شیعہ اوراتہامات

شیعہ اوراتہامات 0%

شیعہ اوراتہامات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

شیعہ اوراتہامات

مؤلف: صادق حسینی الشیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 5782
ڈاؤنلوڈ: 2699

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5782 / ڈاؤنلوڈ: 2699
سائز سائز سائز
شیعہ اوراتہامات

شیعہ اوراتہامات

مؤلف:
اردو

حرم اولیاء کی تزیین

صابر: سلام علیکم

باقر: علیکم السلام و رحمۃ اللہ

باقر: یہاں پر اپنے ایک بھائی سے ملنے آیا ہوں ۔

صابر: تو پھر مجھے یہ افتخار دیں کہ کچھ در آپ کی خدمت رہوں اور سر فراز ہو سکوں۔

باقر: میں بہت زیادہ مصروف ہوں اور بہت اہم کام صرف ’’صلہ رحم ‘‘اور اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے چھوڑ کر آیا ہوں اس لئے کہ وقت بہت کم ہے ۔ آپ سے چاہتا ہوں کہ مجھے معاف فرمائیں ۔

صابر: نا ممکن ہے ۔دو دوست ۱۰ سال کے بعد ایک دوسرے سے ملاقات کریں اور ایک گنٹھہ بھی ساتھ بیٹھ کر گفتگو نہ کریں ۔دوسرے طرف میں دینی بھائی ہونے کے لحاظ سے آپ پر حق رکھتا ہوں اور یہ کہ میری ایک مؤمن بھائی کے ساتھ شیعہ اور سنی ی بحث چل رہی ہے اور مجھے آپ پر اعتماد ہے اس لئے چاہتا ہوں کہ آپ سے اس بارے میں گفتگو کروں تا کہ حقیقت میرے لئے روشن ہوجائے ۔

باقر : ٹھیک ہے ،میں تیار ہوں ،

پھر دونوں صابر کے گھر کی طرف چل دئے اور جب دونوں دوستوں کے درمیان کچھ دیر گفتگو ہوچکی تو باقر نے صابر سے پوچھا: آپ کی اس برادر دینی سے کس مسئلہ پر بات ہورہی ہے ؟

صابر: پیغمبرو، اماموں ،علماء اور صالحین وغیرہ کی قبروں کی سونے ،چاندی اور دوسرے چیزوں سے زینت دینے کے بارے میں ۔

باقر: اس کام میں کیا پریشانی ہے ؟

صابر : کیا یہ کام حرام ہونا چاہیے؟

باقر: کس وجہ سے حرام ہونا چاہیئے ؟

صابر: کیا مردہ کو اس زینت سے کوئی فائدہ ملتا ہے ۔

باقر: نہیں

صابر: اس بنا پر یہ کام اسراف ہے اور خدا کا اس بارے میں ارشاد ہے کہ:( ولا تبنذر تبذیراً ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین ) (سورہ اسرء آیۃ۲۶۔۲۷)اور اسراف سے کام نہ لینا۔اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں ۔۔۔۔)

باقر: کعبہ کے زیورات ( اور وہ سونا چاندی جو اس پر لگا ہوا ہے ) کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

صابر: بولنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ، اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ۔

باقر: جا ہلیت کے زمانے سے آج تک کثیر تعداد میں سونے اور چاندی کے زیورات ’’کعبہ‘‘ پر چڑ ھتے رہے ہیں ۔’’ابن خلدوں ‘‘(۹) نے ’’مقدمہ ‘‘میں لکھا ہے کہ ’’امت جہالت کے زمانے سے کعبہ کو عظیم مانتی تھی اور کسریٰ اور دیگر بادشاہی کعبہ کے لئے کثیر ہدیہ بھیجا کرتے تھے دو سونے کہ ہرن اور تلواریں جو جناب عبد المطلب کو ’’چاہ زم زم‘‘ گھودتے ہوئے ملے تھے جو کہ بہت مشہور قصہ ہے ،جس وقت رسول خداؐ نے مکہ کو فتح کیا اس وقت حرم میں موجود ’’کویں ‘‘میں آپ کو ۲۰ لاکھ سونے کے دینار ملے تھے (جو کہ کعبہ کو ہدیہ کئے گئے تھے )علی ابن ابی طالب (ع) نے رسول خدا(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا کہ ( یا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ، اس دولت کا استعمال کفار اور مشرکین سے جنگ کے لئے کتنا اچھا ہوگا ،)لیکن پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ایس نہیں کیا ۔ ابوبکر نے بھی ایسا کیا اور ان کو ہاتھ نہیں لگایا ۔ (ابن خلدون اسی طرح آگے کہتا ہے ) ’’ابو وائل نے شیبہ بن عثمان سے روایت کی ہے کہ شیبہ نے کہا : عمر کے پاس تھا ، عمر نے کہا کہ چھاہتا ہوں کہ خانہ کعبہ میں موجود تمام سونا اور چاندی مسلمانوں میں تقسیم کردوں ۔

میں نے کہا : کای کرنے جارہے ہو ؟ (یعنی تم یہ کرنے کا حق نہیں رکھتا )

عمر نے کہا : کیوں؟

میں نے جواب دیا : تم سے پہلے ( پیغمبر اور ابو بکر ) جو مسلمانوں کے حاکم تھے انھوں نے یہ کام نہیں کیا ۔

