دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)25%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82250 / ڈاؤنلوڈ: 4536
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف : آیةاللہ مصباح یزدی

تدوین : محمد مہدی نادری قمّی

مترجم : سید عترت حسین رضوی

مصحح : مرغوب عالم

نظر ثانی : ہادی حسن فیضی

پیشکش :معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

کمپوزو گرافک : رضا عباس خان

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت (ع)

طبع اول : ۱۴۲۷ھ ۲۰۰۶ ء

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علام آیة اللہ جناب محمد تقی مصباح یزدی مدظلہ کی گرانقدر کتابکاوشھا و چالشھا'' کو جناب مولاناسید عترت حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت

۶

پیش گفتار

حوزئہ علمیہ اوریونیورسٹی کے درمیان ارتباط ایک مبارک شئے ہے جسکے نتیجے بہت ہی اچھے سامنے آرہے ہیں اسکے بر خلاف معاشرہ پراثرانداز ہونے والے ان دو رکنوں میں جدائی بہت ہی بڑے نقصان کا سبب بنتی ہے ۔اس طرف توّجہ دینے اور اس نیک ارتباط کو بر قرار رکھنے کے لئے انقلاب اسلامی سے پہلے حوزئہ علمیہ اور یونیورسٹی دونوں طرف کے بہت سے لوگ اس کام میں فعّال تھے اور اس مسئلہ کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے اور اسکی اسٹراٹجی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ یہ کوشش کرتے تھے کہ یہ وسیع اور مستحکم رابطہ برقرار رہے ۔

مختلف بے نظیر شخصیات جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہید مفتّح؛ڈاکٹر باہنر اور دوسرے دور اندیش عالموں کا یونیورسٹی میں آنا انکی روشن بینی اور تیز نظری کی علامت اوراس ارتباط کو بڑھانے میں اہم قدم تھا،یونیورسٹیوں کے ایسے متعدداساتید کی بھی نشان دہی کی جاسکتی ہے جن لوگوں نے اس ارتباط کی ضرورت اور اہمیت پر اعتقاد رکھتے ہوئے اس ضمن میں بہت کوشش کی ہے یہ کوششیں انقلاب اسلامی کی کامیابی اوریونیورسٹی اور حوزہ کے درمیان اتحادکے نعرے کے بعدجوکہ انقلاب اسلامی کے معمار بزرگ حضرت امام خمینی کی طرف سے دیا گیا تھا بہت وسیع ہو گئیں، اگر چہ اس وقت بھی اس راستے میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں نیز منزل مقصود تک پہونچنے کے لئے راستے میں بہت سے مشکلات پائے جاتے ہیں لہٰذا پہلے ان کو دور کیا جائے لیکن پھر بھی چشم دید تجربے اس بات کو بتاتے ہیں کہ ان دونوں صنفوںیعنی حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان نزدیکی اور رابطہ جتنا زیادہ ہوگا]کیونکہ یہ دونوں محکم قلعے ہیں [ اور جس قدر دونوں صنف کے افراد کے خیال اور تفکّر نتیجے تک پہونچانے والے ہونگے وہ قوم کے لئے مفید ہوگا اور معاشرہ انکے فوائدسے مستفید ہوگا اسکے بر خلاف ان کے درمیان جدائی خود انکے اور معاشرہ دونوں کیلئے نقصان دہ ہوگی ۔

۷

منجملہ ان لوگوں کے جنھوںنے برسوںپہلے سے اس رابطہ کی ضرورت اور اہمیت پر بہت زور دیا ہے مفکّر یگانہ، فقیہ بزرگ ،حضرت آیت.. مصباح یزدی دام ظّلہ ہیں ، ثقافتی انقلاب کے سلسلے میں جو کہ انقلاب کے شروع ہی میں امام خمینی کے حکم سے انجام پایا تھا خود آقائے مصباح یزدی امام خمینی کے خاص معتمدین میں سے تھے اور اس تحریک اورپروگرام کو بنانے نیز اسے آگے بڑھانے کے لئے امام کی طرف سے آپ معےّن تھے ،یہ خود اس بات کی گواہی ہے کہ جناب استاد مصباح یزدی مختلف سالوں سے اس ارتباط پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔اسی رابطہ کے ذیل میں ایک سال یا کچھ زیادہ وقت سے یونیورسٹی کے بعض متعہّد اور متفکّراساتیدنے ایک شعبہ اسی مقصدسے قائم کیا ہے منجملہ اور کاموں کے ایک ماہانہ نششت بھی آقائے مصباح یزدی کی موجودگی میں منعقد ہوتی ہے ان نششتوں میں اساتید جوعنوان پیش کرتے ہیں ، استادمحترم انھیں عنوان پربحث اورگفتگوکرتے ہیں نششتوں کو منعقد کرنے والی تنظیم]شعبہ اساتید دانشگاہ علم وصنعت[کی یہ خوا ہش تھی کہ چونکہ یہ تقریریں علمی لحاظ سے بہت عمدہ ہیں نیز اس وقت معاشرہ کو اس کی ضرورت بھی ہے لہٰذا ن کو با الترتیب چھاپ کر لوگوں تک پہونچایا جائے خدا کا شکر ہے کہ اس وقت محمد مہدی نادری قمی ( جوکہ موسّسہ آموزشی اورپژوہشی امام خمینی کے رکن اور جناب استاد کے شاگرد بھی ہیں ) کی کوششوں سے نوتقریروں کو کتاب حاضر کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے امّیدہے کہ آئندہ بھی اس سلسلہ کوجاری رکھتے ہوئے ملک کے علمی ،ادبی ،اور ،وہ تمام افراد جو علم سے شغف رکھنے والے ہیں انکی خدمت میں یہ مطالب پیش کرتے رہیں گے۔

انتشارات موسّسئہ پزوہشی امام خمینی

۸

تہذیب وثقافت کے سلسلے میں ہما ری ذمہ داری - ۱

خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے محترم اساتید کے درمیان حاضر ہونے کی تو فیق عطافرمائی امید کرتا ہوں کہ یہ نیک اور مبارک قدم ہوگا ان عظیم اور سنگین ذمہ داریوں کو انجام دینے کی جو ذمہ داریاںاس خاص دور میں ہمارے اوپر عائدہیں سب سے پہلے میں اس بات کی اجازت چاہتا ہوں کہ ایک مختصر مقدّمہ جو اس ذمہ داری سے متعلّق ہے اسکو بیان کروں اسکے بعد اللہ کے فضل وکرم سے آئندہ جلسوں کے جو موضوعات دوستوں کے سامنے ہیں ان کے بارے میں تفصیل سے بحث کروں گا

مذہب اسلام مین ایک دستور(قاعدہ )ہےطاقت کے مطابق ذمہ داری'' یعنی خداوندعالم نے جسکو جتنی نعمت عطا کی ہے اور جس قوّت و استعداد کا اسکو مالک بنایا ہے اسی کے مطابق اسکو ذمہ داری عطاکی ہے (انسان کی ذمہ داری)یہ ایک ایسا اہم موضوع ہے جو بہت ہی زیادہ تفصیل چاہتا ہے اس سے پہلے کہ اصل موضوعقوت و طاقت کے اعتبار سے ذمہ داریکے بارے میں بحث ہو اس سلسلے میں مختصر وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

۹

انسان جواب دہ ہے یا حقوق طلب

اس بات کے علاوہ کہ انسان خودفطری طور پر اس بات کو محسو س کرتاہے کہ وہ جانوروں کی طرح آزادنہیں ہے کہ بغیر ذمہ داری کے جیسے چاہے ویسے زندگی بسر کرے ،مختلف ادیان بھی اس بات پر تاکید کرتے ہیں شاید آپ نے سنا ہوگا مشہور فلسفیاما نوئل کانٹ''کہتا ہے کہ دنیا میں دو چیزوں نے مجھکو بیحدمتأثر کیا ہے اور میرے لئے تعجب اور حیرانی کا باعث ہیں ایک آسمان میں ستاروںکا ہونا دوسرے انسان کے اندر اسکی فطرت کی آواز، اور فطرت بہت ہی خوبصورت آواز ہے جو انسان کے اندر موجود ہے بہر حال انسان اپنی اس فطرت اوّلیہ کے باعث کم و بیش اس بات کا احساس کرتا ہے کہ ایک طرح کی ذمہ داری اسکے اوپر ہے البتہ اس فطری احساس کا واضح اور ثابت ہونا یہ ایک علیحدہ بحث ہے جس کواس وقت بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔

انسان فطرتاً جواب دہ اور ذمہ دارہے اس نظریہ کے مقابل ایک دوسرا قدیمی نظریہ جو پایا جاتا ہے اور آخری چند برسوں میں اسے خاص رونق وشہرت ملی ہے وہ یہ کہ انسان کو اپنے حقوق حاصل کرنے اور لینے کے لئے جہان ،طبیعت ،خدااورحکومت سے کوشش کرنی چا ہئیے یہ فکر پرانی ہو چکی ہے کہ انسان ذمہ دار اورمکلّف ہے یہ گذرے ہوئے زمانے کی باتیں ہیں اب وہ زمانہ ختم ہو چکا ہے کہ انسان کو سکھایا جائے کہ وہ بندہ ہے اور خداا اسکا مولا ہے بلکہ اب وہ زمانہ ہے کہ انسان ہی آقامولا ہے آج وہ دور نہیں رہاکہ انسان تکلیف اور ذ مہ داری کے پیچھے دوڑے بلکہ زمانے نے اسکے جن حقوق کو بھلا دیا یا ضا ئع کر دیا ہے ان کے لیٔے کوشش کرے ۔

۱۰

بہرحال اس دوسرے نظریہ کے برخلاف، جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے عقل ووجدان اور انسانی فطرت گواہ ہیں کہ انسان ذمہ دار ہے اور ذمہ داریاں اسکو گھیر ے ہوے ہیں اور انسان ذمہ داریوں کا جواب د ینے والاہے تمام ادیان بھی اس بات پر اتّفاق رکھتے ہیں ، قرآن کریم کی اکثر آیات انسان کے ذمہ دار ہونے کو بتاتی ہیں قرآن مجیدمیں خدا فرماتا ہے :( فوربّک لنسئلنّهم اجمعین عمّا کانوا یعملون ) ( ۱ ) تمہارے خدا کی قسم جوکچھ وہ انجام دیتے ہیں اسکے بارے میں سوال کیا جائے گاپھر ارشاد ہورہا ہے:( ولتسئلنّ عماّتعملون ) ( ۲ ) یعنی تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو اس کے بارے میں ضرور ضرور سوال ہوگا ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے:( انّ السمع والبصر و الفو اد کل اولٰیک کان عنه مسئولا ) ( ۳ ) یعنی آنکھ کان اور دل سب کے بارے میں سوال ہو گا ۔

____________________

(۱) سورہ حجر : آیہ ۹۲و ۹۳۔

(۲)سورہ نحل : آیہ ۹۳۔

(۳)سورہ اسرا :آیہ ۳۶

۱۱

اور بندوں سے سوال کے بارے میں دوسری جگہ اسی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:( وقفوهم انهم مسئولون'' ) ( ۱ ) ان لوگوں کو روکو ان سے سوال کرناہے ایک جگہ اور قرآن میں فرماتا ہے :( وکان عهدالله مسئولا ) ( ۲ ) اور خدا کا عہدو پیمان ہمیشہ قابل سوال ہے''ایک جگہ اور فرماتا ہے( ثم لتسئلنّ یو مئذٍ عن النعیم ) ( ۳ ) اس دن (قیامت کے دن ) خدا کی نعمت کے بارے میں سوال ہوگا۔

