دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)25%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82021 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر

دوسرابیان جو کہ دینی پلورالزم کو واضح کرتا ہے وہ یہ ہے کہ''تمام ادیان اور ان کے راستے ایک ہی حقیقت کی طرف پہونچ کر منتہی ہوتے ہیں ۔

پہلا بیان یہ تھا کہ مختلف ادیان کے درمیان حقائق بٹے ہوئے ہیں اور ہر دین حقیقت کے کچھ حصّوں پر مشتمل ہے لیکن یہ بیان اس سے ہٹ کر اس چیز کو بتاتا ہے کہ حقیقت صرف ایک ہے ؛اور بہت سے راستے اس تک پہونچتے ہیں جو مختلف ادیان کی شکل میں پائے جاتے ہیں اس کی مثال اس طرح ہے مثلاً تہران تک پہونچنے کے لئے بہت سے راستے پائے جاتے ہیں اور لوگ مختلف راستوں سے تہران میں داخل ہو سکتے ہیں شمال، جنوب ،مشرق اورمغرب غرض کہ تہران جانے کے لئے ہر طرف سے راستہ ہے جس کوہر انسان چاہتا ہے وہ صرف ایک ہے لیکن مختلف راستوں سے جیسے اسلام ،مسیحیت ،یہودیت ،بودھ ازم،اور مختلف ادیان اس حقیقت تک پہونچا جا سکتا ہے۔

یہ بیان بھی پہلے بیان کی طرح دو طرح کا افراطی اور اعتدالی رجحان رکھتا ہے جو لوگ افراطی(شدت پسند)اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ تمام راستے کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے برابر ہیں اور ان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے۔ اعتدالی رجحان اس بات کا قائل ہے کہ اگر چہ راستے مختلف ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں لیکن مختلف راستوں میں دوری اور نزدیکی پائی جاتی اور کچھ پیچ وخم بھی رکھتے ہیں اور ان کے درمیان کمی اور زیادتی پائی جاتی ہے ایک راستہ بہت لمبا ہے تو ایک بہت چھوٹا ہے ایک بالکل سیدھا ہے تا دوسرا ٹیڑھا ہے ؛مثلاً اسلام مسیحیت کی نسبت سیدھا اور بہت کم فاصلہ رکھتا ہے لیکن اگر کوئی مسیحیت اور اس کے دستورات و احکام پر عمل کرتا ہو اور اعتقاد رکھتا ہو تو وہ بھی حقیقت تک پہونچ سکتا ہے ۔

۸۱

اس دوسرے بیان کو بھی ثابت کرنے کے لئے کبھی شعراء کے اشعار اور کبھی عرفاء کی مثالوں کا سہارا لیا جاتا ہے مثلاً شیخ بہائی کا یہ شعرپیش کیا جاتا ہے:

ہر جا کہ روم پر تو کاشانہ تو ئی تو

ہردر کہ زدم صاحب آنخانہ توئی تو

در میکدہ و دیر کہ جانانہ توئی تو

مقصود من از کعبہ و بتخانہ توئی تو

مقصود توئی کعبہ وبت خانہ بہانہ

یعنی میں جس جگہ بھی جاتا ہوں وہاں تیرا ہی جلوہ نظر آتا ہے جس گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں اس گھر کا مالک تو ہی ہے، بت خانہ اور میکدہ کے اندرمحبوب تو ہی ہے کعبہ اور بت خانہ سے میری مراد تو ہی ہے ؛ کعبہ اور بت خانہ تو ایک بہانہ ہے ورنہ حقیقت میں میرا مقصود تو ہی ہے خلاصہ یہ کہ اگرفکر و نظر کے پردہ کو چاک کیا جائے تو مسجد ، بت خانہ ، گرجا گھراور میکدہ ہر جگہ رخ محبوب کی تصویر دکھائی دیگیعباراتنا شتیّٰ وحسنک واحد''یعنی عبارتیں الگ الگ ہیں لیکن حسن سب کا ایک ہی ہے یعنی اگر چہ کلام سب کا الگ الگ ہے لیکن سب کے سب ایک ہی رخ زیبا کی تعریف کر رہے ہیں ۔

۸۲

دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر کاتجزیہ

کیا یہ بیان قابل قبول ہے اور اس کو سند قرار دیتے ہوئے ہم دینی پلورالزم کو قبول کر لیں ؟جو کہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام ہو یامسیحیت یا یہودیت و زر تشتی سب کے سب ایک ہی حقیقت اور سب کے سب انسان کو نیکی و کمال کی طرف پہونچاتے ہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ تصوّر اور ثبوت کے مرحلہ میں ایسا فرض کرنا ممکن ہے ،مثلاً ایک ایسے دائرہ کو فرض کیجئے کہ جس کے چاروں طرف سے مختلف شعائیںاس کے مرکز تک پہونچتی ہوں اور تمام شعاعیں ایک ہی نقطہ پر ختم ہوتی ہوں، لیکن کیا موجودہ ادیان کے بارے میں بھی ایسا کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسی طرح ہیں جیسا ان کا وہم و خیال ہے؟ تھوڑی سی بھی دقت اور توجہ کی جائے تو معلوم ہو جائیگا کہ ایسا نہیں ہے ( اور مختلف ادیان میں کوئی بھی یکسانیت نہیں ہے )۔سب سے پہلا مسئلہ جو کہ اسلام میں ہے وہ توحید اور خدا کو یکتا قبول کرنے کا ہے اسلام کی سب سے پہلی آواز ہے:قولوا لا اله ٰالاّ الله تفلحوا تم لوگ کہو کہ خدا ایک ہے تاکہ کامیاب ہو جائو !

لیکن مسیحیت کا نظریہ اس مسئلہ توحید میں کچھ اور ہے جس کی حکایت خدا وند عالم یوں کر رہا ہےا نّ اللہ ثالث ثلاثة'' یقیناً خدا تین میں سے ایک ہے ،یعنی ان کے یہاں تین خدا ہیں ؛ایک باپ کہ خدائے اصلی کہ جس کو خدائے اب کہتے ہیں ، ایک بیٹا کہ جو خدائے ابن ہے، اور تیسرا خدا روح القدس ہے ۔بعض عیسائی قائل ہیں کہ تیسرا خدا حضرت مریم ہیں ۔

۸۳

یہ اعتقاد جس کو تثلیث کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایسا اعتقاد ہے جس کی خدا نے سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے اور اس کو رد کیا ہے اس بات سے لوگوں کو روکا ہے اور اس کے ماننے والوں کو کافر کہا ہے،

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:( لقد کفرالذین قالو انّ الله ) ۔۔''( ۱ ) جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے یقیناًوہ لوگ کافر ہیں اور اللہ کے علاوہ کوئی بھی خدا نہیں ہے؛ اگر یہ لوگ اپنے قول سے باز نہیں آئینگے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر دردناک عذاب ہوگا ۔

مسیحیوں کے اس عقیدے کو (جو وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں یعنی ان کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں ) خدا نے بہت ہی عجیب جانا ہے، قرآن کریم میں ارشادہورہاہے :وقالوااتخذالرحمٰن ولداً۔۔''( ۲ ) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے ایک فرزند بنا لیا ہے یقیناًتم لوگوں نے بہت سخت بات کہی ہے قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اورزمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں؛

____________________

(۱) سورہ مائدہ: آیہ ۷۳۔

(۲) سورہ مریم :آیہ ۸۸تا ۹۰۔

۸۴

سچ مچ قرآن کی یہ تعبیر کتنی سخت ہے ؟تثلیث کا اعتقاد اور یہ کہ عیسی خدا کے بیٹے ہیں اس حد تک غلط ہے اور بربادی کا سبب ہے کہ اس کے اثر سے قریب ہے کہ تمام آسمان اور زمین نیز پہاڑ تباہ و برباد ہو جائیں ۔کیا اس طرح کی تعبیر کے بعد بھی یہ کہنا صحیح ہے کہ تثلیث کا اعتقاد اور توحید کا اعتقاد دونوں ایک حقیقت کی طرف لے جانے والے ہیں ! ایک مذہب اسلام ہے جو کہتا ہے کہ سور کا گوشت کھانا حرام اور نجس ہے اور دوسرے مذاہب یہ کہتے ہیں کہ سور کا گوشت لذیذاور اچھا ہے اور اس کا کھانا جائز ہے؛ اسلام کہتا ہے کہ شراب اور الکحل نہایت بری چیز ہے اور شیطانی پھندے ہیں جب کہ مسیحیت کہتی ہے کہ بعض شراب کے کچھ حصہ میں خدا کا خون ہوتی ہے، کشیش (عیسائی عالم ) لوگ عشائے ربّانی کے مراسم میں روٹی کے ٹکڑے کو شراب میں ڈبوتے ہیں پھر سب منھ میں ڈالتے اور کہتے ہیں کہ شراب جب انسان کے خون میں جاتی ہے تو خدا کا خون بن جاتی ہے ؛عاقل اور بالغ انسان کوجانے دیجئے ایک معمولی بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ یہ دو دین اس حالت میں کسی بھی صورت میں ایک نقطہ اور منزل پر نہیں پہونچ سکتے ؛آپ خود دیکھیں ایک مذہب کہتا ہے کہ جب تک شراب نہیں پیوگے تم خدا کے ماننے والے نہیں ہو سکتے ہو جب کہ دوسرا مذہب یہ کہتا ہے کہ شراب پینا شیطانی عمل ہے ؛اب اس کے بعد بھی ہم کہیں کہ دونوں مذہب ایک مقصد تک لے جاتے ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ ایک احمقانہ بات ہے اور افسانہ و شعر سے مشابہ ہے نہ کہ واقعیت اور حقیقت سے ؛مگر یہ کہ خدا اور شیطان کو بھی ایک جانیں اور کہیں کہکعبہ اور بت خانہ سے مراد فقط تو ہی ہے

۸۵

سچ مچ یہ بہت ہی تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اس کے باوجود'' بہت سے سیدھے راستوں'' کے قول پراصرار کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ سب اختلاف اور تعارض جو ادیان میں پایا جاتا ہے ان سب کا نتیجہ ایک ہی ہے ؛یعنی سب کے سب آخر میں ایک مقصد تک پہونچتے ہیں ؛آخر یہ کیسے ممکن ہے اسلام کا نظریہ کہخدا موجود ہےاور بودھ ازم کا نظریہ یہ کہکوئی بھی خدا موجود نہیں ہے' 'اور پھر بھی دونوں ایک حقیقت تک پہونچتے ہوں؟!یہ کیسے ہو سکتا ہے حضرت علی کو بھی مانا جائے اور معاویہ کو بھی ؛حضرت امام حسین کو بھی قبول کریں اور یزید و شمر ذی الجوشن کو بھی؟! اور یہ اعتقاد رکھیں کہ سب کے سب حق پر ہیں اور جس کے پیچھے بھی چلا جائے وہ سیدھا راستہ ایک ہے اور منزل مقصود تک پہونچانے والاہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک پورب کو جاتا ہے اور ایک پچھم کو، ایک اتر کو جاتا ہے اوردوسرا دکھن کو، اور ہر ایک کا الگ الگ راستہ ہے اور پھر بھی اسی بات پر اصرار ہے کہ سب کے سب سیدھے راستے پر ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں ۔

۸۶

شعر:

ترسم نہ رسی بہ کعبہ ای اعرا بی

این رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است

اے اعرابی !میں ڈرتا ہوں کہ تو کعبہ کو نہیں پہونچے گا اس لئے کہ جس راستے پر تو جا رہاہے وہ راستہ ترکستان کو جاتا ہے ۔