عمر نے کہا : پھر مجھے ان کی پیروی کرنی چاہیئے(۱۰)

اس حال میں صابر میرے بھائی تھے تم سے میں ایک سؤال کرتا ہوں کیا کعبہ اس سونے اور چاندی استعمال کرتا تھا یا خدا وند (جو ان چیزوں سے پاک ہے ) اس سے کوئی فائدہ اٹھاتا تھا ،

صابر: ان تمام حالات میں پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اس عظیم دولت کو ہاتھ نہیں لگایا جب کہ اس زمانے میں اسلام کو اس دولت کی ضرورت تھی تا کہ اسلام دنیا میں پھیل سکے ۔

شاید یہ سوال ہو کہ آخر پیغمبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ضرورت کے باوجود ایک بھی درہم یا دینار اس دولت سے نہیں کیا ۔

جواب واضع ہے کہ اس عظیم دولت کی کعبہ میں جوجودگی اس کی عظمت اور بزرگی کو لوگوں کی نظر میں بلند کرتی تھی ،البتہ یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ خدا کے نزدیک کعبہ کی عظمت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ جو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے اور اس زینت کے نہ ہونے سے کعبہ کی عظمت میں کوئی کمی نہیںآئے گی ۔

لہٰذا اسی طرح سونے کے گنبد ، دروازہ وغیرہ جو اولیاء خدا کی قبروں پر بنائے جاتے ہیں جیسے حرم حضرت علی(ع) ، حرم حضرت امام حسین (ع) حرم حضرت امام رضا (ع) وغیرہ بھی اسی طرح ہیں کہ ان چیزوں کے ہونے سے آپ کی منزلت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور اگر یہ چیزیں موجود نہ ہوں تو بھی ان مقامات کی منزلت میں کوئی کمی نہیں رہے گی مثال کے طور پر امام حسن (ع) کی قبر اگر چہ دھوپ اور سورج کی تپش میں بغیر کسی گنبد اور حرم کے ہے لیکن آپ کی منزلت امام حسین(ع) سے برتر ہے جن کے پاس وصیع حرم اور سونے کا گنبد اور دروازہ وغیرہ بھی موجود ہے ۔ لیکن ان تمام چیزوں کے ساتھ قیمتی پتھر اور سونے اور چاندی سے گنبد اور دروازوں کا بنانا ان اولیاء خدا کی مقام اور ان کی منزلت کے سامنے تعظیم ہے ۔

صابر: کیا اس کام سے اولیاء خدا لوگوں کی نظر میں معظم ومعزز ہوئے ہیں ؟

باقر: بالکل ، میں آپ کے سامنے ایک مثال دیتا ہوں ، اگر آپ یہودیوں کے قبر ستان میں جائے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کے علماء کی قبریں ویران ہیں اور اس پر کوئی عمارت نہیں جہاں آنے والے سر کو چھپا سکے ۔لیکن مسیحیوں کے طرف معاملہ بر عکس ہے کہ ان کے علماء کی قبر یں سونے اور چاندی سے زینت دی گئی ہیں اور اس پر عمارتیں بھی بنی ہوئی ہیں ۔ اب آپ بتائیے کہ اگر چہ آپ مسلمان ہیں اور دونوں ہی آپ کی نظر میں باطل ہیں پھر بھی ان دونوں میں سے کوئی آپ کی نظر میں بڑا اور عظمت والا دیکھائی دیگا ۔

صابر: طبیعی بات ہے کہ ایسا منظر دیکھنے کے بعد مسیحی علماء کا مرتبہ بلند اور یہودی بہت نظر آئیں گے ۔

باقر: اسی بنا پر جب شیعہ اور سنی اپنے پیغمبروں ، اماموں اور پیشواں کی قبر وں پر زینت کرتے تو وہ ان کے مقام اور منزلت کی تعظیم کرتے ہیں ۔

صابر: آپ جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے ۔ لیکن کیا اس نظر یہ سے اسراف کا پہلو بھی ختم ہوجاتا ہے ؟

باقر : بالکل ، یہ کام نہ صرف یہ کہ اسراف نہیں ہے بلکہ یہ ثابت ہونے کے بعد کے اس کام اولیاء خدا کی تعظیم ہوتی ہے ، خود اسلام کی بھی تعظیم ہوتی ہے ۔کیونکہ پر وہ کام جو اسلام کے عظمت اور مقام کو بلند کرے وہ شعار الھی ہے اور خدا نے اس کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ : ’’( ومن یعظم شعائرالله فانهامن تقوی القلوب ) ".حج ۳۲ (اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا ، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی(۱۱)

اسی دلیل سے جو بھی یہ کام انجام دے گا وہ خداکے نزدیک اجر کا مستحق ہے ۔

صابر: آپ کا وقت لینے کے لئے معافی چاہتا ہوں ۔ لیکن آپ نے مجھے نادانی کی تاریکی سے علم کی روشنی کی طرف جو ہدایت کی اس کے لئے آپ کا شکر گزار ہوں ۔ آج سے پہلے میں ان مقامات کی زینت کے بارے میں زیادہ سوچتا تھا لیکن ان کام کے صحیح ہونے کو نہیں مانتا تھا لیکن آخر کار آپ کی باتو ں سے بات واضع و روشن ہوگئی اور آپ اس کا سبب ہوئے کہ کھوئی ہوئی چیز کو میں نے حاصل کر لیا ۔