____________________

(۱)سورہ صافات : آیہ ۲۴۔

.(۲)سورہ احزاب : آیہ ۱۵۔

(۳)سورہ تکاثر : آیہ ۶۔

۱۲

طاقت اور ذمہ داری کا توازن

انسان اپنے اوپر ذمہ داری رکھتا ہے اس اصل میں کویٔ بحث نہیں ہے لیکن جس نکتہ کی طرف توّجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ یہ ذمہ داری ہر دور میں سبھی لوگوں پر برابر نہیں ہے بلکہ مختلف وجوہ کی بنا پرہر ایک پر علیحدہ طریقے سے عائدہوتی ہے اور سب پر الگ الگ طرح سے ہے ۔

ایک وجہ جو ایک شخص کے لیٔے ذمہ داری کو دوسرے سے جدا کرتی ہے وہ یہی طاقت و قوّت ہے جو ہر ایک میں الگ الگ پائی جاتی ہے یہ وہی قاعدہ(طاقت کے مطابق ذمہ داری) ہے جسکی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا، چونکہ لوگوں کی طاقت و قوّت، انکی ذہنی استعداد، انکی جسمانی اور روحانی طاقت نیز انکا اجتماعی مقام وغیرہ ایک جیسا نہیں ہے لہٰذا ان افراد کی ذمہ داری بھی ایک جیسی نہیں ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :( لا یکلّف الله نفساً الاّ وسعها ) ( ۱ ) یعنی خدا کسی کو قدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک کام جو صدر یا وزیر اعظم اپنے منصب و مقام کے سبب انجام دے سکتا ہے وہ ایک معمولی عہدہ پر رہنے والا انجام نہیں دے سکتا اسی اعتبار سے ان لوگوں کی ذمہ داری بھی جدا جدا ہے اور سب کی ذ مہ داری ایک جیسی نہیں ہو سکتی ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ :آیہ ۲۸۶۔

۱۳

ایک دوسری وجہ جو کہ ذمہ داری کے حوالے سے کمی یا زیادتی کا سبب بنتی ہے وہ ان خطرات کا شدید یا ضعیف ہونا ہے جو کہ ایک شخص یا پوری قوم کو در پیش ہوتا ہے جس قدر خطرات شدید ہونگے اسی اعتبار سے ذمہ داری بھی سخت ہوگی اگر ماحول پوری طرح سے پرامن ہے اور ساری چیزیں کنٹرول میں ہیں تو رات کے وقت بھی آپ سکون و آرام سے سوسکیںگے لیکن اگر قوم ومعاشرے کے اندر نا امنی پائی جاتی ہے اسکے محافظ اورچوکیدار کمزورہیں چور اوراوباش کا خطرہ زیادہ ہے توگھر،مال و اسباب،بیوی بچوّں کی حفاظت کے حوالے سے آپ کی ذمہ داری میں اضافہ ہو جائے گااگر یہ بات عام ہو جائے کہ بازار میں زہریلی غذا ئیںپائی جاتی ہیں تو انسان اس سے بچنے کی تدابیر کے بارے میں غور و فکر کرے گا اور ایک خاص ذمہ داری کا احساس کرے گا ۔بہر حال خطرہ جتنا زیادہ بڑا ہو گا اتنا ہی انسان کے اندرذمہ داری کا احساس زیادہ ہوگا اور وہ سوچے گا کہ ایسی حکمت عملی اختیار کرے جسکی وجہ سے وہ خطرات سے دور رہ سکے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ قاعدہ مقام اثبات سے مربوط ہے یعنی جب ہم خطرہ کو لمس اور محسوس کریںیا احتمال ہوکہ خطرہ موجود ہے یا خطرہ کا امکان پایاجارہاہو یعنی خطرہ کا ہونا کسی بھی طرح ہمارے لیٔے ثابت ہو جائے، لیکن کبھی کبھی واقعاً اور حقیقتاً خطرہ موجود رہتا ہے مگر چونکہ ہم اس سے ناواقف ہیں یا خطرہ ہمارے لیٔے ثابت ہی نہیں ہوتا لہٰذا اس سے بچنے کی تدابیر نہیں کرتے چاہے یہ خطرہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جب ہم کو اطّلا ع ہی نہیں ہے تو اس سے نمٹنے کے لئے کچھ بھی نہیں کرینگے لہٰذا پہلے خطرہ کااحساس کریں پھر اسکے بعد اپنی ذمہ داریوں کو اس کے مقابلے میں درک کریں۔

۱۴

حوزئہ علمیہ ا و ریونیورسٹی کے اساتذہ کی ذمہ داریاں

بہر حا ل جو کچھ اس تقریر میں آپ لوگوں سے مربوط ہے وہ یہ کہ مختلف لحاظ سے دوسروں کی بہ نسبت آپ لوگوں کی ذمہ داریاںسنگین اور زیادہ ہیں ۔ جن میں ایک وجہ یہ ہے کہ خدا وندعالم نے آپ کو ذاتی قوّت و استعداد عنایت کی ہے اگر یہ عنایت نہ ہوتی توآپ یونیورسٹی کے استاد نہ ہوتے یہی ہوش اور علمی صلاحیت نیزاعلیٰ تحقیق و تعلیم جو آپ کے پاس ہے اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آپ کی صلاحیت دوسرے لوگوں سے زیادہ ہے ۔

دوسرے یہ کہ اجتماعی حیثیت کی وجہ سے جو اثر نوجوان افراد اور طالب علموں پر آپ ڈال سکتے ہیں اسکی وجہ سے آپ کی ذمہ داری زیادہ ہوجاتی ہے اس لئے کہ معمولی افراد حتیّٰ ادارے اور وزارتی امور کے ذمہ دار بھی نو جوانوں پروہ اثر نہیں ڈال سکتے جو آپ لوگوں کی ذات سے ممکن ہے آپ ہی حضرات نوجوانوں کی تربیت اور انکی فکروںکو پختہ کرکے در حقیقت ملک کومضبوط بناتے ہیں اور آئندہ کی تاریخ رقم کرتے ہیں یہی وہ نوجوان ہیں جو بہت جلد ملک کے عظیم عہدہ پر فائزہونگے رہبر سے لیکرصدر یا پارلیمانی امور کے ممبران اور دوسرے عہدوں پر متمکّن ہونے والے افراد سب کے سب اسی حوزئہ علمیہ اور یونیورسٹی کے جوانوں میں سے ہونگے اب استاد چاہے

۱۵

یونیورسٹی کا ہو یا حوزئہ علمیہ کا اس کی ذمہ داری اس لحاظ سے عظیم اور دوسروں کی بہ نسبت زیادہ سنگین ہے تیسری بات جو ہماری اور آپ کی ذمہ داریوںکے زیادہ سنگین ہونے کا سبب ہے وہ درحقیقت زمانے کے خاص حالات کے تحت ہے اس وقت ہم ایسے ماحول اور شرایٔط میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دشمن کا خطرہ خاص طور پر آداب و رسوم نیزتہذیب وتمدّن کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے اور ہم دشمن کے حملہ اور اسکے نفوذ کو اچھی طرح محسوس کر رہے ہیں ۔کل تک جو کہہ رہے تھے کہ یہ ایک کلچر اور تہذیب کا دوسرے کلچر اور تہذیب کے ساتھ معاملہ اور تبادلہ ہے اور اسے سازش کہنا ایک وہم ہے۔میں یہ نہیں سمجھتا کہ جو لوگ تھوڑی سی بھی عقل و فکر رکھتے ہیں یا ان کے اندر تھوڑی سی بھی سوجھ،بوجھ موجود ہے ان پر یہ حقیقت پوشیدہ ہوگی تہذیب اور کلچر کا خطرہ اس معاشرہ میں ، خاص طور پر نوجوانوں کے لیٔے بہت خطرناک ہے اگر ہم نے دیر کی اور دشمن کے نفوذ اورانکے اثرات کو نہیں روکا تو بہت جلد ہم اس بات کا مشاہدہ کرینگے کہ ہماری تہذیب اور ہماراکلچربالکل پوری طرح سے بدل چکا ہوگا آجکل دشمن کے ہاتھ میں نئے الکٹرانک وسائل، سٹلائٹ ،اینٹرنیٹ اور دوسرے امکانات پہلے سے زیادہ منظّم طریقے سے پائے جاتے ہیں اور دشمن اپنی کوشش اورفعالیت کو روز بروز بڑھا رہا ہے اور بہت تیزی سے کہ جس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا یکے بعد دیگرے تہذیب و تمدّن کے قلعے مسمار کئے جا رہا ہے۔

۱۶

آ ج کی دنیا میں تہذیبی اور اخلاقی انحطاط

آج دنیا میں اخلاقی اور تہذیبی آلودگی اور پستی کا عالم یہ ہے کہ مغربی ممالک کے افراد بھی اس سے تنگ آگئے ہیں اور وہ لوگ خود اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں یقینا آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہونگے یہاں صرف ایک مورد کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے(جو ہزاروں میں ایک ہے) ۔

قرآن کریم میں ایک واقعہ ذکر ہوا ہے جسکی اس نے سختی سے مذمّت کی ہے اور وہ قوم لوط کا واقعہ ہے۔ قوم لوط کے لوگ اس برے فعل کو انجام دیتے تھے اور وہ لوگ اس بری بیماری میں مبتلا تھے وہ لوگ اپنی شہوانی خواہشات کی آگ کو اپنی ہی جنس کے افراد سے بجھاتے تھے جبکہ جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے صنف مخالف موجود تھیںانکے اس عمل کو بہت ہی بری صفت قرار دیا ہے۔

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :ا نّکم لتاتون الفاحشةما سبقکم بھا من احدمن العالمین''( ۱ ) یعنی تم لوگ ایسا برا فعل انجام دیتے ہوکہ تم سے پہلے کے لوگوں میں سے کسی نے اس فعل کوانجام نہیں دیا۔ آخر کاروہ لوگ اسی برے کام پر مصررہے اور ان لوگوں نے حضرت لوط کے موعظہ اور نصیحت پر کوئی توّجہ نہیں دی پھر خدا وندعالم نے ان پر عذاب نازل کیا اوران لوگوں کوصفحہ ہستی سے مٹادیا ۔یہ قصّہ ایک

____________________

(۱)سورہ عنکبوت : آیہ ۲۸۔

۱۷

چھوٹے شہرمیں وہ بھی دنیا کے ایک کنارے بسنے والے ہزاروں سال پہلے چندافرادسے متعلّق تھا لیکن آج آپ دنیامیں دیکھیںکہ کیاہورہاہے خودمغربی ممالک کے افرادجو عندیہ اوراشارہ دے رہے ہیں اسی اندازے کے مطابق دنیا کے تقریباًپچاس فیصدی سے زیادہ بڑے بڑے لوگ اس بری عادت میں مبتلا ہیں حتّیٰ بات یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ لوگ ہم جنسوں کی حمایت میں کھلے عام پر سڑکوں پرآکر مظاہرہ کرتے ہیں اور ریلی نکالتے ہیں بعض ممالک میں پارلیمانی امورکے ممبران نے سرکاری طورپراس قانون کو منظور کروا یاہے اورقانون بنا کراسکوجائزقراردیاہے آج دنیا کے بہت سے علاقوں میں ہم جنسوں نے تنظیم اورکلب کے ساتھ اپنے لئے مخصوص جگہیں بنا لی ہیں اسکے علاوہ بعض رسالے اورکتاب خانے بھی انھیں سے مخصوص ہیں ۔

اگرمیں اپنی آنکھ سے نہ دیکھتا تو یقین نہ کرتا ایک بار جب میں نے امریکہ کے شہرفیلاڈیفنا کاسفرکیا اورموقع ملنے پربعض شہروں کودیکھنے گیا انھیں میں سے ایک واشنگٹن شہربھی تھا ایک دوست ]جوکہ آجکل ایران میں نائب وزیر ہیں [انکے ساتھ گاڑی پرسوارہوکرجا رہا تھا راستے میں ایک چوراہے پر بہت بڑا کتب خانہ نظرآیا میں نے اپنے دوست سے کہا کہ بہترہے اس لائبریری کودیکھتے ہوئے چلیں انھوں نے جواب دیایہاں اترنا بہترنہیں ہے میں نے اسکا سبب پوچھا توکہنے لگے کہ یہ لائبریری ہم جنسوں کی ہے اگرہم یہاں اتر گئے توہمیں برائی سے متّہم کیا جائے گا۔ میں نے اسی چوراہے پربہت سے مردوں کوعورتوں کا مختصر لباس پہنے ہوئے دیکھا جواپنے کوسجا سنوارکر دوسروں کے لئے پیش کررہے تھے ۔یہ آج دنیا کی حالت ہے کس قدربے شرمی اورذلّت کا کام ہے !

