خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات18%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 364543 / ڈاؤنلوڈ: 5374
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

صلح حديبيہ كے سياسي، مذہبى اور معاشرتى نتائج

بعض مسلمانوں كى رائے كے برعكس(۳۴) صلح حديبيہ اسلام كى عظيم الشان فتح وكامرانى تھى چنانچہ قرآن نے اسے ''فتح مبين'' كے عنوان(۳۵) سے ياد كرتے ہوئے فرمايا ہے :

( إنَّا فَتَحنَا لَكَ فَتحًا مُبينًا )

''اے نبى (ص) ہم نے تم كو كھلى فتح عطا كردي''_

اور رسول خدا (ص) نے اسے ''اعظم الفتوح'' يعنى عظیم ترين فتح سے تعبير فرمايا ہے(۳۶)

اس دوركے اسلامى معاشرے كيلئے اس فتح ونصرت كے بہت سے عمدہ اورسود مند نتائج برآمد ہوئے جن ميں سے ہم بعض كا ذكر ذيل ميں كريں گے_

۱_رسول خد ا(ص) كى پيش قدمى كے باعث ايك طرف تو صلح وامن كے امكانات روشن ہوگئے اور دوسرى طرف مكہ كے فريب خوردہ لوگوں پر يہ حقيقت عياں ہوگئي كہ رسول خدا (ص) كے دل ميں حرمت كے مہينوں ' شہر مكہ اور خانہ خدا كے لئے بہت زيادہ عقيدت و احترام پايا جاتا ہے_

۲_ صلح حديبيہ كى وجہ سے اسلام كوباقاعدہ طور پر تسليم كرليا گيا اور قريش كے دلوں پر اس كى طاقت و عظمت بيٹھ گئي، اس صلح كے باعث ہى جزيرہ نما ئے عرب ميں اسلام كے وقار كو بلندى حاصل ہوئي اور مسلمانوں كے اثر و رسوخ كے امكانات وسيع ہوگئے _

۳_مسلمانوں پر اس وقت تك جو پابندياں عائد تھيں وہ ختم ہوگئيں اور وہ ہر جگہ رفت و آمد كرسكتے تھے چنانچہ اس باہمى ربط و ضبط كا ہى نتيجہ تھا كہ لوگوں نے اسلام كے بارے ميں پہلے سے كہيں زيادہ واقفيت حاصل كى _

۲۲۱

۴_جزيرہ نمائے عرب ميں دين اسلام كى اشاعت كيلئے مناسب ميدان فراہم ہوگيا اب تك مختلف قبائل كے دلوں ميں اسلام كے بارے ميں غلط فہمى اور بدگمانى تھى ان افراد كو جب رسول خدا (ص) نے صلح پسندى كى دعوت عام دى تو وہ لوگ اسلام كے بارے ميں از سر نو غور وفكر كرنے مجبور ہوگئے اور اس كى وجہ سے وہ رسول خدا (ص) نيز مسلمانوں كے زيادہ نزديك آگئے_ صلح حديبيہ اور فتح مكہ كے درميان تقريباً دو سال كا ہى فاصلہ ہے اور يہ فتح اس حقيقت پردلالت كرتى ہے كہ اس كے باعث مسلمانوں كے اثر و رسوخ ميں روز بروز اضافہ ہوا_

۵_ اس فتح كے باعث ہى مسلمانوں پر ''فتح خيبر'' كى راہيں كھليں''خيبر'' درحقيقت يہود يوں كى وہ سرطانى غدود تھى جو اسلامى حكومت كيلئے بہت بڑا خطرہ بنى ہوئي تھى اسى طرح مركز شرك ، مكہ كى فتح كا باعث بنى اور سب سے اہم بات يہ تھى كہ عرب معاشرے ميں جو انقلاب رونما ہوا تھا اب وہ حجاز كى باہر پہنچنے لگا چنانچہ يہ صلح حديبيہ كا ہى فيض تھا كہ رسول خدا (ص) كو يہ موقع مل گيا كہ آنحضرت (ص) ايران ، روم اور حبشہ جيسے ممالك كے حكمرانوں كو متعدد خط روانہ كريں اور انہيں دعوت اسلام ديں_

۲۲۲

سوالات

۱_ سپاہ احزاب كى شكست كے كيا اسباب تھے ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۲_ رسول خدا (ص) نے كونسى جنگ كے بعد :''اَلْيَوْمَ نَغْزُوْهُمْ وَ لَا يَغْزُونَا'' كا جملہ ارشاد فرمايا؟_ مختصر الفاظ ميں اس كا جواب ديجئے_

۳_ رسول خدا (ص) نے ''بنى قريظہ'' كے عہد شكن لوگوں كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟

۴_ '' بنى قريظہ'' پر جو مسلمانوں كو فتح ونصرت حاصل ہوئي اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۵_ غزوہ ''بنى مصطلق'' كا واقعہ كب اور كس وجہ سے پيش آيا اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۶_ قبيلہ ''بنى مصطلق'' كے لوگ كس وجہ سے دين اسلام كى جانب مائل ہوئے ؟

۷_ رسول خدا (ص) كب اور كتنے مسلمانوں كے ہمراہ عمرہ كرنے كى خاطر مكہ كى جانب روانہ ہوئے ؟

۸_ وہ كون لوگ تھے جنہوں نے غزوہ حديبيہ ميں رسول خدا (ص) كے ساتھ شركت كرنے سے روگردانى كى ؟ اس سفر كے بارے ميں ان كى كيا رائے تھي؟

