خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات18%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 364504 / ڈاؤنلوڈ: 5374
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حکم رسول(ص) کی اطاعت واجب ہے

شیخ : میں سوچتا ہوں کہ آپ کا یہ بیان حقیقت نہ رکھتا ہوگا اس لیے کہ عقل اس کو نہیں مانتی کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو روکنے کی طاعت رکھتا ہو جب کہ قرآن کریم صاف صاف کہہ رہا ہے"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوه ومانهاكم عنه فانتهوا" ( یعنی رسول خدا(ص) تم کو جس چیز کی ہدایت کریں اس کو قبول کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو) نیز اور متعدد آیتوں میں آںحضرت(ص) کے احکام کی اطاعت لازمی قرار دی گئی ہے جیسے"أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَ" ( یعنی اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو) بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کی اطاعت سے انکار کرنا کفر ہے لہذا صحابہ اور آںحضرت(ص) کے ماننے والے ایسا عمل نہیں کرسکتے تھے کہ آپ کو وصیت سے منع کریں۔ ممکن ہے کہ یہ گڑھی ہوئی روایت ہو جس کو امت کی بے اعتنائی ثابت کرنے کے لیے ملحدین کی طرف سے مشہور کردیا گیا ہو۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے روکنا

خیر طلب: میں التماس کرتا ہوں کہ انجان بننے کی کوشش نہ کیجئے! یہ گڑھی ہوئی روایتوں میں سے نہیں ہے بلکہ مسلم الثبوت اخبار صحیح میں سے ہے جس کی صحت پر جملہ اسلامی فرقوں کو اتفاق ہے یہاں تک کہ شیخین بخاری و مسلم نے بھی نقل روایت میں اس قدر سخت احتیاط کے باوجود کہ کوئی ایسی روایت درج نہ ہونے پائے جس سے مخالفین کو گرفت اور استدلال کا موقع ملنے اپنی صحیحین میں اس دردناک واقعے کو نقل کیا ہےکہ رسول اللہ(ص) نے موت کے وقت فرمایا کہ دوات اور کاغذ لائو تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ حاضرین مجلس میں سے کچھ لوگ ایک (سیاسی ) آدمی کے بہکانے میں آکر مانع ہوئے اور اس قدر ہنگامہ برپا کیا کہ آں حضرت بہت دل شکستہ ہوئے اور ناراض ہو کر ان کو اپنے پاس سے نکال دیا۔

شیخ : میں ہرگز اس بات کا یقین نہیں کرسکتا۔ بھلاکون شخص ایسی جرات کرسکتا تھا کہ رسول خدا(ص) کا مد مقابل بنے؟ اگرا یک معمولی انسان بھی وصیت کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو منع نہیں کرسکتا نہ کہ خدا کے رسول(ص) کو جس کی اطاعت واجب اور جس سے مخالفت و سرکشی باعث کفر ہے۔

چونکہ بزرگحوں کی وصیت ذریعہ ہدایت ہوتی ہے لہذا کوئی اس کی ممانعت نہیں کرتا، چنانچہ خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے وصیت کی اور کسی نے روک ٹوک نہیں کی۔

میں پھر عرض کرتا ہوں کہ ایسی روایت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

۸۱

خیر طلب: آپ حق رکھتے ہیںکہ یقین نہ کریں۔ اس پر آپ ہی نہیں ہرمسلمان تعجب کرتا ہے بلکہ اس سے بالاتر میں کہتا ہوں کہ ہر قوم وملت کا سننے والا اس قضیہ سے حیرت میں ہے کہ اگر ایک واجب الاطاعت پیغمبر(ص) آخری وقت میں ایسی وصیت کرنا چاہے جس کا مقصد امت کو گمراہی سے بچانا اور راہ سعادت پر لگانا ہو تو کیونکر اس کو منع کریں گے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسی حرکت کی گئی ہے اور اس نے مسلمانوںکے غم و مصیبت کو بڑھا دیا ہے۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے باز رکھنے پر ابن عباس(رض) کا گریہ

یہ صدمہ صرف ہمارے ہی اور آپ کے لیے نہیں ہے بلکہ اصحاب رسول(ص) بھی اس غم انگیز حادثے پر گریہ کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم اور آپکے دوسرے اکابر علماء نے روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن عباس ( حبر امت) اکثر روتے تھے اور کہتے تھے" يوم الخميس ما يو الخميس" (1) اس کے بعد اس قدر گریہ کرتے تھے کہ زمین آںسوئوں سےبھیگ جاتی تھی۔

جب لوگ پوچھتے تھے کہ پنچ شنبے کے روز کیا واقعہ ہوا ہے جس پر آپ اس قدر روتے ہیں؟ تو کہتے تھے کہ جب رسول اللہ(ص) پر مرض الموت طاری ہوا تو آپنے حکم دیا کہ دوات اور کاغذ لے آئو تاکہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم لوگ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ بعض حاضرین بزم مانع ہوئے اور مزید بر آں یہ کہا کہ محمد(ص) ہذہانبکتے ہیں( معاذ اللہ) وہ جمعرات کا دن تھا جو فراموش نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ قطع نظر اس سے کہ

آں حضرت(ص) کو وصیت نہیں کرنے دی زبان سے بھی تکلیف پہنچائی۔

شیخ : رسول خدا(ص) کو وصیت کرنے سے کس نے منع کیا؟

خیر طلب: یہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب تھے جنہوں نے آں حضرت(ص)کو وصیت سے روکا۔

شیخ : میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے جلد ہی میری الجھن رفع کردی۔ چونکہ ان بیانات سے میں بہت پریشان تھا اور یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس قسم کی روایتیں شیعہ عوام کی گڑھی ہوئی ہیں لیکن آپ کے لحاظ سے خاموش تھا، اب دل کی بات ظاہر کرتا ہوں اور آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اس طرح کے جعلی روایات سے کام نہ لیجئے۔

خیر طلب : میں بھی آپ کو سمجھاتا ہوں کہ بغیر سوچے سمجھے انکار یا اقرار نہ کیا کیجئے کہ حقیقت کھلنے کے بعد (پچھتانا پڑے۔ چنانچہ اس موضوع میں بھی آپ جلدی کر گئے اور اپنی پرانی عادت اور بدگمانی کی بنا پر بغیر سمجھے بوجھے پاکدامن شیعوں پر جعلسازی کی تہمت لگادی۔ حالانکہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ ہم شیعوں کو گڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیونکہ خود آپ ہی کی کتابوں میں ہمارے موافق اور ہمارے عقیدے کے ثبوت میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یعنی جمعرات کا دن، کیسا تھا جمعرات کا دن۔

۸۲

حدیث منع وصیت کے ماخذ

اس زیر بحث موضوع میں اگر آپ اپنے علماء کی معتبر کتابیں دیکھئیے تو معلوم ہوگا کہ آپ ہی کےاکابر علماء نے اس قضیہ کو نقل کیا ہے مثلا بخاری نے صحیح بخاری جلد دوم ص118 میں، مسلم نے اپنی صحیح مسلم آخر کتاب وصیت میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص222 میں، ابن ابی الحدید نہج البلاغہ جلد دوم ص563 میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں، نودی نے شرح صحیح مسلم میں، ابن حجر نے صواعق میں نیز قاضی ابو علی قاضی روز بہان، قاضی عیاض، امام غزالی، قطب الدین شافعی، محمد ابن عبدالکریم شہرستانی، ابن اثیر، حافظ ابونعیم اصفہانی، سبط ابن جوزی، غرض کہ بالعموم آپ کے علماء نے اس المناک وقوعے کی تصدیق کی ہے۔ کہ حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد رسول اللہ(ص) بیمار ہوئے اور اصحاب کی ایک جماعت عیادت کے لیے حاضر ہوئی تو آں حضرت(ص) نے فرمایا"ايتونى‏ بدوات‏ وبياض لاكتب لكم كتابالن تضلوابعدي" ( یعنی میرے پاس دوات اور سادہ کاغذ لےآئو میں تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ ہرگز گمراہ نہ ہو۔)

امام غزالی نے سر العالمین مقالہ چہارم میں لکھا ہے۔ جس سے سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص36 میں نقل کیا ہے نیز آپ کے بعض دوسرے بزرگ علماء نے اس طرح روایت کی ہے کہ فرمایا دوات اور ایک سادہ کاغذ لے آئو" لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی "( اور بعض روایتوں میں ہے کہ فرمایا:)

"لأكتب‏ لكم‏ كتابالاتختلفون فيهبعدي)فقالعمر: عوا الرجل فإنهليهجر،حسبناكتاباللّه"

یعنی تاکہ تم سے (امر خلافت) کا اشکال دفع کردوں، یہ بتادوں کہ میرے بعد اس خلافت کا مستحق کون ہے یا یہ کہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جس سے تم لوگ میرے بعد اس معاملہ میں اختلاف پیدا نہ کرو۔ پس عمر نے کہا کہ اس شخص ( یعنی رسول اللہ(ص)، کو چھوڑو کیونکہ در حقیقت یہ ہذیان بک رہا ہے( معاذاللہ) کتاب خدا ہمارے لیے کافی ہے۔

