خوشبوئے حیات

خوشبوئے حیات13%

خوشبوئے حیات مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم اوراہلبیت لائبریری
صفحے: 430

خوشبوئے حیات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 430 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 364645 / ڈاؤنلوڈ: 5376
سائز سائز سائز

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے

خوشبوئے حیات

باقر شریف قرشی

مترجم : سید ضرغام حیدر نقوی

مجمع جہانی اہل بیت (علیھم السلام)

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حجة الاسلام باقر شریف قرشی کی گرانقدر کتاب نفحات من سیرة ائمة اہل البیت علیہم السلام کو فاضل جلیل مولاناسیدضرغام حیدر نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

آغاز سخن

پروردگار عالم نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے اسرار کامحافظ ،اپنے علم کا مخزن ،اپنی وحی کا مفسراور صراط مستقیم کی روشن دلیل قرار دیاہے، اسی بنا پر ان کو تمام لغزشوں سے محفوظ رکھا،ان سے ہر طرح کی پلیدگی اوررجس کو دور رکھاجیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے :

( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) (۱)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

قرآن کریم میںاُن کی اطاعت ،ولایت اور محبت کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواَطِیعُوااﷲَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِمِنْکُمْ ) (۲)

''اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرورسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں ''۔

نیزخداوند عالم کا یہ فرمان ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

____________________

۱۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۲۔سورئہ نساء ،آیت ۵۹۔

۳۔سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۷

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

اسی طرح رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حدیث میں تاکید فرما ئی ہے جو محدثین کی نظر میں متواتر ہے :

''اِنِّی تارِک فیکُمُ الثَقَلَیْنِ مَااِنْ تَمَسَّکتُم بِهِمالَن تضلُّوابعدی،اَحَدَهُمَا اَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ:کِتَابَ اللّٰه،حَبْل مَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلیَ الاَرض،وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ وَلَنْ یَّفْتَرِقَاحَتّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَانظرُوا کَیْفَ تَخْلُفُوْنِیْ فِیْهِمَا'' ۔

''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے ،ان دونوں میں سے ہر ایک ،ایک دوسرے سے اعظم ہے : اللہ کی کتاب جو آسمان سے لے کر زمین تک کھنچی ہوئی رسی ہے ،اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس واردہوں،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''یہ سب اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں،خاتم الانبیاء کے خلفاء ،پرچم اسلام کے علمبر دار ،آپ کے علم و نور کا خزانہ اوراسوئہ حسنہ ہیںنیز اللہ کی بندگی کیلئے اپنے قول وفعل کے اعتبار سے ہمارے لئے نمو نۂ عمل ہیں ۔

ان کی سیرت طیبہ بلند و بالا کر دار ،اعلیٰ نمونہ ،اسلام کے علوم و معارف کے ناشر ، ایثاروقربانی زہد،تواضع ،فقیروں اور کمزوروں کی امدادجیسے مکارم اخلاق کامجموعہ ہے اور اس کتاب میںاسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

ہم اس گفتگوکے آخر میں خداوند قدوس سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اس کے منابع وماخذسے استدلال کر نے میں کامیاب و کامران فرمائے ۔

آخر میں ہم مؤسسہ اسلامی کے نشر و اشاعت کرنے والے ادارہ اسلامی کے شکر گذار ہیں ۔

والحمد للّٰہ ربّ العالمین،وصلی اللّٰہ علیٰ محمد وآلہ الغرّ المیامین

مہدی باقر قرشی

۱۳ محرم ۱۴۲۴ھ

۸

مقدمہ

(۱)

بیشک ہر انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میںیہ بات شامل ہے کہ وہ ایک ایسا عقیدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے مطابق زندگی گذارنا آسان ہواور وہ اس کے نامعلوم مستقبل کے بارے میںایک پناہگاہ قرار پاسکے، خاص طور پراپنی موت کے بعدوہ قابل اطمینان ٹھکانہ حاصل کر سکے اور عین اسی وقت اس کا ضمیر یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کی معرفت حاصل کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس عرصۂ حیات میں اسے وجود عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے خالق کے بارے میںموجود افکار کے درمیان زمین سے لیکر آسمان تک کا اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا اچانک وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی یہ عقل میں آنے والی بات ہے ۔ کائنات میںبسنے والے انسانوںمیں سے بعض سورج کو اپنا خدا مان بیٹھے کیونکہ یہ گرمی بخشتا ہے ،بعض نے چاند کو اپنا خالق مان لیا کیونکہ اس کے نکلنے ،نمو کرنے اور کامل ہونے کے متعدد فائدے اور عجائبات ہیں، پھر اس کے ڈوبنے(۱) اور نکلنے کے بھی فائدے ہیں اور بعض فرقے جہالت و نا دانی کی بنا پراپنے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش کرنے لگے جن کو انھوں نے اللہ کے بجائے اپنا خدا قرار دیاتھا۔خانہ ٔکعبہ کی دیواروں پرتین سو ساٹھ بت رکھ دئے گئے تھے جن میں سے ہبل معاویہ کے باپ اور یزید کے دادا ابوسفیان کا خدا تھا اور بقیہ

____________________

۱۔عراق میں مقبروں کی دیواروں پر سورج ،چانداور بعض ستاروں کی تصویریں بنا ئی گئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔

۹

مکہ اور مکہ سے باہر رہنے والے قریش سے متعلق خاندانوں کے خدا تھے ۔

(۲)

پروردگار عالم کے تمام انبیاء اللہ کی مخلوق، اس کے بندوں پر حجت تمام کرنے اور ان کی فکروں کو صاف و شفاف کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ،انھوں نے ہی جہالت کے بتوں اور باطل عقائد سے لوگوں کے اذہان کو صاف کیا ،اسی طرح انھوں نے انسان کے ارادہ ، طرز عمل اورعقائدکومکمل طور پرآزادرہنے کی دعوت دی ۔

انبیاء کے مبعوث کئے جانے کا عظیم مقصد، اللہ کے بندوں کواس کی عبادت اور وحدانیت کی دعوت دینا تھا ،وہ خدا جو خالق کائنات ہے ،ایسی زندگی عطا کرنے والا ہے جوزمین پر خیر اور سلامتی کی شناخت پر مبنی ہے ،اسی طرح ان کی دعوت کا اہم مقصد انسان کو اُن خرافات سے دور کرنا تھا جن کے ذریعہ انسان کا اپنے اصلی مقصد سے بہت دور چلے جاناہے ۔

مشرقی عرب میں سب سے نمایاں مصلح حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنھوں نے زمین پر اللہ کا نام بلند کرنے کیلئے جہاد کیا ،شرک کا قلع و قمع کرنے کیلئے سختی سے مقابلہ کیا ،جیسا کہ آ پ نے بتوں کو پامال اور ان کو نیست و نابود کرنے کیلئے قیام کیا ،(۱) جبکہ اُن کی قوم نے اُن پر سختیاں کیں ، آپ کے زمانہ کے سرکش بادشاہ نمرودنے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں ،اور آپ کو دہکتی ہو ئی آگ میں منجیق کے ذریعہ ڈال دیالیکن پروردگار عالم نے آگ کو جناب ابراہیم کیلئے ٹھنڈاکردیا ۔(۲)

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے زمین پر اللہ کانام بلندکرنے کیلئے جنگ و جہاد کیا ، اورانسان کی فکر اور اس کے ارادہ کو غیر خدا کی عبادت سے آزادی عطاکی ۔

____________________

۱۔ملاحظہ کیجئے سورئہ انبیائ، آیت ۵۱سے۶۷تک ،ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جہاد اوربتوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔پروردگار عالم نے آگ کی حرارت کو ٹھنڈک میں بدل دیاجو اس کی ضدہے،یہ ایک ایسا حقیقی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تا ئید فرما ئی ہے ۔

۱۰

(۳)

اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور انسان کو آزاد فکر کی طرف دعوت دینے میں رسول اعظم حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت ممتاز و نمایاں ہے ،آپ ہی نور کی مشعلوں کو اٹھانے والے ہیں ، آپ نے ہی جہالت کے خو شنما دکھائی دینے والے ان عقائد کو پاش پاش کیا جو گناہ اور خرافات میں غرق تھے ، مکہ میں نور کی شعاعیں پھیلیں جو اصنام اور بتوں کا مرکز تھا ،کو ئی بھی قبیلہ بتوں سے خا لی نہیں تھا ہر گھر میں بت تھے ، جن کی وہ اللہ کے بجائے پرستش کیاکرتے تھے ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محکم عزم و ارادہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا آپ کے سامنے کو ئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،آپ نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ توحید کا پرچم بلندکیا،خدا کی عبادت کا تصور پیش کیا،تاریخ کارخ بدل ڈالا اور انسان کو خرافات میں غرق ہونے سے نجات دیدی ۔

یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کی اکثر آیات مکہ میں نازل فرما ئیں اورآنحضرت نے پروردگار عالم کے وجودپرمحکم اور قاطع دلیلیں پیش کیں جن کا انکار کمزور ذہن والے انسان کے علاوہ کو ئی نہیں کر سکتاہے ۔

(۴)

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے یثرب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ،اللہ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی ،آپ کے دشمن ،سرکش قریش اور سرکردہ عربوںنے آپ کو زیر کرنا چا ہا تو آپ نے ایک عظیم حکومت کی بنیاد ڈالی ،اپنی امت کے لئے بہترین اور مفید قواعد و ضوابط معین فرمائے جن سے تہذیب و تمدن کو چلایا جاسکے ،اس (حکومت)میں انصاف ور حقوق کی ادائیگی کی ضمانت لی ،اس میں زندگی کی مشکلات کا حل پیش کیا،انسان کی زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا جس کے لئے شرعی قانون نہ بنایا ہو یہاں تک کہ خراش تک کی دیت کے قوانین معین کئے ،شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجس میں سب کے لئے احکام مقررکئے ، جس سے فطرت انسانی کا قافلہ رواں دواں ہوگیا،جو انسان کی زندگی کے طریقہ سے با لکل بھی الگ نہیں ہوسکتا تھااور پھر آنحضرت کے اوصیاء و خلفاء نے ان قوانین کو لوگوں تک پہنچایا جو ائمہ ٔ ہدایت اور مصباح اسلام ہیں ۔

