دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)16%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81828 / ڈاؤنلوڈ: 4520
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر

دوسرابیان جو کہ دینی پلورالزم کو واضح کرتا ہے وہ یہ ہے کہ''تمام ادیان اور ان کے راستے ایک ہی حقیقت کی طرف پہونچ کر منتہی ہوتے ہیں ۔

پہلا بیان یہ تھا کہ مختلف ادیان کے درمیان حقائق بٹے ہوئے ہیں اور ہر دین حقیقت کے کچھ حصّوں پر مشتمل ہے لیکن یہ بیان اس سے ہٹ کر اس چیز کو بتاتا ہے کہ حقیقت صرف ایک ہے ؛اور بہت سے راستے اس تک پہونچتے ہیں جو مختلف ادیان کی شکل میں پائے جاتے ہیں اس کی مثال اس طرح ہے مثلاً تہران تک پہونچنے کے لئے بہت سے راستے پائے جاتے ہیں اور لوگ مختلف راستوں سے تہران میں داخل ہو سکتے ہیں شمال، جنوب ،مشرق اورمغرب غرض کہ تہران جانے کے لئے ہر طرف سے راستہ ہے جس کوہر انسان چاہتا ہے وہ صرف ایک ہے لیکن مختلف راستوں سے جیسے اسلام ،مسیحیت ،یہودیت ،بودھ ازم،اور مختلف ادیان اس حقیقت تک پہونچا جا سکتا ہے۔

یہ بیان بھی پہلے بیان کی طرح دو طرح کا افراطی اور اعتدالی رجحان رکھتا ہے جو لوگ افراطی(شدت پسند)اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ تمام راستے کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے برابر ہیں اور ان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے۔ اعتدالی رجحان اس بات کا قائل ہے کہ اگر چہ راستے مختلف ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں لیکن مختلف راستوں میں دوری اور نزدیکی پائی جاتی اور کچھ پیچ وخم بھی رکھتے ہیں اور ان کے درمیان کمی اور زیادتی پائی جاتی ہے ایک راستہ بہت لمبا ہے تو ایک بہت چھوٹا ہے ایک بالکل سیدھا ہے تا دوسرا ٹیڑھا ہے ؛مثلاً اسلام مسیحیت کی نسبت سیدھا اور بہت کم فاصلہ رکھتا ہے لیکن اگر کوئی مسیحیت اور اس کے دستورات و احکام پر عمل کرتا ہو اور اعتقاد رکھتا ہو تو وہ بھی حقیقت تک پہونچ سکتا ہے ۔

۸۱

اس دوسرے بیان کو بھی ثابت کرنے کے لئے کبھی شعراء کے اشعار اور کبھی عرفاء کی مثالوں کا سہارا لیا جاتا ہے مثلاً شیخ بہائی کا یہ شعرپیش کیا جاتا ہے:

ہر جا کہ روم پر تو کاشانہ تو ئی تو

ہردر کہ زدم صاحب آنخانہ توئی تو

در میکدہ و دیر کہ جانانہ توئی تو

مقصود من از کعبہ و بتخانہ توئی تو

مقصود توئی کعبہ وبت خانہ بہانہ

یعنی میں جس جگہ بھی جاتا ہوں وہاں تیرا ہی جلوہ نظر آتا ہے جس گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں اس گھر کا مالک تو ہی ہے، بت خانہ اور میکدہ کے اندرمحبوب تو ہی ہے کعبہ اور بت خانہ سے میری مراد تو ہی ہے ؛ کعبہ اور بت خانہ تو ایک بہانہ ہے ورنہ حقیقت میں میرا مقصود تو ہی ہے خلاصہ یہ کہ اگرفکر و نظر کے پردہ کو چاک کیا جائے تو مسجد ، بت خانہ ، گرجا گھراور میکدہ ہر جگہ رخ محبوب کی تصویر دکھائی دیگیعباراتنا شتیّٰ وحسنک واحد''یعنی عبارتیں الگ الگ ہیں لیکن حسن سب کا ایک ہی ہے یعنی اگر چہ کلام سب کا الگ الگ ہے لیکن سب کے سب ایک ہی رخ زیبا کی تعریف کر رہے ہیں ۔

۸۲

دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر کاتجزیہ

کیا یہ بیان قابل قبول ہے اور اس کو سند قرار دیتے ہوئے ہم دینی پلورالزم کو قبول کر لیں ؟جو کہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام ہو یامسیحیت یا یہودیت و زر تشتی سب کے سب ایک ہی حقیقت اور سب کے سب انسان کو نیکی و کمال کی طرف پہونچاتے ہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ تصوّر اور ثبوت کے مرحلہ میں ایسا فرض کرنا ممکن ہے ،مثلاً ایک ایسے دائرہ کو فرض کیجئے کہ جس کے چاروں طرف سے مختلف شعائیںاس کے مرکز تک پہونچتی ہوں اور تمام شعاعیں ایک ہی نقطہ پر ختم ہوتی ہوں، لیکن کیا موجودہ ادیان کے بارے میں بھی ایسا کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسی طرح ہیں جیسا ان کا وہم و خیال ہے؟ تھوڑی سی بھی دقت اور توجہ کی جائے تو معلوم ہو جائیگا کہ ایسا نہیں ہے ( اور مختلف ادیان میں کوئی بھی یکسانیت نہیں ہے )۔سب سے پہلا مسئلہ جو کہ اسلام میں ہے وہ توحید اور خدا کو یکتا قبول کرنے کا ہے اسلام کی سب سے پہلی آواز ہے:قولوا لا اله ٰالاّ الله تفلحوا تم لوگ کہو کہ خدا ایک ہے تاکہ کامیاب ہو جائو !

لیکن مسیحیت کا نظریہ اس مسئلہ توحید میں کچھ اور ہے جس کی حکایت خدا وند عالم یوں کر رہا ہےا نّ اللہ ثالث ثلاثة'' یقیناً خدا تین میں سے ایک ہے ،یعنی ان کے یہاں تین خدا ہیں ؛ایک باپ کہ خدائے اصلی کہ جس کو خدائے اب کہتے ہیں ، ایک بیٹا کہ جو خدائے ابن ہے، اور تیسرا خدا روح القدس ہے ۔بعض عیسائی قائل ہیں کہ تیسرا خدا حضرت مریم ہیں ۔

۸۳

یہ اعتقاد جس کو تثلیث کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایسا اعتقاد ہے جس کی خدا نے سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے اور اس کو رد کیا ہے اس بات سے لوگوں کو روکا ہے اور اس کے ماننے والوں کو کافر کہا ہے،

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:( لقد کفرالذین قالو انّ الله ) ۔۔''( ۱ ) جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے یقیناًوہ لوگ کافر ہیں اور اللہ کے علاوہ کوئی بھی خدا نہیں ہے؛ اگر یہ لوگ اپنے قول سے باز نہیں آئینگے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر دردناک عذاب ہوگا ۔

مسیحیوں کے اس عقیدے کو (جو وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں یعنی ان کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں ) خدا نے بہت ہی عجیب جانا ہے، قرآن کریم میں ارشادہورہاہے :وقالوااتخذالرحمٰن ولداً۔۔''( ۲ ) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے ایک فرزند بنا لیا ہے یقیناًتم لوگوں نے بہت سخت بات کہی ہے قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اورزمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں؛

____________________

(۱) سورہ مائدہ: آیہ ۷۳۔

(۲) سورہ مریم :آیہ ۸۸تا ۹۰۔

۸۴

سچ مچ قرآن کی یہ تعبیر کتنی سخت ہے ؟تثلیث کا اعتقاد اور یہ کہ عیسی خدا کے بیٹے ہیں اس حد تک غلط ہے اور بربادی کا سبب ہے کہ اس کے اثر سے قریب ہے کہ تمام آسمان اور زمین نیز پہاڑ تباہ و برباد ہو جائیں ۔کیا اس طرح کی تعبیر کے بعد بھی یہ کہنا صحیح ہے کہ تثلیث کا اعتقاد اور توحید کا اعتقاد دونوں ایک حقیقت کی طرف لے جانے والے ہیں ! ایک مذہب اسلام ہے جو کہتا ہے کہ سور کا گوشت کھانا حرام اور نجس ہے اور دوسرے مذاہب یہ کہتے ہیں کہ سور کا گوشت لذیذاور اچھا ہے اور اس کا کھانا جائز ہے؛ اسلام کہتا ہے کہ شراب اور الکحل نہایت بری چیز ہے اور شیطانی پھندے ہیں جب کہ مسیحیت کہتی ہے کہ بعض شراب کے کچھ حصہ میں خدا کا خون ہوتی ہے، کشیش (عیسائی عالم ) لوگ عشائے ربّانی کے مراسم میں روٹی کے ٹکڑے کو شراب میں ڈبوتے ہیں پھر سب منھ میں ڈالتے اور کہتے ہیں کہ شراب جب انسان کے خون میں جاتی ہے تو خدا کا خون بن جاتی ہے ؛عاقل اور بالغ انسان کوجانے دیجئے ایک معمولی بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ یہ دو دین اس حالت میں کسی بھی صورت میں ایک نقطہ اور منزل پر نہیں پہونچ سکتے ؛آپ خود دیکھیں ایک مذہب کہتا ہے کہ جب تک شراب نہیں پیوگے تم خدا کے ماننے والے نہیں ہو سکتے ہو جب کہ دوسرا مذہب یہ کہتا ہے کہ شراب پینا شیطانی عمل ہے ؛اب اس کے بعد بھی ہم کہیں کہ دونوں مذہب ایک مقصد تک لے جاتے ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ ایک احمقانہ بات ہے اور افسانہ و شعر سے مشابہ ہے نہ کہ واقعیت اور حقیقت سے ؛مگر یہ کہ خدا اور شیطان کو بھی ایک جانیں اور کہیں کہکعبہ اور بت خانہ سے مراد فقط تو ہی ہے

۸۵

سچ مچ یہ بہت ہی تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اس کے باوجود'' بہت سے سیدھے راستوں'' کے قول پراصرار کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ سب اختلاف اور تعارض جو ادیان میں پایا جاتا ہے ان سب کا نتیجہ ایک ہی ہے ؛یعنی سب کے سب آخر میں ایک مقصد تک پہونچتے ہیں ؛آخر یہ کیسے ممکن ہے اسلام کا نظریہ کہخدا موجود ہےاور بودھ ازم کا نظریہ یہ کہکوئی بھی خدا موجود نہیں ہے' 'اور پھر بھی دونوں ایک حقیقت تک پہونچتے ہوں؟!یہ کیسے ہو سکتا ہے حضرت علی کو بھی مانا جائے اور معاویہ کو بھی ؛حضرت امام حسین کو بھی قبول کریں اور یزید و شمر ذی الجوشن کو بھی؟! اور یہ اعتقاد رکھیں کہ سب کے سب حق پر ہیں اور جس کے پیچھے بھی چلا جائے وہ سیدھا راستہ ایک ہے اور منزل مقصود تک پہونچانے والاہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک پورب کو جاتا ہے اور ایک پچھم کو، ایک اتر کو جاتا ہے اوردوسرا دکھن کو، اور ہر ایک کا الگ الگ راستہ ہے اور پھر بھی اسی بات پر اصرار ہے کہ سب کے سب سیدھے راستے پر ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں ۔

۸۶

شعر:

ترسم نہ رسی بہ کعبہ ای اعرا بی

این رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است

اے اعرابی !میں ڈرتا ہوں کہ تو کعبہ کو نہیں پہونچے گا اس لئے کہ جس راستے پر تو جا رہاہے وہ راستہ ترکستان کو جاتا ہے ۔

بہر حال پلورالزم دینی کی یہ دوسری تفسیر جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ادیان اور مذاہب ہم کو ایک منزل مقصود تک لے جاتے ہیں اگر چہ اشعار کے لحاظ سے ایک اچھی چیز ہے ہے لیکن حقیقت اور واقعیت سے خالی ہے اور اس کا باطل ہوناسورج سے بھی زیادہ روشن ہے ۔

دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر

تیسرابیان جو دینی پلورالزم کے لئے کیا جاتا ہے وہ اصل میں ایک معرفت شناسی پر منحصر ہے اس بنیاد پر وہ تمام چیزیں جو کہ غیر حسیّ اور غیر تجربی ہیں یعنی ان کو محسوس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا تجربہ کیا جا سکتا ہے ؛وہ بے معنی ہیں اور نفی اثبات کے لائق نہیں ہے اگر چہ اس کی تفصیل معرفتی شناخت سے مربوط ہے لیکن اس کی مختصر وضاحت یہاں پر کی جارہی ہے :

معرفت شناسی کی بحث میں بعض (پوزٹیوسٹ)کہتے ہیں کہ جو پہچان اور معرفت والی چیزیں ہیں وہ دو حصّوں میں منقسم ہوتی ہیں

۸۷

پہلی قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ محسوس کی جاسکتی ہیں اور ان کو دیکھا جا سکتا ہے جیسے ہم کہیں کہ چراغ روشن ہے یہ بات تجربہ اور محسوس کرنے کے قابل ہے آپ بٹن کو دبائیں گے تو پورا کمرہ تاریک ہو جائیگا اور کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا پھر آپ بٹن کو دبائیںگے تو پورا کمرہ جگمگااٹھّے گا اور آپ جس چیز کو بھی دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں ،یا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آگ جلاتی ہے تو یہ تجربہ کرنے والی چیزہے ؛اور اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے؛ اگر آپ اپنے ہاتھ کو آگ کے قریب لے جائیں گے تو ہاتھ جل جائے گا۔ اس طرح کی چیزیں جو تجربہ کی جا سکتی ہیں اور ان کو محسوس کیا جا سکتا ہے تو ان کے متعلق یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ سچ ہے یا یہ جھوٹ ؟حق ہے یا باطل؟ صحیح ہیں یا غلط؟ کیونکہ معلوم کرنے کا راستہ یہی حس اور تجربہ ہے ۔

دوسری قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ حس اور تجربے میں نہیں آسکتی ہیں یا وہ تجربے کے لائق نہیں ہیں ان چیزوںکا اقرار یا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے؛ یا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں کچھ معنی نہیں رکھتی ہیں ، اوران میں سچ یا جھوٹ نہیں پایاجا تا ہے لہذٰا ایسی چیزوں کے بارے میں کچھ بھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جو افراطی (شدّت پسند) پوز یٹوسٹ ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی چیزیں اصلاً بے معانی ہیں ان کا ہونا اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہاس چراغ کی روشنی کا مزہ کھٹّا ہےیا یہ کہیں کہاس چراغ کا نور انگلینڈ کا بادشاہ ہےجس طرح یہ دونوں چیزیں بے معنی ہیں اور کچھ مطلب نہیں رکھتی ہیں اسی طرح وہ چیزیں جو کہ تجربہ کے لائق نہیں ہیں اور محسوس نہیں کی جا سکتی ہیں وہ بھی ایسی ہی ہیں ؛دین سے متعلق باتیں بھی یہی حکم رکھتی ہیں مثلاً یہ بات کہ خداموجود ہے، خدا ایک ہے یا خدا تین ہے یا خدا نہیں ہے یہ سب بھی بے معنی اور بے مفہوم باتیں ہیں کہ ان کے حق یا باطل ہونے یا سچے اور جھوٹے ہونے کا دعویٰ کرناغلط اوربیکارہے اور کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس ایک کو مانتے ہیں چاہے آپ یہ کہیں کہ خدا ایک ہے یا یہ کہیں کہ خدا تین ہے دونوں باتیں فائدہ کے اعتبار سے برابر ہیں اور کچھ بھی معنی و مفہوم نہیں رکھتی ہیں ،یہ سب باتیں نہ ہی پیٹ کی غذا بنتی ہیں اور نہ ہی جسم کا لباس اور نہ ہی انسانی زندگی کی کسی بھی مشکل کا حل پیش کرتی ہیں ۔

۸۸

لیکن جو پوزیوٹیسٹ اعتدال پسند ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں ؛جن کو اصطلاح میں ما وراء طبعت کہا جاتا ہے ؛اس طرح کی چیزیں بے معنی نہیں ہیں ؛ لیکن چونکہ ہماری پہونچ سے باہر ہیں اور ہم ان کو محسوس اور ان کا تجربہ نہیں کر سکتے لہذٰا ان کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ثابت ہیں یا نہیں اس نظریہ کا نتیجہ نسبیت اور شکاکیت ہے یعنی غیر حسی اور غیر تجربی چیزوں کے بارے میں دینی باتوں کا بھی شمار انھیں میں ہوتا ہے ،یا یہ کہیں گے کہ ان کے حق یا باطل ہونے کو ہم نہیں جانتے ہیں ؛کیونکہ وہ ہمارے تجربے میں نہیں ہیں ، یایہ کہیں گے کہ ان کا جھوٹ اور سچ ہونا معاشرہ اور زمانے کے اعتبار سے فرق کرتا ہے کبھی کبھی سارے حق بھی ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی سب کے سب باطل بھی ہو سکتے ہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم ان کو کس شخص ،کس زمانہ،کس معاشرہ اور کس ماحول کی نسبت دیکھتے ہیں ۔کبھی یہ کہا گیا ہے کہ افکار واقدار کے مفاہیم یا وہ چیزیں جن میں اچھائی اور برائی ہو سکتی ہے ان میں حق اور باطل نہیں پایا جاتا ہے اور اس طرح کی خبریں جیسے ' عدالت کے ساتھ انسان کو سلوک کرنا چاہئیے' ظلم نہیں کرنا چاہئیے' سچ کہنا اچھی بات ہے' جھوٹ بولنا بری بات ہے یہ سب باتیں احساس اور سلیقے اور جذبات وغیرہ سے متعلق ہیں ؛یہ اسی طرح ہے کہ جیسے ہر شخص اپنے اپنے ذوق و سلیقہ کے مطابق رنگ کو پسند کرتا ہے،

۸۹

اگرچہ یہ باتیں معنی رکھتی ہیں لیکن ان پر کوئی دلیل اور برہان نہیں ہے ۔

بہر حال دینی پلورالزم کی تیسری تفسیرکے مطابق ادیا ن اور دینی باتوں میں اختلاف کی مثال یا رنگ جیسی چیز ہے کہ مطلق طور سے نہیں کہا جا سکتا کہ سبز یا زرد رنگ اچھا ہے یا ایک اچھا ہے اور دوسرا خراب ہے بلکہ ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ دونوں اچھے اور بہتر ہیں ۔ یا یہ کہیں کہ ہم چونکہ ان کی حقیقت سے نا آشنا ہیں ؛اور ان کے قبول یا ردکرنے پر ہم کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے لہذٰا ان کے بارے میں ہم کو جھگڑا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ہم کو اس بات کا اعتقاد رکھنا چاہئیے کہ سب کے سب برابر ہیں ان ادیان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے اور جس کسی کو بھی چاہیں اختیار کر لیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر کاتجزیہ

اس تفسیرپر نقد وتبصرہ کے لئے جو راستہ ہمارے پاس ہے وہ یہ کہ اس کے معرفت شناسی ہی کے مبنیٰ اور اصول کو بحث کا موضوع قرار دیں اورا س میں غور وفکر کریں ؛اس کے لئے ہم کو سب سے پہلے اس بات پر توجہ کرنی چاہئے کہ معرفت شناسی کی بحث میں ہم کو مندرجہ ذیل سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

(۱) جیسا کہ افراطی''پوزیوٹیسٹدعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اشیاء جو کہ واقعی اعتبار سے حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں وہ بے معنی ہیں ؟

(۲) کیا وہ باتیں جو کہ افکار واقدار کے مفاہیم پر مشتمل ہیں اور کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے یا ان کے اچھے یا برے ہونے کو بتاتے ہیں ؛ ان کو سچ یا جھوٹ سے متصف نہیں کیا جا سکتا اور ان کے بارے میں حق و باطل کو پیش نہیں کیا جا سکتا ؟

(۳)کیا عام طور پر ہر معرفت چاہے صحیح اورحق ہونے سے متعلق ہو یا غلط اور باطل ہونے سے، نسبی ہے اور کوئی بھی بات مطلق و پائدار اور یقینی نہیں ہے ؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ ہم ان تمام جگہوں پر یقینی باتوں کو جان سکتے ہیں ۔

(۴) خاص طور پر دینی معرفت کیا دینی معرفت کے متعلق، یقینی ، مطلق اندازمیں اور ثابت طریقے سے پائی جاتی ہے؟ یا یہ کہ تمام دینی معرفیتں خود ہماری فہم اور سمجھ کی تابع ہیں کہ جسے آج کی اصطلاح میں ہماریمختلف قرائتیںکہا جاتا ہے ۔ یہ بحث وہی ہرمنو ٹکاور دینی باتوں کی ہر منو ٹک تفسیر کی بحث ہے۔

دینی پلورالزم کا یہ تیسرا بیان آیا صحیح ہے یا غلط ؟پہلے ان مذکورہ سوالات کے جواب واضح ہوںکہ انشااللہ ہم آئیندہ بحث میں جن کو بیان کریں گے۔

۹۰

دینی پلورالزم (۳)

پلورالزم نظریہ کی پیدائش میں نفسیاتی عوامل پر دوبارہ ایک سرسری نظر

پچھلے جلسہ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا تھا کہ پلورالزم کی فکر پیدا ہونے میں جو اسباب و عوامل ہیں ان میں ایک نفسیاتی سبب بھی ہے جو کہ بہت سے لوگوں 'خاص کر جوانوں 'میں پایا جاتا ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے ادیان و مذاہب پائے جاتے ہیں اور بہت سے لوگ خلوص اورسچائی کے ساتھ اس کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سب لوگ جہنم میں جائیں گے؟ اور فقط ایک مختصر سی جماعت جو کہ مسلمانوںہیں وہ بھی مسلمانوں کا ایک خاص گروہ (شیعہ)ہی جنت میں جائیں ؟ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ شیعوں میں بھی وہی لوگ جن سے کوئی گناہ نہ ہوا ہو یا اگر گناہ ہو گیا ہو تو انھوں نے توبہ کر لی ہو بس وہی جنت میں جائیں گے؛ چونکہ یہ بات عام طور سے لوگوں کے لئے ناممکن لگتی ہے اور وہ اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں لہذا یہ مسئلہ ان کے ذہن میں تقویت کرجاتا ہے کہ تمام دین کے ماننے والے یا کم سے کم وہ لوگ جو کہ اپنے دین کے پابندبہیں اور ان کے احکام پر عمل کرتے ہیں وہ بھی نجات کے مستحق ہیں اور بہشت میں جائیں گے ۔

پہلے جلسہ میں ہم نے اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ اس شبیہ کو ذہن سے دور کرنے کے لئے اس نکتہ کی طرف توجہ دینا ہوگاکہ جس وقت ہم یہ کہتے ہیں :''دین حق فقط اسلام ہے اور اس کی پیروی انسان کے لئے کامیابی اور نجات کا سبب بنتی ہےاس کا نتیجہ اور لازمہ یہ نہیں ہے کہ دوسرے تمام انسان جہنم میں جائیں گے ۔بلکہ یہاں دوسرے تمام انسانوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (البتہ ان دو گروہوں میں اکثریت کس گروہ میں ہیں اور کون لوگ اقلیت میں ہیں یہ ایک حسابی بحث ہے جو کہ ہماری گفتگو سے مربوط نہیں ہے)،وہ دونوں گروہ یہ ہیں :

۹۱

( ۱ ) پہلے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو حق کو تلاش کرتے ہیں اور اس کی جستجو میں محنت ومشقّت کرتے ہیں ؛ اور واقعی طور سے اس بات کی کوشش میں ہیں کہ حق کو حاصل کر لیں لیکن کسی بھی سبب سے اس کو نہیں پا سکے ہیں ۔

