دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)16%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82049 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

کون سا فلسفی اور معرفت شناسی کا مبنیٰ پلورالزم کی طرف منتہی ہوسکتا ہے

لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ شروع میں ایک خاص فکری اور فلسفی مبنیٰ اختیار کرتے ہیں اور اسی مبنیٰ اور اصول کی بنیاد پر پلورالزم تک پہونچتے ہیں ، یہ نہیں کہ پہلے ان کے دل نے اس بات کو چاہا ہو پھرعقل نے دل کی بات کو مانا ہو اور عقل نے دل کے پیچھے حرکت کی ہو۔ اس جگہ ہم اس بات کا جائزہ لیںگے کہ وہ کون سے فلسفی مبنیٰ ہیں کہ اگر انسان ان سے شروع کرے تو پلورالزم تک پہونچ سکتا ہے؟

واقعیت کو جاننے اور حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے اگر کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ عقل ہر چیز کی حقیقت کو واضح اور کشف کر سکتی ہے توفطری طور سے ایک ہی مسئلہ میں وہ متعدد حقائق کو قبول نہیں کرے گا ؛ایسا شخص فطری طور پر حقیقت کو ایک ہی چیز جانتا ہے اور پھر چاہتاہے کہ اور اس ایک حقیقت کو دلیل و برہان سے حاصل کرلے۔ اگر اس کو ایک حساب یا فیزکس کا سوال دیں تو وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کا صحیح جواب صرف ایک ہی ہوگا ؛اگر وہ شخص جواب حاصل کر لیتا ہے تو جانتا ہے کہ یہ جواب یا تو صحیح ہوگا یا غلط ؛یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کے کئی جواب صحیح پائے جاتے ہوں ۔

لیکن اگر کوئی حقیقت کی شناخت کے مسئلہ میں اس بات کا اعتقاد رکھتا ہو کہ انسان کے پاس واقعیت تک پہونچنے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے جس وسیلہ کو بھی ،چاہے وہ عقل ہو یا تجربہ ،استعمال کرتا ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ حقیقت سے قریب ہو سکتا ہے لیکن واقعیت تک نہیں پہونچ سکتا ،اسی جگہ پر مختلف قسم کے نظریوںجیسے نسبیت، شکّاکیت اورپلورالزم وغیرہ میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے۔ آج اس نظریے کے طرفدار اور حامی پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ حقیقت ، انسان کی معرفت وعقل اور اس کے علم سے بالاترہے، انسان جس قدر بھی کوشش کرے وہ واقعیت کے صرف چند آثار کو حاصل کر سکتا ہے اور حقیقت کے کچھ ہی پہلو اور وجہیں اس کے لئے واضح اور ظاہر ہوتی ہیں ،پوری حقیقت کو حاصل نہیں کر سکتا ۔دنیا کے مختلف مکاتب فکر جیسے مکتب کانٹ،نیو کانٹ،شکّاکیت اور نسبیت اس جہت میں مشترک نظریہ رکھتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہہم کبھی بھی واقعیت کو مکمل طور سے درک نہیں کر سکتے۔

۱۰۱

اس فلسفی مبنیٰ کی بنیاد پرکہ جھوٹ اور سچ نسبی ہیں یعنی تمام خبریں واقعیت کے فقط کچھ حصّہ کو ہی بتاتی ہیں اور حقیقت کی ایک نسبت کو واضح کرتی ہیں اور جو خبریں سو فیصد حقیقت کو بتاتی ہوں وہ پائی ہی نہیں جاتی ہیں ۔تمام علمی خبریں بھی اسی خصوصیت کی حامل ہیں اور اصلاً علم کی ماہیت اس کے علاوہ کوئی اور چیزنہیں ہے ۔ہم یہ تصور نہ کریں کہ علم آکر کہے گا کہفقط یہی ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہےہر گز نہیں علم نہ ایسا دعویٰ کرتا ہے اورنہ ایسا کبھی ہو سکتا ہے۔ علمی نظریہ میں بات صرف تائید اور ابطال کی ہوتی ہے ،نہ کہ حقیقت کے کشف ہونے یا کشف نہ ہونے کی ۔ زیادہ سے زیادی علمی نظریہ کا دعویٰ اور ادّعا یہ ہوتا ہے کہ جب تک مجھ پر کوئی اشکال یا نقض نہ آجائے مجھ کو حق ہونے کی تائید حاصل ہے اور اگرکوئی اعتراض ہوگیا تو میں باطل ہو جائوں گا اور دوسرا نظریہ میری جگہ لے لے گا یہ سیر و روش اسی طرح آگے بڑھتی رہتی ہے اور علمی نظریات ایک کے بعد دوسرے مکمل ہوتے رہیں گے اور علم میں کوئی ایسا نظریہ ہی نہیں پایا جاتا جو کہ ہمیشہ باقی رہے اور قائم و ثابت رہ جائے۔

جو لوگ معرفت شناسی اور اس کے اقدار کی بحث میں اس فکر کی تائید کرتے ہیں اور اس کے طرفدار ہیں وہ لوگ منطق وفلسفہاور معقولات و الھٰیات کو ایک طرح حقارت کی نظر سے یاد کرتے ہیں اور اس بحث کو غیر علمی اور ہر طرح کے اعتبار سے خالی تصور کرتے ہیں ؛اور جس وقت ایسی بحثیںہوتی ہے تو ایک خاص حالت اور معنی دار اندازسے کہتے ہیں کہاس کو چھوڑئیے' یہ تو فلسفہ ہے'' یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم فقط علم کی عظمت و اہمیت کے قائل ہیں اور علم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ واقعیت کو سو فیصد واضح اور ظاہر کرے بلکہ ہر نظریہ واقعیت کی وجہوں میں سے کسی ایک وجہ کو نہ کہ سبھی کو بتاتاہے۔

۱۰۲

نیوٹن کا قانونجاذبہ (کشش)''ہمارے لئے واقعیت کے صرف ایک حصہ کو بتاتا ہے ،اور انیشیٹن کا قانوننسبیتبھی واقعیت کی دوسری وجہ کو ہمارے لئے ظاہر کرتا ہے؛ اور کوئی بھی قانون ہمارے لئے ساری واقعیت کوظاہر نہیں کرتا لہذا با ت جب ایسی ہے تو دونوں صحیح ہیں یہ بھی اور وہ بھی۔اور اس طرح سے ہم معرفت شناسی میں ایک طرح کثرت پرستی تک پہونچ جاتے ہیں جو کہ واقع میں ایک نسبیت پرستی اور شکاّکیت ہے البتہ بعض لوگ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اس نظریہ کو شکاکیت کی طرف پلٹائیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس نظریہ کا لازمہ نسبیت پرستی ہے، لیکن پھر بھی شکّاکیت اس میں پائی جاتی ہے بہر حال یہ چیز اہم نہیں ہے کہ اس کا کیا نام رکھا جائے شک گرائی یا نسبت گرائی ؛ہر حال میں اس نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ واقعیت کو ہم کبھی بھی نہیں حاصل کر سکتے ہیں یعنی علم ہم کو کبھی بھی (سو فیصد)اعتقادیقینی کی منزل تک نہیں پہونچا سکتا۔

بلّوری مثلث کی مثال کے ذریعہ پلورالزم کی وضاحت

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے ممکن ہے کہ یہ نظریہ پلورالزم کی فکر کا مبنیٰ ہو کیونکہ علم کی اس تفسیر کی بنیا د پر جو ابھی پیش کی گئی ہے ہر علمی نظریہ ،بلّوری مثلث کے ایک زاویہ اور ایک رخ کے مانند ہے جو کہ واقعیت کے ایک حصّہ کو ظاہر کرتا ہے اور جو کوئی بھی جس زاویہ پر نگاہ ڈالتا ہے وہ واقعیت اور حقیقت کے اسی حصہ کو دیکھتا ہے پوری واقعیت کا نظارہ کرنا سب کے بس کی بات نہیں کیونکہ اور یہ واقعیت بلّوری مثلث کے مختلف حصّو ں میں پھیلی ہوئی ہے ۔

اگر پلورالزم کی اس طرح تفسیر کریں تو اس وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت ایک ہی ہے البتہ ایکا ایسی حقیقت جو ہر شخص کے لئے الگ الگ طرح سے جلوہ گر ہوتی ہے ،یعنی ایک حقیقت واقع میں وہی پور ابلّوری مثلث ہے جو کہ کئی سطوح اور مختلف حصّوں میں ہے اور ہر علمی نظریہ اس کی ایک سطح اور حصّہ جیسا ہے،

۱۰۳

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی پوری حقیقت کو شامل نہیں ہوتا ہے اگربلّوری مثلث کی اسی مثال اورتشبیہ کو نگاہ میں رکھیں اور چاہیں کہ پلوالزم کے بارے میں زیادہ واضح طورسے گفتگو کریں تو اس کی ایک تفسیر یہ ہوگی کہ حقیقت ایک ہے لیکن اس تک پہونچنے کے راستے الگ الگ ہیں ؛جس طرح بلّوری مثلث کہ ایک چیز سے زیادہ نہیں ہے لیکن چونکہ جو شخص اس کی طرف ایک زاویہ سے دیکھتا ہے ممکن ہے اس کی نگاہ میں واقعیت کی تصویر دوسرے لوگوں کی بہ نسبت مختلف نظر آتی ہو؛ اس لئے کہ بلّوری مثلث کے کئی رخ اور زاویہ ہیں جو کہ ممکن ہے الگ الگ رنگ و خاصیت رکھتے ہوں ۔

ایک بلّوری مثلث کو اپنے سامنے رکھیئے اس کے ایک طرف محدّب (ابھرا ہوا ) آئینہ ہو دوسری جانب گہر ااور تیسری طرف مسطّح اور برابر آیئنہ ہواگر تین الگ الگ ایک ایک زاویہ سے اس بلّوری مثلث میں ایک شئے کی تصویر کو دیکھیں تو یقیناًوہ تین مختلف تصویروں کو دیکھیں گے جب کہ ہم الگ سے ناظر کے عنوان سے جانتے ہیں کہ یہ سب کے سب ایک ہی چیز کی تصویر کو دیکھ رہے ہیں جو کہ نظر کے زاوئیے مختلف ہونے اور الگ الگ جگہ کھڑے ہونے کی وجہ سے خود گمان کرتے ہیں کہ تین مختلف چیزوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ بہر حال یہ وہی پلورالزم کی بہت سے سیدھے راستوں والی تفسیر ہے جو یہ کہتی ہے کہ ہم صرف ایک حقیقت رکھتے ہیں اور اس ایک حقیقت تک پہونچنے کے لئے کئی راستے پائے جاتے ہیں ۔ تمام دین دار بلکہ سبھی انسا نوں کا معبود اور مطلوب ایک ہے اور سب کے سب اس ایک حقیقت کے طالب ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اسلام کا راستہ ہے اور ایک یہودیت کا راستہ ہے لیکن آخرمیں سب ایک ہی مقصد اورمنزل پر جاکر تمام ہوتے ہیں پلورالزم کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم یہ نہ کہیں کہ حقیقت ایک ہے بلکہ بلّوری مثلث کے اطراف اور زاویوں کے مانند متعدد اور الگ الگ ہیں

۱۰۴

جو شخص جس زاویہ سے دیکھتا ہے اس کے لئے وہی حقیقت ہے چونکہ بلّوری مثلث کے اطراف اور اس کے رنگ جدا جدا ہیں جو کہ اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ ایک انسان حقیقت کو ہرا اورابھرا ہوا، دوسرا اسی کو نیلا اور گہرا اور تیسرا انسان اسی کو پیلا اور مسطّح دیکھتا ہے ؛حقیقت بھی ان تصویر وں کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور تصویر یںبھی واضح طور سے جدا جدا ہیں پس حقیقت بھی انھیں کی طبیعت میں مختلف ہوتی ہے ظاہر ہے کہ پلورالزم کی یہ تفسیراس تفسیر سے مختلف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بہت سے سیدھے راستے ایک حقیقت کی طرف ختم ہوتے ہیں پلورالزم کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ ہم ایک دین یا ایک علم کی ہر ایک بات کو الگ الگ نظر میں نہ رکھیں بلکہ ان تمام باتوں کے مجموعہ کے بارے میں یکجا صورت میں فیصلہ کریں؛ مثلاً جس وقت سوال کریں کہ شیعہ مذہب حق ہے یا باطل؛ تو تمام شیعی عقائدکے مجموعہ کو اپنی نگاہ میں رکھیں پلورالزم کی اس تفسیر کی بنا پر ہم کسی بھی مذہب کے حق یا باطل ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں ؛ کیونکہ تمام ادیان صحیح اور باطل دونوں اعتقادات و احکام سے مل کر بنے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ تمام ادیان حق بھی ہیں اور باطل بھی، حق اس اعتبار سے کہ اس کے بعض مطالب حق ہیں اور باطل اس اعتبار سے کہ اس کے بعض مطالب باطل ہیں ۔

