خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات13%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 364513 / ڈاؤنلوڈ: 5374
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات

۱_ جس وقت رسول خد ا(ص) نے روميوں سے جنگ كيلئے سپاہ روانہ كرنے كا اقدام كيا تو آنحضرت (ص) كوكيا مشكلات اور دشوارياں پيش آئيں؟

۲_ جب رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى دعوت دى تو ان كى طرف سے كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۳_ رسول خد ا(ص) جب غزوہ تبوك پر تشريف لے جارہے تھے تو آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں كسے اپنا جانشين مقرر رفرمايا اور اس شخص كے انتخاب كئے جانے كا كيا سبب تھا؟

۴_ اگر چہ غزوہ تبوك كے موقع پر جنگ تو نہيں ہوئي مگراسلام دشمنوں نے اس سے كچھ سبق ضرور حاصل كئے ان كے بارے ميں لكھئے وہ كيا تھے؟

۵_ غزوہ تبوك كا مسلمانوں كے دل ودماغ پر كيا اثر ہوا ؟

۶_ عزوہ تبوك كے موقع پر منافقين نے جو ريشہ دوانياں كيں اس كے دو نمونے پيش كيجئے_

۷_ غزوہ تبوك كو ''فاضحہ'' كس وجہ سے كہا گيا ؟ وضاحت كيجئے_

۸_ سورہ توبہ كى ابتدائي آيات ہجرت كے كس سال رسول خدا (ص) پر نازل ہوئيں اور آنحضرت (ص) نے كس شخص كے ذريعے انہيں مشركين تك پہنچايا ؟

۹_ سورہ توبہ كے علاوہ بھى كيا رسول خد ا(ص) كى طرف سے كوئي پيغام مشركين كو بھيجا گيا تھا ؟ وہ كيا پيغام تھا اس كے بارے ميں لكھئے_

۱۰_ كيا سورہ توبہ كى ابتدائي آيات اور اس كا مفہوم جو حضرت على (ع) كى جانب سے مشركين كو بھيجا گيا تھا ، ان پر كسى عقيدے كو مسلط كرنے اور ان كى آزادى سلب كرنے كے مترادف ہے يا نہيں ؟، اس كى وضاحب كيجئے_

۲۸۱

حوالہ جات

۱_يہ جگہ ''وادى القري'' اور شام كے درميان واقع ہے مدينہ سے اس جگہ تك بارہ منزل كا فاصلہ ہے ، معجم البلدان ج ۲ ص ۱۴_ ۱۵ ، مسعودى نے اپنى كتاب التنبيہ والاشراف ميں ص ۲۳۵ پر لكھا ہے كہ مذكورہ بارہ منزلوں كا فاصلہ نوے فرسخ ہے (تقريباً ۵۴۰ كلوميٹر)_

۲_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان دمشق كے علاقے ميں واقع ہے ، معجم البلدان ج ۱ ص ۴۸۹_

۳_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۴_علامہ ''مفيد'' مرحوم نے اپنى كتاب ''الارشاد'' ميں ص ۸۲ پر لكھتے ہيں كہ ''رسول خدا (ص) '' كو وحى كے ذريعے علم ہوگيا تھا كہ اس سفر ميں جنگ نہيں ہوگى ''اورتلوار چلائے بغير ہى كام آنحضرت (ص) كى مرضى كے مطابق انجام پذير ہوں گے ، سپاہ كو تبوك كى جانب روانہ كئے جانے كا حكم محض مسلمانو ں كى آزمائشے كى خاطر ديا گيا تھا تاكہ مومن ومنافق كى تشخيص ہوسكے، موصوف اپنى كتاب ميں دو صفحات كے بعد لكھتے ہيں كہ اگر اس سفر ميں جنگ واقع ہوتى او ر رسول خد ا(ص) كو مدد كى ضرورت پيش آتى تو خداوند تعالى كى طرف سے يہ حكم نازل نہ ہوتا كہ آپ (ص) حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمائيںبلكہ انہيں مدينہ ٹھہرانے كى آپ(ص) كو اجازت ہى نہيں ملتي_

۵_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۶_ايضا ص ۱۰۰۲_

۷_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱۰_

۸_سورہ توبہ كى ۴۲ سے ۱۱۰ تك كى آيات اسى سلسلے ميں نازل ہوئي ہيں_

۹_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيت ۹۲_

۱۰_ ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۸۱_

۱۱_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۷۹_

۱۲_ملاحظہ ہو : تفسير برہان ج ۲ ص ۱۴۸_

۱۳_سورہ توبہ آيت ۴۹و ۹۰_

۲۸۲

۱۴_ايضا آيت ۱۱۸_

۱۵_الارشاد ، مفيد ص ۸۲_

۱۶_ايضا ص ۸۳_

۱۷_التنبيہ والاشراف ص ۲۳۵_

۱۸_المغازى ج ۳ ص ۱۰۱۵_

۱۹_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۳۱ وسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹_

۲۰_يہ قلعہ شام كے نواح ميں تھا جس كا فاصلہ دمشق سے پانچ رات (تقريبا ۱۹۰ كلوميٹر) اور مدينہ تك اس كا سفر تقريباً پندرہ يا سولہ رات (تقريباً ۵۷۰ كلوميٹر) كا تھا_ الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۲ و وفاء الوفاء ج ۲ ص ۱۲۱۳_

۲۱_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۲۵ والسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹

