خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات18%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 364507 / ڈاؤنلوڈ: 5374
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

( کذّبوا بآیاتنافاقصص القصص لعلهم یتفکّرون ) ( ۱ )

''اور انھیں اس شخص کی خبرسنا ئیے جسکو ہم نے اپنی آیتیں عطا کیں پھر وہ ان سے بالکل الگ ہوگیا اور شیطان نے اسکا پیچھاپکڑلیا تو وہ گمراہوں میں ہو گیااور ہم چاہتے تو اسے انھیں آیتوں کے سبب بلند کردیتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا اور اس نے خواہشات کی پیروی اختیار کر لی تو اب اسکی مثال اس کتّے جیسی ہے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے یہ اس قوم کی مثال ہے جس نے ہماری آیات کی تکذیب کی،تواب آپ ان قصوں کو بیان کریں کہ شاید یہ غور وفکر کر نے لگیں ''

ان آیات کی تفسیر یہ ہے کہ '' بلعم بن باعور ا'' بنی اسرائیل کا ایک بہت ہی بڑا اور مشہور عالم تھا اسکو خداوندعالم نے اپنی روشن آیات نیز علم ومعرفت سے اس حد تک نوازاتھا کہ اسے مستجاب الدعوات قرار دے دیا تھا اور جناب موسیٰ بعض معاملات میں اس سے مدد لیتے تھے۔۔۔مگر وہ اپنی ہویٰ وہوس کا اسیر ہو گیا۔

چنا نچہ ایسے افراد جب اپنی خواہشات کا شکار ہو تے ہیں تو عام طور سے اسکے دوہی اسباب ہو تے ہیں یا تو وہ اپنے علم کو ذاتی فا ئدہ کیلئے استعمال کر نے لگتے ہیں مثلاً علم کے ذریعہ شہرت وعزت یا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور لوگوںکے درمیان علم کے ذریعہ اپنی شخصیت کا اظہار کرتے ہیں یا یہ کہ دولت کی لا لچ میں اپنے علم سے اہل حکومت اورطاغوت کی خدمت شروع کردیتے ہیں اور علم کے بدلہ مال دنیا کماتے ہیںاس طرح دونوں صورتوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ علم ہویٰ وہوس اور خواہشات کا شکا ر ہو جا تا ہے ۔

کیونکہ کسی بھی عالم کی اہمیت کا معیار در اصل اسکے علم کی کثرت نہیں ہے ،جیسے اکثر کتب

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت۱۷۵۔۱۷۶۔

۶۱

خانوں میں اتنی زیادہ کتابیں ہوتی ہیں کہ علماء کی ایک کثیر تعداد مل کربھی انہیں نہ اٹھا سکے مگر اسکی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ علم کی قدروقیمت در اصل صاحب علم اور اس علم کے مصرف اور محل استعمال کو دیکھ کر لگا ئی جا تی ہے ۔ اگر عالم انبیاء کے دین اوراخلاق سے مزین ہو اور اس کاعلم لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی نیز انکی خدمت میں کام آئے تو یہ اس عالم کی قدروقیمت کاسبب ہے اور اگر خدا نخواستہ ایسا کچھ نہیں ہے تو پھراس عالم کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

مو لا ئے کا ئنات نے خطبہ شقشقیہ میں عالم کی منزلت اور اسکی ذمہ دار یاں ان الفاظ میں بیان فرمائی ہیں:

(وما أخذ ﷲعلی العلماء أن لایقارّوا علی کظة ظالم ولاسغب مظلوم )

'' ﷲکا اہل علم سے یہ عہدہے کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گر سنگی پر چین سے نہ بیٹھنا۔۔۔''

لہٰذااگرعالم خدا سے کئے ہوئے عہد کو پوار کر نے کیلئے اٹھ کھڑا ہو تو اسکی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ میںاضافہ ہوتاہے ۔

بلعم بن باعور(اگر ان آیات کی تفسیربیان کرنے والی روایات کے مطابق بلعم باعوراہی مراد ہو)ان لوگو ں میں سے تھا جنھوں نے اپنے علم کی لگام خواہشات کے سپردکر دی اور انھیں کے پیچھے چل پڑے اب قرآن مجید کے الفا ظ میں اس شخص کا انجام ملاحظہ فرما ئیے :

اگران روایات کو تسلیم کر لیا جائے تو آیۂ کر یمہ میں اگر چہ بلعم باعور کے قصہ کی طرف ہی اشارہ ہے لیکن یہ باتیں ہراس شخص کیلئے ہیں جو اپنے نفس کے اوپر اپنے خواہشات کو حاکم بنادے۔