لہذٰا جب ایسا ہے کہ ہر مذہب کے بعض عقائد و افکار اور اس کے احکام اور خصوصیا ت سچ اور جھوٹ ،حق اور باطل دونوں کا مجموعہ ہیں پس تمام ادیان برابر کی خصوصیات رکھتے ہیں اور جس دین کو بھی اختیار کر لیں کچھ فرق نہیں پڑتا ہے۔

۱۰۵

دینی معرفت کے دائرہ میں وحدت حقیقت کا نظریہ

دینی پلورالزم کے نظریہ کے مقابلہ میں (اسکی مختلف تفسیروں کے ساتھ ) ایک دوسرا اعتقاد یہ بھی ہے کہ مکمل طور سے کچھ دینی اعتقادات ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو کہ سب کے سب حق اور صحیح ہیں اور اس کے مخالف اعتقادات باطل اور نا حق ہیں ؛یہ نظریہ اس بات کا معتقد ہے کہ حقیقت ایک ہے اور اس شخص اور اس شخص اس معاشرہ اوراس معاشرہ ،اس زمانے اور اْس زمانے میں کوئی بھی فرق نہیں ہے ۔اس اعتقاد کی بنیاد پر ہمارے لئے ممکن ہے کہ ہم افکارواقدار احکام کا مجموعہ رکھتے ہوں جو کہ سب کے سب حقیقت رکھتے ہوں اور اس مجموعہ کے علاوہ دوسر ے بقیہ مجموعہ باطل اور ناحق ہیں یاان میں سے ہر ایک میں حق اور باطل دونوں پائے جاتے ہیں جو چیز ہم شیعوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے وہ یہی ہے اگر آپ عام افراد کو دیکھئے تومعلوم ہوگا کہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ فقط شیعہ مذہب صحیح ہے اور یہی مذہب حق ہے؛ اوریہ وہ مذہب ہے کہ جس کامنبع اور سر چشمہ اھل بیت علیہم السلام اورچہاردہ معصومین ہیں اس کے علاوہ باقی جو مذہب اور ادیان پائے جاتے یا پوری طرح سے باطل ہیں ؛یا جس مقدار میں ان کے عقائد شیعہ مذہب کے مخالف ہیں اتنا وہ باطل ہیں ۔یہ ایسی چیز ہے جو ہماری اور آپ کی فکر میں پائی جاتی ہے۔اور پلورالزم کی فکر کے پیش ہونے سے پہلے کوئی بھی دین و مذہب کی حقاّنیت سے متعلق اس تصویر کے علاوہ کچھ اور نہیں خیال رکھتاتھا۔

۱۰۶

مراجع تقلید کے فتوئوں میں اختلاف کا پلورالزم سے کوئی ربط نہیں ہے

جو سوال اس جگہ ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ مذہب شیعہ میں بھی چاہے وہ اعقادی مسائل ہوں یا فقہی احکام،بہت جگہوں پر کئی نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ان اختلافات کے رہتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ ان احکام و عقائد کے ایک مجموعہ کو شیعہ مذہب کی طرف (جو کہ حق ہوں ) نسبت دیا جائے؟ شیعہ علماء اور مراجع تقلید کے فتوئوں میں اختلاف یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو سبھی لوگ جانتے ہیں مثلاً ایک مرجع تقلید کا فتویٰ ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کہنا کافی ہے دوسرا مرجع یہ فتویٰ دیتا ہے کہ ۳ مرتبہ کہنا ضروری ہے، یا عالم برزخ کے مسائل سے بعض امورمثلاً پہلی رات مرنے کے بعد کیا سوال وجواب ہوگا اس کے علاوہ دوسرے مسائل جس میں اختلاف واضح ہے جو کہ قیامت سے مربوط ہیں ؛ان کی تفصیلات میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا نظریہ حق ہے اور کون سا باطل ہے ؟یہ شرعی مسئلہ ہے کہ اعلم کی تقلید کرنا چاہئے، لیکن اعلم کی تشخیص اور پہچان میں لوگوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ اور ہر شخص مخصوص آدمی کو اعلم جانتا ہے اور اسی کی تقلید کرتا ہے ۔لیکن بہر حال ایسا نہیں ہے کہ فقط ایک ہی مرجع کے مقلدین جنت میں جائیں گے؛ بلکہ جس نے بھی کسی مجتہد کو واقعی طور پر اعلم سمجھا اور اس کی تقلید کی اس کو نجات ملے گی اور وہ جنت میں جائے گا ؛اس جگہ پر جو شبہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ اگرمختلف ادیان کے درمیان بہت سے سیدھے راستوں کو قبول نہ کیا جائے تو کم سے کم شیعہ مذہب کے اندر مختلف سیدھے راستوں کے ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا؛ اور مختلف عقائد و احکام کے مجموعہ کو صحیح اور حق پر ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا لہذٰا اس طرح سے بھی اس کی انتہا پلورالزم ہی کی طرف ہوگی۔

۱۰۷

ا س کا جواب یہ ہے کہ یہاںمقام ثبوت اور مقام اثبات میں خلط ملط ہو گیا ہے؛ جنت میں جانے اور اسلام کے واقعی اور حقیقی حکم کو حاصل کرنے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے۔ جو کچھ بھی علماء دین کی تقلید کے بارے میں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ اگر آپ نے کسی مجتہداعلم کو مشخص کر لیا اور اس کی تقلید کرلی ؛تو اگر اس کے بعض فتوے خدا کے حکم واقعی کے مخالف بھی ہو جائیں تو آپ اس میں معذور ہیں اور حکم واقعی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آپ جہنم میں نہیں جائیں گے ؛تسبیحات اربعہ کے مسئلہ میں حقیقت اور واقعیت ایک ہی ہے؛ حکم خدا وندعالم یا یہ ہے کہ ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کافی ہے یا یہ کہ ۳ مرتبہ واجب ہے ،جس فقیہ اور مجتہد کا فتویٰ خدا وندعالم کے حکم کے مطابق ہواسی فقیہ کا فتویٰ صحیح اور درست ہے اور بقیہ مجتہدین کا غلط ہوگا لیکن یہ غلطی ایسی ہے کہ اس سے مجتہد اور اس کے مقلدین دونوں معذور ہیں چونکہ ان لوگوں نے حکم خدا تک پہونچنے کی پوری کوشش کی؛ اور اپنے فریضہ کو انجام دیا ؛لیکن کسی بھی سبب سے وہ اس تک نہیں پہونچ سکے یہاںیہ مسئلہ مستضعف فکری جیسا ہے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا ہے ۔

۱۰۸

اسلام کے قطعی اور واضح احکام میں اختلاف کا نہ ہونا

ہم اسلام میں کچھ یقینی، پائدار، مطلق اور نہ بدلنے والے حقائق رکھتے ہیں جن کو عرف عام میں ضروریات اسلام''کہا جاتا ہے کبھی ان حقائق کا دامن اور میدان وسیع ہوتا ہے تو ان کو اسلام کے مسلمات اور قطعیات سے یاد کیا جاتا ہے، یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ تمام مسلمانوں کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ک۔مثلاً تمام مسلمان جانتے ہیں کہ صبح کی نماز دو رکعت ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس کے لئے تقلید ضروری نہیں ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کی تحقیق و جستجو کریں بلکہ یہ واضح اور بدیہی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ اسلام کے واضحات میں تقلید نہیں ہے ؛یہاں تک کہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ قطعیات اور مسلمات دین میں بھی تقلید جائز نہیں ہے؛ تقلید صرف ظنےّات(جن کے بارے میں یقین نہ ہو )میں صحیح ہے۔ یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ صبح کی نماز ۲ رکعت ہے اور نماز کے واجب ہونے کا مسئلہ ایسی چیز ہے کہ اس کا صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ کافر بھی (جو کہ اسلام اور نماز کو قبول نہیں کرتے ہیں )جانتے ہیں کہ اسلام نماز کا حکم دیتا ہے اور نماز اسی رکوع اور سجدے اور بقیہ تمام افعال واذکار کا نام ہے۔ آج کون ایسا ہے جو اس بات کو نہ جانتا ہو کہ مسلمانوں کا حج ذی الحجہ کے مہینہ میں مکہ جاکر کچھ اعمال کو انجام دینا کہلاتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ نماز اور حج اسلام کا جزنہیں ہے تو اس کی بات قبول نہیں کی جائے گی اور اس سے کہا جائے گا کہ یہ سب اسلام کے واضحات اور مسلمات سے ہیں ان کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اورہر زمان ومکان میں ان کا انجام دینا ضروری ہے اور وہ ناقابل تغییر ہیں یہاں تک کہ ان کے متعلق تقلید بھی صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ ہر مسلمان اس بات کو جانتا ہے اسی وجہ سے اسلام کے ضروریات اور واضحات سے انکار کرنا مرتد ہونے کا سبب بنتا ہے البتہ امام خمینی کا نظریہ یہ ہے کہ ضروریات اسلام کا انکار، ارتداد کا سبب اس وقت بنتا ہے جب اس کا انکار رسالت کے انکار کا باعث ہو لیکن بعض فقیہ اس شرط کو لازم نہیں جانتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں کہ' ' اسلام کے واضحات کا انکار،مطلق طور پر ارتداد کا سبب بنتا ہے۔

۱۰۹

دین اسلام کے ظنیات میں اختلاف اور اس کی وضاحت

اب یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام کے جو احکام و عقائد واضح اور قطعی ہیں ان میں کوئی بھی اختلاف نہیں ہے اور ان میں کوئی شک وشبہہ نہیں پایا جاتا ہے اور جو کوئی بھی ان کو قبول نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے ۔بعض احکام اسلام میں ایسے پائے جاتے ہیں جو کہ ظنیّ ہیں ، اسلام کے جو احکام ظنی ہیں ان کے بارے میں اہل نظر اور مجتہدین ممکن ہے الگ الگ نظریہ اور فتویٰ رکھتے ہوں اب جو لوگ مجتہد نہیں ہیں عقلی اور نقلی دلیل کی بنیاد پر ان کا وظیفہ یہ ہے کہ مجتہدین کی طرف رجوع کریں اوران کی تقلید کریں ،تقلید کا مطلب ہے غیر متخصّص کا متخصّص(اس فن کے ماہر) کی طرف رجوع کرنا جو کہ ایک عام قاعدہ ہے اور صرف دینی مسائل اور احکام سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہر میدان اور شعبہ میں جو شخص نہیں جانتاوہ جاننے والے کی طرف رجوع کرتا ہے مثلاًاگر آپ بیمار ہیں تو بیماری اور اس کی تشخیص کے لئے ماہر ڈاکٹر کی جانب رجوع کرتے ہیں ، دینی احکام میں بھی لوگ متخصصّین و ماہرین جو کہ مراجع عظام ہیں ،ان کی جانب رجوع کرتے ہیں ؛ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے البتہ یہ طبعی اور فطری امر ہے کہ جب مراجع تقلید کے فتوے مختلف ہوتے ہیں تو جو لوگ ان کی تقلید کرتے ہیں ان کے عمل میں بھی اختلاف ہوتا ہے ؛لیکن اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ مراجع عظام کے فتووں میں اختلاف ڈاکٹروں کے نسخوں میں اختلاف جیسی بات ہے ؛اگر دو ڈاکٹر کسی ایک بیمار کے بارے میں الگ الگ تشخیص رکھتے ہوں تو اگر دونوں غلطی پر نہیں ہیں تو کم سے کم ایک ضرور غلطی پر ہے ؛اسی طرح سے ایک ڈاکٹرکے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس کے تمام نسخوں میں غلطی نہ ہو تو کم سے کم سیکڑوں نسخوں کے درمیان ایک میں غلطی ضرور ہوگی، مراجع تقلید بھی اگر کسی مسئلہ میں الگ الگ نظریہ رکھتے ہوں تواگر سب کے نظریات غلط نہ ہوں تو یقینی طور پر کسی ایک کا نظریہ صحیح ضرور ہوگا اور بقیہ کا غلط ہوگا ؛ اسی طرح ایک فقیہ کے سیکڑوں فتوے جو کہ وہ دیتا ہے ایک نہ ایک فتوے میں غلطی کا امکان رہتا ہے، اگر چہ ایسا ہے، لیکن پھر بھی کیا کیا جائے اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے جب ہماری رسائی اور پہونچ معصوم تک نہیں ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں ہے کیا چند نسخے جو ڈاکٹر لکھتے ہیں ان میں غلطی ہونے کی وجہ سے پوری ڈاکٹری کے شعبہ کو بند کر دیا جائے ؟ظاہر سی بات ہے کوئی بھی عقلمند انسان اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دیگا ۔

