خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات18%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 364635 / ڈاؤنلوڈ: 5376
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

حکم کسی اور کام کا ملا ہے؟ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا تھا کہ ہاں ایسا ہی ہے_ اور یہ جملے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا تھا اور خدا کی طرف سے یہ حکم پہلے ہی آچکا تھا_ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشورے کی وجوہات وہی تھیں جو ہم ابھی کہہ چکے ہیں، پہلے بھی کہہ چکے تھے اور غزوہ احد میں بھی کہیں گے_

۲_ بہترین رائے ، قریش سے جنگ

یہ بات بھی واضح ہے کہ صحیح رائے قریش سے جنگ ہی تھی جس میں خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مرضی بھی تھی_

کیونکہ مسلمان ایک دورا ہے پر کھڑے تھے:

یا تو تجارتی قافلے اور قریش کی فوج کا سامنا کئے بغیر مسلمان واپس پلٹ جاتے_ اور یہ بات مسلمانوں کی واضح روحی اور نفسیاتی شکست اور مشرکوں ، یہودیوں اور منافقوں کو اپنے اوپر جری کرنے کا باعث تھی_

یا پھر وہ تجارتی قافلے تک پہنچ کر کئی لوگوں کو قتل یا قید کرنے کے بعد اسے لوٹ لیتے _ اس صورت میں قریشی ہرگز خاموش نہ رہتے بلکہ وہ وسیع پیمانے پر اور مکمل طور پر لیس ہو کر مسلمانوں سے جنگ کرتے _ وہ تو اس صورتحال میں مسلمانوں کے واپس مدینہ پہنچنے سے بھی پہلے مدینہ پر چڑھائی کر کے مسلمانوں پر مہلک وار کرسکتے تھے_ کیونکہ اتنی بڑیتعد اد اور تیاری کے ساتھ قریشی اتنی بڑی بات پر چپ نہیں رہ سکتے تھے بلکہ وہ جلدی سے اپنی جاتی ہوئی حیثیت ، ہیبت ، رعب و دبدبے اور بزرگی کے اعادے کی کوشش کرتے_

پس مسلمانوں کے سامنے صرف ایک ہی راستہ باقی رہتا تھا_ اور وہ قریش (کو پہلے اپنا عادلانہ ،عاقلانہ اور قابل قبول چہرہ اور طاقت دکھانے نیز منصفانہ پیشکش سامنے رکھنے کے بعد اب ان )کے مقابل کھڑا ہونا تھا_ پس ان حالات میں قریش سے جنگ ہی بہترین اور بے مثال انتخاب تھا_ خاص طور پر جب وہ قریش کے تجارتی قافلے کے تعاقب میں نکل بھی چکے تھے اور اس کام سے ان کا پیچھے ہٹنا مسلمانوں کے لئے عدیم المثال پیچیدگیوں، مشکلات اور اعتراضات کا باعث بنتا_

۲۴۱

ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر مسلمان عزت اور وقار کی ایسی زندگی گذارنا چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی بھی ہمسایہ ، مشرک ، یہودی ، منافق اور کوئی بھی دشمن ان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھے تو انہیںجنگ کے لئے پیش قدمی کرنی ہوگی_ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے_

۳_ نفسیاتی تربیت:

اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیںکہ :

الف: اس جنگ میں پہلے پہل عام مسلمانوں کا مقصد مال کا حصول تھا_ لیکن خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اس دنیاوی مقصد سے کہیں بلند ، قیمتی اور بہترین ہدف کی طرف لے جانا چاہا و گرنہ قریشیوں کی اس لشکر کشی اور جنگ کے پیچھے بھی تو دنیاوی ، اقتصادی ، اجتماعی ( معاشرتی ) اور سیاسی مقاصد کار فرماتھے_پھر تو مسلمانوں اور مشرکوں میں کوئی فرق باقی نہ رہتا_

ب: جنگ بدر نے مسلمانوں کے اندر خود اعتمادی کی روح پھونکنے اور بھر پور قوت اور شجاعت کے ساتھ آئندہ کے خطرات کا سامنا کرنے کی جرات پیدا کرنے میں اپنا بہت بڑا اثر دکھا یا _ کیونکہ انہیں خدا کے ''ہوکر رہنے والے حتمی ''کام کی انجام دہی کے لئے قریش کے جابروں، متکبروں اور سرداروں کو قتل اور قید کرنا پڑا اور اس امتحان میں وہ سرخرو ہوگئے ہیں تواب انہیں عرب اور عجم سمیت پوری دنیا سے جنگ کی تیاری کرنی تھی _

۴_ جنگ سے متعلق مشوروں پر ایک سرسری نگاہ

یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اکثر مؤرخین نے اس مرحلے میں عمر اور ابوبکر کا کلام حذف کر کے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ابوبکر نے کھڑے ہوکر اچھی رائے دی او رعمر نے بھی کھڑے ہوکر بہترین مشورہ دیا پھر

۲۴۲

مقداد نے کھڑے ہوکر فلاں بات کی(۱) _ بلکہ ان میں سے کچھ لوگوں کی طرف ایسی باتیں بھی منسوب کرتے ہیں جن کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سوال سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا_(۲) بہرحال شیخین کی مذکورہ باتیں چونکہ اکثر مؤرخین کو اچھی نہیں لگیں اس لئے وہ مذکورہ طریقے سے اس سے کنی کتراگئے _ لیکن یہ واضح سی بات ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقداد کی باتوں پر خوش ہوکر اسے دعائیں دینا اس بات کی دلیل ہے کہ شیخین کی باتیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشاورتی مقاصد سے میل نہیں کھاتی تھیں بلکہ وہ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلی مقاصد کے بالکل برخلاف تھیں_ وگر نہ اگر ان کی باتیں لائق ذکر ہوتیں تو ان کے چاہنے والے راوی اور مؤرخین ان کی باتوں کو ضرور بڑھا چڑھاکر پیش کرتے_ لیکن مقداد کا مشورہ چونکہ بالکل صحیح ، منطقی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلی اہداف و مقاصد کے موافق نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توقعات کے عین مطابق تھا اس لئے مقداد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعاؤں اور تعریفوں کا مستحق ٹھہرا_

بلکہ کتابوں میں یہاں تک بھی آیا ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی آمد کی اطلاع ملی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے صحابیوں سے مشورہ لیا_ یہاں ابوبکر نے کوئی بات کی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی بات کو رد کردیا اور عمر نے بھی کوئی بات کی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی باتوں کو بھی ٹھکرا دیا(۳) _ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان کی باتوں کو رد کردینا صرف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصار کا جواب سننا چاہتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رو گردانی ان دونوں کے قریش سے جنگ نہ کرنے پر اکسانے نیز ان الفاظ کے ساتھ قریش کی تعریف کرنے کی وجہ سے تھی کہ یہ ہمیشہ سے ناقابل شکست اور بے ایمان کا فرر ہے ہیں _ وگرنہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقداد کی باتوں سے خوش ہوکر اسے دعائیں کیوں دی تھیں؟ حالانکہ وہ بھی تو ایک مہاجر تھا ؟حتی کہ ابن مسعود نے اس کے اس موقف کے متعلق کہا کہ اس کی ہم وزن کسی بھی چیز سے زیادہ مجھے اس کا ساتھی بننا بہت پسند تھا(۴) _ اور ابوایوب انصاری