۱۸

اب آپ خودہی تصوّرکریں ذرائع ابلاغ اورانٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ کتنی جلدی اورآسانی کے ساتھ اخلاق کوخراب کرنے والے ان جراثیم کوپھیلایا جا سکتا ہے ایسے ہی نہیں مغربی ممالک کے ماہرین تعلیم اورنفسیات سے واقفیت رکھنے والے افرادنے خطرے کا اعلان کیا ہے انھوںنے بچوّں کے غیراخلاقی باتوںسے آگاہ ہونے اورانٹرنیٹ وغیرہ سے ہیجان انگیز تصاویرکے نہ دیکھنے پرسختی سے تاکیدکی ہے آج ہالیوڈجدیدقسم کے تکنیکی اورفنیّ وسائل سے ایسی جذّاب اورپرکشش فلمیں بنا کرساری دنیا میں نشرکررہا ہے جس میں اخلاق کے خلاف بہت ہی غلط تبلیغ کی جا رہی ہے۔ اے کاش یہ سلسلہ یہیں پرختم ہوجاتا مگرایسا نہیں ہے اس سے بڑا بھی خطرہ پایا جا رہا ہے اوروہ فکری انحراف کا خطرہ ہے جس طرح اخلاقی برائیاںآج کی دنیا میں بے نظیر ہیں ویسے ہی فکری انحراف بھی آج کل روزبروزبڑھتا جا رہا ہے کہ اب تک کسی شیطان کے ذریعہ یہ کام انجام نہیں پایا آج تک انسانی عقیدے کو خراب کرنے کا ذریعہ ابلیس تھا لیکن اگروہ بھی بعض انسان نما شیطانوںکی حرکت اوران کے کرتوت کو ملاحظہ کرلے تودانتوں تلے انگلی دبالے انھوں نے ایسا ماحول بنا لیا ہے اور وہ ایسا چھا گئے ہیں کہ اگر کوئی کہتا ہے میں فلاں چیزپریقین رکھتا ہوںتویہ کہتے ہیں کہ عجب بیوقوف اورناسمجھ انسان ہے! ہاں آجکل کے روشن فکروں کی اصطلاح میں انسان کو فخراسی بات پر ہے کہ وہ یہ کہے ہم کو تمام چیزوں میں شک و شبہ ہے اور کوئی بھی چیز دنیا میں یقینی اور ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی چیزیقین کرنے کے قابل ہے۔

۱۹

ہر زمانے میں اسباب ہدایت و گمراہی کے درمیان نسبی توازن کاتحفظ

وہ چیز جو جاننے کے قابل ہے یہ کہ خدا وندعالم کی وسیع حکمت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر زمانے میں جس قدر برائیاں اور اخلاق کو گمراہ کرنے والی چیزوں کی زیادتیاں اور انکے اسباب کی کثرت ہوگی اسی اعتبار سے انسانوں کو راہ راست اور ہدایت کی طرف لے جانے کے اسباب بھی فراہم ہونگے یعنی خدا وند عالم ہر زمانے میں ہدایت اور ضلالت دونوں طرف کے توازن کو برقرار رکھتا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ گمراہی کاماحول معاشرہ پر اس قدرغالب ہو جائے کہ جو طالب ہدایت ہیں وہ اس سے محروم رہ جائیں۔ اگر آج اطّلاعات اورمواصلات کے نئے نئے ذرائع گمراہیوں کے لئے فراہم ہیں تو یہی نئی ایجادات اور وسائل انسان کی ہدایت اور اصلاح کا ذریعہ بھی بنتے ہیں جبکہ یہ اسباب پہلے نہیں پائے جاتے تھے ۔آج دنیا میں ایسے بہت سے افراد ہیں جنھوں نے اسلام کو انٹرنیٹ کے ذریعہ پہچانا ہے اور وہ مسلمان ہو گئے ہیں ۔ اگر ریڈیو ،ٹی وی ،سنیما ، انٹرنیٹ اور سٹلائٹ وغیرہ لوگوں کو گمراہ، فکروں کو خراب اور انکے ا خلاق کو پست کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو انہیں ذرائع کے ذریعہ بہت سے لوگ اسلام، انقلاب،ایران اور امام خمینی کے نام سے واقف اور آگاہ ہوئے ہیں اور انکی جانب متوجّہ ہو کر وہ مسلمان ہو گئے ہیں ۔دنیا میں بہت سے حصّوں کے مسلمانوں نے جب سٹلائیٹ اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ اما م خمینی کے پیغام کو سنا اور انکے راستے سے متعارف ہوئے تو ان لوگوںنے شیعہ مذہب کو اختیار کرلیا ۔

ایک بار میں سنگا پور میں ایک تاجر کا مہمان ہوا اسکی تجارت کمپیوٹر سے متعلّق تھی اس نے بتایا کہ شروع میں میں وہابی تھا لیکن جب میں نے امام خمینی کے متعلّق معلومات حاصل کی اور انکی باتوں کو سنا اور انکی تحریک کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی اسلام یہی ہے جسکو امام خمینی بتا رہے ہیں بہر حال اسکے بعد میں نے شعیہ مذہب قبول کر لیا ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بصرہ كو فتح نصيب ہوئي اخر كا ر صلح كے بعد ختم ہوئي _

۲_ لشكر عائشه نے معاہدہ صلح روند ڈالا ، ايك انتہائي تاريك رات ميں مسجد ، بيت المال اور دار الامارہ پر حملہ كر كے ايك دوسرى جنگ شروع كى اس موقع پر لشكر عائشه كو فتح ملى ، اس طرح حضرت علىعليه‌السلام كے گورنر كو بصرہ سے نكال بصرہ پر قبضہ كر ليا گيا _

۳_ حكيم بن جبلہ نے جو بصرہ كے مشہور بزرگ تھے ،جب لشكر عائشه كى زيادتى اور معاہدہ شكنى سنى تو اپنے قبيلے والوں كے ساتھ ان سے جنگ پر تيار ہو گئے ، اس طرح تيسرى جنگ شروع ہوئي ، اس ميں بھى بظاہر لشكر عائشه كو فتح ملى ، حكيم بن جبلہ كے قتل ہونے پر اس جنگ كا خاتمہ ہوا _

۴_ ايك دوسرى جنگ اور ہوئي جسے اخرى اور سب سے بڑى جنگ جمل كہنا چاہيئے ، يہ جنگ اس وقت شروع ہوئي جب حضرت علىعليه‌السلام بصرہ ميں وارد ہوئے ، اس جنگ ميں لشكر عائشه كو بد ترين شكست كا سامنا كرنا پڑا _

اس جنگ ميں عام دستور كے مطابق پر چم نہيں تھا ، ان كا پرچم وہى عائشه كا اونٹ تھا(۵) جو لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا ، اسكى حركت سے عائشه كى فوج ميں روح اور توانائي دوڑ جاتى تھى ، جب تك وہ اونٹ كھڑا رہا ، فوج عائشه ميں ذرا بھى كمزور ى اورضعف نہيں ديكھا گيا ، بغير كسى خوف و ہراس يااضطراب كے لشكر على سے جنگ كرتا رہا ، عائشه اس اونٹ پر سوار تھيں اور فوج كو احكامات صادر كر رہى تھيں ، حملہ كرنے كا حكم دے رہى تھيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ صورتحال ديكھى تو آپ نے بھى عمامہ مشكى(۶) كو سر پر ركھا اور اپنے لشكر كو تيار ہونے كا حكم ديا ، پرچم كو اپنے فرزند محمد حنفيہ كے حوالے كيا _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ :ميرے بابا على نے جنگ جمل ميں علم ميرے حوالے كيا ، آپ نے مجھے حملہ كرنے كا حكم ديا ، ميں نے قدم اگے بڑھايا ليكن اپنے سامنے لوہے ، نيزوں اور تلواروں كى ديوار ديكھى تو قدم رك گئے ، ميرے بابا نے دوبارہ مجھ سے فرمايا ، تيرى ماں تجھ پر روئے ، اگے بڑھ ، ميں نے پلٹ كر خدمت ميں

____________________

۵_ تاريخ بن اعثم ص۱۷۶ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ج۲ ص۸۱ ، اس فرق كے ساتھ كہ ابن ابى الحديد عا ئشہ كے اونٹ كو پرچم بتاتے ہيں ليكن ابن اعثم خود عاشئہ كو پرچم اور ان كے اونٹ كو علمدار لشكر قرار ديتے ہيں

۶_ يہ وہى عمامہ ہے جسے رسول خدا نے حضرت على كو عطا فرماياتھا ، اسكا نام سحاب تھا ، اس كے بارے ميں زيادہ توضيح مولف كى كتاب عبد اللہ بن سبا ميں ديكھى جا سكتى ہے

۱۲۱

عرض كى ، كيسے اگے بڑھوں ، كيونكہ لوگوں نے ميرے سامنے نيزوں اور تلواروں كى ديوار كھڑى كر ركھى ہے _

محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ: ابھى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ كسى نے اس تيزى سے جھپٹ كر ميرے ہاتھ سے پرچم لے ليا كہ اسے پہچان بھى نہ سكا ادھر ادھر ديكھا تو يكبارگى متوجہ ہوا كہ پرچم ميرے بابا على كے ہاتھ ميں ہے ، فوج كے اگے اگے سپاہ دشمن پر حملہ كر رہے ہيں اور يہ رجز پڑھ رہے ہيں _

اے عائشه ميرى نيكياں اور پچھلے سلوك نے تجھے مغرور بنا ديا ہے ، يہاں تك كہ تو مجھ سے بغاوت پر امادہ ہو گئي _

عائشه مغرور مت ہو ، يہ لوگ جو تيرے اردگرد ہيں يہ تيرے دشمن ہيں جو دوستى كے لباس ميں ہيں _

عائشه تيرے لئے موت اور سر افگندگى اس سے بہتر ہے كہ تو مسلمانوں اور اپنے بيٹوں كے درميان جنگ اور خونريزى بھڑكا رہى ہے(۷)

كہانى كعب بن سور كى عائشه كے اولين لجام بردار

(اونٹ كى لجام كعب كے ہاتھ ميں )

جيسا كہ ميں نے بيان كيا ، عائشه كى فوج كا پرچم ا ن كا اونٹ تھا جو بھى ا س كى لجام تھام ليتا وہ لشكر كا علمدار سمجھا جاتا ، وہ اپنے اس عہدے پر فخر و ناز كرتا ، اسے عظيم مرتبہ سمجھتا _