اصحاب کا مجمع دو گروہوں میں بٹ گیا، کچھ عمر کے طرفدار ہوگئے ادر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور کچھ لوگ رسول اللہ(ص) کے حامی رہے یہاں تک کہ آپس میں اس قدر تھکا فضیحتی شور و غوغا ہوا کہ آںحضرت(ص) نے ( جو خلق عظیم کے مجسمہ تھے) غصے میں بھر کر فرمایا "قوموا عنی ولا ينبغی عندی التنازع" ( یعنی میرے پاس سے اٹھ جائو کیونکہ میرے پاس لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے) یہ وہ پہلا فتنہ و فساد تھا جو پیغمبر(ص) کی تیس سال کیجانگاہ محنتوں کے بعد مسلمانوں کے درمیان خود آنحضرت(ص) کے سامنے رونما ہوا اور اس فتنے اور گروہ بندی کے باعث خلیفہ عمر تھے جنہوں نے اپنی باتوں سے نفاق و اختلاف کا بیج بویا اور در پارٹیاں قائم کر دیں، یہاں تک کہ آجکی رات بھی ہماور آپ دونوں اسلامی بھائیوں کو دو گروہوں میں بانٹ کے ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔

شیخ : آپ جیسے مہذب اور با اخلاق آدمی سے ایسی جرات اور جسارت کی امید نہیں تھی کہ خلیفہ کی ایسی بزرگ ہستی پر ایسا الزام لگائیے گا۔

۸۳

خیر طلب : آپ کو خدا کا واسطہ کہ محبت و عداوت کو الگ رکھ کے اور بدگمانی سے ہٹ کے ذرا اںصاف سے بتائیے کہ آپکے انکار کے جواب میں آپ ہی کی کتابوں سے تاریخی واقعات نقلکر کے میں نے جرات و جسارت کی یا خلیفہ عمر نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت با عظمت میں انتہائی درجے کی گستاخی کی کہ علاوہ وصیت سے روکنے، فتنہ و فساد پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں رسول اللہ(ص) کی ایسی بلند شخصیت کے سرہانے شور و ہنگامہ برپا کرنے کے منہ کے اوپر گالی بھی دی اور کہا کہ یہ شخص ہذیان یعنی پاگل پن کی باتیں بک رہا ہے( معاذ اللہ)؟

اس موقع کی مناسبت سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے

وتبصرفيالعينمني‏ القذى‏وفيعينكالجذعلاتبصره‏

یعنی میری آنکھ کا تنکا تو ڈھونڈتے ہو اور اپنی آںکھ کا شہتیر تم کو نظر نہیں آتا ( مطلب یہ کہ آپ میرے چھوٹے چھوٹے عیوب کی تاک میں تو رہتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں لیکن اپنے بڑے بڑے عیب نہیں دیکھتے) آیا خدائے تعالی آیت نمبر40 سورہ نمبر33( احزاب) میں ارشاد نہیں فرماتا ہے کہ :

"ماكانَ‏ مُحَمَّدٌأَباأَحَدٍمِنْرِجالِكُمْوَلكِنْرَسُولَاللَّهِوَخاتَمَالنَّبِيِّينَ‏"

یعنی محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول(ص) اور خاتم النبیین ہیں۔

اشارہ یہ ہے کہ آں حضرت(ص) کا ذکر ہمیشہ ادب اور احترام کے ساتھ کرنا چاہئیے اور رسول اللہ(ص) یا خاتم النبیین کہنا چاہئیے۔ یعنی آن حضرت(ص) کو نام لے کر نہ پکارو بلکہ رسول اللہ(ص) کہو۔

لیکن اس موقع پر عمر نے بغیر ادب اور فرمان الہی کا لحاظ کئے ہوئے نام کے ساتھ بھی نہیں بلکہ یہ شخص کہہ کے آں حضرت(ص) کی طرف اشارہ کیا۔

خدا کے لیے انصاف سے کہئے کہ گستاخی میں نے کی یا خلیفہ نے؟

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ہجر کے معنی ہذیان کے ہیں جس سے بے ادبی اور جسارت کا شبہ کیا جائے؟

تعصب آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے

خیر طلب : تمام اہل لغت و تفسیر اور بالخصوص آپ کے اکابرعلماء جیسے ابن اثیر جامع الاصول میں ابن حجر شرح صحیح بخاری میں اور صاحبان صحاح وغیرہ کہتے ہیں کہ ہجر ہذیان کے معنی میں ہے۔ محترم ! انسان کو تعصب وعناد کا لباس اتار دینا چاہئیے تاکہ حقائق بے نقاب ہو کر سامنے آئیں۔جس پیغمبر(ص) کے حق قرآن مجید ہدایتدے رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین کہو اگر کوئی شخص ان الرجل لیہجرکہہ کے عمدا ان بزرگوار کی شان اس قدر گھٹائے کہ کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے( معاذ اللہ) تو کیا اس نے ادب اور حکم قرآن کے خلاف بات نہیں کہی؟

اور جس رسول(ص)کی نبوت و عصمت تا دم مرگ زائل نہ ہوئی ہو بالخصوص اس موقع پر جب کہ قوم کی ہدایت اور تبلیغ کی منزل میں ہو

۸۴

اگر کوئی شخص اس کی طرف ہذیان گوئی کی نسبت دے تو کیا یہ اس کی عدم معرفت اور آں حضرت پر ایمان نہ لانے کی دلیل نہیں ہے؟

شیخ : آیا مقام خلافت کے مقابلہ میں ایسا الزام مناسب ہے کہ وہ معرفت اور مرتبہ رسالت پر ایمان نہرکھتے تھے؟

خیر طلب: اول جناب عالی نے جس وقت یہ سنا کہ رسول اللہ(ص) کی طرف ہذیان کی نسبت دی گئی تو کیوں متاثر نہیں ہوئے؟ حالانکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ آںحضرت کو رو دررو دشنام دینے اور ہذیان سے منسوب کرنے والے سے بیزازی اختیار کرے۔ لیکن جس وقت ایک معمولی آدمی کے لیے جس کا زیادہ سے زیادہ درجہ یہ ہے کہ اصحاب رسول کی ایک فرد ہو افور بعد کو چند اشخاص کے بل پر مسند خلافت تک پہنچ گیا ہو، اس قسم کا اشارہ کیا گیا تو آپ کو نا گوار ہوا۔ در آنحالیکہ یہ خیالات صرف میرے ہی نہیں تھے بلکہ ہر صاحب علم اور معقول انسان ان واقعات کے سننے کے بعد فطری طور پر یہی سوچتا ہے کہ ایک مومن شخص کیا رسول اللہ(ص) کی طرف ایسی نسبت دے گا؟ لہذا ظاہر ہے کہ ایک خوش عقیدہ اور پاک نفس مسلمان کے جذبات کیا ہوں گے۔

علمائے عامہ کا اعتراف کہ لفظ ہذیان کہنے والے کو معرفتِ رسول(ص) نہ تھی

چنانچہ آپ کے منصف اور با فہم علماء جیسے قاضی عیاض شافعی نے کتاب شفاء میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں اور نودی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ ایسی بات کہنے والا چاہے جو بھی تھا وہ قطعا رسول اللہ(ص) پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور آں حضرت(ص) کی منزل اور مرتبے کو پہچاننے سے عاجز تھا، اس لیے کہ ارباب مذاہب کے نزدیک ثابت ہے کہ انبیاء عظام ارشاد و ہدایت خلق کی منزل میں عالم غیب سے اتصال رکھتے ہیں اور تندرستی کا زمانہ ہو یا بیماری کی حالت بہر حال ان کے احکام کی تعمیل واجب ہے پس آں حضرت(ص) کی مخالفت بالخصوص جسارت و دشنام اور کلمہ ہذیان کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو رسول(ص) کی معرفت حاصل نہ تھی۔ انتہی کلامہم۔

پیغمبر(ص) کے روبرو اسلام کے اندر پہلا فتنہ

دوسرے آپ نے جو یہ فرمایا تھا کہ میں نے فتنہ اور نفاق پیدا کرنے کا الزام کیوں لگایا تو یہ بات بھی میری تنہا میری ہی جانب سے نہیں ہے بلکہ آپ کے انصاف پسند علماء نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

عالم جلیل حسین میبذی شرح دیوان میں کہتے ہیں کہ پہلا فتنہ جو اسلام کے اندر برپا ہوا وہ مرض الموت میں خود رسول اللہ(ص) کے روبرو ہوا جب کہ آں حضرت(ص) نے وصیت کرنا چاہا اور عمر مانع ہوئے۔ نتیجہ کے طور پر مسلمانوں میں فتنہ، فساد فرقہ بندی اور مذہبی اختلاف پیدا ہوگیا۔

شہرستانی اپنی کتاب ملل و نحل کے مقدمہ چہارم میں کہتے ہیں کہ پہلی مخالفت جو اسلام کے اندر واقع ہوئی وہ رسول اللہ(ص) کے حکم سے وصیت لکھنے کے لیے دوات اور کاغذ لانے سے عمر کا منع کرنا تھا۔