____________________

۱) بطور مثال ملاحظہ ہو: البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۲ و الثقات ج ۱ ص ۱۵۷_

۲)وہ بات قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹنے والی بات تھی (۳) صحیح مسلم باب غزوہ بدر ج ۵ ص ۱۷۰ مسند احمد ج ۳ ص ۲۱۹ دو اسناد کے ساتھ نیز از الجمع بین الصحیحین ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳ و السیرة النبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۹۴_

۴) صحیح بخاری باب '' تستغیثون ربکم'' مطبوعہ المیمنیہ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۲ _ ۲۶۳و سنن نسائی _

۲۴۳

نے بھی اپنی باتوں کے دوران یہ اظہار کیا کہ ہم انصار جماعت کی یہ حسرت رہی کہ اے کاش اس دن ہم نے بھی مقداد کی طرح باتیں کہی ہوتیں ( اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعائیں سمیٹی ہوتیں) تو یہ چیز ہمیں بہت زیادہ مال سے بھی زیادہ پسند تھی _ جس پر خدا نے یہ آیت نازل کی تھی( کما اخرجک ربّک من بیتک بالحق و ان فریقاًمن المؤمنین لکارهون ) (۱) _

گذشتہ تمام باتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام مہاجرین و انصار سب کے لئے دعوت عام تھا _ اسی طرح جنگ پر بیعت نہ کرنے کے لحاظ سے مہاجرین بھی انصار ہی کی طرح تھے_پس مؤرخین کی یہ بات کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخاطب صرف انصار تھے صحیح نہیں ہے_

۵_ مقداد اور سعد کی باتوں پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرور کی وجوہات

مقداداور سعد بن معاذ کی باتوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی مشورہ نہیں دیا نہ جنگ کا اورنہ ہی صلح کا بلکہ انہوں نے تو صرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے چون و چرا اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار کیا تھا_ انہوں نے تو اپنی کسی رائے کا اظہار کیا نہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کسی چیز کا مشورہ دیا _ اور یہ ایمان خلوص ، اطاعت ، فرض شناسی اور موقع شناسی کی انتہا ہے _

خدا کا فرمان ہے کہ( و ما کان لمؤمن و لامؤمنة اذا قضی الله و رسوله امراً ان یکون لهم الخیرة من امرهم ) (۲) ترجمہ : '' جب خدا اور اس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوئی فیصلہ کرلیں تو کسی بھی مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کو اپنی مرضی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے '' _ نیز( یا ایها الذین آمنوا لاتقدموا بین یدی الله و رسوله و اتقو الله ان الله سمیع علیم ) (۳) ترجمہ : '' اے مؤمنوا خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی چیز میں پیش قدمی نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرو کہ خدا خوب سننے اور جاننے والا ہے '' _ اور خدا کے ان

____________________

۱) البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳ و ص ۲۶۴ از ابوحاتم و ابن مردویہ_

۲) احزاب /۳۶ _

۳) حجرات_

۲۴۴

فرامین کی روشنی میں یہ دونوں شخصیات خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیصلے کے سامنے اپنی کوئی حیثیت نہیں سمجھتے تھے اور اپنے لئے کسی بھی مرتبے کے قائل نہیں تھے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خوشی اور سرور بھی ان کے اسی گہرے اور پختہ ایمان اور بے چون و چرا فرمانبرداری کی وجہ سے تھی _

۶_ حضرت علی علیہ السلام نے مشورہ کیوں نہیں دیا؟

یہاں قابل ملاحظہ بات یہ بھی ہے کہ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے عقلمندی اور دانائی کا سرچشمہ ہونے کے باوجود اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنا موقف اور مشورہ سنانے کی انہیں کوئی جلدی تھی_ آپ لوگوں کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟

اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا موقف بعینہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاہی موقف تھا _ کیونکہ آیت مباہلہ میں خدا نے ان الفاظ میں حضرت علی علیہ السلام کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات اور نفس قرار دیا :

( فقل: تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم ونسائنا و نسائکم و انفسناو انفسکم )

تو ( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صورت میں انہیں ) کہہ دو کہ پھر آؤ ہم اور تم اپنے اپنے سپوتوں ، عورتوں اور اپنی سب سے پیاری شخصیتوں کو بلالیں

مزید یہ کہ حضرت علی علیہ السلام خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی معاملے میں پیش قدمی کرنے والے تھے ہی نہیں _ اور اس موقع پر وہ خدا اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے خاموشی ، رضا اور سر تسلیم خم کرنے کو اپنے لئے ضروری سمجھتے تھے اور اس کام میں انہیں کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتا تھا _

'' حباب'' اچھی رائے والا

مؤرخین کے بقول جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بدر کے مقام پرپانی کے کنویں کے قریب پڑاؤ کیا تو حباب بن

۲۴۵

منذر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مشورہ دیا کہ دشمن کی فوج کی بہ نسبت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پانی کے زیادہ قریب پڑاؤ کریں اور وہاں پانی کا ایک حوض بنائیں پھر دیگر تمام کنوؤں کا پانی نکال لیں_ اس سے مسلمان تو پانی استعمال کرسکیں گے لیکن مشرکین ایسا نہ کرسکیں گے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا ہی کیا توحباب کے مشورہ کو درست پایا_ اس پر حباب کو '' حباب ذوالرا ی '' ( حباب بہترین رائے والا ) پکارا جانے لگا(۱) _

لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے _ کیونکہ :

ایک : پختہ دلیلوں سے ثابت ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کچھ سوچتے یا کرتے تھے وہ سب صحیح اور بہترین ہوتا تھا _ اور یہ نظریہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیاوی معاملات میں غلطی کرسکتے تھے ، ناقابل اعتبار ہے کیونکہ یہ بات عقل اور آیات و روایات کے بالکل بر خلاف ہے (البتہ خطا اور نسیان سے عصمت کے اختیاری ہونے کی گفتگو عنقریب ہوگی انشاء اللہ )

دو : '' عدوة القصوی '' جہاں مشرکوں نے پڑاؤ کیا تھا پانی بھی وہاں تھا اور وہ ایک بہترین زمین تھی جبکہ '' عدوة الدنیا '' میں کوئی پانی نہیں تھا ، جبکہ وہاں کی زمین اتنی نرم تھی کہ اس میں پاؤں دھنس جاتے تھے(۲)

تین : مسلمانوں سے پہلے مشرکوں نے بدر کے مقام پر آکر پڑاؤ کیا تھا _ اور یہ معقول ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ایسی جگہ جا کر پڑاؤ کیا ہو جہاں کوئی پانی نہ ہو اور پانی والا حصہ اوروں کے لئے چھوڑدیا ہو_

