دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)25%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81881 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

میرا وہ سفر جو امریکہ کے چندجنوبی ممالک سے متعلّق تھا جیسا کہ مجھے یاد ہے ان میں ایک ملک شیلی بھی تھا اس ملک کے ذمہ داروں اور یونیورسٹی کے سر براہان نے مجھ سے کہا کہ ہم اپنے ملک کے جوان طبقہ اور انکے مستقبل کے سلسلے میں بہت فکر مند ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں؟ ہم ان نوجوانوں کو اس یونیورسٹی میں آپ کے حوالے کرتے ہیں آپ انکی تربیت اپنی روش کے مطابق انجام دیں ہم آپ کو تمام سہولیات دیتے ہیں آپ ایک پروگرام کے تحت انکی تربیت کریں اس لئے کہ ہم کو اطمینان ہے کہ دنیا میں تربیت کے جتنے ذرائع ہیں ان میں مسلمانوں کی روش سب سے بہتر ہے۔ اس یونیورسٹی کا نائب مختلف شعبوں کو پہچنوانے او ر اس کی راہنمائی کے لئے ہمارے ساتھ تھا جب ظہر کا وقت ہوا تو ہم نے کہا ہم ظہر کی نماز پڑ ھنا چاہتے ہیں چنانچہ ایک جگہ ہمارے لئے معےّن ہوئی اور ہم لوگ نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے یونیورسٹی کا نائب جو کہ عیسائی تھا اس نے بھی ہم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ہمیں بہت تعجّب ہوا اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم آپ لوگ نماز میں کیا پڑھتے اور کیا کہتے ہیں ؟ لیکن یہ سجدہ کی حالت مجھکو بہت اچھی لگی اور میرے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی نماز پڑھوں ۔

۲۱

ہاوانا ]یہ ایک ایسے ملک کی راجدھانی ہے جو پچاس سال تک کمیونزم کے زیر تسلّط رہ چکا ہے اورآج بھی ہے [وہاں کے ایک بزرگ پروفیسر جو کہ پیدائشی طور پر اسپین کے رہنے والے ہیں اوروہاں تاریخ کے استاد ہیں وہا ں جتنے بھی اساتید ہماری میزبانی کر رہے تھے ان لوگوں کے درمیان یہ شخص بلند ہوا اور تقریر کرتے ہوئے اس نے کہا کہ میں جوانی کے عالم میں اس بات کی خواہش رکھتا تھا کہ میں دو شخصیات کے بارے میں مطالعہ کروں اور تحقیقات کر کے تفصیلی معلومات حاصل کروںایک پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ]جو کہ ایک عالمی شخصیت کے مالک تھے [دوسرے خےّام جوکہ ایک ایرانی دانشمند ہے لیکن آج کل کافی دنوں سے میرے اندر ایک نئی شخصیت کے بارے میں جستجو کرنے کی خواہش ہو گئی ہے جس خواہش نے ان دونوں پرانی خواہشوں کوبھلا دیا ہے آج میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کروں جس نے دنیا میں انقلاب برپاکردیا ہے اور وہ ذات امام خمینی کی ہے یہاں پر وہہاواناکا ضعیف استاد جذباتی ہو گیا اس نے اپنے اندر عجیب کیفیت پیدا کر لی وہ دو بار میرے سامنے جھکا اور اس نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور خواہش کی کہ ایک اسپینی زبان میں ترجمہ شدہ قرآن اسکو دوں کہاں''ہاواناجہاں نصف صدی تک کمیونسٹ کی حکومت تھی وہاںایک یونیورسٹی کا استاد جو کہ سب سے ضعیف تھا اسکی یہ خواہش؟

۲۲

میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ تصوّر نہ کریں کہ گمراہی کے وسائل بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور گمراہی ہر طرف پھیل چکی ہے اب کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے چاہے ایک بالشت ہو یا سو بالشت، ڈومنے کے لئے کافی ہے یہ تصّور بالکل غلط ہے مایوسی اور ناامےّدی کی حالت ہمارے اندر کبھی بھی نہیں ہونا چاہئے، خدا وند عالم نے اس دنیا کو انسان کی ترّقی اور کمال کے لئے پیدا کیا ہے اس کی ذات اس بات سے منزّہ ہے کہ دنیا کو چھوڑ دے اور کچھ شیطان نماانسانوں کے حوالے کر دے اور لا پرواہ ہو جائے ایسا ہر گز نہیں ہے، اگر گمراہی اور انحرافات کے وسائل زیادہ ہیں تو ہدایت و اصلاح کے راستے بھی نئے نئے سامنے آرہے ہیں جو کسی بھی پیغمبر اور امام کے زمانے میں موجود نہیں تھے ۔

وہ اجتماعی حالات جو آج سماج اور قوم کو بدلنے کے لئے ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں پائے جاتے تھے آپ اسکانمونہ ایرانی انقلاب اور آٹھ سالہ دفاع مقدّس کے تناظرمیں دیکھ سکتے ہیں ۔

یہی جوان جو کہ شاہ کے دور میں پلے بڑھے تھے انکے اندر ایسا انقلاب اور تحوّل آیا کہ وہ با ایمان اور صاحب عرفان ہو گئے کہ ان لوگوں نے ۸ سالہ جنگ کو بہت ہی افتخار اور سر بلندی کے ساتھ فتح کیا اسی دفاع مقدّس میں ایسی قربانی دیکھی گئی جسکی کوئی مثال نہیں ملتی ان لوگوں نے لاجواب اور بے نظیر قربانی پیش کی ، ان لوگوں نے انقلاب کو زندئہ جاویدکر دیا ۔اگر آپ اس زمانے میں اپنی کلاسوں میں ملاحظہ کریں گے تو آپ کو ایسے نوجوان مل جائیںگے جو عرفانی مطالب کو حاصل کرنے کے لئے اسی قدر والہانہ جذبہ رکھتے ہیں کہ گویاسو سال کی منزل کو ایک دن میں طے کر لیں اگر انکی ہدایت اور راہنمائی صحیح طریقے سے کی جائے تو ان میں صبرو ایثار،جذبہ و فدا کاری کی نیز دنیاوی لذّات سے اپنے کو بچانے کی قوت و صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کا ہم نے انقلاب کے دوران اور جنگی محاذ پر مشاہدہ کیا ہے اور ایسی مثالوں کو دیکھا ہے اس نوجوان نسل کی ہدایت ]جو کہ بہترین صلاحیت رکھتے ہیں اور انکی فطرت پاک وپاکیزہ ہے[اور ان کی راہنمائی آج ہم اورآپ اساتیدکے کاندھوں پر ہے۔

۲۳

اکثر بڑے انقلابات صاحبان علم کی فکروں کا نتیجہ

ہماری بحث ذمہ داری اور مسئولیت کے بارے میں تھی جو مطالب میں نے پیش کئے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو اور زیادہ محسوس کریں، اگر آپ توّجہ کریں تو دیکھںگے کہ جولوگ مختلف شعبوں میں کامیاب ہوئے ہیں اور دنیا کے مختلف حصّوں میں انقلاب لانے کا سبب واقع ہوئے ہیں نوے فیصد سے زیادہ افراد صاحبان علم ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ یونیورسٹی سے تعلّق رکھتے ہوں یادینی مدارس سے، اقتصادی،اجتماعی،سیاسی اوردینی نیزاسی طرح کے اور دوسرے شعبوں میں آپ اکثر دیکھں گے کہ شروع میں ایک شخص کی کوشش اورپلاننگ ہوتی ہے پھردھیرے دھیرے اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور آخر میں وہ بڑے انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ انقلاب اور تحوّل ہمیشہ مثبت اور مفید ہی رہا ہو ان میں منفی اور مضر تحوّلات بھی پائے جاتے ہیں بہت سے ایسے تحوّلات بھی ہیں جو کہ اپنے اندر بہت ہی وسیع پیمانے پر فکری اوراخلاقی انحرافات کے حامل ہیں اور وہ انحرافات بہت ہی خطرناک حد تک پہونچے ہوئے ہیں ، انھیں میں سے ایک انحراف جس کی طرف اشارہ کیا جا سکتاہے مغرب کاجنسی اور اخلاقی انحراف ہے جس کے قائل خود مغربی ممالک کے افراد ہیں کہ اس انحراف کا سبب جرمنی کا مشہور ماہر نفسیات ]زیگمونڈ فرویڈ[نے نفسیاتی بیماریوں کے اسباب و علل کو دیکھ کر نتیجہ نکالا کہ اس جنسی اور اخلاقی انحراف کا سبب جنسی خواہش کا کچلا جانا اور غریزئہ جنسی کا دبایا جانا ہے اور اس پر پہرے کے سبب یہ انحراف ہو رہا ہے اس نے تحلیل و تجزیہ کیا اور اس بیماری کی وسعت کو کم کرنے اور اس سے بچنے کے لئے یہ رائے پیش کی کہ سماج اور معاشرے میں پوری طرح سے جنسی آزادی ہونی چاہئے۔

اگر چہ خود (فرویڈ) اس نظریہ کو ظاہر کرنے میں کوئی قصد و غرض نہیں رکھتا تھا لیکن پھر بھی بہر حال یہ نظریہ اس جنسی اور اخلاقی تنزّلی اورپستی کا باعث بنا جسکا ہم مغربی ممالک میں مشاہدہ کر رہے ہیں البتہ شہوت پرستی اور لوگوں کی ہوس رانی نیزغلط فائدہ اٹھانے والوں کی منفعت طلبی اور وقت سے فائدہ اٹھانے والوں کی کار فرمائیاں بھی اس چیز کے پھیلائو کا سبب بنی ہیں لیکن بہر حال پہلا قدم اسکے پھیلانے میں فرویڈ'' کا تھا، آج کل دنیا میں سب سے زیادہ فائدہ مند صنعت سیکس اور جنسی مسائل سے متعلّق ہے دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی فلمیں سیکسی فلمیں ہیں اور ٹی وی پر جو چینل سیکسی فلمیں نشر کرتے ہیں وہی چینل دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں ان تمام انحرافات کی جڑ اسی ایک ماہر نفسیات کی فکر تھی۔

۲۴

فکری فسادو انحطاط کے متعلق بھی مارکس ازم کے تفکرّات اور اسکے غم انگیز نتیجوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ستّر سال سے جو فلسفہ نصف کرئہ زمین پر حاکم تھا خود انھیں ملکوں اور جو لوگ ان ملکوں میں انکے پیرو تھے خود انھیں لوگوں کے اعتراف کے مطابق اسکے خطرناک نتائج سامنے آئے ،یہی مارکس ازم کانظریہ تھا جس نے لاکھوں بے دین اورر منکرین خدا کو پیدا کیا جو خدا اور دین سے شدّت جنگ کی ،نیز یہ نظریہ بھی ایک دوسرے جرمنی دانشور'' مارکسکا تھا یہ تو چند مضر اور نقصان دہ تحوّلات تھے،البتہ کچھہ مثبت اور فائدہ مند تحولات بھی علماء اور دانشوروں نے ایجاد کئے ہیں جن سے ہم کو غافل نہیں ہونا چاہئے انقلاب جمہوری اسلامی ایران بیسویں صدی کا مہم ترین تحوّل و انقلاب ہے جس کا دوست اور دشمن سبھی نے اعتراف کیا ہے یہ ایک مذہبی عالم آیت...امام خمینی کی فکروں کا نتیجہ تھا امام خمینی کی شخصیت ایک سے زیادہ نہیں تھی اور اسلحہ ،پیسہ وغیرہ کچھ بھی نہیں رکھتے تھے ان کے پاس صرف ایک بلند فکر تھی ایسی فکر کہ شروع میں تقریباً۹۹ فیصد خاص دوست ا ور احباب بھی یقین نہیں رکھتے تھے کہ یہ فکر عملی ہوجائے گی لیکن سبھی لوگ گواہ ہیں کہ اس شخص نے دنیا سے الگ ایک چھوٹے اور معمولی مکان میں بیٹھ کر مشرق و مغرب کی دو بڑی طاقتوں کو مبہوت کر دیا یہ ایسے عالم میں ہوا کہ امام نہ شہرت کے طالب تھے اور نہ ہی حکومت کے خواہاں، جبکہ یہ عام بات ہے کہ کوئی استاد درس پڑھا کر نکلتا ہے تو تمام شاگرد اسکے پیچھے پیچھے چلتے ہیں لیکن امام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی انکے پیچھے چلے امام خمینی اگر کسی کو دیکھتے تھے تو اسکو منع کرتے تھے کہ وہ راستے میں انکے پیچھے پیچھے چلے، امام خمینی ایسے مرجع تھے کہ جنھوں نے بہت زمانے تک اپنے رسالہ عملیہ کو چھاپنے کی بھی اجازت نہیں دی اور جب اجازت دی تو اس شرط کے ساتھ کہ ایک پیسہ بھی سہم امام علیہم السلام کا اس میں خرچ نہ ہو میں خود اس بات کو جانتا ہوں کہ آپ کا رسالہ عملیہ کن لوگوں کے تعاون سے چھپا تھاآپ ایسی شخصیت تھے جو نہ قدرت کے طالب تھے اور نہ ہی شہرت کے خواہاں ،بلکہ ان دونوں چیز سے گریزاں تھے ۔

۲۵

آپ کے اندر ایک فکر تھی کہ جس پر بھروسہ کرکے آپ نے ایک بہت بڑا انقلاب برپا کر دیا ایسا تحوّل جس نے دنیا کے سیاسی حالات کو درہم برہم کر دیا یہ سب ایک مثبت فکر کا نتیجہ ہے۔

