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ يُكْرَمُ اتِّقَاءَ شَرِّهِ وَ قَالَ الْإِمَامُ ع مَا مِنْ عَبْدٍ وَ لَا أَمَةٍ دَارَى عِبَادَ اللهِ بَأَحْسَنِ الْمُدَارَاةِ وَ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فِي بَاطِلٍ وَ لَمْ يَخْرُجْ بِهَا مِنْ حَقٍّ إِلَّا جَعَلَ اللهُ نَفَسَهُ تَسْبِيحاً وَ زَكَّى أَعْمَالَهُ وَ أَعْطَاهُ لِصَبْرِهِ عَلَى كِتْمَانِ سِرِّنَا وَ احْتِمَالِ الْغَيْظِ لِمَا يَحْتَمِلُهُ مِنْ أَعْدَائِنَا ثَوَابَ الْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ(۱)

امام عسکريعليه‌السلام اپني تفسير ميں امام صادقعليه‌السلام سے اس آيه شريفه کے ذيل ميں نقل فرماتے هيں :که هر انسان کے ساتھ نيک گفتار هونا چاهئے ، خواه وه مؤمن هو يا ان کا مخالف هو۔مؤمنوں کے ساتھ خوش روئي کے ساتھ پيش آئے،ليکن ان کے مخالفين کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آئيں تاکه ان کوايمان کي طرف جلب کرسکيں۔ اگر يه لوگ ان سے چھپائیں کہ یہ مؤمن ہیں تو ان کے شر سے اپنے

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج۹، ص ۳۶، باب استحباب مداراة الناس ۔

۸۶

آپ کو ، اپنے مؤمن بھائيوں کوبچا سکتے هيں ۔امام ؑ نے فرمايا : دشمنوں کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آنا؛ اپني جان، اور اپنے بھائيوں کا بهترين صدقه دينا هے۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايک دن اپنے گھر ميں تشريف فرما تھے که عبدالله بن ابي سلول نے دستک دي ، تو رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: قوم کا سب سے برا انسان هے ، اسے اندر آنے کي اجازت دي جائے ۔ جب وه اندر داخل هواتو آپ نے خنده پيشاني سے اس کا استقبال کيا ۔ جب وه نکل گيا تو عائشه نے سوال کيا : يا رسول الله ! آپ نے کها کچھ ، اور کيا کچھ؟تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:اے عويش اے حميرا! الله کے نزديک قيامت کے دن سب سے برا انسان وه هوگا، جس کے خوف سے لوگ اس کي عزت کريں ۔

امام ؑ نے فرمايا : کسي بھي مرد اور عورت ميں سے کوئي بھي الله کے بندوں کيساتھ نيکي کرے ، جبکه وه اس حالت میں باهر نهيں نکلتا،مگر يه که الله تعالي اس کے سانسوں کو اپني تسبيح پڑھنے کا ثواب لکھ ديتا هے ۔ اور اس کے سارے اعمال کوخالص بناتا هےاور اسے همارے اسرار کو چھپانے ، اور دشمن کے غم وغصے

۸۷

کو برداشت کرنے کي وجه سے، اس شخص کا ثواب عطا کرے گا ، جو الله کي راه ميں جهاد کرتے هوئے اپنے خون ميں غلطان هوچکا هو۔اور اس مداراتي تقيه کے نتائج کو بھی بیان فرمایا۔

عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ ع قَالَ مَنْ كَفَّ يَدَهُ عَنِ النَّاسِ- فَإِنَّمَا يَكُفُّ عَنْهُمْ يَداً وَاحِدَةً- وَ يَكُفُّونَ عَنْهُمْ أَيَادِيَ كَثِيرَة ۔(۱)

جو بھی لوگوں کے ساتھ مدارات اور مہربانی کرے اور ان کےساتھ سختی سے پیش نہ آئے تو اس نے حقیقت میں نه صرف اپنا ایک ہاتھ كسي دوسرے کو اذیت اورتکلیف پہنچانے سے باز رکھا ،بلکه بہت سے ہاتھوں کو اپنے اوپر ظلم و تشدد کرنے سے دور رکھا ہے ۔