چار : خود ابن اسحاق یہ بیان کرتا ہے کہ مشرکین حوض سے پانی لینے آئے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ انہیں پانی بھرنے دیا جائے(۳) _ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی جنگ صفین میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی میں اپنے سرکش دشمنوں کو بھی پانی لینے کی اجازت دے رکھی تھی_ حالانکہ انہوں نے پہلے آپعليه‌السلام کو اسی

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۲ ، تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۷۶، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۵، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۲، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۴۰۳و ص ۴۰۲ و البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۶۷ و غیرہ _ (۲) ملاحظہ ہو : فتح القدیر ج ۲ ص ۲۹۱ از زجاج و ص ۳۱۱ و کشاف ج ۲ ص ۲۰۳ تا ۲۲۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ ، تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۹۲ از ابن عباس ، قتادہ ، سدی و ضحاک ، در منثور ج ۳ ص ۱۷۱ از ابن منذر ، ابوالشیخ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴ ، سیرہ ابن کثیر ج ۲ ص ۴۰۰ ، کشاف ، انوار التنزیل و مدارک و غیرہ _ (۳) ملاحظہ ہو : الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۳_

۲۴۶

پانی سے محروم کیا ہوا تھا(۱) اور یہ واضح سی بات ہے کہ دشمنوں کو پانی سے روکنا اور منع کرنا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اخلاقیات اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے سازگار نہیں ہے _

پس صحیح روایت یہ ہے کہ پہلے پہل مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا _ لیکن ایک رات خدا نے موسلا دھار بارش برسائی تو وادی میں سیلاب سا آگیا اور مسلمان نے کئی حوض (گڑھے) بنالئے ، خود بھی پانی پیا اور جانوروں کو بھی پلایا ، نہایا دھویا بھی اور اپنی مشکیں بھی بھر لیں(۲) _ اس بات کی طرف یہ آیت اشارہ کررہی ہے _ ( اذ یغشیکم الناس امنة منہ و ینزل علیکم من السماء مائً لیطہرکم بہ و یذہب رجز الشیطان و لیربط علی قلوبکم و یثبت بہ الاقدام )(۳) پس حوض بنانے کے وجوہات وہ نہیں جو پہلے ذکر ہوئی ہیں بلکہ یہی ہےں جواب ذکر ہوئی ہےں_

مسلمانوں اور مشرکوں کی تعداد اور ساز و سامان

جناب طالوت کے ساتھیوں کی تعداد کے مطابق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس جنگ میں اپنے تین سو تیرہ صحابیوں کو لے کر نکلے ( البتہ کم یا زیادہ تعداد کے اقوال اور نظریات بھی ہیں لیکن مذکورہ قول اکثر بزرگان کا نظریہ ہے(۴) _ اور ان کے ساتھ ستر اونٹ تھے جن پر دود ویا تین تین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے _ خود نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت علیعليه‌السلام اور مرثد بن ابی مرثد ( البتہ بعض مؤرخین کے مطابق تیسرا شخص زید بن حارثہ تھا ) ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے _ مؤرخین کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اس لشکر میں ایک گھوڑا مقداد کا ضرور تھا لیکن باقی کے متعلق اختلاف ہے _ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ فقط یہی ایک گھوڑا تھا(۵) اور یہ قول حضرت علیعليه‌السلام سے بھی منقول ہے(۶) ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک گھوڑا زبیر کا یا مرثد کا بھی تھا جبکہ یہ بھی کہا

____________________

۱) ملاحظہ ہو مصنف کی کتاب '' الاسلام و مبدا المقابلة بالمثل '' _ (۲) ملاحظہ ہو : کشاف ج ۲ ص ۲۰۳ وص ۲۰۴ و تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۹۲ البتہ اس میں حوض بنانے کا ذکر نہیں ہے _ (۳) انفال /۱۱_ (۴)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۴۹_ (۵) تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱ از کشاف ، مناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۷ ، بحار الانوار ج ۹ ۱ ص ۳۲۳ از تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۲۵ و ۵۴ و حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۹۳ از الترغیب ج ۱ ص ۱۳۱۶ از ابن خزیمہ نیز ملاحظہ ہو _ المغازی ذہبی ( تاریخ الاسلام ) ض ۵۶و ۵۹ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۹ ، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ مکتبة العلمیہ ج ۳ ص ۳۸ و ص ۳۹ و ۴۹ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۲۷ و تاریخ الام و الملوک ج ۲ ص ۳۵_ (۶) تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۳۵، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۹ و سیرہء نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۸_

۲۴۷

گیا ہے کہ دونوں کے گھوڑے تھے_ اسلحہ میں صرف چھے ڈھالیں اور آٹھ تلوار یں تھیں(۱)

ان تین سو تیرہ سپاہیوں میں سے مہاجرین کی تعداد کے متعلق مختلف اقوال ہیں_ چونسٹھ (۶۴) بھی کہا گیا ہے ستر (۷۰) بھی، چھیتر (۷۶) بھی ، ستتر (۷۷) اور اسی (۸۰) تک بھی کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو سو ستر (۲۷۰) انصاری تھے اور باقی دوسرے لوگ تھے _ اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی ہیں(۲) _ اور انصارمیں سے کہا گیا ہے کہ ایک سو ستر (۱۷۰) خزرجی تھے البتہ اس تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتاہے_ لیکن مشرکین نشے میں بد مست تھے اور اپنے ساتھ ڈفلی بجانے والی گلوکار ائیں بھی لائے تھے جنہیں انہوں نے راستے سے ہی واپس پلٹا دیا تھا_ ان کے ساتھ سات سو اونٹ تھے(۳) _ البتہ گھوڑوں کی تعداد میں اختلاف ہے _ چارسو بھی کہا گیا ہے(۴) ، دو سو بھی کہا گیا ہے اور ایک سو بھی(۵) نیز دیگر اقوال بھی ہیں_ اور ان سب کے پاس ڈھالیں تھیں اور ڈھال والی فوج کی کل تعداد چھ سو(۶۰۰) تھی(۶) _ پورے لشکر کے کھانے پینے کا بند و بست کرنے والے کل بارہ آدمی تھے جن میں عتبہ ، شیبہ ، عباس ، ابو جہل اور حکیم بن حزام بھی تھے _ البتہ مشہور یہ ہے کہ مؤخر الذکر بعد میں مؤلفة القلوب میں شمار ہونے لگا تھا _ بہرحال ان بارہ آدمیوں میں سے ہر ایک پورے لشکر کے ایک دن کا کھانا اپنے ذمہ لے لیتاتھا _ اور وہ ان کے لئے نو یاد س اونٹ ذبح کرتا تھا_

____________________

۱) ملاحظہ ہو :مناقب آل ابی طالب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۱۸۷، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۰۶، مجمع البیان ج ۲ ص ۲۱۴ البتہ دار احیاء التراث کی طباعت کے مطابق ج ۱ ص ۴۱۵ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱_