۲۲_محمد بن سعد نے''الطبقات الكبري''كى جلد اول كے صفحات ۳۵ _۲۹۱ميں لكھا ہے كہ تہتر(۷۳) وفد رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے چنانچہ ہر وفد كى اس نے عليحدہ خصوصيات بھى بيان كى ہيں_

۲۳_ملاحظہ ہو: الكامل فى التاريخ ج ۳ ص ۲۸۶_

۲۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۲۰۵_

۲۵_ملاحظ ہو : الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۶۷ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲۶_ السيرة النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۴۱_۴۲_

۲۷_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۲۹_

۲۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۰_

۲۹_ملاحظہ ہو :المغازى ج ۳ ص ۹۹۵_

۳۰_ ملاحظہ ہو: تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۰۳_ ۱۰۴ و السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۳۲_

۲۱_بعض كتب ميں ان كى تعداد چودہ اور پندرہ بھى بتائي گئي ہے (السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲_

۳۲_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۴۲_ ۱۰۴۵_

۲۸۳

۳۳_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيات ۱۰۷ سے ۱۱۰ تك ، خداوند تعالى نے اس مسجد كو مسجد ضرار كے عنوان سے ياد كيا ہے اور اس مركز كے قائم كئے جانے كا سبب مسلمانوں كو زك پہنچانا ' كفر كى بنيادوں كو محكم كرنا اور ' مسلمانوں كى صفوں ميں تفرقہ ڈالنا بيان كيا ہے اور اسے دشمنان رسول خد ا(ص) كے مركز سے تعبير كياہے_

۳۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۷۳ وبحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۵۲ _ ۲۵۵_

۳۵_سورہ توبہ كى آيات ۴۲ سے ۱۱۰ تك ان منافقين كى خيانت كاريوں اور سازشوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے جو جنگ تبوك كے دوران اپنى سازشوں ميں سرگرم عمل تھے ، مذكورہ آيات ميں خداوند تعالى كى طرف سے ان كى ذہنى كيفيات و خصوصيات بيان كى گئي ہيں_

۳۶_رسول خد ا(ص) ماہ رمضان ميں مدينہ واپس تشريف لائے ، عبداللہ بن ابى ماہ شوال ميں بيمار ہوا اور ماہ ذى القعدہ ميں مرگيا ، ملاحظہ ہو: المغازى ج ۳ ص ۱۰۵۶_ ۱۰۵۷_

۳۷_لَايُؤَديّ عَنكَ الَّا اَنتَ اَو رَجُلٌ منكَ _

۳۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ ۹۱ ۱' بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۶۵ _۲۷۵_

۲۸۴

سبق ۱۶:

حجة الوداع ، جانشين كا تعين اور رحلت پيغمبر(ص) اكرم

۲۸۵

حجة الوداع

اسلام كے ہاتھوں تبوك ميں سلطنت روم كى سياسى شكست، جزيرہ نمائے عرب ميں شرك و بت پرستى كى بيخ كنى(۱) اورمشركين كے نہ صرف مناسك حج ميں شركت كرنے بلكہ مكہ ميں داخل ہونے پر مكمل پابندى كے بعد جب زمانہ حج نزديك آيا تو رسول خد ا(ص) كو مامور كيا گيا كہ آنحضرت (ص) بذات خود ہجرت كے دسويں سال ميں مناسك حج ادا كريں تاكہ اسلام كى طاقت كو اور زيادہ نماياں كرنے كے ساتھ عہد جاہليت كے آداب و رسوم كو ترك كرنے اورسنت ابراہيمى كے اصول كے تحت حج كى بجا آورى بالخصوص مستقبل ميں مسئلہ قيادت اسلام كے بارے ميں براہ راست مسلمانوں كو ہدايت فرمائيں تاكہ سب پر حجت تمام ہوجائے_(۲)

رسول خد ا(ص) كو وحى كے ذريعے اس كام پر مامور كيا گيا كہ آنحضرت(ص) تمام مسلمانوں كو حج بيت اللہ پر چلنے كےلئے آمادہ كريں اور انہيں اس عظیم اسلامى اجتماع ميں شركت كرنے كى دعوت ديں چنانچہ اس بارے ميں خداوند تعالى اپنے نبى (ص) سے خطاب كرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے كہ :

( وَأَذّن فى النَّاس بالحَجّ يَأتُوكَ رجَالًا وَعَلَى كُلّ ضَامر: يَأتينَ من كُلّ فَجّ: عَميق )

''اور لوگوں كو حج كيلئے دعوت عام دو كہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پيدل اور

۲۸۶

سوار ى پر آئيں تاكہ وہ فائدے ديكھيں جو يہاں ان كيلئے ركھے گئے ہيں''(۳) _

جس وقت يہ اعلان كياگيا اگر چہ اس وقت مدينہ اور اس كے اطراف ميں چيچك كى وبا پھيلى ہوئي تھى اور بہت سے مسلمان اس مرض كى وجہ سے اركان حج ادا كرنے كيلئے شركت نہيں كرسكتے تھے(۴) مگر جيسے ہى انہوں نے رسول خد ا(ص) كا يہ پيغام سنا مسلمان دور و نزديك سے كثير تعداد ميں مدينہ كى جانب روانہ ہوگئے تاكہ رسول خدا (ص) كے ساتھ مناسك حج ادا كرنے كا فخر حاصل كرسكيں ، مورخین نے ان كى تعداد چاليس ہزار سے ايك لاكھ چوبيس ہزار تك اور بعض نے اس سے بھى زيادہ لكھى ہے_(۵)