بہر حال پلورالزم دینی کی یہ دوسری تفسیر جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ادیان اور مذاہب ہم کو ایک منزل مقصود تک لے جاتے ہیں اگر چہ اشعار کے لحاظ سے ایک اچھی چیز ہے ہے لیکن حقیقت اور واقعیت سے خالی ہے اور اس کا باطل ہوناسورج سے بھی زیادہ روشن ہے ۔

دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر

تیسرابیان جو دینی پلورالزم کے لئے کیا جاتا ہے وہ اصل میں ایک معرفت شناسی پر منحصر ہے اس بنیاد پر وہ تمام چیزیں جو کہ غیر حسیّ اور غیر تجربی ہیں یعنی ان کو محسوس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا تجربہ کیا جا سکتا ہے ؛وہ بے معنی ہیں اور نفی اثبات کے لائق نہیں ہے اگر چہ اس کی تفصیل معرفتی شناخت سے مربوط ہے لیکن اس کی مختصر وضاحت یہاں پر کی جارہی ہے :

معرفت شناسی کی بحث میں بعض (پوزٹیوسٹ)کہتے ہیں کہ جو پہچان اور معرفت والی چیزیں ہیں وہ دو حصّوں میں منقسم ہوتی ہیں

۸۷

پہلی قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ محسوس کی جاسکتی ہیں اور ان کو دیکھا جا سکتا ہے جیسے ہم کہیں کہ چراغ روشن ہے یہ بات تجربہ اور محسوس کرنے کے قابل ہے آپ بٹن کو دبائیں گے تو پورا کمرہ تاریک ہو جائیگا اور کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا پھر آپ بٹن کو دبائیںگے تو پورا کمرہ جگمگااٹھّے گا اور آپ جس چیز کو بھی دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں ،یا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آگ جلاتی ہے تو یہ تجربہ کرنے والی چیزہے ؛اور اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے؛ اگر آپ اپنے ہاتھ کو آگ کے قریب لے جائیں گے تو ہاتھ جل جائے گا۔ اس طرح کی چیزیں جو تجربہ کی جا سکتی ہیں اور ان کو محسوس کیا جا سکتا ہے تو ان کے متعلق یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ سچ ہے یا یہ جھوٹ ؟حق ہے یا باطل؟ صحیح ہیں یا غلط؟ کیونکہ معلوم کرنے کا راستہ یہی حس اور تجربہ ہے ۔

دوسری قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ حس اور تجربے میں نہیں آسکتی ہیں یا وہ تجربے کے لائق نہیں ہیں ان چیزوںکا اقرار یا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے؛ یا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں کچھ معنی نہیں رکھتی ہیں ، اوران میں سچ یا جھوٹ نہیں پایاجا تا ہے لہذٰا ایسی چیزوں کے بارے میں کچھ بھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جو افراطی (شدّت پسند) پوز یٹوسٹ ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی چیزیں اصلاً بے معانی ہیں ان کا ہونا اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہاس چراغ کی روشنی کا مزہ کھٹّا ہےیا یہ کہیں کہاس چراغ کا نور انگلینڈ کا بادشاہ ہےجس طرح یہ دونوں چیزیں بے معنی ہیں اور کچھ مطلب نہیں رکھتی ہیں اسی طرح وہ چیزیں جو کہ تجربہ کے لائق نہیں ہیں اور محسوس نہیں کی جا سکتی ہیں وہ بھی ایسی ہی ہیں ؛دین سے متعلق باتیں بھی یہی حکم رکھتی ہیں مثلاً یہ بات کہ خداموجود ہے، خدا ایک ہے یا خدا تین ہے یا خدا نہیں ہے یہ سب بھی بے معنی اور بے مفہوم باتیں ہیں کہ ان کے حق یا باطل ہونے یا سچے اور جھوٹے ہونے کا دعویٰ کرناغلط اوربیکارہے اور کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس ایک کو مانتے ہیں چاہے آپ یہ کہیں کہ خدا ایک ہے یا یہ کہیں کہ خدا تین ہے دونوں باتیں فائدہ کے اعتبار سے برابر ہیں اور کچھ بھی معنی و مفہوم نہیں رکھتی ہیں ،یہ سب باتیں نہ ہی پیٹ کی غذا بنتی ہیں اور نہ ہی جسم کا لباس اور نہ ہی انسانی زندگی کی کسی بھی مشکل کا حل پیش کرتی ہیں ۔

۸۸

لیکن جو پوزیوٹیسٹ اعتدال پسند ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں ؛جن کو اصطلاح میں ما وراء طبعت کہا جاتا ہے ؛اس طرح کی چیزیں بے معنی نہیں ہیں ؛ لیکن چونکہ ہماری پہونچ سے باہر ہیں اور ہم ان کو محسوس اور ان کا تجربہ نہیں کر سکتے لہذٰا ان کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ثابت ہیں یا نہیں اس نظریہ کا نتیجہ نسبیت اور شکاکیت ہے یعنی غیر حسی اور غیر تجربی چیزوں کے بارے میں دینی باتوں کا بھی شمار انھیں میں ہوتا ہے ،یا یہ کہیں گے کہ ان کے حق یا باطل ہونے کو ہم نہیں جانتے ہیں ؛کیونکہ وہ ہمارے تجربے میں نہیں ہیں ، یایہ کہیں گے کہ ان کا جھوٹ اور سچ ہونا معاشرہ اور زمانے کے اعتبار سے فرق کرتا ہے کبھی کبھی سارے حق بھی ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی سب کے سب باطل بھی ہو سکتے ہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم ان کو کس شخص ،کس زمانہ،کس معاشرہ اور کس ماحول کی نسبت دیکھتے ہیں ۔کبھی یہ کہا گیا ہے کہ افکار واقدار کے مفاہیم یا وہ چیزیں جن میں اچھائی اور برائی ہو سکتی ہے ان میں حق اور باطل نہیں پایا جاتا ہے اور اس طرح کی خبریں جیسے ' عدالت کے ساتھ انسان کو سلوک کرنا چاہئیے' ظلم نہیں کرنا چاہئیے' سچ کہنا اچھی بات ہے' جھوٹ بولنا بری بات ہے یہ سب باتیں احساس اور سلیقے اور جذبات وغیرہ سے متعلق ہیں ؛یہ اسی طرح ہے کہ جیسے ہر شخص اپنے اپنے ذوق و سلیقہ کے مطابق رنگ کو پسند کرتا ہے،

۸۹

اگرچہ یہ باتیں معنی رکھتی ہیں لیکن ان پر کوئی دلیل اور برہان نہیں ہے ۔

بہر حال دینی پلورالزم کی تیسری تفسیرکے مطابق ادیا ن اور دینی باتوں میں اختلاف کی مثال یا رنگ جیسی چیز ہے کہ مطلق طور سے نہیں کہا جا سکتا کہ سبز یا زرد رنگ اچھا ہے یا ایک اچھا ہے اور دوسرا خراب ہے بلکہ ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ دونوں اچھے اور بہتر ہیں ۔ یا یہ کہیں کہ ہم چونکہ ان کی حقیقت سے نا آشنا ہیں ؛اور ان کے قبول یا ردکرنے پر ہم کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے لہذٰا ان کے بارے میں ہم کو جھگڑا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ہم کو اس بات کا اعتقاد رکھنا چاہئیے کہ سب کے سب برابر ہیں ان ادیان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے اور جس کسی کو بھی چاہیں اختیار کر لیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر کاتجزیہ

اس تفسیرپر نقد وتبصرہ کے لئے جو راستہ ہمارے پاس ہے وہ یہ کہ اس کے معرفت شناسی ہی کے مبنیٰ اور اصول کو بحث کا موضوع قرار دیں اورا س میں غور وفکر کریں ؛اس کے لئے ہم کو سب سے پہلے اس بات پر توجہ کرنی چاہئے کہ معرفت شناسی کی بحث میں ہم کو مندرجہ ذیل سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

(۱) جیسا کہ افراطی''پوزیوٹیسٹدعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اشیاء جو کہ واقعی اعتبار سے حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں وہ بے معنی ہیں ؟

(۲) کیا وہ باتیں جو کہ افکار واقدار کے مفاہیم پر مشتمل ہیں اور کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے یا ان کے اچھے یا برے ہونے کو بتاتے ہیں ؛ ان کو سچ یا جھوٹ سے متصف نہیں کیا جا سکتا اور ان کے بارے میں حق و باطل کو پیش نہیں کیا جا سکتا ؟

(۳)کیا عام طور پر ہر معرفت چاہے صحیح اورحق ہونے سے متعلق ہو یا غلط اور باطل ہونے سے، نسبی ہے اور کوئی بھی بات مطلق و پائدار اور یقینی نہیں ہے ؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ ہم ان تمام جگہوں پر یقینی باتوں کو جان سکتے ہیں ۔

(۴) خاص طور پر دینی معرفت کیا دینی معرفت کے متعلق، یقینی ، مطلق اندازمیں اور ثابت طریقے سے پائی جاتی ہے؟ یا یہ کہ تمام دینی معرفیتں خود ہماری فہم اور سمجھ کی تابع ہیں کہ جسے آج کی اصطلاح میں ہماریمختلف قرائتیںکہا جاتا ہے ۔ یہ بحث وہی ہرمنو ٹکاور دینی باتوں کی ہر منو ٹک تفسیر کی بحث ہے۔

دینی پلورالزم کا یہ تیسرا بیان آیا صحیح ہے یا غلط ؟پہلے ان مذکورہ سوالات کے جواب واضح ہوںکہ انشااللہ ہم آئیندہ بحث میں جن کو بیان کریں گے۔

۹۰

دینی پلورالزم (۳)

پلورالزم نظریہ کی پیدائش میں نفسیاتی عوامل پر دوبارہ ایک سرسری نظر

پچھلے جلسہ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا تھا کہ پلورالزم کی فکر پیدا ہونے میں جو اسباب و عوامل ہیں ان میں ایک نفسیاتی سبب بھی ہے جو کہ بہت سے لوگوں 'خاص کر جوانوں 'میں پایا جاتا ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے ادیان و مذاہب پائے جاتے ہیں اور بہت سے لوگ خلوص اورسچائی کے ساتھ اس کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سب لوگ جہنم میں جائیں گے؟ اور فقط ایک مختصر سی جماعت جو کہ مسلمانوںہیں وہ بھی مسلمانوں کا ایک خاص گروہ (شیعہ)ہی جنت میں جائیں ؟ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ شیعوں میں بھی وہی لوگ جن سے کوئی گناہ نہ ہوا ہو یا اگر گناہ ہو گیا ہو تو انھوں نے توبہ کر لی ہو بس وہی جنت میں جائیں گے؛ چونکہ یہ بات عام طور سے لوگوں کے لئے ناممکن لگتی ہے اور وہ اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں لہذا یہ مسئلہ ان کے ذہن میں تقویت کرجاتا ہے کہ تمام دین کے ماننے والے یا کم سے کم وہ لوگ جو کہ اپنے دین کے پابندبہیں اور ان کے احکام پر عمل کرتے ہیں وہ بھی نجات کے مستحق ہیں اور بہشت میں جائیں گے ۔

پہلے جلسہ میں ہم نے اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ اس شبیہ کو ذہن سے دور کرنے کے لئے اس نکتہ کی طرف توجہ دینا ہوگاکہ جس وقت ہم یہ کہتے ہیں :''دین حق فقط اسلام ہے اور اس کی پیروی انسان کے لئے کامیابی اور نجات کا سبب بنتی ہےاس کا نتیجہ اور لازمہ یہ نہیں ہے کہ دوسرے تمام انسان جہنم میں جائیں گے ۔بلکہ یہاں دوسرے تمام انسانوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (البتہ ان دو گروہوں میں اکثریت کس گروہ میں ہیں اور کون لوگ اقلیت میں ہیں یہ ایک حسابی بحث ہے جو کہ ہماری گفتگو سے مربوط نہیں ہے)،وہ دونوں گروہ یہ ہیں :