۱۱

(۵)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس چیز کو اپنی زندگی میںزیادہ اہمیت دی وہ اپنے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ تھالہٰذا یہ ضروری تھاکہ آپ اپنے بعد اس امت کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کسی کو معین فرمائیںجولوگوں تک خیر و بھلائی کو پہنچا سکے ،آپ نے اپنی سب سے پہلی دعوتِ دین کے موقع پریہ اعلان کردیاکہ جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے گا اور آپ کی مدد کرے گا اور میری وفات کے بعد میراخلیفہ ہو گا اس سلسلہ میںآپ نے بڑا اہتمام کیا راویوں کا اتفاق ہے کہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نے آپ کی دعوت پر لبیک کہاحالانکہ آپ ابھی بہت کم سن تھے،پھر آنحضرت نے آپ کواپنے بعدکے لئے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرمایا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر نظر ڈالی تو ان میں اپنے چچا زاد بھا ئی اور سبطین (امام حسن و امام حسین)کے پدر بزرگوارحضرت علی کے علاوہ کو ئی ایسانظر نہ آیاجو آپ کے ہم پلّہ ہو سکے ،آپ اللہ پر خالص ایمان کی نعمت سے مالا مال تھے اور دین کی مشکلوں میں کام آنے والے تھے ،مزید یہ کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کو علم کے خزانہ سے نوازا تھاجس کو آپ نے مستقبل میں ثابت کردکھایا، آپ نے ان کو اپنے بعد امت کے لئے معین فرمایا تاکہ وہ ان کی ہدایت کا فریضہ ادا کریں اور اس امت کو گمراہی سے نجات دے سکیں ۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا متعدد مقامات پراعلان فرمایا،ایسی متعدد احادیث و روایات ہیں جن میں نبی نے حضرت علی کو اپنا نفس قرار دیا ہے یا فرمایا:ان کا میرے نزدیک وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ کی نظر میں تھا ،علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے نیزوہ میرے شہر علم کا دروازہ ہیں ،غدیر خم میںمسلمانوں سے ان کی بیعت لے کر انھیں عزت بخشی ،ان کو مسلمین کا علمبر دار قراردیا،ان کی ولایت ہر مسلمان عورت اور مرد پر واجب قراردی ،حج سے واپسی پر(تمام قافلے والوں سے جب وہ اپنے اپنے وطن واپس جانا چا ہتے تھے تو ان سے) آپ کی خلافت و امارت کے لئے بیعت لی ،اور اپنی ازواج کو عورتوں سے بیعت لینے کا حکم دیا،دنیائے اسلام میں اس کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی یہاں تک کہ اس دن کو ایمان اور نعمت کبریٰ کا نام دیا گیا ۔

۱۲

(۶)

جب ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو پیش کیا تو اس میں ہم نے ایسے بلند و بالا خصوصیات اور مثُل اعلیٰ کا مشاہدہ کیا ،جومنابع نبوت اور شجرئہ وحی ہیں ۔

الحمد للہ میںنے چالیس سال سے ان کے بارے میں اُن کے شرف و عزت کی داستانیں تحریر کی ہیںجس میں ہم نے ان کے آثار و سیرت کو لوگوں کے درمیان شائع کیا،خدا کی قسم جب ہم نے ان میں سے کسی امام سے متعلق کتابوںکا مطالعہ کیا تو اس کی تمام فصلوں اور سطور میں نور،ہدایت ، شرف اورکرامت کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا،ان کااللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے اور حیرت زدہ کو رشادت ملتی ہے ۔

سیرت ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم ،دنیا کی ہر رنگینی اوراس کی زیب و زینت سے بالاتر ہے اس میں صرف اللہ کی طرف سے کا میابی کا رخ ہے،اسی کے لئے مطلق عبودیت دکھا ئی دیتی ہے ،وہ اپنی راتیں خدا کی عبادت ،اس سے لو لگانے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرکے بسر کرتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں ان کے دشمن اپنی راتیں رنگین کرکے ،بدکاری ،دیوانگی اور مست ہو کر بسر کرتے ہیں ،خدا ابو فارس پر رحمت نازل فرمائے اس نے مندرجہ ذیل شعر بنی عباس اور آل نبی کے متعلق کہا ہے :

تُمسی التلاوة فی ابیاتهم ابداً

وفی بیوتکم ُ الاوتارُ والنغمُ

''ان (آل نبی)کے گھر سے ہمیشہ قرآن کی تلاوت کی آواز آتی ہے اور تمہارے گھروں سے ہمیشہ گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں '' ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام تقویٰ کے ستون تھے ،ایمان کے لئے آئیڈیل تھے ،لیکن ان کے دشمن فساد اور تمام اخلاقی اور انسانی قدرو قیمت کو برباد کرنے میں آئیڈیل ہیں ۔

۱۳

(۷)

جب سے تاریخ اسلام وجو د میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک لوگوں کا یہ یقین واعتقاد ہے کہ ائمہ دین اسلام کی حمایت و مدد کرنے والے ہیں ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ،قرآن حکیم کے ہم پلہ ہیں ،شیعوں کایہ عقیدہ کسی سے تعصب یا تقلید کے طور پر نہیں ہے ،اس مطلب پر کتاب خدا اور سنت نبویہ کی قاطع دلیلیں موجود ہیں ،جن سے کسی مسلمان کے لئے اغماض نظر کرنا اور انھیں پس پشت ڈال دیناجا ئز نہیں ہے ،یہ صاف و شفاف دلائل ہیں ،ان کا فائدہ واضح و روشن ہے ،مسلمانوں پر ان سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے :

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًاِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کاکوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے اقربا ء سے محبت کرو ''۔

آیہ ٔ ولایت نے عترت اطہار کی محبت واجب قرار دی ہے ۔

(۸)

اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شریعت اسلام میں ان کے جد بزرگوار رسول اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ دوسرا کو ئی اورطریقہ نہیںہے ،بلکہ اہل بیت کا طریقہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقہ ہے جوآنحضرت کے طریقہ و روش سے ہی اخذ کیا گیا ہے ،تمام عبادات و معاملات ،عقود اور ایقاعات ایک ہی چمکتے ہوئے نور و حکمت کے سرچشمہ سے اخذ کئے گئے ہیں ،جن کو حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہا جاتا ہے،فقہ اسلامی کی عظیم الشان شخصیت حضرت امام صادق نے اعلان فرمایا ہے کہ جو احکام شریعت ، بلند و برتراخلاق اور آداب وغیر ہ نقل کئے گئے ہیں وہ سب ہمارے آباء و اجداد کے اس خزانہ سے نقل کئے گئے ہیں جن کو انھوں نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا تھا ،ان کی احادیث (کسی مغالطہ کے بغیر)جوہرِ اسلام کی حکایت کر تی ہیں ،ان کی حقیقت رب العالمین کی طرف سے اسی طرح نازل ہو ئی ہیں ،اس میںاسلامی مذاہب پر کسی طرح کا کو ئی طعن و طنز نہیں کیا گیا ہے ،ان کے علمی چشمے ہیں جن کے ذریعے وہ سیراب کئے گئے ہیں ۔

____________________

۱۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۲۲۔

۱۴

(۹)

ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ تمام ماثوراحکام و تشریعات بالکل حق اورعدل خالص ہیں ، ان میں کوئی پیچیدگی اور اغماض نہیں ہے ،جن دلائل پر شیعوں کے بڑے بڑے فقہا نے اعتماد کیا ہے یا جن کو ستون قرار دیا ہے وہ عسر و حر ج کو دور کر نے والی دلیلیں ہیں ،جب مکلف پر عسر و حرج لازم آرہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں ،اسی طرح ضرر کو دور کرنے والی احا دیث جب مکلف پر کسی کی طرف سے کو ئی ضرر عائد ہو رہا ہو تو یہ ادلّہ ٔ اولیہ پر حاکم ہو تی ہیں۔

بہر حال ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہب شریعت کے تمام اطوار میںفطری طور پرہر زمانہ میں رواں دواںہے ۔

(۱۰)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے بڑے صحابی جیسے عمار بن یاسر ،سلمان فارسی اور ابوذر غفاری اور اوس و خزرج کے قبیلوں کی وہ ہستیاں جنھوں نے اسلام کو اپنی کوششوں اور جہاد کے ذریعہ قائم کیا ان سب نے اہل بیت علیہم السلام کا مذہب کا اختیار کیا ،کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی عترت کوکشتی نجات قرآن مجید کے ہم پلّہ اور باب حطّہ کے مانند قرار دیا ہے ،اور اُن (اہل بیت)کے قائد و رہبر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں جو حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے،ان کی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کی مو سیٰ سے تھی اور ان ہی کے مذہب کو مذہب ِحق کانام دیا گیا ہے ۔اسی سلسلہ میں شاعر اسلام کمیت کا کہنا ہے :

ومالِیَ اِلّاآلَ احمدَ شیعَة

وَمالِیَ اِلّا مَذْهبَ الحقِّ مَذْهَب

''میں آل احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شیعہ ہوں اورمذہب حق کے علاوہ میرا اور کو ئی مذہب نہیں ہے''۔

۱۵

(۱۱)

اگر اموی اور عباسی سیاست نہ ہو تی تو مذہب اہل بیت علیہم السلام اسلامی معاشرہ میں واحد مذہب ہوتا،کیونکہ یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متصل ہے اور اُن ہی سے اخذ کیا گیا ہے ،مگر کیاکیا جائے کہ بنی امیہ اور عباسیوں نے اہل بیت کا مقابلہ کر نے کی ٹھان لی اور ان کو سزا ئیں دینا شروع کردیںکیونکہ یہ اہل بیت ان کے ظلم و جبراوران کی حکومت کیلئے خطرہ تھے ،اسی لئے وہ تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں اہل بیت اور ان کے شیعوں کی ضد پر اڑگئے ،جس سے شیعوں کے ائمہ نے اُن (شیعوں) پر تقیہ لازم قرار دیدیا، اور ان کودی جانے والی سخت سزائوں کے ڈر کی وجہ سے اپنا مذہب مخفی کرنے کی تاکید فرما دی، وہ سزائیں یہ تھیں جیسے آنکھیں پھوڑدینا ،ان کے تمام فطری حقوق کو پائمال کر دینااور عدالت و کچہری میں ان کی گو اہی قبول نہ کیاجانا ۔

(۱۲)

