خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات18%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 364641 / ڈاؤنلوڈ: 5376
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

نکتہ:

حضرت علیعليه‌السلام سے منقول گذشتہ روایت کو اگر صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی اس کی یہ توجیہ کرنی ہوگی کہ آپعليه‌السلام اپنے بارے میں نہیں بلکہ دوسروں کے متعلق مذکورہ جملہ ارشاد فرما رہے ہیں(۱) کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نہ مشرکوں سے ڈرنے والے تھے اور نہ ہی انہیں اپنی حفاظت کے لئے کسی پناہ گاہ کی ضرورت تھی _ انہیں جائے پناہ کی ضرورت کیونکر ہو سکتی تھی جبکہ بدر کے آدھے سے زیادہ مقتولین کو انہوں نے اکیلے ہی قتل کیا تھا اور باقی نصف کے قتل میں بھی شریک تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مذکورہ بات کی مثال ایسے سے جیسے کوئی یہ کہے کہ ہمارے شہر میں یہ چیز کھائی جاتی ہے ، یہ پہنی جاتی ہے یا ہم اس شہر میں فلاں چیز بناتے ہیں_ حالانکہ ہو سکتا ہے اس شخص نے کبھی بھی وہ چیز نہ کھائی ہو ، و ہ لباس نہ پہنا ہو یا وہ چیز نہ بنائی ہو_

جنگ کی ابتدائ:

جنگ کی ابتداء عتبہ ، شیبہ اور ولید نے دوبدو لڑائی کے لئے حریف طلب کرنے کے ساتھ کی ، جن کے جواب میں ادھر سے تین انصاری نکلے، لیکن انہوں نے ان سے کہا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ، ہم تم سے لڑنے نہیں آئے ہم تو قریش سے اپنا ہم پلہ حریف طلب کر رہے ہیں_ ان کی اس بات پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے انہیں واپس بلا لیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کی ابتداء اپنے رشتہ داروں سے کی کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار سے اس جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتے تھے(۲) _اور یہ کہہ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ بن حارث کو پکارا:'' عبیدہ چچا جان علیعليه‌السلام اٹھو اور ان سے اپنے اس حق کا مطالبہ کرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار دیا ہے ...''_

جب وہ رن میں گئے تو عتبہ نے ان سے حسب و نسب کے متعلق پوچھا تو سب نے اپنا تعارف کرایا اور شیبہ نے جناب حمزہ سے اس کا حسب نسب پوچھا تو اس نے کہا :'' میں عبدالمطلب کا سپوت اور خدا اور اس

____________________

۱) البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور بے جگری سے لڑائی کے بیان میں مبالغہ آرائی کی ہو کہ علیعليه‌السلام جیسا نڈر شیر بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پناہ ڈھونڈھ رہا تھا_ اس کی اردو میں مثال میرا نیس کا یہ مصرع ہے انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں (بلکہ پوری نظم)_

۲) تفسیر قمی ج ۱ ص ۶۶۴، بحار الانور ج ۱۹ ص ۳۱۳ و ص ۳۵۳ و سعد السعود ص ۱۰۲ _

۲۶۱

کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیر حمزہ ہوں'' _ اس پر شیبہ نے کہا: '' اے خدا کے شیر اب تمہارا سامنا حلفاء(۱) کے شیر سے ہے اب دیکھتے ہیں تم میں کتنا دم خم ہے''_

بہرحال ،حضرت علی علیہ السلام جب ولید کو قتل کرکے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ جناب حمزہ اور شیبہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہیں اور دونوں کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ٹوٹی ہوئی تلوار ہے _ یہ منظر دیکھ کر حضرت علیعليه‌السلام نے جناب حمزہ سے فرمایا:'' چچا جان اپنا سر نیچے کیجئے '' _ اور چونکہ جناب حمزہ طویل القامت تھے اس لئے انہیں اپنا سر شیبہ کے سینے میں گھسانا پڑا ، تو حضرت علیعليه‌السلام نے شیبہ کے سر پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا کہ اس کا آدھا حصہ ( بھیجا) اڑکر دور جاگرا _ ادھر عتبہ نے عبیدہ کی ٹانگ کاٹ دی تھی اور عبیدہ نے بھی اس کا سر پھوڑا ہوا تھا پھر حضرت علیعليه‌السلام نے آکر اس کا کام بھی تمام کردیا _ یوں حضرت علیعليه‌السلام تینوں کے قتل میں شریک ہوئے تھے_(۲) اور کتاب '' المقنع '' میں ہندہ جگر خوارہ کے مندرجہ ذیل اشعار بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام تینوں کے قتل میں حصہ دار تھے:_

ما کان لی عن عتبة من صبر

ابی ، و عمی و شقیق صدری

اخی الذی کان کضوء البدر

بهم کسرت یا علیعليه‌السلام ظهری(۳)

عتبہ کی جدائی پر مجھ سے صبر نہیں ہوسکتا _ اے علیعليه‌السلام تونے میرے باپ، چچا اور میرے جگر کے ٹکڑے اور چاند سے بھائی کو مار کرمیری کمر توڑ دی ہے_

____________________

۱) یہ زمانہ جاہلیت کے اس عہد کی طرف اشارہ ہے جس میں قریش کے چند خاندانوں اور قبیلوں نے خون میں ہاتھ رنگ کر ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کا اعلان اور عہد کیا تھا_ اسے حلف لعقة دم کہا جاتا تھا ، معاہدے کے فریقوں کو حلیف اور سب کو حلفاء یا احلاف کہا جاتا تھا _ حضرت علیعليه‌السلام نے بھی نہج البلاغہ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے _مترجم_ (۲) ملاحظہ ہو : المناقب ج ۳ ص ۱۱۹ از الاغانی و غیرہ ..._

۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۳ ص ۲۸۳ ب، العثمانیہ ، قسم نقوض الاسکا فی ص ۴۳۲ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۲ و المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۱_

۲۶۲

اسی طرح سید حمیری مرحوم نے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ثنامیں مندرجہ ذیل شعر کہے ہیں:_

و له ببدر وقعة مشهوره

کانت علی اهل الشقاء دماراً

فا ذاق شیبة و الولید منیة

اذ صبحاه جحفلاً جراراً

و اذاق عتبة مثلها اهوی لها

عضباً صقیلاً مرهفاً تیاراً(۱)