۹۱

( ۱ ) پہلے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو حق کو تلاش کرتے ہیں اور اس کی جستجو میں محنت ومشقّت کرتے ہیں ؛ اور واقعی طور سے اس بات کی کوشش میں ہیں کہ حق کو حاصل کر لیں لیکن کسی بھی سبب سے اس کو نہیں پا سکے ہیں ۔

( ۲ ) دوسرے گروہ میں وہ لوگ ہیں جوتحقیق کے حالات اور اسباب فراہم ہونے کے باوجود حق کو تلاش نہیں کرتے ہیں یا یہ کہ ان کے نزدیک حق واضح تھا کہ فقط مذہب اسلام حق ہے،پھر بھی اس کو قبول نہیں کیا جو لوگ جہنم میں جائیںگے یہی دوسرے گروہ والے ہیں ؛ لیکن پہلے گروہ والے جنھوں نے حق کے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے یا اس کو پہچاننے میں غلطی کر بیٹھے ہیں اور حق تک پہونچنے سے رہ گئے ہیں ان کے ساتھ دوسری طرح سے سلوک کیا جائیگا ان افراد کو علم فقہ و کلام کی روشنی میں مستضعف] کہ جس سے مراد یہاں پر مستضعف فکری ہے[ کہا جا تا ہے اگر ان لوگوں نے انھیں حقائق پر عمل کیا ہے یا جو اپنی عقل سیایک خاص دین کی تعلیمات کے ذریعہ ان کو حاصل کیا ہے تو وہ لوگ اپنے نیک عمل کی جزا پائیں گے ۔

البتہ یہ بات کہ کیا یہ لوگ جہنم کے نچلے طبقہ میں جگہ پائیں گے ،یا جنت و جہنم کے درمیان ان لوگوں کے لئے کوئی بیچ کا حصّہ مخصوص ہو گا ،یا یہ کہ قیامت کے میدان میں ایسے لوگوں کے لئے سوال و جواب کا کوئی امتحان منعقد ہوگا ،یہ سب دوسرے مسائل ہیں ( جو کہ تفصیلی بحث چاہتے ہیں ) لیکن بہر حال یہ گروہ ابدی عذاب میں گرفتار اور مبتلا نہیں رہے گا ۔

۹۲

آیہ''( ومن یبتغ غیرالاسلام دیناً ) کی توضیح

جو سوال اس جگہ سامنے آتا ہے ( در اصل گذشتہ مطالب کو مختصراً میں نے اس سوال کو پیش کرنے کے لئے بیان کیا تھا ) وہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں خدا وند عالم فرماتا ہے :( ومن یبتغ غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منه ) ( ۱ ) اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کو تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ قیامت کے روز گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو گا ۔یہ آیہ کریمہ بالکل واضح انداز میں اس بات کو بتاتی ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین قابل قبول نہیں ہے جب کہ آپ کے بیان کے مطابق دوسرے ادیان بھی کم و زیادہ کچھ نہ کچھ قبول کئے جائیں گے اس مشکل کو کس طرح حل کیا جائے گا ؟

یہ آیہ ایک تفسیری بحث رکھتی ہے اگر اس کی تفصیل میں جائیں گے تو اصلی بحث سے خارج ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اس مطلب کو مختصراً عرض کرتے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ آل عمران : آیہ ۸۵۔

۹۳

وہ دین جو کہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں لوگوں کے لئے آیا تھا ؛حقیقت میں وہ بھی دین اسلام تھا اور لوگوں کے لئے ضروری تھا کہ اس دین پر عمل کریں جب تک کہ کوئی

نئی شریعت نہ آجائے ۔جس وقت حضرت موسیٰ شریعت لیکر آئے تو حضرت ابراہیم کی شریعت منسوخ ہو گئی ؛لیکن حضرت موسیٰ کا دین بھی دین اسلام تھا فرق صرف اتنا تھا کہ بعض احکام جو حضرت ابراہیم کی شریعت میں تھے وہ منسوخ ہو گئے ؛حضرت موسیٰ کی شریعت بھی حضرت عیسیٰ کی شریعت آنے کے بعد منسوخ ہوگئی ؛اور لوگوں پر ضروری ہو گیا کہ وہ نئی شریعت کے مطابق جو کہ حضر ت موسیٰ سے کچھ فرق رکھتی تھی اس پر عمل کریںلیکن پھربھی حضرت عیسیٰ کا دین وہی تھا جو کہ حضرت موسیٰ کا دین تھا اور آخر کار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے سے پچھلی شریعتیں منسوخ ہو گئی ؛اور لوگوں پر ضروری ہو گیا کہ لوگ شریعت محمدی پر عمل کریں ؛اور ہم جانتے ہیں کہ شریعت محمدی وہی دین اسلام ہے؛ لیکن یہ شریعت کچھ خاص اورا ہم قوانین و احکام لیکر آئی جو کہ اس شریعت کو دوسری شریعتوں ممتاز اور جدا کرتی ہے یہاں پر اسلام نے ایک خاص معنی پیدا کر لئے اور وہ وہی معنی ہیں جن کو ہم سمجھتے ہیں ۔ اس وضاحت سے یہ بات روشن ہو گئی کہ اسلام مختلف مصداق رکھتا ہے اسلام کا ایک مصداق شریعت ابراہیمی ہے ؛اس کا دوسرا مصداق حضرت موسیٰ کی شریعت ہے اسی طرح دوسرے اور مصداق بھی ہیں ؛ لہذااس آیہ کا مطلب اور مفہوم یہ ہوا کہ جو کوئی بھیان مصادیق اسلام سے جس مصداق کے زمانہ میں ہو تواس کو وہی قبول کرنا ہوگا اور دوسرا دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا؛ بہر حال اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ جس کسی نے بھی حضرت موسیٰ، عیسیٰ،یا ابراہیم کے دین کو قبول کیا ہے اس کا دین خدا کے یہاں قابل قبول ہے لہذا

۹۴

اس آیت کا یہ مطلب کہ (اس زمانے میں جو کوئی بھی اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کو قبول کرے گا اس کو خدا قبول نہیں کرے گا )اس کے معنی یہ ہیں کہ اس زمانے میں بھی خدا نے جو دین پیغمبروں کے ذریعہ بھیجا تھا اس کو بھی قبول کرے اور ان خاص احکام کو بھی جن کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لیکر آئیں ہیں قبول کرے۔البتہ ایک شریعت کے ذریعہ دوسری شریعت کے احکام کا نسخ ہونا مخصوص نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ ایک ہی شریعت اپنے کچھ پچھلے احکام کو نسخ کر دے ؛مثلاً شروع اسلام ،میں مسلمانوں کو حکم تھا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں اور یہ حکم یہاں تک مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے بعدتک باقی رہا؛ لیکن جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کی اور مدینہ آئے تو خدا کے حکم سے قبلہ بیت المقدس سے کعبہ کی سمت ہو گیا۔ لہذٰا بعض احکام کا نسخ ہونا اصل دین کے بدلنے کا سبب نہیں ہوتا ہے؛ اصل دین توحید، نبوت ،قیامت کا اعتقاد ہے۔ تمام انبیاء پر ایمان رکھنا ہی نبوت کا اعتقاد ہے قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے :( آمن الرسول بما انزل الیه من ربّه'' ) ( ۱ ) رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے پرور دگار کی طرف سے نازل کی گئی ہیں اور مومنین بھی سب کے سب اللہ اور

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیہ ۲۸۵

۹۵

اس کے ملائکہ ،رسول اور ان کتابوں پر جو وہ لیکر آئے ان پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم رسولوں کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہیں یعنی ہم کسی بھی پیامبر کی تکذیب

نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا حق رکھتے ہیں اور سب کو واجب الا طاعت سمجھتے ہیں البتہ اگر موسیٰ، عیسیٰ بھی اس زمانے میں ہوتے تو وہ بھی شریعت محمدمصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرعمل کرتے۔

دین اختیار کرنے میں ہماری ذمہ داری اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا حکم

لہذٰا اس زمانے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن ،پیغمبر اور ائمہ علیھم السلام کے احکام پر عمل کریں اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے حکم پر عمل کریں گے تو وہ قبول نہیں ہوگا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دین حقیقی طور پر پچھلے ادیان سے جدا ہے اگر چہ ادیان بعض احکام میں جدا ہیں اور اختلاف رکھتے ہیں لیکن کلی اصول اوربہت سے احکام میں سارے ادیان ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اوروہ سب اسلام میں ہیں ،لہذٰا اگر کوئی شخص حق کو پہچاننے یا مشخص و معین کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ مستضعف ہے اور اس نے جتنا پہچانا ہے اتنا ہی اس کو عمل کرنا چاہئے ،اسی پر اس کو ثواب ملے گا لیکن اگر کسی نے کسی زمانے میں حق کو پہچانا اور اس کے باوجود اس کی مخالفت کی اور دشمنی اختیار کی تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلے گا، یہ مطلب دعائے کمیل کے اس فقرے سے بھی ظاہر ہوتا ہے، مولا علی فرماتے ہیں :اقسمت ان تملاهامن الکافرین من الجنة والناس اجمعین وان تخلدفیها المعاندین ائے خدا ! تو نے قسم کھا کر کہا ہے کہ اس جہنم کو تمام جن و انس کہ جو کافر ہوںگے بھر دوں گا اور وہ لوگ جو تیرے دین سے دشمنی رکھتے ہیں

۹۶

ان کو اس جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رکھے گا ، بہر حال جو لوگ بھی خدا کے دین سے دشمنی اور عناد رکھتے ہیں وہی لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، لیکن اگر کوئی شخص عناد و دشمنی نہیں رکھتا ہے اگر وہ عذاب میں مبتلا بھی ہوگا تو اسی مقدار میں جتنا اس نے گناہ اور کوتاہی کی ہے، مستضعفین بھی اسی مقدار میں عذاب سے معاف رہیں گے جتنا وہ حق کو نہیں پہچان سکے ہیں ۔ اس مقام پر جس مطلب کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اگر مسلمانوں (شیعوں) کے علاوہ جو لوگ جہنم میں نہیں جائیںگے تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کا دین حق پر تھا بلکہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس عذر ہے ؛البتہ جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے جو لوگ پچھلی شریعت جیسے موسی یاٰ عیسیٰ کے دور میں زندگی بسر کر کر رہے تھے ان کی ذمہ داری اسی شریعت پر عمل کرنے کی تھی۔ بہر حال دین حق اور صراط مستقیم صرف ایک ہی ہے ،او رجو لوگ اس ایک صراط مستقیم یعنی اسلام کے علاوہ کسی دین پر رہ کر جہنم میں نہ جائیں گے تو اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ دین حق اور صراط مستقیم (سیدھے اور صحیح راستے) ایک سے زیادہ ہیں ۔

نفسیات سے متعلق ایک نکتہ

ایک نکتہ اس جگہ پر بہت اہم ہے وہ یہ کہ انسان ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ پہلے کسی چیز کی خوبی اور اچھائی کے بارے میں دلیل کو تلاش کرے اور جب دلیل مل جائے تو اس چیز کو اختیا رکر لے بلکہ کبھی کبھی مسئلہ اس کے بر خلاف ہوتا ہے یعنی پہلے کوئی چیز انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کو اچھی لگتی ہے ،اس کے بعد اس کے اچھے ہونے یا صحیح ہونے پر دلیل لاتا ہے؛ اس طرح کے موقعوںپر انسان اپنے دل کی حرکت کا تابع ہوتا ہے

