ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215410 / ڈاؤنلوڈ: 4970
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

سیف نے ''عبداللہ ابن سبا''کو جعل کرکے اسے سبائی ،صنعائی اور یمنی کہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ''عبداللہ ابن سبا''نے اسلامی ممالک کے تمام مراکز ،جیسے :شام،مصر،کوفہ اور بصرہ وغیرہ کا سفر کرکے ہر جگہ پر لوگوں کو وہاں کے گورنروں کے خلاف شورش اور بغاوت پر اکسایا اور آخر کار اپنے حامیوں اور پیرئووں کے ہمراہ مدینہ پہنچا اور خلیفہ عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور اس کے بعد انھیں قتل کر ڈالا ۔کچھ مدت کے بعد حضرت علی ابن ابیطالب کی حکومت کے دوران جنگ جمل میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دوبارہ ظاہر ہوا ۔جو جنگ خاندان مضر کے ایک معروف شخصیت کی حکمت عملی اور فہم و فراست کے نتیجہ میں صلح کے نزدیک پہنچ چکی تھی ،سبائیوں کی سازشوں اور براہ راست مداخلت سے ایک خونریز جنگ میں تبدیل ہوگئی ،جب کہ خاندان مضر کے سردار حضرت علی ،عائشہ ،طلحہ اور زبیر اس جنگ سے نہ راضی تھے اور نہ مطلع!!

سیف نے ''عبداللہ ابن سبا ''کا افسانہ اس لئے گڑھا ہے تا کہ یہ ثابت کرے کہ مضریوں کے پست اغراض کے سبب پیش آنے والی تمام دہشت گردیاں ،خون ریزیاں ،اختلافات اور برادر کشیاں اصل میں یمنیوں کی حرکتوں کانتیجہ ہیں اور قبیلہ مضر کے سردار اور بزرگ افراد جیسے ام المومنین عائشہ ،طلحہ ،زبیر،معاویہ،مروان اور ان ہی جیسے دسیوں افراد کا دامن ان رسوائیوں سے پاک و منزہ ہے،اور ان میں ایک فرد بھی اپنی پوری زندگی میں معمولی سی لغزش و خطا کا مرتکب بھی نہیں ہوا ہے اور یہ لوگ اتنے پاک و بے قصور ہیں جیسا یعقوب کے بیٹے کو پھاڑ کھانے والا بھیڑیا!

اس کے بر عکس خاندان مضر کے علاوہ دیگر نمایاں شخصیات،جنہوں نے ان تاریخی واقعات میں شرکت کی ہے،جیسے عمار یاسر و عبد الرحمٰن عدیس کہ دونوں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور قحطانی تھے ،یا مالک اشتر جو تابعین میں سے اور قحطانی تھے اور ان کے علاوہ دیگر قحطانیوں کو نہ صرف سیف نے تہمتوں سے بری نہیں رکھا ہے بلکہ انھیں تخریب کاریوں میں ملوث ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور انھیں ''عبداللہ ابن سبا''یہودی کا پیرو اور آلہ کار ثابت کرتا ہے ۔اس طرح سیف نے قبیلہ مضر کے سرداروں سے سرزد ہونے والے نا پسند اور مذموم واقعات کو اپنے افسانوں کے ذریعہ چھپانے کی کوشش کی ہے ۔

۱۰۱

چہارم۔سیف کی تحریفات کی اقسام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر قبیلہ مضر کے کسی معروف اور مالدار شخص اور اسی قبیلہ کے کسی معمولی فرد کے درمیان کوئی اختلاف یا ٹکرائو پیدا ہوتا تو سیف اس قبیلہ کی معمولی فرد کو قبیلہ کی مجد و عظمت کے لئے قربان کرکے اسے پائمال کردیتا ہے ۔قبیلہ مضر کی مجد و عظمت کے تحفظ کے لئے سیف ہر قیمت پر دل و جان سے کوشش کرتا نظر آتا ہے اور اس سلسلے میں سیف سے پہلے قبیلہ مضر کے حکمراں اور صاحب قدر ت افراد کے تحفظ کو ترجیح دیتا ہے اور اس کے بعد اس قبیلہ کے سورمائوں ،شہسواروں اور سپہ سالاروں کے فخر و مباہات اور احترام کے تحفظ میں کسی قسم کی کسر باقی نہیں رکھتا ۔اس کا نمونہ خالد بن سعید اموی ( خاندان مضر کی ایک معمولی فرد ) اور خلیفہ وقت ابوبکر بن قحافہ ( قبیلہ مضر کا ایک با اقتداراور زبر دست حاکم ) کی داستان میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔ چوں کہ خالد مضری نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کرکے اس کے خلاف بغاوت کی ہے اس لئے سیف اس کی بھر پور مذمت اور سر زنش کرتا ہے اور اسے بدنام کرتا ہے اگر چہ خالد قبیلہ مضر کا ایک معروف شخص ہے لیکن خلیفہ کے مقابلہ میں ایک معمولی فرد ہے ۔ ١١

پنجم۔بعض اوقات سیف اس طرح بھی حقائق کی تحریف کرتا ہے کہ اگر ایک یمنی اور مضری کے درمیان کوئی واقعہ پیش آئے اور سیف نے اس کا عبداللہ ابن سبا کے افسانہ کے ذریعہ علاج نہ کیا ہو تو اس کے لئے الگ سے ایک افسانہ گڑھ لیتا ہے ۔اور اپنے مخصوص انداز سے یا جس طرح بھی ممکن ہو سکے اس قضیہ میں یمنی کی قدر ومنزلت کو پائمال کرکے مضری شخص کے مقام ومنزلت کو بلند کرکے پیش کرتاہے ۔اس کا نمونہ وقت کے خلیفہ عثمان بن عفان مضری کے ذریعہ ابو موسیٰ اشعری یمانی کو معزول کرنے کے واقعہ میں مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔سیف نے اس داستان میں حتیٰ الامکان یہ کوشش کی ہے کہ ابو موسیٰ اشعری کے مقام ومنزلت کو گھٹا کر پیش کرے اور اس کی سابقہ خدمات سے چشم پوشی کرے اور اس کے مقابلہ میں مضری خلیفہ کی منزلت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے اور اس کا دفاع کرے۔ ١٢

۱۰۲

آخر میں سیف بن عمر تمیمی کے افسانوی اور جعلی کارناموں کو درج ذیل صورت میں خلاصہ کیا جاسکتاہے :

١۔ اس نے بالکل جھوٹ اور بہتان پر مشتمل اپنے افسانوں کو تاریخ اسلام کے طور پر مرتب کیاہے۔

٢۔ اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،تابعین ،حدیث نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راویوں ،سپہ سالاروں اور رزمیہ شاعروں کے نام سے اسلام کی ایسے نام نہاد معروف اورمعتبر شخصیات جعل کی ہیں کہ حقیقت میں سیف کے افسانوں سے باہر ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا،کیونکہ ان کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔

٣۔ سیف کے گڑھے ہوئے افسانے ،اشخاص اور مقامات ایک خاص صورت وسبب کے تحت اسلامی مآخذ میں درج کئے گئے ہیں اور یہی اسلامی تاریخ اور اس کے حقائق کے اپنی اصلی راہ سے منحرف ہونے کاسبب بنے ہیں ۔اگلی فصل اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے۔

سیف سے حدیث نقل کرنے والے

مآخذ کی فہرست

وضع سیف تاریخاً کله اختلاق

سیف نے اسلام کی ایسی تاریخ گڑھی ہے جو سراسر جھوٹی ہے۔

(مؤلف)

سیف کی احادیث میں اس قدر واضح طور پر جھوٹ ،افسانہ سازی اور تحریفات کے باوجود (اور خود سیف بھی ان صفات سے مشہور تھا)اس کی جعلی احادیث نے اسلامی کتابوں میں خاصی جگہ پائی ہے اور نام نہاد معتبر اسلامی اسناد میں یہ احادیث درج ہوئی ہیں ۔ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ بڑے علماء نے بھی اس کے افسانوں اور جعلی احادیث کو اپنی کتابوں میں تفصیل سے درج کیاہے ۔ہم اس فصل میں اس تلخ اور حیرت انگیز حقیقت کی نشاندہی کرنے کے لئے سیف کی احادیث نقل کرنے والے علماء اور ان کی کتابوں کی فہرست قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

۱۰۳

الف ۔وہ علماء جنھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی سوانح حیات لکھی ہیں اور سیف کے جعلی اصحاب کو بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی اصحاب کی فہرست میں درج کیاہے:

١۔البغوی وفات ٣١٧ ھ کتاب:معجم الصحابہ

٢۔ ابن قانع وفات ٣٥١ ھ کتاب : معجم الصحابہ

٣۔ابو علی ابن السکن وفات ٣٥٣ ھ کتاب:حروف الصحابہ

٤۔ ابن شاہین وفات ٣٨٥ ھ کتاب:معجم

٥۔ ابن مندہ وفات ٣٩٥ ھ کتاب:اسماء الصحابہ

٦۔ ابو نعیم وفات ٤٣٠ ھ کتاب:فی معرفة الصحابہ

٧۔ ابن عبدالبر وفات ٤٦٣ ھ کتاب:استیعاب فی معرفة الاصحاب

٨۔ عبد الرحمن بن مندہ وفات ٤٧٠ ھ کتاب:التاریخ

٩۔ ابن فتحون وفات ٥١٩ ھ کتاب:التذییل علی الاستیعاب

١٠۔ابو موسیٰ وفات ٥٨١ ھ کتاب:علیٰ اسماء الاصحاب

١١۔ابن اثیر وفات ٦٣٠ ھ کتاب:اسد الغابة فی معرفةالصحابہ

١٢۔الذھبی وفات ٧٤٨ ھ کتاب:تجرید اسماء الصحابہ

١٣۔ابن حجر وفات ٨٥٢ ھ کتاب:الاصابہ فی تمییز الصحابہ

۱۰۴

ب۔ درج ذیل علماء نے بھی حقیقی سپہ سالاروں اور ملک فتح کرنے والوں کے ساتھ ساتھ سیف کے افسانوی سور ماؤں کی زندگی کے حالات بھی قلم بند کئے ہیں :

١٤۔ابو زکریا وفات ٣٣٤ ھ کتاب:طبقات اھل موصل

١٥۔ابو الشیخ وفات ٣٦٩ ھ کتاب:تاریخ اصبہان

١٦۔حمزة بن یوسف وفات ٤٢٧ ھ کتاب:تاریخ جرجان

١٧۔ابو نعیم وفات ٤٣٠ ھ کتاب:تاریخ اصبہان

١٨۔ابوبکر خطیب وفات ٤٦٣ ھ کتاب:تاریخ بغداد

١٩۔ابن عساکر وفات ٥٧١ ھ کتاب:تاریخ مدینہ دمشق

٢٠۔ابن بدران وفات ١٣٤٦ ھ کتاب:تہذیب تاریخ دمشق

ج۔سیف کے جعل کئے گئے شعراء کا درج ذیل کتاب میں تعارف کیا گیاہے:

٢١۔ مرزبانی وفات ٣٨٤ ھ کتاب:معجم الشعرائ

د۔ سیف کے جعلی سور ماؤں کے نام ان کتابوں میں بھی درج کئے گئے ہیں جو اسامی کے تلفظ میں غلطی کو دور کرنے کے لئے تالیف کی گئی ہیں ،جیسے:

٢٢۔دار قطنی وفات ٣٨٥ ھ کتاب:المختلف

٢٣۔ابو بکر خطیب وفات ٤٦٣ ھ کتاب:الموضح

٢٤۔ابن ماکولا وفات ٤٨٧ ھ کتاب:الاکمال

٢٥۔رشاطی وفات ٥٤٢ ھ کتاب:المؤتلف

٢٦۔ابن الدباغ وفات ٥٤٦ ھ کتاب:مشتبہ الاسماء

ھ۔سیف کی بعض ذہنی مخلوقات اور جعلی افراد کا شجرہ ٔنسب (جو خود سیف کی تخلیق ہے)درج ذیل کتابوں میں درج کیا گیاہے:

٢٧۔ابن حزم وفات ٤٥٦ ھ کتاب:الجمہرة فی النسب

٢٨۔سمعانی وفات ٥٦٢ ھ کتاب:الانساب

٢٩۔مقدسی وفات ٦٢٠ ھ کتاب:الاستبصار

٣٠۔ابن اثیر وفات ٦٣٠ ھ کتاب:اللباب

۱۰۵

و۔سیف کے بعض جعلی راویوں کی سوانح حیات درج ذیل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے:

٣١۔رازی وفات ٣٢٧ ھ کتاب:الجرح والتعدیل

٣٢۔ذھبی وفات ٧٤٨ ھ کتاب:میزان الاعتدال

٣٣۔ابن حجر وفات ٨٥٢ ھ کتاب:لسان المیزان

ز۔سیف کے جعلی مقامات اور فرضی جگہوں کی تفصیلات درج ذیل کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں :

٣٤۔ابن الفقیہ وفات ٣٤٠ ھ کتاب:البلدان

٣٥۔حموی وفات ٦٢٦ ھ کتاب:معجم البلدان

٣٦۔حموی وفات ٦٢٦ ھ کتاب:المشترک لفظاً والمفترق صقعاً

٣٧۔عبد المؤمن وفات ٧٣٩ ھ کتاب:مراصد الاطلاع

٣٨۔حمیری ١ وفات ٩٠٠ ھ کتاب:الروض المعطار

ح۔جن کتابوں میں مخصوص طور سے اسلامی جنگوں کاذکر ہواہے،ان میں بھی سیف کی بعض جعلی روایتیں ذکر کی گئی ہیں ،جیسے درج ذیل کتابیں :