حضرت علی علیہ السلام نے بدر میں مشہور و معروف کارنامہ سرانجام دیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دن ان بدبختوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا _ جب دن کو بہت بڑے لشکر سے آپعليه‌السلام کا سامنا ہوا تو آپعليه‌السلام نے شیبہ اور ولید اور اسی طرح عتبہ کو بھی اپنی تیز ، آبدار اور کاٹ دار تلوار سے موت کا جام پلایا_ نیز حسان بن ثابت کے اشعار کے جواب میں قبیلہ بنی عامرکے کسی شخص نے مندرجہ ذیل اشعار کہے جو ہمارے مدعا کی تائید کرتے ہیں:_

ببدر خرجتم للبراز فردکم

شیوخ قریش جهرة و تاخروا

فلما اتاهم حمزة و عبیدة

و جاء علی بالمهند یخطر

فقالوا نعم اکفاء صدق فاقبلوا

الیها سراعاً اذ بغوا و تجبروا

فجال علی جولة ها شمیة

فدمرهم لما بغو ا و تکبروا(۲)

بدر میں تم لوگ لڑنے نکلے تو قریش کے سرداروں نے کھلم کھلاتمہیں واپس پلٹا دیا اور تم سے جنگ گوارا نہیں کیا اور دوسرے جنگجوؤں کے منتظر ہوئے_ پھر جب حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ

____________________

۱) دیوان سید حمیری ص ۲۱۵ و الماقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۲_ (۲) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۹ و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۹۱_

۲۶۳

کاٹ کار تلواریں لہراتے ہوئے نکلے تو انہوں نے مطمئن ہو کر کہا کہ ہاں یہ بالکل ہمارے ہم پلّہ ہیں_ اور جب انہوں نے تکبّر کےساتھ انہیں للکارا تو وہ جلدی سے جنگ میں کود پڑے اور جب انہوں نے تکبر اور سرکشی دکھانی شروع کردی تو حضرت علیعليه‌السلام کا ہاشمی خون جوش میں آیا اور انہوں نے اُن سب کونیست و نابود کر کے رکھ دیا_

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کو ایک خط میں لکھا:''بالکل میں ہی ابوالحسن تمہارے دادا عتبہ ، چچا شیبہ ، ماموں ولید اور بھائی حنظلہ کا قاتل ہوں _ ان کا خون خدا نے ہی میرے ہاتھوں بہا یا تھا _ اب بھی میرے پاس وہی تلوار ہے اور میں نے اسی رعب و دبدبے اور جوش سے اپنے دشمنوں کو پچھاڑ اتھا''(۱) _

تینوں جنگجوؤں کے قتل کے بعد

اس کے بعد حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت حمزہ جناب عبیدہ بن حارث کو اٹھا کر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں لے آئے تو اس نے آنسو بہاتے ہوئے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا میں شہید نہیں ہوں؟'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''بالکل تم تو میرے اہل بیت کے سب سے پہلے شہید ہو''_ ( یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عنقریب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت سے شہیدوں کا تانتا بندھ جائے گا _ اور ہوا بھی یہی) _ پھر اس نے کہا : '' اگر اس وقت آپعليه‌السلام کے چچا بزرگوار زندہ ہوتے اور اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھتے تو یہ جان لیتے کہ ہم ان کی باتوں سے بہر حال بہترہیں''_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا :'' تم کس چچا کی بات کر رہے ہو ؟ ''_ اس نے کہا :'' ابوطالب کی ، کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ :

کذبتم و بیت الله یبزی محمد

و لما نطا عن دونه و نناظل

و نسلمه حتی نصرع دونه

و نذهل عن ابنائنا و الحلائل

____________________

۱) الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۴۳۵ ، شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ ج ۳ ص ۱۳ و الغدیر ج ۱۰ ص ۱۵۱_

۲۶۴

(قریشیو) خدا کی قسم تم یہ جھوٹ کہتے ہو کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک تر لقمہ ہے _ کیونکہ ہم اس کی حمایت میں تیروں تلواروں اور نیزوں سے تم سے سخت جنگ کریں گے اور اپنے بیوی ، بچوں کو بھی اس پر قربان کردیں گے اور تم ہماری لاشوں سے گذر کر ہی اس تک پہنچ سکوگے ( یعنی وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت ابوطالب نے صرف باتیں کی تھیں لیکن ہم عمل کرکے دکھا رہے ہیں _ از مترجم )''_ اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا :'' کیاتم یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس کا ایک بیٹا خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کے سامنے بپھرے ہوئے شیر کی طرح چوکس کھڑا ہے اور دوسرا بیٹا حبشہ کی سرزمین میں خدا کی راہ میں جہاد میں مصروف ہے؟ '' _ اس نے عرض کیا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حالت میں بھی مجھے ڈانٹ رہے ہیں؟ '' _ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' میں تم پر ناراض نہیں ہو الیکن تم نے میرے پیارے چچا کا نام لیا تو مجھے اس کی یاد ستانے لگی ''(۱) _

اس روایت کے آخری حصے کو چھوڑ کر بہت سے مؤرخین نے اس روایت کو نقل کیا ہے _ مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آیت ان چھ مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی( هذان خصمان اختصموا فی ربهم فالذین کفروا قطعت لهم ثیاب من نار ) ترجمہ : '' یہ دونوں متحارب (گروہ ) اپنے اپنے رب کی خاطر لڑ رہے تھے اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ کے کپڑے تیار ہو چکے ہیں''_ اور بخاری میں مذکور ہے کہ ابوذر قسم اٹھا کر کہتا تھا کہ یہ آیت انہی مذکورہ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۲) _نیز حضرت علیعليه‌السلام ،جناب حمزہ اور عبیدہ کے بارے میں یہ آیت بھی نازل ہوئی( من المومنین رجال صدقوا

