دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)16%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82056 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

لہذٰا اس سے تجاوز نہ کرنا اور جو لوگ اللہ کے حد ودسے آگے بڑھ جاتے ہیں وہی للوگ ظالم ہیں ۔

آخر میں ایک مرتبہ پھر پچھلے جلسے کی باتوں کو دہرائوں گا ۔اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی بحث تین شکل اور تین عنوان سے قابل تصور ہے :

(۱)اسلام کے سارے احکام اور معارف ایسے ہیں کہ دیندار افراد کے لئے صرف بعض چیزوںکے جذب کا سبب بنتے ہیں یا ایسے ہیں کہ ان کے لئے صرف بعض چیزوںکے دفع کا سبب بنتے ہیں یاان میں دونوں صورتیں ہیں ؟

(۲)اسلام کے تمام معارف مسائل ایسے ہیں کہ عام انسانوں کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں یا ایسے ہیں کہ ان کے لئے دافعہ رکھتے ہیں ؟

(۳)اسلام مسلمانوں اورغیر مسلمانوں کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے جاذبہ رکھنے والے طریقے کا سہارا لیتا ہے یا پھردافعی روش کو استعمال کرتا ہے یا ان دونوں طریقوں کا سہارا لیتا ہے ؟جو کچھ ہم نے اس بحث میں زیادہ توجہ کا مرکز بنایا حقیقت میں وہ تیسرے سوال کا جواب تھا اور اسی تیسری قسم پر زیادہ بحث رہی اور پہلے دو سوالوں سے متعلق زیادہ بحث نہیں ہوئی ،چونکہ اور دوسرے موضوعات کی اہمیت کی بنا پر آئندہ جلسوں سے ایک نئے موضوع کو شروع کرنے کا ارادہ ہے؛ لہذٰا جاذبہ اور دافعہ کی بحث کو یہیں پر ختم کرتے ہیں ؛ بعدمیں کبھی اس بحث کو مکمل کریںگے ۔ انشاء اللہ۔

۲۰۱

سوال اور جواب

سوال :

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ دونوں پائے جاتے ہیں اس سلسلہ میں کوئی بحث نہیں ہے لیکن لفط خشونت کے مفہوم کے بارے میں د و پہلو سے دقت کرنے کی ضرورت ہے ۔پہلے یہ کہ کیا یہ مفہوم ایک دینی اصطلاح ہے اور قرآن و حدیث میں یہ استعمال ہواہے ؟ میری نگاہ میں ایسا نہیں ہے ؛کیونکہ قرآن میں مطلق طور سے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اور روایات میں بھی تقریباًیہ لفظ نہیں آیا ہے یعنی بہت ہی کم استعمال ہوا ہے خلاصہ یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ قرآن و روایات کے الفاظ میں خشونت کو فضیلت کے طور پر پیش کیا گیا ہو، فارسی زبان میں بھی کلمہ خشونت اچھی نظرسے نہیں دیکھا جاتا؛اس کے مساوی جو لفظ استعمال ہوتاہے وہ بے رحمی کاہے اور یہ قاطعیت سے جدا ہے قاطعیت(قانون کی سخت پاندی) لفظ ایک اچھا عنوان رکھتا ہے لہذاخشونت کو اس کے مترادف نہیں سمجھنا چاہئے۔ ایک فوجی افسر ممکن ہے قاطع ہو اور کبھی ممکن ہے کہ بہت ہی خشن (درشت)ہو اور یہ دونوں لفظ ایک نہیں ہیں ،ممکن ہے انسان ایک جذباتی کام مثلاً چومنے کو بھی خشونت کے ساتھ انجام دے۔

دوسرا نکتہ جو لفظ خشونت سے متعلق ہے وہ یہ کہ فرضاًہم اس بات کو قبول کر بھی لیں کہ یہ اصطلاح قرآن و روایات اور اسلامی الفاظ میں استعمال ہوئی ہے اور اس کو بھی قبول کر لیں کہ خشونت کا مفہوم قاطع کے مترادف ہے اور ایک اچھا پہلو بھی رکھتا ہے لیکن حالات اور مسائل کو دیکھتے ہوئے عقل و نقل دونوں کے اعتبار سے اس لفظ کو استعمال کرنا صحیح نہیں ہے؛ لہذٰا ہم کو اس کے عوض دوسرے الفاظ کو استعمال کرنا چاہئے؛ عقلی لحاظ سے اس بنا پر کہ عقل یہ کہتی ہے کہ جس سماج اور ماحول میں آپ گفتگو اور کلام کر رہے ہیں وہاں پر خشونت کے معنی اچھے نہیں سمجھے جاتے ہیں اور اس سے بے رحمی کے معنی سمجھے جاتے ہیں ؛ اس معنی کو یہاں استعمال کرکے دافعہ کو بلا وجہ نہیں لانا چاہئے ؛جب کہ دوسرے لفظ کو ہم اسی معانی کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح آسانی سے اس مشکل کو حل کر سکتے ہیں ۔

۲۰۲

اور نقل ]قرآن وحدیث [کے اعتبار سے اس طرح کہ قران میں ارشاد ہو رہا ہے:( یا ایها الذین آمنوا لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا'' ) ( ۱ ) اے وہ لوگو !جو کہ ایمان لائے ہو'' راعنانہ کہو بلکہ'' انظرناکہا کرو۔ کیونکہ دشمن راعنا کہہ کے غلط معنی مراد لیتے تھے، اسی مراد کو دوسرے لفظ کے ذریعہ لے سکتے ہیں لہذٰ اانظرنا کہو تاکہ دشمن جو غلط معنی مراد لے رہا ہے اس کا سد باب کیا جا سکے ۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ خشونت کی بحث کبھی فعلی اعتبار سے حسن وقبح رکھتی ہے اور کبھی فاعلی اعتبار سے حسن و قبح رکھتی ہے مثلاًقتل کرنا یہ قتل ،ایک کام اور فعل ہے جو کہ ماہیت کے اعتبار سے خشن اور سخت ودرشت ہے ،ایک مرغے یا بھیڑ کا سر جدا