٣٩۔ابو مخنف وفات ١٥٧ ھ کتاب:کتاب:الجمل

٤٠۔نصر بن مزاحم وفات ٢١٢ ھ کتاب:الصفین

٤١۔شیخ مفید وفات ٤١٣ ھ کتاب:الجمل

٤٢۔ابن ابی بکر وفات ٨٤١ ھ کتاب:مقتل عثمان

____________________

١)۔ ابو عبد اللہ ، محمد بن عبد اللہ ملقب بہ حمیری کتاب ''الروض المطار فی اخبار الاقطار'' کامؤلف ہے۔اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں شیخ الاسلام کے کتاب خانہ میں موجود ہے۔اور مؤلف نے اس کا مطالعہ کیاہے۔

۱۰۶

ط۔سیف کی ''فتوح ''نامی کتاب، جو سرتاپا افسانہ ہے،کو درج ذیل معتبر اور وزنی تاریخی

کتابوں میں حقیقی سند کے طور پر درج کیاگیاہے:

٤٣۔ابن خیاط وفات ٢٤٠ ھ کتاب:تاریخ خلیفہ

٤٤۔بلاذری وفات ٢٧٩ ھ کتاب:فتوح البلدان

٤٥۔طبری وفات ٣١٠ ھ کتاب:تاریخ طبری

٤٦۔ابن اثیر وفات ٦٣٠ ھ کتاب:تاریخ ابن اثیر

٤٧۔ذھبی وفات ٧٤٨ ھ کتاب:تاریخ ذھبی

٤٨۔ابن کثیر وفات ٧٧١ ھ کتاب:تاریخ ابن کثیر

٤٩۔ابن خلدون وفات ٨٠٨ ھ کتاب:تاریخ ابن خلدون

٥٠۔سیوطی وفات ٩١١ ھ کتاب:الخلفائ

ی۔مخصوص مواقع کے بارے میں جعل کئے گئے سیف کے افسانوں نے خصوصی موضوعات سے مربوط تألیف کی گئی درج ذیل کتابوں میں بھی راہ پائی ہے:

٥١۔ابن کلبی وفات ٢٠٤ ھ کتاب:انساب الخیل

٥٢۔ابن اعرابی وفات ٢٣١ ھ کتاب:اسماء الخیل

٥٣۔العسکری وفات ٣٩٥ ھ کتاب:الاوائل

٥٤۔غندجانی وفات ٤٢٨ ھ کتاب:اسماء خیل العرب

٥٥۔ابو نعیم وفات ٤٣٠ ھ کتاب:دلائل النبوة

٥٦۔بلقینی وفات ٨٠٥ ھ کتاب:امر الخیل

٥٧۔قلقشندی وفات ٨٢١ ھ کتاب:نہایة الارب

۱۰۷

ک۔عربی زبان کی ادبی کتابوں میں بھی کافی مقدار میں ان افسانوں کو شامل کیا گیاہے،جیسے:

٥٨۔اصبہانی وفات ٣٥٦ ھ کتاب:الاغانی

٥٩۔ابن بدرون وفات ٥٦٠ ھ کتاب:ابن عبدون کے قصیدہ کی شرح

ل۔لغت کی کتابیں بھی سیف کے افسانوں سے محروم نہیں رہی ہیں ،جیسے:

٦٠۔ابن منظور وفات ٧١١ ھ کتاب:لسان العرب

٦١۔زبیدی وفات ١٢٠٥ ھ کتاب:تاج العروس

م۔بہر حال جہاں کہیں بھی نظر ڈالیں اس مکار لومڑی کے نشان نظر آئیں گے،حتیٰ حدیث کی کتابوں میں بھی،جیسے:

٦٢۔ترمذی وفات ٢٧٩ ھ کتاب:صحیح ترمذی

٦٣۔النجیرمی وفات ٤٥١ ھ کتاب:اصل مسموعات

٦٤۔ابن حجر وفات ٨٥٢ ھ کتاب:فتح الباری

٦٥۔متقی ھندی وفات ٩٧٥ ھ کتاب:کنز العمال

ن۔اس کے بعد قدرتی بات ہے کہ بعض اوقات سیف کا نام جھوٹ بولنے والوں اور روایت جعل کرنے والوں کے عنوان سے ایسی کتابوں میں آئے جو اس قسم کے اشخاص کی شناخت کے لئے تالیف کی گئی ہیں ،جیسے:

٦٦۔عقیلی وفات ٣٢٢ ھ کتاب:الضعفائ

٦٧۔ابن جوزی وفات ٥٩٧ھ کتاب:الموضوعات

٦٨۔سیوطی وفات ٩١١ ھ کتاب:اللئالی المصنوعة

اس کے علاوہ متقدمین ،متاخرین ،مستشرقین اور مغربی اسلام شناسوں کی ہزاروں کتابیں سیف کے جعلیات سے بھری ہیں ۔

۱۰۸

احادیث سیف کی اشاعت کے اسباب

وضع سیف قصصاً تسایر مصالح السلطة فی کل عصر

سیف نے اپنے افسانوں کو ہر عہد کے حکام ظلم و جور کی مصلحتوں اور مفاد کے مطابق جعل کیا ہے۔

ہم نے گزشتہ فصل میں اسلامی اسناد و مأخذ کے ایک حصہ کی نشاندہی کی جس میں سیف کے افسانوں نے راہ پائی ہے ۔لیکن ان مأخذکے بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان تمام کتابوں اور رسائل کی فہرست بیان کریں جو کسی نہ کسی طرح سیف کے افسانوں سے متاثر ہوئے ہیں ،کیونکہ یہ ایک مشکل اور تقریباًناممکن کام ہے ،اور جو کچھ ہم نے اس سلسلہ میں بیان کیا ہے وہ سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ کے مانند ہے ،بلکہ اس کامقصد یہ ہے کہ مختلف اسلامی مآخذ میں سیف کی جعلی احادیث اور انسانوں کی وسعت کا نمونہ پیش کیاجائے جو علماء واہل تحقیق کی حیرت کا باعث ہواہے۔

اب سیف کی احادیث اور افسانوں کی اشاعت (اسے دروغ گو اور زندیق جاننے کے باوجود )اور علماء ودانشوروں کے اس پر اعتماد کرنے کے اسباب کاخلاصہ ذیل میں بیان کیاجاتاہے:

١۔خود سر حکام کے موافق ہونا

پہلا سبب یہ تھا کہ سیف نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اس کے قصے اور افسانے ہر زمانے کے حکمراں طبقہ کے مفادات اور مصلحتوں کے موافق اور ہم آہنگ ہوں ۔حکمراں طبقہ کی طاقت وقدرت، مصلحتوں اور مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں سیف کی خاص توجہ کی بہترین اور واضح دلیل جنگ دارین میں علاء حضرمی کی داستان ہے۔اس واقعہ کے بارے میں سیف کی داستان سے قطع نظر اصل قضیہ یہ ہے:

۱۰۹

''جنگی سپاہیوں کا ایک گروہ علاء کے خوف سے قلعۂ دارین میں پناہ لیتا ہے۔اس قلعہ میں پناہ لینے والے سپاہیوں اور علاء کے درمیان پانی ہے جس کی وجہ سے علاء کے لئے قلعۂ دارین تک پہنچنے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ۔کرازالنکری نام کا ایک شخص علاء اور اس کے سپاہیوں کی اس سے عبور کرنے میں راہنمائی کرتاہے اور اس طرح دارین کا قلعہ علاء کے ہاتھوں فتح ہوتاہے'' ١

حقیقت میں پورا قضیہ یہی ہے جو چند سطروں میں خلاصہ ہوا۔لیکن سیف اپنی عادت کے مطابق اصل قضیہ میں تصرف وتبدیلی ایجاد کرکے اسے یوں نقل کرتاہے:

''میں نے جنگ دارین میں علاء کودیکھا کہ گھوڑے پر سوار ہوکے دریامیں اترا(یا چار ہزارسپاہیوں کے ساتھ دریا میں اترا)جب کہ نہ کسی اونٹ اور نہ کسی گھوڑے کے سم تک تر ہوئے ۔اس کے بعد وہ بحرین کی طرف بڑھا۔جب دہناء کے شورہ زار میں پہنچا ،تو علاء نے اس سرزمین پر خدا سے دعا مانگی،جس کے نتیجہ میں اس سرزمین سے پانی ابلنے لگا....وہاں سے آگے بڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ قافلہ کے ایک شخص کی کوئی چیز وہاں پر رہ گئی ہے۔اس لئے وہ شخص اس چیز کو اٹھانے کے لئے واپس لوٹا ، اس شخص نے اس جگہ پر اپنی چیز تو پالی لیکن وہاں پر پانی کا کوئی نام ونشاں موجود نہ تھا۔'' ٢

ابوہریرہ نے چھوٹی داستانوں کے بارے میں اپنے طریقہ کار کے مطابق علاء کے قصہ کو بھی نقل کیاہے۔چونکہ لوگوں میں اپنے اسلاف اور اجداد کی کرامتیں سننے کا بڑا شوق ہوتاہے ،اس لئے سیف کو اس میں کامیابی ہوتی تھی اور اس کی بیان کی ہوئی داستانیں اور روایتیں فوراً سینہ بہ سینہ نقل ہوکر پھیل جا تی تھیں ،ابوہریرہ کی نقل کی گئی یہ داستانیں مختلف طریقوں سے سیف کے زمانے تک رائج اور زبان زد خاص و عام تھیں اور جب غیر معمولی ذہن والے سیف کا زمانہ آیا تو اس نے مندرجہ بالا داستان کی خالی جگہوں کو پر کیا اور اس میں شاخ و برگ کا اضافہ کرکے اس کے لئے ایک سند بھی جعل کی اور اسے حسب ذیل صورت میں بیان کیا:

۱۱۰

'' علاء جب اپنے سپاہیوں کے ساتھ دہناء پہنچا تو وہاں پر اسے ایک صحرا اور اس میں دور دور تک ریت کے ٹیلے نظر آئے اور پانی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا ،وہ اس صحرا میں کافی آگے تک بڑھا ،اس کے تمام اونٹ بار سمیت بھاگ گئے اس کے پاس نہ کوئی اونٹ باقی رہا نہ زاد راہ اور نہ پانی اس حالت میں سبوں کو اپنی ہلاک کا یقین پیدا ہو گیا اور ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے علاء اس غم و تشویش میں مبتلا لوگوں کی سرزنش اور ملامت کرتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ مجموعی طور پر ایک ایسی دعا کرنے پر مجبور کیا جس کا متن خود سیف نے نقل کیا تھا ۔اس دعا کے نتیجہ میں اچانک ان کے سامنے پانی ظاہر ہوا اور اس پانی پر پڑی سورج کی کرنوں کے انعکاس کا مشاہدہ کرکے سب تعجب میں پڑ گئے !اس کے بعد سب پانی کی طرف بڑھتے ہیں اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور نہاتے دھوتے ہیں اسی وقت ان کے بھاگے ہوئے اونٹ بھی واپس آجاتے ہیں وہ اونٹوں کو بھی پانی پلا کر آگے بڑھتے ہیں اس تالاب سے کچھ دور پہنچنے کے بعد ،ابو ہریرہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ تالاب کے کنارے بھولے ہوئے برتن لے آنے کے لئے تالاب کی طرب لوٹتا ہے ۔وہاں پر وہ اس برتن کو تو پاجاتا ہے لیکن اس تالاب کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آتا ''

خلیفہ کے سپاہیوں کا پانی پر چلنا:

اس کے بعد سیف اس قصہ میں کچھ اور اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :

''خلیفہ کے سپاہی بحرین کی طرف بڑھتے ہوئے ارادہ کرتے ہیں کہ دارین جائیں ۔ان کے اور دارین کے در میان ایک سمندر تھااور اس کو پار کرنے کے لئے کشتی کے ذریعہ ایک دن رات کافاصلہ تھا۔اس سمندر کے کنارے علاء نے اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:''خدائے تعالیٰ نے خشکی میں اپنی آیات کو تم لوگوں پر واضح کیا ۔اب جرات مندی کے ساتھ سمندر میں اتر کر دشمن کی طرف دوڑو اور دلیری سے سمندر کو پار کرو!''وہ سب سوار و پیادہ سمندر میں اترے اور گھوڑے ،اونٹ،اور خچر پر سوار سپاہیوں نے دعا پڑھی (جسے سیف نے نقل کیا ہے)وہ سمندر سے ایسے گزرے جیسے کوئی صحرا کی ریت پر قدم رکھ کر آگے بڑھتا ہے جب کہ گھوڑے اور اونٹوں کے سم مشکل سے تر ہوئے تھے ۔اس طرح وہ مرتدوں کے پاس پہنچے اور ان سے جنگ کرکے فتح پائی اس کے بعد اپنی جگہ کی طرف واپس لوٹے اور سمندر سے اسی طرح گزرے جیسے پہلے گزرے تھے۔''

۱۱۱

سیف کے ایک افسانوی سورما عفیف ابن منذر تمیمی اس سلسلے میں کچھ شعر کہے جنہیں سیف نے نقل کیا ہے ،اس کے بعد وہ کہتا ہے :

''مسلمانوں کے ہمراہ ایک راہب تھا ۔یہ سب کرامتیں ،خارق العادہ واقعات ،اور ہوا میں فرشتوں کی دعا سن کر وہ مسلمان ہوگیا''۔

سیف نے فرشتوں کی دعا بھی نقل کیا ہے ،اوراس کے بعد لکھتا ہے :

''علاء نے اس لشکر کشی کی رپورٹ ایک خط کے ذریعہ خلیفہ اول ابوبکر کو بھیجی ۔ابوبکر نے علاء کا خط وصول کرنے کے بعد منبر پر چڑھ کر مسلمانوں کے در میان یہ داستان بیان کی ۔''

سیف اپنے زمانے تک سینہ بہ سینہ پھیلے ہوئے ابو ہریرہ کے بیان کردہ اس مختصر قصہ کو پسند کرتا ہے اور اسے ہر طرح سے سند وشاہد اور دلیل و برہان کے ذریعہ محکم بناکر کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رکھتے ہوئے اس زمانے کے لوگوں کے لئے نقل کرتا ہے ۔چونکہ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ عظمت و کرامت حضرمی شخص ،اہل یمن اور سبائی کے بارے میں بیان کرے ،اس لئے ایک اور افسانہ گڑھ کر اس شخص (علاء )سے مربوط کرامت کی نفی کرتا ہے اور اس سلسلے میں یوں لکھتا ہے:

''علاء حضرمی اور سعد وقاص کے در میان مقابلہ اور رقابت تھی ۔اتفاق سے مختلف جنگوں میں علاء کی سرگرمیاں اور کارروائیاں سعد سے زیادہ تھیں ۔لیکن سعد نے عمر کے زمانے میں قادسیہ کی جنگ میں ایرانیوں پر فتح پائی اور اس نے علاء کے لائے ہوئے جنگی غنائم کے مقابلے میں بہت زیادہ غنائم خلیفہ کو بھیجے تھے ۔لہٰذاعلاء نے اس جنگ میں سر توڑ کوشش کی تا کہ ایرانیوں سے زیادہ غنائم حاصل کرے اور سعد سے پیچھے نہ رہے ۔اس غرض سے اس نے خلیفہ سے کوئی حکم حاصل کئے بغیر سمندری راستہ سے ایرانیوں پر حملہ کیا ،جب کہ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ اگر جنگوں میں اسے خدا نے سعد کے مقابلے میں کوئی فضیلت و برتری عطا کی تھی تو وہ خلیفہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے سبب تھی اور مرتدوں سے جنگ میں فتحیابی بھی خلیفہ اول ابو بکر کے حکم کی پیروی کے سبب تھی نہ یہ کہ وہ کسی شخصی فضیلت و کرامت کا مالک تھا،جب کہ خلیفہ دوم عمر نے اسے سمندری راستے سے ایرانیوں پر حملہ کرنے سے منع کیا تھا...''