۶۲

جیسا کہ امام محمد باقر کا ارشاد گرامی ہے :

(ن الاصل فی ذلک بلعم،ثم ضرب ﷲمثلاًلکل مؤثرهواه علی هدیٰ ﷲ،من أهل القبلة )( ۱ )

''یعنی یہ تذکرہ تو در اصل بلعم کا ہی ہے لیکن خداوندعالم نے اسمیں ہر اس مسلمان کی مثال بیان کر دی ہے جو اپنی خواہشات کو ﷲ تعالیٰ کی ہدایت پر ترجیح دیتا ہو ''

ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوتاہے ہمیں قرآنی بیانات کی روشنی میں اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔

۱۔زمین کی جانب رغبت

زمین کی طرف رغبت ،دنیاوی زندگی سے دلبستگی کو کہتے ہیں یعنی انسان دنیا کا ہو کر رہ جائے۔کیونکہ زمین دنیاہی کا دوسرا نام ہے اور زمین کی طرف جھکا ئو ،رغبت اس سے بیزاری کے ذریعہ رفعت و بلندی کے مقابلہ میں ہے جیسا کہ آیۂ کریمہ میں اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :

( ولوشئنا لرفعناه بها ولکنه اخلد الیٰ الارض )

'' اگر ہم چا ہتے تو اسے انھیں آیات کے ذریعہ بلند کردیتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا ''

یعنی اس نے خود دنیا وی ذلت کو گلے لگا لیا ۔کیونکہ جس طرح سطح زمین سے بلندی کی طرف اوپر جا تے ہوئے زمین کی قوت جاذبہ اور کشش کا مقابلہ کر نے میںزحمت ومشقت ہوتی ہے مگر اس کے برعکس اوپر سے زمین کی طرف آتے وقت زمین کی کشش کا سہار ا مل جاتاہے ۔۔۔بالکل یہی حال زندگانی دنیا کی پستی اور بلندی کابھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی بلندیوں کا خواہاں ہے تو اسے اتنی ہی مشقتیں برداشت کرنا ہو نگی لیکن اگر کوئی پستیوںمیں جانا چاہتاہے تو اس میں کوئی زحمت نہیں ہے ۔

۲۔آیات خدا سے محرومی

(فانسلخ منہا )آیات الٰہیہ سے ''انسلاخ'' یعنی اسکے پاس آیات کی جومعرفت اورعلم

____________________

(۱)مجمع البیان تفسیرسورئہ اعراف آیت ۱۷۵۔۱۷۶۔

۶۳

و حکمت و بصیرت کی جو دولت تھی وہ اس سے واپس لے لی گئی۔

''انسلاخ'' ''ا لتصاق'' کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے التصاق اس وقت کہا جاتاہے کہ جب دوچیزیں آپس میں ملی ہوئی یاچپکی ہوتی ہیں اور جب ان کے در میان مکمل علاحدگی یابالکل جدا ئی ہو جائے تو اہل عرب اسکو'' انسلاخ ''کہتے ہیں لہٰذا جو لوگ اپنی شہو توں اور خواہشات کے تحت ،قدم اٹھا تے ہیں انکا ر ابطہ علم ومعرفت اور آیات الٰہیہ سے با لکل ختم ہو جاتا ہے اور جس طرح کسی مریض کا معدہ کھانے کوقبول کرنے کے بجائے اسے رد کردیتا ہے اسی طرح انکا نفس علم وحکمت جیسی پا کیزہ اورنفیس اشیا ء کوقبول نہیں کر پاتا ہے ۔

کیونکہ اگراسکا وجود ہو س اور خواہشات کا دلدا دہ ہو جائے تو پھر اسمیں آیات الٰہیہ ،علم و حکمت اوربصیرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور نہ ہی اسکے وجود میں اخلاقی اقدار وفضائل کا گذر ہوسکتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے :

(حرام علیٰ کل قلب متولّه بالشهوات أن یسکنه الورع )( ۱ )

''یعنی جو دل بھی خواہشات کا دلداد ہ ہو اسکے اندر ورع و پرہیزگاری کا بسیرا حرام ہے '' آپ کا ہی ارشاد ہے :

(حرام علیٰ کل قلب اُغری بالشهوات أن یحل فی ملکوت السمٰوات )( ۲ )