باقر: تو آپ کے تمام شکوک بر طرف ہوگئے ؟

صابر : جی ہاں اور یہ کہ یہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام مستحب ہے اور قرآن کریم نے بھی اس کی طرف دعوت دی ہے ۔

باقر: پھر بھی میں اس ضمینے میں کسی بھی بات اور شک کہ دور کرنے کے لئے ہمیشہ حاضر ہوں ،تا کہ ہم دونوں ہی حقیقت کو جان سکے

صابر: آپ کا بہت بہت شکریہ ،خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے ۔

ضریح کا بوسا لینا

مالک : صادق صاحب آپ لوگ پیغمبروں اور اماموں کی ضریح چومنے کے سلسلہ میں اتنا اصرار کیوںکرتے ہیں ۔

صادق: اس کام میں کیا قباحت ہے

مالک: کہا جاتا ہے کہ یہ کام شرک ہے

صادق: یہ بات کون کرتا ہے

مالک: یہ بات مسلمان کہتے ہیں

صادق: عجیب بات ہے ضریح کو بوسہ کون لوگ دیتے ہیں ؟

مالک: کہا جاتا ہے کہ شیعہ یہ کام کرتے ہیں ،

صادق: کیا حج کرنے کے لئے مکہ گئے ہو ،

مالک: جی ہاں ،الحمد للہ

صادق : کیا مدینہ میں رسول اللہ کی قبر کی زیارت کی ہے ؟

مالک : جی ہاں اور اس توفیق کے لئے خدا کا شکر گزار ہوں ۔

صادق : تو پھر آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہزاروں اہل سنت مسلمان اس کوشش میں رہتے ہیں کہ رسول خداکی ضرح کو بوسہ دیں لیکن (امر بالمعروف والے افراد ان کو مارتے ہیں اور اس کام سے روکتے ہیں ۔

مالک : ہاں ایسا ہی ہے ۔

صادق: اس بناء پر صرف ہم شیعہ نہیں ہے جو ضریح پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو بوسہ دیتے ہیں بلکہ تمام مسلمان یہ کام کرتے ہیں ۔

مالک : تو پھر کچھ لوگ ضریح کو بوسہ دینے کو حرام کیوں سمجھتے ہیں

صادق: وہ لوگ جو حریح کو بوسہ دینے کو حرام اور شرک جانتے ہیں وہ مسلمانوں کی ایک بہت چھوٹی جماعت ہے کہ جو فقط اپنے آپ کو مسلمان واقعی سمجھتے ہیں اور اپنی فکروں کو حق پر سمجھتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو کافر مشرک اور غیر خدا کے پرستار سمجھتے ہیں،اسی وجہ سے تمام اسلامی فرقوں کو کافر کہتے ہیں ، آپ نے دیکھا ہوگا کہ انجمن امر بالمعروف والے حجاز میں ان مسلمانوں کو کہ جو رسول کی ضریح کو بوسہ دینے کے خواہاں ہوتے ہیں مارتے ہیں اور ان کو توہین آمیز جملوں جیسے کافر مشرک زندیق خنزیر اور دوسرے گالیوں سے خطاب کرتے ہیں ان کی نظر میں مخاطب شیعہ یا سنی حنفی مالکی شافعی حنبلی وغیرہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔(۱۲)

مالک: ہاں جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس سے بھی بدتر میں خود شاہد ہوں کہ کوئی ضریح پیغمبر ؐ کو بوسہ دینے کے لئے ضد کرتا تھا تو انجمن امر بالمعروف والے اپنے عصا سے ان کو مارتے تھے جس کی وجہ سے کبھی کبھی ان کے سر پھٹ جاتے تھے اور بات خونریزی تک پہنچ جاتی تھی ،اور کبھی کبھی زائرین کے سینوں پر گھونسے مارتے تھے جس سے وہ شدید درد میں مبتلا ہوجاتے تھے ،ان مناظر کو دیکھنے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ۔

صادق : ہم اہنی گفتگو کی طرف واپس پلٹتے ہیں کیا اپنے بیٹے کو چومتے ہو؟

مالک: جی ہاں ،

صادق: کیا آپ کے اس کام سے آپ خدا کے لئے شرک کرتے ہیں ،

مالک : نہیں بالکل نہیں ،

صادق: آپ اس کام کو کرنے سے مشرک کیوں نہیں ہوئے ۔

مالک : میں محبت اور الفت کی وجہ سے اپنے بیٹے کو چومتا ہوں اور یہ کام شرک نہیں ہے ۔

صادق : قرآن کو بھی چومتے ہو؟

مالک: جی ہاں

صادق: اس کام کے کرنے سے تم مشرک نہیں ہوئے

مالک : نہیں

صادق: کیا قرآن کی جلد ( چمڑے یا گنہ) کو بھی چومتے ہو ،

مالک : بالکل اسی طرح ہے

صادق: اس بناء پر آپ خدا کے لئے شریک کے قائل ہوئے اور یہ شریک وہ چمڑا ہے جو حیواں کی کھال سے حاصل کیا گیا ہے اور خدا ان چیزوں سے برتر ہے ۔