۲) ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۱۹ ص ۳۲۳، دلائل النبوة بیہقی ج ۳ ص ۴۰، البدایة و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۹، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۶۰۳ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۱، انساب الاشراف ج ۱ ص ۲۹۰، مجمع الزوائد ج ۶ ص ۹۳، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۱۸ و دیگر کتب_

۳) ملاحظہ ہو گذشتہ چند حاشیوں میں مذکور منابع_

۴) تفسیر قمی ج ۱ ص ۲۶۲_ (۵) ملاحظہ ہو : مناقب آل ابی طالب ج ۱ ص ۱۸۷، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶، بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۲۴ و ص ۲۰۶، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۱۸ ، مجمع البیان و دیگر کتب نیز سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۷_

۶) التنبیہ و الاشراف ص۲۰۴ و سیرہ نبویہ ابن کثیر ج ۲ ص ۳۸۷_

۲۴۸

مشرکوں کی ہٹ دھر می اور کینہ توزی

بدر کے کنویں پر مسلمانوں نے قریش کے چند ایک غلاموں کو پکڑ ان سے تجارتی قافلے کے متعلق پوچھ گچھ کی توانہوں نے اس سے لا علمی کا اظہار کیا جس پر مسلمانوں نے انہیں مارا پٹیا_ اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز میں مصروف تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جلدی جلدی نماز مکمل کی اور فرمایا:'' وہ تمہیں سچ سچ بتا رہے ہیں تو تم انہیں مار رہے ہو کیا جھوٹ بولنے پر انہیں چھوڑ وگے؟ '' _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے لشکر قریش کی تعداد کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس سے بھی لا علمی کا اظہار کیا _ جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا : '' وہ ہر روز کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟'' _ انہوں نے کہا :'' نو سے دس تک ذبح کرتے ہیں'' _ اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' اس کا مطلب ہے وہ لوگ نو سو سے ایک ہزار تک کی تعداد میں ہیں''(۱) _ (البتہ اس سے زیادہ تعداد بھی بتائی گئی ہے حتی کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد تین ہزار تک تھی لیکن یہ صحیح نہیں ہے) _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو قید کرنے کا حکم دیا تو انہیں قید کر لیا گیا _ جب مشرکین کو اس بات کا علم ہوا تو وہ اپنے بدر آنے پر بہت نادم اور پریشان ہوئے کیونکہ تجارتی قافلے کے صحیح سالم بچ نکلنے کی خبر سن کر بھی انہوں نے عربوں پر اپنی دہشت بٹھانے کے لئے بدر آنے پر بہت اصرار کیا تھا_ عتبہ بن ربیعہ ( جس کا بیٹا ابو حذیفہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے ساتھ تھا) نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ تجارتی قافلے کی نجات کے بعد ان کا بدر آنا ہٹ دھرمی اور کینہ توزی پر مبنی تھا_ حالانکہ واپسی کا متفقہ فیصلہ کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن ابوجہل نے واپسی سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا : '' نہیں ، لات و عزّی کی قسم جب تک ان پر یثرب میں دھا و ابول کر انہیں قید کرکے ( ذلت اور خواری کے ساتھ) مکہ نہیں لے آئیں گے یہاں سے واپس نہیں پلٹیں گے _ تا کہ سارے عرب میں اس بات کا چرچا ہو اور آئندہ کوئی بھی ناپسندیدہ شخص ہمارے اور ہمارے تجارتی راستے کے درمیان رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش نہ کرے''(۲) البتہ

____________________

۱) ملاحظہ ہو : سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۶۹ تا ص ۲۹۸ ، المغازی و اقدی ج ۱ ص ۵۳ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۳تا ص ۲۶۴، دلائل النبوة بیہقی ج ۲ ص ۳۲۷ و ص ۳۲۸، السنن الکبری ج ۹ ص ۱۴۷ و ص ۱۴۸ ، زاد المعاد ج۳ ص ۱۷۵، صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۷۰، کشف الاستار ج ۲ ص ۳۱۱ ، طبقات الکبری مطبوعہ صادر ج ۲ ص ۱۵، تاریخ الامم و الملوک ج ۲ ص ۱۳۲ تا ص ۱۳۴ و ص ۱۴۲ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۲_

۲) بحار الانوار ج ۱۹ ص ۲۵۰ از تفسیر قمی نیز ملاحظہ ہو : المغازی واقدی ج ۱ ص ۷۱_

۲۴۹

جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے اخنس بن شریق کے ایماء پر بنی زہرہ کا قبیلہ وہیں سے واپس پلٹ گیا تھا_

دونوں فوجوں کا پڑاؤ

مشرکین، بدر کے مقام پر پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے مکہ کے راستے پر پڑنے والی'' عدوة القصوی '' نامی وادی میں پڑاؤ کیا جہاں پانی موجود تھااور ان کے پڑاؤ کی جگہ سخت تھی_ قریش کا تجارتی قافلہ بھی مشرکین کی فوج کے پیچھے موجود تھا(۱) ارشاد خداوند ہے ( و الرکب اسفل منکم) _جبکہ مسلمانوں نے مدینہ کی جانب پڑنے والی '' عدوة الدنیا '' نامی وادی میں پڑاؤ کیا جہاں پانی بھی نہیں تھا اور زمین بھی ایسی نرم تھی کہ قدم بھی نہیں جم سکتے تھے _ جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کی جگہ فوجی نقطہ نظر سے نہایت نامناسب تھی _ لیکن خدا نے دشمنوں کے مقابلے میں اپنے بندوں کی مدد اور حمایت کی اور راتوں رات مشرکوں کی جگہ پر بارش برسی تو ان کی جگہ کیچڑ میں تبدیل ہوگئی جبکہ اسی بارش نے مسلمانوں کی جگہ پر برس کر زمین کو سخت اور ٹھوس کردیا تھا اور مسلمانوں نے گڑھوں اور تالابوں میں پانی بھر لیا تھا(۲) _

مسلمانوں کی معنویات اور پروردگار کی عنایات

جب مسلمانوں تک مشرکوں کی کثرت کی خبر پہنچی تو وہ گھبراگئے اور خدا سے دعا اور زاری کرنے لگے_ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مشرکوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کو دیکھا تو قبلہ رو ہو کر یہ دعا مانگی :'' پروردگار اپنی مدد کا وعدہ پورا کر _ خدایا اگر تونے اپنے ان عزیزوں کو ماردیا تو پھر زمین پر کبھی تیری عبادت نہیں ہوگی''_

____________________

۱) البتہ عنقریب ذکر ہوگا کہ وہ تجارتی قافلہ صحیح سالم بچ کرنکل گیا تھا کیونکہ ابوسفیان اس قافلہ کو مدینہ اور مسلمانوں کے رستے سے دور ساحل سمندر کے راستے سے بچا کر لے گیا تھا_

۲) سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۱ و ص ۲۷۲ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۷۵ ، تاریخ الامم و الملوک مطبوعہ الاستقامہ ج ۲ ص ۱۴۴ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۴، الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۲۲، دلائل النبوة بیہقی مطبوعہ دار الکتاب العلمیہ ج ۳ ص ۳۵ و البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۶۶_