رسول خدا (ص) نے حضرت ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمايا اور ہفتہ كے دن بتاريخ پچيس ذى القعدہ(۶) مكہ كى جانب روانہ ہوئے اس سفر ميں مسلمانون كا ذوق وشوق اس قدر زيادہ تھا كہ ان ميں سے كثير تعداد نے مدينہ و مكہ كے درميان كا فاصلہ پيدل چل كر طے كيا _(۷)

يہ قافلہ دس روز بعد منگل كے دن(۸) بتاريخ چہارم ذى الحجہ(۹) مكہ ميں داخل ہوا_(۹) جہاں اس نے عمرہ كے اركان ادا كئے _

آٹھ ذى الحجہ تك مسلمانوں كى دوسرى جماعت بھى مكہ پہنچ گئي جس ميں حضرت على (ع) اور آپ (ع) كے وہ ساتھى بھى شامل تھے جو اس وقت آپ (ع) يمن كے دورے پر تشريف لے گئے تھے_(۱۰)

رسول خدا (ص) نے اس عظیم اسلامى اجتماع ميں سنت ابراہيمى كے مطابق مناسك حج ادا كرنے كى تعليم دينے كے ساتھ يہ بھى ہدايت فرمائي كہ كس طرح صحيح طور پر اركان حج پر عمل پيرا ہوں ، آنحضرت (ص) نے ''مكہ''، ''منى '' اور ميدان ''عرفات '' ميں مختلف مواقع پر خطاب

۲۸۷

فرما كر آخرى مرتبہ مسلمانوں كو پند ونصائح اور ارشادات عاليہ سے نوازا(۱۱) ان تقارير ميں آپ(ص) نے انہيں يہ نصيحت فرمائي كہ لوگوں كے جان ومال كى حفاظت كريں ، قتل نفس كى حرمت كا خيال ركھيں ، سود كى رقم كھانے ، دوسروں كا مال غصب كرنے سے بچیں ، دورجاہليت ميں جو خون بہايا گيا تھا اس سے چشم پوشى كو ہى بہتر سمجھيں ، كتاب اللہ پر سختى سے عمل پيرا ہوں ، ايك دوسرے كے ساتھ برادرانہ سلوك كريں، نيز استقامت و پائيدارى كے ساتھ احكام الہى و قوانين دين مقدس اسلام پر كاربند رہيں ، اس ضمن ميں آنحضرت(ص) نے مزيد ارشاد فرمايا كہ : حاضرين ان لوگوں كو جو يہاں موجود نہيں ہيں يہ پيغام ديں كہ ميرے بعد كوئي نبى و پيغمبر نہيں ہوگا اور تمہارے بعد كوئي امت نہ ہوگي(۱۲) آنحضرت(ص) نے يہ بات تاكيدسے كہى كہ : اے لوگو ميرى بات كو اچھى طرح سے سنو اور اس پر خوب غورو فكر كرو كيونكہ يہ ممكن ہے كہ اس كے بعد يہ موقع نہ ملے كہ ميرى تم سے ملاقات ہوسكے(۱۳) چنانچہ ان الفاظ كے ذريعے آنحضرت (ص) لوگوں كو مطلع كر رہے تھے كہ وقت رحلت نزديك آگيا ہے اور شايد اسى وجہ سے اس حج كو ''حجة الوداع'' كے عنوان سے ياد كيا جاتاہے_

جانشين كا تعين

مناسك حج مكمل ہوگئے اور رسول خدا(ص) واپس مدينہ تشريف لے آرہے تھے ليكن جو فرض آنحضرت (ص) پر واجب تھا وہ ابھى پورا نہيں ہوا تھا، مسلمانوں نے يہ سمجھ كر كہ كام انجام پذير ہوچكا ہے اورہر شخص نے اس سفر سے معنوى فيض كسب كرليا ہے اب ان كے دلوں ميں يہى تمنا تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے تپتے ہوئے بے آب وگيا صحرا اورويراں ريگزاروں كو پار كركے واپس اپنے وطن پہنچ جائيں ليكن رسول خد ا(ص) نے چونكہ اپنى عمر عزيز كے تئيس سال ،

۲۸۸

اول سے آخر تك رنج وتكاليف ميں گزار كر آسمانى دين يعنى دين اسلام كى اشاعت و ترويج كے ذريعے انسانوں كو پستى و گمراہى اور جہالت و نادانى كى دلدل سے نكالنے ميں صرف كئے تھے اور آپ (ص) اپنے اس مقصد ميں كامياب بھى ہوئے كہ پراكندہ انسانوں كو ايك پرچم كے نيچے جمع كرليں اورانہيں امت واحد كى شكل ميں لے آئيں انہيںاب دوسرا خيال درپيش تھا ،اب آنحضرت (ص) كے سامنے اسلام كے مستقبل اور قيادت كا مسئلہ تھا بالخصوص اس صورت ميں جبكہ آپ (ص) كے روبرو يہ حقيقت بھى تھى كہ اس پر افتخار زندگى كے صرف چند روز ہى باقى رہ گئے ہيں_