بہر حال میں اس بات کی تاکید کرنا چاہتا ہوں ایک آدمی،ایک استادخواہ وہ دینی مدرسے کا ہو یا یو نیورسٹی کا(چاہے وہ مثبت ہو یا منفی) عالمی انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔ اگر ہم اس مسئلہ کی کی طرف توجّہ کریں تو ان ذمہ داریوں کے بوجھ اور اسکی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں پھر اس بات کے لئے آمادہ ہونگے کہ اس کے لئے وقت صرف کریں درس اور کلاس کو تعطیل کریں اور بیٹھ کر اس اہم مسئلہ کے بارے میں بحث اور گفتگو کریں اور ملک کے نوجوانوں کے بارے میں فکر کریں، اسلام اور اسلامی معاشرہ سے متعلّق جو کام انجام دینا ہے اسکو پہچانیںاور ان کے متعلق اپنا فریضہ انجام دیں ان تمام مطالب کی طرف توجّہ کرتے ہوئے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فریضہ اور ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ہم کو کیا کرنا چاہئے اس کے جواب سے قبل ایک مقدمّہ بیان کرتا ہوں۔

تہذیبی انقلاب کی اہمیت

میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کو کتنا یاد ہے لیکن انقلاب اسلامی کے شروع ہی میں مرحوم امام خمینی نے ثقافتی اورتہذیبی انقلاب کے مسئلہ کو پیش کیا اور بہت سے ملک کے تعلیمی ادارے بند ہوگئے تو مختلف ممالک سے لوگ آئے تاکہ اس بات کوملاحظہ کریں کہ امام خمینی نے جو ثقافتی انقلاب کی بات کو کہی ہے آخراس کاراز کیا ہے؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی ثقافتی انقلاب فرہنگی کی بات آئی تھی جو کہ چین کے ثقافتی انقلاب سے متعلّق تھی جسکی بنیاد''مائو''نے رکھی تھی بہر حال ساری دنیا سے اہل فکر و نظر اور سیاسی لوگ ایران آئے تاکہ دیکھیں امام خمینی کیا کرنا چاہتے ہیں مجھکو خود یاد ہے کہ ایک یہودی استاد بھی آسٹریلیا سے قم آیا تھا میں نے خود جلسہ میں بیٹھ کر اس سے بحث و گفتگو کی وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر امام خمینی کا تہذیبی انقلاب کیا ہے؟ میں نے اس کو وضاحت کے ساتھ بتایا۔

۲۶

لیکن افسوس کہ ایسے حالات سامنے آئے کہ امام خمینی اپنے ارمان کو صحیح طریقے سے بیان نہ کر سکے اور اس کو عملی جامہ نہ پہنا سکے چونکہ نیا نیا انقلاب آیا تھا مختلف مسائل اور مشکلات سامنے تھے ابھی کچھ ہی دن گذرے تھے کہ آٹھ سالہ جنگ ہم پر مسلّط کر دی گئی جو کہ ملک کا سب سے اہم مسئلہ بن گئی ہم کو اس پر بہت ہی امکانات اور قوت و طاقت صرف کرنی پڑی ،بہر حال ملک کے اندر اور باہر شیطان صفت افرادمتحد ہو گئے یہ بھی ایک سبب بنا کہ جو ثقافتی انقلاب امام خمینی کے ذہن میں تھا وہ حقیقی اور عملی صورت اختیار نہیں کر سکا لہٰذا اگر کوئی یہ نتیجہ نکالے کہ بیرونی دبائو اورفوجی محاصرہ اور اقتصادی پابندی اور طرح طرح کی مشکلات ہمارے لئے کھڑی کی گئیں وہ سب صرف اس لئے کیا گیاکہ امام خمینی کا ثقافتی انقلاب کامیاب نہ ہو سکے اس جملہ میں کچھ نہ کچھ ربط ضرور ہے اور اس کو بعید از امکان نہیں سمجھنا چاہیئے، آپ خود بو سینا میں دیکھیں کہ وہاں اتنے ظلم کیوں کئے گئے ؟اور بہت ہی بے رحمی اور پوری دشمنی کے ساتھ ہزاروں مردوں، عورتوں ،بوڑھوں جوانوںحتیّٰ بچوّں کو قتل کر کے انکے سر کیوں جدا کئے گئے؟اور جو لوگ حیوانات کی حفاظت کے لئے انجمن بناتے ہیں اور چند حیوانات کے لئے مظاہرہ کرتے ہیں وہ لوگ بھی انسانوں پر اتنے ظلم و ستم کے بعد بیٹھے دیکھتے رہے اور انکی زبان پر ذلّت و رسوائی کا تالا پڑا رہا اور ان سے کچھ نہ بولا گیا بلکہ اس کے بر خلاف ظالموں کی مالی اور جنگی مدد بھی کرتے رہے، کیا اس کا سبب ثقافتی اور تہذیبی مسئلہ کے علاوہ کچھ اور تھا ؟ کیا ان مسلمانوں کی تعداد دو تین ملین سے زیادہ تھی ؟ یہ نہ زمین رکھتے تھے اور نہ مکان نہ انکی تعداد زیادہ تھی نہ ہی انکے پاس دولت، ہتھیار ،ٹکنالوجی اور کوئی اہم چیز تھی تو ان لوگوں پر اتنا بھیانک حملہ اور ظلم و ستم کیوں ہوا ؟اس کا جواب صرف ایک چیز ہے وہ یہ کہ ان کے پاس صر ف ثقافت اور اسلام کا کلچر تھا وہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ بیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے مرکز میں ایک اسلامی ملک ظاہر ہو رہا ہے اور اپنے وجود کا بر ملااعلان کر رہاہے اس سے وہ لوگ خوف زدہ تھے کہ اسلامی فرہنگ اور کلچر دھیرے دھیرے پڑوسی ممالک اور پورے یورپ میں پھیل جائے گااور آگے چل کر پورے یورپ میں ہر چیز کو بدل دے گا لہٰذا ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ آغاز میں ہی اس تحریک کو ختم کر دیا جائے اور یہی کام الجزائر، ترکیہ اور دوسرے اسلامی ممالک میں انجام دیا گیا، آخر کیوں ؟ یہ لوگ اسلام سے خوف زدہ ہیں اسلام کیا ہے؟ اسلام ایک فکر اور فرہنگ ثقافت کا نام ہے تو گویا یہ لوگ ایک فکر اور فرہنگ سے ڈرتے ہیں

۲۷

اس طولانی مقدّمہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کو اس سوال کے جواب میں کہ کیا کرنا چاہئے؟ صرف یہی ہے کہ ہم کو ثقافتی کام کرنا ہے یہ ساری بحثیں اس بات کا سبب بنتی ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنی ذمہ داری کو انجام دیں اور اس بات کو اپنے ذہن سے نکال دیں کہ یہ فکری اور فرہنگی بحثیں بے فائدہ ہیں اور ملک میں جو کچھ بھی مشکل ہے اسکا تعلّق صرف اقتصاد اور خارجی سیاست وغیرہ جیسے مسائل سے ہے ۔

انقلاب کے ارتقاء میں ثقافتی تحریکوں کا کردار

اسلامی تہذیب وتمدن کو فروغ دینے کے لئے ہم کو اصول اور نظام کی ضرورت ہے ہم کو چاہئے کہ ہم اپنی تحریک کی راہ و روش کو معین کریں جو حالات ہمارے سامنے ہیں ان کو محسوس کریں اپنے طریقہ کار کو پہچانیں اسی طرح اس تحریک سے متعلّق راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دیکھیں اور ان سے متعلّق جو لازمی تدابیر ہیں انکو اختیار کریں، اس راستے میں سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہم فکروں کو نئے انداز سے پیش کریں، اپنے مطالعہ کو وسیع اور مضبوط کریں ،فکروں کے اصول کو قائم کریں اصولی اور بنیادی طور پر محکم انداز سے اپنے کام کو شروع کریں۔

۲۸

انقلاب کے شروع میں ہم لوگ ایک مختصر شناخت رکھتے تھے ہم کو ظالموں اور انکے پٹھّوئوں کے مقابلے میں پوری طاقت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اسی مختصرشناخت پر ہم نے حرکت کی اور انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور یہاں تک پہونچا ہے آج بھی لوگوں کی اکثریت اسی اصول اور قانون کی پابند ہے لیکن ہم کو اس بات پر توّجہ دینی ہوگی کہ اس انقلاب کو باقی رکھنے اور اس کے تحفظ کے لئے یہ تھوڑی سی شناخت کافی نہیں ہے اس حرکت کے آغاز اور انقلاب کی کامیابی کے لئے زیادہ تر احساسات اورجذبات پر بھروسہ تھا جو کہ اسی مختصر شناخت کے ساتھ تھا جس سے کچھ نتیجہ حاصل ہوا لیکن اس راستے کو جاری رکھنے کے لئے صرف اس پر عمل کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہم کو اب اصل میں احساس و عواطف سے ہٹ کر شناخت اوربصیرت کے اسباب پر زیادہ توجّہ دینی ہوگی۔ اب آج نوحہ و ماتم اور نعروں سے لوگوں کو جمع نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ سب چیزیں اپنی جگہ پر باقی رہیں اور محفوظ رکھی جائیں ،لیکن گفتگو اس بات میں ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ثقافتی اموراور تہذیبی مراکز میں کوئی رخنہ وارد نہ ہو اور ہم دشمن کے نفوذ سے محفوظ رہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم غورو فکر کے ساتھ فرہنگ و ثقافت کی طرف خاص توجّہ دیں ۔آج دشمن بھی چالاکی کے ساتھ اس نکتے کو پہچان گیا ہے اس نے اپنی قوی اور مستحکم حرکت کو اقتصادی اور فوج میدان سے ہٹاکر سارے امکانات کو ثقافتی مسائل میں صرف کر رہا ہے اور دشمن اس کوشش میں ہے کہ اس طرح سے انقلاب کے ثقافتی مراکز کو آلودہ اور خراب کرکے دھیرے دھیرے تمام میدان کو اپنے قبضہ و اختیار میں کر لے ،اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ثقافتی شگاف کو روکیں اور دشمن کو اس طرف سے داخل نہ ہونے دیں تو ہمیں چاہئے کہ اس پرا گندگی اور بے نظمی سے اپنے کو نکالیں، اگر ہم یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے چاہتے ہیں کہ ثقافتی کاموں کو انجام دیں اور اسلام کی قدرو قیمت اور اسکی اہمیت کو نو جوانوں کے ذہن تک پہونچائیں تو سب سے پہلے ہم اپنے کو فکری اور ثقافتی اسلحہ سے لیس کریں

۲۹

اور اسلامی فکر و ثقافت اور اسکے مبانی و اصول نیز مغربی فکر وثقافت اور وہ شبہات جو کہ وہ لوگ پیش کرتے ہیں اس کو جانیں اور پہچانیں تاکہ معاشرہ خاص طور سے نوجوان نسلوں کے مسائل اور مشکلات اور انکے فکری اور ثقافتی شبہات ومشکلات کو حل کر سکیں اور انکے سوالات کے جوابات دے سکیں ا لبتہ خدا وند عالم خود اپنے دین کا محافظ ہے قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:( انّانحن نزّلناالذکر واناّ له لحافظون'' ) ( ۱ ) بیشک ہم نے قران کریم کو نازل کیا اور ہم ہی اسکے محافظ ہیں ۔ اور بیشک خدا وند عالم ان تمام ظلمتوں اور تاریکیوں کے باوجود اسلام اور دین کی کشتی کو ساحل نجات تک پہو نچائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے( هوالذی ارسل رسوله بالهدیٰ ودین الحق ) ۔۔.''( ۲ ) وہ خدا ہے جس نے پیغمبر کو ہدایت اور د ین حق کے ساتھ بھتجا تاکہ اسکو تمام ادیان پرغالب کر دے ہر چند کہ مشرکین اس بات کو نا پسند کریں ۔لیکن اس دین کی حفاظت کیوں نہ ہمارے ذریعہ ہو اور کیوں نہ ہم اس گروہ سے ہوں جن کوخدا وندعالم نے کلمہ حق کی بلندی کے لئے اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے چنا ہے۔ ؟

امید کرتا ہوں کہ خدا وند عالم ہم سبھی لوگوں کو یہ توفیق عنایت فرمائے اورآخر میں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ آج ہم لوگ اپنی حسّاس اور تا ریخی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اس ذمہ داری کو انجام دینے اور اپنی فکری اور فلسفی خامیوں کو دور کرنے کے لئے ضروری تےّاریاں کریں اور اس بات پر توّجہ دیں کہ اگر خدا نخواستہ اس عظیم کام اور اس ذمہ داری کو انجام دینے میں کوئی کمی یا کوتاہی کی تو خدا وند عالم ، پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان شہداء کی بارگاہ میں جنھوں نے اپنا خون نچھاور کر کے اس پاک و پاکیزہ شجر کو محفوظ رکھا ہم لوگ اس کے جواب دہ ہونگے اور آسانی سے اس سے بچ نہیں سکتے ۔

____________________

(۱)سورہ حجر : آیہ ۹۔

(۲) سورہ صف : آیہ ۹۔

۳۰

تہذیب و ثقافت کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری-۲

خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے توفیق عطا فرمائی کہ دوبارہ یونیورسٹی کے معظّم اساتید کے درمیان گفتگو کرنے کا موقع ملا اس کے پہلے جلسے میں گفتگو اس بارے میں تھی کہ ہمارے اوپر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ اس کو میں نے کچھ حد تک بیان کیا اور اس ضمن میں چند باتیں آپ کے سامنے پیش کیںاس جلسے میں میں نے بیان کیا تھا کہ تہذیب وثقافت سے متعلق امور کو انجام دینے کے لئے سب سے پہلے ہم کو کچھ بنیادی باتوں پر غورو فکر کرنی ہوگی منجملہ انکے موجودہ حالات کو جاننا اور انکی تجزیہ اور تحلیل شامل ہے ،اگر چہ ہم لوگ اجمالی اور مختصر طور پر اپنے اندر ایک ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں اور یہی احساس ہے جس نے ہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے پر مجبورکیا ہے اور ہم لوگ ایک اجتماعی تحریک کے لئے آمادہ ہیں لیکن اس ذمہ داری کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور بہتر طریقے سے جاننے کے لئے انقلاب اجتماعی اور سیاسی حالات اور اس کی گذشتہ تاریخ کو جاننا ضروری ہوگا تاکہ موجودہ حالات کی تصویر کو زیادہ واضح طریقے سے سمجھ سکیں اور زیادہ معلومات کے ساتھ مطلوبہ حالت کی طرف قدم بڑھا سکیں ،البتہ اس بارے میں مزید تفصیلی بحث ہونی چاہئے لیکن وقت کی کمی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس گفتگو کو زیادہ تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے مجبوراً اسی ایک جلسہ میں اس مسئلہ کو پیش کرکے ختم کیا جارہا ہے ۔