مالک : نہیں نہیں ایسا نہیں ہے ہم قرآن کو جلد کو اس لئے چومتے ہیں کہ اس کے اندر کلام خدا محفوظ ہے اور کہ کام قرآن سے عشق و اشتیاق کی وجہ سے کرتے ہیں ، اب آپ بتائیں کہ یہ کام کہا ں سے شرک ہوگیا ؟ جب کہ قرآن کو چمنے کی وجہ سے مین ثواب کا مستحق بھی ہوتا ہوں کیوںکہ اس کی وجہ سے ہم ؟قرآن کی تعظیم کرتے ہیں جو کہ باعث ثواب ہے ،تو پھر یہ کام شرک سے کائی واسطہ نہیں رکھتا اور اس سے دور ہے ،

صادق: اب جبکہ ایسا ہے تو پھر اسی بات کو آپ ضریح پیغمبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور امام(۱۳) کے سلسلہ میں کیوں نہیں مان لیتے شاید آپ کہیں کہ جو لوگ ضریح کو بوسہ دیتے ہیں وہ لوگ لوہے کو خدا کا شریک قرار دیتے ہیں اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر وہ تمام لوہا جو ہر طرف دکھائی دیتا ہے اس کو کایں نہیں چوما جاتاایسا بالکل نہیں ہے ؟ ضریح کو اس لئے چاما جاتاہے کہ اس کے اندر پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) یا امام (ع) کی تربت پاک موجود ہے اور چونکہ ان بزرگان تک ہم نہیں پہنچ سکتے اپنا عشق و اشتیاق ان کی ضریح کو بوسہ دیکر جتاتے ہیں ، اس وجہ سے یہ کام خدائے متعال سے جزا لینے کا سبب بھی ہے کیونکہ ضریح کو بوسہ دینا خود پیغمبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور امام کی تعظیم کرنا ہے ، اور ان کی تعظیم اسلام کی تعظیم ہے ، اور ہر وہ چیز جو اسلام کی تع۔ظیم کا باعث بنے وہ شعائر الہی ہے کہ جس کے بارے میں خدا نے حکم دیا ہے کہ : ’’ومن یعظم شعائراللہ فانھامن تقوی القلوب".حج ۳۲ (اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا ، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی۔

مالک : پھر اس صورت میں کچھ لوگ آپ کو مشرک کیوں کہتے ہیں ۔

صادق: حدیث میں آیا ہے کہ (انما العمل بالنیات ) عمل کا دارو مدار نیت پر منحصر ہے )(۱۴) (اور اسی قاعدے پر جزا یا سزا دی جائیگی ۔ اسی طرح اور کوئی ضریح کو شرک کی نیت سے بوسہ دے تو مشرک ہے لیکن اگر ضریح کو عشق و محبت میں بوسہ دے تو وہ شعائر الھی کی تعظیم کرنے کی وجہ سے ثواب کا مستحق ہے اگر آپ چاہیں تو شیعوں اور سنیوں سے ان کے ضریح کو بوسہ دینے کی نیت کے بارے میں سوال کرسکتے ہیں تو بیشک آپ کو جواب میں یہی ملے گا کہ یہ کام عشق و محبت اور ثواب حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اور آپ کو ایک بھی جواب اس کے خلاف نہیں ملے گا ۔

مالک: صحیح بات ہے

صادق: اور اگر صرف ضریح کو بوسہ دینا ( بغیر شرک نیت کے ) انسان کو مشرک کردیتا ہے تو پھر آپ کو ایک بھی انسان ایسا نہ ملے گا جو مشرک نہ ہو کیونکہ مسلمان ضریح یا قرآن کو بوسہ دیتے ہیں اور ان دونوں حالتوں میں وہ مشرک ہوجائیں گے اب میں آپ سے سوال کرتاہوں کہ کیا اس صورت میں کوئی مسلمان باقی بچے گا ۔

مالک: آپ کا بہت بہت شکر گزار ہوں اور اس مسئلہ پر مین اپنے والد سے بحث کروں گا کہ انھوں نے ہی یہ تعصبات میرے ذہن میں ڈالے ۔ آج میں جان گیا کہ حق آپ شیعوں کے ساتھ ہے اور یہ کہ آپ نے مجھے جو ان حقائق سے آشنا ئی کرائی ہمیشہ کے لئے میرے اوپر احسان رہے گا ، اور میں بھی آج کے بعد بغیر تحقیق کے کسی بھی بات کو تسلیم نہیں کروں گا ۔

اولیاء خدا سے توسل

وہ ایک درد بھری آہ بھر رہا تھا کہ وائے ہو ان مشرکین و کفار پر کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔

محمدنے اس سے سوال کیا کس کو کہہ رہے ہو

کمال: شیعوں کو کہہ رہا ہوں ،

محمد: ان کو گالی نہ دو اور نہ مشرک کہو کیونکہ وہ مسلمان ہیں

کمال: ان کو مارنا کافر کو مارنے بہتر ہے

محمد: اتنا جوش کس وجہ سے ہے اور کس دلیل سے ان کو مشرک کہہ رہے ہو ۔

کمال: خدا کے ساتھ ساتھ دوسرے خداؤں کو منتخب کر چکے ہیں اور خدا کی جگہ پر ان چیزوں کی پرستش کرتے ہیں کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔

محمد: یہ بات کس طرح ممکن ہے ۔

کمال: وہ لوگ پیغمبروں اماموں اور اولیاء خدا سے توسل کرتے ہیں اور ان عبارتوں کے ساتھ ( کہ یا رسول اللہ یا علی ،یا حسین (ع) یا صاحب الزمان (ع) وغیرہ) ان سے چاہتے ہیں کہ اپنی حاجتوں کو حاصل کریں ، شیعہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ لوگ اولیاء خدا ہیں اور یہ طاقت رکھتے ہیں کہ ان کی حاجتوں کو پورا کرسکتے ہیں ، آپ کی نظر میں یہ کام کھلا ہوا شرک نہیں ہے اور غیر خدا کی پرستش نہیں ہے ۔

محمد: اگر اجازت ہو تو ایک چھوٹی سی بات عرض کروں ۔

کمال: بولیئے

محمد: میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو شیعں کو گالیاں دیتا تھا اور ان پر بے جا الزامات لگا تا تھا ، جب بھی موقع ملتا تھا ان کو گالیاں دیتا تھا اور اپنا غصہ دکھاتا تھا ، کہ آخر کار ایک دفعہ حج کے سفر میں ایک شیعہ سے ملاقت ہوئی اور چونکہ میں شیعوں سے بد ظن تھا میں نے اپنی تمام نا گواری جتانے کے لئے سالوں سال کا غصہ ( جو ان سے تھا ) اپنی زبان پر لے آیا لیکن وہ (شیعہ ) خاموشی کے ساتھ ان تمام باتوں کو سنتا رہا اور صبر و تحمل سے کام لیتا رہا میری ان تمام باتوں کے جواب میں وہ صرف ہنستا تھا اور میں ہر چند اس کو گالی دیتا تھا تو وہ مسکرا کر میری طرف دیکھتا تھا یہاں تک کہ میرا غصہ اس کی محبت اور اخلاق کی وجہ سے ٹھنڈا پڑ گیا جب میں چپ ہوگیا تو اس نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا اے میرے بھائی محمد اگر اجازت ہو تو آپ سے کچھ باتیں کروں اس کے اور ہمارے درمیان مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں ان میں سے ایک موضوع کہ جس کی وجہ سے میں اس کی باتوں کو مان گیا یہی وہ موضوع (توسل بہ اولیا) تھا ۔

کمال: گویا آپ کے اور بھی ان کی شرک اور فریب کا اثر ہوگیا ہے دین اسلام سے تمہاری پہچان بہت کم ہے ۔

محمد : میں قرآن سنت اور صالحین کی سیرت پر اولیاء خدا سے توسل کے بارے میں تم سے بحث کرنے کو تیار ہوں ۔

کمال: خدا وند عالم تمام مخلوقات سے بر تر ہے اور اپنی مخلوق کے لئے سب سے زیادہ مہربان ہے اس کے اور مخلوق کے درماین کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے اور بغیر واسطہ کے بندہ جب اور جہاں چاہے اپنے خدا سے رابطہ بر قرار کرسکتا ہے اور اس سے توسل کرسکتا ہے اور غیر خدا سے توسل اگر چہ وہ پیغمبر امام فرشتے یا صالح بندے ہوں جائز نہیں ہے اگر چہ خداوند عالم کے نزدیک وہ ایک بلند ترین مقام رکھتے ہیں ۔

محمد: ان سے توسل کرنا کیوں جائز نہیں ہے ۔

کمال: انسان مرنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور اس طرح کے اس سے کوئی بھی کسی طرح کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا تو پھر آپ ایک ایسی چیز سے جو نابود ہوچکی ہے توسل کررہے ہیں ۔

محمد: کس دلیل سے آپ کہتے ہیںکہ مرنا نابود ہونا ہے اور کون یہ کہتا ہے ۔

کمال: امام محمد بن وہاب کہتے ہیں ( دنیا سے گذرجانے والے صالحین سے متوسل ہونا اصل میں ایک نابود چیز کی طرف ہاتھ بڑھانا ہے اور یہ کام عقل کی نظر میں ناپسند ہے اسی طرح انہی کہ ایک مرشد نے نقل کیا ہے کہ محمد بن عبد الوہاب کی موجودگی میں کہا گیا اور وہ اس سے راضی تھے کہ کہنے والے نے کہا کہ میرا یہ عصا محمد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بہتر ہے ( العیاذ باللہ ) اور فایدہ مند ہے کیونکہ اس عصا سے میں سانپ بچھو کو مارنے میں مدد لے سکتا ہوں جب کہ محمد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) مرچکے ہیں اور ان سے کوئی فایدہ حاصل نہیں ہوسکتا(۱۵) اس وجہ سے جو بات پہلے کہی گئی کہ مردوں سے توسل کرنا بے فائدہ ہے اگر چہ وہ مرد رسول اعظم(ص) جیسا پیغمبرہی کیوں نہ ہو ۔

محمد: بات اس کے برعکس ہے کیونکہ انسان کے مرنے کے بعد وہ چیزیں اس کے لئے اشکار ہوجاتی ہیں جو اس کے لئے مخفی تھیں خداوند عالم اس بارے میں فرماتا ہے:( فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم حدید ) سورہ ق ،آیۃ۲۲ تو ہم نے تمہارے پردوں کو اٹھا دیا اور اب تمھاری نگاہیں بہت تیز ہوگئی ہے۔(۱۶)