۹_ ''بيعت رضوان'' كس طرح اور كس مقصد كے تحت كى گئي تھى ؟

۱۰_ صلح حديبيہ كے كيا سودمند اور مفيد نتائج برآمد ہوئے؟

۲۲۳

حوالہ جات

۱_سورہ احزاب آيت ۹_

۲_اس كے سلسلے ميں رسول خدا (ص) نے فرمايا تھا :لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منْ بُيُوْت الْمُشْركيْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَهُ وَهْنٌ بقَتْل عَمْرو: _ وَ لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منَ الْمُسْلميْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَهُ عزُّ بقَتْل عَمْرو :_بحارالانوار ج ۲۰ _ ص ۲۰۵(مشركين كے گھروں ميں كوئي گھرايسا نہ بچا جس نے عمرو ابن عبدود كے قتل پر سوگ اور ذلت محسوس نہ كى ہو اور مسلمانوں كے گھروں ميں كوئي گھر ايسا نہ تھا جس نے عمركے قتل پر اظہار خوشى اور اس ميں اپنى عزت محسوس نہ كى ہو''_

۳_اس واقعہ كى تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۲۴_ ۳۲۶_

۴_الارشاد ص ۵۶ و بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۰۹_

۵_المغازى ج ۲ ص ۴۹۶_

۶_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۳۳_

۷_المغازى ج ۲ ص ۴۹۶_

۸_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۳۳_

۹_''سعد '' كے حاكم مقرر كئے جانے كى ممكن ہے يہ وجہ ہو كہ چونكہ قبيلہ اوس اور يہود بنى قريظہ ايك دوسرے كے حليف تھے اور جب مسلمانوں كے ہاتھوں يہودى گرفتار ہو كر آرہے تھے تو اوس قبيلہ كى ايك جماعت رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئي تھى اور آنحضرت (ص) سے اصرار كے ساتھ درخواست كى تھى كہ ان كى خاطر ''بنى قريظہ'' كو بالكل اسى طرح آزاد كرديا جائے جيسے كہ ''بنى قينقاع'' كو عبداللہ ابن ابى خزرجى كى درخواست پر رہا كيا گيا تھا _ رسول خدا (ص) نے اس خےال كے پيش نظر كہ وہ يہ محسوس نہ كريں كہ ان كے ساتھ امتيازى سلوك روا ركھاجارہا ہے ان كے سردار كو حاكم مقرر فرمايا _

۱۰_''ابوعزہ'' وہ مشرك تھا جو اشعار ميں رسول خدا (ص) اور دين اسلام كى ہجو كيا كرتا تھا جنگ بدر ميں وہ اسير ہوا _ اور اس قدر گريہ وزارى كى كہ رسول خدا (ص) نے اسے فديہ لئے بغير ہى اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ اسلام كے خلاف آئندہ كوئي اقدام نہ كرے گا ليكن اس نے اپنے عہد كا پاس نہ كيا اور جنگ احد ميں بھى شريك ہوا

۲۲۴

اور اشعار ميں رسول خدا(ص) (ص) كى ہجو بھى كى چنانچہ غزوہ ''حمراء الاسد '' ميں جب دوبارہ گرفتار ہو كر آيا اور رسول خدا (ص) سے معافى كى درخواست كى تو آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ : ''لَايُلْدَغُ الْمُوْمنُ منْ حُجْر: وَاحد: مَرَّتَيْن '' (مومن ايك سوراخ سے دوبار نہيں ڈساجاتا) اور اس كے قتل كئے جانے كا حكم صادر فرمايا_

۱۱_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۲۵۲ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۴۰_

۱۲_اعلام الورى ص ۷۹_

۱۳_تاريخ اسلام تاليف ڈاكٹر سيد جعفر شہيدى ص ۷۳ _ ۷۵_

۱۴_قرآن مجيد نے جنگ احزاب ميں ''بنى قريظہ '' كے كردار كو اس طرح بيان فرمايا ہے :( وَأَنزَلَ الَّذينَ ظَاهَرُوهُم من أَهل الكتَاب من صَيَاصيهم وَقَذَفَ فى قُلُوبهم الرُّعبَ فَريقًا تَقتُلُونَ وَتَأسرُونَ فَريقًا _وَأَورَثَكُم أَرضَهُم وَديَارَهُم وَأَموَالَهُم وَأَرضًا لَم تَطَئُوهَا وَكَانَ الله ُ عَلى كُلّ شَيئ: قَديرًا ) _ ''(احزاب ۲۶_ ۲۷) _''پھر اہل كتاب ميں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں كا ساتھ ديا تھا اللہ ان كے قلعوں سے انہيں اتار لايا اور ان كے دلوں ميں ايسارعب ڈال ديا كہ آج ان ميں سے ايك گروہ كو تم قتل كر رہے ہو اور دوسرے گروہ كو قيد كررہے ہو اور ان كے اموال كا وارث بنا ديا اور وہ علاقہ تمہيں ديا جس پر تم نے كبھى قدم بھى نہيں ركھا تھا اوراللہ ہر چيز پر قادر ہے''_

۱۵_الارشاد ص ۵۸_

۱۶_مناقب آل ابى طالب ج ۱ ص ۱۹ _۲۰_

۱۷_تفسير القمى ج ۲ ص ۱۸۹_ ۱۹۲_

۱۸_اعلام الورى ص ۱۰۲ ومجمع البيان ج ۷ ص ۳۵۲ _ ۳۵۳_

۱۹_بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۱۰_ ۲۱۲_

۲۰_الميزان ج ۱۶ ص ۳۰۲_

۲۱_التنبيہ و الاشراف مسعودى ص ۲۱۸_

۲۲_اس كى وجہ تسميہ شايد يہ تھى كہ اس سال صلح حديبيہ كے فيض سے مسلمين اور غير مسلمين كے درميان ديگر برسوں كى نسبت تعلقات زيادہ خوشگوار رہے اور مختلف افراد ايك دوسرے كے ساتھ بالخصوص اسلام اور رسول

