دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)0%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 67641
ڈاؤنلوڈ: 2895

تبصرے:

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67641 / ڈاؤنلوڈ: 2895
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

ہے ہم نے سنا ہے کہ ایک دین اسلام اور ایک مذہب شیعہ نام کا پایا جاتا ہے اور ہم نے اس کو قبول کیا ہے؛ لیکن کیا ہم نے حقیقت میں کبھی اس بات پر غور کیا اور سوچا کہ اس کی عقلی دلیل کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اجتماعی اسباب اور عوامل سے متاثر ہو کر شیعہ مذہب کو قبول کیا ہے؛ اور اصلاً ان لوگوں نے اس سلسلہ میں کوئی تحقیق اور جستجو نہیں کی ہے اور نہ اس کی کوئی دلیل تلاش کی ہے ؛ہاں مجلس ،اسکول اور مدرسے میں کبھی اس سلسلے میں کچھ پڑھا اور سنا ہے لیکن خود سے اپنے اندر ابتدائی طور پر یہ جذبہ اور خواہش نہیں ہوئی کہ اس بارے میں جاکر تحقیق اور جستجو کریں ، اگر ہے بھی تو بہت کم لوگوں میں ۔اکثر لوگ جذبات اور احساسات سے متاثر ہوکر یا مادی اور معنوی جذبوں کے تحت حرکت کرتے ہیں منطق اور دلیل کے ساتھ بہت کم لوگ متوجہ ہوتے ہیں ؛ عام انسانوں کے اندر جو چیز اصلی محرّک ہے وہ فائدہ یا نقصان اور خوف یاامیدہے وہی چیز جو کہ اسلامی تہذیب میں خوف ورجا کے نام سے پائی جاتی ہے یعنی انسان کسی چیز سے خوف رکھتا ہے یا اس چیز میں اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہیتو وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا یہ کہ اس چیز میں دولت ، بلندی اور شہرت تو اس کی طرف قدم بڑھاتا ہے یا پھر یہ کہ بھوک ، بیکاری، تازیانہ، قید خانہ اور سزا کے خوف کی وجہ سے مجبور ہو کر اس کام کو کرتا ہے،

۱۸۱

یہ مثل بہت مشہور ہے کہ انسان خوف و امید کی وجہ سے زندہ ہے ؛عام طور سے یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر سبق اور درس پڑھے گا تو اس کی وجہ سے دوستوں اور ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہ جائے گا یا تعلیم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس کے بعد کوئی مفید کام کرے گا اور پیسہ وغیرہ کما سکے گا یا اس لئے کہ سبق پڑھ کر ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار اور دوسروں کے طعنہ سے محفوظ رہے گا کیونکہ اکثر لوگ ایسے ہی ہیں ،لہذٰا جیسا کہ آیہ کریمہ میں ہے کہ پہلے حکمت کا لفظ ہے اور اس کے بعد موعظہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے '( 'ادع الیٰ سبیل ربّک با لحکمة و الموعظةالحسنة''یعنی ) برہان و دلیل کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اس کام کو انجام دو گے اور کرو گے تو اس سے یہ فائدہ حاصل ہو گا اور اگر اس کام کو نہیں کروگے تو یہ نقصان ہو گا یا اس کے بر عکس اگر اس کام کو کروگے تویہ نقصان ہوگا اور اس کو چھوڑ دو گے تو تم کو یہ فائدہ ہوگا ۔

اگر قرآن کریم میں انبیاء کے اوصاف کا ہم غور سے مطالعہ کریں تو ان کی صفتوں میں بہت سی جگہوں پر مبشر اور منذر کالفظ آیا ہے کہ انبیاء بشارت اور انذار کے لئے آئے ہیں ، خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے( وما نرسل المرسلین الاّ مبشرین و منذرین ) ( ۱ ) ہم نے پیامبروں کو صرف مبشر اور منذر بنا کر بھیجا ہے یعنی وہ صرف بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں ۔

انبیاء نے دعوت اور تبلیغ کے مرحلے میں صرف برہان و دلیل (حکمت )پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ ،جس کو میں نے پہلے بیان کیا او ر شروع میں مختصر طور سے اس کی

____________________

(۱) سورہ انعام آیہ ۴۸.

۱۸۲

وضاحت کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں سے یہ بھی کہتے تھے کہ اگر ہماری باتوں کو تم لوگ قبول کرو گے اور ان پر عمل کرو گے تو اس کے بدلے تمھارے حصّہ بے پناہ نعمتیں اور ہمیشہ رہنے والی بہشت آئے گی اور اگر تم نے ہماری باتوں کو قبول نہیں کیا اور مخالفت کی تو جہنم اور اس کا عذاب تمھارا منتظر رہے گا ؛اب اس جگہ پر لوگ مواقفت یا مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