( ۲ ) دوسرے گروہ میں وہ لوگ ہیں جوتحقیق کے حالات اور اسباب فراہم ہونے کے باوجود حق کو تلاش نہیں کرتے ہیں یا یہ کہ ان کے نزدیک حق واضح تھا کہ فقط مذہب اسلام حق ہے،پھر بھی اس کو قبول نہیں کیا جو لوگ جہنم میں جائیںگے یہی دوسرے گروہ والے ہیں ؛ لیکن پہلے گروہ والے جنھوں نے حق کے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے یا اس کو پہچاننے میں غلطی کر بیٹھے ہیں اور حق تک پہونچنے سے رہ گئے ہیں ان کے ساتھ دوسری طرح سے سلوک کیا جائیگا ان افراد کو علم فقہ و کلام کی روشنی میں مستضعف] کہ جس سے مراد یہاں پر مستضعف فکری ہے[ کہا جا تا ہے اگر ان لوگوں نے انھیں حقائق پر عمل کیا ہے یا جو اپنی عقل سیایک خاص دین کی تعلیمات کے ذریعہ ان کو حاصل کیا ہے تو وہ لوگ اپنے نیک عمل کی جزا پائیں گے ۔

البتہ یہ بات کہ کیا یہ لوگ جہنم کے نچلے طبقہ میں جگہ پائیں گے ،یا جنت و جہنم کے درمیان ان لوگوں کے لئے کوئی بیچ کا حصّہ مخصوص ہو گا ،یا یہ کہ قیامت کے میدان میں ایسے لوگوں کے لئے سوال و جواب کا کوئی امتحان منعقد ہوگا ،یہ سب دوسرے مسائل ہیں ( جو کہ تفصیلی بحث چاہتے ہیں ) لیکن بہر حال یہ گروہ ابدی عذاب میں گرفتار اور مبتلا نہیں رہے گا ۔

۹۲

آیہ''( ومن یبتغ غیرالاسلام دیناً ) کی توضیح

جو سوال اس جگہ سامنے آتا ہے ( در اصل گذشتہ مطالب کو مختصراً میں نے اس سوال کو پیش کرنے کے لئے بیان کیا تھا ) وہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں خدا وند عالم فرماتا ہے :( ومن یبتغ غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منه ) ( ۱ ) اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کو تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ قیامت کے روز گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو گا ۔یہ آیہ کریمہ بالکل واضح انداز میں اس بات کو بتاتی ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین قابل قبول نہیں ہے جب کہ آپ کے بیان کے مطابق دوسرے ادیان بھی کم و زیادہ کچھ نہ کچھ قبول کئے جائیں گے اس مشکل کو کس طرح حل کیا جائے گا ؟

یہ آیہ ایک تفسیری بحث رکھتی ہے اگر اس کی تفصیل میں جائیں گے تو اصلی بحث سے خارج ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اس مطلب کو مختصراً عرض کرتے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ آل عمران : آیہ ۸۵۔

۹۳

وہ دین جو کہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں لوگوں کے لئے آیا تھا ؛حقیقت میں وہ بھی دین اسلام تھا اور لوگوں کے لئے ضروری تھا کہ اس دین پر عمل کریں جب تک کہ کوئی

نئی شریعت نہ آجائے ۔جس وقت حضرت موسیٰ شریعت لیکر آئے تو حضرت ابراہیم کی شریعت منسوخ ہو گئی ؛لیکن حضرت موسیٰ کا دین بھی دین اسلام تھا فرق صرف اتنا تھا کہ بعض احکام جو حضرت ابراہیم کی شریعت میں تھے وہ منسوخ ہو گئے ؛حضرت موسیٰ کی شریعت بھی حضرت عیسیٰ کی شریعت آنے کے بعد منسوخ ہوگئی ؛اور لوگوں پر ضروری ہو گیا کہ وہ نئی شریعت کے مطابق جو کہ حضر ت موسیٰ سے کچھ فرق رکھتی تھی اس پر عمل کریںلیکن پھربھی حضرت عیسیٰ کا دین وہی تھا جو کہ حضرت موسیٰ کا دین تھا اور آخر کار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے سے پچھلی شریعتیں منسوخ ہو گئی ؛اور لوگوں پر ضروری ہو گیا کہ لوگ شریعت محمدی پر عمل کریں ؛اور ہم جانتے ہیں کہ شریعت محمدی وہی دین اسلام ہے؛ لیکن یہ شریعت کچھ خاص اورا ہم قوانین و احکام لیکر آئی جو کہ اس شریعت کو دوسری شریعتوں ممتاز اور جدا کرتی ہے یہاں پر اسلام نے ایک خاص معنی پیدا کر لئے اور وہ وہی معنی ہیں جن کو ہم سمجھتے ہیں ۔ اس وضاحت سے یہ بات روشن ہو گئی کہ اسلام مختلف مصداق رکھتا ہے اسلام کا ایک مصداق شریعت ابراہیمی ہے ؛اس کا دوسرا مصداق حضرت موسیٰ کی شریعت ہے اسی طرح دوسرے اور مصداق بھی ہیں ؛ لہذااس آیہ کا مطلب اور مفہوم یہ ہوا کہ جو کوئی بھیان مصادیق اسلام سے جس مصداق کے زمانہ میں ہو تواس کو وہی قبول کرنا ہوگا اور دوسرا دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا؛ بہر حال اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ جس کسی نے بھی حضرت موسیٰ، عیسیٰ،یا ابراہیم کے دین کو قبول کیا ہے اس کا دین خدا کے یہاں قابل قبول ہے لہذا

۹۴

اس آیت کا یہ مطلب کہ (اس زمانے میں جو کوئی بھی اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کو قبول کرے گا اس کو خدا قبول نہیں کرے گا )اس کے معنی یہ ہیں کہ اس زمانے میں بھی خدا نے جو دین پیغمبروں کے ذریعہ بھیجا تھا اس کو بھی قبول کرے اور ان خاص احکام کو بھی جن کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لیکر آئیں ہیں قبول کرے۔البتہ ایک شریعت کے ذریعہ دوسری شریعت کے احکام کا نسخ ہونا مخصوص نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ ایک ہی شریعت اپنے کچھ پچھلے احکام کو نسخ کر دے ؛مثلاً شروع اسلام ،میں مسلمانوں کو حکم تھا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں اور یہ حکم یہاں تک مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے بعدتک باقی رہا؛ لیکن جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کی اور مدینہ آئے تو خدا کے حکم سے قبلہ بیت المقدس سے کعبہ کی سمت ہو گیا۔ لہذٰا بعض احکام کا نسخ ہونا اصل دین کے بدلنے کا سبب نہیں ہوتا ہے؛ اصل دین توحید، نبوت ،قیامت کا اعتقاد ہے۔ تمام انبیاء پر ایمان رکھنا ہی نبوت کا اعتقاد ہے قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے :( آمن الرسول بما انزل الیه من ربّه'' ) ( ۱ ) رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے پرور دگار کی طرف سے نازل کی گئی ہیں اور مومنین بھی سب کے سب اللہ اور

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیہ ۲۸۵

۹۵

اس کے ملائکہ ،رسول اور ان کتابوں پر جو وہ لیکر آئے ان پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم رسولوں کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہیں یعنی ہم کسی بھی پیامبر کی تکذیب

نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا حق رکھتے ہیں اور سب کو واجب الا طاعت سمجھتے ہیں البتہ اگر موسیٰ، عیسیٰ بھی اس زمانے میں ہوتے تو وہ بھی شریعت محمدمصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرعمل کرتے۔

دین اختیار کرنے میں ہماری ذمہ داری اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا حکم

لہذٰا اس زمانے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن ،پیغمبر اور ائمہ علیھم السلام کے احکام پر عمل کریں اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے حکم پر عمل کریں گے تو وہ قبول نہیں ہوگا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دین حقیقی طور پر پچھلے ادیان سے جدا ہے اگر چہ ادیان بعض احکام میں جدا ہیں اور اختلاف رکھتے ہیں لیکن کلی اصول اوربہت سے احکام میں سارے ادیان ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اوروہ سب اسلام میں ہیں ،لہذٰا اگر کوئی شخص حق کو پہچاننے یا مشخص و معین کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ مستضعف ہے اور اس نے جتنا پہچانا ہے اتنا ہی اس کو عمل کرنا چاہئے ،اسی پر اس کو ثواب ملے گا لیکن اگر کسی نے کسی زمانے میں حق کو پہچانا اور اس کے باوجود اس کی مخالفت کی اور دشمنی اختیار کی تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلے گا، یہ مطلب دعائے کمیل کے اس فقرے سے بھی ظاہر ہوتا ہے، مولا علی فرماتے ہیں :اقسمت ان تملاهامن الکافرین من الجنة والناس اجمعین وان تخلدفیها المعاندین ائے خدا ! تو نے قسم کھا کر کہا ہے کہ اس جہنم کو تمام جن و انس کہ جو کافر ہوںگے بھر دوں گا اور وہ لوگ جو تیرے دین سے دشمنی رکھتے ہیں

۹۶

ان کو اس جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رکھے گا ، بہر حال جو لوگ بھی خدا کے دین سے دشمنی اور عناد رکھتے ہیں وہی لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، لیکن اگر کوئی شخص عناد و دشمنی نہیں رکھتا ہے اگر وہ عذاب میں مبتلا بھی ہوگا تو اسی مقدار میں جتنا اس نے گناہ اور کوتاہی کی ہے، مستضعفین بھی اسی مقدار میں عذاب سے معاف رہیں گے جتنا وہ حق کو نہیں پہچان سکے ہیں ۔ اس مقام پر جس مطلب کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اگر مسلمانوں (شیعوں) کے علاوہ جو لوگ جہنم میں نہیں جائیںگے تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کا دین حق پر تھا بلکہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس عذر ہے ؛البتہ جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے جو لوگ پچھلی شریعت جیسے موسی یاٰ عیسیٰ کے دور میں زندگی بسر کر کر رہے تھے ان کی ذمہ داری اسی شریعت پر عمل کرنے کی تھی۔ بہر حال دین حق اور صراط مستقیم صرف ایک ہی ہے ،او رجو لوگ اس ایک صراط مستقیم یعنی اسلام کے علاوہ کسی دین پر رہ کر جہنم میں نہ جائیں گے تو اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ دین حق اور صراط مستقیم (سیدھے اور صحیح راستے) ایک سے زیادہ ہیں ۔

نفسیات سے متعلق ایک نکتہ

ایک نکتہ اس جگہ پر بہت اہم ہے وہ یہ کہ انسان ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ پہلے کسی چیز کی خوبی اور اچھائی کے بارے میں دلیل کو تلاش کرے اور جب دلیل مل جائے تو اس چیز کو اختیا رکر لے بلکہ کبھی کبھی مسئلہ اس کے بر خلاف ہوتا ہے یعنی پہلے کوئی چیز انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کو اچھی لگتی ہے ،اس کے بعد اس کے اچھے ہونے یا صحیح ہونے پر دلیل لاتا ہے؛ اس طرح کے موقعوںپر انسان اپنے دل کی حرکت کا تابع ہوتا ہے