''جودل خواہشات کا فریب خوردہ ہو اس کیلئے ''ملکوت السمٰوات''کی سکونت حرام ہے ' '

____________________

(۱)مجمو عہ ورا م تنبیہ خواطرص ۳۶۲۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

۶۴

(حرام علی کل قلب مغلول بالشهوة أن ینتفع بالحکمة )( ۱ )

''جو دل خواہشات کی زنجیروں سے جکڑاہو اسکے لئے حکمت سے استفادہ کر ناحرام ہے ۔''

کیونکہ دل ایک ظرف کی مانند ہے اور ایک ظرف میں خواہشات نفس اوریاد الٰہی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ہیں لہٰذااسکے اندریا ذکر الٰہی رہے گا یا خواہشات رہیں گے کیونکہ( مَاجعل ﷲ لرجل من قلبین فی جوفه ) ( ۲ )

'' خداوندعالم نے ایک انسان کے جسم میں دو قلب نہیں بنا ئے ہیں ''

لہٰذا جب انسان اپنی خواہشات کا اتباع کرتا ہے تو پھر خود بخود اسکے دل سے یا دخدا نکل جاتی ہے اور اگر اسمیں یاد خدا آجا تی ہے تو پھر خواہشات کاامکان نہیں رہ جاتاہے۔

لہٰذا جس دل سے یاد خدا نکل جا ئے وہ خواہشات کے راستے پر چل پڑتا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولاتطع من أغفلنا قلبه عن ذکرنا واتّبع هواه وکان أمره فرطا ) ( ۳ )

''اور ہر گز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یادسے محروم کردیا ہے وہ اپنی خواہشات کا پیرو کار ہے اور اسکا کام سراسر زیادتی کرنا ہے ۔ ''

خواہشات کی پیروی کایہ دوسرا انجام ہے۔

۳۔شیطان کا تسلط

ارشاد رب العزت ہے :(فأتبعہ الشیطان )''اور شیطان نے اسکا پیچھا پکڑلیا ۔'' پہلے

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۳۴۴۔

(۲)سورئہ ا حزاب آیت ۴۔

(۳)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۶۵

شیطان اس تک پہنچنے یا اس پر قبضہ کر نے سے عاجزتھا مگرخواہشات کی پیروی انسان پر شیطان کے قبضہ کو مستحکم بنادیتی ہے اور انسان جتنی زیادہ خواہشات کی پیروی کرے گا اس پر شیطان کا تسلط اور غلبہ بھی اتنا ہی زیادہ مستحکم ہو جائے گا اور یہ خواہشات کی پیروی کا تیسرا نتیجہ ہے ۔

۴۔ضلا لت و گمراہی

(فکان من الغاوین)''تو وہ گمراہوں میں ہوگیا ''ایسے لوگوں کے سلسلہ میں یہ ایک فطری چیز ہے کیونکہ جب انسان ہویٰ وہوس میں مبتلا ہو جاتاہے اور اس کے دل سے یاد الٰہی نکل جاتی ہے اس پر شیطان کا تسلط قائم ہوجاتاہے تو پھر اسکی ہدایت کا بھی کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا اور اسکی زندگی میںاصلاح کا امکان نہیں ہے لہٰذا وہ جس مقدار میں ہاتھ پیرمارتا ہے اتنا ہی پستیوں میں اترتا چلا جاتا ہے ۔اوریہ خواہشات کی پیروی کا چوتھا نتیجہ ہے۔

۵۔لالچ

ان لوگوں کے بارے میں ارشادا لٰہی ہے :

( فمثلُه کمثل الکلب اِنْ تحملْ علیه یَلْهَثْ او تترکه یلهثْ )

''تو اب اسکی مثال اس کتّے جیسی ہے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے''

۶۶

زبان باہر نکلی رہنا یہ کتوں کی ایک مشہور بیماری ہے اور اسمیں کتے کو ہر وقت پیا س لگی رہتی ہے چنانچہ اسے چاہے جتنا پانی پلا یا جائے اسکی پیاس نہیں بجھ پاتی اور اسی لئے وہ ہمیشہ اپنی زبان باہر نکالے رہتا ہے اورچاہے کوئی اس پر حملہ کرے یا اسے اسی طرح چھوڑ دیا جائے ہر وقت اسکا ایک ہی حال رہتا ہے چنانچہ بالکل اسی صور تحال سے اہل ہوس بھی دوچار رہتے ہیں کہ دنیاوی لذتوں اور رنگینیوں میں غرق ہو نے کے باوجود انکی پیاس نہیںبجھتی چاہے وہ ما لدارہوں یا فقیر انہیں دنیا مل گئی ہو یانہ ملی ہو ان سب کا حال پیاس کے مریض اس کتے کی طرح رہتا ہے جسکی پیاس بہتے دریا بھی نہیں بجھا پاتے ہیں ۔