اس کی تاثیر اس وقت زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے جب اس کے عملی نمونے یا وہ واقعے جو کہ پہلے زمانے میں ہو چکے ہیں ان کے کانوں تک پہونچتے ہیں ؛ اسی لئے آپ قرآن مجید میں دیکھیں گے کہ پچھلی امتوں کے واقعات اور جو عذاب ان پر نازل ہوئے ہیں ان کا تذکرہ ہے اور اس بات سے متنبہ کیا گیا ہے کہ ہرگز تم بھی ایسا کام نہ کرنا ورنہ تمھارا حشر بھی ویسا ہی ہوگا ؛اس جگہ انسان کے ضمیر کے اندر ایک بیچینی اوراضطرابی کیفیت اور تحریک پیدا ہوتی ہے؛ البتہ نفع اور فائدہ کی امیداورنقصان کے خوف ،ان دونوں میں نقصان کا خوف انسان کوکام پر زیادہ ابھارتاہے ؛ یعنی اگر کچھ حد تک دنیاوی اور مادی نعمتوں کو حاصل کر لیتے ہیں اور پھر ا س سے کہا جائے اگر ایسی کوشش اور ز حمت کرو گے تو دولت و نعمت اور شہرت اس سے زیادہ حاصل ہو گی؛ممکن ہے کہ اگر وہ جذبہ و حوصلہ نہ رکھتا ہو تو یہی کہے گا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہی کافی ہے ؛لیکن اگر اس سے کہا جائے کہ اگر کوشش نہیں کروگے تو تمھاری دولت اور ثروت کم ہو جائے گی اور رتبہ کم ہو جائے گا ؛چونکہ نقصان کا خوف ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ نقصان نہ ہونے پائے، اور شاید اسی لئے قران کریم میں بشارت اور انذار ساتھ ساتھ ذکرہوئے ہیں لیکن پھر بھی انذار سے متعلق زیادہ تاکید ہے ، خدا وندتباک وتعا لیٰ کا ارشادہوتا ہے:( و ان من امّةٍ الّاخلا فیها نذیر ) ( ۱ ) یعنی کوئی امت ایسی نہیں گذری ہے جس میں نذیر ( ڈرانے والے )نہ ہوںاسی وجہ سے دعوت و تبلیغ کے آغاز میں جاذبہ اور دافعہ دونوں ایک ساتھ ہونے چاہئیں کیونکہ اس میں حکمت اور استدلال بھی ے اور جنت کا وعدہ اور جہنم سے ڈرانا بھی ہے اور جہنم کے سلسلے میں جو روایات ہیں ان میں دلچسپ اور نہایت ہی وحشتناک طریقے سے ڈرانے والے کے وصف کو بیان کیا گیا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ فاطر : آیہ ۲۴۔

۱۸۳

(ب) موعظہ حسنہ ]نیک اور درست[ ہونا چاہئے

جو نکتہ یہاں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ جب حکمت کے بعد موعظہ کا موقع آئے تو موعظہ حسنہ ہو نا چاہئے یعنی اگر چہ موعظہ بشارت اور انذار دونوں پر مشتمل ہوتاہے اور اس کے معانی و مطالب اچھے نہیں لگتے لیکن اسکے بیان کی کیفیت اوراندازاچھا اور دلپذیر ہونا چاہئے یہاں تک کہ اگر انذار کا مخاطب فرعون جیسا گمراہ انسان بھی کیوں نہ ہو ؟بھی خداوند عالم موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون سے کہتا ہے:( اذهباالیٰ فرعون انه طغیٰ وقولاله قولا لینا ) ۔۔( ۱ ) فرعون کی طرف جائو اس نے سرکشی کی ہے اس سے نرم لہجہ میں گفتگو کرو ،شاید کہ وہ قبول کرے یا خوف ا ختیار کرلے ،یعنی فرعون سرکش ہے پھر بھی تمہارے ا لفاظ اور ڈرانے کاطریقہ ایسا ہو کہوہ ڈر جائے؛ لیکن ڈرائیں تو اپنے الفاظ کونرمی اور ملائمت کے ساتھ بیان کروپہلے سختی اورخشونت کے ساتھ اسکے سامنے نہ جائو۔ دعوت اور تبلیغ کے وقت اگر شروع ہی میں چیخ اور تند کلامی سے اسکو متوجہ کروگے تو وہ اصلاًتوجہ نہیں کرے گا کہ تم کیا کہہ رہے ہو لیکن اگر اس دافعہ والے الفاظ اور اسکے مطلب کو نرمی اورخوش اخلاقی کے ساتھ کہو گے تو ممکن ہے تمھاری بات اس پر اثر کرے ۔

____________________

(۱) سورہ طٰہ : آیہ۴۲ الیٰ ۴۴۔

۱۸۴

(ج)مناظرہ

اس آیہ شریف میں موعظہ کے بعد مجادلہ کو بیان کیا گیا ہے( ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظةالحسنة وجادلهم بالتی هی احسن ) ( ۱ ) یعنی اچھی نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف بلائو اور ان سے بہترین طریقہ سے مجادلہ کرو اس لئے کہ ان کی ہدایت کی طرف راہنمائی کرو تو اچھی طرح سے بحث ومناظڑہ کرو ،مناظرہ کے موقع پر اگر سامنے والا مغلوب بھی ہوجائے اور اسے علمی حیثیت سے شکست دیدو لیکن پھر بھی انصاف وعدالت اور ادب سے باہر نہ نکلو اسکو شکست دینے کے لئے مغالطہ کا سہارا نہ لواس بات کی کوشش کرو کہ اسکو قانع اور مطمئن کردو تاکہ حقیقت اسکو معلوم ہوجائے ؛ساری کوشش اس بات میں صرف نہ کرو کہ چاہے جیسے بھی ممکن ہو ہر قیمت پر اسکو میدان مناظرہ سے خارج کر دو۔