رسول خدا (ص) ہر شخص سے زيادہ اپنے معاشرے كى سياسى ، معاشرتي، اجتماعى اور ثقافتى وضع و كيفيت سے واقف تھے ، آنحضرت(ص) كو اس بات كا بخوبى علم تھا كہ آسمانى تعليمات ، آپ (ص) كى دانشورانہ قيادت و رہبرى اور حضرت على (ع) جيسے اصحاب كى قربانى كے باعث قبائل كے سردار و اشراف قريش اسلام كے زير پرچم جمع ہوگئے ہيں ليكن ابھى تك بعض كے دل و دماغ مكمل طور پر تسليم حق نہیں ہوئے اور وہ ہر وقت اس فكر ميں رہتے ہيں كہ كوئي موقع ملے اور وہ اندر سے اس دين پر ايسى كارى ضرب لگائيں كہ بيروى طاقتوں كيلئے اس پر حملہ كرنے كيلئے ميدان ہموار ہوجائے _

( اَلْيَومُ اَكْمَلْتُ لَكُمْ ديْنَكُمْ ) (۱۴) كے مصداق كوئي ايسا ہى لائق اور باصلاحيت شخص جو آنحضرت (ص) كى مقرر كردہ شرائط كو پورا كرسكے ،دين اسلام كو حد كمال تك پہنچا سكتا ہے نيز امت مسلمہ كى كشتى كو اختلافات كى تلاطم خيز لہروں سے نكال كر نجات كے ساحل كى طرف لے جاسكتاہے_

رسول اكرم (ص) اگر چہ جانتے تھے كہ امت مسلمہ ميں وہ كون شخص ہے جو آپ(ص) كى جانشينى اور

۲۸۹

مستقبل ميں اس امت كى رہبرى كيلئے مناسب وموزوں ہے اور خود آنحضرت (ص) نے كتنى ہى مرتبہ مختلف پيرائے ميں يہ بات لوگوں كے گوش گذار بھى كردى تھى ليكن ان حقائق كے باوجود اس وقت كے مختلف حالات اس امر كے متقاضى تھے كہ جانشينى كيلئے خداوند تعالى كى طرف سے واضح وصريح الفاظ ميں جديد حكم نازل ہو، آنحضرت (ص) يہ بات بھى خوب جانتے تھے كہ اس معاملے ميں اللہ تعالى آنحضرت (ص) كى مدد بھى فرمائے گا_كيونكہ رسالت كى طرح مقام خلافت و امامت بھى ايك الہى منصب ہے اور حكمت الہى اس امر كى متقاضى ہے كہ اس منصب كيلئے كسى لائق شخص كوہى منتخب كياجائے ليكن اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) كو خدشہ بھى لاحق تھا كہ اگر يہ عظيم اجتماع پراكندہ ہوگيا اور ہر مسلمان اپنے اپنے وطن چلاگيا تو پھر كبھى ايسا موقع نہ مل سكے گا كہ كسى جانشين كے مقرر كئے جانے كا اعلان ہوسكے اور آپ (ص) كا پيغام لوگوں تك پہنچ سكے_

قافلہ اپنى منزل كى جانب رواں دواںتھا كہ بتاريخ ۱۸ ذى الحجہ ''جحفہ '' كے نزديك ''غدير خم'' پر پہنچا اور يہ وہ جگہ ہے جہاں سے مدينہ ،مصر اور عراق كى جانب جانے والى راہيں ايك دوسرے سے جدا ہوتى ہيں ، اس وقت فرشتہ وحى نازل ہو ااوررسول خدا (ص) كو جس پيغام كى توقع تھى اسے اس نے ان الفاظ ميں پہنچاديا :

( يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس إنَّ الله َ لاَيَهدى القَومَ الكَافرينَ ) (۱۵) _

''اے پيغمبر (ص) جو كچھ تمہارے رب كى طرف سے تم پر نازل كيا گيا ہے اسے لوگوں تك پہنچا

۲۹۰

دو ، اگر تم نے ايسا نہ كيا تو تم نے اس كى پيغمبرى كا حق ادا نہيں كيا اللہ تم كو لوگوں كے شر سے بچائے گااور خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا'' _

گرمى سخت تھى اور كافى طويل قافلہ زنجير كے حلقوں كى مانند پيوستہ اپنى منزل كى جانب گامزن تھا ، رسول خد ا(ص) كے حكم سے يہ قافلہ رك گيا اور سب لوگ ايك جگہ جمع ہوگئے اور يہ جاننے كے متمنى تھے كہ كون سا اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے_

رسو-ل خد ا(ص) نے پہلے تو نماز ظہر كى امامت فرمائي اور اس كے بعد ايك (منبر نما) اونچى جگہ پر جو اونٹ كے كجاوئوں سے بنائي گئي تھى تشريف فرما ہوئے اس موقع پر آپ (ص) نے مختلف مسائل كے بارے ميں تفصيلى خطبہ ديا اور ايك بار پھر لوگوں كو يہ نصيحت فرمائي كہ كتاب اللہ اور اہلبيت رسول (ص) كى پورى ديانتدارى كے ساتھ پيروى كريں كيونكہ يہى دونوں ''متاع گرانمايہ'' يعنى بيش قيمت اثاثے ہيں ، اس كے بعد آنحضرت(ص) نے اصل مقصد كى جانب توجہ فرمائي_

آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كا دست مبارك اپنے دست مبارك ميں لے كر اس طرح بلند كيا كہ سب لوگوں نے رسول خد ا(ص) نيز حضرت على (ع) كو ايك دوسرے كے دوش بدوش ديكھا چنانچہ انہوں نے سمجھ ليا كہ اس اجتماع ميں كسى ايسى بات كا اعلان كياجائے گا جو حضرت على (ع) كے متعلق ہے_