____________________

(۱) سورہ بقرہ :آیہ ۱۰۴۔

۲۰۳

کرنا ماہیت کے لحاظ سے سخت اور خشن کام ہے لیکن کبھی بحث فاعل سے مربوط ہوتی ہے فاعل وہ ہے جو کہ اس مرغ یا بھیڑکا سر جدا کرنا چاہتا ہے، اب اس کام کو ممکن ہے وہ بے رحمی اور خشونت کے ساتھ انجام دے؛ یا یہی کام وہ بغیر خشونت کے انجام دے ہماری اس وقت بحث فاعلی خشونت میں ہے نہ کہ فعلی خشونت میں ؛یعنی احکام اسلامی کو جاری کرنے میں ہمیں سخت اور خشن چہرہ ظاہر نہیں کرنا چاہئے؛ ہم کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت دیکھنا چاہئے آپ عالمین کے لئے رحمت تھے اور اخلاق حسنہ رکھتے تھے آپ اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز تھے لیکن پھر بھی آپ اپنی جگہ پر کفاّر اور دشمنوں کے مقابلہ میں شدّت وقاطعیت اختیار کرتے تھے ؛لیکن کبھی بھی آپ کے فعل میں خشونت کو نہیں دیکھا گیا ۔

خلاصہ ، سوال یہ ہے کہ جب لفظ خشونت تمام زبانوں میں بے رحمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے منفی اثر پڑتا ہے تو بے وجہ ہم اس کے استعمال پر زور دیتے ہیں اور دافعہ ایجاد کرکے دشمن کے لئے غلط فائدہ اٹھانے کا راستہ ہموار کر رہے ہیں ؛جب کہ اس کی جگہ پر دوسرا لفظ استعمال کر کے ہم اس مشکل کو حل کر سکتے ہیں ۔

۲۰۴

جواب :

البتہ اس سوال کے جواب میں جو مطالب بیان کئے جائیںگے وہ اسی خشونت کے سلسلے میں جو ٹیلیویژن پر مناظرہ ہوا تھا اس میں بیان کئے جا چکے ہیں ،اور جو دوست ان مباحث کا مطالعہ کرناچاہتے ہیں وہ ہفتہ نامہ'' پرتومیں ملاحظہ کر سکتے ہیں اس میں یہ مطالب چھپ چکے ہیں ، اور یہاں پر جتنا ممکن ہے اس کی توضیح کچھ اس طرح ہے :

کبھی بحث اس میں ہے کہ یہ لفظ ہماری تہذیب اور کلچر میں کیا معنی رکھتا ہے اور کبھی بحث اس میں ہے کہ یہ لفظ مختلف عرف، سماج او رتہذیب میں کس معنی میں استعمال ہوتا ہے؛ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہمارے کلچر میں خشونت کا لفظ بے رحمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ پہلے رحم کے معنی کو واضح کریں تاکہ اس کے مقابلہ میں جو لفظ بے رحمی اور خشونت کاہے اس کے معنی و مفہوم واضح ہوجائے۔ اگر چہ ہماری تہذیب میں ممکن ہے کہ خشونت کامفہوم اکثر بے رحمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن عرف اور دوسرے کلچر میں ایسا نہیں ہے جیسے حقوقی اور سیاسی اصطلاح میں خشونت کے معنی یہ نہیں ہیں یہ لفظ بنیادی طور پر عربی ہے عربی کی کسی لغت میں بھی کسی نے خشونت کے معنی میں بے رحمی نہیں لکھا ہے، بلکہ خشن یعنی سخت ودرشت کے معنی میں ہے خشونت یعنی سختی اوردرشتی، اس کے مقابلہ میں لےّن کالفظ استعمال ہوتا ہے جو کہ نرم کے معنی میں ہے لہذٰا عربی لغت کے مطابق خشونت رحم کے مقابل نہیں ہے تا کہ بے رحمی کے معنی میں ہو ،بلکہ یہ محکم اور سخت کے معنی میں ہے جو کہ لینہ اور نرمی کے مقابل ہے۔ البتہ عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ جب مفہوم طبیعی اور مادی علوم سے انسانی اور اجتماعی علوم کی طرف منتقل ہوتا ہے تو اس کے نئے مصداق ہو جاتے ہیں ، لیکن ہر حال میں پھر بھی لغوی معنی کی اصل اسی طرح باقی رہتی ہے ۔