____________________

۱: بحار الأنوار، ج‏۷۲، باب التقية و المداراة،ص : ۳۹۳۔

۸۸

امام موسي کاظم ؑ اور تقيه

امام كاظمؑ کا ۳۵ ساله دور امامت ( ۱۴۸ ـ ۱۸۳) جو حضرت حجت(عج) کی امامت کے علاوہ طولاني ترين اورسخت ترين دور شمار ہوتا ہے ۔جس میں تقیہ کے بہت سے موارد دیکھنے میں آتے ہیں:

یہ دور،بنی عباس کے سخت اورسفاک خلفاء جیسے منصور ، مهدي ، هادي اور هارون کی حکومت کا دور تھا ۔کہ ان میں سے ہر ایک امامت کی نسبت بہت زیادہ حساس تھے ، یہاں تک کہ امام ؑ کے بعض چاہنے والوں ، جیسے محمد ابن ابي عمير کئی عرصے تک جیل میں ڈالے گئے ۔ اسی دور میں حسين ابن علي ابن حسن جو شهيد فخ کے نام سے معروف تھے ، ۱۶۹ ه میں حکومت کے ساتھ ان کي جنگ هوئي ،جو ان کی شهادت پر جا کر ختم ہوئي۔ اور هادي عباسي یه تصور كررہا تھا کہ یہ جنگ ،امام ؑ کے فرمان کے مطابق کي گئي ہے، اس لئے ان کے اوپر زیادہ سخت گيري کرنی شروع کردی ۔

اس دورمیں تقيه امام ؑ کے بعض موارد یہ ہیں:

۸۹

۱ـ جب خلیفہ موسي الهادي اس دنيا سے چلا گیا تو امام ؑ کا اس کی ماں خیزران کو تعزيتي پیغام دیتے ہوئے خلیفہ کو امير المؤمنين کا عنوان دے کر ياد کرنا اور اس کیلئے رحمه الله کہہ کر طلب مغفرت کرنا اور پھر هارون کی خلافت کو بھی امير المؤمنين کے عنوان سے ياد کرتے ہوئے ان کو مبارک باد کہنا ،

مرحوم مجلسي نے اس خط کے ذیل میں لکھا ہے کہ ، آنحضرت کے زمانے میں شدت تقيه کا نظاره كر سکتے ہیں كه انہیں ایک فاسق اور جابر حاکم کے لئے ایسےالقابات لکھنے پر مجبورکرديا تھا۔(۱)

۲ـ يحي بن عبد الله بن حسن نے ایک خط امام ؑ کے نام لکھا ،کہ آنحضرت کو حكومت عباسي کے خلاف قیام کرنے سے روکتے ہوئے سزا دی جائے ۔لیکن امام ؑ نے

____________________

۱: بحار الانوار،ج۴۸۔ص۱۶۶۔

۹۰

اس کے جواب میں خط لکھا جس کے ضمن میں اسے بطورخلیفہ یاد کیا ۔ امام ؑ کا یہ خط هارون کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ۔جسے دیکھ کر انہوں نے کہا: لوگ موسي ابن جعفر کے بارے میں مجھے بہت سی چیزیں بتا تے ہیں ، اور مجھے ان کے خلاف اکساتے ہیں جب کہ وہ ان تہمتوں سے پاک هیں ۔(۱)

۳۔علي ابن يقطين جو هارون کی حکومت میں مشغول تھے اور امامؑ کے ماننے والوں میں سے تھے ؛ ایک خط امامؑ کو لکھتے ہیں اور امامؑ سے وضو کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ امامؑ اس کے جواب میں اهل سنت کے وضو کا طریقہ اسے تعلیم دیتے ہیں کہ تم انہیں کی طرح وضو کیا کرو ۔ اگرچه علي ابن يقطين کو بڑاتعجب ہوا ، لیکن حکم امامؑ کی اطاعت ضروری تھی ۔ هارون كو بھی علي ابن يقطين پرشك ہو چکا تھا ، سوچا کہ اس کے وضو کرنے کے طریقے کو مشاہدہ کروں گا ۔ اگر اس نے مذهب شيعه کے مطابق وضوکیا تو اسے بهت سخت سزادوں گا ۔ لیکن جب ان کے وضوکرنے کے طریقے

____________________

۱: بحار الانوار،ج۷۵ ،ص۳۸۔

۹۱

کو دیکھا تو اسے اطمینان ہواکه ان کے بارے ميں لوگ جھوٹ کہتے تھے ، تو علی ابن یقطین کی عزت اور مقام اس کے نزدیک مزید بڑھ گيا ۔بلا فاصله اس ماجرا کے بعد امامؑ کی طرف سے علي ابن یقطین کو دستور ملا کہ وضو اب مذهب شيعه کے مطابق انجام دیا کریں ۔(۱)