____________________

۱) تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۶۵، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۵۵ البتہ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۸۰ میں ہے کہ اس دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے عبیدہ اور ابوطالبعليه‌السلام دونوں کے لئے مغفرت طلب فرمائی _ نیز الغدیر ج ۷ ص ۳۱۶ _ لیکن نسب قریش مصعب زبیری ص ۹۴ میں یوں آیا ہے کہ عبیدہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا : '' یا رسول اللہ کاش ابوطالب آج زندہ ہوتے تو اپنے ان اشعار کا مصداق اور تعبیر دیکھ لیتے ...''_ بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ عبیدہ کے ادب اور اخلاص سے یہی بات زیادہ سازگار ہے _ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ گذشتہ بات بھی اس کے ادب اور خلوص کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی راہ میں جان قربان کئے ہوئے دیکھ رہا تھا، اس بنا پر اس کی مذکورہ بات میں کوئی حرج نہیں تھا _(۲) بخاری مطبوعہ میمینہ ج ۳ ص ۴ ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۸ از مسلم البتہ ابوذر کی قسم کے بغیر ، مستدرک حاکم ج ۲ ص ۳۸۶ اور اسی نے اور ذہبی نے اس کی تخلیص میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، الغدیر ج ۷ ص ۲۰۲از تفسیر ابن کثیر ج۳ ص ۲۱۲ ، تفسیر ابن جزی ج ۳ ص ۳۸ ، تفسیر خازن ج ۳ ص ۶۹۸ ، تفسیر قرطبی ج ۲ ص ۲۵_ ۲۶ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۵۵۰ و طبقات ابن سعد ص ۵۱۸ اور ابن عباس ، ابن خیثم ، قیس بن عباد ، ثوری ، اعمش ، سعید بن جبیر اور عطاء سے بھی یہی منقول ہے_

۲۶۵

ما عاهدوا الله علیه ) ترجمہ : '' مومنوں میں کئی ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے خدا سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر دکھایا(۱) _البتہ یہ بھی منقول ہے کہ یہ آیت فقط حضرت علی علیہ السلام کے حق میں اتری(۲) _ اس کے علاوہ جنگ بدر میں حضرت علی علیہ السلام کی تعریف میں کئی اور آیات بھی نازل ہوئیںجنہیں آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں(۳) _

اس واقعہ کی روشنی میں ہم مندرجہ ذیل چند عرائض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف: حضرت ابوطالبعليه‌السلام کے حق میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ:

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنے مہذب اور محدود پیمانے پر اپنے چچا کے ناروا ذکر پر غصہ ہوسکتے ہیں تو خود ہی سوچئے کہ جناب ابوطالب پر کفر اور شرک کا ناروا الزام لگانے اور انہیں خدا کی بھڑکتی ہوئی آگ میں دردناک عذاب کے مستحق ٹھہرانے پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا موقف اور ردّ عمل ہوگا؟ کیا آپ لوگوں کے خیال میں اس بات سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خوش ہوں گے؟ ہرگز نہیں_ حالانکہ یہ بے بنیاد باتیں سیاست کی ابجد سے بھی ناواقف افراد کی طرف سے صرف سیاسی مقاصد کے لئے گھڑی گئیں_

ب: اپنے رشتہ داروں سے آنحضرتعليه‌السلام کی جنگ کی ابتدائ:

یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی انصار کے تین جنگجوؤں کو واپس بلا کر حضرت علیعليه‌السلام ، حمزہ اور عبیدہ بن حارث کو رن میں جاکر سب سے پہلے دشمن کا سامنا کرنے کا حکم دیا(۴) _ اور یہ تینوں شخصیات

____________________

۱) الصواعق المحرقہ ص ۸۰_ (۲) المناقب خوارزمی ص ۱۸۸ و الکفایة خطیب ص ۱۲۲_

۳) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۱۸ و دیگر کتب_

۴) البتہ امالی سید مرتضی ج ۱ ص ۲۷۵ ، اعلام الوری ص ۳۰۸، بحار الانوارج ۴۸ ص ۱۴۴ اور المناقب ابن شہر آشوب ج ۴ ص ۳۱۶ میں ایک روایت مذکور ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے نفیع انصار ی سے فرمایا :'' اور اگر تم عزت اور فخر میں مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو یہ سن لو کہ خدا کی قسم ہمارے قبیلے کے مشرکوں نے تمہاری قوم کے مسلمانوں کو اپنا ہم پلّہ نہ سمجھتے ہوئے ان سے جنگ نہیں کیا بلکہ انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ اے محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش سے ہمارے ہم پلّہ جنگجوؤں کو ہمارے مقابلے میں بھیج'' _ لیکن میرے خیال میں دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مشرکین بھی ان سے جنگ کے لئے راضی نہ ہوں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھی انہیں رن میں بھیجنے کا دل نہ ہو_

۲۶۶

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ دار ہیں _ اور حضرت علی علیہ السلام نے بھی حضرت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے متعلق فرمایا: '' جب جنگ چھڑ جاتی تھی اور دوبدو لڑائی کے لئے حریف طلب کئے جاتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے رشتہ داروں کو آگے کر کے اپنے صحابہ کو بچالیتے تھے _ جس کی وجہ سے عبیدہ جنگ بدر میں ، حمزہ جنگ اُحد میں اور جعفر جنگ مؤتہ میں ماراگیا ...''(۱) _

یہاں ہم یہ کہنے ہیں حق بجانب ہیں کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگوں کی ابتداء اپنے رشتہ داروں سے کرتے ہیں تو اس بات سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہاجرین و انصار کونہ صرف زبانی کلامی بلکہ عملی طور پر یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اپنے مقاصد تک پہنچنے اور اپنی ذات اور اپنے رشتہ داروں سے خطرات کوٹا لنے کا ذریعہ ( یعنی صرف قربانی کا بکرا) نہیں بناناچاہتے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیش نظر ایسے اعلی مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے سب کو شریک ہونا پڑے گا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی خوشی ، غمی ، سختی ، آسانی ، دکھ اور سکھ تمام حالات میں ان کے ساتھ برابر کے شریک تھے_ اور دوسروں سے جان کی قربانی طلب کرنے سے پہلے خود قربانی پیش کرتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جتنا بھی ہوسکتا تھا دوسروں کو خطرات سے نکالنے کی کوشش کرتے تھے، چاہے اس کے بدلے میں اپنے ہی رشتہ داروں کو خطرات میں جھونک دینا پڑتا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جھونک دیتے_

اور یہ ایسی بات ہے جسے ہر اعلی مقصد رکھنے والے شخص ، سیاست دان اور ہر لیڈر کے لئے بہترین نمونہ عمل ہونا چاہئے_ اسے چاہئے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے خود قربانی پیش کرے ، پھر اگر اسے دوسروں کی قربانیوں کی ضرورت پڑی تو اس کے پاس قربانی طلب کرنے کا جواز ہوگا اور ہر کوئی یہ کہے گا کہ وہ اپنے مطالبے میں سچا اور حق بجانب ہے_ اور اسے عملی طور پر اپنے اغراض و مقاصد کی طرف بڑھنے کی بجائے مضبوط قلعوں میں بیٹھ کر صرف دوسروں کو زبانی کلامی احکام صادر کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو اس ہدف کی طرف پیش قدمی کرنے والوں سے مستثنی سمجھ کر دوسروں پر صرف حکم

