دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)0%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف: آیة اللہ مصباح یزدی
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 68626
ڈاؤنلوڈ: 3018

تبصرے:

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68626 / ڈاؤنلوڈ: 3018
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف : آیةاللہ مصباح یزدی

تدوین : محمد مہدی نادری قمّی

مترجم : سید عترت حسین رضوی

مصحح : مرغوب عالم

نظر ثانی : ہادی حسن فیضی

پیشکش :معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

کمپوزو گرافک : رضا عباس خان

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت (ع)

طبع اول : ۱۴۲۷ھ ۲۰۰۶ ء

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علام آیة اللہ جناب محمد تقی مصباح یزدی مدظلہ کی گرانقدر کتابکاوشھا و چالشھا'' کو جناب مولاناسید عترت حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت

۶

پیش گفتار

حوزئہ علمیہ اوریونیورسٹی کے درمیان ارتباط ایک مبارک شئے ہے جسکے نتیجے بہت ہی اچھے سامنے آرہے ہیں اسکے بر خلاف معاشرہ پراثرانداز ہونے والے ان دو رکنوں میں جدائی بہت ہی بڑے نقصان کا سبب بنتی ہے ۔اس طرف توّجہ دینے اور اس نیک ارتباط کو بر قرار رکھنے کے لئے انقلاب اسلامی سے پہلے حوزئہ علمیہ اور یونیورسٹی دونوں طرف کے بہت سے لوگ اس کام میں فعّال تھے اور اس مسئلہ کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے اور اسکی اسٹراٹجی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ یہ کوشش کرتے تھے کہ یہ وسیع اور مستحکم رابطہ برقرار رہے ۔

مختلف بے نظیر شخصیات جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہید مفتّح؛ڈاکٹر باہنر اور دوسرے دور اندیش عالموں کا یونیورسٹی میں آنا انکی روشن بینی اور تیز نظری کی علامت اوراس ارتباط کو بڑھانے میں اہم قدم تھا،یونیورسٹیوں کے ایسے متعدداساتید کی بھی نشان دہی کی جاسکتی ہے جن لوگوں نے اس ارتباط کی ضرورت اور اہمیت پر اعتقاد رکھتے ہوئے اس ضمن میں بہت کوشش کی ہے یہ کوششیں انقلاب اسلامی کی کامیابی اوریونیورسٹی اور حوزہ کے درمیان اتحادکے نعرے کے بعدجوکہ انقلاب اسلامی کے معمار بزرگ حضرت امام خمینی کی طرف سے دیا گیا تھا بہت وسیع ہو گئیں، اگر چہ اس وقت بھی اس راستے میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں نیز منزل مقصود تک پہونچنے کے لئے راستے میں بہت سے مشکلات پائے جاتے ہیں لہٰذا پہلے ان کو دور کیا جائے لیکن پھر بھی چشم دید تجربے اس بات کو بتاتے ہیں کہ ان دونوں صنفوںیعنی حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان نزدیکی اور رابطہ جتنا زیادہ ہوگا]کیونکہ یہ دونوں محکم قلعے ہیں [ اور جس قدر دونوں صنف کے افراد کے خیال اور تفکّر نتیجے تک پہونچانے والے ہونگے وہ قوم کے لئے مفید ہوگا اور معاشرہ انکے فوائدسے مستفید ہوگا اسکے بر خلاف ان کے درمیان جدائی خود انکے اور معاشرہ دونوں کیلئے نقصان دہ ہوگی ۔