يہ منصب سب سے پہلے قاضى بصرہ كعب بن سور كو ملا(۱) ،جنگ شروع ہوئي اور بتدريج گرم تر ہوتى گئي ، اس موقع پر كعب بن سور نے قران گردن ميں حمائل كئے ، ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ہاتھ ميں اونٹ كى لجام تھامے ايك عجيب اور مضحكہ خيز حالت ميں لشكر كے اگے اگے چلنے لگے ، اتفاقا كسى نامعلوم شخص كا تير انھيں لگا اسى تير سے وہ لڑہك گئے ، اسطرح عائشه كے پہلے لجام بردار يا يوں كہا جائے كہ اولين علم بردار اپنے خون ميں نہا كر جان جان افريں كے سپردكر بيٹھے _

____________________

۷_ انت الذى قد غرك منى الحسنا

يا عيش ان القوم قوم اعدا

والخفض خير من قتال الابنا

۱۲۲

كعب بن سور كون ہے ؟

كعب بن سور(۸) خليفہ دوم عمر كے زمانے ميں قاضى بصرہ ہوئے ، وہ اس منصب پر جنگ جمل كے دن تك باقى رہے ، يہ ان لوگوں ميں تھے جنھيں جنگ جمل سے كوئي دلچسپى نہيں تھى ، نہ اسے صحيح سمجھتے تھے

جيسا كہ طبرى كا بيان ہے كہ: خود كعب كہتے تھے ، خدا كى قسم ، ميرا عقيدہ اس جنگ كے بارے ميں وہى ہے جو اس بڑھيا كا تھا جو اپنے بيٹے سے نصيحت كر رہى تھى ، بيٹے نہ لوگوں سے علحدہ رہو نہ اختلافات اور جنگوں ميں ان كا ساتھ دو _ ابن سعد يوں نقل كرتے ہيں كہ جب طلحہ و زبير و عائشه بصرہ ميں داخل ہوئے تو كعب بن سور نے جنگ اور فتنہ سے علحدگى اختيار كرنے كيلئے اپنے كو گھر كے اندر محصور كر ليا ، يہاں تك كہ كھانا پانى بھى روشندان سے پہونچايا جاتا تھا ، ا س طرح كعب بن سور نے عام لوگوں سے ملنا جلنا قطعى ختم كر ديا ، يہاں تك كہ لوگوں نے عائشه سے كہا كہ كعب بن سور كو حيرتناك معاشرتى اہميت حاصل ہے ،اگر وہ آپ كے ہم ركاب ہو كر جنگ ميں شركت كريں تو كئي ہزار افراد پر مشتمل قبيلہ ازد كى مدد بھى حاصل ہو جائے گى ، عائشه انكى حمآیت حاصل كرنے كيلئے ان كے گھر گئيں تاكہ اس بارے ،ميں بات كريں ، ليكن كعب نے خاطر خواہ جواب نہيں ديا ، عائشه نے اصرار كيا اور حد سے زيادہ منت سماجت كى ، يہاں تك كہ كہہ ديا كہ اے كعب كيا ميں تمھارى ماں نہيں ہوں ؟كيا تمھارى گردن پر ميرا حق مادرى نہيں ہے ؟الست امك ولى عليك حق عائشه كى جھنجھوڑنے والى باتوں سے كعب بہت زيادہ متاثر ہوئے اور عائشه كى موافقت و حمآیت پر امادہ ہو گئے_

____________________

۸_ كعب بن سور قبيلہ ازد كى فرد تھے زمانہ رسول ميں اسلام قبول كيا ليكن انحضرت كى صحبت نہيں پائي ، استيعاب ميں ہے ، ايك دن كعب عمر كے پاس بيٹھے تھے كہ ايك عورت نے ا كر كہا ، اے عمر ميرا شوھر دنيا كا سب سے بڑاعابد و زاہد ہے وہ رات بھر عبادت كرتا ہے ، اور دن بھر روزے ركھتا ہے ، عمر نے يہ سنكر اسكے شوھر كى تعريف كى اور اسكے لئے مغفرت طلب كى ، عورت كو شرم ائي كہ اس سے واضح اپنى بات كہے اور اندرونى بات بيان كرے ،كعب نے عمر سے كہا ، اے خليفہ وہ عورت آپ كے پاس اسلئے نہيں ائي تھى كہ آپ كى خوشنودى حاصل كرے اسكا مقصد تھا كہ وہ نماز روزے كرتا ہے ، اور حق زوجيت ادا نہيں كرتا ، عمر نے كعب كى بات سنى تو چونك پڑے حكم ديا عورت كو حاضر كيا جائے ، تحقيق سے معلوم ہوا كہ اس عورت كا مقصد يہى تھا ، انھوں نے كعب كى معاملہ فہمى ديكھ كر اس عورت كا فيصلہ انھيں كے حوالے كر ديا ، كعب نے كہايہ مرد اپنے اوقات چار حصوں ميں بانٹ دے ، ايك حصہ اپنے بيوى بچوں سے مخصوص كر ے ، بقيہ اوقات عبادت اور دوسرے كاموں ميں صرف كرے ، اس فيصلے سے عمر كو بڑى حيرت ہوئي اسى لئے شھر بصرہ كا انھيں جج بنا ديا ، يہاں تك كہ وہ جنگ جمل كے دن قتل ہوئے

۱۲۳

ابن سعد نے اس شخص كا نام نہيں بتايا ہے جس نے عائشه كو كعب سے ملاقات پر ابھارا ، ليكن عظيم شيعہ عالم شيخ مفيد نے اس پيشكش كى نسبت طلحہ و زبير كى طرف دى ہے _

ان كا بيان ہے كہ: منجملہ ان قبائل كے جنھوںنے طلحہ وزبير كى بيعت نہيں كى ، ايك قبيلہ ازد بھى تھا ، كيونكہ كعب بن سور جو قاضى بصرہ اور قبيلہ ازد كا رئيس بھى تھا ، اس نے طلحہ و زبير كى بيعت نہيں كى قبيلہ ازد والوں نے كعب كى پيروى كرتے ہوئے انكى بيعت نہيں كى طلحہ و زبير نے كسى كو كعب كے پاس بھيجكر حمآیت كرنے كى درخواست كى ليكن كعب نے انكار كرتے ہوئے كہا :

اج ہمارا برتائو يہ ہو گا كہ دونوں لشكر سے علحدہ رہونگا ، نہ تمھارى حمآیت ميں اقدام كروں گا نہ مخالفت ميں اقدام كرونگا ، طلحہ و زبير نے كعب كى بات نہيں مانى _ انہوں نے باہم رائے قائم كى كہ ہميں كعب كو كو غير جانبدار نہيں رہنے دينا چاہئے ، انھيں اپنى حمآیت پر امادہ كرنا چاہئے ، تاكہ اسكى طاقت سے استفادہ كيا جاسكے ، اگر وہ علحدہ رہا تو قبيلہ از د كے تمام افراد علحدہ رہيں گے ، اسى وجہ سے طلحہ و زبير كعب كے گھر گئے اور ملاقات كى اجازت مانگى كعب نے انھيں اجازت نہيں دى ، طلحہ و زبير وآپس ہو كر عائشه كے پاس گئے اور ان سے اس خطرناك مسئلے كے بارے ميں سمجھا كر رائے دى كہ خود وہى جاكر اسكى حمآیت طلب كريں عائشه نے پہلے كعب كے يہاں جانا مناسب نہيں سمجھا اور ايك شخص كو بھيج كر ملاقات كے لئے بلايا ، كعب نے عائشه كى دعوت ٹھكرا دى اور ملاقات سے انكار كيا ، جب طلحہ و زبير نے يہ صورتحال ديكھى تو عائشه كو اس بات پر امادہ كيا كہ وہ خود ہى كعب كے گھر پر چليں _

انھوں نے كہا كہ: اے عائشه اگر كعب نے ہمارى حمآیت نہيں كى تو يہ بات طئے ہے كہ بصرہ كا سب سے بڑا قبيلہ ازد ہمارى حمآیت نہيں كر يگا ، اسكے سوا كوئي چارہ نہيں كہ آپ خود مركب پر سوار ہو كر ان كے گھر چليں ، شايد آپ كى حيثيت كے احترام سے متاثر ہو كر آپ كى پيشكش كو نہ ٹھكرائے _

طلحہ و زبير نے باتيں اتنى زيادہ كر ڈاليں اتنا اصرار كيا كہ عائشه مجبور ہو كر خچر پر سوار ہوئيں اور بہت سے معززين بصرہ گردا گرد كعب كے گھر كى طرف چليں ، عائشه نے وہاں پر كعب سے بہت زيادہ اصرار كے ساتھ ا س طرح بات كى كہ گوشہ خانہ كا شخص ميدان جنگ ميں كھنچ كر اگيا ، بلكہ اپنے لشكركا پرچم بردار بنا ليا _

مبرد نے كامل ميں لكھا ہے كہ: جنگ جمل كے دن كعب نے قران گردن ميں حمائل كر كے اپنے تين يا چار

۱۲۴

بھائيوں كے ساتھ لشكر عائشه ميں شموليت اختيار كى ، دل و جان سے جنگ كرتے كرتے قتل ہوئے انكى ماں لاش پر اكر يہ اشعار پڑھنے لگيں

يا عين جودى بدمع سرب

على فتية من خيار العرب

و مالهم غير حين النفو

س اى امير قريش غلب(۹)

اے انكھ ، بہت زيادہ انسو ئوں كى بارش كر ان جوانوں پر جو عرب كے بہت اچھے شہسوار تھے

ايسے جوان جنھيں يہ تميز نہيں تھى كہ اس جنگ ميں قريش كے دواميروں ميں سے كو ن فتحياب ہو گا _

على كامياب ہوں گے ، يا طلحہ اور اسكے ساتھى ؟

ان جوانوں كى ماں نے اپنے اشعار ميں يہ سمجھا نا چاہا ہے كہ كعب اور اسكے بھائي دل سے تو غير جانبدارتھے ليكن عائشه كے اصرار نے انھيں ميدان جنگ ميں گھسيٹا اور موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا

اونٹ كى لجام قريش كے ہاتھ ميں

جب كعب بن سور قتل ہوئے تو سب سے پہلے قريش نے بڑھكر لجام تھامى اور وہ اونٹ كے لجام بردار بن گئے ، انھيں ميں ابو جھل كا (نواسہ )عبدالرحمن بن عتاب بھى تھا ، اس نے لجام تھام لى اور اونٹ كو كھينچتا پھر رہا تھا ، اور جنگ كرتے ہوئے يہ رجز پڑھ رہا تھا _

ميں ہوں عتاب كا فرزند ، ميرى تلوار كا نام ولول ہے _

اس اونٹ كى راہ ميں قتل ہونا ميرے لئے باعث فخر اور مائيہ شرافت ہے

انا بن عتاب و سيفى ولول

والموت عند الجمل المجلل

____________________

۹_اس بات كى تمام باتوں كے حوالے ، طبرى ج۵ ص۲۱۹ ، استيعاب ص۲۲۱ ، اسد الغابہ ج۳ ص۲۴۲ _ اصابہ ج۳ ص۲۹۷ ، نہج البلاغہ ج۲ ص۸۱ ، طبقات بن سعد ج۷ ص۹۴ ، تاريخ جمل شيخ مفيد ص۱۵۶ ، كامل بن اثير ج۳ ص۲۴۲

۱۲۵

عائشه كے دوسرے لجام بردار عبد الرحمن نے اسطرح اپنے رجز سے لشكر والوں كو جانبازى پر ابھارا ، خود بھى شديد جنگ كى ، اس اونٹ اور اسكے سوار كى جان و دل سے مدافعت كى ، اسى درميان حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر نے اس پر حملہ كر كے ہاتھ بدن سے جدا كر ديا ، اور اس طرح وہ قتل ہو گيا _