اسی بارے میں رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے :

( لوکان لابن آدم وادیان من ذهب لابتغیٰ وراء هما ثالثاً ) ( ۱ )

''اگر فرزند آدم کے پاس سونے سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تب بھی اسے تیسری وادی کی خواہش رہتی ہے''

امام جعفر صادق سے جب ایک آدمی نے اپنے اندر دنیا کی لا لچ اور اسکی طرف توجہ رہنے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :جو چیز تمہا رے لئے کافی ہے اوروہ تمھیں مستغنی بنادے تو اسکی معمولی مقدار بھی تمہیں مستغنی بنا سکتی ہے لیکن جو چیز تمہارے لئے کا فی ہے اگروہ تمہیں مستغنی نہ بنا سکے تو پھر پور ی دنیا بھی تمھیں مستغنی نہیں بنا سکتی ہے اور یہ اس کا پا نچواں نتیجہ ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)مجمو عہ وارم تنبیہ خوا طرص ۱۶۳۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۱۳۹

۶۷

خواہشات کا علاج

ہوس کی تخریبی طاقت

انسانی خو اہشات اس کیلئے جس مقدار میں مفید ہیں اس کے مطا بق انکے اندر قدرت اور طاقت بھی پا ئی جاتی ہے چنانچہ اگر یہ غلط راستے پر لگ جائیں تو پھر یہ اپنی طاقت کے اعتبار سے ہی انسانی زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔انسانی نفس کے اندر اسکے یہ دونوں (مثبت اورمفید منفی اورمضر )پہلو بالکل طے شدہ ہیں اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے کیونکہ خواہشات ہی دراصل انسان کی زندگی کے پہیوںکو گردش دینے والی قوت ہیں اور اگر خداوندعالم نے انسان کے

نفس میں جنسیات ،مال ،خود ی (حب ذات )،کھا نے پینے اور اپنے دفاع کی محبت نہ رکھی ہوتی تو قافلۂ انسانی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتاتھا ۔لہٰذا خواہشات کے اندر جتنے فا ئد ے ہیں انکے اندر اتنی ہی طاقت موجود ہے اور انکے اندر جتنی طاقت پائی جاتی ہے انکے بہک جانے کی صورت میں انکے نقصانات بھی اسی کے مطابق ہونگے جیسا کہ مولا ئے کا ئنات نے ارشاد فرمایا ہے:

۶۸

(الغضب مفسد للالباب ومبعد عن الصواب )( ۱ )

''غصہ عقلوں کو برباد اور راہ حق سے دور کر دینے والی چیز ہے ''

آپ نے یہ بھی فرما یا ہے :

(أکثرمصارع العقول تحت بریق المطامع )( ۲ )

''عقلوں کی اکثر قتل گاہیں طمع کی جگہوںکی چمک دمک کے آس پاس ہیں''

خواہشات کی پیروی پر روک اور انکی آزادی کے درمیان

یہی وجہ ہے کہ خواہشات کو ایکدم کچل کر رکھ دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خواہش انسانی زندگی کیلئے ایک مفید طاقت ہے جس کے سہار ے کا روان حیات انسانی رواں دواںہے اور اس کو معطل اور نا کارہ بنا دینا یا اسکی مذمت کرنا اور اسکی اہمیت کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے ایک بڑے حصہ کا انکار کردیا جائے اور اسکو نقل و حرکت میں رکھنے والی اصل طاقت کو نا کار ہ قرار دیدیا جائے ۔

اسی طرح خواہشات اور ہوس کی لگام کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دینا اور انکے ہر مطالبہ کی تکمیل کرنا اور ان کی ہر بات میںہاں سے ہاں ملا نا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی رسی ڈھیلی چھو ڑدی جائے تو

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۶۷ ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۹۸۔

۶۹

یہ فائد ہ مند ہو نے کے بجائے انسان کیلئے مضر بن جاتے ہیں ۔

لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کر نا پڑیگا کہ شرعی اعتبار سے خواہشات کی محدود تکمیل کی بہت اہمیت ہے اور جس طرح انکو بالکل آزاد چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ہر بات میں انکی تکمیل بھی صحیح نہیں ہے ۔