____________________

(۱) سورہ نحل : آیہ ۱۲۵۔

۱۸۵

دعوت وتبلیغ میں دافعہ کے استفادہ نہ کرنے کی وجہ

لہٰذایہ کہا جاسکتاہے کہ دعوت و تبلیغ کے ہر مرحلہ حکمت ،موعظہ ، مجادلہ میں سے کسی میں بھی خشونت ودشمنی اور دافعہ مناسب نہیں ہے اگرچہ مجموعہ کلام و گفتگومین ممکن ہے کہ بات جہنم، اسکی آگ اور عذاب سے متعلق ہو ،لیکن گفتگو کا اندازایسا دلپذیر اور شیرین ہو کہ سامنے والا اس کو سننے اوراس پر غوروفکر کرنے پر آمادہ ہوجائے جب آپ اس انداز سے بات کریں گے کہ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہو جائے تو وہ اس کے متعلق فکر کرے گا اور خود سے یہ کہے گاکہ اگر یہ جہنم اور عذاب واقعاً صحیح ہیں تو میں ہمیشہ کے لئے اس عذاب میں گرفتارہو جائوںگا پس بہتر یہ ہے کہ تحقیق اور جستجو کی جائے اور حقیقت ماجرا سے آگاہی حاصل کی جائے، خاص طور سے جب اس طرف متوجہ ہو کہ نفع اور نقصان کی تعیین میں صرف احتمال کی مقدار کافی نہیں ہے احتمال کا نتیجہ ، محتمل (جس چیز کا احتمال ہو )میں ہے کیونکہ محتمل ہی آخری نتیجہ کو مشخّص و معےّن کرتا ہے یعنی ممکن ہے کہ احتمال کے مواقع اور مواردمیں اگرچہ نفع یا نقصان کا احتمال بہت کم ہولیکن اگر محتمل قوی ہے تو وہ ہمارے لئے حرکت کا سبب ہوگا مثلاًاگر پانچ سال کا بچہ آپ سے کہے کہ اس سیڑھی پر جس سے آپ اوپر جارہے ہیں ایک بجلی کا تارٹوٹ گیا ہے احتیاط سے کام لیجئے گا آپکا پیر اس پرنہ پڑے، یہاں پرمسئلہ،احتمال کے اعتبار سے بہت کمزور ہے کیونکہ پانچ سال کا بچہ کیسے بجلی کے تار کو پہچان سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے ٹیلی فون کا تار یا رسّی تا اور کوئی دوسری چیز ہو، اسے کہاں سے معلوم کہ تارمیں بجلی ہے ؟شاید کوئی ایک تار ہے جو ایسے ہی سڑھیوں پر پڑا ہو ،خلاصہ یہ کہ یہ پانچ سال کے بچے کی بات کوئی خاص احتمال آپ کی نظر میں پیدا نہیں کرتی لیکن پھر بھی یہ مسئلہ موت اور زندگی سے متعلق ہے بجلی سے کوئی مذاق نہیں کرسکتا ، لہذااگرچہ احتمال بہت ضعیف اور کم ہے لیکن محتمل بہت قوی ہے، آپ سیڑھی سے اوپر جانے میں بہت محتاط اور ہوشیار رہیں گے، اگر تار مل جائے تو بہت ہی احتیاط کے ساتھ اس سے بچ کر وہاں سے گذریں گے ۔

۱۸۶

ہماری بحث میں بھی محتمل بہت مضبوط اور قوی ہے یہ مسئلہ موت اور زندگی سے بھی بڑھ کر ہے، مسئلہ عذاب اورجہنم میں ہمیشہ رہنے کا ہے وہ عذاب اور جہنم جس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے اگر اسی آگ اور جہنم کو نرم وآسان زبان، دردمند احساس اور مخلصانہ اندازکے ساتھ بیان کیا جائے تو اس بات کا احتمال زیادہ ہے کہ میری بات کو سنیں گے بلکہ اس سے متا ثر بھی ہوں گے۔

انسان کے شخصی اور خصوصی افعال کے سلسلے میں اسلام کا طرزعمل

لیکن اگر دعوت وتبلیغ کے مرحلہ سے آگے بڑھ کر قوم ،معاشرہ اور عوام کے عمل نیز معاشرہ پر اس کے اثر کے متعلق بحث ہوتو بات جدا ہوگی اور مسئلہ یہاں پر فرق کرتا ہے ،کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک پوشیدہ کام ہے اور اس کا فائدہ یا نقصان پوری طرح سے ایک خاص شخص سے مربوط ہے اور اس کا اثر سماج اورمعاشرہ پر کچھ بھی نہیں ہے مثلاً ایک انسان نماز شب پڑھنے کے لئے آدھی رات کو بستر سے اٹھتا ہے اور بغیر کسی کو اطلاع دئیے ہوئے نمازمیں مشغول ہو جاتاہے، یا العیاذ باللہ ایک بوتل شراب نکال کر گھر کے کسی گوشہ میں چھپ کرپینا شروع کر دیتاہے، ان جیسے موارد میں جاذبہ سے استفادہ کرنابہت اچھا ہے یعنی اس کے لئے نماز شب کے فوائد کو بیان کیا جائے تا کہ اس کے اندر حوصلہ اور جذبہ پیدا ہو اور وہ نماز شب پڑھے ، یامخلصانہ اور دوستانہ طریقے نیز اچھے اور نرم لہجے میں شراب کے نقصانات کو اس کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ وہ اس برے کام سے باز آجائے ،لیکن اسلام میں ایسے مسائل ( جو کہ پوری طرح ایک خاص فرد سے مربوط ہوں ) میں طاقت و قوت اور سختی و عناد کے ساتھ منع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے ،یہاں تک کہ اگر آپ کسی شخص کے ایسے کام سے مطلع ہوتے ہیں تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ اس بات کو اس کے سامنے بیان کریں اور کہیں کہ ہاں میں نے تم کو یہ برا کام کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر کیسے صحیح ہے کہ آپ اس کے غلط کام کو دوسرے کے سامنے بیان کریں ؟