( ولا تقوا الامن یقتلوا فی سبیل الله اموات بل احیاء ولا کن لا تشعرون ) ۔(۱۷) وہ لوگ جو راہ خدا میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے: اور کہتا ہے "ولا تحسبن الذین قتلو افی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون" ہر گز ہرگز ان کو مردہ نہ سمجھنا کہ جو راہ خدا میں قتل کردئے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں ۔(۱۸)

صحیح بخاری میں آیا ہے کہ پیغمبر (ص) قلیب بدر ( وہ جگہ جہاں پر مشرکین کہ کشتوں کو ڈالا گیا تھا ) کے کنارے آئے اور مشرکین کہ کشتوں کو مخاطب کر کے فرمایا ’’خدا نے جو مجھ سے وعدہ کیا تھا اس کو میں نے حق پر پایا کیا تم لوگ اپنے خدا کے وعدوں کو پاسکے ؟ رسول اللہ (ص) سے کہا گیا مردوں سے جواب طلب کررہے ہیں ،

پیغمبر (ص) نے فرمایا ،تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو(۱۹)

اور غزالی ( مذہب شافعی کا ایک بزرگ ) نے بھی کہا ہے کہ کچھ لوگ موت کو نابود ی سمجھتے ہیں یہ عقیدہ ملحدوں ( اور کافروں ) کا ہے(۲۰)

غزالی نے یہ بات احیاء العلوم(۲۱) میں لکھی ہے اور تم اس کتاب میں اس چیز کو دیکھ سکتے ہو ۔

کمال : غزالی کی یہ بات عجیب و غریب ہے ۔

محمد: غزالی کی بات عجیب و غریب نہیں ہے بلکہ تمہاری نادانی تعجب کی بات ہے کیا پیغمبر (ص) کا بدر کے کشتوں سے خطاب تم نے نہیں سنا اگر مرد ے ختم ہوچکے ہوتے تو پھر نہ وہ سمجھ رکھتے ہیں اور نہ ہی سننے کی طاقت اور پیغمبر (ص) کہ رہے ہیں کہ تم ان سے بہتر نہیں سن سکتے ،(۲۲) جو کچھ پیغمبر (ص) نے کہا اس بناء پر وہ ہماری طرح سنتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی اب تو آپ میری بات مانیں گے ۔

کمال: جی ہاں ، لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے سالوں میں میں نے ان آیتوں کی تفسیر اور مطلب پر غور کیوں نہین کیا ، کہ ان کا مقصد سمجھ سکتا اور کس طرح میں نے ایک بار بھی پیغمبر (ص) کی اس حدیث اور امام غزالی کے قول کو نہیں سنا ۔

محمد : اب تو آپ یہ مان لیں گے کہ شیعوں کمی انسان کے مرنے کے بعد نابود نہ ہونے کا دعویٰ ایک منصفانہ بات ہے اور واقعی ایک حقیقت ہے یا ابھی بھی آپ شک و تردید میں مبتلا ہیں ۔

کمال: نہیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ایک دوسری چیز ہے جو مجھے پریشان کررہی ہے ۔

محمد: کیا چیز آپ کو پریشان کرہی ہے

کمال: یہی کہ غزالی اس عقیدے پر تھے اور اس کے خلاف کو وہ کافراور ملحد سمجھتے تھے اور رسول اللہ نے مردوں کے زندہ ہونے کی تائید کی ہے لیکن محمد بن عبد الوہاب کہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد نابود ہوجاتا ہے اور دوسری طرف محمد بن عبد الوہاب کمال جسارت میں کہتا ہے کہ میرے ہاتھ کی لکڑی پیغمبر سے بہتر ہے کیونکہ یہ فائدہ پہچاتی ہے ۔

اور پیغمبر (ص)کوئی فائدہ نہیں پہچاسکتے(۲۳) یہی مسئلہ میرے لئے پریشان کھڑی کررہا ہے ۔

محمد: نہیں تم کو حیران اور متعجب نہیں ہونا چاہیئے بلکہ لوگوں کو قرآن و سنت اور صالحین کی سیرت کے ترازو پر تولنا چاہیئے اگر ان کا کردار و گفتار قرآن سنت اور صالحین کی سیرت سے مطابقت رکھتا ہو تو اس کو مؤمن مانیں ، اور ہرگز دین کو لوگوں سے نہ سمجھو اگر ایک انسان کو مؤمن اور مخلص ہم نے سمجھا تو اس کی ہر بات اگر چہ وہ قرآن وسنت اور سیرت کے خلاف ہو اور کفر کا ریشہ رکھتی ہو عین اسلام سمجھ لیں نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ جب بھی کسی میں کوئی انحراف دیکھیں تو اس سے بچیں اور حقیقت کی پیروی کریں ۔

کمال: صحیح بات ہے ابھی تک میں اس شخص ( محمد بن عبد الوہاب ) سے بے حد عقیدت رکھتا تھا لیکن اب جب کہ آپ نے اس کی بہت بڑی غلطی جو کہ دین میں کفر و الحاد میں گنی جاتی ہے سے آگاہ کیا میرا عقیدہ اٹھ چکا ہے اور آج کے بعد میں اس سے اس لائق نہیں سمجھوں گا کہ دین کے مسئلہ میں اس کی پیروی کروں ۔