اسی معیار پر اسلام نے خواہشات کے بارے میں اپنے احکام بنائے ہیں یعنی پہلے وہ خواہشات کو انسان کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور اسے فضول چیز قرار نہیں دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کاارشاد ہے :

( زُیّن للناسِ حبُّ الشهواتِ من النسائِ والبنینَ والقناطیرِالمقنطرةِمن الذهبِ والفضة ِوالخیلِ المسوّمةِ والأنعام والحرثِ ) ( ۱ )

''لوگوں کے لئے خواہشات دنیا ،عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،تندرست گھوڑے یا چوپائے کھیتیاںسب مزین اور آراستہ کردی گئیں ہیں ''

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

( ٔلمالُ والبنونَ زینة الحیاةِ الدنیا ) ( ۲ )

''مال اور اولاد، زندگانی دنیا کی زنیت ہیں ''

ان آیات میں نہ صرف یہ کہ خواہشات کی مذمت نہیں ہے بلکہ اسکو زینت اور جمال زندگانی قرار دیا گیاہے اور اسی اہم نکتہ سے خواہشات کے بار ے میں اسلام کا واضح نظر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔

دوسر ے مرحلہ پر اس نے ہمیں اپنی خواہشات کو پورا کر نے اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کا حکم دیا ہے :

____________________

(۱)آل عمر ان آیت۱۴۔

(۲) سورئہ کہف آیت۴۶ ۔

۷۰

( کلوا من طیبات مارزقناکم ) ( ۱ )

''تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھائو ''

یایہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولا تنس نصیبک من الدنیا ) ( ۲ )

''اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو''

اور اسی طرح یہ بھی ارشاد ہے :

( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعبادهِ والطیبات من الرزق ) ( ۳ )

''پیغمبر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے''

خواہشات کے بارے میں اسلام نے یہ دوسرا نظریہ پیش کیا ہے جس کے اندر نہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی کھلی چھوٹ ہے کہ جس کا جس طرح دل چاہے وہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتا رہے اور کسی قاعد ہ وقانون کے بغیر سر جھکا کر انھیں کے پیچھے چلتا رہے ۔

امام جعفر صادق نے فرما یا ہے :

(لاتدع النفس وهواها فن هواها رداها )( ۴ )

''اپنے نفس کو اسکے خواہشات کے اوپر نہ چھو ڑدو کیونکہ اسکے خواہشات میں اسکی پستی اور

____________________

(۱)سورئہ طہ آیت۸۱ ۔

(۲)سورئہ قصص آیت۷۷ ۔

(۳)سورئہ اعراف آیت ۳۲ ۔

(۴)اصول کافی ج۲ص۳۳۶۔

۷۱

ذلت ہے ''

ان تمام پا بند یوں اور سختیوں کے باوجود اسلام نے انسانی خواہشات کی تسلی کیلئے ایک نظام بنا کر خود بھی اس کے بیحد موا قع فراہم کئے ہیں جیسے اسلام نے جنسیات کو حرام قرار نہیں دیا ہے اور نہ اس سے منع کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بر ایا پست کام کہا ہے بلکہ خود اسکی طرف رغبت دلا ئی ہے اور اسکی تاکید کی ہے البتہ اسکے لئے کچھ شرعی قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں اسی طرح مال سے محبت کرنے کونہ اسلام منع کر تاہے اور نہ اسے بر اکہتا ہے بلکہ یہ تمام انسانو ں کیلئے مباح ہے البتہ اسکے لئے بھی کچھ قو اعد وقوانین مرتب کردئے گئے ہیں تا کہ مالی یا جنسی خواہشات وغیرہ کی تسلی کیلئے ہر شخص کے سامنے مواقع موجود رہیں اور کوئی شخص بھی بے راہ رو ی کا شکار نہ ہو نے پا ئے یہ خواہشات کے بارے میں اسلامی نظر یہ کا تیسر ا نکتہ ہے۔

خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لئے ''عقل ''کا کردار

خواہشات کو بغاوت اور سر کثی سے روکنے اور ہرلحاظ سے انکی تکمیل سے منع کرنے اور اسی طرح انکی تسلی کی معقول حدبندی کیلئے انسانی عقل میدان عمل میں ہمیشہ فعال رہتی ہے اور شاید اسی لئے عربی زبان میں عقل کو عقل کہا جاتا ہے کہ عقل کسی کو لگام لگانے یا پھند ے کو کہتے ہیںاور خدا نے عقل کو یہی ذمہ دار ی سونپی ہے کہ وہ خواہشات کو لگام لگا کر اپنے قابو میں رکھے جیسا کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرما یا ہے :

