دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)25%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81896 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

(۷۰)

وقالعليه‌السلام

في سحرة اليوم الذي ضرب فيه

مَلَكَتْنِي عَيْنِي وأَنَا جَالِسٌ - فَسَنَحَ لِي رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه - مَا ذَا لَقِيتُ مِنْ أُمَّتِكَ مِنَ الأَوَدِ واللَّدَدِ فَقَالَ ادْعُ عَلَيْهِمْ فَقُلْتُ أَبْدَلَنِي اللَّه بِهِمْ خَيْراً مِنْهُمْ - وأَبْدَلَهُمْ بِي شَرّاً لَهُمْ مِنِّي.

قال الشريف - يعني بالأود الاعوجاج وباللدد الخصام - وهذا من أفصح الكلام.

(۷۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم أهل العراق

وفيها يوبخهم على ترك القتال والنصر يكاد يتم ثم تكذيبهم له

أَمَّا بَعْدُ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ فَإِنَّمَا أَنْتُمْ كَالْمَرْأَةِ الْحَامِلِ - حَمَلَتْ فَلَمَّا أَتَمَّتْ أَمْلَصَتْ

(۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس سحرکے ہنگام جب آپکےسر اقدس پر ضربت لگائی گئی)

ابھی میں بیٹھا(۱) ہواتھا کہ اچانک آنکھ لگ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ رسول اکرم (ص) سامنے تشریف فرما ہیں۔میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کی امت سے بے پناہ کجروی اوردشمنی کامشاہدہ کیا ہے۔فرمایا کہ بد دعا کرو ؟ تو میں نے یہ دعا کی۔خدایا مجھے ان سے بہتر قوم دیدے اور انہیں مجھ سے سخت تر رہنما دیدے۔

سید رضی فرماتا ہے اود سے مراد کجروی اور لدد سے مراد دشمنی ہے اور یہ فصیح ترین کلام میں سے ہے

(۷۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اہل عراق کی مذمت کے بارے میں)

اما بعد!اے اہل عراق ! بس تمہاری مثال اس حاملہ عورت کی ہے جو(۹) ماہ تک بچہ کو شکم میں رکھے اور جب ولادت کا وقت آئے تو ساقط کردے

(۱)یہ بھی رویا ئے صادقہ کی ایک قسم ہے جہاں انسان واقعاً یہ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے جیسے خواب کی باتوں کو بیداری کے عالم میں دیکھ رہا رسول اکرم (ص) کا خواب میں آاا کسی طرح کی تردید اور تشکیک کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے لیکن یہ مسئلہ بہر حال قابل غور ہے کہ جس وصی نے اتنے سارے مصائب برداشت کرلئے اوراف تک نہیں کی اس نے خواب میں رسول اکرم(ص)کو دیکھتے ہیں فریاد کیوں شروع کردی اورجس نبی نے ساری زندگی مظالم و مصائب کا سامنا کیا اور بد دعا نہیں کی' اس نے بد دعا کرنے کاحکم کس طرح دے دیا؟حقیقت امر یہ ہے کہ حالات اس منزل پرتھے جس کے بعد فریاد بھی برحق تھی اور بد دعا بھی لازم تھی۔اب یہ مولائے کائنات کا کمال کردار ہے کہ براہ راست قوم کی تباہی اور بربادی کی دعا نہیں کی بلکہ انہیں خود انہیں کے نظریات کے حوالہ کردیا کہ خدایا!یہ میری نظرمیں برے ہیں تو مجھے ان سے بہتر اصحاب دیدے اور میں ان کی نظرمیں برا ہوںتو انہیں مجھ سے بدترحاکم دیدے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ برا حاکم کیسا ہوتا ہے۔

مولائے کائنات کی یہ دعا فی الفور قبول ہوگی اورچند لمحوں کے بعد آپ کو معصوم بندگان خدا کا جوار حاصل ہوگیا اور شریر قوم سے نجات مل گئی۔

۱۰۱

ومَاتَ قَيِّمُهَا وطَالَ تَأَيُّمُهَا ووَرِثَهَا أَبْعَدُهَا -. أَمَا واللَّه مَا أَتَيْتُكُمُ اخْتِيَاراً - ولَكِنْ جِئْتُ إِلَيْكُمْ سَوْقاً - ولَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّكُمْ تَقُولُونَ عَلِيٌّ يَكْذِبُ قَاتَلَكُمُ اللَّه تَعَالَى - فَعَلَى مَنْ أَكْذِبُ أَعَلَى اللَّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِه - أَمْ عَلَى نَبِيِّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَه - كَلَّا واللَّه لَكِنَّهَا لَهْجَةٌ غِبْتُمْ عَنْهَا - ولَمْ تَكُونُوا مِنْ أَهْلِهَا - وَيْلُ أُمِّه كَيْلًا بِغَيْرِ ثَمَنٍ لَوْ كَانَ لَه وِعَاءٌ - «ولَتَعْلَمُنَّ نَبَأَه بَعْدَ حِينٍ».

(۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

علم فيها الناس الصلاة على النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

وفيها بيان صفات الله سبحانه وصفة النبي والدعاء له

اور پھر اس کا شوہربھی مرجائے اوربیوگی کی مدت بھی طویل ہو جائے کہ قریب کا کوئی وارث نہ رہ جائے اور دور والے وارث ہو جائیں

خدا گواہ ہے کہ میں تمہارے پاس اپنے اختیارسے نہیں آیا ہوں بلکہ حالات کے جبر سے آیا ہوں اور مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم لوگ مجھ پرجھوٹ کا الزام لگاتے ہو۔خدا تمہیں غارت کرے۔میں کس کے خلاف غلط بیانی کروں گا؟

خدا کے خلاف؟ جب کہ میں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی ہے۔

ہر گز نہیں ! بلکہ یہ بات ایسی تھی جو تمہاری سمجھ سے بالا تر تھی اور تم اس کے اہل نہیں تھے ۔خدا تم سے سمجھے۔میں تمہیں جواہر پارے ناپ ناپ کردے رہا ہوں اور کوئی قیمت نہیں مانگ رہا ہوں۔مگر اے کاش تمہارے پاس اس کا ظرف ہوتا۔اورعنقریب تمہیں اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی۔

(۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو صلوات کی تعلیم دی گئی ہے اور صفات خدا و رسول (ص) کا ذکر کیا گیا ہے )

۱۰۲

صفات الله

اللَّهُمَّ دَاحِيَ الْمَدْحُوَّاتِ ودَاعِمَ الْمَسْمُوكَاتِ وجَابِلَ الْقُلُوبِ عَلَى فِطْرَتِهَا شَقِيِّهَا وسَعِيدِهَا.

صفات النبي

اجْعَلْ شَرَائِفَ صَلَوَاتِكَ - ونَوَامِيَ بَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ ورَسُولِكَ - الْخَاتِمِ لِمَا سَبَقَ والْفَاتِحِ لِمَا انْغَلَقَ والْمُعْلِنِ الْحَقَّ بِالْحَقِّ والدَّافِعِ جَيْشَاتِ الأَبَاطِيلِ والدَّامِغِ صَوْلَاتِ الأَضَالِيلِ كَمَا حُمِّلَ فَاضْطَلَعَ قَائِماً بِأَمْرِكَ

اے خدا! اے فرش زمین کے بچھانے) ۱) والے اور بلند ترین آسمانوں کو روکنے والے اوردلوں کو ان کی نیک بخت یا بد بخت فطرتوں پر پیدا کرنے والے '

اپنی پاکیزہ ترین اور مسلسل بڑھنے والے برکات کو اپنے بندہ اور رسول حضرت محمد (ص) پر قراردے جو سابق نبوتوں کے ختم کرنے والے ' دل و دماغ کے بند دروازوں کو کھولنے والے ' حق کے ذریعہ(۲) حق کا اعلان کرنے والے' باطل کے جوش و خروش کودفع کرنے والے اور گمراہیوں کے حملوں کا سر کچلنے والے تھے۔جو بار جس طرح ان کے حوالہ کیا گیا انہوں نے اٹھالیا۔تیرے امر کے ساتھ قیام کیا۔

(۱)وحوالارض کے بارے میں دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔بعض حضرت کاخیال ہے کہ زمین کوآفتاب سے الگ کرکے فضائے بسیط میں لڑھکا دیا گیا اوراسی کا نام دحوالارض ہے اوربعض حضرات کا کہنا ہے کہ دحو کے معنی فرش بچھانے کے ہیں۔گویا کہ زمین کو ہموار بنا کر قابل سکونت بنادیا گیا اور یہی دحوالارض ہے۔بہر حال روایات میں اس کی تاریخ ۲۵ ذی قعدہ بتائی گئی ہے جس تاریخ کو سرکار دو عالم (ص)حجة الوداع کے لئے مدینہ سے برآمد ہوئے تھے اورتخلیق ارض کی تاریخ مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہوگئی تھی۔اس تاریخ میں روزہ رکھنا بے پناہ ثواب کا حامل ہے اوریہ تاریخ سال کے ان چار دنوں میں شامل ہے جس کا روزہ اجربے حساب رکھتا ہے۔ ۲۵ ذی قعدہ۔۱۷ ربیع الاول۔۲۷ رجب۔۱۸ ذی الحجہ

غور کیجئے ' تو یہ نہایت درجہ حسین انتخاب قدرت ہے کہ پہلا دن وہ ہے جس میں زمین کا فرش بچھایا گیا ۔دوسرا دن وہ ہے جب مقصد تخلیق کائنات کو زمین پر بھیجا گیاتیسرا دن وہ ہے جب اس کے منصب کا اعلان کرکے اس کا کام شروع کرایا گیا اور آخری دن وہ ہے جب اس کا کام مکمل ہوگیا اورصاحب منصب کو''اکملت لکم دینکم'' کی سند مل گئی۔

(۲)یہ اسلام کا مخصوص فلسفہ ہے جو دنیا داری کے کسی نظام میں نہیں پایا جاتاہے۔دنیا داری کا مشہور و معروف نظام و اصول یہ ہے کہ مقصد ہرذریعہ کو جائز بنادیتا ہے۔انسانت کوفقط یہ دیکھنا چاہیے کہ مقصد صحیح اوربلند ہو۔اس کے بعد اس مقصد تک پہنچنے کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کرلے اس میں کوئی حرج اورمضائقہ نہیں ہے لیکن اسلام کا نظام اس سے بالکل مختلف ہے۔وہ دنیا میں مقصد اور مذہب دونوں کا پیغام لے کرآیا ہے۔اس نے'' ان الدین '' کہہ کر اعلان کیا ہے کہ اسلام طریقہ حیات ہے اورعند الله '' کہہ کر واضح کیا ہے کہ اس کا ہدف حقیقی ذات پروردگار سے۔لہٰذا وہ نہ غلط مقصد کو مقصد قرا دینے کی اجازت دے سکتا ہے اورنہ غلط راستہ کو راستہ قرار دینے کی۔اس کا منشاء یہ ہے کہ اس کے ماننے والے صحیح راستہ پرچلیں اور اسی راستہ کے ذریعہ منزل تک پہنچیں۔چنانچہ مولائے کائنات نے سرکاردو عالم (ص) کی اسی فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ نے جاہلیت کے نقار خانہ میں آواز حق بلند کی ہے لیکن اسآواز کو بلند کرنے کا طریقہ اور راستہ بھی صحیح اختیار کیا ہے ورنہ جاہلیت میں آواز بلند کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ اس قدرش ور مچائو کہ دوسرے کی آواز نہ سنائی دے۔اسلام ایسے احمقانہ انداز فکر کی حمایت نہیں کر سکتا ہے۔وہ اپنے فاتحین سے بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ حق کا پیغام حق کے راستہ ے پہنچائوں' غارت گری اور لو ٹ مار کے ذریعہ نہیں۔یہ اسلام کی پیغام رسانی نہیں ہے۔خدا اور رسول (ص) کے لئے ایذا رسانی ہے جس کا جرم انتہائی سنگین ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت دونوں کی لعنت ہے۔

۱۰۳

مُسْتَوْفِزاً فِي مَرْضَاتِكَ - غَيْرَ نَاكِلٍ عَنْ قُدُمٍ ولَا وَاه فِي عَزْمٍ - وَاعِياً لِوَحْيِكَ حَافِظاً لِعَهْدِكَ - مَاضِياً عَلَى نَفَاذِ أَمْرِكَ حَتَّى أَوْرَى قَبَسَ الْقَابِسِ وأَضَاءَ الطَّرِيقَ لِلْخَابِطِ وهُدِيَتْ بِه الْقُلُوبُ بَعْدَ خَوْضَاتِ الْفِتَنِ والآثَامِ - وأَقَامَ بِمُوضِحَاتِ الأَعْلَامِ ونَيِّرَاتِ الأَحْكَامِ - فَهُوَ أَمِينُكَ الْمَأْمُونُ وخَازِنُ عِلْمِكَ الْمَخْزُونِ وشَهِيدُكَ يَوْمَ الدِّينِ وبَعِيثُكَ بِالْحَقِّ - ورَسُولُكَ إِلَى الْخَلْقِ.