محمد: اس کی باتوں کو چھوڑو ہم اپنی باتوں کو آگے بڑھاتے ہیں ۔

کمال: ٹھیک ہے میں مانتا ہوں کہ انسان مرنے کے بعد ختم نہیں ہوتا لیکن اس فکر کے ساتھ کہ جو کہتا ہے کہ ( خلق خدا سے توسل کرنا شرک ہے اور دین سے جدائی ہے ) کس طرح ہم پیغمبر (ص) امام اور کسی صالح سے متوسل ہوسکتے ہیں ۔

محمد: کسی زندہ سے کچھ مانگنا یا کسی چیز کی درخواست کرنا یا دعا کرنے کے لئے کہنا یا یہ کہنا کہ اے باقر ، اے جعفر ، اے رضا مجھے کچھ مال دیدو یا خدا سے میرے لئے مغفرت کی دعا کرو یا میرا ہوتھ پکر کر مسجد کی طرح لے چلو ( شرع کی نظر ) میں جائز ہے ؟

کمال: البتہ جائزہے ۔

محمد: جب کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مردہ زندہ انسان کی طرحٍسنتا ہے تو اس سے کسی چیز کی طرح درخواست کرنے میں کیا پریشانی ہے ۔

کمال: (کچھ دیر سونچنے کے بعد ) صحیح کہہ رہے ہو بالکل ویسے ہی ہے جیسے کہہ رہے ہو ۔

محمد: ایک دوسری دلیل بھی ہے جو پیغمبر اور دوسرے صالحین سے توسل کرنے کو جائز قرار دیتی ہے ۔

کمال : کیا دلیل ہے

محمد : صحابہ(۲۴) نے پیغمبر (ص) کے زمانے میں اور ان کی وفات کے بعد ان سے توسل کیاہے پیغمبر (ص) نے اپنی زندگی میں اور ان کے بعد ان کے کسی ساتھی یا اصحاب نے اس کام کو کرنے سے نہیں روکا اور اگر غیر خدا سے توسل کرنا شرک ہوتا تو یہ اشخاص اس کام کو یقینا روکتے ۔

کمال: رسول اللہ کی وفات کے بود کون ان سے متوسل ہوا ۔

محمد: مثال کے طور پر میں چند نمونہ عرض کرتا ہوں ۔ بہیقی، اور ابن ابی شیبہ(۲۵) نے اسناد کے ساتھ روایت کی ہے ، اور احمد بن زینی و حلان سے بھی روایت ہوئی ہے کہ ( خلافت عمر کے زمانہ میں لوگ قحط کا شکار ہوئے بلال بن حرث رسول کی قبر کے پاس گئے اور کہا اے رسول خدا (ص) امت کے لئے بارش طلب کریں کہ بھوک اور خشک سالی سے وہ مرنے والے ہیں(۲۶) ہم یہ جانتے ہیں کہ بلال ایک مدت دراز تک رسول کے ہمنشین اور ساتھی تھے اور آپ کے صحابی تھے اور احکامات کو بلا واسطہ رسول سے حاصل کرتے تھے اگر رسول سے متوسل ہونا شرک ہوتا تو بلال ایسا کام نہیں کرتے ، یا اگر انہوں نے ایسا کیا بھی تو دوسرے اصحاب کو انہیں روکنا چاہییے تھا یہی بات ایک بہت مضبوط دلیل ہے کہ تسول سے متوسل ہوا جا سکتا ہے پھر بہیقی نے عمر بن خطاب سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا کہ جب آدم (ع) سے خطا سر زد ہوئی تو انھوں نے فرمایایا رب اسئلک بحق محمد صلی الله و اله الا ما غفرت لی ،یا الله تجھ سے چاہتا ہوں کہ محمد (ص) کے واسطہ میرے گنا کو بخش دے(۲۷) اس وجہ سے اگر رسول اکرم (ص) سے حرام یا شرک ہوتا تو حضرت آدم (ع) ہرگز ایسا کام نہیں کرتے ۔ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ جب منصور دوانیقی حج کے لئے روانہ ہوا تو قبر پیغمبر(ص) کی زیارت کے لئے بھی گیا وہاں اس نے مالک جو مالکیوں کا امام تھا ( یعنی مالک بن ادنس مالک بن غسیما ن بن خثیل بن عمرو ) سے کہا ادے ابو عبداللہ رو بہ قبلہ کھڑا ہو کر اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہو کر دعا کروں یا پیغمبر (ص) کی قبر کی طرف رخ کروں ۔ مالک نے جواب دیا ، آخر پیغمبر (ص) کہ جو تمہارے اور تمہارے باپ آدم (ع) کے بارگاہ خدا میں وسیلہ بنے،ان سےکیوں منھ پھیررہے ہو، ان کی طرف رخ کرو اور ان کو اپنا شفیع قرار دو کہ بیشک خدا وند ان کی شفاعت کو تمہارے لئے قبول کریگا کہ خدا نے فرمایا ہے:"( ولو انهم اذ ظلموا انفسهم جاءوک فاستغفروا و الله و استغفر لهم الرسول لوجدنوا الله تواباً رحیمً ) (نساء ۶۴)(۲۸) ترجمہ:جب ان لوگوں نے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا او ر مہربان پاتے

یہ عبارت کہ ( وہ تمہارے اور تمہارے باپ آدم (ع) کا بارگاہ خدا سند میں وسیلہ ہیں )(۲۹) ایک محکم اور مضبوط دلیل ہے کہ رسول سے توسل کرنا جائز بلکہ مستحب ہے ۔