____________________

۱) انساب الاشراف ج ۲ ص ۸۱ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۵ ص ۷۷ ، کتاب صفین مزاحم ص ۹۰ ، نہج البلاغہ حصہ خطوط خط نمبر ۹ ، العقد الفرید ج ۴ ص ۳۳۶، المناقب خوارزمی ص ۱۷۶ و نہج البلاغہ ج ۳ ص ۱۰ و ص ۱۱_

۲۶۷

چلانے پر اسے اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے بھی دوسروں کے شانہ بشانہ اپنے مقصد کی طرف بڑھنا چاہئے بلکہ اسے دوسروں سے آگے آگے ہونا چاہئے کیونکہ ہدف چاہے کتنا ہی بلند ، اعلی اور مقدس ہولیکن پھر بھی اس کی جانب پیش قدمی پر اکسا نے اور ابھارنے کے لئے صرف باتوں کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی خاطر خواہ نتیجہ نکلتا ہے بلکہ اس کے ساتھ عمل کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے_

ج : شیبہ کا توہین آمیز رویہ:

ہم نے وہاں یہ بھی مشاہدہ کیا کہ حضرت حمزہ کے اپنے آپ کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے شیر کہنے پر شیبہ نے ان کا کس طرح مذاق اڑایا اور اپنے '' حلفائ''کے شیر ہونے پروہ کس طرح اکڑ رہا تھا _ حالانکہ انصاف کا تقاضا اور حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے_ ان حلفاء کے خاص مفاد اور قبائلی طرز تفکر پر مبنی حلف کے بعض پست اور بے وقعت اہداف و مقاصد پر ہم پہلے روشنی ڈال چکے ہیں_ انہی مقاصد کے حصول کے لئے وہ بدر جیسی جنگیں لڑ رہے تھے_ اور ہم سب کو معلوم ہے بلکہ ان مشرکوں کو بھی معلوم تھا کہ خدا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور شیر خدا کے روئے زمین پر قربانی دینے کا مقصد صرف اور صرف دنیا اور آخرت میں انسانیت کی نجات ، بھلائی اور کامیابی ہے_

د: خدا کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے والا حق:

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کو نسا حق تھا جس کی طرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام ، حضرت حمزہ اور جناب عبیدہ کو جنگ کا حکم دیتے ہوئے یوں اشارہ فرمایا تھا :'' ان سے اپنے اس حق کا مطالبہ کرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار دیا ہے''_ کیا یہ وہی عقیدے اور فکر کی آزادی کا حق نہیں تھا؟ اور کیا یہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والے، انہیں اپنے ہی گھروں سے نکال باہر کرنے والے اور ان کا مال لوٹنے والے بلکہ کئی مسلمانوں کو قتل کرنے والے اور ان سب پربد ترین زیادتیوں کے مرتکب ہونے والے قریشیوں اور ان کے حملے کے مقابلے میں دین الہی اور اپنی ذات کے دفاع کا حق نہیں تھا؟

۲۶۸

خلاصہ کلام : یہ کہ مسلمان آزاد زندگی گذارنا چاہتے تھے اور منحرفوں اور ظالموں کے مقابلے میںدین الہی کا دفاع کرنا چاہتے تھے _ اور مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر ظلم اور زیادتی کرنے والے سے انصاف کا مطالبہ کرے_ خاص کر جب حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی کریم نے ان مشرکین کے سامنے وہ مذکورہ پیشکش رکھی تھی لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھول کر بھی باز نہیں آئے بلکہ وہ پھونکوں سے چراغ الہی کو بجھانے ، مسلمانوں سے جنگ کرنے اور انہیں نیچاد کھانے پر بضدر ہے ، اسی لئے خداوند عالم کو یہ کہنا پڑا( اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا و ا ن الله علی نصرهم لقدیر الذین اخرجوا من دیارهم بغیر حق الّا ان یقولوا ربنا الله ) (۱)

جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے

جب ابوجہل نے عتبہ ، شیبہ اور ولید کو قتل ہوتے دیکھا تو حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگا : '' ربیعہ کے بیٹوں کی طرح جلد بازی اور تکبر نہ کرو _ ایسا کرو کہ یثرب والوں ( یعنی انصاریوں ) پر حملہ کر کے ان سب کو گا جرمولی کی طرح کاٹ کر رکھ دو اور قریشیوں کو اچھی طرح کس کر قید کر لو تا کہ انہیں مکہ لے جا کر ان سے اچھی طرح پوچھ گچھ کریں کہ وہ کس گمراہی پر تھے ''_

اور ابن عباس اس آیت( و ما رمیت اذ رمیت و لکن الله رمی ) کے متعلق کہتا ہے کہ حضرت جبرائیلعليه‌السلام کے کہنے پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو حکم دیا:'' مجھے مٹھی بھر کنکریاں اٹھا کردو '' _ حضرت علیعليه‌السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مٹھی بھر چھوٹے سنگریزے اٹھا کردیئے ایک روایت کے مطابق وہ مٹی سے بھی اٹے ہوئے تھے ) _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کنکریاں لے کر مشرکوں کے چہروںکی طرف (شاہت الوجوہ کہہ کر) پھینک دیں تو تمام مشرکوں کی آنکھیں کنکریوں سے بھرگئیں _ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ کنکریاں ان کی آنکھوں کے علاوہ ان کے منہ اور ناک کے نتھنوں میں بھی جا پڑیں _ پھر تو مسلمانوں نے انہیں یکے بعد دیگرے قتل یا قید کرنا شروع کردیا(۲) البتہ یہاں ابن عباس کا کام فقط مذکورہ آیت کو اس معجزاتی عمل سے مطابقت دینا تھا_

____________________

۱) حج / ۳۹و ۴۰_ (۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۲۹ از تفسیر ثعلبی ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۹ نیز ملاحظہ ہو سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۷_