۲۲۵

خدا (ص) سے زيادہ مانوس ہوئے_مترجم_

۲۳_ان غزوات اور سرايا سے متعلق مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو : تاريخ پيامبر(ص) تاليف آيتى مرحوم ص ۳۹۰ _۴۲۵_

۲۴_واقدى اور ابن سعد نے لكھا ہے كہ يہ غزوہ ماہ شعبان سنہ ۵ ہجرى ميں پيش آيا ملاحظہ ہو المغازى ج ۱ ص ۴۰۴ واطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۳_

۲۵_فريد'' نامى مقام كے نواح ميں ساحل كى جانب ايك علاقہ ہے معجم البلدان ج ۵ ص ۱۱۸_

۲۶_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۰۷_ ۳۰۸_

۲۷_المغازى ج ۲ ص ۵۷۲ _ ۵۷۴ ، الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۹۵_

۲۸_المغازى ج ۲ ص ۵۷۴_ ۵۷۵_

۲۹_سورہ فتح آيت ۱۲_

۳۰_يہ جگہ مكہ سے تقريباً ۲۰ كيلومٹر دور واقع ہے اور چونكہ يہاں اس نام كا پانى كا كنواں تھايا اس نام كے درخت كثرت سے تھے اس لئے يہ جگہ اس نام سے مشہور ہوئي (ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج ۲ ص ۲۲۹) آج يہ مقام مكہ كے بالكل كنارے پر واقع ہے_

۳۱_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۲۵ _۳۲۹_

۳۲_ سورہ فتح آيت ۱۸_

۳۳_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۳۰ _ ۳۳۴_

۳۴_ان لوگوں كا كہنا تھا كہ يہ كيسى فتح ہے ہميں نہ تو زيارت خانہ كعبہ ميسر آئي اور نہ ہى ہم منا ميں قربانى كرسكے : نور الثقلين ج ۵ ص ۴۸ بلكہ بعض تو آپ(ص) كى نبوت كے متعلق بھى شكوك و شبہات كا شكار ہوگئے_

۳۵_سورہ فتح آيت ۱_

۳۶_تفسير نور الثقلين ج ۵ ص ۴۸_

۲۲۶

سبق ۱۳:

جنگ موتہ

۲۲۷

دنيا كے بڑے بڑے حكمرانوں كو دعوت اسلام

صلح ''حديبيہ '' كے بعد رسول خد ا(ص) كو قريش كى جانب سے اطمينان خاطر ہوگيا _ اب وقت آگيا تھا كہ آنحضرت (ص) تبليغ دينكے محدودے كو سرزمين حجاز سے باہر تك پھيلائيں چنانچہ آپ (ص) نے دنيا كے ارباب اقتدار كو دين اسلام كى دعوت دينے كا عزم كرليا اور ماہ محرم سنہ ۷ ہجرى ميں چھ سفير رسول خدا (ص) كے چھ خط لے كر ايران، روم ، حبشہ ، مصر ، اسكندريہ اوريمامہ كى جانب روانہ ہوئے_(۱)

رسول خد ا(ص) كے خطوط جب مذكورہ بالا ممالك كے بادشاہوں تك پہنچے تو ہر ايك سے مختلف رد عمل ظاہر ہوا ، حبشہ كے بادشاہ نجاشى اور روم كے فرمانروا ''ہرقل'' نے آنحضرت (ص) كے رسول خدا (ص) ہونے كى گواہى دى اور كہا كہ انجيل ميں ہميں آپ (ص) كى آمد كے بارے ميں خوشخبرى دى جا چكى ہے اوريہ آرزو كى كہ آپ (ص) كى ركاب ميں رہنے كا شرف حاصل كريں_(۲)

مصر اور اسكندريہ كا فرمانروا ''مقوقس''اگرچہ دين اسلام سے تو مشرف نہ ہوسكا ليكن رسول خد ا(ص) كے خط كا جواب اس نے بہت نرم لہجے ميں ديا اور ساتھ ہى چند تحائف بھى روانہ كئے انہى ميں حضرت ''ماريہ قبطيہ'' بھى شامل تھيں جن كے بطن سے رسول خدا (ص) كے فرزند حضرت ابراہيم (ع) كى ولادت ہوئي_(۳)

''تخوم شام'' كے حاكم ''حارث بن ابى شَمر'' ،يمامہ كے فرمانروا ''سليط بن عمرو'' اور

۲۲۸

بادشاہ ايران ''خسرو پرويز'' نے اس بنا پر كہ ان كے دلوں ميں حكومت كى چاہ تھى رسول خدا (ص) كے خط كا جواب نفى ميں ديا_

بادشاہ ايران نے رسول خد ا(ص) كے نامہ مبارك كو چاك كرنے كے علاوہ يمن كے فرمانروا كو جو اس كے تابع تھا ،اس كام پرمامور كيا كہ وہ افراد كو حجاز بھيجے تاكہ رسول خدا (ص) كے بارے ميں تحقيقات كريں _(۴)