۹۷

کبھی تو یہ اچھی اور صحیح چیز ہوتی ہے اور کبھی کبھی غلط ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ پہلے ان کا دل کسی چیز کو قبول کر لیتا ہے اس کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح بھی عقل کو دل کے ساتھ ہماہنگ کرلیں؛یعنی اس چیز کو ثابت کرنے کے لئے دلیل لاتے ہیں ۔یہ بات بہت سے ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے تھے؛ بہت سے لوگ ایسے نہیں تھے کہ پہلے تحقیق کریں اور اسلام کے اعتقاد کی تلاش و جستجو کریں اور جب تحقیق و جستجوکرلیا ہو اور توحید و خدا کی حقانیت ان کے لئے ثابت ہو گئی ہو تب ایمان لے آئے ہوں ؛بلکہ انھوں نے صرف رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رفتار اور ان کے اخلاق کو دیکھا تو ان کے دل نے کہا کہ وہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح ان کے ساتھ ہوں لہٰذاوہ ان کے ساتھ ہوگئے ؛پہلے ان کے دل نے قبول کیا اس کے بعد پھر اس پر دلیل پیش کی ۔یہ بات باطل میں بھی پائی جاتی ہے ؛یعنی چونکہ انسان ایک غلط چیز کی طرف رجحان رکھتا ہے اور اس کا دل اس کو چاہتا ہے تو وہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیہ کرے؛ بہت سے لوگوں نے گناہ ،اور برائی کی عادت کر لی ہے ان کا دل چاہتا ہے کہ ہر طرح آزاد رہیں ؛اور جس چیز کا بھی دل چاہے اس کو انجام دیں ؛ظاہر سی بات ہے ایسے لوگ اس بات کے لئے تیار نہیں ہیں کہ حساب و کتاب اور قبر و قیامت ہو؛ان کا دل اس بات کو گوارانہیں کرتا اور نہ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی عمر کا ہر لمحہ اور ان کی زندگی کا چھوٹا سا عمل بھی کسی کے زیرنظر رہے، اور ہر چیز کے بارے میں سوال و جواب ہوگا اسی لئے ان کا دل چاہتا ہے کہ حساب و کتاب نہ ہو ؛اور ان خواہشوں کے لئے انسان کوشش کرتا ہے کہ قیامت اور آخرت کے انکار کے لئے دلیل تلاش کرے، قرآن میں اسی سے متعلق خدا فرماتا ہے :( ایحسب الانسان ان لن یجمع عظامه بلیٰ ) ( ۱ ) کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر پائیں

____________________

(۱) سورہ قیامت : آیہ ۳ الیٰ ۵ ۔

۹۸

گے؟ یقیناًہم تو اس بات پر بھی قدرت رکھتے ہیں کہ ان کی انگلیوںکے پور کو بھی از سر نو ویسے ہی درست کر دیں؛ بلکہ انسان تو فقط یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے وہ انسان جو قیامت کا انکار کرتا ہے واقعاً کیا وہ فکر کرتا ہے کہ ہم اس کو دوبارہ زندہ نہیں کر پائیں گے ؟ اگر وہ تھوڑی سی بھی فکر کرے اور عقل وفہم سے کام لے تو اچھی طرح سمجھ سکتا

ہے کہ وہ خدا جس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا کیا دوبارہ اسی انسان کو زندہ نہیں کر سکتا ہے یقیناًیہ کام پہلے سے زیادہ آسان ہے چونکہ شروع میں انسان کچھ بھی نہیں تھا اور خدا نے اس کو پیدا کیا اور اب تو کم سے کم گوشت اور ہڈیّ تو ہے اگرچہ بوسیدہ اورسڑ گل گئی ہیں لہذٰا انسان کی عقل اس بات کو آسانی سے قبول کر لیتی ہے کہ جس ہاتھ نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی قدرت دوبارہ اسی بوسیدہ اور سڑی گلی ہڈیوں اورگوشت کو جمع کر کے زندہ کر سکتا ہے، لہذٰا قیامت کے منکر اس حد تک اپنی بات پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ وہ صرف اس لئے کہ''بل یرید الانسان لیفجر امامه ''یعنی انسان چاہتا ہے کہ آزاد رہے کسی کی قید و بند میں نہ رہے ،بلکہ اسکو اس بات کی بھی آزادی حاصل رہے کہ جس گناہ اوربرائی کو بھی اس کا دل چاہے اس کو انجام دے ؛اور اس کے کام میں کوئی بھی حساب و کتاب نہ ہو ،بس اس جگہ پہلے اس کے دل نے فتویٰ دیا کہ آخرت اور قیامت وغیرہ نہیں ہے اس کے بعد اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس بات پر دلیل لائے اجتماعی مسائل اکثر ایسے ہی ہیں کہ جن میں بجائے اس کے کہ دل عقل کے پیچھے ہو ،عقل دل کے پیچھے چلتی ہے ۔

۹۹

اس کا زندہ ثبوت ہمارے زمانہ میں پایا جارہا تھا وہ مرکس ازم کی طرف لوگوں کا رجحان اور اعتقاد تھا ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں نے پہلے جاکر ماٹریالزم اورڈیا للٹک کے اصول پر بحث اور جستجو کی ہو اور دلیل و برہان سے ان کے لئے ثابت ہوا ہو کہ مادہ کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے اورمارکسی اقتصاد اور اس سے متعلق سارے مسائل صحیح اور درست ہیں ۔میں خود ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ مسلمان نمازی اور روزہ دار تھے لیکن مارکسسٹ تھے اور ان کی فکر تھی کہ یہ دونوں چیزیں (اسلام اور مارکس ازم) جمع ہو سکتی ہیں ۔ آخر ان لوگوں نے مارکیزم کی طرف رجحان کیوں پیدا کر لیا تھا ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے سماج اور عوام کے درمیان ظلم و ستم اور دولت و ثروت کی ذخیرہ اندوزی کو دیکھا وہ اس بات کو دیکھ رہے تھے کہ کچھ لوگ دولت کی زیادتی کے سبب اس بات سے لا علم تھے کہ اس کو کس طرح سے خرچ کیا جائے ،اس کے مقابلے میں کچھ لوگ بہت ہی فقیری اور مفلسی میں زندگی بسر کر رہے تھے اس وقت ان لوگوں نے سوچا کہ یا تو سرمایہ داری کو قبول کر لیں یا مارکس ازم کو قبول کر لیں ،سرمایہ داری کا انجام معاشرہ میں یہی واضح اور افسوسناک طبقاتی فاصلہ تھا

لہذٰا ان لوگوں نے مارکس ازم کو قبول کر لیا ؛اس کے بعد مارکس ازم کو قبول کر لیتے تھے تو

رفتہ رفتہ علمی اصطلاح میں مارکس ازم کے لئے دلیل بھی تلاش کرنا شروع کر دیتے تھے اور آہستہ آہستہ ماٹریا لیزم اور مادہ کی اصالت کو قبول کر لیتے تھے پلورالزم کے بارے میں بھی بعض جگہوں پر اکثر لوگوں کی ا یسی ہی کہانی ہے پہلے ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بات کو کس طرح قبول کریں کہ تمام کے تمام لوگ جہنم میں جائیں گے اور بہت کم ہی لوگوں کو نجات حاصل ہوگی ؟ ہم اس بات کو قبول نہیں کرسکتے ،ایک ایسا راستہ اختیار کریں کہ دوسرے لوگ بھی جنت میں جا سکیں۔ اس فکر کے پیچھے ان لوگوں نے اس نظریہ کو پیش کیا کہ' 'سارے دین حق پر ہیں اور اس بات کی کوشش کی کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دلیل بنائی جائے۔

۱۰۰

کون سا فلسفی اور معرفت شناسی کا مبنیٰ پلورالزم کی طرف منتہی ہوسکتا ہے

لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ شروع میں ایک خاص فکری اور فلسفی مبنیٰ اختیار کرتے ہیں اور اسی مبنیٰ اور اصول کی بنیاد پر پلورالزم تک پہونچتے ہیں ، یہ نہیں کہ پہلے ان کے دل نے اس بات کو چاہا ہو پھرعقل نے دل کی بات کو مانا ہو اور عقل نے دل کے پیچھے حرکت کی ہو۔ اس جگہ ہم اس بات کا جائزہ لیںگے کہ وہ کون سے فلسفی مبنیٰ ہیں کہ اگر انسان ان سے شروع کرے تو پلورالزم تک پہونچ سکتا ہے؟

واقعیت کو جاننے اور حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے اگر کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ عقل ہر چیز کی حقیقت کو واضح اور کشف کر سکتی ہے توفطری طور سے ایک ہی مسئلہ میں وہ متعدد حقائق کو قبول نہیں کرے گا ؛ایسا شخص فطری طور پر حقیقت کو ایک ہی چیز جانتا ہے اور پھر چاہتاہے کہ اور اس ایک حقیقت کو دلیل و برہان سے حاصل کرلے۔ اگر اس کو ایک حساب یا فیزکس کا سوال دیں تو وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کا صحیح جواب صرف ایک ہی ہوگا ؛اگر وہ شخص جواب حاصل کر لیتا ہے تو جانتا ہے کہ یہ جواب یا تو صحیح ہوگا یا غلط ؛یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کے کئی جواب صحیح پائے جاتے ہوں ۔

لیکن اگر کوئی حقیقت کی شناخت کے مسئلہ میں اس بات کا اعتقاد رکھتا ہو کہ انسان کے پاس واقعیت تک پہونچنے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے جس وسیلہ کو بھی ،چاہے وہ عقل ہو یا تجربہ ،استعمال کرتا ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ حقیقت سے قریب ہو سکتا ہے لیکن واقعیت تک نہیں پہونچ سکتا ،اسی جگہ پر مختلف قسم کے نظریوںجیسے نسبیت، شکّاکیت اورپلورالزم وغیرہ میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے۔ آج اس نظریے کے طرفدار اور حامی پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ حقیقت ، انسان کی معرفت وعقل اور اس کے علم سے بالاترہے، انسان جس قدر بھی کوشش کرے وہ واقعیت کے صرف چند آثار کو حاصل کر سکتا ہے اور حقیقت کے کچھ ہی پہلو اور وجہیں اس کے لئے واضح اور ظاہر ہوتی ہیں ،پوری حقیقت کو حاصل نہیں کر سکتا ۔دنیا کے مختلف مکاتب فکر جیسے مکتب کانٹ،نیو کانٹ،شکّاکیت اور نسبیت اس جہت میں مشترک نظریہ رکھتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہہم کبھی بھی واقعیت کو مکمل طور سے درک نہیں کر سکتے۔

۱۰۱

اس فلسفی مبنیٰ کی بنیاد پرکہ جھوٹ اور سچ نسبی ہیں یعنی تمام خبریں واقعیت کے فقط کچھ حصّہ کو ہی بتاتی ہیں اور حقیقت کی ایک نسبت کو واضح کرتی ہیں اور جو خبریں سو فیصد حقیقت کو بتاتی ہوں وہ پائی ہی نہیں جاتی ہیں ۔تمام علمی خبریں بھی اسی خصوصیت کی حامل ہیں اور اصلاً علم کی ماہیت اس کے علاوہ کوئی اور چیزنہیں ہے ۔ہم یہ تصور نہ کریں کہ علم آکر کہے گا کہفقط یہی ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہےہر گز نہیں علم نہ ایسا دعویٰ کرتا ہے اورنہ ایسا کبھی ہو سکتا ہے۔ علمی نظریہ میں بات صرف تائید اور ابطال کی ہوتی ہے ،نہ کہ حقیقت کے کشف ہونے یا کشف نہ ہونے کی ۔ زیادہ سے زیادی علمی نظریہ کا دعویٰ اور ادّعا یہ ہوتا ہے کہ جب تک مجھ پر کوئی اشکال یا نقض نہ آجائے مجھ کو حق ہونے کی تائید حاصل ہے اور اگرکوئی اعتراض ہوگیا تو میں باطل ہو جائوں گا اور دوسرا نظریہ میری جگہ لے لے گا یہ سیر و روش اسی طرح آگے بڑھتی رہتی ہے اور علمی نظریات ایک کے بعد دوسرے مکمل ہوتے رہیں گے اور علم میں کوئی ایسا نظریہ ہی نہیں پایا جاتا جو کہ ہمیشہ باقی رہے اور قائم و ثابت رہ جائے۔