امام رضاعليه‌السلام اور تقيه

امام رضاعليه‌السلام کی امامت کا دور ( ۱۸۳ ـ ۲۰۳) تک ہے ، جسے تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

پہلا دور : ۱۸۳ سے لیکر ۱۹۳ سال تک کا دور ہے ۔ اس دور میں ہارون الرشید حاکم تھا ؛ يه دورشیعیان حیدر کرار پر بہت سخت گزرا۔اس ملعون نے قسم کھا ئی ہوئی تھی کہ موسي ابن جعفرعليه‌السلام کے بعد جو بھی امامت کا دعویٰ کرے گا اسے قتل کیا جائے گا ۔ لیکن

____________________

۱: رياض ، ناصري ، الواقفيه۔

۹۲

اس کے باوجود امام رضاعليه‌السلام نے بغیر کسی خوف اور وہم و گمان کے اپنی امامت کو لوگوں پرآشکار کیا امام ؑ کا تقیہ نہ کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس وقت خواہشات نفسانی اور مال و زر کے اسیروں نے آپ کی امامت کا انکار کرکے فرقہ واقفیہ کی بنیاد ڈالی تھی ۔ امام موسیعليه‌السلام کے زندہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے ۔ چنانچہ کہنے لگے :الامام الکاظم لم یمت ولایموت ورفع الی السماء وقال رسول الله فی شانه:ویملأالارض قسطاً وعدلاً کماملئت ظلماً وجوراً ۔(۱)

"امام کاظم ؑفوت نہیں ہوئے ہیں اور نہ فوت ہونگے ، انہیں خدا تعالی نے آسمان کی طرف اٹھایا ہے ۔اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی شان میں فرمایا:دنیا کو وہ عدل و انصاف سے اسي طرح پر کریں گے جس طرح ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی "

اس ماجرے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے ہاتھوں مال خمس اور زکوۃ کا کچھ حصہ موجود تھا ۔ کیونکہ حضرت امام موسی بن جعفرعليه‌السلام قید و بند میں تھے ؛ جس کے بعد آپ کی

____________________

۱: بحار الانوار، ج۴۶، ص ۱۱۴۔

۹۳

شہادت ہوئی تو جو مال ان کے ہاتھوں میں موجود تھا ،ضبط کر لیا اور ان کے فرزند ارجمند علی ابن موسی الرضاعليه‌السلام کی امامت کے منکر ہوگئے ۔(۱)

ٍ زياد بن مروان قندى جو گروہ واقفيه میں سے تھا کہتا ہے :میں ابو ابراہیمعليه‌السلام کی خدمت میں تھااور ان کے بیٹے علی ابن موسیٰ الرضاعليه‌السلام بھی ان کی خدمت میں حاضر تھے ؛ مجھ سے فرمانے لگے: اے زیاد ! یہ میرا بیٹا ہے اس کا قول میرا قول ہے اس کی کتاب میری کتاب ہے اس کا رسول میرا رسول ہے ، اور یہ جو بھی زبان پر جاری کرے گا وہ حق ہوگا۔(۲)

بہر حال امامعليه‌السلام نے اپنی امامت کا اظہار کیا تو آپ کے ایک صحابی نے اصرار کیا کہ آپ لوگوں کو اپنی امامت کے بارے میں مزيد وضاحت فرمائیں ؛ توفرمایا: اس سے بڑھ کر اور کیا وضاحت کروں ؟! کیا تم چاہتے ہو کہ میں ہارون کے پاس جاکر اعلان کروں کہ میں لوگوں کا امام ہوں اور تیری خلافت اور تیرا منصب باطل ہے ؟! ایسا توپیغمبراكرم (ص) نے بھی

____________________

۱:۔ زندگانى چهارده معصومعليه‌السلام ، ،امامت حضرت رضاعليه‌السلام , ص۴۲۴۔

۲:۔ زندگانى چهارده معصومعليه‌السلام ، ،امامت حضرت رضاعليه‌السلام ، ص۴۲۵۔

۹۴

اپنی رسالت کے اولین بار اعلان کرتے وقت نہیں کیا ہے ، بلکہ آغاز رسالت میں اپنے دوستوں ، عزیزوں اورقابل اعتماد افراد کو جمع کرکے اپنی نبوت کا اظہار کیا ۔(۱)