۲۵۰

اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

( اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملائکة مردفین و ما جعله الله الا بشری و لتطمئن به قلوبکم ) (۱۰)

'' (اور وہ وقت یا کرو ) جب تم اپنے پروردگار سے گڑ گڑا کر مدد مانگ رہے تھے تو خدا نے بھی تمہاری سن لی اور قطار اندر قطار ایک ہزار فرشتے بھیجے اور خدا نے انہیں صرف خوشخبری دے کر بھیجا تا کہ تمہارے دل مطمئن ہو جائیں''

پس کمزوری اور گھبرا ہٹ محسوس کرکے خدا سے امداد کی درخواست کرنے والے مسلمانوں کی مدد صرف ان کی تسکین خاطر اورروحانی تقویت نیز سرد پڑتے دلوں کو گرمانے کے لئے تھے _ پھر اس کے بعد خدا نے مسلمانوں پر نیند طاری کردی اور وہ سوگئے اور اس کے بعد خدا نے بارش بھیج دی _ اس کا ذکر خدا نے یوں کیاہے( اذ یغشیکم النعاس امنة منه و ینزل علیکم من السماء ماء لیطهرکم به و یذهب عنکم رجز الشیطان و لیربط علی قلوبکم و یثبت به الاقدام ) (۲) _ ترجمہ '' ( یاد کرو اس وقت کو ) جب خدا کی طرف سے تمہیں پر امن نیند نے آلیا اور آسمان سے اس لئے مینہ برسا کہ تمہیں ( اور تمہارے دلوں کو ) صاف ستھرا کردے ، شیطان کے وسوسوں کو نکال باہر کرے ، تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہیں ثابت قدم رکھے''_

جی ہاں اتنے ہولناک خطرے کا سامنا کرنے والے ایسے لوگوں کے لئے اونگھ اور ہلکی نیند بہت ضروری تھی جویہ جانتے تھے کہ ان کے پاس اس خطرے کا سامنا کرنے اور اسے ٹالنے کے لئے کوئی قابل ذکر مادی وسائل نہیں ہیں_ ہاں یہ نیند ان کے لئے ضروری تھی تا کہ ایسی خطرناک رات میں شیطانی وسوسے ان پر غلبہ نہ پالیں جس میں چھوٹی چیزیں بھی بڑی اور موٹی نظر آتی ہیں_ اور اگر وہ چیز خود طبیعی طور پر بڑی ہو تو پھر

____________________

۱) انفال : ۹و ۱۰_

۲) ص : ۱۱_

۲۵۱

کیا حال ہوگا؟ _ یہ نیند اس لئے بھی ضروری تھی کہ انہیں اطمینان اور سکون کی ضرورت تھی '' امنة '' _ نیز اسی امن و سکون اور ایمان کے ذریعہ ان کے دلوں کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت تھی تا کہ خطرے کا سامنا کرتے وقت وہ کمزوری نہ دکھائیں اور کمزوری ، تاثیر پذیری اور گھبرا ہٹ کی بجائے عقل سے کام لیں اور غور و فکر کے ساتھ کوئی کام کریں اور موقف اپنائیں_ اسی نیند اور بارش کے ذریعہ سے خدا نے ان کے دلوں کو مضبوط اور طاقتور بنادیا _ حتی کہ وہ ان باتوں سے یہ جان کر مطمئن ہوگئے کہ ان پر خدا کی نظر کرم ہے اور خدا کی الطاف و عنایات ان کے شامل حال ہیں_ جس کے بعد انہیں کمر شکن حادثات اور دشمن کی صف شکن کثیر تعداد کی بھی کوئی پرواہ نہ رہی _ جبکہ اس کے بدلے میں خدا نے کافروں کے دلوں میں رعب اور خوف طاری کر دیا تھا_ اس کی طرف انشاء اللہ بعد میں اشارہ کریں گے_

یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا نے سورہ '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''جیسی مکی سورتوں میں ، اپنے انبیاء کے خلاف گروہ بندی کر کے محاذ آرائی کرنے والوں اور ثمود اور فرعون کے ذکر کے بعد یہ خبر دے دی تھی اور پیشین گوئی کر دی تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسے حادثات و واقعات پیش آئیں گے جو ان گروہوں کے ساتھ پیش آئے تھے_ بعض کے بقول آیت (جند ما ہنالک مہزوم من الاحزاب )(۱) _ترجمہ '' یہاں کئی ایسے لشکر بھی ہیں جو چھوٹے گروہوں سے شکست کھانے والے ہیں'' _ واقعہ بدر کے متعلق ہے_

اس جنگ کے مقاصد

یہاں پر سب سے اہم اور قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہاں خود صراحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ یہ جنگ ایک فیصلہ کن جنگ ہے _ اور اس کا مقصد بھی خدا کی عبادت کے لئے آزادی کا حصول تھا _ اس جنگ سے نہ ذات کی پرستش مقصود تھی ، نہ مال ، نہ کوئی امتیاز ، نہ مقام ، نہ حکومت اور نہ ہی کوئی اور چیز _ یعنی خدا کی عبادت میں آزادی کے حصول کے علاوہ اس جنگ کا کوئی اور مقصد نہیں تھا _

____________________

۱) ص : ۱۱ _

۲۵۲

خاص طور پر جب قریش کو یہ احساس بھی ہوگیا تھا کہ وہ اقتصادی اور نفسیاتی طور پر تنگی ، ذلت اور کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ شام اور دیگر علاقوں تک جانے والے ان کے تجارتی قافلوں کے راستے اتنے پر خطر ہوگئے ہیں کہ قریشیوں کے ارادے پست کر سکتے ہیں بلکہ ان کے وجود کو بھی متزلزل کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمزور موقف اپنا نے پر بھی مجبور ہو جائیں گے _ ( اس صورت میں مسلمان ان اہداف کی خاطر بھی لڑسکتے تھے لیکن ان کا مقصد ان چھوٹی چیزوں سے کہیں بلند و بالا تھا)_ جبکہ مشرکوں نے بھی اپنا موقف واضح کردیا تھا _ اور یہ بتادیا تھا کہ اس جنگ سے ان کا مقصد عربوں پر اپنی دھاک بٹھانا اور اپنے اور تجارتی راستے کے درمیان کسی ناپسندیدہ شخص کو حائل ہونے سے روکنا تھا _ فریقین کے اہداف نیز ہر ایک کی بہ نسبت جنگ کے نتائج میں بھی زمین اور آسمان کا فرق تھا _ جس پر انشاء اللہ بعد میں گفتگو کریں گے_

صف آرائی

جب صبح ہوئی تو حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنے اصحاب کی صفوں کو منظم کیا _ اس دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا علم مبارک امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھا(۱) _ اور عنقریب غزوہ احد میں ہم یہ بھی انشاء اللہ ثابت کریں گے کہ جنگ بدر بلکہ ہر موقع پر حضرت علی علیہ السلام ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علمدار تھے(۲) _ پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک سے زیادہ علم تھے کہ مصعب بن عمیر یا حباب بن منذر کے پاس بھی ایک علم تھا ، یہ صحیح نہیں ہے _ مگر یہ کہا جائے کہ مہاجرین کا پرچم مصعب کے پاس اور انصار کا پرچم