۲۰۵

اور جو سوال میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ لفظ اصلاً قرآن میں استعمال نہیں ہوا ہے اور روایات میں بھی بہت کم آیا ہے اور ہر حال میں قرآنی اور روائی اعتبار سے اس کے لئے کوئی فضیلیت بیان نہیں کی گئی ہے تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ اگر چہ خود قرآن میں مادہخ ش نا ور خشونت کا لفظ نہیں آیا ہے لیکن اس کے ہم معنی لفظ استعمال ہوا ہے اور ادبیات اور زبان کے دستور کے مطابق ہم اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ہم معنی اور مرادف لفظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کر سکتے ہیں ؛ لہذٰا اگرلفظ خشونت کے مترادف اگر کوئی لفظ قرآن میں آیا ہو تو یہ دعویٰ کہ قرآن میں خشونت کے مفہوم کو بیان نہیں کیا گیا ہے ،صحیح نہیں ہے؛ خشونت کے مترادف (ہم معانی )لفظ جو قرآن کریم میں آئے ہیں وہ لفظغلظت'' اوراس کا مادہ ((غ ل ظ ))ہے، سورہ توبہ میں ارشاد ہو رہا ہے :( ولیجدوا فیکم غلظة'' ) ( ۱ ) اور وہ (کفاّر ) تم میں خشونت اور غلظت کا احساس کریں، یا قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :( یا ایها النبیّ جاهد الکفاّر والمنافقین و اغلظ علیهم و ماوٰهم جهنّم ) ( ۲ ) اے نبی !کافروں اور منافقوںسے جہاد کیجئے اور ان کے لئے سخت رویہ اپنائیے اور ان لوگوں کی جگہ جہنم ہے ۔ یہ آیہ قرآن مجید میں دو بار، سورہ توبہ اور سورہ تحریم میں آئی ہے۔ یا دوسری جگہ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے :( فبما رحمة من الله لنت لهم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک ) ( ۳ ) اے پیغمبر! یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان( ۱ ) سورہ توبہ :آیہ۱۲۳۔

____________________

(۲)سورہ تحریم :آیہ ۹۔

(۳)سورہ آل عمران :آیہ ۱۵۹۔

۲۰۶

لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تویہ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔

اور پھریا اسی قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے :( علیها ملائکة غلاظ شداد ) ( ۱ ) یعنی اس (جہنم کی آگ )پر سخت اور خشن فرشتے معین ہیں ؛پورے طور سے (غ ل ظ )کامادہ ۱۳ بار قران میں استعمال ہوا ہے اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا غلظت اور خشونت مترادف یعنی ہم معنی ہیں اور پورے طور پرایک معنی رکھتے ہیں اور جب لفظ غلظت قران مجید میں استعمال ہوا ہے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ خشونت کا مفہوم قرآن میں نہیں آیا ہے؛ اسی طرح ایک جگہ پر رحم کا مفہوم شدّت کے مفہوم کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :محمد( رسول الله والذین معه اشدّاء علی الکفّار رحماء بینهم'' ) ( ۲ ) محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں مہربان اور رحم دل ہیں ۔

روایات میں بھی خشن لفظ استعمال ہوا ہے اور کئی جگہوں پر فضیلت کے طور پر استعمال ہوا ہے مثلاً حضرت علی کے بارے میں ہے کہ آپ اللہ کی ذات میں یعنی اس کے حقوق ادا کرنے میں خشن تھےخشن فی ذات الله'' ( ۳ ) اس اعتبار سے لغت ، آیت اور روایات سے یہ بات واضح ہوجا تی ہے کہ سوال میں جس چیز کا دعویٰ کیا گیا

____________________

(۱) سورہ تحریم :آیہ ۶۔

(۲) سورہ فتح :آیہ ۲۹۔

(۳) بحار الانوار :جلد ۲۱ ،روایت دہم ،باب ۳۶۔

۲۰۷

ہے وہ صحیح نہیں ہے لیکن پھر بھی لغوی بحث اور استعمال کے موارد سے صرف نظر کرتے ہوئے

یہ سوال کہ خشونت کے معنی بے رحمی ہیں یا نہیں ؟ میں آپ سے سوال کروں گا :جیسا کہ اسلام کے جزائی قانون میں ہے ؛اگر کوئی کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور اس کے بدلے اس کا داہنا ہاتھ قطع کیا جائے ،اور اس کے بائیں پیر کو بھی کاٹا جائے اور برادری سے اس کا بائیکاٹ بھی کیا جائے اور کوئی اس کا احترام نہ کرے ، یہ بے رحمی ہے یا رحم ؟یا اگر جیسا کہ اسلام کے جزائی قا نون میں ہے ،آگ روشن کرکے کسی کو سزا کے طور پر اس آگ میں ڈالا جائے اور اس کو اس میں جلایا جائے، یا اس کے ہاتھ اور پیر کو باندھ کر پہاڑ سے نیچے پھینک دیاجائے ؛یا ایک دینار طلا کے برابر چوری کے سبب کسی کی چار انگلیاں کاٹی جائیں؛ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام رحم ہے یا بے رحمی ہے ؟

سوال میں فعلی اور فاعلی خشونت اور فعلی اور فاعلی حسن و قبح میں تفریق وتفکیک کی گئی ہے اور اسی طرح قاطعیت اور خشونت میں فرق کو قبول کیا گیا ہے، لیکن مثلاً اگر کوئی لال بتّی جلنے کے بعدعبورکرے اور پولیس اس کو گرفتار کرلے اور سلام و احوال پرسی کے بعدمسکراتے ہوئے ادب کے ساتھ اس سے کہے کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے لہذٰا پانچ ہزار روپئے آپ پر جرمانہ کیا جاتا ہے ،یہاں پر قاطعیت ہے خشونت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، لیکن بحث اس میں ہے کہ جس خشونت کے ہم اسلام میں قائل ہیں وہ صرف قاطعیت نہیں ہے؛ بعض اعمال ماہیت کے اعتبار سے خشن ہیں اور ان کو قاطعیت کے ساتھ انجام دینے میں ہمیشہ ایک طرح کی خشونت پائی جاتی ہے ؛ جس وقت جلّادشمشیر اور تلوار کے ساتھ آتا ہے اور کسی کا سر جدا کرتا ہے اور خون کا فوّارہ جاری ہوتا ہے ، اس کام کی ماہیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کو ہنسی خوشی اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام نہیں دیا جا سکتا ؛یہ منظر ہی ایسا ہے کہ بہت سے لوگ اس کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے؛ اور اس منظر کو دیکھنے سے ہی ان کے چہرہ کا رنگ اڑ جاتا ہے،ہنسنا ،مسکرانا بھول جاتے ہیں یہاں تک کی بعض لوگ اس کو دیکھ کر بیہوش ہو جاتے ہیں ، اس وقت یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ خود اس کام کو انجام دینے والا صرف قاطعیت کے ساتھ لیکن مسکراہٹ اور مہربانی سے اس کو انجام دے ؟یہ فعل ہی در حقیقت خشن ہے اور جو شخص یہ انجام دیتا ہے وہ فطری طور پرخشن اور خشونت کا طرفدار شمار کیا جاتا ہے اور ان جگہوں پر فعلی اور فاعلی خشونت میں فرق پیدا کرنا نا ممکن ہے۔