۱۱۰

لہذا اگر اسلام میں پلورالزم سے مراداسلام کے ظنّیات میں علماء ومجتہدین کے فتووں کا اختلاف ہو تو یہ چیز مسلم اور قابل قبول ہے۔ ظنیات کے حدود میں اہل نظرکے درمیان اختلاف ممکن ہے اور ہر شخص اس مجتہد کے فتوے پر جس کو اس نے اعلم سمجھا ہے عمل کر سکتا ہے ؛اور کسی بھی مجتہد سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کا نظریہ پوری طرح سے غلط ہے ؛چونکہ ہم نے یہ فرض کیاہے کہ یہ امور ظنی ہیں اور ہم اس کی واقعیت اورحقیقت کو نہیں جانتے ہیں ۔ البتہ اظہار نظر میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ شخص دینی مسائل میں متخصّصو ماہر اور صاحب نظر ہو؛ ایسا نہیں ہے کہ چونکہ مسئلہ ظنّی ہے لہذاجو کوئی بھی ہو اورتھوڑا بہت بھی جانتا ہووہ کہنے لگے کہ میرا نظریہ یہ ہے ۔کیا وزارت حفظان صحت کے افراد ہر شخص کو مطب اوردوا خانہ کھولنے اور ڈاکٹری کرنے کی اجازت دیتے ہیں ؟جواب نہیں میں ہوگا ۔

بہر حال اگر کوئی اس کا بھی نام پلورالزم رکھے تو ہم کہیں گے کہ ہاں دین اسلام میں بھی پلورالزم ہے؛ لیکن یہ بات یاد رہے کہ کسی نے بھی پلورالزم کی تفسیر اس معنی میں نہیں کی ہے ؛اس لئے کہ پلورالزم یعنی حقیقت یا اس تک پہونچنے کا راستہ متعدداور الگ الگ ہے ،جبکہ ہم نے مجتہدین کے نظریوں میں اختلاف کے متعلق کہا ہے کہ حقیقت اور حکم خدا وندعالم فقط ایک ہی ہے اب اگر کوئی مجتہد حکم خدا وند عالم کو جو کہ حقیقی حکم ہے حاصل کر لے تو اس کا نظریہ صحیح ہے اور اگر حکم واقعی کے علاوہ اس کا فتویٰ ہے تو یقینی طور پر وہ غلط اور نا درست ہے لیکن اس مقام پرجیسا کہ اس سے قبل کہہ چکا ہوں مرجع تقلید اوراس کے مقلدین اس طرح کے حکم میں معذور ہیں ؛ لہذٰا اس کا نام پلورالزم نہیں رکھا جا سکتا ۔

۱۱۱

خبری باتوں میں پلورالزم کا انکار، اخلاقی اور اقداری مسائل میں اس کا اقرار

دوسری بات جو یہاں پر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ قضایائے خبری اور انشائی کے درمیان فرق ہے ۔معرفت شناسی کی بحث میں کہا گیاہے کہ وہ قضایاکہ جن سے ہماراعلم تعلق رکھتا ہے وہ دو طرح کے ہیں ،کچھ وہ قضایائے خبری ہیں کہ میں ان کوموجود ومعدومسے تعبیر کیا جاتا ہے، دراصل اخبار کی یہ وہ قسمیں ہیں جو کسی شئے کے موجو دہونے یا نہ ہونے کی خبر دیتے ہیں ۔ دوسرے وہ قضایا ہیں اصطلاح میں جن کواوامرونواہی''سے پکارا اور یاد کیا جاتا ہے اور یہ ان قضایا کو شامل ہیں جو کہ کسی بات کے محقق ہونے یا نہ ہونے کی خبروں پر مشتمل نہیں ہیں ؛اس طرح کے قضایا کو انشائی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جبکہ پہلے والے کو خبری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ممکن ہے کوئی شخص ان قضایا میں کہ جنکے بارے میں خبر دی جا رہی ہے صدق و کذب پایا جاتا ہو اور یہ خبریں جھوٹ اور یا سچ پر مشتمل ہوں؛ ان میں کوئی بحث نہ کرے،لیکن قضایائے انشائی کے متعلق کہے کہ ان کی خبریں سچ اور جھوٹ سے متصف نہیں ہوتی ہیں اور ان میں صدق و کذب نہیں پایا جاتا ہے ؛جس طرح ہماری موجودہ بحث میں بھی کہا جاتا ہے کہدین کے اعتقادی مسائل میں سچ اور جھوٹ، صحیح یا غلط ہونا معنی رکھتا ہے اور ممکن ہے کہ ایک نظریہ کو صحیح اور دوسرا نظریہ جو اس کے مقابل ہے اس کو باطل جانا جائے؛ لیکن جو دینی قضایا اخلاق اور اوامرو نواہی پر مشتمل ہیں وہ ایسا حکم نہیں رکھتے ہیں ؛ یہ قضایا کسی عینی واقعیت اور حقیقت کو کشف نہیں کرتے ہیں تا کہ ہم یہ کہیں کہ ایک نظریہ صحیح ہے اور بقیہ نظریئے باطل ہیں ۔ اسلام کی تمام اخلاقی باتیں

۱۱۲

اور اس کے احکام و قوانین اسی طرح کے ہیں ؛اس طرح کی عبارتیں اور جملے کہنماز پڑھنا چاہئے،جھو ٹ نہیں بولنا چاہئے، دوسروں کے حقوق کو غصب نہیں کرنا چاہئےاور اسی طرح کی دوسری خبریں ایسی نہیں ہیں کہ ہم ان کے بارے میں کہہ سکیں یہ صحیح ہیں یا غلط، جھوٹ ہیں یا سچ ،چونکہ یہ ثابت حقیقت کی حکایت نہیں کرتے ہیں تاکہ ہم ان کے مفہوم کو دیکھیں اور ثابت حقیقتوں سے ان کا مقایسہ کریں، اور پھر دیکھیں کہ اگر مطابقت رکھتے ہیں تو ان کو صحیح جانیں اوراگر مطابقت نہیں رکھتے توان کو غلط جانیں۔ اصل میں اس طرح کی خبریں صرف ذوق و سلیقہ اور اعتبار و قرارداد کی نشاندہی کرتی ہیں ؛ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہرا رنگ اچھا ہے اور دوسرا یہ کہتا ہے کہ پیلا رنگ اچھا ہے تو ان دونوں کا یہ کہنا فقط اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ایک کا ذوق اوراس کی طبیعت سبز رنگ کو پسند کرتی ہے اور دوسرے کی طبیعت اور اس کا ذوق پیلے رنگ کی طرف مائل ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک صحیح کہہ رہا ہے اور دوسرا غلط کہہ رہا ہے یا ہرا رنگ حقیقت میں اچھا ہے اور پیلا رنگ واقعاًاچھا نہیں ہے؛ اس مورد میں حقیقت وخطا،صحیح وغلط کی بحث کرنا پوری طرح بے معنی ہے۔

اخلاقی باتوںکے متعلق معرفت شناسی کے اس مبنیٰ کی بنیادپر ایک ہی چیز میں نسبیت اور مختلف نظریوں کے قبول کرنے کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

جس طرح یہ ممکن ہے کہ کہا جائے سبز رنگ اچھا ہے اور زرد رنگ بھی اچھا ہے صورتی رنگ بھی اچھا ہے اور بنفشی رنگ بھی اچھا ہے یہ اس بات پر معلق ہے کہ کون کس رنگ کو پسند کرتا ہے، دین کے مورد میں بھی کم سے کم اس کے بعض حصّے جیسے احکام اور اس کے اخلاقی مسائل میں ہم اس نظریے کے قائل ہو سکتے ہیں جہاں پر ایسی باتیں ہوں کہ اوامر ونواہی سے تعلق رکھتی ہوںوہاں ممکن ہے کہ زمان و مکان اور افراد کے اختلاف وتعدد کے اعتبار سے ہم بہت سے قابل قبول مختلف نظریوںکو قبول کریں۔

۱۱۳

پہلی صدی ہجری میں ایک بات کو لوگ اچھا جانتے تھے لیکن ممکن ہے کہ چودہویں صدی ہجری میں لوگ اسی بات کو خراب اور معیوب سمجھتے ہوں یہ دونوں اپنے اپنے زمانے کے اعتبار سے صحیح ہیں ؛یہ ممکن ہے کہ جاپانیوں کے لئے ایک چیز اچھی ہے تو انگریزوں کے لئے دوسری چیز اچھی ہے اور دونوں باتیں صحیح ہیں ۔جس معاشرہ میں ہم رہتے ہیں اس بات کو جانتے ہیں کہ پوری طرح سے ننگے اور برہنہ ہونا اور اس حالت میں عام لوگوں کے سامنے جانا ،ایک برا کام ہے اور لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں ؛لیکن ممکن ہے کہ یہی چیزایک دن ایک معاشرہ میں ایک عام چیز ہو اور لوگ اسی کو پسند کرتے ہوں اور ننگے رہنا مفید جانتے ہوں ؛یہ سب ایسے مسائل ہیں جو کہ اجتماعی عرف اور اعتبار وقرار دادسے متعلق ہیں اور جو کچھ بھی ہو فرق نہیں کرتا ہے۔ اچھائی اور برائی چاہے اسلام میں ہو یا کسی دوسرے مذہب میں اسی طرح سے ہیں اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ احکام و اخلاق جو مسیحیت کے ہیں وہ درست ہیں یا اسلام کی باتیں یا بس یہودیت کی تعلیمات صحیح ہیں بلکہ ان میں سے جو جس کو پسند کر لے وہی اس کے لئے صحیح ہے ۔

اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم اعتقادات اور دین کے وہ مسائل جو کہموجودومعدومپر مشتمل ہیں ان اس میں پلورالزم کو قبول نہ کریں لیکن دین کے احکام اور اخلاقی مسائل میں لازمی طور پر اس کو قبول کریں اور کثرت و تکثر کو مانیں۔

جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا معرفت شناسی کے مسئلہ میں بعض لوگ سبھی انسانی علوم ومعارف چاہے کسی بھی شعبہ میں ہوان، نسبی جانتے ہیں لیکن بعض لوگ فقط احکام اور اخلاق کے مسائل میں نسبیت کے قائل ہیں یا سرے سے ہی مفید خبروں اخلاقی باتوں کو سچ اور جھوٹ ہونے یا صحیح اور غلط ہونے کے قابل نہیں جانتے ہیں ۔

اب ہم کو اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ اخلاقی مسائل میں نسبیت صحیح ہے یا نہیں ؟

۱۱۴

اخلاق کے دائرہ میں پلورالزم کے نظریہ پربحث

ا س میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں جن کی اچھائیاں اور برائیاں بدلتی رہتی ہیں ؛ کسی زمانے میں اچھی اور کسی زمانے میں بری ہوتی ہیں کسی ماحول میں ایک چیز اچھی ہوتی ہے اور کسی ماحول میں وہی چیز خراب ہوتی ہے اسی طرح ایک چیز بعض حالات کے تحت اچھی ہے اوربعض حالات کے پیش نظربری ہوتی ہے یہاں تک کہ جھوٹ اور سچ بولنا بھی ایسا ہی ہے ایسا نہیں ہے کہ سچ بولنا ہمیشہ اچھا اور جھوٹ بولنا ہمیشہ خراب رہا ہو اگر چہکانٹاس بات کا معتقد تھا کہ سچ بولنا ہمیشہ اچھا اور جھوٹ بولنا ہمیشہ برا ہے اور اس میں کوئی بھی استثناء نہیں ہے؛ لیکن ہم سبھی لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ؛مثلاً اگر ایک مومن کی جان بچانا اس بات میں منحصر ہو کہ جھوٹ بولیں تو اس جگہ صرف سچ بولنا حرام ہی نہیں ہے بلکہ لازمی طور سے جھوٹ بولنا بھی واجب ہو جاتا ہے؛ تاکہ مومن کی جان بچ جائے، اگر ظالم شاہ کے زمانے میں ساواکی (پولیس والے ) آتے اور آپ سے کسی ایک کا پتہ پوچھتے توکیا آپ سچ بولتے ؟ اور اس صورت میں وہ اس کو جاکر گرفتار کر لیتے اور اس کو زندان میں ڈال دیتے ،شکنجہ میں کستے یا پھانسی دیدیتے ،یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے کہ آپ کو چاہئے تھا کہ ساواکی سے جھوٹ بولتے اور کسی کا پتہ نہ بتاتے ،یا مثلاًاسلامی احکام میں یہ دستور ہے کہ اگر کوئی کام مومن کی بے عزتی اور حقارت کا سبب بن رہا ہے تو اس کام کو انجام نہیں دینا چاہئے اس دستور کا نتیجہ یہ ہے کہ مومن کو چاہئے کہ ہر ماحول میں اسی ماحول کے آداب و رسوم کے مطابق عمل کرے( البتہ صرف اسی حد تک کہ شرعی واجبات اور محرمات کے خلاف کوئی عمل نہ ہو) اور ایسا کام جو اس معاشرہ کے آداب و رسوم کے خلاف ہو اور اس مومن کی بے عزتی اور حقارت کا سبب ہو اس کو انجام نہیں دینا چاہئے