جو لوگ معرفت شناسی اور اس کے اقدار کی بحث میں اس فکر کی تائید کرتے ہیں اور اس کے طرفدار ہیں وہ لوگ منطق وفلسفہاور معقولات و الھٰیات کو ایک طرح حقارت کی نظر سے یاد کرتے ہیں اور اس بحث کو غیر علمی اور ہر طرح کے اعتبار سے خالی تصور کرتے ہیں ؛اور جس وقت ایسی بحثیںہوتی ہے تو ایک خاص حالت اور معنی دار اندازسے کہتے ہیں کہاس کو چھوڑئیے' یہ تو فلسفہ ہے'' یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم فقط علم کی عظمت و اہمیت کے قائل ہیں اور علم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ واقعیت کو سو فیصد واضح اور ظاہر کرے بلکہ ہر نظریہ واقعیت کی وجہوں میں سے کسی ایک وجہ کو نہ کہ سبھی کو بتاتاہے۔

۱۰۲

نیوٹن کا قانونجاذبہ (کشش)''ہمارے لئے واقعیت کے صرف ایک حصہ کو بتاتا ہے ،اور انیشیٹن کا قانوننسبیتبھی واقعیت کی دوسری وجہ کو ہمارے لئے ظاہر کرتا ہے؛ اور کوئی بھی قانون ہمارے لئے ساری واقعیت کوظاہر نہیں کرتا لہذا با ت جب ایسی ہے تو دونوں صحیح ہیں یہ بھی اور وہ بھی۔اور اس طرح سے ہم معرفت شناسی میں ایک طرح کثرت پرستی تک پہونچ جاتے ہیں جو کہ واقع میں ایک نسبیت پرستی اور شکاّکیت ہے البتہ بعض لوگ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اس نظریہ کو شکاکیت کی طرف پلٹائیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس نظریہ کا لازمہ نسبیت پرستی ہے، لیکن پھر بھی شکّاکیت اس میں پائی جاتی ہے بہر حال یہ چیز اہم نہیں ہے کہ اس کا کیا نام رکھا جائے شک گرائی یا نسبت گرائی ؛ہر حال میں اس نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ واقعیت کو ہم کبھی بھی نہیں حاصل کر سکتے ہیں یعنی علم ہم کو کبھی بھی (سو فیصد)اعتقادیقینی کی منزل تک نہیں پہونچا سکتا۔

بلّوری مثلث کی مثال کے ذریعہ پلورالزم کی وضاحت

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے ممکن ہے کہ یہ نظریہ پلورالزم کی فکر کا مبنیٰ ہو کیونکہ علم کی اس تفسیر کی بنیا د پر جو ابھی پیش کی گئی ہے ہر علمی نظریہ ،بلّوری مثلث کے ایک زاویہ اور ایک رخ کے مانند ہے جو کہ واقعیت کے ایک حصّہ کو ظاہر کرتا ہے اور جو کوئی بھی جس زاویہ پر نگاہ ڈالتا ہے وہ واقعیت اور حقیقت کے اسی حصہ کو دیکھتا ہے پوری واقعیت کا نظارہ کرنا سب کے بس کی بات نہیں کیونکہ اور یہ واقعیت بلّوری مثلث کے مختلف حصّو ں میں پھیلی ہوئی ہے ۔

اگر پلورالزم کی اس طرح تفسیر کریں تو اس وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت ایک ہی ہے البتہ ایکا ایسی حقیقت جو ہر شخص کے لئے الگ الگ طرح سے جلوہ گر ہوتی ہے ،یعنی ایک حقیقت واقع میں وہی پور ابلّوری مثلث ہے جو کہ کئی سطوح اور مختلف حصّوں میں ہے اور ہر علمی نظریہ اس کی ایک سطح اور حصّہ جیسا ہے،

۱۰۳

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی پوری حقیقت کو شامل نہیں ہوتا ہے اگربلّوری مثلث کی اسی مثال اورتشبیہ کو نگاہ میں رکھیں اور چاہیں کہ پلوالزم کے بارے میں زیادہ واضح طورسے گفتگو کریں تو اس کی ایک تفسیر یہ ہوگی کہ حقیقت ایک ہے لیکن اس تک پہونچنے کے راستے الگ الگ ہیں ؛جس طرح بلّوری مثلث کہ ایک چیز سے زیادہ نہیں ہے لیکن چونکہ جو شخص اس کی طرف ایک زاویہ سے دیکھتا ہے ممکن ہے اس کی نگاہ میں واقعیت کی تصویر دوسرے لوگوں کی بہ نسبت مختلف نظر آتی ہو؛ اس لئے کہ بلّوری مثلث کے کئی رخ اور زاویہ ہیں جو کہ ممکن ہے الگ الگ رنگ و خاصیت رکھتے ہوں ۔

ایک بلّوری مثلث کو اپنے سامنے رکھیئے اس کے ایک طرف محدّب (ابھرا ہوا ) آئینہ ہو دوسری جانب گہر ااور تیسری طرف مسطّح اور برابر آیئنہ ہواگر تین الگ الگ ایک ایک زاویہ سے اس بلّوری مثلث میں ایک شئے کی تصویر کو دیکھیں تو یقیناًوہ تین مختلف تصویروں کو دیکھیں گے جب کہ ہم الگ سے ناظر کے عنوان سے جانتے ہیں کہ یہ سب کے سب ایک ہی چیز کی تصویر کو دیکھ رہے ہیں جو کہ نظر کے زاوئیے مختلف ہونے اور الگ الگ جگہ کھڑے ہونے کی وجہ سے خود گمان کرتے ہیں کہ تین مختلف چیزوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ بہر حال یہ وہی پلورالزم کی بہت سے سیدھے راستوں والی تفسیر ہے جو یہ کہتی ہے کہ ہم صرف ایک حقیقت رکھتے ہیں اور اس ایک حقیقت تک پہونچنے کے لئے کئی راستے پائے جاتے ہیں ۔ تمام دین دار بلکہ سبھی انسا نوں کا معبود اور مطلوب ایک ہے اور سب کے سب اس ایک حقیقت کے طالب ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اسلام کا راستہ ہے اور ایک یہودیت کا راستہ ہے لیکن آخرمیں سب ایک ہی مقصد اورمنزل پر جاکر تمام ہوتے ہیں پلورالزم کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم یہ نہ کہیں کہ حقیقت ایک ہے بلکہ بلّوری مثلث کے اطراف اور زاویوں کے مانند متعدد اور الگ الگ ہیں

۱۰۴

جو شخص جس زاویہ سے دیکھتا ہے اس کے لئے وہی حقیقت ہے چونکہ بلّوری مثلث کے اطراف اور اس کے رنگ جدا جدا ہیں جو کہ اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ ایک انسان حقیقت کو ہرا اورابھرا ہوا، دوسرا اسی کو نیلا اور گہرا اور تیسرا انسان اسی کو پیلا اور مسطّح دیکھتا ہے ؛حقیقت بھی ان تصویر وں کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور تصویر یںبھی واضح طور سے جدا جدا ہیں پس حقیقت بھی انھیں کی طبیعت میں مختلف ہوتی ہے ظاہر ہے کہ پلورالزم کی یہ تفسیراس تفسیر سے مختلف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بہت سے سیدھے راستے ایک حقیقت کی طرف ختم ہوتے ہیں پلورالزم کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ ہم ایک دین یا ایک علم کی ہر ایک بات کو الگ الگ نظر میں نہ رکھیں بلکہ ان تمام باتوں کے مجموعہ کے بارے میں یکجا صورت میں فیصلہ کریں؛ مثلاً جس وقت سوال کریں کہ شیعہ مذہب حق ہے یا باطل؛ تو تمام شیعی عقائدکے مجموعہ کو اپنی نگاہ میں رکھیں پلورالزم کی اس تفسیر کی بنا پر ہم کسی بھی مذہب کے حق یا باطل ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں ؛ کیونکہ تمام ادیان صحیح اور باطل دونوں اعتقادات و احکام سے مل کر بنے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ تمام ادیان حق بھی ہیں اور باطل بھی، حق اس اعتبار سے کہ اس کے بعض مطالب حق ہیں اور باطل اس اعتبار سے کہ اس کے بعض مطالب باطل ہیں ۔

لہذٰا جب ایسا ہے کہ ہر مذہب کے بعض عقائد و افکار اور اس کے احکام اور خصوصیا ت سچ اور جھوٹ ،حق اور باطل دونوں کا مجموعہ ہیں پس تمام ادیان برابر کی خصوصیات رکھتے ہیں اور جس دین کو بھی اختیار کر لیں کچھ فرق نہیں پڑتا ہے۔

۱۰۵

دینی معرفت کے دائرہ میں وحدت حقیقت کا نظریہ

دینی پلورالزم کے نظریہ کے مقابلہ میں (اسکی مختلف تفسیروں کے ساتھ ) ایک دوسرا اعتقاد یہ بھی ہے کہ مکمل طور سے کچھ دینی اعتقادات ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو کہ سب کے سب حق اور صحیح ہیں اور اس کے مخالف اعتقادات باطل اور نا حق ہیں ؛یہ نظریہ اس بات کا معتقد ہے کہ حقیقت ایک ہے اور اس شخص اور اس شخص اس معاشرہ اوراس معاشرہ ،اس زمانے اور اْس زمانے میں کوئی بھی فرق نہیں ہے ۔اس اعتقاد کی بنیاد پر ہمارے لئے ممکن ہے کہ ہم افکارواقدار احکام کا مجموعہ رکھتے ہوں جو کہ سب کے سب حقیقت رکھتے ہوں اور اس مجموعہ کے علاوہ دوسر ے بقیہ مجموعہ باطل اور ناحق ہیں یاان میں سے ہر ایک میں حق اور باطل دونوں پائے جاتے ہیں جو چیز ہم شیعوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے وہ یہی ہے اگر آپ عام افراد کو دیکھئے تومعلوم ہوگا کہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ فقط شیعہ مذہب صحیح ہے اور یہی مذہب حق ہے؛ اوریہ وہ مذہب ہے کہ جس کامنبع اور سر چشمہ اھل بیت علیہم السلام اورچہاردہ معصومین ہیں اس کے علاوہ باقی جو مذہب اور ادیان پائے جاتے یا پوری طرح سے باطل ہیں ؛یا جس مقدار میں ان کے عقائد شیعہ مذہب کے مخالف ہیں اتنا وہ باطل ہیں ۔یہ ایسی چیز ہے جو ہماری اور آپ کی فکر میں پائی جاتی ہے۔اور پلورالزم کی فکر کے پیش ہونے سے پہلے کوئی بھی دین و مذہب کی حقاّنیت سے متعلق اس تصویر کے علاوہ کچھ اور نہیں خیال رکھتاتھا۔

۱۰۶

مراجع تقلید کے فتوئوں میں اختلاف کا پلورالزم سے کوئی ربط نہیں ہے

جو سوال اس جگہ ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ مذہب شیعہ میں بھی چاہے وہ اعقادی مسائل ہوں یا فقہی احکام،بہت جگہوں پر کئی نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ان اختلافات کے رہتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ ان احکام و عقائد کے ایک مجموعہ کو شیعہ مذہب کی طرف (جو کہ حق ہوں ) نسبت دیا جائے؟ شیعہ علماء اور مراجع تقلید کے فتوئوں میں اختلاف یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو سبھی لوگ جانتے ہیں مثلاً ایک مرجع تقلید کا فتویٰ ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کہنا کافی ہے دوسرا مرجع یہ فتویٰ دیتا ہے کہ ۳ مرتبہ کہنا ضروری ہے، یا عالم برزخ کے مسائل سے بعض امورمثلاً پہلی رات مرنے کے بعد کیا سوال وجواب ہوگا اس کے علاوہ دوسرے مسائل جس میں اختلاف واضح ہے جو کہ قیامت سے مربوط ہیں ؛ان کی تفصیلات میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا نظریہ حق ہے اور کون سا باطل ہے ؟یہ شرعی مسئلہ ہے کہ اعلم کی تقلید کرنا چاہئے، لیکن اعلم کی تشخیص اور پہچان میں لوگوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ اور ہر شخص مخصوص آدمی کو اعلم جانتا ہے اور اسی کی تقلید کرتا ہے ۔لیکن بہر حال ایسا نہیں ہے کہ فقط ایک ہی مرجع کے مقلدین جنت میں جائیں گے؛ بلکہ جس نے بھی کسی مجتہد کو واقعی طور پر اعلم سمجھا اور اس کی تقلید کی اس کو نجات ملے گی اور وہ جنت میں جائے گا ؛اس جگہ پر جو شبہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ اگرمختلف ادیان کے درمیان بہت سے سیدھے راستوں کو قبول نہ کیا جائے تو کم سے کم شیعہ مذہب کے اندر مختلف سیدھے راستوں کے ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا؛ اور مختلف عقائد و احکام کے مجموعہ کو صحیح اور حق پر ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا لہذٰا اس طرح سے بھی اس کی انتہا پلورالزم ہی کی طرف ہوگی۔