۲۶۹

جنگ بدر میں فرشتوں کا کردار

علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ خدا نے جب فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجا توکیا وہ صرف مسلمانوں کی ڈھارس بندھانے اور بزدلی دور کرنے کے لئے آئے تھے یا انہوں نے خود بھی جنگ میں حصہ لیا تھا؟_ البتہ قرآن مجید کی یہ آیت اس دوسرے نظریئےو رد کرتی ہے( وما جعله الّا بشری و لتطمئن به قلوبکم ) (۱) ترجمہ : '' اور خدا نے فرشتوں کو صرف کامیابی کی خوشخبری دے کر بھیجا تا کہ اس طریقے سے تمہارے دل مطمئن ہوں '' _ لیکن چند ایک دیگر آیتیں ان کے جنگ میں شریک ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں _ سورہ انفال کی یہ بار ہویں آیت بھی ان میں سے ہے _( اذ یوحی ربک الی الملائکه انی معکم فثبتو االذین آمنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب ، فاضربوا فوق الاعناق و اضربوا منهم کل بنان ) ترجمہ : ( یاد کرو اس وقت کو ) جب تمہارے ربّ نے فرشتوں کو یہ وحی کی کہ (مسلمانوں کو جا کر خوشخبری دوکہ گھبراؤ نہیں) میں تمہارے ساتھ ہی ہوں اور مؤمنوں کو ثابت قدم رکھو _ میں عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوںگا _ تو جا کر ان کے پس گردن بلکہ ہر طرف سے وار کرو '' _ البتہ یہ اشارہ اس صورت میں قابل قبول ہوگا جب آیت میں (فاضربوا ...) کے مخاطب فرشتے ہوں ، جس طرح کہ آیت سے بھی بظاہر یہی لگتا ہے _ لیکن اگر اس آیت میں مخاطب مسلمان جنگجو ہوں تو پھر اس آیت میں بھی فرشتوں کے جنگ کرنے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ہوگا _

بہر حال صورتحال جو بھی ہو ، ایک بات مسلم ہے کہ تمام فرشتے حضرت علی علیہ السلام کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے(۲) اور ہوسکتا ہے کہ وہ کافروں کی نظر میں مسلمانوں کی تعدا د زیادہ دکھانے کا سبب بنے ہوں

____________________

۱) انفال / ۱۵ _

۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۸۵ از المناقب ، لیکن دیگر مؤرخین سے مروی ہے کہ وہ فرشتے زبیر کی شکل و صورت میں نازل ہوئے _ کیونکہ زبیر کے سر پر زرد عمامہ (پگڑی ) تھا اور ملائکہ بھی سر پر زرد عمامے باندھے ان پر نازل ہوئے _ اس بارے میں ملاحظہ ہو: مستدرک حاکم ج ۳ ص ۳۶۱ ، حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۸۶ از مستدرک و کنز العمال ص ۲۶۸ از طبرانی و ابن عساکر و مجمع الزوائد ج ۶ ص ۸۴ لیکن مذکورہ بات کی نفی دلائل النبوہ ابو نعیم ص ۱۷۰ و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۸۶ میں مذکور وہ روایتیں کرتی ہیں جن میں آیا ہے کہ جنگ بدر کے دن ملائکہ سر پر سفید عمامہ باندھے نازل ہوئے تھے _

۲۷۰

کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے( و یکثر کم فی اعینهم ) '' اور خدا نے ان کی آنکھوں میں تمہیں کثیر جلوہ گر کیا ''_

جنگ جمل میں بی بی عائشہ کا کردار

اسی مناسبت سے ہم یہاں یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ ( آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نقل کرتے ہوئے ) جنگ جمل میں بی بی عائشہ نے بھی کہا تھا کہ مجھے مٹھی بھر مٹی چاہئے _ جب اسے مٹی فراہم کی گئی تو بدروالوں کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سلوک کی طرح اس نے بھی حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرف رخ کر کے اس پر پھونک مارتے ہوئے کہا : '' شاہت الوجوہ '' (چہرے بگڑ جائیں ) _ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :( و ما رمیت از رمیت و لکن الشیطان رمی و لیعودن و بالک علیک ان شاء الله ) ( شیطان نے تمہارے ذریعہ یہ مٹی پھینکی ہے _ اس کا برا انجام بھی انشاء اللہ تمہاری ہی گردن پکڑے گا)(۱) _

اسی طرح جب بی بی عائشہ نے حضرت علی علیہ السلام کو جنگ جمل میں اپنی فوج کی صفوں میں ایسے چکر لگاتے ہوئے دیکھا جیسے جنگ بدر میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنی فوج کی صفوں کی نگرانی کر رہے تھے ، تواس نے کہا : ''اسے دیکھو تو سہی مجھے تو لگتا ہے کہ وہ تم پر کامیابی کے لئے دوپہر کے وقت سورج کے زوال کا انتظار کر رہا ہے ''(۲) اور ہوا بھی ایسے ہی ، نیز اس موقع پر بھی امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام نے بالکل سچ فرمایا تھا_

شکست اور ذلت

بہر حال خدا نے مشرکین کو بہت بری طرح شکست سے دوچار کیا _ اس جنگ میں ابوجہل بھی ماراگیا _

____________________

۱) کتاب الجمل شیخ مفید ص ۱۸۶ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱ ص ۲۵۷ نیز ملاحظہ ہو الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۳۲۵_

۲) الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۲۱۴ _ یہاں بدر اور جمل کے واقعات اور شخصیتوں کے کردار و گفتار کی عینی یا عکسی مشابہت بھی نہایت حیرت انگیر ہے البتہ یہاں تفصیل کی گنجائشے بالکل نہیں ہے لیکن ذہین قارئین سے بھی پوشیدہ نہیں ہے _ مترجم

۲۷۱

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اسے پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ خدا اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے کمزور صحابی کے ہاتھوں مارے گا _ بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وقوعہ سے پہلے ہی اسے جنگ بدر کا سارا واقعہ بتا دیا تھا(۱) _ تو اسے ایک انصاری نے قتل کردیا تھا پھر ابن مسعود نے آکر اس کا سر کاٹ دیا تھا_ یہ بھی منقول ہے کہ ابن مسعودنے اسے آخری سانسوں میں پایا تو اس نے آکر اس کا کام تمام کردیا _ لیکن پہلی بات حقیقت سے قریب ترہے اس لئے کہ اس کا سامان ابن مسعود کے علاوہ کسی اور نے غنیمت کے طور پر لوٹا تھا _