۹۷

کبھی تو یہ اچھی اور صحیح چیز ہوتی ہے اور کبھی کبھی غلط ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ پہلے ان کا دل کسی چیز کو قبول کر لیتا ہے اس کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح بھی عقل کو دل کے ساتھ ہماہنگ کرلیں؛یعنی اس چیز کو ثابت کرنے کے لئے دلیل لاتے ہیں ۔یہ بات بہت سے ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے تھے؛ بہت سے لوگ ایسے نہیں تھے کہ پہلے تحقیق کریں اور اسلام کے اعتقاد کی تلاش و جستجو کریں اور جب تحقیق و جستجوکرلیا ہو اور توحید و خدا کی حقانیت ان کے لئے ثابت ہو گئی ہو تب ایمان لے آئے ہوں ؛بلکہ انھوں نے صرف رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رفتار اور ان کے اخلاق کو دیکھا تو ان کے دل نے کہا کہ وہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح ان کے ساتھ ہوں لہٰذاوہ ان کے ساتھ ہوگئے ؛پہلے ان کے دل نے قبول کیا اس کے بعد پھر اس پر دلیل پیش کی ۔یہ بات باطل میں بھی پائی جاتی ہے ؛یعنی چونکہ انسان ایک غلط چیز کی طرف رجحان رکھتا ہے اور اس کا دل اس کو چاہتا ہے تو وہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیہ کرے؛ بہت سے لوگوں نے گناہ ،اور برائی کی عادت کر لی ہے ان کا دل چاہتا ہے کہ ہر طرح آزاد رہیں ؛اور جس چیز کا بھی دل چاہے اس کو انجام دیں ؛ظاہر سی بات ہے ایسے لوگ اس بات کے لئے تیار نہیں ہیں کہ حساب و کتاب اور قبر و قیامت ہو؛ان کا دل اس بات کو گوارانہیں کرتا اور نہ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی عمر کا ہر لمحہ اور ان کی زندگی کا چھوٹا سا عمل بھی کسی کے زیرنظر رہے، اور ہر چیز کے بارے میں سوال و جواب ہوگا اسی لئے ان کا دل چاہتا ہے کہ حساب و کتاب نہ ہو ؛اور ان خواہشوں کے لئے انسان کوشش کرتا ہے کہ قیامت اور آخرت کے انکار کے لئے دلیل تلاش کرے، قرآن میں اسی سے متعلق خدا فرماتا ہے :( ایحسب الانسان ان لن یجمع عظامه بلیٰ ) ( ۱ ) کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر پائیں

____________________

(۱) سورہ قیامت : آیہ ۳ الیٰ ۵ ۔

۹۸

گے؟ یقیناًہم تو اس بات پر بھی قدرت رکھتے ہیں کہ ان کی انگلیوںکے پور کو بھی از سر نو ویسے ہی درست کر دیں؛ بلکہ انسان تو فقط یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے وہ انسان جو قیامت کا انکار کرتا ہے واقعاً کیا وہ فکر کرتا ہے کہ ہم اس کو دوبارہ زندہ نہیں کر پائیں گے ؟ اگر وہ تھوڑی سی بھی فکر کرے اور عقل وفہم سے کام لے تو اچھی طرح سمجھ سکتا

ہے کہ وہ خدا جس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا کیا دوبارہ اسی انسان کو زندہ نہیں کر سکتا ہے یقیناًیہ کام پہلے سے زیادہ آسان ہے چونکہ شروع میں انسان کچھ بھی نہیں تھا اور خدا نے اس کو پیدا کیا اور اب تو کم سے کم گوشت اور ہڈیّ تو ہے اگرچہ بوسیدہ اورسڑ گل گئی ہیں لہذٰا انسان کی عقل اس بات کو آسانی سے قبول کر لیتی ہے کہ جس ہاتھ نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی قدرت دوبارہ اسی بوسیدہ اور سڑی گلی ہڈیوں اورگوشت کو جمع کر کے زندہ کر سکتا ہے، لہذٰا قیامت کے منکر اس حد تک اپنی بات پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ وہ صرف اس لئے کہ''بل یرید الانسان لیفجر امامه ''یعنی انسان چاہتا ہے کہ آزاد رہے کسی کی قید و بند میں نہ رہے ،بلکہ اسکو اس بات کی بھی آزادی حاصل رہے کہ جس گناہ اوربرائی کو بھی اس کا دل چاہے اس کو انجام دے ؛اور اس کے کام میں کوئی بھی حساب و کتاب نہ ہو ،بس اس جگہ پہلے اس کے دل نے فتویٰ دیا کہ آخرت اور قیامت وغیرہ نہیں ہے اس کے بعد اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس بات پر دلیل لائے اجتماعی مسائل اکثر ایسے ہی ہیں کہ جن میں بجائے اس کے کہ دل عقل کے پیچھے ہو ،عقل دل کے پیچھے چلتی ہے ۔

۹۹

اس کا زندہ ثبوت ہمارے زمانہ میں پایا جارہا تھا وہ مرکس ازم کی طرف لوگوں کا رجحان اور اعتقاد تھا ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں نے پہلے جاکر ماٹریالزم اورڈیا للٹک کے اصول پر بحث اور جستجو کی ہو اور دلیل و برہان سے ان کے لئے ثابت ہوا ہو کہ مادہ کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے اورمارکسی اقتصاد اور اس سے متعلق سارے مسائل صحیح اور درست ہیں ۔میں خود ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ مسلمان نمازی اور روزہ دار تھے لیکن مارکسسٹ تھے اور ان کی فکر تھی کہ یہ دونوں چیزیں (اسلام اور مارکس ازم) جمع ہو سکتی ہیں ۔ آخر ان لوگوں نے مارکیزم کی طرف رجحان کیوں پیدا کر لیا تھا ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے سماج اور عوام کے درمیان ظلم و ستم اور دولت و ثروت کی ذخیرہ اندوزی کو دیکھا وہ اس بات کو دیکھ رہے تھے کہ کچھ لوگ دولت کی زیادتی کے سبب اس بات سے لا علم تھے کہ اس کو کس طرح سے خرچ کیا جائے ،اس کے مقابلے میں کچھ لوگ بہت ہی فقیری اور مفلسی میں زندگی بسر کر رہے تھے اس وقت ان لوگوں نے سوچا کہ یا تو سرمایہ داری کو قبول کر لیں یا مارکس ازم کو قبول کر لیں ،سرمایہ داری کا انجام معاشرہ میں یہی واضح اور افسوسناک طبقاتی فاصلہ تھا

لہذٰا ان لوگوں نے مارکس ازم کو قبول کر لیا ؛اس کے بعد مارکس ازم کو قبول کر لیتے تھے تو

رفتہ رفتہ علمی اصطلاح میں مارکس ازم کے لئے دلیل بھی تلاش کرنا شروع کر دیتے تھے اور آہستہ آہستہ ماٹریا لیزم اور مادہ کی اصالت کو قبول کر لیتے تھے پلورالزم کے بارے میں بھی بعض جگہوں پر اکثر لوگوں کی ا یسی ہی کہانی ہے پہلے ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بات کو کس طرح قبول کریں کہ تمام کے تمام لوگ جہنم میں جائیں گے اور بہت کم ہی لوگوں کو نجات حاصل ہوگی ؟ ہم اس بات کو قبول نہیں کرسکتے ،ایک ایسا راستہ اختیار کریں کہ دوسرے لوگ بھی جنت میں جا سکیں۔ اس فکر کے پیچھے ان لوگوں نے اس نظریہ کو پیش کیا کہ' 'سارے دین حق پر ہیں اور اس بات کی کوشش کی کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دلیل بنائی جائے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ایک بیماری کے علاج کے لئے کسی دوا کی تحقیق کرنا چاہتاہے تو شروع میں وہ فلسفہ نہیں پڑھتا ہے کہ پہلے وہ فلسفہ پڑھے اور فلسفی اصول و قواعد کودلیل سے ثابت کرے ،لیکن اس کی یہ تحقیق ایک فلسفی اصول پر مشتمل ہے، اور وہ اصل علےّت ہے کہ وہ محقق لیبارٹیری(جانچ گھر)میں آکر گھنٹوں اپنے وقت کو ایک دوا کی تحقیق کے لئے صرف کرتا ہے کہ یہ دوا کسی خاص مرض کے لئے ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ بیماری خود بہ خود بغیر کسی علت اورسبب کے نہیں آئی ہے؛ اس بیماری کے آنے کا کچھ نہ کچھ سبب ضرور ہے اسی طرح وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ ممکن ہے ایسا دوسرا سبب بھی ہوجو اس کے لئے موثر ہو اس سے وہ بیماری دور ہو جائے اور اس مرض کا علاج بن جائے لہذٰا اسی وجہ سے کوئی بھی محقق بغیر اصل علیت (سبب) کو قبول کئے ہوئے تحقیق کے لئے نہیں آگے بڑھتا ہے، لیکن اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شروع میں اس نے فلسفہ پڑھا ہو اور اصل علیت کو اس نے قطعی اور یقینی دلیلوں سے ثابت کیا ہو پھر اس کے بعد وہ جانچ گھر میں تحقیق کے لئے آیا ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل علیت کا اعتقاد اس کے دل و دماغ میں دانستہ یا نادانستہ طورپر پہلے سے پایا جاتا ہے ۔

۱۲۱

دینی پلورالزم(۴)

اس سے قبل کے جلسے میں جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اس جلسہ میں اس بات کی وضاحت پیش کروں گا کہ پلورالزم اور لیبرالزم میں کیا ربط ہے اور اس کے بعد جو چند سوال پیش ہوئے ہیں ان کا جواب دوں گا۔

پلورالزم اور لیبرالزم کا رابطہ

''لیبرالزم'' اور'' پلورالزم'' میں رابطہ کی وضاحت کے لئے سب سے پہلے ان دونوں لفظوں کے معنی کو واضح اور معین کیا جائے، پلورالزم کے معانی سے متعلق پچھلے جلسوں میں وضاحت بہت ہی تفصیل سے کی گئی ہے یہاں پر لیبرالزم سے متعلق وضاحت پیش کی جاتی ہے ۔

لغت کے اعتبار سےلیبرالزم'' آزادی چاہنے کے معنی میں ہے اصطلاح میں اس کے معنی سے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ'' لیبرالزم'' ایک طرح کی آئیڈیو لوجی ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنی مرضی کے متعلق جس طرح چاہے عمل کرے اور جیسے چاہے زندگی بسر کرے ،کوئی بیرونی سبب یا شرط اس کے عمل کو محدود نہ کرے ؛مگر یہ کہ اس کا یہ عمل اور اس کی یہ رفتار دوسروں کی آزادی میں مخل ہو اور دوسروں کی آزادی میں رخنہ کا سبب بنے؛ لیبرالزم عام طور سے زندگی کے تین شعبوں اقتصاد، سیاست اور دین و ثقافت میں زیادہ بیان ہوتا ہے

''اقتصادی لیبرالزم'' اس معنی میں ہے کہ اقتصادی کام کاج اور فعالیت معاشرہ میں پوری آزادی کے ساتھ ہو اور جو شخص جو انسان جو چیز بنانا یا ایجاد کرنا چاہے اس کو وہ بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرے اور اس کی خرید و فروخت کرے ؛ خلاصہ یہ