۸۵

اورع ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص563 میں اسی مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔

شیخ : اگر خلیفہ عمر رضی اللہ نے یہ الفاظ کہے ہوں تو میں اس میں کوئی بے ادبی نہیں سمجھتا بلکہ ایسے امور انسان کے جسمانی عوارض میں سے ہیں۔ جس وقت کسی شخص پر مرض کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ بے تک جملہ بولنے لگتا ہے جن کو ہذیان سے تعبیر کرتے ہیں اور جسم کے ان فطری کیفیات میں پیغمبر(ص) اور دوسرے لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو گا۔

خیر طلب : آپ بخوبیجانتے ہیں کہ نبوت کی ایک خاص صفت عصمت بھی ہے جو نبی سے مرتے دمتک سلب نہیں ہوتی، خصوصا جب کہ ارشاد اور ہدایت خلق کی منزل میں ہو اور فرمائے کہ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھنا چاہتا ہوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔

پس چونکہ آں حضرت(ص) مقام ارشاد و ہدایت میں تھے لہذا قطعا با عصمت اور حق سے متصل تھے۔ اگر آپ آیہ شریفہ "وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُوَإِلَّاوَحْيٌيُوحى‏" و آیہ مبارکہ" وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا" اور آیت " أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَوَأُولِيالْأَمْرِمِنْكُمْ‏" پیغمبر(ص) اپنی خواہش نفس سے نہیںبولتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف خدا کی وحی ہوتی ہے۔ اور تم کو رسول جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو۔ اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ص) کی۔ کی طرف توجہ کریں تو خود ہی حقیقت آپ کے اوپر ظاہر ہوجائے گی اور معلوم ہوجائے گا کہ دوات اور کاغذ لانے سے روکنا اور آںحضرت(ص) کو امت کی ہدایت کے لیے وصیت نامہ لکھنے سے مانع ہونا در حقیقت خدا کی مخالفت تھی۔ طے شدہ چیز ہے کہ لفظ ہذیان کھلی ہوئی گالی تھی، پھر اس کے ساتھ رجل کہہ کے اشارہ کرنا اور بھی سخت توہین ہے۔

حضرات ! اںصاف سے بتائیے گا کہ اگر اس جلسہ میں سے کوئی شخص آپ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ یہ شخص ہذیان بکتا ہے تو آپ کو کیسا معلوم ہوگا؟ حالانکہ ہم اور آپ معصوم نہیں ہیں۔ ہذیان بھی بک سکتے ہیں۔ آیا آپ اس کلام کو ادب و احترام کی کوئی قسم سمجھیں گے یا بے ادبی توہین اور گستاخی؟

اگر یہ گفتگو ادب و احترام کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضرت خاتم النبییین (ص) کی شان میں یہ اور زیادہ اہانت و جسارت ہے۔

اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں ایسی توہین آمیز بات کہنے والے سے بیزاری اختیار کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ جب کہ خدائے تعالی نے قرآن مجید میں آں حضرت کو صاف طور سے رسول(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہا ہے۔ اگر جانبداری اور تعصب کو الگ رکھئیے تو آپ کی عقل و حق شناسی ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے جو آں حضرت(ص) کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہنے کے عوض کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے۔

شیخ : فرض کیجئے کہ ہم غلطی کے قابل بھی ہوجائیں تو چونکہ یہ خلیفہ رسول(ص) تھے اور دین و شریعت کی حفاظت کے لیے اجتہاد کیا تھا لہذا قطعا بری الذمہ اور قابل درگزر ہیں۔

خیر طلب : اول تو آپ نے یہی بے محل بات کہی کہ چونکہ خلیفہ رسول(ص) تھے لہذا اجتہاد کیا، کیونکہ جس روز عمر نے یہ الفاظ کہے اس روز وہ

۸۶

خلیفہ تھے ہی نہیں بلکہ شاید خلافت کا خواب بھی نہ دیکھا ہوگا۔ وفات رسول(ص) کے بعد جیسا کہ آپ خود بہتر جانتے ہیں۔ ہنگامی طور پر چند لوگوں نے جلد بازی کر کے ابوبکر کو خلیفہ بنادیا اور بعد کو بھی جبر و تشدد، قتل و اہانت اور دروازےمیں آگ لگانے کے ذرائع سے دوسروں کو قابو میںلائے۔ پھر دو سال تین ماہ کے بعد اپنے مرنے کے وقت ابوبکر نے عمر کو خلافت کی گدی سونپ دی۔

دوسرے آپ کا فرمانا بھی بہت تعجب خیز ہے کہ اجتہاد کیا، کیا آپ نے اتنا بھی غور نہیں کیا کہ ںص اور صریحی حکم کے مقابلہ میں اجتہاد کی کوئی حقیقت ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی خطا ہے جو معافی اور درگذر کے قابل نہیں۔

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ دین و شریعت کی حفاظت کے لیے ایسا کیا آپ جیسے علماء سے ایسی غلط بات سن کر سخت حیرت ہوتی ہے کہ آپ کے عدل و اںصاف پر تعصب کس طرح سے غالب آگیا ہے۔

جناب محترم ! دین و شریعت کی حفااظت رسول خدا(ص) کے ذمے تھی یا عمر ابن خطاب کے ؟ آیا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ رسول اللہ(ص) کو تو اس قید کے باوجود کہ اس تحریر کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، یہ پتہ نہ ہو کہ امت کے لیے وصیت نامہ لکھنا دین و شریعت کے خلاف ہے لیکن عمر ابن خطاب کو معلوم ہو اور وہ حفاظت دین و شریعت کے لیے آںحضرت(ص) کو وصیت سے روک دیں؟"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ضروریات دین میں خطا کرنا بہت بڑا جرم ہے اور ہرگز اس سے عفو و چشم پوشی نہیں ہوسکتی۔

شیخ : اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے دینکے حالات و کیفیات سے اندازہ لگایا تھا کہ اگر رسول خدا(ص) کوئی چیز لکھیں گے تو اختلاف پیدا ہوجائے گا اور فتنہ بر پا ہوگا لہذا از روئے خیر خواہی خود پیغمبر(ص) کے فائدے کے لیے دوات اور کاغذ نہیں لانے دیا۔

عذر گناہ بدتر از گناہ

خیر طلب: جو کچھ آپ نے فرمایا ہے، عذر گناہ بدتر از گناہ اسی کو کہتے ہیں مجھ کو یاد ہے کہ طالب العلمی کے زمانہ میں میرے ایک استاد جامع منقول و معقول فاضل قزوینی الحاج شیخ محمد علی تھے جو فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک غلطی کو نبھانے کی کوشش کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ ایک کے بجائے سو غلطیان ہوجائیں۔ بعینہ مین اسی طرح دیکھ رہا ہوں کہ آپ خلیفہ کی طرف سے خواہ مخواہ جو دفاع کررہے ہیں وہ ایک خطا اور فاحش غلطی کو بہت سی غلطیوں کا مجموعہ بنا رہا ہے۔

آپ کی اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ(ص) درجہ عصمت ( یعنی خطا سے محفوظ ہونے) اور عالم غیت سے اتصال کے باوجود امت کے ارشاد و ہدایت کے موقع پر خیر و اصلاح اور فتنہ و فساد کیطرف کوئی توجہ نہیں رکھتے تھے لہذا خلیفہ عمر نے آںحضرت(ص) کی خیر خواہی اور رہنمائی کی۔

۸۷

اگر آپ آیت نمبر36 سور نمبر33( احزاب) پر تھوڑا غور کیجئے جس میں ارشاد ہے:

"وَماكانَلِمُؤْمِنٍوَلامُؤْمِنَةٍإِذاقَضَىاللَّهُوَرَسُولُهُأَمْراًأَنْيَكُونَلَهُمُالْخِيَرَةُمِنْأَمْرِهِمْوَمَنْ‏ يَعْصِ‏ اللَّهَ‏وَرَسُولَهُفَقَدْضَلَّضَلالًامُبِيناً"

یعنی جب خدا و رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو کسی مرد یا عورت کو اس میں اپنے ارادے اور اختیار سے کوئی دخل حاصل نہیں ( یعنی اپنے قول و فعل سے آں حضرت(ص) کو روکنے یا اختلاف رائے کا حق نہیں رکھتے) اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانیکرے تو یقینا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوا۔

تو یقینا اپنے الفاظ واپس لیجئے گا اور خلیفہ عمر کے اس عمل کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ آں حضرت کے حکم سے سرتابی، وصیت سے روکنا اور لفظ ہذیان کے ذریعہ گستاخی کرنا انتہائی شنیع فعل تھا اور اس نے پیغمبر(ص) کو اتنا متاثر کیا کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

شیخ : خلیفہ کی نیک نیتی تو ان کے آخری جملے سے ظاہر ہے کہا "حسبنا کتاب اللہ" یعنی خداکی کتاب قرآن کریم ہمارے لیے کافی ہے ہم کو رسول خدا(ص) کے نوشتہ کی ضرورت نہیں ہے۔