۱۱۲

سیف اس کے بعد مزید لکھتا ہے:

''جب علاء نے سمندری راستے سے ایرانیوں پر حملہ کیا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوگئیں تو ایرانی اس کے اور اس کی کشتیوں کے درمیان حائل ہوگئے اور مسلمانوں کے لشکر نے شکست کھائی اور یہ شکست علاء کی طرف سے خلیفہ کے حکم کی نافرمانی کا نتیجہ تھی ۔اگر خدائے تعالیٰ کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو وہ سب کے سب اس جنگ میں مارے جاتے ۔لیکن عنایت خداوندی نے اس طرح ظہور کیا کہ اس بدون اجازت حملہ کی خبر خلیفہ کو پہنچتی ہے اور خلیفہ کے دل میں یہ بات گزرتی ہے کہ علاء اس نا فرمانی کی وجہ سے شکست کھائے گا ،لہٰذا فورا اسے معزول کرکے اس کی جگہ پر دوسرے سپہ سالار کا انتخاب کرتا ہے اور اس کی مدد کے لئے تازہ دم فوج روانہ کرتا ہے ۔اس طرح خلیفہ کی فہم و فراست کے سبب خدائے تعالیٰ لشکر اسلام کو ہلاکت سے نجات دیتا ہے !''

سیف کی اس جعلی داستان کے مطابق جو کچھ ابو ہریرہ نے جنگ دارین میں علاء کی نسبت عظمت و کرامت کے طور پر بیان کیا تھا،وہ اس خلیفہ کی اطاعت و فر مانبرداری کا نتیجہ تھا،ورنہ ہم نے دیکھا کہ یہی بزرگ صحابی خلیفہ کی نافرمانی کرتا ہے تو کس طرح مصیبت اور بد بختی میں گرفتار ہوتا ہے ۔ خدائے تعالیٰ نے یہ سب نعمتیں خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری کے سبب علاء اور اس کی فوج کوعطا فرمائی تھیں اور نافرمانی کے سبب اس طرح شکست سے دوچار کیا تھا۔

یہ داستان اور اس جیسی دوسری داستان ،سیف نے ہر زمانے میں وقت کے حکمرانوں کے مفاد کے تحفظ کے لئے جعل کی ہیں ۔اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ سیف کے افسانوں کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب یہی تھا تا کہ دوسروں کی صحیح روایتیں فراموشی کی نذر ہوجائیں ۔

۱۱۳

٢۔عوام پسند ہونا

سیف کی باتوں کو شہرت ملنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس نے داستانوں اور افسانوں کو مختلف زمانے کے لوگوں کی دلچسپی اور پسند کے مطابق جعل کیا ہے ۔چونکہ عوام الناس پجاریوں کی طرح اپنے نیک اسلاف اور اجداد کی پوجا کرتے ہیں اور ان کی کرامتوں اور کمالات کو سننے کے والہانہ طور سے منتظر رہتے ہیں ،اس لئے سیف نے ایسی روایتیں جعل کی ہیں جو ایسے لوگوں کی تمنائوں کو بہترین صورت میں پورا کرتی ہیں ۔سیف کی روایتوں میں اس حد تک ملتاہے کہ نامور اسلاف اور اجداد کے مقابل قدرت کے لازوال قوانین بھی مطیع و فر مانبردار ہیں اور ان کے حکم کے ما تحت ہیں ،ملائکہ اور جنات ہمیشہ ان کے مددگار تھے اور ان کے حکم کی تعمیل کے لئے تیارکھڑے رہتے تھے ،حیوانات ان سے گفتگو کرتے تھے اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے ۔خلاصہ یہ کہ جنگ کے میدانوں میں ان کی بہادری بے مثال ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ فاتح و سرفراز ہوتے تھے۔

دوسری طرف ثقافت وادب کے شیدائیوں کو سیف کی روایتوں میں بہترین قصیدے ،بے نظیر تقریریں ،خوشنما رزم نامے اور شیرین خودستائیوں کے علاوہ بہترین اور دلچسپ عبارتوں میں جنگی عہدنامے ،صلح ودوستی کے معاہدے اور وقت کے حکمرانوں کے فصیح و بلیغ فرمان اور حکم نامے ملتے ہیں ۔

۱۱۴

اسی طرح تاریخ کے دل دادہ اور تاریخ نگار بھی اپنے مقدور کے مطابق دیگر منابع کی نسبت سیف کی روایتوں سے بیشتر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔تاریخ کے متوالے مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیف نے ہر تاریخ نویس کی نسبت واقعات اور تاریخی حوادث کی بیشتر اور مکمل وضاحت کی ہے۔اس نے ہر حادثہ کے جزئیات کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور تاریخ کے نوادر اور عجائبات بیان کرنے میں کسی معمولی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کیاہے۔کیونکہ سیف خبر سازی میں ماہر اور افسانہ گڑھنے میں کمال رکھتاتھا۔مثال کے طور پر آپ افسانہ نویسوں کے علاوہ کسی تاریخ دان کاسراغ نہیں بتاسکتے ،جس نے سیف بن عمر تمیمی کی طرح کسی سوار کے دریائے دجلہ سے عبور کرتے وقت اس کے گھوڑے کی دم کی حرکت کے بارے میں بھی وضاحت سے تعریفیں بیان کی ہوں !(۱)

مختصر یہ کہ تاریخی حوادث وواقعات کے دل دادہ لوگوں کو جو کچھ سیف سے ملتا ہے وہ نہ صرف دیگر تاریخ دانوں اور حقائق نویسوں سے انھیں نہیں ملتا بلکہ انھیں ان چیزوں کاکہیں اور سراغ ملنا بھی ناممکن ہے۔

٣۔ آسائش پرستوں کی مرضی کے ہم آہنگ ہونا

معاشرے کے سرمایہ داروں ،خود سروں ،طاقت ور لوگوں اور آرام وآسائش کے دلداہ افراد کو سیف کی روایتوں اور افسانوں سے بہت فائدہ پہنچتاہے ۔چونکہ سیف کی دلچسپ داستانیں اور اس کے پر کشش افسانے اس قسم کے لوگوں کی شب باشی ،عیش وعشرت اور تفریحی محفلوں کو خوشحال اور پر رونق بناتے ہیں ۔

جس زمانے میں ''عنترة ابن شداد ''،''ابی زید سروجی''اور''الف لیلہ''جیسے افسانے سنانے میں قصہ خوانوں کا بازار گرم تھا اور ان افسانوں سے امیر اور بڑے لوگوں ،سرمایہ دار اور با اثر شخصیتوں کو وقت گزاری میں مشغول رکھا جاتا تھا،تو اہل فکر نے بھی یہ سوچا کہ اپنے نظریات کو داستانوں اور افسانوں کے روپ میں پیش کریں تا کہ انھیں عام لوگ پڑھیں اور ہاتھوں ہاتھ ان کی تبلیغ کریں ۔اسی

____________________

۱)۔عاصم کے حالات میں اس کاتفصیل سے تذکرہ آیاہے۔

۱۱۵

بناء پر ''اخوان الصفا''(۱) نام کے ایک گروہ نے اپنے افکار ونظریات کو پمفلٹوں کی صورت میں شائع کرکے لوگوں میں تقسیم کئے اور ابن طفیل نے اپنے نظریات کو''حی بن یقطان''(۲) کی داستان

کے روپ میں زبان زد خاص وعام کردیا اور اسی طرح ابن مقفع نے اپنا مقصد کتاب ''کلیلہ ودمنہ ''کے ترجمہ سے حاصل کیا۔اس کے بعد سیف بن عمر آیا اور اس نے ''فتوح ''اور ''جمل ''نامی اپنی دو کتابیں تالیف کرکے ان سب پر سبقت حاصل کی اور اپنے افکار ونظریات کو افسانوں کی شکل دے کر مؤثق اور قابل اعتماد روایتوں ،تاریخ اور صحیح سیرت کے طور پر رائج کیا۔اس طرح اپنی آرزؤں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب رہا۔

خلاصہ یہ کہ حکمران ،اہل قدرت وطاقت اور سرمایہ دار طبقہ سب سیف کی احادیث میں اپنی مرضی کے مطابق مواد پاتے ہیں اور عام لوگوں کی خواہش بھی سیف پوری کرتاہے۔اس کے علاوہ سیف کی احادیث میں علماء اور ثقافت وادب کے شیدائی بھی اپنی بحث وگفتگو کے لئے ضروری چیزیں پاتے ہیں ۔اس طرح تاریخ ،قصہ اور افسانوں کے دل دادہ افراد کی چاہت بھی ان سے پوری ہوتی ہے۔بہر حال سیف نے تقریبا بارہ صدیوں تک ان طبقات کو اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہا وہاں

ہانکا ہے اور حسب دلخواہ انھیں مواد فراہم کرتا رہا ہے ۔بالاخر اس کے بیانات اور افسانے زبان زد خاص و عام ہوکر نسل بہ نسل پھیلتے گئے اور لوگ اس کے خود ساختہ افکار و نظریات کو روایاتوں اور صحیح واقعات کی صورت میں پوری قوت کے ساتھ شائع کرتے تھے اور دوسروں کی صحیح اور معتبر احادیث کو فراموش کرتے تھے اس طرح بعض صحیح احادیث و واقعات مفقود ہو گئے ہیں ۔

____________________

۱)۔فرقہ اسماعیلیہ کے دانشوروں کے ایک گروہ نے تقریباً ٣٧٣ھ (٩٨٣ع) میں ''اخوان الصفا''نام کی ایک انجمن تشکیل دی، جس کا مرکز بصرہ میں تھا۔اس گروہ نے اپنے افکار و نظریات کے تحت مختلف موضوعات جیسے :حساب وھندسہ،موسیقی،منطق،نجوم،اور وقت کے دیگر علوم وفنون سے متعلق ٥١ رسالے تالیف کئے اور مبدأ سے معاد تک اپنے عقائد کے ایک حصے کو ان میں بیان کیا۔ان رسالوں کا ترجمہ ١٨٦١ع میں لندن میں کیا گیا۔اور اس کا اصل عربی متن ١٨٨٣ع میں لایپزیک،مصر اور ہندوستان میں دوبارہ طبع ہوا کشف الظنون ٩٢١ ۔دائرة المعارف ٥٢٧١،٥٢٩۔الذریعہ ٣٨٣١، ٧٦٤،٢٣٥٧،٩٨و١٠۔اعیان الشیعہ ج١٠ طبع اول ملاحظہ ہو ۔

۲)۔کتاب ''حی بن یقطان ابن طفیل ابوبکر اشبیلی وفات٥٨١ھ کی تالیف ہے۔یہ ایک داستان ہے جس کاہیرو ''حی بن یقطان''ہے۔ ابن سینا نے اس اسلوب میں دو رسالے لکھے ہیں ان میں سے ایک رسالہ ایک اخلاقی داستان پر مشتمل تھا۔الذریعہ ١٢٨٧۔١٢٩ملاحظہ ہو

۱۱۶

٤۔ خاندانی تعصبات کے ہم آہنگ ہونا

مذکورہ مطالب کے علاوہ سیف کی غیر معمولی ذہانت کا اس وقت پوری طرح اندازہ ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے بڑی مہارت سے اپنے مقاصد اور عزائم کو ہر طبقہ اور خاندان کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق رکھا ہے ۔وہ اپنی احادیث میں لوگوں کی خواہشات کی رعایت کے ساتھ ساتھ ہر حدیث کی سند کا افتخار عام طور پر مضر قبیلہ اور خاص طور پر خاندان تمیم کو بخشتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ان کے دشمنوں ،یعنی یمانیوں کو ذلیل و خوار اور پست بنا کر پیش کرتا ہے اور یہ مطلب محققین اور علمی کاوش گروں پر بالکل واضح ہے ۔

٥۔ زندیقیوں کے ہم آہنگ ہونا

آخر میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ سیف کی احادیث میں اس کے جھوٹ اور تحریفات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم چند ایسے مسائل سے دو چار ہوتے ہیں جو کسی بھی صورت میں اس کے ان مقاصد سے جن کا ہمیں علم ہے مطابقت نہیں رکھتے جب کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ سیف نے جو جھوٹ بھی بولا ہے یا کسی موضوع کی تحریف کی ہے اس کے پیچھے کسی خاص مقصد کو تحقق بخشنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ اس بات کودیکھتے ہوئے سیف کا تاریخی حوادث کے سالوں کو تغییر دینے کا کیا مقصد تھا؟ ٣ مثال کے طور پر جنگ یرموک ١٥ ھ میں واقع ہوئی ہے ،سیف نے اس کا واقع ہونا ١٣ ھ

۱۱۷

میں کیوں لکھا ہے ؟ شہر دمشق ١٥ھ میں فتح ہوا ہے لیکن سیف نے اسے ١٦ھ میں کیوں لکھا ہے ۔(۱)

سیف نے تاریخی شخصیتوں کے نام کیوں بدل دئے ہیں ؟جیسے امیر المومنین حضرت علی کا قاتل عبدالرحمن ابن ملجم تھا ،لیکن سیف نے خالد بن ملجم ذکر کیا ہے ٤ عبد المسیح بن عمرو نے خالد بن ولید سے جو صلح کی ہے ،اسے عمرو بن عبدالمسیح سے نسبت دی ہے !!(۲)

یاسیف کو کس چیز نے درج ذیل حدیث جعل کرنے پر مجبور کیا ہے ؟

''خلیفہ عمر نے اپنی بیوی ام کلثو م امام علی کی بیٹی سے خواہش کی کہ اس کے مہمانوں کیساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھے ۔ام کلثوم نے اس کے جواب میں کہا : اگر تم چاہتے ہو کہ میں مردوں میں ظاہر ہو جائوں تو میرے لئے ایسا لباس نہیں

خرید تے !! '' ٥

کیا یہ مناسب ہے کہ مسلمانوں کا خلیفہ عمر اپنی بیوی سے نامحرم مردوں کے ساتھ پیٹھ کر کھانا کھانے کا تقاضا کرے؟ اور عمرکی بیوی کے لئے اپنے شوہر کی درخواست مستردکرنے کا سبب مردوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے اس کا نامناسب لباس ہو؟!

