دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)16%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81825 / ڈاؤنلوڈ: 4520
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف : آیةاللہ مصباح یزدی

تدوین : محمد مہدی نادری قمّی

مترجم : سید عترت حسین رضوی

مصحح : مرغوب عالم

نظر ثانی : ہادی حسن فیضی

پیشکش :معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

کمپوزو گرافک : رضا عباس خان

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت (ع)

طبع اول : ۱۴۲۷ھ ۲۰۰۶ ء

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علام آیة اللہ جناب محمد تقی مصباح یزدی مدظلہ کی گرانقدر کتابکاوشھا و چالشھا'' کو جناب مولاناسید عترت حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت

۶

پیش گفتار

حوزئہ علمیہ اوریونیورسٹی کے درمیان ارتباط ایک مبارک شئے ہے جسکے نتیجے بہت ہی اچھے سامنے آرہے ہیں اسکے بر خلاف معاشرہ پراثرانداز ہونے والے ان دو رکنوں میں جدائی بہت ہی بڑے نقصان کا سبب بنتی ہے ۔اس طرف توّجہ دینے اور اس نیک ارتباط کو بر قرار رکھنے کے لئے انقلاب اسلامی سے پہلے حوزئہ علمیہ اور یونیورسٹی دونوں طرف کے بہت سے لوگ اس کام میں فعّال تھے اور اس مسئلہ کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے اور اسکی اسٹراٹجی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ یہ کوشش کرتے تھے کہ یہ وسیع اور مستحکم رابطہ برقرار رہے ۔

مختلف بے نظیر شخصیات جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہید مفتّح؛ڈاکٹر باہنر اور دوسرے دور اندیش عالموں کا یونیورسٹی میں آنا انکی روشن بینی اور تیز نظری کی علامت اوراس ارتباط کو بڑھانے میں اہم قدم تھا،یونیورسٹیوں کے ایسے متعدداساتید کی بھی نشان دہی کی جاسکتی ہے جن لوگوں نے اس ارتباط کی ضرورت اور اہمیت پر اعتقاد رکھتے ہوئے اس ضمن میں بہت کوشش کی ہے یہ کوششیں انقلاب اسلامی کی کامیابی اوریونیورسٹی اور حوزہ کے درمیان اتحادکے نعرے کے بعدجوکہ انقلاب اسلامی کے معمار بزرگ حضرت امام خمینی کی طرف سے دیا گیا تھا بہت وسیع ہو گئیں، اگر چہ اس وقت بھی اس راستے میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں نیز منزل مقصود تک پہونچنے کے لئے راستے میں بہت سے مشکلات پائے جاتے ہیں لہٰذا پہلے ان کو دور کیا جائے لیکن پھر بھی چشم دید تجربے اس بات کو بتاتے ہیں کہ ان دونوں صنفوںیعنی حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان نزدیکی اور رابطہ جتنا زیادہ ہوگا]کیونکہ یہ دونوں محکم قلعے ہیں [ اور جس قدر دونوں صنف کے افراد کے خیال اور تفکّر نتیجے تک پہونچانے والے ہونگے وہ قوم کے لئے مفید ہوگا اور معاشرہ انکے فوائدسے مستفید ہوگا اسکے بر خلاف ان کے درمیان جدائی خود انکے اور معاشرہ دونوں کیلئے نقصان دہ ہوگی ۔

۷

منجملہ ان لوگوں کے جنھوںنے برسوںپہلے سے اس رابطہ کی ضرورت اور اہمیت پر بہت زور دیا ہے مفکّر یگانہ، فقیہ بزرگ ،حضرت آیت.. مصباح یزدی دام ظّلہ ہیں ، ثقافتی انقلاب کے سلسلے میں جو کہ انقلاب کے شروع ہی میں امام خمینی کے حکم سے انجام پایا تھا خود آقائے مصباح یزدی امام خمینی کے خاص معتمدین میں سے تھے اور اس تحریک اورپروگرام کو بنانے نیز اسے آگے بڑھانے کے لئے امام کی طرف سے آپ معےّن تھے ،یہ خود اس بات کی گواہی ہے کہ جناب استاد مصباح یزدی مختلف سالوں سے اس ارتباط پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔اسی رابطہ کے ذیل میں ایک سال یا کچھ زیادہ وقت سے یونیورسٹی کے بعض متعہّد اور متفکّراساتیدنے ایک شعبہ اسی مقصدسے قائم کیا ہے منجملہ اور کاموں کے ایک ماہانہ نششت بھی آقائے مصباح یزدی کی موجودگی میں منعقد ہوتی ہے ان نششتوں میں اساتید جوعنوان پیش کرتے ہیں ، استادمحترم انھیں عنوان پربحث اورگفتگوکرتے ہیں نششتوں کو منعقد کرنے والی تنظیم]شعبہ اساتید دانشگاہ علم وصنعت[کی یہ خوا ہش تھی کہ چونکہ یہ تقریریں علمی لحاظ سے بہت عمدہ ہیں نیز اس وقت معاشرہ کو اس کی ضرورت بھی ہے لہٰذا ن کو با الترتیب چھاپ کر لوگوں تک پہونچایا جائے خدا کا شکر ہے کہ اس وقت محمد مہدی نادری قمی ( جوکہ موسّسہ آموزشی اورپژوہشی امام خمینی کے رکن اور جناب استاد کے شاگرد بھی ہیں ) کی کوششوں سے نوتقریروں کو کتاب حاضر کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے امّیدہے کہ آئندہ بھی اس سلسلہ کوجاری رکھتے ہوئے ملک کے علمی ،ادبی ،اور ،وہ تمام افراد جو علم سے شغف رکھنے والے ہیں انکی خدمت میں یہ مطالب پیش کرتے رہیں گے۔

انتشارات موسّسئہ پزوہشی امام خمینی

۸

تہذیب وثقافت کے سلسلے میں ہما ری ذمہ داری - ۱

خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے محترم اساتید کے درمیان حاضر ہونے کی تو فیق عطافرمائی امید کرتا ہوں کہ یہ نیک اور مبارک قدم ہوگا ان عظیم اور سنگین ذمہ داریوں کو انجام دینے کی جو ذمہ داریاںاس خاص دور میں ہمارے اوپر عائدہیں سب سے پہلے میں اس بات کی اجازت چاہتا ہوں کہ ایک مختصر مقدّمہ جو اس ذمہ داری سے متعلّق ہے اسکو بیان کروں اسکے بعد اللہ کے فضل وکرم سے آئندہ جلسوں کے جو موضوعات دوستوں کے سامنے ہیں ان کے بارے میں تفصیل سے بحث کروں گا

مذہب اسلام مین ایک دستور(قاعدہ )ہےطاقت کے مطابق ذمہ داری'' یعنی خداوندعالم نے جسکو جتنی نعمت عطا کی ہے اور جس قوّت و استعداد کا اسکو مالک بنایا ہے اسی کے مطابق اسکو ذمہ داری عطاکی ہے (انسان کی ذمہ داری)یہ ایک ایسا اہم موضوع ہے جو بہت ہی زیادہ تفصیل چاہتا ہے اس سے پہلے کہ اصل موضوعقوت و طاقت کے اعتبار سے ذمہ داریکے بارے میں بحث ہو اس سلسلے میں مختصر وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

۹

انسان جواب دہ ہے یا حقوق طلب

اس بات کے علاوہ کہ انسان خودفطری طور پر اس بات کو محسو س کرتاہے کہ وہ جانوروں کی طرح آزادنہیں ہے کہ بغیر ذمہ داری کے جیسے چاہے ویسے زندگی بسر کرے ،مختلف ادیان بھی اس بات پر تاکید کرتے ہیں شاید آپ نے سنا ہوگا مشہور فلسفیاما نوئل کانٹ''کہتا ہے کہ دنیا میں دو چیزوں نے مجھکو بیحدمتأثر کیا ہے اور میرے لئے تعجب اور حیرانی کا باعث ہیں ایک آسمان میں ستاروںکا ہونا دوسرے انسان کے اندر اسکی فطرت کی آواز، اور فطرت بہت ہی خوبصورت آواز ہے جو انسان کے اندر موجود ہے بہر حال انسان اپنی اس فطرت اوّلیہ کے باعث کم و بیش اس بات کا احساس کرتا ہے کہ ایک طرح کی ذمہ داری اسکے اوپر ہے البتہ اس فطری احساس کا واضح اور ثابت ہونا یہ ایک علیحدہ بحث ہے جس کواس وقت بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔

انسان فطرتاً جواب دہ اور ذمہ دارہے اس نظریہ کے مقابل ایک دوسرا قدیمی نظریہ جو پایا جاتا ہے اور آخری چند برسوں میں اسے خاص رونق وشہرت ملی ہے وہ یہ کہ انسان کو اپنے حقوق حاصل کرنے اور لینے کے لئے جہان ،طبیعت ،خدااورحکومت سے کوشش کرنی چا ہئیے یہ فکر پرانی ہو چکی ہے کہ انسان ذمہ دار اورمکلّف ہے یہ گذرے ہوئے زمانے کی باتیں ہیں اب وہ زمانہ ختم ہو چکا ہے کہ انسان کو سکھایا جائے کہ وہ بندہ ہے اور خداا اسکا مولا ہے بلکہ اب وہ زمانہ ہے کہ انسان ہی آقامولا ہے آج وہ دور نہیں رہاکہ انسان تکلیف اور ذ مہ داری کے پیچھے دوڑے بلکہ زمانے نے اسکے جن حقوق کو بھلا دیا یا ضا ئع کر دیا ہے ان کے لیٔے کوشش کرے ۔

۱۰

بہرحال اس دوسرے نظریہ کے برخلاف، جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے عقل ووجدان اور انسانی فطرت گواہ ہیں کہ انسان ذمہ دار ہے اور ذمہ داریاں اسکو گھیر ے ہوے ہیں اور انسان ذمہ داریوں کا جواب د ینے والاہے تمام ادیان بھی اس بات پر اتّفاق رکھتے ہیں ، قرآن کریم کی اکثر آیات انسان کے ذمہ دار ہونے کو بتاتی ہیں قرآن مجیدمیں خدا فرماتا ہے :( فوربّک لنسئلنّهم اجمعین عمّا کانوا یعملون ) ( ۱ ) تمہارے خدا کی قسم جوکچھ وہ انجام دیتے ہیں اسکے بارے میں سوال کیا جائے گاپھر ارشاد ہورہا ہے:( ولتسئلنّ عماّتعملون ) ( ۲ ) یعنی تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو اس کے بارے میں ضرور ضرور سوال ہوگا ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے:( انّ السمع والبصر و الفو اد کل اولٰیک کان عنه مسئولا ) ( ۳ ) یعنی آنکھ کان اور دل سب کے بارے میں سوال ہو گا ۔