۱۰۷

ا س کا جواب یہ ہے کہ یہاںمقام ثبوت اور مقام اثبات میں خلط ملط ہو گیا ہے؛ جنت میں جانے اور اسلام کے واقعی اور حقیقی حکم کو حاصل کرنے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے۔ جو کچھ بھی علماء دین کی تقلید کے بارے میں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ اگر آپ نے کسی مجتہداعلم کو مشخص کر لیا اور اس کی تقلید کرلی ؛تو اگر اس کے بعض فتوے خدا کے حکم واقعی کے مخالف بھی ہو جائیں تو آپ اس میں معذور ہیں اور حکم واقعی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آپ جہنم میں نہیں جائیں گے ؛تسبیحات اربعہ کے مسئلہ میں حقیقت اور واقعیت ایک ہی ہے؛ حکم خدا وندعالم یا یہ ہے کہ ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کافی ہے یا یہ کہ ۳ مرتبہ واجب ہے ،جس فقیہ اور مجتہد کا فتویٰ خدا وندعالم کے حکم کے مطابق ہواسی فقیہ کا فتویٰ صحیح اور درست ہے اور بقیہ مجتہدین کا غلط ہوگا لیکن یہ غلطی ایسی ہے کہ اس سے مجتہد اور اس کے مقلدین دونوں معذور ہیں چونکہ ان لوگوں نے حکم خدا تک پہونچنے کی پوری کوشش کی؛ اور اپنے فریضہ کو انجام دیا ؛لیکن کسی بھی سبب سے وہ اس تک نہیں پہونچ سکے یہاںیہ مسئلہ مستضعف فکری جیسا ہے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا ہے ۔

۱۰۸

اسلام کے قطعی اور واضح احکام میں اختلاف کا نہ ہونا

ہم اسلام میں کچھ یقینی، پائدار، مطلق اور نہ بدلنے والے حقائق رکھتے ہیں جن کو عرف عام میں ضروریات اسلام''کہا جاتا ہے کبھی ان حقائق کا دامن اور میدان وسیع ہوتا ہے تو ان کو اسلام کے مسلمات اور قطعیات سے یاد کیا جاتا ہے، یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ تمام مسلمانوں کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ک۔مثلاً تمام مسلمان جانتے ہیں کہ صبح کی نماز دو رکعت ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس کے لئے تقلید ضروری نہیں ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کی تحقیق و جستجو کریں بلکہ یہ واضح اور بدیہی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ اسلام کے واضحات میں تقلید نہیں ہے ؛یہاں تک کہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ قطعیات اور مسلمات دین میں بھی تقلید جائز نہیں ہے؛ تقلید صرف ظنےّات(جن کے بارے میں یقین نہ ہو )میں صحیح ہے۔ یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ صبح کی نماز ۲ رکعت ہے اور نماز کے واجب ہونے کا مسئلہ ایسی چیز ہے کہ اس کا صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ کافر بھی (جو کہ اسلام اور نماز کو قبول نہیں کرتے ہیں )جانتے ہیں کہ اسلام نماز کا حکم دیتا ہے اور نماز اسی رکوع اور سجدے اور بقیہ تمام افعال واذکار کا نام ہے۔ آج کون ایسا ہے جو اس بات کو نہ جانتا ہو کہ مسلمانوں کا حج ذی الحجہ کے مہینہ میں مکہ جاکر کچھ اعمال کو انجام دینا کہلاتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ نماز اور حج اسلام کا جزنہیں ہے تو اس کی بات قبول نہیں کی جائے گی اور اس سے کہا جائے گا کہ یہ سب اسلام کے واضحات اور مسلمات سے ہیں ان کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اورہر زمان ومکان میں ان کا انجام دینا ضروری ہے اور وہ ناقابل تغییر ہیں یہاں تک کہ ان کے متعلق تقلید بھی صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ ہر مسلمان اس بات کو جانتا ہے اسی وجہ سے اسلام کے ضروریات اور واضحات سے انکار کرنا مرتد ہونے کا سبب بنتا ہے البتہ امام خمینی کا نظریہ یہ ہے کہ ضروریات اسلام کا انکار، ارتداد کا سبب اس وقت بنتا ہے جب اس کا انکار رسالت کے انکار کا باعث ہو لیکن بعض فقیہ اس شرط کو لازم نہیں جانتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں کہ' ' اسلام کے واضحات کا انکار،مطلق طور پر ارتداد کا سبب بنتا ہے۔

۱۰۹

دین اسلام کے ظنیات میں اختلاف اور اس کی وضاحت

اب یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام کے جو احکام و عقائد واضح اور قطعی ہیں ان میں کوئی بھی اختلاف نہیں ہے اور ان میں کوئی شک وشبہہ نہیں پایا جاتا ہے اور جو کوئی بھی ان کو قبول نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے ۔بعض احکام اسلام میں ایسے پائے جاتے ہیں جو کہ ظنیّ ہیں ، اسلام کے جو احکام ظنی ہیں ان کے بارے میں اہل نظر اور مجتہدین ممکن ہے الگ الگ نظریہ اور فتویٰ رکھتے ہوں اب جو لوگ مجتہد نہیں ہیں عقلی اور نقلی دلیل کی بنیاد پر ان کا وظیفہ یہ ہے کہ مجتہدین کی طرف رجوع کریں اوران کی تقلید کریں ،تقلید کا مطلب ہے غیر متخصّص کا متخصّص(اس فن کے ماہر) کی طرف رجوع کرنا جو کہ ایک عام قاعدہ ہے اور صرف دینی مسائل اور احکام سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہر میدان اور شعبہ میں جو شخص نہیں جانتاوہ جاننے والے کی طرف رجوع کرتا ہے مثلاًاگر آپ بیمار ہیں تو بیماری اور اس کی تشخیص کے لئے ماہر ڈاکٹر کی جانب رجوع کرتے ہیں ، دینی احکام میں بھی لوگ متخصصّین و ماہرین جو کہ مراجع عظام ہیں ،ان کی جانب رجوع کرتے ہیں ؛ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے البتہ یہ طبعی اور فطری امر ہے کہ جب مراجع تقلید کے فتوے مختلف ہوتے ہیں تو جو لوگ ان کی تقلید کرتے ہیں ان کے عمل میں بھی اختلاف ہوتا ہے ؛لیکن اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ مراجع عظام کے فتووں میں اختلاف ڈاکٹروں کے نسخوں میں اختلاف جیسی بات ہے ؛اگر دو ڈاکٹر کسی ایک بیمار کے بارے میں الگ الگ تشخیص رکھتے ہوں تو اگر دونوں غلطی پر نہیں ہیں تو کم سے کم ایک ضرور غلطی پر ہے ؛اسی طرح سے ایک ڈاکٹرکے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس کے تمام نسخوں میں غلطی نہ ہو تو کم سے کم سیکڑوں نسخوں کے درمیان ایک میں غلطی ضرور ہوگی، مراجع تقلید بھی اگر کسی مسئلہ میں الگ الگ نظریہ رکھتے ہوں تواگر سب کے نظریات غلط نہ ہوں تو یقینی طور پر کسی ایک کا نظریہ صحیح ضرور ہوگا اور بقیہ کا غلط ہوگا ؛ اسی طرح ایک فقیہ کے سیکڑوں فتوے جو کہ وہ دیتا ہے ایک نہ ایک فتوے میں غلطی کا امکان رہتا ہے، اگر چہ ایسا ہے، لیکن پھر بھی کیا کیا جائے اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے جب ہماری رسائی اور پہونچ معصوم تک نہیں ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں ہے کیا چند نسخے جو ڈاکٹر لکھتے ہیں ان میں غلطی ہونے کی وجہ سے پوری ڈاکٹری کے شعبہ کو بند کر دیا جائے ؟ظاہر سی بات ہے کوئی بھی عقلمند انسان اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دیگا ۔

۱۱۰

لہذا اگر اسلام میں پلورالزم سے مراداسلام کے ظنّیات میں علماء ومجتہدین کے فتووں کا اختلاف ہو تو یہ چیز مسلم اور قابل قبول ہے۔ ظنیات کے حدود میں اہل نظرکے درمیان اختلاف ممکن ہے اور ہر شخص اس مجتہد کے فتوے پر جس کو اس نے اعلم سمجھا ہے عمل کر سکتا ہے ؛اور کسی بھی مجتہد سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کا نظریہ پوری طرح سے غلط ہے ؛چونکہ ہم نے یہ فرض کیاہے کہ یہ امور ظنی ہیں اور ہم اس کی واقعیت اورحقیقت کو نہیں جانتے ہیں ۔ البتہ اظہار نظر میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ شخص دینی مسائل میں متخصّصو ماہر اور صاحب نظر ہو؛ ایسا نہیں ہے کہ چونکہ مسئلہ ظنّی ہے لہذاجو کوئی بھی ہو اورتھوڑا بہت بھی جانتا ہووہ کہنے لگے کہ میرا نظریہ یہ ہے ۔کیا وزارت حفظان صحت کے افراد ہر شخص کو مطب اوردوا خانہ کھولنے اور ڈاکٹری کرنے کی اجازت دیتے ہیں ؟جواب نہیں میں ہوگا ۔

بہر حال اگر کوئی اس کا بھی نام پلورالزم رکھے تو ہم کہیں گے کہ ہاں دین اسلام میں بھی پلورالزم ہے؛ لیکن یہ بات یاد رہے کہ کسی نے بھی پلورالزم کی تفسیر اس معنی میں نہیں کی ہے ؛اس لئے کہ پلورالزم یعنی حقیقت یا اس تک پہونچنے کا راستہ متعدداور الگ الگ ہے ،جبکہ ہم نے مجتہدین کے نظریوں میں اختلاف کے متعلق کہا ہے کہ حقیقت اور حکم خدا وندعالم فقط ایک ہی ہے اب اگر کوئی مجتہد حکم خدا وند عالم کو جو کہ حقیقی حکم ہے حاصل کر لے تو اس کا نظریہ صحیح ہے اور اگر حکم واقعی کے علاوہ اس کا فتویٰ ہے تو یقینی طور پر وہ غلط اور نا درست ہے لیکن اس مقام پرجیسا کہ اس سے قبل کہہ چکا ہوں مرجع تقلید اوراس کے مقلدین اس طرح کے حکم میں معذور ہیں ؛ لہذٰا اس کا نام پلورالزم نہیں رکھا جا سکتا ۔