خیر طلب: اتفاق سے خود یہی جملے ان کے عدم معرفت اور قرآن مجید پر توجہ نہ ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے یا پھر عمدا رسول اللہ(ص) کو رنج پہنچانا اور اس عمل سے روکنا مقصود تھا جو ان لوگوں کے جذبات کےخلاف تھا کیوںکہ اگر قرآن مجید کی پوری معرفت ہوتی تو یہ بھی معلوم ہوتا کہ جملہ امور میں قرآن تنہا کفایت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ یہ وہ یکتا کتاب محکم ہے جو مجمل اور مختصر ہے۔ اس نے کلیات احکام تو بیان کر دیے ہیں لیکن ان کے جزئیات کو شارح اور مفسر کی توضیح پر چھوڑ دیا ہے۔کیونکہ ممکن ہے کہ ایک معمولی انسان بغیر فیضان الہی اور بیان عالم ربانی کے اس جمل اور جامع قرآن سے پورا فائدہ اٹھا سکے؟ علاوہ ان باتوں کے اگر تنہا قرآن امت کے امور میں کافی ہوتا تو یہ آیت کیوں نازل ہوتی کہ

"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا"

(یعنی رسول اللہ(ص) جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو اور جس سے منع کریں اس سےباز رہو) نیز کیا آیت نمبر85 سورہ نمبر4(نساء) میں یہ ارشاد نہیں ہے:

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَى‏ الرَّسُولِ وَإِلى‏ أُولِي الْأَمْرِمِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ‏"

یعنی اگر رسول(ص) اور صاحبان حکم و رسول کے بعد پیشوایان اسلام کی طرف رجوع کرتے تو یقینا جو اہل معرفت ہیں وہ صحیح تدبیر معلوم کر لیتے۔

پر ثابت ہوا کہ قرآن مجید تنہا مفید طلب نہیں ہے جب تک شارحین قرآن یعنی محمد و آل محمد صلواۃ اللہ علیہم اجمعین کی تفسیر بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔

چنانچہ فریقین کی متواتر حدیث میں ( جس کے چنداسناد گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا ہوں)(1) وارد ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء نے بار بار یہاں تک کہ وفات کے وقت بھی فرمایا :

"إني‏ تارك‏ فيکم الثقلين كتاباللّهوعترتياهلبيتي لنيتفرّقاحتىيرداعليّالحوض أنتمسكتمبهما فقد نجوتملنتضلواابدا"

یعنی میں ( رسول خدا(ص)) تمہارے درمیان یقینا دو گرانقدر چیزیں چھوڑتا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص----

۸۸

کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔ اگر تم لوگ ان دوںوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پائو گے اور کبھی ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

صاحبان عقل کی فہم و فراست سے تعجب ہے کہ وہ اس پرغور کیوں نہیں کرتے کہ رسول اللہ(ص) تو ( جن کا ہر قول بحکم آیہ"وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُ وَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى‏" خدا کی طرفسے ہوتا ہے، ہدایت و نجات امت کے لیے تنہا قرآن کافی نہ سمجھیں اور اس کو اپنی عترت طاہرہ سے وابستہکرتے ہوئے صاف صاف فرمائیں کہ اگر دونوں ( یعنی قرآن و عترت) سے تمسک رکھو گے تب نجات پائو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ لیکن خلیفہ عمر یہ کہیں کہ نہیں اکیلا قرآن ہی کافی ہے؟

اب ذرا آپ حضرات اںصاف سے کام لیں اور سچا فیصلہ کریں کہ ایک طرف تو خدا کے بھیجے ہوئے بر حق پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ قرآن و اہل بیت(ع) دونوں سے تمسک کرو کیونکہ یہ دونوں تا قیامت ایک دوسرے سے وابستہ ایک دوسرے کی ںظیر اور ایک ساتھ ذریعہ ہدایت ہیں اورکا یہ قول کہ ہم کو صرف قرآن کافی ہے جس کا مطلب یہ کہ انہوں نے فقط عترت ہی کو نہیں ٹھکرایا بلکہ رسول اللہ(ص) کے حکم اور وصیت کو بھی قبول نہیں کیا۔

ایسی صورت میں ہم پر ان دونوں میں سے کس کی اطاعت واجب ہے؟ ہرگز کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہے گا کہ بارگاہ خداوندی سے الحاق رکھنے والے اللہ کے رسول(ص) کا فرمان چھوڑ کے عمر کی بات ماننا چاہئیے۔ تو پھر آپ نے کیوں عمر کا قول لے لیا اور آںحضرت(ص) کا قول پس پشت ڈال دیا؟ اگر فقط کتاب خدا کافی تھی تو آیت نمبر35 سورہ نمبر16 (نحل):"فَسْئَلُواأَهْلَ‏ الذِّكْرِإِنْكُنْتُمْ لاتَعْلَمُونَ‏" (یعنی اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر( یعنی اہل بیت رسول(ص) ہیں) سے دریافت کرو۔) میں ہم کو کیوں حکم دیا گیا ہے کہ اہل ذکر سے سوال کرو؟ ظاہر ہے کہ ذکر سے مراد قرآن یا رسول خدا(ص) ہیں اور اہل ذکر آںحضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں۔

چنانچہ پچھلی راتون میں دلائل اور اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سیوطی وغیرہ نے درج کیا ہے کہ اہل ذکر سے رسول اللہ(ص) کے اہل بیت پاک (ع) مراد ہیں جو عدیل قرآن ہیں۔

آپ ہماری باتوں کو بدگمانی کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ صرف ہمیں ان چیزوں کی گرفت کرتے ہیں کیوں کہ آپ کے اکابر علماء بھی محل انصاف میں خلیفہ عمر کے اس قول پر مضحکہ کرتے ہیں۔

عمر کے قول پر قطب الدین شیرازی کا اعتراض

آپ کے اکابر علماء میں سے قطب الدین شافعی شیرازی کشف الغیوب میں کہتے ہیں یہ امر مسلم ہے کہ بغیر راہنما کے راستہ طے نہیں کیا جاسکتا ہم کو خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر تعجب ہے کہ چونکہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہے لہذا ہم کو کسی رہنما کی احتیاج نہیں ہے یہ بات تو ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کہے چونکہ ہمارے پاس طب کی کتابیں موجود ہیں لہذا ہم کو کسی طبیب کی ضرورت نہیں ---- کہ یہ بات ناقابل قبول اور بالکل غلط ہے اس لیے کہ جو شخص طبی کتابوں سے مطلب حل نہ کرسکے اس گو قطعی طور پر کسی ہوشیار طبیب کی طرف

۸۹

رجوع کرنا چاہئیے۔ یہی صورت قرآن کریم کی ہے کہ جو شخص اپنی عقل کے ذریعے اس سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکے اس کو مجبورا ان ہستیوں کی طرف جھکنا پڑے گا جو عالم قرآن ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے :

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَىالرَّسُولِوَإِلى‏ أُولِيالْأَمْرِمِنْهُمْلَعَلِمَهُالَّذِينَيَسْتَنْبِطُونَهُمِنْهُمْ‏"

یعنی اگر یہ لوگ رسول(ص) اور صاحبان امر( پیشوایان اسلام) کی طرف رجوع کرتے تو جو لوگ اہل معرفت ہیں وہ صحیح نتیجے تک پہنچ جاتے۔

آیت نمبر83 سورہ نمبر4(نساء) حقیقی کتاب تو اہل علم کے سینے ہیں جیسا کہ آیت نمبر48 سورہ نمبر29( عنکبوب) میں ارشاد ہے:"هُوَآياتٌ‏ بَيِّناتٌ‏ فِيصُدُورِالَّذِينَأُوتُواالْعِلْمَ‏" ( یعنی بلکہ یہ قرآن و روشن آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن کو( من جانب خدا) علم خدا دیا گیا ہے) اسی وجہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے:"أَنَاكِتَابُ‏ اللَّهِ النَّاطِقُ هوالصَّامِتُ." ( یعنی میں خدا کی بولتی ہوئی کتاب ہوں اور یہ قرآن خاموش کتاب ہے۔ انتہی۔

پس خلیفہ کے کلام کے اول و آخر دونوں حصے نا قابل اعتبار اور علم و عمل اور اںصاف رکھنے والے کے نزدیک لائق نفرت ہیں لہذا آپ بھی تصدیق کیجئے کہ انہوں نے رسول اللہ(ص) پر بہت بڑا ظلم کیا جو وصیت نہیں لکھنے دی۔

ابوبکر کو مرتے دم وصیت لکھنے سے نہ روکنا

رہا آپ کا بار بار یہ فرمانا کہ لوگوں نے ابوبکر و عمر کو صیت کرنے سے نہیں روکا تو یہ درست ہے اور یہی چیز انتہائی حیرت اور تعجب کا باعث ہے جس کو آپ کے تمام مورخین و محدثین نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے اپنے مرنے کے وقت عثمان ابن عفان سےکہا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو لکھ کیوں کہ یہ لوگوں کی طرف میرا وصیت نامہ ہے۔ چنانچہ جو کچھ ابوبکر نے کہا انہوں نے لکھ لیا۔ خلیفہ عمر وغیرہ بھی موجود تھے لیکن کسی نے اس سے انکار نہیں کیا۔

