دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)25%

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82023 / ڈاؤنلوڈ: 4524
سائز سائز سائز
دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ہم جیسے

احمد فراز

حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے

کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے

*

برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا

تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے

*

وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں

جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے

*

یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں

یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے

*

بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے

سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے

*

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں

ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

*

تُو سر بریدہ ہوا شہرِ نا سپاساں میں

زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے

*

۲۱

پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز

بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے

***

(مجموعہ۔"نابیناشہرمیںآئینہ")

۲۲

کوثر نیازی

دل و دماغ میں مہر و وفا کے افسانے

تصورات میں روشن فضائے بدر و حُنین

*

خوشا یہ اوجِ مقدر، زہے یہ عز و شرف

مری زباں پہ جاری ہے آج ذکرِ حُسین

**

نہ فکر سود و زیاں کی، نہ ذکرِ تیغ و تبر

حُسین، راہِ خدا میں تری یہ بے تابی

*

بہار گلشنِ اسلام میں پلٹ آئی

کہ تیرے خون سے قائم ہے اس کی شادابی

**

کہیں بھی اہلِ محبت کی تشنگی نہ بجھی

فرات و نیل کے ساحل سے تا بہ گنگ و جمن

*

برائے لالہ و گل اجنبی ہے فصلِ بہار

خزاں کے دستِ تصرف میں آگیا ہے چمن

**

ہر ایک سمت میں عفریت ظلم کے رقصاں

خدا کے دین کا حلقوم ہے تہِ شمشیر

*

نئے یزید، نئی کربلا ہوئی پیدا

زمانہ ڈھونڈ رہا ہے کوئی نیا شبّیر

***

۲۳

مرثیۂ امام

فیض احمد فیض

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے

ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے

*

مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے

مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

*

تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے

یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

**

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی

پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی

*

ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی

یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی

*

رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے

تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

**

۲۴

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار

اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار

*

تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار

اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار

*

مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے

ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

**

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی

ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی

*

ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی

ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی

*

پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا

پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

**

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل

الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل

*

بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل

وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل

*

بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو

باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

**

۲۵

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی

اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی

*

نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی

شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

*

دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا

خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

**

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا

تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا

*

ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا

یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا

*

کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے

خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

**

فرمایا کہ کیوں در پئے ‌آزار ہو لوگو

حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو

*

واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو

معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

*

کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے

معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

**

۲۶

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو

اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو

*

زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو

جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو

*

سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے

اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

**

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار

باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار

*

انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار

ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار

*

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے

جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

**

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا

تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا

*

جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا

جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا

*

نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا

نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

**

۲۷

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر

پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر

*

قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر

خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر

*

مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا

اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

***

(مجموعہ۔"شامِ.شہرِیاراں")

۲۸

سلام

منیر نیازی

خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حُسین

شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسین

*

حیراں وہ بے یقینیِ اہلِ جہاں سے ہے

دنیا کی بیوفائی سے دلگیر ہے حسین

*

یہ زیست ایک دشت ہے لا حد و بے کنار

اس دشتِ غم پہ ابر کی تاثیر ہے حسین

*

روشن ہے اس کے دم سے الم خانۂ جہاں

نورِ خدائے عصر کی تنویر ہے حسین

*

ہے اس کا ذکر شہر کی مجلس میں رہنما

اجڑے نگر میں حسرتِ تعمیر ہے حسین

***

(مجموعہ۔"ساعتِ.سیّار")

۲۹

حفیظ تائب

رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں

حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

*

انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود

انہی کے گھر کو میں دارالسلام جانتا ہوں

*

میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز

کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

*

مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات

سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں

*

نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر

جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں

*

میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں

جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں

*

شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب

جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں

***

۳۰

مرثیہ

از میر تقی میر

بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار

جاویں گے مارے آنکھوں کے آگے سب ایک بار

*

ناچار اپنے مرنے کا ہو گا امیدوار

ہے آج رات اور یہ مہمان روزگار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

یک دم کہ تیری ہستی میں ہو جائے گا غضب

سادات مارے جائیں گے دریا پہ تشنہ لب

*

برسوں فلک کے رونے کا پھر ہے یہی سبب

مت آ عدم سے عالمِ ہستی میں زینہار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

ماریں گے تیر شام کے نامرد سارے لوگ

دیویں گے ساتھ اس کا جنہوں نے لیا ہے جوگ

*

۳۱

تا حشر خلق پہنے رہیں گے لباسِ سوگ

ہو گا جہاں جوان سیہ پوش سوگوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

اکبر مرے گا جان سے قاسم بھی جائے گا

عباس دل جہان سے اپنا اٹھائے گا

*

اصغر بغل میں باپ کی اک تیر کھائے گا

شائستہ ایسے تیر کا وہ طفل شیر خوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

اے کاش کوئی روز شبِ تیغ اب رہے

تا اور بھی جہاں میں وہ عالی نسب رہے

*

لیکن عزیز جس کے مریں سب وہ کب رہے

بے چارہ سینہ خستہ و بے یار و بے وتار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۲

ذات مقدس ابن علی کی ہے مغتنم

اک دم میں اس کے ہوویں الٰہی بزار دم

*

کیا شب رہے تو ہووے ہے ایام ہی میں کم

آتا ہے کون عالمِ خاکی میں بار بار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

کاکل میں تیرے فتنے ہیں ہر اک شکن کے ساتھ

ہنگامہ لگ رہا ہے ترے دم زدن کے ساتھ

*

رہ کوئی دن عدم میں ہی رنج و محن کے ساتھ

یہ بات دونوں صمع میں رکھتی ہے اشتہار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

جلوے میں تیرے سینکڑوں جلووں کی مے فنا

یعنی سحر پہ آنا قیامت کا ہے رہا

*

دن ہو گیا کہ سبط نبی مرنے کو چلا

ساتھ اپنے دے چکا ہے تلف ہونے کا قرار

*

۳۳

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

آبِ فرات پر تو بہ شب دن نہ پھر کبھی

خوں ریز ورنہ ہونے لگے گا بہم ابھی

*

سیِّد تڑپ کے پیاس سے مر جائیں گے سبھی

پیغمبرِ خدا ہی کا پروردۂ کنار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

دن شب کو کس امید کے اوپر کرے بھلا

جو جانتا ہو یہ کہ ستم ہو گا برملا

*

نکلے گی تیغِ جور کٹے گا مرا گلا

اے وائے دل میں اپنے لیے حسرتیں ہزار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