عبد الرحمن كے بعد قريش كے ستّر ادميوں نے اونٹ كى لجام ہاتھ ميں تھامى اور سب نے جان دى ، جو بھى لجام تھامتا فوراًہى تير و تلوار سے موت كے گھاٹ اتر جاتا يا اسكے ہاتھ كٹ جاتے

اونٹ كى لجام بنى ناجيہ كے ہاتھ ميں

قريش كے بعد خاندان ناجيہ اگے بڑھا اور سبقت كر كے لجام تھام لى ، عائشه كا طريقہ يہ تھا كہ جو بھى لجام تھا متا اسے پہچاننے كے لئے سوالات كرتيں ، يہ كون ہے ؟كہاں كا رہنے والا ہے ، كس قبيلے سے ہے_

جب خاندان ناجيہ نے لجام تھامى تو عائشه نے پوچھا ، يہ كون لوگ ہيں كس قبيلے سے ہيں جنھوں نے لجام تھام لى ہے ،كہا گيا بنى ناجيہ ہيں عائشه نے انھيں تشويق دلاتے ہوئے كہا : صبر و استقامت دكھائو جم كر لڑو كيونكہ ميں تمہارے قبيلے ميں غيرت و شجاعت ديكھ رہى ہوں ،تم تو قريش سے ہو عائشه نے يہ جملہ اس حساس موقع پر اسلئے كہا كہ بنى ناجيہ كا قريش كے قبيلے سے ہونے كے بارے ميں اختلاف ہے ، بعض ماہرين انساب انھيں قبيلہ ء قريش سے نہيں مانتے(۱۰) دوسرے يہ كہ بنى ناجيہ كى قبيلہ قريش سے بيگانگى اس قبيلے كے لئے باعث ننگ تھى جس كى وجہ سے معاشرے ميں وہ بد نام تھے ، يہى وجہ تھى كہ

____________________

۱۰_ بنى ناجيہ كے قرشى ہونے پر علماء انساب ميں اختلاف ہے ، كچھ لوگ كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ كى ماں كا نام ناجيہ تھا ، ماں كے نام سے يہ خاندان مشھور ہوا ، ناجيہ بھى لوى بن غالب كے بھائي سامہ كى بيوى تھى ، اخر كا ر ناجيہ كا بآپ سامہ اختلاف كى وجہ سے مكہ سے چلا گيا ، بحرين ميں رہتا تھا وہيں سانپ نے كاٹ ليا اور وہ مر گيا ، كچھ دوسرے ماھرين كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ قريش سے نہيں ہيں كيونكہ ناجيہ اگر چہ سامہ بن لوى قرشى كى بيوى تھى ليكن سامہ اسكا لڑكا نہيں تھا ، اس نے دوسرے مرد بحرينى سے شادى كى تھى جسكا نام حارث تھا ، وہ بچپن ميں يتيم ہو گيا ، ناجيہ اسے ليكر مكہ اگئي اور كعب سے كہا يہ آپ كے بھائي كا بيٹا ہے ، كعب نے قبول كر ليا اتفاقا ايك بحرينى نے اكر سارا واقعہ بيان كيا تو حارث نے چچا كى مخالفت كى وجہ سے بحرين وآپس گيا ، اسى لئے وہ قريشى نہيں ہے اغاني--:۱۰/۲۰۳_۲۰۵، شرح نہج البلاغہ :۳/۱۲۰_ ۱۲۱

۱۲۶

موقع شناس عائشه نے اس حساس موقع پر انھيں قبيلہ قريش سے ہونے كا اقرار كر كے تشويق دلائي ، اور جانبدارى و فدا كارى كيلئے ابھارا ، اس قبيلے كے معززين نے لجام تھام كر اپنى جان دى _

لجام قبيلہ ازد كے ہاتھوں

خاندان ضبہ كے افرادنے ايك ايك كر كے لجام تھا مى اور قتل ہو تے گئے ان كے بعد قبيلہ ازد والے اگے بڑھے اور لجام شتر ہاتھ ميں لى ، عائشه نے معمول كے مطابق پوچھا ، تم لوگ كس قبيلے سے ہو ، انھوں نے كہا ہم ازد سے ہيں ، عائشه نے كہا :

عائشه نے کہان : _ ہاں ازدى ازاد مرد ہيںجو شدائد ميں صبر كرتے ہيں ، اس جملے كا بھى اضافہ كيا كہ جب تك بنى ضبہ تھے ميں اپنے لشكر ميں فتحمندى كے اثار محسوس كر رہى تھى ليكن اب ان كے بعد ميں فتح سے نا اميد ہو چكى ہو ں _

عائشه نے ان جملوں سے قبيلہ ازد كو بھڑكا يا تاكہ وہ دل و جان سے جنگ كريں _

قبيلہ ازد ميں سب سے پہلے لجام عمر و بن اشرف ازدى نے تھامى ، وہ ايسا بہادر تھا كہ جو بھى اسكے قريب اتا ايك ہى ضرب ميں قتل ہو جاتا ، وہ لوگوں كو ہيجان ميں لانے كيلئے رجز پڑھ رہا تھا _

اے اماں جان ، اے بہترين مادر كيا آپ نہيں ديكھ رہى ہيں كہ آپ كے سامنے كيسے كيسے بہادر اپنى شجاعت كا مظاہرہ كر رہے ہيں كيسے كيسے مردان عظيم آپ كے احترام ميں نيزہ و تلوار چلا رہے ہيں ، آپ كى راہ جسموں كى تلاش ہو رہى ہے ، ہاتھ جدا ہو رہے ہيں ، مغز اور كھوپڑياں اڑرہى ہيں

(يا امنا يا خير ام نعلم اما ترين كم شجاعاً يكلم و تختلى ها مته و المعصم )

اتفاقاً اسى درميان جبكہ ابن اشرف رجز خوانى ميں مصروف تھا اسكے چچيرے بھائي حارث بن زھرہ ازدى نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر سے نكل كر اس پر حملہ كيا ، يہ دونوں بھائي آپس ميں گتھ گئے دونوں ميں اتنى تلواريں چليں كہ زمين پر گر گئے ، ان دونوں كى طاقت ازمائي كى اتنى گرد اڑى كہ مطلع غبار الودہ ہو گيا ، يہاں تك كہ دونوں ہى مر گئے ،

اسطرح عائشه كى لجام پكڑے ہوئے_ عمرو بن اشرف كے ساتھ قبيلہ ازد كے تيرہ افراد نے ايك كے بعد ايك اپنى جان ديدى(۱۱)

____________________

۱۱_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱ ، طبرى ج۵ ص ۲۱۱ ، كامل ابن اثير ج۳ ص ۹۸

۱۲۷

ايك عجيب داستان

مشہور مورخ مدائنى ا س طرح لكھتا ہے :

راوى كا بيان ہے كہ: ميں نے بصرہ ميں ايسے شخص كو ديكھا جس كے كان كٹے ہو ئے تھے ، ميں نے اس سے كان ضائع ہو نے كى وجہ پوچھى ، اس نے جواب ميں كہا كہ ميں جنگ جمل ختم ہونے كے بعد مقتولوں كے درميان قريب سے تماشہ ديكھ رہا تھا _

اس ہنگام ميرى نظر ايك ايسے شخص پر پڑى جسكى سانس چل رہى تھى ، وہ اپنے بدن كو حركت ديتے ہوئے يہ اشعار پڑھ رہا تھا _

ہمارى ماں عائشه نے ہميں موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا ،جبكہ ہم انكے فرمان سے منھ نہيں پھرا رہے تھے ، اور جاں بازى كے ساتھ ان كے سامنے بڑھ بڑھ كے جنگ كر رہے تھے يہاں تك كہ ہم موت سے سيراب ہوئے _

ہم قبيلہ ضبہ والوں نے اپنى ماں كے سامنے ا س طرح رزم ارائي كى كہ ان كے ساتھيوں كو اور ان كو دوسروں كے حمآیت كى ضرورت نہيں رہى _

ہم پر افسوس ہے كہ بنى تيم كے مٹھى بھر افراد جو غلاموں اور كنيزوں كى طرح تھے ہم نے ايسے ذليلوں كى اطاعت كى _

لقد ر او دتنا حومة الموت امنا

فلم ننصرف الاونحن رواء

لقد كان عن نصر ابن ضبة امه

و شيعتها مندوحة و غناء

اطعنا بنى تيم ابن مرة شقو _ة

و هل تيم الا اعبد و اماء

وہ شخص نزع كے عالم ميں اسى طرح اشعار پڑھتا رہا ، ميں نے حيرت سے پوچھا، اے شخص كيا يہ وقت شعر گنگنانے كا ہے ؟زبان پر كلمہ توحيد اور شھادتين جارى كرو لاالہ الااللہ كہو _

۱۲۸

اس نے مجھے جواب ديا ، اے فاحشہ كے جنے تو كيا بك رہا ہے ، تو چاہتا ہے كہ موت كے وقت ميں اظہار بيچارگى كروں ؟

ميں اس سے علحدہ ہونا چاہتا تھا كہ اس نے كہا :

مجھے كلمہ شھادتين پڑھائو ، ميں اسے شھادتين پڑھانے كيلئے قريب ہوا تو جھپٹ كر اس نے ميرا كان دانتوں سے دبا ليا ، اور جڑ سے اكھاڑ ڈالا _

ميں درد سے چلانے لگا ، برا بھلا كہنے لگا لعن طعن كرنے لگا تو بولا ، اس لعن طعن سے فائدہ كيا ہے ؟

اگر تم اپنى ماں كے پاس جانا اور وہ پوچھے كہ كس نے تمھارى يہ گت بنائي ہے تو جواب دينا كہ عمير بن اہلب ضبى نے ، اسى عمير نے جو عائشه جيسى عورت كے فريب كا شكار ہوا جو حكومت پر قبضہ كر كے امير المومنين بننا چاہتى تھى(۱۲)

طبرى نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ: ايك دوستدار على كا بيان ہے كہ ميں نے ميدان جنگ ميں ايك زخمى شخص كو ديكھا جو اپنے خون ميںنہايا ہوا تڑپ رہا تھا ،وہ اپنى اخرى سانسيں گن رہا تھا ليكن اسى حال ميں اشعار بھى گنگنا رہا تھا ، ميرے اوپر اسكى نظر پڑى تو بولا ، ائو ذرا مجھے كلمہ شھادتين پڑھا دو ميں اسكے پاس پہونچا ، پوچھا كس شھر اور قوم سے تمھارا تعلق ہے ؟ميں نے كہا ، كوفے كا باشندہ ہوں _

بولا ذرا اپنا سر ميرے قريب لائو تاكہ تمھارى بات اچھى طرح سنوں ، ميں نے قريب كيا تو جھپٹ كر دانت سے ميرے كان پكڑ لئے اور اسے جڑ سے اكھاڑ ڈالا(۱۳)

رجز خوانياں

ابن ابى الحديد معتزلى نے مدائنى اور واقدى كے حوالے سے لكھا ہے كہ: معركہ ارائيوں كى تاريخ ميں جنگ جمل سے زيادہ كوئي ايسى جنگ نہيں ہے جسميں اس سے زيادہ رجز خوانياں ہوئي ہوں ، زيادہ تر رجز بنى ضبہ اور بنى ازد نے پڑھے ، يہ دونوں قبيلے مہار شتر تھامے ہوئے حمآیت ميں رجز پڑ ھكر دوسروں كو جنگ پر ابھاررہے تھے ،ا س كے چند

____________________

۱۲_ مروج الذھب در حاشيہ كامل ج۵ ص ۱۹۹ ، كامل بن اثير ج۳ ص ۱۰۰

۱۳_ طبرى ج۵ ص ۲۱۳

۱۲۹

نمونے ملاحظہ ہوں _ ابن ابى الحديد بحوالہ واقدى و مدائنى نقل كرتا ہے كہ لشكر بصرہ عائشه كے اونٹ كے گرد حلقہ كئے ہوا تھا سبھى باہم ايك اواز اور ايك اھنگ كے ساتھ نعرے لگا رہے تھے _