____________________

۱) المناقب خوارزمی ص ۱۰۲، الآحاد و المثانی ابن ابی عاصم النبیل کو پلی لائبریری میں خطی نسخہ نمبر ۲۳۵ ، مسند الکلابی در انتہاء المناقب ابن مغازلی ص ۴۳۴ ، خود المناقب ابن مغازلی ص ۳۶۶، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۳ ص ۳۳ و ص ۳۴ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۱ ، اس کے حاشیہ پر تلخیص مستدرک ذہبی ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۵ ، منقول از شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید طبع اولی ج ۲ ص ۱۰۲ ، جمہرة الخطب ج ۱ ص ۴۲۸، الاغانی مطبوعہ دار الکتب ج ۴ ص ۱۷۵ وتاریخ طبری مطبوعہ دار المعارف ج ۲ ص ۴۳۰_

۲) زندگانی امام امیر المؤمنینعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۱ ص ۱۴۵ ، ذخائر العقبی ص ۷۵ از احمددر المناقب ، طبقات ابن سعد ج ۳حصہ اول ص ۱۴ ، کفایت الطالب ص ۳۳۶ ، اسی کے حاشیہ میں از کنز العمال ج ۶ ص ۳۹۸ از طبرانی و الریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۲ نیز اسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کو نظام الملک نے اپنی کتاب امالی میں ذکر کیا ہے_

۲۵۳

حباب کے پاس تھا یا اس طرح کی کوئی اور بات کہی جائے تو اور بات ہے وگرنہ اختلاف کو دور کرنے کی غرض سے پرچم (رایة ) اور علم ( لوائ) میں فرق بیان کرنے کی ان کی کوشش بھی ایک بے سود اور ناکام کوشش ہے _ کیونکہ دونوں چیزوں کے متعلق روایات ملتی ہیں کہ یہ دونوں چیزیں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ خاص تھیں _ جس طرح کہ مندرجہ ذیل حاشیوں میں مذکور دستاویزات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے(۱) _ نیز مزید وضاحت انشاء اللہ واقعہ جنگ احد کے بیان میں ہوجائے گی_

مزید یہ کہ ابن سعد اور ابن اسحاق نے یہ ذکر کیا ہے کہ پرچم ( رایة) واقعہ بدر کے بعد اور جنگ خیبر کے دوران بنایا گیا(۲) _ یہ تو اس صورت میں ہے کہ ہم علم ( لوائ) اور پرچم ( رایة) کے درمیان کسی فرق کے قائل ہوں وگرنہ بعض اہل لغت کے مطابق یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف ہیں(۳) _

طوفان سے قبل آرام

حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے صحابہ کی صفین منظم کرنے کے بعد ان سے فرمایا ، '' نگاہیں نیچی کرلو ، لڑائی میں پہل مت کرو اور کسی سے بھی بات مت کرو ''(۴) _مسلمانوں نے بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی تعمیل میں خاموشی اختیار کر لی اور نگاہیں نیچی کرلیں_ اس صورتحال نے قریشیوں پر اپنا واضح اثر دکھا یا حتی کہ جب ان کا ایک آدمی کسی گھات و غیرہ کی تلاش میں اپنے گھوڑے پر سوار مسلمانوں کے لشکر کا چکر لگا کر اپنی فوج کی طرف واپس پلٹا تو اس نے وہاں جاکر کہا : '' ان کے لشکر کے کسی بھی جگہ اور حصہ سے گھات یا کسی مدد و غیرہ کی کوئی امید نہیں ہے _ لیکن یثرب ( مدینہ ) کے جنگجو دردناک اور اچانک موت ساتھ لائے ہیں _ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ وہ ایسے گونگے ہوگئے ہیں کہ کچھ بھی نہیں بول رہے؟اور ادہوں کی طرح پھنکار رہے ہیں _ ان کی

____________________

۱) ملاحظہ ہوں پچھلے دو حاشیوں میں مذکور منابع_

۲) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۷_

۳،۴) سیرہ حلبیہ ج ص ۱۴۷ و ص ۱۴۸_

۲۵۴

پناہ گاہیں صرف ان کی تلواریں ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے بلکہ مارے جائیں گے اور کم از کم اپنی تعداد جتنا افراد مارکر ہی مریں گے''_ اس پر ابوجہل نے اسے برابھلا کہا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس بات سے اس کے ساتھیوں میں خوف کی لہر دوڑ رہی تھی _

پھر ابوجہل نے مسلمانوں کی قلیل تعداد کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کہا : '' وہ تو گنتی کے چند آدمی ہیں ، اگر ہم اپنے غلاموں کو ان کی طرف روانہ کردیں تو وہ بھی انہیں ہاتھ سے پکڑ کرلے آئیں گے_''

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکین کی طرف اپنے ایک آدمی کے ذریعہ یہ پیغام بھیجا کہ'' اے قریشیو میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا _ مجھے تم عربوں کے حوالے کر کے واپس چلے جاؤ_اگر میں سچا ہوا تو میری بڑائی اور بلندی تمہاری ہی بلندی اور عظمت ہے لیکن اگر میں جھوٹا ہوا تو عرب کے درندے میرا کام تمام کرکے تمہارا مقصد پورا کردیں گے _'' یہاں پر مؤرخین کے بقول عتبہ بن ربیعہ نے مشرکوں سے اس بات کو قبول کرنے پر زور اصرار کیا لیکن ابوجہل نے اس پر بزدلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ( حضرت ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ کر اس کا پتا پانی ہوگیا ہے _ اور اسے (حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شامل ہونے والے اپنے بیٹے ابوحذیفہ کی جان کا خطرہ لا حق ہوگیا ہے _ جب عتبہ تک ابوجہل کی یہ بات پہنچی تو وہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگیا اورکہا : '' ابھی اس چوتیے(۱) کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کا پتا پانی ہوا ہے میرا یا اس کا ؟ '' _ اس بات سے اس کی غیرت کی رگ بھی پھڑکی اور اس نے اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کے ساتھ زرہ پہنی اور وہ رن میں جاکر حریف طلب کرنے لگے_

یہاں پر ہم مندرجہ ذیل نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:_

____________________

۱) ان الفاظ سے لگتا یہی ہے کہ اس نے ابوجہل کو مفعول ہونے کی گالی دی تھی، کیونکہ انصار بھی اسے اسی نام سے پکارتے تھے_ ملاحظہ ہو: مجمع الامثال ج۱ ص ۲۵۱ ضرب المثل ''اخنث من مصفر استہ'' ، البرصان والعرجان ص ۱۰۲ و ص ۱۰۳ متن و حاشیہ ، الغدیر ج ۸ ص ۲۵۱ از الصواعق المحرقہ ابن حجر ص ۱۰۸ ازدمیری در حیاة الحیوان نیز الدرة الفاخرہ فی الامثال السائرہ ج۱ ص ۱۸۸_