اموی اور عباسی حکمرانوں نے شیعوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ،ان کے سخت سے سخت امتحانات لئے ،ان پر سخت ظلم و تشدد کئے ،ان کے ہاتھ کاٹ دئے ،ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اورمعمولی سے وہم و گمان کی بنا پر ہی ان کو قتل کر دیاجاتا تھا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :(مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کو ئی ایسا طائفہ و گروہ نہیں ہے جس پر اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں کی طرح ظلم و ستم ڈھائے گئے ہوں ،اس کا سبب ان کا عقیدہ ٔ امامت ہے اور امام ان بلند و بالا خصوصیات و صفات کے مالک تھے جو ان حاکموں میں نہیں پائے جاتے تھے جو مسلمانوں پر عدالت نہیں بلکہ تلوار کے زور پر حکومت کرتے تھے ،وہ (نا انصاف حکام)اُن کو چور و ڈاکو سمجھتے تھے اسی لئے انھوں نے اُن کی حکومت کو گرانے کے لئے ہتھیاروں سے لیس ہوکر قیام کیا)۔

شیعوں نے (بڑے ہی فخر و عزت کے ساتھ)عدل سیاسی اور معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی، انھوں نے حکومت سے مسلمانوں کے درمیان عدل کے ذریعہ مال تقسیم کرنے مانگ کی، حاکموں کی شہوت پرستی کے ذریعہ نہیں ،لہٰذا عباسی اور اموی تمام بادشاہوں نے ان کا کشت و کشتار کرکے سختی کے ساتھ انھیں کچل دیا ۔

۱۶

(۱۳)

انھوں نے نا انصافی کرتے ہوئے شیعوں پر ایسے ایسے پست الزام لگائے جن کی کو ئی سند نہیں ہے ،جو الزام لگانے والوں کی فکری اور علمی پستی پر دلالت کرتے ہیں، اُن ہی میں سے انھوں نے شیعوں پر ایک یہ تہمت لگائی کہ شیعہ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ یہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی ہے جس کے شرف کو اللہ نے زیادہ کیا ہے ،اور ہم نے یہ مطلب اپنی کتاب ''السجود علی التربة الحسینیة '' میںبیان کیا ہے جو متعدد مرتبہ طبع ہوئی ہے ،اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ،ہم نے اس میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے کہ شیعہ تربت ِ حسینی کو مقدس سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر سجدہ کرتے ہیںکیونکہ وہاں پر بانی اسلام اور اس کو نجات دینے والے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں ،راویوں کا یہ متفق علیہ فیصلہ ہے کہ جبرئیل نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بقعہ ٔ طاہرہ کی مٹی دیتے ہوئے یہ خبر دی کہ آپکا فرزند حسین اس سر زمین پر شہید کیا جا ئے گا تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور اس کو چوما ،لہٰذا شیعہ اس مٹی پر اللہ واحد قہار کاسجدہ کرتے ہیں جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونگھا اور چو ما ہے ،اس طرح کی متعدد تہمتیں شیعوں پر لگا ئی گئی ہیں ،ان کے حق میں کچھ ایسے فیصلے کئے جن کی دین میں کو ئی حقیقت ہی نہیں ہے اور جو دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔

۱۷

(۱۴)

ہم ایمان اور صدق دل سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سوانح حیات سے متعلق یہ مختصرمطالب حق کی دعوت ،اخلاص، حقیقت ،امت کے استقلال اور اس میں محبت و اتحاد کی بقا و دوام کی خاطر رقم کئے ہیں ،اس لئے کہ انسان کو متحد رہنا چاہئے متفرق نہیں ، ایک ہونا چاہئے الگ الگ نہیں ،ان میں کو ئی دھوکہ اور گمراہی نہیں ہے ،ہم نے بنیادی طور پر یہ مطالب قرآن کریم اور احادیث رسول سے حاصل کئے ہیں،جن میں خواہشات نفسانی کا کو ئی دخل و تصرف نہیں ہے اور نہ ہی جذبات کو مد نظر رکھا گیا ہے جن سے حقائق چھپ جاتے ہیں اور تاریخی حقائق مخفی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

(۱۵)

ہم صاف و شفاف اور مخلصانہ انداز میں یہ عرض کرتے ہیں :بیشک انسان تجربے کرتا ہے ، اور اس نے حکومت کے متعلق متعدد تجربے کئے ہیں لیکن یہ حکومت اور سیاست کے میدان اس مقام و منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے جس تک شیعوں کی رسا ئی ہے ،کیونکہ امت کے امام میں کمال اوربلندی ذات کی شرط ہے ، حکومت اور اسے چلانے پر مکمل طور پر مسلط ہونا چا ہئے ،اور امت چلانے کیلئے تمام اقتصادی تعلیمی ،امن و امان وغیر ہ کوعام ہونا چاہئے جس سے شہروں کو صحیح طریقہ سے ترقی کی راہ پر چلایاجاسکے ۔

۱۸

ہم پھر تاکید کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان تمام امور سے ائمہ ہدایت علیہم السلام کے علاوہ اور کوئی واقف نہیں تھا کیونکہ یہ مادیات سے بالکل الگ تھے ،انھوں نے اخلاص حق کے لئے کام کیا ،جب امام امیر المو منین علی علیہ السلام نے امت کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو اِن ہی کو عملی شکل دیدی ،آپ نے مسلمان اور غیر مسلمان سب میں مساوات کا اعلان فرمایاان کو برابر برابر عطا کیا ، قرابتداروں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا ،آپ کا اپنے بھا ئی عقیل ،بھتیجے اور اپنے داماد عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور و معروف ہے ،آپ نے ان دونوں کے ساتھ عام لوگوں جیسا سلوک کیا ،اور حکومت کے اموال میں ان دونوں کا کو ئی اثر نہیں ہوا ،آپ اس سلسلہ میں بہت ہی دقت سے کام لیتے تھے یہاں تک کہ اپنی ذات والا صفات کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

امام نے حکومت کے تمام میدانوں میں اسلامی تعلیمات کو نشر کیا ،آپ نے اپنے دور حکومت میں والیوں اور کا رکنوں کیلئے خطوط تحریر فرمائے ،آپ نے ان خطوط میں امت کیلئے تمام ضروریات دین ، سیاست، اقتصاد اور تعلیمات وغیرہ کے سلسلہ میں ضروری نکات تحریر فرمائے ۔ ان تمام دروس کا سیکھنا اور ان کو مذہب کی بنیاد پر قرار دینا واجب ہے ، امام ِ امت کی ذمہ داریاںہیں اور ان کا مذہب شیعہ کے مطابق آگے بڑھناہے۔

(۱۶)

مقدمہ کے اختتام سے پہلے ہم قارئین کرام کو یہ بتا دیں کہ ہم نے یہ مقدمہ مذہب اہل بیت کی تعلیم و تدریس کیلئے تحریر کیا ہے ،اس میں تربیتی اور اخلاقی مطالب تحریر کئے ہیںاور ابن خلدون(۱) اور احمد امین مصری وغیرہ کی باتوں سے گریز کیا ہے جنھوں نے ائمہ اور شیعوں کے متعلق کچھ مطالب تحریر کئے ہیںوہ بھی ان کی تعلیمات کے متعلق تحریر نہیں کئے بلکہ متعصب قسم کے مطالب ہیں اور ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں جن کی کوئی واقعیت اور علمی حیثیت نہیںہے ۔

____________________

۱۔مقدمہ ابن خلدون صفحہ ۱۹۶۔۲۰۲۔

۱۹

ان مطالب کے بعدہم نے اہل بیت کی سیرت اور ان سے ماثورہ مطالب تحریر کئے ہیں،یہ اس کاخاص جزء ہے ،ہم نے اس کتاب کو ایک مستقل مو ضوع قرار دیتے ہوئے اس کا نام ''نفحات من سیرة ائمة اہل البیت ''رکھاہے ،اس کا مطالعہ کرنے والے اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہم نے ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی ائمہ ہدیٰ نے تعلیم دی ہے ۔

اس مقدمہ کے آخر میں ہم عالم جلیل سید عبد اللہ سید ہاشم مو سوی کے لئے دعا کرتے ہیں خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے انھوں نے اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیاجسے میں نے ائمہ ہدیٰ کی شان مبارک میں تحریر کیا ہے ،خدا ان کو اجر جزیل عطا فرمائے ،اور اس فعل پرعظیم ثواب عطا کرے وہی پروردگار ہے جو بلند ،ولی اورقادر ہے ۔

مکتبۂ امام حسن عام

نجف اشرف

باقر شریف قرشی

۲۸ربیع الثانی ۱۴۲۱ ھ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا توقوی ہے اور ميں کمزور ہوں اور کمزور پر طاقتور کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توغنی ہے اور ميں فقير ہوں اور فقير پر غنی کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا تومعطی ہے اور ميں سائل ہوں اور سائل پر معطی کے علاوہ کون رحم کرے گا۔اے ميرے مو لا ميرے مو لا تو زندہ ہے اور ميں مرنے والا ہوں اور مر نے والے پر زندہ کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا ميرے مو لا تو باقی ہے اور ميں فانی ہوں اور فانی پر باقی کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ اے ميرے مو لا ميرے مو لا توہميشہ رہنے والا ہے اور ميں مڻنے والا ہوں اور مڻنے والے پر رہنے والے کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا ميرے مو لا تورازق ہے اور ميں محتاج رزق ہوں اور محتاج پر رازق کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توجواد ہے اور ميں بخيل ہوں اور بخيل پر جواد کے علاوہ کون رحم کرے گا ؟ميرے مو لااے ميرے مو لا توعافيت دینے والا ہے اور ميں مبتلا ہوں اور درد بتلاپر عافيت دینے والے کے علاوہ کون رحم کرسکتاہے۔

ميرے مو لا اے ميرے مو لا توکبير ہے اور ميں صغيرہوں اور صغير پر کبيرکے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توہادی ہے اور ميں گمرا ہ ہوں اور گمراہ پر ہادی کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا تورحمن ہے اور ميں قابل رحم ہوں اور قابل رحم پر رحمان کے علاوہ کون رحم کرے گا۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا توبادشاہ ہے اور ميں منزل امتحان ميں ہوں اور ایسے بندئہ امتحان پر بادشاہ کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توراہنما ہے اور ميں سر گرداں ہوں اور کيا سر گرداں پر راہنما کے علاوہ اور کو ن رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توبخشنے والا ہے اور ميں گناہگار ہوں اور گنا ہگار پر بخشنے والے کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توغالب ہے اور ميں مغلوب ہوں اور مغلوب پر غالب کے علاوہ اور کو ن رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا تورب ہے اور ميں مربوب ہوں اور پرورش پانے والے رب