۱۱۱

خبری باتوں میں پلورالزم کا انکار، اخلاقی اور اقداری مسائل میں اس کا اقرار

دوسری بات جو یہاں پر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ قضایائے خبری اور انشائی کے درمیان فرق ہے ۔معرفت شناسی کی بحث میں کہا گیاہے کہ وہ قضایاکہ جن سے ہماراعلم تعلق رکھتا ہے وہ دو طرح کے ہیں ،کچھ وہ قضایائے خبری ہیں کہ میں ان کوموجود ومعدومسے تعبیر کیا جاتا ہے، دراصل اخبار کی یہ وہ قسمیں ہیں جو کسی شئے کے موجو دہونے یا نہ ہونے کی خبر دیتے ہیں ۔ دوسرے وہ قضایا ہیں اصطلاح میں جن کواوامرونواہی''سے پکارا اور یاد کیا جاتا ہے اور یہ ان قضایا کو شامل ہیں جو کہ کسی بات کے محقق ہونے یا نہ ہونے کی خبروں پر مشتمل نہیں ہیں ؛اس طرح کے قضایا کو انشائی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جبکہ پہلے والے کو خبری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ممکن ہے کوئی شخص ان قضایا میں کہ جنکے بارے میں خبر دی جا رہی ہے صدق و کذب پایا جاتا ہو اور یہ خبریں جھوٹ اور یا سچ پر مشتمل ہوں؛ ان میں کوئی بحث نہ کرے،لیکن قضایائے انشائی کے متعلق کہے کہ ان کی خبریں سچ اور جھوٹ سے متصف نہیں ہوتی ہیں اور ان میں صدق و کذب نہیں پایا جاتا ہے ؛جس طرح ہماری موجودہ بحث میں بھی کہا جاتا ہے کہدین کے اعتقادی مسائل میں سچ اور جھوٹ، صحیح یا غلط ہونا معنی رکھتا ہے اور ممکن ہے کہ ایک نظریہ کو صحیح اور دوسرا نظریہ جو اس کے مقابل ہے اس کو باطل جانا جائے؛ لیکن جو دینی قضایا اخلاق اور اوامرو نواہی پر مشتمل ہیں وہ ایسا حکم نہیں رکھتے ہیں ؛ یہ قضایا کسی عینی واقعیت اور حقیقت کو کشف نہیں کرتے ہیں تا کہ ہم یہ کہیں کہ ایک نظریہ صحیح ہے اور بقیہ نظریئے باطل ہیں ۔ اسلام کی تمام اخلاقی باتیں

۱۱۲

اور اس کے احکام و قوانین اسی طرح کے ہیں ؛اس طرح کی عبارتیں اور جملے کہنماز پڑھنا چاہئے،جھو ٹ نہیں بولنا چاہئے، دوسروں کے حقوق کو غصب نہیں کرنا چاہئےاور اسی طرح کی دوسری خبریں ایسی نہیں ہیں کہ ہم ان کے بارے میں کہہ سکیں یہ صحیح ہیں یا غلط، جھوٹ ہیں یا سچ ،چونکہ یہ ثابت حقیقت کی حکایت نہیں کرتے ہیں تاکہ ہم ان کے مفہوم کو دیکھیں اور ثابت حقیقتوں سے ان کا مقایسہ کریں، اور پھر دیکھیں کہ اگر مطابقت رکھتے ہیں تو ان کو صحیح جانیں اوراگر مطابقت نہیں رکھتے توان کو غلط جانیں۔ اصل میں اس طرح کی خبریں صرف ذوق و سلیقہ اور اعتبار و قرارداد کی نشاندہی کرتی ہیں ؛ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہرا رنگ اچھا ہے اور دوسرا یہ کہتا ہے کہ پیلا رنگ اچھا ہے تو ان دونوں کا یہ کہنا فقط اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ایک کا ذوق اوراس کی طبیعت سبز رنگ کو پسند کرتی ہے اور دوسرے کی طبیعت اور اس کا ذوق پیلے رنگ کی طرف مائل ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک صحیح کہہ رہا ہے اور دوسرا غلط کہہ رہا ہے یا ہرا رنگ حقیقت میں اچھا ہے اور پیلا رنگ واقعاًاچھا نہیں ہے؛ اس مورد میں حقیقت وخطا،صحیح وغلط کی بحث کرنا پوری طرح بے معنی ہے۔

اخلاقی باتوںکے متعلق معرفت شناسی کے اس مبنیٰ کی بنیادپر ایک ہی چیز میں نسبیت اور مختلف نظریوں کے قبول کرنے کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

جس طرح یہ ممکن ہے کہ کہا جائے سبز رنگ اچھا ہے اور زرد رنگ بھی اچھا ہے صورتی رنگ بھی اچھا ہے اور بنفشی رنگ بھی اچھا ہے یہ اس بات پر معلق ہے کہ کون کس رنگ کو پسند کرتا ہے، دین کے مورد میں بھی کم سے کم اس کے بعض حصّے جیسے احکام اور اس کے اخلاقی مسائل میں ہم اس نظریے کے قائل ہو سکتے ہیں جہاں پر ایسی باتیں ہوں کہ اوامر ونواہی سے تعلق رکھتی ہوںوہاں ممکن ہے کہ زمان و مکان اور افراد کے اختلاف وتعدد کے اعتبار سے ہم بہت سے قابل قبول مختلف نظریوںکو قبول کریں۔

۱۱۳

پہلی صدی ہجری میں ایک بات کو لوگ اچھا جانتے تھے لیکن ممکن ہے کہ چودہویں صدی ہجری میں لوگ اسی بات کو خراب اور معیوب سمجھتے ہوں یہ دونوں اپنے اپنے زمانے کے اعتبار سے صحیح ہیں ؛یہ ممکن ہے کہ جاپانیوں کے لئے ایک چیز اچھی ہے تو انگریزوں کے لئے دوسری چیز اچھی ہے اور دونوں باتیں صحیح ہیں ۔جس معاشرہ میں ہم رہتے ہیں اس بات کو جانتے ہیں کہ پوری طرح سے ننگے اور برہنہ ہونا اور اس حالت میں عام لوگوں کے سامنے جانا ،ایک برا کام ہے اور لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں ؛لیکن ممکن ہے کہ یہی چیزایک دن ایک معاشرہ میں ایک عام چیز ہو اور لوگ اسی کو پسند کرتے ہوں اور ننگے رہنا مفید جانتے ہوں ؛یہ سب ایسے مسائل ہیں جو کہ اجتماعی عرف اور اعتبار وقرار دادسے متعلق ہیں اور جو کچھ بھی ہو فرق نہیں کرتا ہے۔ اچھائی اور برائی چاہے اسلام میں ہو یا کسی دوسرے مذہب میں اسی طرح سے ہیں اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ احکام و اخلاق جو مسیحیت کے ہیں وہ درست ہیں یا اسلام کی باتیں یا بس یہودیت کی تعلیمات صحیح ہیں بلکہ ان میں سے جو جس کو پسند کر لے وہی اس کے لئے صحیح ہے ۔

اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم اعتقادات اور دین کے وہ مسائل جو کہموجودومعدومپر مشتمل ہیں ان اس میں پلورالزم کو قبول نہ کریں لیکن دین کے احکام اور اخلاقی مسائل میں لازمی طور پر اس کو قبول کریں اور کثرت و تکثر کو مانیں۔

جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا معرفت شناسی کے مسئلہ میں بعض لوگ سبھی انسانی علوم ومعارف چاہے کسی بھی شعبہ میں ہوان، نسبی جانتے ہیں لیکن بعض لوگ فقط احکام اور اخلاق کے مسائل میں نسبیت کے قائل ہیں یا سرے سے ہی مفید خبروں اخلاقی باتوں کو سچ اور جھوٹ ہونے یا صحیح اور غلط ہونے کے قابل نہیں جانتے ہیں ۔

اب ہم کو اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ اخلاقی مسائل میں نسبیت صحیح ہے یا نہیں ؟

۱۱۴

اخلاق کے دائرہ میں پلورالزم کے نظریہ پربحث

ا س میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں جن کی اچھائیاں اور برائیاں بدلتی رہتی ہیں ؛ کسی زمانے میں اچھی اور کسی زمانے میں بری ہوتی ہیں کسی ماحول میں ایک چیز اچھی ہوتی ہے اور کسی ماحول میں وہی چیز خراب ہوتی ہے اسی طرح ایک چیز بعض حالات کے تحت اچھی ہے اوربعض حالات کے پیش نظربری ہوتی ہے یہاں تک کہ جھوٹ اور سچ بولنا بھی ایسا ہی ہے ایسا نہیں ہے کہ سچ بولنا ہمیشہ اچھا اور جھوٹ بولنا ہمیشہ خراب رہا ہو اگر چہکانٹاس بات کا معتقد تھا کہ سچ بولنا ہمیشہ اچھا اور جھوٹ بولنا ہمیشہ برا ہے اور اس میں کوئی بھی استثناء نہیں ہے؛ لیکن ہم سبھی لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ؛مثلاً اگر ایک مومن کی جان بچانا اس بات میں منحصر ہو کہ جھوٹ بولیں تو اس جگہ صرف سچ بولنا حرام ہی نہیں ہے بلکہ لازمی طور سے جھوٹ بولنا بھی واجب ہو جاتا ہے؛ تاکہ مومن کی جان بچ جائے، اگر ظالم شاہ کے زمانے میں ساواکی (پولیس والے ) آتے اور آپ سے کسی ایک کا پتہ پوچھتے توکیا آپ سچ بولتے ؟ اور اس صورت میں وہ اس کو جاکر گرفتار کر لیتے اور اس کو زندان میں ڈال دیتے ،شکنجہ میں کستے یا پھانسی دیدیتے ،یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے کہ آپ کو چاہئے تھا کہ ساواکی سے جھوٹ بولتے اور کسی کا پتہ نہ بتاتے ،یا مثلاًاسلامی احکام میں یہ دستور ہے کہ اگر کوئی کام مومن کی بے عزتی اور حقارت کا سبب بن رہا ہے تو اس کام کو انجام نہیں دینا چاہئے اس دستور کا نتیجہ یہ ہے کہ مومن کو چاہئے کہ ہر ماحول میں اسی ماحول کے آداب و رسوم کے مطابق عمل کرے( البتہ صرف اسی حد تک کہ شرعی واجبات اور محرمات کے خلاف کوئی عمل نہ ہو) اور ایسا کام جو اس معاشرہ کے آداب و رسوم کے خلاف ہو اور اس مومن کی بے عزتی اور حقارت کا سبب ہو اس کو انجام نہیں دینا چاہئے

۱۱۵

بہرحال ان دو نمونے کے علاوہ بہت سے ایسے نمونے پائے جاتے ہیں جن سے ظاہری طور پرایسا لگتا ہے کہ ان کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاقی و اجتماعی احکام و اصول میں ایک طرح کی نسبیت اور پلورالزم قابل قبول ہے ۔سچ بولنا اور جھوٹ بولنا دونوںباتیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی ہیں ؛یہ حالات اور شرائط سے متعلق ہیں اور انھیں پر منحصر ہیں البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ اس بات کا نتیجہ صرف نسبیت ہے شکاکیت ہر گز نہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم شک کرتے ہوں کہ سچ بولنا اچھا ہے یا جھوٹ بولنا؛ اچھا ہے بلکہ ہم یقینی طور پر ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ سچ بولنا ان حالات میں اچھا ہے اور دوسرے حالات میں برا ہے بہر حال بعض لوگ اس طرح کے مواقع اور موارد سے استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ اخلاقی نسبیت اسلامی تفکرمیں بھی پائی جاتی ہے اور قابل قبول ہے۔ لبتہ اس بیان کی وضاحت میں بہت زیادہ علمی اور فنی شرح و تفصیل ہے جو کہ ہماری گفتگوسے خارج ہے ۔

یہان پر جو کچھ بیان کرنا ممکن ہے وہ یہ کہ : حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ہر جز و قضیہ کے پورے شرائط اور قیود کو نظر میں رکھیں تو تمام قضیے ہمیں مطلق دکھائی دیں گے اور کسی میں کوئی بھی نسبیت نظر نہیں آئے گی۔ مثلاً اگرسائنس یا فیزیک کے مسائل میں آپ سے سوال کیا جائے کہپانی کس درجہ حرارت میں کھولتا اور پکتا ہےتو اس کا جواب یہ ہوگا سو درجہ حرارت میں ۔اس کے بعد ایک بہت ہی کھارا پانی لیکر آئیں یا پانی کو ایسی جگہ کھولائیںجہاں پر ہوا کا دبائو زیادہ ہو یا کم ہو تو آپ دیکھیں گے کہ پانی سو درجہ میں نہیں کھولے گا بلکہ سو سے کم یا زیادہ درجہ حرارت میں کھولے گا یہاں پر نتیجہ نسبیت کے سبب نہیں ہے بلکہ آپ نے قضیہ کو دقیق اور صحیح طریقے سے بیان کرنے میں غلطی کی ہے اور اس کو پوری طرح سے تمام شرائط اور قیو د کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے مکمل اورصحیح نپا تلاقضیہ یہ ہے کہ مثلاً آپ کہیں (پانی اس درجہ حرارت میں جب کہخالص ہو تو جوش میں آئے گااور اس خاص درجہ حرارت میں کھولے گاجب کہ ہوا کا دبائو ہو ) تمام وہ لوگ جو کہ فیزیک اور سائنسی علم سے واقف ہیں وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ پانی خاص شرائط کے ساتھ سو درجہ حرارت میں کھولتا ہے لیکن بولنے اور لکھنے میں عام طور سے ایسی غلطی اور مسامحہ کرتے ہیں