کہ' ' اقتصادی لیبرالزم'' کی بنیاد پر چاہے وہ اشیاء کا بنانا ہو یا ان کا پیدا کرنا ؛چاہے و ہ معدنیات کی چیزیں ہوںیاکھانے پینے کی چیزیں ہوں یا تبلیغ اور پرچار کی ،حتیّٰ کہ سرمایہ گزاری سے متعلق ہر وہ چیز کہ جو اقتصاد کے زمرے میں آتی ہو ان میں کسی بھی طرح کی کوئی پابندی کوئی محدودیت نہ ہو ؛مگر یہ کہ دوسرے کی آزادی میں رخنہ ہو ۔

۱۲۲

سیاست کے میدان میں لیبرالزم کے معنی یہ ہیں کہ لوگ انتحاب اور چنائو کے طریقے اور حکومت کی تشکیل نیز حاکم کی تعیین اور قوانین کے بنانے اور اس کے نفاذنیز تمام سیاسی امورمیں پوری طرح سے بالکل آزاد ہیں اور وہ لوگ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ جس طرح چاہیں عمل کریں مگر صرف اس بات کا خیال رہے کہ دوسروں کی آزادی میں خلل اور رخنہ نہ پڑنے پائے ۔

لیبرالزم کی اصطلاح کبھی ثقافت اور دین و مذہب سے متعلق استعمال ہوتی ہے، سب سے پہلے جس شخص نے دین و مذہب میں لیبرالزم کے لفظ کو استعمال کیاشلایرماخر''ہے اس نے عرف عام میں پروٹسٹانزم لیبرالکے لفظ کو استعمال کیا ؛اس کے بعد یہ لفظ'' لیبرالزم'' کم وبیش دین کے بارے میں استعمال ہونے لگا ؛ بہر حا ل لیبرالزم دینی سے مراد یہ ہے کہ لوگ جس دین کو چاہیں پسند کریں؛اصل دین اور اس کے احکام کے قبول کرنے یا قبول نہ کرنے میں بالکل آزاد ہیں اور اس کے لئے ان پر کوئی بھی حد بندی اور پابندی نہیں ہونی چاہئے ۔اگر لیبرالزم کو فقط سیاست اور اقتصاد کے میدان میں پیش کریں تو اس صورت میں یہ دینی پلورالزم سے براہ راست کوئی ربط نہیں رکھتا ہے؛ لیکن اگر سیاسی اور اقتصادی لیبرالزم کے علاوہ دینی لیبرالزم کو بھی قبول کر لیں تو اس وقت لیبرالزم اور پلورالزم کے درمیان ربط پیدا ہو جائیگا ؛اور وہ اس طرح کہ انسان ایک دین کو چننے یا اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہے(یہ دینی لیبرالزم )یہ ہے کہ چند دین کو ان کے حق اور سچ ہونے کے اعتبار سے قبول کر لیا جائے (یہ دینی پلورالزم ہے) اس صورت میں ان دونوں کے درمیان منطقی لحاظ سے جو ربط پایا جاتا ہے وہ عام خاص مطلق ہے ]یاد رہے نسبتیں چار طرح کی ہوتی ہیں ]تساوی ، تباین ،عام خاص مطلق ، عام خاص من وجہ''ان میں سے ان دونوں کے درمیان عام خاص مطلق کا رابطہ ہے [دینی پلورالزم ہمیشہ لیبرالزم کا مصداق ہے؛ لیکن ہرلیبرالزم'' دینی پلورالزم کا مصداق نہیں ہے مثال کے طور پر لیبرالزم سیاسی لیبرالزم کا مصداق ہے لیکن دینی پلورالزم کا مصداق نہیں ہے البتہ پلورالزم اگر دوسرے میدانوں میں ] جیسا کہ پچھلے جلسات میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے [بھی ہو جیسے پلورالزم سیاسی ، اقتصادی اور معرفت شناسی پلورالزم بھی ہو تو اس وقت لیبرالزم اور پلورالزم کے درمیان رابطہ میں فرق ہو جائے گا ۔

۱۲۳

بہر حال اگر تاریخی سیر سے ہٹ کر ہم دیکھیں گے تو ان دونوںمفہوموں کے درمیان وہی رابطہ ہے جیسا کہ وضاحت کی گئی ہے لیکن تاریخی اعتبار سے اگردیکھیںتو پتہ چلتا ہے کہ ظاہراً''لیبرالزمکی فکرپلورالزمیہاں تک کہسیکولرزمپر بھی مقدم ہے ۔

دینی پلورالزم کی پیدائش کے اسباب پر دوبارہ ایک سرسری نظر

پچھلے جلسات میں پلورالزم کے نظریہ کے پیدا ہونے میں جو اسباب و علل ذکر ہوئے ہیں ان کی طرف اشارہ کیا گیا؛ ان وجوہات میں جن کو ذکر کیا گیا تھا سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اختلافات دینی کے سبب جو فساد اور خون ریزیاں ہوتی ہیں اس کودینی پلورالزم کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے؛ اور یہ فکر سب سے پہلے مسیحی مذہب میں پیدا ہوئی ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں جب ایک جرمن کشیشمارٹن لوتھر''نے مسیحی مذہب میں پروٹسٹان فرقے کو ایجاد کیا اور بہت سے عیسائیوں نے اس میں اس کی اتباع اور پیروی کی تو اس کے بعد کاتھولیک اور پروٹسٹان میں بہت ہی شدید لڑائی چھڑگئی اور یہ سلسلہ جاری رہا اور آج بھی بہت سے ممالک جیسے ایرلینڈ وغیرہ میں یہ فساد ہوتا رہتا ہے؛ اس سے قبل بھی عیسائی مذہب کے دو فرقوں ارٹڈوکس اور کاتھولیک میں جھگڑا پایا جاتا تھا بہت سے مسیحی علماء اور متکلمیں نے ان فرقوں کے درمیان جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے مسیحیت میں پلورالزم نظریہ کو پیش کیا ؛اور ان لوگوں نے کہا کہ بس صرف مسیحی ہونانجات کے لئے کافی ہے اور ارٹڈوکس،کاتھولیک،پروٹسٹان وغیرہ میں کوئی بھی فرق نہیں ہے۔

۱۲۴

اس کے بعد مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان جودیرینہ جنگ اور دشمنی پائی جاتی تھی اس کو ختم کرنے کے لئے دینی پلورالزم کا نظریہ پیش ہوا ؛اور اس بات کی کوشش کی گئی کہ یہ دشمنیاں ختم کی جائیں مثلاً مسیحی مناسک و اعمال خاص کر کاتھولیک مذہب میں ایک رسم پائی جاتی ہے جس کوعشائے ربانیکہتے ہیں ؛اس کو گویا مسیحیوں کی نماز کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگااس میں خاص دعا اور ذکر ، پڑھا جاتا ہے وہ چیز جو اس پروگرام یعنیعشائے ربانی'' میں پڑھی جاتی تھی یہ تھی کہ یہودیوں پر اس اعتبار سے کہ وہ حضرت مسیح کے قاتل ہیں لعنت کی جاتی تھی ۔جس وقت یہودی خاص طور سے صہیونی لوگ بعض سیاست کے سبب اس بات میں کامیاب ہوئے کہ ان لوگوں نے یورپ میں طاقت حاصل کی تو واٹیکان اس بات پر مجبور ہوا کہ کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ رسمی اور قانونی طور پر اس بات (بعنوا ن قاتل مسیح یہودیوں پر لعنت ) مسیحیوں کی نماز،عشائے ربانی سے حذف کردیا جائے اور مسیحی علماء نے فتویٰ دیا ؛کہ اب اس کے بعد'' عشائے ربانیکے مراسم میں یہودیوں پر لعنت نہیں کی جائے گی ؛اگر چہ کچھ مدت تک عشائے ربانی میں یہودیوں پر لعنت بندرہی لیکن پھر بھی مسیحی ،یہودی قوم کو حضرت مسیح کا قاتل سمجھتے رہے یہاں تک کہ شاید آپ نے ان آخری دنوں میں اس بات کو سنا ہوگا کہ پاپ نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ مسیحی اس اعتقاد کو اپنے ذہن اور دل سے بھی نکال دیں؛ اور اس کا سبب یہ بیان کیا کہ ہم یہودیوں سے صلح و دوستی کرنا چاہتے ہیں اور اب وہ وقت دور نہیں رہ گیاہے کہ جناب پاپ سرکاری طور پر مقبوضہ فلسطین( اسرائیل) میں جاکروہاں یہودیوں کے سربراہوںسے ملاقات کرنے والے ہیں ۔

بہر حال آگے چل کر مسیحیوں نے اس سیاست کو دنیا کے تمام مذاہب میں جاری کرنا چاہا؛ اور کہا کہ ہم کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب سے دینی اعتقادات کے مسئلہ میں جنگ و خونریزی نہیں کریں گے اور ہم سبھی مذہب کو قبول کرتے ہیں ؛ یہاںتک کہ بہت سے عیسائیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ اسلام مسیحیت سے اچھا دین ہے اور کھلے عام اس کا اعلان بھی کیا ؛لیکن کہا کہ بہر حال مسیحیت بھی ایک اچھا دین ہے ۔

۱۲۵

یہاں تک زیادہ تاکید آپس میں مل جل کر رہنے اور دینی اعتقادات اور مذہبی اختلاف کے سبب جنگ و خونریزی سے پرہیز کرنے پر تھی ؛ہم نے اس بات کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا کہ اسلام نے اس طرح کے عملی پلورالزم کو تمام آسمانی مذاہب اور اہل کتاب حتیٰ بعض غیر اہل کتاب کے درمیان قبول کیا ہے اور اس کو رسماًپہچانا ہے اور ان تمام لوگوں کے جان و مال عزت و آبرو کو مسلمانوں کی طرح قابل احترام جانا ہے لیکن جیسا کہ ہم نے اس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا تھاکہ'' پلورالزمفقط عملی پلو رالزم میں منحصر نہیں ہے بلکہ ا س نظریہ کی معتقدین نے اس کو نظری اور فکری پلورالزم تک وسعت دی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم کو نہ فقط عمل میں لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہئے بلکہ نظری اور فکری اعتبار سے بھی اس بات کو قبول کریں کہ تمام دین صحیح اور حق ہیں اور جو کوئی بھی ان میں سے کسی دین کا معتقد ہو اور اس کے دستورات اور احکام پر عمل کرے وہ کامیابی حاصل کرے گا اور اس کا اعتقاد و عمل قابل قبول ہوگا؛ البتہ اس بات کو ہم کس طرح قبول کر سکتے ہیں ؟جب کہ ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ سارے ادیان میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ہے ہم کس طرح ان سبھی کو حق اور صحیح جانیں؟ اس کی مختلف تفسیر پچھلے جلسوں میں میں نے پیش کی اور ان کے بارے میں مفصّل بحث و گفتگو کی یہیں سے میں چاہتا ہوں کہاس جلسہ کی بحث کے دوسرے حصہ کوشروع کروںیہ اسسوال کا جواب ہوگا جو کہ چند جلسہ پہلے پیش کیاگیا تھا ۔