بالخصوص عمر نے اس وقت یہ نہیں کہا " حسبنا کتاب اللہ" ہم کو ابوبکر کے وصیت نامے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے۔ لیکن خاتم الانبیاء کو اسی بہانے سے کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے وصیت نہ لکھنے دی۔"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

اگر اس سازش کے آگےسرنیا زخم کرنے سے ہم کو اور کوئی دلیل مانع نہ ہو تو صرف یہی توہین و جسارت، رسول اکرم(ص) کو دشنام دینا اور اس وصیت سے منع کرنا جو امت کے لیے ہدایت اور ضلالت و گمراہی سے حفاظت کا ذریعہ بنتی، ہر عالم و عاقل اور نکتہ رس منصف کو یہ سمجھا دینے کےلیے کافی ہے کہ اس روز کی یہ کار روائی کسی دلیل و برہان کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ محض دھاندلی، ہنگامہ سازی اور سیاسی چالا کی تھی۔

۹۰

مصیبت عظیم وقت آخر اہانت رسول(ص) اور ممانعت ہدایت

ابن عباس گریہ کرنے میں حق بجانب تھے بلکہ میں تو کہتا ہوں سارے مسلمانوں کو خون کے آنسوئوں سے رونا چاہئیے کو خاتم المرسلین کو اتنی مہلت بھی دی کہ وصیت کر کے امت کے لیے دستور العمل معین کر جائیں، اور زندگی کے آخری لمحون میں آںحضرت(ص) کو توہین و دشنام کے ذریعے تبلیغ رسالت کو عوض دیا۔ اگر وصیت کا موقع دے دیا ہوتا تو یقینا امر خلافت بالکل واضح ہوجاتا اور آں حضرت کے پچھلے ارشادات کی تائید ہوجاتی۔ لیکن سیاسی دائو پیچ جاننے والے بغاوت کر کے سد راہ بن گئے۔

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آں حضرت(ص) خلافت کے بارے میں کچھ فرمانا چاہتے تھے؟

خیر طلب: اولا مطلب بالکل ظاہر ہے کہ وقت وفات تک دین کے احکام و قواعد میں سے کوئی چیز باقی ہی رہ گئی تھی کہ امت کی ہدایت کے لیے اس کی یاد دہانی ضروری ہوتی، کیونکہ آیت اکمال دین نازل ہوچکی تھی، البتہ خلافت کا معاملہ ایسا تھا آں حضرت(ص) نے تئیس سال کی مدت میں اس کے لیے جو کچھ فرمایا تھا چاہتے تھے کہ اس کی تائید میں مزید وضاحت فرمادیں، چنانچہ میں عرض کرچکا ہوں کہ امام غزالی نے سرالعالمین کے مقالہ چہارم میں نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"ايتونى‏ بدوات‏ وبياضلاكتبلكمكتابالنتضلوابعدي لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی"

یعنی دوات و کاغذ لے آئو تاکہ تم سے امر خلافت کا اشکال دور کر دوں اور اپنے بعدکے لیے اس کے مستحق کی یاد دہانی کر جائو۔

پھر جملہ"لنتضلوابعدی" بھیثابت کرتا ہے کہ وصیت کا موضوع ہدایت امت تھا۔ اور طرق ہدایت میں سوا امر خلافت و امامت کے اور کسی چیز کی تاکید باقی نہ تھی۔ اس کے علاوہ ہم کو اصرار بھی نہیں ہے کہ آں حضرت(ص) خلافت و امامت کے لیے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اتنا تو قطعا چاہتے تھے کہ امت کی ہدایت و رہنمئی کے لیے کوئی تحریر دے دیں۔ تاکہ ضلالت و گمراہی نہ پھیلے تو پھر کیوں ممانعت کی؟ فرض کر لیا جائے کہ ممانعت ہی مناسب تھی تو کیا اس کے لیے فحش و دشنام اور اہانت بھی ضروری تھی؟

چشم باز و گوش باز وایں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏الْأَبْصارِ

صاف فرمائیے گا سلسلہ کلام ذرا طولانی ہوگیا لیکن یہ میرے اختیار سے نہیں تھا بلکہ درد و دل کا ایک مختصر سا نمونہ تھا جو آپ کی توجہ کے لیے بے ساختہ زبان پر آگیا۔

پس ان مقدمات سے معلوم ہوگیا کہ علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے وصی تھے اور باوجودیکہ آن حضرت(ص) بارہا ہدایات جاری فرماچکے تھےلیکن آخری منزل پر تکمیل وصیت کے لیے چاہا کہ یہ حقائق تحریر کر کے امت کی ذمہ داری کو پختہ فرمادیں سیاسی بازیگر سمجھ رہے تھے لہ کیا لکھنا چاہتے ہیں لہذا شور و غوغا اور اہانت کر کے روک دیا۔

۹۱

اںحضرت(ص) نے اتمام حجت اور رفع شبہات کے لیے بعض احادیث میں خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جس خدا نے دیگر انبیائے کرام آدم(ع)، نوح(ع)، موسی(ع)، اور عیسی(ع) وغیرہ کے لیے وصی معین فرمائے اس نے میرے لیے بھی علی(ع) کو وصی قرار دیا۔

نیز فرمایا ہے کہ علی میرے اہل بیت اور میری امت میں میرے بعد میرے وصی ہیں۔ اور یہ خود ایک مضبوط دلیل ہے اس بات کی کہ وصایت اس مقام پر خلافت کے معنی میں ہے۔ لہذا علی وصی و خلیفہ رسول(ص) ہیں۔

شیخ : یہ اخبار اگر صحیح بھی ہوں تو متواتر نہیں ہیں لہذا آپ کیونکر ان سے سند لے رہے ہیں؟

خیر طلب : تواتر وصیت کا مسئلہ ہمارے نزدیک تو اہل بیت عترت و طہارت کے طریق سے جو عدیل قرآن ہیں ثابت و مسلم ہے۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا میں نے پچھلی راتوں میں عرض کیا ہے کہ آپ کے علماء اپنے علمی بیانات میں خبر واحد کو بحث سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اخبار میں اگر تواتر لفظی نہ ہو تو تواتر معنوی قطعا موجود ہے۔

ان بے شمار روایتوں سے ( جن کی پوری تفصیل سے اس وقت معذور ہوں کیونکہ اتنا وقت ہے نہ سب حافظے میں محفوظ ہیں لہذا موقع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کو جو اس وقت یاد تھیں پیش کر دیا) معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے لیے ایسی وصایت پر نص فرمائی ہے جس سے صاف صاف خلافت کے معنی نکلتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ جو تواتر کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں اور جس وقت ہمارے مقابل کوئی حربہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں یا جس مقام پر لا جواب ہوجاتے ہیں تواتر کی آڑ لینے لگتے ہیں۔ ذرا یہ فرمائیے کہ حدیث لا نورث کا تواتر کہاں سے ثابت کیجئے گا؟ در آنحالیکہ اس حدیث کے راوی بقول آپ کے ابوبکر یا اوس بن حدثانتھے اور چند معلوم الحال مطلبی اشخاص نے ہاں میں ہاں ملادی لیکن ہر زمانے میں کروڑوں موحد اور پاک نفس مسلمان اس حدیث کے منکر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کے باب علم رسول علی علیہ السلام اور تمام عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کا انکار جو عدیل قرآن ہیں اس کے باطل ہونے پر ایک بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ ان حضرات نے منطقی دلائل کے ساتھ اس کے غلط اور مصنوعی ہونے کو ثابت کیا ہے، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا۔ اور ان ساری دلیلوں سے اہم خود ابوبکر کے سامنے صدیق و صدیقہ علی و فاطمہ علیہما السلام کی مخالفت اور انکار تھا۔ اس لیے کہ جس وقت رسول اللہ(ص) کا باب علم اور آں حضرت(ص) کے ارشاد کے مطابق اہل تقوی کا امام کسی حدیث کو جھٹلا دے تو قطعا یہ اس کے مصنوعی او جھوٹ ہونے پر کامل حجت ہوگی۔

اگر تمام انبیاء بالعموم اور خاتم الانبیء بالخصوص اپنا کوئی وارث نہیںرکھتے تھے تو وصی اور وارث کیونکر بنایا؟ جیساکہ عرض کر چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا " لکل نبی وصیووارث و ان علیا وصیی ووارثی" ( یعنی ہر پیغمبر کے لیے ایک وصی و وارث ہے اور یقینا علی میرے وصی اور وارث ہیں۔)اور ظاہر ہے کہ بغیر مال و جائداد کی میراث کے وصی اور وارث کے کوئی معنی نہیں۔ اگر آپ کہئے کہ مالی نہیں بلکہ علمی وراثت مراد ہے( حالانکہ عقلی و نقلی اور علمی دلائل و براہین سے ثابت ہے کہ مالی وراثت مراد تھی) تو میرا مطلب اور زیادہ ثابت ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلے تو پیغمبر(ص) کے وارث منصب خلافت کے لیے اولی اور حقدار ہوگا تب کہیں ان لوگوں کا نام لیا جاسکتا ہے جو آں حضرت(ص) کے علم سے کورے تھے۔