۷

منجملہ ان لوگوں کے جنھوںنے برسوںپہلے سے اس رابطہ کی ضرورت اور اہمیت پر بہت زور دیا ہے مفکّر یگانہ، فقیہ بزرگ ،حضرت آیت.. مصباح یزدی دام ظّلہ ہیں ، ثقافتی انقلاب کے سلسلے میں جو کہ انقلاب کے شروع ہی میں امام خمینی کے حکم سے انجام پایا تھا خود آقائے مصباح یزدی امام خمینی کے خاص معتمدین میں سے تھے اور اس تحریک اورپروگرام کو بنانے نیز اسے آگے بڑھانے کے لئے امام کی طرف سے آپ معےّن تھے ،یہ خود اس بات کی گواہی ہے کہ جناب استاد مصباح یزدی مختلف سالوں سے اس ارتباط پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔اسی رابطہ کے ذیل میں ایک سال یا کچھ زیادہ وقت سے یونیورسٹی کے بعض متعہّد اور متفکّراساتیدنے ایک شعبہ اسی مقصدسے قائم کیا ہے منجملہ اور کاموں کے ایک ماہانہ نششت بھی آقائے مصباح یزدی کی موجودگی میں منعقد ہوتی ہے ان نششتوں میں اساتید جوعنوان پیش کرتے ہیں ، استادمحترم انھیں عنوان پربحث اورگفتگوکرتے ہیں نششتوں کو منعقد کرنے والی تنظیم]شعبہ اساتید دانشگاہ علم وصنعت[کی یہ خوا ہش تھی کہ چونکہ یہ تقریریں علمی لحاظ سے بہت عمدہ ہیں نیز اس وقت معاشرہ کو اس کی ضرورت بھی ہے لہٰذا ن کو با الترتیب چھاپ کر لوگوں تک پہونچایا جائے خدا کا شکر ہے کہ اس وقت محمد مہدی نادری قمی ( جوکہ موسّسہ آموزشی اورپژوہشی امام خمینی کے رکن اور جناب استاد کے شاگرد بھی ہیں ) کی کوششوں سے نوتقریروں کو کتاب حاضر کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے امّیدہے کہ آئندہ بھی اس سلسلہ کوجاری رکھتے ہوئے ملک کے علمی ،ادبی ،اور ،وہ تمام افراد جو علم سے شغف رکھنے والے ہیں انکی خدمت میں یہ مطالب پیش کرتے رہیں گے۔

انتشارات موسّسئہ پزوہشی امام خمینی

۸

تہذیب وثقافت کے سلسلے میں ہما ری ذمہ داری - ۱

خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے محترم اساتید کے درمیان حاضر ہونے کی تو فیق عطافرمائی امید کرتا ہوں کہ یہ نیک اور مبارک قدم ہوگا ان عظیم اور سنگین ذمہ داریوں کو انجام دینے کی جو ذمہ داریاںاس خاص دور میں ہمارے اوپر عائدہیں سب سے پہلے میں اس بات کی اجازت چاہتا ہوں کہ ایک مختصر مقدّمہ جو اس ذمہ داری سے متعلّق ہے اسکو بیان کروں اسکے بعد اللہ کے فضل وکرم سے آئندہ جلسوں کے جو موضوعات دوستوں کے سامنے ہیں ان کے بارے میں تفصیل سے بحث کروں گا

مذہب اسلام مین ایک دستور(قاعدہ )ہےطاقت کے مطابق ذمہ داری'' یعنی خداوندعالم نے جسکو جتنی نعمت عطا کی ہے اور جس قوّت و استعداد کا اسکو مالک بنایا ہے اسی کے مطابق اسکو ذمہ داری عطاکی ہے (انسان کی ذمہ داری)یہ ایک ایسا اہم موضوع ہے جو بہت ہی زیادہ تفصیل چاہتا ہے اس سے پہلے کہ اصل موضوعقوت و طاقت کے اعتبار سے ذمہ داریکے بارے میں بحث ہو اس سلسلے میں مختصر وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

۹

انسان جواب دہ ہے یا حقوق طلب

اس بات کے علاوہ کہ انسان خودفطری طور پر اس بات کو محسو س کرتاہے کہ وہ جانوروں کی طرح آزادنہیں ہے کہ بغیر ذمہ داری کے جیسے چاہے ویسے زندگی بسر کرے ،مختلف ادیان بھی اس بات پر تاکید کرتے ہیں شاید آپ نے سنا ہوگا مشہور فلسفیاما نوئل کانٹ''کہتا ہے کہ دنیا میں دو چیزوں نے مجھکو بیحدمتأثر کیا ہے اور میرے لئے تعجب اور حیرانی کا باعث ہیں ایک آسمان میں ستاروںکا ہونا دوسرے انسان کے اندر اسکی فطرت کی آواز، اور فطرت بہت ہی خوبصورت آواز ہے جو انسان کے اندر موجود ہے بہر حال انسان اپنی اس فطرت اوّلیہ کے باعث کم و بیش اس بات کا احساس کرتا ہے کہ ایک طرح کی ذمہ داری اسکے اوپر ہے البتہ اس فطری احساس کا واضح اور ثابت ہونا یہ ایک علیحدہ بحث ہے جس کواس وقت بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔

انسان فطرتاً جواب دہ اور ذمہ دارہے اس نظریہ کے مقابل ایک دوسرا قدیمی نظریہ جو پایا جاتا ہے اور آخری چند برسوں میں اسے خاص رونق وشہرت ملی ہے وہ یہ کہ انسان کو اپنے حقوق حاصل کرنے اور لینے کے لئے جہان ،طبیعت ،خدااورحکومت سے کوشش کرنی چا ہئیے یہ فکر پرانی ہو چکی ہے کہ انسان ذمہ دار اورمکلّف ہے یہ گذرے ہوئے زمانے کی باتیں ہیں اب وہ زمانہ ختم ہو چکا ہے کہ انسان کو سکھایا جائے کہ وہ بندہ ہے اور خداا اسکا مولا ہے بلکہ اب وہ زمانہ ہے کہ انسان ہی آقامولا ہے آج وہ دور نہیں رہاکہ انسان تکلیف اور ذ مہ داری کے پیچھے دوڑے بلکہ زمانے نے اسکے جن حقوق کو بھلا دیا یا ضا ئع کر دیا ہے ان کے لیٔے کوشش کرے ۔

۱۰

بہرحال اس دوسرے نظریہ کے برخلاف، جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے عقل ووجدان اور انسانی فطرت گواہ ہیں کہ انسان ذمہ دار ہے اور ذمہ داریاں اسکو گھیر ے ہوے ہیں اور انسان ذمہ داریوں کا جواب د ینے والاہے تمام ادیان بھی اس بات پر اتّفاق رکھتے ہیں ، قرآن کریم کی اکثر آیات انسان کے ذمہ دار ہونے کو بتاتی ہیں قرآن مجیدمیں خدا فرماتا ہے :( فوربّک لنسئلنّهم اجمعین عمّا کانوا یعملون ) ( ۱ ) تمہارے خدا کی قسم جوکچھ وہ انجام دیتے ہیں اسکے بارے میں سوال کیا جائے گاپھر ارشاد ہورہا ہے:( ولتسئلنّ عماّتعملون ) ( ۲ ) یعنی تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو اس کے بارے میں ضرور ضرور سوال ہوگا ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے:( انّ السمع والبصر و الفو اد کل اولٰیک کان عنه مسئولا ) ( ۳ ) یعنی آنکھ کان اور دل سب کے بارے میں سوال ہو گا ۔

____________________

(۱) سورہ حجر : آیہ ۹۲و ۹۳۔

(۲)سورہ نحل : آیہ ۹۳۔

(۳)سورہ اسرا :آیہ ۳۶

۱۱

اور بندوں سے سوال کے بارے میں دوسری جگہ اسی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:( وقفوهم انهم مسئولون'' ) ( ۱ ) ان لوگوں کو روکو ان سے سوال کرناہے ایک جگہ اور قرآن میں فرماتا ہے :( وکان عهدالله مسئولا ) ( ۲ ) اور خدا کا عہدو پیمان ہمیشہ قابل سوال ہے''ایک جگہ اور فرماتا ہے( ثم لتسئلنّ یو مئذٍ عن النعیم ) ( ۳ ) اس دن (قیامت کے دن ) خدا کی نعمت کے بارے میں سوال ہوگا۔

____________________

(۱)سورہ صافات : آیہ ۲۴۔

.(۲)سورہ احزاب : آیہ ۱۵۔

(۳)سورہ تکاثر : آیہ ۶۔

۱۲

طاقت اور ذمہ داری کا توازن

انسان اپنے اوپر ذمہ داری رکھتا ہے اس اصل میں کویٔ بحث نہیں ہے لیکن جس نکتہ کی طرف توّجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ یہ ذمہ داری ہر دور میں سبھی لوگوں پر برابر نہیں ہے بلکہ مختلف وجوہ کی بنا پرہر ایک پر علیحدہ طریقے سے عائدہوتی ہے اور سب پر الگ الگ طرح سے ہے ۔