رسول خد ا(ص) نے مجمع سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا :

''اے مومنو تم لوگوں ميں سے كونسا شخص خود ان سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں كا زيادہ حق دار ہے ؟'' مجمع نے جواب ديا كہ خدا ا ور رسول خدا(ص) ہى بہتر جانتے ہيں _

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :'' ميرا مولا خدا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں ميں خود ان

۲۹۱

سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں پر تصرف كا زيادہ حق ركھتا ہوں اور سب پر مجھے فضےلت حاصل ہے اور جس كا مولا ميں ہوںيہ على (ع) بھى اس كے سردار اورمولا ہيں ، اے خدا وندا جو على (ع) كے دوست ہوں انہيں تو عزيز ركھ اور جو على (ع) كے دشمن ہوں تو ان كے ساتھ دشمنى كر ، على (ع) كے دوستوں كو فتح ونصرت عطا فرما اور دشمنان على (ع) كو ذليل وخوار كر''_(۱۶)

رسول خدا (ص) كا خطبہ ختم ہوجانے كے بعد مسلمان حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور رسول خدا (ص) كى طرف سے مقام خلافت و قيادت تفويض كئے جانے پر انہوں نے آپ(ع) كو مبارك باد پيش كى اور آپ (ع) سے امير المؤمنين اور مولائے مسلمين كہہ كر ہمكلام ہوئے ، خداوند تعالى نے بھى حضرت جبرئيل (ع) كو بھيج كر اور مندرجہ ذيل آيت نازل فرما كر لوگوں كو اس نعمت عظمى كى بشارت اور مبارك باد دي_

( اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نعمَتى وَرَضيتُ لَكُم الإسلاَمَ دينًا ) _(۱۷)

''آج ميں نے تمہارے دين كو تمہارے لئے مكمل كرديا ہے اور اپنى نعمت تم پر تمام كردى ہے اور تمہارے لئے اسلام كو دين كى حيثيت سے پسند فرمايا ہے''(۱۸) _

اس روز (۱۸ ذى الحجہ )سے مسلمان اور حضرت على (ع) كے پيروكار ''عيد غدير'' كے نام سے ہر سال جشن مناتے ہيں اور اس عيد كا شمار اسلام كى عظیم عيدوں ميں ہوتا ہے_

رسول خدا(ص) كى آخرى عسكرى كوشش

رسول اكرم (ص) ''حجة الوداع'' سے واپس آنے كے بعد خداوند تعالى كى طرف سے عائد كردہ دو اہم فرائض (فريضہ حج اور حضرت على (ع) كى جانشينى كے اعلان) كو انجام دينے كے

۲۹۲

بعد اگر چہ بہت زيادہ اطمينان محسوس كر رہے تھے ليكن اس كے باوجود آپ (ص) كى دور رس نگاہيں ديكھ رہى تھيں كہ ابھى امت مسلمہ كے سامنے ايسے مسائل ہيں جن كى وجہ سے وہ فتنہ وفساد سے دوچار رہے گى چنانچہ يہى فكر آنحضرت (ص) كيلئے تشويش خاطر كا باعث تھي_

سنہ ۱۱ ہجرى كے اوائل ميں جب كچھ لوگوں نے يہ خبر سنى كہ سفر كى وجہ سے رسول خد ا(ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے نبوت كا دعوى كركے فتنہ و غوغا برپا كرديا ، چنانچہ ''مُسيلمہ'' نے ''يمامہ'' ميں ''اسود عنسي'' نے ''يمن ''ميں اور ''طليحہ'' نے ''بنى اسد '' كے علاقوںميں لوگوں كو فريب دے كر گمراہ كرنا شروع كرديا _(۱۹)

مسيلمہ نے تو رسول خد ا(ص) كو خط بھى لكھا اور آنحضرت (ص) سے كہا كہ اسے بھى امر نبوت ميں شريك كرلياجائے_(۲۰)

دوسرى طرف ان لوگوں كو ، جو كل تك كافر اور آج منافق تھے اور جن كے دلوں ميں پہلے سے ہى اسلام كے خلاف بغض و كينہ بھرا ہوا تھا ، جب يہ معلوم ہوا كہ رسول خد ا(ص) نے حضرت على (ع) كے پيشوائے اسلام اور جانشين پيغمبر (ص) ہونے كا اعلان كرديا ہے تو ان كا غصہ پہلے سے كہيں زيادہ ہوگا چنانچہ جب انہيں يہ علم ہوا كہ رسول خدا(ص) كى طبيعت ناساز ہے اور آنحضرت (ص) كى رحلت عنقريب ہى واقع ہونے والى ہے تو ان كا جوش و خروش كئي گنا زيادہ ہوگيا_

ان واقعات كے علاوہ مشرقى روم كى مغرور و خود سر حكومت اور اس كى نو آباديات كو مسلمانوں كے ساتھ چند مرتبہ نبرد آزمائي كرنے كے بعد ان كى طاقت كا اندازہ ہوگيا تھا اور ان سے كارى ضربيں كھاچكے تھے اسى لئے ان كا وجود مدينہ كى حكومت كے لئے خطرہ بنا ہوا تھا كيونكہ سياسى عوامل سے قطع نظر اس خاص مذہبى حساسيت كے باعث بھى جو عيسائي