ایسا نہ ہو کہیں کہ نکل آوے آفتاب

وہ جو غیور مرنے میں اپنے کرے شتاب

*

۳۴

دے بیٹھے سر کو مصر کے میں کھا کے پیچ و تاب

تر خوں میں دونوں کسو ہوں سر پر پڑے غبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

جس دم خطِ شعاعی ہوئے رونقِ زمیں

افگار ہو کے نیزہ خطی سیوہ حسیں

*

ہوویں گے جمع پیادے سوار آن کر وہیں

ہو گا جدا وہ گھوڑے سے مجروح بے شمار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

لوہو جبیں کے زخم سے جاوے گا کر کے جوش

فرق مبارک اس کے میں مطلق نہ ہو گا ہوش

*

سجدے میں ہو رہے گا جھکا سر کے تئیں خموش

آنے کا اپنے آپ میں کھینچے گا انتظار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۵

خورشید کی بلند نہ ہو تیغ خوں فشاں

ہے درمیاں نبی کے نواسے کا پائے جاں

*

ایسا اگر ہوا تو قیامت ہوئی عیاں

وہ حلق تشنہ ہو گا تہِ تیغ آب دار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

روشن ہوا جو روز تو اندھیر ہے نداں

میداں میں صاف ہو کے کھڑا دے چکے گا جاں

*

ناموس کی پھر اس کے نہ عزت ہے کچھ نہ شاں

اک شش جہت سے ہو گی بلا آن کر دو چار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

پھر بعد قتل اس کے غضب ایک ہے یہ اور

بختی چرخ راہ چلے گا انہوں کے طور

*

شیوہ جفا شعار ستم طرز جن کی جور

عابد کے دست بستہ میں دی جائے گی مہار

*

۳۶

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

خورشید سا سر اس کا سناں پر چڑھائیں گے

عالم میں دن وہی ہے سیہ کر دکھائیں گے

*

بیٹے کے تئیں سوار پیادہ چلائیں گے

ہو گا عنان دل پہ نہ کچھ اس کا اختیار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

پیکر میں ایک کشتہ کے ہو گی نہ نیم جان

خیل و حشم کا اس کے نہ پاویں گے کچھ نشاں

*

شوکت کہاں سر اس کا کہاں جاہ وہ کہاں

یہ جائے اعتبار ہے کیا یاں کا اعتبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

صاحب موئے اسیر ہوئے شام جائیں گے

سو کر جھکائے شرم سے ہر گام جائیں گے

*

۳۷

ناچار رنج کھینچتے ناکام جائیں گے

لطف خدائے عز و جل کے امیدوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

لازم ہے خوں چکان روش گفتگو سے شرم

کر اس نمود کرنے کی ٹک آرزو سے شرم

*

تجھ کو مگر نہیں ہے محمد کے رو سے شرم

بے خانماں بے دل و بے خویش بے تبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

راہِ رضا میں عاقبتِ کار سر گیا

ایسی گھڑی چلا کہ مدینے نہ پھر گیا

*

ہوں آفتاب جانبِ شام آ کے گھر گیا

خاطر شکستہ غم زدہ آزردہ دل فگار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۸

آثار دکھ کے ہیں در و دیوار سے عیاں

چھایا ہے غم زمین سے لے تا بہ آسماں

*

کچھ میر ہی کے چہرے پہ آنسو نہیں رواں

آیا ہے ابر شام سے روتا ہے زار زار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*****

۳۹

شامِ غریباں

پروین شاکر

غنیم کی سرحدوں کے اندر

زمینِ نا مہرباں پہ جنگل کے پاس ہی

شام پڑ چکی ہے

ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے

اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو

جو اپنی نو خیزیوں کی پہلی رتوں میں

رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے

اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک

جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر

ردائے عفت اڑھانے والے

بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں

بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ

ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا

مگر وفا کی سبیل بن کر

فضا سے اب تک چھلک رہا ہے

برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر

دوسرابیان جو کہ دینی پلورالزم کو واضح کرتا ہے وہ یہ ہے کہ''تمام ادیان اور ان کے راستے ایک ہی حقیقت کی طرف پہونچ کر منتہی ہوتے ہیں ۔

پہلا بیان یہ تھا کہ مختلف ادیان کے درمیان حقائق بٹے ہوئے ہیں اور ہر دین حقیقت کے کچھ حصّوں پر مشتمل ہے لیکن یہ بیان اس سے ہٹ کر اس چیز کو بتاتا ہے کہ حقیقت صرف ایک ہے ؛اور بہت سے راستے اس تک پہونچتے ہیں جو مختلف ادیان کی شکل میں پائے جاتے ہیں اس کی مثال اس طرح ہے مثلاً تہران تک پہونچنے کے لئے بہت سے راستے پائے جاتے ہیں اور لوگ مختلف راستوں سے تہران میں داخل ہو سکتے ہیں شمال، جنوب ،مشرق اورمغرب غرض کہ تہران جانے کے لئے ہر طرف سے راستہ ہے جس کوہر انسان چاہتا ہے وہ صرف ایک ہے لیکن مختلف راستوں سے جیسے اسلام ،مسیحیت ،یہودیت ،بودھ ازم،اور مختلف ادیان اس حقیقت تک پہونچا جا سکتا ہے۔

یہ بیان بھی پہلے بیان کی طرح دو طرح کا افراطی اور اعتدالی رجحان رکھتا ہے جو لوگ افراطی(شدت پسند)اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ تمام راستے کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے برابر ہیں اور ان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے۔ اعتدالی رجحان اس بات کا قائل ہے کہ اگر چہ راستے مختلف ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں لیکن مختلف راستوں میں دوری اور نزدیکی پائی جاتی اور کچھ پیچ وخم بھی رکھتے ہیں اور ان کے درمیان کمی اور زیادتی پائی جاتی ہے ایک راستہ بہت لمبا ہے تو ایک بہت چھوٹا ہے ایک بالکل سیدھا ہے تا دوسرا ٹیڑھا ہے ؛مثلاً اسلام مسیحیت کی نسبت سیدھا اور بہت کم فاصلہ رکھتا ہے لیکن اگر کوئی مسیحیت اور اس کے دستورات و احکام پر عمل کرتا ہو اور اعتقاد رکھتا ہو تو وہ بھی حقیقت تک پہونچ سکتا ہے ۔

۸۱

اس دوسرے بیان کو بھی ثابت کرنے کے لئے کبھی شعراء کے اشعار اور کبھی عرفاء کی مثالوں کا سہارا لیا جاتا ہے مثلاً شیخ بہائی کا یہ شعرپیش کیا جاتا ہے:

ہر جا کہ روم پر تو کاشانہ تو ئی تو

ہردر کہ زدم صاحب آنخانہ توئی تو

در میکدہ و دیر کہ جانانہ توئی تو

مقصود من از کعبہ و بتخانہ توئی تو

مقصود توئی کعبہ وبت خانہ بہانہ

یعنی میں جس جگہ بھی جاتا ہوں وہاں تیرا ہی جلوہ نظر آتا ہے جس گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں اس گھر کا مالک تو ہی ہے، بت خانہ اور میکدہ کے اندرمحبوب تو ہی ہے کعبہ اور بت خانہ سے میری مراد تو ہی ہے ؛ کعبہ اور بت خانہ تو ایک بہانہ ہے ورنہ حقیقت میں میرا مقصود تو ہی ہے خلاصہ یہ کہ اگرفکر و نظر کے پردہ کو چاک کیا جائے تو مسجد ، بت خانہ ، گرجا گھراور میکدہ ہر جگہ رخ محبوب کی تصویر دکھائی دیگیعباراتنا شتیّٰ وحسنک واحد''یعنی عبارتیں الگ الگ ہیں لیکن حسن سب کا ایک ہی ہے یعنی اگر چہ کلام سب کا الگ الگ ہے لیکن سب کے سب ایک ہی رخ زیبا کی تعریف کر رہے ہیں ۔

۸۲

دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر کاتجزیہ

کیا یہ بیان قابل قبول ہے اور اس کو سند قرار دیتے ہوئے ہم دینی پلورالزم کو قبول کر لیں ؟جو کہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام ہو یامسیحیت یا یہودیت و زر تشتی سب کے سب ایک ہی حقیقت اور سب کے سب انسان کو نیکی و کمال کی طرف پہونچاتے ہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ تصوّر اور ثبوت کے مرحلہ میں ایسا فرض کرنا ممکن ہے ،مثلاً ایک ایسے دائرہ کو فرض کیجئے کہ جس کے چاروں طرف سے مختلف شعائیںاس کے مرکز تک پہونچتی ہوں اور تمام شعاعیں ایک ہی نقطہ پر ختم ہوتی ہوں، لیکن کیا موجودہ ادیان کے بارے میں بھی ایسا کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسی طرح ہیں جیسا ان کا وہم و خیال ہے؟ تھوڑی سی بھی دقت اور توجہ کی جائے تو معلوم ہو جائیگا کہ ایسا نہیں ہے ( اور مختلف ادیان میں کوئی بھی یکسانیت نہیں ہے )۔سب سے پہلا مسئلہ جو کہ اسلام میں ہے وہ توحید اور خدا کو یکتا قبول کرنے کا ہے اسلام کی سب سے پہلی آواز ہے:قولوا لا اله ٰالاّ الله تفلحوا تم لوگ کہو کہ خدا ایک ہے تاکہ کامیاب ہو جائو !

لیکن مسیحیت کا نظریہ اس مسئلہ توحید میں کچھ اور ہے جس کی حکایت خدا وند عالم یوں کر رہا ہےا نّ اللہ ثالث ثلاثة'' یقیناً خدا تین میں سے ایک ہے ،یعنی ان کے یہاں تین خدا ہیں ؛ایک باپ کہ خدائے اصلی کہ جس کو خدائے اب کہتے ہیں ، ایک بیٹا کہ جو خدائے ابن ہے، اور تیسرا خدا روح القدس ہے ۔بعض عیسائی قائل ہیں کہ تیسرا خدا حضرت مریم ہیں ۔

۸۳

یہ اعتقاد جس کو تثلیث کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایسا اعتقاد ہے جس کی خدا نے سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے اور اس کو رد کیا ہے اس بات سے لوگوں کو روکا ہے اور اس کے ماننے والوں کو کافر کہا ہے،

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:( لقد کفرالذین قالو انّ الله ) ۔۔''( ۱ ) جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے یقیناًوہ لوگ کافر ہیں اور اللہ کے علاوہ کوئی بھی خدا نہیں ہے؛ اگر یہ لوگ اپنے قول سے باز نہیں آئینگے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر دردناک عذاب ہوگا ۔

مسیحیوں کے اس عقیدے کو (جو وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں یعنی ان کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں ) خدا نے بہت ہی عجیب جانا ہے، قرآن کریم میں ارشادہورہاہے :وقالوااتخذالرحمٰن ولداً۔۔''( ۲ ) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے ایک فرزند بنا لیا ہے یقیناًتم لوگوں نے بہت سخت بات کہی ہے قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اورزمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں؛

____________________

(۱) سورہ مائدہ: آیہ ۷۳۔

(۲) سورہ مریم :آیہ ۸۸تا ۹۰۔

۸۴

سچ مچ قرآن کی یہ تعبیر کتنی سخت ہے ؟تثلیث کا اعتقاد اور یہ کہ عیسی خدا کے بیٹے ہیں اس حد تک غلط ہے اور بربادی کا سبب ہے کہ اس کے اثر سے قریب ہے کہ تمام آسمان اور زمین نیز پہاڑ تباہ و برباد ہو جائیں ۔کیا اس طرح کی تعبیر کے بعد بھی یہ کہنا صحیح ہے کہ تثلیث کا اعتقاد اور توحید کا اعتقاد دونوں ایک حقیقت کی طرف لے جانے والے ہیں ! ایک مذہب اسلام ہے جو کہتا ہے کہ سور کا گوشت کھانا حرام اور نجس ہے اور دوسرے مذاہب یہ کہتے ہیں کہ سور کا گوشت لذیذاور اچھا ہے اور اس کا کھانا جائز ہے؛ اسلام کہتا ہے کہ شراب اور الکحل نہایت بری چیز ہے اور شیطانی پھندے ہیں جب کہ مسیحیت کہتی ہے کہ بعض شراب کے کچھ حصہ میں خدا کا خون ہوتی ہے، کشیش (عیسائی عالم ) لوگ عشائے ربّانی کے مراسم میں روٹی کے ٹکڑے کو شراب میں ڈبوتے ہیں پھر سب منھ میں ڈالتے اور کہتے ہیں کہ شراب جب انسان کے خون میں جاتی ہے تو خدا کا خون بن جاتی ہے ؛عاقل اور بالغ انسان کوجانے دیجئے ایک معمولی بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ یہ دو دین اس حالت میں کسی بھی صورت میں ایک نقطہ اور منزل پر نہیں پہونچ سکتے ؛آپ خود دیکھیں ایک مذہب کہتا ہے کہ جب تک شراب نہیں پیوگے تم خدا کے ماننے والے نہیں ہو سکتے ہو جب کہ دوسرا مذہب یہ کہتا ہے کہ شراب پینا شیطانی عمل ہے ؛اب اس کے بعد بھی ہم کہیں کہ دونوں مذہب ایک مقصد تک لے جاتے ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ ایک احمقانہ بات ہے اور افسانہ و شعر سے مشابہ ہے نہ کہ واقعیت اور حقیقت سے ؛مگر یہ کہ خدا اور شیطان کو بھی ایک جانیں اور کہیں کہکعبہ اور بت خانہ سے مراد فقط تو ہی ہے