۲۰۸

اس کے علاوہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں اس کا مورد اور مقام خشونت فاعلی نہیں ہے ( یعنی یہ بحث کام کرنے والے کی خشونت سے متعلق نہیں ہے )بلکہ ان کا اعتراض خشونت فعلی سے متعلق ہے ؛وہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کام تم لوگ انجام دیتے ہو وہ کام خشن ہے اور اس کو نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہم اس کام کو ہنسی خوشی اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام دیں تو بھی مشکل حل نہیں ہونے والی ہے ؛بحث قاطعیت میں اور خشن نہ ہونے میں نہیں ہے بلکہ سارے اعتراضات انھیں مجازات اور سزائوں پر ہیں ۔اصل میں یہ سارے مطالب عالمی انسانی حقوق کے بیانیہ کی طرف پلٹتے ہیں ؛وہ حقوق جو عالمی انسانی حقوق کے منشور میں ہے اس کا ایک بند یہ ہے کہ جتنی سزائیں بھی خشونت کا سبب بنتی ہیں ان سب کو ختم ہونا چاہئے۔ ان سزائوں میں سب سے واضح او رظاہر ی سزا جو ہے اور اس پر بہت زیادہ تاکید ہو رہی ہے قتل اور پھانسی کی سزا ہے اور اس جیسی سزائیں مثلاًہاتھ کاٹنا ،کوڑے مارنا اور دوسری سزائیں جو کہ جسمانی تکلیف کے ساتھ ہوں؛ آج جب انسانی حقوق کی گفتگو ہوتی ہے اور دنیا کے ممالک خاص طور پران کا سرغنہ امریکہ ہم مسلمانوں پر انسانی حقوق پامال کرنے کا الزام لگاتے ہیں ؛ ان لوگوں کا اعتراض یہ نہیں ہے کہ مجرموں کو پھانسی دیتے وقت یا ان کو کوڑا مارتے وقت مسکراتے کیوں نہیں اور سختی کیوں کرتے ہو ،بلکہ بات اصل میں ایسی سزائوں کے وجودکے بارے میں ہے کہ ایسی سزائیں کیوں پائی جاتی ہیں ؟وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سزائیں اصل میں اس وقت تھیں جب انسان تمدن اور کلچر نہیں رکھتا تھا؛ لوگ ہمیشہ جنگ کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کو قتل و غارت کرنے میں مشغول رہتے تھے؛ لیکن آج انسان تمدن یافتہ ہو چکا ہے اور سب کے سب با ادب ہیں ؛ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور فرض کیجئے اگر کسی شہر پر ایٹمی بم بھی گرائیں تو بہت ہی باادب خاموشی کے ساتھ بغیر شور و غل کے وہ لوگ اتٹمی بم گراتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں !! آج کے دور میں ،یہ خشونت آمیز سزائیں پھانسی اور کوڑے وغیرہ نہیں ہونے چاہئیں، اس طرح کی تبلیغات کی ہوا اتنی مضبوط اور موثر ہے کہ افسوس صد افسوس، بعض وہ لوگ جو کہ روحانی (مولانا )ہیں اور سر پر عمامہ بھی رکھتے ہیں وہ بھی اس سے متائثرہو جاتے ہیں اور واضح طور پر اخبارات میں لکھتے ہیں کہ ایسی سزائیں جو کہ انسانیت کے خلاف اور خشونت آمیز ہیں ان کو ختم ہونا چاہئے؛ البتہ یہ اظہار کوئی نئی بات نہیں ہے، انقلاب کے شروع میں بھی ہم کو یاد ہے جبہہ ملّی کے جو حقوق دان تھے انھوںنے بیانیہ دیا تھا کہ اسلامی قصاص کے قانون خشونت آمیز اور انسانیت کے خلاف ہیں اور ان کو ختم ہونا چاہئے، ان دنوں حضرت امام خمینی ان باتوں کے مقابلہ میں سختی کے ساتھ کھڑے ہوئے اور آپ نے ان کے مرتد ہونے کا حکم دیا، اور امام خمینی کے فتوے سے وہ اتنا خوف زدہ ہو گئے کہ وہ سالوں اپنے سوراخوں میں چھپے رہے؛ لیکن آج پھر یہ پست اور جسارت سے مملو باتیں اٹھائی جارہی ہیں اور کھلے عام عمومی جگہوں اور اخبارات میں پیش کی جاری ہیں ۔