۳۱

بہمن ۵۷ ۱۳ھجری شمشی سے پہلے ایران کی ایک تصویر

ہم سب کو معلوم ہے کہ اصل میں یہ تحریک ، انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پندرہ سال پہلے ۴۲ ہجری شمسی سے شروع ہو چکی تھی یہ پندرہ سال کاعرصہ ایرانی عوام پر بہت ہی سخت گذرا ہے افراتفری کی حالت پورے ملک میں پائی جاتی تھی۔ اقتصادی بحران، سرکاری خزانے کی غارت گری اور تمام شعبوںمیں گمراہی جو دربار شاہ سے وابستہ تھے ان میں اخلاقی برائیاں نیزسرکاری ملازمین میں غلط کاریاں ،بے انتہا رشوت خوری ،ہر جگہ نا قابل برداشت طبقاتی اختلاف نیز اسکے علاوہ اور بہت ساری خرابیاں جس نے لوگوں کو عاجز کر دیا تھا اس کے علاوہ اجتماعی معاملات میں غیروں ، خاص کر امریکا کا عمل دخل پوری طرح سے اتنا دکھائی دیتا تھا کہ بلند و بالا وزیر اور عہدہ دار بھی امریکی تسلّط کے زیر اثر تھے اور عملی طور سے امریکی سفارت خانہ تھا کہ جس کے ہاتھ میں ملک کی ساری حاکمیت تھی ، وہ لوگ ہماری عوام حتّی بزرگ شخصیتوں کی بے عزتی اور توہین کیا کرتے تھے اور بار بار کی حقارت و توہین سے ان لوگوںکے اندربہت حد تک احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا اور عوام یہ تصّور کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ امریکی ہی متمدّن اور ترقی یافتہ ہیں اور ہم لوگ ان کے مقابلے میں بے حیثیت اور پس ماندہ ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسراسب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ لوگ دین سے مقابلہ و مبارزہ کی سیاست اپنائے ہوئے تھے اور یہ فکر دن بہ دن وسیع ہوتی جا رہی تھی اور ایک مضبوط صدا بن رہی تھی آخری دنوں میں بات یہاں تک پہونچ گئی تھی کہ ان لوگوں نے درمیان سے سارے پردوں کو ختم کر دیا تھا وہ لوگ عام طور سے دینی مقدّسات سے کھلواڑ کر رہے تھے ان تمام حالات کے ہوتے ہوئے ایک عام اور وسیع انقلاب کا ہونانا گزیر ہو گیا تھا ۔

۳۲

شہنشا ہی دور کی سب سے بڑی آفت

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حالات کا تجزیہ کریں تو سب سے بڑی آفت میری نظر میں یہ تھی کہ پچھلی استعماری سیاست کے ذریعہ خاص طور سے پہلوی نظام کے پچاّس ساٹھ سالہ دور میں ان لوگوں نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے گروہ اور دیندار افراد کو سیاست سے با لکل خارج کر دیا تھا، اس زمانے کی بہت سی چیزیں مجھکو یاد ہیں لیکن جس نکتہ کی طرف میں نے اشارہ کیا اس کی طرف بہت کم دوستوں کی توّجہ ہوگی یا انکو یاد نہ ہوگا ،یہ ایک بلا تھی اور بہت ہی اہم مسئلہ تھا جو ان لوگوں نے اس ملّت کے لئے ایجاد کر دیا تھا ۔اس طرح کی ان لوگوں نے سیاست گذاری کی تھی کہ اس ملک کے سیاسی اور اجتماعی کاموں کو کچھ ایسے افراد کے حوالے کر دیا تھا کہ جو ان کے مطابق تھے ایسے منتخب افراد کہ جن میں اسّی فیصد سے زیادہ امریکہ میں تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے یا ایران میں ایسی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے جو امریکہ کے زیر اثر تھیں منجملہ ان یو نیورسٹیوں میں تہران کا'' د انشکدئہ مدیریت''(جو آجکل امام صادق یونیورسٹی ) اور شیراز کی یو نیورسٹی تھی شیراز کی یونیورسٹی کا جو مالک ہوتا تھا وہ سفارت امریکہ سے معےّن ہوتا تھا اور دوسری یونیورسٹیوں کے نظام اور نصاب بھی امریکی ہی معےّن کرتے تھے ،بہر حال ملک کی سیاست گذاری عملی طور سے انھیں منتخب اور چنندہ دانشوروں کے ہاتھ میں تھی جنکی اکثریت امریکہ کی تربیت یافتہ تھی،البتہ یہ سیاست اصل میں انگریزوں کی ہے جو بہت ہی باضابطہ اور منظّم انداز میں تھی،امریکہ نے سیاست کے اس طریقے کو انگریزوں سے سیکھا ہے تا کہ اس ذریعہ سے ان ممالک میں بہت دنوں تک اپنا تسلّط برقرار رکھ سکیں لہٰذا وہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ایسے دانشوروں کی خود انھیں ملک میں تربیت کریں جو بلا واسطہ طریقے سے انکی فکروں کو پروان چڑھائے اوروہ ان کے مطابق ہر کام کرنے کے لئے تیارہوں ۔اس سیاست کا نتیجہ یہ نکلاکہ ملک کے عام مسلمانوں کا ملک کی سیاست اور سرکاری امور میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا تھا صرف ایک پارلیمنٹ تھی جہاں عوام کی کسی حد تک دخالت نظر آرہی تھی وہ بھی اس طرح کہ ممبروں کی ایک لیسٹ اور فہرست دربار شاہ اور امریکی سفارت خانہ کے توسط سے پہلے ہی معےّن ہو جاتی تھی اور وہی نام انتخابات کے دن بکسوں سے باہر آتے تھے۔

۳۳

اگر چہ ملک کے دانشوروں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ملک کی موجودہ سیاست سے متّفق نہیں تھے اور کسی بھی طرح ان کے ساتھ رہنے کو آمادہ نہیں تھے بلکہ ان سے مقابلہ کے لئے تےّار تھے اس سلسلے میں ان لوگوں نے کئی جماعتیں تشکیل دی تھیں ان میں سے ایک حزب تودہ (تودہ پارٹی )تھی اگرچہ یہ لوگ بھی کسی حدتک مشرقی استعمار کا آلہ کار تھے اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو روس کی طرف جھکائو رکھتے تھے اور وہ لوگ چاہتے تھے کہ ایران ایک سو سلشٹ اور روسی فکر میں تبدیل ہو جائے ،بہر حال پھر بھی اس گروہ میں کچھ مخلص اور سچّے لوگ بھی پائے جاتے تھے جوحقیقت میں انگریزوں اور امریکہ کے تسلّط اور استعمار کے چنگل سے بچنے کے لئے اسکے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں سمجھتے تھے تھا کہ اپنے کو روسیوںکے حوالہ کر دیں یعنی انکے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ تیسری دنیا کے ممالک مثلاً ایران وغیرہ کے سامنے صرف دو ہی راستہ ہے یا وہ امریکی پرچم کے نیچے آجائیں یا روسی پرچم کے زیر سایہ تا کہ انکے لئے دوسرے لوگوں سے مقابلہ کرنا ممکن اورآسان ہو جائے اگر چہ یہ دوسرے گروہ والے زیادہ نہیں تھے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اس خیال کے حامی ضرور تھے بہر حال ان دنوں دانشوروں کی ایک جماعت حزب تودہ کی شکل میں جمع ہو گئی تھی اور رسمی کاموں کو انجام دیتی تھی آج بھی ہم کو اس طرح کی تنظیم سے غافل نہیں ہونا چاہئے چونکہ یہ لوگ دوبارہ موقع کو غنیمت جان کر چوری چھپے اپنے کو پھر سے آمادہ کر رہے ہیں ۔اوراس بائیںبازو میں تودہ پارٹی کے علاوہ دوسرے گروہ جیسے فدائی خلق، کارگرپارٹی، رستگار پارٹی ، اور مختلف قسم کے مقامی گروہ مختلف علاقوںجیسے کردستان، آذربائیجان، ترکمنستان اور خوزستان وغیرہ میں موجود تھے ان تمام پارٹیوں کا مارکس ازم کی طرف جھکائو تھا ۔اس بات کا تذکرہ مناسب ہے کہ بہت سے گروہ جو کسی نام سے پائے جاتے تھے حقیقت میں اس کے اندر ممبران کی تعداد دس بیس افراد سے زیادہ نہیں تھی۔ ان بائیں بازو کی پارٹیوں کے مقابلہ میں اور دوسری پارٹیاں بھی پائی جاتی تھیں جن کا شمار داہنے بازو کی پارٹیوں میں ہوتا تھا جو کہ حکومت کی طرفدار اور اس پہلوی نظام کی موافق تھیں کہ مغربی بلاک سے تعلق رکھتی تھیں۔

۳۴

اس درمیان جس بات کی کمی تھی وہ دیندار افراد کی فعّالیت اور ان کا متحرک نہ ہونا تھا مختلف چالوں اور حربوں سے ان لوگوں کو سیاست کے میدان سے جدا کردیا گیا تھااور اس طرح سے تبلیغ کی گئی تھی کہ اصلاًکوئی دینداراورمتدےّن سیاسی امور میں دخالت نہیں کرتا تھا۔

یہ بات مجھکو خود یاد ہے کہ جب کسی موقع پر کسی عالم دین کو بدنام کرنا چاہتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ ملاّسیاسی ہے گویا ایسا دور آ گیا تھا کہ سیاسی مولوی ہونا ایک گالی تصوّر کیاجاتاتھا اسی وجہ سے دیندارافراد خاص طور سے عالم دین حضرات سیاست کے میدان میں اترنے سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بعض اسلامی ممالک کی پیروی اور کچھ دوسرے اسباب کی بنا پر دینداروں کے درمیان بھی بعض سیاسی گروہ پیدا ہو گئے تھے مشہور تنظیمفدائیان خلقانھیں گروہوںمیں سے ایک تھی اگر چہ یہ ایک چھوٹی سی تنظیم تھی لیکن اپنی جگہ بہت ہی مصممّ اور مستحکم پارٹی تھی، ایک دوسرا گروہحزب ملل اسلامی'' تھا جو کہ ۲۸ مردادکے بعد عالم وجود میں آیا تھا یہ لوگ بھی معدودے چندافرادسے زیادہ نہیں تھے اور آخر کار گوشئہ گمنامی میں چلے گئے اسی دوران (جو کہ مرحوم آیت۔۔ کاشانی کے سیاسی کارناموں کی بلندی کا دور تھا )ایک دوسرا گروہمجاہدین اسلامبھی تھا جس کے بانی شمس قنات آبادی تھےسازمان مجاہدین خلقجس کو آجکل ہم گروہ منافقین کے نام سے جانتے ہیں حقیقت میں اسی گروہ کا ایک حصّہ تھا جس کے بانی یہی شمس تھے جیسا کہ آپ جانتے ہیں بعد میں چل کر اس گروہ نے مارکسی رجحان پیدا کر لیا اور آخر کار امریکہ اورمغرب کے دامن میں چلا گیابہر حال ملک کے سیاسی حالات کی یہ تصویر او ر یہ متحّرک تنظیمیں انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھیں جو انھیںمذکورہ چند گروہوں میں منحصر تھیں اور ملک کے مخلص اورمعتقدمسلمانوں کی اکثریت ، جو کہ نوّے فیصدتھے اس میدان سے پوری طرح دور تھے سیاست میں آنے کے لئے انکے پاس کوئی ذریعہ اور راستہ نہیں تھا ان نوّے فیصد لوگوں میں حالات اور واقعات کی حقیقت سے آگاہی رکھنے والے افراد کم نہ تھے یہ لوگ حقیقت میں ملک کے حالات سے ناراض تھے اور خون دل پیتے تھے لیکن عملی طور سے کچھ نہیں کر سکتے تھے انکو کچھ امید بھی نہیں تھی اس زمانے میں چند اسلامی گروہوں کے درمیان جو کہ واقعا ًاسلام سے لگائو رکھتے تھ

۳۵

ے اوروہ شاہ کی حکومت کو قبول نہیں کرتے تھے نیز بائیں بازو اور مارکس ازم کی طرف بھی ان کا رجحان نہیں تھا ایک گروہنہضت آزادیبھی تھااس گروہ میں چند نوجوان لڑکے تھے جنھوں نے اکٹھاہو کر ایک تنظیم بنا لی تھی اور دھیرے دھیرے اس تنظیم نے تحریک آزادی کی شکل اختیار کر لی تھی اس تنطیم کی بنیاد ڈالنے والے لوگوں میں انجینئر بازرگان اور ڈاکٹر ید ا... سحابی کا نام لیا جا سکتا ہے ،تہران یونیورسٹی کے شعبہ فنّی کی مسجد کی بنیاد ڈالنے والے یہی مہندس بازرگان تھے، اسی طرح آپ کئی رسالوں کو مختلف شکل میں چھاپتے تھے ان میں ایک رسالہ''گنج شایگاں''تھا ،تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح اسلام سے ربط رکھتے تھے نمازی اور روزہ دار بلکہ بعض عابدشب زندہ دار بھی تھے، اگرچہ تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح راستے سے بھٹک گئے اورخود کو سیاسی حیثیت سے محفوظ رکھنے کے لئے محاذملّی کے ان ممبران کے عنوان سے پیش کیا جو کہ سیاسی دانشوروں کے درمیان دوسروں سے بہتر تصوّر کئے جاتے تھے، اور ویسا ہی کام کرنے لگے سیاسی اعتبار سے ملک کی یہ حالت اس وقت، انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھی ۔