۲۵۵

الف: مشرکین کے خوف کی وجوہات:

مشرکین کو اس بات کا پورا پورا علم تھا کہ مسلمان جنگ کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں_ اور اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں کم از کم اپنی تعداد جتنے آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد سب کے سب مرنے کے لئے بالکل تیار ہیں_ اور اسی بات نے مشرکوں کے دل میں رن کی دھاک بٹھادی کیونکہ وہ تو اپنے خیال میں اس دنیا میں بقاء اور دنیاوی لذتوں اور فائدوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے یہ جنگ لڑ رہے تھے_ اس صورتحال میں مسلمانوں کا غیض و غضب کی شدت سے سکوت بھی ان کے خوف کی فضا میں اضافے کا باعث بنا اور مشرکوں کے دلوں میں ان کا خوف اور رعب مزید بیٹھ گیا _ اور ابھی ان کی سرگردانی اور حیرت میں مزید اضافہ ہونا تھا کیونکہ کچھ دیر بعد شروع ہونے والی جنگ کی صورتحال اور مد مقابل کی چالوں سے وہ لا علم تھے اور انہیں کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں مل رہا تھا جو انہیں جنگ کی صورتحال ، مد مقابل کی چالوں اور جنگ کے اثرات اور نتائج کی طرف رہنمائی کرتا_

اور مسلمانوں کے متعلق ابوجہل کا یہ کہنا کہ یہ تو گنتی کے چند آدمی ہیں، یہ مسلمانوں سے مشرکوں کے مرعوب نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا _ کیونکہ اس نے یہ بات صرف اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کی تھی _ کیونکہ اس نے جنگ کے متعلق اپنے ساتھیوں کی تردید اور بزدلی کا خاص طور پر مشاہدہ کیا تھا_ یہاں یہ اضافہ بھی ضرور کرتے چلیں کہ خداوند عالم نے بھی جنگ کے بعض مراحل میں مسلمانوں کی نظر میں مشرکوں کو اور مشرکوں کی نظر میں مسلمانوں کو کم تعداد میں دکھلایا تا کہ وہ آپس میں ضرور لڑیں اور خدا کا فیصلہ پورا ہو کر رہے_ اس بارے میں مزید گفتگو اس فصل کے اواخر میں ہوگی_

ب : مشرکین کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی پیشکش پر ایک نگاہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکوں کے ساتھ ان کے نقطہ نظر ، طرز تفکر ، مفاد اور ان کی نفسیات کے مطابق بات کرنے کی کوشش کی _نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ باتیں ان کے اس مفاد کے بھی مطابق تھیں جس کے تحفظ کے لئے (وہ

۲۵۶

اپنے ہی دعوے کے مطابق) یہاں لڑنے آئے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ جملہ '' اگر میں سچا ہوا تو میری وجہ سے تمہاری ہی شان بڑھے گی '' ان مشرکوں کی حب جاہ سے بالکل میل کھاتا ہے _ کیونکہ ان کی طاقت اور سرکشی کی وجہ سے ان کے اوپر سرداری اور حکومت کا بھوت اس حد تک سوار ہوگیا تھا کہ ان کے نسلی اور قبائلی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوگیا تھا اور وہ اس کی خاطر اپنے باپ اور بیٹوں سے بھی لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے تھے_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان سے یہ فرمانا کہ '' اگر میں جھوٹا ہوا تو عرب کے درندے میرا کام تمام کرکے تمہارا مقصد پورا کردیں گے''_ یہ بات بھی ان کی زندگی کے ساتھ محبت اور مالی مفاد سے میل کھاتی ہے _ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان و شوکت کے اعتراف کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کئے بنا ان کے واپس پلٹنے کا بھرم بھی رکھتی ہے اور اس بات سے وہ اپنی پسپائی کی تاویل اور توجیہ کرکے اپنی آبرو بھی بچا سکتے تھے_ لیکن قریش کی سرکشی اور تکبر اس بہترین ، منطقی اور قیمتی مشورے کو ماننے سے مانع ہوئی اور وہ اپنے جھوٹے تکبر اور احمقانہ اور بے باکانہ ڈینگوں کے سبب جنگ کرنے اور اس کے ہولناک نتائج بھگتنے پر بضد رہے_

ج: رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جنگ کی ابتداء نہیں کرنا چاہتے_

یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بھی جنگ کی ابتداء نہیں کرتے اور مسلمانوں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ جنگ شروع نہ کریں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقابل کو اس مخمصے سے آبرومندانہ طریقے سے نکلنے کا ایک موقع دینا چاہتے تھے _

لیکن اگر وہ اس پیشکش کو ٹھکرا دیتے اور اپنی ہٹ دھرمی اور سرکشی سے مسلمانوں پر چڑھائی پر بضد رہتے تو پھر مسلمان بھی اپنا دفاع کرنے اور حملہ آور کی چالوں کا جواب دینے کا حق رکھتے تھے ، چاہے وہ حملہ آور کوئی بھی ہو اور جیسا بھی ہو_

حضرت علی علیہ السلام کا بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی دشمنوں کے ساتھ یہی رویہ رہا_ بلکہ یہ تو( رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی اتباع کرنے والے ائمہ ہدی کی پیروی میں )شیعیان علیعليه‌السلام کی رسم

۲۵۷

اور ان کا خاصہ ہے _ اس پر مزید گفتگو جنگ بدر کی گفتگو کے بعد ''سیرت سے متعلق کچھ ابحاث '' کے فصل کے ذیل میں دیگر بحثوں کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ شیعوں کی خصوصیات کی بحث میں ہوگی _ البتہ اس کے کئی اشارے ذکر بھی ہوچکے ہیں_

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سائبان تلے؟

مؤرخین کے بقول بدر میں صحابہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کھجور کی چھڑیوں سے ایک چھولدار ی تیار کی جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ صرف جناب ابوبکر تھے اور کوئی بھی نہیں تھا_ مؤرخین یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات سے بھی اتفاق کیا تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ چند تازہ دم اصیل گھوڑے تیار رہیںتا کہ اگر جنگ میں کامیابی ہوئی تو ٹھیک و گرنہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ میں اپنے دیگر صحابیوںسے ملحق ہوجائیںگے(۱) _

لیکن یہ بات کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے _ کیونکہ معتزلی کے بقول : '' وہ چھولداری کی بات تو نہایت حیرت انگیز ہے _ چھولداری بنانے کے لئے ان کے پاس کھجور کی چھڑیوں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آگئی تھی ؟ حالانکہ بدر میں تو کھجور کے درخت نہیں تھے_ اور ان کے پاس جو تھوڑی بہت چھڑیاں تھیں بھی تو وہ ان کے لئے ہتھیاروں کا کام دے رہی تھیں_ کیونکہ منقول ہے کہ سات صحابیوں کے ہاتھ میں تلوار کی جگہ چھڑیاں تھیں جبکہ باقی صحابی تلواروں ، تیروں اور بھالوں سے مسلح تھے _ البتہ یہ نادر نظریہ ہے کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ تمام افراد ہتھیاروں سے مسلح تھے _ ہوسکتا ہے کہ چند چھڑیاں بھی ساتھ ہوں اور ان پر کوئی کپڑا و غیرہ ڈال کر کوئی سایہ بنایا گیا ہو و گرنہ یہاں کھجور کی چھڑیوں سے چھپر بنانے کی کوئی معقول وجہ نظر میں آتی ''(۲) لیکن ہم کہتے ہیں کہ :