۱۲۶

ایک عالمی دین کی بنیاد

سوال یہ ہے کہ کون چیزاس بات سے مانع ہے کہ ہم کہیں تمام دینوں میں کچھ چیزیں مشترک پائی جاتی ہیں ہم پہلے ان مشترکات کو پہچانیں پھر ان کو منظّم کر کے ایک عالمی دین کی صورت میں پیش کریں اور کہیں کہ دین کی حقیقت یہی مشترک مجموعہ ہے جو تمام ادیان میں مشترکہ طورسے پایا جاتا ہے اور جو اختلافات ان کے درمیان ہیں وہ فرعی اور ذوق و سلیقہ کاپہلو رکھتے ہیں اور ان کاہونا اور نہ ہونا اصل دین میں کوئی نقصان نہیں پہونچاتا ہے دین کی اصل یہی مشترکات ہیں اور اختلافات تو شاخ اور پتے کے مثل ہیں جن کو انسان اپنے ذوق اور سلیقے اور پسند کے مطابق اختیار کرتا ہے گویا یہ دینی پلورالزم کی چوتھی تفسیر ہے نظری اور فکری اعتبارسے یہ ان تینوں تفسیر کے علاوہ ہے جس کوہم نے پہلے جلسے میں پیش کیا تھا یہاں پر اس کی تھوڑی تفصیل اور وضاحت پیش کی جاتی ہے اور اس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے ۔

ایک واحدعالمی دین کی تاسیس کی تحقیق

ہماری نظر میں یہ فرضیہ و خیال بھی متن اور مطلب کے لحاظ سے متناقض ہے اور صحیح نہیں ہے علاوہ اسکے یہ نظریہ اپنے ثبوت پر دلیل نہیں رکھتا۔علمی اور فنی اصطلاح میں یہ خیال ونظریہ ثبوتی اور اثباتی دونوں لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔

۱۲۷

خود نظریہ کے مطلب اور ثبوتی اعتبار سے اعتراض یہ ہے کہ ایسے مشترکات یا تو دینوں کے درمیان پائے نہیں جاتے یا اگر ان مشترکات کو تلاش کر بھی لیا جائے تو اس قدر پیچیدہ وکلی اور اتنے مختصر ہیں کہ ان کو دین کا نام نہیں دیا جاسکتا، اسکی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ موجودہ جو ادیان یا مذاہب پائے جاتے ہیں ؛ان میں چار مذہب اسلام، مسیحیت، یہودیت ،اورزرتشتی کو ہم آسمانی دین جانتے ہیں اورہم اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ مسیحیت ،یہودیت اورزرتشتی مذہب میں بہت سی تحریفات (کمی وزیادتی)ہوئی ہیں ا وریہ موجودہ دین خداکے نازل کئے ہوئے دین کے علاوہ ہیں اور ان میں فرق پایاجاتا ہے؛ بہر حال شروع میں یہ تصورپیداہوتا ہے کہ ان چاروں ادیان کے درمیان مشترکات پائے جاتے ہیں کہ جن کو اخذ کیا جا سکتا ہے جیسے ایسا لگتا ہے کہ خداوندعالم کا اعتقاد تمام ادیان میں مشترک ہے لیکن تھوڑا سا غور و فکرکرنے کے بعدپتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور یہاں تک کہ وہ موارد جن میں ایسا لگتاہے کہ وہ سارے ادیان کااتفاقی مسئلہ ہیں ان میں بھی بنیادی اختلاف پائے جاتے ہیں ؛مثلاً وجود خدا وند عالم کے اصل اعتقادکے متعلق شروع میں یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ تمام ادیان کا مسلم اور مشترک اصول ہے لیکن اگر تھوڑا سا بھی غور و فکر کریں توہمارے لئے اس کے خلاف ہی بات ثابت ہوتی ہے۔

۱۲۸

وہ خدا جو کہ مسیحی دین میں پیش کیا جاتا ہے ؛اس کے لئے ممکن ہے کہ وہ انسان کی صورت میں آئے اور سولی پر چڑھے اور دوسرے انسانوں کا فدیہ اور اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے اور ان کی نجات اور چھٹکارے کا سبب بن جائے؛ مسیحیت میں خدا کی اس طرح تعریف کرتے ہیں کہ خدائے پدر، خدا ئے پسرکی صورت میں حضرت مریم کے بطن میں آیا اور ان سے پیدا ہوا اور کئی سال تک انسانوں اور مخلوقات کے درمیان اس نے زندگی بسر کی ، یہاں تک کہ اس کو سولی دے دی گئی اور پھر وہ دوبارہ آسمان پر چلا گیا ،یہودیوں کا خدا شاید اس سے بھی عجیب ہو، ان کا خدا ایسا ہے جس کے رہنے کی جگہ آسمان ہے اور کبھی کبھی وہ زمین پر آتا ہے او رتفریح کرتا ہے اور کبھی کبھی اس کو کشتی لڑنے کا شوق ہوتا ہے اور وہ یعقوب پیغمبر سے کشتی لڑتا ہے یعقوب اس کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ؛ اور اس کے سینے پر بیٹھتے ہیں مختصر یہ کہ یعقوب اس کے سینے پر سوا ررہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے ؛خدا کہتا ہے کہ پیارے یعقوب مجھکو چھوڑ دو صبح ہونے والی ہے، لوگ دیکھ لیں گے کہ تم نے مجھے زمین پر پٹخ دیا ہے (اور میری آبرو چلی جائے گی )یعقوب کہتے ہیں :جب تک مجھ کو برکت نہیں دو گے نہیں چھوڑوں گا ،خدا بھی یعقوب کے ہاتھوں سے چھٹکارا پانے کے لئے ان کو برکت دیتا ہے تب جاکر یعقوب اس کو چھوڑتے ہیں ؛ اور خدا دوبارہ آسمان کی طرف چلا جاتا ہے!!! العیاذ بااللہ

۱۲۹

در آنحالیکہ اسلام کے مطابق خدا جسم وجسمانیات نہیں رکھتا ہے نہ زمین پر آتا ہے اور نہ آسمان پر جاتا ہے؛ زمین اور آسمان، آج اور کل اس کے لئے برابر ہے اور اس کے لئے کوئی بھی فرق نہیں رکھتاہے ؛وہ زمین اور آسماناور زمان ومکان کا پیدا کرنے والا ہے وہ زمانے اور جگہ میں قید ہونے والا نہیں ہے ،وہ دیکھنے کے قابل نہیں ہے، تمام مخلوقات اس کے قبضئہ قدرت اور اختیار میں اور اس کی محکوم ہیں ،نہ اس کو کسی نے پیدا کیا ہے، اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے ،اور جو نا مناسب و بیہودہ باتوں کی نسبت یہود و نصاریٰ اس کی طرف دیتے ہیں ؛ خدا وند عالم ان تمام باتوں سے پاک و پاکیزہ ہے ۔

یہ بات بہت ہی واضح ہے کہ ان تینوں خدا میں فقط لفظ اور نام کا اشتراک پایا جاتا ہے؛ ورنہ وجود کے لحاظ سے ان کے درمیان کوئی بھی اشتراک نہیں پایا جاتا ہے اس کی مثال شیر اور شیر کی طرح ہے، پہلا دودھ کے معنی میں ہے اور دوسرادرندے (جانور)کے معنی میں ہے : آن یکی شیر است کہ اندر بادیہ وآن دگر شیر است اندر بادیہ

آن یکی شعر است آدم می خورد

وآن دگر شیر است کہ آدم می خورد

وہ بھی شیر ہے بادیہ(جنگل ) کے اندر اور وہ دوسرا بھی شیر ہے بادیہ (پیالے ) کے اندر وہ بھی شیر ہے جو آدمی کو کھاتا ہے اور وہ بھی شیر ہے جس کو آدمی کھاتا ہے۔

اگرجنگل کا شیر اور ناشتہ کا شیر(دودھ) ایک ہی ہے تواسلام اور یہودیت و مسیحیت کا خدا بھی ایک ہی ہے ؛حقیقت میں اسلام کے خدا اور یہودیت و مسیحیت کے خدا میں کون سی مشترک چیز پائی جاتی ہے ؟ ایک کہتا ہے کہ خدا جسم رکھتا ہے اور آسمان سے نیچے آتا جاتا ہے جب کہ اسلام کہتا ہے خدا جسم و جسمانیات سے مبراّہے؛آخر جسم ہےاورجسم نہیں ہےکے درمیان کیسے اشتراک ہو سکتا ہے ؟

۱۳۰

یہ تو ان محدود ادیان کی بات تھی جن کو ہم نے آسمانی دین میں محصور کیا ہے، لیکن اگر اس سے آگے بڑھ کر دیکھیں جس کو آج کی اصطلاح میں دنیا والے دین کا نام دیتے ہیں ؛ تو حالت اس سے نھی زیادہ خراب نظر آئے گی ۔دنیا کا ایک بہت پرانا دین بدھشٹ ہے جسکے ماننے والے بہت زیادہ ہیں بودھ ازم اصلاً خدا کا اعتقاد نہیں رکھتے جو کچھ یہ دین کہتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اس دنیاوی و مادی قید وبند اور لگائو سے دور رہنا چاہئے تاکہ وہ بلند وبالا مقام حاصل کر کے کمال پر پہنچ جائے، صرف اسی صورت میں وہ سارے رنج وغم سے چھٹکارا پا سکتا ہے اور مطلق طور پرخوشی اور کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔

اس اعتقاد (خدا نہیں ہے)اور آسمانی ادیان کے نظریہ میں (خدا موجود ہے)کون سی اشتراک کی وجہ ہے ؟جس کو ہم اختیار کریں اور اسکو ایک عالمی دین کے عنوان سے انسانوں کے سامنے پیش کریں؟

اگر اس سے بھی آگے بڑھیں اوراگوسٹ کانٹ''کی طرح انسان کیخدا ہونے کے قائل ہوں؛ تو حالت اس سے بھی بدتر نظرآئے گی ،اگوسٹ کانٹ کہتا ہے''ہاں انسان دین چاہتا ہے لیکن وہ دین نہیں جو خدا،پیغمبر،وحی اورماوراء الطبیعت کی چیزیں رکھتا ہو؛ بلکہ وہ دین جسکا خدا خود انسان ہو، اور پیامبرعقل ہو، تمام موجودات کا محور انسان ہے اور تمام چیزوں کا قبلہ و معبودومسجود یہی انسان ہے اور تمام ہستی اور عالم وجود کو انسان کی چاہت اور خواہش کے مطابق ہونا چاہئے۔