____________________

(۱) سورہ حجر : آیہ ۹۲و ۹۳۔

(۲)سورہ نحل : آیہ ۹۳۔

(۳)سورہ اسرا :آیہ ۳۶

۱۱

اور بندوں سے سوال کے بارے میں دوسری جگہ اسی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:( وقفوهم انهم مسئولون'' ) ( ۱ ) ان لوگوں کو روکو ان سے سوال کرناہے ایک جگہ اور قرآن میں فرماتا ہے :( وکان عهدالله مسئولا ) ( ۲ ) اور خدا کا عہدو پیمان ہمیشہ قابل سوال ہے''ایک جگہ اور فرماتا ہے( ثم لتسئلنّ یو مئذٍ عن النعیم ) ( ۳ ) اس دن (قیامت کے دن ) خدا کی نعمت کے بارے میں سوال ہوگا۔

____________________

(۱)سورہ صافات : آیہ ۲۴۔

.(۲)سورہ احزاب : آیہ ۱۵۔

(۳)سورہ تکاثر : آیہ ۶۔

۱۲

طاقت اور ذمہ داری کا توازن

انسان اپنے اوپر ذمہ داری رکھتا ہے اس اصل میں کویٔ بحث نہیں ہے لیکن جس نکتہ کی طرف توّجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ یہ ذمہ داری ہر دور میں سبھی لوگوں پر برابر نہیں ہے بلکہ مختلف وجوہ کی بنا پرہر ایک پر علیحدہ طریقے سے عائدہوتی ہے اور سب پر الگ الگ طرح سے ہے ۔

ایک وجہ جو ایک شخص کے لیٔے ذمہ داری کو دوسرے سے جدا کرتی ہے وہ یہی طاقت و قوّت ہے جو ہر ایک میں الگ الگ پائی جاتی ہے یہ وہی قاعدہ(طاقت کے مطابق ذمہ داری) ہے جسکی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا، چونکہ لوگوں کی طاقت و قوّت، انکی ذہنی استعداد، انکی جسمانی اور روحانی طاقت نیز انکا اجتماعی مقام وغیرہ ایک جیسا نہیں ہے لہٰذا ان افراد کی ذمہ داری بھی ایک جیسی نہیں ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :( لا یکلّف الله نفساً الاّ وسعها ) ( ۱ ) یعنی خدا کسی کو قدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک کام جو صدر یا وزیر اعظم اپنے منصب و مقام کے سبب انجام دے سکتا ہے وہ ایک معمولی عہدہ پر رہنے والا انجام نہیں دے سکتا اسی اعتبار سے ان لوگوں کی ذمہ داری بھی جدا جدا ہے اور سب کی ذ مہ داری ایک جیسی نہیں ہو سکتی ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ :آیہ ۲۸۶۔

۱۳

ایک دوسری وجہ جو کہ ذمہ داری کے حوالے سے کمی یا زیادتی کا سبب بنتی ہے وہ ان خطرات کا شدید یا ضعیف ہونا ہے جو کہ ایک شخص یا پوری قوم کو در پیش ہوتا ہے جس قدر خطرات شدید ہونگے اسی اعتبار سے ذمہ داری بھی سخت ہوگی اگر ماحول پوری طرح سے پرامن ہے اور ساری چیزیں کنٹرول میں ہیں تو رات کے وقت بھی آپ سکون و آرام سے سوسکیںگے لیکن اگر قوم ومعاشرے کے اندر نا امنی پائی جاتی ہے اسکے محافظ اورچوکیدار کمزورہیں چور اوراوباش کا خطرہ زیادہ ہے توگھر،مال و اسباب،بیوی بچوّں کی حفاظت کے حوالے سے آپ کی ذمہ داری میں اضافہ ہو جائے گااگر یہ بات عام ہو جائے کہ بازار میں زہریلی غذا ئیںپائی جاتی ہیں تو انسان اس سے بچنے کی تدابیر کے بارے میں غور و فکر کرے گا اور ایک خاص ذمہ داری کا احساس کرے گا ۔بہر حال خطرہ جتنا زیادہ بڑا ہو گا اتنا ہی انسان کے اندرذمہ داری کا احساس زیادہ ہوگا اور وہ سوچے گا کہ ایسی حکمت عملی اختیار کرے جسکی وجہ سے وہ خطرات سے دور رہ سکے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ قاعدہ مقام اثبات سے مربوط ہے یعنی جب ہم خطرہ کو لمس اور محسوس کریںیا احتمال ہوکہ خطرہ موجود ہے یا خطرہ کا امکان پایاجارہاہو یعنی خطرہ کا ہونا کسی بھی طرح ہمارے لیٔے ثابت ہو جائے، لیکن کبھی کبھی واقعاً اور حقیقتاً خطرہ موجود رہتا ہے مگر چونکہ ہم اس سے ناواقف ہیں یا خطرہ ہمارے لیٔے ثابت ہی نہیں ہوتا لہٰذا اس سے بچنے کی تدابیر نہیں کرتے چاہے یہ خطرہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جب ہم کو اطّلا ع ہی نہیں ہے تو اس سے نمٹنے کے لئے کچھ بھی نہیں کرینگے لہٰذا پہلے خطرہ کااحساس کریں پھر اسکے بعد اپنی ذمہ داریوں کو اس کے مقابلے میں درک کریں۔

۱۴

حوزئہ علمیہ ا و ریونیورسٹی کے اساتذہ کی ذمہ داریاں

بہر حا ل جو کچھ اس تقریر میں آپ لوگوں سے مربوط ہے وہ یہ کہ مختلف لحاظ سے دوسروں کی بہ نسبت آپ لوگوں کی ذمہ داریاںسنگین اور زیادہ ہیں ۔ جن میں ایک وجہ یہ ہے کہ خدا وندعالم نے آپ کو ذاتی قوّت و استعداد عنایت کی ہے اگر یہ عنایت نہ ہوتی توآپ یونیورسٹی کے استاد نہ ہوتے یہی ہوش اور علمی صلاحیت نیزاعلیٰ تحقیق و تعلیم جو آپ کے پاس ہے اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آپ کی صلاحیت دوسرے لوگوں سے زیادہ ہے ۔

دوسرے یہ کہ اجتماعی حیثیت کی وجہ سے جو اثر نوجوان افراد اور طالب علموں پر آپ ڈال سکتے ہیں اسکی وجہ سے آپ کی ذمہ داری زیادہ ہوجاتی ہے اس لئے کہ معمولی افراد حتیّٰ ادارے اور وزارتی امور کے ذمہ دار بھی نو جوانوں پروہ اثر نہیں ڈال سکتے جو آپ لوگوں کی ذات سے ممکن ہے آپ ہی حضرات نوجوانوں کی تربیت اور انکی فکروںکو پختہ کرکے در حقیقت ملک کومضبوط بناتے ہیں اور آئندہ کی تاریخ رقم کرتے ہیں یہی وہ نوجوان ہیں جو بہت جلد ملک کے عظیم عہدہ پر فائزہونگے رہبر سے لیکرصدر یا پارلیمانی امور کے ممبران اور دوسرے عہدوں پر متمکّن ہونے والے افراد سب کے سب اسی حوزئہ علمیہ اور یونیورسٹی کے جوانوں میں سے ہونگے اب استاد چاہے

۱۵

یونیورسٹی کا ہو یا حوزئہ علمیہ کا اس کی ذمہ داری اس لحاظ سے عظیم اور دوسروں کی بہ نسبت زیادہ سنگین ہے تیسری بات جو ہماری اور آپ کی ذمہ داریوںکے زیادہ سنگین ہونے کا سبب ہے وہ درحقیقت زمانے کے خاص حالات کے تحت ہے اس وقت ہم ایسے ماحول اور شرایٔط میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دشمن کا خطرہ خاص طور پر آداب و رسوم نیزتہذیب وتمدّن کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے اور ہم دشمن کے حملہ اور اسکے نفوذ کو اچھی طرح محسوس کر رہے ہیں ۔کل تک جو کہہ رہے تھے کہ یہ ایک کلچر اور تہذیب کا دوسرے کلچر اور تہذیب کے ساتھ معاملہ اور تبادلہ ہے اور اسے سازش کہنا ایک وہم ہے۔میں یہ نہیں سمجھتا کہ جو لوگ تھوڑی سی بھی عقل و فکر رکھتے ہیں یا ان کے اندر تھوڑی سی بھی سوجھ،بوجھ موجود ہے ان پر یہ حقیقت پوشیدہ ہوگی تہذیب اور کلچر کا خطرہ اس معاشرہ میں ، خاص طور پر نوجوانوں کے لیٔے بہت خطرناک ہے اگر ہم نے دیر کی اور دشمن کے نفوذ اورانکے اثرات کو نہیں روکا تو بہت جلد ہم اس بات کا مشاہدہ کرینگے کہ ہماری تہذیب اور ہماراکلچربالکل پوری طرح سے بدل چکا ہوگا آجکل دشمن کے ہاتھ میں نئے الکٹرانک وسائل، سٹلائٹ ،اینٹرنیٹ اور دوسرے امکانات پہلے سے زیادہ منظّم طریقے سے پائے جاتے ہیں اور دشمن اپنی کوشش اورفعالیت کو روز بروز بڑھا رہا ہے اور بہت تیزی سے کہ جس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا یکے بعد دیگرے تہذیب و تمدّن کے قلعے مسمار کئے جا رہا ہے۔

۱۶

آ ج کی دنیا میں تہذیبی اور اخلاقی انحطاط

آج دنیا میں اخلاقی اور تہذیبی آلودگی اور پستی کا عالم یہ ہے کہ مغربی ممالک کے افراد بھی اس سے تنگ آگئے ہیں اور وہ لوگ خود اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں یقینا آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہونگے یہاں صرف ایک مورد کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے(جو ہزاروں میں ایک ہے) ۔

قرآن کریم میں ایک واقعہ ذکر ہوا ہے جسکی اس نے سختی سے مذمّت کی ہے اور وہ قوم لوط کا واقعہ ہے۔ قوم لوط کے لوگ اس برے فعل کو انجام دیتے تھے اور وہ لوگ اس بری بیماری میں مبتلا تھے وہ لوگ اپنی شہوانی خواہشات کی آگ کو اپنی ہی جنس کے افراد سے بجھاتے تھے جبکہ جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے صنف مخالف موجود تھیںانکے اس عمل کو بہت ہی بری صفت قرار دیا ہے۔