۱۱۶

اور ان شرائط ا و رقیود کو حذف کر دیتے ہیں اور مختصراً کہتے ہیں کہ پانی سو درجہ حرارت میں کھولتا ہے اس طرح کے قضایا بہت سے علوم میں پائے جاتے ہیں ؛جیسا کہ پہلے اس بات کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ اس طرح کے قضیوں کا ہونا نسبیت یا ان کے کلی ہونے کی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ مکمل طور سے تمام شرائط اورقیود کے بیان کرنے میں غلطی اورمسامحہ کا نتیجہ ہے؛ اخلاقی قضیے بھی ایسے ہی ہیں اگر کسی بھی قضیہ کو پورے قیود اور شرائط کے ساتھ بیان کیا جائے تو حکم کبھی بھی نہیں بدلے گا؛ اگر کوئی چیز اچھی ہے تو ہمیشہ اچھی رہے گی اگر بری ہے تو ہمیشہ بری رہے گی ۔اور جو لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ سچ بولنے یا جھوٹ بولنے کا حکم کبھی اچھا یا کبھی برا ہوتا رہتا ہے اور بدلتا رہتا ہے تو وہ صرف اس لئے کہ ہم نے ان کے تمام شرائط اور قیود کو بیان کرنے میں لا پرواہی کی ہے۔

لیکن اخلاقیپوزٹیویسٹاور جو لوگ اخلاق واحکام میں نسبیت کے موافق ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر اخلاقی قضیہ کے تمام قیود اور شرائط کو بیان بھی کر دیا جائے تو بھی ان میں مطلق طورپر اچھائی اور برائی فقط نہیں پائی جاتی ہے بلکہ یہ اچھائی اور برائی ذوق و سلیقہ اور لوگوں کی پسند سے بدلتی رہتی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اخلاقی مسائل اصل میں کسی واقعیت اور حقیقت کو ظاہر نہیں کرتے ہیں ؛بلکہ جس طرح پہلے بیان کیا جا چکا ہے یہ سب ہرے رنگ کی اچھائی یا پیلے رنگ کی اچھائی جیسے ہیں ؛ اور لوگوں کے ذوق و سلیقہ پر منحصر ہیں کہ جو جیسا پسند کرے اور اس کے پیچھے کوئی حقیقت اور واقعیت پوشیدہ نہیں ہے ۔

یہیں پر ایک مبنائی اور اصولی بحث ہمارے اور دوسروں کے درمیان پائی جاتی ہے اور ہم کو اس بارے میں بحث کرنی چاہئے کہ کیا اخلاق و احکام اس معنی کے اعتبار سے کثرت پذیر ہیں یعنی کیا کسی خاص مسئلہ میں ہم ا یسے مختلف حکموں کو صحیح اور حقیقت سمجھیں جو ایک دوسرے کے خلاف اور بر عکس ہوں یا یہ کہ قضیہ کے تمام شرائط و قیود کو بیان کریں تو اس کا حکم ہر زمانے اور ہرجگہ میں ایک ہی اور ثابت ہوگا ؟

۱۱۷

اسلام کے احکام،حقیقی اور واقعی مصلحتوں اور مفسدوں کے تابع ہیں

جو کچھ ہم اسلام کی تعلیمات سے سمجھتے ہیں اور جس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں وہ دینی بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے عقلی دلیل کے ذریعہ بھی قابل اثبات ہے، وہ اس طرح کہ اخلاق واحکام اور اوامر و نواہی کے متعلق بھی موجودات اور معدومات پر مشتمل اشیاء اور خبری قضیوں کے مانندصرف ایک ہی حقیقت پائی جاتی ہے اوراس اعتبار سے وہتعددو تکثر کے قابل نہیں ہیں ۔

البتہ بعض ایسی برائیاں یا اچھائیاں ہیں جو کہ قرار دادی اور اعتباری ہیں اور وہ حقیقی اور واقعی بنیاد نہیں رکھتیں لیکن تمام اچھائیاں یا برائیاں ایسی نہیں ہیں ۔ اخلاقی اچھائیاں اور برائیاں جو کہ اسلام میں معتبر ہیں وہ سب کی سب مصالح اور مفاسد کی تابع ہیں جیسے جھوٹ بولنا ا س لئے برا اور ممنوع ہے کہ اس سے لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جاتاہے اور نتیجہ میں اجتماعی نظام میں خلل پڑ تا ہے اور انسان کے لئے ممکن نہیں ہوتا ہے کہ ایسے ماحول میں زندگی بسر کرے؛ ایک ایسے معاشرہ کو فرض کریں جہاں تمام لوگ جھوٹے ہوں اور عام طور سے جھوٹ بولتے ہوں ایسی جگہ پر تمام کاموں کا شیرازہ بکھر جائے گا اور زندگی کا نظام درہم برہم نظر آئے گا ۔اجتماعی زندگی کی بنیاد ایک دوسرے پر اعتماد سے قائم ہوتی ہے اگر یہ بات طے ہو جائیکہ جھوٹ عام ہو جائے اور سب کے سب جھوٹ بولیں تو آپ چاہے و ہ بیوی ہو یا اولاد، اپنے دوست، اعزا، احباب اور پڑوسی کسی پر بھی بھروسہ نہیں کریں گے اور زندگی ایک دوسرے سے جدا ہو جائے گی اوراسی نا قابل تلافی اجتماعی نقصان کی وجہ سے اسلام نے جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے اور جھوٹ کو بہت بڑا گناہ سمجھا ہے اس کے بر خلاف سچ بولنا لوگوں کے اعتمادکا سبب بنتا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں تا کہ لوگ اس سچ کی وجہ سے اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کریں۔

۱۱۸

اگر طالب علم اور استاد اسکول یا یونیورسٹی میں ایک دوسرے پر بھروسہ نہ رکھتے ہوں مثلاً شاگرد اگر استاد پر اعتماد نہ رکھتا ہو کہ استاد صحیح کہہ رہے ہیں اور جو کتاب میں لکھا ہے وہ صحیح اور حقیقت ہے تو مدرسے کے تمام درس اور یونیورسٹی کے تمام کلاس اور ان کی کتابیں بے فائدہ ہو جائیں گی لہذاسچ اور جھوٹ کی اچھائی اور برائی، مصلحت یا مفسدہ پرموقوف ہیں اوران پر مترتب ہونے والے مفاسد اور مصالح کے اعتبار اسلام نے سچ بولنے کو اچھا اور جھوٹ بولنے کو برا اور معیو ب جانا ہے۔ اس جگہ پر ایک بات کا بیان کرناضروری ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف وہی مصالح اور مفاسد جو کہ مادیات اور دنیاوی چیزوں سے مربوط ہیں ،نہیں ہے بلکہ کچھ ایسے مصالح اور مفاسد بھی پائے جاتے ہیں جو کہ معنوی امور سے مربوط ہیں اور انسان کی اخروی زندگی سے ربط رکھتے ہیں اسلام نے جس اچھائی یا برائی کو بیان کیا ہے اس میں دنیاوی مصالح اور مفاسد کے علاوہ اخروی اور معنوی مصالح ومفاسد کا بھی لحاظ کیا ہے۔

پلورالزم کی بحث اور اس کا خلاصہ

اس حصہ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی معارف چاہے وہ عقائد سے متعلق ہوں یا احکام سے ان کا تعلق ہویاپھر اخلاق کے مسائل ہوںیہ سب کے سب واقعیت کے تابع ہیں ،ان سب میں حقیقت فقط ایک ہے اور دین حق فقط ایک ہی ہے اس میں کثرت اور تعدد ممکن نہیں ہے؛ ہاں احکام اور اخلاق سے متعلق امور میں کبھی کبھی اس بات کو دیکھا گیا ہے کہ حکم بدل جاتا ہے؛ مثلاً سچ بولنا کبھی اچھا ہے اور کبھی سچ بولنا برا اور معیو ب سمجھا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے موضوع کو پورے قیود و شرائط کے ساتھ نظرمیں نہیں رکھاہے اور ان کو بیان نہیں کیا ہے ورنہ اگر سچ بولنے کو تمام شرطوں اور قیدوں کے ساتھ نظر میں رکھا جائے تو یہ ہمیشہ اچھا ہو گا یا برا ہو گااور کبھی فلسف بھی نہیں بدلے گا۔فلسفی اور معرفت شناسی کے اعتبار سے بھی اگر دیکھیں تو جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ پلورالزم کا تفکرپیدا ہونے کی وجہ ان تین وجہوں میں سے ایک وجہ ہو سکتی ہےپوزیٹوزم''شکاکیتاورنسبیت'' اگر منطقی پوزیٹیسٹ کی طرح ہم نے الھٰیاتی اور غیر تجربی قضایاجیسے خدا ہے، یا قیامت پائی جاتی ہے، وغیرہ کے متعلق ہم نے کہا کہ اصلاًیہ باتیں بے معنی ہیں

۱۱۹

،یا اگر ہم انسانی معرفت میں کلّی طور سے یا صرف اخلاق و احکام کے قضیوں میں نسبیت کے طرف دار ہوں ،یا اگر ہم شکّاکیت کی مواقفت کریں اور کہیں کہ انسانی معارف میں سے کوئی چیز بھی قطعی اور یقینی نہیں ہے اوران تمام چیزوں میں شک و شبہ پایا جاتا ہے توان تینوں فلسفی اور معرفت شناسی میں سے ہر ایک کے مبنیٰ اور اصول کے لحاظ سے اس نتیجہ پر پہونچ سکتے ہیں کہ پلورالزم کا وجود ہے اورانسانی معارف(کہ دینی معرفت بھی انھیں میں سے ہے )میں حقیقت کا تکثرقبول کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ ہم نے جیسا کہ آغاز جلسہ میں بھی عرض کیا تھا کہ یہ بات دین اس معنی میں نہیں ہے کہ جو بھی پہلے پلورالزم کا حامی ہوا ہے ایسا نہیں ہے کہ پہلے اس نے پوزٹیوزم، نسبیت یا شکاکیت کو اس نے قبول کیا ہو اور اس کے بعد وہ پلورالزم تک پہونچا ہو؛ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے پہلے پلورالزم کی طرف رجحان پیدا کیا ہو اور اس نے اس کو پسند کر کے اس کو قبول کر لیا ہو اور اس کے بعد اس کو ثابت کرنے یا اس کی توجیہ کے لئے اس پر دلیل لانے کی کوشش کی ہو، لیکن بہر حال اگر کوئی چاہتا ہے کہ منطقی روش پر چلے تواس چاہئے کہ شروع میں معرفت شناسی کے ان تینوں مبنیٰ کو قبول کرے ،اس کے بعد ان سے نتیجہ نکال کر پلورالزم کو قبول کرے۔ اصل میں اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ منطقی روش اس طرح ہے کہ تمام علمی مسائل، اصولی اور فلسفی مسائل پر منحصر ہیں اور فلسفی مسائل بھی معرفت شناسی کے مسائل پر مبنی اور منحصر ہیں یعنی منطقی نظام کے اعتبار پہلے معرفت شناسی کی بحثیں، اس کے بعد فلسفی بحثیں اور پھر اس کے بعد علمی مسائلً قرار پاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جس وقت ایک ڈاکٹر یا محقق

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232