۱۱۵

بہرحال ان دو نمونے کے علاوہ بہت سے ایسے نمونے پائے جاتے ہیں جن سے ظاہری طور پرایسا لگتا ہے کہ ان کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاقی و اجتماعی احکام و اصول میں ایک طرح کی نسبیت اور پلورالزم قابل قبول ہے ۔سچ بولنا اور جھوٹ بولنا دونوںباتیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی ہیں ؛یہ حالات اور شرائط سے متعلق ہیں اور انھیں پر منحصر ہیں البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ اس بات کا نتیجہ صرف نسبیت ہے شکاکیت ہر گز نہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم شک کرتے ہوں کہ سچ بولنا اچھا ہے یا جھوٹ بولنا؛ اچھا ہے بلکہ ہم یقینی طور پر ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ سچ بولنا ان حالات میں اچھا ہے اور دوسرے حالات میں برا ہے بہر حال بعض لوگ اس طرح کے مواقع اور موارد سے استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ اخلاقی نسبیت اسلامی تفکرمیں بھی پائی جاتی ہے اور قابل قبول ہے۔ لبتہ اس بیان کی وضاحت میں بہت زیادہ علمی اور فنی شرح و تفصیل ہے جو کہ ہماری گفتگوسے خارج ہے ۔

یہان پر جو کچھ بیان کرنا ممکن ہے وہ یہ کہ : حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ہر جز و قضیہ کے پورے شرائط اور قیود کو نظر میں رکھیں تو تمام قضیے ہمیں مطلق دکھائی دیں گے اور کسی میں کوئی بھی نسبیت نظر نہیں آئے گی۔ مثلاً اگرسائنس یا فیزیک کے مسائل میں آپ سے سوال کیا جائے کہپانی کس درجہ حرارت میں کھولتا اور پکتا ہےتو اس کا جواب یہ ہوگا سو درجہ حرارت میں ۔اس کے بعد ایک بہت ہی کھارا پانی لیکر آئیں یا پانی کو ایسی جگہ کھولائیںجہاں پر ہوا کا دبائو زیادہ ہو یا کم ہو تو آپ دیکھیں گے کہ پانی سو درجہ میں نہیں کھولے گا بلکہ سو سے کم یا زیادہ درجہ حرارت میں کھولے گا یہاں پر نتیجہ نسبیت کے سبب نہیں ہے بلکہ آپ نے قضیہ کو دقیق اور صحیح طریقے سے بیان کرنے میں غلطی کی ہے اور اس کو پوری طرح سے تمام شرائط اور قیو د کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے مکمل اورصحیح نپا تلاقضیہ یہ ہے کہ مثلاً آپ کہیں (پانی اس درجہ حرارت میں جب کہخالص ہو تو جوش میں آئے گااور اس خاص درجہ حرارت میں کھولے گاجب کہ ہوا کا دبائو ہو ) تمام وہ لوگ جو کہ فیزیک اور سائنسی علم سے واقف ہیں وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ پانی خاص شرائط کے ساتھ سو درجہ حرارت میں کھولتا ہے لیکن بولنے اور لکھنے میں عام طور سے ایسی غلطی اور مسامحہ کرتے ہیں

۱۱۶

اور ان شرائط ا و رقیود کو حذف کر دیتے ہیں اور مختصراً کہتے ہیں کہ پانی سو درجہ حرارت میں کھولتا ہے اس طرح کے قضایا بہت سے علوم میں پائے جاتے ہیں ؛جیسا کہ پہلے اس بات کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ اس طرح کے قضیوں کا ہونا نسبیت یا ان کے کلی ہونے کی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ مکمل طور سے تمام شرائط اورقیود کے بیان کرنے میں غلطی اورمسامحہ کا نتیجہ ہے؛ اخلاقی قضیے بھی ایسے ہی ہیں اگر کسی بھی قضیہ کو پورے قیود اور شرائط کے ساتھ بیان کیا جائے تو حکم کبھی بھی نہیں بدلے گا؛ اگر کوئی چیز اچھی ہے تو ہمیشہ اچھی رہے گی اگر بری ہے تو ہمیشہ بری رہے گی ۔اور جو لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ سچ بولنے یا جھوٹ بولنے کا حکم کبھی اچھا یا کبھی برا ہوتا رہتا ہے اور بدلتا رہتا ہے تو وہ صرف اس لئے کہ ہم نے ان کے تمام شرائط اور قیود کو بیان کرنے میں لا پرواہی کی ہے۔

لیکن اخلاقیپوزٹیویسٹاور جو لوگ اخلاق واحکام میں نسبیت کے موافق ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر اخلاقی قضیہ کے تمام قیود اور شرائط کو بیان بھی کر دیا جائے تو بھی ان میں مطلق طورپر اچھائی اور برائی فقط نہیں پائی جاتی ہے بلکہ یہ اچھائی اور برائی ذوق و سلیقہ اور لوگوں کی پسند سے بدلتی رہتی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اخلاقی مسائل اصل میں کسی واقعیت اور حقیقت کو ظاہر نہیں کرتے ہیں ؛بلکہ جس طرح پہلے بیان کیا جا چکا ہے یہ سب ہرے رنگ کی اچھائی یا پیلے رنگ کی اچھائی جیسے ہیں ؛ اور لوگوں کے ذوق و سلیقہ پر منحصر ہیں کہ جو جیسا پسند کرے اور اس کے پیچھے کوئی حقیقت اور واقعیت پوشیدہ نہیں ہے ۔

یہیں پر ایک مبنائی اور اصولی بحث ہمارے اور دوسروں کے درمیان پائی جاتی ہے اور ہم کو اس بارے میں بحث کرنی چاہئے کہ کیا اخلاق و احکام اس معنی کے اعتبار سے کثرت پذیر ہیں یعنی کیا کسی خاص مسئلہ میں ہم ا یسے مختلف حکموں کو صحیح اور حقیقت سمجھیں جو ایک دوسرے کے خلاف اور بر عکس ہوں یا یہ کہ قضیہ کے تمام شرائط و قیود کو بیان کریں تو اس کا حکم ہر زمانے اور ہرجگہ میں ایک ہی اور ثابت ہوگا ؟

۱۱۷

اسلام کے احکام،حقیقی اور واقعی مصلحتوں اور مفسدوں کے تابع ہیں

جو کچھ ہم اسلام کی تعلیمات سے سمجھتے ہیں اور جس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں وہ دینی بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے عقلی دلیل کے ذریعہ بھی قابل اثبات ہے، وہ اس طرح کہ اخلاق واحکام اور اوامر و نواہی کے متعلق بھی موجودات اور معدومات پر مشتمل اشیاء اور خبری قضیوں کے مانندصرف ایک ہی حقیقت پائی جاتی ہے اوراس اعتبار سے وہتعددو تکثر کے قابل نہیں ہیں ۔

البتہ بعض ایسی برائیاں یا اچھائیاں ہیں جو کہ قرار دادی اور اعتباری ہیں اور وہ حقیقی اور واقعی بنیاد نہیں رکھتیں لیکن تمام اچھائیاں یا برائیاں ایسی نہیں ہیں ۔ اخلاقی اچھائیاں اور برائیاں جو کہ اسلام میں معتبر ہیں وہ سب کی سب مصالح اور مفاسد کی تابع ہیں جیسے جھوٹ بولنا ا س لئے برا اور ممنوع ہے کہ اس سے لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جاتاہے اور نتیجہ میں اجتماعی نظام میں خلل پڑ تا ہے اور انسان کے لئے ممکن نہیں ہوتا ہے کہ ایسے ماحول میں زندگی بسر کرے؛ ایک ایسے معاشرہ کو فرض کریں جہاں تمام لوگ جھوٹے ہوں اور عام طور سے جھوٹ بولتے ہوں ایسی جگہ پر تمام کاموں کا شیرازہ بکھر جائے گا اور زندگی کا نظام درہم برہم نظر آئے گا ۔اجتماعی زندگی کی بنیاد ایک دوسرے پر اعتماد سے قائم ہوتی ہے اگر یہ بات طے ہو جائیکہ جھوٹ عام ہو جائے اور سب کے سب جھوٹ بولیں تو آپ چاہے و ہ بیوی ہو یا اولاد، اپنے دوست، اعزا، احباب اور پڑوسی کسی پر بھی بھروسہ نہیں کریں گے اور زندگی ایک دوسرے سے جدا ہو جائے گی اوراسی نا قابل تلافی اجتماعی نقصان کی وجہ سے اسلام نے جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے اور جھوٹ کو بہت بڑا گناہ سمجھا ہے اس کے بر خلاف سچ بولنا لوگوں کے اعتمادکا سبب بنتا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں تا کہ لوگ اس سچ کی وجہ سے اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کریں۔

۱۱۸

اگر طالب علم اور استاد اسکول یا یونیورسٹی میں ایک دوسرے پر بھروسہ نہ رکھتے ہوں مثلاً شاگرد اگر استاد پر اعتماد نہ رکھتا ہو کہ استاد صحیح کہہ رہے ہیں اور جو کتاب میں لکھا ہے وہ صحیح اور حقیقت ہے تو مدرسے کے تمام درس اور یونیورسٹی کے تمام کلاس اور ان کی کتابیں بے فائدہ ہو جائیں گی لہذاسچ اور جھوٹ کی اچھائی اور برائی، مصلحت یا مفسدہ پرموقوف ہیں اوران پر مترتب ہونے والے مفاسد اور مصالح کے اعتبار اسلام نے سچ بولنے کو اچھا اور جھوٹ بولنے کو برا اور معیو ب جانا ہے۔ اس جگہ پر ایک بات کا بیان کرناضروری ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف وہی مصالح اور مفاسد جو کہ مادیات اور دنیاوی چیزوں سے مربوط ہیں ،نہیں ہے بلکہ کچھ ایسے مصالح اور مفاسد بھی پائے جاتے ہیں جو کہ معنوی امور سے مربوط ہیں اور انسان کی اخروی زندگی سے ربط رکھتے ہیں اسلام نے جس اچھائی یا برائی کو بیان کیا ہے اس میں دنیاوی مصالح اور مفاسد کے علاوہ اخروی اور معنوی مصالح ومفاسد کا بھی لحاظ کیا ہے۔

پلورالزم کی بحث اور اس کا خلاصہ

اس حصہ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی معارف چاہے وہ عقائد سے متعلق ہوں یا احکام سے ان کا تعلق ہویاپھر اخلاق کے مسائل ہوںیہ سب کے سب واقعیت کے تابع ہیں ،ان سب میں حقیقت فقط ایک ہے اور دین حق فقط ایک ہی ہے اس میں کثرت اور تعدد ممکن نہیں ہے؛ ہاں احکام اور اخلاق سے متعلق امور میں کبھی کبھی اس بات کو دیکھا گیا ہے کہ حکم بدل جاتا ہے؛ مثلاً سچ بولنا کبھی اچھا ہے اور کبھی سچ بولنا برا اور معیو ب سمجھا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے موضوع کو پورے قیود و شرائط کے ساتھ نظرمیں نہیں رکھاہے اور ان کو بیان نہیں کیا ہے ورنہ اگر سچ بولنے کو تمام شرطوں اور قیدوں کے ساتھ نظر میں رکھا جائے تو یہ ہمیشہ اچھا ہو گا یا برا ہو گااور کبھی فلسف بھی نہیں بدلے گا۔فلسفی اور معرفت شناسی کے اعتبار سے بھی اگر دیکھیں تو جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ پلورالزم کا تفکرپیدا ہونے کی وجہ ان تین وجہوں میں سے ایک وجہ ہو سکتی ہےپوزیٹوزم''شکاکیتاورنسبیت'' اگر منطقی پوزیٹیسٹ کی طرح ہم نے الھٰیاتی اور غیر تجربی قضایاجیسے خدا ہے، یا قیامت پائی جاتی ہے، وغیرہ کے متعلق ہم نے کہا کہ اصلاًیہ باتیں بے معنی ہیں