۹۲

دوسرے یہ کہ یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی اور وارث قرار دیا ہے بلکہ ان احادیث کے حکم سے جو آپ کے علماء نے نقل کئے ہیں( جن میں سے بعض کی طرف اشارہ بھی ہوچکا ہے) خدا ہی نے آپ کو اس درجے پر معین فرمایا ہے یہ کیونکر ممکن ہے ہے اس حدیث کو اپنے وصی اور وارث ( یا بقول آپ کے وارث علمی) سے تو نہ فرمایا ہوتا کہ بعد کو اختلاف نہ پیدا ہو لیکن اس شخص سے فرما دیا جو نہ وصی تھا نہوارث؟

شخت تعجبہے کہ جب دینی احکام میں علی علیہ السلام کوئی فیصلہ فرماتے تھے تو ابوبکر و عمر چونکہ خود ناواقف تھے لہذا آپ کے قول کو حجت سمجھ کے فورا تصدیق کرتے تھے کہ آپ کا فرمانا صیحی ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتے تھے چنانچہ آپ کے علماء و مورخین نے ابوبکر عمر او عثمان کے زمانہ خلافت میں حضرت کے فیصلے نقل کئے ہیں۔ لیکن خاص طور سے اس موقع پر حضرت(ع) کے قول کو قبول نہیں کیا بلکہ ایسی رکیک مثالوں کےساتھ اہانت بھی کی کہ ہر عقلمند انسان ان کو نقل کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے۔

حافظ : سخت تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں خلفاء رضی اللہ عنہم دینی احکام نہیں جانتے تھے اور علی کرم اللہ وجہہ ان کو یاد دلاتے تھے۔

خیر طلب : اس میںتعجب کی کوئی بات نہیں ہے اس لیے کہ سارے احکام و قواعد کا جاننا بہت مشکل کام ہے اور سوا اس کے جو پیغمبر(ص) یا باب علم ہو کسی معمولیانسان کے لیے اتنا مکمل علم ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ تنہا میں ہی اس عقیدے کا قائل نہیں ہوں بلکہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے۔ مطلب واضح کرنے کے لیے ایسے اتفاقات میں سے ایک نمونہ پیس کئے دیتا ہوں تاکہ نا واقف لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم توہیں کے مقصد سے ایسا کہتے ہیں۔

چھ مہینے کا بچہ جننے والی عورت کے حق میں علی(ع) کا حکم

امام احمد بن حنبل مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی می، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور شیخ سلیمان حنفی ینابیع المودۃ باب56 میں احمد بن عبداللہ ، اور احمد بن حنبل، قلعی اور ابن سمان سے روایت کرتے ہیں:

"أنعمرأرادرجمامرأةالتی ولدت لستةأشهرفقاللهعليعليه السلام فیكتاباللهوَحَمْلُهُوَفِصالُهُثَلاثُونَشَهْراً ثمقالو فصاله فی عامين فالحمل ستةأشهرفترکها وقاللولاعلي‏ لهلك‏ عمر"

یعنی عمر نے ایک ایسی عورت کو سنگسار کرنا چاہا جس کے یہاں چھ مہینے کا بچہ پیدا ہوا تھا، تو علی علیہ السلام نے فرمایا خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ حمل و رضاعت سے دودھ بڑھائی تک تیس (30) مہینوں کی مدت ہے اور چونکہ دودھ چھڑا نے تک رضاعت کا زمانہ دو سال ہے لہذا حمل کا زمانہ چھ ماہ رہ جاتا ہے ( خلاصہ یہ کہ چھ ماہ میں ولادت

۹۳

ممکن ہے کیونکہ حمل کی کم سےکم مدت چھ ہی مہینے ہے) پس عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور کہا کہ علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا نیز اسی باب میں مناقب احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں۔

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل عليه شئی اخذ من علی رضی الله عنه."

یعنی جس وقت عمر کو کوئی مشکل مرحلہ پیش آتا تھا( اور بات سمجھ میں نہیں آتی تھی) تو علی علیہ السلام سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

اس قسم کے قضیے ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں کثرت سے پیش آئے کہ جب یہ لوگ مشکل میں پھنس جاتے تھے تو علی علیہ السلام اصلی حکم بتاتے تھے اور یہ بھی اس کو تسلیم کر کے عمل کرتے تھے۔

ابآپ حضرات غور کیجئے کہ آخر اس مقام پر علی علیہ السلام کی بات کیوں نہیں مانی بلکہ جسارت و اہانت شور و غل اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے جناب فاطمہ مظلومہ صلوات اللہ علیہا کا بنیادی حق بھی چھینلیا؟ بات در اصل یہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور

تیسری دلیل اس حدیث کے بطلان پر خود خلیفہ ابوبکر کا قول و فعل ہے کیونکہ اگر حدیث صحیح ہے تو جو کچھ رسول اللہ(ص) نے چھوڑا تھا، سب ضبط کر لینا چاہئیے تھا۔ وارثوں کو آں حضرت کی کسی چیز پر تصرف کا حق نہیں تھا لیکن ابوبکر نے حجرہ فاطمہ ان کو دے دیا، اور ازواج رسول عائشہ و حفصہ وغیرہ کے حجرے بھی میراث کے طور پر ان سب کے عطا کئے۔ یک بامو دو ہوا کی مثل اسی موقع کے لیے ہے ۔يومن ببعض و يکفر ببعض ۔

علاوہ ان چیزوں کے اگر یہ حدیث صحیح تھی اور اس پر ان کا ایمانتھا کہ یہ آل رسول(ص) ہے تو فدک کو ضبط کرنے کےبعد جو ( ان کے خیال میں) صدقہ مسلمین تھا، ابوبکر نے یہتحریر کیوں دی کہ میں نے فدک فاطمہ(ع) کو واپس دیا جس کے بعد عمر مانع ہوئے اور وہ سند لے کر چاک کر ڈالی؟

حافظ ؟ آپ کا یہ بیان انوکھا ہے میں نے تو نہیں سنا کہ خلیفہ نے فدک واپس کیا ہو۔ آخر اس مضمون کی سند کہاں سے ہے؟

ابوبکر کا فاطمہ(ع) کو فدک واپس کرنا اور عمر کا مانع ہونا

خیر طلب : غالبا آپ میرے اس اصول سے واقف ہوں گے کہ بغیر سند کے میں کوئی بات عرض نہیں کرتا۔ نیز میرا اندازہ ہے کہ آپ کے پاس مطالعہ کتب کا وقت بہت کم ہے۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن برہان الدین شافعی ، تاریخ سیرۃ اطلبیہ جلد سوم ص391 میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر فاطمہ(ع) کی گفتگو سے متاثر ہو کر رونے لگے ( در اصل یہ واقعہ چند روز کے بعد ابوبکر کے مکان پر پیش آیا۔)

"فاستعيرو بکی و کتب لها برد فدک"

۹۴

یعنی حال فاطمہ(ع) پر گریہ کیا اور لکھ دیا کہ میںنے فدک فاطمہ(ع) کو واپس کیا، لیکن عمر نے وہ پروانہ لے کر پھاڑ ٰڈالا۔

تعجب یہ ہے کہ انہیں عمر نے جنہوں نے اس روز تحریر چاک کر ڈالی تھی اور فدک واپس کر نے پر اعتراض کیا تھا خود انے زمانہ خلافت میں اس کو واپس دیا اور اسی طرح بعد کے ( اموی اور عباسی) خلفا نے بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وارثوں کو فدک لوٹایا۔

حافظ : آپ کی اس تقریر تو بہت ہی تعجب ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ خلیفہ عمر جو بقول آپ کے فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینے میں سختی سے مانع ہوئے تھے کیونکہ یہ صدقہ مسلمین تھا، یہاں تک کہ تحریر کو بھی پھاڑ کے پھینک دیا تھا خود ہی فاطمہ(ع) کے وارثوں کو اسے واپس کردیں؟

خیر طلب : تعجب ہونا بھی چاہئیے۔ ممکن ہے آپ نے نہ دیکھا ہو لہذا اب میں آپ کی اجازت سے ذکر اسناد کے ساتھ آپ کے اکابر علماء سے ان خلفاء کے حوالے نقل کرتا ہوں جنہوں نے واپس دیا اور واپس لیا، تاکہ تعجب نہ کریں اور سمجھ لیں کہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

خلفاءکا اولاد فاطمہ(ع) کو فدک لوٹانا

مدینہ منورہ کے مشہور محدث و مورخ علامہ سمہودی متوفی سنہ911ھ تاریخ المدینہ میں اور یاقوت بن عبداللہ رومی حسمومی معجم البلدان میں نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر نے اپنے زمانہ خلافت میں فدک پر تصرف کیا اور عمر نے اپنے دور خلافت میں علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کردیا۔ اگر ابوبکر نے رسول اللہ(ص) کے حکم سے مسلمانوں کا حق سمجھ کے فدک پر قبضہ کیا تھا تو عمر نے کس دلیل سے سارے مسلمانوں کی جائداد کسی ایک فرد کے سپرد کردی؟