۸۵

سچ مچ یہ بہت ہی تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اس کے باوجود'' بہت سے سیدھے راستوں'' کے قول پراصرار کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ سب اختلاف اور تعارض جو ادیان میں پایا جاتا ہے ان سب کا نتیجہ ایک ہی ہے ؛یعنی سب کے سب آخر میں ایک مقصد تک پہونچتے ہیں ؛آخر یہ کیسے ممکن ہے اسلام کا نظریہ کہخدا موجود ہےاور بودھ ازم کا نظریہ یہ کہکوئی بھی خدا موجود نہیں ہے' 'اور پھر بھی دونوں ایک حقیقت تک پہونچتے ہوں؟!یہ کیسے ہو سکتا ہے حضرت علی کو بھی مانا جائے اور معاویہ کو بھی ؛حضرت امام حسین کو بھی قبول کریں اور یزید و شمر ذی الجوشن کو بھی؟! اور یہ اعتقاد رکھیں کہ سب کے سب حق پر ہیں اور جس کے پیچھے بھی چلا جائے وہ سیدھا راستہ ایک ہے اور منزل مقصود تک پہونچانے والاہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک پورب کو جاتا ہے اور ایک پچھم کو، ایک اتر کو جاتا ہے اوردوسرا دکھن کو، اور ہر ایک کا الگ الگ راستہ ہے اور پھر بھی اسی بات پر اصرار ہے کہ سب کے سب سیدھے راستے پر ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں ۔

۸۶

شعر:

ترسم نہ رسی بہ کعبہ ای اعرا بی

این رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است

اے اعرابی !میں ڈرتا ہوں کہ تو کعبہ کو نہیں پہونچے گا اس لئے کہ جس راستے پر تو جا رہاہے وہ راستہ ترکستان کو جاتا ہے ۔

بہر حال پلورالزم دینی کی یہ دوسری تفسیر جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ادیان اور مذاہب ہم کو ایک منزل مقصود تک لے جاتے ہیں اگر چہ اشعار کے لحاظ سے ایک اچھی چیز ہے ہے لیکن حقیقت اور واقعیت سے خالی ہے اور اس کا باطل ہوناسورج سے بھی زیادہ روشن ہے ۔

دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر

تیسرابیان جو دینی پلورالزم کے لئے کیا جاتا ہے وہ اصل میں ایک معرفت شناسی پر منحصر ہے اس بنیاد پر وہ تمام چیزیں جو کہ غیر حسیّ اور غیر تجربی ہیں یعنی ان کو محسوس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا تجربہ کیا جا سکتا ہے ؛وہ بے معنی ہیں اور نفی اثبات کے لائق نہیں ہے اگر چہ اس کی تفصیل معرفتی شناخت سے مربوط ہے لیکن اس کی مختصر وضاحت یہاں پر کی جارہی ہے :

معرفت شناسی کی بحث میں بعض (پوزٹیوسٹ)کہتے ہیں کہ جو پہچان اور معرفت والی چیزیں ہیں وہ دو حصّوں میں منقسم ہوتی ہیں

۸۷

پہلی قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ محسوس کی جاسکتی ہیں اور ان کو دیکھا جا سکتا ہے جیسے ہم کہیں کہ چراغ روشن ہے یہ بات تجربہ اور محسوس کرنے کے قابل ہے آپ بٹن کو دبائیں گے تو پورا کمرہ تاریک ہو جائیگا اور کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا پھر آپ بٹن کو دبائیںگے تو پورا کمرہ جگمگااٹھّے گا اور آپ جس چیز کو بھی دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں ،یا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آگ جلاتی ہے تو یہ تجربہ کرنے والی چیزہے ؛اور اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے؛ اگر آپ اپنے ہاتھ کو آگ کے قریب لے جائیں گے تو ہاتھ جل جائے گا۔ اس طرح کی چیزیں جو تجربہ کی جا سکتی ہیں اور ان کو محسوس کیا جا سکتا ہے تو ان کے متعلق یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ سچ ہے یا یہ جھوٹ ؟حق ہے یا باطل؟ صحیح ہیں یا غلط؟ کیونکہ معلوم کرنے کا راستہ یہی حس اور تجربہ ہے ۔

دوسری قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ حس اور تجربے میں نہیں آسکتی ہیں یا وہ تجربے کے لائق نہیں ہیں ان چیزوںکا اقرار یا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے؛ یا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں کچھ معنی نہیں رکھتی ہیں ، اوران میں سچ یا جھوٹ نہیں پایاجا تا ہے لہذٰا ایسی چیزوں کے بارے میں کچھ بھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جو افراطی (شدّت پسند) پوز یٹوسٹ ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی چیزیں اصلاً بے معانی ہیں ان کا ہونا اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہاس چراغ کی روشنی کا مزہ کھٹّا ہےیا یہ کہیں کہاس چراغ کا نور انگلینڈ کا بادشاہ ہےجس طرح یہ دونوں چیزیں بے معنی ہیں اور کچھ مطلب نہیں رکھتی ہیں اسی طرح وہ چیزیں جو کہ تجربہ کے لائق نہیں ہیں اور محسوس نہیں کی جا سکتی ہیں وہ بھی ایسی ہی ہیں ؛دین سے متعلق باتیں بھی یہی حکم رکھتی ہیں مثلاً یہ بات کہ خداموجود ہے، خدا ایک ہے یا خدا تین ہے یا خدا نہیں ہے یہ سب بھی بے معنی اور بے مفہوم باتیں ہیں کہ ان کے حق یا باطل ہونے یا سچے اور جھوٹے ہونے کا دعویٰ کرناغلط اوربیکارہے اور کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس ایک کو مانتے ہیں چاہے آپ یہ کہیں کہ خدا ایک ہے یا یہ کہیں کہ خدا تین ہے دونوں باتیں فائدہ کے اعتبار سے برابر ہیں اور کچھ بھی معنی و مفہوم نہیں رکھتی ہیں ،یہ سب باتیں نہ ہی پیٹ کی غذا بنتی ہیں اور نہ ہی جسم کا لباس اور نہ ہی انسانی زندگی کی کسی بھی مشکل کا حل پیش کرتی ہیں ۔