الدعاء للنبي

اللَّهُمَّ افْسَحْ لَه مَفْسَحاً فِي ظِلِّكَ واجْزِه مُضَاعَفَاتِ الْخَيْرِ مِنْ فَضْلِكَ - اللَّهُمَّ وأَعْلِ عَلَى بِنَاءِ الْبَانِينَ بِنَاءَه - وأَكْرِمْ لَدَيْكَ مَنْزِلَتَه وأَتْمِمْ لَه نُورَه - واجْزِه مِنِ ابْتِعَاثِكَ لَه مَقْبُولَ الشَّهَادَةِ - مَرْضِيَّ الْمَقَالَةِ ذَا مَنْطِقٍ عَدْلٍ وخُطْبَةٍ فَصْلٍ - اللَّهُمَّ اجْمَعْ بَيْنَنَا وبَيْنَه فِي بَرْدِ الْعَيْشِ وقَرَارِ النِّعْمَةِ ومُنَى الشَّهَوَاتِ وأَهْوَاءِ اللَّذَّاتِ، ورَخَاءِ الدَّعَةِ ومُنْتَهَى الطُّمَأْنِينَةِ وتُحَفِ الْكَرَامَةِ

تیری مرضی کی راہ میں تیز قدم بڑھاتے رہے۔نہ آگے بڑھنے سے انکارکیا اور نہ ان کے ارادوں میں کمزوری آئی۔تیری وحی کو محفوظ کیا۔تیرے عہد کی حفاظت کی تیرے حکم کے نفاذ کی راہمیں بڑھتے رہے۔یہاں تک کہ روشنی کی جستجو کرنے والوں کے لئے آگ روشن کردی اور گم کر دہ راہ کے لئے راستہ واضح کردیا۔ان کے ذریعہ دلوں نے فتنوں اور گناہوں میں غرق رہنے کے بعد بھی ہدایت پالی اور انہوں نے راستہ دکھانے والے نشانات اور واضح احکام قائم کردئیے۔وہ تیرے امانت داربندہ' تیرے پوشیدہ علوم کے خزانہ دار' روز قیامت کے لئے تیرے گواہ' حق کے ساتھ بھیجے ہوئے اورمخلوقات کی طرف تیرے نمائندہ تھے۔

خدایا ان کے لئے اپنے سایہ رحمت میں وسیع ترین منزل قراردیدے اور ان کے خیر کو اپنے فضل سے دگنا چوگنا کردے۔خدایا ان کی عمارت کو تمام عمارتوں سے بلند تر اور ان کی منزل کو اپنے پاس بزرگ تربنادے۔ان کے نورکی تکمیل فرما اور اپنی رسالت کے صلہ میں انہیں مقبول شہادت اور پسندیدہ اقوال کا انعام عنایت کرکہ ان کی گفتگو ہمیشہ عادلانہ اور ان کا فیصلہ ہمیشہ حق و باطل کے درمیان حد فاصل رہا ہے۔

خدایا ہمیں ان کے ساتھ خوشگوارزندگی' نعمات کی منزل ' خواہشات و لذات کی تکمیل کے مرکز۔آرائش و طمانیت کے مقام اور کرامت و شرافت کے تحفوں کی منزل پر جمع کردے ۔

۱۰۴

(۷۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لمروان بن الحكم بالبصرة

قَالُوا: أُخِذَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ أَسِيراً يَوْمَ الْجَمَلِ - فَاسْتَشْفَعَ الْحَسَنَ والْحُسَيْنَعليه‌السلام إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - فَكَلَّمَاه فِيه فَخَلَّى سَبِيلَه فَقَالَا لَه - يُبَايِعُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ

قَالَعليه‌السلام :

أَولَمْ يُبَايِعْنِي بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ - لَا حَاجَةَ لِي فِي بَيْعَتِه إِنَّهَا كَفٌّ يَهُودِيَّةٌ لَوْ بَايَعَنِي بِكَفِّه لَغَدَرَ بِسَبَّتِه أَمَا إِنَّ لَه إِمْرَةً كَلَعْقَةِ الْكَلْبِ أَنْفَه - وهُوَ أَبُو الأَكْبُشِ الأَرْبَعَةِ وسَتَلْقَى الأُمَّةُ مِنْه ومِنْ وَلَدِه يَوْماً أَحْمَرَ.

(۷۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما عزموا على بيعة عثمان

(۷۳)

(جو مروان بن الحکم سے بصرہ میں فرمایا)

کہا جاتا ہے کہ جب مروان بن الحکم جنگ جمل میں گرفتار ہوگیا تو امام حسن و حسین) ۱ ( نے امیرالمومنین سے اس کی سفارش کی اور آپ نے اسے آزاد کردیا تو دونوں حضرت نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! یہ اب آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے۔تو آپ نے فرمایا:

کیا اس نے قتل عثمان کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی؟ مجھے اس کے بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ ایک یہودی قسم کا ہاتھ ہے۔اگر ہاتھ سے بیعت کر بھی لے گا تو رکیک طریقہ سے اسے توڑ ڈالے گا۔یاد رکھو اسے بھی حکومت ملے گی مگر صر ف اتنی دیر جتنی دیرمیں کتا اپنی ناک چاٹتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چار بیٹیوں کا باپ بھی ہے اور امت اسلامیہ اس سے اور اس کی اولاد سے بد ترین دن دیکھنے والی ہے۔

(۷۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا)

(۱)آل محمد (ص) کے اس کردار کا تاریخ کائنات میں کوئی جواب نہیں ہے۔انہوں نے ہمیشہ فضل و کرم سے کام لیا ہے۔حد یہ ہے کہ اگر معاذ اللہ امام حسن و امام حسین کی سفارش کو مستقبل کے حالات سے نا واقفیت بھی تصور کرلیا جائے تو امام زین العابدین کے طرز عمل کو کیا کہا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد بھی مروان کے گھر والوں کو پناہ دی ہے اور اس بے حیا نے حضرت سے پناہ کی درخواست کی ہے۔درحقیقت یہ بھی یہودیت کی ایک شاخ ہے کہ وقت پڑنے پر ہر ایک کے سامنے ذلیل بن جائو اور کام نکلنے کے بعد پروردگار کی نصیحتوں کی بھی پرواہ نہ کرو۔اللہ دین اسلام کو ہر دور کی یہودیت سے محفوظ رکھے۔

۱۰۵

لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَحَقُّ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَيْرِي - ووَ اللَّه لأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ - ولَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً - الْتِمَاساً لأَجْرِ ذَلِكَ وفَضْلِه - وزُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوه مِنْ زُخْرُفِه وزِبْرِجِه

(۷۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما بلغه اتهام بني أمية له بالمشاركة في دم عثمان

أَولَمْ يَنْه بَنِي أُمَيَّةَ عِلْمُهَا بِي عَنْ قَرْفِي أَومَا وَزَعَ الْجُهَّالَ سَابِقَتِي عَنْ تُهَمَتِي - ولَمَا وَعَظَهُمُ اللَّه بِه أَبْلَغُ مِنْ لِسَانِي - أَنَا حَجِيجُ الْمَارِقِينَ وخَصِيمُ النَّاكِثِينَ الْمُرْتَابِينَ وعَلَى كِتَابِ اللَّه تُعْرَضُ الأَمْثَالُ وبِمَا فِي الصُّدُورِ تُجَازَى الْعِبَادُ!

تمہیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کا حقدار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت تک حالات(۲) کاساتھ دیتا رہوں گا جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رہیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رہے تاکہ میں اس کا اجرو ثواب حاصل کر سکوں اور اس زیب و زینت دنیا سے اپنی بے نیازی کا اظہار کر سکوں جس کے لئے تم سب مرے جا رہے ہو۔

(۷۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو خبر ملی کہ بنی امیہ آپ پر خون عثمان کا الزام لگا رہے ہیں)

کیا بنی امیہ کے واقعی معلومات انہیں مجھ پر الزام تراشی سے نہیں روک سکے اور کیا جاہلوں کو میرے کارنامے اس اتہام سے باز نہیں رکھ سکے؟ یقینا پروردگار نے تہمت و افترا کے خلاف جو نصیحت فرمائی ہے وہ میرے بیان سے کہیں زیادہ بلیغ ہے۔میں بہر حال ان بے دینوں پرحجت تمام کرنے والا'ان عہد شکن مبتلائے تشکیک افراد کا دشمن ہوں۔اور تمام مشتبہ معاملات کو کتاب خداپرپیش کرنا چاہیے۔اور روز قیامت بندوں کا حساب ان کے دلوں کے مضمرات (نیتوں) ہی پر ہوگا۔

(۲)امیر المومنین کا مقصد یہ ہے کہ خلافت میرے لئے کسی ہدف اور مقصد حیات کا مرتبہ نہیں رکھتی ہے۔یہ در حقیقت عام انسانیت کے لئے سکون و اطمینان فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔لہٰذا اگر یہ مقصد کسی بھی ذریعہ سے حاصل ہوگیا تو میرے لئے سکوت جائز ہو جائے گا اور میں اپنے اوپر ظلم کو برداشت کرلوں گا۔دوسرا فقرہ اس بات کی دلیل ہے کہ باطل خلافت سے مکمل عدل و اناصف اور سکون و اطمینان کی توقع محال ہے لیکن مولائے کائنات کا منشاء یہ ہے کہ اگر ظلم کا نشانہ میری ذات ہوگی تو برداشت کرلوں گا لیکن عوام الناس ہوں گے اور میرے پاس مادی طاقت ہوگی تو ہرگز برداشت نہ کروں گا کہ یہ عہد الٰہی کے خلاف ہے۔

۱۰۶

(۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الحث على العمل الصالح

رَحِمَ اللَّه امْرَأً سَمِعَ حُكْماً فَوَعَىودُعِيَ إِلَى رَشَادٍ فَدَنَا وأَخَذَ بِحُجْزَةِ هَادٍ فَنَجَا - رَاقَبَ رَبَّه وخَافَ ذَنْبَه قَدَّمَ خَالِصاً وعَمِلَ صَالِحاً - اكْتَسَبَ مَذْخُوراً واجْتَنَبَ مَحْذُوراً - ورَمَى غَرَضاً وأَحْرَزَ عِوَضاً كَابَرَ هَوَاه وكَذَّبَ مُنَاه - جَعَلَ الصَّبْرَ مَطِيَّةَ نَجَاتِه والتَّقْوَى عُدَّةَ وَفَاتِه - رَكِبَ الطَّرِيقَةَ الْغَرَّاءَ ولَزِمَ الْمَحَجَّةَ الْبَيْضَاءَ - اغْتَنَمَ الْمَهَلَ وبَادَرَ الأَجَلَ وتَزَوَّدَ مِنَ الْعَمَلِ.

(۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں عمل صالح پرآمادہ کیا گیا ہے)

خدا رحمت نازل(۱) کرے اس بندہ پر جو کسی حکمت کو سنے تو محفوظ کرلے اور اسے کسی ہدایت کی دعوت دی جائے تو اس سے قریب تر ہو جائے اور کسی راہنما سے وابستہ ہو جائے تو نجات حاصل کرلے۔اپنے پروردگار کو ہر وقت نظر میں رکھے اور گناہوں سے ڈرتا رہے۔خالص اعمال کوآگے بڑھائے اور نیک اعمال کرتا رہے۔قابل ذخیرہ ثواب حاصل کرے۔قابل پرہیز چیزوں سے اجتناب کرے۔مقصد کو نگاہوں میں رکھے۔اجرسمیٹ لے۔خواہشات پر غالب آجائے اورتمنائوں کو جھٹلادے ۔صبر کو نجات کا مرکب بنالے اورتقویٰ کو وفات کاذخیرہ قرار دے لے۔روشن راستہ پر چلے اور واضح شاہراہ کو اختیار کرلے۔مہلت حیات کو غنیمت قراردے اور موت کی طرف خود سبقت کرے اور عمل کا زاد راہ لے کرآگے بڑھے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا دائرہ بے حد وسیع ہے اور مسلم و کافر۔دین دارو بے دین سب کو شامل ہے۔یہ ہمیشہ غضب الٰہی سے آگے آگے چلتی ہے۔لیکن روز قیامت اس رحمت کا استحقاق آسان نہیں ہے۔وہ حساب کادن ہے اور خدائے واحد قہار کی حکومت کا دن ہے۔لہٰذا اس دن رحمت خداکے استحقاق کے لئے ان تمام چیزوں کواختیارکرنا ہوگا جن کی طرف مولائے کائنات نے اشارہ کیا ہے اور ان کے بغیر رحمة اللعالمین کا کلمہ اور ان کی محبت کا دعویٰ بھی کام نہیں آسکتا ہے۔دنیا کے احکام الگ ہیں اور آخرت کے احکام الگ ہیں۔یہاں کا نظام رحمت الگ ہے اور وہاں کا نظام مکافات و مجازات الگ۔

۱۰۷

(۷۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وذلك حين منعه سعيد بن العاص حقه

إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَيُفَوِّقُونَنِي تُرَاثَ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تَفْوِيقاً - واللَّه لَئِنْ بَقِيتُ لَهُمْ - لأَنْفُضَنَّهُمْ نَفْضَ اللَّحَّامِ الْوِذَامَ التَّرِبَةَ!

قال الشريف - ويروى التراب الوذمة وهو على القلب

قال الشريف وقولهعليه‌السلام ليفوقونني - أي يعطونني من المال قليلا كفواق الناقة - وهو الحلبة الواحدة من لبنها -. والوذام جمع وذمة - وهي الحزة من الكرش أو الكبد تقع في التراب فتنفض.

(۷۸)

من كلمات كانعليه‌السلام

من كلمات كانعليه‌السلام يدعو بها

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِه مِنِّي - فَإِنْ عُدْتُ فَعُدْ عَلَيَّ بِالْمَغْفِرَةِ

(۷۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب سعید بن العاص نے آپ کو آپ کے حق سے محروم کردیا)

یہ بنی امیہ مجھے میراث پیغمبر(ص) کوبھی تھوڑا تھوڑا کرکے دے رہے ہیں حالانکہ اگر میں زندہ رہ گیا تو اس طرح جھاڑ کرپھینک(۱) دوں گاجس طرح قصاب گوشت کے ٹکڑے سے مٹی کوجھاڑ دیتا ہے۔

سید رضی :بعض روایات میں '' وذام تربہ''کے بجائے ''تراب الوذمہ''ہے جو معنی کے اعتبارسےمعکوس ترکیب ہے۔''لیفو قوفنی''کامفہوم ہے مال کا تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا جس طرح کہ اونٹ کا دودھ نکالا جاتا ہے۔فواق اونٹ کا ایک مرتبہ کا دوھا ہوا دودھ ہے اوروذام وذمہ کی جمع ہے جس کے معنی ٹکڑےکےہیں یعنی جگہ یاآنتوں کاوہ ٹکڑا جوزمین پر گر جائے۔

(۷۸)

آپ کی دعا

(جسے برابر تکرار فرمایا کرتے تھے)

خدایا میری خاطر ان چیزوں کو معاف کردے جنہیں تو مجھ سے بہتر جانتا ہے اور اگر پھران امور کی تکرار ہوتو تو ' بھی مغفرت کی تکرار فرما:

(۱)کتنی حسین تشبیہ ہے کہ بنی امیہ کی حیثیت اسلام میں نہ جگر کی ہے نہ معدہ کی اورنہ جگر کے ٹکڑے کی ۔یہ وہ گروہیں جو الگ ہو جانے والے کپڑے سے چپک جاتی ہے لیکن گوشت کا استعمال کرنے والا اسے بھی برداشت نہیں کرتا ہے اوراسے جھاڑنے کے بعد ہی خریدار کے حوالے کر تا ہے تاکہ دکان بد نام نہ ہونے پائے اور تاجر نا تجربہ کار اور بذ ذوق نہ کہا جاسکے !