امام هاديعليه‌السلام اور تقيه

امام هاديعليه‌السلام کا دوران امامت ( ۲۲۰ ـ ۲۵۴ ھ)بھی سخت ترین دور تھا ، جس کی سب سے بڑی دلیل یہ هے کہ بنی عباس کے خلفاء اور حکمران، آپ پر ہر وقت پہرہ لگائےرکھتے تھے ۔ چنانچہ متوكل( ۲۳۲ ـ ۲۴۷) نے امامعليه‌السلام کی فعاليت کو سخت كنٹرول میں رکھنے کیلئے مدينه سے سامرا (دارالخلافہ) منتقل کردیا ۔جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عباسیوں کے ایک گروہ نے متوکل کو خط لکھا کہ لوگ امام ہادیعليه‌السلام کے گرویدہ ہورہے ہیں جو تمہاری حکومت کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ اوراگر تم مكه اور مدينه چاہتے ہو تو علي ابن محمدکو مدينه سے نکال کر کہیں اور منتقل کردو ۔(۲)

____________________

۱:۔ بحار الانوار، ج۴۶، ص ۱۱۴۔

۲:۔ بحار الانوار،ج۵۰،ص۲۱۔

۹۵

امامعليه‌السلام کے سیاسی اوضاع کی شناخت کیلئے اتنا ہی کافی ہے ۔

اور اب اس دور میں اجتماعی تقیہ کے پائے جانے پر ہمارے پاس جو دلیل ہے ،وہ یہ ہیں :روایتوں میں ذکر ہوا ہے کہ علی ابن مھزیار نے امام ؑ سے پوچھا : کیا ہم اہل سنت کے احکام کے مطابق اموال پر مالک ہوسکتے ہیں جبکہ مکتب اہل بیت ؑ کے احکام کے مطابق اس مال پر مالک نہیں بن سکتے؟جیسے ارث وغیرہ کے احکام ہیں ،جب کہ وہ لوگ اپنے احکام کے مطابق ہم سے اموال لیتے ہیں ؟

تو امامعليه‌السلام نے فرمایا:

يجوز لكم ذالك انشاءالله اذا كان مذهبكم فيه التقية منهم والمداراة لهم ۔(۱)

"ہاں تمہارے لئے ایسا کرنا جائز ہے انشاءالله اگر تقيه اور مدارات کی حالت میں ہو" ۔

____________________

۱:۔ وسائل الشيعه،ج۱۸، ص۱۶۵۔

۹۶

امام جوادعليه‌السلام اور تقيه

امام جوادعليه‌السلام کا دور امامت سن ۲۰۳ سے ۲۲۰ ھ تک ہے جو مامون اور اس کے بھائی معتصم کی حكومت کا دور ہے۔ امام ؑ نے بیشتر وقت مدینہ اور مرکزی حکومت سے دور رہ کر گزارا ۔ لیکن پھر بھی مامون اور معتصم ،ام الفضل جو آپ کی زوجہ اور مامون کی بیٹی ہے ، کے ذریعے امامعليه‌السلام کے گھریلو معاملات میں جاسوسی کرنے لگے ؛ لیکن وہ قابل ذکر موارد جہاں آپ نے تقیہ کیا ہے وہ یہ ہیں:

۱. امامعليه‌السلام کا نماز میں قنوت نہ پڑھنا:اذا كانت التقية فلا تقنت وانا اتقلد هذا ۔(۱)

۲. ایک دفعہ يحي بن اكثم کے ساتھ مناظرہ ہوا ، جب یحی نے ابوبکر اور عمر کی شان میں جعلی احادیث کو بیان کیا تو امام ؑ نے فرمایا: میں منكر فضائل نہیں

____________________

۱:۔ وسائل الشيعه ،ج۴،ح۱ ۔

۹۷

ہوں ، اس کے بعد منطقي دلائل کے ذریعے ان احادیث کے جعلی ہونے کو ثابت کرنے لگے ۔(۱)