یہ افسانے اور اس کے مانند دیگر افسانے سیف کو اس کے ان مقاصد تک ہر گز نہیں پہنچاتے جن کا ہمیں علم ہے مگر یہ کہ جو نسبت اسے زندیق ہونے کی دی گئی ہے صحیح ہو! ٦ اور اگر سیف کے زندیق ہونے کی بات صحیح ہو تو اس کی آڑمیں اس نے اپنے جعلی افسانوں کے ذریعہ تاریخ اسلام کو منحرف اور مسخ کرکے رکھ دیا ہے ،اور اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حقائق کو تحریف کرنے میں سیف کا مقصد اسلام سے اس کے عناد اور دشمنی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا بہرصورت وہ تاریخ اسلام کو

____________________

۱)۔'' عبداللہ ابن سبا '' ج١فصل ''تحریف سالہا ی حوادث'' ملاحظہ ہو

۲)۔ ملاحظہ ہو کتاب '' عبد اللہ ابن سبا'' ج٢ فصل تحریف اسماء

۱۱۸

منحرف کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس سلسلے میں اس کے مانند کوئی اور نظر نہیں آتا خواہ سیف کا یہ کام اس کے زندیق ہونے کی وجہ سے ہو یا اس کی لاپروائی اور جھوٹ کی عادت کی وجہ سے ،بہر صورت وہ تاریخ اسلام کو خاص کر اسلامی فتوحات ،ارتدادکے خلاف جنگوں اور تاریخی واقعات کو امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی خلافت کے زمانے تک تحریف کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

جو تاریخ سیف نے تالیف کی ہے وہ اصحاب اور ان کے فتوحات کی سرکاری تاریخ کی حیثیت سے درج ہوئی ہے اور اس تاریخ کے سرکاری حیثیت پانے کا مسلمانوں وغیرہ کیلئے یہ نتیجہ نکلا کہ سب نے قبول کیا ہے کہ مسلمانوں نے ارتداد کی جنگوں اور فتوحات میں ہزاروں انسانوں کا قتل عام کیا ہے ،اور انسانی معاشرہ میں خون کی ندیاں بہا کر ایسا رعب وو حشت اور اضطراب برپا کیا ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔نتیجہ کے طور پر اسلام تلوار اور خون کی ہولی کے ذریعہ پھیلا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ملتیں خود جابر اور ظالم حکام کے خلاف بغاوت کرکے مسلمان سپاہیوں سے جاملتی تھیں ۔اسلام اس طرح پھیلا ہے ،نہ کہ تلوار سے جیسا کہ سیف نے ثابت کیاہے ۔

گزشتہ حصوں کا خلاصہ

اما آن لنا ان نبحث عن الحقیقة

کیا اب وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کریں ؟

١) زندیقیت

ہم نے دیکھا کہ علماء اور دانشوروں نے سیف کی یوں تعریف کی ہے :

''یہ حدیث جعل کرنے والا ،اور اس پر زندیق ہونے کا الزام ہے ''

۱۱۹

ہم نے دیکھا کہ سیف کا وطن عراق ،اس کے زمانے میں زندیقیوں کی سرگرمیوں اور ان کے نشو ونما کا مرکز تھا ۔اس لحاظ سے عراق تمام دیگر علاقوں کی نسبت ممتاز و مشخص ہے ۔ اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف کے ہم عصر زندیقی ،مسلمانوں کے افکار و عقائد کو کمزور اور متزلزل کرنے اور ان کے اتحاد و یکجہتی کی بنیاد یں کھوکھلی کرنے میں کس قدر مصروف تھے اور اس سلسلے میں کیا کچھ نہ کیا ۔ ان میں ایسے افراد بھی پید اہوئے جنھوں نے احادیث جعل کرکے لوگوں کے افکار و عقیدہ میں شبہہ ڈال دیا ۔ ان ہی میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس نے قتل ہوتے وقت اعتراف کیا تھا کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے ہمیں معلوم نہیں وہ احادیث کہاں گئیں اور ان کا انجام کیا ہوا اور ان احادیث نے خلفاء کی مورد تائید سرکاری کتابوں میں سے کن کن میں نفوذ کیا ہے ۔

لیکن جب ہم نے خود سیف کی جعل کردہ احادیث کی سنجیدگی سے تحقیق کی اور ان کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس نے بھی بڑی مہارت سے ہزاروں کی تعداد میں احادیث جعل کی ہیں اور ان کے درمیان ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پرہیزگار اور باتقویٰ اصحاب کو نکما، ذلیل اور کمینہ بنا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کے برعکس اسلام کا لبادہ پہنے ہوئے منافقوں اور کذّابوں کو با تقویٰ ، پرہیزگار اور دیندار کی حیثیت سے پہچنوایا ہے ۔ اس طرح توہمات پر مبنی افسانے جعل کرکے تاریخ اسلام کو الٹا دکھاکر مسلمانوں کے عقائد پر حیرت انگیز حد تک برے اثر ات ڈالے ہیں اور غیر مسلموں کے افکار پر اسلام کی نسبت منفی اثرات ڈالنے میں کامبیاب ہوا ہے ۔اس سلسلے میں سیف اپنے ہم عصر تمام زندیقیوں کا ہم فکر اور شریک تھا ۔وہ صرف ایک لحاظ سے اپنے تمام ہم فکروں پر سبقت رکھتا تھا اور وہ یہ کہ اس نے اپنی جعل کی ہوئی اکثر حدیثوں میں وقت کے حکام اور صاحب قدر ت اشخاص کی براہ راست تعریف اور ستائش کی ہے اور ان کے مخالفوں کی مذمت اور بد گوئی کی ہے ۔ اس طرح حکام وقت سے اپنے جھوٹ اور افسانوں کی تائید حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرکے ان حدیثوں کی اشاعت کے لئے زمین فراہم کی ہے ۔اسی طرح اس کے زمانے میں موجود خاندانی تعصب اور اس کا اپنا شدید خاندانی تعصب جو اس میں اپنے خاندان نزار کے لئے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ خلفائے راشدین کی ابتداء سے اموی حکمرانوں کے زمانے اور بنی عباسیوں کی سلطنت تک سب کے سب اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس کے افسانوں کی اشاعت میں انتہائی مؤثر رہا ہے ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

غویٰ: گمراہ ہو گیا، غاوی: اس شخص کو کہتے ہیں جو گمراہی اور ضلالت میں ڈوبا ہوا ہو، شیطان ملعون اسی اعتبار سے خدا سے کہتا ہے : اغویتنی : مجھے تونے گمراہ کر دیا کہ خدا وند عالم نے اس سے پہلے اس پر لعنت بھیج کر فرمایا تھا:( ان علیک اللعنة الیٰ یوم الدین ) رحمت حق سے تیری دوری قیامت کے دن تک رہے یعنی تجھ پر اس وقت تک کے لئے لعنت ہے ، یہ رحمت خدا سے دوری اس نافرمانی اور سجدہ آدم سے انکار کی سزا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( یضل به کثیراً و یهدی به کثیراً وما یضل به الا الفاسقین )

خدا وند عالم کثیر جماعت کو اس کے ذریعہ گمراہ اور اسی طرح بہت سارے لوگوں کو ہدایت کرتا ہے: لیکن اس کے ذریعہ صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے ۔( ۱ )

۲۔ لأ زیّنن لھم: ان کی بری رفتار کو زینت دوں گا، چنانچہ خدا وند سبحان نے فرمایا:( زین لهم الشیطان اعمالهم ) شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظر میں زینت دیدی ہے۔( ۲ )

اور فرمایا:( زیّن لهم سوء اعمالهم ) ان کے برے اعمال ان کی نظروں میں خوبصورت ہو گئے۔( ۳ )

۳۔مخلصین : خالص اور پا ک وپاکیزہ لوگ ، جن لوگوں کو خدا نے اپنے لئے خاص کیا اور خالص کرلیا ہے بعد اس کے کہ انہوں نے اپنے کو خدا پر وقف کردیا ہو اور ان کے دلوں میں خدا کے علاوہ کسی اور کی کوئی جگہ نہ ہو ۔

۴۔ ابتلیٰ: امتحان کیا، آزمایا، یعنی خیر وشر، خوشحالی اور بدحالی سے آزمایا۔

۵۔ بکلمات:یہاں پر کلمات سے مراد ایسے حوادث ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کا اس کے ذریعہ امتحان لیا، جیسے : ان کا ستارہ پر ستوں اور بت پرستوں سے مورد آزمائش قرار پانا،آگ میں ڈالاجانا،اپنے ہاتھ سے اپنے فرزند ( اسماعیل ) کے گلے پر چھری پھیرناوغیرہ۔

۶۔ فأتمھن : انہیں احسن طریقے سے انجام دیا۔

۷۔ جاعلک: جعل عربی زبان میں ، ایجاد، خلق، حکم ، قانون گز اری، جاگزین کرنا اور قرار دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ یہاں پر یہی آخری معنی مراد ہے ، یعنی میں نے تم کو امام قرار دیا۔

۸۔ اماماً: امام یعنی لوگوں کا رفتار و گفتار ( اقوال و افعال )میں مقتدا اور پیشوا۔

____________________

(۱)بقرہ ۲۶(۲) انفال ۴۸، نحل ۲۴، عنکبوت ۳۷(۳) توبہ ۳۷

۲۲۱

۹۔ ظالمین: ظلم، کسی چیز کا اس کے مقام کے علاوہ قرار دینا اورحق سے تجاوز کرنا بھی ہے ۔ ظلم تین طرح کا ہے : پہلے ۔ انسان اور اس کے رب کے درمیان ظلم کہ اس کا سب سے عظیم مصداق کفر اور شرک ہے ، جیسا کہ سورۂ لقمان میں فرمایا ہے:( ان الشرک لظلم عظیم ) یقینا شرک عظیم ظلم ہے۔( ۱ )

او ر سورۂ انعام میں فرمایا: (...( فمن اظلم ممن کذب بآیات الله ) آیات خداوندی کی تکذیب کرنے والے سے زیادہ کون ظالم ہوگا۔( ۲ )

دوسرے : انسان وغیرہ کے درمیان ظلم ، جیساکہ سورۂ شوریٰ میں فرمایا:( انما السبیل علیٰ الذین یظلمون الناس ) غلبہ اور سزا ان لوگوں کیلئے ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔( ۳ )

تیسرے: انسان کا اپنے آپ پر ظلم کرنا، جیساکہ سورۂ بقرہ میں فرمایا:( ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسه ) اور جو ایسا کرے گااس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ۔( ۴ )

سورۂ طلاق میں ارشاد ہوا:( ومن یتعدّ حدود الله فقد ظلم نفسه ) جو حدود الٰہی سے تجاوز کرے اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔( ۵ )

ظلم خواہ ( ان تینوں قسموں میں سے )کسی نوعیت کا ہو، آخر کار اپنے اوپر ظلم ہے اور جو ظلم سے متصف ہو ، خواہ کسی بھی زمانے میں ظلم کیا ہو، گز شتہ یا حال میں اسے ظالم کہتے ہیں۔

۱۰۔ ہمّت بہ و ھمّ بھا یعنی اقدام کا اراد ہ کیا لیکن انجام نہیں دیا۔

۱۱۔ رای : دیکھا ، دیکھنا بھی دو طرح سے ہے :آنکھ سے دیکھنا ، یعنی نظر کرنا اور دل سے دیکھنا، یعنی بصیرت و ادراک ۔

۱۲۔ برہان: ایسی محکم دلیل اور آشکار حجت جو حق کو باطل سے جدا کر دے اور جو یوسف نے دیکھا ہے وہ ان تعریفوں سے مافوق ہے ۔

آیات کی تاویل

ابلیس نے پروردگار عالم سے کہا: اب جو تونے مجھ پر لعنت کی ہے اور اپنی رحمت سے مجھے دور کر دیا ہے ، تو میں بھی دنیا میں لوگوں کی بری رفتار اور بد اعمالیوں کو ان کی نگاہوں میں زینت دوں گا ، جیساکہ سورۂ نحل

____________________

(۱) لقمان ۱۳(۲) شوریٰ ۴۲(۳)انعام ۱۵۷(۴) طلاق ۱(۵) بقرہ ۲۳۱

۲۲۲

میں ارشاد ہوتا ہے :

( تالله لقد ارسلناالیٰ اُمم من قبلک فزیّن لهم الشیطان اعمالهم )

خدا کی قسم ! ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف رسولوں کو بھیجا ؛ لیکن شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروں میں نیک جلوہ دیا۔( ۱ )

اور سورۂ انفال میں فرمایا:( واذ زین لهم الشیطان اعمالهم و قال لا غالب لکم الیوم ) ...)