ایک وجہ جو ایک شخص کے لیٔے ذمہ داری کو دوسرے سے جدا کرتی ہے وہ یہی طاقت و قوّت ہے جو ہر ایک میں الگ الگ پائی جاتی ہے یہ وہی قاعدہ(طاقت کے مطابق ذمہ داری) ہے جسکی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا، چونکہ لوگوں کی طاقت و قوّت، انکی ذہنی استعداد، انکی جسمانی اور روحانی طاقت نیز انکا اجتماعی مقام وغیرہ ایک جیسا نہیں ہے لہٰذا ان افراد کی ذمہ داری بھی ایک جیسی نہیں ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :( لا یکلّف الله نفساً الاّ وسعها ) ( ۱ ) یعنی خدا کسی کو قدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک کام جو صدر یا وزیر اعظم اپنے منصب و مقام کے سبب انجام دے سکتا ہے وہ ایک معمولی عہدہ پر رہنے والا انجام نہیں دے سکتا اسی اعتبار سے ان لوگوں کی ذمہ داری بھی جدا جدا ہے اور سب کی ذ مہ داری ایک جیسی نہیں ہو سکتی ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ :آیہ ۲۸۶۔

۱۳

ایک دوسری وجہ جو کہ ذمہ داری کے حوالے سے کمی یا زیادتی کا سبب بنتی ہے وہ ان خطرات کا شدید یا ضعیف ہونا ہے جو کہ ایک شخص یا پوری قوم کو در پیش ہوتا ہے جس قدر خطرات شدید ہونگے اسی اعتبار سے ذمہ داری بھی سخت ہوگی اگر ماحول پوری طرح سے پرامن ہے اور ساری چیزیں کنٹرول میں ہیں تو رات کے وقت بھی آپ سکون و آرام سے سوسکیںگے لیکن اگر قوم ومعاشرے کے اندر نا امنی پائی جاتی ہے اسکے محافظ اورچوکیدار کمزورہیں چور اوراوباش کا خطرہ زیادہ ہے توگھر،مال و اسباب،بیوی بچوّں کی حفاظت کے حوالے سے آپ کی ذمہ داری میں اضافہ ہو جائے گااگر یہ بات عام ہو جائے کہ بازار میں زہریلی غذا ئیںپائی جاتی ہیں تو انسان اس سے بچنے کی تدابیر کے بارے میں غور و فکر کرے گا اور ایک خاص ذمہ داری کا احساس کرے گا ۔بہر حال خطرہ جتنا زیادہ بڑا ہو گا اتنا ہی انسان کے اندرذمہ داری کا احساس زیادہ ہوگا اور وہ سوچے گا کہ ایسی حکمت عملی اختیار کرے جسکی وجہ سے وہ خطرات سے دور رہ سکے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ قاعدہ مقام اثبات سے مربوط ہے یعنی جب ہم خطرہ کو لمس اور محسوس کریںیا احتمال ہوکہ خطرہ موجود ہے یا خطرہ کا امکان پایاجارہاہو یعنی خطرہ کا ہونا کسی بھی طرح ہمارے لیٔے ثابت ہو جائے، لیکن کبھی کبھی واقعاً اور حقیقتاً خطرہ موجود رہتا ہے مگر چونکہ ہم اس سے ناواقف ہیں یا خطرہ ہمارے لیٔے ثابت ہی نہیں ہوتا لہٰذا اس سے بچنے کی تدابیر نہیں کرتے چاہے یہ خطرہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جب ہم کو اطّلا ع ہی نہیں ہے تو اس سے نمٹنے کے لئے کچھ بھی نہیں کرینگے لہٰذا پہلے خطرہ کااحساس کریں پھر اسکے بعد اپنی ذمہ داریوں کو اس کے مقابلے میں درک کریں۔

۱۴

حوزئہ علمیہ ا و ریونیورسٹی کے اساتذہ کی ذمہ داریاں

بہر حا ل جو کچھ اس تقریر میں آپ لوگوں سے مربوط ہے وہ یہ کہ مختلف لحاظ سے دوسروں کی بہ نسبت آپ لوگوں کی ذمہ داریاںسنگین اور زیادہ ہیں ۔ جن میں ایک وجہ یہ ہے کہ خدا وندعالم نے آپ کو ذاتی قوّت و استعداد عنایت کی ہے اگر یہ عنایت نہ ہوتی توآپ یونیورسٹی کے استاد نہ ہوتے یہی ہوش اور علمی صلاحیت نیزاعلیٰ تحقیق و تعلیم جو آپ کے پاس ہے اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آپ کی صلاحیت دوسرے لوگوں سے زیادہ ہے ۔