۱۰۸

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا وَأَيْتُ مِنْ نَفْسِي ولَمْ تَجِدْ لَه وَفَاءً عِنْدِي - اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا تَقَرَّبْتُ بِه إِلَيْكَ بِلِسَانِي ثُمَّ خَالَفَه قَلْبِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي رَمَزَاتِ الأَلْحَاظِ وسَقَطَاتِ الأَلْفَاظِ وشَهَوَاتِ الْجَنَانِ وهَفَوَاتِ اللِّسَانِ

(۷۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لبعض أصحابه - لما عزم على المسير إلى الخوارج، وقد قال له: إن سرت يا أمير المؤمنين، في هذا الوقت، خشيت ألا تظفر بمرادك، من طريق علم النجوم

فقالعليه‌السلام : أَتَزْعُمُ أَنَّكَ تَهْدِي إِلَى السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا صُرِفَ عَنْه السُّوءُ - وتُخَوِّفُ مِنَ السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا حَاقَ بِه الضُّرُّ فَمَنْ صَدَّقَكَ بِهَذَا فَقَدْ كَذَّبَ الْقُرْآنَ - واسْتَغْنَى عَنِ الِاسْتِعَانَةِ بِاللَّه - فِي نَيْلِ الْمَحْبُوبِ ودَفْعِ الْمَكْرُوه وتَبْتَغِي فِي قَوْلِكَ لِلْعَامِلِ بِأَمْرِكَ - أَنْ يُولِيَكَ الْحَمْدَ دُونَ رَبِّه - لأَنَّكَ بِزَعْمِكَ أَنْتَ هَدَيْتَه إِلَى السَّاعَةِ - الَّتِي نَالَ فِيهَا النَّفْعَ وأَمِنَ الضُّرَّ.

خدایا ان وعدوں کے بارے میں بھی مغفرت فرما جن کا تجھ سے وعدہ کیا گیا لیکن انہیں وفا نہ کیا جاسکا۔خدایا ان اعمال کی بھی غفرت فرما جن میں زبان سے تیری قربت اختیار کی گئی لیکن دل نے اس کی مخالفت ہی کی۔

خدایا آنکھوں کے طنز یہ اشاروں ۔دہن کے ناشائستہ کلمات۔دل کی بے جا خواہشات اور زبان کی ہر زہ سرائیوں کو بھی معاف فرمادے۔

(۷۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب جنگ خوارج کے لئے نکلتے وقت بعض اصحاب نے کہا کہ امیر المومنین اس سفر کے لئے کوئی دوسرا وقت اختیار فرمائیں۔اس وقت کامیابی کے امکانات نہیں ہیں کہ علم نجوم کے حسابات سے یہی اندازہ ہوتا ہے)

کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہیں وہ ساعت معلوم ہے جس میں نکلنے والے سے بلائیں ٹل جائیں گی اورتم اس ساعت سے ڈرانا چاہتے ہو جس میں سفر کرنے والا نقصانات میں گھرجائے گا؟ یاد رکھو جو تمہارے اس بیان کی تصدیق کرے گا وہ قرآن کی تکذیب کرنے والا ہوگا اور محبوب اشیاء کے حصول اور نا پسندیدہ امور کے دفع کرنے میں مدد خدا سے بے نیاز ہو جائے گا۔کیا تمہاریخواہش یہ ہے کہ تمہارے افعال کے مطابق عمل کرنے والا پروردگار کے بجائے تمہاری ہی تعریف کرے اس لئے کہ تم نے اپنے خیال میں اسے اس ساعت کا پتہ بتا دیا ہے جس میں منفعت حاصل کی جاتی ہے اور نقصانات سے محفوظ رہا جاتا ہے۔

۱۰۹

ثم أقبلعليه‌السلام على الناس فقال:

أَيُّهَا النَّاسُ - إِيَّاكُمْ وتَعَلُّمَ النُّجُومِ إِلَّا مَا يُهْتَدَى بِه فِي بَرٍّ أَوْ بَحْرٍ - فَإِنَّهَا تَدْعُو إِلَى الْكَهَانَةِ - والْمُنَجِّمُ كَالْكَاهِنِ والْكَاهِنُ كَالسَّاحِرِ والسَّاحِرُ كَالْكَافِرِ - والْكَافِرُ فِي النَّارِ سِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّه

(۸۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد فراغه من حرب الجمل في ذم النساء ببيان نقصهن

مَعَاشِرَ النَّاسِ إِنَّ النِّسَاءَ نَوَاقِصُ الإِيمَانِ - نَوَاقِصُ الْحُظُوظِ، نَوَاقِصُ الْعُقُولِ

ایہا الناس! خبر دار نجوم کا(۱) مت حاصل کرو مگر اتنا ہی جس سے برو بحر میں راستے دریافت کئے جا سکیں۔ کہ یہ علم کہانت کی طرف لے جاتا ہے اور منجم بھی ایک طرح کا کاہن ( غیب کی خبر دینے والا ) ہو جاتا ہے جب کہ کاہن جادوگرجیسا ہوتا ہے اور جادو گر کافر جیسا ہوتا ہے اور کافر کا انجام جہنم ہے۔چلو نام خدا لے کرنکل پڑو۔

(۸۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جنگ جمل سے فراغت کے بعد عورتوں کی مذمت کے بارے میں)

لوگو! یاد رکھو کہ عورتیں ایمان کے اعتبارسے' میراث کے حصہ کے اعتبار سے اور عقل کے اعتبارسے ناقص ہوتی ہیں۔

(۱)واضح رہے کہ علم نجوم حاصل کرنے سے مراوان اثرات ونتائج کا معلوم کرنا ہے جو ستاروں کی حرکات کے بارے میں اس علم کے مدعی حضرات نے بیان کئے ہیں ورنہ اصل ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا کوئی عیب نہیں ہے۔اس سے انسان کے ایمان اورعقیدہ میں بھی استحکام پیدا ہوتا ہے اور بہت سے دوسرے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔اور ستاروں کاوہ علم جو ان کے حقیقی اثرات پرمبنی ہے ایک فضل و شرف ہے اورعلم پروردگارکا ایک شعبہ ہے وہ جسے چاہتا ہے عنایت کر دیتا ہے۔

امام علیہ السلام نے اولا علم نجوم کو کہانت کا ایک شعبہ قرار دیا کہ غیب کی خبر دینے والے اپنے اخبار کے مختلف مآخذ ومدارک بیان کرتے ہیں۔جن میں سے ایک علم نجوم بھی ہے۔اس کے بعد جب ہ غیب کی خبریں بیان کر دیتے ہیں تو انہیں خبروں کے ذریعہ انسان کے دل و دماغ پر مسلط ہو جانا چاہتے ہیں جو جادوگری کا ایک شعبہ ہے اور جادوگری انسان کو یہ محسوس کرانا چاہتی ہے کہ اس کائنات میں عمل دخل ہمارا ہی ہے اور اس جادو کا چڑھانا اوراتارنا ہمارے ہی بس کا کام ہے' دوسرا کوئی یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتا ہے اور اسی کا نام کفر ہے۔

۱۱۰

فَأَمَّا نُقْصَانُ إِيمَانِهِنَّ - فَقُعُودُهُنَّ عَنِ الصَّلَاةِ والصِّيَامِ فِي أَيَّامِ حَيْضِهِنَّ - وأَمَّا نُقْصَانُ عُقُولِهِنَّ فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ كَشَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ - وأَمَّا نُقْصَانُ حُظُوظِهِنَّ - فَمَوَارِيثُهُنَّ عَلَى الأَنْصَافِ مِنْ مَوَارِيثِ الرِّجَالِ - فَاتَّقُوا شِرَارَ النِّسَاءِ وكُونُوا مِنْ خِيَارِهِنَّ عَلَى حَذَرٍ - ولَا تُطِيعُوهُنَّ فِي الْمَعْرُوفِ حَتَّى لَا يَطْمَعْنَ فِي الْمُنْكَرِ.

(۸۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الزهد

أَيُّهَا النَّاسُ الزَّهَادَةُ قِصَرُ الأَمَلِ - والشُّكْرُ عِنْدَ النِّعَمِ والتَّوَرُّعُ عِنْدَ الْمَحَارِمِ - فَإِنْ عَزَبَ ذَلِكَ عَنْكُمْ فَلَا يَغْلِبِ الْحَرَامُ صَبْرَكُمْ - ولَا تَنْسَوْا عِنْدَ النِّعَمِ شُكْرَكُمْ

ایمان کے اعتبار(۱) سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام حیض میں نماز روزہ سے بیٹھ جاتی ہیں اور عقلوں کے اعتبار سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دو عورتوں کی گواہی ایک مردکے برابر ( ہوتی ہے۔حصہ کی کمی یہ ہے کہ انہیں میراث میں حصہ مردوں کے آدھے حصہ کے برابر ملتا ہے ۔ لہٰذا تم بدترین عورتوں سے بچتے رہو اور بہترین عورتوں سے بھی ہوشیار رہو اورخبردار نیک کام بھی ان کی اطاعت کی بنا پر انجام نہ دینا کہ انہیں برے کام کا حکم دینے کاخیال پیدا ہو جائے۔

(۸۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(زہد کے بارے میں)

ایہاالناس! زاہد امیدوں کے کم کرنے' نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اورمحرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہو جائے تو کم از کم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکریہ کو فراموش نہ کر دینا

(۱)اس خطبہ میں اس نکتہ پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ جنگ جمل کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے اور اس کے مفاہیم میں کلیات کی طرح صورت حال اور تجربات کابھی دخل ہو سکتا ہے یعنی یہ کوئی لازم نہیں ہے کہ اس کا اطلاق ہر عورت پر ہو جائے۔دنیا میں ایسی خاتون بھی ہو سکتی ہے جو نسوانی عوارض سے پاک ہو۔اس کی گواہی بنض قرآن تنہا قابل قبول ہو اور وہ اپنے باپ کی تنہا وارث ہو۔ظاہر ہے کہ اس خاتون میں کسی طرح کا نقص نہیں پایا جاتا ہے جیسے جناب فاطمہ اور ایسی عورت بھی ہو سکتی ہے جس میں سارے نقائص پائے جاتے ہوں اور ان فطری نقائص کے ساتھ کرداری اور ایمانی نقائص بھی ہوں کہ یہ عورت ہر اعتبار سے قابل لعنت و مذمت ہو۔قوانین کا دارومدار نہ قسم اول پر ہوسکتا ہے اورنہ قسم دوم پر۔قوانین کا اطلاق درمیانی قسم پر ہوتا ہے۔جس میں کسی طرح کا امتیاز نہ پایا جاتا ہو اور صرف فطرت نسوانی کی کارفرمائی ہواور امیر المومنین کی اطاعت کی تھی یا انہیں بھڑکایا تھا۔پھر امیر المومنین امام معصوم ہیں کوئی جذباتی انسان نہیں ہیں اور ان سے پہلے رسول اکرم (ص) بھی یہ بات فرماچکے ہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس اعلان کے لئے ایک مناسب موقع ہاتھ آگیا جہاں اپنی بات کو بخوبی واضح کیا جا سکتا ہے اور عورت کے اتباع کے نتائج سے باخبر کیا جا سکتا ہے۔

۱۱۱

فَقَدْ أَعْذَرَ اللَّه إِلَيْكُمْ بِحُجَجٍ مُسْفِرَةٍ ظَاهِرَةٍ - وكُتُبٍ بَارِزَةِ الْعُذْرِ وَاضِحَةٍ.

(۸۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم صفة الدنيا

مَا أَصِفُ مِنْ دَارٍ أَوَّلُهَا عَنَاءٌ وآخِرُهَا فَنَاءٌ - فِي حَلَالِهَا حِسَابٌ وفِي حَرَامِهَا عِقَابٌ - مَنِ اسْتَغْنَى فِيهَا فُتِنَ - ومَنِ افْتَقَرَ فِيهَا حَزِنَ ومَنْ سَاعَاهَا فَاتَتْه - ومَنْ قَعَدَ عَنْهَا وَاتَتْه ومَنْ أَبْصَرَ بِهَا بَصَّرَتْه ومَنْ أَبْصَرَ إِلَيْهَا أَعْمَتْه.

قال الشريف - أقول وإذا تأمل المتأمل قولهعليه‌السلام ومن أبصر بها بصرته - وجد تحته من المعنى العجيب والغرض البعيد - ما لا تبلغ غايته ولا يدرك غوره - لا سيما إذا قرن إليه قوله ومن أبصر إليها أعمته - فإنه يجد الفرق بين أبصر بها - وأبصر إليها واضحا نيرا وعجيبا باهرا

کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اورحجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے۔

(۸۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(دنیا کے صفات کے بارے میں )

میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جس کی ابتدا رنج و غم اورانتہا فنا ونیستی ہے۔اس کے حلال میں حساب میں ہے اور حرام میں عقاب ۔جو اس میں غنی ہو جائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہو جائے اور جو فقیر ہو جائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہو جائے۔جو اس کی طرف دوڑ لگائے اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منہ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہو جائے۔جو اس کو ذریعہ بنا کر آگے دیکھے اسے بینا بنا دے اور جو اس کو منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے۔

سید رضی : اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی'' من ابصر بها بصرته'' میں غورکرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اورگہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے۔خصوصیت کے ساتھ اگر دوسرے فقرہ'' من ابصر الیها اعتمه'' کوملایا جائے تو''ابصر بها '' اور ''ابصر الیها '' کا فرق اور نمایاں ہو جائے گا اور عقل مدہوش ہو جائے گی۔

۱۱۲

(۸۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي الخطبة العجيبة تسمى «الغراء»

وفيها نعوت اللَّه جل شأنه، ثم الوصية بتقواهثم التنفير من الدنيا، ثم ما يلحق من دخولالقيامة، ثم تنبيه الخلق إلى ما هم فيه من الأعراض، ثم فضلهعليه‌السلام في التذكير

صفته جل شأنه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي عَلَا بِحَوْلِه ودَنَا بِطَوْلِه مَانِحِ كُلِّ غَنِيمَةٍ وفَضْلٍ وكَاشِفِ كُلِّ عَظِيمَةٍ وأَزْلٍ أَحْمَدُه عَلَى عَوَاطِفِ كَرَمِه وسَوَابِغِ نِعَمِه وأُومِنُ بِه أَوَّلًا بَادِياً وأَسْتَهْدِيه قَرِيباً هَادِياً - وأَسْتَعِينُه قَاهِراً قَادِراً وأَتَوَكَّلُ عَلَيْه كَافِياً نَاصِراً - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَبْدُه ورَسُولُه

(۸۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

اس خطبہ میں پروردگارکے صفات 'تقویٰ کی نصیحت ' دنیا سے بیزاری کاسبق قیامت کےحالات لوگوں کی بے رخی پر تنبیہ اورپھر یادخدا دلانے میں اپنی فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ساری تعریف(۱) اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی طاقت کی بنا پر بلند اور اپنے احسانات کی بنا پر بندوں سے قریب تر ہے۔وہ ہر فائدہ اورفضل کا عطا کرنے والا اور ہر مصیبت اوررنج کا ٹالنے والا ہے۔میں اس کی کرم نوازیوں اورنعمتوں کی فراوانیوں کی بنا پر اس کی تعریف کرتا ہوں اور اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ وہی اول اور ظاہر ہے اور اسی سے ہدایت طلب کرتا ہو کہ وہی قریب اور ہادی ہے۔اسی سے مددچاہتا ہوں کہ وہی قادر اور قاہر ہے۔اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں کہ وہی کافی اور ناصر ہے۔اور میں گواہی دیتا ہو کہ حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں

(۱) یوں تو امیر المومنین کے کسی بھی خطبہ کی تعریف کرنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ یہ خطبہ غراء کہے جانے کے قابل ہے جس میں اس قدرحقائق و معارف اور معانی و مفاہیم کو جمع کردیا گیا ہے کہ ان کا شمار کرنا بھی طاقت بشر سے بالا تر ہے ۔ آغاز خطبہ میں مالک کائنات کے بظاہر دو متضاد صفات و کمالات کاذکر کیا یا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے اعتبارسے انتہائی بلند تر ہے لیکن اس کے بعد بھی بندوں سے دورنہیں ہے اس لئے کہ ہرآن اپنے بندوں پر ایسا کرم کرتا رہتا ہے کہ یہ کرم اسے بندوں سے قریب تر بنائے ہوئے ہے اور اسے دورنہیں ہونے دیتا ہے۔لفظ'' بحولہ'' میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی بلندی کسی وسیلہ اورذریعہ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ یہ اپنی ذاتی طاقت اور قدرت کا نتجیہ ہے ورنہ اس کے علاوہ ہر ایک کوبلندی اس کے فضل و کرم سے وابستہ ہے اور اس کے بغیر بلندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔وہ اگر چاہے تو بندہ کو قاب قوسین کی منزلوں تک بلند کردے ''اسری بعبدہ'' اوراگر چاہے تو '' صاحب معراج '' کے کاندھوں پربلند کردے ''وعلی واضع اقدامہ ۔فی محل وضع اللہ یدہ ''۔اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کے تین بنیادی مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس بعثت کا اصل مقصد یہ تھا کہ الٰہی احکام نافذہو جائیں بندوں پرحجت تمام ہو جائے اورانہیں قیامت میں پیش آنے والے حالات سے قبل از وقت با خبر کردیا جائے کہ یہ کام نمائندہ پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے اوری ہخدائی نمائندگی کے فوائد میں سب سے عظیم تر فائدہ ہے جس کی بنا پرانسان رسالت الہیہ سے کسی وقت بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔

۱۱۳

أَرْسَلَه لإِنْفَاذِ أَمْرِه وإِنْهَاءِ عُذْرِه وتَقْدِيمِ نُذُرِه

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي ضَرَبَ الأَمْثَالَ ووَقَّتَ لَكُمُ الآجَالَ وأَلْبَسَكُمُ الرِّيَاشَ وأَرْفَغَ لَكُمُ الْمَعَاشَ وأَحَاطَ بِكُمُ الإِحْصَاءَ وأَرْصَدَ لَكُمُ الْجَزَاءَ وآثَرَكُمْ بِالنِّعَمِ السَّوَابِغِ، والرِّفَدِ الرَّوَافِغِ وأَنْذَرَكُمْ بِالْحُجَجِ الْبَوَالِغِ فَأَحْصَاكُمْ عَدَداً - ووَظَّفَ لَكُمْ مُدَداً فِي قَرَارِ خِبْرَةٍ ودَارِ عِبْرَةٍ - أَنْتُمْ مُخْتَبَرُونَ فِيهَا ومُحَاسَبُونَ عَلَيْهَا.

التنفير من الدنيا

فَإِنَّ الدُّنْيَا رَنِقٌ مَشْرَبُهَا رَدِغٌ مَشْرَعُهَا - يُونِقُ مَنْظَرُهَا ويُوبِقُ مَخْبَرُهَا - غُرُورٌ حَائِلٌ

انہیں پروردگارنے اپنے حکم کو نافذ کرنے ' اپنی حجت کوت مام کرنے اورعذاب کی خبریں پیش کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ بند گان خدا!میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے تمہاری ہدایت کے لئے مثالیں بیان کی ہیں تمہاری زندگی کے لئے مدت معین کی ہے تمہیں مختلف قسم کے لباس پہنائے ہیں۔ تمہارے لئے اسباب معیشت کو فراواں کردیا ہے۔تمہارے اعمال کا مکمل احاطہ کر رکھا ہے اور تمہارے لئے جزا کا انتظام کر دیا ہے۔تمہیں مکمل نعمتوں اوروسیع تر عطیوں سے نوازاہے اورموثردلیلوں کے ذریعہ عذاب آخرت سے ڈرایا ہے۔تمہار ے اعداد کو شمار کرلیا ہے اور تمہارے لئے اس امتحان گاہ اور مقام عبرت میں مدتیں معین کردی ہیں۔یہیں تمہارا امتحان لیا جائے گا اور اسی کے اقوال و اعمال پر تمہارا حساب کیا جائے گا۔ یاد رکھو اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اس کا گھاٹ گل آلود ہے۔اس کا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطر ناک ہیں۔یہ دنیا ایک مٹ جانے والا دھوکہ(۱) ہے

(۱)ایک ایک لفظ پرغور کیا جائے اور دنیا کی حقیقت سے آشنائی پیدا کی جائے ۔صورت حال یہ ہے کہ یہ ایک دھوکہ ہے جو رہنے والا نہیں ہے ایک روشنی ہے جو بجھ جانے والی ہے۔ایک سایہ ہے جوڈھل جانے والا ہے اور ایک سہارا ہے جو گر جانے والا ہے۔انصاف سے بتائو کیا ایسی دنیا بھی دل گلانے کے قابل اور اعتبار کرنے کے لائق ہے۔حقیقت امر یہ ہے کہ دنیا سے عشق و محبت صرف جہالت اورناواقفیت کا نتیجہ ہے ورنہ انسان اس کی حقیقت و بیوفائی سے با خبر ہو جائے تو طلاق دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔

قیامت یہ ہے کہ انسان دنیا کی بیوفائی ۔موت کی چیرہ دستی کا برابر مشاہدہ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی عبرت حاصل کرنیوالا نہیں ہے اور ہرآنے والا دور گزشتہ دورکا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہاہے۔ یہ حقیقت عام انسانوں کی زندگی میں واضح نہ بھی ہو تو ظالموں اورستمگروں کی زندگی میں صبح و شام واضح ہوتی رہتی ہے کہ ہر ستمگر اپنے پہلے والے ستمگروں کا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہا ہے اور ہر مسئلہ حیات کا حل ظلم و ستم کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں قرار دیتا ہے۔خدا جانے ان ظالموں کی آنکھیں کب کھلیں گی اور یہ اندھا انسان کب بینا بنے گا۔مولائے کائنات ہی نے سچ فرمایا تھا کہ '' سارے انسان سو رہے ہیں جب موت آجائے گی تو بیدار ہو جائیں گے ''یعنی جب تک آنکھ کھلی رہے گی بند رہے گی اور جب بند ہو جائے گی تو کھل جائے گی۔استغفر اللہ ربی واتوب الیہ

۱۱۴

وضَوْءٌ آفِلٌ وظِلٌّ زَائِلٌ وسِنَادٌ مَائِلٌ حَتَّى إِذَا أَنِسَ نَافِرُهَا واطْمَأَنَّ نَاكِرُهَاقَمَصَتْ بِأَرْجُلِهَا وقَنَصَتْ بِأَحْبُلِهَا وأَقْصَدَتْ بِأَسْهُمِهَا وأَعْلَقَتِ الْمَرْءَ أَوْهَاقَ الْمَنِيَّةِ قَائِدَةً لَه إِلَى ضَنْكِ الْمَضْجَعِ ووَحْشَةِ الْمَرْجِعِ - ومُعَايَنَةِ الْمَحَلِّ وثَوَابِ الْعَمَلِ وكَذَلِكَ الْخَلَفُ بِعَقْبِ السَّلَفِ لَا تُقْلِعُ الْمَنِيَّةُ اخْتِرَاماً ولَا يَرْعَوِي الْبَاقُونَ اجْتِرَاماً يَحْتَذُونَ مِثَالًا ويَمْضُونَ أَرْسَالًا إِلَى غَايَةِ الِانْتِهَاءِ وصَيُّورِ الْفَنَاءِ

بعد الموت البعث

حَتَّى إِذَا تَصَرَّمَتِ الأُمُورُ - وتَقَضَّتِ الدُّهُورُ وأَزِفَ النُّشُورُ أَخْرَجَهُمْ مِنْ ضَرَائِحِ الْقُبُورِ وأَوْكَارِ الطُّيُورِ وأَوْجِرَةِ السِّبَاعِ ومَطَارِحِ الْمَهَالِكِ سِرَاعاً إِلَى أَمْرِه مُهْطِعِينَ إِلَى مَعَادِه رَعِيلًا صُمُوتاً قِيَاماً صُفُوفاً - يَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ ويُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي - عَلَيْهِمْ لَبُوسُ الِاسْتِكَانَةِ وضَرَعُ الِاسْتِسْلَامِ والذِّلَّةِ - قَدْ ضَلَّتِ الْحِيَلُ وانْقَطَعَ الأَمَلُ وهَوَتِ الأَفْئِدَةُ كَاظِمَةً

ایک بجھ جانے والی روشنی۔ایک ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا سہارا ہے۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ے ہے اوراسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو ٹپکنے لگتی ہے اور عاشق کواپنے جال میں گرفتار کر لیتی ہے اور پھراپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے۔انسان کی گردن می ں موت کا پھنڈا ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کرتنگی مرقداور وحشت منزل کی طرف لے جاتی ہے جہاں وہ اپناٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کر لیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پرآجاتی ہے۔نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اورنہ آنے والے افرادگناہوں سے باز آتے ہیں۔پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہاء و فنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ہو جائیں گے اورتمام زمانے بیت جائیں گے اورقیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انہیں قبروں کے گوشوں۔پرندوں کے گھونسلوں ۔درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا۔اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ہوئے۔گروہ درگروہ۔خاموش صف بستہ اوراستادہ ۔نگاہ قدرت ان پر حاوی اور داعی الٰہی کی آواز ان کے کانوںمیں۔بدن پر بیچارگی کا لباس اورخود سپردگی و ذلت کی کمزوری غالب۔تدبیر یں گم۔امیدں منقطع دل مایوس کن خاموش کے ساتھ بیٹھے ہوئے۔

۱۱۵

وخَشَعَتِ الأَصْوَاتُ مُهَيْنِمَةً وأَلْجَمَ الْعَرَقُ وعَظُمَ الشَّفَقُ وأُرْعِدَتِ الأَسْمَاعُ - لِزَبْرَةِ الدَّاعِي إِلَى فَصْلِ الْخِطَابِ ومُقَايَضَةِ الْجَزَاءِ - ونَكَالِ الْعِقَابِ ونَوَالِ الثَّوَابِ.

تنبيه الخلق

عِبَادٌ مَخْلُوقُونَ اقْتِدَاراً ومَرْبُوبُونَ اقْتِسَاراً ومَقْبُوضُونَ احْتِضَاراً ومُضَمَّنُونَ أَجْدَاثاً وكَائِنُونَ رُفَاتاً ومَبْعُوثُونَ أَفْرَاداً ومَدِينُونَ جَزَاءً ومُمَيَّزُونَ حِسَاباً قَدْ أُمْهِلُوا فِي طَلَبِ الْمَخْرَجِ وهُدُوا سَبِيلَ الْمَنْهَجِ وعُمِّرُوا مَهَلَ الْمُسْتَعْتِبِ وكُشِفَتْ عَنْهُمْ سُدَفُ الرِّيَبِ وخُلُّوا لِمِضْمَارِ

اور آوازیں دب کرخاموش ہو جائیں گی۔پسینہ منہ میں لگام لگا دے گا اور خوف عظیم ہوگا۔کان اس پکارنے والے کی آوازسے لرز اٹھیں گے جو آخری فیصلہ سنائے گا اور اعمال کا معاوضہ دینے اور آخرت کے عقاب یا ثواب کے حصول کے لئے آواز دے گا۔

تم وہ(۱) بندے ہو جو اس کے اقتدار کے اظہار کے لئے پیدا ہوئے ہو اور اس کے غلبہ و تسلط کے ساتھ ان کی تربیت ہوئی ہے۔نزع کے ہنگام ان کی روحیں قبض کرلی جائیں گی اور انہیں قبروں کے اندر چھپا دیا جائے گا۔یہ خاک کے اندر مل جائیں گے اور پھر الگ الگ اٹھائے جائیں گے۔انہیں اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا ور حساب کی منزل میں الگ الگ کردیا جائے گا۔انہیں دنیا میں عذاب سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے مہلت دی جا چکی ہے اور انہیں روشن راستہ کی ہدایت کی جا چکی ہے۔انہیں مرضی خدا کے حصول کا موقع بھی دیا جا چکا ہے اور ان کی نگاہوں سے شک کے پردے بھی اٹھائے جا چکے ہیں۔انہیں میدان عمل میں آزاد بھی چھوڑا جا چکا ہے تاکہ آخرت کی دوڑ کی تیاری کرلیں اور سوچ سمجھ کر

(۱)انسان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نہ اس کی تخلیق اتفاقات کا نتیجہ ہے اور نہ اس کی زندگی اختیارات کا مجموعہ۔ وہ ایک خالق قدیر کی قدرت کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اور ایک حکیم خبیر کے اختیارات کے زیر اثر زندگی گذار رہا ہے۔ایک وقت آئے گا جب فرشتہ موت اس کی روح قبض کرلے گا اوراسے زمین کے اوپر سے زمین کے اندر پہنچا دیا جائے گا اور پھر ایک دن تن تنہا قبر سے نکال کر منز حساب میں لا کھڑا کردیا جائے گا اور اسے اس کے اعمال کا مکمل معاوضہ دے دیا جائے گا اور یہ کام غیرعادلانہ نہیں ہوگا اس لئے کہ اسے دنیا میں عذاب سے بچنے اور رضائے خدا حاصل کرنے کی مہلت دی جا چکی ہے۔اسے توبہ کا راستہ بھی بتایا جا چکا ہے اور عمل کے میدان کی بھی نشاندہی کی جا چکی ہے اور اس کی نگاہوں سے شک کے پردیبھی اٹھائے جا چکے ہیں اور اسے میدان عمل میں دوڑنے کا موقع بھی دیا جا چکا ہے۔اسے اس انسان جیسی مہلت بھی دی جا چکی ہے جو روشنی میں اپنے مدعا کو تلاش کرتا ہے کہ ایک طرف یہ بھی خطرہ رہتا ہے کہ تیز رفتاری میں مقصد سے آگے نہ نکل جائے اور ایک طرف یہ بھی احساس رہتا ہے کہ کہیں چراغ بجھ نہ جائے اور اس طرح اس کی روشنی انتہائی محتاط ہوتی ہے۔

۱۱۶

الْجِيَادِ ورَوِيَّةِ الِارْتِيَادِوأَنَاةِ الْمُقْتَبِسِ الْمُرْتَادِ فِي مُدَّةِ الأَجَلِ ومُضْطَرَبِ الْمَهَلِ