۱۳۱

اب ہم دوبارہ سوال کریں گے کہ وہ دین جس کا معبود خود انسان ہویا وہ دین جس کا معبود جسمانی اعتبار سے محدود ہو او ر یعقوب کے ہاتھوں گرفتار ہو یا وہ دین جس میں گائے کو پوجا جاتاہویا وہ دین جو کہ اصلاً خدا کا اعتقاد نہیں رکھتا اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا دین جس کا معبود اللہ ہو ،جو لامحدود ہے اس کا کوئی ثانی نہیں اور وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، اب ان میں کس عالمی اور دنیاوی دین کو اختیار کیا جائے؟ اور اس حالت میں مشترک عالمی دین کی بات کرنا اور اس سلسلہ میں گفتگو کرنا خود ساختہ افسانے جیسا ہے ہے جو کہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ہے ؛اور اس کا کہنے والا مستی کے عالم میں ہے اور بے عقلی سے نزدیک ہے اور عالم عقل و ہو شیاری سے بہت دور ہے ] افلا یتدبرون [ کیا وہ لوگ غور و فکر نہیں کرتے؟سب سے پہلا اعتقاد جو کہ اصل دین ہے وہ خدا وند عالم کا اعتقاد ہے جب ہم اس پہلے ہی قدم پر اتنے واضح تناقضات اور مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں اس وقت کیسے ہم ادیان کے درمیانذاتی مشترکات کے وجود کو قبول کریں(اور اختلافات کو عرضی سمجھیں )اور ایک عالمی دین کے عنوان سے اس کا اعلان کریں؟ یقینی طور پر ایسے ہی لاجواب اعتراضات کے موجود ہونے کی وجہ سے بعض ایرانی اہل قلم جو کہ اس نظریہ (عالمی دین کی طرف )رجحان رکھتے ہیں انھوں نے اپنے مضمون میں ' 'ذاتی وعرضی دین''عنوان کے تحت دعویٰ کیاہے کہ خدا کا بھی اعتقاد دین کے لئے جوہری اور ذاتی نہیں ہے؛ بلکہ دین کے عرضیات سے ہے، ممکن ہے کوئی دیندار ہو، لیکن خدا کے وجود کا معتقد نہ ہو ! میں عرض کروں گا کہ اگر خدا نہ ہو تو فطری طور سے کوئی پیغمبر بھی نہ ہوگا ،جس کو وہ لوگوں کے لئے بھیجے گا ؛لہذاٰ انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ خدا اور پیغمبر کا اعتقاد نہ رکھے اس کے باوجود وہ دین بھی رکھتا ہو۔ اسی طرح چونکہ عبادات کے باب میں بھی واضح ہے کہ جو عبادت تمام ادیان میں مشترکہ طور سے پائی جاتی ہو اسکو ہم نہیں رکھتے ہیں ؛ اگرچہ مثلاًنماز تمام آسمانی ادیان میں پائی جاتی ہے ؛لیکن اس کی ماہیت اور طریقے میں پوری طرح سے فرق پایا جاتا ہے ؛لہذٰا نہ مشترک خدا باقی رہ جاتا ہے اور نہ مشترک پیامبر و عبادت باقی رہ جاتی ہے۔ پس وہ مشترک عناصر سارے ادیان میں کہاں ہیں جن پر ایک عالمی دین کے اعتبار سے ایمان لائیں اور ان کو اختیار کر کے ہم نجات حاصل کر لیں ؟

۱۳۲

مشترکہ اخلاقی اصول کو ایک عالمی دین کے عنوان سے پیش کرنا

اس بات کے لئے کہ اس نظریہ کا پست اور باطل ہونا اچھی طرح واضح اور روشن ہو جائے، ہم بالفرض قبول کرتے ہیں کہ باوجودیکہ خدا ،نبوت اور امامت کے بارے میں ایک مشترک نتیجہ تک نہیں پہونچ سکے لیکن ممکن ہے کہ ایک عالمی دین کو ادیان کے اخلاقی مشترکات کی بنیادپر پیش کریں ،دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کوئی کہے کہ ایک عالمی دین اور ادیان کے درمیان مشترکات سے ہماری مراد یہ ہے کہ ایک قسم کے اخلاقی اصول جیسے عدالت اچھی چیز ہے ، سچ بولنا ، امانت داری ،وغیرہ یہ سب اچھی چیز یںہے جھوٹ بولنااور ظلم کرنا قبیح اور بری چیز ہے ان باتوں پر تمام ا دیان اور ان کے ماننے والے متفق ہیں ؛ اور یہ تمام مشترکہ اخلاقی اصول ایک عالمی دین ہو سکتے ہیں کہ جس کی ہم کو تلاش ہے لہذا اس نظریہ پر کون سا اعتراض ہو سکتا ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس تصّور کی بنیاد پر دین ،اخلاق کے مترادف ہو جائے گا یعنی دین و اخلاق ایک معنی میں ہو جائیں گے اورچند خالص اخلاقی اصول کے مجموعہ کو دین کا نام دینا یہ رائج اصطلاح کے خلاف ہے نیز عرف عام اور عقلاء کے نظریہ سے مختلف ہے؛ تمام لغت میں یہ وضاحت کے ساتھ تصریح کی گئی ہے کہ اخلاق، دین سے اور دین ،اخلاق سے جدا اورالگ ہے اور یہ دونوں لفظ الگ الگ معنی میں پائے جاتے ہیں ؛اور کسی بھی لغت اور زبان میں دین و اخلاق کو ایک معنی میں نہیں لیا گیا ہے؛ اس مطلب کی اور زیادہ وضاحت کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے بے دین اور لا مذہب افراد جو کہ کسی مذہب اور دین کا اعتقاد نہیں رکھتے ،ہم ان کو دیکھتے ہیں کہ بہت سے اخلاقی اصول جیسے عدالت ،سچ ،امانتداری کے اچھے ہونے اور ظلم، خیانت،جھوٹ وغیرہ کے برے ہونے پراعتقاد رکھتے ہیں اور اس کے پابند ہیں ؛ بہر حال سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ اخلاقی اصول کو قبول کرنے اور دین کے قبول کرنے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے اورکسی کے لئے ممکن ہے کہ چند اصول اخلاقی کو قبول کرتا ہو ۔

۱۳۳

دوسرے یہ کہلیکن کسی بھی دین و مذہب کا اعتقاد نہ رکھتا ہو؛ اگر ہم اس کو قبول بھی کرلیں کہ خدا ، نبوت ، قیامت کا اعتقاد اور عبادت وغیرہ کو انجام دینا یہ سب دین کی ماہیت اور شکل میں کوئی دخالت نہیں رکھتے ہیں اور دین فقط چند اخلاقی اصول کا نام ہے، تو اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین صرف چند اخلاقی اصول کے اعتقاد کا نام ہے یا اعتقاد کے علاوہ ان اصول پرعمل اور ان کی پابندی کا بھی نام ہے ؟ کیا دیندار وہی ہے جو کتاب ،مضمون اور تقاریر میں ان اخلاقی اصول کا دفاع اور ان کی حمایت کرے اگر چہ عملی طور پر اان کا پابند نہ ہو، یا اس ایک عالمی دین دینداراور متدین وہی لوگ ہیں جو کہنے کے ساتھ عمل کے میدان میں بھی ان اصول کی رعایت و پابندی کرتے ہوں ؟اگر یہ ایک عالمی دین صرف اعتقاد کا نام ہو اور اس پر عمل کرنا ضروری نہ ہو؛آیا ایسا دین انسان کی زندگی پر کچھ اثر ڈال سکتا ہے؟ ایسے دین کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ اگر صرف گفتگو اور زبان سے کہنے کا نام ہے تو ہر ظالم اور خطاکارسچاّئی، امانت داری اور عدالت کے بارے میں اچھا مضمون لکھ سکتا ہے اور بہترین تقریر کر سکتا ہے؛ کیا دینداری کی حقیقت یہی ہے ؟ یہ بات بالکل واضح ہے کہ بغیر عمل کے اعتقاد کا نام دین نہیں ہوسکتا ہے اور ضروری ہے کہ اعتقاد کے علاوہ عمل کو بھی لازم قرار دیا جائے تاکہ اس اصطلاح کے مطابق اس کو دیندار کہنا ممکن ہو سکے ۔

یہیں پرایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص خدا، پیغمبر ، وحی اور حساب و کتاب کا یقین اور اعتقاد نہیں رکھتا توکون سی وجہ ہے جو اس کو جھوٹ بولنے سے روکتی ہے ،اور کس بات کی ضمانت ہے کہ وہ خیانت نہ کرے اور عدالت کو اختیار کرے ؟

۱۳۴

ایک بحث جو کہ آخری صدیوں میں سامنے آئی ہے اور بعض لوگوں نے اس کی حمایت کی ہے یہی اخلاق اور دین کے درمیان جدائی کا مسئلہ ہے یعنی بغیردین کے اخلاق ہونا چاہئے۔ اس نظریہ کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ جو چیز انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے یہی اخلاق اور اس کے فوائد ہیں ؛ دین ہماری زندگی پر کچھ بھی اثر نہیں ڈالتا ہے ،لہذٰا ہم اخلاق اور اس کے اصول کو جو کہ مقام عمل میں اثر رکھتا ہے، قبول کرتے ہیں لیکن دین سے کوئی بھی واسطہ نہیں رکھتے ہیں ۔ یہی وہ طریقہ فکر ہے جو کہ بعض لوگوں کے ذہن میں پایا جاتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کو انسان ہونا چاہئے ا کون سے دین پر ہیں یا اصلاً دیندار ہیں بھی کہ نہیں ؟ یہ بات کچھ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ میں خود اسی تہران میں دو آدمیوں کے درمیان بات چیت کا گواہ ہوں کہ ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ فلاں آدمی بہت اچھا ہے نماز پڑھتا ہے (یعنی نمازی ہے ) اس کے دوست نے جواب دیا کہ میرا عقیدہ اور نظریہ یہ ہے کہ آدمی کو اچھا ہونا چاہئے چاہے نمازی ہو یا بے نمازی ؛یہ نظریہ اسی فکر کا نتیجہ ہے جو اخلاق کو بغیر دین کے قبول کرتا ہے ؛اس کی بنیاد پر اچھا ہونا یعنی اخلاقی اقدار کی رعایت کرنا ،اچھا ہونا یعنی باادب، باوقار اور سنجیدہ ہوناہے، دیندار ہونا یا بے دین ہونا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ صحیح نہیں ہے اور اس نظریہ پر بہت سے اعتراض پیش آتے ہیں ؛جس کی طرف فلسفہ اخلاق کے مباحث میں تفصیل کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے ۔

۱۳۵

مثلاً ایک اعتراض یہ ہے کہ فلسفہ اخلاق کے ایک مکتب فکر اورنظریہ کے مطابق اچھا ہونا لذت آفرینی کے مترادف ہے یعنی ہر وہ چیز جس سے انسان لذّت حاصل کرے وہ اچھی اور پسندیدہ چیزہے۔ اب اس نکتہ کی جانب توجہ کرتے ہوئے فرض کیجئے کہ بندہ (صاحب کتاب فلسفہ اخلاق) میں اسی نظریہ کا قائل ہوں اور اس بات کا اور معتقد ہوں کہ اچھا ہونا لذت پہونچانے کے مترادف ہے ؛جس چیز میں لذت زیادہ ہو وہی چیز زیادہ اچھی ہے اوراب اگر جھوٹ بولنے کی وجہ سے مجھ کو لذت حاصل ہورہی ہو تو کون سی دلیل کہتی ہے کہ میں جھوٹ نہ بولوں؟ظاہر ہے اس فکری قاعدہ کی بنیاد پر ایسی حالت میں میں جھوٹ ضرور بولوں گا کیونکہ جھوٹ بولنے میں لذت ہے؛ اگر کہیں پر سچ بولنا میرے لئے مصیبت اور رنج و غم کا سبب ہو تو وہاں پر مناسب نہیں ہے کہ میں سچ بولوں اور سچ بولنے کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے ؛اسی طرح ان تمام چیزوں میں جن کو اخلاقی قدرو قیمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں اس مبنیٰ اور قاعدہ کی بنیاد پر اس کی رعایت کرنا لازم نہیں ہوگا ؛بلکہ بہت سی جگہوں پر اس اصول اور نظریہ کو پیروں سے روندنا بہتر سمجھا جائے گاکیونکہ اس سے لذت حاصل ہوتی ہے ؛اگر ہم کو چوری، خیانت ،رشوت اور ظلم کرنے میں لذت حاصل ہوتی ہو تو یہ ساری چیزیں اچھی ہیں یہ لذت طلبی کے مبنیٰ کا فطری نتیجہ ہے ۔