اے عائشه اے مادر مہربان اپنے دل ميں ذرا بھى خوف و ہراس پيدا نہ كيجئے ، كيونكہ ہم اپنى تمام توانائيوں اور فدا كاريوں كے ساتھ آپ كے اونٹ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں ، ہم اسے ہر قسم كے خطرے سے بچائيں گے _

اماں جان جب تك دنيا قائم ہے كوئي بھى ہميں اس اونٹ كے اطراف سے نہيں ہٹا سكتا ، نہ ہميں منتشر كر كے آپ كو اكيلا كر سكتا ہے _

اماں جان كون سى طاقت تمہيں نقصان پہونچا سكتى ہے حالانكہ جنگجو اور بہادر آپ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں_

قبيلہ ہمدان كے شجاع مردبہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں اورقبيلہ ازد كے بہترين تلوار چلانے والے آپ كى حمآیت كر رہے ہيں ، جنھيں زمانے كى سختيوں اورمصائب نے كبھى ہراساں نہيں كيا ابن ابى الحديد نے اس رجز كو نقل كرنے كے بعد كہا ہے كہ لشكر بصرہ سے ايك بوڑھا ، خوش وضع اور خوبصورت نكلا جسكے بدن پر جبہ بھى تھا اس نے بڑے جو شيلے انداز ميں قبيلہ ازد سے خطاب كيا _

اے قبيلہ ازد كے لوگواپنى مادر مہربان عائشه كى مدد كرو كيونكہ يہى حمآیت تمھارى نماز روزہ ہے ، ان كى تمام حيثيت كا احترام تمھارے اوپر واجب ہے ، ان كے حريم كا دفاع كرنے ميں اپنى تمام توانائياں صرف كر دينا چاہئے ايسا نہ ہو كہ دشمنوں كى ٹولى تمھارے اوپر فتح پاليں كيونكہ اگر دشمن نے تم پر فتح پا لى تو تمھيں قيدى بنا لے گا اور تمھارے اوپر ہر طرح كا ظلم و ستم ڈھائے گا ، اسوقت تمھارے بوڑھے مرد و عورت پر بھى رحم نہ كرے گا ،اے جواں مردو اے شہ سوارو ، اے قبيلہ ازد والو ، چوكنّا رہو كہيں اس جنگ ميں تم لوگوں كو شكست و

۱۳۰

ہزيمت كا منھ نہ ديكھنا پڑے(۱۴)

يا امنا يكفيك منا دنوه ---لن يوخذ الدهر الخطام عنوه

و حولك اليوم رجال شنوه ---وحى همدان رجال الهبوه

والما لكيون القليلوا الكبوة ---والازد حى ليس فيهم نبوه

يا معشر الازد عليكم امكم ---فانها صلاتكم و صومكم

والحرمة العظمى التى تعمكم ---فاحضروها جدكم و حزمكم

لا يغلبن سم العدو سمكم ---ان العدو ان علا كم زمكم(۱۴)

مدائنى اور واقدى نے اس رجز كے ذيل ميں اس نكتے كى بھى نشاندہى كى ہے كہ اس رجز كا مضمون طلحہ و زبير كے اس تاريخى تقرير كى تائيد كرتا ہے جسميں انھوں نے كہا تھا _

اے بصرہ والو _ چوكنا رہو كہ اگر علىعليه‌السلام تمھارے اوپر فتحمند ہوئے تو تمہيں مليا ميٹ اور پامال كر ڈاليں گے ، تم ميں سے كسى كو بھى زندہ نہيں چھوڑيں گے ، اپنا تحفظ كرو ، اگر علىعليه‌السلام تم پر كامياب ہو گئے تو تمہارے مردوں كا احترام ختم كر ديں گے اور تمہارى عورتوں كو اسير كر ليں گے ، تمھارے بچوں كو تلوار كى باڑھ پر ركھ ليں گے ، تم پر لازم ہے كہ مردانہ وار قيام كرو ، تاكہ اپنے ناموس كا تحفظ كر سكو ، موت كو رسوائي پر ترجيح دو اور علىعليه‌السلام سے اسطرح جنگ كرو كہ انھيں اپنے وطن سے نكال باہر كر سكو ، ابو مخنف كا بيان ہے كہ جتنے بھى رجز خوان يا شاعر اس بارے ميں نغمہ سرا ہوئے ہيں ، ان ميں كوئي بھى اس بوڑھے سے بازى نہيں لے جا سكا ، جس كى بہترين شاعرى نے لوگوں كو جھنجوڑ كر ركھ ديا ، جس وقت بصرہ والوں نے اسكا رجز سنا تو تڑپ كر اپنى صفوں سے شديد تر حملہ كيا اور دوسروں سے زيادہ عائشه كے اونٹ كے گرد اكر صبر و استقامت دكھايا _

طبرى كا بيان:

جنگ جمل ميں عمر و بن يثربى نے اپنے قبيلہ ازد والوں كو اسطرح ابھاراو كہ ان ميں سے ايك كے بعد ايك لجام شتر تھامتے اور شديد تر جنگ كر كے اپنى مادر گرامى عائشه كا جان و دل سے دفاع كرتے رہے ، وہ اس

____________________

۱۴_ ان دونوں رجز كا متن شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۲۵۲_۲۵۶

۱۳۱

اس وقت يہ اشعار پڑھ رہے تھے _

ہم قبيلہ ضبہ والے ہيں ، تلوار اور موت سے نہيں ڈرتے _

دشمنوں كے سروں كو درخت كى طرح كاٹ ڈاليں گے ان كا خون سيلاب كى طرح بہا ديں گے ، اے مادر گرامى عائشه آپ ذرا بھى خوف نہ كيجئے كيونكہ آپ كے توانا اور شجاع بيٹے آپ كے گرد تلوار لئے كھڑے ہيں ، اے ہمارى ماں _ اے زوجہ رسول آپ ہى سر چشمہ رحمت و بركت ہيں ، آپ ہى عالمين كے پاك رہبر كى زوجہ ہيں(۱۵)

۴_ بنى ضبہ كا ايك جيالا عوف بن قطن لشكر عائشه سے نكلا اور چلانے لگا _

اے لوگو عثمان كا خون على اور ان كے فرزندوں كى گردن پر ہے _

يہ كہہ كر اس نے اونٹ كى لجام تھام لى اور جنگ كرنے لگا جنگ كرتے ہوئے وہ يہ رجز پڑھ رہا تھا اے ماں َ اے ہمارى ماں _ ميں وطن سے دور ہوں نہ تو قبر كا طلبگار ہوں نہ كفن كا يہيں سے عوف بن قطن حشر كے ميدان ميں اٹھے گا ہمارى زندگى يہيں ختم ہونا چاہيئے اور اسى بيابان سے صحرائے محشر ميں اٹھوں گا _

اگر آج علىعليه‌السلام ہمارے خونين پنجے سے چھٹكارا پا جائيں تو ہم بڑے ہى گھاٹے ميں رہيں گے اور اگر ان كے جگر گوشوںحسن و حسين كو زندگى كا خاتمہ نہ كر سكيں تو ہمارے لئے مناسب ہے كہ ہم مارے غم و اندوہ كے جان ديديں(۲) عوف بن قطن نے يہ رجز پڑھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر پر حملہ كيا ، سخت جنگ كرتے ہوئے قتل ہو گيا _

____________________

۱_ نحن بنو ضنبة لا نفر ---حتى نرى جما جما تخر

يخرمنا العلق المحمر ---كل بنيك بطل شجاع

يا امنا يا عيش لن تراعى ---يا امنا يا زوجة النبى

يا زوجة المبارك المهدى

۲_ يا ام يا ام خلاعنى الوطن ---لاابتغى القبرولا ابغى الكفن

من ها هنا محشر عوف ابن قطن ---ان فاتنا اليوم على فالغبن

او فاتنا ابناه حسين و حسن ---اذا ام بطول هم و حزن

۱۵_ شرح نهج البلاغه ج۱, ص, ۲۶۱,۲۶۲ تاريخ ابن اعشم

۱۳۲

۵_ ابو مخنف كا بيان ہے : بصرہ كا مشہور و رئيس اور دولتمند شخص عبد اللہ بن خلف خزاعى حكومت عمر و عثمان كے ايام ميں بيت المال كا محاسب تھا ، جنگ جمل كے موقع پر عائشه كے لشكر والوں كا ميز بان تھا وہ صف سے نكلا اور حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں كے سامنے اكر رسم كے مطابق اپنا مبارز طلب كيا ، اس نے ہانك لگائي كہ سوائے على كے كوئي دوسرا ميرے مقابلے ميں نہ ائے ، ہاں ، على ہى مجھ سے جنگ كيلئے ائيں تاكہ جنگ تمام كى جائے اور خونريزى ختم ہو پھر وہ حضرت علىعليه‌السلام كو للكارتے ہوئے بولا _

اے ابو تراب ميں ايك بالشت بڑھكرتمہارے سامنے ايا ہوں تم بھى جرائت پيدا كرو اور ميرا مقابلہ كرنے كيلئے ايك انگل اگے بڑھو ، اے على ، تمہارى عداوت ميرے سينے ميں بوجھ بنى ہوئي ہے ، تمھارى دشمنى سے ميرا سينہ دہك رہا ہے ، قدم اگے بڑھائو ، ذرا سامنے ائو كہ تمھارا خون بہا كر اپنے دل كى اگ ٹھنڈى كروں(۱) عبد اللہ يہ رجز پڑھ كر حضرت علىعليه‌السلام كو مقابلے كيلئے پكارنے لگا امير المومنين حضرت علي(ع) نے لشكر سے نكل كر ميدان ميں قدم ركھا اور ايك ہى تلوار كى ضرب سے اسكا بھيجہ نكال كر زمين پر بہا ديا اور قتل كر ڈالا(۱۶)

عبداللہ اور مالك اشتر كى جنگ

طبرى نے خود عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ:

جنگ جمل ميں مجھے تلوار اور نيزے كے سيتنيس زخم لگے تھے _ اگر چہ اس دن ميرے لشكر كى كثرت تعداد كے اعتبار سے يہ حالت تھى سياہ پہاڑ نظر اتاتھا جو كسى بھى طاقت سے شكست كھانے والانہيںتھا اس حالت ميں ہميں ايسى شكست ہوئي جسكى مثال نظر نہيں اتى ابن زبير مزيدكہتے ہيں كہ اس جنگ ميںجو بھى اونٹ كى لجا م ہاتھ ميں ليتا تھاوہيں ڈھير ہو جاتا تھا _حالانكہ سينتيس زخم مير ے بدن پر تھے ميں نے اسى حالت ميں اونٹ كى مہار تھام لى _ عائشه نے پوچھا اونٹ كى مہار كس نے تھام لى ہے؟

ميں نے كہا _ميں عبداللہ بن زبير ہوں _

چونكہ عائشه ديكھ رہى تھيں كہ جس نے بھى مہار شتر ہاتھ ميں لى جان سے ہاتھ دھويا _بے اختيار صدائے فرياد بلند كى _ واثكل اسماء ہائے ميرى بہن اسماء اپنے فرزند كے سوگ ميں بيٹھ گئي_