فضل التذكير

فَيَا لَهَا أَمْثَالًا صَائِبَةً ومَوَاعِظَ شَافِيَةً - لَوْ صَادَفَتْ قُلُوباً زَاكِيَةً وأَسْمَاعاً وَاعِيَةً - وآرَاءً عَازِمَةً وأَلْبَاباً حَازِمَةً - فَاتَّقُوا اللَّه تَقِيَّةَ مَنْ سَمِعَ فَخَشَعَ واقْتَرَفَ فَاعْتَرَفَ - ووَجِلَ فَعَمِلَ وحَاذَرَ فَبَادَرَ وأَيْقَنَ فَأَحْسَنَ وعُبِّرَ فَاعْتَبَرَوحُذِّرَ فَحَذِرَ وزُجِرَ فَازْدَجَرَ وأَجَابَ فَأَنَابَ ورَاجَعَ فَتَابَ واقْتَدَى

فَاحْتَذَى

کر منزل کی تلاش کرلیں اور اتنی مہلت پالیں جتنی فوائد کے حاصل کرنے اور آئندہ منزل کا سامان مہیا کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے

ہائے یہ کس قدر صحیح مثالیں(۱) اورشفا بخش نصیحتیں ہیں اگر انہیں پاکیزہ دل ' سننے والے کان ' مضبوط رائیں اور ہوشیار عقلیں نصیب ہو جائیں۔لہٰذا اللہ سے ڈرو اس شخص کی طرح جس نے نصیحتوں کو سنا تو دل میں خشوع پیدا ہوگیا اور گناہ کیا تو فوراً اعتراف کرلیا اورخوف خدا پیدا ہوا تو عمل شروع کردیا۔آخرت(۲) سے ڈرا تو عمل کی طرف سبقت کی۔قیامت کا یقین پیدا کیا تو بہترین اعمال انجام دئیے۔عبرت دلائی گئی تو عبرت حاصل کرلی ۔خوف دلایا گیا تو ڈرگی۔روکا گیا تو رک گیا۔صدائے حق پر لبیک کہی تو اس کی طرف متوجہ ہوگیااور مڑ کرآگیا تو توبہ کرلی۔بزرگوں کی اقتدا کی تو ان کے نقش قدم پر چلا

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مالک کائنات کی بیان کی ہوئی مثالیں صائب و صحیح اور اس کی نصیحتیں صحت مند اورشفا بخش ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ کوئی نسخہ شفا صرف نسخہ کی حد تک کارآمد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا استعمال کرنا اور استعمال کے ساتھ پرہیز کرنابھی ضروری ہوتا ہے ۔اور انسانوں میں اسی شرط کی کمی ہے۔نصیحتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے چارعناصر کاہونالازمی ہے۔سننے والے کان ہوں۔طیب و طاہر دل ہوں۔رائے میں استحکام ہو اورفکر میں ہوشیاری ہو۔یہ چاروں عناصر نہیں ہیں تو نصیحتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ہے اور عالم بشریت کی کمزوری یہی ہے کہ اسمیں انہیں عناصر میں سے کوئی نہ کوئی عنصر کم ہو جاتا ہے اوروہ مواعظ و نصائح کے اثرات سے محروم رہ جاتا ہے۔

(۲)ایک مرد مومن کی زندگی کا حسین ترین اور پاکیزہ ترین نقشہ یہی ہے کہ لیکن یہ الفاظ فصاحت و بلاغت سے لطف اندوز ہونے کے لئے نہیں ہیں۔زندگی پر منطبق کرنے کے لئے اور زندگی کا امتحان کرنے کے لئے ہیں کہ کیا واقعاً ہماری زندگی میں یہ حالات اور کیفیات پائے جاتے ہیں۔اگر ایسا ہے توہماری عاقبت بخیر ہے اور ہمیں نجات کی امید رکھنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس دار عبرت میں گذشتہ لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اب سے اصلاح دنیا وآخرت کے عمل میں لگ جانا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ موت اچانک نازل ہو جائے اور وصیت کرنے کا موقع بھی فراہم نہ ہو سکے۔کتنا بلیغ فقرہ ہے مولائے کائنات کا کہ گذشتہ لوگ ہر قید و بند اور ہر پابندی حیات سے آزاد ہوگئے لیکن موت کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے اور اس نے بالآخر انہیں گرفتار کرلیا اوران کی وعدہ گاہ تک پہنچا دیا۔

۱۱۷

وأُرِيَ فَرَأَى فَأَسْرَعَ طَالِباً ونَجَا هَارِباً - فَأَفَادَ ذَخِيرَةً وأَطَابَ سَرِيرَةً وعَمَّرَ مَعَاداً - واسْتَظْهَرَ زَاداً لِيَوْمِ رَحِيلِه ووَجْه سَبِيلِه وحَالِ حَاجَتِه - ومَوْطِنِ فَاقَتِه وقَدَّمَ أَمَامَه لِدَارِ مُقَامِه - فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه جِهَةَ مَا خَلَقَكُمْ لَه - واحْذَرُوا مِنْه كُنْه مَا حَذَّرَكُمْ مِنْ نَفْسِه - واسْتَحِقُّوا مِنْه مَا أَعَدَّ لَكُمْ بِالتَّنَجُّزِ لِصِدْقِ مِيعَادِه - والْحَذَرِ مِنْ هَوْلِ مَعَادِه.

التذكير بضروب النعم

ومنها: جَعَلَ لَكُمْ أَسْمَاعاً لِتَعِيَ مَا عَنَاهَا وأَبْصَاراً لِتَجْلُوَ عَنْ عَشَاهَا وأَشْلَاءً جَامِعَةً لأَعْضَائِهَا - مُلَائِمَةً لأَحْنَائِهَا فِي تَرْكِيبِ صُوَرِهَا ومُدَدِ عُمُرِهَا بِأَبْدَانٍ قَائِمَةٍ بِأَرْفَاقِهَا وقُلُوبٍ رَائِدَةٍ لأَرْزَاقِهَا - فِي مُجَلِّلَاتِ نِعَمِه ومُوجِبَاتِ مِنَنِه وحَوَاجِزِ عَافِيَتِه وقَدَّرَ لَكُمْ أَعْمَاراً

منظر حق دکھایا گیا تو دیکھ لیا۔طلب حق میں تیز رفتاری سے بڑھا اور باطل سے فرار کرکے نجات حاصل کرلی۔اپنے لئے ذخیرہ آخرت جمع کرلیا اور اپنے باطن کو پاک کرلیا۔آخرت کے گھر کو آباد کیا اور زاد راہ کو جمع کرلیا اس دن کے لئے جس دن یہاں سے کوچ کرنا ہے اور آخرت کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اعمال کا محتاج ہونا ہے اورمحل فقر کی طرف جانا ہے اور ہمیشہ کے گھر کے لئے سامان آگے آگے بھیج دیا۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس جہت کی غرض سے جس کے لئے تم کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کاخوف پیدا کرو اس طرح جس طرح اس نے تمہیں اپنے عظمت کا خوف دلایا ہے اور اس اجر کا استحقاق پیدا کرو جس کو اس نے تمہارے لئے مہیا کیا ہے اس کے سچے وعدہ کے پورا کرنے اور قیامت کے ہول سے بچنے کے مطالبہ کے ساتھ۔

اس نے تمہیں کان عنایت کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں اور جسم کے وہ حصے دئیے جو مختلف اعضاء کو سمیٹنے والے ہیں اور ان کے پیچ و خم کے لئے مناسب ہیں۔صورتوں کی ترکیب اور عمروں کی مدت کے اعتبارسے ایسے بدنوں کے ساتھ جو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں اور ایسے دلوں کے ساتھ جو اپنے رزق کی تلاش میں رہتے ہیں اس کی عظیم ترین نعمتوں ' احسان مند بنانے والی بخششوں اور سلامتی کے حصاروں کے درمیان۔اس نے تمہارے لئے وہ عمریں قرار دی ہیں جن

۱۱۸

سَتَرَهَا عَنْكُمْ - وخَلَّفَ لَكُمْ عِبَراً مِنْ آثَارِ الْمَاضِينَ قَبْلَكُمْ - مِنْ مُسْتَمْتَعِ خَلَاقِهِمْ ومُسْتَفْسَحِ خَنَاقِهِمْ أَرْهَقَتْهُمُ الْمَنَايَا دُونَ الآمَالِ وشَذَّبَهُمْ عَنْهَا تَخَرُّمُ الآجَالِ - لَمْ يَمْهَدُوا فِي سَلَامَةِ الأَبْدَانِ - ولَمْ يَعْتَبِرُوا فِي أُنُفِ الأَوَانِ فَهَلْ يَنْتَظِرُ أَهْلُ بَضَاضَةِ الشَّبَابِ إِلَّا حَوَانِيَ الْهَرَمِ - وأَهْلُ غَضَارَةِ الصِّحَّةِ إِلَّا نَوَازِلَ السَّقَمِ - وأَهْلُ مُدَّةِ الْبَقَاءِ إِلَّا آوِنَةَ الْفَنَاءِ مَعَ قُرْبِ الزِّيَالِ وأُزُوفِ الِانْتِقَالِ وعَلَزِ الْقَلَقِ وأَلَمِ الْمَضَضِ وغُصَصِ الْجَرَضِ وتَلَفُّتِ الِاسْتِغَاثَةِ بِنُصْرَةِ الْحَفَدَةِ والأَقْرِبَاءِ - والأَعِزَّةِ والْقُرَنَاءِ فَهَلْ دَفَعَتِ الأَقَارِبُ

کو تم سے مخفی رکھا ہے اور تمہارے لئے ماضی میں گر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں۔وہ لوگ جو اپنے خط و نصیب سے لطف و اندوز ہو رہوے تھے اور ہر بندھن سے آزاد تھے لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا اور اجل کی ہلاکت سامانیوں نے انہیں حصول مقصد سے الگ کردیا۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی۔تو کیا جوانی کی ترو تازہ عمریں رکھنے والے بڑھاپے میں کمرجھک جانے کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا صحت کی تازگی رکھنے والے مصیبتوں اور بیماریوں کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا بقا کی مدت رکھنے والے فنا کے وقت کے منتظر ہیں جب کہ وقت زوال قریب ہوگا اورانتقال کی ساعت نزدیک تر ہوگی اور بستر مرگ پر قلق کی بے چینیاں(۱) اورسوزو تپش کا رنج و الم اور لعاب دہن کے پھندے ہوں گے اور وہ ہنگام ہوگا جب انسان اقربا اولاد اعزا احباب سے مدد طلب کرنے کے لئے ادھر ادھر دیکھ رہا ہوگا۔تو کیا آج تک کبھی اقربا نے موت کو دفع کردیا

(۱)ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان جب دنیا کے تمام مشاغل تمام کرکے بستر پرآئے تو اس خطبہ کی تلاوت کرے اور اس کے مضامین پر غور کرے۔پھر اگر ممکن ہوتو کمرہ کی روشنی گل کرکے دروازہ بند کرکے قبر کا تصور پیدا کرے اور یہ سوچے کہ اگر اس وقت کسی طرف سے سانپ، بچھوحملہ آور ہو جائیں اور کمرہ کی آواز باہرنہ جا سکے اور دروازہ کھول کر بھاگنے کا امکان بھی نہ ہو تو انسان کیا کرے گا اور اس مصیبت سے کس طرح نجات حاصل کرے گا۔شائد یہی تصوراسے قبر کے بارے میں سوچنے اور اس کے ہولناک مناظر سے بچنے کے راستے نکالنے پرآمادہ کر سکے ورنہ دنیا کی رنگینیاں ایک لمحے کے لئے بھی آخرت کے بارے میں سوچنے کا موقعنہیں دیتی ہیں اور کسی نہ کسی وہم میں مبتلا کرکے نجات کا یقین دلا دیتی ہیں اور پھر انسان اعمال سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔

۱۱۹

أَوْ نَفَعَتِ النَّوَاحِبُ وقَدْ غُودِرَ فِي مَحَلَّةِ الأَمْوَاتِ رَهِيناً وفِي ضِيقِ الْمَضْجَعِ وَحِيداً قَدْ هَتَكَتِ الْهَوَامُّ جِلْدَتَه - وأَبْلَتِ النَّوَاهِكُ جِدَّتَه وعَفَتِ الْعَوَاصِفُ آثَارَه - ومَحَا الْحَدَثَانُ مَعَالِمَه وصَارَتِ الأَجْسَادُ شَحِبَةً بَعْدَ بَضَّتِهَا والْعِظَامُ نَخِرَةً بَعْدَ قُوَّتِهَا - والأَرْوَاحُ مُرْتَهَنَةً بِثِقَلِ أَعْبَائِهَا مُوقِنَةً بِغَيْبِ أَنْبَائِهَا لَا تُسْتَزَادُ مِنْ صَالِحِ عَمَلِهَا - ولَا تُسْتَعْتَبُ مِنْ سَيِّئِ زَلَلِهَا أَولَسْتُمْ أَبْنَاءَ الْقَوْمِ والآبَاءَ وإِخْوَانَهُمْ والأَقْرِبَاءَ - تَحْتَذُونَ أَمْثِلَتَهُمْ وتَرْكَبُونَ قِدَّتَهُمْ وتَطَئُونَ جَادَّتَهُمْ فَالْقُلُوبُ قَاسِيَةٌ عَنْ حَظِّهَا لَاهِيَةٌ عَنْ رُشْدِهَا - سَالِكَةٌ فِي غَيْرِ مِضْمَارِهَا كَأَنَّ الْمَعْنِيَّ سِوَاهَا وكَأَنَّ الرُّشْدَ فِي إِحْرَازِ دُنْيَاهَا.