۱۸۷

یہ مومن کا راز ہے اس کو چھپانا چاہئے اور کوئی بھی اس کو ظاہر کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی انسان تنہائی میں گناہ کرنے میں مصروف تھا اور آپ نے اس کو دیکھ لیا اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس سے یہ کہیں کہ میں نے تم کو یہ برا کام کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو ممکن ہے آپ کا یہی کہنا اس بات کا سبب ہو کہ وہ فکر کرے اب تو میرا گناہ عام ہو ہی چکا ہے چھپا کر کروں یا ظاہری طور،پراب کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ،اس کے بعد کھل کر گناہ کروں گاکیونکہ گناہ تو ظاہر ہو چکا ہے لہذٰا ایسے گناہ کو ظاہرکرنااسلام کی نظر میں جائز نہیں ہے ؛پھر کیا حق بنتا ہے کہ جبری اور قہری طور پر اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے ؟ہا ںاگر ایک ایسے بالواسطہ طور پر کہ وہ یہ نہ سمجھ پائے کہ آپ اس کے برے کام سے واقف ہو گئے ہیں تو ایسی جگہ پر ممکن ہے اس کو نصیحت کی جائے، تا کہ وہ اس برے کام سے باز آجائے، توپھر ایسا کرناصحیح ہے۔

اجتماعی افعال کے ساتھ اسلام کا برتائو

بہت سے اعمال ایسے پائے جاتے ہیں کہ اس کا نفع یا نقصان ایک شخص سے کر پورے معاشرہ پر پڑتا ہے البتہ یہ تاثیر کبھی بلا واسطہ (ڈائریکٹ)ہوتی ہے اور کبھی بالواسطہ ہوتی ہے،بلا واسطہ تاثیر اس طرح کہ مثلاً کسی کو مارا پیٹا جا رہا ہو یا اس پر ظلم ہو رہا ہو؛ معاشرہ پر لوگوں کے عمل کی بالواسطہ تاثیر کے مصداق اور اس کے دائرہ کے متعلق اختلاف رائے کا ہونا ممکن ہے لیکن جو چیز مسلّم ہے اور اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے وہ یہ کہ اگر چہ اس عمل کا اثر ظاہراً بعض جگہوں پرمعاشرہ کے تمام افراد پر نہ پڑتا ہو لیکن غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے مثلاً برے کام کو اگر کوئی لوگوں کے سامنے انجام دے، تو یہ ایک بالواسطہ طور پر سکھانے کا طریقہ ہے اور یہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ دھیرے دھیرے اس کا برا ہونا ختم ہو جاتا ہے، اگر ماں اور باپ بچوں کے سامنے جھوٹ بولیں تو گویا یہ بالواسطہ طور پر ان کو سکھاتے ہیں کہ جھوٹ بولنا کوئی قباحت نہیں رکھتا ہے اسی بالواسطہ تاثیر کی وجہ سے( جوکہ معاشرہ پر پڑتی ہے) اسلام نے تجاہر بہ فسق یعنی علی الاعلان گناہ کرنے کو منع کیا ہے اور بعض افعال کے متعلق یہ کہا ہے کہ اسکو علانیہ لوگوں کے سامنے انجام نہیں دے سکتے؛ یعنی اگر ایسے اعمال کو کسی نے تنہائی مین چھپ کر انجام دیا ہے تو صرف گناہ کیا ہے؛ لیکن حقوقی طور پراس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اور حکومت اسلامی بھی اسکو کچھ کہنے والی نہیں ہے؛ لیکن اگر اسی عمل کو وہ لوگوں کے سامنے کھل کر انجام دیتا ہے تو وہ مجرم شمار کیا جائیگا اور اسکو سزا ہو گی ۔

۱۸۸

بہر حال وہ اعمال جو کہ اجتماعی تاثیر رکھتے ہیں اور انکے انجام دینے سے لوگوں کے حقوق پر تجاوز ہوتا ہے انکی نسبت اگر انکی تاثیر بلا واسطہ ہوتی ہے تو اس صورت میں دنیا کے تمام عقلاء کہتے ہیں کہ ایک اجتماعی قوت یعنی حکومت تا کہ ان غلط کاموں کو جن کو دوسرے کے حقوق پر تجاوز کہا جاتا ہے، روک سکے ،یہ مطلب اسلام اور دین الہیٰ سے مخصوص نہیں ہے۔ ان موارد کے علاوہ اگر کسی جگہ کوئی عمل سماج کے لئے معنوی ضرر کا باعث ہو تو اسلام نے حکومت کو اجازت دی ہے بلکہ اس کو مکلف کیا ہے کہ اس میں دخل دے اور اس کام کو روکے؛ اور اسلام کا یہ کام ایک بنیادی اور جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے بر خلاف دوسرے نظاموں جو کہ ڈموکراسی اورلیبرل نظام پر قائم ہیں جمہوری اور لیبرل نظام حکومت میں مثلاً اگر کوئی نیم عریاں یا نا مناسب لباس پہن کر سڑک پر آتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس انسان کی خاص رفتارہے اور اس کا ذاتی معاملہ ہے اوراس کو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا ، اس میں وہ پوری طرح سے آزاد ہے ؛لیکن اسلام نے اس عمل سے منع کیا ہے اس نے کہا کہ یہ عمل معنوی و تربیتی اعتبار سے تباہ کن اثرات کا حامل ہے ،اگر کوئی شخص ایسے عمل انجام دیتا ہے تو اسلام نے اس کو خطا کار کہا ہے اور اس کے ساتھ مجرم کے عنوان سے سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔

جزائی اورکیفری قوانین، اجتماعی نظم قائم کرنے کا سبب

وہ اعمال جو کہ اجتماعی خرابیاں رکھتے ہیں اور دوسروںکے حقوق کی پامالی کا سبب بنتے ہیں ان کو ہر حالت میں روکا جانا چاہئے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ظاہر سی بات یہ ہے کہ حکومت ان کاموں کو انجام دینے کے لئے قانون بنانے کی محتاج ہے وہ قوانین جو کہ ایک معاشرہ اور سماج میں ہوتے ہیں ، ا ن کی دو قسم ہے: (۱) مدنی قانون (۲) جزائی قانون

۱۸۹

مدنی قانون (مدنی حقوق )

لوگوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کو بیان کرتا ہے جیسے تجارت،شادی بیاہ،طلاق،میراث اور ان جیسے قانون ۔

جزائی قانون(کیفری قانون)

اس حکم کو بیان کرتا ہے جو مدنی قانون کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتا ہے یعنی جب مدنی قانون نے لوگوں کی آزادی اور حقوق کو بیان کر دیا ؛اگر کوئی شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جزائی قانون اس کی سزا کو بیان کرتا ہے اور تمام حکومتوں کا ایک اہم قا نون یہی جزائی قانون ہے ؛حکومت اس قانون کو بناتی ہے اور اس کو لاگو بھی کرتی ہے؛ اس کی اصل وجہ اجتماعی نظم کو برقرار رکھنا اور اس کو جاری رکھنا ہے اور وہ سب اسی جزائی قانون سے مربوط ہے؛ اگر حکومت صرف مدنی قانون کے بنانے پر اکتفا کرے اور صرف لوگوں کے حقوق کو بیان کرے اور جب لوگ اس قانون کی خلاف ورزی کریں،ان کے لئے کوئی قانون نہ ہو تو ہم بہت سے مواقع اس مدنی قانون کی مخالفت اور خلاف ورزی کا مشاہدہ کریں گے ۔ہم خود اپنی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگرراہنما پولیس وغیرہ اور جرما نہ نہ ہو تو بہت کم ہی لوگ لال بتیّ،ممنوعہ جگہ پر گاڑیوںکا پارک کرنا ، یک طرفہ راستے سے نہ گذرنا ان سب قوانین کی رعایت کوئی بھی نہیں کرے گا، جو چیز چوروں اور قاتلوںکو ان کے کام سے خوف زدہ کرتی ہے زندان اور قتل کا ڈر ہے اگر یہ ڈر نہ ہو تو لوگوں کے مال و دولت کو آرام سے لوٹ لیں اور ان لوگوں کو قتل کردیں ،بس اسی وجہ سے حکومتوں کا ایک سب سے اہم اور بنیادی کام جزائی قانون کا بنانا اور اس کو جاری کرنا ہے اس قانون کے بغیر اجتماعی نظم اور حکومت کا نظم و نسق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔

۱۹۰

دافعہ، جزائی قوانین کی فطری ماہیت ہے

یہ فطری بات ہے کہ جزائی قانون کے لاگو ہونے کے لئے دافعہ کا ہونا ضروری ہے ؛کیونکہ کوئی بھی قید،کوڑے اور جرمانے سے خوش نہیں ہوتا ہے اور یہ سب کام سخت اور درشت ہیں چاہے یہ سب مسکراہٹ اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام دیئے جائیں؛ اگر کوئی انسان غلط کام کئے ہو اس سے بہت ہی ادب اور مسکراہٹ کے ساتھ کہا جائے مہربانی کرکے پندرہ سال اس قید خانہ میں محبوس ہوجایئے؛ یا یہ کہیں کہ ذرا مہربانی کرکے اپنے جسم سے کپڑے کو ہٹایئے تاکہ اس جسم پر سو کوڑے لگائے جائیں، یا یہ کہا جائے مہربانی کر کے اپنی گردن کو آگے بڑھائیے تا کہ اس کو کاٹا جائے تویہ مسکراہٹ اور احترام کسی چیز کو نہیں بدلے گا اور جن کاموں میں ذاتی طور پر خشونت اور نفرت موجود ہے ان کے اثر کو نہیں بدلے گا ؛کس کو یہ آرزو ہے کہ پندرہ سال بیوی،بچے اور دوستوں سے دور قید خانوں میں جاکر زندگی بسر کرے؟ اگر ایک پولیس افسربہت ہی اچھے اخلاق،نہایت ادب اور عزت و احترام کے ساتھ ہم کو صرف لال بتی سے گذرنے کی وجہ سے نا قابل معافی پانچ ہزارروپئے کا جر مانہ کر دے تو ہم اس بات پر ناخوش ہوتے ہیں ؛ اگر چہ ہم زبان سے کچھ نہ کہیں لیکن دل ہی دل میں ضرور اس کو برا بھلا کہیں گے اب اگرجرمانہ پانچ لاکھ روپئے ہو یا قید خانہ کی سزا ،کوڑے اور جسمی اذیت کے ساتھ ہو تو ایسی جگہوں پر دافعہ کا پایا جانا لازمی ہے؛ بہر حال کوئی بھی انسان جزائی قوانین میں خشونت اور ذاتی دافعہ کا انکارنہیں کر سکتا ہے اور جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی عرض کیا ان جیسے قوانین کے بغیر حکومت کا ہونا بھی ناممکن ہے؛ لہذٰاساری حکومتیں لازمی اورفطری طور پر دافعہ اور خشونت رکھتی ہیں ۔