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :ا نّکم لتاتون الفاحشةما سبقکم بھا من احدمن العالمین''( ۱ ) یعنی تم لوگ ایسا برا فعل انجام دیتے ہوکہ تم سے پہلے کے لوگوں میں سے کسی نے اس فعل کوانجام نہیں دیا۔ آخر کاروہ لوگ اسی برے کام پر مصررہے اور ان لوگوں نے حضرت لوط کے موعظہ اور نصیحت پر کوئی توّجہ نہیں دی پھر خدا وندعالم نے ان پر عذاب نازل کیا اوران لوگوں کوصفحہ ہستی سے مٹادیا ۔یہ قصّہ ایک

____________________

(۱)سورہ عنکبوت : آیہ ۲۸۔

۱۷

چھوٹے شہرمیں وہ بھی دنیا کے ایک کنارے بسنے والے ہزاروں سال پہلے چندافرادسے متعلّق تھا لیکن آج آپ دنیامیں دیکھیںکہ کیاہورہاہے خودمغربی ممالک کے افرادجو عندیہ اوراشارہ دے رہے ہیں اسی اندازے کے مطابق دنیا کے تقریباًپچاس فیصدی سے زیادہ بڑے بڑے لوگ اس بری عادت میں مبتلا ہیں حتّیٰ بات یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ لوگ ہم جنسوں کی حمایت میں کھلے عام پر سڑکوں پرآکر مظاہرہ کرتے ہیں اور ریلی نکالتے ہیں بعض ممالک میں پارلیمانی امورکے ممبران نے سرکاری طورپراس قانون کو منظور کروا یاہے اورقانون بنا کراسکوجائزقراردیاہے آج دنیا کے بہت سے علاقوں میں ہم جنسوں نے تنظیم اورکلب کے ساتھ اپنے لئے مخصوص جگہیں بنا لی ہیں اسکے علاوہ بعض رسالے اورکتاب خانے بھی انھیں سے مخصوص ہیں ۔

اگرمیں اپنی آنکھ سے نہ دیکھتا تو یقین نہ کرتا ایک بار جب میں نے امریکہ کے شہرفیلاڈیفنا کاسفرکیا اورموقع ملنے پربعض شہروں کودیکھنے گیا انھیں میں سے ایک واشنگٹن شہربھی تھا ایک دوست ]جوکہ آجکل ایران میں نائب وزیر ہیں [انکے ساتھ گاڑی پرسوارہوکرجا رہا تھا راستے میں ایک چوراہے پر بہت بڑا کتب خانہ نظرآیا میں نے اپنے دوست سے کہا کہ بہترہے اس لائبریری کودیکھتے ہوئے چلیں انھوں نے جواب دیایہاں اترنا بہترنہیں ہے میں نے اسکا سبب پوچھا توکہنے لگے کہ یہ لائبریری ہم جنسوں کی ہے اگرہم یہاں اتر گئے توہمیں برائی سے متّہم کیا جائے گا۔ میں نے اسی چوراہے پربہت سے مردوں کوعورتوں کا مختصر لباس پہنے ہوئے دیکھا جواپنے کوسجا سنوارکر دوسروں کے لئے پیش کررہے تھے ۔یہ آج دنیا کی حالت ہے کس قدربے شرمی اورذلّت کا کام ہے !

۱۸

اب آپ خودہی تصوّرکریں ذرائع ابلاغ اورانٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ کتنی جلدی اورآسانی کے ساتھ اخلاق کوخراب کرنے والے ان جراثیم کوپھیلایا جا سکتا ہے ایسے ہی نہیں مغربی ممالک کے ماہرین تعلیم اورنفسیات سے واقفیت رکھنے والے افرادنے خطرے کا اعلان کیا ہے انھوںنے بچوّں کے غیراخلاقی باتوںسے آگاہ ہونے اورانٹرنیٹ وغیرہ سے ہیجان انگیز تصاویرکے نہ دیکھنے پرسختی سے تاکیدکی ہے آج ہالیوڈجدیدقسم کے تکنیکی اورفنیّ وسائل سے ایسی جذّاب اورپرکشش فلمیں بنا کرساری دنیا میں نشرکررہا ہے جس میں اخلاق کے خلاف بہت ہی غلط تبلیغ کی جا رہی ہے۔ اے کاش یہ سلسلہ یہیں پرختم ہوجاتا مگرایسا نہیں ہے اس سے بڑا بھی خطرہ پایا جا رہا ہے اوروہ فکری انحراف کا خطرہ ہے جس طرح اخلاقی برائیاںآج کی دنیا میں بے نظیر ہیں ویسے ہی فکری انحراف بھی آج کل روزبروزبڑھتا جا رہا ہے کہ اب تک کسی شیطان کے ذریعہ یہ کام انجام نہیں پایا آج تک انسانی عقیدے کو خراب کرنے کا ذریعہ ابلیس تھا لیکن اگروہ بھی بعض انسان نما شیطانوںکی حرکت اوران کے کرتوت کو ملاحظہ کرلے تودانتوں تلے انگلی دبالے انھوں نے ایسا ماحول بنا لیا ہے اور وہ ایسا چھا گئے ہیں کہ اگر کوئی کہتا ہے میں فلاں چیزپریقین رکھتا ہوںتویہ کہتے ہیں کہ عجب بیوقوف اورناسمجھ انسان ہے! ہاں آجکل کے روشن فکروں کی اصطلاح میں انسان کو فخراسی بات پر ہے کہ وہ یہ کہے ہم کو تمام چیزوں میں شک و شبہ ہے اور کوئی بھی چیز دنیا میں یقینی اور ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی چیزیقین کرنے کے قابل ہے۔

۱۹

ہر زمانے میں اسباب ہدایت و گمراہی کے درمیان نسبی توازن کاتحفظ

وہ چیز جو جاننے کے قابل ہے یہ کہ خدا وندعالم کی وسیع حکمت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر زمانے میں جس قدر برائیاں اور اخلاق کو گمراہ کرنے والی چیزوں کی زیادتیاں اور انکے اسباب کی کثرت ہوگی اسی اعتبار سے انسانوں کو راہ راست اور ہدایت کی طرف لے جانے کے اسباب بھی فراہم ہونگے یعنی خدا وند عالم ہر زمانے میں ہدایت اور ضلالت دونوں طرف کے توازن کو برقرار رکھتا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ گمراہی کاماحول معاشرہ پر اس قدرغالب ہو جائے کہ جو طالب ہدایت ہیں وہ اس سے محروم رہ جائیں۔ اگر آج اطّلاعات اورمواصلات کے نئے نئے ذرائع گمراہیوں کے لئے فراہم ہیں تو یہی نئی ایجادات اور وسائل انسان کی ہدایت اور اصلاح کا ذریعہ بھی بنتے ہیں جبکہ یہ اسباب پہلے نہیں پائے جاتے تھے ۔آج دنیا میں ایسے بہت سے افراد ہیں جنھوں نے اسلام کو انٹرنیٹ کے ذریعہ پہچانا ہے اور وہ مسلمان ہو گئے ہیں ۔ اگر ریڈیو ،ٹی وی ،سنیما ، انٹرنیٹ اور سٹلائٹ وغیرہ لوگوں کو گمراہ، فکروں کو خراب اور انکے ا خلاق کو پست کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو انہیں ذرائع کے ذریعہ بہت سے لوگ اسلام، انقلاب،ایران اور امام خمینی کے نام سے واقف اور آگاہ ہوئے ہیں اور انکی جانب متوجّہ ہو کر وہ مسلمان ہو گئے ہیں ۔دنیا میں بہت سے حصّوں کے مسلمانوں نے جب سٹلائیٹ اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ اما م خمینی کے پیغام کو سنا اور انکے راستے سے متعارف ہوئے تو ان لوگوںنے شیعہ مذہب کو اختیار کرلیا ۔

ایک بار میں سنگا پور میں ایک تاجر کا مہمان ہوا اسکی تجارت کمپیوٹر سے متعلّق تھی اس نے بتایا کہ شروع میں میں وہابی تھا لیکن جب میں نے امام خمینی کے متعلّق معلومات حاصل کی اور انکی باتوں کو سنا اور انکی تحریک کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی اسلام یہی ہے جسکو امام خمینی بتا رہے ہیں بہر حال اسکے بعد میں نے شعیہ مذہب قبول کر لیا ۔

۲۰

میرا وہ سفر جو امریکہ کے چندجنوبی ممالک سے متعلّق تھا جیسا کہ مجھے یاد ہے ان میں ایک ملک شیلی بھی تھا اس ملک کے ذمہ داروں اور یونیورسٹی کے سر براہان نے مجھ سے کہا کہ ہم اپنے ملک کے جوان طبقہ اور انکے مستقبل کے سلسلے میں بہت فکر مند ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں؟ ہم ان نوجوانوں کو اس یونیورسٹی میں آپ کے حوالے کرتے ہیں آپ انکی تربیت اپنی روش کے مطابق انجام دیں ہم آپ کو تمام سہولیات دیتے ہیں آپ ایک پروگرام کے تحت انکی تربیت کریں اس لئے کہ ہم کو اطمینان ہے کہ دنیا میں تربیت کے جتنے ذرائع ہیں ان میں مسلمانوں کی روش سب سے بہتر ہے۔ اس یونیورسٹی کا نائب مختلف شعبوں کو پہچنوانے او ر اس کی راہنمائی کے لئے ہمارے ساتھ تھا جب ظہر کا وقت ہوا تو ہم نے کہا ہم ظہر کی نماز پڑ ھنا چاہتے ہیں چنانچہ ایک جگہ ہمارے لئے معےّن ہوئی اور ہم لوگ نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے یونیورسٹی کا نائب جو کہ عیسائی تھا اس نے بھی ہم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ہمیں بہت تعجّب ہوا اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم آپ لوگ نماز میں کیا پڑھتے اور کیا کہتے ہیں ؟ لیکن یہ سجدہ کی حالت مجھکو بہت اچھی لگی اور میرے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی نماز پڑھوں ۔