حجاز سے يہوديوں كے نفوذ كا خاتمہ

رسول خد ا(ص) جب صلح ''حديبيہ'' كے فيض و بركت سے جنوبى علاقے (مكہ) كى طرف سے مطمئن ہوگئے تو آپ (ص) نے فيصلہ كيا كہ وہ يہودى جو مدينہ كے شمال ميں آباد ہيں ان كا معاملہ بھى بنٹا ديں كيونكہ ان كا وجود اسلامى حكومت كيلئے خطرہ ہونے كے علاوہ شمالى حدود ميں اسلام كى توسيع و تبليغ ميں بھى مانع تھا اس لئے كہ جب رسول خدا (ص) كے قطعى لہجے اور عزم راسخ كى بنياد پر بڑى طاقتوں نے يا تو دين اسلام قبول كيا تھا ياپھر انہيں حكومت كى چاہ نے شديد رد عمل كيلئے مجبوركيا تھا صورت ضرورى تھا كہ اسلامى حكومت كا اندرونى حلقہ ان خيانت كار عوامل اور ان غدار اقليتوں سے پاك و صاف رہے جو دشمن كے ساتھ سازباز كرنے والى تھيںاور ان كے لئے پانچويں ستوں كا كام دے رہى تھيں تاكہ جنگ ''احد'' اور ''احزاب'' جيسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اور ايسا ميدان ہموار ہوجائے كہ بالفرض باہر سے كسى عسكرى و اقتصادى خطرے كا احتمال ہو تو اس كا اطمينان سے سد باب كياجاسكے_

۲۲۹

غزوہ خيبر

خيبر(۵) يہوديوں كا مضبوط ترين عسكرى مركز تھا كہ جس ميں دس ہزار سے زيادہ جنگجو(۶) سپاہى مقيم تھے ، رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ سب سے پہلے اس جگہ كو ان كے وجود سے پاك كياجائے(۷) چنانچہ ماہ محرم سنہ ۷ ہجرى ميں سولہ سو (۱۶۰۰)جنگ آزما سپاہيوں كو ساتھ لے كر آپ (ص) مدينہ سے خيبر كى جانب روانہ ہوئے اور راتوں رات ان كے قلعوں كا محاصرہ كرليا ، اس لشكر كے علمدار حضرت على (ع) تھے_

قلعہ والوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عورتوں اور بچوں كو ايك اور ساز وسامان و خوراك كو دوسرے مطمئن قلعے ميں محفوظ كرديں ،اس اقدام كے بعد انہوں نے ہر قلعے كے تير اندازوں كو حكم ديا كہ مسلم سپاہ كو اندر داخل ہونے سے روكيں اور ضرورت پڑنے پر قلعے كے باہر موجود دشمن سے بھى جنگ كريں _

سپاہ اسلام نے دشمن كے سات ميں سے پانچ قلعے فتح كرلئے اس جنگ ميں تقريباً پچاس(۵۰) مجاہدين اسلام زخمى ہوئے اور ايك كو شہادت نصيب ہوئي_

باقى دو قلعوں كو فتح كرنے كيلئے رسول خدا (ص) نے پہلے پرچم جناب ابوبكر كو ديا مگر انہيں اس مقصد ميں كاميابى نصيب نہ ہوئي اگلے دن حضرت عمر كو سپاہ كى قيادت دى گئي ليكن وہ بھى كامياب نہ ہوسكے_

تيسرے روز حضرت على (ع) كو يہ قلعہ فتح كرنے پر ماموركيا گيا، آپ (ع) نے پرچم سنبھالا اور دشمن پر حملہ كرنے كيلئے روانہ ہوئے _

ادھر سے يہوديوں كے معروف دلير شہ زور '' مرحب '' بھى زرہ و فولاد ميں غرق قلعے سے نكل كر باہر آيا اور پھردونوں شہ زوروں كے درميان نبرد آزمائي شروع ہوئي دونوں ايك دوسرے پر وار كرتے رہے كہاچانك حضرت (ع) كى شمشير براں مرحب كے فرق پر پڑى جس

۲۳۰

كے باعث اس كے خود اور سر كى ہڈى كے دو ٹكڑے ہوگئے ، مرحب كے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديكھا تو ان كے حوصلے پست ہو گئے اور وہ فرار كركے قلعوں ميں پناہ گزيں ہوئے جہاں انہوں نے اپنے اوپر اس كا دروازہ بھى بند كرليا ليكن حضرت على (ع) نے اپنى روحانى طاقت اور قدرت خدا كى مدد سے قلعے كے اس دروازے كو جسے كھولنے اور بند كرنے پر بيس(۸) آدمى مقرر تھے اكھاڑليا اور قلعہ كے باہر بنى ہوئي خندق پر ركھ ديا تاكہ سپاہى اس پر سے گزر كر قلعے ميںداخل ہوسكيں _(۹)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے دشمن كے سب سے زيادہ محكم ومضبوط قلعہ كو فتح كركے فتنہ خيبر كا خاتمہ كرديا اور يہوديوں نے اپنى شكست تسليم كرلي، اس جنگ ميں پندرہ مسلمان شہيد اور ترانوے(۹۳) يہودى تہ تيغ ہوئے _(۱۰)

يہوديوں پر فتح پانے كے بعد اگر رسول خد ا(ص) چاہتے تو تمام خيانت كاروں كو سزائے موت دے سكتے تھے ، انہيں شہر بدر اور ان كے تمام مال كو ضبط كيا جاسكتا تھا مگر آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں نہايت درگذراور فراخ دلى سے كام ليا چنانچہ انہى كى تجويز پر انہيں يہ اجازت دے دى گئي كہ اگر چاہيں تو اپنے ہى وطن ميں رہيں اور اپنے دينى احكام كو پورى آزادى كے ساتھ انجام ديں بشرطيكہ ہر سال اپنى آمدنى كا نصف حصہ بطور جزيہ اسلامى حكومت كو ادا كريں اور رسول خدا(ص) جب بھى مصلحت سمجھيں گے انہيں خيبر سے نكال ديں گے_(۱۱)