دوسرے یہ کہ اجتماعی حیثیت کی وجہ سے جو اثر نوجوان افراد اور طالب علموں پر آپ ڈال سکتے ہیں اسکی وجہ سے آپ کی ذمہ داری زیادہ ہوجاتی ہے اس لئے کہ معمولی افراد حتیّٰ ادارے اور وزارتی امور کے ذمہ دار بھی نو جوانوں پروہ اثر نہیں ڈال سکتے جو آپ لوگوں کی ذات سے ممکن ہے آپ ہی حضرات نوجوانوں کی تربیت اور انکی فکروںکو پختہ کرکے در حقیقت ملک کومضبوط بناتے ہیں اور آئندہ کی تاریخ رقم کرتے ہیں یہی وہ نوجوان ہیں جو بہت جلد ملک کے عظیم عہدہ پر فائزہونگے رہبر سے لیکرصدر یا پارلیمانی امور کے ممبران اور دوسرے عہدوں پر متمکّن ہونے والے افراد سب کے سب اسی حوزئہ علمیہ اور یونیورسٹی کے جوانوں میں سے ہونگے اب استاد چاہے

۱۵

یونیورسٹی کا ہو یا حوزئہ علمیہ کا اس کی ذمہ داری اس لحاظ سے عظیم اور دوسروں کی بہ نسبت زیادہ سنگین ہے تیسری بات جو ہماری اور آپ کی ذمہ داریوںکے زیادہ سنگین ہونے کا سبب ہے وہ درحقیقت زمانے کے خاص حالات کے تحت ہے اس وقت ہم ایسے ماحول اور شرایٔط میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دشمن کا خطرہ خاص طور پر آداب و رسوم نیزتہذیب وتمدّن کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے اور ہم دشمن کے حملہ اور اسکے نفوذ کو اچھی طرح محسوس کر رہے ہیں ۔کل تک جو کہہ رہے تھے کہ یہ ایک کلچر اور تہذیب کا دوسرے کلچر اور تہذیب کے ساتھ معاملہ اور تبادلہ ہے اور اسے سازش کہنا ایک وہم ہے۔میں یہ نہیں سمجھتا کہ جو لوگ تھوڑی سی بھی عقل و فکر رکھتے ہیں یا ان کے اندر تھوڑی سی بھی سوجھ،بوجھ موجود ہے ان پر یہ حقیقت پوشیدہ ہوگی تہذیب اور کلچر کا خطرہ اس معاشرہ میں ، خاص طور پر نوجوانوں کے لیٔے بہت خطرناک ہے اگر ہم نے دیر کی اور دشمن کے نفوذ اورانکے اثرات کو نہیں روکا تو بہت جلد ہم اس بات کا مشاہدہ کرینگے کہ ہماری تہذیب اور ہماراکلچربالکل پوری طرح سے بدل چکا ہوگا آجکل دشمن کے ہاتھ میں نئے الکٹرانک وسائل، سٹلائٹ ،اینٹرنیٹ اور دوسرے امکانات پہلے سے زیادہ منظّم طریقے سے پائے جاتے ہیں اور دشمن اپنی کوشش اورفعالیت کو روز بروز بڑھا رہا ہے اور بہت تیزی سے کہ جس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا یکے بعد دیگرے تہذیب و تمدّن کے قلعے مسمار کئے جا رہا ہے۔

۱۶

آ ج کی دنیا میں تہذیبی اور اخلاقی انحطاط

آج دنیا میں اخلاقی اور تہذیبی آلودگی اور پستی کا عالم یہ ہے کہ مغربی ممالک کے افراد بھی اس سے تنگ آگئے ہیں اور وہ لوگ خود اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں یقینا آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہونگے یہاں صرف ایک مورد کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے(جو ہزاروں میں ایک ہے) ۔

قرآن کریم میں ایک واقعہ ذکر ہوا ہے جسکی اس نے سختی سے مذمّت کی ہے اور وہ قوم لوط کا واقعہ ہے۔ قوم لوط کے لوگ اس برے فعل کو انجام دیتے تھے اور وہ لوگ اس بری بیماری میں مبتلا تھے وہ لوگ اپنی شہوانی خواہشات کی آگ کو اپنی ہی جنس کے افراد سے بجھاتے تھے جبکہ جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے صنف مخالف موجود تھیںانکے اس عمل کو بہت ہی بری صفت قرار دیا ہے۔