۱۱۹

،یا اگر ہم انسانی معرفت میں کلّی طور سے یا صرف اخلاق و احکام کے قضیوں میں نسبیت کے طرف دار ہوں ،یا اگر ہم شکّاکیت کی مواقفت کریں اور کہیں کہ انسانی معارف میں سے کوئی چیز بھی قطعی اور یقینی نہیں ہے اوران تمام چیزوں میں شک و شبہ پایا جاتا ہے توان تینوں فلسفی اور معرفت شناسی میں سے ہر ایک کے مبنیٰ اور اصول کے لحاظ سے اس نتیجہ پر پہونچ سکتے ہیں کہ پلورالزم کا وجود ہے اورانسانی معارف(کہ دینی معرفت بھی انھیں میں سے ہے )میں حقیقت کا تکثرقبول کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ ہم نے جیسا کہ آغاز جلسہ میں بھی عرض کیا تھا کہ یہ بات دین اس معنی میں نہیں ہے کہ جو بھی پہلے پلورالزم کا حامی ہوا ہے ایسا نہیں ہے کہ پہلے اس نے پوزٹیوزم، نسبیت یا شکاکیت کو اس نے قبول کیا ہو اور اس کے بعد وہ پلورالزم تک پہونچا ہو؛ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے پہلے پلورالزم کی طرف رجحان پیدا کیا ہو اور اس نے اس کو پسند کر کے اس کو قبول کر لیا ہو اور اس کے بعد اس کو ثابت کرنے یا اس کی توجیہ کے لئے اس پر دلیل لانے کی کوشش کی ہو، لیکن بہر حال اگر کوئی چاہتا ہے کہ منطقی روش پر چلے تواس چاہئے کہ شروع میں معرفت شناسی کے ان تینوں مبنیٰ کو قبول کرے ،اس کے بعد ان سے نتیجہ نکال کر پلورالزم کو قبول کرے۔ اصل میں اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ منطقی روش اس طرح ہے کہ تمام علمی مسائل، اصولی اور فلسفی مسائل پر منحصر ہیں اور فلسفی مسائل بھی معرفت شناسی کے مسائل پر مبنی اور منحصر ہیں یعنی منطقی نظام کے اعتبار پہلے معرفت شناسی کی بحثیں، اس کے بعد فلسفی بحثیں اور پھر اس کے بعد علمی مسائلً قرار پاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جس وقت ایک ڈاکٹر یا محقق

۱۲۰

ایک بیماری کے علاج کے لئے کسی دوا کی تحقیق کرنا چاہتاہے تو شروع میں وہ فلسفہ نہیں پڑھتا ہے کہ پہلے وہ فلسفہ پڑھے اور فلسفی اصول و قواعد کودلیل سے ثابت کرے ،لیکن اس کی یہ تحقیق ایک فلسفی اصول پر مشتمل ہے، اور وہ اصل علےّت ہے کہ وہ محقق لیبارٹیری(جانچ گھر)میں آکر گھنٹوں اپنے وقت کو ایک دوا کی تحقیق کے لئے صرف کرتا ہے کہ یہ دوا کسی خاص مرض کے لئے ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ بیماری خود بہ خود بغیر کسی علت اورسبب کے نہیں آئی ہے؛ اس بیماری کے آنے کا کچھ نہ کچھ سبب ضرور ہے اسی طرح وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ ممکن ہے ایسا دوسرا سبب بھی ہوجو اس کے لئے موثر ہو اس سے وہ بیماری دور ہو جائے اور اس مرض کا علاج بن جائے لہذٰا اسی وجہ سے کوئی بھی محقق بغیر اصل علیت (سبب) کو قبول کئے ہوئے تحقیق کے لئے نہیں آگے بڑھتا ہے، لیکن اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شروع میں اس نے فلسفہ پڑھا ہو اور اصل علیت کو اس نے قطعی اور یقینی دلیلوں سے ثابت کیا ہو پھر اس کے بعد وہ جانچ گھر میں تحقیق کے لئے آیا ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل علیت کا اعتقاد اس کے دل و دماغ میں دانستہ یا نادانستہ طورپر پہلے سے پایا جاتا ہے ۔

۱۲۱

دینی پلورالزم(۴)

اس سے قبل کے جلسے میں جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اس جلسہ میں اس بات کی وضاحت پیش کروں گا کہ پلورالزم اور لیبرالزم میں کیا ربط ہے اور اس کے بعد جو چند سوال پیش ہوئے ہیں ان کا جواب دوں گا۔

پلورالزم اور لیبرالزم کا رابطہ

''لیبرالزم'' اور'' پلورالزم'' میں رابطہ کی وضاحت کے لئے سب سے پہلے ان دونوں لفظوں کے معنی کو واضح اور معین کیا جائے، پلورالزم کے معانی سے متعلق پچھلے جلسوں میں وضاحت بہت ہی تفصیل سے کی گئی ہے یہاں پر لیبرالزم سے متعلق وضاحت پیش کی جاتی ہے ۔

لغت کے اعتبار سےلیبرالزم'' آزادی چاہنے کے معنی میں ہے اصطلاح میں اس کے معنی سے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ'' لیبرالزم'' ایک طرح کی آئیڈیو لوجی ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنی مرضی کے متعلق جس طرح چاہے عمل کرے اور جیسے چاہے زندگی بسر کرے ،کوئی بیرونی سبب یا شرط اس کے عمل کو محدود نہ کرے ؛مگر یہ کہ اس کا یہ عمل اور اس کی یہ رفتار دوسروں کی آزادی میں مخل ہو اور دوسروں کی آزادی میں رخنہ کا سبب بنے؛ لیبرالزم عام طور سے زندگی کے تین شعبوں اقتصاد، سیاست اور دین و ثقافت میں زیادہ بیان ہوتا ہے

''اقتصادی لیبرالزم'' اس معنی میں ہے کہ اقتصادی کام کاج اور فعالیت معاشرہ میں پوری آزادی کے ساتھ ہو اور جو شخص جو انسان جو چیز بنانا یا ایجاد کرنا چاہے اس کو وہ بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرے اور اس کی خرید و فروخت کرے ؛ خلاصہ یہ

کہ' ' اقتصادی لیبرالزم'' کی بنیاد پر چاہے وہ اشیاء کا بنانا ہو یا ان کا پیدا کرنا ؛چاہے و ہ معدنیات کی چیزیں ہوںیاکھانے پینے کی چیزیں ہوں یا تبلیغ اور پرچار کی ،حتیّٰ کہ سرمایہ گزاری سے متعلق ہر وہ چیز کہ جو اقتصاد کے زمرے میں آتی ہو ان میں کسی بھی طرح کی کوئی پابندی کوئی محدودیت نہ ہو ؛مگر یہ کہ دوسرے کی آزادی میں رخنہ ہو ۔

۱۲۲

سیاست کے میدان میں لیبرالزم کے معنی یہ ہیں کہ لوگ انتحاب اور چنائو کے طریقے اور حکومت کی تشکیل نیز حاکم کی تعیین اور قوانین کے بنانے اور اس کے نفاذنیز تمام سیاسی امورمیں پوری طرح سے بالکل آزاد ہیں اور وہ لوگ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ جس طرح چاہیں عمل کریں مگر صرف اس بات کا خیال رہے کہ دوسروں کی آزادی میں خلل اور رخنہ نہ پڑنے پائے ۔

لیبرالزم کی اصطلاح کبھی ثقافت اور دین و مذہب سے متعلق استعمال ہوتی ہے، سب سے پہلے جس شخص نے دین و مذہب میں لیبرالزم کے لفظ کو استعمال کیاشلایرماخر''ہے اس نے عرف عام میں پروٹسٹانزم لیبرالکے لفظ کو استعمال کیا ؛اس کے بعد یہ لفظ'' لیبرالزم'' کم وبیش دین کے بارے میں استعمال ہونے لگا ؛ بہر حا ل لیبرالزم دینی سے مراد یہ ہے کہ لوگ جس دین کو چاہیں پسند کریں؛اصل دین اور اس کے احکام کے قبول کرنے یا قبول نہ کرنے میں بالکل آزاد ہیں اور اس کے لئے ان پر کوئی بھی حد بندی اور پابندی نہیں ہونی چاہئے ۔اگر لیبرالزم کو فقط سیاست اور اقتصاد کے میدان میں پیش کریں تو اس صورت میں یہ دینی پلورالزم سے براہ راست کوئی ربط نہیں رکھتا ہے؛ لیکن اگر سیاسی اور اقتصادی لیبرالزم کے علاوہ دینی لیبرالزم کو بھی قبول کر لیں تو اس وقت لیبرالزم اور پلورالزم کے درمیان ربط پیدا ہو جائیگا ؛اور وہ اس طرح کہ انسان ایک دین کو چننے یا اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہے(یہ دینی لیبرالزم )یہ ہے کہ چند دین کو ان کے حق اور سچ ہونے کے اعتبار سے قبول کر لیا جائے (یہ دینی پلورالزم ہے) اس صورت میں ان دونوں کے درمیان منطقی لحاظ سے جو ربط پایا جاتا ہے وہ عام خاص مطلق ہے ]یاد رہے نسبتیں چار طرح کی ہوتی ہیں ]تساوی ، تباین ،عام خاص مطلق ، عام خاص من وجہ''ان میں سے ان دونوں کے درمیان عام خاص مطلق کا رابطہ ہے [دینی پلورالزم ہمیشہ لیبرالزم کا مصداق ہے؛ لیکن ہرلیبرالزم'' دینی پلورالزم کا مصداق نہیں ہے مثال کے طور پر لیبرالزم سیاسی لیبرالزم کا مصداق ہے لیکن دینی پلورالزم کا مصداق نہیں ہے البتہ پلورالزم اگر دوسرے میدانوں میں ] جیسا کہ پچھلے جلسات میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے [بھی ہو جیسے پلورالزم سیاسی ، اقتصادی اور معرفت شناسی پلورالزم بھی ہو تو اس وقت لیبرالزم اور پلورالزم کے درمیان رابطہ میں فرق ہو جائے گا ۔

۱۲۳

بہر حال اگر تاریخی سیر سے ہٹ کر ہم دیکھیں گے تو ان دونوںمفہوموں کے درمیان وہی رابطہ ہے جیسا کہ وضاحت کی گئی ہے لیکن تاریخی اعتبار سے اگردیکھیںتو پتہ چلتا ہے کہ ظاہراً''لیبرالزمکی فکرپلورالزمیہاں تک کہسیکولرزمپر بھی مقدم ہے ۔

دینی پلورالزم کی پیدائش کے اسباب پر دوبارہ ایک سرسری نظر

پچھلے جلسات میں پلورالزم کے نظریہ کے پیدا ہونے میں جو اسباب و علل ذکر ہوئے ہیں ان کی طرف اشارہ کیا گیا؛ ان وجوہات میں جن کو ذکر کیا گیا تھا سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اختلافات دینی کے سبب جو فساد اور خون ریزیاں ہوتی ہیں اس کودینی پلورالزم کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے؛ اور یہ فکر سب سے پہلے مسیحی مذہب میں پیدا ہوئی ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں جب ایک جرمن کشیشمارٹن لوتھر''نے مسیحی مذہب میں پروٹسٹان فرقے کو ایجاد کیا اور بہت سے عیسائیوں نے اس میں اس کی اتباع اور پیروی کی تو اس کے بعد کاتھولیک اور پروٹسٹان میں بہت ہی شدید لڑائی چھڑگئی اور یہ سلسلہ جاری رہا اور آج بھی بہت سے ممالک جیسے ایرلینڈ وغیرہ میں یہ فساد ہوتا رہتا ہے؛ اس سے قبل بھی عیسائی مذہب کے دو فرقوں ارٹڈوکس اور کاتھولیک میں جھگڑا پایا جاتا تھا بہت سے مسیحی علماء اور متکلمیں نے ان فرقوں کے درمیان جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے مسیحیت میں پلورالزم نظریہ کو پیش کیا ؛اور ان لوگوں نے کہا کہ بس صرف مسیحی ہونانجات کے لئے کافی ہے اور ارٹڈوکس،کاتھولیک،پروٹسٹان وغیرہ میں کوئی بھی فرق نہیں ہے۔

۱۲۴

اس کے بعد مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان جودیرینہ جنگ اور دشمنی پائی جاتی تھی اس کو ختم کرنے کے لئے دینی پلورالزم کا نظریہ پیش ہوا ؛اور اس بات کی کوشش کی گئی کہ یہ دشمنیاں ختم کی جائیں مثلاً مسیحی مناسک و اعمال خاص کر کاتھولیک مذہب میں ایک رسم پائی جاتی ہے جس کوعشائے ربانیکہتے ہیں ؛اس کو گویا مسیحیوں کی نماز کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگااس میں خاص دعا اور ذکر ، پڑھا جاتا ہے وہ چیز جو اس پروگرام یعنیعشائے ربانی'' میں پڑھی جاتی تھی یہ تھی کہ یہودیوں پر اس اعتبار سے کہ وہ حضرت مسیح کے قاتل ہیں لعنت کی جاتی تھی ۔جس وقت یہودی خاص طور سے صہیونی لوگ بعض سیاست کے سبب اس بات میں کامیاب ہوئے کہ ان لوگوں نے یورپ میں طاقت حاصل کی تو واٹیکان اس بات پر مجبور ہوا کہ کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ رسمی اور قانونی طور پر اس بات (بعنوا ن قاتل مسیح یہودیوں پر لعنت ) مسیحیوں کی نماز،عشائے ربانی سے حذف کردیا جائے اور مسیحی علماء نے فتویٰ دیا ؛کہ اب اس کے بعد'' عشائے ربانیکے مراسم میں یہودیوں پر لعنت نہیں کی جائے گی ؛اگر چہ کچھ مدت تک عشائے ربانی میں یہودیوں پر لعنت بندرہی لیکن پھر بھی مسیحی ،یہودی قوم کو حضرت مسیح کا قاتل سمجھتے رہے یہاں تک کہ شاید آپ نے ان آخری دنوں میں اس بات کو سنا ہوگا کہ پاپ نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ مسیحی اس اعتقاد کو اپنے ذہن اور دل سے بھی نکال دیں؛ اور اس کا سبب یہ بیان کیا کہ ہم یہودیوں سے صلح و دوستی کرنا چاہتے ہیں اور اب وہ وقت دور نہیں رہ گیاہے کہ جناب پاپ سرکاری طور پر مقبوضہ فلسطین( اسرائیل) میں جاکروہاں یہودیوں کے سربراہوںسے ملاقات کرنے والے ہیں ۔