غزوہ خيبر ميں ''حُيَّى بن اخطب'' كى بيٹى ''صفيہ'' دوران جنگ مسلمانوں كى قيد ميں آئي تھيں رسول خدا(ص) نے''غزوہ خيبر'' سے فراغت پانے كے بعد پہلے تو انہيں آزاد كيا اورپھر اس سے نكاح كرليا _(۱۲) اسى عرصے ميں يہ اطلاع بھى ملى كہ حضرت''جعفر بن ابى

۲۳۱

طالب'' حبشہ سے واپس آگئے ہيں جسے سن كر آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ :''ان دو خبروں ميں سے كس پر اپنى مسرت كا اظہار كروں ، جعفر كى آمد پر يا خيبر كے فتح ہونے پر _(۱۳)

فدك

خيبر كے يہوديوں پر فتح پانے كے بعد مسلمانوں كا سياسى ، اقتصادى اور عسكرى مقام ومرتبہ بہت بلند ہوگيا اس علاقے ميں آباد يہوديوں پر كارى ضرب لگى اور ان پر مسلمانوں كا رعب بيٹھ گيا _

رسول خد ا(ص) كو جب خيبر كے يہوديوں كى طرف سے يكسوئي ہوئي تو آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كو وفد كے ہمراہ ''فَدَك''(۱۴) كے يہوديوں كے پاس روانہ كيا اور فرمايا كہ يا تو وہ دين اسلام قبول كريں يا جزيہ ديں يا پھر جنگ كےلئے تيار ہوجائيں_

فدك كے يہودى اپنى آنكھوں سے خيبر كے يہوديوں كى شكست ديكھ چكے تھے اور انہيں يہ بھى معلوم تھا كہ انہوں نے رسول خد ا(ص) كے ساتھ مصالحت كرلى ہے اسى لئے انہوں نے صلح كو قتل اور قيد و بند پر ترجيح دى اور اس بات كيلئے آمادہ ہوگئے كہ ان كے ساتھ بھى وہى سلوك كيا جائے جو خيبر كے يہوديوں كے ساتھ روا ركھا گيا ہے ، رسول خدا (ص) نے ان كى درخواست كو قبول كرليا(۱۵) چونكہ فدك كسى جنگ و خون ريزى كے بغير فتح ہوگيا تھا اسى لئے اسے خالص رسول خدا(ص) كى ذاتى ملكيت ميںشامل كرليا گيا اس جگہ كے متعلق ايسى بہت سى روايات موجود ہيں جن سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ خداوند تعالى كے حكم سے رسول خدا(ص) نے فدك اپنى دختر نيك اختر حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كو عطا كرديا_(۱۶)

۲۳۲

غزوہ وادى القري

رسول خدا (ص) نے يہود كى ''خيبر'' اور ''فدك'' جيسى پناہ گاہوں كو نيست ونابود كرنے كے بعد ''وادى القري'' كى تسخير كا ارادہ كيا اور يہوديوں كے قلعے كا محاصرہ كرليا ، انہوںنے جب يہ ديكھا كہ قلعہ بند رہنے سے كوئي فائدہ نہيں تو انہوں نے بھى اپنى شكست تسليم كرلى ، رسول خدا (ص) نے ان كے ساتھ بھى وہى معاہدہ كيا جو اس سے قبل خيبر كے يہوديوں كے ساتھ كيا جاچكاتھا(۱۷) _

''تيماء يہود'' كے نام سے مشہور(۱۸) علاقہ '' تيمائ''(۱۹) كے يہودى باشندوں نے جو رسول خدا (ص) كے سخت دشمن تھے ، جب دوسرے بھائيوں كى يہ حالت ديكھى تو ان سے درس عبرت حاصل كيا اور اس سے قبل كہ رسول خدا(ص) انكى گوشمالى كے لئے ان كى جانب رخ كريں وہ خود ہى آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور يہ وعدہ كركے كہ ''جزيہ'' ادا كريںگے رسول خدا (ص) سے معاہدہ صلح كرليا(۲۰) اور اس طرح حجاز ميں جتنے بھى يہودى آباد تھے انہوں نے اپنى شكست قبول كرلى اور يہ تسليم كرليا كہ اس علاقے كى اصل طاقت اسلام ہى ہے_

مكہ كى جانب روانگي

جب حجاز ميں اندرونى طور پر امن بحال ہوگيا اور دشمنوں كو غير مسلح كركے شورشوں اور سازشوں كا قلع قمع كرديا گيا نيز صلح ''حديبيہ'' كو ايك سال گزر گياتو رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ اصحاب كے ہمراہ مكہ تشريف لے جائيں اور زيارت كعبہ سے مشرف ہوں چنانچہ يكم ذى القعدہ سنہ ۷ ہجرى كو آنحضرت (ص) دو ہزار (۲۰۰۰) مسلم افراد كے ہمراہ عمرہ كرنے كى نيت

۲۳۳

سے مكہ كى جانب روانہ ہوئے_

وہ قافلہ جو عمرہ كرنے كى نيت سے روانہ ہوا تھا اس كے آگے آگے (۱۰۰) مسلح گھڑ سوار چل رہے تھے تاكہ دشمن كى طرف سے كوئي خطرہ ہو تو وہ ان مسافرين كا دفاع كرسكيں جن كے پاس اتنا ہى اسلحہ تھا جسے عام مسافر وقت سفر ان دنوں ركھا كرتے تھے _