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :ا نّکم لتاتون الفاحشةما سبقکم بھا من احدمن العالمین''( ۱ ) یعنی تم لوگ ایسا برا فعل انجام دیتے ہوکہ تم سے پہلے کے لوگوں میں سے کسی نے اس فعل کوانجام نہیں دیا۔ آخر کاروہ لوگ اسی برے کام پر مصررہے اور ان لوگوں نے حضرت لوط کے موعظہ اور نصیحت پر کوئی توّجہ نہیں دی پھر خدا وندعالم نے ان پر عذاب نازل کیا اوران لوگوں کوصفحہ ہستی سے مٹادیا ۔یہ قصّہ ایک

____________________

(۱)سورہ عنکبوت : آیہ ۲۸۔

۱۷

چھوٹے شہرمیں وہ بھی دنیا کے ایک کنارے بسنے والے ہزاروں سال پہلے چندافرادسے متعلّق تھا لیکن آج آپ دنیامیں دیکھیںکہ کیاہورہاہے خودمغربی ممالک کے افرادجو عندیہ اوراشارہ دے رہے ہیں اسی اندازے کے مطابق دنیا کے تقریباًپچاس فیصدی سے زیادہ بڑے بڑے لوگ اس بری عادت میں مبتلا ہیں حتّیٰ بات یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ لوگ ہم جنسوں کی حمایت میں کھلے عام پر سڑکوں پرآکر مظاہرہ کرتے ہیں اور ریلی نکالتے ہیں بعض ممالک میں پارلیمانی امورکے ممبران نے سرکاری طورپراس قانون کو منظور کروا یاہے اورقانون بنا کراسکوجائزقراردیاہے آج دنیا کے بہت سے علاقوں میں ہم جنسوں نے تنظیم اورکلب کے ساتھ اپنے لئے مخصوص جگہیں بنا لی ہیں اسکے علاوہ بعض رسالے اورکتاب خانے بھی انھیں سے مخصوص ہیں ۔

اگرمیں اپنی آنکھ سے نہ دیکھتا تو یقین نہ کرتا ایک بار جب میں نے امریکہ کے شہرفیلاڈیفنا کاسفرکیا اورموقع ملنے پربعض شہروں کودیکھنے گیا انھیں میں سے ایک واشنگٹن شہربھی تھا ایک دوست ]جوکہ آجکل ایران میں نائب وزیر ہیں [انکے ساتھ گاڑی پرسوارہوکرجا رہا تھا راستے میں ایک چوراہے پر بہت بڑا کتب خانہ نظرآیا میں نے اپنے دوست سے کہا کہ بہترہے اس لائبریری کودیکھتے ہوئے چلیں انھوں نے جواب دیایہاں اترنا بہترنہیں ہے میں نے اسکا سبب پوچھا توکہنے لگے کہ یہ لائبریری ہم جنسوں کی ہے اگرہم یہاں اتر گئے توہمیں برائی سے متّہم کیا جائے گا۔ میں نے اسی چوراہے پربہت سے مردوں کوعورتوں کا مختصر لباس پہنے ہوئے دیکھا جواپنے کوسجا سنوارکر دوسروں کے لئے پیش کررہے تھے ۔یہ آج دنیا کی حالت ہے کس قدربے شرمی اورذلّت کا کام ہے !