۸۸

لیکن جو پوزیوٹیسٹ اعتدال پسند ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں ؛جن کو اصطلاح میں ما وراء طبعت کہا جاتا ہے ؛اس طرح کی چیزیں بے معنی نہیں ہیں ؛ لیکن چونکہ ہماری پہونچ سے باہر ہیں اور ہم ان کو محسوس اور ان کا تجربہ نہیں کر سکتے لہذٰا ان کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ثابت ہیں یا نہیں اس نظریہ کا نتیجہ نسبیت اور شکاکیت ہے یعنی غیر حسی اور غیر تجربی چیزوں کے بارے میں دینی باتوں کا بھی شمار انھیں میں ہوتا ہے ،یا یہ کہیں گے کہ ان کے حق یا باطل ہونے کو ہم نہیں جانتے ہیں ؛کیونکہ وہ ہمارے تجربے میں نہیں ہیں ، یایہ کہیں گے کہ ان کا جھوٹ اور سچ ہونا معاشرہ اور زمانے کے اعتبار سے فرق کرتا ہے کبھی کبھی سارے حق بھی ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی سب کے سب باطل بھی ہو سکتے ہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم ان کو کس شخص ،کس زمانہ،کس معاشرہ اور کس ماحول کی نسبت دیکھتے ہیں ۔کبھی یہ کہا گیا ہے کہ افکار واقدار کے مفاہیم یا وہ چیزیں جن میں اچھائی اور برائی ہو سکتی ہے ان میں حق اور باطل نہیں پایا جاتا ہے اور اس طرح کی خبریں جیسے ' عدالت کے ساتھ انسان کو سلوک کرنا چاہئیے' ظلم نہیں کرنا چاہئیے' سچ کہنا اچھی بات ہے' جھوٹ بولنا بری بات ہے یہ سب باتیں احساس اور سلیقے اور جذبات وغیرہ سے متعلق ہیں ؛یہ اسی طرح ہے کہ جیسے ہر شخص اپنے اپنے ذوق و سلیقہ کے مطابق رنگ کو پسند کرتا ہے،

۸۹

اگرچہ یہ باتیں معنی رکھتی ہیں لیکن ان پر کوئی دلیل اور برہان نہیں ہے ۔

بہر حال دینی پلورالزم کی تیسری تفسیرکے مطابق ادیا ن اور دینی باتوں میں اختلاف کی مثال یا رنگ جیسی چیز ہے کہ مطلق طور سے نہیں کہا جا سکتا کہ سبز یا زرد رنگ اچھا ہے یا ایک اچھا ہے اور دوسرا خراب ہے بلکہ ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ دونوں اچھے اور بہتر ہیں ۔ یا یہ کہیں کہ ہم چونکہ ان کی حقیقت سے نا آشنا ہیں ؛اور ان کے قبول یا ردکرنے پر ہم کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے لہذٰا ان کے بارے میں ہم کو جھگڑا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ہم کو اس بات کا اعتقاد رکھنا چاہئیے کہ سب کے سب برابر ہیں ان ادیان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے اور جس کسی کو بھی چاہیں اختیار کر لیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر کاتجزیہ

اس تفسیرپر نقد وتبصرہ کے لئے جو راستہ ہمارے پاس ہے وہ یہ کہ اس کے معرفت شناسی ہی کے مبنیٰ اور اصول کو بحث کا موضوع قرار دیں اورا س میں غور وفکر کریں ؛اس کے لئے ہم کو سب سے پہلے اس بات پر توجہ کرنی چاہئے کہ معرفت شناسی کی بحث میں ہم کو مندرجہ ذیل سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

(۱) جیسا کہ افراطی''پوزیوٹیسٹدعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اشیاء جو کہ واقعی اعتبار سے حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں وہ بے معنی ہیں ؟

(۲) کیا وہ باتیں جو کہ افکار واقدار کے مفاہیم پر مشتمل ہیں اور کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے یا ان کے اچھے یا برے ہونے کو بتاتے ہیں ؛ ان کو سچ یا جھوٹ سے متصف نہیں کیا جا سکتا اور ان کے بارے میں حق و باطل کو پیش نہیں کیا جا سکتا ؟

(۳)کیا عام طور پر ہر معرفت چاہے صحیح اورحق ہونے سے متعلق ہو یا غلط اور باطل ہونے سے، نسبی ہے اور کوئی بھی بات مطلق و پائدار اور یقینی نہیں ہے ؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ ہم ان تمام جگہوں پر یقینی باتوں کو جان سکتے ہیں ۔

(۴) خاص طور پر دینی معرفت کیا دینی معرفت کے متعلق، یقینی ، مطلق اندازمیں اور ثابت طریقے سے پائی جاتی ہے؟ یا یہ کہ تمام دینی معرفیتں خود ہماری فہم اور سمجھ کی تابع ہیں کہ جسے آج کی اصطلاح میں ہماریمختلف قرائتیںکہا جاتا ہے ۔ یہ بحث وہی ہرمنو ٹکاور دینی باتوں کی ہر منو ٹک تفسیر کی بحث ہے۔

دینی پلورالزم کا یہ تیسرا بیان آیا صحیح ہے یا غلط ؟پہلے ان مذکورہ سوالات کے جواب واضح ہوںکہ انشااللہ ہم آئیندہ بحث میں جن کو بیان کریں گے۔

۹۰

دینی پلورالزم (۳)

پلورالزم نظریہ کی پیدائش میں نفسیاتی عوامل پر دوبارہ ایک سرسری نظر

پچھلے جلسہ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا تھا کہ پلورالزم کی فکر پیدا ہونے میں جو اسباب و عوامل ہیں ان میں ایک نفسیاتی سبب بھی ہے جو کہ بہت سے لوگوں 'خاص کر جوانوں 'میں پایا جاتا ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے ادیان و مذاہب پائے جاتے ہیں اور بہت سے لوگ خلوص اورسچائی کے ساتھ اس کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سب لوگ جہنم میں جائیں گے؟ اور فقط ایک مختصر سی جماعت جو کہ مسلمانوںہیں وہ بھی مسلمانوں کا ایک خاص گروہ (شیعہ)ہی جنت میں جائیں ؟ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ شیعوں میں بھی وہی لوگ جن سے کوئی گناہ نہ ہوا ہو یا اگر گناہ ہو گیا ہو تو انھوں نے توبہ کر لی ہو بس وہی جنت میں جائیں گے؛ چونکہ یہ بات عام طور سے لوگوں کے لئے ناممکن لگتی ہے اور وہ اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں لہذا یہ مسئلہ ان کے ذہن میں تقویت کرجاتا ہے کہ تمام دین کے ماننے والے یا کم سے کم وہ لوگ جو کہ اپنے دین کے پابندبہیں اور ان کے احکام پر عمل کرتے ہیں وہ بھی نجات کے مستحق ہیں اور بہشت میں جائیں گے ۔