سیاسی تغیراورانقلاب کے لئے امام خمینی کی حکمت عملی

ان حالات میں امام خمینی نے فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کے ساتھ جو کہ شروع سے آپ رکھتے تھے یہ محسوس کیا کہ یہ سیاسی کارنامے جو دانشوروں کے مختلف گروہوں کی طرف سے انجام دئیے جارہے ہیں اگرنتیجہ کو پہونچ جائیں تو بھی اس سے اسلام کو کوئی فائدہ پہونچنے والا نہیں ہے حتیّٰ جو لوگ اسلام کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں اس سے بھی کچھ فائدہ ہونے والانہیں ہے، صرف ایک راستہ جو امام خمینی کی نظر میں فائدہ مند تھا اور اس کا ہونا ضروری تھا وہ یہ کہ عام مسلمانوں کو میدان میں لایا جائے امام خمینی کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ جماعتیں اور تنظیمیں ایک اسلامی انقلاب( جو کہ مضبوطی کے ساتھ تمام شعبوں میں حاکم ہو اور حکومت اسلامی کی شکل میں ہو ) نہیں لاسکتی ہیں ، اگرچہ امام خمینی کی تھیوری اس زمانے میں قابل قبول نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے وہ لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ جہاں بھی جس صورت میں سیاسی تحریک اور فعّالیت انجام پائے، اس کا نتیجہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی گروہ یا تنظیم کی شکل میں کسی خاص رابطہ اور قاعدہ کے ساتھ انجام پائے اسکے بر خلاف ایسی تحریک جو عمومی طور سے ہو اور اس میں سب کے سب لوگ دخالت رکھتے ہوں

۳۶

اور سب کے سب اپنے کو ذمہ دار محسوس کرتے ہوں اور وہ تمام لوگ متحد ہو کر حرکت کرتے ہوں تو علوم سیاسی کے کلاسکی نظریات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر امام خمینی یہ چاہتے کہ اپنے نظریات اور افکار کو علمی نظریہ کی شکل میں پیش کریں اور اس کے بارے میں بحث وگفتگو کریں تو کوئی بھی اس کو قبو ل نہیں کرتا امام خمینی نے اس سیاسی مطلب کو علمی نظریہ میں پیش کرنے کے بجائے اس کام کو عملی طور سے پیش کرنا شروع کیا اور آپ نے مصّمم ارادہ کر لیا کہ عام لوگو ںکو میدان میں لیکر آئیں اور اس احساس ذمہ دارری کو عام لوگوں کے ذہن میں ڈال دیا کہ مسلمان ہونے کے ناطے تمام لوگوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی امور میں حصّہ لیں، امام خمینی کی یہ فکر دوسری اور فکروں کی طرح ایک نئی فکر تھی اگر امام خمینی س راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے تو کوئی خاطرخواہ انقلاب پیدا نہیں کر سکتے تھے امام خمینی نے عوامی طاقت اور ان کی حمایت سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی اور اس تحریک کو جو کہ اس کے پہلے ہمیں نظر نہیں آتی تھی وجود بخشا ، اس کام کو کوئی بھی سیاسی گروہ چاہے بائیں بازو کی پارٹی ہو یا تنظیم ملّی ہو یا کوئی اور مذہبی گروہ ہو انجام دینے پر قادر نہیں تھا ،اس بات کادوست دشمن سب نے اعتراف کیا ہے ۔ یہ صرف امام خمینی کی ذات تھی جس نے عظیم ملّت کے گروہوں میں چھپی ہوئی طاقت کو مشخّص کرکے ان کے دینی اور اسلامی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نتیجہ خیز کام کو شروع کیا ۔ہم کویہ بات اچھی طرح یاد ہے اور میں خود اس بات کا قریب سے گواہ ہوں کہ وہ آوارہ اوربیکار جوان جو کہ سڑکوں اور گلیوں میں پھرا کرتے تھے امام خمینی نے ان کو ایسا بدل دیا اور ایسا بنا دیا کہ وہ انقلاب کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں اپنے سینوں کو ڈھال بنا کر پیش کرتے تھے اورحکومت شاہ کے سپاہیوںسے کہتے تھے مارو جتنا مارنا ہے مار لو! امام خمینی نے لوگوں کے اندر ان کی دینی ذمہ داری کے احساس کو زندہ کر دیا آپ نے اپنی خالص نےّت سے ایسا کام کر دیا جس سے لوگوں میں محدود اور خشک گروہی رابطوں کے بجائے ایک گہرا اور صمیمانہ رابطہ پیدا ہوگیا لوگ امام خمینی سے محبّت کرتے تھے اور پروانہ کی طرح ارد گرد گھومتے تھے ۔یہ امام خمینی کی بے مثل اور بے نظیر رہبری اور قیادت تھی ہم آج بھی محبّت کے اس گہرے رشتے کو دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ آپکے انتقال کے سالوں بعد بھی آپ کا نام خاص احترا م کے ساتھ لیا جاتا ہے۔

۳۷

بہر حال امام خمینی کی یہ تحریک اس روز کے رائج فارمولے اور سیاست سے جدا تھی، اس وقت جب ۱۳۵۶ہجری شمسی میں لوگوں نے سڑکوں پر مظاہرہ شروع کیا تو اچھے اچھے لوگوں نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بیس سال سے کم کی مدّت میں اس حرکت اور قیام کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے اور کامیابی حاصل ہوگی ایسے افراد سے میری مراد ڈاکٹر بہشتی وغیرہ جیسے لوگ ہیں یہ لوگ کوئی معمولی شخصیت کے مالک نہیں تھے بلکہ بلند سیاسی درجہ رکھتے تھے ان جیسے لوگوں کا بھی ( انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے اور آزادی کے آخری دنوں میں ) یہی نظریہ تھا کہ ابھی بیس سال اور انتظار کریں لیکن سبھی لوگوں نے دیکھا کہ امام خمینی کی تحریک نے ایک سال اور چند دنوں میں ہی نتیجہ دینا شروع کر دیا اور انقلاب کامیاب ہو گیا ،ایسی چیز جس پر میں خود ذاتی طور پر بھی یقین نہیں کرتا تھا اگر کوئی کہتا تھاتو مجھے خواب و خیال سا لگتا تھا میں تو ایک معمولی آدمی ہوں مجھ سے بڑے بڑے لوگوں کا بھی تصّور اور خیال یہی تھا ،بہر حال اگر یہ کہیں کہ ۱۳۵۷ میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی ایک خدائی معجزہ تھی تو میرے نزدیک یہ کوئی مبالغہ کی بات نہیں ہوگی۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض ایسے مفسد گروہ کہ جنکی لوگوں کے درمیان کوئی وقعت نہیں تھی اور ان کی بیہودہ حرکتیں، فریب کاریاںاور قتل و غارت گری ہی خود ان کے خاتمہ کا سبب بنی اور وہ ملک سے بھاگ گئے ان کے علاوہ کچھ دوسرے گروہ باقی رہ گئے جیسے تودہ پارٹی،دہشت گرد فدائی خلق ،پان ایرانیسٹ ،محاذملّی اورتحریک آزادی یہ لوگ پہلے کی طرح کام کرتے رہے انکے لئے کوئی چیز مانع بھی نہیں تھی اور انکے جان ومال محفوظ تھے ۔

یہاں تک تقریباًوہ مطالب تھے جن کو آپ سبھی لوگ جانتے تھے اور کوئی نئی بات نہیں تھی صرف ان مسائل اور واقعات پر جو انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھے ایک سرسری نظر ڈالی گئی اور اکثر مطالب مقدّمہ کے عنوان سے تھے اصل بحث جس پر میری خاص تاکید ہے اس کے بعد ہے جس پر میں چاہتا ہوں کہ آپ خاص توجّہ دیں ۔

۳۸

حقیقی اسلام کے افکار و اقدا ر سے متعلق اسلامی نظام کے کے ذمہ داروںکا اعتقاد

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد طبعی طور سے ملک کی سرپرستی اور حکومت بنانے سے متعلق بحث ہوئی؛ سب سے پہلی حکومت انجینئر بازرگان کی صدارت میں بنی؛ اسکے بعد بہت سے حکومتیں کئی لوگوں کی سر براہی میں بنیں؛بہت سی کمیاں اور فطری اشکالات جو کم تجربگی اور نئے ہونے کی وجہ سے لازمی تھے وہ سب پائے جاتے تھے جیسا کہ ہر انقلاب اور ہر نئی حکومت کی خصوصیت ہے لیکن اس کے علاوہ اس جگہ جو چیز قابل سوال ہے وہ یہ کہ کیا ارکان حکومت کے تمام لوگ امام خمینی کی طرح فکر رکھتے تھے اور کیا سبھی لوگ معاشرہ میں دین کے اثر کے متعلق وہی چیز سمجھتے تھے جومرحوم امام سمجھتے تھے ۔

اس وقت ملک کے بڑے لوگ جن کا شمار سیاسی طور پر بزرگوں اور فیصلہ کن لوگوں میں ہوتا تھا جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہد باہنر اور ان جیسے دوسرے لوگ جو سالوں امام خمینی کے زیر سایہ تربیت پاچکے تھے یہ لوگ مکمل طور سے امام خمینی کی فکروں اور نظریوں سے واقف تھے اس کے علاوہ یہ لوگ خود بھی اچھّی صلاحیت کے مالک تھے اسلام کے معارف اور اصول کا وسیع اور گہرا مطالعہ رکھتے تھے اور اسلام کے اصول و احکام اور معارف کا بخوبی علم رکھتے تھے، ایسے لوگ امام خمینی کے راستوں کو پہچانتے تھے اور اس پر اعتماد اور یقین رکھتے تھے اور حقیقت میں وہی چاہتے تھے جس کی فکراور جستجو میں امام خمینی تھے؛ لیکن ذرا آپ غور کریں یہ لوگ کتنے سال زندہ رہے؟ انقلاب کے ایک دو سال کے شروع میں ہی اکثر کو شہید کر دیا گیا سب سے پہلے مرتضیٰ مطّہری کو شہید کیا گیا اس کے بعد ۷ تیر اور ۸شہریور کا واقعہ ہوا ؛جس میں بہشتی؛ باہنر وغیرہ شہید ہوگئے نیز اور دوسرے بہت سارے واقعات جس میں بہت سے ایسے لوگ جو امام خمینی کے افکار اور اصول سے اچھی طرح واقف تھے اور اسی اصول پر یقین رکھتے تھے ملک کے سیاسی عہدوں پر متمکّن تھے اور ملک کے قوانین بنانے میں اہم رول رکھتے تھے وہ لوگ ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے، دشمن جو کہ سارے حالا ت سے باخبر تھا اس سے پہلے کہ ہم ان شخصیات کو اچھی طرح پہچانیں اس نے ان تمام لوگوں کو ہم سے چھین لیا ؛وہ بعض افراد کہ جن کا نام ہم نے لیا اور دوسرے چند لوگوں کو چھوڑ کر وہ تمام لوگ جو کہ ۸شہریور کے واقعہ اور مرحوم باہنر کی حکومت کے بعد حکومت کے لئے آئے اور ملک کے ا ہم سرکاری عہدوں اور وزارتوں پر فائز ہوئے وہ لوگ نہ اس حد تک امام خمینی کو پہچانتے تھے

۳۹

اورنہ انکی روحی اور معنوی نظر اس قابل تھی کہ وہ امام خمینی کے افکار کو پہچان سکیں ؛مختلف لوگ کم و بیش مغربی ثقافت اور تعلیمات سے متا ثر تھے وہ لوگ اسلامی معارف و ثقافت سے دور تھے یہ فاصلہ دن بہ دن ہر حکومت میں پچھلی حکومت اور اس کے مسئولین کی نسبت بڑھتا چلا گیا ؛لیکن جب تک امام خمینی زندہ تھے آپ کی روحانی عظمت اور الٰہی و معنوی شخصیت جس کا سایہ سارے ملک پر تھا بہت کم لوگ اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے تھے حتیٰ جو لوگ امام خمینی کی فکروں اور اصول کی مخالفت کرتے تھے وہ لوگ بھی مخالفت کے لئے راستے کو ہموار نہیں دیکھتے تھے اور پھر وہ عملی طور سے کوئی بات پیش نہیں کر سکتے تھے ۔بہر حال امام خمینی کے انتقال کے بعد آپ کے راستے اور افکار سے دوری کا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا کیونکہ اب وہ مربی نہیں رہا اور وہ معنوی شخصیت ہمارے درمیان نہیں رہی ؛امام خمینی ایسی شخصیت تھے جنھوں نے ۸۰سال تک سیاسی اور اجتماعی تلخ وشیریں حادثوں کو ملاحظہ کیا نفسانی اور روحانی طور سے اپنے کو آمادہ کیا اورآپ دشمن سے مقابلہ کا ۳۰ سالہ گرانبہاتجربہ رکھتے تھے لہٰذا امام خمینی کے بعد کوئی کتنی ہی خود سازی کرے اور کتنا ہی با تجربہ اور با لائق ہو وہ امام خمینی جیسا نہیں ہو سکتا ،یہ خود ایک وجہ ہے جو دوسری مختلف وجہوں کے ساتھ فطری طور سے موجود ہے اور اس وقت ان کے بیان کی گنجائش نہیں ہیاور یہ سب وجہیں ایک ساتھ مل کر اس بات کا سبب بن گئی ہیں کہ اسلامی افکارو اقدار دن بہ دن کم سے کمتر ہوتے جا رہے ہیں اس وقت ہم یہ ذمہ داری رکھتے ہیں کہ حالات کو سمجھیں اور مناسب طریقہ کار اور حکمت عملی کے ذریعہ ا س چیزکو آگے بڑھنے سے روکیں ۔