۱۳۶

لہذٰا یہ کہ اصول اخلاقی کے اس مجموعہ کو جو سبھی کو قابل قبول ہو واحد عالمی دین کے عنوان سے پیش کرنے میں ایک اعتراض ہے کہ کیا واقعاًایسا مجموعی اصول پایا بھی جاتا ہے یا نہیں ؟ اور اس کے علاوہ دوسرابنیادی اعتراض یہ ہے کہ لوگوں کو کس طرح ان اصول کا پابندکیا جا سکتا ہے؛ اگر خدا،قیامت ، اور حساب وکتاب کی بحث نہ ہو تو پھر اپنے کو کیوں ان اخلاقی اصول کے قید و بند میں جکڑا جائے اور انھیں کا پابند رہا جائے ؟ حقیقت یہ ہے کہ خدا اور قیامت سے چشم پوشی کی صورت میں کوئی بھی وجہ ان اصول کی رعایت اور ان پر عمل کرنے کے لئے نہیں پائی جاتی ہے :ہاں: یہ ممکن ہے کہ شوق و تنبیہ اور بار بار یاددلانے اور لازم قرار دینے نیز اجتماعی آداب و رسوم کے ذریعہ بچوں پر اتنا کام کیا جائے کہ ان اصول کی رعایت اور پابندی کرنا ان کے لئے ایک عادت کی شکل اختیار کر لے ،لیکن پھر بھی ممکن نہیں ہے کہ ایک قابل استدلال اورمنطقی نظریہ کے عنوان سے ان باتوں کا دفاع کیا جائے، یعنی آپ کے لئے ممکن ہے کہ کسی کو ان اخلاق کا پابند کر دیں ؛لیکن آپ کا کام منطقی ہے اس کو کیسے ثابت کیجئے گا ؟جس طرح سے یہ ممکن ہے کہ شوق، تنبیہ اور مشق و یاد دہانی کے ذریعہ بچوں میں سچ بولنے کا ملکہ پیدا کردیں؛اور ان کواس کاعادی بنا دیں اسی طرح انھیں وسائل و ذرائع سے آپ بچے کو جھوٹ بولنا بھی سکھا سکتے ہیں ،اب جب ہمارے لئے ممکن ہے کہ ہم بچوں کے جھوٹ بولنے کو عادت میں تبدیل کر سکتے ہیں تو کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جھوٹ بولنا اچھا ہے ؟

''کانٹ' 'اس اعتراض سے اچھی طرح واقف تھا اور اس بات کو سمجھ گیا تھاکہ اگر انسان اپنے اعمال کے بدلے ثواب و عذاب کا معتقد نہ ہو توان اعمال کو انجام دینے کے لئے اس کے پاس کوئی بھی ضمانت نہیں ہے؛ لہذٰا اگرچہ وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا تھا کہ اخلاقی اقداراور اخلاقی اچھائیاں وہ ہیں کہ ہم کاموں کو صرف ضمیر اور عقل کے حکم کی وجہ سے انجام دیں ؛لیکن اگر ثواب و عذاب کی امید سے ان کو انجام دیں تو ان میں اخلاقی قدرو قیمت نہیں پائی جائے گی؛ پھر بھی وہ کہتا ہے کہ اگر اخلاق چاہتا ہے کہ اس عمل کو انجام دینے کے لئے الگ سے کوئی ضامن ہو تو ہم کو کچھ اصول کو قبول کرنا ہوگا ؛اوروہ تقریباً وہی اصول ہیں جن کو ہم مسلمان قبول کرتے ہیں ۔ کانٹ کہتا تھا کہ میں خدا کے وجود اور اسی طرح روح اور انسانی نفس کے ہمیشہ قائم و دائم رہنے کواسی بات سے ثابت کرتا ہوں ۔

۱۳۷

چونکہ اگر وہ خدا جو حساب و کتاب رکھتا ہے اور ثواب و عذاب دیتا ہے اس کا اعتقاد نہ رکھیں تو اچھے کام کو انجام دینے کا کوئی سبب نہیں پایا جائے گا؛ اسی طرح اگر انسان کی روح و نفس کے ہمیشہ رہنے کے معتقد نہ ہوں اور کہیں کہ انسان مرنے کے بعد کچھ بھی نہیں رہتا اور جزا و سزا بھی اگر ہے توصرف اسی دنیا تک ہے پھر بھی ان اصول وقواعد کی رعایت کا کوئی باعث اور سبب نہیں ہوگااس بنیاد پر اگرچہ کانت معتقد تھا کہ خدا کو برہان نظری سے ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ کہتا تھا کہ میں عقل عملی کے ذریعہ اس بات کا معتقد ہوں کہ خدا کا وجود ہونا چاہئے تا کہ اخلاق کسی سہارے اور ضمانت کے بغیرنہ رہ جائے ۔

گذشتہ بحث کا خلاصہ

اس جلسے کی بحث کاخلاصہ یہ ہوا کہ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ ادیان میں اختلافات فرعی اور ذوق و سلیقے کے مطابق ہیں لہذٰا ہم ان کے مشترکات کو لیکر ایک عالمی دین کی شکل میں پیش کریں، ان کے جواب میں ہم کہیں گے کہ سب سے پہلے بنیادی طور پر تمام دین کے اصول خدا، نبوت اور عبادت کے اعمال ہیں اور تحقیق سے یہ معلوم ہے کہ یہ اصول کسی بھی صورت سے تمام ادیان میں مشترک نہیں ہیں ۔

۱۳۸

دوسرے یہ کہ اگر خدا، نبو ت پر اعتقاد اور عبادات کی بات کو چھوڑ دیں اور اس بات کو قبول کریں کہ وہ واحد عالمی دین ان چند اخلاقی اصول کے مجموعہ کا نام ہے جو کہ تمام ادیا ن میں مشترکہ طور سے پائے جاتے ہیں ؛سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیافقط ان اصول کے اعتقاد کا نام دین ہے یا اس کے ساتھ ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے ؟ اگر صرف اعتقاد اور لفظ کا نام دین ہے تو واضح سی بات ہے صرف کہنے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے اور اس پر کچھ بھی اثر نہیں پڑتا ہے بلکہ قول کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے، اگر ہم عمل کے بھی قائل ہوں تو سوال یہ ہے کہ خدا، نبوت اور قیامت کا انکار کر کے ان اعمال کو انجام دینے کے لئے کون سی ضمانت پائی جاتی ہے ؟ خاص طور پر اس جانب توجہ کرتے ہوئے کہ فلسفہ اخلاق میں دوسرے مکاتب فکر جیسے لذت طلبی وغیرہ والے بھی پائے جاتے ہیں ؛ جو کہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اچھے اخلاق وہ چیزیں ہیں جو کہ انسان کے لئے لذت بخش ہوںجو شخص ایسا اعتقاد رکھتا ہو اس کے لئے 'سچ بولنا اورسچ بولنے پر اسے مجبور کرنا جب کہ یہ کام اس کے لئے مصیبت اور نارا حتی کا سبب ہو اور جھوٹ ، خیانت سے اس کو باز رکھنا جب کہ یہ اس کے لئے لذت بخش ہو، کس طرح ممکن ہے؟ یہ نکتہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ ادیان میں مشترکات نہیں پائے جاتے ہیں ،اس بات کے علاوہ اگر تمام ادیان کو نہ بھی کہیں تو کم سے کم بہت سے ادیان ایسے ہیں جو کہ بہت ہی سختی کے ساتھ ایک دوسرے کے اعتقادات کی نفی کرتے ہیں ،اور اس کے لئے ایک دوسرے سے جنگ و جدال کرتے ہیں ؛خدا پر اعتقاد کی ہی بات کو لے لیجئے اسلام خدائے وحدہ لا شریک پر اعتقاد کو لازم قرار دیتا ہے اس کے علاوہ شرک یعنی ایک خدا کے علاوہ دوسرے خدا کے انکار کو لازم قرار دیتا ہے ؛بلکہ اسلام کی ابتدا ء ہی تنہا خدا کے علاوہ دوسرے خدائوں کے انکار سے ہوتی ہے پھر توحید تک بات پہونچتی ہے، سب سے پہلے یہ کہا جاتا ہے لا الہٰ(کوئی خدا نہیں ) پھر اس کے بعد ہے الاّاللہ (سوائے اللہ کے ) اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان سب سے پہلے مسیحیت کے تین خدا کا انکار کرے پھر وہ اسلام کی وحدانیت تک پہونچ سکتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ادیان کے مشترکات تک پہونچنا انسانکے لئے ممکن نہیں ہے۔

بہر حال آخری نتیجہ یہ ہے کہ یہ فرضیہ (واحدعالمی دین ) ثبوتی اعتبار سے اور اپنے معنی ومطلب کے اعتبار سے ناممکن ہے۔اور اثباتی اعتبار سے بھی کوئی دلیل اس کے ثابت ہونے پر نہیں پائی جاتی ہے اور ہمارے نظریہ کے اعتبار سے یہ بات پوری طرح سے مردود اور قابل رد ہے اورہم اس کو قبول نہیں کرتے۔

۱۳۹

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود-۱

جس موضوع کے بارے میں گفتگو کی فرمائش کی گئی ہے وہ ہے'' اسلام کی نظر میں جاذبہ اور دافعہ کے حدودہر موضوع پر گفتگو کرنے یا اس بحث میں داخل ہونے سے قبل ضروری ہے کہ پہلے اس کا موضوع اور عنوان واضح ہوجائے پھر اس کے بعد اس کیمتعلق باتوں کی وضاحت کی جائے۔ یہاں پر سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ سے کیا مراد ہے ؟پھر اس کے بعد اس کی حدوں کو معین کریں گے۔

جاذبہ ،دافعہ اوراسلام کے مفاہیم کی وضاحت

ہم سبھی لوگ جاذبہ اور دافعہ کے مفہوم سے واقف ہیں ؛ہم جس وقت اس اصطلاح کو سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں عام طور سے وہ جذب اور دفع آتا ہے جو کہ مادی اور طبعیی چیزوں میں بیان ہوتا ہے ؛خاص طور سے آپ اساتیدکے لئے جو کہ انجینئرنگ شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں معمولاًنیوٹنکا عام قانون جاذبہ ذہن میں آتا ہے؛ دافعہ کا مصداق بھی طبیعی علوم میں وہ طاقت ہے جو مرکز سے علیحدہ اور جدا کرنے والی یا وہ دافعہ جو دو ہمنام مقناطیسی قطب کے درمیان پایا جاتا ہے؛ لیکن جب یہ مفہوم انسانی اور اجتماعی علوم میں آتا ہے تو فطری طور سے وہ بدل جاتا ہے اس وقت اس سے مرادیہ طبیعی اور مادی جذب و دفع نہیں ہوتا بلکہ نفسیاتی اور معنوی جذب و دفع مراد ہوتا ہے، یعنی جیسے انسا ن احساس کرتا ہے کہ کوئی چیز اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور وہ چاہتا ہے اس کے نزدیک ہو جائے ،یہاں تک کہ اگر ممکن ہو تو اس سے مل کر ایک ہو جانا چاہتا ہے، یا اس کے بر خلاف بعض انسانوں کو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بعض چیزوںیا بعض لوگوں سے قریب ہونا نہیں چاہتے ہیں ،ان کا وجود اس طرح ہوتا ہے کہ وہ ان سے دور رہنا چاہتے ہیں ۔اس روحی اور نفسیاتی جذب و دفع کا سبب ممکن ہے ایک مادی چیز،ایک شخص یا ایک عقیدہ یا فکرونظر ہو ۔کبھی کوئی منظر اتنا اچھا اور دلکش ہوتا ہے کہ بے اختیار آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اگر چہ جسمانی لحاظ سے آپ اس کے نزدیک نہیں ہوتے ہیں اور اپنی جگہ پر کھڑے رہتے ہیں ؛ لیکن آپ کی پوری توجہ اور حواس کو اپنی طرف معطوف کرلیتاہے، اور آپ اس کو دیکھنے میں غرق ہو جاتے ہیں ؛ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کانپھاڑنے والی آواز یا ناقابل برداشت منظرکو دیکھ کرچاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس سے دور ہو جائیں۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232