۲۹۳

سربراہوں كے دلوں ميں اسلام كے خلاف تھى شمالى سرحدوں پر ہميشہ ناامنى سايہ فگن تھي_

ان حالات ميں بقول پيغمبر اكرم (ص) ''فتنے وفسادات سياہ رات كى طرح يكے بعد ديگرے اسلامى معاشرے پر چھانے شروع ہوگئے ہيں''_(۲۱)

چنانچہ آنحضرت (ص) نے ان كے خاتمہ كيلئے بعض آخرى اور انتہائي اقداما ت بھى كئے _

رسول خدا (ص) نے ''يمن''اور'' يمامہ'' ميں اپنے گورنروں اور قبيلہ بنى اسد كے درميان موجود اپنے نمائندے كو حكم ديا كہ نبوت كے دعويداروں كى شورش كو دبا دیں، اس كے علاوہ يہ حكم بھى صادر فرمايا كہ''اسامہ بن زيد'' نامى اٹھارہ يا انيس(۲۲) سالہ سپہ سالار كى زير قيادت طاقتور سپاہ تيار كى جائے چنانچہ آنحضرت (ص) نے حضرت اسامہ كى تحويل ميں پرچم دينے كے بعد فرمايا كہ پورى امت مسلمہ كے ساتھ جس ميں مہاجر و انصار شامل ہوں بلاد روم ميں اپنے والد ''زيد بن حارثہ'' كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہوں(۲۳) _

حصرت اسامہ كے سپہ سالار مقرر كرنے كى وجہ ان كى مہارت ولياقت كے علاوہ يہ بھى ہوسكتى تھى كہ :

۱_يہ عمل آنحضرت (ص) كى جانب سے ان خرافات كے خلاف عملى جدو جہد تھى جو دور جاہليت سے بعض صحابہ كے ذہنوں ميں سمائي ہوئي تھيں كيونكہ ان كى نظر ميں كسى مقام ومرتبہ كے حصول كا معيار يہى تھا كہ صاحب جاہ ومرتبہ معمر شخص ہو اور كسى قبيلے كے سردار سے وابستہ شخص ہى اس كا حقدار ہوسكتا ہے_

۲_حضرت زيد ابن حارثہ كى شہادت چونكہ روميوں كے ہاتھوں ہوئي تھى اسى لئے ان كے دل ميں روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كا جوش وولولہ بہت زيادہ تھا، رسول خدا (ص) كى يہ كوشش تھى كہ ان كے اس جوش وولولے ميں مزيد شدت اورحدت پيدا ہو چنانچہ

۲۹۴

اسى وجہ سے جب آنحضرت (ص) نے سپہ سالار ى كى ذمہ دارى ان كو دى تو اس كے ساتھ يہ بھى ارشاد فرمايا كہ ''اپنے باپ كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہو ''_(۲۴)

۳_اگر اس وقت كے حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے سپاہ كى قيادت مہاجر و انصار ميں سے كسى معمر شخص كى تحويل ميں دے دى جاتى تو اس بات كا امكان تھا كہ وہ شخص اس عہدے سے سوء استفادہ كرتا اوراسى وجہ سے خود كو پيغمبر اكرم (ص) كا خليفہ و جانشين سمجھنے لگتا ليكن حضرت اسامہ كى يہ حيثيت نہيں تھى اور ان كے خليفہ بننے كا كوئي امكان بھى نہيں تھا_

حضرت اسامہ نے رسول خد ا(ص) كے حكم كے مطابق ''جُرْف''(۲۴) نامى مقام پر خيمے نصب كئے اور ديگر مسلمانوں كى آمد كا انتظار كرنے لگے_

رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں بالخصوص مہاجر و انصار كے سرداروں كو حضرت اسامہ كے لشكر ميں شامل كرنے كيلئے بہت زيادہ تاكيد اور اہتمام سے كام ليا اور جو لوگ اس اقدام كے مخالف تھے ان پر آنحضرت (ص) نے لعنت بھى بھيجي_(۲۶)

حضرت اسامہ كى عسكرى طاقت كو تقويت دينے كے علاوہ اس اہتمام كى ايك وجہ يہ بھى تھى كہ آنحضرت(ص) چاہتے تھے كہ وقت رحلت وہ لوگ مدينہ ميں موجود نہ رہيں جو امت ميں اختلاف پيدا كرنے اور منصب خلافت كے حصول كى فكر ميں ہيں تاكہ حضرت على (ع) كى قيادت و پيشوائي كے بارے ميں فرمان خدا و رسول (ص) جارى كئے جانے كيلئے راستہ ہموار رہے_(۲۷)

ليكن افسوس بعض مسلمانوں نے جنہيں رسول خدا(ص) مدينہ سے باہر بھيجنے كيلئے كوشاں تھے يہ بہانہ بناكر كہ حضرت اسامہ بہت كم عمر ہيں مخالفت شروع كردى اور ان كى خميہ گاہ كى

۲۹۵

جانب جانے سے انكار كرديا _(۲۸) نيز يہ ديكھ كر كہ رسول خدا (ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے حضرت اسامہ كے لشكر كو روم كى طرف جانے سے يہ كہہ كر روكنا چاہا(۲۹) كہ چونكہ اس وقت رسول خدا (ص) بہت عليل ہيں اسى لئے ان حالات كے تحت ہمارے دلوں ميں آپ (ص) سے جدائي كى تاب و طاقت نہيں_(۳۰)