جنگ بدر کا سب سے پہلا بھگوڑا ابلیس ملعون تھا _ کیونکہ روایات کے مطابق وہ مشرکین کو قبیلہ بنی کنانہ کے ایک بزرگ سراقہ بن مالک مدلجی کی شکل میں دکھائی دیتا تھا _ اور وہ اس لئے کہ قریش قبیلہ بنی بکر بن عبد مناف کو کسی خونی معاملے کی وجہ سے اپنے ساتھ ملانے سے ڈرتے تھے جس کی وجہ سے ابلیس قریشیوں کو سراقہ کی شکل میں نظر آیا اور انہیں مطلوبہ ضمانت فراہم کی اور وہ سب ساتھ ہولئے _ لیکن جب اس نے مشرکین کی حالت زار دیکھی اور مسلمانوں کی مدد کو آئے ہوئے ملائکہ کو بھی مشاہدہ کیا تو وہ اس کام سے پیچھے ہٹ گیا جس کی وجہ سے مشرکین شکست کھا گئے تو مکہ والے یہ کہنے لگے کہ سراقہ بھاگ گیا _ لیکن ( اصلی ) سراقہ نے کہا : '' مجھے تو تمہارے جانے کا بھی اس وقت پتہ چلا جب تمہاری شکست کی خبر مجھے ملی '' _ پھر انہیں مسلمان ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو شیطان تھا _

یہ بھی مروی ہے کہ جب ابوسفیان نے قافلہ کو مکہ پہنچادیا تو خود واپس پلٹ آیا اور قریش کی فوج کے ساتھ مل کر بدر کے میدان تک آیا _ اور اس جنگ میں اسے بھی کئی زخم لگے اور وہ واپس بھاگتے ہوئے گھوڑے سے گرپڑا اور پھر پیدل ہی مکہ جاپہنچا(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۶۷ از الاحتجاج و حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے منسوب تفسیر ص ۱۱۸ و ص۱۱۹

۲) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵_

۲۷۲

دوسری فصل:

جنگ کے نتائج

۲۷۳

جنگ کے نتائج :

جنگ بدر میں مشرکین کے ستر آدمی مارے گئے اور اتنے ہی قید کرلئے گئے _ البتہ یہ بھی منقول ہے کہ پینتالیس آدمی قتل اور اتنے ہی قیدی ہوئے _ لیکن ہوسکتا ہے اس دوسرے نظریئےی بنیاد بعض مؤرخین کی یہ بات ہو کہ مذکورہ مقدار میں یا اس سے زیادہ مشرکین قتل ہوگئے _ جس سے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ان کے مقتولین اور قیدیوں کی آخری تعداد ہے _ لیکن مذکورہ بات اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ مقتول مشرکین کی کل تعداد اتنی تھی بلکہ صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ راوی کو اتنی تعداد کا علم ہوسکا ہے _

لیکن مسلمانوں کے شہدا کے متعلق مختلف نظریات ذکر ہوئے ہیں _ نو بھی مذکور ہے ، گیارہ بھی اور چودہ شہیدوں کا نظریہ بھی ہے کہ جس میں سے چھ مہاجر تھے اور آٹھ انصاری _ البتہ قید کوئی نہیں ہوا تھا _ جبکہ مال غنیمت میں مشرکین کے اڑھائی سو اونٹ ، دس گھوڑے ( البتہ ابن اثیر کے مطابق تیس گھوڑے ) اور بہت زیادہ ساز و سامان ، اسلحے ، چمڑے کے بچھونے ، کپڑے اور چمڑے مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے(۱) _

حضرت علی علیہ السلام کے کارنامے:

مشرکین کے اکثر مقتولین ، مہاجرین بالخصوص آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ داروں اور خاص کر خود حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے تھے_ اور اس دن کافروں کو بہت بڑی مصیبت ، اور شکست دینے کی وجہ سے کافروں نے آپعليه‌السلام کو '' الموت الاحمر'' ( سرخ موت ) کا نام دیا(۲) _

____________________

۱) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۰۲ و ۱۰۳ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۸ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۸۳_

۲) المناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۶۸_

۲۷۴

اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ شبعی ہمیں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ '' پورے عرب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ علیعليه‌السلام سب سے زیادہ بہادر شخصیت تھے''(۱) _ اور گذشتہ فصل میں '' جنگ کی ابتدا'' کے تحت عنوان حسان بن ثابت کے اشعار کے جواب میں قبیلہ بنی عامر کے ایک آدمی کے اشعار اور اپنے مقتولین کے مرثیہ میں ہندہ کے اشعار بھی اس بارے میں ذکر ہوچکے ہیں _

نیز مشرکین قریش کو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف بھڑکاتے ہوئے اسید بن ابی ایاس نے مندرجہ ذیل اشعار کہے:

فی کل مجمع غایة اخزاکم

جذع ابرعلی المذاکی القرح

لله درکم المّا تنکروا

قد ینکر الحر الکریم و یستحی

هذا ابن فاطمة الذی افناکم

ذبحاً و قتلاً قعصة لم یذبح

اعطوه خرجاً و اتقوا تضریبه

فعل الذلیل وبیعة لم تربح

این الکهول و این کل دعامة

فی المعضلات و این زین الابطح

افناهم قعصاً و ضرباً یفتری

بالسیف یعمل حده لم یصفح(۲)

____________________

۱) نور القبس ص ۲۴۹_

۲) اسد الغابہ ج ۴ ص ۲۰ و ۲۱ ، زندگی امام علیعليه‌السلام در تاریخ دمشق باتحقیق محمودی ج ۱ ص ۱۵ ، ارشادمفید ص ۴۷ ، المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۱ ، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۸۲ ، انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۱۸۸ و تیسیر المطالب ص ۵۰ _

۲۷۵

ہر ٹکراؤ پر آخر کار اس نے تمہیں خوار کیا _ سوئی کی طرح کا ایک لاغر آدمی اچھے بھلے شہ زوروں پر غالب آرہا ہے _ تمہیں خدا کا واسطہ بتاؤ کیا اب بھی تمہیں شرمندگی محسوس نہیں ہوئی؟ حالانکہ ان باتوں سے تو کسی بھی شریف آزاد خیال آدمی کو بھی شرمندگی اور پچھتا وا ہوسکتا ہے _ یہ فاطمہ ( بنت اسد ) کا چھوکرا تمہیں گا جرمولی کی طرح کاٹ کاٹ کر نیست و نابود کرتا جارہا ہے _ اس کے تند و تیز مہلک وار سے بچ بچا کر اسے اپنے اس پست کام اور بے فائدہ بیعت کا مزاچکھاؤ _ کہاں ہیں وہ بزرگ ، کہاں ہیں مشکلات میں وہ پناہ گا ہیں اور کہاں ہیں مکہ اور بطحاء کے سپوت _ علیعليه‌السلام نے ہی انہیں فوری موت کا مزہ چکھایا ہے _ اس نے تلوار کے ایک ہی وار سے ان کا کام تمام کردیا ہے _ وہ اکیلے ہی یہ کام کررہا ہے اور کسی کو معاف بھی نہیں کر رہا _