جب شیطان نے ان ے اعمال کو نیک اور خوشنما جلوہ دیا اور کہا: آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔( ۲ )

اور سورۂ نحل میں فرمایا:

( یسجدون للشمس من دون الله و زیّن لهم الشیطان اعمالهم فصدهم عن السبیل ) ...)

وہ لوگ خدا کے بجائے سورج کا سجدہ کرتے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروںمیں نیک جلوہ دیا اور انہیں راہِ راست سے روک دیا...( ۳ )

ہاں، شیطان نے کہا: میں تمام لوگوں کے کاموں کو ان کی نظروں میں خوشنما بنا کر پیش کروںگا، سوائے تیرے ان خاص بندوں کے جن کوتونے اپنے لئے منتخب کیا ہے ۔

خدا وند عالم نے اس کا جواب دیا: تو اپنے ان ماننے والوں کے علاوہ جوکہ ضلالت اور گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیںکسی پر تسلط نہیں رکھتا۔

خدا وند عالم اپنے مخلص بندوں کے حال کے بارے میں یوسف اور زلیخا کی داستان میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :( ولقد همّت به و همّ بها لولا أن رأیٔ برهان ربه )

اس عورت نے یوسف کا ارادہ کیااور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر اپنے رب کا برہان نہیں دیکھتے۔ اور یہ ماجراایک ایسے گھر میں پیش آیا کہ یوسف اور زلیخا کے علاوہ اس میں کوئی بھی نہیں تھا۔

زلیخا مصر کی ملکہ او ر یوسف کی مالک تھی، اس نے اس بات کو طے کر لیا کہ یوسف کو اپنے مقصد میں استعمال کرے، اگریوسف اپنے رب کی طرف سے برہان کا مشاہدہ نہ کرتے،تو یا اس کو قتل کر دیتے کہ یہ برا کام ہوتایا فحشاء اور برائی کا ارادہ کرتے جو کہ ان کے کنوارے پن اور جوان طبیعت کا تقاضا تھا اور اپنی جوان

____________________

(۱) نحل ۶۳(۲) انفال ۴۸(۳) نمل ۲۴

۲۲۳

مالکہ کے ساتھ جو خود بھی اسی طرح کے حالات سے دو چار تھی اور عیش و عشرت میں گز ار رہی تھی ایک ایسے گھر میں جس میں دوسرا کوئی نہ تھا اس سے لپٹ جاتے لیکن چونکہ اپنے رب کے برہان کو دیکھا ، لہٰذا عفت و پاکدامنی کا ثبوت دیا اور گناہ و برائی سے دور رہے یقینا وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیںخد انے اپنے لئے منتخب کیا تھا اور انہیں پاکیزہ بنایا تھا، لیکن جو برہان یوسف نے دیکھااور اس کے دیکھنے کی کیفیت اس کااجمالی خاکہ اس طرح ہے کہ انہوں نے دونوںکام کے آثار اپنے لئے بعینہ مشاہدہ کئے، اس کی تشریح آئندہ آئے گی۔

۲۲۴

۲۔ ۳: عمل کے آثار اور ان کا دائمی ہونا

عمل کے آثار اور ان کا دائمی اور جاوید ہونا اور بعض اعمال کی برکت ونحوست کا زمان و مکان پر اثر ڈالنا اور خدا کے جانشینوں کا گناہ سے محفوظ ہونا اس لئے ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

عصمت انبیا سے آشنائی کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے دنیا وآخرت میں زمان ومکان پر انسانی افعال کی برکت و نحوستکے سرایت کرنے کی کیفیت سے بحث کریں، لہٰذا خدا سے توفیق مانگ کر کہہ رہے ہیں : خداوند سبحان سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :

( شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن هدی للناس و بینات من الهدی و الفرقان فمن شهد منکم الشهر فلیصمه )

رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا اوراس میں ہدایت کی نشانیاںہیں اور وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے لہٰذا جو اس ماہ میں مسافر نہ ہو اسے روزہ رکھنا چاہئے۔( ۱ )

اور سورۂ قدر میں ارشاد ہوتا ہے:

( انا انزلناه فی لیلة القدر٭وما ادرٰاک ما لیلة القدر٭ لیلة القدر خیر من الف شهر٭ تنزل الملائکة والروح فیها بأِذن ربهم من کل امر٭ سلام هی حتیٰ مطلع الفجر ) ( ۲ )

ہم نے شب قدر میں قرآن نازل کیا ، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیاہے ؟ شب قدر ہزار ماہ سے بہتر

____________________

(۱) بقرہ ۱۸۵

(۲) سورہ قدر

۲۲۵

ہے ، فرشتے اور روح، خدا کی اجازت سے اس شب میں تمام امور کولے کر اترتے ہیں صبح تک یہ شب سلامتی سے بھری ہے۔

خدا وند عالم نے ماہ مبارک رمضان کی ایک شب میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن نازل کیا یہ شب اس وجہ سے شب قدر ہے کہ فرشتے اور روح ہمیشہ اسی رات ہمیشہ ہر سال خدا کی اجازت اور حکم سے نازل ہوتے ہیں، اس شب کی برکت ہر ماہِ رمضان کی تمام شبوں پر ہمیشہ کے لئے سرایت کر گئی۔

ہم انشاء اللہ نسخ کی بحث میں اس پر روشنی ڈالیں گے کہ جمعہ کا دن حضرت آدم کے وقت سے ہی بابرکت رہا ہے، اس وجہ سے کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم پر اپنی برکتیں اس دن نازل کی ہیں اور نویں ذی الحجة مبارک ہے اور خدا کے بندوں کے لئے منیٰ میں گناہوں کی بخشش کا دن ہے ، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اسی دن آدم کی بخشش و مغفرت فرمائی ہے اور عرفات، منیٰ اور مشعر کی زمینیں نویں اور دسویں ذی الحجة کو تمام اولاد آدم کے لئے مبارک سر زمین قرار پائیں اور اس کے آثار ہر عصر و زمانہ میں باقی رہیں گے۔

اسی طرح خدا کے گھر میں حضرت ابراہیم کے قدموں کا نشان ،اس مٹی کے ٹیلہ پرجسے اپنے قدموں تلے رکھا تھا یعنی اس پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کی تھیں، با برکت ہو گیااور خدا وند عالم نے ہمیں حکم دیا کہ ہمیشہ کے لئے اسے عبادت گاہ بنائیں( اس پر نماز پڑھیں) اور فرمایا:( اتخذوا من مقام ابراهیم مصلیٰ ) مقام ابراہیم کو اپنا مصلی(نماز کی جگہ ) بناؤ ۔

شومی اور نحوست کا دوسروں تک سرایت کرنابھی اسی طرح ہے جیسے حجر کے علاقہ میں قوم عاد کے گھروںکی حالت عذاب آنے کے بعدایسی ہی تھی اوررسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر وہان سے گزرتے ہوئے ہمیں اس امر کی اطلاع دی ہے، اس کا حدیث و سیرت کی کتابوں میں خلاصہ یوں ہے ۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۹ھ میں غزوہ تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو وادی القریٰ میں واقع حجر نامی سر زمین( جو کہ قوم ثمود کا شہر تھی اورمدینہ سے شام کے راستے میں تھی ) پر پہنچے تو اسے عبور کرنے سے پہلے پیادہ ہو گئے اور سپاہیوں نے وہاں کے کنویں سے پانی کھینچا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منادی نے آواز دی کہ اس کنویں کا پانی نہ پینا اور نماز کے لئے اس سے وضو نہ کرنا، لوگ جو کچھ اپنے پاس پانی جمع کئے ہوئے تھے سب کو زمین پر ڈال دیا اور کہا: اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !اس سے تو ہم نے خمیر کیا ہے( آٹا گوندھا ہے)فرمایا: اسے اپنے اونٹوں کو کھلا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس سے وہ دوچار ہوئے تمہیں بھی ہونا پڑے۔

اور جب سامان لا ددیا اور حِجْرسے گز ر ے تو اپنا لباس چہرہ پر ڈال لیا اور اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھا دیا سپاہیوں نے بھی ایسا ہی کیا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

۲۲۶

(لا تدخلوابیوت الذین ظلمواالاوانتم باکون )

ستمگروں کے گھروں میں داخل نہو مگر گریہ کی حالت میں ۔

ایک شخص اس انگوٹھی کو لے کر جو معذب لوگوں کے گھروں میں مقام حجر میں پا ئے تھا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آ یا، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے منھ موڑ لیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ اسے نہ دیکھیں اور فرمایا: اسے پھینک دے، تو اس نے اسے دور پھینک دیا۔( ۱ )

اسی کے مانند واقعہ حضرت علی علیہ السلام کوبھی پیش آیا، نصر بن مزاحم وغیر ہ نے ذکر کیا ہے :

مخنف بن حضرت علی کے ہمراہ بابل سے گز ر رہے تھے تو حضرت علی نے فرمایا: بابل( ۲ ) میں ایک جگہ ہے جہاں پر عذاب نازل ہوا ہے اور زمین میں دھنس گئی ہے، اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھائو تاکہ نماز عصر اس کے باہر انجام دیں۔

وہ کہتا ہے : امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھایا تو لوگوں نے بھی ان کی تاسی کرتے ہوئے اپنی سواریوں کو تیزی سے آگے بڑھایا اور جب آپ پل صراةسے گز ر گئے تو سواری سے اترے اور لوگوں کے ساتھ نماز عصر پڑھی ۔( ۳ )

ایک روایت میں مذکور ہے :

امیر المومین کے ہمراہ عصر کے وقت ہم پل صراة سے گز رے تو آپ نے فرمایا: یہ سر زمین وہ ہے جس پر عذاب نازل ہوا ہے اور کسی پیغمبر یا اس کے وصی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس جگہ نماز پڑھے۔( ۴ )

ہاں! اس زمان و مکان کی برکت جسے خدا وند عالم نے اپنے مخلص بندوں میں سے کسی بندہ کے لئے مبارک قرار دیا ہے دیگر زمان و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے جس طرح کہ نحوست اور بدبختی بھی سرایت کرتی ہے اور جس زمانے میں خدا اپنے بد بخت یا شقی بندہ پر غضب نازل کرتا ہے تو اس کی نحوست دوسرے زمان و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے ۔

____________________

(۱) مغازی واقدی، ص ۱۰۰۶۔ ۱۰۰۸، اتک امتاع الاسماع ، ص ۴۵۴ تا ۴۵۶

(۲) بابل عراق میں کوفہ اور بغداد کے درمیان ایک جگہ (شہر )ہے اور صراة نامی ندی پر بغداد سے قریب پل صراة ہے

(۳) وقعة صفین ، نصر بن مزاحم ص ۱۳۵(۴)بحار، ج۴۱ص ۱۶۸، علل الشرائع اور بصائر الدرجات کی نقل کے مطابق

۲۲۷

ہم عنقریب ''آثار عمل'' کی بحث میں کہ جس کا آئندہ ذکر ہوگا ،ملاحظہ کریں گے کہ انسان کی رفتار کے دنیا و آخرت میں دائمی آثار ہیں، یا ایندھن کی شکل میں کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، یادائمی نعمت کی شکل میں جو بہشت عدن میں ہے ،تمام ان آثار اوران کے سرایت کرنے کو اللہ کے مخلص بندے مشاہدہ اورادراک کرتے ہیں۔ اوریہ مشاہدہ انہیں نیک امور کی انجام دہی اور برائی سے بچنے میں زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے یہ سوجھ بوجھ وہی برہان الٰہی ہے کہ خدا وند عالم اپنے ان بندوںکو عطا کرتا ہے جنہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے اورانہوں نے رضائے الٰہی کو اپنی نفسانی خواہشات پر مقدم رکھا ہے، اسی لئے خداکے نزدیک اسکے خالص بندے ہلاکت بار گناہ کا تصور نہیں کرتے، اس کی مثال بینا ( آنکھ والے) اور اندھے انسان کی سی ہے کہ دونوںایک ساتھ ناہموار زمین پر چلتے ہیں، واضح ہے کہ بینا انسان ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا اور اپنے نابینا ساتھی کو بھی اس سے آگاہ کرتا رہے گا تاکہ اس میں گرنے سے محفوظ رہے ۔

یا اس کی مثال اس پیاسے انسان کی ہے جس کے سامنے صاف و شفاف پانی چھلک رہا ہو اور اس کی جان اس پانی سے ایک گھونٹ پینے کے لئے لحظہ شماری کررہی ہوتا کہ پیاس کی شدت اوردل کی حرارت کو بجھا سکے۔ لیکن ایک ڈاکٹر ہے جو آلات کے ذریعہ پانی کی جانچ کرتا ہے اور اس میں مختلف قسم کے مہلک جراثیم کی خبر دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے: اس پانی کو استعمال کرنے سے پہلے اس کا تصفیہ کرلو۔

خدا کے مخلص بندوں کی مثال اسی طرح ہے ۔ وہ لوگ برہان الٰہی کو دیکھتے ہیں نیز اعمال کی حقیقتوں اور ان کے نیک و بدکے انجام کو درک کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی بصیرت سے گناہ کی سنگینی اور اس کی پلیدگی کو درک کرتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ آخرت میں یہ گناہ مجسم آگ اور دائمی عذاب کی شکل میں ظاہرگا، ممکن نہیں ہے کہ اختیاری صورت میں ایسے بھیانک عمل کا اقدام کریں۔