التحذير من هول الصراط

واعْلَمُوا أَنَّ مَجَازَكُمْ عَلَى الصِّرَاطِ ومَزَالِقِ دَحْضِه وأَهَاوِيلِ زَلَلِه وتَارَاتِ أَهْوَالِه فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه -

ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے ؟ ہرگز نہیں۔مرنے والے کو تو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اس کی جلد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اور پامالیوں نے اس کے جسم کی تازگی کو بوسیدہ کردیا ہے۔آندھیوں نے اس کے آثار کو مٹا دیا ہے اور روز گار کے حادثات نے اس کے نشانات کو محو کردیا ہے۔جسم تازگی کے بعدہلاک ہوگئے ہیں اور ہڈیاں طاقت کے بعد بوسیدہ ہوگئی ہیں۔روحیں اپنے بوجھ کی گرانی میں گرفتار ہیں اور اب غیب کی خبروں کا یقین آگیا ہے۔اب نہ نیک اعمال میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے۔اور ہ بد ترین لغزشوں کی معافی طلب کی جا سکتی ہے۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء اجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جا رہے ہو اور انہیں کے طریقہ کو پانئاے ہوئے ہو اور انہیں کے راستہ پر گامزن ہو؟ ۔حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں' غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا مخاطب ان کے علاوہ کوئی اور ہے اور شائد ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کر لینے میں ہے۔یاد رکھو تمہاری گزر گاہ صراط اور اس کی ہلاکت خیز لغزشیں ہیں۔تمہیں ان لغزشوں کے ہولناک مراحل اور طرح طرح کے خطر ناک منازل سے گزرنا ہے۔اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔اس طرح جس طرح وہ

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اوراس کو آفتوں اور زہریلے گناہوں سے نہ بچایاجائے اور ان کو دل سے دور نہ کیا جائے ؛تو ایسا بگڑ جاتا ہے کہ خدا وند عالم اس بیزار ہو جاتا ہے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :( واذا ذکر الله وحده اشمازت قلوب الّذین لا یومنون با لآخرة'' ) ( ۱ ) اور جب ان کے سامنے خدائے یکتا کا ذکر آتا ہے تو جن کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل متنفر ہو جاتے ہیں ؛ اگر چہ خدا کو پہچاننا اور اس کی معرفت حاصل کرنا ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے ؛اور انسان کی طبیعت اولیٰ اس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ خدا کو دوست رکھتی ہے اور اس کو پہچانتی ہے لیکن برائیاں اور غلط کام اس کو اس طرح خراب کر دیتے ہیں کہ جب خدا کا نام آتا ہے تو وہ ناخوش ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح انسان کی پہلی طبیعت اس طرح بنی ہے کہ جب دھواں اس کے حلق اور پھپھڑے میں جاتا ہے تو وہ تکلیف محسوس کرتا ہے اور فطری طور پر اس کی وجہ سے کھانسنے لگتا ہے لیکن جب سگریٹ پینے کا عادی ہو جاتا ہے اور اپنے جسم کو ایسا عادی بنا لیتا ہے کہ جب تک سگریٹ کا دھواں اپنے حلق میں نہیں ڈال لیتا اس کو آرام اور سکون نہیں ملتا ہے حتیٰ اگر سگریٹ پئے بھی رہتا ہے اور اس کا اس سے دل بھی بھرا رہتا ہے لیکن صرف اس وجہ سے کہ سگریٹ گھرمیں نہیں ہے تو اس کو نیند نہیں آتی ہے ؛وہی تلخ اور کڑوادھواںجو کہ پہلی فطرت کے خلاف تھا اوراس کوتکلیف دیتا تھا اب اس کی عادت کی وجہ سے اس کا مزاج ایسا بدل گیا ہے کہ وہی

____________________

(۱) سورہ زمر : آیہ ۴۵۔

۱۶۱

دھواں اس کی زندگی کا حصّہ بن گیا ہے اور اس سے ایسی وابستگی ہو گئی ہے کہ اس کے بغیر اس کو نیند نہیں آتی ہے۔

منجملہ ان چیزوں کے جو انسان کی معنوی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں خدا وند عالم کی محبت ، اس کے دوستوں کی محبت ،اس کے دوستوں کے دوستوں کی محبت ہے کہ جن کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے انسان کو کوشش کرنا چاہئے؛ اس کے بر خلاف گناہ ،شیطان اور دشمنان خدا اور دشمنان دین کی محبت کو اپنے دل سے نکالنے کی سعی کرنی چاہئے۔ انسان کی معنوی زندگی کے لئے صرف گناہ ہی نہیں بلکہ گناہ کا تصّور بھی نقصان پہونچانے کا سبب بنتا ہے؛ اگر مومن یہ چاہتا ہے کہ اس کا ایمان مکمل ہو اور اس کی روح بلند سے بلند تر ہو تو اس کو اپنے ذہن میں گناہ کا خیال بھی نہیں لانا چاہئے؛ شاید یہ بات ہمارے زمانے اور دور میں ]کیونکہ ہمارا ماحول ایسا ہے[ افسانہ لگتی ہو اور اس کا تصور بھی کرنا ہمارے لئے مشکل ہو تصدیق تو بعد کی بات ہے ؛لیکن یہ بات واقعیت اور حقیقت رکھتی ہے ؛اگر چہ میں ان بعض داستانوں پر جو لوگ بیان کرتے ہیں ذاتی طور سے یقین نہیں رکھتا اور عام طور پرمیری عادت بھی نہیں ہے کہ میں بحث کو قصّہ اور کہانی سے ثابت کروں لیکن پھر بھی کبھی کبھی ذہن کو مطالب سے قریب کرنے کے لئے بعض داستانوں کا نقل کرنا مفید ہوتا ہے لہٰذامیں انھیں داستانوں میں سے ایک کو یہاں پر نقل کر رہا ہوں جو کہ اس سے (بحث ) مربوط ہے ۔

۱۶۲

روحی جذب و دفع کا ایک عالی نمونہ

یہ داستان سید رضی اور سید مرتضیٰ سے متعلق مشہور ہے یہ دونوں بھائی تھے سید رضی وہی ہیں جنھوں نے نھج البلاغہ کو جمع کیا ہے؛ سید مرتضیٰ بھی صف اول کے علماء سے ہیں اور بہت بڑی شخصیت کے مالک ہیں ،جب ان دونوں بھائیوں نے پہلی مرتبہ اپنے استاد شیخ مفید کے پاس جانا چاہا مرحوم مفید نے اس سے پہلے رات کو خواب میں دیکھا کہ جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیھا اپنے دونوں فرزند امام حسن اور امام حسین کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئی ہیں اور فرماتی ہیں کہیا شیخ علّمهما الفقه یعنی اے شیخ ان کو فقہ کی تعلیم دو شیخ خواب دیکھ کر اٹھے تعجب کیا یہ کیا ماجرا ہے؟میری کیا حیثیت ہے کہ میں امام حسن اورامام حسین کو تعلیم دوں، صبح ہوئی اور درس کے لئے مسجد گئے ابھی درس دے ہی رہے تھے کہ ایک معظمہ خاتون کو دیکھا دو بچوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تشریف لائیں اور فرماتی ہیں یا شیخ علّمھما الفقہ اے شیخ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دو یہ دونوں بچّے کوئی اور نہیں بلکہ وہی سید رضی اور سید مرتضیٰ تھے ۔بہر حالم میرا مقصد یہ واقعہ ہے جیسا کہ لوگوں کا بیان ہے: ایک دن ان دونوں بھائیوں نے سوچا جماعت سے نماز پڑھی جائے؛ مستحب ہے کہ امام جماعت ماموم سے افضل ہو اور یہ دونوں بھائی علم کے اس بلند درجے پر فائز تھے کہ نہ صرف واجبات بلکہ مستحبات پر بھی عمل کرتے اور محرمات کے ساتھ مکروہات سے بھی پرہیز کرتے تھے؛ سید مرتضیٰ چاہتے تھے کہ اس مستحب (جماعت سے نماز پڑھنے )پر بھی عمل کریں دوسری جانب واضح اور صریحی طور پر اپنے بھائی سے یہ کہہ نہیں سکتے تھے کہ اے بھائی !میں تم سے افضل ہوں لہذٰا مجھ کو امام جماعت ہونا چاہئے تا کہ جماعت کااور زیادہ ثواب ہم دونوں کو مل جائے،لہذا انھوں نے چاہا کہ اشارے میں اپنے بھائی کو اس مطلب کی جانب متوجہ کریں اور کہا کہ ہم میں سے وہ امامت کرے جس سے آج تک کوئی گناہ سرزدنہ ہوا ہو گویا سید مرتضیٰ اشارةًیہ بتاناچاہتے تھے کہ جس وقت سے میں حد بلوغ کو پہونچا ہوں، تب سے آج تک مجھ سے کوئی گناہ نہیں ہوا ہے؛ لہذا بہتر یہ ہے کہ میں امامت کے فرائض انجام دوں۔سید رضی نے فرمایا کہ بہتر ہے کہ ہم دونوں سے وہ امام ہو جس نے آج تک گناہ کا خیال بھی نہ کیا ہو، گویایہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب سے میں سن بلوغ کو پہونچا ہوں تب سے میں نے گناہ کا خیال بھی نہیں کیا بہر حال یہ واقعہ کتنی حقیقت رکھتا ہے یہ بات اہم نہیں ہے اہم یہ ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایمان کا سب سے بہترین اور بلند درجہ یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں گناہ کا تصور بھی نہ آئے۔ قرآن کریم میں خدا وندعالم ارشادفرماتا ہے:( یا ایهاالذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ) ( ۱ ) اے وہ لوگو !جو کہ ایمان

____________________

(۱)سورہ حجرات : آیہ ۱۲ ۔

۱۶۳

لائے ہو بہت سے گمانوں سے پرہیز کرو بیشک بعض گمان اور شک گناہ ہیں ، لہذٰا مومن کو چاہئے کہ برے گمان سے بھی دافعہ رکھتا ہو اور اس گمان کو اپنے سے دور رکھے؛ گنا ہ کا خیال رکھنا اور اس کے مناظر کو سوچنا اور اس کی فکر کرنا ممکن ہے انسان کے اندر دھیرے دھیرے وسوسہ کو جنم دے اور اس کو گناہ کی طرف کھینچ لے جائے مومن کو چاہئے کہ ہر حال میں خدا کو یاد رکھے قرآن مجید میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے:( الذین یذکرون الله قیاماً و قعوداً وعلیٰ جنوبهم ) ( ۱ ) وہ لوگ ہر حال میں چاہے کھڑے ہوں یا بیٹھے یا کروٹ کے بل ہوں خدا کو یاد رکھتے ہیں ؛اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلو کے بل لیٹے ہوں یا سونے کے لئے آنکھوں کو بند کرلئے ہوں ؛اس حال میں بھی خدا کو یاد رکھو؛ اوراس بات کی کو شش کرو کہ خدا کی یاد میں تم کو نیند آ ئے تاکہ تمہاری روح بھی سونے کے عالم میں خدا کے عرش اور ملکوت کی سیرکرے ؛بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جوسونے کے وقت دوسری فکروںکو اپنے ذہن میں لاتے ہیں اور اس سے اپنی فکر کو گندہ کرتے ہیں اورجس وقت سوتے ہیں توشیاطین کی دنیا کی سیر کرتے ہیں اور خواب بھی گناہ کا دیکھتے ہیں ۔

یہ وہ اثرات ہیں جو انسان کی معنوی زندگی میں پیش آتے ہیں ۔ جس طرح مادی اور دنیاوی زندگی میں انسان اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اسکا جسم نشو ونما کرے

____________________

(۱)سورہ آل عمران: آیہ، ۱۲۵

۱۶۴

اور صحیح اورسالم رہے تو اسکوچاہئے کی اچھی غذا کھائے اور خراب وزہریلے کھانے سے جوکہ نقصان دہ ہے پرہیز کرے ،اسی طرح روحی زندگی کے شعبہ میں بھی جو چیز اسکی روح کے لئے فائدہ مندہے اسکو جذب یعنی حاصل کرے اور جو چیزنقصان دہ اور مضر ہے اسکو دفع یعنی دور کرے ۔

آیہ( فلینظرالانسان الیٰ طعامه ) ( ۱ ) کی تفسیر

یعنی انسان اپنی خوراک اور غذا کی طرف دیکھے ،البتہ اس سے پہلے اور بعد کی آیات کے قرینے سے یہ بات کی ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں طعام، مادی اورجسمانی غذاسے مربوط ہے،کیوںکہ گفتگو اس اندازسے ہے کہ اے انسان دیکھ یہ غذا کہاں سے آرہی ہے؟ ہم نے پانی کو آسمان سے کیسے نازل کیا،اور کس طر ح پودوں اورسبزوں کو اگایا؛پھر یہ سبزے کس طرح جانوروں کی غذا بنے اور پھر تم کس طرح ان جانوروں کے گوشت سے فائدہ حاصل کرتے ہو؛ یہ سب نعمتیں ہیں جن کو خدا نے تمھارے لئے مہّیا کی ہے ؛خلاصہ یہ کہ آیہ اس بات کی نشان دہی کر رہی ہے کہ ظاہراًیہاں طعام سے مراد جسمانی غذا ہے؛ لیکن اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ایک روایت بیان ہوئی ہے جو در حقیقت تاویل کی منزل میں ہے اس آیت کی باطنی تفسیر ہے کہ( 'فلینظر الانسان الیٰ علمه من یتّخذ'' ) انسان اپنے علم کو دیکھے کہ وہ کہاں سے حاصل کررہا ہے ؟کیونکہ علم روح کی غذا ہے اور اس کے مصرف میں انسان کو خاص توجہ دینی چاہئے ؛یعنی جس طرح انسان باہر سے غذا اور کھانا

____________________

(۱) سورہ عبس: آیہ ۲۴۔

۱۶۵

لاناچاہتا ہے تو وہ اس بات کی سعی کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کون سا ہوٹل صفائی کا زیادہ خیال رکھتا ہے اور کس کا کھانا اچھا اور بہتر رہتا ہے،اس کے بعد وہاں سے غذا حاصل کرتا ہے اسی طرح علم بھی آپ کے روح کی غذا ہے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب اور جس سے چاہا علم حاصل کر لیا ؛بلکہ آپ جس استاد سے علم حاصل کر رہے ہیں اس کو دیکھنا چاہئے کیا وہ معنوی اور روحی پاکیزگی رکھتے ہیں یا نہیں ؟ ہر وہ علم جو کسی بھی صورت میں پیش ہو چاہے کلا س میں ہو یا کتاب میں ، تقریر ہو یا تحریر یاکسی اور طریقہ سے اس پر بھروسہ نہ کریں ؛بلکہ دیکھیںکہ یہ علم کس طرح اور کہاں سے آرہا ہے؛ اس لئے کہ علم کا اثرروح پر،اس غذا کے اثرات سے جو کہ جسم و بدن پر ہوتا ہے کم نہیں ہے ؛جس طرح آپ اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ آپ کی جسمانی غذا صاف اور پاک و پاکیزہ ہو؛ پھل، سبزی وغیرہ کو خود آپ دھو کر استعمال کرتے ہیں اور ان چیزوں کو اس کے بعد کھاتے ہیں ، علم بھی آپ کی روح کی غذا ہے اس سے بھی باخبر ر ہیں کہ جو علم حاصل کر رہے ہوں وہ خراب اور آلودہ تو نہیں ہے، اس مقام پر بھی جاذبہ اور دافعہ ضروری ہے۔

وہ چیزیں جو ایمان کو کمزور کرتی ہیں اور ہمارے عقیدہ ا ور یقین کو متزلزل کرتی ہیں یا ان کے خراب کرنے کا سبب ہیں ان سے ہم کو بچنا چاہئے اور ایسے علم کو حاصل کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور اس کو حاصل نہیں کرنا چاہئے، مگر صرف اس صورت میں کہ ہمارا علم اتنا مستحکم ہو کہ وہ غلط باتیں ہمارے اوپر اثر نہ ڈال سکیںاور ان کے اثرات سے محفوظ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔

۱۶۶

جس طرح ٹیکوں اور انجکشن کے ذریعہ ہم اپنے بدن کو بعض بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور انجکشن کا کام یہ ہوتا ہے کہ بیماریوں اوروبائوں کے جراثیم کو ہمارے جسم پر موثر ہونے نہیں دیتا؛ اسی طرح محکم اور متقن دلائل خاص کر اسلامی علوم کو حاصل کرکے ہم اپنی روحانی فکر کو بھی بعض غلط فکروں اور گمراہ کن شبہات سے محفوظ کر لیں تاکہ وہ غلط شبہے اور فاسد فکریں ہمارے اوپر اثر انداز نہ ہو سکیں ؛اگر کوئی شخص مصئونیت اور علمی کمال کے اس درجہ پر پہونچا ہو تو اس کے لئے غلط مطالب کا پڑھنا اور اس طرح کے شبہات کا مطالعہ کرناحرج نہیں رکھتاہے؛ لیکن جو شخص اس مرتبہ کمال پر نہیں پہونچا ہے اس کو چاہئے کہ ان مطالب سے اپنے کو دور رکھے ۔ خدا وند عالم قرآن کریم میں ارشاد فر ما رہا ہے :( اذا سمعتم آیات الله یکفر بها و یستهزابه فلا تقعدوامعهم حتیّ یخوضوا فی حدیث غیر ه انکم اذا مثلهم ) ( ۱ ) جس وقت تم دیکھو یا سنو کہ خدا کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اوراس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو انکے ساتھ نہ بیٹھو،یہاں تک کہ وہ لوگ اس کے علاوہ دوسری باتوں میں مصروف نہ ہو جائیں ورنہ تم بھی انھیں میں سے ہو جائوگے یہ نہ کہو کہ ہم مومن ہیں اور خدا و رسول کو

____________________

(۱) سورہ نساء : آیہ ۱۴۰۔

۱۶۷

مانتے ہیں لہذاان کافروںکی باتیں ہمارے اندر اثر نہیں کریں گی۔ جب تک تم ہر طرح سے محکم اورمحفوظ نہ ہو جائو اس وقت تک اس بات کا خوف ہے کہ اگر تم ان کے جلسوں میں جائو گے، تقریروں کو سنو گے تو یہ فکری جراثیم دھیرے دھیرے تمھارے اندر بھی سرایت کر جائیں گے اور تمھارے اعتقاد و ایمان کو خراب کر دیں گے اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:( اذا رایت الذین یخوضوا فی آیا تنا فا عرض عنهم حتیّٰ یخوضوا فی حد یث غیره ) ( ۱ ) اور جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری نشانیوں کے بارے میں بے ربط بحث کر رہے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہو جائو یہاں تک کی وہ دوسری باتوں میں مصروف ہو جائیں ۔خدا کا دستور جو کہ ہماری اور آپ کی روح کا معالج ہے اور جو دوا تجویز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے لازمی علم ومعرفت کے ٹیکے کے ذریعہ محفوظ ہونے سے پہلے ایسی محافل وجلسات میں کہ جہاں فکری شبہات اور باطل خیالات پیدا کئے جاتے ہیں شرکت نہ کرو، وہ اخبار، مقالہ اور ڈائجسٹ نیز ایسی کتابیں جو کہ مذہبی مقدسات کا مسخرہ کرتے ہیں اور ان کی توہین کرتے ہیں اور دین کے اصول اور احکام میں شک و شبہ کا سبب واقع ہوتے ہیں تو ان کو نہیں پڑھنا چاہئے۔ اگر ایسی جگہوں پر جائیں گے یا ایسی چیزوں کو پڑھیں گے تو کیا ہوگا ؟ قرآن میں اس کے جواب کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:( انکم اذاًمثلهم انّ اللّه جامع الکافرین و المنافقین فی جهنم جمیعاً ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورہ انعام : آیہ ۶۸۔

(۲)سورہ نساء :آیہ ۱۴۰۔

۱۶۸

اور اس صورت میں تم بھی انھیں کے مثل ہو جائو گے ،بیشک خدا کافروں اور منافقوں سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔'' اگر تم نے ہماری نصیحت کو قبول نہیں کیا اور اپنے کانوں سے سن کر اس پر عمل نہیں کیا اور ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھے بیٹھے تو تم بھی دھیرے دھیرے مقدسات کی اہانت کرنے اور دینی عقائدو احکام کو کمزور کرنے والوں میں شمار کئے جائوگے اور آخر کار تم بھی جہنم میں جائوگے ۔

جس طرح کوئی پھیلنے والی بیماری میں مبتلا ہو تو آپ اس سے بچتے اور دور رہتے ہیں تا کہ اس کی بیماری کی زد میں آپ بھی نہ آجائیںاسی طرح آپ کو ان لوگوں کے جلسات اور خود ان لوگوں کے درمیان نہیں جانا چاہئے جو فکری بیماریوں کو اٹھائے پھرتے ہیں یا نقل کرتے ہیں ، لہذٰا ان سے پرہیز کرنا چاہئے مگر یہ کہ آپ محفوظ رہنے والے اسباب و وسائل سے مجہّز ہوں ،جو کہ پھیلنے والے جراثیم کو آپ کے اندر آنے سے روک سکیں، اس حالت میں صرف ان سے بچنا ہی نہیں چاہئے بلکہ ان کے علاج کی کوشش کرنی چاہئے، اور ان کو اس بیماری سے نجات دلانا چاہئے جس طرح ڈاکٹر اور نرس ،محافظ وسائل او ر سسٹموںکے ذریعہ جراثیم اور اس کے اثرات کے داخل ہونے سے ر وکتے ہیں نیز جسمانی بیماریوں سے مریضوں کا علاج کرتے ہیں ۔

اگرچہ ڈاکٹر کا فریضہ ہے کہ وہ بیمار کے قریب آئے اور اس سے ربط رکھے پھر بھی وہ یہ کام بہت احتیاط سے کرتا ہے اور تمام حفاظتی چیزوں کی رعایت کرتے ہوئے انجام دیتا ہے اور دوسرے لوگ علم و وسائل کے نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ وہ بیماری سے متعلق کچھ نہیں کر سکتے بلکہ بیمار کے قریب ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی بیمار ہو جاتے ہیں ،انھیںکسی بھی صوورت سے ایسی حالت میں مریض سے قریب نہیں ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ لوگوں کی روح اورفکر بھی پھیلنے والی خطرناک بیماریاں رکھتی ہوں اور لازمی احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ان کی بیماریاں ہمارے اندر سرایت کر جائیں۔

۱۶۹

روح کی بیماری اور سلامتی

روح کی مکمل سلامتی کی علامت اور نشانی یہ ہے کہ وہ خدا کو دوست رکھے، اس کے اندر خدا کی یاد، اس کے ذکر سے لذت اور خوشی کا احساس ہونیز ہر وہ چیز اور ہر وہ شخص جو اس کی سچی اطاعت اور اس کے حکم کی پیروی کرتا ہواس سے عشق اور والہانہ محبت کرتا ہو۔ روح کے بیمار ہونے کی نشانی یہ ہے کہ جب نماز ،دعااور دینی محافل و مجالس سے متعلق گفتگو ہو تو اس کے اندر کوئی جذبہ پیدا نہ ہو اور بہت ہی نا گواری اور بے توجہی کے ساتھ اس کے لئے آمادہ ہوتا ہو؛ اگر کوئی انسان کئی گھنٹوں سے کھانا نہ کھائے ہو اور اس کے بعد بھی اس کو بھوک نہ لگے اور بہترین اچھی غذا ئوںکو کھانے کے لئے تیار نہ ہو تو یہ بیماری اور مزاج کے خراب ہونے کی نشانی ہے ۔

ہم کو یہ جاننا چاہئے اور اس بات پر متوجہ ہونا چاہئے کہ دل بھی بیماریاں رکھتا ہے، خدا وند عالم فرماتا ہے :( فی قلوبهم مرض ) ( ۱ ) یعنی ان کے دلوں میں مرض ہے، اگر دل میں بیماری ہو اور اس کا علاج نہ ہو تو بیماری بڑھتی جاتی ہے ،( فزادهم الله مرضاً ) ( ۲ ) اور اللہ ان کی بیماری کو زیادہ کر دیتا ہے؛ اگرہم اس بیماری کو بڑھنے سے نہ

____________________

(۱۔۲) سورہ بقرہ :آیہ ۱۰۔

۱۷۰

روکیں اور وہ دل کے اندر جڑ پکڑ لے تو پھر کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے اور پھر اس کے اچھا ہونے کی امید باقی نہیں رہتی؛ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی آدمی نہایت ڈھالو اور گہری کھائی میں جا پڑا ہو اور اپنے کو اس کی تہ تک گرنے سے نہ روک سکتا ہو۔قرآن مجیدمیں ارشاد ہوتا ہے( طبع الله علیٰ قلوبهم و سمعهم وابصارهم اولٰئک هم الغافلون ) ( ۱ ) خدا نے ان کے دلوں اور کانوں نیز ان کی آنکھوں پر مہر لگا دی ہے وہی لوگ غافل اور لا پروا ہ ہیں ۔

کبھی اس حال میں کہ ہماری بیماری کینسراور لاعلاج بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے، ہم اس سے غافل رہتے ہیں اورکبھی کبھی تو بہت خوش رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ دن بہ دن ترقی حاصل کر رہے ہیں اور منزل کمال سے نزدیک ہو رہے ہیں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :( قل هل ننبئکم بالاخسرین اعمالا الذین ضلّ سعیهم فی الحیوٰةالدّنیاوهم یحسبون انهم یحسنون صنعا ) ( ۲ ) اے پیغمبر! آپ کہ دیجئے کہ کیا ہم تم لوگوں کو ان لوگوںکے بارے میں اطلاع دیںجو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں ؛یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ نحل : آیہ ۱۰۸۔

(۲) سورہ کہف : آیہ ۱۰۳ اور ۱۰۴۔

۱۷۱

ہماری روح جذب وودفع کی محتاج ہے اوراس با ت کا انتخاب کہ کون چیزدفع کریں؟ اورکون چیز جذب کریں ؟یہ ہمارے اوپر چھوڑدیا گیا ہے ۔ہمارے لئے یہ ممکن ہے کہ ہم سگریٹ نوشوں اور گانجا،بھنگاور چرس پینے والوں کے مانند دھوئیںاور زہریلی چیز کو اپنی روح میں داخل کریںاور یہ بھی ممکن ہے کھلاڑیوں ، کوہ نوردوں(پہاڑ پر سفر کرنے والوں )کی طرح پاک اور صاف وشفاف ہوا کو دل اور روح کے لئے انتخاب کریں ؛( من کان یر ید العاجلةعجّلنا له فیها ما نشاء لمن یرید ) ( ۱ ) جو شخص بھی دنیا کا طلبگار ہے ہم اسکے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دیدیتے ہیں پھر اسکے بعد اسکے لئے جہنم ہے جسمیں وہ ذلت ورسوائی کے ساتھ داخل ہوگا اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور وہ اسکے لئے ویسی ہی کوشش بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تو اسکی سعی یقینا مقبول ہے ہم آپ کے پروردگار کی عطا وبخشش سے ان سب کی مدد کرتے ہیں اور پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے۔ وہ لوگ جو کہ جلد ختم ہونے زندگی اوروالی لذتوں کے طلبگارہیں اور اسکے علاوہ کوئی غوروفکر نہیں کرتے اور طبعی طور سے اس تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی تمام توقعات ا و رخواہشات تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ انسان کی خواہشیں بے انتہاہیں جوکچھ اسکو عطا کیا جاتا ہے اسکے بعدبھی وہ اس سے زیادہ کی تلاش میں رہتا ہے، بہر حال خدا انکی اس طرح مددکرتا ہے کہ انکی بعض خواہشوں کو پورا کرتا ہے لیکن انجام اور نتیجہ میں

____________________

(۱) سورہ اسراء آیہ ۱۸ الیٰ ۲۰.

۱۷۲

انکے لئے ذلت اور عذاب جہنم ہے بعض دوسرے گروہ ہیں جو کہ آخرت کے طلبگار اور اسکی نعمتوں کی لذ ت چاہتے ہیں ؛ قرآن کی عبارت میں یہ گروہ توجہ کے لائق ہے ارشاد ہو رہا ہے :سب سے پہلے ارادالآخرة آخرت کے چاہنے والے ہیں ؛ لیکن ایسی چاہت نہیں کہ اسکو حاصل کرنے کیلئے کچھ خرچ نہیں کرتے ؛بلکہوسعیٰ لهاسعیها وہ اسکے لئے کوشش کرتے ہیں اور مناسب چیزوں کو اپنی اس خواہش پر صرف کرتے ہیں ؛ لیکن صرف اسی پر اکتفا ء نہیں کرتے بلکہ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ و ھو مومن یعنی ایمان کے مزہ کو بھی اپنی کوشش اور عمل کے ساتھ شامل کرتے ہیں ،ایسے لوگ صرف اپنی خواہشوں کو ہی نہیں پہنچتے؛ بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ہم (خدا) ایسے لوگوں کی محنت اور کوشش پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیںکان سیعهم مشکوراً ان کی کوششیں لائق شکرہیں البتہ خدا وند عالم کا شکر کیاہے؟ وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔

جو بات اس آیت میں اہم اور توجہ کے قابل ہے وہ یہ ہے :( کلاًنمد هٰولاء من عطا ء ربک ) ہم دونوں گروہ کو ان کی خواہشوں تک پہونچتے میں مدد کرتے ہیں اور دونوں کے لئے وسائل و اسباب کو مہےّا کرتے ہیں یعنی ان چیزوں کا انتخاب جو جذب و دفع سے متعلق ہے خود انسان کے اوپر ہے انسان کا انتخاب اچھا ہو یا برا ؛اس سے فرق نہیں پڑتا ہے ،ہماری طرف سے اس کو اپنی خواہش تک پہونچنے میں مدد ملتی ہے؛اس ضمن میں ایک دوسری الھٰی سنت بھی پائی جاتی ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :( من جاء با لحسنة فله عشر امثالها ومن جاء بالسّئية فلا یجزٰی الاّ مثلها ) ( ۱ ) جو کوئی اچھا کام کرتا ہے اس کو اس کا دس گنا ثواب ملتا ہے اور جو کوئی برا کام کرتا ہے اس کا بدلہ اس کو اتنا ہی ملتا ہے جوشخص غلط اور زہریلی چیزوں کا انتخاب کرتا ہے تو جتنی وہ چیز اور مادہ خراب کرنے کی قوت اورطاقت رکھتا ہے اتنا ہی ہم اس کو موثر بناتے ہیں ؛لیکن جب وہ اچھی چیز اور اچھے مادہ کا انتخاب کرتا ہے تو ہم اس کی تاثیر کو دس گنا بڑھا دیتے ہیں ۔

____________________

(۱)سورہ انعام آیہ ۱۶۰.