۱۴۱

کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توصاحب کبریا ئی ہے اور ميںبندئہ ذليل ہوں اوربندئہ ذليل پرخدائے کبير کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لاتو اپنی رحمت سے مجه پر رحم فرما اور اپنے جود و کرم و فضل سے مجه سے راضی ہو جا اے صاحب جود و احسان اور اے صاحب کرم و امتنان ” حضرت اميرالمو منين عليہ السلام اس بہترین مناجات کے ان جملوں ميں اللهتبارک وتعالیٰ سے اپنی حاجت اور فقرکےلئے متوسل ہوتے ہيں اور بندہ کی حاجت اور اس کے فقرکو الله کی رحمت نازل ہونے کا موردقرار دیتے ہيں ۔

بيشک مخلوق الله کی رحمت نازل کرانا چاہتی ہے حقير عظيم کی رحمت نازل کرانا چاہتا ہے ضعيف قوی کی فقير غنی کی مرزوق رازق کی،مبتلامعافی کی، گمراہ ہادی کی ،گنا ہگار غفورکی ،حيران وسرگردان، دليل اور مغلوب غالب کی رحمت کی رحمت نازل ہونے کے خواستگارہيں۔

یہ الله کی تکوینی سنتيں ہيں اور الله کی سنتوں ميں ہرگز تبدیلی نہيں آسکتی جب حاجت اور فقر ہو گا تو ان موقفوں کےلئے الله کی رحمت اور فضل ہوگا جس طرح پا نی نيچی جگہ پر گرتا ہے الله کی رحمت حاجت وضرورت کے مقام پر نازل ہوتی ہے الله کریم وجوادہے اور کریم حاجت وضرورت کے مقامات کی رعایت کرتاہے اور اپنی رحمت اس سے مخصوص کردیتا ہے ۔

حضرت امام زین العابدین عليہ السلام دعائے سحرميں جس کو آپ نے ابو حمزہ ثمالی کو تعليم فرمایا تھا ميں فرما تے ہيں :اعطني فقري،وارحمني لضعفي یعنی آپ نے فقر اور ضعف کو وسيلہ قرار دیا ہے اور انهيں کے ذریعہ آپ الله کی رحمت سے متوسّل ہو تے ہيں ۔

یہ فطری بات ہے کہ اس کلا م کو مطلق قرار دینا ممکن نہيں ہے اور ایک ہی طریقہ ميں منحصر نہيں کيا جا سکتا ہے بيشک الله کی رحمت نازل ہونے کے دوسرے اسباب بهی ہيں اور دوسرے موانع و رکاوڻيں بهی ہيں جن سے الله کی رحمت نازل نہيں ہوتی اور الله کی سنتوں ميں مبتلاہونے کا سبب بهی ہيں ۔ ہمارا یہ کہنا ہے :بيشک حاجت اور فقر کی وجہ سے الله کی رحمت نازل ہوتی ہے تو ہمارے لئے اس گفتار کو اس الٰہی نظام کے مطابق اور اس کے دائرہ ميںرہنا چاہئے اور یہ معرفت کا وسيع باب ہے جس کو ہم اس وقت چهيڑنا نہيں چاہتے ہيںعنقریب ہم توفيق پروردگار کے ذریعہ اس حقيقت کی مناسب یا ضروری تشریح کریں گے ۔

۱۴۲

ہم قرآن کریم ميں بہت سے ایسے نمونے دیکهتے ہيں جن ميں حاجت اور فقر کو پيش کيا گيا ہے اور ان کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہوئی ہے اور اللهنے ان کو قبوليت کے درجہ تک پہنچایا ہے حاجت بهی اُسی طرح قبول ہوتی ہے جس طرح سے دعا اور سوال قبول ہوتے ہيں بيشک خداوندعالم کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کرنا بهی دعا کی ایک قسم ہے ان نمو نوں کو قرآن کریم نے الله کے صالحين بندوں کی زبانی نقل کيا ہے ۔

ا۔ عبد صالح حضرت ایوب عليہ السلام کا خداوندعالم کی بارگاہ ميں سختيوں اور مشکلات کے وقت اپنی حاجت پيش کرنا ۔

( وَاَیُّوبَ اِذنَْاد یٰ رَبَّهُ اَنِّی مَسَنِّیَ الضُُّرُّوَاَنتَْ اَرحَْمُ الرَّاحِمِينَْ فَاستَْجَبنَْا لَهُ فَکَشَفنَْامَابِهِ مِن ضُرٍّوَآتَينَْاهُ اَهلَْهُ وَمِثلَْهُم مَعَهُم رَحمَْةًمِن عِندِْنَاوَذِکرْ یٰ لِلعَْابدِینَْ ) (ا)

“اور ایوب کو یاد کرو جب انهوں نے اپنے پروردگار کو پکاراکہ مجھے بيماری نے چهوليا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور ان کی بيماری کو دور کردیا اور انهيں ان کے اہل وعيال دیدئے اور ویسے ہی اور بهی دیدئے کہ یہ ہماری طرف سے خاص مہربانی تهی اور یہ

____________________

١)سورئہ انبياء آیت / ٨٣ ۔ ٨۴ ۔ )

۱۴۳

عبادت گذار بندوں کے لئے ایک یاد دہانی ہے ” قرآن کریم اس فقرہ ميں کوئی بهی دعا نہيں کی گئی ہے جس کی قرآن کریم نے اس امتحان دینے والے صالح بندہ کی زبانی نقل کيا ہے ليکن خداوندعالم نے فرمایا ہے :

( فاستجبناله فکشفنامابه ضُرّ ) ( ١)

“ تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور ان کی بيماری کو دور کردیا ” گویا حاجت اور فقر کا خدا کی بارگاہ ميں پيش کرنا دعا کی ایک قسم ہے ۔ ٢۔عبد صالح ذوالنون نے اپنے فقر وحاجت اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کو خدا کی بارگاہ ميں پيش کيا جب آپ سمندرميں شکم ماہی کے گهپ اندهيرے ميں تھے :

( وَذَاالنُّونِْ اِذذَْهَبَ مُغَاضِباًفَظَنَّ اَن لَن نَّقدِْرَعَلَيهِْ فَنَا دٰی فِی الظُّلُ مٰاتِ اَن لَااِ هٰلَ اِلَّااَنتَْ سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِينَْ فَاستَْجَبنَْالَهُ وَنَجَّينَْاهُ مِنَ الغَْمِّ وَ کَ لٰ ذِکَ نُنجِْی المُْومِْنِينَْ ) ( ٢)

“ اور یونس کو یاد کرو کہ جب وہ غصہ ميں آکرچلے اور یہ خيال کيا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے اور پھر تاریکيوں ميں جاکر آوازدی کہ پروردگار تيرے علاوہ کوئی خدا نہيں ہے تو پاک وبے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تهاتو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليااور انهيں غم سے نجات دلادی کہ ہم اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلاتے رہتے ہيں ”

اس طرح کی استجابت طلب کےلئے نہيں ہے یہ حاجت اور فقر کےلئے ہے (عبد صالح ذوالنون نے اس کلمہ :( سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِينَْ ) (٣)

____________________

١)سورئہ انبياء آیت ٨۴ ۔ )

٢)سورئہ انبياء آیت / ٨٧ ۔ ٨٨ ۔ )

٣)سورئہ انبياء آیت ٨٨ ۔ )

۱۴۴

“ اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تها”کے علاوہ اور کچه نہيں کہا خدوندعالم نے اس کو قبول کيا اور ان کو غم سے نجات دی :( فَاستَْجَبنَْالَهُ ( وَنَجَّينَْاهُ مِنَ الغَْمِّ ) ( ١)

“تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليااور انهيں غم سے نجات دلادی ” ٣۔ ہم کوقرآن کریم ميں الله،موسیٰ بن عمران اور ان کے بهائی ہارون کا یہ کلمہ بهی ملتا ہے جب انهوں نے فرعون تک اپنی رسالت کا پيغام پہنچا نے کےلئے الله سے دعاکی :

اِذهَْبَااِل یٰ فِرعَْونَْ اِنَّهُ طَغ یٰ فَقُولَْالَهُ قَولًْالَيِّناًلَعَلَّهُ یَتَذَکَّرُاَویَْخ شْٰی قَالَارَبَّنَااِنَّنَانَخَافُ اَن یَّفرُْطَ عَلَينَْااَواَْن یَّط غْٰی ( ٢)

“تم دونوں فر عون کی طرف جا ؤ کہ وہ سر کش ہو گيا ہے ،اس سے نر می سے بات کر نا شاید وہ نصيحت قبول کر لے یا خو فزدہ ہو جا ئے ،ان دونوں نے کہا کہ پر ور دگار ہميں یہ خوف ہے کہ کہيں وہہم پر زیا دتی نہ کرے یا اور سر کش نہ ہو جا ئے ”

ان دونوں نے الله سے فرعون اور اس کی بادشاہت کے مقابلہ ميں خداسے اپنی حمایت اور مدد کی درخواست نہيں کی اور نہ ہی اپنی ضرورت کےلئے امن وامان کی درخواست کی ہے بلکہ انهوں نے اپنی کمزوری، فرعون کی عوام الناس پر گرفت ،فرعون کی طاقت اور اس کی سرکشی کا تذکرہ کيا:

( اِنَّنَانَخَافُ اَن یَّفرُْطَ عَلَينَْااَواَْن یَّط غْٰیٰ )

“ان دونوں نے کہا کہ پر ور دگار ہميں یہ خوف ہے کہ کہيں وہ ہم پر زیا دتی نہ کرے یاوہ سر کش نہ ہو جا ئے ”

اللهنے ان کی اس درخواست کو مستجاب کرتے ہوئے ان کی حمایت اور تائيد ميں فرمایا :

____________________

١)سورئہ انبياء آیت ٨٧ ۔ )

٢)سورئہ طہ آیت ۴٣ ۔ ۴۵ ۔ )

۱۴۵

( قَالَ لَاتَخَافَااِنَّنِی مَعَکُمَااَسمَْعُ وَاَر یٰ ) ( ١)

“ارشاد ہوا تم ڈرو نہيں ميں تمہارے ساته ہوں سب کچه سن بهی رہا ہوں اور دیکه بهی رہا ہوں”