۱۹۱

البتہ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ عرف عام میں خشونت کا اطلاق اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں جسمانی اذیت اور تکلیف ہو مثلاً کسی کا ہاتھ کاٹا جائے؛ یا کسی کو مارا جائے لیکن پھر بھی ہر حال میں جہاں جرمانہ، قید خانہ اور اس جیسی سزائیں ہیں ،اگروہاں خشونت کا اطلاق نہ ہوتا ہو تو کم سے کم تھوڑا بہت دافعہ ضرورپایا جاتا ہے اور اکثر لوگ اپنے متعلق اس طرح کی سزائوں سے راضی اور خوش نہیں ہوتے ہیں ؛ لہذٰا حکومت، جزائی قانون کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جزائی قوانین ہمیشہ خشونت اور دافعہ کا پہلواپنے دامن میں رکھتے ہیں ۔ اور حکومت بغیر دافعہ کی طاقت کے ،صرف قوت جاذبہ رکھتی ہو ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور بغیر اس کے حکومت بیکار ہے، کیونکہ حکومت کا ایک اصلی اور اہم مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی انسان قانون کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس کو زبر دستی اس کام کے لئے مجبور کیا جائے، تاکہ وہ قانون پر عمل کرے؛ البتہ یہ زبر دستی اور سختی بہت سے مراحل اور مراتب رکھتی ہے کبھی جر مانہ ہے ،کبھی قید خانہ، کبھی جلا وطنی اور کبھی کو ڑے مارنا ہے اور سب سے آخری حد قتل اور پھانسی ہے۔

۱۹۲

عمل کے شخصی اور اجتماعی پہلو کے درمیان فرق پر توجہ

اس بنا پر دافعہ اس جگہ فائدہ مند ہے جہاں پر اجتماعی قوانین کی مخالفت پیش آتی ہو اور جب تک کوئی برا کام شخصی، فردی اورخصوصی پہلورکھتا ہو اور اس میں کوئی بھی اجتماعی پہلو نہ پایا جاتا ہو، حکومت کو سزا دینے یا دافعہ کا کوئی حق حاصل نہیں ہے؛ البتہ اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی شخص اکیلے میں گناہ انجام دے رہا ہے اور وہ یہ چاہتا ہو کہ کوئی بھی اس کے گناہ سے واقف نہ ہو اوریہ حقوق مدنی قانون کے اعتبار سے بھی مجرم ہے اگر کسی صورت سے یہ گناہ قاضی کے نزدیک عدالت میں ثابت ہو جائے تواس انسان پر اسلامی دستور کے مطابق سزا اور حد جاری ہوگی ؛اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر چہ اس نے یہ گناہ تنہائی میں انجام دیا ہے اور اس نے اس بات کی کوشش کی کہ کوئی اس کے گناہ سے مطلع نہ ہو؛ لیکن چونکہ کسی طریقے سے لوگ اس کے اس گناہ سے واقف ہو گئے ہیں اور یہ بات عام ہو گئی ہے اور اس صورت میں اس گناہ نے اجتماعی رخ اختیار کر لیا ہے تواس لحاظ سے کہ ممکن ہے اس کے اجتماعی اثرات تباہ کن ہوں،اس وجہ سے اس پر سزا ہوگی ؛یہاں تک کہ اگر ایک انسان بھی اس کے اس غلط کام سے واقف ہوگیا ،اس وقت بھی اس پر( اشاعہ فاحشہ )برے عمل کو پھیلانے کا عنوان صدق کر رہا ہے جوکہ اسلامی قانون کے مطابق حرام اور ممنوع ہے ؛ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے( ان الّذین یحبّون ان تشیع الفاحشة فی الّذین آمنوا لهم عذاب الیم فی الدّنیا والآخرة'' ) ( ۱ ) جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں کے درمیان برے کام کو پھیلائیں ؛ان کے لئے دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر سخت دردناک عذاب ہے ۔

____________________

(۱) سورہ نور : آیہ ۱۹۔

۱۹۳

غیراسلامی ممالک اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ اسلام کابرتائو

وہ لوگ جو کہ اسلامی ممالک اور اس کی حدوں سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے متعلق جاذبہ اور دافعہ کا کیا حکم ہے، یہ ایک تفصیلی اور تفصیلی بحث ہے جس کے لئے بہت زیادہ وقت چاہئے؛ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، چونکہ آئیندہ جلسے سے ایک نئی بحث شروع کرنے کا ارادہ ہے، لہذٰا اس بحث کو مکمل کرنے کے لئے یہاں پر مختصر طور پر] جو اس بحث سے مربوط ہے[ اس کو پیش کیا جا رہا ہے۔

جو لوگ اسلامی مملکت کے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں وہ دو حال سے خالی نہیں ہیں ؛ یا وہ لوگ ہیں جو کہ اسلام کے خلاف سازش اور تخریب کرتے ہیں اور اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کی چال چلتے رہتے ہیں ؛یا ایسے نہیں ہیں ؛دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ایسے لوگ ہیں جو کہ اسلامی ممالک اور وہاںکے لوگوں سے دشمنی رکھتے ہیں اور ان کے لئے اذیت کا سبب بنتے ہیں یا ایسے لوگ نہیں ہیں ۔ اگر باہری ممالک کے لوگ مسلمانوں کی اذیت اور ان کو کمزور اورنابودکرنے ارادہ نہ رکھتے ہوں تو اس صورت میں مسلمان ان کے خلاف کو ئی بھی تجاوز کا حق نہیں رکھتے ہیں