جس وقت سپاہ اسلام كا مسلح ہر اول دستہ ''مرالظہران''(۲۱) نامى مقام پر پہنچا تو قريش كے سرداروں كو مسافرين كى آمد كا علم ہو اچنانچہ انہوں نے يہ اعتراض كيا كہ اسلحہ كے ساتھ مكہ ميں داخل ہونا ''صلح حديبيہ'' كے معاہدے كى خلاف ورزى ہے_

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ ہم اسلحہ ساتھ لے كر حرم ميں نہيںجائيں گے، مشركين نے مكہ خالى كرديا اور اطراف كے پہاڑوں پر چڑھ گئے تاكہ رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول(ص) كى تبليغ سے محفوظ رہتے ہوئے اوران كى حركات نيز افعال كا مشاہدہ كرسكيں_

رسول اكرم (ص) اپنے دو ہزار صحابيوں سميت خاص جاہ وجلال كے ساتھ مكہ ميں تشريف فرماہوئے ، جس وقت آپ (ص) خانہ كعبہ كى جانب تشريف لے جارہے تھے تو فضا''لبَبَّيكَ اللَّهُمَّ لَبَّيكَ'' كے نعروں سے ايسى گونج رہى تھى كہ مشركين كے دلوں پرغير معمولى رعب وخوف طارى تھا _

ناقہ رسول اكرم(ص) كى مہار حضرت'' عبداللہ ابن رواحہ'' پكڑكرچل رہے تھے وہ نہايت ہى فخريہ انداز ميں رجزيہ بيت پڑھ رہے تھے_

خَلُّوا بَني الكُفَّارَ عَن سَبيله

خَلُّوا فَكُلُّ الخَير في رَسُوله(۲۲)

''اے كفار كى اولاد رسول خد ا(ص) كےلئے راستہ صاف كردو انہيں آگے آنے كيلئے راستہ دو كيونكہ آنحضرت (ص) ہر خير كا منبع اور ہر نيكى كا سرچشمہ ہيں ''_

۲۳۴

رسول خدا (ص) پر اصحاب رسول (ص) پروانہ وار نثار تھے چنانچہ آپ(ص) ان كے حلقے ميں خاص رعب ودبدبے كے ساتھ داخل مكہ ہوئے اور طواف كرنے كيلئے ''مسجدالحرام'' ميں تشريف لے گئے_

اس سياسى عبادى سفر سے ممكن فائدہ اٹھانے كى خاطر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ زائرين زيادہ سے زيادہ اپنى دينى قوت كا مظاہرہ كريں(۲۳) نيز جس وقت طواف كريں تو حركت تيزى كے ساتھ كى جائے ، احرام كے كپڑے كو اپنے جسم كے ساتھ اس طرح لپيٹيں كہ قوى و تند مند بازو لوگوں كو نظر آئيں تاكہ ديكھنے والوں پر ان كى ہيبت طارى ہو _(۲۴)

ظہر كے وقت حضرت ''بلال'' كو حكم ديا گيا كہ وہ خانہ كعبہ كى چھت پر جائيں اور وہاں سے اذان ديں تاكہ خداوند تعالى كى وحدانيت اور رسول خد ا(ص) كى عظمت مجسم كا اہل مكہ عينى مشاہدہ كرسكيں اور جو لوگ فرار كركے پہاڑوں پر چلے گئے ہيں وہ يہ بات اچھى طرح جان ليں كہ اب وقت فرار گزر چكا ہے واپس آجائو ، نماز اور فلاح كى جانب آنے ميں جلدى كرو_

''حَيَّ عَلَى الصَّلوة ، حَيَّ عَلَى الفَلَاَح''

حضرت بلال كى آواز نے قريش كے سرداروں پر ہر كچل دينے والى ضرب اور ہر شمشير براں سے زيادہ اثر كيا اور انتہائي طيش وغضب ميں آكر ايك دوسرے سے كہنے لگے كہ ''خدا كا شكر ہے كہ ہمارے باپ دادا اس غلام كى آواز سننے سے پہلے ہى اس دنيا سے كو چ كرگئے اور انہيں يہ دن ديكھنا نصيب نہ ہوا''_

اس طرح ''عمرہ القضا'' كاميابى اور كامرانى كے ساتھ ادا ہوا ، جس كے ذريعے خانہ كعبہ كى زيارت بھى ہوگئي اور عبادت بھى اس كے ساتھ ہى كفر كو اسلام كى طاقت كا اندازہ

۲۳۵

ہوا اور آئندہ سال فتح مكہ كا ميدان بھى ہموار ہوگيا چنانچہ اس كے بہت سے سياسى ، عسكرى اورثقافتى اثرات نہ صرف اہل مكہ و قبائل اطراف بلكہ خود مسلمانوں كے قلوب پر نقش ہوئے_

يہ سياسى عبادى تحريك قريش كے سرداروں كے دلوں پر ايسى شقاق و گراں گزرى كہ انہوں نے تين دن بعد ہى رسول خد ا(ص) كى خدمت ميں اپنا نمائندہ روانہ كيا اور كہا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے مكہ سے چلے جائيں_