۲۱

ہاوانا ]یہ ایک ایسے ملک کی راجدھانی ہے جو پچاس سال تک کمیونزم کے زیر تسلّط رہ چکا ہے اورآج بھی ہے [وہاں کے ایک بزرگ پروفیسر جو کہ پیدائشی طور پر اسپین کے رہنے والے ہیں اوروہاں تاریخ کے استاد ہیں وہا ں جتنے بھی اساتید ہماری میزبانی کر رہے تھے ان لوگوں کے درمیان یہ شخص بلند ہوا اور تقریر کرتے ہوئے اس نے کہا کہ میں جوانی کے عالم میں اس بات کی خواہش رکھتا تھا کہ میں دو شخصیات کے بارے میں مطالعہ کروں اور تحقیقات کر کے تفصیلی معلومات حاصل کروںایک پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ]جو کہ ایک عالمی شخصیت کے مالک تھے [دوسرے خےّام جوکہ ایک ایرانی دانشمند ہے لیکن آج کل کافی دنوں سے میرے اندر ایک نئی شخصیت کے بارے میں جستجو کرنے کی خواہش ہو گئی ہے جس خواہش نے ان دونوں پرانی خواہشوں کوبھلا دیا ہے آج میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کروں جس نے دنیا میں انقلاب برپاکردیا ہے اور وہ ذات امام خمینی کی ہے یہاں پر وہہاواناکا ضعیف استاد جذباتی ہو گیا اس نے اپنے اندر عجیب کیفیت پیدا کر لی وہ دو بار میرے سامنے جھکا اور اس نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور خواہش کی کہ ایک اسپینی زبان میں ترجمہ شدہ قرآن اسکو دوں کہاں''ہاواناجہاں نصف صدی تک کمیونسٹ کی حکومت تھی وہاںایک یونیورسٹی کا استاد جو کہ سب سے ضعیف تھا اسکی یہ خواہش؟

۲۲

میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ تصوّر نہ کریں کہ گمراہی کے وسائل بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور گمراہی ہر طرف پھیل چکی ہے اب کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے چاہے ایک بالشت ہو یا سو بالشت، ڈومنے کے لئے کافی ہے یہ تصّور بالکل غلط ہے مایوسی اور ناامےّدی کی حالت ہمارے اندر کبھی بھی نہیں ہونا چاہئے، خدا وند عالم نے اس دنیا کو انسان کی ترّقی اور کمال کے لئے پیدا کیا ہے اس کی ذات اس بات سے منزّہ ہے کہ دنیا کو چھوڑ دے اور کچھ شیطان نماانسانوں کے حوالے کر دے اور لا پرواہ ہو جائے ایسا ہر گز نہیں ہے، اگر گمراہی اور انحرافات کے وسائل زیادہ ہیں تو ہدایت و اصلاح کے راستے بھی نئے نئے سامنے آرہے ہیں جو کسی بھی پیغمبر اور امام کے زمانے میں موجود نہیں تھے ۔

وہ اجتماعی حالات جو آج سماج اور قوم کو بدلنے کے لئے ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں پائے جاتے تھے آپ اسکانمونہ ایرانی انقلاب اور آٹھ سالہ دفاع مقدّس کے تناظرمیں دیکھ سکتے ہیں ۔

یہی جوان جو کہ شاہ کے دور میں پلے بڑھے تھے انکے اندر ایسا انقلاب اور تحوّل آیا کہ وہ با ایمان اور صاحب عرفان ہو گئے کہ ان لوگوں نے ۸ سالہ جنگ کو بہت ہی افتخار اور سر بلندی کے ساتھ فتح کیا اسی دفاع مقدّس میں ایسی قربانی دیکھی گئی جسکی کوئی مثال نہیں ملتی ان لوگوں نے لاجواب اور بے نظیر قربانی پیش کی ، ان لوگوں نے انقلاب کو زندئہ جاویدکر دیا ۔اگر آپ اس زمانے میں اپنی کلاسوں میں ملاحظہ کریں گے تو آپ کو ایسے نوجوان مل جائیںگے جو عرفانی مطالب کو حاصل کرنے کے لئے اسی قدر والہانہ جذبہ رکھتے ہیں کہ گویاسو سال کی منزل کو ایک دن میں طے کر لیں اگر انکی ہدایت اور راہنمائی صحیح طریقے سے کی جائے تو ان میں صبرو ایثار،جذبہ و فدا کاری کی نیز دنیاوی لذّات سے اپنے کو بچانے کی قوت و صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کا ہم نے انقلاب کے دوران اور جنگی محاذ پر مشاہدہ کیا ہے اور ایسی مثالوں کو دیکھا ہے اس نوجوان نسل کی ہدایت ]جو کہ بہترین صلاحیت رکھتے ہیں اور انکی فطرت پاک وپاکیزہ ہے[اور ان کی راہنمائی آج ہم اورآپ اساتیدکے کاندھوں پر ہے۔

۲۳

اکثر بڑے انقلابات صاحبان علم کی فکروں کا نتیجہ

ہماری بحث ذمہ داری اور مسئولیت کے بارے میں تھی جو مطالب میں نے پیش کئے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو اور زیادہ محسوس کریں، اگر آپ توّجہ کریں تو دیکھںگے کہ جولوگ مختلف شعبوں میں کامیاب ہوئے ہیں اور دنیا کے مختلف حصّوں میں انقلاب لانے کا سبب واقع ہوئے ہیں نوے فیصد سے زیادہ افراد صاحبان علم ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ یونیورسٹی سے تعلّق رکھتے ہوں یادینی مدارس سے، اقتصادی،اجتماعی،سیاسی اوردینی نیزاسی طرح کے اور دوسرے شعبوں میں آپ اکثر دیکھں گے کہ شروع میں ایک شخص کی کوشش اورپلاننگ ہوتی ہے پھردھیرے دھیرے اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور آخر میں وہ بڑے انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ انقلاب اور تحوّل ہمیشہ مثبت اور مفید ہی رہا ہو ان میں منفی اور مضر تحوّلات بھی پائے جاتے ہیں بہت سے ایسے تحوّلات بھی ہیں جو کہ اپنے اندر بہت ہی وسیع پیمانے پر فکری اوراخلاقی انحرافات کے حامل ہیں اور وہ انحرافات بہت ہی خطرناک حد تک پہونچے ہوئے ہیں ، انھیں میں سے ایک انحراف جس کی طرف اشارہ کیا جا سکتاہے مغرب کاجنسی اور اخلاقی انحراف ہے جس کے قائل خود مغربی ممالک کے افراد ہیں کہ اس انحراف کا سبب جرمنی کا مشہور ماہر نفسیات ]زیگمونڈ فرویڈ[نے نفسیاتی بیماریوں کے اسباب و علل کو دیکھ کر نتیجہ نکالا کہ اس جنسی اور اخلاقی انحراف کا سبب جنسی خواہش کا کچلا جانا اور غریزئہ جنسی کا دبایا جانا ہے اور اس پر پہرے کے سبب یہ انحراف ہو رہا ہے اس نے تحلیل و تجزیہ کیا اور اس بیماری کی وسعت کو کم کرنے اور اس سے بچنے کے لئے یہ رائے پیش کی کہ سماج اور معاشرے میں پوری طرح سے جنسی آزادی ہونی چاہئے۔

اگر چہ خود (فرویڈ) اس نظریہ کو ظاہر کرنے میں کوئی قصد و غرض نہیں رکھتا تھا لیکن پھر بھی بہر حال یہ نظریہ اس جنسی اور اخلاقی تنزّلی اورپستی کا باعث بنا جسکا ہم مغربی ممالک میں مشاہدہ کر رہے ہیں البتہ شہوت پرستی اور لوگوں کی ہوس رانی نیزغلط فائدہ اٹھانے والوں کی منفعت طلبی اور وقت سے فائدہ اٹھانے والوں کی کار فرمائیاں بھی اس چیز کے پھیلائو کا سبب بنی ہیں لیکن بہر حال پہلا قدم اسکے پھیلانے میں فرویڈ'' کا تھا، آج کل دنیا میں سب سے زیادہ فائدہ مند صنعت سیکس اور جنسی مسائل سے متعلّق ہے دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی فلمیں سیکسی فلمیں ہیں اور ٹی وی پر جو چینل سیکسی فلمیں نشر کرتے ہیں وہی چینل دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں ان تمام انحرافات کی جڑ اسی ایک ماہر نفسیات کی فکر تھی۔

۲۴

فکری فسادو انحطاط کے متعلق بھی مارکس ازم کے تفکرّات اور اسکے غم انگیز نتیجوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ستّر سال سے جو فلسفہ نصف کرئہ زمین پر حاکم تھا خود انھیں ملکوں اور جو لوگ ان ملکوں میں انکے پیرو تھے خود انھیں لوگوں کے اعتراف کے مطابق اسکے خطرناک نتائج سامنے آئے ،یہی مارکس ازم کانظریہ تھا جس نے لاکھوں بے دین اورر منکرین خدا کو پیدا کیا جو خدا اور دین سے شدّت جنگ کی ،نیز یہ نظریہ بھی ایک دوسرے جرمنی دانشور'' مارکسکا تھا یہ تو چند مضر اور نقصان دہ تحوّلات تھے،البتہ کچھہ مثبت اور فائدہ مند تحولات بھی علماء اور دانشوروں نے ایجاد کئے ہیں جن سے ہم کو غافل نہیں ہونا چاہئے انقلاب جمہوری اسلامی ایران بیسویں صدی کا مہم ترین تحوّل و انقلاب ہے جس کا دوست اور دشمن سبھی نے اعتراف کیا ہے یہ ایک مذہبی عالم آیت...امام خمینی کی فکروں کا نتیجہ تھا امام خمینی کی شخصیت ایک سے زیادہ نہیں تھی اور اسلحہ ،پیسہ وغیرہ کچھ بھی نہیں رکھتے تھے ان کے پاس صرف ایک بلند فکر تھی ایسی فکر کہ شروع میں تقریباً۹۹ فیصد خاص دوست ا ور احباب بھی یقین نہیں رکھتے تھے کہ یہ فکر عملی ہوجائے گی لیکن سبھی لوگ گواہ ہیں کہ اس شخص نے دنیا سے الگ ایک چھوٹے اور معمولی مکان میں بیٹھ کر مشرق و مغرب کی دو بڑی طاقتوں کو مبہوت کر دیا یہ ایسے عالم میں ہوا کہ امام نہ شہرت کے طالب تھے اور نہ ہی حکومت کے خواہاں، جبکہ یہ عام بات ہے کہ کوئی استاد درس پڑھا کر نکلتا ہے تو تمام شاگرد اسکے پیچھے پیچھے چلتے ہیں لیکن امام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی انکے پیچھے چلے امام خمینی اگر کسی کو دیکھتے تھے تو اسکو منع کرتے تھے کہ وہ راستے میں انکے پیچھے پیچھے چلے، امام خمینی ایسے مرجع تھے کہ جنھوں نے بہت زمانے تک اپنے رسالہ عملیہ کو چھاپنے کی بھی اجازت نہیں دی اور جب اجازت دی تو اس شرط کے ساتھ کہ ایک پیسہ بھی سہم امام علیہم السلام کا اس میں خرچ نہ ہو میں خود اس بات کو جانتا ہوں کہ آپ کا رسالہ عملیہ کن لوگوں کے تعاون سے چھپا تھاآپ ایسی شخصیت تھے جو نہ قدرت کے طالب تھے اور نہ ہی شہرت کے خواہاں ،بلکہ ان دونوں چیز سے گریزاں تھے ۔