۴۰

اسلامی اقدار کو کم کرنے کے لئے اسلام دشمنوں کا منصوبہ

وہ عوامل اور اسباب جو ان باتوں کی حقیقت و ماہیت سے مربوط ہیں ان کے علاوہ بیرونی عوامل و اسباب بھی اسلامی رنگ کو پھیکا کرنے کے لئے موثر اور اہم ہیں ؛ انقلاب کے ابتدائی دنوں میں امریکہ اور دوسرے مشرقی اور مغربی ممالک، نے یہ سوچا تھا کہ یہ انقلاب بھی دوسرے دنیاوی انقلابوں کی طرح اپنے زمانے پر کچھ اثر نہیں ڈال پائے گا اور پھیل نہیں سکے گا؛ لیکن آج بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا دنیا میں کتنے تغّیرات ہوئے ان لوگوں نے یقین کر لیا کہ اسلام ایک بہترین اور ترقی دینے والا ،لوگوں کی زندگیاں بنانے ،دنیا کوچلانے اور معاشرہ کو بلندیوں کی طرف لے جانے کے لئے طاقت و قوت رکھتا ہے ؛آج ان لوگوں نے اس خطرہ کو پوری طرح سے محسوس کر لیا ہے اور اس کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اسی وجہ سے عظیم سرمایہ اور وسیع پروگرام کے ساتھ اس تحریک کے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہیں اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے ہر طرح سے آمادہ ہو گئے ہیں اور اس کے مٹانے کے در پے ہو گئے ہیں ۔آج دشمن کے تجزیہ کاروں نے ہمارے انقلاب کی قوتوں،کمزوریوں اور ان کے شگاف کو پہچان لیا ہے جن کے ذر یعہ وہ اس محکم قلعہ میں نفوذ کر سکتا ہے اور ایسے پلان اور کارناموں کے ساتھ جن کو ہم تصّور بھی نہیں کر سکتے انقلاب کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں لگا ہوا ہے۔ البتہ بعض باتوں اور ان سے متعلق پلانوں کا ظاہر ہونا مشکل بھی نہیں ہے ایک معمولی تجزیے اور تجربے سے مشخّص کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی حرکتوں اور افعال کے اصلی عنصر اور قلب کو دو چیزوں سے یعنی اسکی شناخت و معرفت اور اس کے یقین و اعتقاد سے معلوم کیا جا سکتا ہے لہٰذا جب بھی کسی انسان کے بارے میں ارادہ ہو کہ اس کی حرکت اور رفتار کو بدلیں تو فقط اس کی شناخت اوراس کے اعتقاد کا جائزہ لیں ؛اسی وجہ سے اسلام اور اس ملّت کے دشمنوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف لوگوں کے اعتقادات دینی کو کمزور کریں اور دوسری طرف اس بات میں لگے ہوئے ہیں کہ مادّی اور مغربی چیزوں کی اہمیت کو دینی اہمیت کی جگہ پیش کریں اور لوگوں کے اعتقاد کو بدل دیں ؛یہ حکمت عملی یعنی لوگوں کے اعتقاد و معرفت کو بدلنے کی کوشش خاص طور سے نوجوان نسلوں میں بہت ہی موثر ہے

۴۱

کیونکہ یہ نسل اعتقادی اور فکری اصول میں اتنی محکم اور مضبوط نہیں ہوئی ہے، زیادہ تر سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر استوار ہے اور سرسری طور سے صرف چند مسائل کو جانتی ہے اور ان پر اعتقاد رکھتی ہے ان کے پاس محکم تحقیقی اور استدلالی چیزیں نہیں ہیں ،اعتقادات کے اعتبار سے بھی جوانی کی عمر خاص خواہشیں رکھتی ہیں یہ انسانی زندگی کا بہت ہی بحرانی مرحلہ ہوتا ہے جب مختلف طرح کا انسانی جسم میں خواہشوں کا طوفان ہوتا ہے،فطری طور سے نوجوان اپنی زندگی کی ظاہری اور مادی چیزوں کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے ۔

ا لبتہ مغربی حکومتیں یہ حکمت عملی صرف مسلمان ملت وقوم اور تیسری دنیا کے لوگوں کے لئے استعمال نہیں کرتی بلکہ یہحکمت عملی اپنے ملک کے ا فراد کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں وہ مغرب کے اکثر جوانوں کو سیکس، جنسی مسائل ، الکحل، شراب اوربیگ جوتے چپّل،لباس ،چہرہ اوربال وغیرہ کے ماڈلوںمیں لگا دیتے ہیں اور ان چیزوں کو نئے نئے انداز سے پیش کرتے ہیں نیز کھیل کود سنیما ،اسباب آرائش اور اسی طرح کے دوسرے لوازمات میں مشغول رکھتے ہیں ، ان لوگوں میں فقط کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہ اچھی صلاحیت رکھتے ہیں یہ لوگ ان کی تشخیص کرتے ہیں اور ان کو علمی و تحقیقی شعبوں میں لگا دیتے ہیں اور ان پر سرمایہ خرچ کرتے ہیں ان کے خیالات اور تفکّرات سے نئی چیزوں کی ایجادات میں (جو کہ مختلف میدانوں میں ترقی کا ذریعہ ہیں ) استفادہ کرتے ہیں ۔

لہٰذا جس ملک کا اساسی قانون اسلام کے فرامین پر استوار ہو اور اس میں اصل محور ولایت فقیہ ہو اور وہاں پر اسلامی اقدار حاکم ہو اور اس ملک کا سربراہ فقیہ، اسلام کو پہچاننے اور اس کے احکام کو جاننے والا،تقویٰ کے عظیم مرتبہ پر فائز اور الٰہی اقداراور انسانی کا حامل ہو، وہاں پر کیا کرنا چاہئے کہ دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوں ؛اس کا واضح سا جواب ہے کہ مختلف ثقافتی طریقوں جیسے کلاس، مدرسہ،یو نیورسٹی ، اخبارات ومطبوعات ، فلم ، سنیما، ریڈیو،کتاب ،کھیل کود اور ان جیسی دوسری چیزوں کے ذریعہ وارد ہونا چاہئے اور یہ روش اور طریقے انسان کی شناخت اوراس کے اعتقاد کو پوری طرح سے بدل دیتے ہیں اور حقیقت میں اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ شاید آپ کے ذہن میں وہ ریڈیوئی گفتگوہوگی کہ جس وقت کسی نامہ نگار نے ایک عورت سے سوال کیا کہ تمھارا آئیڈیل کون ہے تو اس نے جواب دیا کہاوشین''مرحوم امام خمینی نے فوراًریڈیو اسٹیشن کوٹیلی فون کیا اور اس ریکارڈینگ کے نشر ہونے پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ عورت مرتد ہونے والی ہے آپ خود ہی غور کریں اور دیکھیں کہ علی اور فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہماکے ملک میں خود امام خمینی کی زندگی میں کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شیعہ عورت کا آئیڈیل اور نمونہ زینب و زہرا علیہما السلام نہیں بلکہ اوشین ہو سب سے اہم وہی پہلا قدم ہے اگرمعرفت اور اعتقاد کی دیوار ٹوٹ گئی تو دشمن کے لئے پھر پورا راستہ آسان ہو جائیگا ۔

۴۲

قانون اور اجراء قانون کے شعبے میں دشمن کی دخل اندازی

دشمن کا دوسرا سب سے اہم پلان لوگوں کے اعتقادات اور یقین کو کمزور کرنے کے لئے یہ ہے کہ ملک کی سیا ست کے شعبہ میں دخل اندازی کی جائے ایسے لوگوں کو حکومت اور عہدوں پر لایا جائے جن کے اعتقاد اور فکری اصول اور خیالات کچھ حد تک امام سے دور ہوں اور ان کے تفکرّات مغربی فرہنگ وتہذیب سے متاثرہوں ؛ اس لئے کہ دیوار کو توڑیںکچھ اخبارات میں با واسطہ یا بلا واسطہ اپنااثرو رسوخ جماتے ہیں اور پھر اسلام پر حملہ شروع کرتے ہیں اور اسلامی قوانین کو زیر سوال لاتے ہیں اور مقدّسات کی توہین کرتے ہیں جو لوگ اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں اور اسلامی اقدار کے پیرو اور طرف دار ہیں ان کی شخصیتوں کو مخدوش اور مجروح کرتے ہیں اور اسلامی و دینی اقدار پر تاکید کے بجائے نیشنلزم اور قومی اقدار کو پیش کرتے ہیں اور اس کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اس کے علاوہ اور دسیوں باتیں ہیں جن کا ہم آج مشاہدہ کرتے ہیں ،دشمن دھیرے دھیرے تمام شعبوں میں آگے اپنا قدم بڑھا رہا ہے ایسا نہیں ہے کہ یکبارگی شروع ہی میں وہ اپنامدّعا اور ہدف بیان کر دے گااوراپنے مطالب کو پہلی ہی مرحلے میں پایہ تکمیل تک پہونچا دے گا۔

لیکن اگر اخبار والے چاہیں کہ ان تمام باتوں کو لکھیںتو ان کے سامنے قانونی مشکل ہے لہٰذا وہ قانونی مشکل کو حل کرنے کے لئے اور مطبوعات کی آزادی کے لئے قانون بدلنا چاہتے ہیں قانون بدلنے کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ ان کے بقول اعتدال پسند حکومت وجود میں آئے، ابتدا ہی میں یہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں بے اسلامی کا نعرہ لگائیں؛ بلکہ ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو لچکدار رویےّ کے حامل ہوں اور بہت ہی زیادہ سخت و متعصّب نہ ہوں اور بعض اسلامی مسائل میں سستی اور کوتاہی کا مظاہرہ کریں اعتدال پسندوں کو بر سر اقتدار لانے کے لئے وہ یہ کام کرتے ہیں کہ پچھلے جو متدّین عہدہ دار افرادگذرے ہیں ؛ ان کی معمولی غلطیوںکو ( جو کہ ابتدائے انقلاب یا اور دوسرے مشکلات کے سبب ہو گئی تھیں) بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں

۴۳

اور ان س سوء استفادہ کر کے ان ذمہ داروں اور عہدہ داوں کی عوامی مقبولیت کو کمزور کر دیتے ہیں تاکہ وہ طاقتیں جو کسی حد تک اسلامی اقدار سے دور ہیں اور کم و بیش مصالحت پر آمادہ ہیں اوران کے اقتدار میں آنے کا راستہ صاف ہو جائے۔ اس درمیان ہم کو یونیورسٹی اور وہاں رہنے والوں سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ لوگ ہر حال میں سماج کے موثر اور آئندہ کے ملک کی باگ ڈورسنبھالنے والے ذمہ دار افراد ہیں ان کے لئے ہم کو الگ سے سوچنا ہو گا اور علیحدہ نظام و پلان بنانا ہوگا، خلاصہ یہ کہ یہ مفصّل اورمنظّم طور پر بنائے ہوئے ایک فلمی ڈرامے کے مانند ہے کہ دشمن جس کے پردوں کو یکے بعد دیگرے اٹھا رہا ہے اس ڈرامے میں آپ اجنبی یا ان افرادکو جو کہ اسلام اور انقلاب کے دشمن ہیں یا ظاہری طور پر انقلاب یا اسلام کے مخالف ہیں بہت ہی کم دیکھئے گا اکثر آپ ڈرامہ میں ان لوگوں کو کھیلتے ہوئے دیکھئے گا جو اسلام کا اعتقاد رکھتے ہوں چاہے وہ ظاہری ہی کیوں نہ ہو، ضروری نہیں ہے کہ امریکہ کا ایک آدمی یا سی آئی اے تنظیم کا ایک جاسوس آئے اور وہ یہ کام انجام دے بلکہ آپ خود دیکھتے ہیں کہ ایک وزیر یا نائب وزیر جو نمازی اور روزہ دار بھی ہے کربلا اور سوریہ کی زیارت بھی کی ہے حج پربھی گیا ہے اکثر خمس و زکوٰة بھی ادا کرتا ہے اور یہاں تک کہ کبھی وہ حافظ قرآن بھی ہوتا ہے لیکن اس کی فکر اور چال ایک سو اسیّ درجہ امام خمینی سے مختلف ہوتی ہے ،یہاں تک کی آپ بعض ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کا نظریہ آج پہلے سے بہت حد تک بدلا ہوا دکھائی دیگا ،مثال کے طور پر ایک ایسا شخص جو امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرنے میں شریک تھا اور اس کام میں اس شخص نے اہم رول ادا کیا تھا لیکن آج وہی شخص اس کام کی مذمت کر رہا ہے اور مغربی مملک میں جاکر ایک ٹی وی کے پروگرام میں اسی جاسوس سے ہاتھ ملاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک میز پر بیٹھتا ہے اور سب کے سب ایک ساتھ کھاتے پیتے ہیں اور ہنسی مذاق کرتے ہیں ۔ وہی شخص جو دو تین سال پہلے اس بات پر معترض تھا کہ ایک پارلیمنٹ کا ممبرانگلینڈ کے سفرمیں نا مناسب باتیں کیوں کرتا ہے اور اس پر امریکی ہونے کا الزام لگارہا تھا آج وہی شخص امریکہ سے رابطہ اور گفتگو کے لئے مشورے دے رہا ہے، کل تک امریکہ مردہ باد کا نعرہ خود لگاتا تھا آج اس کے متعلّق کہتا ہے کہ چند سر پھرے لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہیں ۔ آج میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوںجو جنگ کے زمانے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ جنگ کے حق میں تھے آج اسی جنگ پر اعتراض کرتے ہیں

۴۴

البتہ حقیقت یہ ہے کہ انھیں لوگوں میں بہت سے لوگ جو انقلاب کے ابتدائی دنوں میں سخت نعرے لگاتے تھے اس پر ان کا دلی اعتقاد نہیں تھا زیادہ تر جذبات اور ماحول کے زیر اثران نعرو کو وہ دہراتے تھے اس طرح کے لو گ خود اپنے بقول دلیلوں کے تابع ہو گئے ہیں اور اپنے تصور میں جذبات کی وادی سے نکل کر عقل کے مرحلہ میں داخل ہوگئے ہوں اور کہتے ہیں کہ ہماری پہلے کی حرکتیں اور باتیں غلط تھیں ۔میں مناسبت کی وجہ سے اسی جگہ اشارہ کررہا ہوںکہ اس حساب سے جو لوگ ماضی میں انقلابی کردار ادا کئے ہوں اور انقلاب کے سلسلے میں امام خمینی کے معین و مدد گار ہوں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ان کے عقاید اور نظریات کو پوری طرح سے قبول کر لیں ؛کیونکہ ہم امام خمینی کے بہت سے ساتھیوں اور دوستوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ امام خمینی کے افکار اور بنیادی اصول میں شک رکھتے ہیں اور امام خمینی کے افکار کو صحیح نہیں جانتے ہیں ، البتہ بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہین کہ ان کا اختلاف ہم سیزیادہ تر سلیقہ اور روش کی حد تک ہے اور یہ معمولی اختلاف اس چیز کا سبب نہ بننے پائے کہ ہم ان کو پوری طرح سے امام خمینی کے دوستوں سے جدا کر دیں اور ان کو دوسروں کا کارندہ و حامی تصور کریں اور ان سے سیاسی کشمکش اور اختلاف کو اختیار کریں ۔