دار می نے اپنی صحیح میں ابو الجوزاء سے نقل کیاہے کہ ( مدینہ کے لوگ قحط سے دوچار ہوئے لہٰذا اپنی مصیبت کی شکایت عائشہ سے کی تو عائشہ نے کہا پیغمبر (ص) کی طرف نظر کرو اور اس کو اپنا وسیلہ قرار دو اس طرح سے کہ کوئی بھی چیز تمہارے اور آسمان کے درمیان حائل ہو ( یعنی خداوند کریم کی بارگاہ میں ان کو اپنا شفیع قرار دو ) ان لوگوں نے یہ کام انجام دیا جس کے نتیجہ میں آسمان پر بادل چھا گئے اور بارش کے بعد سبزہ اگ آیا ، اور اونٹ موٹے ہوگئے وہ سال ( موٹا پہ کا سال کے نام سے ) مشہور ہوگیا(۳۰) ایسے سینکڑوں قصے روایت کی کتابوں میں موجود ہیں کہ جو سب کے سب رسول سے ان کی وفات کے بعد توسل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور جب کہ یہ ثابت ہوچکا کہ رسول سے توسل کرنا جائز ہے ، حرام اور شرک نہیں تو پھر اماموں فرشتوں اور صالحین سے توسل کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اگر یہ کام شرک ہے تو پھر پیغمبر (ص) کے لئے بھی منع ہونا چاہیئے اور اگر جائز ہے تو پھر صرف پیغمبر (ص) سے توسل کرنا صحیح نہیں بلکہ تمام صالحین سے توسل کرنا جائز ہوگا ۔ کمال: تعجب کی بات ہے ! جن روایتوں کی طرف آپ نے اشارہ کیا میں نے آج تک حتی ایک بار بھی نہ انھیں دیکھا تھا اور نہ ہی سنا تھا ۔

محمد : اگر آپ حدیثوں کی کتاب کی طرف رجوع کریں تو ایسی سینکڑوں مثالیں جو کہ رسول سے توسل کو جائز قرار دیتی ہیں کو آپ دیکھ سکتے ہیں جو کچھ میں نے بیان کیا وہ دریا کے مقابلہ میں ایک قطرہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آپ کا حدیث اور صالحین کی سیرت کے سلسلہ میں مطالعہ کم ہے ۔

کمال: میں مصروفیت کی وجہ سے اس کام کو انجام نہیں دے سکتا جبکہ میں بہت زیادہ حدیث اور سیرت کی کتابوں کے مطالعہ کا مشتاق ہوں ۔

محمد: اب جب کہ آپ کا حدیث کے سلسلہ میں مطالعہ بہت کم ہے تو کیا یہ صحیح ہے کہ آپ محمد بن عبد الوہاب کے کہنے پر شیعوں ور دوسرے مسلمانوں کو گالیاں دیں اور انہیں مشرک قرار دیں ؟ یہ کام صحیح نہیں ہے اگر اجازت دیں تو آپ کو ایک بات بتاؤں ۔

کمال : ( اس حال میں کہ ہنس رہاتھا ) جو جی میں آئے کہیں ہم دو دوست ہیں اور اسی دلیل سے اس موضوع کو بیان کیا تاکہ تمہاری معلومات سے استعفادہ کرسکوں ۔

محمد : تم بالکل قریش کے کافروں کی طرح ہو کہ اپنے باپ دادا کی بت پرستی کو بہانہ بنا کر کہتے تھے

( ان وجدنا اباء نا علی امة و انا علی آثار هم مقتدرون ) ۔(سورہ زخرف،ایۃ ۲۳)

ترجمہ:ہم نے اپنے باب دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم انہیں کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ہیں

اور اپنی بت پرستی پر اڑے رہتے تھے جانتے ہو خدا نے ان کی مذمت کیوں کی ؟ اس لئے کہ انھوں نے پیغمبر (ص) کے کہے کو نہیں مانا تا کہ اپنے راستے کو صحیح کرلیں اور یا اس لئے کہ ان کی بات کو سننے کے بعد بھی بت پرستی پر اڑے رہے میں تم سے چاہتا ہوں کہ آنکھ بند کرکے اپنے اجداد کی پیروی نہ کرو بلکہ فکر کا استعمال کرو اور حق کو ڈھونڈ و اور اپنی زندگی کو اس کے اوپر گذار و ، حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ایک چھوٹا سا گروہ توسل تو شرک مانتا ہے اور باقی تمام اسلامی فرقے اس کو جائز مانتے ہیں کیا یہ بات تسلیم کروگے ۔

کمال: جی ہاں ، ظاہرا اس مسئلہ میں حق شیعوں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ہے میں نے جو شیعوں کو گالیاں دیں اس کا کیا کروں ۔

محمد : خدا کی بارگاہ میں تو بہ کرو ہمیشہ حق کی جستجو کرو اور اسی کو مانو تا کہ خدا تمہیں معاف کر دے جو کچھ بھی شیعوں کے عقاید کے بارے میں سنو اس کی تحقیق کرو اور ان کی دلیلوں سے مطمئن ہو سکو اور تعصب سے دوری اختیار کرو کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ بے جا ہر تعصب اپنے لئے آگ رکھتا ہے ۔

کمال: ایسا ہی کروں گا اور مجھ پر حقیقت کو روشنی کرنے کے لئے آپ کا شکر گذار ہوں ۔