۲۵

آپ کے اندر ایک فکر تھی کہ جس پر بھروسہ کرکے آپ نے ایک بہت بڑا انقلاب برپا کر دیا ایسا تحوّل جس نے دنیا کے سیاسی حالات کو درہم برہم کر دیا یہ سب ایک مثبت فکر کا نتیجہ ہے۔

بہر حال میں اس بات کی تاکید کرنا چاہتا ہوں ایک آدمی،ایک استادخواہ وہ دینی مدرسے کا ہو یا یو نیورسٹی کا(چاہے وہ مثبت ہو یا منفی) عالمی انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔ اگر ہم اس مسئلہ کی کی طرف توجّہ کریں تو ان ذمہ داریوں کے بوجھ اور اسکی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں پھر اس بات کے لئے آمادہ ہونگے کہ اس کے لئے وقت صرف کریں درس اور کلاس کو تعطیل کریں اور بیٹھ کر اس اہم مسئلہ کے بارے میں بحث اور گفتگو کریں اور ملک کے نوجوانوں کے بارے میں فکر کریں، اسلام اور اسلامی معاشرہ سے متعلّق جو کام انجام دینا ہے اسکو پہچانیںاور ان کے متعلق اپنا فریضہ انجام دیں ان تمام مطالب کی طرف توجّہ کرتے ہوئے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فریضہ اور ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ہم کو کیا کرنا چاہئے اس کے جواب سے قبل ایک مقدمّہ بیان کرتا ہوں۔

تہذیبی انقلاب کی اہمیت

میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کو کتنا یاد ہے لیکن انقلاب اسلامی کے شروع ہی میں مرحوم امام خمینی نے ثقافتی اورتہذیبی انقلاب کے مسئلہ کو پیش کیا اور بہت سے ملک کے تعلیمی ادارے بند ہوگئے تو مختلف ممالک سے لوگ آئے تاکہ اس بات کوملاحظہ کریں کہ امام خمینی نے جو ثقافتی انقلاب کی بات کو کہی ہے آخراس کاراز کیا ہے؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی ثقافتی انقلاب فرہنگی کی بات آئی تھی جو کہ چین کے ثقافتی انقلاب سے متعلّق تھی جسکی بنیاد''مائو''نے رکھی تھی بہر حال ساری دنیا سے اہل فکر و نظر اور سیاسی لوگ ایران آئے تاکہ دیکھیں امام خمینی کیا کرنا چاہتے ہیں مجھکو خود یاد ہے کہ ایک یہودی استاد بھی آسٹریلیا سے قم آیا تھا میں نے خود جلسہ میں بیٹھ کر اس سے بحث و گفتگو کی وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر امام خمینی کا تہذیبی انقلاب کیا ہے؟ میں نے اس کو وضاحت کے ساتھ بتایا۔

۲۶

لیکن افسوس کہ ایسے حالات سامنے آئے کہ امام خمینی اپنے ارمان کو صحیح طریقے سے بیان نہ کر سکے اور اس کو عملی جامہ نہ پہنا سکے چونکہ نیا نیا انقلاب آیا تھا مختلف مسائل اور مشکلات سامنے تھے ابھی کچھ ہی دن گذرے تھے کہ آٹھ سالہ جنگ ہم پر مسلّط کر دی گئی جو کہ ملک کا سب سے اہم مسئلہ بن گئی ہم کو اس پر بہت ہی امکانات اور قوت و طاقت صرف کرنی پڑی ،بہر حال ملک کے اندر اور باہر شیطان صفت افرادمتحد ہو گئے یہ بھی ایک سبب بنا کہ جو ثقافتی انقلاب امام خمینی کے ذہن میں تھا وہ حقیقی اور عملی صورت اختیار نہیں کر سکا لہٰذا اگر کوئی یہ نتیجہ نکالے کہ بیرونی دبائو اورفوجی محاصرہ اور اقتصادی پابندی اور طرح طرح کی مشکلات ہمارے لئے کھڑی کی گئیں وہ سب صرف اس لئے کیا گیاکہ امام خمینی کا ثقافتی انقلاب کامیاب نہ ہو سکے اس جملہ میں کچھ نہ کچھ ربط ضرور ہے اور اس کو بعید از امکان نہیں سمجھنا چاہیئے، آپ خود بو سینا میں دیکھیں کہ وہاں اتنے ظلم کیوں کئے گئے ؟اور بہت ہی بے رحمی اور پوری دشمنی کے ساتھ ہزاروں مردوں، عورتوں ،بوڑھوں جوانوںحتیّٰ بچوّں کو قتل کر کے انکے سر کیوں جدا کئے گئے؟اور جو لوگ حیوانات کی حفاظت کے لئے انجمن بناتے ہیں اور چند حیوانات کے لئے مظاہرہ کرتے ہیں وہ لوگ بھی انسانوں پر اتنے ظلم و ستم کے بعد بیٹھے دیکھتے رہے اور انکی زبان پر ذلّت و رسوائی کا تالا پڑا رہا اور ان سے کچھ نہ بولا گیا بلکہ اس کے بر خلاف ظالموں کی مالی اور جنگی مدد بھی کرتے رہے، کیا اس کا سبب ثقافتی اور تہذیبی مسئلہ کے علاوہ کچھ اور تھا ؟ کیا ان مسلمانوں کی تعداد دو تین ملین سے زیادہ تھی ؟ یہ نہ زمین رکھتے تھے اور نہ مکان نہ انکی تعداد زیادہ تھی نہ ہی انکے پاس دولت، ہتھیار ،ٹکنالوجی اور کوئی اہم چیز تھی تو ان لوگوں پر اتنا بھیانک حملہ اور ظلم و ستم کیوں ہوا ؟اس کا جواب صرف ایک چیز ہے وہ یہ کہ ان کے پاس صر ف ثقافت اور اسلام کا کلچر تھا وہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ بیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے مرکز میں ایک اسلامی ملک ظاہر ہو رہا ہے اور اپنے وجود کا بر ملااعلان کر رہاہے اس سے وہ لوگ خوف زدہ تھے کہ اسلامی فرہنگ اور کلچر دھیرے دھیرے پڑوسی ممالک اور پورے یورپ میں پھیل جائے گااور آگے چل کر پورے یورپ میں ہر چیز کو بدل دے گا لہٰذا ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ آغاز میں ہی اس تحریک کو ختم کر دیا جائے اور یہی کام الجزائر، ترکیہ اور دوسرے اسلامی ممالک میں انجام دیا گیا، آخر کیوں ؟ یہ لوگ اسلام سے خوف زدہ ہیں اسلام کیا ہے؟ اسلام ایک فکر اور فرہنگ ثقافت کا نام ہے تو گویا یہ لوگ ایک فکر اور فرہنگ سے ڈرتے ہیں

۲۷

اس طولانی مقدّمہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کو اس سوال کے جواب میں کہ کیا کرنا چاہئے؟ صرف یہی ہے کہ ہم کو ثقافتی کام کرنا ہے یہ ساری بحثیں اس بات کا سبب بنتی ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنی ذمہ داری کو انجام دیں اور اس بات کو اپنے ذہن سے نکال دیں کہ یہ فکری اور فرہنگی بحثیں بے فائدہ ہیں اور ملک میں جو کچھ بھی مشکل ہے اسکا تعلّق صرف اقتصاد اور خارجی سیاست وغیرہ جیسے مسائل سے ہے ۔

انقلاب کے ارتقاء میں ثقافتی تحریکوں کا کردار

اسلامی تہذیب وتمدن کو فروغ دینے کے لئے ہم کو اصول اور نظام کی ضرورت ہے ہم کو چاہئے کہ ہم اپنی تحریک کی راہ و روش کو معین کریں جو حالات ہمارے سامنے ہیں ان کو محسوس کریں اپنے طریقہ کار کو پہچانیں اسی طرح اس تحریک سے متعلّق راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دیکھیں اور ان سے متعلّق جو لازمی تدابیر ہیں انکو اختیار کریں، اس راستے میں سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہم فکروں کو نئے انداز سے پیش کریں، اپنے مطالعہ کو وسیع اور مضبوط کریں ،فکروں کے اصول کو قائم کریں اصولی اور بنیادی طور پر محکم انداز سے اپنے کام کو شروع کریں۔

۲۸

انقلاب کے شروع میں ہم لوگ ایک مختصر شناخت رکھتے تھے ہم کو ظالموں اور انکے پٹھّوئوں کے مقابلے میں پوری طاقت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اسی مختصرشناخت پر ہم نے حرکت کی اور انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور یہاں تک پہونچا ہے آج بھی لوگوں کی اکثریت اسی اصول اور قانون کی پابند ہے لیکن ہم کو اس بات پر توّجہ دینی ہوگی کہ اس انقلاب کو باقی رکھنے اور اس کے تحفظ کے لئے یہ تھوڑی سی شناخت کافی نہیں ہے اس حرکت کے آغاز اور انقلاب کی کامیابی کے لئے زیادہ تر احساسات اورجذبات پر بھروسہ تھا جو کہ اسی مختصر شناخت کے ساتھ تھا جس سے کچھ نتیجہ حاصل ہوا لیکن اس راستے کو جاری رکھنے کے لئے صرف اس پر عمل کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہم کو اب اصل میں احساس و عواطف سے ہٹ کر شناخت اوربصیرت کے اسباب پر زیادہ توجّہ دینی ہوگی۔ اب آج نوحہ و ماتم اور نعروں سے لوگوں کو جمع نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ سب چیزیں اپنی جگہ پر باقی رہیں اور محفوظ رکھی جائیں ،لیکن گفتگو اس بات میں ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ثقافتی اموراور تہذیبی مراکز میں کوئی رخنہ وارد نہ ہو اور ہم دشمن کے نفوذ سے محفوظ رہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم غورو فکر کے ساتھ فرہنگ و ثقافت کی طرف خاص توجّہ دیں ۔آج دشمن بھی چالاکی کے ساتھ اس نکتے کو پہچان گیا ہے اس نے اپنی قوی اور مستحکم حرکت کو اقتصادی اور فوج میدان سے ہٹاکر سارے امکانات کو ثقافتی مسائل میں صرف کر رہا ہے اور دشمن اس کوشش میں ہے کہ اس طرح سے انقلاب کے ثقافتی مراکز کو آلودہ اور خراب کرکے دھیرے دھیرے تمام میدان کو اپنے قبضہ و اختیار میں کر لے ،اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ثقافتی شگاف کو روکیں اور دشمن کو اس طرف سے داخل نہ ہونے دیں تو ہمیں چاہئے کہ اس پرا گندگی اور بے نظمی سے اپنے کو نکالیں، اگر ہم یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے چاہتے ہیں کہ ثقافتی کاموں کو انجام دیں اور اسلام کی قدرو قیمت اور اسکی اہمیت کو نو جوانوں کے ذہن تک پہونچائیں تو سب سے پہلے ہم اپنے کو فکری اور ثقافتی اسلحہ سے لیس کریں