رسول خدا (ص) كو منافقين كے اس رويے سے سخت تكليف پہنچى آپ (ص) طبيعت كى ناسازى كے باوجود مسجد ميں تشريف لے گئے اور مخالفت كرنے والوں سے فرمايا كہ : ''اسامہ كو سپہ سالار مقرر كئے جانے كے بارے ميں ميں يہ كيا سن رہاہوں ، اس سے پہلے جب ان كے باپ كو سپہ سالار مقرر كيا تھا تو اس وقت بھى تم طعن و تشنيع كر رہے تھے خدا گواہ ہے كہ وہ بھى لشكر كى سپہ سالارى كے لئے مناسب تھے اور اسامہ بھى اس قيادت كے اہل اور لائق ہيں''_(۳۱)

رسول خدا(ص) اس وقت بھى جب كہ صاحب فراش تھے تو ان لوگوں سے جو عيادت كيلئے آئے تھے مسلسل يہى فرماتے كہ ''انْفُذوْابَعْثَ اُسَامَةَ ''(۳۲) اسامہ كے لشكر كو تو روانہ كروليكن آنحضرت(ص) كى يہ سعى وكوشش بھى بے سود ثابت ہوئي كيونكہ صحابہ ميں جو سردار تھے انہوں نے اس قدر سستى اورسہل انگارى سے كام ليا كہ آنحضرت(ص) كى رحلت واقع ہوگئي اور سپاہ واپس مدينہ آگئي _

رسول خدا(ص) كى رحلت

رسول خدا(ص) كے مزاج كى ناسازى ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا علالت كے دوران آنحضرت (ص) بقيع كى جانب تشريف لے گئے اور جو لوگ وہاں ابدى نيند سو رہے تھے

۲۹۶

ان كى طلب مغفرت كے بعد حضرت على (ع) كى جانب رخ كيا اور فرمايا كہ جبرئيل سال ميں ايك مرتبہ مجھے قرآن پيش كرتے تھے ليكن اس مرتبہ انہوںنے دو مرتبہ پيش كيا اس كى وجہ اس كے علاوہ كچھ اور نہيں ہوسكتى كہ ميرى رحلت قريب ہے ، اس كے بعد آپ (ص) نے فرمايا كہ :

''اے على (ع) مجھے يہ اختيار ديا گيا ہے كہ دنيا كے خزانوں، اس كى جاويدانى زندگى اور بہشت كے درميان ميں سے كسى كا انتخاب كرلوں ميں نے ان ميں سے بہشت اور ديدار پروردگار كو چن لياہے''_(۳۳)

رسول خدا (ص) بسترعلالت پر فروكش اورانتہائي اشتياق كے ساتھ فرمان حق كا انتظار فرما رہے تھے ليكن يہ اشتياق آنحضرت (ص) كو امت كى ہدايت كے خيال اور اس كے درميان اختلاف كى وجہ سے فتنہ پيدا ہونیکے انديشے سے نہ روك سكا، صحابہ ميں سے بعض برگزيدہ حضرت آپ(ص) كى عيادت كيلئے حاضر ہوئے ان سے رسول خد ا(ص) نے يہى ارشاد فرمايا كہ : ''قلم ودوات لے آو تاكہ ميں تمہارے لئے ايسى چيز لكھ دوں جس سے تم كبھى گمراہ نہ ہو گے''_(۳۴) اس پر عمر نے كہا : رسول خدا (ص) پر مرض كا غلبہ ہے قرآن تو ہمارے پاس ہے ہى ہمارے لئے يہى كتاب اللہ كافى ہے ، حاضرين ميں سے بعض نے عمر كے نظريے سے اختلاف كيا اور بعض ان كى جانب دار ہوگئے ، رسول خدا(ص) كيلئے ان كى يہ جسارت و بے باكى سخت پريشانى خاطر كا باعث ہوئي جس پر آپ(ص) نے فرمايا كہ :'' ميرى نظروں سے دور ہوجائو''_(۳۵)

بعض صحابہ كى اعلانيہ مخالفت نے اگر چہ رسول خدا (ص) كو وصيت لكھنے سے باز ركھا ليكن آنحضرت (ص) نے اپنا مدعا دوسرے طريقے سے بيان كرديا اگر چہ مرض كاغلبہ تھا مگر دردو تكليف كے باوجود آنحضرت (ص) مسجد كى جانب روانہ ہوئے اور وہاں منبر پر تشريف فرما ہوكر

۲۹۷

آخرى مرتبہ لوگوں سے خطاب فرمايا جو آنحضرت (ص) كا آخرى خطبہ تھا آپ (ص) نے فرمايا كہ :

''اے لوگو ميں تمہارے درميان دو گرانبہا چيزيں چھوڑے جارہاہوں ، ان ميں سے ايك كلام اللہ ہے اور دوسرے ميرے اہل بيت ''_(۳۶)

بالآخر جد و جہد سے بھر پور تريسٹھ سالہ حيات طيّبہ كے بعد ۲۸ صفر بروز ہفتہ ۱۱ ہجرى كو اس سفير حق كى مقدس روح اس وقت جب كہ آنحضرت (ص) كا سر مبارك حضرت على (ع) كے گود ميں تھا عالم ملكوت كى جانب پرواز كرگئي _(۳۷)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے آپ (ص) كے جسد پاك كو غسل ديا اور كفن پہنايا _(۳۸)