۱۸

اب آپ خودہی تصوّرکریں ذرائع ابلاغ اورانٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ کتنی جلدی اورآسانی کے ساتھ اخلاق کوخراب کرنے والے ان جراثیم کوپھیلایا جا سکتا ہے ایسے ہی نہیں مغربی ممالک کے ماہرین تعلیم اورنفسیات سے واقفیت رکھنے والے افرادنے خطرے کا اعلان کیا ہے انھوںنے بچوّں کے غیراخلاقی باتوںسے آگاہ ہونے اورانٹرنیٹ وغیرہ سے ہیجان انگیز تصاویرکے نہ دیکھنے پرسختی سے تاکیدکی ہے آج ہالیوڈجدیدقسم کے تکنیکی اورفنیّ وسائل سے ایسی جذّاب اورپرکشش فلمیں بنا کرساری دنیا میں نشرکررہا ہے جس میں اخلاق کے خلاف بہت ہی غلط تبلیغ کی جا رہی ہے۔ اے کاش یہ سلسلہ یہیں پرختم ہوجاتا مگرایسا نہیں ہے اس سے بڑا بھی خطرہ پایا جا رہا ہے اوروہ فکری انحراف کا خطرہ ہے جس طرح اخلاقی برائیاںآج کی دنیا میں بے نظیر ہیں ویسے ہی فکری انحراف بھی آج کل روزبروزبڑھتا جا رہا ہے کہ اب تک کسی شیطان کے ذریعہ یہ کام انجام نہیں پایا آج تک انسانی عقیدے کو خراب کرنے کا ذریعہ ابلیس تھا لیکن اگروہ بھی بعض انسان نما شیطانوںکی حرکت اوران کے کرتوت کو ملاحظہ کرلے تودانتوں تلے انگلی دبالے انھوں نے ایسا ماحول بنا لیا ہے اور وہ ایسا چھا گئے ہیں کہ اگر کوئی کہتا ہے میں فلاں چیزپریقین رکھتا ہوںتویہ کہتے ہیں کہ عجب بیوقوف اورناسمجھ انسان ہے! ہاں آجکل کے روشن فکروں کی اصطلاح میں انسان کو فخراسی بات پر ہے کہ وہ یہ کہے ہم کو تمام چیزوں میں شک و شبہ ہے اور کوئی بھی چیز دنیا میں یقینی اور ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی چیزیقین کرنے کے قابل ہے۔

۱۹

ہر زمانے میں اسباب ہدایت و گمراہی کے درمیان نسبی توازن کاتحفظ

وہ چیز جو جاننے کے قابل ہے یہ کہ خدا وندعالم کی وسیع حکمت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر زمانے میں جس قدر برائیاں اور اخلاق کو گمراہ کرنے والی چیزوں کی زیادتیاں اور انکے اسباب کی کثرت ہوگی اسی اعتبار سے انسانوں کو راہ راست اور ہدایت کی طرف لے جانے کے اسباب بھی فراہم ہونگے یعنی خدا وند عالم ہر زمانے میں ہدایت اور ضلالت دونوں طرف کے توازن کو برقرار رکھتا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ گمراہی کاماحول معاشرہ پر اس قدرغالب ہو جائے کہ جو طالب ہدایت ہیں وہ اس سے محروم رہ جائیں۔ اگر آج اطّلاعات اورمواصلات کے نئے نئے ذرائع گمراہیوں کے لئے فراہم ہیں تو یہی نئی ایجادات اور وسائل انسان کی ہدایت اور اصلاح کا ذریعہ بھی بنتے ہیں جبکہ یہ اسباب پہلے نہیں پائے جاتے تھے ۔آج دنیا میں ایسے بہت سے افراد ہیں جنھوں نے اسلام کو انٹرنیٹ کے ذریعہ پہچانا ہے اور وہ مسلمان ہو گئے ہیں ۔ اگر ریڈیو ،ٹی وی ،سنیما ، انٹرنیٹ اور سٹلائٹ وغیرہ لوگوں کو گمراہ، فکروں کو خراب اور انکے ا خلاق کو پست کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو انہیں ذرائع کے ذریعہ بہت سے لوگ اسلام، انقلاب،ایران اور امام خمینی کے نام سے واقف اور آگاہ ہوئے ہیں اور انکی جانب متوجّہ ہو کر وہ مسلمان ہو گئے ہیں ۔دنیا میں بہت سے حصّوں کے مسلمانوں نے جب سٹلائیٹ اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ اما م خمینی کے پیغام کو سنا اور انکے راستے سے متعارف ہوئے تو ان لوگوںنے شیعہ مذہب کو اختیار کرلیا ۔

ایک بار میں سنگا پور میں ایک تاجر کا مہمان ہوا اسکی تجارت کمپیوٹر سے متعلّق تھی اس نے بتایا کہ شروع میں میں وہابی تھا لیکن جب میں نے امام خمینی کے متعلّق معلومات حاصل کی اور انکی باتوں کو سنا اور انکی تحریک کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی اسلام یہی ہے جسکو امام خمینی بتا رہے ہیں بہر حال اسکے بعد میں نے شعیہ مذہب قبول کر لیا ۔

۲۰