پہلے جلسہ میں ہم نے اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ اس شبیہ کو ذہن سے دور کرنے کے لئے اس نکتہ کی طرف توجہ دینا ہوگاکہ جس وقت ہم یہ کہتے ہیں :''دین حق فقط اسلام ہے اور اس کی پیروی انسان کے لئے کامیابی اور نجات کا سبب بنتی ہےاس کا نتیجہ اور لازمہ یہ نہیں ہے کہ دوسرے تمام انسان جہنم میں جائیں گے ۔بلکہ یہاں دوسرے تمام انسانوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (البتہ ان دو گروہوں میں اکثریت کس گروہ میں ہیں اور کون لوگ اقلیت میں ہیں یہ ایک حسابی بحث ہے جو کہ ہماری گفتگو سے مربوط نہیں ہے)،وہ دونوں گروہ یہ ہیں :

۹۱

( ۱ ) پہلے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو حق کو تلاش کرتے ہیں اور اس کی جستجو میں محنت ومشقّت کرتے ہیں ؛ اور واقعی طور سے اس بات کی کوشش میں ہیں کہ حق کو حاصل کر لیں لیکن کسی بھی سبب سے اس کو نہیں پا سکے ہیں ۔

( ۲ ) دوسرے گروہ میں وہ لوگ ہیں جوتحقیق کے حالات اور اسباب فراہم ہونے کے باوجود حق کو تلاش نہیں کرتے ہیں یا یہ کہ ان کے نزدیک حق واضح تھا کہ فقط مذہب اسلام حق ہے،پھر بھی اس کو قبول نہیں کیا جو لوگ جہنم میں جائیںگے یہی دوسرے گروہ والے ہیں ؛ لیکن پہلے گروہ والے جنھوں نے حق کے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے یا اس کو پہچاننے میں غلطی کر بیٹھے ہیں اور حق تک پہونچنے سے رہ گئے ہیں ان کے ساتھ دوسری طرح سے سلوک کیا جائیگا ان افراد کو علم فقہ و کلام کی روشنی میں مستضعف] کہ جس سے مراد یہاں پر مستضعف فکری ہے[ کہا جا تا ہے اگر ان لوگوں نے انھیں حقائق پر عمل کیا ہے یا جو اپنی عقل سیایک خاص دین کی تعلیمات کے ذریعہ ان کو حاصل کیا ہے تو وہ لوگ اپنے نیک عمل کی جزا پائیں گے ۔

البتہ یہ بات کہ کیا یہ لوگ جہنم کے نچلے طبقہ میں جگہ پائیں گے ،یا جنت و جہنم کے درمیان ان لوگوں کے لئے کوئی بیچ کا حصّہ مخصوص ہو گا ،یا یہ کہ قیامت کے میدان میں ایسے لوگوں کے لئے سوال و جواب کا کوئی امتحان منعقد ہوگا ،یہ سب دوسرے مسائل ہیں ( جو کہ تفصیلی بحث چاہتے ہیں ) لیکن بہر حال یہ گروہ ابدی عذاب میں گرفتار اور مبتلا نہیں رہے گا ۔

۹۲

آیہ''( ومن یبتغ غیرالاسلام دیناً ) کی توضیح

جو سوال اس جگہ سامنے آتا ہے ( در اصل گذشتہ مطالب کو مختصراً میں نے اس سوال کو پیش کرنے کے لئے بیان کیا تھا ) وہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں خدا وند عالم فرماتا ہے :( ومن یبتغ غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منه ) ( ۱ ) اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کو تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ قیامت کے روز گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو گا ۔یہ آیہ کریمہ بالکل واضح انداز میں اس بات کو بتاتی ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین قابل قبول نہیں ہے جب کہ آپ کے بیان کے مطابق دوسرے ادیان بھی کم و زیادہ کچھ نہ کچھ قبول کئے جائیں گے اس مشکل کو کس طرح حل کیا جائے گا ؟

یہ آیہ ایک تفسیری بحث رکھتی ہے اگر اس کی تفصیل میں جائیں گے تو اصلی بحث سے خارج ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اس مطلب کو مختصراً عرض کرتے ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ آل عمران : آیہ ۸۵۔

۹۳

وہ دین جو کہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں لوگوں کے لئے آیا تھا ؛حقیقت میں وہ بھی دین اسلام تھا اور لوگوں کے لئے ضروری تھا کہ اس دین پر عمل کریں جب تک کہ کوئی

نئی شریعت نہ آجائے ۔جس وقت حضرت موسیٰ شریعت لیکر آئے تو حضرت ابراہیم کی شریعت منسوخ ہو گئی ؛لیکن حضرت موسیٰ کا دین بھی دین اسلام تھا فرق صرف اتنا تھا کہ بعض احکام جو حضرت ابراہیم کی شریعت میں تھے وہ منسوخ ہو گئے ؛حضرت موسیٰ کی شریعت بھی حضرت عیسیٰ کی شریعت آنے کے بعد منسوخ ہوگئی ؛اور لوگوں پر ضروری ہو گیا کہ وہ نئی شریعت کے مطابق جو کہ حضر ت موسیٰ سے کچھ فرق رکھتی تھی اس پر عمل کریںلیکن پھربھی حضرت عیسیٰ کا دین وہی تھا جو کہ حضرت موسیٰ کا دین تھا اور آخر کار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے سے پچھلی شریعتیں منسوخ ہو گئی ؛اور لوگوں پر ضروری ہو گیا کہ لوگ شریعت محمدی پر عمل کریں ؛اور ہم جانتے ہیں کہ شریعت محمدی وہی دین اسلام ہے؛ لیکن یہ شریعت کچھ خاص اورا ہم قوانین و احکام لیکر آئی جو کہ اس شریعت کو دوسری شریعتوں ممتاز اور جدا کرتی ہے یہاں پر اسلام نے ایک خاص معنی پیدا کر لئے اور وہ وہی معنی ہیں جن کو ہم سمجھتے ہیں ۔ اس وضاحت سے یہ بات روشن ہو گئی کہ اسلام مختلف مصداق رکھتا ہے اسلام کا ایک مصداق شریعت ابراہیمی ہے ؛اس کا دوسرا مصداق حضرت موسیٰ کی شریعت ہے اسی طرح دوسرے اور مصداق بھی ہیں ؛ لہذااس آیہ کا مطلب اور مفہوم یہ ہوا کہ جو کوئی بھیان مصادیق اسلام سے جس مصداق کے زمانہ میں ہو تواس کو وہی قبول کرنا ہوگا اور دوسرا دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا؛ بہر حال اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ جس کسی نے بھی حضرت موسیٰ، عیسیٰ،یا ابراہیم کے دین کو قبول کیا ہے اس کا دین خدا کے یہاں قابل قبول ہے لہذا