۲۰۹

لہذٰ ا بات اس کام کو انجام دینے والے (فاعل )سے مربوط نہیں ہے کہ کیوں وہ مسکراتا نہیں اور با ادب نہیں ہے بلکہ اعتراض ان سزائوں پر ہے کہ یہ ا نسانیت کے خلاف اور خشونت آمیز ہیں ،سوال یہ ہے کہ یہ سزائیں جن کووہ لوگ خشونت آمیز جانتے ہیں ،ا ن کو ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے ؟ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خشونت نہیں ہونا چاہئے ان کی مرا د خشونت سے یہی پھانسی، قتل ،قصاص اورکوڑے وغیرہ ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کی باتوں کو غلط ثابت کریں ، لہذا ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے کہ ہم اسی لفظ کو استعمال کریںاور کہیں کہ ہماری نظرمیں خشونت کو ہونا چاہئے؛ البتہ ہماری مراد خشونت سے پھانسی ،قتل ، قصاص و تازیانہ مارنے کا حکم ہے ۔ہم کو اس بات پر کوئی ضد نہیں ہے کہ ہم لفظ خشونت کو درمیان میں لائیں؛ لیکن چونکہ انسانی حقوق کے بیانیہ اور منشور میں ایسا آیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ حقوق انسانی کے بیانیہ کی رد کریں اور اس کو غلط ثابت کریں اور اس کے مقابل کھڑے ہو جائیں؛ اس لئے مجبوراً ہم لفظ خشونت کو استعمال کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ یہ باتیں جو تآپ کی نگاہ میں خشونت آمیز ہیں ان کا ہونا ضروری ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح طور سے قران میں بیان ہوا ہے اور اس پر قرآن کی نص اور دلیل موجود ہے اور ہم ، العیاذ با اللہ ، قرآن کا انکار کریں یا عالمی انسانی حقوق کے بیانیہ کا ، اور ایک مسلمان واقعاًکبھی بھی انسانی حقوق کے بیانیہ کی خاطر قرآن کی مذمت نہیں کر سکتا اور قرآن کوچھوڑ نہیں سکتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:( الزانية والزانی ) ..۔''( ۱ ) ہر زنا کرنے والا چاہے مرد ہو یا عورت اس کو سو کوڑے لگائواور اگر تم لوگ خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اس خدا کے کام میں ان دونوں کی نسبت کوئی رحم اور دل سوزی نہ کرو ۔اس آیہ کے واضح اعلان کے بعد اگر کوئی خدا اور قیامت پر حقیقی ایمان رکھتا ہے تو اس کو ان دونوں زنا کرنے والوں کی نسبت جنھوں نے زنا جیسے برے فعل کو انجام دیا ہے تھوڑا سا بھی رحم نہیں ہونا چاہئے؛ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب رحم نہیں

____________________

(۱)سورہ نور : آیہ ۲۔

۲۱۰

ہوگا توبے رحمی پائی جائے گی ۔قرآن میں ارشاد ہو رہا ہے مومن وہ ہے جو ایسی جگہوں پر رحم نہ کرتا ہو؛ البتہ ایسی بے رحمی نہیں جو کہ ظالمانہ بے رحمی کہی جائے ۔بہر حال مسلمان یا قران کی اس آیت کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرے یا عالمی انسانی حقوق کے بیانیہ کے پیچھے جائے اور اس کی حمایت کرے قرآن مجید میں پھر خدا وند عالم ارشاد فرماتاہے( و السّارق والسّارقة فا قطعوا ایدیهما جزائً بما کسبا'' ) ( ۱ ) مرد اور عورت نے جو چوری کی ہے اس کی سزا میں ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں۔ اور عالمی انسانی حقوق کا بیانیہ کہتا ہے کہ یہ حکم وحشیانہ اور انسانیت کے خلاف ہے۔ مسلمان کو چاہئے کہ یہاں قرآن اور عالمی حقوق انسانی کے بیانیہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرے۔

اسی طرح قرآن کا یہ نظریہ بھی ہے کہ( ولکم فی القصاص حیوٰة یا اولی الالباب'' ) ( ۲ ) ائے عقلمندو! تمھارے لئے قصاص اور بدلہ لینے میں زندگی ہے؛ قرآن کی نگاہ میں معاشرہ کی سلامتی اور زندگی اس وقت ضمانت پائے گی جب قاتل انسان سزا قتل ہے؛ لیکن عالمی انسانی حقوق کابیانیہ یہ کہتا ہے کہ قتل کی سزا ایک غیر انسانی کام ہے اور اس کو ختم ہونا چاہئے۔

____________________

(۱) سورہ مائدہ :آیہ ۳۸ ۔

(۲)سورہ بقرہ آیہ ۱۷۹

۲۱۱

یہ ایک سازش ہے اور اس شور و غل اوروسیع تبلیغات کے ذریعہ وہ چاہتے ہیں کہ ایسا کام کریں کہ وہ ہم کواتنامنفعل اور متاثر کر دیں کہ ہمارے مراجع تقلید بھی یہ بات کہنے کی جرائت نہ کر پائیںکہ ہمارے یہاں ایسا قانون پایا جاتا ہے۔ لہذٰااس کے مقابلہ میں ہم کو مضبوطی اور فیصلہ کن انداز میں سختی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنا چاہئے، اور کہنا چاہئے کہ ہاں اسلام میں سزا، قتل ،ہاتھ کاٹنا ،جلانا اور آگ میں ڈالنا ہے اگر آپ ان سب کا نام خشونت رکھتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ ہاں اسلام میں خشونت ہے اور ہم کو اس سے کوئی ڈر بھی نہیں ہے کہ ہم کو خشونت طلبی سے متہم کیا جائے ، ہم کسی سے تکلّف نہیں کر تے ہیں اور الفاظ سے کھیلنا نہیں چاہتے ہیں ؛ اگر ہم قرآن کے ماننے والے ہیں تو قرآن نے ان چیزوں کو جس کو عالمی انسانی حقوق کا بیانیہ خشونت جانتا ہے، جائز قرار دیا ہے بلکہ قرآن نے ان سب کو لازم اور واجب جانا ہے، قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے:( ولیجدوا فیکم غلظة ) ( ۱ ) اور وہ کافر تمھارے اندر خشونت کو پائیں [ قران نے یہ نہیں کہا( ولیجدوا فی عملکم ) بلکہ اس نےفیکم''کہا ہے یعنی خشونت کو تمھارے اندر لمس کریں اور تمھارا برتائو ان کے ساتھ ایسا ہو کہ وہ سمجھیں اور کہیں کہ یہ ایسے افراد ہیں جو احساسات اور جذباتسے متاّثر نہ ہوں گے اور اگر ہم کوئی کام بھی خلاف کریں گے تو وہ رحم نہیں کریں گے ہم اگرقرآن