۱۷۳

بحث کا خلاصہ

اس جلسہ میں ہماری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان جسمانی زندگی میں جس طرح جاذبہ اور دافعہ کی ضروت رکھتا ہے اسی طرح روحانی اور معنوی زندگی میں بھی جاذبہ اور دافعہ کی ضرورت رکھتا ہے یعنی اس کو ضرورت ایسی قوت و طاقت کی ہے جو اس کے ایمان ، خدا کی محبت اور مفید علم کی راہ میں اس کی مدد کرسکے جو کہ اس کے دل اور قلب کے لئے فائدہ مند ہو، اس کی انسایت کو بڑھائے اور اس کو مضبوط کرے اور اس کو ایسی قوت و طاقت کی بھی ضرورت ہے جس کے ذریعہ وہ شیطان ،گناہ اور دشمنان خدا کی محبت 'جو اس کے دین اور معنوی زندگی کے لئے نقصان دہ ہے 'کو اپنی روح سے دور کردے ۔

البتہ یہ بات فراموش نہیں ہونی چاہئے کہ ہماری اصل بحث جیسا کہ میں نے اس کو شروع میں بھی عرض کیا اسلام میں جاذبہ اور دافعہ سے متعلق تھی اور میں نے عرض بھی کیا کہ اس کو تین طرح سے پیش کیا جا سکتا ہے :

(۱) یہ کہ اسلام کے مجموعی عقائد واخلاق، احکام ا ور دستورات ایسے ہیں کہ انسان کو صرف کچھ چیزوں کے جذب کرنے پر مجبور کرتے ہیں یا فقط دفع کرنے پریا یہ دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں ۔

(۲) اسلام کے احکام اور دستورات ایسے ہیں کہ انسان کے لئے صرف جاذبہ رکھتے ہیں یا صرف دافعہ یاپھر جاذبہ اور دافعہ دونوں رکھتے ہیں ۔

(۳) اسلام لوگوں کوجب اپنی طرف اور ان کی تربیت کی دعوت دیتا ہے تو صرف جذبی راستوں کا انتخاب کرتا ہے یا فقط دفعی راستوں اور طریقوں کو، یا دونوں راستوں کو اختیار کرتا ہے۔ ہم نے اس جلسے میں جو کچھ کہا اصل میں وہ اس بحث کا مقدمہ تھا اور تینوں سوالات ابھی بھی باقی ہیں جن کے بارے میں آئندہ جلسوں میں بحث اور گفتگو ہو گی۔

۱۷۴

سوال اور جواب

سوال :

جسم کے بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اس کے اندر معین مقدار میں غذا کو جذب کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اگر اس سے زیادہ وہ کھانا کھائے گا تو اس کے لئے نقصان کا سبب بنے گا اور وہ دافعہ کی حالت کوپیدا کرے گا۔ کیا روح اور اس کی غذا کے بارے میں بھی یہی محدودیت اور حد بندی ہے ؟

جواب :

سوال بہت اہم ہے اور یہ سوال فلسفہ اخلاق کے مشہورمکتب فکرسے جس کا نام'' مکتب اعتدالہے تعلق رکھتا ہے اس مکتب فکر کے طرف دار لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ اخلاقی فضائل کے باب میں فضیلت کا معیار اعتدال ہے؛ زیادہ بڑھ جانا یا کم ہونا نقصان دہ ہے۔ فطری اور طبعی طور سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض چیزیں کوئی خاص حد نہیں رکھتی ہیں ؛ جتنی زیادہ ہو ںبہترہے جیسے خدا کی محبت ،عبادت ،علم اور بہت سی ایسی چیزیںہیں ان جیسی چیزوں میں اعتدال کے کیا معنی ہیں ؟؛جو سوال یہاں پر پیش ہوا ہے وہ بھی اسی جیسا ہے جس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ فضائل کا حاصل کرنا کوئی حد اور انتہا نہیں رکھتا لیکن مسئلہ یہاں پر یہ ہے کہ انسان دنیا میں محدود طاقت کا مالک ہے ۔اگر وہ صرف کسی ایک چیز کے لئے اپنی پوری طاقت کو صرف کر دے گا تو دوسری چیزوں سے محروم ہو جائے گا ؛اگر ہم صرف عبادت کرنے لگیں اور کھانے ، آرام اور اپنے بدن کی سلامتی کی فکرنہ کریں تو ہمارا جسم بیکار ہو جائے گا اور عبادت کی طاقت و ہمت بھی ہم سے چھن جائے گی ؛یعنی ہماری عبادت میں بھی خلل پڑے گا اور ہمارا جسم بھی بیمار پڑ جائے گا ۔

۱۷۵

یا یہ کہ خدا کا ارادہ انسان کی نسل کو باقی رکھناہے اور یہ مسئلہ بھی اس بات پر منحصر اورمتوقف ہے کہ ہم شادی بیاہ کریں ،ازدواجی رابطہ کو برقرار رکھیں ؛بچوں کی تربییت کریں خلاصہ یہ کہ ایک خاندان کو چلانے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے یقینی طور پر بہت سی قوتوں اور اپنے وقت کو خرچ کرنا پڑے گا؛ اگر انسان صرف معنوی اور اخلاقی مرتبے کی بلندی کی فکر میں رہے گا اور کوئی بھی اہتمام خاندان اور بیوی بچے سے متعلق نہ کرے تو انسانی نسل ختم ہو جائے گی یا برباد ہو جائے گی ۔یا مثلاً اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ میدان جنگ میں حاضر رہے تو وہ زیادہ عبادات اور مستحبات کو انجام نہیں دے سکتا ۔لہذٰاچونکہ انسان دنیا میں کئی قسم کے وظائف اور ذمہ دااریوں کو رکھتا ہے اس کی قوت و طاقت بھی محدود ہے ؛لہذٰا اپنی طاقت و قوت کو ان کے درمیان تقسیم کرے اور ہر حصّہ میں ضرورت بھراس طرح صرف کرے کہ بعض دوسری چیزوں سے مزاحمت کا سبب نہ بنیں ان کے لئے خرچ کرے؛ البتہ یہ انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ ایسا کام کرے کہ اس کی پوری زندگی نماز و قرآن سے لیکر کھانے پینے اور روز انہ کے معمولی کاموںتک بھی لمحہ بہ لمحہ خدا وند عالم سے قریب ہونے کا باعث بنے اور وہ بلندی کے درجات کو حاصل کرتا جائے ۔

۱۷۶

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود-۳

پچھلی بحثوں پر سرسری نظر

پچھلے دو جلسوں میں اسلام میں جاذبہ اور دافعہ سے متعلق اور اس کے حدود کے بارے میں مطالب کو پیش کیا گیا اگر چہ وہ مطالب اصل بحث کے لئے مقدمہ کا جنبہ رکھتے تھے وہ اہم نکتہ جس کے متعلق پچھلے جلسے میں خاص تاکید ہوئی وہ یہ تھی کہ انسان تکامل حاصل کرنے والی ایک مخلوق کے عنوان سے تکامل کے راستے کی تکمیل میں دو طرح کے عوامل کا سامنا کرتا ہے:

(۱) ایک وہ عوامل و اسباب جو کہ فائدہ مند ہیں

(۲) دوسرے وہ عوامل جو کہ نقصان دہ ہیں ؛ انسان کو چاہئے کہ دوسرے زندہ موجودات کی طرح مفید عوامل کو جذب کرے اور مضر عوامل کو دفع کرے ؛اس کام کے لئے سب سے پہلا قدم اور مرحلہ یہ ہے کہ انسان ان دونوں طرح کے عوامل کو پہچانے اور ایک دوسرے کو علیحدہ اور جداکرے؛ لہذٰا پہلا قدم ان عوامل کی پہچان ہے چونکہ یہ جذب و دفع جبری اوور زبر دستی نہیں ہے بلکہ خود انسان کے ارادہ و اختیار سے متعلق ہے اور جس کو وہ انتخاب کرتا ہے وہی انجام پاتا ہے لہذادوسری منزل یہ ہے کہ انسان اپنے ارادہ کومضبوط کرے تاکہ اچھے کاموں کو انجام دے سکے اور برے کاموں کو ترک کر سکے کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جو اچھی اور مفید ہے انسان اس سے لگائو رکھتا ہو اور اس سے لذت حاصل کرتا ہو یا ہر وہ چیز جو کہ اس کے لئے بری اور نقصان دہ ہے اسے نا پسندکرتا ہو اور اس میں رغبت نہ رکھتا ہو؛ بلکہ بہت سی جگہوں میں مسئلہ اس کے بر خلاف ہے مثلاً وہ سبب جو کہ بہت نقصان دہ ہے اسی چیز کو انسان خاص طور سے بہت ہی لگائو کے ساتھ اختیار کرتا ہے مثلاً بعض لوگ سگر یٹ اور شراب وغیرہ کو بہت دوست رکھتے ہیں ،پیش کی جا سکتی ہے لہذا جذب و دفع کے مسئلہ میں شناخت اور پہچان کے علاوہ انسان کے ارادہ کی طاقت بھی بنیادی کردارادا کرتی ہے ۔

۱۷۷

انسان کی روح کے کمال کے لئے مفید اور مضر ا سباب کی تشخیص کا مرجع

لیکن مفید اور مضر اسباب کے پہچاننے کے متعلق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا مرجع اس بات کومشخص ومعےّن کرے اور کہے کہ فلاں سبب ہمارے معنوی کمال اور روح کے لئے فائدہ مند ہے اور اس کو جذب کرنا چاہئے اور کون سا عامل نقصان دہ ہے کہ اس کو دفع کرنا چاہئے ؟ اسی طرح ارادہ کی تقویت کے متعلق، کون سے عوامل ہیں جو اس ارادہ کو قوی بناتے ہیں ؟

ہم مسلمان اور دیندار لوگ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ مرجع خدا ہے اور اسی کو اس مشکل کو حل کرنا چاہئے کیوںکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور وہی مکمل طور سے انسان کی روح وجسم کے خواص وقوانین نیز ان کے ایک دوسرے پر اثرات سے واقف ہے' اور وہی خدا یہ جانتا ہے کہ کون سی چیز انسان کے لئے مفید ہے اور کون سی چیز مضر ہے اور کون سے کام روحی و معنوی جذب اور دفع کا باعث ہے ؛خدا وند عالم نے اس کام کو پیغمبروں کے ذریعہ سے انجام دیا ہے انبیاء کے بھیجنے کا بنیادی فلسفہ یہی تھادین اور اس کے تمام دستورات اس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہیں یعنی اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ روحی و معنوی کمال اوربلندی پر پہونچے اور مفید و مضر اسباب جو کہ اس راستے میں ہیں ، ان کو پہچانے تو اس کودین و انبیاء کو تلاش کرنا چاہئے یعنی انبیاء اور دین سے متمسک ہونا چاہئے ۔

۱۷۸

دین کی تبلیغ کے سلسلہ میں اسلام کی کلی سیاست

اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ہم کو کیا کرنا چاہئے تا کہ لوگ دین کی طرف متوجہ ہوں ؟صرف یہ کہ انبیاء نے روحی اور معنوی تکامل کا نسخہ انسان کے ہاتھوں میں تھما دیا ہے اور ان لوگوں کو صحیح راستے کی نشان دہی کر دی ہے ،یہی کافی ہے؟ بلکہ اس کے علاوہ ایسی تدبیر کرنی ہوگی کہ لوگ اس نسخہ کو قبول کرلیں اور اس پر عمل کریں ؛اب اس جگہ پر پھر جاذبہ اور دافعہ کی بحث آتی ہے ؛لیکن جاذبہ اور دافعہ اس معنی میں کہ انبیاء نے لوگوں کو دین کی طرف بلانے اور ان لوگوں کو اس کے قبول کرنے اور اس پر مطمئن کرنے کے لئے کس راستے اور طریقے کو اختیار کیا ہے؟یعنی اس کے لئے آیاقوت جاذبہ کے طریقے کو اپنایا اور نرمی و مہربانی کے ساتھ اس بات کی کوشش کی کہ لوگ دین کی طرف جذب ہو ں یا یہ کہ ان حضرات نے سختی اور جبری طور سے لوگوں سے چاہا کہ لوگ اس نسخہ پر عمل کریں ؟یا یہ کہ ان دونوں طریقوں کو استعمال کیا؟ خلاصہ یہ کہ کوئی خاص قانون او رقاعدہ اس کے متعلق پایا جاتا ہے یا نہیں ؟ ان تین سوالوں میں ایک سوال ہے جس کے لئے ہم نے پچھلے جلسے میں وعدہ کیا تھا کہ اس کے بارے میں بحث کریں گے البتہ اگر اس مسئلہ میں تفصیل اور جامع و مکمل طریقے سے بحث کی جائے تو کئی جلسوں کی ضرورت ہو گی جس کی گنجائش فی الحال ہمارے جلسے اور پروگرام میں نہیں ہے ، لہذٰا کوشش اس بات کی ہوگی کہ جو کچھ اس سے مربوط ہے اس کو مختصر طور سے یہاں بیان کردیا جائے۔

۱۷۹

(الف )موعظہ اور دلیل سے استفادہ

انبیاء کا سب سے پہلا کام لوگوں کو حق کی طرف دعوت دینا ہے؛ ان کو سب پہلا کام یہ کرنا تھا کہ لوگ ان کی باتوں کو سنیں اور اس بات کو محسوس کریں کہ انبیاء کیا کہتے ہیں اس کے بعد کا مرحلہ یہ تھا کہ لوگ اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں ؟

اس پہلے مرحلے یعنی دعوت تبلیغ اور پیغام پہونچانے میں کچھ بھی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ انبیاء لوگوں کے لئے منطق اور برہان و استدلال لیکر آئے تھے اور قرآن مجید کی آیہ اس پر دلالت کرتی ہے( ادع الیٰ سبیل ربّک با لحکمة والموعظة الحسنة ) ( ۱ ) یعنی لوگوں کو پرور دگار کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو ؛دعوت تبلیغ ، حکمت اور منطق و دلیل کے ساتھ ہونی چاہئے تاکہ اس میں جاذبہ پیدا ہو؛ اس مرحلہ میں دافعہ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ۔

لیکن واقعیت اور حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں کہ حکمت ودلیل اچھی طرح سمجھ لیں؛ اگر ہم خود اپنے کو دیکھیں جس دن سے ہم نے اپنے کو پہچانا

____________________

(۱) سورہ نحل :آیہ۱۲۵۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232