۲۹

اور اسلامی فکر و ثقافت اور اسکے مبانی و اصول نیز مغربی فکر وثقافت اور وہ شبہات جو کہ وہ لوگ پیش کرتے ہیں اس کو جانیں اور پہچانیں تاکہ معاشرہ خاص طور سے نوجوان نسلوں کے مسائل اور مشکلات اور انکے فکری اور ثقافتی شبہات ومشکلات کو حل کر سکیں اور انکے سوالات کے جوابات دے سکیں ا لبتہ خدا وند عالم خود اپنے دین کا محافظ ہے قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:( انّانحن نزّلناالذکر واناّ له لحافظون'' ) ( ۱ ) بیشک ہم نے قران کریم کو نازل کیا اور ہم ہی اسکے محافظ ہیں ۔ اور بیشک خدا وند عالم ان تمام ظلمتوں اور تاریکیوں کے باوجود اسلام اور دین کی کشتی کو ساحل نجات تک پہو نچائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے( هوالذی ارسل رسوله بالهدیٰ ودین الحق ) ۔۔.''( ۲ ) وہ خدا ہے جس نے پیغمبر کو ہدایت اور د ین حق کے ساتھ بھتجا تاکہ اسکو تمام ادیان پرغالب کر دے ہر چند کہ مشرکین اس بات کو نا پسند کریں ۔لیکن اس دین کی حفاظت کیوں نہ ہمارے ذریعہ ہو اور کیوں نہ ہم اس گروہ سے ہوں جن کوخدا وندعالم نے کلمہ حق کی بلندی کے لئے اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے چنا ہے۔ ؟

امید کرتا ہوں کہ خدا وند عالم ہم سبھی لوگوں کو یہ توفیق عنایت فرمائے اورآخر میں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ آج ہم لوگ اپنی حسّاس اور تا ریخی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اس ذمہ داری کو انجام دینے اور اپنی فکری اور فلسفی خامیوں کو دور کرنے کے لئے ضروری تےّاریاں کریں اور اس بات پر توّجہ دیں کہ اگر خدا نخواستہ اس عظیم کام اور اس ذمہ داری کو انجام دینے میں کوئی کمی یا کوتاہی کی تو خدا وند عالم ، پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان شہداء کی بارگاہ میں جنھوں نے اپنا خون نچھاور کر کے اس پاک و پاکیزہ شجر کو محفوظ رکھا ہم لوگ اس کے جواب دہ ہونگے اور آسانی سے اس سے بچ نہیں سکتے ۔

____________________

(۱)سورہ حجر : آیہ ۹۔

(۲) سورہ صف : آیہ ۹۔

۳۰

تہذیب و ثقافت کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری-۲

خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے توفیق عطا فرمائی کہ دوبارہ یونیورسٹی کے معظّم اساتید کے درمیان گفتگو کرنے کا موقع ملا اس کے پہلے جلسے میں گفتگو اس بارے میں تھی کہ ہمارے اوپر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ اس کو میں نے کچھ حد تک بیان کیا اور اس ضمن میں چند باتیں آپ کے سامنے پیش کیںاس جلسے میں میں نے بیان کیا تھا کہ تہذیب وثقافت سے متعلق امور کو انجام دینے کے لئے سب سے پہلے ہم کو کچھ بنیادی باتوں پر غورو فکر کرنی ہوگی منجملہ انکے موجودہ حالات کو جاننا اور انکی تجزیہ اور تحلیل شامل ہے ،اگر چہ ہم لوگ اجمالی اور مختصر طور پر اپنے اندر ایک ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں اور یہی احساس ہے جس نے ہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے پر مجبورکیا ہے اور ہم لوگ ایک اجتماعی تحریک کے لئے آمادہ ہیں لیکن اس ذمہ داری کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور بہتر طریقے سے جاننے کے لئے انقلاب اجتماعی اور سیاسی حالات اور اس کی گذشتہ تاریخ کو جاننا ضروری ہوگا تاکہ موجودہ حالات کی تصویر کو زیادہ واضح طریقے سے سمجھ سکیں اور زیادہ معلومات کے ساتھ مطلوبہ حالت کی طرف قدم بڑھا سکیں ،البتہ اس بارے میں مزید تفصیلی بحث ہونی چاہئے لیکن وقت کی کمی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس گفتگو کو زیادہ تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے مجبوراً اسی ایک جلسہ میں اس مسئلہ کو پیش کرکے ختم کیا جارہا ہے ۔

۳۱

بہمن ۵۷ ۱۳ھجری شمشی سے پہلے ایران کی ایک تصویر

ہم سب کو معلوم ہے کہ اصل میں یہ تحریک ، انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پندرہ سال پہلے ۴۲ ہجری شمسی سے شروع ہو چکی تھی یہ پندرہ سال کاعرصہ ایرانی عوام پر بہت ہی سخت گذرا ہے افراتفری کی حالت پورے ملک میں پائی جاتی تھی۔ اقتصادی بحران، سرکاری خزانے کی غارت گری اور تمام شعبوںمیں گمراہی جو دربار شاہ سے وابستہ تھے ان میں اخلاقی برائیاں نیزسرکاری ملازمین میں غلط کاریاں ،بے انتہا رشوت خوری ،ہر جگہ نا قابل برداشت طبقاتی اختلاف نیز اسکے علاوہ اور بہت ساری خرابیاں جس نے لوگوں کو عاجز کر دیا تھا اس کے علاوہ اجتماعی معاملات میں غیروں ، خاص کر امریکا کا عمل دخل پوری طرح سے اتنا دکھائی دیتا تھا کہ بلند و بالا وزیر اور عہدہ دار بھی امریکی تسلّط کے زیر اثر تھے اور عملی طور سے امریکی سفارت خانہ تھا کہ جس کے ہاتھ میں ملک کی ساری حاکمیت تھی ، وہ لوگ ہماری عوام حتّی بزرگ شخصیتوں کی بے عزتی اور توہین کیا کرتے تھے اور بار بار کی حقارت و توہین سے ان لوگوںکے اندربہت حد تک احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا اور عوام یہ تصّور کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ امریکی ہی متمدّن اور ترقی یافتہ ہیں اور ہم لوگ ان کے مقابلے میں بے حیثیت اور پس ماندہ ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسراسب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ لوگ دین سے مقابلہ و مبارزہ کی سیاست اپنائے ہوئے تھے اور یہ فکر دن بہ دن وسیع ہوتی جا رہی تھی اور ایک مضبوط صدا بن رہی تھی آخری دنوں میں بات یہاں تک پہونچ گئی تھی کہ ان لوگوں نے درمیان سے سارے پردوں کو ختم کر دیا تھا وہ لوگ عام طور سے دینی مقدّسات سے کھلواڑ کر رہے تھے ان تمام حالات کے ہوتے ہوئے ایک عام اور وسیع انقلاب کا ہونانا گزیر ہو گیا تھا ۔

۳۲

شہنشا ہی دور کی سب سے بڑی آفت

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حالات کا تجزیہ کریں تو سب سے بڑی آفت میری نظر میں یہ تھی کہ پچھلی استعماری سیاست کے ذریعہ خاص طور سے پہلوی نظام کے پچاّس ساٹھ سالہ دور میں ان لوگوں نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے گروہ اور دیندار افراد کو سیاست سے با لکل خارج کر دیا تھا، اس زمانے کی بہت سی چیزیں مجھکو یاد ہیں لیکن جس نکتہ کی طرف میں نے اشارہ کیا اس کی طرف بہت کم دوستوں کی توّجہ ہوگی یا انکو یاد نہ ہوگا ،یہ ایک بلا تھی اور بہت ہی اہم مسئلہ تھا جو ان لوگوں نے اس ملّت کے لئے ایجاد کر دیا تھا ۔اس طرح کی ان لوگوں نے سیاست گذاری کی تھی کہ اس ملک کے سیاسی اور اجتماعی کاموں کو کچھ ایسے افراد کے حوالے کر دیا تھا کہ جو ان کے مطابق تھے ایسے منتخب افراد کہ جن میں اسّی فیصد سے زیادہ امریکہ میں تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے یا ایران میں ایسی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے جو امریکہ کے زیر اثر تھیں منجملہ ان یو نیورسٹیوں میں تہران کا'' د انشکدئہ مدیریت''(جو آجکل امام صادق یونیورسٹی ) اور شیراز کی یو نیورسٹی تھی شیراز کی یونیورسٹی کا جو مالک ہوتا تھا وہ سفارت امریکہ سے معےّن ہوتا تھا اور دوسری یونیورسٹیوں کے نظام اور نصاب بھی امریکی ہی معےّن کرتے تھے ،بہر حال ملک کی سیاست گذاری عملی طور سے انھیں منتخب اور چنندہ دانشوروں کے ہاتھ میں تھی جنکی اکثریت امریکہ کی تربیت یافتہ تھی،البتہ یہ سیاست اصل میں انگریزوں کی ہے جو بہت ہی باضابطہ اور منظّم انداز میں تھی،امریکہ نے سیاست کے اس طریقے کو انگریزوں سے سیکھا ہے تا کہ اس ذریعہ سے ان ممالک میں بہت دنوں تک اپنا تسلّط برقرار رکھ سکیں لہٰذا وہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ایسے دانشوروں کی خود انھیں ملک میں تربیت کریں جو بلا واسطہ طریقے سے انکی فکروں کو پروان چڑھائے اوروہ ان کے مطابق ہر کام کرنے کے لئے تیارہوں ۔اس سیاست کا نتیجہ یہ نکلاکہ ملک کے عام مسلمانوں کا ملک کی سیاست اور سرکاری امور میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا تھا صرف ایک پارلیمنٹ تھی جہاں عوام کی کسی حد تک دخالت نظر آرہی تھی وہ بھی اس طرح کہ ممبروں کی ایک لیسٹ اور فہرست دربار شاہ اور امریکی سفارت خانہ کے توسط سے پہلے ہی معےّن ہو جاتی تھی اور وہی نام انتخابات کے دن بکسوں سے باہر آتے تھے۔