____________________

(۱) سورہ توبہ : آیہ ۱۲۳۔

۲۱۲

کو قبول کرتے ہیں اور مسلمان ہیں تو ہم کو چاہئے کہ ہم کہیں یہ چیزیں قرآن اور اسلام میں ہیں اور اس سلسلہ میں کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے:( الذین یبلّغون رسالات الله و یخشونه ولا یخشون احداً الّالله ) ( ۱ ) جو لوگ اللہ کے پیغام کو پہونچاتے ہیں وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتے ہیں صرف خدا سے ڈرتے ہیں ۔لہذاہم اگرخدا سے ڈرتے ہیں تو قرآن اور خدا کے حکم کو بیان کریں؛ کم از کم ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ان کی باتوں کی تائید کریں اور ان کی باتوں کی موافقت اور تائید میں مقالہ لکھیں اور یہاں وہاں تقریر کرتے پھریں۔ البتہ ہر انسان اس میدان میں داخل ہونے اور ایسی شجاعت و ہمت دکھانے کی طاقت و ہمّت نہیں رکھتا ہے ؛ صرف وہ لوگ اس میدان میں قدم رکھ سکتے ہیں جو دوست ودشمن کی ملامت اورسرزنش کا کوئی ڈر نہ رکھتے ہوں۔قرآن کریم میں خدا وندعالم ارشاد فرماتا ہے :( یجاهدون فی سبیل الله ولا یخافون لومة لائم'' ) ( ۲ ) وہ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔

اگر ہم کہیں اسلام قاطعیت رکھتا ہے ،یہ عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ کا جواب نہیں ہے انسانی حقوق کا بیانیہ کہتا ہے کہ اسلامی سزائیں خشن اور سخت ہیں اور اس کو ختم ہونا چاہئے؛ ہم کو بھی یہ کہنا چاہئے کہ یہ سخت سزائیں اسلام میں ہیں اور ان کو

____________________

(۱) سورہ احزاب : آیہ ۳۹۔

(۲) سورہ مائدہ :آیہ ۵۴۔

۲۱۳

ختم ہونا چاہئے۔ ہم کو نہیں چاہئے کہ دوسروں کی خوشی اور چاپلوسی کے لئے بعض قرآنی اور اسلامی احکام و قوانین کو قبول کریں اور بعض کا انکار کریں۔ بعض کا انکار اور بعض کا اقرار بھی حقیقی کفر ہے ، اسی کی حکایت خدا وندعالم قرآن مجید کر رہاہے :( انّ الّذین ویقولون نومن ببعض و نکفر ببعض اولٰئک هم الکافرون حقاّ ) ً ''( ۱ ) یعنی جو لوگ .....اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکارکریں گے .....تو حقیقت میں یہی لوگ کافر ہیں ۔مسلمان اگر واقعاً مسلمان ہے اور قرآن پر اعتقاد رکھتا ہے تو وہ عالمی حقوق انسانی کی خاطر قرآن کریم کے واضح حکم سے چشم پوشی کرے اور اپنے دین کو انسانی عالمی حقوق کے بیانیہ کے بدلے میں بیچ ڈالے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا ہے ۔

اگریہ ہوکہ جو کام لوگوں کو اچھا نہ لگتا ہو وہ انجام نہ دیا جائے تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لات و عزّی کو برا نہ کہتے اور مکہ کے بتوں کو نہ توڑتے؛ قرآن مجید کادستور یہ ہے کہ تم کھلے عام خدا اور اس کے دین کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرو اور زبان وکلام سے بھی دافعہ رکھتے رہو۔ اس ضمن میں قرآن کریم حکم دیتا ہے تم عمل میں حضرت ابراہیم کی ذات کو نمونہ عمل قراردو :( و قد کانت لکم اسوةحسنة فی ابراهیم و الذین معه ) '( ۲ ) یقیناًتمھارے لئے ابراہیم کی ذات اور ان کے ساتھیوں

____________________

(۱) سورہ نساء : آیہ ۱۵۰و۱۵۱۔

(۱) سورہ ممتحنہ :آیہ ۴۔

۲۱۴

میں بہترین نمونہ عمل ہے حضرت ابراہیم اور ان کے ماننے والوں کا عمل اور فعل کیا تھا کہ وہ ہم لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہے ؟ اس کا جواب اسی کے بعد فوراً خود قرآن مجید نے ذکر کیا ہے :( اذ قالوا لقومهم انّا برآوا منکم و ممّا تعبدون من دون الله و کفرنابکم ) ( ۱ ) جب انھوں نے اپنی قوم والوں سے کہا کہ ہم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بیزار ہیں اورہم نے تمھارا انکار کر دیا ہے قرآن مجید حکم دیتا ہے کہ ابراہیم کی پیروی کرو ؛ جب وہ لوگوں کے مقابل بہت ہی واضح انداز سے کھڑے رہے اور کہا کہ میں تم لوگوں سے بیزار ہوں اور تمھارے خدائوں سے بھی بیزار ہوں ؛یہ قرآن کا دستور اور اس کا حکم ہے ، نہ یہ کہ ہم کو لچکدار رویہ اختیار کرنا چاہئے اور یہ کہیں کہ ہم کو لوگوں کی سنت اور روش کا احترام کرنا چاہئے اور ان کے بتوں کے سامنے جاکر احترام کرنا چاہئے چونکہ ان کے نزدیک بت قابل احترام ہیں !!!قرآن اس کی اجازت کسی کو نہیں دیتا ہے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ واضح انداز سے کہے بت کچھ بھی نہیں ؛ اسی آیہ میں اس نے آگے بڑھ کر کہا صرف اسی پر خاموش نہیں رہنا چاہئے ؛بلکہ اس سے بھی زیادہ سختی اور تلخی کے ساتھ یہ کہو:( وبدا بیننا وبینکم العداوة والبغضاء ابداً حتیّٰ تومنوا بالله وحده ) ( ۲ ) اور ہمارے تمھارے درمیان ہمیشہ کی عداوت اور