وہ علیعليه‌السلام کو سرخ موت کیوں نہ کہتے ؟ جبکہ بعض روایات کے مطابق جنگ بدر میں ہی جبرائیلعليه‌السلام نے آسمان اور زمین کے درمیان آکر ندادی :

(لافتی الّا علی لا سیف الّا ذوالفقار )

( جوان ہے تو صرف علیعليه‌السلام ہے اور تلوار بھی ہے تو صرف ذوالفقار ہی ہے )

البتہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبرائیل نے یہ صدا جنگ احد میں لگائی تھی _ انشاء اللہ اس بارے میں مزید بات بعد میں ہوگی _ بہر حال مشرکین کے ستر مقتولین میں سے آدھے کو حضرت علیعليه‌السلام نے بذات خود اکیلے ہی واصل جہنم کیا تھا اور باقی نصف کے قتل میں بھی شریک رہے تھے(۱) _ اور شیخ مفید نے تو حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے چھتیس مشرکین کا نام بھی ذکر کیا ہے(۲) _ ابن اسحاق کہتا ہے کہ جنگ بدر میںاکثرمشرکین کو حضرت علی علیہ السلام نے ہی قتل کیا تھا(۳) _ طبرسی اور قمی کہتے ہیں کہ آپعليه‌السلام نے ستائیس

____________________

۱) ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج ۲ ص ۳۵۳ کے ضمن میں نہج الحق _ اور اس بات پر فضل ابن روز بہان جیسے متعصب نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا _

۲) الارشاد ص ۴۳ و ۴۴ ، بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۷۷ و ۳۱۶از الارشاد و اعلام الوری ص ۷۷_

۳) المناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص ۱۲۰ و بحارالانوار ج ۱۹ص ۲۹۱

۲۷۶

مشرکوں کو قتل کیا(۱) _ جبکہ اسامہ بن منقذ کہتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ مشرکوں کے قتل میں شریک ہونے کے علاوہ چوبیس کو آپعليه‌السلام نے بذات خود قتل کیا(۲) _ شبلنجی کہتا ہے کہ '' بعض مؤرخین کے بقول غزوہ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنگ بدر میں کل ستر آدمی قتل ہوئے تھے اور راویوں کے متفقہ فیصلے کے مطابق ان میں سے اکیس آدمیوں کو صرف حضرت علیعليه‌السلام نے قتل کیا اور چار کے قتل میں دوسروں کا ساتھ دیا البتہ آٹھ مقتولین کے قاتل کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ''(۳) _ واقدی نے کل بائیس مقتولین کا نام لیا ہے جن میں سے اٹھارہ حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے جبکہ چار کے متعلق اختلاف ہے(۴) اور معتزلی اور ابن ہشام نے ( بالترتیب) کہا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے انتیس مشرکوں کو فی النار کیا یا کل باون مقتولین میں سے اتنے کے قتل میں دوسروں کا ساتھ دیا(۵) لیکن تعدا دمیں یہ اختلاف زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے کیونکہ ان مقتولین کا نام ذکر کرنے والے مؤرخین نے تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ پچاس کے لگ بھگ مقتولین کا نام ذکر کیا ہے(۶) _ ان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ان میں سے نصف یا اس سے بھی زیادہ تعداد کو قتل کیا اور اگر یہ لوگ باقی افراد کا نام بھی جان لیں تو یقینا ( دوسروں کے ساتھ مشرکین کے قتل میں شراکت کے علاوہ ) خود حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد ستر کے نصف بلکہ اس سے بھی زیادہ تک پہنچ جائے گی _ حقیقت تو بالکل یہی ہے لیکن ان مذکورہ مؤرخین کے بعد آنے والے مؤرخین نے ان پچاس افراد کو (جنہیں مذکورہ افراد نے پچاس کے ضمن میںنام کے ساتھ ذکر کیا ہے ) کل تعداد سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ تعداد کل تعداد کا ایک حصہ ہے _ یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ بعض مؤرخین جن افراد کا نام ذکر کرتے ہیں ان

____________________

۱) ملاحظہ ہو ، تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۷۱ و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۴۰ از مجمع البیان

۲) لباب الآداب ص ۱۷۳ (۳) نور الابصار ص ۸۶ (۴) المغازی واقدی ج ۱ ص ۱۴۷ تا ص ۱۵۲

۵) ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۶۵ تا ص ۳۷۲ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۰۸ تا ۲۱۲

۶) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۱۲ و ابن ہشام و واقدی و غیرہ

۲۷۷

سے دیگر مؤرخین بالکل ناواقف ہیں اور اسی طرح معاملہ برعکس بھی ہے _ اور یہ چیزہماری اور شیخ مفید و غیرہ کی باتوں کی تائید اور تاکید کرتی ہے _

بہرحال ، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے لوگوں میں مندرجہ ذیل افراد بھی تھے _ طعیمہ بن عدی ، ابوحذیفہ بن ابوسفیان ، عاص بن سعید بن عاص( جس سے سب لوگ ڈرتے تھے) ، نوفل بن خویلد ( یہ قریش کا شریر ترین آدمی تھا ) اور عاص بن ہشام بن مغیرہ(۱) _

ایک اور جھوٹی روایت

بعض لوگوں کے گمان میں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو جناب عمر بن خطاب نے ہی ہلاک کیا تھا(۲) وہ روایت کرتے ہیں کہ عمر نے سعید بن عاص سے کہا : '' میں نے تمہارے باپ کو نہیں بلکہ اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا تھا ''(۳) _

لیکن یہ مشکوک بات ہے کیونکہ :

مذکورہ عاص ، عمر کا ماموں نہیں تھا _ اس لئے کہ عمرکی ماں حنتمہ ہشام بن مغیرہ کی نہیں بلکہ ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھی _ اور جن علماء نے اسے ہشام کی بیٹی کہا ہے(۴) انہوں نے غلط کہا ہے _ ابن حزم کہتا ہے : '' ہاشم کا حنتمہ کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں تھا ''(۵) اور ابن قتیہ نے کہا ہے : '' اور عمر بن خطاب کی ماں ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی حنتمہ تھی جو عمر کے باپ کی چچا زاد تھی ''(۶) _

بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حنتمہ سعید بن مغیرہ کی بیٹی تھی(۷) _

____________________

۱) المنمق ص ۴۵۶ وا لاغانی مطبوعہ ساسی ج ۳ ص ۱۰۰_ (۲) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۶۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۵ و نسب قریش مصعب زبیری ص ۳۰۱_ (۳) المغازی واقدی ج ۱ ص ۹۲ ، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۸۹ ، نسب قریش مصعب زبیری ص ۱۷۶ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۹۰ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۱ ، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۳ و الاصابہ و الاستیعاب _ (۴) تاریخ عمر بن خطاب ابن جوزی ص ۱۹_ (۵) جمہرة انساب العرب ص ۱۴۴_

۶) الشعر و الشعراء ص ۳۴۸_ (۷) تاریخ عمر بن الخطاب ابن جوزی ص ۲۰_

۲۷۸

البتہ بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ اس نے اسے اپنا ماموں کہہ کر اس سے اپنا مادری قبلیہ مراد لیا ہے کیونکہ عرب لوگ اپنے مادری قبیلہ کے ہر فرد کو اپنا ماموں کہتے تھے جیسا کہ شاعر کا کہنا ہے :

ولو انی بلیت بهاشمی

خؤولته بنی عبدالمدان

اور چاہے میں اس ہاشمی کے چنگل میں پھنس جاؤں جن کے ماموں بنی عبدالمدان کا قبیلہ ہے_

لیکن یہ احتمال اس کی باتوں سے ناسازگار ہے کیونکہ '' خالی '' ( میر اماموں ) کے لفظ سے ذہن میں فوراً حقیقی اور سگے ماموں کا تصور بھر تا ہے _ اور لفظ'' اخوال'' ( میرے ماموں ) کے مادری قبیلے پر اطلاق کا یہ لازمہ نہیں ہے کہ یہ بات بھی صحیح سمجھی جائے کہ کوئی شخص '' خالی '' ( میرا ماموں ) کہہ کر مادری قبیلے کا ایک فرد مراد لے جبکہ وہ اس کا سگا ماموں ہو ہی نہ _ پس یہ کہنا تو صحیح ہے کہ '' بنو مخزوم اخوالنا '' (قبیلہ بنی مخزوم ہمارا مادری قبیلہ ہے ) لیکن '' فلان المخزوی خالی '' (قبیلہ بنی مخزوم کا فلاں شخص میرا ماموں ہے _ جبکہ وہ سگا نہ ہو یہ ) کہنا صحیح نہیں ہے _ اس لئے کہ دوسرے جملے سے حقیقی اور سگا ماموں مراد لیا جاتا ہے _

بلکہ بعض مؤرخین نے تو حنتمہ کو مخزومی ( قبیلہ بنی مخزوم کی عورت ) بھی ماننے سے سرے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہاشم نے اسے راستے میں پڑا ہوا دیکھا تو اسے اٹھا کر ساتھ لے آیا اور اسے پال پوس کر اس کی شادی خطاب سے کردی _ اس کی پرورش کرنے اور پالنے پوسنے کی وجہ سے عرب اپنی عادت کی بناپر حنتمہ کو ہاشم کی بیٹی کہا کرتے تھے(۱) _

تو پھر صحیح کیا ہے ؟

ہو سکتا ہے کہ ابن ابی الحدید معتزلی اور شیخ مفید کی بیان کی ہوئی مندرجہ ذیل روایت زیادہ معتبر ، حقیقت

____________________

۱) د لائل الصدق ج ۳ حصہ ۱ ص ۵۶_

۲۷۹

سے قریب تر اور اس وقت کے سیاسی حالات اور سیاسی فضا کے مناسب تر ہو _اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ عثمان بن عفان اور سعید بن عاص حضرت عمر کی خلافت کے ایام میں اس کے پاس آئے _ عثمان تو اس محفل میں اپنی پسندیدہ جگہ پر آکر بیٹھ گیا لیکن سعید آکر ایک کونے میں بیٹھ گیا تو عمر نے اسے دیکھ کر کہا:'' تم مجھ سے کترا کیوں رہے ہو ؟ ایسے لگتا ہے جیسے میں نے ہی تمہارے باپ کو قتل کرڈالا ہو اسے میں نے نہیں ابوالحسن ( حضرت علیعليه‌السلام ) نے قتل کیا ہے '' ( البتہ شیخ مفید کی روایت میں یوں آیا ہے کہ پھر عمر نے کہا : ''جب میں نے تمہارے باپ کو لڑائی کے لئے تیار دیکھا تو اس سے ڈرگیا اور اس سے ادھر ادھر ہونے لگا تو اس نے مجھ سے کہا کہ خطاب کے بیٹے کہاں بھاگے جا رہے ہو ؟ لیکن علیعليه‌السلام اس کی طرف آیا اور اسے جالیا _ ابھی خدا کی قسم میںا پنی جگہ سے ہلا بھی نہیں تھا کہ اس نے اسے وہیں مارڈالا ) _ وہاں حضرت علی علیہ السلام بھی موجود تھے، انہوں نے کہا : '' خدایا معاف کرنا _ شرک اپنی تمام برائیوں سمیت مٹ گیا اور اسلام نے گذشتہ تمام نقوش مٹادیئےیں _ لیکن تم کیوں لوگوں کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہو؟'' عمر اس بات کا جواب نہ دے پایا_ لیکن سعید نے جواب میں کہا : '' لیکن اگر میرے باپ کا قاتل اس کے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو پھر مجھے اس کا افسوس ہوتا ''(۲) _

پس اس روایت میں یہ بات تو ملتی ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے عمر کی جان بچائی لیکن یہ بات نہیں ملتی کہ عمر نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا ہو _ البتہ ( جس طرح پہلے بتا چکے ہیں) عاص ، عمر کا ماموں بھی نہیں تھا یا کم از کم اس کا عمر کا ماموں ہونا نہایت مشکوک ہے _ نیز اس روایت میں خاص کر سعید اور حضرت علی علیہ السلام کی باتوں میں کئی اور اشارے بھی ملتے ہیں _صاحبان فہم کو غور و فکر کی دعوت ہے_

نکتہ

جنگ بدر اور جنگ احد و غیرہ نے مشرکین کے دلوں پر حضرت علی علیہ السلام کی بہت زیادہ دھاک

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۴ ۱ ص ۱۴۴ و ص ۱۴۵ و الارشاد ص ۴۶_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430