۳۳

اگر چہ ملک کے دانشوروں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ملک کی موجودہ سیاست سے متّفق نہیں تھے اور کسی بھی طرح ان کے ساتھ رہنے کو آمادہ نہیں تھے بلکہ ان سے مقابلہ کے لئے تےّار تھے اس سلسلے میں ان لوگوں نے کئی جماعتیں تشکیل دی تھیں ان میں سے ایک حزب تودہ (تودہ پارٹی )تھی اگرچہ یہ لوگ بھی کسی حدتک مشرقی استعمار کا آلہ کار تھے اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو روس کی طرف جھکائو رکھتے تھے اور وہ لوگ چاہتے تھے کہ ایران ایک سو سلشٹ اور روسی فکر میں تبدیل ہو جائے ،بہر حال پھر بھی اس گروہ میں کچھ مخلص اور سچّے لوگ بھی پائے جاتے تھے جوحقیقت میں انگریزوں اور امریکہ کے تسلّط اور استعمار کے چنگل سے بچنے کے لئے اسکے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں سمجھتے تھے تھا کہ اپنے کو روسیوںکے حوالہ کر دیں یعنی انکے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ تیسری دنیا کے ممالک مثلاً ایران وغیرہ کے سامنے صرف دو ہی راستہ ہے یا وہ امریکی پرچم کے نیچے آجائیں یا روسی پرچم کے زیر سایہ تا کہ انکے لئے دوسرے لوگوں سے مقابلہ کرنا ممکن اورآسان ہو جائے اگر چہ یہ دوسرے گروہ والے زیادہ نہیں تھے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اس خیال کے حامی ضرور تھے بہر حال ان دنوں دانشوروں کی ایک جماعت حزب تودہ کی شکل میں جمع ہو گئی تھی اور رسمی کاموں کو انجام دیتی تھی آج بھی ہم کو اس طرح کی تنظیم سے غافل نہیں ہونا چاہئے چونکہ یہ لوگ دوبارہ موقع کو غنیمت جان کر چوری چھپے اپنے کو پھر سے آمادہ کر رہے ہیں ۔اوراس بائیںبازو میں تودہ پارٹی کے علاوہ دوسرے گروہ جیسے فدائی خلق، کارگرپارٹی، رستگار پارٹی ، اور مختلف قسم کے مقامی گروہ مختلف علاقوںجیسے کردستان، آذربائیجان، ترکمنستان اور خوزستان وغیرہ میں موجود تھے ان تمام پارٹیوں کا مارکس ازم کی طرف جھکائو تھا ۔اس بات کا تذکرہ مناسب ہے کہ بہت سے گروہ جو کسی نام سے پائے جاتے تھے حقیقت میں اس کے اندر ممبران کی تعداد دس بیس افراد سے زیادہ نہیں تھی۔ ان بائیں بازو کی پارٹیوں کے مقابلہ میں اور دوسری پارٹیاں بھی پائی جاتی تھیں جن کا شمار داہنے بازو کی پارٹیوں میں ہوتا تھا جو کہ حکومت کی طرفدار اور اس پہلوی نظام کی موافق تھیں کہ مغربی بلاک سے تعلق رکھتی تھیں۔

۳۴

اس درمیان جس بات کی کمی تھی وہ دیندار افراد کی فعّالیت اور ان کا متحرک نہ ہونا تھا مختلف چالوں اور حربوں سے ان لوگوں کو سیاست کے میدان سے جدا کردیا گیا تھااور اس طرح سے تبلیغ کی گئی تھی کہ اصلاًکوئی دینداراورمتدےّن سیاسی امور میں دخالت نہیں کرتا تھا۔

یہ بات مجھکو خود یاد ہے کہ جب کسی موقع پر کسی عالم دین کو بدنام کرنا چاہتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ ملاّسیاسی ہے گویا ایسا دور آ گیا تھا کہ سیاسی مولوی ہونا ایک گالی تصوّر کیاجاتاتھا اسی وجہ سے دیندارافراد خاص طور سے عالم دین حضرات سیاست کے میدان میں اترنے سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بعض اسلامی ممالک کی پیروی اور کچھ دوسرے اسباب کی بنا پر دینداروں کے درمیان بھی بعض سیاسی گروہ پیدا ہو گئے تھے مشہور تنظیمفدائیان خلقانھیں گروہوںمیں سے ایک تھی اگر چہ یہ ایک چھوٹی سی تنظیم تھی لیکن اپنی جگہ بہت ہی مصممّ اور مستحکم پارٹی تھی، ایک دوسرا گروہحزب ملل اسلامی'' تھا جو کہ ۲۸ مردادکے بعد عالم وجود میں آیا تھا یہ لوگ بھی معدودے چندافرادسے زیادہ نہیں تھے اور آخر کار گوشئہ گمنامی میں چلے گئے اسی دوران (جو کہ مرحوم آیت۔۔ کاشانی کے سیاسی کارناموں کی بلندی کا دور تھا )ایک دوسرا گروہمجاہدین اسلامبھی تھا جس کے بانی شمس قنات آبادی تھےسازمان مجاہدین خلقجس کو آجکل ہم گروہ منافقین کے نام سے جانتے ہیں حقیقت میں اسی گروہ کا ایک حصّہ تھا جس کے بانی یہی شمس تھے جیسا کہ آپ جانتے ہیں بعد میں چل کر اس گروہ نے مارکسی رجحان پیدا کر لیا اور آخر کار امریکہ اورمغرب کے دامن میں چلا گیابہر حال ملک کے سیاسی حالات کی یہ تصویر او ر یہ متحّرک تنظیمیں انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھیں جو انھیںمذکورہ چند گروہوں میں منحصر تھیں اور ملک کے مخلص اورمعتقدمسلمانوں کی اکثریت ، جو کہ نوّے فیصدتھے اس میدان سے پوری طرح دور تھے سیاست میں آنے کے لئے انکے پاس کوئی ذریعہ اور راستہ نہیں تھا ان نوّے فیصد لوگوں میں حالات اور واقعات کی حقیقت سے آگاہی رکھنے والے افراد کم نہ تھے یہ لوگ حقیقت میں ملک کے حالات سے ناراض تھے اور خون دل پیتے تھے لیکن عملی طور سے کچھ نہیں کر سکتے تھے انکو کچھ امید بھی نہیں تھی اس زمانے میں چند اسلامی گروہوں کے درمیان جو کہ واقعا ًاسلام سے لگائو رکھتے تھ

۳۵

ے اوروہ شاہ کی حکومت کو قبول نہیں کرتے تھے نیز بائیں بازو اور مارکس ازم کی طرف بھی ان کا رجحان نہیں تھا ایک گروہنہضت آزادیبھی تھااس گروہ میں چند نوجوان لڑکے تھے جنھوں نے اکٹھاہو کر ایک تنظیم بنا لی تھی اور دھیرے دھیرے اس تنظیم نے تحریک آزادی کی شکل اختیار کر لی تھی اس تنطیم کی بنیاد ڈالنے والے لوگوں میں انجینئر بازرگان اور ڈاکٹر ید ا... سحابی کا نام لیا جا سکتا ہے ،تہران یونیورسٹی کے شعبہ فنّی کی مسجد کی بنیاد ڈالنے والے یہی مہندس بازرگان تھے، اسی طرح آپ کئی رسالوں کو مختلف شکل میں چھاپتے تھے ان میں ایک رسالہ''گنج شایگاں''تھا ،تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح اسلام سے ربط رکھتے تھے نمازی اور روزہ دار بلکہ بعض عابدشب زندہ دار بھی تھے، اگرچہ تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح راستے سے بھٹک گئے اورخود کو سیاسی حیثیت سے محفوظ رکھنے کے لئے محاذملّی کے ان ممبران کے عنوان سے پیش کیا جو کہ سیاسی دانشوروں کے درمیان دوسروں سے بہتر تصوّر کئے جاتے تھے، اور ویسا ہی کام کرنے لگے سیاسی اعتبار سے ملک کی یہ حالت اس وقت، انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھی ۔

سیاسی تغیراورانقلاب کے لئے امام خمینی کی حکمت عملی

ان حالات میں امام خمینی نے فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کے ساتھ جو کہ شروع سے آپ رکھتے تھے یہ محسوس کیا کہ یہ سیاسی کارنامے جو دانشوروں کے مختلف گروہوں کی طرف سے انجام دئیے جارہے ہیں اگرنتیجہ کو پہونچ جائیں تو بھی اس سے اسلام کو کوئی فائدہ پہونچنے والا نہیں ہے حتیّٰ جو لوگ اسلام کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں اس سے بھی کچھ فائدہ ہونے والانہیں ہے، صرف ایک راستہ جو امام خمینی کی نظر میں فائدہ مند تھا اور اس کا ہونا ضروری تھا وہ یہ کہ عام مسلمانوں کو میدان میں لایا جائے امام خمینی کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ جماعتیں اور تنظیمیں ایک اسلامی انقلاب( جو کہ مضبوطی کے ساتھ تمام شعبوں میں حاکم ہو اور حکومت اسلامی کی شکل میں ہو ) نہیں لاسکتی ہیں ، اگرچہ امام خمینی کی تھیوری اس زمانے میں قابل قبول نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے وہ لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ جہاں بھی جس صورت میں سیاسی تحریک اور فعّالیت انجام پائے، اس کا نتیجہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی گروہ یا تنظیم کی شکل میں کسی خاص رابطہ اور قاعدہ کے ساتھ انجام پائے اسکے بر خلاف ایسی تحریک جو عمومی طور سے ہو اور اس میں سب کے سب لوگ دخالت رکھتے ہوں