____________________

(۱) اور (۲)سورہ ممتحنہ: آیہ ۴۔

۲۱۵

دشمنی ہو گئی ہے جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہیں لاتے ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ جب تک تمھارا ایسا عمل اور ایسی فکر رہے گی ؛ہم تمھارے دشمن ہیں اور یہ دشمنی کبھی ختم نہیں ہوگی ؛ہم کو یہ کہنا چاہئے :تم پر لعنت اور تمھارے بتوں پر لعنت ہو ؛اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خدا وندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے: اف لکم و لما تعبدون تم پر اور جو کچھ تم پوجتے ہو ان سب پر تف اور وائے ہو؛ یہ نظریات اور با تیں ایک سر پر عمامہ رکھنے والے یزدی بندہ کی نہیں ہیں ،بلکہ یہ قرآن کا واضح حکم ہے کہ ان دشمنوں سے کہہ دو ہم تمھارے ہمیشہ دشمن رہیں گے اور تم سے کینہ و دشمنی ہمیشہ رکھیں گے ، مگر یہ کہ تم لوگ خدا کی طرف آئو ؛مسئلہ اس وقت اور دلچسپ نظر آتاہے، جب ہم آیہ کے بعد کے حصّہ کو دیکھتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کو ابرہیم کا اتباع کرنا چاہئے اور ان کے عمل کو نمونہ عمل قرار د ینا چاہئے یہاں پر ایک چیز کو اس سے جدا کیا گیا ہے کہ ابراہیم کے اس کام کو تم نہ کرو :الّااقول ابراهیم لا بیها لا ستغفرنّ لک '' ،صرف ابراہیم کا یہ کہنا اپنے چچاسے کہ میں تمھارے لئے خدا سے ضرور آمرزش طلب کروں گا ،ابراہیم جو کہ دشمن کے مقابلہ میں پوری قاطعیت کے ساتھ تھے لیکن اپنے چچا

____________________

(۱) سورہ انبیاء : آیہ ۶۷۔

۲۱۶

آزر سے متعلق تھوڑا رحم و مروت سے پیش آئے اور انھوں نے کہا کہ میں خدا سے چاہوں گا کہ وہ تم کو بخش دے؛ قرآن میں خدا وند عالم فرماتا ہے ابراہیم کے اس کام کو

اختیار نہ کرو اور کسی بھی مشرک سے یہ وعدہ نہ کرو کہ میں تمھارے لئے خدا وند عالم سے مغفرت طلب کروں گا اور یہ چا ہوں گا کہ وہ تم کو بخش دے؛ اگر ہم قرآن کو قبول کرتے ہیں تو بسم اللہ؛ یہ قرآن کا دستور اور تعلیم ہے جو وہ اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے۔ اس آیت کا معنی اور مفہوم بھی بالکل واضح اور روشن ہے اس میں کوئی دوسری قرائت بھی نہیں پائی جاتی ہے ؛بس دوسری قرائت یہ ہے کہ ہم قرآن میں تحریف کریں یا اس کے معانی کو پامال کردیں اور دنیا کی خوشی اور عالمی اداروں کی خوشنودی کے لئے اس کے مطالب کو قبول نہ کریں ؛ہم کو اپنی ذمہ داریوں کو واضح کرنا چاہئے یا ہم قرآن کے ماننے والے ہیں ؛ یا یہ کہ عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ کے پیرو ہیں ؟ ہم کو چاہئے کہ جو کچھ قرآن میں ہے اس کو قبول کریں نہ یہ کہ فقط ان موارد کو قبول کریں جو حقوق انسانی کے بیانیہ سے میل کھاتے ہوں ؛ اور چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم اور زنا کرنیوالے کو تازیانہ مارنے کا حکم یا پھر قاتل کو قتل کرنے کا حکم یہ سب قرآن میں آیا ہے؛ لہذٰا حقوق انسانی کے بیانیہ کے بعد بھی ہمیں ان سب کو قبول کرنا ہوگا ۔اگر آیہ شریفہ:' '( ادع الیٰ سبیل ربّک بالحکمة و الموعظة الحسنة'' ) ( ۱ ) آیہ:( و قاتلوهم حتیّٰ لا )