الف : معتزلی کی یہ بات کہ تمام مہاجرین کے پاس اسلحہ تھا یہ ناقابل قبول ہے _ اس لئے کہ گذشتہ

____________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۲۲ و ص ۲۷۹ ، المغازی واقدی ج ۱ ص ۴۹ و ص ۵۵ ، الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۲ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۴ ص ۱۱۸ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۵۵ _۱۵۶ و ص ۱۶۱ و دیگر کثیر مآخذ

۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج ۴ ص ۱۱۸

۲۵۸

دستاویزات میں ان کے اسلحہ کی تعداد مذکور ہوچکی ہے اور ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو معتزلی کی بات کی تائید کرتی ہو _ بلکہ لگتا یہی ہے کہ تھوڑے افراد ایسے تھے جو تیرکمانوں سے مسلح تھے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے یہ فرمایا تھا کہ جب مشرکین نزدیک پہنچیں تب ان پر تیراندازی کرو _ شاید بعض کے پاس نیزے ، بعض کے پاس لاٹھیاں اور بعض کے پاس تلوار یا خنجر تھے اور کچھ لوگوں کے پاس کھجور کی خشک چھڑیاں بھی تھیں جن سے وہ اپنا بچاؤ کرتے تھے اور موقع پانے کی صورت میں دشمن پر حملہ بھی کر سکتے تھے _

ب: اس کا آخری نتیجہ بھی بے جاہے _ کیونکہ جن چھڑیوں پر کپڑا و غیرہ ڈال کرسائبان و غیرہ بنایا جاتا ہے انہیں خیمہ کہا جاتا ہے چھپر نہیں _ بلکہ بعض کی رائے میں تو اسے خیمہ بھی نہیں کہتے _ اسی طرح معتزلی کا ان لوگوں کی اور ان کے تلواروں کی تعداد کے متعلق نظریہ بھی گذشتہ باتوں کے سبب مشکوک ہوجاتا ہے _

البتہ بنیادی طور پر ہم بھی اس مزعومہ سائبان کے وجود اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس میں بیٹھنے اور شکست کی صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرار کے انکاری ہیں لیکن ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلائل ہیں :

ایک : نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم جنگ کے کٹھن لمحات میں فرار کرنے والے تھے ہی نہیں _

دو : مختلف مؤرخین سے منقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ دعا'' اللهم ان تهلک هذه العصابة لا تعبد '' ( خدایا اگر تو نے اپنے ان عزیزوں کو ماردیا تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا )

بھی اس دعوے کو جھٹلاتی ہے کہ اس جنگ میں مشرکوں کی کامیابی کی صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر فرار کا ارادہ رکھتے تھے _ کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پلٹ جانے کی صورت میں بھی کرہ ارض پر خدا کی عبادت نہیں ہوسکتی تھی ( اس لئے کے بعد والی شق کے مطابق وہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والوں کا پیچھا کرتے اور جان لئے بغیر دم نہ لیتے ) _ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ بات فرما کر پھر یہ کام کیوں کرتے ؟

تین : اگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر میں ( نعوذ با للہ ) شکست کھا جاتے توبھی مشرکین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی جان بچا کر کہیں جا کر پھر سے فوج اکٹھا کرنے کا موقع نہیں دیتے _ بلکہ وہ مدینہ پر ہی چڑھائی کر کے اس میں اپنے لئے مشکلات کھڑی کرنے والوں کو سرے سے ہی نابود کردیتے _ اس لئے کہ وہ اب مدینہ کے قریب بھی

۲۵۹

آئے ہوئے تھے ، کامیابی و کامرانی کامزہ بھی چکھ چکے ہوتے تھے اور ان کے پاس تعداد اور تیاری کے لحاظ سے ایک آئیڈیل اور قابل رشک فوج بھی موجود تھی_

چار : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چھپر کے نیچے محافظ کے ساتھ کیسے جاکر بیٹھ سکتے تھے؟ حالانکہ انہی مؤرخین کے بقول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر خواب میں اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تلوار سونت کر یہ آیت پڑھتے ہوئے مشرکوں کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا تھا (سیهزم الجمع و یولون الدبر ) ترجمہ : '' عنقریب ان کی فوج تتر بتر ہوکر پسپائی اختیار کرے گی ''(۱) _ وہ تویہ بھی کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنفس نفیس جنگ بدر میں شرکت کرکے سخت لڑائی لڑی تھی(۲) اور یہ بات بھی جنگ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت پر دلالت کرتی ہے کہ کچھ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے،ایک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دائیں ، ایک بائیں ، ایک آگے اور ایک پیچھے تھا(۳) _اور حضرت علی علیہ السلام کی زبانی بھی منقول ہے کہ '' جنگ بدر کے موقع پر ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ مشرکین سے اپنا بچاؤ کرتے تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے زیادہ دلیر شخصیت تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سب سے آگے آگے تھے''(۴)

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب ابوبکر اس وقت کہاں تھے؟ کیا رن میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ تھے؟ یا پھر جا حظ کے عنقریب ذکر ہونے والے دعوے کے مطابق وہ قائد ، سردار اور رہنما کا کردار ادا کرنے کے لئے اکیلے چھو لداری میں بیٹھ گئے تھے؟ واقعہ بدرکے بعد ایک فصل میں جناب ابوبکر کی بہادری اور چھولداری میں اس کے بیٹھنے کا ذکر آئے گا _ انشاء اللہ تعالی _

پانچ : جب مسلمانوں کے پاس صرف مقداد کے گھوڑے کے سوا کوئی اور گھوڑا تھا ہی نہیں تو پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ( نعوذ باللہ) فرار کے لئے تیار کئی اصیل گھوڑے کہاں سے آگئے تھے؟ اور یہ گھوڑے دین اور مسلمانوں سے دفاع کے لئے جنگ میں کیوں کام نہ آئے؟ حالانکہ وہاں ان کی اشد ضرورت تھی_

____________________

۱) تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۷۲_ (۲) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۳ و ص ۱۶۷ لیکن اس نے مذکورہ بات کی خلاف واقع توجیہ کی ہے کیونکہ اس نے کہا ہے کہ یہاں جہاد کا مطلب دعا ہے _ یہ سب باتیں چھپر والی حدیث کو صحیح ثابت کرنے کی کوششیں ہیں_

۳) المغازی واقدی ج ۱ ص ۷۸_

۴) ملاحظہ ہو : تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۳۵، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۲۳، البدایہ و النہایہ ج ۶ ص ۳۷ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۶۷۷ از احمد و بیہقی_

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430