شیخ : شاید اس نیت سے ایک مسلمان فرد کے حق میں واگزار کیا ہو کہ مسلمانوں ہی کے تصرف میں رہے۔

خیر طلب : آپ کی توضیح پر تو مدعی سست گواہ چست کی مثل صادق آتی ہے کیونکہ خود خلیفہ کا یہ مقصد نہیں تھا۔ اگر مسلمانوں کے خرچ کے لیے واپس کیا ہوتا توتاریخ میں اس کا تذکرہ ہونا چاہئیے تھا، حالانکہ آپ کے بڑے بڑے مورخین لکھتے ہیں کہ عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کیا۔ اور علی علیہ السلام نے بھی میراث کے طور پر فدک کو قبول کیا تھا نہ کہ ایک مسلمان فرد کی حیثیت سے، ورنہ ایک مسلمان تمام مسلمانوں کے حق پر قابض و متصرف نہیں ہوسکتا ۔

شیخ : شاید عمر ابن عبدالعزیز مراد ہوں۔

عمر ابن عبدالعزیز کا فدک واپس کرنا

خیر طلب : ( مسکراتے ہوئے) علی علیہ السلام اور عباس عمر ابن عبدالعزیز اموی کے زمانے میں نہیں تھے۔ عمر ابن عبدالعزیز کا حکم اس کے علاوہ ہے،چنانچہ علامہ سمہودی تاریخ المدینہ میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص18 میں ابوبکر جوہری سے نقل کرتے ہیں کہ

۹۵

عوام عمر ابن عبدالعزیز کو خلافت حاصل ہوئی تو مدینے میں اپنے عامل کو لکھا کہ فدک اولاد فاطمہ کو واپس کر دو لہذا اس نے حسن ابن حسن مجتبی اوربعض کا قول ہے کہ حضرت کا قول ہے کہ حضرت علی بن الحسین علیہما السلام کو بلا کر ان کے پسرد کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم مطبوعہ مصر کے ص81 سطر اول میں یہ عبارت لکھی ہے کہ کانت اول ظلامہ ردہا ( یعنی یہ وہ پہلی بجز وظلم چھنی ہوئی جائداد تھی جو عمر ابن عبدالعزیز نے اولاد فاطمہ(ع) کو دی، اور یہ ایک مدت تک ان حضرات کے تصرف میں رہی، یہاں تک کہ خلیفہ یزید ابن عبدالملک نے پھر اس کو غصب کر لیا اور اس پر بنی امیہ کا قبضہرہا۔ جب خلافت بنی عباس کا زمانہآیا تو پہلے عباسی خلیفہ عبداللہ سفاح نے اولاد امام حسن علیہ السلام کے سپرد کیا اور وہ حقوق وارثت کی صورت میں آمدنی کو بنی فاطمہ کے درمیان تقسیم کردیتے تھے۔

عبداللہ مہدی، اور مامون عباسی کا نسل فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینا

جب اولاد امام حسن(ع) پر مںصور نے خروج کیا تو فدک ان سے چھین لیا، جب اس کا بیٹا مہدی خلیفہہوا تو ان کو لوٹا دیا، موسی بن ہادی خلیفہ ہوا تو اس نے پھر ضبط کر لیا، یہاں تک کہ مامون الرشید عباسی نے اپنی خلافت کے دور میں حکم دیا کہ اس کو اولاد علی اور بنی فاطمہ(ع) کے حق واگزار کر دیا جائے۔

یاقوت حمومی نے معجم البلدان طبع اول ذیل حرف" ف، و" میں مامون کے پروانے کی عبارت درج ہے کہ اس نے اپنے عامل قثم بن جعفر کو لکھا:

انه کان رسول الله صلی اللهعليه وسلم اعطی ابنته فاطمه رضی الله عنها فدک و تصدق عليها بها و ان ذالک کا امرا ظاهرا معروفا عند آلهعليه الصلوة والسلام"

یعنی بتحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ(ع) کو عطا فرما دیا تھا اور یہ امر آں حضرت کی اولاد کے نزدیک ظاہر اور معروف تھا۔

مشہور شاعر دعبل خزاعی بھی موجود تھے انہوں نے اٹھ کر کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلع یہ تھا

اصبح وجه الزمان قد ضحکا برد مامون هاشم فدکا

یعنی آج زمانہ شاد و خنداں ہے کہ مامون نے بنی ہاشم کو فدک لوٹا دیا۔

۹۶

فدک کے عطیہ ہونے کا ثبوت

یہ قطعی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس رسول(ص) کا عطیہ تھا جس کو روز اول ہی بغیر کسی شرعی جواز کے غصب کر لیا گیا، لہذا بعض خلفاء نے انصاف یا سیاست کی بنا پر اس کو ان مظلوم بی بی کی اولاد کی طرف پلٹا دیا۔

حافظ : اگرفدک فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا گیا تھا تو انہوں نے وراثت کا دعوی کیوں کیا اور ہبہ کے بارے میں کوئی لفظ کیوں نہیں کیا؟

خیر طلب: پہلی مرتبہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ہبہ ہی کا دعوی کیا لیکن جب شارع مقدس اسلام کی ہدایت کے خلاف قابض و متصرف سے گواہ طلب کئے گئے اور انہوں نے گواہ پیش کردئے تو شرع انور کے برخلاف ان شہادتوں کو رد کردیا گیا، لہذا آپ نے مجبورا وراثت کا راستہ اختیار کیا تاکہ احقاق حق ہوجائے۔

حافظ : میراخیال ہے کہ آپ کو دھوکا ہو رہا ہے اس لیے کہ کسی مقام پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہبہ کے سلسلے میں ایک حرف بھی کہا ہو۔

خیر طلب: مجھ کو دھوکا نہیں ہوا بلکہ یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ فقط شیعہ میں نہیں بلکہ خود آپ کےاکابر علماء کی کتابوں میں بھی درج ہے چنانچہ سیرۃ الحلبیہ مولفہ علی بن برہان الدین حلبی شافعی متوفی سنہ1044ھ کے ص39 پر لکھا ہوا ہے کہ پہلے فاطمہ(ع) نے ابوبکر سے اس عنوان پر مناظرہ کیا کہ فدک پر ان کا مالکانہ قبضہ ہے اور رسول خدا(ص) نے ان کو عطا کردیا تھا، لیکن چونکہ شرعی گواہ نہیں مل سکے لہذا مجبورا وراثت کے قاعدے سے دعوی کیا پس وراثت کا دعوی ہبہ کےبعد تھا۔

نیز امام فخر الدین تفسیر کبیر ضمن ادعائے فاطمہ(ع) میں ، یاقوب حموی، معجم البلدان میں، ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص80 میں ابوبکر جوہری سے اور ابن حجر متعصب صواعق محرقہ میں آخر صہ21 میں شہبہ ہفتم از شبہات رفضہ کے ضمن میں کلام کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پہلا دعوی ہبہ کے متعلق تھا لیکن جب ان کی گواہیاں مسترد کردی گئیں تو رنجیدہ اور ناراض ہو کر فرمایا کہ اب میں آئیندہ تم سے بات نہیں کروں گی۔(1)

اور ہوا بھی یہی کہ پھر نہ ان لوگوں سے ملاقات کی نہ ان سے ہمکلام ہوئیں، یہاں تک کہ آپ کی وفات کا زمانہ آیا تو وصیت کردی کہ ان میں سے کوئی بھی میرے جنازے پر نماز نہ پڑھے۔ آپ کے چچا عباس نے نماز پڑھی اور رات کے وقت دفن کی گئیں۔

(لیکن پر بنائے روایات شیعہ و بیانات ائمہ عترت طاہر حضرت علی علیہ السلام نے جناب معصومہ پر نماز پڑھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہاں تک ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ اکابر علمائے اہل سنت نے بھی اقرار کیا ہے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دعوی کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک مجھ کو بخش دیا ہے۔

۹۷

مخالفین کا قول کہ ابوبکر نے آیہ شہادت پر عمل کیا اور اس کا جواب

حافظ : اس میں کوئی شک نہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت دل تنگ اور رنجیدہ خاطر ہوئیں لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی زیادہ قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ بھی شرع کی ظاہری صورت پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ آیت شہادت کا عام حکم ہے کہ مدعی کو اپنے ثبوت میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں یا چار عورتیں جو دو مردوں کے برابر ہیں گواہی میں پیش کرنا چاہئیے اور یہاں گواہوں کی تعداد مکمل نہیں ہوسکی لہذا وہ بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے موافق کوئی قطعی فیصلہ نہیں دے سکے۔

خیر طلب: ممکن ہے اس مقام پر سلسلہ کلام طولانی ہوجائے اور حضرات حاضرین جلسہ کے لیے باعث زحمت ہو لہذا آگر آپ بھی مناسب سمجھیں تو بہتر ہوگا کہ بقیہ گفتگو کل شب کے لیے اٹھا رکھی جائے؟