۴ ۔چوتها نمونہ عبد صالح حضرت نوح عليہ السلام کا وہ کلمہ ہے جو آپ نے اپنے بيڻے کوطوفان ميں غرق ہونے سے بچانے کی خاطر الله کی بارگاہ ميں پيش کياتها :

وَنَادَ یٰ نُوحُْ رَبَّہُ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابنِْی مِن اَهلِْی وَ اِنَّ وَعَدَ کَ الحَْقُّ وَاَنتَْ اَحکَْمُ (الحَْاکِمِينَْ( ٢)

“اور نوح نے اپنے پروردگارکو پکاراکہ پروردگارميرا فرزندميرے اہل ميں سے ہے اور تيرا وعدہ اہل کو بچانے کا برحق ہے اور تو بہترین فيصلہ کرنے والا ہے ” بہر حال حاجت اور فقرکے وقت بهی الله کی رحمت نازل ہوتی ہے یہاں تک کہ حيوانات اورنباتات کی ضرورتوں اور فقر کےلئے بهی الله کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔ جب پياس لگتی ہے توالله ان کو سيراب کرتا ہے اور جب بهوک لگتی ہے تو اللهان کو سيرکرتا ہے اور کهانا کهلاتا ہے یہ معرفت کا بہت وسيع وعریض باب ہے اور ہم اس کے ایک پہلو کو رحاب القرآن کے سلسلہ کی کتاب شرح الصدر ميں بيان کر چکے ہيں ۔

دوسرا وسيلہ :دعا

یہ الله کی رحمت کی کنجيوں ميں سے ایک کنجی ہے خداوندعالم فرماتا ہے :

ادعونی استجب لکم (٣)

____________________

١)سورئہ طہ آیت / ۴۶ ۔ )

٢)سورئہ ہودآیت/ ۴۵ ۔ )

٣)سورئہ غافر آیت ۶٠ ۔ )

۱۴۶

“مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا” (اور خدا کا فرمان ہے:( قُل مَایَعبَْوابِکُم رَبِّي لَولَْادُعَاوکُم ) ( ١)

“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعا ئيں نہ ہو تيں تو پرور دگار تمہاری پروا ہ بهی نہ کرتا ”

تيسرا وسيلہ :محبت

بيشک بندہ محبت کے ذریعہ الله کی رحمت نازل کراتاہے جو کسی دوسرے امرکے ذریعہ نازل نہيں ہوتی ہے

اب ہم ان تينوں وسيلوں کے سلسلہ ميں تفکر کرتے ہيں جن کو امام نے خداوندعالم تک رسائی کےلئے اپنا وسيلہ قراردیا ہے ۔رِضَاکَ بُغيَْتِي وَرُو یَتِکَ حَاجَتي وَعِندَْکَ دَوَاءُ عِلَّتِي وَشِفَاءُ غُلَّتِي وَبَردُْلَوعَْتِي وَکَشفُْ کُربَْتِي ( ٢)

“تيری ہی رضا ميرا آرزو ہے اور تيراہی دیدار ميری حا جت ہے اور تےرا ہی ہمسایہ ميرا مظلوب ہے تيرے پاس ميرے مرض کی دواہے اور ميری تشنگی کا علاج ہے غم کی بے قراری کی ڻھنڈک، رنج و غم کی دوری تيرے ہی ذمہ ہے ”یہ وسيلہ حاجت وفقر ہے ۔

جوارک طلبي وقربک غایة سو لي فکن انيسي في وحشتي ومقيل عثرتي وغافرزلّتي وقابل توبتي،ومجيب دعوتي ،وولي عصمتي ومغني فاقتي

“ اور تےرا ہی ہمسایہ ميرا مظلوب ہے اور تيرا قرب ميرے سوالات کی انتہا ہے ۔۔۔پس تو ميری وحشت ميں ميرا انيس، ہوجا لغزشوں ميں سنبهالنے والا خطاؤںکو معاف کرنے والا اور ميری

____________________

١)سورئہ فرقان آیت ٧٧ ۔ )

٢)مناجات مریدین )

۱۴۷

توبہ کوقبول کرنے والا ،ميری دعا کاقبول کرنے والا ،ميری حفاظت کا ذمہ داراور فاقہ ميں غنی بنانے والاہے ”یہ وسيلہ دعا ہے ۔فانت لاغيرک مرادي،ولک لالسواک سهري وسهادي،ولقاء ک قرّة عيني ووصلک منیٰ نفسي واليک شوقي ،وفی محبّتک ولهي والی هواک صبابتي “فقط تو ميری مراد ہے اور تيرے ہی لئے ميں راتوں کو جاگتاہوں کسی اور کے لئے نہيں ۔ اور تيری ملاقات ميری آنکهوں کی ڻھنڈک ہے اور تيرا وصال ميرے نفس کی اميد ہے اورتيری جانب ميرا شوق ہے اور تيری ہی محبت ميں ميری بيقراری ہے تيری ہی خواہش کی طرف ميری توجہ ہے ”یہ وسيلہ محبت ہے۔ اب ہم امام کے کلام کے اس فقرہ کے بارے ميں غوروفکر کرتے ہيں اور یہ دعا کا عمدہ جملہ ہے بيشک فن اور ادب کے مانند دعا کے عمد ہ وبہترین درجہ ہيں امام عليہ السلام فرماتے ہيں:

فقدانقطعت اليک همتي وانصرفت نحوک رغبتي،فانت لاغيرک مرادی،ولک لاسواک سهری وسها دی ولقا ء ک قره عينی

“اس لئے کہ ميری ہمت تيری ہی طرف ہے اور ميری رغبت تيری ہی بارگاہ کی طرف ہے فقط تو ميری مراد ہے اور تيرے ہی لئے ميں راتوں کو جاگتا ہوںکسی اور کے لئے نہيں تيری ملاقات ميری آنکهوں کی ڻنهڈک ہے ” جو چيز“انقطاع ”ميں ہے وہ “تعلق”ميں نہيں ہے امام عليہ السلام نے فرمایا ہے:

فقدتعلقت بک همتي نہيں فرمایا ہے بيشک الله سے لولگانا دوسروں سے لولگانے کو منع نہيں کرتا ہے ۔جب بندہ خدا سے لولگانے ميں صادق ہے اور یہ کہتا ہے :

فقدانقطعت اليک همتي بيشک “انقطاع”ایجابی اور سلبی دونوں معنی کا متضمن ہے ۔ پس انقطاع“من الخلق الی الله”،انقطاع“الی الله”اس جملہ کے ایجابی معنی ہيں جن کاامام نے قصد فرمایا ہے۔

بيشک محبت ميں اخلاص فصل اور وصل ہے فصل یعنی الله کے علاوہ دوسروں سے فاصلہ و دوری اختيار کرنا ،الله اورا لله نے جن کی محبت کا حکم دیا ہے ان سے وصل (ملنا)ہے اور یہ دونوں ایک قضيہ کے دو رخ ہيں۔

۱۴۸

جب محبت خالص اور پاک وصاف ہوتی ہے تو وہ دو باتوں کی متضمن ہوتی ہے:محبت و برائت ،اور وصل وفصل وانقطاع من الخلق “الی الله”ہے۔ یہی معنی دوسرے جملے “وانصرفت اليک رغبتی”کے بهی ہيں۔

انصراف الی الله سے “اعراض ”اور “اقبال”دونوں مراد ہيں ۔اعراض یعنی الله کے علاوہ دوسروں سے روگردانی کرنا اور “اقبال ”سے مراد الله ا ور الله نے جس سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے ان کی بارگاہ ميں حاضر ہونا ہے ۔

پهراس حقيقت کےلئے تيسری تاکيد جو ان سب ميں بليغ ہے ،اس ميں محبت اور انصراف الی الله کے معنی کو شامل ہے اور خدا کے علاوہ دوسروں سے منقطع ہونا ہے:

فانت لاغيرک مرادي ولک لالسواک سهوي وسهادي “سهو”اور“ سهاد ”نيند کے برعکس ہيں سہر یعنی محبت کی وجہ سے رات ميں نماز یںپڑهنا ۔ سهاد:بيداری کی ایک قسم ہے اور یہ حالت انسان کو اپنے کسی اہم کام ميں مشغول ہونے کے وقت پيش آتی ہے جس سے اس کی نيند اڑجاتی ہے اور انسان الله سے لولگانے کا مشتاق ہوتا ہے۔

یہ دونوں محبت کی حالتےں ایک دوسرے کے مثل ہيں :انس اور شوق ۔بندہ کا الله کے ذکر سے مانوس ہونا ،اور الله کا بندہ کے پاس اس طرح حاضر ہونا کہ بندہ اپنی دعا،ذکر، مناجات اور نماز ميں خدا کے حاضر ہونے کا احساس کرتا ہے اور الله سے ملاقات کا مشتاق ہوتا ہے۔

محب الله کی بارگاہ ميں ان دونوں باتوں کو سمجه کر حاضر ہوتا ہے تو یہ دونوں حالتےں اسکی نيند اڑا دیتی ہيں اس کوبيدار کر دیتی ہيں جب لوگ گہری نيند ميں سوجاتے ہيں اور نيند کی وجہ سے اپنے احساس بيداری اور شعور کو کهو بيڻهتے ہيں ۔

بيشک نيند ایک ضرورت ہے تمام لوگ اس سے اپنا حصہ اخذ کرتے ہيں جس طرح وہ کهانے پينے سے اپنی ضرورتےں پوری کرتے ہيں چاہے وہ لوگ صالح و نيک ہوں یا برے ہوں ۔یہاں تک کہ انبياء اور صدیقين بهی سوتے تھے ۔ ليکن ایک شخص جوضرورت بهر سوتا ہے جس طرح وہ کهانے پينے سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص نيند کے سامنے سر تسليم خم کردیتا ہے اور نيند اس پر غالب آجاتی ہے ان دونوں آدميوں کے درميان فرق ہے۔ اولياء الله نيند کے سامنے سر تسليم خم نہيں کرتے ہيںبيشک نيند ان کی ضرورت ہے اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے اپنا حصہ اخذ کرتے ہيں ۔رسول الله (ص)بهی خداوند عالم کی بارگاہ ميں حاضر ہونے کے بعد ہی سوتے تھے اور آپ کا فرمان تھا کہ ميرے سر کے پاس وضو کاپانی رکه دیناتاکہ ميں خدا کی بارگاہ ميں حاضری دے سکوں۔