امام حسن العسكريعليه‌السلام اور تقيه

امام عسكريعليه‌السلام کا دور امامت اگرچہ بہت ہی مختصر ہے ( ۲۵۴ ـ ۲۶۰) لیکن اپنے بابا کے دور امامت سے کئی درجہ زیادہ سخت اور مشکل ہے ۔اس دور کے آغاز میں معتز( ۲۵۲ ـ ۲۵۵) نے آپ کو آل ابوطالبعليه‌السلام کے کچھ افراد کے ساتھ قید کرلیا ۔ اس کے بعد مهدي( ۲۵۵ ـ ۲۵۶) عباسی نے بھی یہی رویہ اختیار کیا ، یہاں تک کہ آپ کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ۔(۲)

لیکن وہ اس مکروہ ارادے میں کامیاب نہیں ہوا ۔ لیکن آخر کار معتمد( ۲۵۶ ـ ۲۷۹)

____________________

۱:۔ بحار الانوار،ج۵۰،ص۸۰۔

۲:۔ بحار الانوار ،ص ۳۰۸۔

۹۸

جس نے یہ سن رکھا تھا کہ امام عسكريعليه‌السلام کی اولاد میں سے ایک فرزند آئے گا جو ظلم و بربریت کو ختم کرے گا ؛امام ؑ اور ان کے خاندان پر کڑی نظر اور پہرہ ڈال رکھا تھا ، تاکہ وہ فرزند اس دنیا میں نہ آنے پائے ۔ آخرکار اس نے امامعليه‌السلام کو شهید کردیا ۔

لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے بیٹے کی ولادت کو مخفی رکھا ، یہاں تک کہ بہت سارے شیعوں کوبھی ان کی ولادت کا علم نہیں تھا جو سن ۲۵۵ ه میں متولد ہوئے تھے ۔(۱) کیونکہ بهت زياده خطرہ تھا ۔ امامعليه‌السلام کی شہادت کے بعد آپ کا بھائی جعفر جو ایک بےایمان انسان تھا ، آپ کی ساری میراث اپنے نام کروایا ۔کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ امام ؑ کا کوئی وارث بھی ہے ۔(۲)

امامعليه‌السلام کے کچھ سیاسی تقیہ کے موارد اپنے چاہنے والوں کے نام لکھے ہوئے خط سے

____________________

۱:۔ بحار الانوار ج ۵۱، ص ۔۱۵ ۔

۲:۔ الارشاد ، ج ۲، ص ۳۳۰۔

۹۹

واضح ہوتے ہیں، فرماتے ہیں کہ:

۱ ـ جب میں تمہارے سامنے سے گزروں تو مجھے سلام نہ کرنا ۔اور اپنے ہاتھوں سے میری طرف اشارہ نہ کرنا ، کیونکہ تم لوگ امان میں نہیں ہو ۔اور اس طرح اپنے آپ کو درد سر میں ڈالنے سے محفوظ رکھو ۔

۲ ـ امامعليه‌السلام جب اپنے اصحاب سے ملاقات کرتے تھے تو ان کیلئے مخفی طور پر پیغام بھیجتے تھے کہ فلاں جگہ جمع ہو جائیں ، تاکہ ایک دوسرے کا دیدار ہو سکے ۔ ۔امامعليه‌السلام سخت سياسي دباؤ کی وجہ سے اپنے چاہنے والوں کو تقیہ کرنے پر زیادہ زور دیتے تھے ۔جیسا کہ فرمایا:

وسع لهم في التقيه يجاهرون باظهار موالاة اولياءالله و معادات اعداءالله اذا قدروا و يسترونها اذا عجزوا ۔

خدا تعالی نے شیعیان حیدر کرار کیلئے تقیہ میں راحت اور آرام کو پوشیدہ رکھا ہے کہ اپنی طاقت اور قدر کو آشکار کرنے کا وقت آتا ہے تو اللہ کے چاہنے والوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کا اعلان کریں، اور جب بھی دوسرے گروہ کے مقابلے میں کمزور واقع ہوجائیں تو اس دوستی اور دشمنی کو چھپائیں ؛ پھر فرمایا:

أَلَا وَ إِنَّ أَعْظَمَ فَرَائِضِ اللهِ عَلَيْكُمْ بَعْدَ فَرْضِ مُوَالاتِنَا وَ مُعَادَاةِ أَعْدَائِنَا اسْتِعْمَالُ التَّقِيَّةِ عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَ إِخْوَانِكُمْ وَ مَعَارِفِكُمْ وَ قَضَاءُ حُقُوقِ إِخْوَانِكُمْ فِي

۱۰۰