پچھلی گفتگو کا خلاصہ

بہر حال اس جلسے اور پچھلے جلسے کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ انقلاب کے شروع میں شناخت و تفکّر کے اسباب بہت کم رکھتے تھیاور خاص سبب جو اس بات کا باعث ہوا کہ لوگ امام خمینی کے پیچھے حرکت کریں اور انقلاب لاکر اسکو محفوظ رکھیںوہ ان کے دینی احساسات اور جذبات تھے البتہ یہ صرف امام خمینی کا ہنر تھا کہ آپ نیان احساسات اور جذبات کو انقلاب کی سمت میں لا کر رہبری فر مائی اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیالیکن انقلاب کی تحریک کو باقی رکھنے اور اس کو جاری رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ فکری اور ثقافتی کام کرنا لازم ہے

۴۵

آج یہ سوچنا غلط ہے کہ ہم اس تصوّر میں رہیں کہ جب چاہیں لوگوں کے دینی احساسات پر بھروسہ کرتے ہوئے ماتم اور حسین حسین کے ذریعہ اس انقلاب کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں وہ صرف امام خمینی کی ذات تھی جو کہ روحانی، عرفانی اور الٰہی شخصیت کی مالک تھی ؛اپنی اس عظیم شخصیت کے ذریعہ وہ دلوںپرحکومت کرتے تھے اور لوگوں کے احساسات اور جذبات کو اپنے تابع کر لیتے تھے ایسی بات اگر ہم کرنا چاہیں تو ممکن نہیں ہے ہم کو چاہئے کہ ہم اسلام کو اچھّی طرح پہچانیں اور دوسروں کو پہچنوائیں

آج بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی فکر و عمل میں غلطی اور انحراف رکھتے ہیں حقیقت میں یہ جان بوجھ کر اپنے کام میں غلطی نہیں کرتے ہیں یہ کمزوری صرف شناخت نہ ہونے کا نتیجہ ہے یہ ایسے لوگ ہیں کہ اپنی تعلیم کے دوران اگر بہت زیادہ مسلمان تھے تو بس اتنا کہ نمازی اور روزہ دار تھے ان چیزوں کا ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا کہ وہ اسلام کے اصول ومبانی کی شناخت اور تحقیق کریں ؛اس کے بعد جب ملک کے کسی اہم عہدہ پر متمکن ہوئے تو اتنی فرصت کہاں ملتی ہے ؛اپنے ہی کام کے لئے وقت نہیں ملتا تو بھلا پھر کیسے وہ اسلام کے اصول و مبانی کے متعلق تحقیق کریں گے؟ آج ہی ہم کو یہ کام کرنا چاہئے اور اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ یہ لوگ اسلام کو بہتر طریقے سے پہچانیں یہ کوئی شرم کی بات نہیں ہے ہم کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ تعلیمات صرف مدرسے کے بچوّں اوریونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے ہے ایسا نہیں ہے بلکہ سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کو اس کی سخت ضرورت ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ ہم وزیر یا اس کے نائب سے کہیں آؤ کلاس میں بیٹھ کریہاں پڑھو

ہاں یہ ممکن ہے کسی ذریعہ اور بالواسطہ طور سے ان کے کانوں تک یہ بات پہونچا دی جائے اور کسی نہ کسی طرح سے وہ لوگ ان باتوں سے واقف ہو جائیں؛ جو لوگ آج کل ملک کی سیاست میں اہم عہدہ رکھتے ہیں ان کے علاوہ ہم کو ان لوگوں کے بارے میں بھی فکر ہونی چاہئے جو آگے چل کر اس عہدے پر فائز ہونے والے ہیں اور وہ در اصل یہی طالب علم ہیں جو آج کل مدرسوں یا یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں ؛ مستقبل کے ذمہ داروں اور عہدے داروں کے متعلق ہم کو ابھی سے فکر کرنی ہوگی اور ہم کو اس کی پلاننگ کرنی ہوگی ،یہاں پر مناسب ہوگا کہ ان باتوں سے متعلق ایک مثال کو بیان کروں:

۴۶

ایک بڑے اسلامی ملک جسکی آبادی ہمارے ملک سے زیادہ ہے وہاںکے صدر جمہوریہ سے پوچھا گیا کہ آپ اس طرح امریکہ پر کیوں منحصر ہیں انھوں نے جواب دیا کہ امریکہ نے ہمارے ملک کے دو ہزار بڑے اور تعلیم یافتہ افراد کو مختلف حصّوں سے ذخیرہ کر لیا ہے او رانھیں میں سے ہر مرتبہ چالیس افراد ملک کے بڑے عہدوں پر بنے رہتے ہیں یہ ذخیرہ اندازی برابر جاری رہتی ہے آپ اس ملک سے جہاں کے دو ہزار لوگ سیاست کے بلند مقام پر ملک میں فائز ہوں اور ان لوگوں کی تعلیم اور تربیت امریکہ میں ہوئی ہو، کیا توقّع رکھتے ہیں ؟

امریکہ نے اس سیاست کو پچاس سال پہلے اپنایاتھا اور آج ا س کا فائدہ حاصل کر رہا ہے؛ اگر ہم آپ یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں آگے پچاس سال تک اسلامی حکومت قائم رہے تو اس کے لئے آج ہی سے پلاننگ کرنی ہوگی اور آیندہ ہونے والے ذمہ دار افراد کے بارے میں فکری اورثقافتی کام کو انجام دینا ہوگا یہ نہیں کہ ہم بیٹھے رہیں اور جب کوئی مصیبت نازل ہو تو اس کو دور کرنے کے لئے نئے سرے سے غوروفکر کریں یہ عقلی اور منطقی کام نہیں ہے بلکہ اس کی فکر ہم کو پہلے سے کرنی ہوگی۔

اساتید کرام! میں نے اس گفتگو میں جو وقت لیا ہے اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کہ انھیں طالب علموں سے جو آپ کے ماتحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں آگے چل کر ملک کے ذمہ دار صدر جمہوریہ سے لیکر وزیر اور نائب وزیر ،پار لیمنٹ کے ممبر اور تعلیم و تربیت کے مدیر ہونگے ؛ لہذٰا آپ لوگوں کو خود اسلام کے اصول اورعقیدے کے بارے میں گہری نظر اور شناخت رکھنی چاہئے تا کہ آپ طالب علموں کو منتقل کر سکتے ہوں۔لیکن اگر کسی طالب علم نے آپ سے کوئی سوال کیا اور آپ اس کو مطمئن نہیں کر سکے تو وہ یہی کہے گا کہ جب یونیورسٹی کے بزرگ استاد سے جواب نہیں ہو سکا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اس کے بعد اگر ہم جیسے عالم دین سے پوچھا اور جواب اس نے بھی نہیں دیا تو اس کے لئے یقینی ہو جائے گا کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے لہٰذایہ لوگ جو خدا، رسول، اسلاماور مسلمانوںکے متعلّق گفتگو کرتے ہیں اس کی کوئی اساس ا و ربنیاد نہیں ہے ۔

آخری نتیجہ یہ ہے کہ میں عالم دین ہونے کی وجہ سے اور آپ لوگ یونیورسٹی کے استاد ہونے کی حیثیت سے اہم ذمہ داری رکھتے ہیں جس کے ذریعہ سے ہم لوگ کلچر کی اصلاح نیز اس ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں دوسروں کے بہ نسبت ہم لوگوں کی ذمہ داری زیادہ سنگین اور عظیم ہے لہٰذاہم کو چاہئے کہ اپنے علم کو وسیع اور مضبوط کر کے اور اسلام کے اصول و مبانی کو پہچان کر اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے قدم آگے بڑھائیں۔

۴۷

دینی پلورالزم-۱

ہمارے زمانے کا عظیم بحران

جس زمانے اور جس دور میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں خاص طور سے آخری دس سالوں کا عرصہ اگر اس کو بحران کے دور کے نام سے یاد کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ؛ انسانی تمدّن کی تاریخ میں مختلف زمانے دیکھے گئے ہیں جو کہ مختلف مناسبتوں کی وجہ سے الگ الگ ناموں سے یاد کئے گئے ہیں لیکن کسی بھی زمانے میں ایسا عظیم ثقافتی بحران نہیں دیکھا گیا کہ ایک اعتبار سے اسے بحرانی ہو ےّت کا نام دیا گیا ہے۔ اگر آج ہم ترقی یافتہ ممالک کے ثقافتی مسائل کے بارے میں توجہ کریں اور گفتگو کریں تو ایک عجیب آشفتگی،سرگردانی،ابہام اور شدید فکری شکّاکیت(شک پرستی)کو دیکھیں گے کہ ایسا شکّاکیت سے لبریز زمانہ کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

پہلے زمانے میں یونانی کلچر میں سوفسٹ'' نام سے گروہ پیدا ہوا تھا چند دنوں تک تو ان کا نام و نشان رہا ؛لیکن بہت جلد ہی ختم ہو گئے ۔پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں ایک مرتبہ پہر شک پرستی کا طوفانپیرناور اس کے چاہنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوا ؛ اور وہ بھی بہت جلدی ختم ہو گیا ؛اس کے بعد شک پرستی کا تیسرا دوررنسانس'' کے بعد شروع ہوا ؛اس کا اثرپہلے کی بہ نسبت زیادہ رہا ؛لیکن اتنا بھی نہیں کہ دنیا کے تمام اسکولوں،یونیورسٹیوں اور ثقافتی جگہوں پرچھا جائے مگر آخر کے دس سالوں میں شک پرستی کی ایک نئی موج اٹھی ہے جس کی وسعت و شدت گذشتہ موجوں سے بہت زیادہ ہے وہ اس طرح کہ اس نے چند جگہوں کو چھوڑ کر دنیا کے تمام علمی اورتمدّنی مراکز کو خاص طور سے اسکولوں اور یو نیورسٹیوںکو پریشانی اور درد سر میں مبتلا کر دیا ہے؛ تمام طرح کے شکی مکاتب فکر اور فلسفے بہت زیادہ رواج پا گئے ہیں اگر چہ ممکن ہے کہ ظاہری طور پر وہ شکاکیت کا نام نہ رکھتے ہوں ،لیکن ان کے مطالب شک پرستی کے عناصر سے خالی نہیں ہیں ۔اور دنیا کا ثقافتی ماحول ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں یقین اور حقیقت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کو برا اور ناسمجھ سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی کو بے عزّت کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ یقین پرست اور ڈگما تیزم کا حامی ہے، آج کل یقین پرست ہوناایک علمی گالی شمار کیا جاتا ہے؛ اور شک پرستی، نسبیت اورمطلق انگاری کی نفی ، اس طرح سے دنیا کی فکری اور معاشرتی فضاوئں پر چھا گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں یقینی طور پر اعتقاد رکھتا ہے اور دعوے سے کہتا ہے کہ ہم اس چیز پر یقین رکھتے ہیں اور اس کو پوری طرح سے صحیح سمجھتے ہیں تو اس آدمی کو ناسمجھ ،سادہ لوح اور علم وفہم سے خالی تصور کرتے ہیں اور اس کو جاہل افراد میں شمار کرتے ہیں ۔

۴۸

ایک مرتبہ میں نے ایک جگہ پر کہا کہ اگر ہم اس زمانے کو نئی جاہلیت زمانہ کے نام سے یاد کریں تویہ اسم با مسّمیٰ ہوگا کیونکہ آج کل قابل فخر بات یہ کہناہے کہ ہم نہیں جانتے ہیں وہ لوگ کہتے ہیں آج ہمیں اس مقام پر پہونچنا چاہئے کہ اچھّی طرح سمجھ لیں کہ تمام چیزیں مشکوک ہیں اور کوئی چیز یقینی وجود نہیں رکھتی ہے یعنی یہ قابل فخر ہے کہ ہم ہر چیز میں شک و جہل کا اقرار کریں یہ ایک نئی جاہلیت ہے جس کا ہم کو آج کل سامنا ہے؛ یہ اس جاہلیت کے مقابل ہے جس کو قرآن کریم نےجاہلیت اولیٰکے نام سے یاد کیا ہے( ۱ )

بہر حال ان لو گوں کی نظر میںڈگماتیزم اور یقین پرستی'' انسان کی ناسمجھی اور کج فہمی کی دلیل ہے، البتہ ہمارے نظریہ کے مطابق تمام چیزوں میں بھی شک پرستی اور نسبیت کا اعتقادآج جس کا دفاع کیا جا رہا ہے، جہالت اور ناسمجھی کے علاوہ اور کوئی دوسری چیزنہیں ہے، ہم نے قرآن کریم سے سیکھاہے کہ یقین اور یقینی چیزوں کو حاصل کرو اور اس کو اختیار کرو اور شک وتردید کے پردوں کو اپنے سے دور کرو۔سورہ بقرہ کے شروع ہی میں اس جانب اشارہ ہوا ہےو باالآخرة ھم یوقنون''( ۲ ) یعنی مومنین وہ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہوں ؛ قرآن مجید کا دستور یہ ہے کہ جس جگہ وہ کسی کی سرزنش کرتا ہے یا اس کی مذّمت کرتا ہے اور غلط قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے: یہ لوگ شک والے ہیں بالکل اس کے خلاف جو کہ آج کی دنیا میں پایا جا رہا ہے کہ اگر کسی کی طرف علمی اعتبار سے نامناسب نسبت دینا ہو تو کہتے ہیں کہ یہ اہل یقین ہے۔