۱۹۴

اور مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے ساتھ عدل و احسان کا برتائو رکھیں ،قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:( لا ینهاکم اللّه عن الّذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوهم و تقسطوا الیهم'' ) ( ۱ ) وہ تمھیں ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو ، جب تک وہ لوگ تم سے دشمنی اختیار نہ کریں اور تمھارے خلاف سازش نہ رچیں؛ تم کو چاہئے کہ ان کے ساتھ احسان کرو ؛یہاں تک کہ اپنے ملک میں رہنے والے افراد سے بھی زیادہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو، تا کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ ان جگہوں میں جہاں زکواة خرچ کی جاسکتی ہے ان میں ایک وہ جگہ بھی ہے کہ اصطلاح میں جس کومولّفة القلوبکہا جاتا ہے یعنی وہ کفار جو کہ اسلامی ملک کے اطراف میں رہتے ہیں ؛ صرف اس لئے کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں اور اسلام کی دوستی اور محبت داخل ہو زکواة کے مد سے ان کو ہدیہ وغیرہ دیاجائے لہذٰا کفار کے اس گروہ کی بہ نسبت نہ صرف یہ کہ خشونت اور دافعہ نہ رکھنے کا حکم ہے؛ بلکہ انکے متعلق جاذبہ بھی اختیار کرنا چاہئے۔

لیکن وہ لوگ جو کہ مسلمان اور اسلام کے خلاف دشمنی اور سازش اختیار کرتے ہیں ؛ ان کے ساتھ تو خدا وند عالم نے فیصلہ کن انداز اختیار کرنے کا حکم دیا ہے،

____________________

(۱) سورہ ممتحنہ: آیہ ۸۔

۱۹۵

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے:( انّما ینهاکم الله عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاهروا علیٰ اخراجکم ان تولوهم ) ( ۱ ) وہ تمھیں صرف ان لوگوںکی دوستی سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمھیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمھارے نکالنے پر دشمنوں سے مدد کی ہے۔

پہلے گروہ کے لئے جاذبہ رکھو، لیکن یہ گروہ کہ جو اسلام اور مسلمان کے دشمن ہیں ان کے ساتھ پوری طرح سے دافعہ رکھو، ان کی زندگی کو قید کیے رہو اور ان کوہلنے کی مہلت نہ دو اس بات کی پھر تاکید کروں گا کہ دافعہ کا سہارا فقط ان کے لئے استعمال کر لینا چاہئے جو لوگ کھلے طور اور عام طریقے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرتے ہیں اور اس گروہ کے علاوہ کسی کے متعلق ایسا حکم نہیں ہے؛ یہاں تک کہ قران میں حکم ہے کہ جنگ کا عالم ہو اور کفار کا لشکر ایک طرف اور مسلمانوں کا لشکردوسری جانب اوراگرجنگ بھی ہو رہی ہو؛ اگر مشرکین میں سے کوئی ایک شخص سفید پرچم اٹھائے]جو کہ صلح اور جنگ بندی کی نشانی ہے [ یا کسی طرح بھی آپ تک پیغام پہونچائے کہ میں ایک علمی سوال کرنا چاہتا ہوں اور یہ بات میرے نزدیک ظاہر نہیں ہو پارہی ہے کہ اسلام حق ہے یا نہیں اور میری آپ سے جنگ حق اور صحیح ہے یا غلط ہے ؟اسلام یہاں پر کہتا ہے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ اس شخص کوحفاظت کے ساتھ اسلامی کیمپ میں لایا

____________________

(۱) سورہ ممتحنہ: آیہ ۹۔

۱۹۶

جائے، اور وہاں بیٹھا کر اس کے سوال کا جواب دیا جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ دلیل وبرہان سے اس کو مطمئن کیا جائے اور اس کے بعدبھی اگر وہ واپس ہونا چاہے تو اس کو اسی طرح پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی اذیت کے اس کی پہلی جگہ جو کہ اسلامی لشکر کی پہونچ سے باہر ہو وہاں تک پہونچا دیا جائے؛ پھراگر وہاں اس نے جنگ کا ارادہ کیا تواس کے ساتھ جنگ کی جائے؛ ورنہ اس کوچھوڑ دیں اور وہ جہاں جانا چاہے وہاں چلا جائے، قرآن مجید میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے( و ان احد من المشرکین استجارک فا جره حتیٰ یسمع کلام الله ثم ّابلغه ما منه ) ( ۱ ) اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناہ کا طلب گار ہوتو اس کو پناہ دے دو تا کہ وہ خدا کے کلام کو سنے؛پھر اس کے بعد اس کو امن کی جگہ پر واپس کردو ۔آپ دنیا کے کسی حقوقی نظام میں ایسی چیزوں کا سراغ اور نشان رکھتے ہیں ؟اسلام یہ کہتا ہے مسلمان طالب علم تو اپنی جگہ اگر کوئی دشمن کافر کہ جس کے ہاتھ میں تلوارہے اور وہ تم سے جنگ کر رہا ہے اوراسی جنگ کی حالت میں وہ تم سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہے تو اسلام کا حکم یہ ہے کہ تم اس کا جواب دو ۔ہم ایسے مکتب و مذہب کے پیرو ہیں ۔کون کہتا ہے کہ اسلام اور اس کا نظام حکومت سوالوں کے جواب نہیں دیتااور سوال کا جواب تلوار سے دیتا ہے ؟ وہ اسلام جو کہ کافر( اس حال میں بھی کہ تلوار اس کے ہاتھ میں ہو اور جنگ کاعالم ہو)

____________________

(۱) سورہ توبہ آیہ ۶.