(ن العقل عقال من الجهل،والنفس مثل أخبث الدواب )( ۱ )

''عقل جہالت سے بچانے والی لگام ہے اور نفس خبیث ترین چو پائے کی طرح ہے ''

روایات میں اسی مضمون کی طرف کثر ت سے اشارے موجود ہیں بطورنمونہ حضرت علی

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۱۷ ۔

۷۲

کے مندرجہ ذیل اقوال ملاحظہ فرما ئیں :

٭(فکرک یهدیک لی الرشاد )( ۱ )

''تمہار ی فکر تمہیں رشدو ہدایت کی طرف رہنما ئی کرتی ہے ''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهی ٰ)( ۲ )

''نفس کے اندر مختلف قسم کی خواہشات ابھرتی رہتی ہیں اور عقل ان سے منع کرتی رہتی ہے ''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجر منها )( ۳ )

''دلوں کے اندر برے خیالات پید ا ہو تے ہیں اور عقل ان سے بازر کھتی ہے ''

٭ (النفوس طلقة،لکن أیدی العقول تمسک اعنتها )( ۴ )

''نفس تو با لکل آزاد ہوتے ہیں لیکن عقلوں کے ہاتھ انکی لگام تھامے رہتے ہیں ''

٭ (ثمرةالعقل مقت الدنیا وقمع الهویٰ) ( ۵ )

''عقل کا پھل دنیا کی نا راضگی اور خو اہشات کی تا راجی ہے ''

مختصر یہ کہ انسانی زندگی میں اسکی عقل کا کار نامہ یہ ہے کہ وہ خواہشات کواپنے محدود تقاضو ں کے تحت کنٹرول کر تی ہے اور اس کی ہوس کو سر کشی اور بغا وت سے رو کتی رہتی ہے اور انسان کو اس کی خو اہشات کی تکمیل میں بے لگام نہیں رہنے دیتی لہٰذا جس کی عقل جتنی کامل اور پختہ ہو تی ہے وہ اپنی خو اہشات پر اتنی ہی مہارت اور آسانی سے غلبہ حا صل کر لیتا ہے ۔

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

(۲)تحف العقول ص۹۶۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔

(۵)غررالحکم ج۲ص۳۲۳۔

۷۳

حضرت علی :

(العقل الکامل قاهرالطبع السوئ )( ۱ )

''عقل کا مل بری طبیعتوں پر غالب رہتی ہے ''

اور یہی نہیں بلکہ خواہشات پر کنڑول ہی انسان کی عقل سلیم کی پہچان ہے ۔

حضرت علی :

(حفظ العقل بمخالفة الهویٰ والعزوف عن الدنیا )( ۲ )

''خواہشات کی مخالفت اور دنیاسے بے رغبتی کے ذریعہ عقل محفوظ رہتی ہے ''

امام محمد باقر :

(لاعقل کمخالفة الهویٰ )( ۳ )

''خواہشات کی مخالفت سے بہتر کوئی عقل نہیں ہے''

حضرت علی :

(من جانب هواه صح عقله )( ۴ )

''جس نے اپنی خواہشات سے کنارہ کشی اختیار کرلی اسکی عقل صحیح وسالم ہو جا ئے گی ''

ان احادیث سے بھی یہ روشن ہوتا ہے کہ عقل اور خواہشات دونوں ہی انسان کی زندگی کے دو اہم ستون ہیں ان میںسے خواہشات، انسانی حیات کے سفینہ کی نقل وحرکت اور اسکی تعمیرو ترتی میں پتوار کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور عقل اسکو بغاوت وسر کشی اور فتنہ وفساد کے خطرناک نشیب وفرازسے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۹۔

(۲)غرر الحکم ج۱ص۳۴۵۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

(۴)بحارالانوار ج۱ص۱۶۰۔

۷۴

نکال کر ساحل تک پہنچا نے کی اہم ذمہ داری ادا کرتی ہے ۔۔۔لہٰذا ہر انسان کے لئے جس طرح جسم وروح ضردری ہیں اسی طرح اس کے لئے ان دونوں کاوجودبھی ضروری ہے ۔