۱۴۹

جب آپ کےلئے نرم اور آرام وہ بستر بچهایا جاتا تھا تو آپ اسکو اڻهانے کا حکم دیدتے تھے اس لئے کہ کہيں ان پر نيندغالب نہ آجائے ۔

آپ سخت چڻائی پر آرام فرماتے تھے یہاں تا کہ چڻائی ان کے پہلوپر اثر انداز ہو اور آپ پر نيند غالب نہ آجائے۔

خداوند عالم نے رات ميں مناجات ،ذکر اور اپنے تقرب کے وہ خزانے قرار دئے ہيں جو دن ميں نہيں قرار دئے ہيں۔ان کی طرح رات کے لئے بهی افراد ہيں جو رات ميں نماز ےں پڑهتے ہيں جب لوگ سوجاتے ہيں ،جب لوگ سستی ميں پڑے رہتے ہيں تو یہ ہشاش بشاش ہو تے ہيں۔ جب لوگ اپنے بستروں پر گہری نيند ميں سوئے رہتے ہيں۔تو یہ الله سے ملاقات کرکے عروج پر پہنچتے ہيں ۔

رات کےلئے بهی دولت ہے جس طرح دن کےلئے دولت ہے ،رات ميں بهی دن کی طرح خزانے ہيں۔عوام الناس دن کی دولت ،اسکے خزانے کو پہچانتے ہيں ليکن بہت کم لوگ ہيں جو رات کی دولت اور اسکے خزانے کی قيمت سے واقف ہيں اور جب انسان رات اور دن کی دولت سے ایک ساته بہرہ مند ہوتا ہے تو اسے انصاف پسند،متوازن اور راشد کہاجاتا ہے ۔

رسول الله ایک ساته دونوں سے بہرہ مندہوتے تھے اور بالکل متوازن طورپر دونوں کو اخذ کئے ہوئے تھے ۔آپ نے رات سے محبت،اخلاص اور ذکر اخذ کيااور دن سے طاقت، حکومت اور مال اخذ کيا تاکہ دین کی دعوت اور اسکے محکم ومضبوط ہونے پر متمکن ہوجائيں اور رات ميں آپ معين وقت پر عبادت کيلئے اڻهتے تھے اور رسالت جيسے ثقيل وسنگين عہدے کو اڻهانے پر متمکن تھے :

یَااَیُّهَاالمُْزِّ مِّل قُمِ اللَّيلَْ اِلَّاقَلِيلْاً نِصفَْهُ اَوِنقُْص مِنهُْ قَلِيلْاً اَوزِْد عَلَيهِْ وَرَتِّلِ القُْرآْنَ تَرتِْيلْاً اِنَّاسَنُلقِْی عَلَيکَْ قَولْاًثَقِيلْاً اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيلِْ هِیَ اَشَدُّوَطاًْوَّاَقوَْمُ قِيلْاً اِنَّ لَکَ فِی النَّهَارِ سَبحْاً طَوِیلْاً ( ١)

“اے ميرے چادر لپيڻنے والے رات کو اڻهو مگر ذرا کم آدهی رات یا اس سے بهی کچه کم کردو یا کچه زیادہ کرو اور قرآن کو ڻهہر ڻهہر کر با قا عدہ پڑهو ہم عنقریب تمہارے اوپر ایک سنگين حکم نا زل کرنے والے ہيں بيشک رات کا اڻھنا نفس کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے یقيناً آپ کے لئے دن ميں بہت سے مشغوليات ہيں ”

____________________

١)سورئہ مزمل آیت / ١۔ ٧۔ )

۱۵۰

اور ہمارے لئے اس مقام پر رات اور اسکے رجال کے سلسلہ ميں حدیث قدسی سے ایک روایت کا نقل کرنا بہتر ہے۔

روایت ميں آیا ہے کہ خداوند عالم نے بعض صدیقين پر وحی نازل کی ہے:

انلي عبادمن عبادي یحبّونی فاحبّهم ویشتاقون الی واشتاق اليهم و یذکروني واذکرهم وینظرون اليَّ وانظراليهم وان حذوت طریقهم احببتُک وان عدلت منهم مقتّک قال:یاربّ وماعلا متهم ؟قال:یراعون الظلال بالنهارکمایراعي الراعي الشفيق غنمه،ویحنّون الیٰ غروب الشمس کمایحنّ الطيرالیٰ وکره عند الغروب،فاذاجنّهم الليل واختلط الظلام ،وفرشت الفرش،ونصبت الا سرة وخلا کلّ حبيب بحبيبه نصبوااليّ اقدامهم وافترشواليّ وجوههم،وناجونی بکلامي،وعلقوااليّ بانغامي فمن صارخ وباک ،وَمتاوَّهٍ شاکٍ،ومن قائم وقاعد وراکع وساجد بعيني مایتحملون من اجلي،وبسمعي مایشکون من حبّي اول مااعطيهم ثلاث:

١ اقذف من نوري في قلوبهم فيخبرون عنّي کمااخبرعنهم

٢ والثانية:لوکانت السماوات والارض فی موازینهم لاستقللتهالهم

٣ والثالثة:اُقبل بوجهي اليهم،افتریٰ من اقبلت بوجهی عليه یعلم احد (مااریداعطيه ؟( ١)

“ميرے کچه بندے مجه سے محبت کرتے ہيں اور ميں ان سے محبت کرتا ہوں ،وہ ميرے مشتاق ہيں اور ميں ان کا مشتاق ہوں وہ ميرا ذکر کرتے ہيں ميں ان ذکر کرتا ہوں وہ مجھے دیکهتے

____________________

١)لقاء الله ص ٠۴ ا۔ )

۱۵۱

ہيں اور ميں ان کو دیکهتا ہوں اگر تم بهی انهيں کا طریقہ اپناؤ گے تو ميں تم سے بهی محبت کرونگا اور اگر اس سے رو گردانی کروگے تو تم سے ناراض ہو جاؤنگا ۔سوال کيا گيا پروردگار عالم ان کی پہچان کيا ہے؟ آواز آئی کہ وہ دن ميں اپنے سایہ تک کی اس طرح مراعات کرتے ہيں کہ جيسے کو ئی مہربان چوپان اپنے گلّہ کی ،اور وہ غروب شمس کے اسی طرح مشتاق رہتے ہيں جيسے پرندہ غروب کے وقت اپنے آشيانہ ميں پہنچنے کے مشتاق رہتے ہيں پس جب رات ہو تی ہے اور ہر طرف اندهيرا چها جاتا ہے بستر بچه جاتے ہيں پلنگ بچهادئے جا تے ہيں ہر حبيب اپنے محبوب کے پاس خلوت ميں چلا جاتا ہے تو وہ اپنے قدم ميری طرف بڑها دیتے ہيں ميری طرف اپنے رخ کر ليتے ہيں ميرے کلام کے ذریعہ مجه سے مناجات کرتے ہيں نيز منظوم کلام کے ذریعہ ميری طرف متوجہ ہو جاتے ہيں تو کتنے ہيں جو چيخ چيخ کر روتے ہيں ،کتنے ہيں جو آہ اور شکوہ کرتے ہيں ،کتنے ہيں جو کهڑے رہتے ہيں ،کتنے ہيں جو بيڻهے رہتے ہيں ،رکوع کرتے رہتے ہيں سجدہ کرتے رہتے ہيں ميں دیکهنا چا ہتا ہوں کہ وہ ميری خاطر کيا کيا برداشت کرتے رہتے ہيں ميں سنتا رہتا ہوں جو وہ ميری ميری محبت کی خاطر پيش آنے والی مشکلات کا شکوہ کرتے ہيں ميں سب سے پہلے ان کو تين چيزیں عطا کرونگا :

١۔ميں ان کے دلوں ميں اپنا نور ڈال دونگا تو وہ ميرے بارے ميں اسی طرح بتائيں گے جيسے ميں ان کے با رے ميں بتا ؤنگا ۔

٢۔اگر آسمان و زمين ان کی ترازؤوں ميں ہو تو ميں ان کے لئے آسمان و زمين کا وزن بهی کم کر دونگا۔

٣۔ميں ان کی طرف توجہ کرونگا اور جس کی طرف ميں اپنا رخ کرلوں تو کسی کو کيا معلوم ميں اسے کيا دیدونگا ”

حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروی ہے:

۱۵۲

کان ممااوحیٰ الله تعالی الی موسی بن عمران:کذّب مَن زعم انه یحبّني فاذاجنّه الليل نام عنّي،یابن عمران،لورایت الذین یقومون لي في الدجیٰ وقد مثلت نفسيبين اعينهم،یخاطبوني وقدجللت عن المشاهدة،ویکلموني وقد عززت عن الحضور یابن عمران،هب لي من عينک الدموع،ومن قلبک الخشوع،ثم ادعني في ظلمة اللَّيالي تجدني قریبامجيبا ( ١)

“خداوند عالم نے حضرت مو سیٰ بن عمران سے کہا کہ :جو شخص رات ميں مجه سے راز و نياز نہيں کرتا وہ ميرا محب نہيں ،فرزند عمران اگر تم ان افراد کو دیکهوگے کہ جو تاریکی شب ميں ميری بارگاہ ميں آتے ہيں اور ميں ان کی آنکهوں کے سامنے ہوتا ہوں تووہ مجه سے مخاطب ہوتے ہيں جبکہ ميں نظر نہيں آتا ہوں تو وہ مجه سے کلام کرتے ہيں حالانکہ ميں ان کے سامنے حاضر نہيں ہوتا ،اے فرزند عمران اپنی آنکهوں سے اشک گریاں اور دل سے خشوع مجھے ہدیہ کرو پھر مجھے تا ریکی شب ميں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور اپنی دعا کا قبول کرنے والا پاؤگے ” نہج البلاغہ کے خطبہ متقين ميں امير المومنين علی بن ابی طالب رات کی تاریکی ميں مناجات کرنے والے اولياء الله کی پر وردگار عالم کی بارگاہ ميں حاضری کے حالات کی اس طرح عکاسی فرماتے ہيں:

امااللَّيلُْ فَصَافُّونَْ اَقدَْامَهُم،ْتَالِينَْ لاجزَْاءِ القُْرآْنِ یُرَتِّلُونَهَاتَرتِْيلْاً، یُحَزِّنُونُْ بِهِ اَنفُْسَهُم وَیَستَْثِيرُْونَْ بِهِ دَوَاءَ دَائِهِم فَاِذَامَرُّواْبِآیَةٍ فِيهَْاتَشوِْیقٌْ رَکَنُواْاِلَيهَْا طَمَعاًوَتَظَلَّعَت نُفُوسُْهُم اِلَيهَْاشَوقْاًوَظَنُّواْاَنَّهَانُصُبُ اَعيُْنِهِم وَاِذَامَرُّوابِآیَةٍ فِيهَْا تَخوِْیفٌْ اَصغَْواْاِلَيهَْامَسَامِعَ قُلُوبِْهِم وَظَنُّواْاَنَّ زَفِيرَْجَهَنَّمَ وَشَهِيقَْهَافِي اُصُولِْ ذَٰاانِهِم فَهُم

____________________

١)لقاء الله صفحہ/ ٠ا۔ )

۱۵۳

حَانُونَْ عَل یٰ اَوسَْاطِهِم مُفتَْرِشُونَْ لِجِبَاهِهِم وَاَکُفِّهِم وَرُکَبِهِم وَاَطرَْافِ اَقدَْامِهِم یَطَلِّبُونَْ ال یٰ الله ٰ تَعَال یٰ فِي فِکَاکِ رِقَابِهِم وَاَمَّاالنَّهَارُفَحُلَمَاءُ عُلَمَاءُ قَد بَرَاهُمُ الخَْوفُْ بَریَْ القِْدَاحِ ۔۔۔( ١)

“رات ہو تی ہے تو اپنے پيروں پر کهڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ڻهہر ڻهہر کر تلا وت کرتے ہيں جس سے اپنے دلوں ميں غم و اندوہ تا زہ کرتے ہيں اور اپنے مر ض کا چارہ ڈهونڈهتے ہيں جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس ميں جنت کی تر غيب دلا ئی گئی ہو ،تو اس کی طمع ميں ادهر جهک پڑتے ہيں اور اس کے اشتياق ميں ان کے دل بے تابانہ کهينچتے ہيں اور یہ خيال کر تے ہيں کہ وہ (پر کيف )منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر پڑتی ہے جس ميں (جہنم سے )ڈرایا گيا ہو تو اس کی جا نب دل کے کا نوں کو جهکا دیتے ہيں اور یہ گمان کرتے ہيں کہ دوزخ کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چيخ پکار اُن کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے ،وہ (رکوع )اپنی کمریںجهکا ئے اور (سجدہ ميں )اپنی پيشانياں ہتهيلياں گهڻنے اور پيروں کے کنا رے (انگوڻهے) زمين پر بچها ئے ہو ئے الله سے گلو خلا صی کے لئے التجائيں کرتے ہيں ۔

دن ہوتا ہے تو وہ دانشمند عالم ،نيکوکار اور پرہيز گار نظر آتے ہيں ۔۔۔”

____________________

١)نہج البلاغہ خطبہ ٣٠٣ ۔ )

۱۵۴

الله سے ملاقات کے شوق کی ایک اور حالت

الله سے ملاقات کرنے کے شوق کی ایک اور صورت کا حضرت امام زین العابدین عليہ السلام کی مناجات ميں مشاہدہ کيا جاسکتا ہے جس ميں آپ فرماتے ہيں:

اِ هٰلي فَاجعَْلنَْامِنَ الَّذِینَْ تَرَسَّخَت اَشجَْا رُالشَّوقِْ اِلَيکَْ فِي حَدَائِقِ صُدُورِْهِم وَاَخَذَت لَوعَْتُ مُحَبّّتِکَ بِمَجَامِعِ قُلُوبِْهِم فَهُم اِل یٰ اَوکَْارِالاَْفکَْارِیَاوُونَْ وَفِي رِیَاضِ القُْربِْ وَالمُْکَاشَفَةِ یَرتَْعُونَْ وَمِن حَيَاضِ المَْحَبَّةِ بِکَاسِ المُْلَاطَفَةِ یَکرَْعُونَْ وَشَرَایِعَ المُْ صٰا اٰفتِ یَرِدُونَْ قَدکُْشِفَ الغِْطَاءُ عَن اَبصَْارِهِم وَانجَْلَت ظُلمَْتُ الرَّیبِْ عَن عَقَائِدِهِم وَضَمَائِرِهِم وَانتَْفَجَت مُخَالَجَةُ الشَّکِّ عَن قُلُوبِْهِم وَسَرَائِرِهِم وَانشَْرَحَت بِتَحقِْيقِْ المَْعرِْفَةِ صُدُورُْهُم وَعَلَت لبِسَبقِْ السَّعَادَةِ فِی الزّهادة وَهِمَمُهُم وَعَذُبَ فِی مَعِينِْ المُْعَامَلَةِ شِربُْهُم وَطَابَ فِي مَجلِْسِ الاُْنسِْ سِرُّهُم وَاَمِنَ فِي مَوَاطِنِ المَْخَافَةِ سِربُْهُم وَاطمَْانَّت بِالرُّجُوعِْ اِل یٰ رَبِّ الاَْربَْابِ اَنفُْسُهُم وَتَيَقَّنَت بِالفَْوزِْوَالفَْلَاَحِ اَروَْاحُهُم وَقَرَّت بِالنَّظَرِاِل یٰ مَحبُْوبِْهِم اَعيُْنُهُم وَاستَْقَرَّبِاِدرَْاکِ السَّولِ وَنَيلِْ المَْامُولِْ قَرَارُهُم وَرَبِحَت فِي بَيعِْ الدُّنيَْابِالآْخِرَةِ تِجَارَتُهُم اِ هٰلِي مَااَلَذَّ خَوَاطِرَالاِْلهَْامِ بِذکرِْکَ عَل یٰ القُْلُوبِْ وَمَااَحلْ یٰ المَْسِيرَْ اِلَيکَْ بِالاَْوهَْامِ فِي مَسَالِکِ الغُْيُوبِْ وَمَااَطيَْبَ طَعمُْ حُبِّکَ وَمَااَعذَْبَ شِربَْ قُربِْکَ فَاَعِذنَْامِن طَردِْکَ وَاِبعَْادِکَ وَاجعَْلنَْامِن اَخصِّ عَارِفِيکَْ وَاَصلِْح عِبَادَکَ وَاَصدَْقِ طَائِعِيکَْ وَاَخلَْصِ (عُبَّادِک ( ١)

“خدا یا !ہم کو ان لوگوں ميں قرار دے جن کے دلوں کے باغات ميںتيرے شوق کے درخت راسخ ہو گئے ہيں اور تيری محبت کے سوز و گداز نے جن کے دلوں پر قبضہ کر ليا ہے وہ فی الحال آشيانہ افکار ميں پناہ لئے ہو ئے ہيں اور ریاض قرب اور مکاشفات ميں گردش کر رہے ہيںتيری محبت کے حوض سے سيراب ہو رہے ہيں اور تيرے اخلاص کے گهاٹ پر وارد ہو رہے ہيں ان کی نگاہو ں سے پردے اڻهادئے گئے ہيں اور ان کے دل و ضمير سے شکوک کی تاریکياںزائل ہو گئی ہيں ان کے عقائد سے شک و شبہ کی تاریکی محو ہو گئی ہے اورتحقيقی معرفت سے ان کے سينے کشادہ ہو گئے ہيں اور سعادت

____________________

١)مفاتيح الجنان مناجات عارفين۔ )

۱۵۵

حاصل کرنے کے لئے زہد کی راہ ميں ان کی ہمتيں بلند ہو گئی ہيں اورا طاعت کے ذریعہ سے ان کا چشمہ شيریں ہو گياہے مجلس انس ميں ان کاباطن پاکيزہ ہو گيا ہے اورمحل خوف ميں ان کا راستہ محفوظ ہوگيا ہے وہ مطمئن ہيںکہ ان کے دل رب العالمين کی طرف راجع ہيں اور ان کی روحوںکو کاميابی اور فلاح کایقين ہے اور ان کی آنکهوں کومحبوب کے دیدار سے خنکی حاصل ہو گئی ہے اور ان کے دلوں کو اورمدعاکے حصول سے سکون مل گيا ہے دنيا کو آخرت کے عوض بيچنے ميں ان کی تجارت کامياب ہو گئی ہے خدایا !دلوں کےلئے تيرے ذکر کا الہام کس قدر لذیذ ہے اور تيری بارگاہ کی طرف آنے ميں ہر خيال کس قدر حلاوت کا احساس کرتا ہے۔ تيری محبت کا ذائقہ کتنا پاکيزہ ہے اور تيرے قُر ب کاچشمہ کس قدرشيریں ہے ہميں اپنی دوری سے بچالے اور اپنے مخصوص عارفوں اوراپنے صالح بندوں ميں سے سچے اطاعت گذار اور خالص عبادت گذاروں ميں قرار دےنا ” ہم اس مقام پراہل بيت عليہم السلام کی دعا اور مناجات توقف نہيں

کرناچاہتے ليکن ہم امام علی بن الحسين عليہ السلام کی مناجات کے اس جملہ کے بارے ميں کچه غوروفکر کرنا چاہتے ہيں جس جملہ سے آپ نے مناجات کا آغاز فرمایا ہے:

اِ هٰلِي فَاجعَْلنَْامِنَ الَّذِینَْ تَرَسَّخَت اَشجَْارُالشَّوقِْ اِلَيکَْ فِی حَدَائِقِ صُدُورِْهِم وَاَخَذَت لَوعَْتُ مُحَبّّتِکَ بِمَجَامِعِ قُلُوبِْهِم

“خدا یا! ہم کو ان لوگوں ميں قرار دے جن کے دلوں کے باغات ميںتيرے شوق کے درخت راسخ ہو گئے ہيں اور تيری محبت کے سوز و گداز نے جن کے دلوں پر قبضہ کر ليا ہے ”

بيشک اولياء الله کےلئے جيساکہ امام عليہ السلام کے کلام سے ظاہر ہوتاہے خوبصورت باغ،طيب وطاہر ہيں اور عوام الناس سے مختلف طرح کی چيزیں صادر ہوتی ہيں:

۱۵۶

کچه لوگوںکے دلوں سے مکاتب اور علمی مدرسے وجود ميں آتے ہيں اور علم خير اور نور ہے بشرطيکہ الله سے ملاقات کا شوق باقی رہے بعض لوگوں کے سينہ تجارت گاہ ،بينک اور مال و دولت کے مخزن ہوتے ہيں جن کی تعداد بہت زیادہ ہو تی ہے اور شمارش کے نقشے ہو تے ہيں اور فائدہ و نقصان کے مقام ہو تے ہيں مال اور تجارت اچهے ہيں ليکن اس شرط کے ساته کہ یہ کام اسکے دل کو مشغول نہ کردے اور ایسا رنج وغم نہ ہو جو اس سے جدا نہ ہوسکتا ہوکچه لوگوں کے دل ایسی زمين ہوتے ہيںجس ميںببول کے درخت،جنگل(اندرائن جوکڑواہونے ميںضرب المثل ہے ) زہریلے ، کينہ مال پر لڑائی جهگڑا ، بادشاہت اور دوسروں کےلئے کيد ومکر ہوا کرتے ہيں،اور کچه افراد کے صدور (قلوب)کهيلنے کودنے والے افعال پر ہوتے ہيں دنيا وسيع پيمانہ پر ایک گروہ کےلئے لہو ولعب ہے ۔

لوگوں ميں سے کچه لوگوں کا دل دو ڻکڑوں ميں تقسيم کيا گيا ہے:ایک حصہ زہر،کينہ ،مکروکيد سے پر ہے اور دوسرا حصہ لہو ولعب سے لبریز ہے۔جب پہلے حصہ کا راحت وآرام چهن جاتا ہے تو وہ دوسرے حصہ سے پناہ مانگتا ہے اور لہو ولعب سے مدد چاہتا ہے تاکہ وہ نفس کو پہلے حصہ کے عذاب سے نجات دلا سکے۔

ليکن اولياء الله کے سينے اس شوق کے باغ(جيسا کہ امام زین العابدین عليہ السلام نے فرمایا ہے)کے سلسلہ ميںبارونق اور طيب وطاہر ميوے ہوتے ہيں کبهی ان ميں شوق کے درخت جڑ پکڑ جاتے ہيں اور اس ميں اپنی شاخيں پهيلادیتے ہيں ۔الله سے ملاقات کا شوق ایسا امر نہيں ہے کہ اگر اس پر خواہشات نفسانی غالب آجائے یا دنيااپنے کو زیب وزینت کے ساته اسکے سامنے پيش کردے تو وہ شوق ملاقات ختم ہوجائے ،اور جب صاحب دنيا کےلئے دنيا تنگ ہوجاتی ہے اور وہ مشکلوں ميں گهرجاتا ہے نہ تو اس شوق ميں کوئی کمی آتی ہے اور نہ ہی اس کے اوراق (پتّے)مرجهاتے ہيں۔

بيشک جب الله سے شوق ملاقات کے اشجار ان دلوں ميں اپنی جڑ محکم و مضبوط کر ليتے ہيں تو تمام مشکلوں کے باوجود ہميشہ ہرے بهرے اور پهل دیتے رہتے ہيں۔

۱۵۷

الله سے ملاقات کرنے کے شوق کی حالت روح کے ہلکے ہونے کی حالت ہے اور یہ حالت سنگينی اور دنيا پر اعتما د کرنے کی حالت کے برعکس ہے جس کے سلسلہ ميں قرآن کریم ميں گفتگو کی گئی ہے:

مَالَکُم اِذَاقِيلَْ لَکُم انفِْرُواْفِی سَبِيلِْ الله اَثَّاقَلتُْم اِلَی الاَْرضِْ اَرَضِيتُْم بِالحَْيَاةِالدُّنيَْامِنَ الآخِرَةِ ( ١)

“جب تم سے کہا گياکہ راہ خدا ميں جہاد کےلئے نکلو تو تم زمين سے چپک کر رہ گئے کيا تم آخرت کے بدلے زندگا نی دنيا سے راضی ہو گئے ہو” بيشک جب انسان دنيا سے لولگاتا ہے ،اسی سے راضی ہوتاہے اور اس پر اعتماد وبهروسہ کرليتا

ہے تو اسکا نفس بهاری اور ڈهيلا ہوجاتا ہے اور جب اسکا نفس(٢) دنيا سے آزاد ہوجاتا ہے تو ہلکا ہوجاتا ہے اور الله کی محبت اور اس سے شوق ملاقات کو جذب کرتا ہے۔

ہم اہل بيت سے ماثورہ دعاؤں کے بارے ميں روایات کی روشنی ميں محبت، شوق اور انس کی بحث کا اختتام کرتے ہيں اور اب “محبت خدا ”کی بحث کا آغاز کرتے ہيں ۔

الله کےلئے خالص محبت

یہ مقولہ توحيد حب کے مقولہ سے بلند ہے بيشک توحيد حب الله کی محبت کے علاوہ دوسری محبتوں کی نفی نہيں کرتی ہے ليکن الله کی محبت کو دوسری محبتوں پر غلبہ دیتی ہے پس الله کی محبت حاکم اور غالب ہے :

( وَالَّذِینَْ آمَنُواْاَشَدُّحُبالله ) ( ٣)

“ایمان والوں کی تمام تر محبت خدا سے ہو تی ہے ”

____________________

١)سورئہ توبہ آیت ٣٨ ۔ ) ٢)دنيا سے آزاد ہونے کا مطلب اس کو ترک کردینا نہيں ہے رسول خدا (ص) بهی دنيا سے ) آزاد تھے ليکن پھر بهی اپنی دعوت کے سلسلہ ميں دنيا کا سہاراليتے تھے ”

٣)سورئہ بقرہ آیت ۶۵ ا۔ )

۱۵۸

یہ ایمان کی شرطوں ميں سے ایک شرط اور توحيد کی شقوں ميں سے ایک شق ہے۔

ليکن الله سے خالص محبت،الله کے علاوہ دوسروں سے کی جانے والی محبت کی نفی کرتی ہے ليکن اگر محبت خدا(الحب لله،البغض لله)کے ساته باقی رہے ۔یہ ایمان اور توحيد کی شان ميں سے نہيں ہے ،ليکن صدیقين اور ان کے مقامات کی شان ہے۔

بيشک خداوند عالم اپنے اولياء اور نيک بندوں کے دلوں کو اپنی محبت کے علاوہ دوسروں کی محبت سے خالی کرنے پر متمکن کردیتا ہے ۔

حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :

القلب حرم اللّٰه فلا تسکن حرم اللّٰه غيراللّٰه (١) “دل الله کا حرم ہے اور الله کے حرم ميں الله کے علاوہ کوئی اور نہيں رہ سکتا ہے”

یہ دل کی مخصوص صفت ہے چونکہ اعضاء وجوارح انسان کی زندگی ميں مختلف قسم کے کام انجام دیتے ہيں جن کو خداوند عالم نے اس کےلئے مباح قرار دیا ہے اور ان کو بجالانے کی اجازت دی ہے ليکن دل الله کا حرم ہے اور اس ميں الله کے علاوہ دوسرے کی محبت کا حلول کرنا سزاوار نہيں ہے۔

روایت ميں دل کی حرم سے تعبير کرنے کے متعلق نہایت ہی دقيق نکتہ ہے بيشک حرم کا علاقہ امن وامان کاعلاقہ ہے اور اسکا دروازہ ہراجنبی آدمی کےلئے بند رہتا ہے اور اس ميں رہنے والوں کو کوئی ڈروخوف نہيں ہوتا اور نہ ہی اس ميںکوئی اجنبی داخل ہوسکتا ہے اسی طرح دل الله کا امن وامان والا علاقہ ہے اس ميں الله کی محبت کے علاوہ کسی اورکی محبت داخل نہيں ہوسکتی اور اس ميں الله کی محبت کو کوئی برائی یا خوف پيش نہيں آسکتا ہے۔

صدیقين اور اولياء الله سے خالص محبت کرنے والے بندے ہيں الله کی محبت اور دوسروں

____________________

١) بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ/ ٢۵ ۔ )

۱۵۹

کی محبت کو ایک ساته جمع نہيں کيا جاسکتا ہاں الله کی محبت کے زیر سایہ تو دوسروں کی محبت ہوسکتی ہے ۔

ہم مندرجہ ذیل حضرت امام زین العابدین عليہ السلام کی مناجات ميں محبت کی سوزش اور محبت ميں صدق اخلاص دیکهتے ہيں :

سَيَّدِي اِلَيکَْ رَغبَْتِی،ْوَاِلَيکَْ رَهبَْتِی،ْوَاِليَْکَ تَامِيلِْي وَقَد سَاقَنِي اِلَيکْ اَمَلِي وَعَلَيکَْ یَاوَاحِدِي عَکَفَت هِمَّتِي وَفِيمَْاعِندَْکَ انبَْسَطَت رَغبَْتِي وَلَکَ خَالِص رَجَائِي وَخَوفِْي وَبِکَ اَنِسَت مَحَبَّتي وَاِلَيکَْ اَلقَْيتُْ بِيَدي وَبِحَبلِْ طَاعَتِکَ مَدَدتُْ رَهبَْتِي یَامَولَْايَ بِذِکرِْکَ عَاشَ قَلبِْي وَبِمُنَاجَاتِکَ بَرَّدتُْ اَمَلَ الخَْوفِْ عَنِّي ْ ( ١)

“ميرے مالک ميری تيری ہی طرف رغبت ہے اور تجهی سے خوف تجهی سے اميد رکهتا ہے،اور تيری ہی طرف اميد کهينچ کر لے جاتی ہے ، ميری ہمت تيری ہی جناب ميںڻهہرگئی ہے اور تيری نعمتوں کی طرف ميری رغبت پهيل گئی ہے خالص اميداورخوف تيری ہی ذات سے وابستہ ہے محبت تجهی سے مانوس ہے اور ہاته تيری ہی طرف بڑهایا ہے اور اپنے خوف کوتيری ہی ریسمان ہدایت سے ملا دیا ہے خدایاميرادل تيری ذات سے زندہ ہے اور ميرادرد خوف تيری مناجات سے ڻهہراہے ” امام عليہ السلام مناجات کے اس ڻکڑے ميں اپنی رغبت ،رهبت ،اور آرزو تمام چيزوں کو الله سے مربوط کرتے ہيں اور خدا کی عطا کردہ ہمت کے ذریعہ ان سب کے پابند تھے آپ خالص طورپر خدا سے اميد رکهتے تھے اور اسی سے خوف کهاتے تھے ۔

رسول خدا (ص)سے مروی ہے :

احبّواالله من کلّ قلوبکم (٢)

____________________

١) دعائے ابو حمزہ ثمالی ۔ )

٢)کنز العمال جلد ٧۴ صفحہ/ ۴۴ ۔ )

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430