____________________

۱_ ابا تراب ادن منى فترا ---و ان صدرى عليك غمرا

فاننى اليك شبرا

۱۶_شرح نهج البلغه ج۱, ۲۶۱,و فتوح ابن اعشم

۱۳۳

عبداللہ كہتے ہيںكہ اسى درميان ميرى نظر مالك اشتر پر پڑى ميں اسے پہچان كر اس سے گتھ گيا_ يہاں تك كہ دو نوں ہى زمين پر گر گئے_ميں چلّانے لگا _ لوگو _مالك كو قتل كردواسے قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے دونوں طرف كے لشكرسے ڈھير سارے افرادجمع ہو گئے_ہر ايك اپنے اپنے سپاہى كى دفاع ميںكوشش كر رہا تھا_ہم دو نوں ايك دوسرے كى دھينگا مشتى ميں ا س قدر تھك گئے تھے كہ ايك دوسرے سے علحدہ ہونے كے بعدميرى اتنى طاقت نہيںرہ گئي كہ اونٹ كى مہار تھام سكوںواقدى نے بھى مالك اشتر اورابن زبير كى جنگ كاحال يوں نقل كيا ہے عبداللہ جنگ كى غرض سے ميدان ميں ئے _حضرت علي(ع) كے لشكر كے مقابل كھڑے ہو كر اپنا مقابل طلب كيا_ان سے مقابلہ كے ليے مالك اشتر كھڑے ہوے_جب يہ دونوں جيالے ايك دوسرے كے امنے سامنے ہوئے تو عائشه نے پوچھا_ عبداللہ سے مقابلہ كے لئے كون اياہے ؟ لوگوں نے كہا _ اشتر

عائشه نے اشتركانام سنكر بے اختيار نعرہ لگاياواثكل اسماء بالاخردونوں بہادروں ميں جنگ ہونے لگي_تلواريں ايك دوسرے سے ٹكرانے لگي_ايك دوسرے كے بدن زخموںسے چور ہونے لگے يہاں تك كہ تلواريں بيكار ہو گئيں_ مالك اشتر بوڑھے تھے اسى كے ساتھ بھوكے بھى تھے _ كيو نكہ وہ جنگ كے موقع پر تين دن برابر كھانا نہيں كھائے تھے _ اس حالت ميں بھى عبداللہ كو زمين پر گرا ديا_اور اس كے سينہ پر چڑھ بيٹھےاسى ھنگام دونوں طرف كے لشكرسے لوگ وہاں جمع ہو گئے _ عبداللہ كے ساتھى اسكى نجات كے لئے كوشاں تھے_

مالك اشتر كے ساتھى بھى انكے چھٹكارے كى كوشش كر رہے تھے_

داللہ بن زبير زور سے چلاّئے _ لوگوں _مالك اشتر كو قتل كر دوچاہے اسميںمجھے بھى قتل ہونا پڑے _

ليكن اس وقت دونوںطرف كے لشكر سے اتنے لوگ جمع ہو گئے تھے كہ ميدان كى حالت اشفتہ تھي_لوگ ان دونوں كى تشخيص كرنے سے قاصر تھے_اس وجہ سے ان دونوں كى جنگ طول پكڑتى گئي_

اخر كسى نہ كسى طرح عبداللہ بن زبيرنے اپنے كو مالك اشتر كے چنگل سے نكالا اور ميدان سے فرار كر گئے _

صاحب عقد الفريدنے اس واقعہ كے بعد عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ مالك اشتر نے مجھے دبوچكرگڑھے ميں ڈال ديااور كہا اے عبداللہ اگر تيرى رشتہ دارى رسول خدا(ص) سے نہ ہوتى تو تيرے بدن كے جوڑ جوڑ علحدہ كرديتا(۱۷)

____________________

۱۷_ عبد الله كے بآپ زبير كى ماں صفيه جناب رسول خدا(ص) كى پھو پھى تھى اسى رشته دارى كى وجه سے مالك اشتر نے ابن زبير كو قتل نہيں كيا

۱۳۴

طبرى نے علقمہ كا بيان نقل كيا ہے كہ ميں نے ايك دن مالك اشتر سے پوچھا_تم قتل عثمان كے مخالف تھے تم نے كيسے جنگ جمل ميں شركت كى جس مين ہزاروں افراد قتل كيے گئے مالك نے ميرا جواب ديا _ جب لشكرعائشه نے على كى بيعت كى اور پھر اپنى ہى بيعت توڑ دى تو ايسى بيعت شكنى اور على كى مخالفت نے مجھے اس جنگ ميں شريك ہونے پر امادہ كيا _ليكن ان ميں سب سے زيادہ گنہگار اور خطا كار عبداللہ بن زبير تھا _كيونكہ اسنے عائشه كو على سے جنگ پر ابھارا وہى تھا جس نے اپنے بآپ كو على سے جنگ كرنے كيلئے بھڑكايا عائشه اور زبير دونوں ہى جنگ سے دست بر دار ہو گئے تھے ان دونوں كو اسى ابن زبير نے دو بارہ ميدان جنگ ميں گھسيٹا _ ميں خدا سے دعا كر تا تھا كہ اسے قيدى بنالوںاور اسكے كرتوتوں كى سزا د وں_ خدا نے بھى ميرى دعا سن لى اور مو قع غنيمت ديكھ كر گھوڑے پر سوار ہوا_اور بھر پور قوّت كے ساتھ اس پر تلوار كى ضرب لگا كراسے گرا ديا اور ذلّت كى خا ك چٹائي_

ايك دن علقمہ نے مالك سے پوچھا_ كيا عبداللہ بن زبير نے كہا تھا كہ اقتلونى و مالكا_ ما لك كو قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے_ مالك نے جواب ديا _ نہيں _ يہ جملہ اسنے نہيںكہا تھا _كيونكہ ميں عبداللہ كو قتل نہ كرتا _ صرف ايك تلوار چلا كے ہاتھ روك ليا تھا _ ميرے دل ميں خيال ايااور ميرے جذبات ا س كے بارے ميں بھڑك اٹھے _ ا س كے بعد ميں نے ا س كے قتل كاارادہ بدل ديا _

ا س كے بعد مالك نے كہا:اصل ميںيہ جملہ مذكورہ عبدالرّحمان بن عتاب نے كہاتھا _اس دن وہ چلاّكر بولا _مجھے اور مالك دونوں كو قتل كر دوا س كا مقصد يہ تھا كہ مالك كو قتل كر دوچاہے ا س كے ساتھ مجھے بھى قتل ہونآپڑے _ليكن ميدان جنگ كى حالت ا س قدر درہم برہم تھى كہ عبداللہ كے ساتھيوں كو ميرى پہچان نہ ہوسكى _ورنہ مجھے تو قتل ہى كر ديتے _

۱۳۵

طبرى كا بيان ہے كہ: جنگ جمل ميں عبداللہ بن زبير كوبہت زيادہ زخم لگے تھے _اسنے اپنے كو مقتولوں كے درميان ڈا ل ديا تھا جنگ ختم ہونے كے بعد اسكا علاج معالجہ كيا گيا اور زخم ٹھيك ہو گئے _

جنگ جمل ميں عبداللہ اگر چہ قتل تو نہيں ہواليكن بے شمار زخموں كى وجہ سے دشمن سے مقابلہ اورجنگى طاقت ختم ہوگئي تھى اسطرح طلحہ وزبيركے بعد لشكر عائشه كاتيسرا سپہ سالار بھى بيكار ہو گيا _

ليكن كسى كے بھى بيكار ہو جانے سے لشكرعائشه ميںكسى قسم كى افرا تفرى نہيںپھيلى اور جنگ ختم نہيں ہوئي _كيونكہ اس جنگ ميں تمام لوگوں كى نظريں عائشه كے اونٹ پر تھيں _اسكے ارد گرد خون بہتے رہے_ اسكے قريب شہ سواروں كے سر گرتے رہے_اسى اونٹ كے اگے اگے بصرہ كے جيالے اور سر فروش خزاں رسيدہ پتّوں كى طرح گرتے رہے جب تك اونٹ كھڑا تھا _ چل پھر رہاتھا_جنگ و خونريزى جارى تھى ليكن اكيلے اونٹ كے گرتے ہى ' جى ہاں صرف اسى كے گرنے سے جنگ و خونريزى ختم ہو گئي _(۱۸)

جنگ اپنے شباب پر پہنچ گئي

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام كے ميمنہ لشكر نے عائشه كے ميسرئہ لشكر پر حملہ كيااور گھمسان كى جنگ ہو نے لگى عائشه كى فوج كے زيادہ قبيلہ ازد اور ضبّہ كے افراد تھے وہ پيچھے ہٹكر عائشه كى پناہ پكڑنے لگے ا س طرح وہ ہودج كے ارد گرد جمع ہو گئے(۱۹)

ابو مخنف كابيان ہے :

حضرت على نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ فوج دشمن كے ميسرئہ پر حملہ كريں _مالك نے ميسرئہ پر حملہ كيا توصفيں درہم برہم ہو گئيں اور فوجوں نے بھاگ كر عائشه كے پاس دم ليا ميسرئہ كى شكست سے قبيلہ ضبّہ، ازد ، عدى ، ناجيہ ، باہلہ وغيرہ كے تمام افرادنے ايك بار اونٹ كى طرف اپنى توجہ مبذول كى اب وہ اونٹ كى حفاظت كى طرف اپنى

____________________

۱۸_ طبرى ۵ _ ۲۱۰ _ ۲۱۱ _ ;۴ ;۲ شرح نہج البلا غہ ۸۷۱ شرح خطبہ كنتم حيندالمراتہ كے ذيل ميںكامل بن اثير ۳_۹۹ عقدالفريد ۴_ ۳۲۶ لجنتہ التاليف _ تاريخ بن اعثم _ مروج الذھب _

۱۹_ طبرى ج۵ ص ۲۰۷

۱۳۶

سارى توجّہ مركوز كرنے لگے فطرى طور سے لشكر على كے حملہ بھى اسى طرف مر كوز ہو گئے _ اور يہاں جنگ كا دائرہ تنگ ہو گيااور گھمسان كى جنگ اور خونريزى ہونے لگى _ ا س كا نتيجہ اخر يہ ہوا كہ عائشه كے لشكر كو شكست ہو گئي(۲۰)

مدائنى اور واقدى جيسے مشہور مورخوںنے بتاياہے كہ

لشكر عائشه كى صفيں لشكر على كے پے در پے حملوںسے درہم برہم ہو گئيں بہادروں نے ہر طرف سے لشكر عائشه كى طرف اپنى توجہ مركوز كى اونٹ اور ہو دج كو اپنے گھيرے ميں لے ليا_ اونٹ كے گرد زيادہ تربنى ضبّہ اور بنى ازدكے لوگ تھے _وہى سب سے زيادہ جانفشانى كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوںنے بھى اپنے حملہ اسى طرف موڑ دئے_

ايك چھوٹے سے دائرہ ميں جس كا محور عائشه كا اونٹ تھا اسى كا محاصرہ كر لياگيا _ حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے اپنے حملوں كا نشانہ عائشه ہى كے اونٹ كو بنا ليا _ عائشه كے ساتھى بھى شدّ ت كے ساتھ ا س كا دفاع كرنے لگے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر كے حملے اور لشكر عائشه كے دفاع كى وجہ سے اگ اور خون سے بھر پور جنگ شروع ہو گئي _سر گرنے لگے _بدن سروں سے جدا ہونے لگے ہاتھ كٹ كٹ كرہوا ميں لہرانے لگے _پيٹ پھٹنے لگے _ ليكن اس بھيانك صورتحال كے باوجوديہ دونوں قبيلہ چونٹيوں كى طرح اونٹ كے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے _ ا س قدر استقامت كا مظاہرہ كر رہے تھے كہ گھمسان كى جنگ ان ميںذرا بھى خوف وہراس پيدا نہيںكر سكى _ استقامت ميں ذرہ برابر بھى تزلزل پيدا نہ كر سكى _وہ ا ہنى ديوار كى طرح اپنى تمام قوتوں اور توانائيون كے ساتھ اونٹ كا دفاع كر رہے تھے كہ اچانك حضرت علىعليه‌السلام كى اواز بلند ہوئي _ آپ نے اپنے لشكر سے خطاب فرماياويلكم اعقرواالجمل فانه شيطان _