عقل اور دین

انسانی زندگی میں دین بھی وہی کردار ادا کرتا ہے جو عقل کا کر دار ہے یعنی جس طرح عقل ، خواہشات کو مختلف طریقوں سے اپنے قابو میں رکھتی ہے اسی طرح دین بھی انھیں بہکنے سے بچاتا رہتا

ہے یعنی عقل اور دین کے اندرہر طرح کی فکری اور عملی یکسانیت اور مطابقت پائی جاتی ہے کیونکہ دین ایک الٰہی فطرت ہے جیسا کہ آیۂ کر یمہ میں ارشاد ہے :

( فطرةﷲ التی فطرالناس علیهالاتبدیل لخلق ﷲذلک الدین القیم ) ( ۱ )

''دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقینا یہی سید ھا اور مستحکم دین ہے ''

وہ فطرت جو انسان کے اوپر حکمراں ہو تی ہے اور عقل بھی اسی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ ''دین' 'ہے جسکے ذریعہ ﷲ تعالی نے حیات بشری کو دوام بخشا اور حیات بشری کے ذریعہ اسے قائم ودائم فرمایا لہٰذا دین بھی خواہشات کو کنڑول کر نے کے سلسلہ میں عقل کی امداد کرتاہے اور خود بھی اسی ذمہ داری کو ادا کرتاہے مختصر یہ کہ عقل اور دین ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ۔

حضرت علی :

(العقل شرع من داخل،والشرع عقل من خارج )( ۲ )

''عقل بدن کی اندرونی شریعت اور شریعت بدن کے باہر موجود عقل کا نام ہے ''

____________________

(۱)سورئہ روم آیت ۳۰۔

(۲)کتاب جوان :آقا ئے محمد تقی فلسفی ج۱ص۲۶۵۔

۷۵

امام مو سیٰ کا ظم :

(ﷲ علی الناس حجتین :حجة ظاهرة وحجة باطنة، فاماالظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة عليه‌السلام واماالباطنة فالعقول )( ۱ )

''لوگوں پر خدا وندعالم کی دوحجتیں (دلیلیں )ہیں ایک ظاہر ی حجت اور دوسری پوشیدہ اور باطنی حجت و دلیل۔ ظاہر ی دلیل انبیاء اور ائمہ ہیں جبکہ باطنی حجت عقل ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(حجة ﷲعلیٰ العبادالنبی،والحجة فیما بین العباد وبین ﷲ العقل )( ۲ )

''بندوں کے اوپر خدا وندعالم کی حجت اسکے انبیاء ہیں اور خداوندعالم اور اسکے بندوں کے درمیان ،عقل حجت ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۳۷۔

(۲)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

۷۶

عقل کے تین مراحل

انسانی زندگی میں عقل کے تین اہم کردار ہوتے ہیں :

۱۔ معرفت الٰہی۔

۲۔خداوندعالم نے جو کچھ اپنے بندوں پر واجب کیا ہے اسکی اطاعت کرنا کیونکہ ﷲتعالیٰ کی صحیح معرفت کا نتیجہ اسکی اطاعت اور بندگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

۳۔تقوائے ا لٰہی: یہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کا دوسرا رخ ہے کیونکہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کی بھی دوقسمیں ہیں ۔

۱۔واجبات کو بجالانا اور محرمات سے پر ہیز کرنا اور تقویٰ درحقیقت نفس کو محرمات سے باز

رکھنے کا نام ہے ۔اور شاید مندرجہ ذیل روایت میں بھی عقل کے مذکورہ تینوں مرحلوں کی وضاحت موجود ہے:

۷۷

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(قُسّم العقل علیٰ ثلاثة أجزائ،فمن کانت فیه کمل عقله،ومن لم تکن فیه فلا عقل له:حسن المعرفة بﷲعزوجل،و حسن الطاعة ﷲ،وحسن الصبرعلیٰ أمره )( ۱ )

''عقل کے تین حصے کئے گئے ہیں لہٰذا جسکے اندر یہ تینوں حصے موجود ہوں اسکی عقل کامل ہے اور جسکے اندر یہ موجود نہ ہوں تواسکے پاس عقل بھی نہیں ہے !