اور جو شبہات عصمت انبیاء سے متعلق ذکر کئے گئے ہیں اور اسکے لئے متشابہ آیات سے استنادکرتے ہیں۔ وہ اس لئے ہے کہ بعض کی تاویل میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور بعض کی نادرست روایات سے تفسیر کی ہے ، ہم بحث کو طوالت سے بچانے کی خاطر دونوں طرح کے چند نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں۔

۲۲۸

۴۔جھوٹی روایات جو اوریا کی بیوہ سے حضرت داؤد کے ازدواج کے بارے میں

جھوٹی روایات جو اور یا کی بیوہ سے حضرت داؤد کے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیںاور خاتم الانبیاء کی طرف آپ کے منھ بولے بیٹے زید کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کے بارے میں جھوٹی روایات کی نسبت اور ان دونوںازدواج کی حکمت:

ہم پہلے'' اور یا ''کی بیوہ سے حضرت داؤد کی شادی اور زید کی مطلقہ سے حضرت خاتم الانبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شادی ہوئی،کے بارے میں تحلیل و تجزیہ کریں گے۔

الف۔ حضرت داؤد کا ازدواج قرآن کریم میں خدا وند سبحان.سورۂ ص میں فرماتاہے:

( اصبر علیٰ ما یقولون و اذکر عبدنا داود ذا الأید انه اوّاب٭ انا سخرنا الجبال معه یسبحن بالعشی و الاشراق٭ و الطیر محشورة کل له أواب٭ و شددنا ملکه و آتینا ه الحکمة و فصل الخطاب٭ و هل أتٰاک نبؤ الخصم اذ تسوروا المحراب٭ اذ دخلوا علیٰ داود ففزع منهم قالوا لا تخف خصمان بغی بعضنا علیٰ بعض فاحکم بیننا بالحق ولا تشطط و اهدنا الیٰ سواء الصراط٭ ان هذا اخی له تسع و تسعون نعجة ولی نعجة واحدة فقال اکفلنیها و عزنی فی الخطاب٭ قال لقد ظلمک بسؤال نعجتک الیٰ نعاجه و ان کثیراً من الخلطاء لیبغی بعضهم علیٰ بعض الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و قلیل ما هم و ظن داود انما فتناه فاستغفر ربه و خرّ راکعاً و اناب٭ فغفرنا له ذلک و ان له عندنا لزلفیٰ و حسن مآب٭ یا داود انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق و لا تتبع الهویٰ فیضلک عن سبیل الله ان الذین یضلون عن سبیل الله لهم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب )

آپ ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریںاور ہمارے بندہ داؤد کو جو صاحب قدرت اور بہت توبہ کرنے والے تھے ،یاد کریں، ہم نے پہاڑوں کو ان کاتابع بنایا کہ صبح و شام ان کے ہمراہ تسبیح کرتے تھے پرندوں کو بھی ان کا تابع بنایا کہ سب کے سب ان کے پاس آتے تھے اور ان کی حکومت کو ثابت و پائدار بنایا اور انہیں حکمت عطا کی اور عادلانہ قضاوت بخشی، آیا شکوہ کرنے والوں کی داستان کہ جب محراب کی دیوار پھاند کر آگئے آپ تک پہنچی ہے؟ اس وقت جب داؤد کے پاس آئے اور وہ ان کے دیدار سے خوفزدہ ہوئے؛ انہوں نے کہا: نہ ڈرو ہم دو آدمی شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے اب تم ہمارے در میان عادلانہ فیصلہ کرو اور حق سے دور نہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یہ میرا بھائی ہے ،

۲۲۹

اس کے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی ہے وہ اصرار کرتا ہے کہ وہ ایک بھی میں اسے دیدوںاور بات کرنے میں مجھ پر غالب آ گیا ہے داؤد نے کہا: یقینا اس نے اپنے گوسفندوں (بھیڑوں)میں اضافہ کے لئے جو تم سے درخواست کی ہے اس نے تم پر ظلم کیا ہے اور بہت سارے شرکاء ایک دوسرے پرظلم کرتے ہیں مگروہ لوگ کہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور عمل صالح انجام دیا لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے داؤد نے یہ سمجھا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا تو انہوں نے خدا سے طلب مغفرت کی اور سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت شروع کر دی، تو ہم نے اس کی انہیں معافی دی، وہ میرے نزدیک بلند مرتبہ اور نیک انجام بندہ ہے اے دائود! ہم نے تم کو زمین پراپناجانشین بنایا؛ لہٰذا لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں ، بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے کہ انہوں نے روز حساب کو یکسر بھلا دیا ہے ۔( ۱ )

خلفاء کے مکتب کی روایات میں ان آیات کی تاویل

خلفاء مکتب کی روایات ان آیات کی تاویل میں جو حضرت دائودکے فیصلہ اور قضاوت کو بیان کرتی ہیں، بہت زیادہ ہیں، ذیل میں ہم صرف اس کے تین نمونے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

۱۔ وہب بن منبہّ کی روایت

طبری نے آیات کی تاویل میں وہب بن منبہ کی روایت ذکر کی ہے:

____________________

(۱) ص ۱۷۔ ۲۶

۲۳۰

جب بنی اسرائیل حضرت دائود کے پاس جمع ہوئے تو خدا وند عالم نے ان پر زبور نازل کی اور انہیں آہنگری کافن سکھایا اور لو ہے کو ان کے لئے نرم و ملائم بنا دیا، نیز پہاڑوں اور پرندوںکو حکم دیا کہ جب وہ تسبیح کریں تو تم بھی ان کے ساتھ تسبیح کرو ( منجملہ ان کے ذکر کیا ہے )کہ خدا وند عالم نے اپنی کسی مخلوق کو حضرت دائود کی طرح آواز نہیں دی ہے ( جو لحن داؤد کے نام سے مشہور ہے) وہ جب بھی زبور کی تلاوت کرتے تھے اس وقت کی یوں منظر کشی کی ہے کہ پرندے ان سے اس درجہ قریب ہو جاتے تھے کہ آپ ان کی گردن پکڑ لیتے تھے اور وہ ان کی آواز پر خاموشی اور اطمینان سے کان لگائے رہتے تھے وہ ( دائود) بہت بڑے مجاہد اور اور عبادت گز ار تھے اور بنی اسرائیل کے درمیان حا کم تھے اور خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ اور نبی تھے جو خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، انبیاء میں زیادہ زحمت کش اور کثرت سے گریہ کرنے والے تھے. اس کے بعد اس عورت کے فتنہ میں مبتلا ہو گئے، ان کی ایک مخصوص محراب تھی جس میں تنہا زبور کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے تھے اور اس کے نیچے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا چھوٹا سا باغ تھا او روہ عورت کہ داؤد جس کے چکر میں آ گئے اسی شخص کے پاس تھی۔

وہ جب اس دن اپنی محراب میں تشریف لے گئے ، کہا : آج رات تک میرے پاس کوئی نہیں آئے گا، کوئی چیز میری تنہائی میں خلل انداز نہ ہو ،پھر محراب میں داخل ہو ئے اور زبور کھول کر اس کی تلاوت میں مشغول ہو گئے محراب میں ایک کھڑکی یا روشن دان تھا جس سے مذکورہ باغیچہ دکھائی دیتا تھا جب حضرت داؤد علیہ السلام زبور کی تلاوت کر رہے تھے تو ان کی سامنے ایک زریں کبوتر کھڑکی پر آکربیٹھ گیاآپ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور حیرت کی، پھر انہیں اپنی کہی ہوئی بات یاد آئی کہ کوئی چیز ان کی عبادت میں رکاوٹ اور مانع نہ بنے'' پھر اپنا سر نیچے جھکایا اور زبور پڑھنے لگے اور جو کبوتر حضرت داؤد کے امتحان اور آزمائش کے لئے آیا تھا ، کھڑکی سے اٹھ کر حضرت داؤد کے سامنے بیٹھ گیا، انہوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تووہ کچھ پیچھے ہٹ

گیا، اس کا پیچھا کیا تو کبوتر کھڑکی کی طرف اڑ گیاآپ اسے پکڑ نے کے لئے کھڑکی کی طرف گئے تو کبوتر باغیچہ کی طرف پرواز کر گیا آپ نے اس کا نگاہ سے پیچھا کیا کہ وہ کہاں بیٹھتا ہے تو اس عورت کو نہانے دھونے میں مشغول پایا ایسی عورت جو حسن و جمال ، خوبصورتی اور نازک اندامی میں بے مثال تھی، خدا اس کے حال سے زیادہ واقف ہے کہتے ہیں : جب اس عورت نے حضرت داؤد کو دیکھا تو اپنے بال پریشان کر دئے اور اس سے اپنا جسم چھپایا، پھر ان کا دل بے قابو ہو گیاتو اپنی زبور اور قیام گاہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایساہوا کہ اس عورت کی یاد دل سے محو نہیں ہوئی ،اس فتنہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عورت کے شوہر کو جنگ پربھیج دیا اور لشکر کے کمانڈر کو (اہل کتاب کے خیال کے مطابق )حکم دیا کہ اسے مہلکوں میں آگے رکھ کر اس کا کام تمام کر دے تاکہ اپنی مراد پا سکیں،

۲۳۱

ان کے پاس ۹۹ بیویاں تھیں اس عورت کے شوہر کے مرنے کے بعد اس سے خواستگاری کی اور شادی کرلی ، خدا وند عالم نے جبکہ وہ محراب عبادت میں تھے، دو فرشتوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے ان کے پاس بھیجا تاکہ ہمسایہ کے ساتھ ان کے اس کرتوت کا ایک نمونہ دکھائے دائود نے جب ان دونوں کو محراب میں اپنے سر پر کھڑا دیکھا تو خوفزدہ ہوئے اور کہا: کس چیز نے تم کو میرے سر پر سوار کیا ہے ؟ بولے، گھبرائو نہیں، ہم جھگڑنے اور تمہارے ساتھ بد سلوکی کرنے نہیں آئے ہیں ''ہم دو آدمی اس بات پر شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے '' '' ہم اس لئے آئے ہیں تاکہ ہمارے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ قضاوت کرو اور حق سے دو رنہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یعنی ہمیں راہ حق پر چلائو اور غیر حق سے بچائو، جو فرشتہ اس عورت کے شوہر ' 'اور یا بن حنانیا'' کی طرف سے گفتگو کر رہا تھااس نے کہا: ''یہ میرا بھائی ہے '' یعنی میرا برادر دینی ہے '' اس کے پاس ۹۹ بھیڑ ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے ، لیکن یہ چاہتا ہے کہ اس ایک کوبھی میں اسے دیدوںیعنی اس کے حوالے کر دوں اور بات میں مجھ پر غالب آ گیا ہے اور مجھ سے بزور کہتا ہے کیونکہ مجھ سے قوی اور توانا ہے ، اس نے میری بھیڑ اپنی بھیڑوں کے ساتھ رکھ لی ہے اور مجھے خالی ہاتھ چھوڑ دیا ہے ، داؤد ناراض ہوئے اور خاموش شاکی( مدعی علیہ ) سے بولے: اگر یہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے ، تو کلہاڑی سے تمہاری ناک توڑ دوںگا، پھر اپنے آپ میں آئے اور خاموش ہو گئے اور سمجھے کہ اس سے مراد اس کام کا اظہار ہے جو ''اوریا'' کی بیوی کے سلسلے میں انجام دیا ہے پھر گریہ و زاری کے ساتھ سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت میں مشغول ہو گئے وہ اسی طرح سے چالیس روز روزہ کی حالت میں بھوکے ، پیاسے سجدہ میں پڑے رہے یہاں تک کہ ان کے آنسوئوں سے چہرے کے پاس سبزہ اُگ گیا اور چہرے اور گوشت پر سجدے کا نشان پڑ گیا خدا وند عالم نے انہیں معاف کیااور ان کی توبہ قبول کی۔

وہ لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ ا نہوں نے کہا: خدایا جو میں نے اس عورت کے حق میں جنایت انجام دی ہے تونے معاف کر دیا، لیکن اس مظلوم کے خون کا کیا ہوگا؟( اہل کتاب کے گمان کے مطابق) ان سے کہا گیا: اے دائود! جان لو کہ تمہارے رب نے اس کے خون کے بارے میں ظلم نہیں کیا ہے ، لیکن بہت جلد ہی اس کے بارے میں تم سے سوال کرے گا اور اس کی دیت دے گا اور اس کا بار تمہارے کاندھے سے اٹھا دے گا یعنی تمہیں سبکدوش کر دے گا، مصیبت ٹلنے کے بعد آپ نے اپنے گناہ کو داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پرظاہر کر لیااور جب بھی کھانا کھاتے یا پانی پیتے تھے اسے دیکھتے اور گریہ کرتے تھے

۲۳۲

اور جب لوگوں سے گفتگو کرنے کے لئے آمادہ ہوتے تھے، اپنا ہاتھ کھول کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ ان کے گناہ کی علامت لوگ دیکھیں۔( ۱ )

۲۔ حسن بصری کی روایت

طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیرمیں حسن بصری سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا :

داؤد نے اپنی زندگی کے ایام چار حصوں میں تقسیم کئے : ایک دن اپنی عورتوں سے مخصوص رکھا، ایک دن عبادت، ایک دن کو بنی اسرائیل کے درمیان قضاوت اورفیصلہ کے لئے اور ایک دن خودبنی اسرائیل کے لئے تاکہ وہ لوگ انہیں اور یہ ان لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں، وہ ان کو اور وہ لوگ انہیں رلائیں، ایک مرتبہ جب بنی اسرائیل کا دن آیا تو کہا : موعظہ کرو ، کہا: آیا کوئی دن انسان کے لئے ایسا گز رتا ہے جس میں وہ گناہ نہیں کرتا ہے ؟ داؤد نے اپنے اندر محسوس کیا کہ وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں جب عبادت کا دن آیا دروازوں کو بند کر لیا اور یہ حکم دیا کہ کوئی میرے پاس نہ آئے ، پھر توریت پڑھنے میں مشغول ہو گئے ابھی قرائت کر ہی رہے تھے کہ ایک سنہرا کبوتر خوبصورت اوردیدہ زیب رنگوں کے ساتھ ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اسے پکڑنا چاہا وہ اڑ کر کچھ دو رچلا گیا اور اتنا دور کہ ان کی دسترس سے باہر ہوگیا اور کچھ دور زمین پر بیٹھ گیاوہ اس درجہ کبوتر کے پیچھے پڑے کہ اوپر سے ان کی نظر ایک عورت پر پڑی جو غسل کرنے میں مشغول تھی اسکے جسم کی ساخت اور خوبصورتی نے انہیں حیرت میں ڈال دیا ، جب اس عورت نے کوئی سایہ محسوس کیا تو اپنے جسم کو بالوں سے چھپا لیا تو ان کی حیرت اور استعجاب میں مزید اضافہ ہو گیا. اور انہوں نے اس کے شوہر کو اس سے پہلے ایک کمانڈربناکر اپنے بعض سپاہیوں کے ہمراہ محاذ جنگ پر بھیجا تھا اس کو خط لکھا کہ وہ ایسی ویسی جگہ روانہ ہو جائے اور وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی، اس نے حکم کی تعمیل کی اور وہ قتل ہو گیا تو انہوں نے ( داؤد ) اس سے شادی رچا لی۔( ۲ )

____________________

(۱) تفسیری طبری، ج۲۳، ص ۹۵۔ ۹۶، طبع دار المعرفة ، بیروت.