تم پر افسوس ہے_ اونٹ كو پئے كردو كيو نكہ يہ شيطان ہے _

تم پر افسوس ہے _ ان كآپر چم گرا دو اونٹ كو پئے كر دو كيونكہ يہ شيطان كى طرح بدبخت لوگوں كو اپنے گرد جمع كئے ہوا ہے _جب تك يہ كھڑا ہوا ہے فتنہ وخونريزى جارى رہے گى _ ان ميں كا ايك بھى شخص زندہ نہيں رہے گا_ اے لوگو اونٹ كو پئے كر دو اور اس تمام خونريزى كا خاتمہ كردو _

حضرت علىعليه‌السلام كے اس فرمان كے ساتھ ہى تلواريں بلند ہوئي اور مركزى نقطہ پرشديد حملے شروع ہوگئے _ يہاںتك كہ وہ [

____________________

۲۰_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج۲ ص ۸۸

۱۳۷

منحوس اونٹ ڈھير ہو گيا _

تاريخ نگاروں كابيان ہے كہ :جنگ كا دائرہ تنگ تر ہو گيا تھا _جنگ اكيلے شتر عايشہ كے اطراف ميں سمٹ كر رہ گئي تھى _لوگ ا س طرح اسكے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے جيسے چكى كہ پائے گھومتے ہيںاونٹ كے اطراف عجيب ادھام كامنظر تھا _ جنگ پورے شباب پر ہونے لگى تھى لوگوں كا شور غوغا اور چيخ پكاراسكے ساتھ اونٹ كى بلبلاہٹ زيادہ ھنگامہ پيدا كر رہى تھى اسى ميںحتات مجاشعى نعرہ لگا رہا تھا _ اے لوگو اپنى ماں كى حمآیت كرو _ اے لوگوعائشه كادفاع كرو اپنى مادر كى نگہبانى كر تے رہو _ يہ ديكھو تمہارى ماں اب ہودج سے گرنے ہى والى ہيں _ اونٹ كے گرد ا س قدر وحشت برس رہى تھى كہ لوگ آپس ميںگتھ گئے تھے _ ايك دوسرے كو بغير پہچانے قتل كر رہے تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھى دشمن كے لشكر پر حملہ كر رہے تھے جدھر حملہ كرتے دشمن كو پراكندہ كر ديتے ليكن پھر بھاگنے والے اونٹ كے گردجمع ہوجاتے يہاں تك كہ حضرت على نے نعرہ لگايا _ اے لوگو اونٹ پر تير برسائو _ اس ملعون اونٹ كومار كر گرا دو _حكم ملتے ہى تير اندازوں نے اونٹ پر تير بارانى شروع كر دى ليكن اونٹ كو ا س قدر ا ہنى ز رہوںاور مضبوط تختوں سے چھپايا گيا تھاكہ تيراونٹ كے بدن تك نہيں پہنچ رہا تھا اسكى سجاوٹ جيسے محكم قلعہ كى طرح تھى ذرہ برابر بھى اسے گزند نہيں پہنچ رہى تھى _ تيروں كى بارش تختوں پر جاكرجم جاتى تھى _ اونٹ پر اتنے تير لگے تھے كہ ساہى كى طرح نظر ارہا تھا _

دو لشكر كا شعار

جب عائشه كے ساتھيوں نے خطرہ كا احساس كيااور شكست نظر انے لگى اور لشكر على كى فتح حتمى طريقہ سے نظر انے لگى تو شعر اور رجزكے بجائے شعار لشكر كانعرہ لگانے لگے يالثارات عثمان (خون عثمان كا انتقام لينے والواٹھ كھڑے ہو ) سارے لشكر عائشه كا علامتى نعر ہ يہى تھا _ ان كے حلق سے يہى اوازنكل رہى تھى _ سبھى مل كر چلاّ رہے تھے _ يا لثا رات عثمان _ ان لوگوںكے مقابلہ ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھيوںنے بھى يامحمد (ص) كانعرہ لگانا شروع كيا _ ان كا شعار يہى تھا _

ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حكم دياكہ تم لوگ حضرت رسول خدا(ص) كے شعارسے استفادہ كرنے كے بجائے يامنصور امت(۲۱) كو اپنا جنگى نعرہ قراردو(۲۲)

____________________

۲۱_يہ شعار وہ ہے جب مسلمانوں نے حكم رسول كے مطابق بعض جنگوں ميں استفادہ كياتھا يہ دونوں فقرے دو لفظوں سے تشكيل پاتے ہيں ايك ہے يا منصور ( يعنى اے لوگو جو خدا كى مدد ونصرت تلے ہو )جملہ دوم ہے اصمت يعنى قتل كرو ا ن دونوں فقروں كا مجموعہ يہ معنى ديتا ہے كہ اے لوگوں جو خدا كى مدد ونصرت سے سرفراز ہو _ا ے لوگو ںجو حق پر ہو ان لوگو كو قتل كر دو جوظالم ہيں اور حق سے دور ہيں

۲۲_ شرح نھج البلاغہ ابى الحديد ۱ _ ۸۷

۱۳۸

جنگ كا خاتمہ

لشكر عائشه كے ايك سپاہى كا بيان ہے :

جنگ جمل ميں ہمارى پارٹى كو ايسى سخت شكست كا منھ ديكھنآپڑا جو اس سے پہلے ديكھى نہ گئي ،اس موقع پر عائشه ہود ج ميں سوار تھيں اور ا ن كا اونٹ متواترتيروں كى بارش سے خار پشت (ساہي) كى طرح ہو گيا تھا(۲۳)

اس بارے ميں ابو مخنف كا بيان ہے :

صرف اونٹ پر ہى تيروں كى بارش نہيں كى گئي _ بلكہ عائشه كا ہودج بھى تيروں كا نشانہ بنايا گيا _ تيروں كى بارش سے كجاوہ بھى كسى خارپشت(ساہي)كى طرح نظر ا رہا تھا _

ابو مخنف كہتا ہے : جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكى عائشه كا اونٹ ہى جنگ كا محور بناہوا ہے اور اسى كے ارد گردخون اچھل رہے ہيںاور ہاتھ كٹ رہے ہيںتو آپ نے عمّا ر ياسر اور مالك اشر كو حكم ديا كہ جاكر اس منحوس اونٹ كوپئے كردو كيونكہ ان لوگوں نے اسى كواپنے لئے قبلہ قرار دے لياہے _اور خانہ كعبہ كى طرح اسكا طواف كر رہے ہيں _ جب تك يہ اونٹ كھڑا ہے جنگ ختم نہيں ہوگى _ جب تك يہ اونٹ زندہ ہے لوگ ا س پروارى فدا ہوكر اپنا خون نثار كرتے رہيں گے(۲۴)

طبرى كا بيان ہے : حضرت علىعليه‌السلام نے درميان لشكر بلند اواز سے فرمايا:

ا ے لوگو اپنا حملہ اونٹ پر مركوز كردواسے پئے كر دو حضرت كے فرمان كے مطابق آپ كے ايك جرى سپاہى نے صفوں كو توڑ كر اپنے كو عائشه كے اونٹ كے پاس پہنچا ديا _ اور اس پر تابڑ توڑ تلواريں مارنے لگا_ اونٹ نے ا س طرح سے نعرہ لگايا كہ ايسى چيخ كبھى نہ سنى گئي تھى _ اس موقع كو ابو مخنف نے بھى بيان كياہے كہ: جب حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھاكہ تمام قتل اور خونريزى اونٹ كے ہى ارد گردہو رہى ہے _ اور جب تك اونٹ زندہ ہے جنگ جارى رہے گى _ تو آپ نے اپنى فوج كوحكم ديا كہ اونٹ پر حملہ كردو _ خود آپ نے بھى تلوار ہاتھ ميں ليكراس اونٹ پر زبر دست حملہ كيا _ اس وقت اونٹ كى مہار قبيلہ ضبّہ كے ہاتھ ميں تھى _ ان كے اور لشكر على كے درميان گھمسان كى جنگ ہونے لگى _ جنگ كا بنى ضبّہ كى ہى طرف تھا _ اسى كے زيادہ تر لوگ مارے جانے لگے حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ ہمدان اورقبيلہ نخع كے ساتھ سخت حملہ كيا _ دشمن كے افراد كو پراكندہ اور منتشر كرديا _ اسى موقع پر حضرت علىعليه‌السلام نے قبيلہ نخع كے ايك شخص جس كا نام بجير تھا فرمايا _ اے بجير

____________________

۲۳_طبرى ج۵ ص ۲۱۸

۲۴_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۸۱

۱۳۹

يہ اونٹ تمہارى زد پر ہے ا س كا كام تمام كردو _ بجير نے تيزى سے اس اونٹ كى ران پر تلوار چلا دى _اونٹ نے زبر دست نعرہ مارا _ اور زمين پر ڈھير ہوگيا _ جب اونٹ زمين پر گرا تو عائشه كے تمام فوجى جوچونٹيوں كى طرح ا س كا حصار كئے ہوئے تھے' تتر بتر ہوگئے _ سب نے فرار كاراستہ اختيار كيا _ حضرت علىعليه‌السلام نے بھى نعرہ لگايا _

اے لوگو ہودج كى طنابيں اور رسياں كاٹ دواور ہودج كو اونٹ سے الگ كر دو _ آپ كے سپاھيوں نے ہودج ہٹا ديا ،لوگو ںنے عائشه كے ہودج كو اغوش ميں ليكر حضرت كے حكم كے مطابق اونٹ كو قتل كيا اور پھر اسے ا گ ميں جلاديا اور خاك ہوا ميںاڑادى _ چونكہ امام كا يہ حكم تعجب انگيز تھا _ ا س لئے ا پ نے ا س كا حوالہ آیت قرانى سے ديتے ہوے فرمايا :

اے لوگو يہ اونٹ منحوس حيوان اور اگ برسانے والا تھا يہ بنى اسرائيل كے گوسالہ شباہت ركھتا تھا وہ بنى اسرائيل ميں اور يہ مسلمانوں كے درميان تھا _ جس نے دونوں كو بدبختى ميں پھنسايا _ حضرت موسى نے حكم ديا كہ اس گوسالہ كو اگ ميں جلا دواور اسكى خاك دريا ميں ڈال دو _پھر آپ نے اس آیت كى تلاوت كى جو موسى كى زبانى تھى _

ونظر الى الهك (۲۵)

ذرا ديكھو اپنے اس معبود كو جس پر تم وارى فدا كرتے تھے ميں كيسے اگ ميں جلارہا ہوں اور خاكستر كو سمندر ميں ڈال رہاہوں _

جى ہاں _ فساد كے مواد كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنا چاہيے _اور فتنہ واشوب كو اگ ميں جلا دينا چاہيے(۲۶)

عائشه سے كچھ باتيں

عائشه كى فوج كوشكست ہوئي اور پورے طور سے شكست كے بعد يہ خونريز جنگ جمل اختتام كوپہنچى اور اتش جنگ خاموش ہوگئي (ٹھنڈى پڑ گئي) اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے محمد بن ابى بكركومامورفرمايا كہ اپنى بہن عائشه كے لئے جاكر ايك خيمہ نصب كرواور ان كى دلجوئي كرواور ان سے پوچھوكہ جنگ ميں كوئي تير يا زخم لگا ہے كہ نہيں ؟

____________________

۲۵_ سورئہ طہ آیت ۹۰

۲۶_ شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۸۹

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232