بہر حال آگے چل کر مسیحیوں نے اس سیاست کو دنیا کے تمام مذاہب میں جاری کرنا چاہا؛ اور کہا کہ ہم کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب سے دینی اعتقادات کے مسئلہ میں جنگ و خونریزی نہیں کریں گے اور ہم سبھی مذہب کو قبول کرتے ہیں ؛ یہاںتک کہ بہت سے عیسائیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ اسلام مسیحیت سے اچھا دین ہے اور کھلے عام اس کا اعلان بھی کیا ؛لیکن کہا کہ بہر حال مسیحیت بھی ایک اچھا دین ہے ۔

۱۲۵

یہاں تک زیادہ تاکید آپس میں مل جل کر رہنے اور دینی اعتقادات اور مذہبی اختلاف کے سبب جنگ و خونریزی سے پرہیز کرنے پر تھی ؛ہم نے اس بات کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا کہ اسلام نے اس طرح کے عملی پلورالزم کو تمام آسمانی مذاہب اور اہل کتاب حتیٰ بعض غیر اہل کتاب کے درمیان قبول کیا ہے اور اس کو رسماًپہچانا ہے اور ان تمام لوگوں کے جان و مال عزت و آبرو کو مسلمانوں کی طرح قابل احترام جانا ہے لیکن جیسا کہ ہم نے اس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا تھاکہ'' پلورالزمفقط عملی پلو رالزم میں منحصر نہیں ہے بلکہ ا س نظریہ کی معتقدین نے اس کو نظری اور فکری پلورالزم تک وسعت دی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم کو نہ فقط عمل میں لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہئے بلکہ نظری اور فکری اعتبار سے بھی اس بات کو قبول کریں کہ تمام دین صحیح اور حق ہیں اور جو کوئی بھی ان میں سے کسی دین کا معتقد ہو اور اس کے دستورات اور احکام پر عمل کرے وہ کامیابی حاصل کرے گا اور اس کا اعتقاد و عمل قابل قبول ہوگا؛ البتہ اس بات کو ہم کس طرح قبول کر سکتے ہیں ؟جب کہ ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ سارے ادیان میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ہے ہم کس طرح ان سبھی کو حق اور صحیح جانیں؟ اس کی مختلف تفسیر پچھلے جلسوں میں میں نے پیش کی اور ان کے بارے میں مفصّل بحث و گفتگو کی یہیں سے میں چاہتا ہوں کہاس جلسہ کی بحث کے دوسرے حصہ کوشروع کروںیہ اسسوال کا جواب ہوگا جو کہ چند جلسہ پہلے پیش کیاگیا تھا ۔

۱۲۶

ایک عالمی دین کی بنیاد

سوال یہ ہے کہ کون چیزاس بات سے مانع ہے کہ ہم کہیں تمام دینوں میں کچھ چیزیں مشترک پائی جاتی ہیں ہم پہلے ان مشترکات کو پہچانیں پھر ان کو منظّم کر کے ایک عالمی دین کی صورت میں پیش کریں اور کہیں کہ دین کی حقیقت یہی مشترک مجموعہ ہے جو تمام ادیان میں مشترکہ طورسے پایا جاتا ہے اور جو اختلافات ان کے درمیان ہیں وہ فرعی اور ذوق و سلیقہ کاپہلو رکھتے ہیں اور ان کاہونا اور نہ ہونا اصل دین میں کوئی نقصان نہیں پہونچاتا ہے دین کی اصل یہی مشترکات ہیں اور اختلافات تو شاخ اور پتے کے مثل ہیں جن کو انسان اپنے ذوق اور سلیقے اور پسند کے مطابق اختیار کرتا ہے گویا یہ دینی پلورالزم کی چوتھی تفسیر ہے نظری اور فکری اعتبارسے یہ ان تینوں تفسیر کے علاوہ ہے جس کوہم نے پہلے جلسے میں پیش کیا تھا یہاں پر اس کی تھوڑی تفصیل اور وضاحت پیش کی جاتی ہے اور اس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے ۔

ایک واحدعالمی دین کی تاسیس کی تحقیق

ہماری نظر میں یہ فرضیہ و خیال بھی متن اور مطلب کے لحاظ سے متناقض ہے اور صحیح نہیں ہے علاوہ اسکے یہ نظریہ اپنے ثبوت پر دلیل نہیں رکھتا۔علمی اور فنی اصطلاح میں یہ خیال ونظریہ ثبوتی اور اثباتی دونوں لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔

۱۲۷

خود نظریہ کے مطلب اور ثبوتی اعتبار سے اعتراض یہ ہے کہ ایسے مشترکات یا تو دینوں کے درمیان پائے نہیں جاتے یا اگر ان مشترکات کو تلاش کر بھی لیا جائے تو اس قدر پیچیدہ وکلی اور اتنے مختصر ہیں کہ ان کو دین کا نام نہیں دیا جاسکتا، اسکی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ موجودہ جو ادیان یا مذاہب پائے جاتے ہیں ؛ان میں چار مذہب اسلام، مسیحیت، یہودیت ،اورزرتشتی کو ہم آسمانی دین جانتے ہیں اورہم اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ مسیحیت ،یہودیت اورزرتشتی مذہب میں بہت سی تحریفات (کمی وزیادتی)ہوئی ہیں ا وریہ موجودہ دین خداکے نازل کئے ہوئے دین کے علاوہ ہیں اور ان میں فرق پایاجاتا ہے؛ بہر حال شروع میں یہ تصورپیداہوتا ہے کہ ان چاروں ادیان کے درمیان مشترکات پائے جاتے ہیں کہ جن کو اخذ کیا جا سکتا ہے جیسے ایسا لگتا ہے کہ خداوندعالم کا اعتقاد تمام ادیان میں مشترک ہے لیکن تھوڑا سا غور و فکرکرنے کے بعدپتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور یہاں تک کہ وہ موارد جن میں ایسا لگتاہے کہ وہ سارے ادیان کااتفاقی مسئلہ ہیں ان میں بھی بنیادی اختلاف پائے جاتے ہیں ؛مثلاً وجود خدا وند عالم کے اصل اعتقادکے متعلق شروع میں یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ تمام ادیان کا مسلم اور مشترک اصول ہے لیکن اگر تھوڑا سا بھی غور و فکر کریں توہمارے لئے اس کے خلاف ہی بات ثابت ہوتی ہے۔

۱۲۸

وہ خدا جو کہ مسیحی دین میں پیش کیا جاتا ہے ؛اس کے لئے ممکن ہے کہ وہ انسان کی صورت میں آئے اور سولی پر چڑھے اور دوسرے انسانوں کا فدیہ اور اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے اور ان کی نجات اور چھٹکارے کا سبب بن جائے؛ مسیحیت میں خدا کی اس طرح تعریف کرتے ہیں کہ خدائے پدر، خدا ئے پسرکی صورت میں حضرت مریم کے بطن میں آیا اور ان سے پیدا ہوا اور کئی سال تک انسانوں اور مخلوقات کے درمیان اس نے زندگی بسر کی ، یہاں تک کہ اس کو سولی دے دی گئی اور پھر وہ دوبارہ آسمان پر چلا گیا ،یہودیوں کا خدا شاید اس سے بھی عجیب ہو، ان کا خدا ایسا ہے جس کے رہنے کی جگہ آسمان ہے اور کبھی کبھی وہ زمین پر آتا ہے او رتفریح کرتا ہے اور کبھی کبھی اس کو کشتی لڑنے کا شوق ہوتا ہے اور وہ یعقوب پیغمبر سے کشتی لڑتا ہے یعقوب اس کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ؛ اور اس کے سینے پر بیٹھتے ہیں مختصر یہ کہ یعقوب اس کے سینے پر سوا ررہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے ؛خدا کہتا ہے کہ پیارے یعقوب مجھکو چھوڑ دو صبح ہونے والی ہے، لوگ دیکھ لیں گے کہ تم نے مجھے زمین پر پٹخ دیا ہے (اور میری آبرو چلی جائے گی )یعقوب کہتے ہیں :جب تک مجھ کو برکت نہیں دو گے نہیں چھوڑوں گا ،خدا بھی یعقوب کے ہاتھوں سے چھٹکارا پانے کے لئے ان کو برکت دیتا ہے تب جاکر یعقوب اس کو چھوڑتے ہیں ؛ اور خدا دوبارہ آسمان کی طرف چلا جاتا ہے!!! العیاذ بااللہ

۱۲۹

در آنحالیکہ اسلام کے مطابق خدا جسم وجسمانیات نہیں رکھتا ہے نہ زمین پر آتا ہے اور نہ آسمان پر جاتا ہے؛ زمین اور آسمان، آج اور کل اس کے لئے برابر ہے اور اس کے لئے کوئی بھی فرق نہیں رکھتاہے ؛وہ زمین اور آسماناور زمان ومکان کا پیدا کرنے والا ہے وہ زمانے اور جگہ میں قید ہونے والا نہیں ہے ،وہ دیکھنے کے قابل نہیں ہے، تمام مخلوقات اس کے قبضئہ قدرت اور اختیار میں اور اس کی محکوم ہیں ،نہ اس کو کسی نے پیدا کیا ہے، اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے ،اور جو نا مناسب و بیہودہ باتوں کی نسبت یہود و نصاریٰ اس کی طرف دیتے ہیں ؛ خدا وند عالم ان تمام باتوں سے پاک و پاکیزہ ہے ۔

یہ بات بہت ہی واضح ہے کہ ان تینوں خدا میں فقط لفظ اور نام کا اشتراک پایا جاتا ہے؛ ورنہ وجود کے لحاظ سے ان کے درمیان کوئی بھی اشتراک نہیں پایا جاتا ہے اس کی مثال شیر اور شیر کی طرح ہے، پہلا دودھ کے معنی میں ہے اور دوسرادرندے (جانور)کے معنی میں ہے : آن یکی شیر است کہ اندر بادیہ وآن دگر شیر است اندر بادیہ

آن یکی شعر است آدم می خورد

وآن دگر شیر است کہ آدم می خورد

وہ بھی شیر ہے بادیہ(جنگل ) کے اندر اور وہ دوسرا بھی شیر ہے بادیہ (پیالے ) کے اندر وہ بھی شیر ہے جو آدمی کو کھاتا ہے اور وہ بھی شیر ہے جس کو آدمی کھاتا ہے۔

اگرجنگل کا شیر اور ناشتہ کا شیر(دودھ) ایک ہی ہے تواسلام اور یہودیت و مسیحیت کا خدا بھی ایک ہی ہے ؛حقیقت میں اسلام کے خدا اور یہودیت و مسیحیت کے خدا میں کون سی مشترک چیز پائی جاتی ہے ؟ ایک کہتا ہے کہ خدا جسم رکھتا ہے اور آسمان سے نیچے آتا جاتا ہے جب کہ اسلام کہتا ہے خدا جسم و جسمانیات سے مبراّہے؛آخر جسم ہےاورجسم نہیں ہےکے درمیان کیسے اشتراک ہو سکتا ہے ؟

۱۳۰

یہ تو ان محدود ادیان کی بات تھی جن کو ہم نے آسمانی دین میں محصور کیا ہے، لیکن اگر اس سے آگے بڑھ کر دیکھیں جس کو آج کی اصطلاح میں دنیا والے دین کا نام دیتے ہیں ؛ تو حالت اس سے نھی زیادہ خراب نظر آئے گی ۔دنیا کا ایک بہت پرانا دین بدھشٹ ہے جسکے ماننے والے بہت زیادہ ہیں بودھ ازم اصلاً خدا کا اعتقاد نہیں رکھتے جو کچھ یہ دین کہتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اس دنیاوی و مادی قید وبند اور لگائو سے دور رہنا چاہئے تاکہ وہ بلند وبالا مقام حاصل کر کے کمال پر پہنچ جائے، صرف اسی صورت میں وہ سارے رنج وغم سے چھٹکارا پا سکتا ہے اور مطلق طور پرخوشی اور کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔

اس اعتقاد (خدا نہیں ہے)اور آسمانی ادیان کے نظریہ میں (خدا موجود ہے)کون سی اشتراک کی وجہ ہے ؟جس کو ہم اختیار کریں اور اسکو ایک عالمی دین کے عنوان سے انسانوں کے سامنے پیش کریں؟