(۲) تفسیر طبری ، ج ۲۳ ص ۹۶، طبع دار المعرفة ، بیروت ؛ سیوطی ، ج۵ ص ۱۴۸ ، یہ طبری کی عبارت ہے ۔

۲۳۳

۳۔یزید رقاشی کی انس بن مالک سے روایت

طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ یزید رقاشی سے انہوں نے انس بن مالک سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے : یزید رقاشی کہتا ہے : میں نے انس بن مالک سے سنا کہ انہوں نے کہا:

میں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب داؤد نے اس عورت کو دیکھا تو بنی اسرائیل کو جنگ کے لئے روانہ کیا اور لشکر کے کمانڈر کو تاکید کر دی کہ: جب دشمن کے قریب پہنچ جانا تو فلاں ( اوریا) کو تابوت کے سامنے تلوار سے ما ر ڈالو، اس زمانے میں تابوت کو کامیابی کے لئے لیجایا جاتا تھا اور جو تابوت کے سامنے جاتا تھا واپس نہیں آتا تھا یا تو قتل ہو جاتا تھا یا دشمن اس سے فرار کر جاتا تھا آخر کار وہ مارا گیا اور حضرت دائود نے ا س عورت سے شادی کر لی۔

پھر دو فرشتے حضرت داؤد کے پاس آئے اور وہ چالیس دن تک سجدہ میں پڑے رہے حتی کہ ان کے آنسوئوںسے سبزہ اگ آیا اور زمین پرا ن کے چہرے کے نشان پڑ گئے، انہوںنے سجدہ میں کہا: میرے خدا! داؤد نے ایسی لغزش کی ہے کہ مشرق و مغرب کے فاصلہ سے بھی زیادہ دو ر ہے ،خدایا!اگر ضعیف و ناتوان داؤد پر رحم نہیں کرے گا اور اس کی خطا معاف نہیں کرے گا تو اسکے بعد لوگوں کی زبانوں پر اسکے گناہوں کا چرچا ہوگا جبرئیل چالیس د ن کے بعد آئے اورکہا : اے دائود! خد ا نے تمہیںمعاف کر دیا، داؤد نے کہا: میں جانتا ہو ں کہ خدا عادل ہے اور ذرہ برابر عدل سے منحرف نہیں ہوتا اگر فلاں ( اوریا) قیامت کے دن آکر کہے: اے میرے خدا! میرا خون داودکی گردن پر ہے، تو میں کیا کروں گا؟ جبرئیل نے کہا: میں نے تمہارے رب سے اس سلسلے میں سوال نہیں کیا ہے ، اگر چاہتے ہو تو ایسا کروں، کہا: ہاں ، سوال کرو، جبرئیل اوپر گئے اور داؤد سجدہ میں چلے گئے کچھ دیربعد نیچے آکر کہنے لگے: اے دائود! جس کے لئے تم نے مجھے بھیجا تھا میں نے خد اسے سوال کیا تو اس نے فرمایاداؤد سے کہو: خدا تم دو آدمیوں کو قیامت کے دن حاضر کرے گااور اس ( مظلوم) سے کہے گا جو تمہارا خون داؤد کی گردن پر ہے اسے میرے لئے معاف کر دو، وہ کہے گا: خدایا! میں نے معاف کیا ، پھر خدافرمائے گا: اس کے بدلے میں بہشت میں جو چاہتے ہو انتخاب کر لو اورجس چیز کی خواہش ہو وہ تمہارے لئے حاضرہے...۔( ۱ )

____________________

(۱)تفسیر طبری ج۲۳، ص ۹۶ طبع دار المعفة ، بیروت؛ سیوطی ، ج۵ ص ۳۰۰۔ ۳۰۱

۲۳۴

اللہ کے نبی دائود کے بارے میں تفاسیر میں منقول روایات اس طرح سے تھیںکہ جن کو ہم نے ملاحظہ کیا اب ہم اس کے اسناد کی چھان بین کریں گے۔

روایات کے اسناد کی چھان بین

۱۔وہب بن منبہ: اس کا باپ ایرانی تھا شاہ کسریٰ نے اسے یمن بھیجا تھا۔ اس کے بارے میں ابن سعد کی طبقات میں خلاصہ اس طرح ہے :

وہب نے کہا ہے میں نے آسمان سے نازل شدہ بانوے ۹۲ کتابیںپڑھی ہیں ؛ ان میں سے ۷۲ عدد کلیساؤں اور لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور بیس عدد ایسی ہیںکہ بہت کم لوگ جانتے ہیںو ہ ۱۱۰ھ میں فوت کر گیا ہے ۔

ڈاکٹرجواد علی فرماتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وہب کی اصل و اساس یہودی ہے ، وہ اپنے خیال خام میں یونانی ، سریانی ، حمیری اور پرانی کتابوں کو پڑھنا خوب جانتا تھااور کشف الظنون میں ''قصص الانبیائ'' نامی کتاب کواسی کی تالیف میں شمار کیا ہے ۔( ۱ )

۲۔ حسن بصری : ابو سعید، اس کا باپ زید بن ثابت کا غلام تھا وہ حضرت عمر کی خلافت کے آخری دو سال میں پیدا ہوا، بصرہ میں زندگی گز اری اور ۱۱۰ھ میں وفات کر گیا، فصاحت و بلاغت میں بلند مقام رکھتا تھا لوگوں اورخلافت کے نزدیک اس کی ایک حیثیت اور شان تھی اور بصرہ میں مکتب خلفاء کا پیشوا شمار ہوتا تھا۔( ۲ )

اس کے نظریات اور عقائد:

طبقات ابن سعد میں جو روایات اس کی سوانح حیات کے ذیل میں وارد ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قدریہ مذہب کا ماننے والا تھا اور اس کے بارے میں مناظرہ کیاکرتا تھا اس کے بعد اس عقیدہ سے پھر گیا تھا، وہ حجاج بن یوسف جیسے ظالموں کے خلاف قیام کو جائز نہیں سمجھتا تھا۔اس کی روایات کی اہمیت : میزان الاعتدال( ۳ ) میں اس کے بعض حالات زندگی کی شرح کچھ اس طرح ہے :

____________________

(۱) طبقات ابن سعد، طبع یورپ ، ج ۵ ص ۳۹۵ اور کشف الظنون، ص ۱۳۲۸؛ تاریخ العرب قبل الاسلام ( اسلام سے پہلے)، ڈاکٹر جواد علی، ج۱ ص ۴۴.

(۲) میں اس کی سوانح کی طرف مراجعہ کیا جائے وفیات الاعیان، ابن خلکان طبع اول، ج۱ ص ۳۵۴، طبقات ابن سعد، طبع یورپ ج ۷، ق۱، ص ۱۲۰ ملاحظہ ہو۔

(۳) ج۱ ص ۵۲۷، شمارۂ ترجمہ ۱۹۶۸

۲۳۵

حسن بصری بہت دھوکہ باز تھا، اس نے جو بھی حدیث دوسروںسے روایت کی ہے بے اعتبار اور ضعیف ہے ، کیونکہ ضرورت کے مطابق سند بنا لیتا تھا، بالخصوص ایسے لوگوں سے احادیث جیسے ابو ہریرہ اور اس جیسے لوگوں سے کہ یقینا اس نے ان سے کچھ نہیں سنا ہے محدثین نے ابوہریرہ سے اس کی روایات کو بے سند روایات کے زمرہ میں قرار دیاہے ،اورخد ابہتر جانتا ہے۔

یعنی :حسن نے جب بھی ( عن فلاں) کے ذریعہ کوئی روایت کی ہے وہ ضعیف ہے اس لئے کہ وہ یہ کہنے پر کہ '' میں نے فلاں سے سنا'' مجبور تھا، بالخصوص ایسے راوی جن سے اس نے کچھ نہیں سنا ہے جیسے اس کا ابو ہریرہ سے اور اس جیسے لوگوں سیبلا واسطہ روایت کرنا جبکہ حسن نے ان کو دیکھا نہیں ہے لیکن بلا واسطہ ان سے روایت کر تاہے ۔

ابن سعد کی طبقات میں اس کے بعض حالات زندگی علی بن زید کے توسط مذکور ہیں:

میں نے حسن بصری سے حدیث نقل کی اور اس نے اسی حدیث کودوسروں سے نقل کرتا تھا ، میں نے اس سے کہا اے ابو سعید کس نے تم سے یہ حدیث روایت کی ہے ؟ کہا: میں نہیں جانتا ، میں نے کہا: میں نے ہی اسے تم سے روایت کی ہے۔

اسی طرح ذکر کیا گیا ہے : اس سے کہا گیا: یہ جو تم لوگوں کو فتوے دیتے ہو اسکا مستند احادیث ہیں، یا پھرتمہارے ذاتی نظریات و خیالات کا نتیجہ ہیں؟ کہا: نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے کہ جو فتوی بھی دوں اسے میں نے سنا ہی ہو بلکہ میری رائے اور نظر ( لوگوں کیلئے) خود ان کی رائے اور نظر سے ان کیلئے بہتر ہے ۔( ۱ )

مکتب اعتزال کا بانی واصل بن عطا (متوفی ۱۳۱ھ )اور ابن ابی العوجاء ایک مشہور زندیق حسن بصری کے مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔

ابن ابی العوجاء سے لوگوں نے کہا: اپنے استاد کامذہب چھوڑ کر ایسا راستہ اپنایا جو نہ کوئی اصل رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی حقیقت ! اس نے کہا: میرے استاد فریب خوردہ اور غیر معتدل تھے، کبھی قدر یہ کے طرفدار تھے تو کبھی جبریہ مسلک کے ، مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ کسی ثابت اور پائیدار عقیدہ پر باقی رہے ہوں گے۔

کوفہ کے والی نے ۱۵۵ھ میں ابن ابی العوجاء کو قتل کیا اور قتل ہونے سے پہلے اس نے کہا: مجھے قتل توکر رہے ہو، لیکن یہ بات جان لو کہ میں نے چار ہزار حدیثیں جعل کی ہیں حلال خدا کوحرام اور حرام خداکو

____________________

(۱) دونوں ہی روایت ابن سعد کی طبقات میں ہیں ، ج۸، ص ۱۲۰، طبع یورپ اور ج ۷ ، ص ۱۲۰ پر بھی مذکور ہے ۔

۲۳۶

حلال کرکے ایک دوسرے میں مشتبہ کر دیاہے،روزہ کو افطار اور افطارکو روزہ میں بدل ڈالا ہے ۔( ۱ )

۳۔ یزید بن ابان رقاشی:یہ بصرہ کا رہنے والا ایک قصہ گو اور زاہد ِ گریاں بیوقوف تھا ۔

مزّی کی تہذیب الکمال اور ابن حجر کی تہذیب التہذیب میں اس کے حالات زندگی کا خلاصہ اس طرح ہے :

الف۔ اس کے زہد کے بارے میں : وہ اپنے آپ کو بھوکا اور پیاسا رکھتا تھا، اس کا جسم ضعیف بدن نحیف اور رنگ نیلاہو گیا تھا روتا تھا اور اپنے اطراف و جوانب والوںکو رلاتا تھامثال کے طور پر کہتا تھا: آئو تشنگی کے دن ٹھنڈے پانی پر گریہ کریں وہ کہتا تھا: ٹھنڈے پانی پر ظہر کے وقت سلام ، راوی کہتا ہے : وہ ایسے کام کرتا تھا جنہیں نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا ہے اور نہ ہی انجام دیا ہے ۔خدا وند سبحان فرماتا ہے :

( قل من حرم زینة الله التی اخرج لعباده و الطیبات من الرزق قل هی للذینآمنوا فی الحیاة الدنیا )

کہو: کس نے اللہ کی زینتوںاور پاکیزہ رزق کو جسے خدا نے اپنے بندوںکے لے خلق کیا ہے حرام کیا ہے ؟!