____________________

(۱) سورہ احزاب : آیہ ۳۳۔

(۲) سورہ بقرہ : آیہ ۴۔

۴۹

پلورالزم تساہل تسامح ،بحران پیدا کرنیوالوں کے ہتھکنڈے

بہر حال ہماری نظر میں شک پرستی اور نسبیت کا اعتقاد انسانی معاشرہ کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت اور آفت ہے کم سے کم ہمارے سماج کے لئے اس بات کا سبب ہے کہ ہماریاعتقادات اورثقافت جن کے لئے ہم نے قربانی پیش کی ہے اور ان کے وجود کے لئے صدیوں ہم نے زحمت برداشت کی ہے تا کہ وہ عالم وجود میں آئیں ، وہ سب ختم ہو جائے ؛اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عالمگیر شک پرستی کی موج و آفت] جو کہ ایک فاجعہ اور خطرناک بیماری ہے [کے مقابلہ میں کیا کیا جائے؟ ہم ایک اسلامی ملک اور حکومت ہونے کی وجہ سے جس طرح دوسرے شعبوں اقتصاد و صنعت وغیرہ میں مختلف کارنامے انجام دیتے ہیں ان کے علاوہ اس ادبی اورثقافتی میدان میں کون سا کام انجام دیں ؟البتہ ثقافت سے ہماری مرادنئی اصطلاح میں ر قص و سرود نہیں ہے بلکہ دینی اصولاعتقادات اور اقدار ہیں ہماری نظر میں اسلام ایک قطعی اصول اور محکم اقدار کا نام ہے ہمارا وظیفہ اور ذمہ داری یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم انکی حفاظت کریں اس کے بعد دوسروں کو ان کی جانب دعوت دیں نہ یہ کہ سیکو لرازم،لیبرال ازم، پلو رل ازم اور دوسرے کئی ازم اور نظریوںکے مقابلہ میں پیچھے ہٹ جائیں اور ان کے اثرات کو قبول کر لیں ۔آج اس ملّت کے دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ مختلف ثقافتی حیلوں کو وسیلہ بنا کرلوگوں خصوصاً جوانوںکے اعتقاد،اعتماد اوریقین ،کو زیر سوال لا کرمتزلزل کردیںاورانھیںحیلوں میں ایک حیلہپلو رالزم''نام کی ایک خطرناک فکر ہے جس کی وہ لوگ ترویج کرتے ہیں ؛ اس کی اہمیت کے اعتبار سے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں کچھ عرض کروں۔

۵۰

پلورالیسٹ کہتے ہیں انسان مختلف عقیدوں اور فکروں کے مجموعہ کا نام ہے اور وہ مختلف راہ و روش رکھتاہے اور ہر عقیدہ اور راہ وروشجو کسی بھی معاشرہ سے متعلق ہواور وہ اس کو پسندکرتا ہو تو وہ محترم ہے ہم کو چاہئے کہ ہم ان کی فکر و نظر کا احترام کریں البتہ دوسروں کو بھی ہماری فکر و نظر کا احترام کرنا چاہئے ۔ہم کو نہ تو کسی کی فکر ونظر سے چھیڑ چھاڑ کرنی چاہئے اورنہ تو اس بات کا انکار کرنا چاہئے کہ دوسروں کی فکریں ہماری فکروں کی جا نشین ہو جائیںکسی شخص کو بھی اپنی فکرکے حوالے سے مطلق تصوّرنہیں کرناچاہئے بلکہ اس بات کو نظر میں رکھنا چاہئے کہ دوسرے لوگ بھی الگ فکرونظرکے مالک ہیں اس پرکوئی دلیل نہیں ہے کہ ہماری فکرو نظر صحیح ہے اور دوسروں کی غلط ہے آپ کس اصول کی بناء پر دوسروں کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں اور فقط اپنی فکر کو صحیح جانتے ہیں ؟ اگر آپ مسلمان ہیں اور اسلام کو قبول کرتے ہیں تو دوسرے لوگ بھی ہیں جو مسیحیت ، بودھ ایزم اور دوسرے مذاہب کو قبول کرتے ہیں اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ آپ کا اسلام ان سے افضل و برتر ہے؛ ہم سب کو چاہئے کہ ایک دوسرے کا بھی اور ان کے عقائد کا بھی احترام کریںاور تعصب و دشمنی نہ رکھیں اور اس بات کی کوشش میں نہ رہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی لازمی طور پر اپنے مذہب اور دین کے اندر داخل کریں ،ہم کو چاہئے کہ ہم دوسروں کے افکار و عقائد سے چشم پوشی کریں اور ان سے اتسامح و تساہل کے ساتھ برتاؤ کریں اور اس بات کا احتمال رکھیں کی شاید دوسرے لوگ بھی حق پر ہوں اور سچ کہتے ہوں ۔

۵۱

جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے یہ فکر حقیقت میں وہ ہتھیار ہے جس کو دنیا کی استعماری طاقتیں اسلامی کلچر کو روکنے خاص طور پر اسلامی انقلاب کے اثرات کو پھیلنے سے روکنے کے لئے استعمال کرتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ مغرب کے مادی اور الحادی کلچر کو رواج دینے کے لئے بھی یہ کوششیں ہیں ؛آج ہم خود اس بات کے شاہد ہیں کہ بعض نشریات ،اور تقریروں، جلسوں میں اسی فکر کو رواج دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کے نفوذو اثر کا دامن اتنا وسیع ہے کہ بعض ایسے افراد جن کے متعلق گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ان کو بھی اس فکر سے متاثر ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔

جوانوں سے متعلق ہماری اہم ذمہ داری

حضرت امام خمینی کی زندگی میں آپ کی بزرگ شخصیت کا لوگو ں پر اتنا اثر تھا کہ وہ لوگ آپ سے والہانہ محبت کرتے تھے بے چون و چرا آپ کی باتوں کو قبول کرتے تھے اور آپ کے نظریہ اور رفتار و گفتار کو مانتے تھے تمام ذمہ دار افراد کے درمیان حتیّٰ عوام الناس کے درمیان آپ کی بات حرف آخر رکھتی تھی؛ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف آپ ہی کی شخصیت ایسی تھی ۔یہ حقیقت ہے کہ ایسی چیزیں ہمیشہ اور ہر نسل میں باقی نہیں رہتی ہیں لہٰذا ہم کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ اگروہ راہ اور فکر حقیقت میں صحیح اور درست تھی تو ہم کومنطق اور دلیلوں کے ذریعہ اس کی حمایت کرنی چاہئے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنا چاہئے اور اس کو پھیلانا چاہئے ؛خاص طور پر آئندہ نسلوں کے لئے ہمارا صرف یہ کہنا (امام خمینی نے یہ کہا اور امام خمینی نے یہ کیا) کافی نہیں ہے،

وہ عشق و جذبہ جو کہ انقلاب کے شروع اور پہلی نسل میں پایا جاتا تھا اور ان کے اندر جو شہادت کا جذبہ تھا ،جس کو میدان جنگ میں دیکھتے تھے ظاہرہے آنے والی نسلوں (یا ان لوگوں میں جنھوں نے امام خمینی کے ملکوتی چہرے کو نہیں دیکھا ہے یا جو لوگ ہر ہفتے یا روز انہ امام خمینی کے حکیمانہ جملوں کو نہیں سنتے )کے اندر نہیں پایا جا سکتا لہذا ہم کو چاہئے کہ واضح دلیلوں اور منطقی باتوں سے انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

۵۲

حقیقت میں اگر ہم ان نوجوانوں کی جگہ پر ہوں جو کہ ابھی جلدی ہی رشد و کمال پر پہونچے ہیں اور وہ مختلف نظریات اورمکاتب فکر سے روبرو ہوں تو ہم دیکھیں گے کہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں ۔ ان جوانوں کے لئے جو چیز قابل سوال ہے وہ یہ کہ اتنے نظریات جو کہ اس دنیا میں ضد و نقیض کی صورت میں پائے جاتے ہیں کیا دلیل پائی جاتی ہے کہ امام خمینی کا نظریہ ہی صحیح اور درست ہو؟ کون سی دلیل پائی جاتی ہے کہ اسلام ہی سب سے اچھا دین ہے اور اس کا راستہ سب سے اچھا راستہ ہے کیا دنیا میں مسیحی دین اور دوسرے دین کے ماننے والے کثیر تعداد میں نہیں پائے جاتے ہیں آپ کو کہاںسے معلوم ہوا کہ انکا عقیدہ اسلام اور امام خمینی سے بہتر نہیں ہے ،میں کیوں اسلام، انقلاب اور امام خمینی کو قبول کروں؟یہ اور اس جیسے دوسرے سوالات اور مسائل ہیں جو کہ ہمارے جوانوںکے ذہن میں پائے جاتے ہیں اور انکے ذہنوں کو جھنجوڑ تے رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو واضح طریقہ سے ان باتوں کو زبان پر لاتے ہیں اور ان کا اظہار کرتے ہیں اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مناسب ذہنی میدان اور ماحول'' پلورا لیزمکی ترویج کے لئے دین وثقافت کے حدود میں میں پا یا جا رہا ہے۔

میں خود دنیا کے مختلف ملکوں میں ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو کہ مسیحی تھے لیکن کہتے تھے کہ اسلام بھی اچھا دین ہے لیکن جب میں نے ان سے سوال کیاکہ پھر کیوں نہیں مسلمان ہو جاتے تو جواب میں کہتے ہیں چونکہ مسیحیت بھی اچھا دین ہے۔حتیّٰ اس سے بھی بڑھ کر آج پاپ (مسیحیوں کا رہنما)بھی اعتراف کرتا ہے کہ اسلام ترقی یافتہ اور اچھا دین ہے لیکن کبھی یہ نہیں کہتا کہ مسیحیت برا دین ہے یا اسلام مسیحیت سے بہتر ہے جب مسیحیت کا راہبر یہ اعلان کرتا ہے کہ اسلام بہت سی خوبیوں کا دین ہے تویہ خودبخوداس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دو اچھے دین ہیں ایک اسلام اور ایک مسیحیت۔ اگر آپ بودھ مذہب کے رہبر(بودھ ایسا مذہب ہے جسکے ماننے والے کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں )سے ملاقات کریں گے تو ممکن ہے وہ بھی کہے کہ بودھ اچھا دین ہے اسلام بھی اچھا مذہب ہے یہ وہی دینی پلورالیزم ہے یعنی ہم ایک اچھا اور برحق دین نہیں رکھتے بلکہ حق پر کئی دین ہیں کسی کو بلاوجہ یہ ضدنہیں کرنی چاہئے کہ جنت میں جانے اور سعاد ت مند بننے کے لئے مسلمان ہونا ضروری اور شرط ہے بلکہ مسیحی ،زرتشتی،بودھ اور دوسرے لوگ بھی جنت میں جاسکتے ہیں اور سعا د تمند بن سکتے ہیں اسی طرح ایک دین کے اندر بھی مختلف مکاتب فکر کوبھی ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دینی چاہئے ؛بلکہ سب کے سب اچھے اور حق پر ہیں جیسے اسلام مذہب میں سنی اورشیعہ ہیں یامسیحیت میں کیتھولک''پروتٹیسٹان اورارتڈوکس'' لہذا ایک دوسرے کے باطل یا غلط ہونے کانظریہ نہیں رکھنا چاہئے۔

۵۳

پلورالیسٹ کیا کہتے ہیں

پلورالیسٹ دینی پلورالزم کی تائید کے لئے پلو رالیزم کے دوسرے مظاہر کے ذریعہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ دینی پلورالیزم بھی صحیح ہے مثلاً کہتے ہیں آج د ونیاکے مملک مختلف حکومتی روش اور سسٹم کے تحت چل رہے ہیں ؛بعض ترقی یافتہ ممالک مثلاًانگلینڈ، جاپان وغیرہ میں با دشاہی حکومت پائی جاتی ہے اور دوسرے کئی ملکوں میں جمہوری حکومت پائی جاتی ہے؛ جمہوری حکومتوں میں بھی بعض جگہوں پر ریاستی اور کہیں پر پارلیمانی طریقہ حکومت پایا جاتا ہے۔ جب سیاست کے میدان میں حکومت کے مختلف قسم کے سسٹم سے متعلق بحث ہوتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ (ان تمام سسٹم میں کون سا سسٹم اچھا ہے؟ ) وہ لوگ کوئی آخری اور فیصلہ کن جواب نہیں دیتے ؛بلکہ کہتے ہیں کہ ان تمام سسٹم میں بعض اچھائیاں اور خوبیاںبھی پائی جاتی ہیں ؛اور بعض حد بندیاں اور کمیاں پائی جاتی ہے اور کسی سسٹم کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ برا ہے وہ تمام سسٹم اچھے ہیں یہ سیاسی پلو رالزم یعنی سیاسی حکومت کے انتخاب میں لازم نہیں ہے کہ ہم کہیں یہ طریقہ حکومت اچھا اور صحیح ہے اور بقیہ حکومت کے سسٹم اور طریقے غلط اور باطل ہیں اسی طرح ایک حکومت یا کابینہ کے بنانے اور تشکیل دینے میں کئی الگ الگ پارٹیاں ہوتی ہیں یہ بھی ایک سیاسی پلورالزم کا نمونہ ہے۔وہ مختلف پارٹیاں جو کہ ایک ملک میں پائی جاتی ہیں اور الگ الگ نظریات اور فکریں رکھتی ہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کی مخالف ہوتی ہیں ان کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صرف ایک پارٹی صحیح اور باقی دوسری غلط ہیں اور ان کو چھوڑ دیا جائے۔