۳۶

اور سب کے سب اپنے کو ذمہ دار محسوس کرتے ہوں اور وہ تمام لوگ متحد ہو کر حرکت کرتے ہوں تو علوم سیاسی کے کلاسکی نظریات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر امام خمینی یہ چاہتے کہ اپنے نظریات اور افکار کو علمی نظریہ کی شکل میں پیش کریں اور اس کے بارے میں بحث وگفتگو کریں تو کوئی بھی اس کو قبو ل نہیں کرتا امام خمینی نے اس سیاسی مطلب کو علمی نظریہ میں پیش کرنے کے بجائے اس کام کو عملی طور سے پیش کرنا شروع کیا اور آپ نے مصّمم ارادہ کر لیا کہ عام لوگو ںکو میدان میں لیکر آئیں اور اس احساس ذمہ دارری کو عام لوگوں کے ذہن میں ڈال دیا کہ مسلمان ہونے کے ناطے تمام لوگوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی امور میں حصّہ لیں، امام خمینی کی یہ فکر دوسری اور فکروں کی طرح ایک نئی فکر تھی اگر امام خمینی س راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے تو کوئی خاطرخواہ انقلاب پیدا نہیں کر سکتے تھے امام خمینی نے عوامی طاقت اور ان کی حمایت سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی اور اس تحریک کو جو کہ اس کے پہلے ہمیں نظر نہیں آتی تھی وجود بخشا ، اس کام کو کوئی بھی سیاسی گروہ چاہے بائیں بازو کی پارٹی ہو یا تنظیم ملّی ہو یا کوئی اور مذہبی گروہ ہو انجام دینے پر قادر نہیں تھا ،اس بات کادوست دشمن سب نے اعتراف کیا ہے ۔ یہ صرف امام خمینی کی ذات تھی جس نے عظیم ملّت کے گروہوں میں چھپی ہوئی طاقت کو مشخّص کرکے ان کے دینی اور اسلامی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نتیجہ خیز کام کو شروع کیا ۔ہم کویہ بات اچھی طرح یاد ہے اور میں خود اس بات کا قریب سے گواہ ہوں کہ وہ آوارہ اوربیکار جوان جو کہ سڑکوں اور گلیوں میں پھرا کرتے تھے امام خمینی نے ان کو ایسا بدل دیا اور ایسا بنا دیا کہ وہ انقلاب کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں اپنے سینوں کو ڈھال بنا کر پیش کرتے تھے اورحکومت شاہ کے سپاہیوںسے کہتے تھے مارو جتنا مارنا ہے مار لو! امام خمینی نے لوگوں کے اندر ان کی دینی ذمہ داری کے احساس کو زندہ کر دیا آپ نے اپنی خالص نےّت سے ایسا کام کر دیا جس سے لوگوں میں محدود اور خشک گروہی رابطوں کے بجائے ایک گہرا اور صمیمانہ رابطہ پیدا ہوگیا لوگ امام خمینی سے محبّت کرتے تھے اور پروانہ کی طرح ارد گرد گھومتے تھے ۔یہ امام خمینی کی بے مثل اور بے نظیر رہبری اور قیادت تھی ہم آج بھی محبّت کے اس گہرے رشتے کو دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ آپکے انتقال کے سالوں بعد بھی آپ کا نام خاص احترا م کے ساتھ لیا جاتا ہے۔

۳۷

بہر حال امام خمینی کی یہ تحریک اس روز کے رائج فارمولے اور سیاست سے جدا تھی، اس وقت جب ۱۳۵۶ہجری شمسی میں لوگوں نے سڑکوں پر مظاہرہ شروع کیا تو اچھے اچھے لوگوں نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بیس سال سے کم کی مدّت میں اس حرکت اور قیام کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے اور کامیابی حاصل ہوگی ایسے افراد سے میری مراد ڈاکٹر بہشتی وغیرہ جیسے لوگ ہیں یہ لوگ کوئی معمولی شخصیت کے مالک نہیں تھے بلکہ بلند سیاسی درجہ رکھتے تھے ان جیسے لوگوں کا بھی ( انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے اور آزادی کے آخری دنوں میں ) یہی نظریہ تھا کہ ابھی بیس سال اور انتظار کریں لیکن سبھی لوگوں نے دیکھا کہ امام خمینی کی تحریک نے ایک سال اور چند دنوں میں ہی نتیجہ دینا شروع کر دیا اور انقلاب کامیاب ہو گیا ،ایسی چیز جس پر میں خود ذاتی طور پر بھی یقین نہیں کرتا تھا اگر کوئی کہتا تھاتو مجھے خواب و خیال سا لگتا تھا میں تو ایک معمولی آدمی ہوں مجھ سے بڑے بڑے لوگوں کا بھی تصّور اور خیال یہی تھا ،بہر حال اگر یہ کہیں کہ ۱۳۵۷ میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی ایک خدائی معجزہ تھی تو میرے نزدیک یہ کوئی مبالغہ کی بات نہیں ہوگی۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض ایسے مفسد گروہ کہ جنکی لوگوں کے درمیان کوئی وقعت نہیں تھی اور ان کی بیہودہ حرکتیں، فریب کاریاںاور قتل و غارت گری ہی خود ان کے خاتمہ کا سبب بنی اور وہ ملک سے بھاگ گئے ان کے علاوہ کچھ دوسرے گروہ باقی رہ گئے جیسے تودہ پارٹی،دہشت گرد فدائی خلق ،پان ایرانیسٹ ،محاذملّی اورتحریک آزادی یہ لوگ پہلے کی طرح کام کرتے رہے انکے لئے کوئی چیز مانع بھی نہیں تھی اور انکے جان ومال محفوظ تھے ۔

یہاں تک تقریباًوہ مطالب تھے جن کو آپ سبھی لوگ جانتے تھے اور کوئی نئی بات نہیں تھی صرف ان مسائل اور واقعات پر جو انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھے ایک سرسری نظر ڈالی گئی اور اکثر مطالب مقدّمہ کے عنوان سے تھے اصل بحث جس پر میری خاص تاکید ہے اس کے بعد ہے جس پر میں چاہتا ہوں کہ آپ خاص توجّہ دیں ۔

۳۸

حقیقی اسلام کے افکار و اقدا ر سے متعلق اسلامی نظام کے کے ذمہ داروںکا اعتقاد

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد طبعی طور سے ملک کی سرپرستی اور حکومت بنانے سے متعلق بحث ہوئی؛ سب سے پہلی حکومت انجینئر بازرگان کی صدارت میں بنی؛ اسکے بعد بہت سے حکومتیں کئی لوگوں کی سر براہی میں بنیں؛بہت سی کمیاں اور فطری اشکالات جو کم تجربگی اور نئے ہونے کی وجہ سے لازمی تھے وہ سب پائے جاتے تھے جیسا کہ ہر انقلاب اور ہر نئی حکومت کی خصوصیت ہے لیکن اس کے علاوہ اس جگہ جو چیز قابل سوال ہے وہ یہ کہ کیا ارکان حکومت کے تمام لوگ امام خمینی کی طرح فکر رکھتے تھے اور کیا سبھی لوگ معاشرہ میں دین کے اثر کے متعلق وہی چیز سمجھتے تھے جومرحوم امام سمجھتے تھے ۔

اس وقت ملک کے بڑے لوگ جن کا شمار سیاسی طور پر بزرگوں اور فیصلہ کن لوگوں میں ہوتا تھا جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہد باہنر اور ان جیسے دوسرے لوگ جو سالوں امام خمینی کے زیر سایہ تربیت پاچکے تھے یہ لوگ مکمل طور سے امام خمینی کی فکروں اور نظریوں سے واقف تھے اس کے علاوہ یہ لوگ خود بھی اچھّی صلاحیت کے مالک تھے اسلام کے معارف اور اصول کا وسیع اور گہرا مطالعہ رکھتے تھے اور اسلام کے اصول و احکام اور معارف کا بخوبی علم رکھتے تھے، ایسے لوگ امام خمینی کے راستوں کو پہچانتے تھے اور اس پر اعتماد اور یقین رکھتے تھے اور حقیقت میں وہی چاہتے تھے جس کی فکراور جستجو میں امام خمینی تھے؛ لیکن ذرا آپ غور کریں یہ لوگ کتنے سال زندہ رہے؟ انقلاب کے ایک دو سال کے شروع میں ہی اکثر کو شہید کر دیا گیا سب سے پہلے مرتضیٰ مطّہری کو شہید کیا گیا اس کے بعد ۷ تیر اور ۸شہریور کا واقعہ ہوا ؛جس میں بہشتی؛ باہنر وغیرہ شہید ہوگئے نیز اور دوسرے بہت سارے واقعات جس میں بہت سے ایسے لوگ جو امام خمینی کے افکار اور اصول سے اچھی طرح واقف تھے اور اسی اصول پر یقین رکھتے تھے ملک کے سیاسی عہدوں پر متمکّن تھے اور ملک کے قوانین بنانے میں اہم رول رکھتے تھے وہ لوگ ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے، دشمن جو کہ سارے حالا ت سے باخبر تھا اس سے پہلے کہ ہم ان شخصیات کو اچھی طرح پہچانیں اس نے ان تمام لوگوں کو ہم سے چھین لیا ؛وہ بعض افراد کہ جن کا نام ہم نے لیا اور دوسرے چند لوگوں کو چھوڑ کر وہ تمام لوگ جو کہ ۸شہریور کے واقعہ اور مرحوم باہنر کی حکومت کے بعد حکومت کے لئے آئے اور ملک کے ا ہم سرکاری عہدوں اور وزارتوں پر فائز ہوئے وہ لوگ نہ اس حد تک امام خمینی کو پہچانتے تھے

۳۹

اورنہ انکی روحی اور معنوی نظر اس قابل تھی کہ وہ امام خمینی کے افکار کو پہچان سکیں ؛مختلف لوگ کم و بیش مغربی ثقافت اور تعلیمات سے متا ثر تھے وہ لوگ اسلامی معارف و ثقافت سے دور تھے یہ فاصلہ دن بہ دن ہر حکومت میں پچھلی حکومت اور اس کے مسئولین کی نسبت بڑھتا چلا گیا ؛لیکن جب تک امام خمینی زندہ تھے آپ کی روحانی عظمت اور الٰہی و معنوی شخصیت جس کا سایہ سارے ملک پر تھا بہت کم لوگ اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے تھے حتیٰ جو لوگ امام خمینی کی فکروں اور اصول کی مخالفت کرتے تھے وہ لوگ بھی مخالفت کے لئے راستے کو ہموار نہیں دیکھتے تھے اور پھر وہ عملی طور سے کوئی بات پیش نہیں کر سکتے تھے ۔بہر حال امام خمینی کے انتقال کے بعد آپ کے راستے اور افکار سے دوری کا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا کیونکہ اب وہ مربی نہیں رہا اور وہ معنوی شخصیت ہمارے درمیان نہیں رہی ؛امام خمینی ایسی شخصیت تھے جنھوں نے ۸۰سال تک سیاسی اور اجتماعی تلخ وشیریں حادثوں کو ملاحظہ کیا نفسانی اور روحانی طور سے اپنے کو آمادہ کیا اورآپ دشمن سے مقابلہ کا ۳۰ سالہ گرانبہاتجربہ رکھتے تھے لہٰذا امام خمینی کے بعد کوئی کتنی ہی خود سازی کرے اور کتنا ہی با تجربہ اور با لائق ہو وہ امام خمینی جیسا نہیں ہو سکتا ،یہ خود ایک وجہ ہے جو دوسری مختلف وجہوں کے ساتھ فطری طور سے موجود ہے اور اس وقت ان کے بیان کی گنجائش نہیں ہیاور یہ سب وجہیں ایک ساتھ مل کر اس بات کا سبب بن گئی ہیں کہ اسلامی افکارو اقدار دن بہ دن کم سے کمتر ہوتے جا رہے ہیں اس وقت ہم یہ ذمہ داری رکھتے ہیں کہ حالات کو سمجھیں اور مناسب طریقہ کار اور حکمت عملی کے ذریعہ ا س چیزکو آگے بڑھنے سے روکیں ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232