اگر اس سے بھی آگے بڑھیں اوراگوسٹ کانٹ''کی طرح انسان کیخدا ہونے کے قائل ہوں؛ تو حالت اس سے بھی بدتر نظرآئے گی ،اگوسٹ کانٹ کہتا ہے''ہاں انسان دین چاہتا ہے لیکن وہ دین نہیں جو خدا،پیغمبر،وحی اورماوراء الطبیعت کی چیزیں رکھتا ہو؛ بلکہ وہ دین جسکا خدا خود انسان ہو، اور پیامبرعقل ہو، تمام موجودات کا محور انسان ہے اور تمام چیزوں کا قبلہ و معبودومسجود یہی انسان ہے اور تمام ہستی اور عالم وجود کو انسان کی چاہت اور خواہش کے مطابق ہونا چاہئے۔

۱۳۱

اب ہم دوبارہ سوال کریں گے کہ وہ دین جس کا معبود خود انسان ہویا وہ دین جس کا معبود جسمانی اعتبار سے محدود ہو او ر یعقوب کے ہاتھوں گرفتار ہو یا وہ دین جس میں گائے کو پوجا جاتاہویا وہ دین جو کہ اصلاً خدا کا اعتقاد نہیں رکھتا اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا دین جس کا معبود اللہ ہو ،جو لامحدود ہے اس کا کوئی ثانی نہیں اور وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، اب ان میں کس عالمی اور دنیاوی دین کو اختیار کیا جائے؟ اور اس حالت میں مشترک عالمی دین کی بات کرنا اور اس سلسلہ میں گفتگو کرنا خود ساختہ افسانے جیسا ہے ہے جو کہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ہے ؛اور اس کا کہنے والا مستی کے عالم میں ہے اور بے عقلی سے نزدیک ہے اور عالم عقل و ہو شیاری سے بہت دور ہے ] افلا یتدبرون [ کیا وہ لوگ غور و فکر نہیں کرتے؟سب سے پہلا اعتقاد جو کہ اصل دین ہے وہ خدا وند عالم کا اعتقاد ہے جب ہم اس پہلے ہی قدم پر اتنے واضح تناقضات اور مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اس وقت کیسے ہم ادیان کے درمیانذاتی مشترکات کے وجود کو قبول کریں(اور اختلافات کو عرضی سمجھیں )اور ایک عالمی دین کے عنوان سے اس کا اعلان کریں؟ یقینی طور پر ایسے ہی لاجواب اعتراضات کے موجود ہونے کی وجہ سے بعض ایرانی اہل قلم جو کہ اس نظریہ (عالمی دین کی طرف )رجحان رکھتے ہیں انھوں نے اپنے مضمون میں ' 'ذاتی وعرضی دین''عنوان کے تحت دعویٰ کیاہے کہ خدا کا بھی اعتقاد دین کے لئے جوہری اور ذاتی نہیں ہے؛ بلکہ دین کے عرضیات سے ہے، ممکن ہے کوئی دیندار ہو، لیکن خدا کے وجود کا معتقد نہ ہو ! میں عرض کروں گا کہ اگر خدا نہ ہو تو فطری طور سے کوئی پیغمبر بھی نہ ہوگا ،جس کو وہ لوگوں کے لئے بھیجے گا ؛لہذاٰ انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ خدا اور پیغمبر کا اعتقاد نہ رکھے اس کے باوجود وہ دین بھی رکھتا ہو۔ اسی طرح چونکہ عبادات کے باب میں بھی واضح ہے کہ جو عبادت تمام ادیان میں مشترکہ طور سے پائی جاتی ہو اسکو ہم نہیں رکھتے ہیں ؛ اگرچہ مثلاًنماز تمام آسمانی ادیان میں پائی جاتی ہے ؛لیکن اس کی ماہیت اور طریقے میں پوری طرح سے فرق پایا جاتا ہے ؛لہذٰا نہ مشترک خدا باقی رہ جاتا ہے اور نہ مشترک پیامبر و عبادت باقی رہ جاتی ہے۔ پس وہ مشترک عناصر سارے ادیان میں کہاں ہیں جن پر ایک عالمی دین کے اعتبار سے ایمان لائیں اور ان کو اختیار کر کے ہم نجات حاصل کر لیں ؟

۱۳۲

مشترکہ اخلاقی اصول کو ایک عالمی دین کے عنوان سے پیش کرنا

اس بات کے لئے کہ اس نظریہ کا پست اور باطل ہونا اچھی طرح واضح اور روشن ہو جائے، ہم بالفرض قبول کرتے ہیں کہ باوجودیکہ خدا ،نبوت اور امامت کے بارے میں ایک مشترک نتیجہ تک نہیں پہونچ سکے لیکن ممکن ہے کہ ایک عالمی دین کو ادیان کے اخلاقی مشترکات کی بنیادپر پیش کریں ،دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کوئی کہے کہ ایک عالمی دین اور ادیان کے درمیان مشترکات سے ہماری مراد یہ ہے کہ ایک قسم کے اخلاقی اصول جیسے عدالت اچھی چیز ہے ، سچ بولنا ، امانت داری ،وغیرہ یہ سب اچھی چیز یںہے جھوٹ بولنااور ظلم کرنا قبیح اور بری چیز ہے ان باتوں پر تمام ا دیان اور ان کے ماننے والے متفق ہیں ؛ اور یہ تمام مشترکہ اخلاقی اصول ایک عالمی دین ہو سکتے ہیں کہ جس کی ہم کو تلاش ہے لہذا اس نظریہ پر کون سا اعتراض ہو سکتا ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس تصّور کی بنیاد پر دین ،اخلاق کے مترادف ہو جائے گا یعنی دین و اخلاق ایک معنی میں ہو جائیں گے اورچند خالص اخلاقی اصول کے مجموعہ کو دین کا نام دینا یہ رائج اصطلاح کے خلاف ہے نیز عرف عام اور عقلاء کے نظریہ سے مختلف ہے؛ تمام لغت میں یہ وضاحت کے ساتھ تصریح کی گئی ہے کہ اخلاق، دین سے اور دین ،اخلاق سے جدا اورالگ ہے اور یہ دونوں لفظ الگ الگ معنی میں پائے جاتے ہیں ؛اور کسی بھی لغت اور زبان میں دین و اخلاق کو ایک معنی میں نہیں لیا گیا ہے؛ اس مطلب کی اور زیادہ وضاحت کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے بے دین اور لا مذہب افراد جو کہ کسی مذہب اور دین کا اعتقاد نہیں رکھتے ،ہم ان کو دیکھتے ہیں کہ بہت سے اخلاقی اصول جیسے عدالت ،سچ ،امانتداری کے اچھے ہونے اور ظلم، خیانت،جھوٹ وغیرہ کے برے ہونے پراعتقاد رکھتے ہیں اور اس کے پابند ہیں ؛ بہر حال سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ اخلاقی اصول کو قبول کرنے اور دین کے قبول کرنے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے اورکسی کے لئے ممکن ہے کہ چند اصول اخلاقی کو قبول کرتا ہو ۔

۱۳۳

دوسرے یہ کہلیکن کسی بھی دین و مذہب کا اعتقاد نہ رکھتا ہو؛ اگر ہم اس کو قبول بھی کرلیں کہ خدا ، نبوت ، قیامت کا اعتقاد اور عبادت وغیرہ کو انجام دینا یہ سب دین کی ماہیت اور شکل میں کوئی دخالت نہیں رکھتے ہیں اور دین فقط چند اخلاقی اصول کا نام ہے، تو اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین صرف چند اخلاقی اصول کے اعتقاد کا نام ہے یا اعتقاد کے علاوہ ان اصول پرعمل اور ان کی پابندی کا بھی نام ہے ؟ کیا دیندار وہی ہے جو کتاب ،مضمون اور تقاریر میں ان اخلاقی اصول کا دفاع اور ان کی حمایت کرے اگر چہ عملی طور پر اان کا پابند نہ ہو، یا اس ایک عالمی دین دینداراور متدین وہی لوگ ہیں جو کہنے کے ساتھ عمل کے میدان میں بھی ان اصول کی رعایت و پابندی کرتے ہوں ؟اگر یہ ایک عالمی دین صرف اعتقاد کا نام ہو اور اس پر عمل کرنا ضروری نہ ہو؛آیا ایسا دین انسان کی زندگی پر کچھ اثر ڈال سکتا ہے؟ ایسے دین کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ اگر صرف گفتگو اور زبان سے کہنے کا نام ہے تو ہر ظالم اور خطاکارسچاّئی، امانت داری اور عدالت کے بارے میں اچھا مضمون لکھ سکتا ہے اور بہترین تقریر کر سکتا ہے؛ کیا دینداری کی حقیقت یہی ہے ؟ یہ بات بالکل واضح ہے کہ بغیر عمل کے اعتقاد کا نام دین نہیں ہوسکتا ہے اور ضروری ہے کہ اعتقاد کے علاوہ عمل کو بھی لازم قرار دیا جائے تاکہ اس اصطلاح کے مطابق اس کو دیندار کہنا ممکن ہو سکے ۔

یہیں پرایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص خدا، پیغمبر ، وحی اور حساب و کتاب کا یقین اور اعتقاد نہیں رکھتا توکون سی وجہ ہے جو اس کو جھوٹ بولنے سے روکتی ہے ،اور کس بات کی ضمانت ہے کہ وہ خیانت نہ کرے اور عدالت کو اختیار کرے ؟

۱۳۴

ایک بحث جو کہ آخری صدیوں میں سامنے آئی ہے اور بعض لوگوں نے اس کی حمایت کی ہے یہی اخلاق اور دین کے درمیان جدائی کا مسئلہ ہے یعنی بغیردین کے اخلاق ہونا چاہئے۔ اس نظریہ کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ جو چیز انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے یہی اخلاق اور اس کے فوائد ہیں ؛ دین ہماری زندگی پر کچھ بھی اثر نہیں ڈالتا ہے ،لہذٰا ہم اخلاق اور اس کے اصول کو جو کہ مقام عمل میں اثر رکھتا ہے، قبول کرتے ہیں لیکن دین سے کوئی بھی واسطہ نہیں رکھتے ہیں ۔ یہی وہ طریقہ فکر ہے جو کہ بعض لوگوں کے ذہن میں پایا جاتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کو انسان ہونا چاہئے ا کون سے دین پر ہیں یا اصلاً دیندار ہیں بھی کہ نہیں ؟ یہ بات کچھ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ میں خود اسی تہران میں دو آدمیوں کے درمیان بات چیت کا گواہ ہوں کہ ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ فلاں آدمی بہت اچھا ہے نماز پڑھتا ہے (یعنی نمازی ہے ) اس کے دوست نے جواب دیا کہ میرا عقیدہ اور نظریہ یہ ہے کہ آدمی کو اچھا ہونا چاہئے چاہے نمازی ہو یا بے نمازی ؛یہ نظریہ اسی فکر کا نتیجہ ہے جو اخلاق کو بغیر دین کے قبول کرتا ہے ؛اس کی بنیاد پر اچھا ہونا یعنی اخلاقی اقدار کی رعایت کرنا ،اچھا ہونا یعنی باادب، باوقار اور سنجیدہ ہوناہے، دیندار ہونا یا بے دین ہونا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ صحیح نہیں ہے اور اس نظریہ پر بہت سے اعتراض پیش آتے ہیں ؛جس کی طرف فلسفہ اخلاق کے مباحث میں تفصیل کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے ۔

۱۳۵

مثلاً ایک اعتراض یہ ہے کہ فلسفہ اخلاق کے ایک مکتب فکر اورنظریہ کے مطابق اچھا ہونا لذت آفرینی کے مترادف ہے یعنی ہر وہ چیز جس سے انسان لذّت حاصل کرے وہ اچھی اور پسندیدہ چیزہے۔ اب اس نکتہ کی جانب توجہ کرتے ہوئے فرض کیجئے کہ بندہ (صاحب کتاب فلسفہ اخلاق) میں اسی نظریہ کا قائل ہوں اور اس بات کا اور معتقد ہوں کہ اچھا ہونا لذت پہونچانے کے مترادف ہے ؛جس چیز میں لذت زیادہ ہو وہی چیز زیادہ اچھی ہے اوراب اگر جھوٹ بولنے کی وجہ سے مجھ کو لذت حاصل ہورہی ہو تو کون سی دلیل کہتی ہے کہ میں جھوٹ نہ بولوں؟ظاہر ہے اس فکری قاعدہ کی بنیاد پر ایسی حالت میں میں جھوٹ ضرور بولوں گا کیونکہ جھوٹ بولنے میں لذت ہے؛ اگر کہیں پر سچ بولنا میرے لئے مصیبت اور رنج و غم کا سبب ہو تو وہاں پر مناسب نہیں ہے کہ میں سچ بولوں اور سچ بولنے کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے ؛اسی طرح ان تمام چیزوں میں جن کو اخلاقی قدرو قیمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں اس مبنیٰ اور قاعدہ کی بنیاد پر اس کی رعایت کرنا لازم نہیں ہوگا ؛بلکہ بہت سی جگہوں پر اس اصول اور نظریہ کو پیروں سے روندنا بہتر سمجھا جائے گاکیونکہ اس سے لذت حاصل ہوتی ہے ؛اگر ہم کو چوری، خیانت ،رشوت اور ظلم کرنے میں لذت حاصل ہوتی ہو تو یہ ساری چیزیں اچھی ہیں یہ لذت طلبی کے مبنیٰ کا فطری نتیجہ ہے ۔