____________________

(۱) سورہ نحل : آیہ ۱۲۵۔

۲۱۷

( تکون فتنة ً ) ( ۱ ) اور ان سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک کہ فتنہ ختم نہ ہو جائے، قرآن آیا ہے اور ہم کو چاہئے کہ ہم ان دونوں پر عمل کریں؛ اگر کوئی انسان خدا کوارحم الرّٰحمین'' کے طور پہچانتا ہے تو اس کو چاہئے کہشدید العقاب''کے عنوان سے بھی اس کو جانے ،یہ نہیں ہو سکتا کہ جہاں قرآن میں خدا کہے کہ میں ارحم الراحمین یعنی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہوں وہاں تو انسان بہت خوشی سے اس کو قبول کرے لیکن جہاں وہ اپنے کو'' شدید العقابکہے یعنی بہت سخت عذاب دینے والاہوں تو وہاں پر کہے کہ یہ تو خشونت ہے اور ہم اس کو قبول نہیں کرتے ہیں ۔ خدا وندعالمارحم الرٰحمین فی موضع العفو و الرّحمة بھی ہے اورا شّد المعاقبین فی موضع النکال و النقمه ( ۲ ) بھی ہے یہ ہماری کمزوری ہے

____________________

(۱) سورہ انفال : آیہ ۳۹۔

(۲) ارحم الرٰحمین کا لفظ سورہ اعراف : آیہ ۱۵۱، اور اشدّالمعاقبین کا لفظ سورہ مائدہ :آیہ ۲ میں آیا ہے اس کے علاو ہ روایات اور اددعیہ میں بھی یہ دونوںلفظ استعمال ہوئے ہیں ملاحظہ ہو مفاتیح الجنان (دعائے افتتاح) مولفہ مرحوم شیخ عبّاس قمّی۔

۲۱۸

کہ ہم نے اسلام کے حقائق کو ظاہر نہیں کیا ہے اور نص قرآن کے اعتبار سے اسلام کے حقائق بیان کرنے کی شجاعت ہمارے اندر نہیں ہے؛ ہم ان حقائق کو بیان کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں ؟ مرحوم امام خمینی جس وقت فرماتے تھے تم ان لوگوں کی اس بات سے نہ ڈرو کہ یہ تم کو خشونت اور سنگدلی سے متہم کریں توآپ کا اشارہ ایسی ہی باتوںکی طرف تھا ۔جس اسلام کی طرف ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ ایک مجموعہ کا نام ہے جس کے اندر یہ سزائیں بھی ہیں جن کا،عالمی حقوق انسانی کا بیانیہ انکار کرتا ہے اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم لوگوں کوقرآن مجید کی طرف اس کی دس آیہ یا سو آیہ یا تمام آیتوں سے ایک ہی آیت چھوڑ کردعوت دیں۔

دوسراسوال اور اس کا جواب

سوال : ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن اور دین اسلام یکبارگی نازل نہیں ہوا ہے بلکہ دھیرے دھیرے معاشرہ اور ماحول کی مناسبت سے اور لوگوں کے فہم و رشدکے اعتبارسے جو پیغمبرکے مخاطب تھے،لایا گیاہے؛ اسی طرح اس بات کے پیش نظرکہ ہم ایک اسلامی ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور نوّے فیصدی سے زیادہ یہاں کے لوگ مسلمان ہیں ،لہذٰ اہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اسلام کے تمام مطالب کو بغیر کمی اور زیادتی کے قبول کریں اور بعض کا اقرار یا بعض کا انکار نہ کریں؛ اس میں کوئی بھی بحث نہیں ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ آج ہم نے انقلاب برپا کیا ہے اور ہمارے انقلاب کے اثر کی وجہ سے اسلام کو ،جس کی حقیقت دھیرے دھیرے مٹتی جارہی تھی،دوسری حیاتم مل گئی ہے، اس وقت ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو دنیا والوں کے سامنے پیش کریں، اس کو پہچنوائیں اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیں۔دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مغربی اور سامراجی ذرائع ابلاغ اس بات میں مصروف ہیں کہ وہ اسلام کو ایک خشن اورسنگدل دین کے طور پر پیش کریں اور مسلمانوں خاص کر ایرانی مسلمانوں کو دہشت گرد ،بے منطقی اور خشونت طلب کے عنوان سے پیش کریں ؛اب اگر ان حالات میں ہم یہ چاہیں کہ چور کے ہاتھ کاٹنے یا زنا کار کو سنگسار کرنے جیسے احکام کو جاری کریں تو لازمی طور پر دنیا کے لوگوں کے ذہن میں اس کا منفی اثر ہوگا اور مغربی رسالے اور جرائد ان کی تصویر کشی کرکیاسلام اور مسلمانوں کے چہروں کو بہت ہی بری اور نفرت انگیز انداز سے دنیا والوں کے سامنے پیش کریںگے۔

۲۱۹

یہ بات ظاہر ہے کہ اگر دنیا کے سامنے اسلام اس طرح پیش ہوا تو ہم اسلام اور قرآن کے پیغام کو دنیا والوں تک نہیں پہونچا پائیں گے اور کوئی شخص اسلام کی طرف مائل نہ ہوگاسوال یہ ہے کہ کیا ہم مذکورہ مسائل کے سبب ایک بڑی اوراہم مصلحت (یعنی اسلام کی ترویج اور تبلیغ ) کی خاطر بعض اسلامی احکام میں تغیر و تبدل انجام دے سکتے ہیں ؟ جیسے قتل کے بارے میں اسلام کا پہلا حکم یہ ہے کہ سو اونٹ دیت میں دئیے جائیں؛ لیکن آج ہم نے اس کے برابر دوسری چیز کو بنا لیا ہے اور وہ ستر لاکھ نقد روپیہ دیا جانا ہے اسی طرح کیا ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم چند جگہوں پر اس کے برابر کوئی دوسری چیز معین کرکے اسلام کی جو کریہہ صورت پیش کی جاتی ہے اس کو دور کر دیں اور لوگوں کو اسلام کے دائرہ میں داخل کریں۔

جواب : البتہ اس کا جواب دینے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جملہ پر بحث کی جائے؛ لیکن پھر بھی جس قدر یہاں ممکن ہوگا وہ مطلب بیان کروں گا ۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232