اس سفر ميں رسول خدا (ص) نے مكہ كى ''ميمونہ'' نامى خاتون سے رشتہ ازدواج قائم كيا تاكہ قرش كا تعلق آپ (ص) كے ساتھ مستحكم اور دشمنى وعداوت كا جذبہ كم ہوجائے كيونكہ اس كى قريش كے سرداروں سے قرابت دارى تھى(۲۵) يہى نہيں بلكہ رسول خدا (ص) نے يہ بھى چاہاكہ شادى كى رسومات مكہ ميں ادا كردى جائيں اور آپ (ص) قريش كو دعوت وليمہ ميں مدعو فرمائيں اگريہ كام انجام پذير ہوجاتا تو اہل مكہ كو اپنى طرف مائل كرنے ميںمؤثر ہوتا مگر افسوس اہل مكہ نے اس تجويز كوقبول نہ كيا چنانچہ رسول خدا (ص) نے يہ رسم مكہ سے واپس آتے وقت ''سرف''(۲۶) نامى مقام پر پورى كي_(۲۷)

جنگ ''موتہ''

مدينہ كے شمال ميں اور مدينہ سے شام كى طرف پرنے والے تجارتى رستے ميں آبادخيبر' فدك ' وادى القرى اور تيماء جيسے يہود يوں كے مراكز اور اہم مقامات كا قلع قمع ہونے كے ساتھ ہى اسلام كے سياسى اورمعنوى نفوذكا ميدان شمالى سرحدوں كى جانب مزيد ہموار ہوگيا_

۲۳۶

اس علاقے كى اولاً اہميت اس وجہ سے تھى كہ وہ عظیم ترين تمدن جو اس زمانے ميں سياسى 'عسكرى ' اجتماعى اور ثقافتى اعتبار سے انسانى معاشرے كا اعلى و نماياں ترين تمدن شمار كيا جاتا تھا يہيں پرورش پارہا تھا دوسرى وجہ اس كا سرچشمہ آسمانى آئين و قانون تھا يعنى وہ آئين و قانون جس كى دين اسلام سے بيشتر واقفيت و ہم آہنگى ہونے كے علاوہ اس كے اور اسلام كے درميان بہت سى مشترك اقدار تھيں او ريہ مقام ديگر مقامات كى نسبت بہتر طور پر اور زيادہ جلدى حالات كو درك كرسكتا تھا اس كے علاوہ جغرافيائي اعتبار سے بھى يہ جگہ مدينہ سے نزديك تر تھى اور شايد يہى وجہ تھى كہ رسول خدا (ص) نے فتح مكہ سے قبل روم كى جانب توجہ فرمائي_

رسول خدا (ص) نے حضرت ''حارث بن عمير'' كے ہاتھ اپنا خط ''بصرہ'' كے بادشاہ كے نام جو ''قيصر'' كا دست پروردہ تھا روانہ كيا جس وقت رسول خدا (ص) كا يہ ايلچى ''موتہ''(۲۸) نامى گائوں پہنچا تو شرحبيل غسانى نے اسے قتل كرديا يہ واقعہ رسول خدا (ص) پر انتہائي شاق گزرا اور آنحضرت (ص) نے فوراً يہ فيصلہ كرليا كہ اس كا سد باب كياجائے چنانچہ آپ (ص) نے ماہ جمادى الاول سنہ ۸ ہجرى ميں تين ہزار سپاہيوں پر مشتمل لشكر ''موتہ'' كى جانب روانہ كرديا_

اس وقت تك مدينہ سے باہر جتنے بھى لشكر روانہ كئے گئے ان ميں سے سب سے بڑا لشكر تھا ،رسول خدا (ص) اسے رخصت كرنے كيلئے مسلمانوں اور سپاہيوں كے قرابت داروں كے ہمراہ مدينہ كے باہر تك تشريف لائے حضرت'' زيد بن حارثہ'' كوسپہ سالار نيز حضرت ''جعفر ابن ابى طالب '' و حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' كو حضرت زيد كا پہلا اور دوسرا نائب مقرر كرنے(۲۹) كے بعد آپ (ص) نے اس كى وضاحت فرمائي كہ جس معركہ كو سر كرنے كيلئے جارہے ہيں اس كى كيا اہميت ہے اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں دعائے

۲۳۷

خير فرمائي_

لشكر اسلام شام كى جانب روانہ ہوا ،''معان''(۳۰) نامى جگہ پر اطلاع ملى كہ قيصر كے دو لاكھ عرب اور رومى سپاہى ''مآب'' نامى مقام پر جمع ہوگئے ہيں_

يہ خبر سننے كے بعد مسلمانوں ميں تردد پيدا ہوگيا اور يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ واپس چلے جائيں يا وہيں مقيم رہيں اور پورے واقعے كى اطلاع رسول خدا (ص) كو پہنچائيں يا پھر اسى مختصر سپاہ كے ساتھ اس فرض كو انجام ديں جس پر انہيں مامور كيا گيا ہے اور سپاہ روم كے ساتھ جنگ كريں_

اس اثناء ميں حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' اپنى جگہ سے اٹھے اور لشكر كے سامنے تقرير كرتے ہوئے انہيں يہ ترغيب دلائي كہ اپنے فرض كو ادا كريں اور سپاہ روم كے ساتھ نبردآزماہوں ان كى تقرير نے سپاہ كے اندر ايسا جوش و ولولہ پيدا كيا كہ سب نے متفقہ طور پر فيصلہ كيا كہ سپاہ روم كے ساتھ جنگ كى جائے چنانچہ اس كے بعد وہ لشكر موتہ ميں ايك دوسرے كے مقابل تھے_