۵۴

اصولی طور پر اگر آج دنیا میں تمام لوگ متفقہ طور پر صرف ایک پارٹی کے طرف دار ہوں تویہ لوگ اسکو عقب ماندگی کی نشانی اور اس پارٹی کی تنزّلی کا سبب سمجھتے ہیں یہ لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اور متمدن معاشرہ ضروری طور پر مختلف سیاسی نظریات رکھتے ہوں اورلوگ الگ الگ گروہ کے طرف دار ہوتے ہیں بنیادی طور پر مختلف نظریوں کا پارٹیوں میں ہونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ آپس میں رقابت پیدا ہو،و پارٹی حکومت میں نہیں ہے وہ حکومتی پارٹی کے کارناموں کو دیکھے اور اس پر نظر رکھے نیز ہر پارٹی ایک دوسرے کی کمیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھے اس طرح ہر پارٹی اپنے کاموں پر نظر رکھتی ہے اور کوشش کرتی ہے کوئی کمی اور غلطی نہ ہونے پائے اگر غلطیاں اور کمزوریاں ہیں تو اس کا ازالہ کیا جائے نیز اس بات کی ہر پارٹی کوشش کرتی ہے کہ سبھی کام کو اچھے طریقے سے انجام دیا جائے تاکہ لوگوں کے ووٹوں کو اپنی طرف کھینچ سکیں؛ انھیں سب وجہوں سے ذمہ دار اور سیاسی افراد اپنے ملکوں میں ترقی دیتے ہیں کہ نتیجہ میں جس کا فائدہ اس معاشرہ کے تمام عوام کو پہونچتا ہے۔ اس بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی پلورالزم اور چند پارٹیوں کا ہونا ایک پسندیدہ اور فائدہ مند بات ہے اور وہ سیاسی سسٹم اور طریقہ کارجو ایک ہی پارٹی میں محدود ہوسیاسی پلورالزم کے مقابلہ میں نامناسب اور بیکار ہے ۔

۵۵

اسی طرح اقتصادی میدان میں بھی یہ بات بہت حد تک واضح ہے کہ مختلف اور متعدد نظریے اور کئی اقتصادی طاقتوںاور ذرائع کا ہونا ہی اچھا اور قابل قبول ہے اور ایک محور کا اقتصاد بہت زیادہ نقصاندہ اور عیب کا باعث ہے اور یہ قابل دفاع بھی نہیں ہے ۔ جس میدان میں کئی اقتصادی محور موجود ہونگے وہاں آپس میں رقابت پیدا ہو گی اور رقابت کے نتیجہ میں اچھی چیزیںبہتر صورت میں بہت کم قیمت پر استعمال کرنے والوں تک پہونچیں جائیں گی اور اقتصادی مارکیٹ میں اچھی طرح وسعت اور ترقی بھی اسی رقابت کے ذریعہ ہوتی ہے جبکہ ایک محوری اقتصاد میں محدودیت پیدا ہو جاتی ہے اور رقابت نہ ہونے کی وجہ سے عام طور پر چیزوں کی کیفیت اور بناوٹ اچھی بھی نہیں ہوتی اور قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس میں ترقی اور وسعت چند محوری اقتصاد کی بہ نسبت بہت کم ہوتی ہے لہٰذا ان سب باتوں کی وجہ سے اقتصادی پلورالزم قابل قبول اور فائدہ مند ہے ۔

پلورالیسٹ اس طرح کی باتیں ذکر کر کے نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس طرح پلورالزم اور کثرت خواہی مختلف جگہوں جیسے سیاست، اقتصاد اور دوسری چیزوں میں اچھی چیز ہے اسی طرح دین اور کلچر میں بھی پلورالزم اور کثرت گرائی پائی جانی چاہئے؛ تاکہ اس طرح سے تمام اد یان کے معاشرہ اور سماج کے اندر پوری طرح سے فراہم ہو نا چاہئے اور اعتقادی نظریہ سے بھی اس بات کا یقین رکھیں کہ مختلف ادیان میں کوئی برتری نہیں پائی جاتی ہے اوران میں کسی ایک دین کو قبول کرنے کی حیثیت بقیہ تمام ادیان قبول کرنے کے برابر ہے لہٰذا دینوں میں حق و باطل کا قائل ہونا اور ان کو اچھے برے میں تقسیم کرنا یا ان کوا چھے اور برے عنوان سے یاد کرنا یہ سب پوری طرح بے بنیاد اور بے فائدہ ہے اور عیسائی، مسلمان ،شیعہ اورسنی،کیتھولیکاور پروٹیسٹ خلاصہ یہ کہ تمام ادیان نیز فرق و مذاہب حقیقت تک پہونچنے کے راستے اور منزل مقصود اور ساحل نجات تک پہونچانے والے صراط مستقیم ہیں ،اور ان میں سے کسی ایک پر تعصب کرنا بے عقلی اور غیر منطقی ہونے کی دلیل ہے عقلمند انسان جس طرح اقتصادی اور سیاسی پلورالزم کو قبول کرتا اسی طرح وہ اس کو دین کے بارے میں بھی قبول کرتا ہے اور دین میں کثرت کا ہونا پوری طرح سے فطری اعتبار سے قابل قبول اور معقول ہے۔

۵۶

بہر حال آج کل یہ فکر ہمارے سماج میں مختلف طریقوں سے ترویج کی جارہی ہے ،جیساکہ پہلے اشارہ کیا جاچکاہے واقعاً ہمارے جوانوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حقیقت میں جس طرح ہم لوگ اقتصاداورسیاست کے میدان میں کثرت کو قبول کرتے ہیں مثلاًاقتصاد کے میدان میں اہل اقتصاد صادرات کو وسیع یا واردات کو کم کرنے اور مکمل طرح سے رشد و وسعت میں کسی ایک ملک سے متعلق ایک خاص نظریہ نہیں رکھتے ہیں ان کے درمیان اختلاف کا ہونا فطری چیز ہے یہ ضروری نہیں کہ سب کے سب ایک نظریہ پر پہونچیں ؛پھر اب کیا مشکل ہے کہ دین اور ثقافت کے بارے میں بھی اسی چیز(پلورالزم اورکثرت گرائی) کو قبول کریں ؟سچ مچ اس بات پر کیوں ضد اور اصرار ہے کہ میں لازمی طور پر اسلام ہی کو نہ کہ مسیحیت کو قبول کروں ؟ حقیقت میں کیا یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دین کا پابنداور خدا کے وجودکا اعتقاد رکھوں؟ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں یا خدا کیوجود میں شک و شبہ رکھتے ہیں ،یہ بھی ایک عقیدہ دوسرے عقیدوںکے درمیان ہے اوردوسرے عقیدوں جیسا ہی ہے میں کیوں نہ اس عقیدے کو قبول کروں ؟

اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پوری طرح سے بہت ہی اہم ہے اور ایک مضمون یا کتاب سے زیادہ مطالب کا حامل ہے یہ مسئلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ ہمآمادہ ہو کر منطقی اور استدلالی جواب کے ساتھ نوجوان نسلوں کے سوالات کے جواب دینے کے لئے حاضر ہوں اور اس شبہ کو حل کریں۔

۵۷

پلورالسٹ کے پہلے بیا ن پرتنقید

مذکورہ بیان جو کہ پلورالزم کہ تائید کرتا ہے سب سے پہلے اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ منطقی لحا ظ سے یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر ہم اقتصاد و سیاست میں کثرت گرائی کو قبول کرتے ہیں تو دین اورکلچر میں بھی اس کو قبول کریں ؛پلورالزم کے مذکورہ بیان میں جو کچھ کہا گیا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہچونکہ سیاست و اقتصاد اور دوسرے امور میں کثرت گرائی فائدہ مند ہے اور لوگ اس کو پسند کرتے ہیں ؛لہٰذا دین و ثقافت کے مطالب میں بھی کثرت گرائی مفید و مطلوب ہے

ہماری اصلی بحث اسی میں ہے یہ مطلب صرف ایک دعویٰ ہے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی ہے یہ مطلب ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی کہےچونکہ فٹ بال کے کھیل میں گیارہ کھلاڑیوں کا ہونا مفید و مطلوب ہے لہٰذا والی بال کے کھیل میں بھی گیارہ کھلاڑیوں کا ہونا مفید ومطلوب ہے

حقیقت میں جس طرح یہ دوسرا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے اور تعجب انگیز ہے اسی طرح پہلا دعویٰ بھی ہے۔ اس کے بارے میں تھوڑی وضاحت اس طرح سے ملاحظہ ہویہ صحیح ہے کہ اقتصادی، سیاسی اور اس جیسے دوسرے بعض ایسے مسائل ہیں کہ ان کا جواب ایک نہیں ہے ان کے جواب میں کثرت اور زیادتی ممکن ہے بلکہ کبھی کبھی صحیح اور پسندیدہ بھی ہے لیکن بعض دوسرے مسائل ایسے بھی ہیں جن کا جواب صرف اور صرف ایک ہی ہے، ان کا جواب ایک سے زیادہ قابل قبول اور قابل تصّور نہیں ہے جیسے ریاضی،فزکس اور ہندسہ وغیرہ ،مثلاً حساب میں ۲ضرب ۲ کا جواب فقط ۴ ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا جواب صحیح نہیں ہے یا ہندسہ میں ۳ زاوئیے جو کہ مثلث اعتبار سے برابر ہوں جو کہ دلیل سے ثابت ہوتے ہیں اس کا جواب صرف ۱۸۰ درجہ ہی ہوگا اس کے علاوہ دوسرا کوئی جواب نہیں ہے یا ایک مسافت کا حساب لگایا جائے جو کہ ایک متحرک معین زمانہ میں مشخص رفتار کے ساتھ طے کرتاہو تو اس کا جواب ایک ہی ہوگا کہ جس d=v.t فارمولے کے ذریعہ حساب کیا جائے گا ،کیا کوئی یہاں پر یہ کہہ سکتا ہے کہ اقتصادی اور سیاسی مسائل میں جس طرح مختلف نظرئیے پائے جاتے ہیں

۵۸

اور اس کا ایک جواب نہیں پایا جاتا اسی طرح دو ضرب دو کے بارے میں بھی ہے اور تمام علم ریاضی کے جاننے والے دوسروں سے علیحدہ جواب دے سکتے ہیں اور ان میں یہ بھی احتمال ہو کہ کوئی صحیح اور کوئی غلط ہو ؟ ہاں اس نکتہ کی جانب توجہ ضروری ہے کہ ممکن ہے ریاضی اور اس جیسے مسائل کے جواب دو یا اس سے زیادہ راہ حل رکھتے ہوں؛ مگرآخر میں سارے مختلف راہ حلایک جواب تک پہونچیں گےاور چند راہ حل کا ہونا کئی صحیح جواب کے ہونے سے الگ اور جدا چیزہے۔

لہذٰا ممکن ہے کہ انسانی وجودات اور معارف میں ہمارے سامنے بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے جواب ایک سے زیادہ ہوں اور ایسے مسائل بھی ہوں؛ جن کے جواب فقط ایک ہوں اور ہمارا اصلی سوال ان لوگوں سے جو پلورالزم دینی کے قائل ہیں یہ ہے کہ آپ کو کہاں سے معلوم کہ دین ان مسائل سے ہے جن کے جواب ایک سے زیادہ نہیں ہے ؟ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ دین اقتصاد اور سیاست کی طرح ہے جس کے کئی جواب ہیں اور اس کے اندر کثرت فائدہ مند اور مطلوب ہے تو ہم بھی اس کے جواب میں کہیں گے کہ ایسا نہیں ہے، دین کے مسائل فیزیکس اور ریاضی جیسے ہیں جن کے جواب ایک سے زیادہ صحیح نہیں ہیں ،ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہخدا ہے یا نہیں ؟کا سوال دو ضرب دو یعنی دو دو چارمسئلہ جیسا ہے کہ صرف اور صرف اس کے جواب میں ایک ہی بات صحیح ہے ۔

۵۹

پلورالسٹوںکی دوسری دلیل

یہاں پر جو لوگ دینی پلورالزم اورکژت گرائی کے قائل ہیں وہ اپنے مدّعا کو ثابت کرنے کے لئے دوسری دلیل کا سہارا لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسان سے متعلق جوامورہیں وہ دو طرح کے ہیں کچھ امور حقیقی اور واقعی ہیں جبکہ کچھ قرار دادی اور اعتباری ہیں ، واقعی اور حقیقی امور ایسے ہی ہیں جیسا آپ کہتے ہیں یعنی ان کے جواب صرف ایک ہی ہیں یہ ایسی چیزیں ہیں جو کہ حس اور تجربہ سے ثابت ہیں ؛ لیکن جو امور قرار دادی اور اعتباری ہیں جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے وہ امور انسان کے ذوق اور سلیقے اور قرار داد واعتبار کے علاوہ کوئی حقیقت اور واقعیت نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے افراد اور معاشروں کے ذوق اور سلیقہ اور قرار دادو اعتبار کے اختلاف کے سبب بدلتے رہتے ہیں ؛ اس کے بر خلاف واقعی امور ہیں مثلاً ایک خاص کمرے کی مساحت انسان کے معاملہ اور ذوق وسلیقے سے معین نہیں ہو تی؛بلکہ حقیقی طور پر اس کمرہ کی پیمائش اتنی ہی ہوگی جتنے میں موزائیک پتھر لگے ہوئے ہیں ۔

امور اعتباری میں اصلاًاس طرح کے جملوں کو جیسے بہتر ہے یا بدتر ہے اچھا یا برا ہے صحیح یا غلط ہے یا اس سے ملتے جلتے جملوں کو استعمال نہیں کیا جاتا ؛ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان جیسے جملوں کو استعمال کریں تو ہم کو کہنا ہوگا کہ سب ہی صحیح، اچھے اور بہتر ہیں خراب ،غلط اور برے کایہاں وجود ہی نہیں ہے۔ اگر ایک شخص صورتی رنگ کو پسند کرتا ہے اور دوسرا ہرے رنگ کو تو اب کوئی بھی آدمی ایک دوسرے کو غلط نہیں کہہ سکتا ہے اور برے ،غلط یا باطل جیسے الفاظ کو استعمال نہیں کر سکتا ہے؛ بلکہ کہنا چاہئے کہ صورتی رنگ بھی اچھا ہے اور سبز رنگ بھی بہتر ہے خلاصہ یہ کہ جو اموراور مسائل اعتباری ہیں ان کا جواب ایک نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ ان کے جواب ایک سے زیادہ ہوں ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232