۱۳۶

لہذٰا یہ کہ اصول اخلاقی کے اس مجموعہ کو جو سبھی کو قابل قبول ہو واحد عالمی دین کے عنوان سے پیش کرنے میں ایک اعتراض ہے کہ کیا واقعاًایسا مجموعی اصول پایا بھی جاتا ہے یا نہیں ؟ اور اس کے علاوہ دوسرابنیادی اعتراض یہ ہے کہ لوگوں کو کس طرح ان اصول کا پابندکیا جا سکتا ہے؛ اگر خدا،قیامت ، اور حساب وکتاب کی بحث نہ ہو تو پھر اپنے کو کیوں ان اخلاقی اصول کے قید و بند میں جکڑا جائے اور انھیں کا پابند رہا جائے ؟ حقیقت یہ ہے کہ خدا اور قیامت سے چشم پوشی کی صورت میں کوئی بھی وجہ ان اصول کی رعایت اور ان پر عمل کرنے کے لئے نہیں پائی جاتی ہے :ہاں: یہ ممکن ہے کہ شوق و تنبیہ اور بار بار یاددلانے اور لازم قرار دینے نیز اجتماعی آداب و رسوم کے ذریعہ بچوں پر اتنا کام کیا جائے کہ ان اصول کی رعایت اور پابندی کرنا ان کے لئے ایک عادت کی شکل اختیار کر لے ،لیکن پھر بھی ممکن نہیں ہے کہ ایک قابل استدلال اورمنطقی نظریہ کے عنوان سے ان باتوں کا دفاع کیا جائے، یعنی آپ کے لئے ممکن ہے کہ کسی کو ان اخلاق کا پابند کر دیں ؛لیکن آپ کا کام منطقی ہے اس کو کیسے ثابت کیجئے گا ؟جس طرح سے یہ ممکن ہے کہ شوق، تنبیہ اور مشق و یاد دہانی کے ذریعہ بچوں میں سچ بولنے کا ملکہ پیدا کردیں؛اور ان کواس کاعادی بنا دیں اسی طرح انھیں وسائل و ذرائع سے آپ بچے کو جھوٹ بولنا بھی سکھا سکتے ہیں ،اب جب ہمارے لئے ممکن ہے کہ ہم بچوں کے جھوٹ بولنے کو عادت میں تبدیل کر سکتے ہیں تو کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جھوٹ بولنا اچھا ہے ؟

''کانٹ' 'اس اعتراض سے اچھی طرح واقف تھا اور اس بات کو سمجھ گیا تھاکہ اگر انسان اپنے اعمال کے بدلے ثواب و عذاب کا معتقد نہ ہو توان اعمال کو انجام دینے کے لئے اس کے پاس کوئی بھی ضمانت نہیں ہے؛ لہذٰا اگرچہ وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا تھا کہ اخلاقی اقداراور اخلاقی اچھائیاں وہ ہیں کہ ہم کاموں کو صرف ضمیر اور عقل کے حکم کی وجہ سے انجام دیں ؛لیکن اگر ثواب و عذاب کی امید سے ان کو انجام دیں تو ان میں اخلاقی قدرو قیمت نہیں پائی جائے گی؛ پھر بھی وہ کہتا ہے کہ اگر اخلاق چاہتا ہے کہ اس عمل کو انجام دینے کے لئے الگ سے کوئی ضامن ہو تو ہم کو کچھ اصول کو قبول کرنا ہوگا ؛اوروہ تقریباً وہی اصول ہیں جن کو ہم مسلمان قبول کرتے ہیں ۔ کانٹ کہتا تھا کہ میں خدا کے وجود اور اسی طرح روح اور انسانی نفس کے ہمیشہ قائم و دائم رہنے کواسی بات سے ثابت کرتا ہوں ۔

۱۳۷

چونکہ اگر وہ خدا جو حساب و کتاب رکھتا ہے اور ثواب و عذاب دیتا ہے اس کا اعتقاد نہ رکھیں تو اچھے کام کو انجام دینے کا کوئی سبب نہیں پایا جائے گا؛ اسی طرح اگر انسان کی روح و نفس کے ہمیشہ رہنے کے معتقد نہ ہوں اور کہیں کہ انسان مرنے کے بعد کچھ بھی نہیں رہتا اور جزا و سزا بھی اگر ہے توصرف اسی دنیا تک ہے پھر بھی ان اصول وقواعد کی رعایت کا کوئی باعث اور سبب نہیں ہوگااس بنیاد پر اگرچہ کانت معتقد تھا کہ خدا کو برہان نظری سے ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ کہتا تھا کہ میں عقل عملی کے ذریعہ اس بات کا معتقد ہوں کہ خدا کا وجود ہونا چاہئے تا کہ اخلاق کسی سہارے اور ضمانت کے بغیرنہ رہ جائے ۔

گذشتہ بحث کا خلاصہ

اس جلسے کی بحث کاخلاصہ یہ ہوا کہ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ ادیان میں اختلافات فرعی اور ذوق و سلیقے کے مطابق ہیں لہذٰا ہم ان کے مشترکات کو لیکر ایک عالمی دین کی شکل میں پیش کریں، ان کے جواب میں ہم کہیں گے کہ سب سے پہلے بنیادی طور پر تمام دین کے اصول خدا، نبوت اور عبادت کے اعمال ہیں اور تحقیق سے یہ معلوم ہے کہ یہ اصول کسی بھی صورت سے تمام ادیان میں مشترک نہیں ہیں ۔

۱۳۸

دوسرے یہ کہ اگر خدا، نبو ت پر اعتقاد اور عبادات کی بات کو چھوڑ دیں اور اس بات کو قبول کریں کہ وہ واحد عالمی دین ان چند اخلاقی اصول کے مجموعہ کا نام ہے جو کہ تمام ادیا ن میں مشترکہ طور سے پائے جاتے ہیں ؛سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیافقط ان اصول کے اعتقاد کا نام دین ہے یا اس کے ساتھ ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے ؟ اگر صرف اعتقاد اور لفظ کا نام دین ہے تو واضح سی بات ہے صرف کہنے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے اور اس پر کچھ بھی اثر نہیں پڑتا ہے بلکہ قول کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے، اگر ہم عمل کے بھی قائل ہوں تو سوال یہ ہے کہ خدا، نبوت اور قیامت کا انکار کر کے ان اعمال کو انجام دینے کے لئے کون سی ضمانت پائی جاتی ہے ؟ خاص طور پر اس جانب توجہ کرتے ہوئے کہ فلسفہ اخلاق میں دوسرے مکاتب فکر جیسے لذت طلبی وغیرہ والے بھی پائے جاتے ہیں ؛ جو کہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اچھے اخلاق وہ چیزیں ہیں جو کہ انسان کے لئے لذت بخش ہوںجو شخص ایسا اعتقاد رکھتا ہو اس کے لئے 'سچ بولنا اورسچ بولنے پر اسے مجبور کرنا جب کہ یہ کام اس کے لئے مصیبت اور نارا حتی کا سبب ہو اور جھوٹ ، خیانت سے اس کو باز رکھنا جب کہ یہ اس کے لئے لذت بخش ہو، کس طرح ممکن ہے؟ یہ نکتہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ ادیان میں مشترکات نہیں پائے جاتے ہیں ،اس بات کے علاوہ اگر تمام ادیان کو نہ بھی کہیں تو کم سے کم بہت سے ادیان ایسے ہیں جو کہ بہت ہی سختی کے ساتھ ایک دوسرے کے اعتقادات کی نفی کرتے ہیں ،اور اس کے لئے ایک دوسرے سے جنگ و جدال کرتے ہیں ؛خدا پر اعتقاد کی ہی بات کو لے لیجئے اسلام خدائے وحدہ لا شریک پر اعتقاد کو لازم قرار دیتا ہے اس کے علاوہ شرک یعنی ایک خدا کے علاوہ دوسرے خدا کے انکار کو لازم قرار دیتا ہے ؛بلکہ اسلام کی ابتدا ء ہی تنہا خدا کے علاوہ دوسرے خدائوں کے انکار سے ہوتی ہے پھر توحید تک بات پہونچتی ہے، سب سے پہلے یہ کہا جاتا ہے لا الہٰ(کوئی خدا نہیں ) پھر اس کے بعد ہے الاّاللہ (سوائے اللہ کے ) اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان سب سے پہلے مسیحیت کے تین خدا کا انکار کرے پھر وہ اسلام کی وحدانیت تک پہونچ سکتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ادیان کے مشترکات تک پہونچنا انسانکے لئے ممکن نہیں ہے۔

بہر حال آخری نتیجہ یہ ہے کہ یہ فرضیہ (واحدعالمی دین ) ثبوتی اعتبار سے اور اپنے معنی ومطلب کے اعتبار سے ناممکن ہے۔اور اثباتی اعتبار سے بھی کوئی دلیل اس کے ثابت ہونے پر نہیں پائی جاتی ہے اور ہمارے نظریہ کے اعتبار سے یہ بات پوری طرح سے مردود اور قابل رد ہے اورہم اس کو قبول نہیں کرتے۔

۱۳۹

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود-۱

جس موضوع کے بارے میں گفتگو کی فرمائش کی گئی ہے وہ ہے'' اسلام کی نظر میں جاذبہ اور دافعہ کے حدودہر موضوع پر گفتگو کرنے یا اس بحث میں داخل ہونے سے قبل ضروری ہے کہ پہلے اس کا موضوع اور عنوان واضح ہوجائے پھر اس کے بعد اس کیمتعلق باتوں کی وضاحت کی جائے۔ یہاں پر سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ سے کیا مراد ہے ؟پھر اس کے بعد اس کی حدوں کو معین کریں گے۔

جاذبہ ،دافعہ اوراسلام کے مفاہیم کی وضاحت

ہم سبھی لوگ جاذبہ اور دافعہ کے مفہوم سے واقف ہیں ؛ہم جس وقت اس اصطلاح کو سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں عام طور سے وہ جذب اور دفع آتا ہے جو کہ مادی اور طبعیی چیزوں میں بیان ہوتا ہے ؛خاص طور سے آپ اساتیدکے لئے جو کہ انجینئرنگ شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں معمولاًنیوٹنکا عام قانون جاذبہ ذہن میں آتا ہے؛ دافعہ کا مصداق بھی طبیعی علوم میں وہ طاقت ہے جو مرکز سے علیحدہ اور جدا کرنے والی یا وہ دافعہ جو دو ہمنام مقناطیسی قطب کے درمیان پایا جاتا ہے؛ لیکن جب یہ مفہوم انسانی اور اجتماعی علوم میں آتا ہے تو فطری طور سے وہ بدل جاتا ہے اس وقت اس سے مرادیہ طبیعی اور مادی جذب و دفع نہیں ہوتا بلکہ نفسیاتی اور معنوی جذب و دفع مراد ہوتا ہے، یعنی جیسے انسا ن احساس کرتا ہے کہ کوئی چیز اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور وہ چاہتا ہے اس کے نزدیک ہو جائے ،یہاں تک کہ اگر ممکن ہو تو اس سے مل کر ایک ہو جانا چاہتا ہے، یا اس کے بر خلاف بعض انسانوں کو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بعض چیزوںیا بعض لوگوں سے قریب ہونا نہیں چاہتے ہیں ،ان کا وجود اس طرح ہوتا ہے کہ وہ ان سے دور رہنا چاہتے ہیں ۔اس روحی اور نفسیاتی جذب و دفع کا سبب ممکن ہے ایک مادی چیز،ایک شخص یا ایک عقیدہ یا فکرونظر ہو ۔کبھی کوئی منظر اتنا اچھا اور دلکش ہوتا ہے کہ بے اختیار آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اگر چہ جسمانی لحاظ سے آپ اس کے نزدیک نہیں ہوتے ہیں اور اپنی جگہ پر کھڑے رہتے ہیں ؛ لیکن آپ کی پوری توجہ اور حواس کو اپنی طرف معطوف کرلیتاہے، اور آپ اس کو دیکھنے میں غرق ہو جاتے ہیں ؛ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کانپھاڑنے والی آواز یا ناقابل برداشت منظرکو دیکھ کرچاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس سے دور ہو جائیں۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232