۱۹۷

کے ساتھ اس طرح کے سلوک کا حکم دیتا ہے وہ خودمسلمانوں کے درمیان آپس میں اس کے برخلاف کیسے دستور اور حکم دے گا؟

اسلام کی پہلی سیاست یہ ہے کہ وہ پہلے دلیل ،موعظہ اور جدال احسن کا حکم دیتا ہے ؛لیکن اگر بات دشمنی اور تخریب تک پہونچ جائے اور اس بحث کا کوئی علمی جواب نہ ہو اور وہ لوگ اسلام اور اس حکومت کے خلاف سازش میں لگے ہوں اور اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے ہوں تو ان کے مقابلہ میں سوئی برابر بھی نہیں جھکنا چاہئے اور ان پر ذرہ برابر بھی رحم و کرم نہیں کرنا چاہئے، بلکہ ان کا پوری سختی اور فیصلہ کن انداز میں سامنا کرنا چاہئے ۔

قوت دافعہ یا سختی کے استعمال کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ

لہٰذااسلام صرف دو جگہوں پر خشونت کو اختیار کرنے اورقوت دافعہ کا سہارا لینے کا حکم دیتا ہے۔ پہلی وہ جگہ جہاں مسلمان یا غیر مسلمان اسلامی معاشرہ میں دوسرے کے حقوق غصب کررہے ہوں اور کسی بندئہ خدا پر ظلم و ستم ہوتا ہو یا کسی کے ساتھ خیانت کی جارہی ہو دوسری وہ جگہ جہاں اسلامی مملکت کے باہراسلام اور اسلامی ملکوں کے خلاف دشمنی کی جا رہی ہو۔اور سازش رچی جارہی ہو۔ البتہ ان سزائوں کی حد اور حدود کیا ہیں ،اورکتنے اور کیسے ہیں ؟ جوکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں یا دوسرے کے حقوق کو غصب کرنے والوں کے متعلق ہوتی ہیں ، عقل بہت سی جگہوں پر ان کو سمجھنے سے قاصر ہے اور یہ سزا ئیں براہ راست خود خدا وند عالم کی طرف سے اور صاحب شریعت کی طرف سے معین ہوئی ہیں ، لیکن سزا جو بھی ہو جب سزا معین ہو جائے تویہ سزا پوری سختی کیخلاف ورزی کرنے والوں کے متعلق جاری کرنا چاہئے۔ جو لوگ غلط اور برے کام انجام دیتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:( الزانية والزانی فا جلدوا کل واحد منهما مائة جلدة ولا تاخذکم بهما را فة فی دین الله ان کنتم تومنون بالله والیوم الآخر )

۱۹۸

( ولیشهد عذابهماطائفة من المومنین' ) ( ۱ ) زنا کرنے والے مرد اور عورت کو سو سو تازیانے مارو؛ اگر تم خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو احکام الہیٰ میں ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ کرو؛ اور جس وقت ان کو یہ سزا دو تو مومنین کا گروہ گواہ کے طور پر وہاں حاضر رہے ایسا خلاف اور غلط کام کرنے والے کے ساتھ جتنی بھی سختی ممکن ہو سکے اسے انجام دیاجائے اور کوئی بھی مسلمان جو واقعی طورسے خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو ذرہ برابر بھی اس کواس خطا کار پر رحم اور مہربانی نہیں کرنی چاہئے ، اس سزاکی شدّت و سختی اس وقت اور زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ یہ کوڑے لوگوں کے سامنے مارے جائیں اور عوام ان دونوںکی سزا پر گواہ ہوں تو یہ بات فطری ہے کہ اس کڑی اور سخت سزا کے برداشت کے ساتھ ساتھ وہ بے آبرو بھی ہوجاتے ہیں لہذا ان کو اس طرح سے سزا دی جائے کہ کوئی دوسرا شخص اس طرح کے کام کی جرائت نہ کر سکے ۔

____________________

(۱) سورہ نور آیہ ۲.

۱۹۹

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی بحث کا خلاصہ

اس حصّہ کی بحث کا نتیجہ اور خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی حدیہ ہے کہ اگر کسی کے حق پر اسلامی معاشرہ میں چاہے وہ مادی حق ہو یا معنوی ،بالواسطہ یا بلا واسطہ طریقے سے تجاوز کیا جائے یا اسلامی حکومت کی حدود سے باہر رہ کر اسلام اور اسلامی حکومت کے خلاف سازش ہو؛ تو ان دو صورتوں میں ایسا کرنے والے کے ساتھ خشونت اور سختی کرنی چاہئے ،اس کے علاوہ بقیہ جگہوں پر صرف جاذبی رخ اختیار کرنا چاہئے یا پھر نرم لہجہ اور رفتار کے ساتھ جس قدر کم سے کم امکان ہو جاذبہ کے ساتھ دافعہ کی قوت کو استعمال کرنا چاہئے ؛جس جگہ دافعہ اور خشونت کی اجازت ہے اس کی حد اور اس کے طریقہ کو بہت سی جگہوں پر خدا وند عالم نے خود براہ راست معین فرما دیا ہے یا ایک کلی قانون کو اس نے بتا دیا ہے( کہ اسی قانون کے تحت سزا دی جانی چاہئے )لہذا کسی بھی حال میں خشونت کو اختیار کرتے وقت ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:( تلک حدود الله فلا تعتدوها ومن یتعدّ حدود الله فاو لٰئک هم الظالمون'' ) ( ۱ ) یہ احکام اللہ کے حدود ہیں

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیہ ۲۲۹

۲۰۰