۹۴

اس آیت کا یہ مطلب کہ (اس زمانے میں جو کوئی بھی اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کو قبول کرے گا اس کو خدا قبول نہیں کرے گا )اس کے معنی یہ ہیں کہ اس زمانے میں بھی خدا نے جو دین پیغمبروں کے ذریعہ بھیجا تھا اس کو بھی قبول کرے اور ان خاص احکام کو بھی جن کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لیکر آئیں ہیں قبول کرے۔البتہ ایک شریعت کے ذریعہ دوسری شریعت کے احکام کا نسخ ہونا مخصوص نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ ایک ہی شریعت اپنے کچھ پچھلے احکام کو نسخ کر دے ؛مثلاً شروع اسلام ،میں مسلمانوں کو حکم تھا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں اور یہ حکم یہاں تک مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے بعدتک باقی رہا؛ لیکن جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کی اور مدینہ آئے تو خدا کے حکم سے قبلہ بیت المقدس سے کعبہ کی سمت ہو گیا۔ لہذٰا بعض احکام کا نسخ ہونا اصل دین کے بدلنے کا سبب نہیں ہوتا ہے؛ اصل دین توحید، نبوت ،قیامت کا اعتقاد ہے۔ تمام انبیاء پر ایمان رکھنا ہی نبوت کا اعتقاد ہے قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے :( آمن الرسول بما انزل الیه من ربّه'' ) ( ۱ ) رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے پرور دگار کی طرف سے نازل کی گئی ہیں اور مومنین بھی سب کے سب اللہ اور

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیہ ۲۸۵

۹۵

اس کے ملائکہ ،رسول اور ان کتابوں پر جو وہ لیکر آئے ان پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم رسولوں کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہیں یعنی ہم کسی بھی پیامبر کی تکذیب

نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا حق رکھتے ہیں اور سب کو واجب الا طاعت سمجھتے ہیں البتہ اگر موسیٰ، عیسیٰ بھی اس زمانے میں ہوتے تو وہ بھی شریعت محمدمصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرعمل کرتے۔

دین اختیار کرنے میں ہماری ذمہ داری اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا حکم

لہذٰا اس زمانے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن ،پیغمبر اور ائمہ علیھم السلام کے احکام پر عمل کریں اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے حکم پر عمل کریں گے تو وہ قبول نہیں ہوگا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دین حقیقی طور پر پچھلے ادیان سے جدا ہے اگر چہ ادیان بعض احکام میں جدا ہیں اور اختلاف رکھتے ہیں لیکن کلی اصول اوربہت سے احکام میں سارے ادیان ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اوروہ سب اسلام میں ہیں ،لہذٰا اگر کوئی شخص حق کو پہچاننے یا مشخص و معین کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ مستضعف ہے اور اس نے جتنا پہچانا ہے اتنا ہی اس کو عمل کرنا چاہئے ،اسی پر اس کو ثواب ملے گا لیکن اگر کسی نے کسی زمانے میں حق کو پہچانا اور اس کے باوجود اس کی مخالفت کی اور دشمنی اختیار کی تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلے گا، یہ مطلب دعائے کمیل کے اس فقرے سے بھی ظاہر ہوتا ہے، مولا علی فرماتے ہیں :اقسمت ان تملاهامن الکافرین من الجنة والناس اجمعین وان تخلدفیها المعاندین ائے خدا ! تو نے قسم کھا کر کہا ہے کہ اس جہنم کو تمام جن و انس کہ جو کافر ہوںگے بھر دوں گا اور وہ لوگ جو تیرے دین سے دشمنی رکھتے ہیں

۹۶

ان کو اس جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رکھے گا ، بہر حال جو لوگ بھی خدا کے دین سے دشمنی اور عناد رکھتے ہیں وہی لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، لیکن اگر کوئی شخص عناد و دشمنی نہیں رکھتا ہے اگر وہ عذاب میں مبتلا بھی ہوگا تو اسی مقدار میں جتنا اس نے گناہ اور کوتاہی کی ہے، مستضعفین بھی اسی مقدار میں عذاب سے معاف رہیں گے جتنا وہ حق کو نہیں پہچان سکے ہیں ۔ اس مقام پر جس مطلب کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اگر مسلمانوں (شیعوں) کے علاوہ جو لوگ جہنم میں نہیں جائیںگے تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کا دین حق پر تھا بلکہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس عذر ہے ؛البتہ جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے جو لوگ پچھلی شریعت جیسے موسی یاٰ عیسیٰ کے دور میں زندگی بسر کر کر رہے تھے ان کی ذمہ داری اسی شریعت پر عمل کرنے کی تھی۔ بہر حال دین حق اور صراط مستقیم صرف ایک ہی ہے ،او رجو لوگ اس ایک صراط مستقیم یعنی اسلام کے علاوہ کسی دین پر رہ کر جہنم میں نہ جائیں گے تو اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ دین حق اور صراط مستقیم (سیدھے اور صحیح راستے) ایک سے زیادہ ہیں ۔

نفسیات سے متعلق ایک نکتہ

ایک نکتہ اس جگہ پر بہت اہم ہے وہ یہ کہ انسان ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ پہلے کسی چیز کی خوبی اور اچھائی کے بارے میں دلیل کو تلاش کرے اور جب دلیل مل جائے تو اس چیز کو اختیا رکر لے بلکہ کبھی کبھی مسئلہ اس کے بر خلاف ہوتا ہے یعنی پہلے کوئی چیز انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کو اچھی لگتی ہے ،اس کے بعد اس کے اچھے ہونے یا صحیح ہونے پر دلیل لاتا ہے؛ اس طرح کے موقعوںپر انسان اپنے دل کی حرکت کا تابع ہوتا ہے