نواب : قبلہ صاحب! ہمارے درمیان ایک اہم موضوع یہ بھی زیر بحث تھا اور ہم اس کی حقیقت معلوم کرنے کے از حد مشتاق ہیں، حسن اتفاق سے آج یہ مسئلہ معرض تحقیق میں آگیا ہے لہذا التجا ہے کہ اگر آپ خستگی اور تکان محسوس نہ کر رہے ہوں تو مطلب ادھورا نہ چھوڑئیے کیونکہ بات کٹ جانے سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔یہ گفتگو اگر صبح تک طول کھینچے تب بھی ہم سامعین کی جانب سے کوئی عذر نہیں بلکہ سب اتنہائی شوق و ذوق سے سننے کے لیے تیار ہیں، اور جب تک یہ قضیہ حل نہ ہوجائے یہاں سے واپس نہ جائیں گے۔ آپ پوری وضاحت کےساتھ تقریر فرمائیں۔ البتہ اگر آپ ہی تھک گئے ہوں تو ایسی صورت میں ہم تکلیف نہ دیں گے۔

خیر طلب: مجھ کو علمی اور دینی مباحث میں کبھی زحمت یا خستگی نہیں ہوتی، میں تو صرف آپ حضرات کا خیال کررہا ہوں کیونکہ سبھی کی رعایت ملحوظ رکھنا چاہئیے۔

( سارے اہل جلسہ نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کے بیانات باعثِ زحمت نہیں ہیں، خصوصا فدک کے موضوع پر جو بہت اہم اور قابل سماعت ہے اور ہم سب اس کے لیے بے چین ہیں۔)

خیر طلب: حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ خلیفہ شرعی قانون پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ گواہ پورے نہیں تھے اس لیے حکم صادر نہیں ہوا۔ اس مقام پر چند جملے عرض کرنا ضروری ہیں۔ آپ حضرات انصاف سے فیصلہ کریں۔

قابض و متصرف سے گواہ مانگنا خلافِ شرع تھا

اولا بقول آپ کے حضرات ابوبکر قانون شرع سے مجبور تھے تو یہ فرمائیے کہ شرع میں یہ حکم کہاں پر ہے کہ قبضہ وار سے گواہ طلب کئے جائیں؟ بالاتفاق ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قابض و متصرف تھیں لہذا ابوبکر کا یہ عمل جس کو آپ کے

۹۸

تمام علماء نے لکھا ہے کہ ان مظومہ بی بی سے گواہ طلب کئے آخر دین و شریعت کے کس قانون کے مطابق تھا؟ کیا شریعت کا دستور یہ نہیں ہے کہ گواہ مدعی کو پیش کرنا چاہئیے متصرف کو نہیں؟ آیا یہ طریقہ انور کے خلاف تھا یا نہیں؟ ذرا انصاف سے فیصلہ کیجئے۔

ثانیا آیہ شہادت کی عمومیت سے کسی کا انکار نہیں ہے، اس کی عمومیت اپنی جگہ پر باقی ہے لیکن بمقتضائے قاعدہ مسلمہ ما من عام الا و قد خص ، یعنی ہر عام کا ایک خاص ہوتا ہے 12 مترجم) قابل استثناء اور تخصیص کی حامل ضرور ہے۔

حافظ : آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ آیہ شہادت تخصیص کی حامل ہے؟

خزیمہ ذوالشہادتین

خیر طلب : اس مقصد کی دلیل وہ روایت ہے جو آپ کی معتبر صحاح کے اندر بھی نقل ہوئی ہے کہ جس وقت خزیمہ ابن ثابت نے گھوڑے کی فروخت کے معاملے میں ایک عرب کے مقابل جس نے رسول اللہ(ص) کے خلاف دعوی کیا تھا آں حضرت(ص) کے موافق شہادت دی تو تنہا انہیں کی گواہی کافی سمجھی گئی اور پیغمبر(ص) نے ان کا لقب ذوالشہادتین مقرر فرمایا کیونکہ ان کی ایک شہادت دو عادل گواہوں کے برابر قرار دی گئی پس معلوم ہوا کہ آیہ شہادت کی تخصیص موجود ہے۔ جہاں پر امت کی ایک مومن اور صحابی ذوخزیمہ آیت کے مخصص بن جائیں وہاں علی(ع) و فاطمہ علیہما السلامجو نبض آیہ تطہیر درجہ عصمت پر فائز ہیں بدرجہ اولی مستثنی ہوں گے۔ معصوم و معصومہ اور صدیق و صدیقہ قطعا کذب و دروغ سے مبرا ہیں اور ان کی تردید یقینا خدا کی تردید ہے۔

فاطمہ(ع) کے گواہوں کی تردید

صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ(ع) نے دعوی کیا کہ فدک میرا نحلہ ہے اور میرے باپ نے مجھ کو بخش دیا تھا اور میں خود آں حضرت(ص) کی حیات ہی میں اس پر متصرف تھی۔ اس دستور شرع کے خلاف جناب معصومہ سےگواہ مانگے گئے۔ آپ نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، ام ایمن اور حسنین علیہا السلام کو شہادت میں پیش کیا لیکن ان کو رد کردیا گیا۔ آیا یہ عمل حقیقت اور قواعد شرع کے بر خلاف نہیں تھا اگر فاطمہ کے پاس سوا قبضے کے اور کوئی گواہ نہ ہوتا تب بھی قانون شریعت کے مطابق آپ کی حقانیت کے لیے کافی تھا۔ علاوہ اس کے کہ خدائے تعالی نے آیہ تطہیر میں ان معظمہ کی پاکیزگی کی شہادت دی ہے کہ آپ ہر رجس اور گندگی سے مبرا ہیں جس میں جھوٹ بولنا اور غلط ادعا کرنا بھی شامل ہے۔ بالخصوص ایسی صورت میں کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام جیسے کامل گواہ نے ان طاہرہ بی بی کی صداقت پر شہادت دی، جن کی گواہی کو جھٹلانا قطعا خدا کو جھٹلانا ہے، کیونکہ خدائے اعلی نے علی علیہ السلام کو آیات قرآنی میں صادق و صدیق فرمایا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس کی تصدیق خدا کرے اس کی بات کو رد کرنے کی جرائت کیونکہ ہوئی؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ

۹۹

علی کے ساتھ رہو یعنی ان کی پیروی کرو، اور جیسے زید" عدل" اپنی اتنہائی سچائی کی وجہ سے مجسمہ صدق بن گئے تھے آپ کو بھی صادق فرمایا چنانچہ آیت نمبر120 سورہ نمبر9(توبہ) میں ارشاد ہے۔

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَكُونُوامَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے مومنین خدا سے ڈرو اور سچوں کے( جن سے محمدج(ص) و علی(ع) اور اہل رسولی مراد ہیں، ساتھ رہو۔

جیسا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟ میں اشارہ ہوچکا ہے۔

حافظ : یہ آیت آپ کے مقصد پر کیونکر دلالت کرتی ہے جس سے علی کرم اللہ وجہہ کی پیروی فرض ہوجائے؟

صادقین سے محمد(ص) و علی(ع) مراد ہیں

خیر طلب : آپ کے اکابر علماء اپنی کتابوں اور تفسیروں میں کہتے ہیں کہ یہ آیت محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ صادقین سے یہی دونوں بزرگوار اور بعض اخبار کی بنا پر علی علیہ السلام مراد ہیں، نیز دوسری بعض روایتوں میں ہے کہ عترت رسول(ص) مراد ہے۔

امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی درالمنثور میں ابن عباس سے، حافظ ابوسعید عبدالملک بن محمد خرگوشی کتاب شرف المصطفے میں اصمعی سے اور حافظ ابو نعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا " ہو محمد و علی علیہا السلام " ( یعنی یہ صادق محمد و علی علیہما السلام ہیں 12 مترجم)

شیخ سلمان حنفی ینابیع المودۃ باب 29 ص119 مطبوعہ اسلام بول میں موفق بن احمد خوارزمی۔ حافظ ابونعیم اصفہانی اور حموینی سے بروایت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ

" الصادقون فی هذه الايةمحمد صلی الله عليه و سلم و اهلبيته"

یعنی اس آیت میں صادقین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان کے اہل بیت طاہرین ہیں۔

اور شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی جو آپ کے اجلہ علماء میں سے ہیں فرائد السمطین میں، محمد بن یوسف گنجی کفایت الطالب باب 62 میں، نیز محدث شام اپنی تاریخ میں سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ:

"مع الصادقين ای مع علی ابن ابی طالب " (یعنی صادقین کے ساتھ یعنی علی ابن ابی طالب کے ساتھ12 مترجم)

(2) آیت نمبر34 سورہ نمبر39 ( زمر) میں فرماتا ہے۔

"وَالَّذِيجاءَبِالصِّدْقِ‏وَصَدَّقَبِهِأُولئِكَهُمُالْمُتَّقُونَ."

یعنی جو شخص سچی بات لے کر آیا ( پیغمبر(ص)) اور جس نے اس کی تصدیق کی( علی ابن ابی طالب)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430