۱۔حسن معرفت الٰہی (خداوندعالم کی بہتر ین شناخت ومعرفت اور حجت آوری)۔

۲۔ﷲکی بہترین اطاعت وبندگی ۔

۳۔اسکے احکامات پر اچھی طرح صبر کرنا ''

خدا کے احکام پر صبر کرنے کا دوسرا نام خواہشات پر قابو پانا ہے اور اس کو تقویٰ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خواہشات پر قابو پانا اور انھیں اپنے کنڑول میں رکھنے کیلئے جتنا زیادہ صبر درکار ہے اتنا صبر کسی اور کام کیلئے درکار نہیں ہوتا ہے ۔

اب ان تینوں مراحل کی تفصیل ملا حظہ فرمائیں :

۱۔معر فت اور حجت آوری

عقل کی پہلی ذمہ داری معرفت اور شناخت ہے ۔کیونکہ اس دنیا کے حقائق اور اسرار سے پر دہ اٹھا نے کا ذریعہ(آلہ )عقل ہی ہے اگرچہ اہل تصوف اسکے مخالف ہیں اور وہ عقل کی معرفت اور

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۰۶۔

۷۸

شناخت کے قائل ہی نہیں ہیں انکا کہنا ہے کہ اس دنیا کے حقائق اور خداوندعالم اور اسی طرح غیب کی معرفت کے بارے میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہوتاہے ۔جبکہ اسلام عقل کی قوت تشخیص کا قائل ہے اور وہ اسے علم ومعرفت کا ایک آلہ قراردیتا ہے اور دنیا کے مادی یا غیر مادی تمام مقامات پریا اس دنیا کے خالق یا واجبات اور محرمات جیسے تمام مسائل میں اس کی مز ید تا ئید کرتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سلسلہ میں یہ ارشاد فرمایا ہے :

(نمایدرک الخیرکله فی العقل )( ۱ )

'' ہرخیر کو عقل میں تلاش کیا جاسکتا ہے ''

آپ ہی کا یہ ارشاد بھی ہے :

(استرشدوا العقل ترشدوا ولا تعصوه فتندموا )( ۲ )

''عقل سے رہنمائی حاصل کرو تو راستہ مل جائے گا اوراسکی نافرمانی نہ کرنا ورنہ شرمندگی اٹھانا پڑے گی ''

حضرت علی :

(العقل أصل العلم وداعیة الفهم )( ۳ )

''عقل ،علم کی بنیاد اور فہم (غوروفکر)کی طرف دعوت دینے والی ہے''

امام جعفر صادق :

(العقل دلیل المؤمن )( ۴ )

____________________

(۱)تحف العقول ص۵۴ ۔ بحارالانوا ر ج ۷۷ ص۱۵۸۔

(۲)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

(۴)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

۷۹

''عقل مومن کی رہنما ہے''

دنیا کے حقائق اور اسرار ورموز کی معرفت کیلئے عقل کی قدروقیمت اور اہمیت کیا ہے؟ اسکو روایات میں یوں بیان کیا گیا ہے:''خداوند عالم اپنے بندوں پر عقل کے ذریعہ ہی احتجاج (دلیل) پیش کریگا اور اسی کے مطابق ان کو جزا یا سزا دی جائیگی ''اس مختصر سے جملہ کے ذریعہ انسانی زندگی میں عقل کی قدروقیمت اور دین خدا میں اسکی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

امام موسی کاظم :

(أن ﷲ علیٰ الناس حجتین حجة ظاهرة وحجة باطنة،فأماالظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة عليه‌السلام ،وأما الباطنة فالعقول )( ۱ )

''بندوں پر خداوند عالم کی دوحجتیں (دلیلیں)ہیں ایک کھلی ہوئی اور ظاہر ہے اور دوسری پوشیدہ ہے ظاہری حجت اسکے رسول، انبیاء اور ائمہ ہیں اور پوشیدہ حجت کا نام عقل ہے''

آپ ہی کا یہ ارشاد گرامی ہے:

(ان ﷲ عزوجل أکمل للناس الحجج بالعقول،وأفضیٰ لیهم بالبیان،ودلّهم علیٰ ربوبیته بالادلة )( ۲ )

''خداوند عالم نے عقلوں کے ذریعہ لوگوں پر اپنی سب حجتیں تمام کردی ہیں اوربیان سے ان کی وضاحت فرمادی اور دلیلوں کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف ان کی رہنمائی کردی ہے''

لہٰذاعقل ،انسان کے اوپر خداوند عالم کی حجت اور دلیل ہے جسکے ذریعہ وہ اپنے بندوں کا فیصلہ کرتا ہے اوراگر فہم وادراک کی اسی صلاحیت کی بناء پر اسلام نے عقل کو اس اہمیت اور عظمت سے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ ص ۱۳۷۔

(۲)بحارالانوار ج۱ص۱۳۲۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430