اس كے بعد آپ (ص) كے چہرے مبارك سے كفن مبارك كى گرہوں كو كھول ديا اگر چہ آنكھوں سے آنسو جارى تھے مگر اسى حالت ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ :

''يا رسول اللہ (ص) ميرے ماں باپ آپ (ص) پر فدا ہوں ، آپ (ص) كى رحلت كے باعث نبوت ' وحى الہى اور آسمانى پيغامات كى آمد كا سلسلہ منقطع ہوا اگر چہ آپ(ص) نے ہميشہ ہميں صبر كى تلقين اور عجلت و بے تابى سے منع فرمايا مگر آج صبر وتحمل كا يارا نہيں اگر آپ(ص) نے ہميں صبر و تحمل كا حكم نہ ديا ہوتا تو ہم اتنا گريہ و زارى كرتے كہ آنكھوں كے آنسو ہى خشك ہوجاتے(۳۹)

اس كے بعد آپ (ع) نے نماز جنازہ پڑھائي ، حضرت على (ع) كے بعد صحابہ نے يكے بعد ديگرے كئي ٹولياںبنا كر جماعتوں كى صورت ميں نماز ادا كى اس كے بعد اسى حجرے ميں جہاں آنحضرت (ص) كى رحلت ہوئي اس جسد پاك كو سپرد خاك كرديا گيا_(۴۰)

خداوند ، ملائكہ اور كل مومنين كى طرف سے آپ (ص) پر اور خاندان رسالت(ص) پر لاكھوں درودسلام_

۲۹۸

سوالات

۱_حجة الوداع كس سال منعقد ہوا اس ميں كتنے لوگوں نے شركت كى اس كى كيا خصوصيات تھيں؟

۲_ رسول خدا(ص) نے حجة الوداع كے خطبات ميں كن باتوں كو تاكيد سے بيان كيا ؟

۳_سنہ ۱۰ ہجرى كے سياسى ' اجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے واضح كيجئے كہ رسول خدا(ص) نے جانشين مقرر كرنے كى ضرورت كيوں محسوس كى ؟

۴_''غدير خم'' كے مقام پر كيا اہم واقعہ رونما ہوا ، اس واقعے كى قرآن كى روسے كيا اہميت تھى ؟

۵_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث رسول خدا (ص) نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں حضرت اسامہ كے لشكر كو عسكرى اعتبار سے تقويت پہنچانے كى كوشش كى ؟

۶_ رسول خدا (ص) كو كس وجہ سے يہ اصرار تھا كہ حضرت اسامہ كا لشكر روم كى جانب روانہ ہوجائے؟

۷_بعض صحابہ نے كس وجہ سے رسول خدا (ص) كے فرمان كى اطاعت نہيں كى اور حضرت اسامہ كے لشكر ميں شريك ہونے سے انكار كرديا؟_

۸_ رسول خدا (ص) كى رحلت كس روز ہوئي؟ آپ (ص) كو كہاں دفن كيا گيا اور تجہيز و تكفين كے فرائض كس نے انجام ديئے؟

۲۹۹

حوالہ جات

۱_بعض مورخین نے لكھا ہے كہ جزيرہ نما ئے عرب ميں بت پرستى كا قلع قمع ہجرت كے دسويں سال كے وسط ميں ہوگيا تھا ، ملاحظہ ہو : فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۰۹_

۲_شايد اسى وجہ سے اسے''حَجَّةُ البُلاَغ'' كہا گيا ہے_

۳_سورہ حج آيت ۲۷ اس بناپر كہ اس آيت كے مخاطب رسول (ص) خدا ہوںملاحظہ ہو مجمع البيان ج ۷_۸ ص ۸۰_

۴_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۲۵۷_

۵_ يہ تعداد چاليس ہزار ، ستر ہزار نوے ہزار ' ايك لاكھ بيس ہزار اور ايك لاكھ چوبيس ہزار تك درج ہے اور يہ تعداد ان لوگوں كے علاوہ ہے جو رسول خدا (ص) كے ساتھ سفر ميں شامل ہوئے تھے اور ان ميں اہل مكہ بھى شامل نہيں ملاحظہ ہو: السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۲۵۷ و الغدير ج ۱ ص ۹_

۶_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۸۴ ، المغازى ج ۳ ص ۱۰۸۹ والارشاد ص ۹۱_

۷_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۹۱_

۸_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۸۹_ ۳۹۰_

۹_الغدير ج ۱ ص ۱۰_

۱۰_بحار الانوار ج ۱۲، ص ۳۹۱_ الارشاد ص ۹۲_

۱۱_ملاحظہ ہو : السيرة المصطفي(ص) ص ۶۸۸_ ۶۸۹_

۱۲_رسول خدا (ص) كے اس خطبے كے متعلق مزيد معلومات كےلئے ملاحظہ ہوں : بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۸۰ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۰۹_ ۱۱۲_

۱۳_السيرة النبويہ ج ۴ ص ۲۵۰_ ۲۵۱_

۱۴_آج ميں نے تمہارے لئے تمہارے دين كو مكمل كرديا ہے سورہ مائدہ آيت ۳_

۱۵_سورہ مائدہ آيت ۶۷_

۱۶_مَنْ كُنْتُ مُوْلَاهُ فَهذَا عَليٌ مَوْلاهُ اَللّهُمَّ وَآل مَنْ وَالَاهُ وَعَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَنْصُرُ مَنْ نَصَرُه وَاَخْذُلْ مَنْ خَذَلَه _

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430