۹۷

کبھی تو یہ اچھی اور صحیح چیز ہوتی ہے اور کبھی کبھی غلط ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ پہلے ان کا دل کسی چیز کو قبول کر لیتا ہے اس کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح بھی عقل کو دل کے ساتھ ہماہنگ کرلیں؛یعنی اس چیز کو ثابت کرنے کے لئے دلیل لاتے ہیں ۔یہ بات بہت سے ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے تھے؛ بہت سے لوگ ایسے نہیں تھے کہ پہلے تحقیق کریں اور اسلام کے اعتقاد کی تلاش و جستجو کریں اور جب تحقیق و جستجوکرلیا ہو اور توحید و خدا کی حقانیت ان کے لئے ثابت ہو گئی ہو تب ایمان لے آئے ہوں ؛بلکہ انھوں نے صرف رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رفتار اور ان کے اخلاق کو دیکھا تو ان کے دل نے کہا کہ وہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح ان کے ساتھ ہوں لہٰذاوہ ان کے ساتھ ہوگئے ؛پہلے ان کے دل نے قبول کیا اس کے بعد پھر اس پر دلیل پیش کی ۔یہ بات باطل میں بھی پائی جاتی ہے ؛یعنی چونکہ انسان ایک غلط چیز کی طرف رجحان رکھتا ہے اور اس کا دل اس کو چاہتا ہے تو وہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کی توجیہ کرے؛ بہت سے لوگوں نے گناہ ،اور برائی کی عادت کر لی ہے ان کا دل چاہتا ہے کہ ہر طرح آزاد رہیں ؛اور جس چیز کا بھی دل چاہے اس کو انجام دیں ؛ظاہر سی بات ہے ایسے لوگ اس بات کے لئے تیار نہیں ہیں کہ حساب و کتاب اور قبر و قیامت ہو؛ان کا دل اس بات کو گوارانہیں کرتا اور نہ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی عمر کا ہر لمحہ اور ان کی زندگی کا چھوٹا سا عمل بھی کسی کے زیرنظر رہے، اور ہر چیز کے بارے میں سوال و جواب ہوگا اسی لئے ان کا دل چاہتا ہے کہ حساب و کتاب نہ ہو ؛اور ان خواہشوں کے لئے انسان کوشش کرتا ہے کہ قیامت اور آخرت کے انکار کے لئے دلیل تلاش کرے، قرآن میں اسی سے متعلق خدا فرماتا ہے :( ایحسب الانسان ان لن یجمع عظامه بلیٰ ) ( ۱ ) کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر پائیں

____________________

(۱) سورہ قیامت : آیہ ۳ الیٰ ۵ ۔

۹۸

گے؟ یقیناًہم تو اس بات پر بھی قدرت رکھتے ہیں کہ ان کی انگلیوںکے پور کو بھی از سر نو ویسے ہی درست کر دیں؛ بلکہ انسان تو فقط یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے وہ انسان جو قیامت کا انکار کرتا ہے واقعاً کیا وہ فکر کرتا ہے کہ ہم اس کو دوبارہ زندہ نہیں کر پائیں گے ؟ اگر وہ تھوڑی سی بھی فکر کرے اور عقل وفہم سے کام لے تو اچھی طرح سمجھ سکتا

ہے کہ وہ خدا جس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا کیا دوبارہ اسی انسان کو زندہ نہیں کر سکتا ہے یقیناًیہ کام پہلے سے زیادہ آسان ہے چونکہ شروع میں انسان کچھ بھی نہیں تھا اور خدا نے اس کو پیدا کیا اور اب تو کم سے کم گوشت اور ہڈیّ تو ہے اگرچہ بوسیدہ اورسڑ گل گئی ہیں لہذٰا انسان کی عقل اس بات کو آسانی سے قبول کر لیتی ہے کہ جس ہاتھ نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی قدرت دوبارہ اسی بوسیدہ اور سڑی گلی ہڈیوں اورگوشت کو جمع کر کے زندہ کر سکتا ہے، لہذٰا قیامت کے منکر اس حد تک اپنی بات پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ وہ صرف اس لئے کہ''بل یرید الانسان لیفجر امامه ''یعنی انسان چاہتا ہے کہ آزاد رہے کسی کی قید و بند میں نہ رہے ،بلکہ اسکو اس بات کی بھی آزادی حاصل رہے کہ جس گناہ اوربرائی کو بھی اس کا دل چاہے اس کو انجام دے ؛اور اس کے کام میں کوئی بھی حساب و کتاب نہ ہو ،بس اس جگہ پہلے اس کے دل نے فتویٰ دیا کہ آخرت اور قیامت وغیرہ نہیں ہے اس کے بعد اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس بات پر دلیل لائے اجتماعی مسائل اکثر ایسے ہی ہیں کہ جن میں بجائے اس کے کہ دل عقل کے پیچھے ہو ،عقل دل کے پیچھے چلتی ہے ۔

۹۹

اس کا زندہ ثبوت ہمارے زمانہ میں پایا جارہا تھا وہ مرکس ازم کی طرف لوگوں کا رجحان اور اعتقاد تھا ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں نے پہلے جاکر ماٹریالزم اورڈیا للٹک کے اصول پر بحث اور جستجو کی ہو اور دلیل و برہان سے ان کے لئے ثابت ہوا ہو کہ مادہ کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے اورمارکسی اقتصاد اور اس سے متعلق سارے مسائل صحیح اور درست ہیں ۔میں خود ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ مسلمان نمازی اور روزہ دار تھے لیکن مارکسسٹ تھے اور ان کی فکر تھی کہ یہ دونوں چیزیں (اسلام اور مارکس ازم) جمع ہو سکتی ہیں ۔ آخر ان لوگوں نے مارکیزم کی طرف رجحان کیوں پیدا کر لیا تھا ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے سماج اور عوام کے درمیان ظلم و ستم اور دولت و ثروت کی ذخیرہ اندوزی کو دیکھا وہ اس بات کو دیکھ رہے تھے کہ کچھ لوگ دولت کی زیادتی کے سبب اس بات سے لا علم تھے کہ اس کو کس طرح سے خرچ کیا جائے ،اس کے مقابلے میں کچھ لوگ بہت ہی فقیری اور مفلسی میں زندگی بسر کر رہے تھے اس وقت ان لوگوں نے سوچا کہ یا تو سرمایہ داری کو قبول کر لیں یا مارکس ازم کو قبول کر لیں ،سرمایہ داری کا انجام معاشرہ میں یہی واضح اور افسوسناک طبقاتی فاصلہ تھا

لہذٰا ان لوگوں نے مارکس ازم کو قبول کر لیا ؛اس کے بعد مارکس ازم کو قبول کر لیتے تھے تو

رفتہ رفتہ علمی اصطلاح میں مارکس ازم کے لئے دلیل بھی تلاش کرنا شروع کر دیتے تھے اور آہستہ آہستہ ماٹریا لیزم اور مادہ کی اصالت کو قبول کر لیتے تھے پلورالزم کے بارے میں بھی بعض جگہوں پر اکثر لوگوں کی ا یسی ہی کہانی ہے پہلے ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بات کو کس طرح قبول کریں کہ تمام کے تمام لوگ جہنم میں جائیں گے اور بہت کم ہی لوگوں کو نجات حاصل ہوگی ؟ ہم اس بات کو قبول نہیں کرسکتے ،ایک ایسا راستہ اختیار کریں کہ دوسرے لوگ بھی جنت میں جا سکیں۔ اس فکر کے پیچھے ان لوگوں نے اس نظریہ کو پیش کیا کہ' 'سارے دین حق پر ہیں اور اس بات کی کوشش کی کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دلیل بنائی جائے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232