کہو: یہ سب دنیاوی زندگی میں مومنین کے لئے ہے( ۲ )

ب۔ اس کے نظریات: اس کا اعتقاد ضعیف اور مذہب قدری تھا۔( ۳ )

ج۔ اس کی روایات کی قیمت: ''شعبہ'' نامی ایک راوی کے بقول کہ اس نے کہا: چوری کرنا میرے نزدیک اس سے روایت کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔

اس کی روایات کے بارے میں کہاگیا ہے : اس کی روایات منکر اور مجہول ہیں، اس کی روایتیں متروک ہیںاور تحریر نہیں کی جاتیں ۔

ابو حاتم نے کہا: وہ ایک گریہ کرنے والا واعظ تھا، انس سے اس نے زیادہ روایت کی ہے ،اوریہ محل تامل و اشکال ہے، اس کی حدیث ضعیف ہے۔

تہذیب التہذیب میں مذکور ہے: ابن حبان کہتے ہیں: وہ خدا کے بندوں میں شب میں رونے والوں میں ایک اچھا بندہ تھا لیکن صحیح حدیث ضبط کرنے میں عبادت خدا کی وجہ سے غافل رہ گیا، وہ بھی اس طرح سے کہ حسن کی بات کو بر عکس کردیتا تھا اور اسے انس کے قول کی جگہ پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام سے قرار دے دیتا تھا،

____________________

(۱) وفیات الاعیان میں واصل بن عطا کے حالت زندگی اور ابن ابی العوجاء کے حالات کتاب ''ایک سو پچاس جعلی صحابی'' کی ج ۱،زندقہ و زنادقہ کی بحث میں اور ''الکنی و الالقاب'' میں ملاحظہ ہو۔(۲)اعراف۳۲(۳)طبقات ابن سعد چاپ یورپ ج۷ق۲ ص ۱۳

۲۳۷

اس کے قول سے روایت کرنا روا نہیں ہے مگر یہ کہ حیرت کا اظہار کرنا مقصود ہو، یزید بن ابان ۱۲۰ھ سے پہلے فوت ہواہے۔( ۱ )

روایات کے متن کی چھان بین

۱۔ وہب کی روایت: روایت کا خلاصہ: اللہ کے نبی داؤد نے کچھ ایام عبادت سے مخصوص کئے اورخلوت نشینی اختیار کی اورتوریت کی تلاوت میں مشغول ہو گئے ،اچانک ان کے سامنے ایک سنہرا کبوتر نمودار ہوا انہوں نے پکڑنا چاہا،لیکن اڑ کر کچھ پیچھے بیٹھ گیا داؤد اس کے چکر میں پڑ گئے اوریہاں تک کہ اس کا پیچھا کیا اسی اثنا میں اوریا ہمسایہ کی بیوی پر اچانک نگاہ پڑ گئی تو دیکھا کہ وہ نہا رہی ہے اس کے حسن و جمال سے حیرت زدہ ہو گئے ، جب عورت نے ان کے وجود کا احساس کیا تو خودکو اپنے بالوں کے اندر چھپا لیا اور یہ داؤد کی حیرت میں مزید اضافہ کا باعث ہوا،اس کے شوہر کو میدان جنگ میں بھیج کر قتل کرانے کا پلان بنایا اور اس سے شادی رچا لی پھر دو فرشتے ان کے پاس آئے اور اس کے بعد قرآن کریم کی بیان کردہ داستان ملاحظہ ہو۔

یہ راوی ایک بار کہتا ہے : ( وہب نے کہا) ، دوسری بار کہتا ہے :( اہل کتاب کے خیال کے مطابق) ان باتوں سے اس کی ذمہ داری سے خود کو دور کرتا ہے جب ہم توریت کے سموئیل کی دوسری کتاب گیارہویں اور بارہویں باب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ داستان اس طرح ہے کہ : داؤد ''تشجیع''اوریا کی بیوی ''یتشبع''کو چھت سے دیکھتے ہیں اور اس کے حسن کو دیکھ کر لہلوٹ ہوجاتے ہیں اسے اپنے گھر بلاتے ہیں اور اس سے ہمبستری (مجامعت) کرتے ہیں اور یہ عورت ان سے زنا کے ذریعہ حاملہ ہو جاتی ہے وغیرہ...ملاحظہ کیجئے:

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب عصر کے وقت حضرت دائود اپنے بستر سے اٹھ کر بادشاہ کے گھر کی چھت پر ٹہل رہے تھے چھت کی پشت سے ایک عورت کو حمام میں دیکھا ، وہ عورت نہایت حسین و جمیل اور بلا کی خوبصورت تھی، پھر دائود نے فرستادہ کے ذریعہ اس عورت کے بارے میں سوال کیا لوگوں نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ الیعام کی بیٹی اور یا کی بیوی ہے ، دائود نے اس کے پاس افراد بھیجے وہ اس کو پکڑ کر ان کے پاس لے آئے اور دائود اس سے ہمبستر ہوئے اور وہ اپنی نجاست سے پاک ہوئی اور اپنے گھر لوٹ گئی اور دائود کے

____________________

(۱)تہذیب التہذیب ج۱۱ ص ۳۰۹۔۳۱۱

۲۳۸

فرستادہ کو مخبر بنایااور کہامیں حاملہ ہوںلہٰذادائودنے''یوآب''کے پاس کہدیا کہ ''اوریاحتی'' کو میرے پاس بھیج دو تو''یوآب'' نے اوریا کو دائود کے پاس بھیج دیا اور جب اوریا ان کے پاس پہنچا تو دائود نے ''یوآب''سے قوم اور جنگ کی سلامتی کے بارے میں سوال کیا، پھر دائود نے اوریا سے کہا: گھر جاکر پیر دھو ؤپھر ''اوریا'' بادشاہ کے گھر سے باہر گیا اس کے پیچھے بادشاہ کا دسترخوان روانہ کیا گیا لیکن اوریا اپنے گھر جانے کے بجائے بادشاہ کی دہلیز پر تمام بندوں کے ہمراہ سو رہا ،دائود کو خبر دی گئی کہ اوریا اپنے گھر نہیں گیا ہے تو دائود نے اوریا سے سوال کیا کہ کیا تم سفر سے واپس نہیں آئے ہو پھر اپنے گھر کیوں نہیں گئے ؟اوریا نے دائود سے عرض کی کہ تابوت، اسرائیل اور یہودا اپنے خیموں میں موجود ہیں اور میرے آقا ''یوآب'' اور میرے آقا کے غلام بیابانوں میں خیمہ نشین ہیں کیا میں ایسے میں اپنے گھر لوٹ جاتا اور کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ سونے میں مشغول ہو جاتا! آپ کی حیات نیز آپ کی جان کی قسم ہے کہ یہ کام ہرگز نہیں کروں گا، دائود نے''اوریا'' سے کہا آج بھی تم یہیں رہو کل تمہیں بھیج دوں گا لہٰذا اوریا اس دن اور اسکے بعد ایک دن یروشلم میں رہا اور حضرت دائود نے اسکو دعوت دی، ان کے سامنے کھایا پیا اور مست ہوگیا پھر شام کے وقت باہر نکل گیا اور اپنے آقا کے غلاموں کے ساتھ سو گیا اور اپنے گھر نہیں گیا اور صبح تڑکے دائود نے ''یوآب'' کے نام خط لکھ کر اور یاکے ہاتھ روانہ کیا اس مکتوب میں یہ مضمون لکھا تھا کہ اوریا کو سخت جنگ کے محاذ پر آگے آگے رکھنا اور تم اس کے پیچھے پیچھے چلنا تاکہ وہ مارا جائے اور وہیں پر ہلاک ہو جائے اور جب یوآب شہر کو اپنے محاصرہ میں لیتا تھا تو اوریا کو ایسی جگہ پر رکھتا تھا جہاں اسے علم ہوتاتھا کہ یہاں پر بہادر اور شجاع لوگوںسے سامنا ہوگا، شہر کے لوگ باہر نکلے اور ''یوآب'' سے جنگ کی، جناب دائود کی قوم سے بعض سپاہی اس جگہ کام آ گئے اور یا حتی بھی مارا گیا پھر ''یوآب'' نے حضرت دائود کے فرستادہ کو جنگ کے تمام حالات سے باخبر کیا اور قاصد کو حکم دیا کہ بادشاہ کوجاکر جنگ کی تمام روداد نقل کرنا اور اگر وہ غصہ سے لال پیلے ہو کر تم سے کہیں کہ کیوں جنگ کے لئے شہر سے قریب گئے ہو؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ محاصرہ کے کنارہ سے تیر چلا دیں گے؟ کون ہے جس نے ابی ملک بن یربوشت کو قتل کر ڈالا؟ کیا کسی عورت نے چکی کے اوپری پاٹ کو حصار کے کنارے سے تو نہیں پھینک دیا کہ تاباص میں مر گیا پھر کیوں حصار سے قریب ہو گئے؟ اس وقت کہنا کہ تیرا غلام ''اوریا حتی'' بھی مر گیا ہے قاصد روانہ ہو ااور دائود کے پاس آ کر ''یوآب'' کے کہنے کے مطابق انہیں آگاہ کیا اور قاصد نے دائود سے کہا لوگ ہم پر غالبہوکرہمارے پیچھے صحرا کی طرف آ گئے، ہم نے ان پر دروازہ کے منھ تک حملہ کیا اور تیر اندازوں نے تیرے بندوں پر حصار پر سے تیر چلائے اور بادشاہ کے بعض بندے مر گئے اور تمہارا بندہ''اوریا حِتِّی'' بھی مر گیا ہے، دائود نے قاصد سے کہا: ''یوآب'' سے کہو کہ اس واقعہ سے پریشان نہ ہو اس لئے کہ تلوار بلا تفریق ان کو ، ان کو ہلاک کرتی ہے لہٰذا شہر کاڈٹ کر مقابلہ کرو اور اسے ویران کر دو پھر اسے تسلی دو ،جب اوریا کی بیوی نے سنا کہ اس کا شوہر مر چکا ہے تو اپنے شوہر کے لئے سوگ منایا جب سوگ کے دن گز ر گئے تو دائود نے قاصد بھیج کر اسے اپنے گھر بلا لیااور وہ ان کی بیوی ہو گئی اور ان سے ایک بچہ ہوا لیکن جو کام دائود نے کیا وہ خدا کے نزدیک ناپسند قرار پایا۔

۲۳۹

بارہواں باب

خدا وند عالم نے ناتان کو دائود کے پاس بھیجا اس نے ان کے پاس آ کر کہا: کہ ایک شہر میں دو مرد تھے ایک امیر و دولتمند اور دوسرا فقیر و نادار ، دولتمند کے پاس بہت زیادہ بھیڑ اور گائیں تھیں اور فقیر کے پاس ایک مادہ بکری کے علاوہ کچھ نہیں تھا جس کو اس نے خرید کر پالا تھا وہ ان کے پاس اس کی اولاد کے ہمراہ بڑی ہوئی ان کی غذا سے کھاتی اور ان کے پیالے سے پیتی اور اس کی آغوش میں سوتی تھی وہ اس کے لئے لڑکی کی طرح تھی، ایک مسافر اس دولت مند کے پاس آیا اسے افسوس ہوا کہ اپنی گا یوں اور گوسفندوں میں سے ایک کو مسافر کے لئے ذبح کرے لہٰذا اس نے اس فقیر انسان کی بکری کو لے لیا اور مسافر کے لئے غذا کا انتظام کیا، پھر تو دائود کا غصہ اس پربھڑک چکا تھا ،ناتان سے کہا: حیات خدا وند کی قسم جس کسی نے ایسا کیا ہے وہ قتل کا حقدار ہے اور چونکہ اس نے ایسا کام کیا ہے اور کوئی رحم نہیں کیاہے لہٰذا اسے ایک کے عوض چار گنا و اپس کرنا چاہئے۔ ناتان نے دائود سے کہا وہ تم ہو اور اسرائیل کا خدا یہوہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تجھے اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور شائول کے ہاتھوں سے نجات دی اور تمہارے آقا کا گھر تمہیں دیا اور آقا کی عورتوں کو تمہاری آغوش کے حوالے کیا اور اسرایل و یہودا کے خاندان کو تمہیں بخشا اگر یہ کم ہوتا تو مزید اضافہ کرتا، پھر کیوںکلام خدا کو ذلیل کیا اور اس کی نظر میں برا کام انجام دیا اور ''اوریاحتی'' تلوار مار ی اور اس کی بیوی کو اپنی زوجیت میں لے لیا اور اسے بنی عمون کی شمشیر سے قتل کر ڈالا، لہٰذا اب شمشیر تمہارے گھر سے دورنہیں ہوگی کیونکہ تم نے میری توہین کی ہے اور ''اوریا حتی'' کی بیوی کو اپنی بیوی بنا لیا ہے ۔

خدا وند عالم نے اس طرح کہا ہے: اب میں تم پر تمہارے گھر سے برائی عارض کروں گا اور تمہارے سامنے تمہاری عورتوں کو لے کر تمہارے پڑوسیوں کو دیدوں گا اور وہ آفتاب کی روشنی میں تمہاری عورتوں کے ساتھ سوئیںگے کیونکہ تم نے یہ کام خفیہ طور پر انجام دیا لیکن میں یہ کام تمام اسرائیل کے سامنے اورروز روشن میں انجام دوں گا ،دائود نے ناتان سے کہا: میں خداوند عالم کی قسم میں گناہ کا مرتکب ہوا ہوں ،ناتان نے دائود سے کہا :خداوند عالم نے تمہاراگناہ معاف کیا ، تم نہیں مروگے لیکن چونکہ یہ امر دشمنان خدا کے کفر بولنے کا باعث ہوا ہے لہٰذا تمہاراجو بچہ پیدا ہوگا وہ مر جائے گا، پھر ناتان اپنے گھر گیا اور خداوند نے دائود کے ذریعہ اور یاکی بیوی سے پیدا ہونے والے بچہ کو بیماری میں مبتلا کر دیا پھر دائود نے بچہ کے لئے خدا سے دعا کی اور روزہ رکھا اور پوری رات زمین پر سوئے رہے، ان کے گھر کے بزرگ اٹھے تاکہ زمین سے انہیں اٹھائیں لیکن قبول نہیں کیا اور ان کے ساتھ روٹی بھی نہ کھائی، ساتویں دن بچہ مر گیا اور دائود کے خدام خوفزدہ ہو گئے کہ کیسے دائود کو اس بچہ کے مرنے کی اطلاع دیں، اس لئے کہاکہ ابھی بچہ زندہ تھا اور ہم نے اس سے باتیں کی ہیں کیونکہ اگر یہ خبر دیں کہ بچہ مر گیا ہے تو کس درجہ رنجیدہ ہوں گے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416