حضرت زيد نے پرچم سنبھالا اور جان پر كھيل كر وہ دوسرے مجاہدين كے ساتھ شہادت كے شوق ميں بجلى كى طرح كوندتے ہوئے سپاہ دشمن پر ٹوٹ پڑے دشمن تجربہ كا راور جنگ آموزدہ تھا اس كا لشكر نيزوں 'تلواروں اور تيز دھار تيروں سے آراستہ تھا اور اس طرف كلمہ توحيد ' جسے بلند وبالا كرنے كيلئے سپاہ اسلام نے ہر خطرہ اپنى جان پر مول ليا تھا اورسپاہ روم پر يہ ثابت كرديا كہ وہ اپنے دين و آئين اور مقدس مقصد كو فروغ دينے كى خاطر جان تك دينے كيلئے دريغ نہيں كرتے_

دشمن كى توجہ سپاہ اسلام كے عملدار كى جانب مبذول ہوئي اس نے اسے اپنے نيزوں

۲۳۸

كے حلقے ميں لے كر اسے زمين پر گراديا، حضرت ''جعفر(ع) ابن ابى طالب(ع) '' نے فوراً ہى پرچم كو اپنے ہاتھ ميں لے كرلہر ايا اور دشمن پر حملہ كرديا ، جس وقت انہوں نے خود كو دشمن كے نرغے ميں پايا اور يہ يقين ہوگيا كہ شہادت قطعى ہے تو اس خيال سے كہ ان كا گھوڑا دشمن كے ہاتھ نہ لگے اس سے اتر گئے اور پيدل جنگ كرنے لگے يہاں تك كہ ان كے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے آخر كار تقريباً اسى(۸۰) كارى زخم كھا كر شہادت سے سرفراز ہوئے_

حضرت جعفر (ع) كى شہادت كے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ نے پرچم اسلام سنبھالا اور سپاہ روم كے قلب پر حملہ كرديا وہ بھى دليرانہ جنگ كرتے كرتے شہادت سے ہمكنار ہوئے_

''خالد بن وليد حال ہى میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے وہ بڑے ہى چالاك اور جنگجو انسان تھے ، مجاہدوں كى تجويز اور رائے پر اسے سپہ سالار مقرر كرديا گيا جب انہيں جنگ كرنے ميں كوئي فائدہ نظر نہ آيا تو انہوں نے اب جنگى حربہ تبديل كيا(۳۱) جس كى وجہ سے روميوں ميں تردد پيدا ہوگيا اور اس نے اپنى فوج كو يہ سوچ كر پيچھے ہٹا ديا كہ آيا جنگ كى جائے يا نہيں ؟ _ اپنى اس حكمت عملى سے انہوں نے دشمن كے دولاكھ سپاہيوں سے سپاہ اسلام كو نجات دلائي اور واپس مدينہ آگئے_(۳۲)

ابن ہشام نے جنگ ميں شہداء كى تعدادبارہ(۳۳) اور واقدى نے آٹھ آدمى بيان كى ہے(۳۴) _

جنگ موتہ كے نتائج

جنگ موتہ گرچہ بظاہر مسلمانوں كى شكست اور سپہ سالاروں كى شہادت پر تمام ہوئي اور

۲۳۹

قريش نے اسے اپنى دانست ميں مسلمانوں كى ناتوانى سے تعبير كى _اس لئے اس جنگ كے بعد وہ ايسے دلير ہوگئے كہ انہوں نے قبيلہ ''بنى بكر'' كو اس وجہ سے مدد دينى شروع كردى كہ اس كى ان لوگوں كے ساتھ سازو باز ہوچكى تھى جس كے پس پردہ يہ سازش تھيكہ وہ ان كے اور قبيلہ ''خزاعہ'' كے درميان اس بناپر كشت وكشتار كا بازار گرم كردايں كہ اس قبيلے كا رسول خد ا(ص) كے ساتھ دوستى كا عہد وپيمان ہے چنانچہ انہوں نے قبيلہ ''خزاعہ'' كے چند افراد كو قتل كرديا اور صلحنامہ حديبيہ سے بھى روگردان ہوگئے نيز رسول خدا(ص) كے خلاف اعلان جنگ كرديا(۳۵) ليكن جب ہم اس جنگ كى اہميت كے بارے ميں غورو فكر كريں گے تو اس نتيجے پر پہنچيں گے يہ جنگ سياسى طور پر اور دين اسلام كى اشاعت كيلئے نہايت سودمند ثابت ہوئي كيونكہ اس وقت ايران وروم جيسى دو بڑى طاقتوں كا اس عہد كى دنيا پر غلبہ تھا ان كے علاوہ جو بھى دوسرى حكومتيں تھيں وہ سب كسى نہ كسى طرح سے انہى كى دست پروردہ تھيں اور ان ميں اتنى تاب ومجال تك نہ تھى كہ يہ سوچ سكيں كہ ايسا دن بھى آسكتا ہے كہ وہ ان كے مقابلے پرآ سكيں گے ان دونوں حكومتوں ميں بھى روميوں كو ايرانيوں پر اس وجہ سے برترى حاصل تھى كہ انہوں نے ايران سے جنگ ميں مسلسل كئي فتوحات حاصل كى تھيں_

جزيرہ نمائے عرب كو ايران نے مشرقى جانب سے اورروم نے مغربى طرف سے اس طرح اپنے حلقے اور نرغے ميں لے ركھا تھا جيسے انگوٹھى كے درميان نگينہ اور ان دونوں ہى بڑى طاقتوں كے اس خطہ ارض سے مفادات وابستہ تھے اورانہوںنے يہاں اپنى نو آباديات بھى قائم كر ركھى تھيں(۳۶) _

جنگ موتہ نے ان دونوں بڑى طاقتوں بالخصوص روم كو يہ بات سمجھادى كہ اس كے اقتدار كا زمانہ اب ختم ہوا چاہتاہے اور دنيا ميں تيسرى طاقت ''اسلام'' كے نام سے پورے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430